Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Negotiations > Volume 1 Issue 2 of Negotiations

خطۂ بہاول پور کے چند مغربی اسفار(ایک نو آبادیاتی باشندے کی نظر میں) |
Negotiations
Negotiations

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تلخیص

مغربی استعماری قوتوں نے جہاں دیگر اصناف ادب پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیےوہیں خطہ بہاول پور میں سفرنامہ نگاری ایسی صنف اس زد سے محفوظ نہ رہ سکی ۔ یہ خطہ تہذیب و ثقافت کی پہچان سمجھا جاتا ہےتاہم قیام پاکستان سے تا حال تحریر کیے جانے والےاسفار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مغربی اثرات کے زیر اثر اس روایت میں ہلچل پیدا ہوئی۔خطہ بہاول پور میں تحریر کیے جانےوالے سفرناموں کی نوعیت اگرچہ مختلف رہی تاہم یہاں کے سفرنامہ نگاروں نے ان اثرات کوموضوع بحث بنایا جو مغرب کے عطا کردہ تھے۔ملکی سطح پرلکھے جانے والے سفرناموں میں سفرنامہ نگار مغربی جوڑوں کے متلاشی رہے علاوہ ازیں تہذیب و ثقافت کو نظر انداز کرنے کا رویہ بھی دکھائی دیا جب کہ دوسرے ممالک میں اختیار کیے گئےاسفارمیں دو طرح کے سفرنامے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ سفر نامہ نگار اپنے ملک سے الگ ہوتے ہی ایک نئے زاویے اور آزادانہ سوچ کے علاوہ اس احساس کمتری میں مبتلا نظر آئے کہ وہ مغرب سے کہیں پیچھے ہیں۔اگر ملکی و بین الاقوامی سفرناموں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ فرق اور بھی زیادہ واضح انداز میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

خطۂ بہاول پور تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے الگ پہچان کا حامل ہے۔اس خطے کے ماضی میں جھانکیں تو نہ صرف امیر ریاست کا تصور ابھرتا ہے بلکہ نوابین بہاول پور کی وضع قطع اور خطے کی پہچان کا الگ زاویہ نظر آتا ہے۔تاہم وقت کی گرد نے جہاں بے شمار چیزوں کو دھندلا دیا ہےوہیں بہاول پور بھی اس حصار سے باہر نہ نکل سکا۔اس خطے کی قدرو منزلت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کے نواب صادق عباسی نے پاکستان کے قیام کو استحکام بخشا تاہم موجودہ حالات کے پیش نظر اس حقیقت سے بھی انکار نھیں کیا جا سکتا کہ مغربی استعماری قوتیں جیاں دیگر چیزوں پر اثر انداز ہوئیں،وہیں خطہ بہاول پور بھی اس زد سے باہر نھیں نکل سکا۔غیر افسانوں تخلیقی نثر میں سفرنامہ ایسی صنف ادب ہے جس میں تجربات و مشاہدات کا ایک جہاں آباد ہے۔ سفرنامہ نگار قاری کو اپنے قلم کی بدولت ایسے مقامات کی سیر کراتا ہے کہ جہاں پہنچنا محض تصور شمار کیا جاسکتا ہے۔ شاہد حسن رضوی لکھتے ہیں۔:"سفرنامہ اپنی کیفیتوں کے اظہار کا نام ہے"1

یہاں کے سفرنامہ نگار اکثر و بیشتر سفر کا آغاز ہی ائیر پورٹ سے کرتے ہیں تاکہ پاکستانی روایت سے باقاعدہ طور پر چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ اس کے بعد مغربی طرزکے لباس کو بے پنا سراہاجاتا ہے نیزہوائی جہاز میں اتفاق سے کسی انگریز مرد یا عورت کی ہمراہی ان کے سفر کو چار چاند لگا دیتی ہے۔یہ سفر نامہ نگار مغربی ممالک میں ائیر پورٹ پہ پہنچتے ہی اس بات کا بخوبی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ پاکستان کی نسبت دیار غیر میں فلاں فلاں سہولیات بکثرت ہیں اور انگریز ایسی مخلوق بن جاتے ہیں جنہیں محض اپنے کام سے مطلب ہے۔اسی طرح نظم و ضبط یعنی ڈسپلن کا جائزہ لینے کے لیے ایک طائرانہ نظر کا فی سمجھ لی جاتی ہے۔سفر نامہ نگار اپنے ملک میں رہتے ہوئے عشق و محبت جیسے لطیف جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔اس کے بر عکس مغرب میں پہلی ہی فرصت میں انھیں کوئی نہ کوئی گوری دل دیتے یا لیتے ہوئے مل جاتی ہے۔حالا ں کہ بتایا یہ جاتا ہے کہ مغربی لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

محمد خالد اختر ایک وسیع المطالعہ ادیب ہیں۔ انھیں مشرقی ادب کے ساتھ ساتھ مغربی ادب میں بھی مہارت حاصل ہے۔ وہ دورانِ سفر اپنے سامنے آنے والے اشخاص کی ظاہری شکل و صورت، وضع قطع اور بول چال کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف فرضی نام دیتے ہیں جن میں مغربی ناولوں کے مشہور کردار نمایاں ہیں۔یہ کیفیت محمد خالد اختر کے اکثر سفرناموں میں ملتی ہے کہ وہ مختلف کرداروں کی سوچ کو اپنے تخیلاتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ان کا سفر نامہ"آئلز آف گریس" لارڈ بائرن کی نظم سے ماخوذ عنوان پر مشتمل ہے ، حسبِ معمول آغازِ سفر اورراستے کے واقعات سے اجتناب برتا گیا ہے۔ وہ سفر کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں۔:"میں اپنے کمرے میں لارڈ جارج گارڈی بائرن کی نظم آئلز آف گریس، آئلز آف گریس کے بول گنگناتا ہوا جا گھسا جو مجھے کالج کے زمانے سے زبانی یاد ہے اور اب تک نہیں بھولی"2

محمد خالد اختر کے سفرناموں میں بھر پور انداز سےجزئیات نگاری کی گئی ہےتاہم یہ احساس بھی شدت سے غالب رہتا ہےکہ وہ مغربی اثرات کے سحر سے باہر نہیں نکل سکے،اگرچہ ان کے ہاں ماضی پرستی کا عنصر نمایاں ہےتاہم اپنے بعض اسفار میں انھوں نے تہذب و ثقافت سےاجتناب برتا ہے۔

خطۂ بہاول پورمیں ایک اوربڑا نام "محمد کاظم" کا ہے۔ ان کا سفرنامہ "مغربی جرمنی میں ایک برس" کے عنوان سے رسالہ "فنون" میں قسط وار شائع ہوتا رہا جب کہ بعد میں" دامن کوہ میں ایک موسم " کے عنوان سے کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ محمد کاظم اپنی ایک جرمن کلاس فیلو میں گہری دلچسپی لینے لگے تھےجس کا نام ہجراں تھا ۔ دونوں اپنے جذبات بیان کرنے کے لیے لفظوں کے محتاج تھے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہجراں نے تجویز دی کہ محمد کاظم کو ایک سال تک جرمن زبان سیکھنی چاہیے تاکہ گفتگو باآسانی ہوسکے۔ زبان سے ناواقفیت ان دونوں کی محبت پراثر انداز نہ ہو سکی۔ اقتباس ملاحظہ کریں:"ہجراں کا سر میرے سر کے ساتھ جڑا ہوا ہوا تھااور اس کی گردن اور بالوں سے اٹھتی ہوئی وہی مانوس خوشبو میرے مشام میں بسی ہوئی تھی"3

خطۂ بہاول پور کا ایک اور معتبر نام بشریٰ رحمٰن کا ہےجن کے سفرناموں میں اگرچہ ان کی اپنی ذات مشرقیت کا بھر پور احساس دلاتی ہےتاہم ثقافتی حوالے سے ان سفر نامو ں میں بھی مغربی اثرات کا بھر پور امتزاج ہے۔ ملک کی دیگر اہل علم خواتین کے ہمراہ بشریٰ رحمٰن دیارِ غیرکا سفر اختیار کرتی ہیں تو ان اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کی ہتک اور پھوہڑ پن کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔اسی طرح مغرب میں جو چیز انھیں متاثر کرتی ہے اس پر داد دئیے بنا نہیں رہ سکتیں۔اس مقصد کے لیے وہ فر ضی کردار "مارکہنی" کا سہارا لیتی ہیں جب کہ اس کی بجائے پاکستانی سوچ کی حامل خاتون سے بھی مدد لی جا سکتی تھی۔بشری رحمن پانچ ممالک کی سیاحت پر مبنی سفرنامہ "براہ راست " میں مشرقی حوالے سے خود اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کی پیرس آمد کسی خطرے سے خالی نہیں :"اصل بات یہ ہے کہ ہم مارے تعصب کے منہ اٹھائے پیرس چلے آئے ہیں۔صاحب عالم ہر بہار کے موسم میں پیرس کا رخ کرتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو چہرے سے جھانکتی گلابیاں اور رنگ کا دمکتا کندن سو سو چغلیاں کھاتا ہے۔ہم کہ تصور میں ید طولی رکھتے ہیں ہر وہ منظر تصور کی بایونک آنکھ سے دیکھ لیتے ہیں جو ہمارے اندر حسد و رشک کے آلاؤ بھڑکانے میں ممدومعاون ثابت ہو"4

محمد اختر ممونکانے دوسفرنامے بعنوان "پیرس ۲۰۵ کلومیٹر"اور "سفر تین درویشوں کا"لکھے۔ وہ ان سفرناموں میں افسانوی رنگ پیدا کرنے کی بجائے حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے حالات و واقعات کو من و عن بیان کرتے ہیں ۔حالاں کہ ہمارے سفر نامہ نگاروں میں پردیس جاتے ہی عشق و محبت کی واردات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور انگریز خواتین پکے ہوئے بیروں کی طرح سفر نامہ نگار کی جھولی میں آ گرتی ہیں۔ محمد اختر ممونکا کے ہاں اس چیز کی قلت دیکھ کر ڈاکٹر انور سجاد کو بھی حیرت ہوئی اقتباس ملاحظہ کریں:"نکلے تیری تلاش میں" اور"پیرس ۲۰۵ کلومیٹر"کے سالِ تصنیف میں کچھ زیادہ بڑا وقفہ نہیں مگراس کتاب میں یورپی بیبیاں نہ توممونکا پر گرتی ہیں اور نہ ہی اس کے کندھے پر سر رکھ کر سوتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا اتنے چھوٹے سے عرصے میں یورپی بیبیوں میں اتنی بڑی تبدیلی کیونکر رونما ہوئی۔"5 سفرنامہ"پیرس ۲۰۵ کلومیٹر"میں محمد اختر ممونکا یورپ کی حالاتِ زندگی کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہاں عورت اورمرد کو یکساں حقوق حاصل ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ آزادی کئی بار وبالِ جان بن جاتی ہے۔ وہ ا اپنا مشاہدہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:"ان دونوں میں سودے بازی ہوئی اور جب سودا طے ہوگیا تو "پی داتا" نے ٹرک ایک طرف پارک کر دیا اور خو د اس کے رنگین خیمے میں رنگ رلیاں منانے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد "پی داتا"سیٹیاں بناتا ہوا خیمے سے باہر آگیا اور وہ بی بی بھی ہمارے دیکھتے دیکھتے دوبارہ سڑک پر کھڑی ہوکر دوسرے ٹرک ڈرائیور کو ہاتھ ہلانے لگی"6

محمد اختر ممونکا یورپی خواتین کا کرب سے تذکرہ کرتے ہیں کہ یہ خواتین جوانی میں بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر بڑھاپے میں سسک سسک کر زندگی گزارتی ہیں۔ ان کی رہائش اولڈ ہاؤس میں ہوتی ہے۔ یورپ میں اکثر مالک مکان بوڑھی عورتیں ہیں جو اپنی جوانی کی کمائی سے گھر بناتی ہیں اور پھر جوانی کی مایوسیوں کا انتقام کرائے داروں سے لیتی ہیں۔

"سفرنامہ "سفر تین درویشوں کا"میں محمد اختر ممونکا کو کئی مقامات پر اخلاق سوز مناظر دکھائی دیتے ہیں تاہم وہ ایسے موقعوں پرڈھکے چھپے الفاظ میں وضاحت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر سفر نامہ نگاروں کی طرح ایسے مناظر کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر:"کنگر اس، سڈنی میں گناہوں کی بستی ہے جہاں بے لذت بھی ہوتے ہیں اور بالذت بھی۔ ڈارلنگ ہرسٹ گناہوں کی اس بستی کی بدنام گلی ہے اور پلازہ ہوٹل گناہوں کی بستی کی اس بدنام ترین گلی میں واقع ہے"7

اس خطے کے ایک اور اہم سفرنامہ نگار عمران اقبا ل اپنے سفرناموں میں عشق و محبت کا طوفان برپا کر دیتے ہیں۔سفرنامہ ''بحر اوقیا نوس کے کنارے '' میں قیام کے دوران انھیں اتفاق سے دو امریکی لڑکیاں ملتی ہیں ۔ وہ ان کے ہمراہ نیاگرا فالز دیکھنے جاتے ہیں اور سفر نامہ نگار ایک رومان پرور وقت ان امریکی لڑکیوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے احساسات و جذبات کو بھرپور انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں پہنچتے ہی انھیں گوریوں کے حسن اور اپنی وارفتگی پر مبنی عشق کی بلا خیزیاں حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔یہ جذبہ سفر نامہ نگار کو حقیقی معنوں میں احساس دلاتا ہے کہ وہ سچے عشق کی تلاش میں منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔سفرنامہ ''پردیس میں کبھی کبھی ''میں عمران اقبال ایک انگریز لڑکی' میریڈتھ' کے حسن کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:"برفانی رات میں بھی اس کے ہونٹ گلابی تھے، اس کے گالوں پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔ یہ لالی کسی میک اپ کی رہینِ منت نہیں تھی بلکہ وہ عمر کے اس سال میں تھی جہاں زرد پتوں کے موسم میں بھی سرخ گلاب کی خوشبوچار سو پھیل جاتی ہے۔ وہ میرے اتنے قریب ٹھہری ہوئی تھی کہ اس کی گرم سانسوں سے میں اس سرد ترین رات میں بھی جھلسنے لگا تھا" 8

عمران اقبال کے سفرناموں میں انگریزی زبان کا استعمال بکثرت ملتا ہے۔کرداروں کی تشکیل اور افسانوی انداز کی بدولت کئی بار یہ چیز شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اپنی دھرتی سے جڑت کس طرح دیارِغیر میں بکھرتی نظر آتی ہے۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطے کےسفرنامہ نگار ثقافتی بحران کا شکار ہوئے ہیں۔

سیّد ناصر الدین سفر ی روداد سے پہلے ان ممالک کی مختصر تاریخ، جغرافیہ، اقتصادی صورتِ حال، تجارتی، صنعت و حرفت، تاریخی اہمیت اور مختلف شعبہ جات کے حوالے سے تفصیل کے علاوہ مختلف ممالک کے رقبے، آبادی اور مختلف ممالک کی کرنسی کا پاکستانی کرنسی سے تقابل شامل ہے۔ناصر الدین کے سفر ناموں میں جہاں معاشی طور پر مغربی ممالک کو طاقت ور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی وہیں تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بھی ان ممالک کو بر تر ثابت کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔

ساجد فاروق کا سفرنامہ"مسافر تیرے شہر میں" لندن کی سیاحت پر مشتمل ہے۔ ساجد فاروق لندن کی آزادی کا پاکستانی ثقافت سے تقابل کرتے ہیں لیکن وہاں کی آزادی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ دورانِ سفر ایسے جوڑوں پر کسی کا دھیان نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنے معاملات میں مصروف نظر آتاہے۔ اس سفر نامے میں ساجد فاروق مغرب کی دوہری ثقافت کے پرخچے اُڑاتے ہیں۔ بظاہر خوش حال گھرانے میں کسی بھی وقت دراڑ پڑجاتے تو رشتہ نبھانے کی بجائے فوری طور پر علیحدگی اختیار کرلی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں معصوم بچے بھی زیر عتاب ہوتے ہیں۔ وہ ظاہری و داخلی حالات کا انتہائی عمدگی سے نقشہ کھینچتے ہیں، وہ یونیورسٹی آف ویسٹ سنٹر میں ضروری کاغذات فوٹو کاپی کرانے گئے تو یہ کہہ کر انکار کردیا جاتاہے کہ لائبریری بند ہونے سے قبل تمام فوٹو اسٹیٹ مشینیں بن کردی جاتی ہیں۔ یہ اصول ہے چناں چہ اسے توڑا نہیں جاسکتا۔ ساجد فاروق اصول پسندی پر طنز کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:

میں اپنے ویزے کی معیاد بڑھانے کے لیے ہوم آفس گیا تھا۔ کاؤنٹر پر موجودگ گوری چمڑی والے نے قطار میں لگے ہوئے آٹھ دس لوگوں کو نظر انداز کرکے ایک گوری چمڑی والی لڑکی کو محض اس لیے اپنی باری سے پہلے قطار میں سے پہلے بلالیا کہ وہ شکل وصورت اور رنگ ونسل سے گوری دکھائی دے رہی تھی مگر جب وہ کاؤنٹر پر آتی ہے تو عقدہ کھلا کہ یہ بھی ہماری طرح ایک غیر ملکی بے وطن مسافر ہے۔ اصلیت کا پتا چلنے پر واپس اسی جگہ بھیج دیا گیا، جہاں وہ پہلے کھڑی تھی۔9

اس واقعے سے مغرب کے اصول و ضوابط کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ان کے ہاں اپنوں کا خیال رکھنے کو اوّلین ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم ہمارے ملک میں صورتِ حال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ یہاں گوروں کو نہ صرف قدر ومنزلت سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اپنی خدمات کا بھی بھرپور موقع فراہم کیا جاتاہے۔

اکبر علی خاں کا سفرنامہ "راہی نگر نگر کا" ترکی و برطانیہ کی سیاحت پر مبنی سفرنامہ ہے۔ اس سفر نامے میں وہ اپنی تہذیب و ثقافت کو پس پشت ڈال کر مغربی حسن پہ مرمٹنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نھیں دیتے۔اکبر علی خاں دورانِ سفر گہرے مشاہداتی انداز میں چھوٹے چھوٹے واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ سفرنامہ "راہی نگر نگر کا"میں انھوں نے مغربی مسائل کو نہایت باریک بینی سے پیش کیاہے۔ مشرق کے لوگ بھی جب وہاں کا رُخ کرتے ہیں، اپنے آپ کو تہذیب و ثقافت سے الگ کرنے کے بعد اپنی اولاد کے حوالے سے بے پناہ مسائل میں گھر جاتے ہیں۔ لندن میں اتوار کے دن برائی ٹن کی سیر کی گئی۔ یہ سمندر اپنی دل کشی کے باعث تیراکی کے لیے نہایت موزوں تھا۔ اکبر علی خاں کے ہمراہ ان کے دوست فیضان اور رانا صاحب تھے۔ لاہور کے رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے انھیں زندہ دلانِ لاہور میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ سفرنامے میں ایک پُر لطف واقعہ بیان کیا گیا، جو کچھ یوں ہے:"رانا ایک قریبی پب میں داخل ہوگیاواپسی پر اس کے ہاتھ میں پرس تھا۔ میں نے پوچھا کہ بھئی کیا خریدنے گئے تھے۔دراصل یار پب کو چندہ دینے گیا تھا۔ وہ کیوں؟یہ تو برائی کی آماج گاہ ہے۔ نہیں بلکہ یہاں برائی کو ختم کیا جاتاہے۔ رانا نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ وہ کیسے؟دیکھو پب میں لوگوں کو شراب فراہم کی جاتی ہے۔ بھئی یہ لوگوں کو پلا پلا کر شراب ختم کر رہے ہیں"10

رانا صاحب اکبر علی خاں کو لندن کا حقیقی چہرہ دکھاتے ہیں۔ وہ عوامی شاہراہوں اور قحبہ خانوں میں لے جاتے ہیں تاکہ سفرنامہ نگار کی حیثیت سے اکبر علی خاں وہاں کی معاشرتی زندگی کو قریب سے دیکھ سکیں۔ رانا صاحب ان کو سو ہو کا علاقہ بھی دکھاتے ہیں جہاں نیم عریاں خواتین سیاحوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے بے قرار نظر آتی تھیں۔

محمد کامران کا سفرنامہ "گ سے گڑیا ج سے جاپانی" جاپان کی سیاحت پر مبنی ہے۔ وہ ایئر ہوسٹس کی بوکھلاہٹ اور پی آئی اے کے خسارے کے حوالے سےطنز کرتے ہیں کہ اگر طیارے گراؤنڈ اور ایئر ہوسٹس انڈر گراؤنڈ ہو جائیں تو یہ قومی ادارہ اپنا خسارہ کم کر سکتا۔جاپانی گڑیا!الوداع"کے ذیلی عنوان سے محمد کامران "می کی" کو اپنی روانگی کےبارے میں بتاتے ہیں جس پر وہ اُداس ہوجاتی ہے اور چاکلیٹ کا ڈبہ خرید کران کو تحفتاً دیتی ہے جب کہ وہ اپنی ایک کتاب دیتے ہیں۔ محمد کامران روانہ ہوتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں اُداسی پھیل جاتی ہے اور وہ مصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیتی ہے۔ اگلی صبح وہ روانگی کی گھڑی قریب آنے پر افسردگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انھیں جاپان میں گزرے شب و روزشدت سے یاد آتے ہیں۔ وہ جاپان سے جدائی پر نوحہ کناں تھے تاہم انھیں خانۂ کعبہ کی الوداعی شام یاد آگئی جب رگِ جاں سے قریب ذات سے جدائی کا لمحہ قریب آن پہنچا تو وہ کرب میں مبتلا تھے اور اس حوالے سے اُس کا کہنا تھا:"عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کر فراق ہے اور یہ کہ خود عالم سوز وساز، علامت ہے۔ اصل میں تو یہ سارا سفر روح کا ہے"11

محمد کامران جاپان کے سفر سے روانگی اختیار کرتے ہیں اور اِس سوچ میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ جاپان میں کچھ دن کی قربت انھیں محبت میں مبتلا کر گئی ہے۔ وہ جاپان سے روانہ ہو جاتے ہیں تاہم ان کا دل اپنے اختیار میں نہیں رہتا۔

حسن عباسی کا سفرنامہ "ہاتھ سے دل جدا نہیں ہوتا" دبئی کی سیاحت پر مبنی ہے۔حسن عباسی نے سفر کو پرندے کی اُڑان، محبت کے رنگ اور رختِ سفر میں آنسوؤں سے مشابہت دی ہے۔ دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچنے کے بعد حسن عباسی وہاں کی خوب صورتی پر حیران رہ جاتے ہیں اور اس کا بے ساختہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ رقم طراز ہیں:"وہ قدم جن کے لیے منگیتر کی محبت زنجیر نہ بن سکی یہاں بغیر زنجیر کے ساکن ہوگئے جیسے چلنا بھول گئے ہوں"12

ہمارے سفر نامہ نگاروں نے پردیس میں محبت کے نئے در وا کیے کسی کے حصے میں ایک محبت آئی اور کوئی درجن بھر محبتوں کا اسیر رہا۔ جب کہ یہ چیز احساس محرومی کی علامت قرار دی جا سکتی ہے کہ اہل مغرب آخر ایسا کون سا تعویز گھول کر پلا دیتے ہیں کہ سفر نامہ نگار ائیر پورٹ سے اترتے ہی ان کے گن گانے لگتے ہیں اور پورا سفر پردیس کی محبت میں گزر جاتا ہے۔ ملکی سطح پر اختیار کیے جانے والے اسفار پر ایک نظر دوڑائیں تو بھی ثقافتی بحران سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے۔ دیار غیر کی سیاحت اور وہاں کی خو ب صورتی کو پس پشت ڈال کر اگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیاحت پر بات کی جائے تو اس سلسلے میں جاوید چودھری کا نام اہمیت کا حامل ہے وہ۹۰ء کی دہائی میں اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور زیرتعلیم تھے۔دوران تعلیم وہ شمالی علاقہ جات کی سیاحت کے لیے گئے۔اور بہاول پور سے ان کا سفرنامہ "جب برف گرے گی"شائع ہوا۔اس سفر نامے میں بتایا گیا کہ ان کی ایک انگریز جوڑے سے ملاقات ہوتی ہے اور پورا سفر اس انگریز خاتون سے گاڑھی اردو میں مختلف طرح کے مباحث اور محبت کی واردات میں گزر جاتا ہے۔"اس کی نظروں کی شعائیں میرے چہرے پر سوئیاں بن کر چبھتیں تو میں بے اختیار ہو کر اس کی طرف دیکھتا۔آنکھیں آنکھوں سے ٹکرائیں اور مرے اندر اس قسم کا احساس پیدا ہوتا جیسے ابھی کسی شرابی نے نشے کی جھونک میں آ کر میز پر ہاتھ مار دیا ہو اور شیشے کے نازک سے لا تعداد جام پکے فرش پر گر کر ایک چھناکے سے ٹوٹ گئے ہوں"13

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے سفر نامہ نگار جہاں مغربی ممالک میں جا کر بھی اپنی ثقافت کو نہ منوا سکے ،وہیں اندرونِ ملک بھی اہل مغرب کو دیکھ کر ہوش بھلا بیٹھے۔

شمالی علاقہ جات کی سیاحت میں اعجاز احمد چودھری کا سفرنامہ "قدم بہ قدم" اہمیت کا حامل ہے۔ اس سفرنامے میں وہ ناقابل تسخیر مہمات کا ذکر کرتے ہیں۔ جب کوہ پیما ایسے خطرناک راستوں پر چل پڑتے ہیں کہ جہاں رکاوٹوں اور پیچیدگیوں سے مسلسل واسطہ پڑتاہے تو پھر سفر کی صعوبتوں اور عزم و ہمت کے مابین کش مکش شروع ہو جاتی ہے۔ اعجاز احمد چودھری انتہائی منفرد مثالوں کے ذریعے انسانی فطرت کے نمونے پیش کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی جبلت بنیادی طور پر خود غرضی پر مبنی ہے۔ یہ جبلت مشکل گھڑی میں سب کچھ لٹا دینے پر تیار ہو جاتی ہے وہیں معتدل حالات میں اپنا ارادہ بدلتے بھی دیر نہیں لگاتی۔ خود غرضی کی یہ مثال کوہ پیماؤں اور صحرا نورد وں کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ یہ لوگ چلتے رہیں تو منزل آسان بنا لیتے ہیں، رک جائیں تو سردی کی شدت اور گرمی کی حدت انھیں پل بھر میں ختم کر دیتی ہے۔وطن سے دوری اور سنگلاخ پہاڑیوں میں مسلسل قیام یقیناًایک تھکا دینے والا سفرہے تاہم انجینئر کور کے فوجی مسلسل قیام اور ایک مشکل کام کی تکمیل میں مصروفِ عمل تو تھےہی لیکن اپنوں سے جدائی کا غم انھیں نڈھال کر رہا تھا۔ اعجاز احمد چودھری اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے:"آسٹریلیا نقل مکانی کرنے والا پاکستانی کیکر سے لپٹا ہوا پایا گیا اور وہ لہو لہان تھا کیوں کہ یہ اس کا وطنی پودا تھا۔ ٹرینیڈا اور دوسرے کیریبین جزائر کو نقل مکانی کرنے والے انڈین مزدور تنہائی میں دھاڑیں مار مار کر رونے کے لیے انڈیا سے کسی اور دور دراز علاقے سے آئے ہوئے غم میں ڈوبے مزدور کا کندھا ڈھونڈ نکالتے تھے"14

وطن سے جدائی جہاں ماضی میں انسان کو مجبور و بے کس کر دیتی تھی ،وہیں عہد حاضر کے سفر نامہ نگار اپنی دھرتی سے محبت کو پل بھر میں فراموش کر دیتے ہیں۔اس کا اندازہ خالق تنویرکے سفرنامے "ذرا وادئ نیلم تک" سے لگا یا جا سکتا ہے۔اس سفرنامے میں وادئ نیلم کا دل کش منظر بیان کیا گیا ہے ۔ پہاڑ، کھیت، اُڑتے پرندے اور گنگناتی ہواؤں کو دیکھ کرخالق تنویر اس افسردگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت کو اُجاگر کرنے کے لیے محض قدرتی مناظر ناکافی ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینا ضروری ہے تو پھر حکومت اس حوالے سے ہر پہلو کو مدنظر رکھ کر ہی اپنا ہدف حاصل کر سکتی ہے۔ وہ اپنے مہاجر دوست کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ پیرس ایئر پورٹ پر تھا تو ایک خستہ حال بڑھیا اپنے سامان کے گم ہوجانے پر چیخ چلا رہی تھی جب کہ اس کے خاوند کورتی بھر پرواہ نہ ہوئی اور جب اس سے وجہ پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا:"اپنی زندگی کے ستر سالوں کا سارا اثاثہ گھر بار، دھن دولت اور اولاد، سبھی کچھ لٹا کر یہاں پہنچے ہیں۔ اتنے بڑے نقصان کے مقابلے میں اس معمولی نقصان کا غم بے معنی ہے"15

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان مختلف طرح کے تجربات اور حادثات کے بعد زاویۂ نگاہ کو کس طرح تبدیل کردیتاہے۔ وہ حالات کے آگے بے بس ہو جائے تو ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور اسے ہر وقت بے چین رکھتی ہے ۔وہ تقدیر کے فیصلوں کی بغاوت کر کے بھی پرسکون نہیں رہتا۔خالق تنویر اپنے ایک دوست کا واقعہ قلم بند کرتے ہیں جو چینی نژاد خاتون سے شادی کے بعد مستقل طور پر کوالالم پور آباد ہو گیا۔ اسے زندگی کی ہر آسائش میسر تھی تاہم وہ جب بھی پاکستان آتا اس کا موضوع گفتگو زندگی، موت اور عالمی مسائل تک محدود رہتا جب کہ پاکستان قیام کے دوران مختلف شہروں میں اس طرح بھاگ دوڑ کرتا کہ جیسے کوئی قیمتی چیز تلاش کر رہا ہو۔ اسے اپنا وجود ہوا میں معلق دکھائی دیتا ہے اور یہ لگتا ہے دھرتی اب اسے اپنانے کو تیار نہیں۔ وہ اپنے دوست کی بے چینی اور ذہنی پریشانی سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ جوانی میں من چاہے خوابوں کی تعبیر پانے کے باوجود ہجرت کا کرب اسے خوف زدہ کردیتاہے۔ وہ ان واقعات سے انسان کی بے بسی کو مختلف زاویوں سے اُجاگر کرتے ہیں۔"تہذیب معاشرے کے طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے چنانچہ آلات و اوزار، پیداوار کے طریقے، سماجی رشتے، رہن سہن، فنونِ لطیفہ، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات و غیرہ سب تہذیب کے مظاہر ہیں"16

ماضی میں کہا جاتا تھا کہ جو قومیں تہذیب و ثقافت کو یکسر فراموش کر دیتی ہیں وہ اپنا نام و نشاں مٹا دیتی ہیں۔لیکن خطۂ بہاول پور کے اسفار یہ بات سوچنےپر مجبور کرتے ہیں کہ آخر ہمارے سفر نامہ نگار اپنی تہذیب و ثقافت سے کیوں نالاں ہیں؟ایک خطے کی صورت حال مجموعی تاثر پیدا کرتی ہے۔آنکھوں دیکھے مشاہدات میں بھی اپنی ثقافت کا تڑکہ لگایاجائے تو اس سے احساس کمتری دور کی جا سکتی ہے۔اپنی جڑیں کاٹ کر دوسری جگہ منتقلی کا عمل وقتی طور پر تو سر سبز و شاداب کر سکتا ہے تاہم یہ چیز مستقل طور پر بنجردے گی۔ہماری شاندار روایات اپنی اصل خوبصورتی کے ساتھ زندہ رہیں تو آنے والی نسلیں بھی انھیں فخرکے ساتھ اپنائیں گی۔اس کے بر عکس ثقافتی بحران تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کرے گا۔ ہماری تہذیب و ثقافت اس بات کی متقاضی ہے کہ مغرب میں شاندار روایات کو اپنے ساتھ لے جائیں جبکہ ہم ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر اپنی ثقافت سے الگ تھلگ ہو کر مغربی طور طریقوں کو اجاگر کرنے میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔حج و عمرہ کے سفرناموں میں مذہبی عنصر غالب ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان اسفار میں مخصوص قسم کی عبادات اور اراکین کی ادائیگی کا احوال ملتا ہےتاہم ان اسفار میں بھی مغرب کی مرہون منت جدید سہولتیں حجاج کرام کو لبھاتی ہیں۔مشہود حسن رضوی،حیدر قریشی،مہر محمد بخش نول،اخلاق احمد مغربی اثرات کی زد سے خود کو نہ بچا سکے۔

خطۂ بہاول پورمیں تحریر کیے گئے سفرناموں نے مشرق و مغرب کے اس فرق کو واضح طور پر اجاگر کیا۔یہی وجہ ہے کہ نوابین کی سرزمین ماضی میں اپنی الگ پہچان رکھتی تھی اوراب استعماری قوتوں کے زیر اثر اپنی پہچان اور تہذیب و ثقافت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔یقینا یہ چیز احساس کمتری کے علاوہ اپنی ثقافت کو ناپید کر رہی ہے۔آج اگر یہ رویہ جڑ پکڑ چکا ہے تو آنے والے وقت میں تحریر کیے جانے والے اسفار اس دھرتی کو کھوکھلا ثابت کرتے ہوئے اپنے شاندار ماضی کو فراموش کر دیں گے۔ اپنی مٹی سے گندھے ہوئے دیسی لوگ جب اپنی پہچان کوباعث شرمندگی سمجھ لیں تو یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ان کے اسفارمغربی استعماری قوتوں سے متا ثر ہوئے بنا تحریر نہ ہو سکے۔خطہ بہاول پور کے سفرناموں نے مشرق و مغرب کے اس فرق کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ نوابوں کی سرزمین جو اپنی الگ شناخت رکھتی تھی اب استعماری قوتوں کے زیراثر تہذیب و ثقافت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اس روئیے کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں تحریر کیے جانے والے اسفار اس دھرتی کو کھوکھلا ثابت کرتے ہوئے اپنے شاندار ماضی کو فراموش کر دیں گے۔

٭٭٭

1شاہد حسن رضوی، سہ ماہی ۔الزبیر (بہاول پور: اُردو اکیڈمی، 1994)،344۔

2 محمد خالد اختر ، مجموعہ محمد خالد اختر(کراچی : آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، 2011ء)،436۔

3محمد کاظم ، دامن کوہ میں ایک موسم(لاہور : سنگِ میل پبلی کیشنز، 1988ء)،303۔

4بشریٰ رحمٰن ، براہ راست(کراچی : مکتبہ دانیال عبداللہ ہارون روڈ، 1997ء)،41۔

5روزنامہ ،جنگ (کراچی:ادبی صفحہ، شمارہ ۱۷/دسمبر 1982ء)

6محمد اختر ممونکا ، پیرس ۲۰۵کلومیٹر (لاہور :سنگِ میل پبلی کیشنز ، 2003ء)،294۔

7محمد اختر ممونکا ، سفر تین درویشوں کا (لاہور :سنگِ میل پبلی کیشنز ، 1992ء)،158۔

8عمران اقبال ، پردیس میں کبھی کبھی (لاہور :الفا براؤ پبلشرز ، 2000ء)،99۔

9 ساجد فاروق،مسافر تیرے شہر میں ( لاہور :حماد پبلی کیشنز ، 1998ء )،79۔

1010اکبر علی خان ،راہی نگر نگر کا (بہاول پور :شاہین رائٹرز اکیڈمی ، 1999ء )، 109 ۔

11http://Urdunetijpn.com/ur/2009/11/20/dr_kamran_ka_Safarnama_Japan. EPI: 13, Page.113

12حسن عباسی،ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا (لاہور :حاجی حنیف پرنٹرز، ، بار اوّل، 2012ء)، 28۔

13جاوید چودھری،جب برف گرے گی (بہاول پور: ستلج پبلی کیشنز زنانہ ہسپتال روڈ، بار اوّل، 1991۱ء)،90۔

14اعجاز احمد چودھری، قدم بہ قدم (لاہور:مشمولہ "الحمرا"ستمبر 2017ء)،90۔

15خالق تنویر، ڈاکٹر،ذرا وادئ نیلم تک (لاہور: مشمولہ "الحمرا" ،اکتوبر2016ء)،98۔

16سید سبط ِ حسن ،پاکستان میں تہذیب و ارتقاء (کراچی :مکتبہ دانیال ، 1991ء )، 13۔

1

 

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index