Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Negotiations > Volume 1 Issue 3 of Negotiations

اردو نظم میں  ہجرت و جلا وطنی کا تصور اور نظریہ نو آبادیت |
Negotiations
Negotiations

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

3

Year

2021

ARI Id

1682060054107_1849

Pages

01-10

DOI

10.54064/negotiations.v1i3.24

PDF URL

http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/download/24/18

Chapter URL

http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/view/24

Subjects

Migration Exile Base Diaspora Release Division Scatter

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

آج کے اس جدید او رپیچیدہ دو رمیں جہاں پوری دنیا کو ایک Global village سے تشبیہ دی جا رہی ہے، کسی بھی انسان کااپنے مرکز پر ٹھہرنا او رقائم رہنا خاصا مشکل امرہے۔ زندگی کی ان پیچیدگیوں کا مطالعہ تہذیب و ثقافت کی تبدیلی سے بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کی زد میں روایات و اقدار، سیاسی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی، معاشی، نفسیاتی، علمی و فکری غرض زندگی کا ہر شعبہ آجاتا ہے۔ زندگی اب شاید مادیت پرستی او رخواہشات کے تتبع کا نام بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ ادب میں اس احساس کے اظہار نے کئی صورتیں تشکیل پائی ہیں۔ وقت کی اس مادیت پرستی کا ایک اہم ترین جزو ہجرت او رانتقال آبادی ہے جو اس دور کے انسان کی زندگی میں کسی نہ کسی صورت میں وارد ہوئی، ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی خواہ یہ ورود جبری صورت میں ہو جسے جلاوطنی کہتے ہیں، رضا کارانہ ہو چائے قانونی یا غیر قانونی، ذہنی، خارجی یا جسمانی نقل مکانی یا ہجرت ہو یہ سلسلہ زندگی کے آغاز سے ہی قائم و دائم ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ سلسلہ آغاز آفرینش سے چل رہا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں انسان کی تخلیق کے قصہ میں واضح اشارہ ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی نیابت الہٰی تھا اور اس کا مستقر جنت نہیں بل کہ زمین تھا جسمانی تخلیق چوں کہ مٹی سے ہوئی تو جسم کا مستقر زمین ٹھہرا اورروح کاتعلق چوں کہ امرربی سے تھا تو اس کا مستقر علین او رسجین کو ٹھہرا یا لہٰذا ہجرت کا تصور انسان کی تخلیقی مقاصد میں ہی شامل کر دیا گیا۔ نقل مکانی کا یہ سلسلہ ازل سے تھا ابد تک رہے گا۔ انسان وقت کے دھارے میں بہتا بہتا نہ جانے کہاں سے کہاں نکل آیا او رنہ جانے کتنے ساحل بسائے، ساحلوں پہ آبادیاں بسائیں پھر ان بستی کو چھوڑ کر نئی بستیاں بسانے او رپھر نئی بستیاں بسائیں او رانسان ان نئی او رپرانی بستیوں کا حصہ ہونے لگا۔ کبھی اجنبی دیسوں میں بیگانہ ہوا کبھی ان بستیوں کو اپنا لیا۔ کبھی کسی وجہ سے اپنی زمین اور تہذیب کوچھوڑا او رخش و خاشاک کی طرح زمانے کی گرد میں بکھر گیا "ہجرت":خانہ بدوشی، نقل مکانی، جلاوطنی، تقسیم وطن، شہر ممنوعہ، یا شہر تمنا، ارض موعودہ یا جنت گم گشتہ کی تلاش، کبھی خوشی کی تلاش تو کبھی سکون کے حصول کے لیے انسان بار بار اپنی زمین، اپنے ماضی، اپنی بنیادوں سے علیحدہ ہو کر ماضی اور اپنی زمین کی یادوں کو وطن کے روپ میں ذہن میں بسا کر مسلسل اذیتوں او ردرد و غم سمیٹتے ہوئے وقت کے دھارے میں بہتا چلا گیا۔ انھی اذیتوں او ردرد و غم کے کرب کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے ہجرت او رجلا وطنی کے عذاب کو جھیلا ہو۔

آج اس جدید دور میں ہجرت اور جلاوطنی کے انسانی نفسیات پر جس قدر گہرے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں شاید ماضی میں نہ تھے۔ یہ اثرات نفسیاتی اور فکری سطح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہی اثرات نے ادب میں تخلیقی تجربے کی گہرائی اورگہرائی کے احساسات کو انتہائی مضبوط بنیادوں پر پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ادب میں ہجرت کاتجربہ ہمیشہ ہی تخلیقی سطح پر بڑا بار آور اور زرخیز رہا ہے ادب میں ہجرت اور جلا وطنی میں ماضی کے کرب او رالمیہ کو حساس سطح پر پیش کیا جاتا رہا ہے انسان ہمیشہ سے اپنی سر زمین وطن سے جڑنا اور اس جڑت کواپنے ساتھ رکھنا پسند کرتا رہا ہے اور اس کے یہ تصورات ایک (Fantasy) خیالی دنیا پر مبنی تصورات و جذبات اور شعور کا حصہ رہے ہیں اگرچہ دیکھا جائے تو تعلیمات الہٰیہ کی روشنی میں انسان کومال و دولت کی ہوس کے ساتھ ساتھ زمین سے وابستگی کے جذبات و تصورات کو حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ البتہ انسان نے اپنے وطن کی سرزمین کو ماں کا رتبہ دے کر اپنی جنم بھومی سے جڑے رہنے کے جذبے کی پاس داری کی ہے اور اپنے گردو پیش کے مناظر ِ فطرت، مظاہر حیات سے جذباتی وابستگی اس کی گھٹی میں شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ الہامی مذاہب کے پیر وکاروں کے ہاں ہی ارضی لگاؤ کا جذبہ ایک بشری کمزوری کے طور پر سامنے آتا ہے اس کے برعکس اس جدید دور کی سائنسی اور مادی ترقی کی دوڑ نے اس کی اس کمزوری کو ایک اورجہت سے روشناس کر رہا ہے جہاں اخلا ق، مذہب، اعلیٰ انسانی اقدار، اوصاف و اخلاص بھی موجود ہوتے نظر آتے ہیں یہ جہت مادہ پرستی ہے۔ دور حاضر کی روح عصر مادیت پرستی کا عکاس ہے۔ خاص نو آبادیاتی نظام اور اس کے بعد کے حالات زندگی کی تما م تر تگ و دو کا محور و مرکز مادیت پرستی ہے۔ ا سکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب مادیت پرستی ہی زندگی کا مطمع نظر ہے تو نوآزاد اقوام آج بھی مابعد نو آبادیات میں پھنسنے یا جکڑے جانےکے لیے تیار ہو جاتی ہیں مابعد نو آبادیاتی نظام میں مادیت پرستی کا یہ رویہ افرادیا عوام کی کایا کلپ کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ زندگی کی وہ اقدر جن کا تعلق اخلاق اور مثبت طرز عمل سے ہے بالکل معدوم ہو تی جا رہی ہیں۔ انسان فرد واحد پہلے سے کہیں زیادہ آبادی ہونے کے باوجو دخود میں تنہائی، اکیلے پن او رمادی خواہشات کے حصول کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ تضاد بالکل سمجھ سے بالا تر ہے کہ جوں جوں دنیا سمٹتی جا رہی ہے افراد کا احساس تنہائی او ربڑھتا جارہا ہے۔ اسی کے سبب زبان، ثقافت اور تہذیب میں بھی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ اکیسویں صدی مسلسل تبدیلی کی زد میں ہے اسی تبدیلی کے سبب انسان نے اپنی فطری کمزوری (وطن)، اپنی شناخت کے بنیادی حوالہ (جنم بھومی، جائے پیدائش) سے دستبرداری کو بھی قبول کر نا پسند کر لیا ہے۔ آج کا انسان خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں بسنے والی عوام وطنیت کے بنیادی تصور سے خود کو آزاد کرا کر خود کو مابعد نو آبادیاتی جدید نو آبادیاتی نظام میں ضم کررہے ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تاریخ انسانی کا ہجرت او رجلا وطنی سے تعلق خاصا پرانااور گہرا رہا ہے او رہجرت کی جبری شکل سے واسطہ تو آدم اور خدا کی معتوب قوم یہودیت، آغازِ اسلام میں پاک رسول ﷺ اور ان کے ساتھیوں، کبھی جنگ و جدل اور کبھی آفات ومصائب کے زمانوں میں متاثرین کی شکل میں قائم ہوتی رہی ہے۔ ہجرت و جلا وطنی کا سبب کچھ بھی ہو لیکن:

"تاریخ انسانی میں نقل مکانی کا عمل ایک مسلسل سفر کی صورت میں اثر پذیر ہوا ہے۔ جو محض جسمانی ہی سفر نہیں بل کہ ذہنی سفر بھی ہے یہی ذہنی سفر انسان کو بیک وقت حال او رماضی میں یکساں متحرک رکھتا ہے جو بالآخر ناسٹلیجیا کی دین ہے، ناسٹلجیا کا یہی وہ تخلیقی جذبہ ہے جو ساں بیلو او رآئزک سنگر سے پولینڈ کی جنت گم گشتہ کا باد نامہ رقم کراتا ہے جوزف کانریڈ کو اجنبی سرزمینوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی احساس کی لو میلان کنڈیرا کو اپنے لوگوں اوراپنی مٹی کی بنتی بگڑتی صورتوں کے خواب دکھاتی ہے۔ البرٹ کامیو، کے اجنبی سے تو ایک زمانہ واقف ہے لیکن دنیا بھر کے افسانوی اورداستانوی ادب میں کتنے ہی اجنبی ہمیں نظر آتے ہیں جو اپنی مٹی سے دور ہیں اور اس کی یاد ان کی تہوں میں سرسراتی ہے "1

دیکھا جائے تو برصغیر پاک و ہند کا خطہ بھی ہجرت، جلا وطنی او رحملہ آوروں کی تاریخ کے حوالہ سے خاصا مشہور و معروف رہا ہے۔انیسویں صدی او ربیسویں صدی مین اس خطہ زمین نے اپنی تاریخ کوہولناک ترین ہجرت کا تماشآ دیکھا جس کے سبب فسادات اور ان فسادات سے لاکھوں انسانوں کے خون سے تاریخ نے خراج وصول کیا۔ ہجرت و جلا وطنی کا یہ تجربہ ایک ایسے المیے کی شکل اختیار کر گیا جس نے ادب، سیاست، معیشت، معاشرت، مرتب ہے۔ نو آبادیاتی نظام ہو یا مابعد نو آبادیاتی ہر دو نے اپنے اپنے دائرے میں آنے والی مفتوح او رمعتوب قوم سے پورا پورا خراج ہر سطح پر وصول کیا ہے۔ یہ خراج وسائل فطرت او ر بشریت پر قبضہ کی صورت میں وصول کیا گیا۔ یہی خراج مفتوح اورمعتوب اقوام کو ہجرت او رجلا وطنی پر مجبور کرتا ہے۔ اس حوالہ سے درج ذیل بیان ملاحظہ ہوں: "یورپی نوآبادیاتی نظام نے خاص طور پر انیسویں او ربیسویں صدی کے لوگوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر، جلا وطن اور اجنبی بنادیا۔ الجزائر کے جویورپ کی نو آبادی (colony) تھا، ادب میں جلا وطنی کی ایسی نوعیت ملتی ہے جس میں لوگ اپنے وطن میں رہتے ہوئے جلا وطن ہوگئے ہیں اور یورپی جارحیت کوبرداشت کررہے ہیں "2

تہذیب و ثقافت او رزبان کا واسطہ جب ایک مختلف تہذیب و ثقافت او رزبان سے ہوتا ہے تو زبان کی تبدیلی اور تہذیب وثقافت میں تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کا خطہ جہاں آریاؤں او ران سے پہلے دراوڑ، پھر مسلمان فاتحین او رصوفیا کرام کی آمد، مقامی آبادی سے میل جول کے نتیجہ میں ایک ملی جلی تہذیب نے جنم لیا اور اس تہذیب کے سبب ایک نئی زبان وجود میں آئی نئی تہذیب وثقافت اورزبان کی تشکیل او رشکست و ریخت کے کئی مراحل سے گزراہے۔ دور جدید میں ہجرت وجلا وطنی کا تصوربھی ایک ایسی تہذیب اورثقافت کے ساتھ ساتھ کلچر کو بھی فروغ دے رہا ہے جہاں میزبان تہذیب اور ثقافت او رہجرت و جلاوطنی ایک دوسرے سے زبان او رکلچر کے نئے مباحث کو فروغ دیتے او رایک دوسرے سے مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہجرت، جلاوطنی، ترک وطن بکھراؤ دور حاضر کے انسان کی زندگی پر اثر انداز عوامل میں آج بھی ایک طاقت ورعنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مابعد نو آبادیاتی مطالعہ میں ایسے عوامل کے مطالعہ کے لیے"ڈائیا سپورا "3(Diaspora)کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ لفظ یونانی الاصل ہے جو دو متضاد و معانی اپنے اندر رکھتا ہے Dia بمعنی بکھیرنا، انتشار، تقسیم اور Spora بمعنی بیج بونا، جہاں ایک طرف اس اصطلاح میں انتشار، تقسیم اور بکھراؤ کو بیان کیا گیا تو دوسری طرف استحکام، نئی جڑوں اور نئی زندگی کے آغاز و تلاش کا اظہار بھی موجود ہے۔

ڈائیا سپورا، بکھراؤ، انتشار یا جلاوطنی کی اصطلاح مابعد نو آبادیتی مطالعہ میں یہودیوں کی جلا وطنی او ران کی وطن واپسی کی شدید خواہش کے لیے استعمال کی گئی۔ اس اصطلاح کا استعمال ولیم سفران نے1919ء میں یہودیت کی ہجرت کے تاریخی تناظر میں کیا او را س اصطلاح کے خدو خال کا احاطہ کرنے کی پوری سعی کی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولیم سفران نے احساس ہجرت اورمہاجریت کے لیے صرف یہودیت کو ہی رول ماڈل Role Modelکیوں رکھا جب ان کے سامنے فلسطینی، چینی، آرمینی او رہندوستانی کی مثالیں بھی موجود تھیں۔ کسی ایک قوم یا کمیونٹی کو بطور مثال کے پیش کرناان کی ادبی تحقیق میں جانبداری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حالانکہ بعد کے ناقدین جن میں مکف فورڈ، ہومی کے بھابھا، ایڈروڈ سعید، سموئیل ہٹنگٹن پی وغیرہ نے اس اصطلاح کو وسیع تر تناظر میں پیش کیا ہے۔ ولیم سفران کے نزدیک ہجرت،جلاوطنی، تارک وطن دراصل کسی ملک کے باسیوں کو ان کی جائے پیدائش یا وطن سے زبردستی، سیاسی، معاشی یا معاشرتی دباؤ کے تحت جدا کرنا ہے لہٰذا ہجرت کرنے والے مہاجرین، یا جلا وطن لوگ اپنے احساس مہاجریت کے ساتھ کسی اجنبی دیس میں، اجنبی لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں البتہ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ اپنے میزبان دیس میں اپنی جڑیں پیوست نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اپنے اصل وطن اور اس وطن سے جڑی اپنے ماضی کی یادوں کو اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی یا برصغیر پاک و ہند کے مہاجرین وجلاوطن ہمیشہ اپنے آبائی وطن سے قدامت پسندانہ لگاؤ او رانس رکھتے ہیں۔ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور خیر خواہی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ اسی کے سبب پرائے دیسوں میں اجنبیت، مغائرت، بیگانہ پن، ذہنی تنہائی اورفرقت ان کی اداسی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ وہ کبھی بھی نئی جگہ یا نئے ملک کی تہذیب وثقافت کواپنا نہیں سمجھتے۔ ان کو ہمیشہ یہی احساس رہتا ہے کہ ان کا حقیقی وطن ہمیشہ ان کا اپنا ہی وطن ہے۔ نئے ملک کی تہذیب وثقافت اورثقافتی روایات واقدار انہیں ہمیشہ اجنبی، سرد مہر او رنامانوس ہی لگتی ہیں۔ وہ اپنی یا آئندہ نسلوں کو میزبان تہذیب و ثقافت میں مدغم نہیں کرنا چاہتے ان کا مذہبی او رنسلی شعور ان کو اپنی آبائی شناخت اور تہذیبی و ثقافتی پہچان سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اپنی جڑوں سے ہمیشہ جڑے رہنے کو ہی اعلیٰ خیال تصور کرتے ہیں۔ وطن سے دوری کو ایک کرب کی صورت محسوس کرتے ہیں۔ ان افراد کے لیے ان کی شناخت، تشخص ہی ان کے ذہن وقلب میں سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھرتا ہے۔ ڈائیا سپورک ادب کا سب سے بڑا سوال تہذیبی شناخت کا ہے۔ کل کا ادیب جوکچھ عرصہ قبل فر د کی گمشدگی کااعلان کررہا تھا آج اپنی ہی تہذیب وثقافت کے حوالہ سے اپنی شناخت او ر تشخص کے لیے نوحہ کناں ہے۔ فرد کے تشخص کی شناخت کے حوالہ سے یہ بیان ملاحظ ہو: "ادب شناخت کو بنانے اور ان کی تصدیق کا ایک طریقہ کار ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے زمانے کی ایک علامت کے طور پر شناخت کی سیاست کو ایک ایسی بین مرکزیت حاصل ہوگئی ہے جس نے ادب کے روایتی تصورات کو پس پشت ڈال کر انہیں اذکار رفتہ بنادیا۔ ایک جہت میں چلنے والا ادب نو آبادیاتی ادب، ہجرت اورترک وطن کاادب(Diaspora)صہیونی ادب، سیاہ فاموں کا ادب، نسائی ادب، ہم جنسی کا ادب، دلت ادب، اقلیت کا ادب، زندانی ادب، احتجاجی ادب وغیرہ یہ سبھی تصورات شناخت کو سب سے اہم اوربنیادی مسئلہ قراردینےپراصرارکرتےہیں"4

ہجرت کے تجربہ اپنی قدامت کے اعتبار سے اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان، انسان کی زندگی او رخصوصاً اس دورجدید میں مابعد نو آبادیاتی یا پوسٹ کولونیل یا پس نو آبادیاتی نظام کے تحت حیات انسانی میں جن تغیرات اورنفسیاتی مدد وجزر کا سبب بن رہا ہے۔ ادبی متون خاص پس نو آبادیاتی نظام کے تصورات میں ہجرت، جلاوطنی اور تارک الوطن کے مسائل یا ان کی کش مکش حیات کا بیانیہ ایک واضح عنصر کے طور پرموجودہے۔ مابعد نو آبادیاتی سماج تہذیبی و جغرافیائی انتشار بکھراؤ کو جنم دیتا ہے۔ پس نو آبادیاتی تصورات ایک دنیا کی شناخت اور دوسری محکوم و کمزور یا اصطلاحاً تیسری دنیا کے معدوم ہونے کی بازگشت ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا کہنا ہے کہ: "یہ دنیا کسی غیب، کسی عدم سے اچانک خدائی حکمت سے وجود میں نہیں آئی بل کہ ایک دوسری دنیا کی شکست و ریخت کے سوچے سمجھے پر اجیکٹ کے طور پر وجود میں آئی ہے"5

یہ دراصل وہ نظام حیات ہے جس میں مالیاتی نظام پر اپنی جڑیں مضبوط کر تا ہے اور یہ زندگی کی اقدار کومادیت پرستی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

نو آبادیاتی نظام کے خاتمہ پر تاریخ جس ہجرت او رجلا وطنی /تارک الوطنی کا مشاہدہ کرتی ہے ادب میں بھی اس کا خاصا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ہجرت اور جلا وطنی خواہ نو آبادیاتی نظام کے اندر ہو یا بعد نو آبادیاتی نظام کے ہمیشہ مہاجرین اور تارک الوطنی اور جلاوطن لوگوں میں ایک احساس پیدا کرتی ہے جو بڑھتے بڑھتے احساس محرومی تک پہنچتا ہے اس احساس کی نفسیاتی او رجذباتی سطح پر بہت سی اقدار قابل مطالعہ ہیں۔ بہر حال1947 ء کی ہجرت کاادب میں بھرپور اظہار ملتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے لکھاریوں کے سامنے برصغیر پا ک وہند کے حوالہ سے ڈائی سپورا کا سب سے اہم سوال یا حصہ برصغیر کی آزادی کے بعد کا وقت ہوناچاہیے۔ برصغیر پاک و ہند کے ڈائی سپورا کا اہم ترین جز مسلم متوسط طبقہ ہے جو ابھی تک اپنی اس نفسیات سے باہر نہ آسکا کہ کبھی ان کے آباؤ اجداد نے بھی وہاں حکومت کی تھی۔ اس کے برعکس برصغیر پاک و ہند اپنی آزادی کے ستر سال بعد بھی احساس کم تری میں مبتلا ہے اوراحساس غلامی آج بھی ذہنوں میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب کی وکٹوریائی اقدار کی برتری او رعلویت کو ذہنوں پر ملکیت حاصل ہے اردو زبان اور ادب میں اس احساس کااظہار کبھی اخباری اور خبری سطح پر ہوا۔ ہجرت اورجلاوطنی او رآزادی برصغیر میں مارے جانے والوں اور متاثرین کی عدولی خبر کا اظہار افسانوں میں نظر آتا ہے جب کہ دوسری طرف اس کا اطہار وسیع تر سیاسی، سماجی، معاشرتی، نفسیاتی، علمی و فکری تناظر میں انسانی المیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں اردو ادب کے نمائندگان شعرا (نظم و غزل و مرثیہ و شہر آشوب) او رنثر میں افسانوی ادب و ناول نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ اس دور کے ادبا نے اس خط کی عمومی نفسیات کے برعکس اسے نوشتہ تقدیر کا درس دینے کی بجائے اسے بشری سطح پر پیش کیا۔ برصغیر میں ہجرت عمل تقسیم اور فسادات کے بعد پوری شدت سے ابھر کر سامنے آیا۔ جوں جوں حالات میں تبدیلی آتی گئی ان فسادات او رہجرت کے واقعات کے اسباب کے اثرات میں کمی ہوتی گئی، البتہ پاکستان کے حوالہ سے مارشل لاء ،1965 ء کی جنگ اور بعدازاں 1971 ء کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی بنگلہ دیش کے طور پر نمودار ہونے نے پرانے زخموں کو پھر تازہ کر دیا۔ فوری نوعیت کے ان واقعات نے جو فوری رد عمل دکھایا تھا اس کے اثرات اب بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں، لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں میں ہجرت اورجلاوطنی کی جو نوعیت دیکھنے میں آئی ہے ا س کر براہ راست ڈانڈے بین الاقوامی سیاست سے جا ملتے ہیں، خصوصاً 11/9 کے اثرات اور واقعات نے تما م شعبہ ہائے زندگی کو نہ صرف امریکہ بل کہ پوری دنیا میں متاثر کیا ہے۔ ان واقعات کے اثرات میں جو معاشرے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان کا تعلق نو آبادیاتی نظام سے آزادی پانے والے معاشرے اورپس نو آبادیاتی نظام کے زیر اثر لوگوں سے تھا۔ تقسیم ہند کے بعد مہاجرت کے لحاظ سے ہندوستانی مہاجرت کا تعلق تاریخی، سیاسی، معاشی، تعلیمی او ربہتر روزگار جیسے محرکات سے ہے اور اسی کے سبب ہندوستانی مہاجرت نے اپنی اس ہجرت کو مثبت سمت دی ہے اس کے برعکس پاکستانی ادب میں ترک وطن، ہجرت او رجلاوطنی کو انتہائی تکلیف دہ پیش کیا ہے۔ اگرچہ وطن سے دوری، خاصی تکلیف دہ او رفطری تقاضا ہے لیکن ہندوستانی ڈائیا سپورا نے اجنبی دیسوں میں اپنی کمیونٹی کے ارتباط او رباہمی میل جول کے سبب اپنے اس احساس تنہائی اور فرقت کے احساس کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی اردو ادب میں ہجر ت و جلا وطنی کا اظہار مختلف روش میں ہے اور دونوں ملکوں کے ادیبوں کے ہاں مختلف طرز احساس جنم لے رہا ہے۔اسی طرز احساس کا نتیجہ ہے کہ جو اردو زبان و ادب میں لکھا جار ہا ہے چاہے وہ جلا وطنی او رہجرت کے حوالہ سے ہے یا تارک الوطنی کے حوالہ سے۔ وہ پس نو آبادیاتی سماج اورتہذیب وثقافت والے معاشرے میں اپنے لیے جگہ بنا رہا ہے او رغالباً ہند پاکستانی تہذیب کی دیگر اقوام کے ساتھ باہمی میل جول یا ربط پیدا کرنے کی بہترین صلاحیت ہی اس کی تعمیر و ترقی اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم اہنگی میں توازن پیدا کرتی ہے۔ پاکستانی جلا وطن ادب کی جہات کا آغاز ہی ایسے ادیبوں نے کیا جو دراصل ہجرت کر کے اپنے نئے وطن اور ملک پاکستان آئے تھے۔ ہجرت تو کر لی مگر اپنے دل و دماغ کو پرانی یادوں او رپرانے دیس کے ساتھ ہی مربوط رکھا۔ یادوں میں آبائی وطن ہی آباد رہا۔ ایسا رویہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ہوئے ادیبوں کی تحریروں میں پایا جاتا ہے یہ دکھ اور درد کرب کی حالت کو اس وقت پہنچ جاتا ہے جب ان ادیبوں کی امیدوں او رخوابوں کی سر زمین پاکستان میں اپنی حیثیت اور امیدوں پر پانی پھرتا نظر آیا۔ تو ہر حساس اور باشعور ادیب چیخ اٹھا۔ ہجرت کے حوالہ سے یہ بیان قابل تحسین ہے: "ہجرت ایک زمین سے دوسری کی طرف سفر نہیں ہے بلکہ رشتوں کے جو انسانوں کے درمیان ہوں، ان علامتوں کے جوان سے ظاہر ہوں ان ترجیحات اور معنویتوں کے پورے نظام سے جو اس سرزمین پر ایک تاریخ نے قائم کی ہوں، سفر ہے" 6

ہجرت خواہ جبری ہو خواہ لوازمات زندگی کے حصول کے پیش نظر، نئی جگہ، نئی اقدار و روایات، ثقافت و تہذیب زبان کو اپنے ساتھ ہی لے آتی ہے۔ اسی کے سبب گزرا ہوا ماضی، اس کی یادیں، اس کی تہذیب و ثقافت اورگزشتہ زندگی کے اطوار اورعادات رسوم و رواج اور روایات کو دروازے کے باہر ہی چھوڑ کر اگلی زندگی اور اس کے مسائل اور ان کے حل کی طرف توجہ بھی کرنا پڑتی ہے۔ جلا وطن لوگ اجنبی دیسوں میں اپنی تقدیر کو سنوارنے کے لیے ہجرت کر گئے اور یہ ہجرت عموماً نو آبادیاتی نظام سے مابعد نو آبادیاتی یا پس نو آبادیاتی نظام کی طرف ہجرت ہے۔ اس ہجرت اور جلاوطنی کا مقصد محض خوش حالی کے اس سراب کے پیچھے بھاگنا ہے جو جدید دور میں خوشیوں کا واحد معیار بن چکا ہے۔ قیا م پاکستان برعظیم کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ ہندو اس تقسیم کو برداشت نہ کر سکے۔ پاکستان محض ایک خطہ زمین نہ تھی بل کہ ایک مخصوص نظریہ، ثقافت، زبان، کلچر، رسوم او رتہذیب کا مرکز تھا۔ قیام پاکستان برعظیم کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی بنیاد اسلام کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص تہذیب، تمدن اوررسوم و رواج پر بھی ہے1947ء کے بعد پاکستان میں اردو ادب کی صورت حال میں تبدیلی نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے تقسیم ہند کا براہ راست اثر ادب پر پڑا۔ ادب کی تصانیف میں افسردگی، وطن سے دوری کا اثر، یاد ماضی، اپنوں کے بچھڑنے کا عم جیسے عناصر نمایاں دکھائی دینے لگے۔ اگر ہم نظم و نثر دونوں حوالوں سے دیکھیں تو دونوں اصناف نے اس تبدیلی کو گہرائی سے قبول کیا اور اس کے اثرات اس دور کی تصانیف میں واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد جو نظمیں لکھی گئیں ان میں فسادات، ہجرت مہاجرین کی کسمپرسی، بے روز گاری، خون ریزی، زبوں حالی او رمعاشی و معاشرتی ابتری او ربد حالی کو موضوع بنایاگیا۔

اردو نظم نے تقسیم برصغیر کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت او رجلا وطنی سے پیدا شدہ مصائب کو کسی بھی دوسری صنف ادب سے زیادہ محسوس کیا اردو شاعری میں غم کی روایت تو میر تقی میر کے عہد سے بھی پیشتر رائج تھی جسے میر نے اپنی شاعری میں بیان کر کے عالمگیر حیثیت عطا کی۔ نظم ہو یا غزل غم اور درد کا شروع سے ہی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوسرے لفظوں میں جہاں غم، دکھ، افسوس، کرب، ہو وہاں نظم یا غزل نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ ہجرت کے کرب میں دو طرح کی کیفیات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ایک تو آبائی وطن کی یاد ستاتی ہے جہاں بچپن اور جوانی گزری ہو یا پھر اس کی زندگی کی بیشتر یادیں اس مٹی سے وابستہ ہو تی ہیں یہی وجہ ہے کہ 1947 ء میں بہت سے ایسے افراد جو بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے وہ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ نے او رایک نئے وطن میں آنے کے لیے تیار نہ تھے۔نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان رشتوں میں دراڑ بھی اسی فاصلے " Generation Gap"کے سبب پڑی۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ ایک نئے ملک، نئے وطن اور نئی جگہ پہ حالات کیسے ہوں گے؟ جب ہجرت کی منازل طے کرتے لوگ یہاں آئے تو انھیں جن حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی ان کے لیے خوش گوار نہیں تھے۔

بیسویں صدی کے تیسرے او رچوتھے عشرے میں سماج میں حقیقت نگاری کی تحریک شروع ہوئی تو اردو نظم نے بھی اپنا رخ بدلا۔ اس تحریک سے وابستہ شعرا نے سائنسی نقطہ نظر کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی حقیقت نگاری کی سچی تصویریں پیش کرنا شروع کر دیں۔ اس دور کی نظم کے موضوعات میں انقلابی تبدیلی کے آثار ملتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے قیام کے کچھ عرصہ بعد حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے نظم میں کسی حد تک ادبی اقدار کا نزول ہوتا ہے اورادب برائے ادب کا نظریہ نطم کو کثیف خیالات سے واپس لطیف احساسات و جذبات کی ترجمانی کی طرف لے جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے تقریبا ً وسط میں قیام پاکستان سے جہاں سیاسی، معاشرتی او رمعاشی حالات میں تبدیلیاں آئیں وہیں انگریزوں کے سارے نو آبادیاتی نظام کا ڈھانچہ بھی بکھر گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تبدیلی مثبت انداز میں ظہور پذیر ہوتی لیکن ایسا نہ ہو سکا کیوں کہ تقسیم کے نتیجے ملکی سرحدیں ہی تبدیل ہوئی تھیں چہر ے بدلے تھے سماج نہیں بدلے تھے، ظلم و جبر کے پیمانے نہیں بدلے تھے۔ اگریہ سب کچھ نہیں بدلا تھا تو پھر نظم کیسے دکھوں کی جگہ، پھولوں کی نمائش کے اظہار بیان کے لیے اپنا دامن وسیع کر سکتی تھی۔ ملک نیا تھا لیکن نظام تو وہی گھسا پٹا، فرسودہ، جاگیر داری، زمینداری نظام، کچھ انگریزوں سے ادھار لیا ہوا، غلامانہ ذہنیت رکھنے والے سیاسی زعما سے یہ توقع رکھنا ہی عبث تھا کہ وہ غلامانہ نظام کی مذمت کرتے ہوئے ایک نئے ملک میں ایک نیا نظام نافذ کرنے کی بھرپور سعی کرتے۔

ملک میں 1958 ء میں پہلے مارشل لاء کا نفاذ بھی ایک نئے نظام کی راہ کی رکاوٹ بنا۔ اس سے سوچ پر پہرے بٹھا دیے گئے۔ زبان بندی کا دستور نافذ کیا گیا۔ سیاست اورادب ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے۔ کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے اس ماحول میں ایک غیر جانبدار ادب قابل قبول نہیں ہوتا۔ حکومتی اقدامات کی شدت دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں تو تھی ہی لیکن ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا نظم ایسے ماحول میں علامت کے طور پر آگئی اور بہت سے شعرا حکومتی اقدامات کی وجہ سے علامات کاسہارا لینے پر مجبور ہوگئے کہ اس دور میں جبر کے خلاف مزاحمت کے آثار نظر نہیں آتے ہیں جو تھوڑے بہت تھے بھی تو ان کو کسی نے اتنی اہمیت نہ دی۔ نظم میں مزاحمت سے زیادہ علامت کا دور تھا۔پھر اسی علامت و تجرید کی وسیع شکل نئی لسانی تشکیلات کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔ اس دہائی میں درحقیقت نظم کی ہیئت میں توڑ پھوڑ کا عمل زیادہ نظر آتا ہے۔ نظم میں اس کا سہرا افتخار جالب کے سربندھتا ہے وہ شعرا جنھوں نے ہجرت، جلاوطنی اورتارک الوطنی کا کرب محسوس کیا او راپنی نظموں میں اس کا اظہار کیا ان میں فیض احمد فیض کی نظم "سحر"، مخمور جالندھری "اغوا"، تابش دہلوی "یاد" ظہیر کاشمیری کی نظم "زندگی"، ضیاء جالندھری کی نظم "اجالا" فکر تونسوی کی نظم"آزادی کے بعد" قیوم نظر کی "امن" مسعود حسن کی نظم"خلا" ساحر لدھیانوی کی نظم"مفاہمت" علی سردار جعفری کی نظم"خون کی لکیر" احمد ندیم قاسمی کی "مہاراج ادھیراج" او رکیفی اعظمی کی نظم "مصالحت" کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ ناصر کاظمی او رحبیب جالب کی نظم تو اپنی مثال آپ ہے کلاسیکی نظم گو شعرا میں ناصر کاظمی پاکستانی نظم میں سر فہرست ہیں پاکستانی نظم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی چند نام نظم و غزل کے افق پر ایسے ملے جنھوں نے اردو شاعری کو سہارا دیا۔اس قافلے کے سالار اعظم ناصر کاظمی کو کہا جاسکتا ہے۔ ناصر کاظمی کے ساتھ ساتھ مصطفی زیدی، مجید امجد، ضیاء جالندھری، ادا جعفری، منیر نیازی، حبیب جالب، فیض احمد فیض، پروین شاکر وغیرہ شامل کیے جا سکتے ہیں۔ شاعری میں 1947ء کی شدت اورہجرت کے کرب کو جس طرح ناصر کاظمی نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا اس کی مثال دوسرے شعرا کے ہاں کم ملتی ہے۔ ان کی شاعری چاہے وہ نظم ہے یا غزل نے یاد ماضی کو بہت گہرائی سے محسوس کیاہے اس درد اور کرب کی شدت کو ان کی شاعری میں بہ کثرت محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں بار بار گزشتہ دور کی عظمت رفتہ کو آواز دینے کا عمل بھی نظر آتا ہے ذیل کا بیان ملاحظہ ہو: "ناصر کاظمی نے میرؔ کی ہجرت کے تجربے کو تقسیم ملک کے بعد کی ہجرت کے عام تجربے کے تناظر میں دیکھا ہے اور اس سے ذہنی تاثرات اخذ کیے ہیں اس لیے ناصر کے ہاں میر ؔ کے رنگ کا اثر ہے"7

پاکستانی شاعری میں ایک موڑ اس وقت جب ساٹھ کی دہائی میں لسانی تشکیلات کے حوالہ سے شاعری میں آنے والی تبدیلی کاعمل ستر (70) کی دہائی میں داخل ہو جاتا ہے اور مارشل لا کے بعد کے حالات میں تبدیلی آجاتی ہے لیکن چند ہی سال بعد پھر سے وہی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے اورشاعری کے اظہار پر طرح طرح کی قدغن لگائی جاتی ہے پھر اس دہائی کے آخر پر لگنے پر مارشل لاء سے مزاحمتی ادب کی راہ ہموار ہو جاتی ہے اورشاعری میں نیا لہجہ سامنے آتا ہے جو علامتوں کے معانی و مفاہیم ہی بدل کر رہ جاتے ہیں۔ اس دور کے معروف شعرا ء میں احمد فراز، سلیم شاہد، افتخار عارف، حمایت علی شاعر، حامد عزیز مدنی، منیر نیازی، عبیداللہ علیم، شہزاد احمد، جون ایلیا، کشور ناہید، حبیب جالب، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر اور فیض احمد فیض کانام شمار ہوتا ہے۔

اردو ادب میں ہجرت کا موضوع ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ہجرت خواہ عارضی ہو یا مستقل یہ ایک محسوس ہونے والا عمل ہے۔ اپنے آبائی گاؤں، شہر او رملک سے ہر فرد کو محبت ہوتی ہے۔ ہجرت صرف اپنے مولد سے بچھڑنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب او رتمدن سے جدا ہونے کابھی المیہ ہے۔ 1947 ء کی اور نقل مکانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ بن کر ابھرا او راس المیے کا سب سے خوف ناک او ردہشت ناک پہلو فسادات میں کم وبیش پانچ لاکھ انسانوں کا قتل ہو جاتا ہے جن کے سبب ہرطرف انسانی اعضاء کا بکھراؤ اورخون کی ندیوں کا بہنا تاریخ کے صفحات میں رقم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت نہ صرف ہمارا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ زمانے کے ہاتھوں برباد ہوا بل کہ اس صورت حال کا اظہار شعر و ادب میں بار بار ہوا۔

ہجرت اور جلا وطنی کے حوالہ سے ہندوستان کے عظیم مفکر اورپس نو آبادیاتی نظام کے نقاد "ہومی کے بھا بھا" نے لکھا: " ہم عصری تنقیدی نظریات کی وسعت اس امر کی شاہد ہے کہ ہم ان لوگوں سے جنہوں نے تاریخ کی سزا بھگتی ہو، غلامی غلبے، بکھراؤ (Diaspora) بے مکانی، زندہ رہنے اور سوچنے کے دیر پاسبق سیکھتے ہیں"8

اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب کی جو بھی جہت ہو وہ انسانی زندگی کے تنوع، تغیر، تبدیلی او رآنے والے وقتوں کی کروٹ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ Diasporaکے لحاظ سے تخلیق کیا جانے والا ادب بھی اس لحاظ سے وہی کردار ادا کرتا ہے جو کسی نئے معاشرہ، ملک، آبادی یا وطن او رسماج میں کلچر او رروزہ مرہ کو سمجھنے میں جلا وطنوں، مہاجرین اورتارکین وطن کو وہاں موجود ہم وطن فراہم او رمہیا کرتے ہیں۔ ادب کے سنجیدہ قارئین او رلکھاریوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ادب میں ہجرت او رجلا وطنی کے اعتبار سے جن جدید اقدار کو وہ فروغ دے رہے ہیں وہ اس گلوبلائزیشن کے دور میں فرد کی بہتری اور اس کی ترقی پذیر شعور کے لیے کس قدر مثبت یا مؤثر کردار ادا کررہی ہے۔ ایک طرف وہ ادیب اور لکھاری ملتے ہیں جو جلا وطنی اور ہجرت کو ماضی سے جڑی یادوں، گم گشتہ جنت (آبائی وطن) اورتہذیبی نوحہ کا مقام دے رہے ہیں جب کہ دوسری طرف وہ ادیب او رلکھاری ہیں جو اس ہجرت او رجلا وطنی کے تصور سے نئے آنے والے زمانوں کے مسائل، مشکلات او ران سے نمٹنے کیلیے آگاہی کا سامان کرر ہے ہیں۔ مثبت رویے، مثبت سوچ اور اقدار پر مبنی تصورات سے فرد کی تہذیب ومعاشرت کوفروغ دے رہے ہیں۔ Diasporicادب اس وقت علم بشریات او رکلچر کی تفہیم میں ممد و معاون ہے، لہٰذا اس ادب کامطالعہ مہاجرین، جلا وطن، اور تارکین وطن کے معاشی، معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی، نفسیاتی، علمی و ادبی اور فکری رویوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ پس نو آبادیاتی ادب میں ہجرت ایک بالکل الگ اور مختلف تناظر میں سامنے آتی ہے مختلف سماج اور معاشروں کا تضاد اپنی جگہ لیکن آج کا دور ماضی سے چمٹنے کی بجائے حال کا ماضی سے تقابل اور اس تقابل کی بناء پر مستقبل کی منصوبہ بندی کا دور ہے۔ قوموں اور افراد کے لیے زندگی متحرک او رمختلف النوع افراد سے معاملہ کرنے کا دوسرا نام او رکام بن چکی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے ادیب اور شعرا کو ناامیدی، یاس انگیزی، ماضی کے کرب، ہجرت او رجلا وطنی سے پیدا ہوتے دکھ اور درد، ملال او رالمیاتی دنیا جو اس ہجرت اور جلاوطنی کے سبب جو مسافرت، بے چینی پیدا ہوتی ہے، سے نکل کر عملی تصورات کو اپنی زندگیوں میں مزین کرنا چاہیے، ماضی کو اگرچہ پیش نظر رکھا جائے البتہ ماضی کے ان اندوہ ناک یادوں کو سینے سے لگائے رکھنے کی بجائے اپنے حال اور اسی حال کے بل پر مستقبل کی فکر اور سوچ کرنی چاہیے تاکہ اس مادیت پرستی کے دو رکا مقابلہ کیا جا سکے او راپنے اوپر موجود نو آبادیاتی نظام کے اثرات جواب مابعد نو آبادیاتی نظام یا پس نو آبادیاتی نظام کے سبب غلامانہ ذہن اور سوچ کے عکاس ہیں، سے باہر آیا جائے او راپنے اسی ذہنی تسلط کو جڑے سے اکھاڑ پھینکا جائے او رایک نئی اور روشن دنیا کا آغاز کیا جائے۔ ہجرت و جلاوطنی کے حوالہ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی

مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی

یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے

سنا ہے میں نے لوگوں کی زبانی

یہاں اک شہر تھا شہر نگاراں

نہ چھوری وقت نے اس کی نشانی9

 

منیر نیازی نے لکھا:

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 10

افتخار عارف کے بقول:

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

کہ اک عمر چلے اور گھر نہیں آیا 11

٭٭٭

 

1 رومیتری الماس، اردو افسانے میں جلاوطنی کا اظہار (اسلام آباد :مقتدرہ قومی زبان ، 2012ء)،20۔

2 ایضاً، 21۔

3 www. en.wikipedia.org/Diaspora

4 پروفیسرصغرا ابراہیم ، 21 صدی کے ابتدا ء میں اردو افسانہ (اسلام آباد :تبیان ، 2011ء)،299۔

5 ڈاکٹر ناصر عباس نیر،"سفید خون کی سیاست" مشمولہ کہانی گھر، کتابی سلسلہ، 314 (2014ء)،519۔

6 ڈاکٹر فاروق عثمان، اردو ناول میں مسلم ثقافت (ملتان : بیکن ہاؤس ، 2002ء)،423۔

7 ڈاکٹر وقار احمد رضوی، تاریخ جدید اردو غزل (اسلام آباد : نیشنل بک فاؤنڈیشن ، 1988ء)،108۔

8 دیو یندرا سر،"قرۃ العین حیدر۔۔ جلاوطنی کا ذاتی اور تہذیبی المیہ"مشمولہ، سطور، خصوصی مطالعہ قرۃ العین حیدر (ملتان : بیکن بکس ، 2003ء)،520۔

9 ناصر کاظمی،دیوان ناصر(لاہور: جہانگیر بکس ، س۔نء)،18۔

10 www.Rekhta.com/ Muneer Niazi

11 www.Rekhta.com/ Iftikhar Arif

 

1

 

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index