1
2
2021
1682060054107_1846
25-34
http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/download/17/10
http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/view/17
برصغیر پاک و ہند میں زبانوں کا وسیع جال پھیلا ہوا ہے ۔ جس کی بدولت بعض علاقوں میں ایک اور بعض میں زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ پوری دنیا کے حوالے سے اگر بات کریں تو شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جہاں ایک یا ایک سے زائد زبانیں مروّج نہ ہوں ۔ ہر زبان اپنی ایک الگ تاریخ اور منفرد ادب رکھتی ہے اور وہ تاریخ اور ادب ہی اس زبان کو نکھارنے سنوارنے میں معاون ہوتا ہے ۔ کسی بھی زبان کی اہمیت کا اندازہ اس زبان کے رسم الخط سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو زبان جتنی وسیع ہو گی اس کا رسم الخط بھی اتنا ہی مالا مال ہو گا ۔ رسم الخط کی بدولت ہی زبانوں کو فروغ ملتا ہے اور وہ ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہیں۔ ایسی زبان جو ہر علاقے ہر صوبےا ور ہر طبقے کے افراد سمجھ اور بول سکتے ہیں وہ اردو زبان ہے ۔ ممتاز فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کا کہنا ہے کہ : " ہندوستان کی عام بولیوں میں ہندوستانی (اُردو ) سب سے زیادہ وسیع البیان اور لچکدار زبان ہے اور اس کا جاننا سب سے زیادہ سود مند ہے وجہ یہ ہے کہ یہاں عموماََ یہی زبان استعمال ہوتی ہے " 1
اُردو ایک جدید ہندآریائی زبان ہے اس کی شہرت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ زبان دنیا کے تقریباََ سبھی ممالک میں اپنی اہمیت کا لوہا منوا چکی ہے اور علمی ، ادبی ، ثقافتی ، تفریحی اور تعلیمی دائروں کے ذریعے مذید پھل پھول رہی ہے جس کی بدولت روز بروز نئی نئی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں ۔ بقول غلام ربانی آگرہ :" بے شک اد ب زبان کا ایک جزیا کُل نہیں اور کوئی بھی زبان صرف ادب کے بل بوتے پر زندہ رہ کر ترقی نہیں کر سکتی جب تک اسے عوام کی زندگی کے ہر شعبے سے نہ جوڑا جائے عوام کی اکثریت ہی زبان کے فروغ اور ارتقاء کا باعث بنتی ہے " 2
اگرچہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ برصغیر پاک وہند کے مختلف اضلاع اور صوبوں میں خاص خاص بولیاں بولی جاتی ہیں لیکن ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی زبان عام طور پر ایسی مفید اور ضرور ی نہیں جیسی ہندوستانی ۔ یہ واحد ذریعہ اظہار ہے جس کی بدولت ایک ملک کے باشندے دوسرے ممالک کے باشندوں سے رابطہ قائم رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔
اردو کا لفظ اصلی ترکی میں مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے یعنی اوردو، اورودواوراردو وغیرہ ۔ ان سب کے مطالب و مفاہیم لشکر اور لشکر گاہ کے ہیں ۔ یہ لفظ ترکوں کی آمد کے ساتھ ہی برصغیر میں داخل ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ تزک بابری میں یہ لفظ لشکر گاہ کے معنوں میں مستعمل ہے ۔ ہوا یوں کہ دہلی کے جس علاقے یا بازار میں شاہی کیمپ یا چھاؤنی بنائی گئی اس کا نام اردو بازاررکھا گیا ۔ اسی نام کی نسبت سے شاہجاں نے اسے اردوئے معلٰی کا نا م دیا ۔ لیکن برجموہن دتاریہ کیفی نے اردو کی وجہ تسمیہ ان الفاظ میں بیان کی ہے ۔ "یہ لفظ دراصل "ارداو" (Urdaoo) ہے "ار" کے معنی ہیں دل اور "داو" کے معنی ہیں دو ۔ چونکہ یہ زبان ہندو مسلم تہذیب کے ملاپ سے وجو د میں آئی اس لیے اس کا نام " ارداو" یعنی دو دلوں کو ملانے والا پڑ گیا ۔ یہی" ارداو" بعد کو اردو بن گیا "3
اردو زبان کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ علامہ آئی ۔آئی ۔قاضی کی تحقیق بھی اس سلسلے میں قابل توجہ ہے انھوں نے بھی اپنی تحقیق کے مطابق اُردو زبان کے آغاز کا ذکر کیا ہے ان کا کہنا ہے :" لفظ اردو(اڑدو) کو اپنی روزانہ بول چال میں ڈھیریا بہت سی چیزوں کے جمع ہونے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ لفظ اس مفہوم میں سندھ میں عربوں کی آمد سے تین ہزار سال پہلے سے رائج ہے " 4
مختصر یہ کہ اردو اپنے تاریخی ، لسانی اور سماجی پس منظر میں یکسر مقامی زبان ہے جو آج سے نہیں بلکہ کافی عرصے سے رائج ہے جو روز بہ روز ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے اس میں نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں طرح طرح کی تراکیب اور محاورات دوسری زبانوں سے اس زبان میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں دخیل الفاظ اور مستعار الفاظ اس میں بیش بہا ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت قائم کر چکے ہیں ۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر رام بابو سکسینہ تحریر کرتے ہیں۔ "اردو اپنی اصل نسل کے اعتبار سے یکسر ہندوستانی ہے وہ شور سینی پراکرت سے ماخوذ ہے اور اس کے اصول و قواعد اور محاورے بالکل وہی ہیں جو دوسری ہندآریائی زبانوں کے " 5
" ہندی " کا لفظ موجودہ ہندی زبان کے معنوں میں بالکل اچھوتا اور نیا لفظ ہے ۔ انیسویں صدی سے پہلے ہمیں یہ لفظ اپنے اصل معنی کے ساتھ کہیں نظر نہیں آتا ۔ اس لفظ نے دراصل ہندؤں کی قومیت کی تحریک کے ساتھ مسلمانوں کے زوال اور انگریزوں کے ہندوستان پر قدم جمانے کے بعد ہی جنم لیا ہے ۔یہی کیفیت دراصل لفظ "ہندو" کی بھی ہے ۔
لفظ " ہندو" آغاز میں صرف ایک جغرافیائی اصطلاح تھی اور قدیم زمانے میں اس سے مراد وہ خطہ زمین تھا جو سات دریاؤں یعنی ستلج ، بیاس ، راوی ، چناب ، جہلم ، سندھ اور سرسوتی سے سیرا ب ہوتا تھا ۔ اس خطے کا نام سات دریاؤں کی نسبت سے " سپتہ سندھ "تھا ۔ سنسکرت میں " سپتہ "کے معنی سات کے ہوتے ہیں اور "سندھ" سے مراد زمین ، علاقہ یا دیش کے ہوتے ہیں ۔ قدیم ایرانیوں نے " سپتہ سندھو" کو "ہفتہ ہندو" کر دیا اور پھر یہ لفظ بدلتا بدلتا آخر کار مختصر ہو کر صرف ہندو رہ گیا ۔ قدیم ایرانیوں کے نزدیک " ھندو" کسی مذہب یا قوم کا نہیں بلکہ جغرافیائی حد بندی کا نام تھا او ر اس کے آس پاس اور حدود کے اندر رہنے والوں کو ہندو کہا جانے لگا۔
ان لوگوں کی مخصوص زبان ہندی زبان کہلائی ۔ ہندی زبان لسانیات کی ہندپوربی شاخ سے تعلق رکھتی ہے جو اس وقت دنیا کی وسیع اور معروف ادبی زبانوں میں سے اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی شاخ کی بقیہ زبانوں میں سنسکرت ، پالی ، یونانی، لاطینی ، انگریزی ، فارسی ، جرمن اور ہندی زبانیں شامل ہیں ۔ لسانیات کے محققین نے اس زبان کو مزید آٹھ حصوں میں منقسم کیا ہے جن میں اہم ہند آریائی زبا ن کا سلسلہ ہے ۔ آریہ قدیم ایران میں بادشاہوں کا لقب تھا لیکن ایران میں یہ شمال سے آئے تھے اور کئی سال تک انھوں نے ایران پر حکومت کی اسی نسل کے بہت سے لوگ ہندوستان وارد ہوئے اور مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر جگہ جگہ آباد ہوگئے ۔ مقامی لوگوں کے رہن سہن رسم و رواج اور زبان کے حوالے سے آریہ قوم متاثر ہوئی۔ یہی لوگ ہندوستان کی مفاہمت سے ہندو کہلائے اور ہندوستان کو اس زمانے میں " آریہ ورت" کے نام سے جانا گیا ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آریہ ہندوستان میں پھیلتے گئے اور وہاں کے مقامی لوگ جو کہ دراوڑ کہلاتے تھے وہ آریاؤں کے زیر اثر آگئے ، زبانیں بھی دونوں قوموں کی جدا جدا تھیں ۔ آریہ سنسکرت سے ناواقف تھے جبکہ دراوڑ سنسکرت کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں سے بھی نا واقف تھے ۔ دونوں قوموں کے ملا پ سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جو " پراکرت" کہلائی ۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے نزدیک : " اردو کا تعلق ہندوستان اور ہندوستان کی زبانوں سے بہت گہرا ہے ۔ یہ زبان یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی آریاؤں کی قدیم زبان سنسکرت۔۔۔ اس کی جد امجد قرار پائی ہے "6
ہندی زبان کے حوالے سے فورٹ ولیم کالج نے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ فورٹ ولیم کالج کی معرفت سے ہی جو یہ ہندی وجو د میں آئی اور اس جدید ہندی کا وجود کوئی فطری یا لسانی ارتقاء کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی سیاست کے تحت جدید ہندی کا آغاز روبہ عمل میں آیا ۔ ہندوستان کے سارے باشندوں کو ایک قومی نظریے کے تحت ہندو قومیت کے جال میں پھنسانے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور یہ منصوبہ دراصل مسلمانوں کی مخالفت کے لیے بنایا گیا اس میں بعض جگہوں پر ہندؤں کے ساتھ انگریز بھی برابر کے شریک رہے بلکہ کچھ لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ ہندؤں نے انگریزوں کی سرپرستی میں اور انہی کے اشارے پر ہندی کا شاخسانہ پیدا کیا گیا تھا ۔ مشہور ماہر لسانیات گریرسن نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : " بد قسمتی سے اس زمانے میں انگریزوں کا طاقتور اثرو رسوخ سنسکرت والوں کی طرف تھا ۔ یہ سنسکرت آمیز ہندی بالعموم عیسائی مبلغین استعمال کرتے تھے اور انجیل کے ترجمے بھی اسی میں لکھے گئے تھے "7
اردو کے ارتقاء کی کہانی درحقیقت ہندی کے ارتقاء سے جڑی ہوئی ہے اور یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ ان دونوں کا ارتقاء مغربی ہندی کی بولیوں کے ساتھ مل کر ہوا ۔ اُردو کی ساخت و پرداخت کا تعین دسویں گیارہویں صدی سے شروع ہو کر اٹھارہویں صدی تک ہوتا رہا ہے اور یہی وہ زمانہ تھا جب ہندؤں اور مسلمانوں کے اشتراک سے جو نئی زبان پیدا ہو رہی تھی وہ کئی مختلف ناموں سے پکاری جا رہی تھی ۔ کبھی وہ زبان ہندوی کہلاتی کبھی گجری کبھی ریختہ کبھی اردو اور کبھی ہندی کے نام سے پکاری جاتی رہی ۔
شاہجاں کے عہد میں قلعہ معلیٰ کی رعایت سے اسے اردوئے معلیٰ بھی کہا جانے لگا۔ اس دور کی عام زبان ہندوستانی کے نام سے جانی جاتی تھی بازاروں میں لین دین اور تجارت کی غرض سے جہاں بقیہ ملی جلی زبانیں بولی جارہی تھیں وہیں اس نئی زبان کا استعمال بھی شروع ہونے لگا ۔ آہستہ آہستہ یہی زبان صوفیوں کی زبان بھی کہلائے جانے لگی اس میں وعظ ہونے لگے اور تدریس دی جانے لگی ۔ عوام تک اپنی بات پہچانے کے لیے نہ تو فارسی زبان اپنا کردار صحیح طرح ادا کر رہی تھی اور نہ ہی سنسکرت زبان ۔ چنانچہ اس دور میں ایک ایسی زبان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی جو عام فہم ہو اور آسانی سے ہر کوئی اسے سمجھ بول سکے اور تب یہ منصب اسی ریختہ یعنی گری پڑی چیز کو حاصل ہوا ہندی والے اس کی ابتدا برج سے کرتے ہیں اور اردو والے کھڑی یا پنجابی سے اس کی ابتدا کر تے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس دور میں ہندو تہذیبی روایتوں کا لسانی وسیلہ اظہار برج ہی تھی ۔ برج تو شور سینی کی سچی جانشین تھی ہی اور اس کا ارتقاء تو ہونا لازم تھا لیکن ممکن سی بات ہے کہ وہ بولی آگے چل کر کھڑی کہلاتی ہو اور اس نے ہندؤں اور مسلمانوں کی زبانوں میں گہرا لسانی اشتراک پیدا کیا ہو ۔ گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :" اگر اس زبان کی ابتدا گیارہویں اور بارہویں صدی میں غزنویوں کے زمانے میں تسلیم نہ بھی کی جائے تو بھی اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ہو سکتا ہے کہ امیر خسرو کے زمانے تک یہ زبان ایک خاص حد تک ترقی کر چکی تھی ۔ امیر خسرونے اپنے تیسرے فارسی دیوان میں ہندوی میں شعر کہنے کا فخریہ اعتراف کیا ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امیر خسرو کو اردو اور ہندی والے دونوں اپنا اپنا پہلا شاعر تسلیم کرتے ہیں "8
یہ وہ زمانہ تھا جب ہندی ادب ابھی برج ، اودھی اور راجستھانی بولیوں کارہین منت تھا اور یہ سب کی سب بولیاں ہندی کہلاتی تھیں اور اردو کو بھی ہندی کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی تھی اس وقت تک یہ دونوں دو زبانیں نہیں تھیں۔ ورنہ فضل علی فضلی اپنی تصنیف کربل کتھا کی زبان کو" نثرہندی " اور غالب اپنی نثر کے لیے " ہندی" کا لفظ استعمال نہ کرتے ، فورٹ ولیم کالج میں اس سلسلے میں دونوں زبانوں کے فروغ کے لیے الگ الگ کتابیں لکھوائی گئیں ۔ اس زمانے میں چند ہندی منشیوں کو اس خدمت پر مامور کیا جاتا تھا کہ وہ اس زمانے کی ضرورت کے مطابق ہندی نثر کی کتابیں تحریر کروائیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانوی تسلط ، سامراجی حکمت عملی ، سیاسی دباؤ اور باہمی شک و شبہ نے اس ایک پیڑ کو دو شاخوں میں تقسیم کر کے الگ الگ کر دیا ا س طرح سے دوزبانیں الگ الگ زبانیں شمار کی جانے لگیں۔ لیکن ان سب باتوں کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ دو زبانوں کا الگ الگ ادبی میدان بن جانے سے ان دونوں کا لسانی رشتہ ختم ہو گیا ہو گا ۔ دونوں زبانوں کی ادبی روایتیں ، ادبی معیار ، ادبی موضوعات اور ادبی تاریخ خواہ کتنی ہی الگ کیوں نہ ہو دونوں زبانوں کا لسانی ڈھانچہ اب بھی ایک ہی ہے ۔
دونوں زبانوں کی تقریباََ چالیس آوازوں میں صرف پانچ کو چھوڑ کر باقی تمام آوازیں سب کی سب ایک جیسی ہیں۔ ہند آریائی زبانوں کی سب سے بڑی پہچان ہکاری آوازیں یعنی بھ، پھ، تھ ، دھ ، چھ، جھ، کھ، گھ کا پورا سیٹ ہے جو پورا کا پورا اردو کا ہے اس کے علاوہ معکوسی آوازیں جیسے ٹ، ڈ، ڑ، ٹھ ، ڈھ اور ڑھ جیسی آوازیں بھی جوں کی توں اردو میں موجود ہیں ۔ یہ آوازیں ایسی آوازیں ہیں جو نہ عربی میں ہیں اور نہ فارسی ہیں۔
اردو ہندوستان کی ترقی یافتہ زبانوں میں سے ایک زبان ہے اس کا دامن سامی ، آریائی اور ایرانی زبانوں سے بندھا ہوا ہے ۔ اس کا رسم الخط ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ مشرق وسطی کے بیسوں ملکوں میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ۔ اردوکے تقریباََ ساٹھ ہزار الفاظ میں سے دو تہائی الفاظ یعنی چالیس ہزار الفاظ سنسکرت اور پراکرتوں کے ماخذ سے آئے ہیں ۔ اردو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کہ اس نے فارسی ، عربی الفاظ کو ہندی لفظوں کے ساتھ ملا کر سینکڑوں نئے مرکب بنائے اور وہی مرکب اب ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں رائج ہیں ۔ فارسی، ہندی اور عربی کے ملے جلے لفظ آج بھی کثرت سے استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر اردو اور ہندی کی بنیادی لفظیات تیار کی جائے تو وہ بڑی حد تک ایک ہی ہو گی ۔
ہندی لسانیات پر زیادہ کتابیں عام طور پر انگریزی میں اور ہندی زبان میں ملتی ہیں جب کسی کے سامنے ہندی کا نام لیا جاتا ہے تو اسے سب پہلے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ ہندی سے مراد کونسی زبان ہے ۔ ہندی کے حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہندی اور اردو لسانیات کے بڑے عالم جارج ابراہم گریریسن نے کم و بیش ایک صدی پہلے " لنگوسٹک سروے آف انڈیا" ، میں کچھ زبانوں کے فرضی نام درج کر کے ایسا شک پیدا کر دیا گیا جو آج تک دور نہ ہو سکا ۔ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان کی تمام زبانوں کے لیے ایک ہی نام استعمال کیا جاتا تھا ۔ ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں :" دراصل گریرسن اور دوسرے مستشرقین نے مغربی ہندی اور مشرقی ہندی کی اصطلاحیں استعمال کر کے ستم کیا ۔ مغربی ہندی کو ہندوستانی اور مشرقی ہندی کو یورپی کہا ہوتا تو خواہ مخواہ انھیں ایک ہی زبان کی بولیاں نہ سمجھ لیا جاتا۔ جہاں تک بول چال کا تعلق ہے ابتدا سے آج تک اردو اور ہندی میں کوئی فرق نہیں رہا "9
گیان چند کے اُردو اور ہندی کو بول چال کی سطح پر ایک ہی زبان تسلیم کرنے سے ہندی کے ماخذ کے بارے میں رائے قائم کرنا بظاہر آسان معلوم ہوتا ہے ۔ امرت رائے نے ہندی کو براہ راست اپ بھرنش سے ارتقاء یافتہ کہا ہے لیکن اس کو باقاعدہ اپ بھرنش نہیں کہا ۔ انھوں نے اپنی بات کی وضاحت میں چٹر جی کا حوالہ دیا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ غالباًً وہ شور سینی اپ بھرنش کا ہی ذکر کر رہے ہوں گے کیونکہ چٹر جی نے واضح الفاظ میں برج بھاشا اور ہندوستانی کی بنیاد شور سینی اپ بھرنش بتائی ہے ۔ یہ مغربی اپ بھرنش گریرسن کی مغربی ہندی اور مشرقی ہندی کی طرح فرضی اصطلاح ہے ۔ اس نام کی کوئی زبان کبھی بھی بول چال میں استعمال نہیں ہوتی اور نہ ہی ادب میں اس کا ذکر ملتا ہے ۔ ہندی کے کچھ علماء ایسے بھی ہیں جو ہندی کا رشتہ پوربی سے جوڑنا تو دور کی بات کسی پچھمی اپ بھرنش سے بھی اس کا تعلق قائم نہیں کرتے بلکہ پچھم کی جدید بولی برج بھاشا کو ہندی کا ماخذ قرار دیتے ہیں ۔ بابو مال مکند گیندا اپنی کتاب" ہندی بھاشا" کے دیباچے میں لکھتے ہیں ۔ ہندی بھاشا کی جنم بولی دلی ہے اور یہاں پر برج بھاشا سے وہ آپتن ہوتی ، وہیں اس کا نام ہندی رکھا گیا ۔
لسانی نقطۂ نظر سے موجودہ ہندی کے آغاز کا علاقہ مدھیہ دیش ہے اس علاقے کے بیشتر حصے میں شورسینی اپ بھرنش کو عروج حاصل ہے ۔
اردو اور ہندی کی وحدت کی ایک اور صورت دونوں زبانوں کے وہ مشترک نام ہیں جو ماضی میں رائج رہ چکے ہیں ۔ ہندی والوں کا کھڑی بولی کی جانشینی پر دعویٰ مضبوط ہو جاتا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ کھڑی بولی کے اولین شعراء اور نثر نگاروں نے خود اپنی زبان کو " ہندی " کہا ہے ۔ غالب کے مجموعے کانام اگر ایک "اردوئے معلیٰ" تھا تودوسرے کا نام " عودہندی" تھا ۔ اٹھارہویں صدی کی نو فارسیت زدہ" نو طرزِ مرصع" کا جسے اردو زبان کی تصنیف ماننا بھی دشوا ر ہو جاتا ہے ۔ مصنف تحسین اپنی زبان کو ہندی کی رنگین صورت بتاتا ہے ۔ گجرات اور دکن کے شعراء اور سترھویں صدی عیسوی میں شمالی ہندکے لیکھک اپنی زبان کو " ہندی " اور " ہندوی" بھی کہتے تھے ۔ گویا کھڑی بولی اس وقت بھی " ہندوی / ہندی" کہلاتی تھی جب ابھی اردو کا یہ نام متعارف نہیں ہوا تھا اور اردو کا نام متعارف ہونے کے بعد تک بھی کھڑی بولی کو ہندوی / ہندی کہا جاتارہا ۔ اردو پر ہندی کے تقدم زمانی سے کسی مورخ کو انکار ممکن نہیں لیکن لسانی ارتقاء کو سامنے رکھا جائے تو ہندی کا یہ تقدم زمانی قائم نہیں رہتا ۔ کھڑی بولی کی ارتقائی صورتوں میں اردو نے زبان کی مستقل حیثیت ہندی سے پہلے حاصل کر لی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مستقل زبان کا نام آج بھی" ہندی "ہو سکتا تھا ۔
ہندی نام آغاز میں صرف کھڑی بولی کے لیے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی کم و بیش تمام بولیوں کے لیے مستعمل رہا ہے ۔ یہ نام ہند کی مناسبت سے تھا ۔ گریرسن نے "لسانیاتی جائزہ ہند" میں واضح کہا ہے کہ ہندی کے دومعنی مراد لیے جاتے ہیں ایک سنسکرت آمیز کھڑی بولی اور دوسرا پنجاب سے بنگال تک کی تمام بولیاں ۔ ہندی کا تیسرا مفہوم حقیقت سے زیادہ قریب ہے جس کے مطابق شور سینی سے ماخوذ کھڑی بولی کو ہندی اور بعض اوقات ہندوی کہا گیا ہے ۔ امیر خسرو نے نا صرف اپنے کھڑی بولی کو کلام ہندی کہا ہے بلکہ اس سے پہلے مسعود سعد سلمان کے مقامی زبان میں کلام کو بھی ہندوی کلام بتایا ہے ۔ مسعود سعد سلمان کا کلام چونکہ دستیاب نہیں اس لیے اس کی زبان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا محال ہے ۔ لیکن امیر خسرو کی زبان ہندی کو موجودہ اردو اور ہندی کا قدیم روپ کہنا بے جا نہ ہو گا ۔ مرز ا خلیل احمد بیگ کہتے ہیں :" لفظ ہندی نہ تو ہندی الاصل ہے نہ سنسکرت نژاد اسی طرح نہ یہ تد بھو ہےاور نہ تت سم ۔ یہ لفظ خالص فارسی ترکیب سے بنا ہے ۔ نووارد مسلمانوں نے جب یہاں سکونت اختیار کی تو انھوں نے اس ملک کو " ہند "کے نام سے یا د کیا ۔ لفظ ہند کی تشکیل سندھ کی "س" کی " ہ " میں تبدیلی سے عمل میں آتی ہے کیوں کہ سنسکرت کے بعض الفاظ کی "س" فارسی میں " ہ" میں بدل جاتی ہے ۔ اسی طرح لفظ ہندی خالص مسلمانوں کی ایجاد ہے ۔ چنانچہ ہندی سے مراد ہندیعنی ہندوستان سے تعلق رکھنے والا یا ہند میں سکونت اختیار کرنے والا قرار دیا ۔ یہی لفظ ہند میں بولی جانے والی بولیوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا ۔ جب مسلمانوں نے ۱۱۹۳ء میں دہلی پر اپنا سیاسی تسلط قائم کیا تو ان کا واسطہ یہاں کی کھڑی بولی سے پڑا جسے وہ دھیرے دھیرے اپناتے گئے ۔ انھوں نے اسے "ہندی "اور کبھی کبھی " ہندوی" کہنا شروع کیا بعد میں اسی زبان کو ریختہ بھی کہا گیا ۔ ہندی ، ہندوی اور ریختہ یہ اردو زبان کے ہی مختلف نام ہیں ۔ جو قدیم زمانے میں پڑے"10
اردو اور ہندی کا نمایاں اظہار لسانی اشتراک کی صورت میں واضح ہوتا ہے جس کی تین سطحیں ہیں۔
۱۔ صوتی ۲۔ قواعدی ۳۔ لفظی
لسانیا ت کسی بھی زبان کے مطالعے کے لیے اس کی بول چال کو اہمیت دیتی ہے نہ کہ لکھی ہوئی صورت کو ۔ لسانیا ت کی وہ شاخ ہے جس میں آوازوں کا سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے ۔صوتیات کہلاتی ہے ۔ صوتیات میں آوازوں کی بنا پر ہی مختلف زبانوں کی تخصیص کی جاتی ہے ۔ آوازوں کی درجہ بندی کے لیے ان کے مخارج کو مدنظر رکھتے ہوئے دو اقسام بنائی گئی ہیں۔ مصوتے اور مصمتے ۔ انسانی تکلم کا براہ راست تعلق سانس لینے سے ہے ۔
کسی بھی زبان کے قواعد کو دو بڑی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ صرف اور نحو ، علم صرف میں زبان کی چھوٹی سےچھوٹی بامعنی اکائی کا مطالعہ کیا جاتا ہے جبکہ علم نحو میں فقروں اور جملوں میں الفاظ کی ترتیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ گویا اول میں لفظوں کی ساخت اور آخر میں جملوں کی ساخت کا مطالعہ ہوتا ہے ۔
اردو اور ہندی میں صرفی خصوصیات کا کچھ فرق موجود ہے لیکن وہ بنیادی ذخیرہ الفاظ میں نہیں بلکہ دخیل الفاظ کی صورت میں موجود ہے دونوں کے بنیادی الفاظ مشترک ہیں ۔ تاہم جغرافیائی اور تہذیبی اثرات سے کبھی کبھار ان کے تلفظ میں تھوڑا بہت فرق آ جاتا ہے ۔ نحوی اعتبار سے اردو اور ہندی میں کوئی فرق نہیں۔
علم صر ف میں چھوٹی بامعنی اکائی کا مطالعہ کیا جاتا ہے جبکہ علم نحو میں فقروں اور جملوں میں الفاظ کی ترتیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ گویا اول میں لفظوں کی ساخت اور آخر میں جملوں کی ساخت کا مطالعہ ہوتا ہے ۔ اردو اورہندی میں صرفی خصوصیات کا کچھ فرق موجود ہے لیکن وہ بنیادی ذخیرہ الفاظ میں نہیں بلکہ دخیل الفاظ کی صورت میں موجود ہے۔ دونوں کے بنیادی الفاظ مشترک ہیں ۔ تاہم جغرافیائی تہذیبی اثرات سے کبھی کبھار ان کے تلفظ میں تھوڑا بہت فرق آتا ہے ۔ نحوی اعتبار سے اردو اور ہندی میں کوئی فرق نہیں ۔
اگر یہ کہا جائے کہ "آپ کا نام کیا ہے ؟ " یا " آپ کہاں جائیں گے ؟ " یا " آپ میری بات سنیں گے ؟ " یا"باہر اندھیرا ہے ۔" تو یہ تمام جملےہندی میں بھی شمار ہوتے ہیں اور اردو بھی ۔ لفظوں کا فرق ہو سکتا ہے لیکن جملے میں لفظوں کی ترتیب ایک سی ہے ۔ تذکیر و تانیث میں اردو اور ہندی کا جو فرق ہے وہ خال خال ہے ۔
جملے میں تین طرح کی چیزیں ہوتی ہیں ۔ اسم ،اسم صفت اور فعل ۔ بہت سے اسم اور اسم صفت تو ہم نے فارسی ، عربی سے لیے ہیں ۔ لیکن اردو فعل کا ہماراسرمایہ سارا کا سارا مشترک ہے ۔ فعل کے بغیر جملے کا تصور کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا ، پینا ، سونا ، لینا ، دینا ، آنا ، جانا ، گانا ، رونا سینکڑوں افعال جیسے ہندی میں ہیں ویسے ہی اردو میں ہیں ۔ افعال کسی بھی زبان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہذاٰ ان افعال کو جو کہ اردو اور ہندی میں یکساں ہیں دیکھ کر یہ کہنا لازم ہو جا تا ہے کہ اردو اور ہندی دو جڑواں بہنیں ہیں جو آزادانہ طور پر ارتقاء پزیر ہیں اور غیر مرئی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ مرکب افعال کے حوالے سے بھی یہ چیز دیکھنے میں ملتی ہے ۔ گوپی چند نارنگ اپنی کتاب " اردو زبان اور لسانیات" میں مرکب افعال کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں :" یہی معاملہ مرکب افعال کا ہے جو دونوں زبانوں میں یکساں استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاًہٹا دینا ، گرپڑنا، اڑنے پایا ، چلے آیا ، ٹوٹ جانا ، مار ڈالنا ، گھر کرنا ، سن لینا ، بولا کرنا ، کھانے دینا وغیرہ ۔ ان افعال کی حیثیت دراصل محاوروں کی سی ہے جو فعل کے اجزا سے مل کر بنتے ہیں اور دونوں زبانوں میں بالکل ایک طرح سے استعمال ہوتے ہیں ۔ یہ بھی اردو اور ہندی کی مشترکہ خصوصیت ہے کہ مرکب الفاظ جس کثرت سے ان دو زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں دنیا کی دوسری زبانوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی " 11
فعلیہ محاوروں کے علاوہ ایسے محاوروں کی تعداد بھی ہزاروں تک موجود ہے جو اسم با صفت کو ملا کر بنتے ہیں اور دونوں اردو اور ہندی میں رائج ہیں ۔ اگر ہم صرف آنکھ اور منہ کے محاوروں اور روزمرہ کی مثالیں ہی بیان کرنے لگ جائیں تو نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہو جائےجیسے منہ دیکھنا ، منہ بنانا ، منہ اترنا ، منہ پر مردنی چھانا ، منہ سر پر لگ جانااور آنکھ کے محاوروں کی ترکیبوں کی بات کریں تو آنکھ آنا ، آنکھ اٹھانا ، آنکھ لڑنا ، آنکھ بچانا ، آنکھ بنوانا ، آنکھ پھڑکنا ، آنکھ بھرنا ، آنکھ چرانا ، آنکھیں روشن ہونا یا آنکھوں میں رات کاٹنا وغیرہ شامل ہیں۔
اردو نے فارسی عربی الفاظ کو ہندی لفظوں کے ساتھ ملا کر سینکڑوں نئے مرکب بنائے جو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاً ڈاک خانہ ، ، بے کل ، شرمیلا، رنگیلا ، عجائب گھر ، سدا بہار ، گھڑی ساز، پھول دان، گلے باز ، کمر کس ، کوڑھ مغز، لاپرواہی ، لاچاری ، تھوک فروش، پھل کاری ، پلنگ توڑ وغیرہ ۔
کچھ ایسا ہی حال تلمیحوں اور کہاوتوں کا بھی دیکھنے میں آتا ہے ۔ بہت سی تلمیحیں ہم نے اسلامی روایات سے لی ہیں لیکن بعض تلمیحیں جیسے کرشن ، رادھا، رام لچھن ، سیتا، راون ، ارجن ، بھیم ، ہیر رانجھا وغیرہ ہندوستانی روایتوں سے بھی آئی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ کہاوتوں میں بھی اردو ہندی کا اشتراک واضح طور پر دکھائی دیتا ہے مثلاًجیسا دیس ویسا بھیس، لہو لگا کر شہیدوںمیں شامل ہونا ، ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے ، دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ، مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال ، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، جاگو راکھے سائیاں مار نہ ساکے کوئے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس وغیرہ جیسی بہت سی ایسی کہاوتیں دونوں زبانوں میں یکساں رائج ہیں ۔
سیداحمد دہلوی کا کہنا ہے کہ اردو کے پچپن ہزار الفاظ میں سے تقریباًچالیس ہزار الفاظ ایسے ہیں جو سنسکرت ا ور پراکرتوں سے ماخوذ ہیں یا پھر غیر زبانوں کے الفاظ کو اردووا کر لیے ہیں ۔ بالکل اسی طرح اردو اور ہندی کے مشترک الفاظ تقریباً پچہتر فی صد یعنی اردو کے سرمائے کا تین چوتھائی حصہ اردو اور ہندی دونوں زبانو ں میں مشترک ہے ۔
بہت سے ایسے ضمائر ہیں جو اردور اور ہندی میں مشترک ہیں ۔ اردو اور ہندی میں استعمال کے وقت کچھ ضمیروں میں صوتی تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن ان کے معانی نہیں بدلتے ۔
اردو اور ہندی کے اسماکو تین سطحوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ جنس ، تعدا د اور حالت کے تناسب سے ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے جس سے مراد تذکیرو تانیث ہے جس کا قاعدہ اردواور ہندی میں یکساں ہے ۔ مثال کے طور پر
جن اسماء کے آخر میں ا یا ہ آتا ہے وہ مذکر اور جن کے آخر میں 'ی' آئے ہو مونث سمجھے جاتے ہیں ۔ جیسے لڑکا سے لڑکی ، بچہ سے بچی وغیرہ ۔
کچھ مذکر اسما ء ایسے ہیں جن کے آخر میں ا، ہ نہیں بھی آتا لیکن ا ن کی مونث " ی " کے اضافے سے جیسے بنائی جاتی ہے ۔ کبوتر سے کبوتری اور ہرن سے ہرنی وغیرہ
مذکر اسما ء کے آخر میں " یا " کا اضافہ کر دینا یا آخری حرف کو "یا" میں تبدیل کر دینا ۔ جیسے بندر سے بندریا ، اور کتا سے کتیا وغیرہ ۔
مذکر اسما کے آخر میں " ن " کا اضافہ کر دینا یا آخری حرف کو "ں " سے بدل دینا جیسے مالک ، مالکن ، دلہاسے دلہن وغیرہ ۔
مذکر اسما کےآخر میں "نی " یا " انی " کا اضافہ کرنا جیسے کہ نوکر سے نوکرانی ، شیرسے شیرنی وغیرہ
اسماء کی جنس بنانے کے وہ اصول ہیں جو دونوں زبانوںمیں رائج ہیں ۔ اس کے علاوہ دونوں زبانوں میں ایسے اسما بھی موجود ہیں جس کی جنس تبدیل نہیں ہوتی جیسا کہ
بھانڈ، باز ، جن ، کچھوا ،خرگوش اور کوا وغیرہ صرف مذکر استعمال ہوتے ہیں ۔
مینا ، سہاگن ، بلبل ، چھپکلی وغیرہ مونث میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔
اردو اور ہندی میں واحد اور جمع بنا نے کا طریقہ بھی تقریباً یکساں ہے
عموماً " ا" پر ختم ہونےوالے لفظوں کا آخری حرف " ے" سے بدل دیتے ہیں جیسے لڑکا سے لڑکےوغیرہ
جن لفظوں کے آخر میں " ی " آتا ہے انھیں " ہاں" سے بدل دیتے ہیں جیسے لڑکی سےلڑکیاں وغیرہ
اشیا کی معین تعداد کےلیے اردو اور ہندی میں اعداد ترتیبی مشترک ہیں جنہیں ایک دو، تین ، دس ، بیس ، تیس ، سو ، ہزار وغیرہ لکھا جاتا ہے ۔ ہزار کا لفظ مسلمانوں کے ہندوستان میں دور حکومت کے دوران استعمال ہو ا۔
انتہا کی غیر معین تعد ا د کے لیے بھی اردو اور ہندی میں ایک سا الفاظ رائج ہیں جیسے کہ تھوڑا سا ، کئی ، زیادہ سے زیادہ ، کم سے کم ، سینکڑوں اور لاکھوں وغیرہ ۔
اسم کی ندائی حالت بھی اردو اور ہندی میں ایک بنتی ہے جیسے احمد ادھر آؤ وغیرہ ۔
کچھ الفاظ جو مقام اور سمت کو ظاہر کرتےہیں دونوں زبانوں میں ایک جیسے استعمال ہوتے ہیں جیسے یہاں ، وہاں ، کہاں ، پرے ،آس پاس وغیرہ
کچھ الفاظ جو طور طریقوں کو ظاہر کرتے ہیں وہ ایک سے ہیں جیسے ایسے ، ویسے ، کیسے وغیرہ
کچھ الفاظ تعداد یا مقدار کو ظاہر کرتےہیں وہ بھی دونوں زبانوں میں ایک جیسے استعمال ہوتے ہیں جیسے کتنا، ایک بار،بار بار وغیرہ
اردو اور ہندی کی بنیادی لفظیات کا درج ذیل مشترک ذخیرہ بھی ملاحظہ ہو ۔
رشتوں کے نام ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ، بیٹا ، بیٹی ، پھوپھی ، بھوا، مامی ، دادی وغیرہ
اعضائے جسمانی کے نام ، سر، ماتھا ، آنکھ ، کان ، ناک ، ہونٹ ، گردن وغیرہ
بعض آوازوں کے مخصوص الفاظ کھسر پھسر ، میاؤں میاؤ ں ، کائیں کائیں ، چوں چوں ، دھاڑ دھاڑ وغیرہ
جانوروں کے نام گائے ، بھینس ، بکری ، کتا ، بلی ، کوا ، اونٹ ، شہر ، ہاتھی ، کوئل وغیرہ
دونوں زبانوں میں کھانوں ، مٹھائیوں ، پھلوں ، سبزیوں اور مصالحوں کے نام ایک جیسے استعمال ہوتے ہیں ۔
کچھ جگہوں کے نام دونوں زبانوں میں ایک جیسے ہیں جیسے گھر ، محل ، کٹیا ، گھونسلہ ، تھانہ ، جیل ، قید خانہ ، جھونپڑی وغیرہ
بہت سی گالیاں جو قدرتی طور پر منہ سے نکلتی ہیں یا شعوری طور پر دی جاتی ہیں اردو اور ہندی میں مشترک ہیں مثلاًسالا، حرامی ، کمینا ، حرام خور وغیرہ
درج بالا تمام الفاظ خواہ سنسکرت الاصل ہوں یا اپنے مادے عربی اور فارسی کےرکھتے ہوں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج اردو اور ہندی دونوں زبانوں کا سرمایہ مشترک ہے ۔ اردو کے محققین اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ اس زبان میں عربی اور فارسی سے کہیں زیادہ الفاظ ہندی کے ہیں مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں :" اردو میں تقریباً۷۵ فی صد الفاظ سنسکرت اور پراکرت نژاد ہیں اور اس زبان میں ان کی حیثیت ناگزیر ہے ۔۔۔ اردو میں ایسے بے شمار جملے ترتیب دیے جاسکتے ہیں اور ایسے لاتعداد اشعار موزوں کیے جا سکتے ہیں جن میں ایک بھی عربی فارسی لفظ استعمال نہ ہوا ہو لیکن اردو کا کوئی جملہ یا شعر ہندآریائی الفاظ و قواعد کے بغیر تخلیق نہیں کیا جا سکتا " 12
اردو اور ہندی کے اسی لسانی اشترا ک کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالودود کا کہنا ہے ۔
" اردو اور ہندی کا رشتہ اتنا گہرا ہے کہ اُردو میں مستعمل ہندی الفاظ کی فہرست تیار کرنا ممکن نہیں ۔ اردو کا سرمایہ الفاظ کھڑی بولی اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ غیر ملکی الفاظ پر مشتمل ہے ۔ اردو میں ہندی الفاظ کی کبھی آمیزش ہوئی اور کبھی بہت سے ہندی الفاظ متروک قرار دیئے گئے ۔ لیکن اردو کا دامن کبھی بھی ہندی الفاظ سے خالی نہ رہا ۔" 13
اردو اور ہندی کے لسانی رشتے کے اعتبار سے مختلف مفکرین اور ماہر لسانیات نے اپنی اپنی آراء بیان کی ہیں جس سب میں ان کا ایک ہی منشور نظر آتا ہے کہ دونوں زبانیں ایک دوسری کی سگی بہنیں ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی ایک کے وجود کے لیے دوسرے کا ہونا لازم ہے۔ بقول گیان چند جین :" اتنا تو بہر حال سبھی مانتے ہیں کہ اردو ایک ہند آریائی ہندوستانی زبان ہے جو باہر سے نہیں آتی ۔ اس کا جدی شجرہ فارسی یا عربی تک نہیں پہنچتا بلکہ کھڑی بولی اب بھرنش وغیرہ سے ہوتا ہوا سنسکرت اور ویدک زبان تک پہنچتا ہے "14
اردو کا امتیاز اگرچہ ایک چوتھائی الفاظ سے قائم ہوتا ہے جو عربی فارسی اور ترکی کے سرچشمے سےآتے ہیں ۔اسی طرح اردو کی مخصوص چستی اور کھنک بھی سامی اور ایرانی مآخذ سے آئی ہوئی آوازوں سے پیدا ہوتی ہے نیز لب و لہجہ اور تذکیرو تانیث کے جزوی اختلاف بھی موجود ہیں ۔ پھر بھی کسی دوزبانوں میں تین چوتھائی الفاظ کا مشترک ہونا ، فعلیہ ہونا ، بنیادی الفاظ کے ڈھانچے کا ایک سا ہونا ، الفاظ و تراکیب کا ملنا ، محاورات و تلمیحات میں مماثلت ہونا ، ضمائر اور حروف جار کا ایک جیسا ہونا لسانی اشتراک کی عجیب و غریب مثال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی کوئی دوسری زبان ہندی سے اتنی قریب نہیں جتنی اردو ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندی کی سب سے بڑی طاقت اردو ہے اور اردو کی بڑی طاقت ہندی ہے ۔
٭٭٭
1 ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ہندی اردو تنازع (اسلام آباد :نیشنل بک فاؤنڈیشن، 1988ء)،22۔
2غلام ربانی آگرو ، بھارت میں اُردو کا ایک جائزہ (اسلام آباد :اکادمی ادبیات پاکستان، 1987ء)،21۔
3 ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ہندی اردو تنازع (اسلام آباد :نیشنل بک فاؤنڈیشن، 1988ء)،23۔
4 ایضاً، ص ۳۳
5ایضاً، ص 33۔
6گوپی چند نارنگ ، اردو زبان و لسانیات (رام پور :رام پور رضا لائبریری ، 2006ء)،18۔
7ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ہندی اردو تنازع (اسلام آباد :نیشنل بک فاؤنڈیشن، 1988ء)،49۔
8گوپی چند نارنگ ، اردو زبان و لسانیات (رام پور :رام پور رضا لائبریری ، 2006ء)،53۔
9گیان چند، لسانی رشتہ (لاہور :مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ، 2003ء)،144۔
10مرزا خلیل احمد بیگ،اردو زبان کا تاریخی تناظر (دہلی :ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 2007ء)،128-129۔
11گوپی چند نارنگ ، اردو زبان و لسانیات (رام پور :رام پور رضا لائبریری ، 2006ء)،85۔
12 مرزا خلیل احمد بیگ،ایک بھاشا۔۔۔جو مسترد کر دی گئی (علی گڑھ :ایجوکیشنل بک ہاؤس ، 2007ء)،24۔
13ڈاکٹر عبد الودود،اردو سے ہندی تک (کراچی :مجلس فکر و ادب ، 1984ء)،121۔
14 گیان چند جین ،ایک بھاشا : دو لکھاوٹ، دو ادب (دہلی :ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، 2005ء)،56۔
0 |
http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/issue/view/2 |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |