Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Negotiations > Volume 1 Issue 3 of Negotiations

عمران اقبال کی افسانہ نگاری میں تانیثی شعور |
Negotiations
Negotiations

تلخیص:

اردوافسانہ نگاری میں عمران اقبال کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ان کا تعلق بہاول پور سے ہے تاہم وہ بسلسلہ روزگار امریکہ میں مقیم ہیں۔ عمران اقبال نے سفرنامہ ،افسانہ ،ناول اور تذکرہ نگاری میں طبع آزمائی کی ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں عورت اور اس کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ عمران اقبال نے ایسی عورت کی حقیقی تصویر پیش کی ہے جسے ہر قدم پر مرد کے جابرانہ رویے ،فرسودہ رسم و رواج،شوہر اور سسرال کے مظالم،خانگی تشدد اور جنسی ہراسانی کی مختلف صورتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے افسانوں میں عورت کے نفسیاتی مسائل ،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں،بیوروکریٹس اور افسران بالا کی جنسی بھوک کی عکاسی کی گئی ہے۔ عمران اقبال نے اپنے قلم کے ذریعے تانیثی شعور بیدار کیا ہے۔

اردو فکشن کی دنیا میں ایک معتبر اور معروف نام عمران اقبال کا ہے جن کی پیدائش بہاول پور میں یکم اگست ۱۹۵۷ءکو ہوئی ۔انھوں نےابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیےامریکہ چلے گئے۔عمران اقبال نے عملی زندگی کا آغاز وکیل کی حیثیت سے کیا ، اس کے بعدانہوں نے لاہور کی فلمی صنعت میں قسمت آزمائی جب کہ کچھ عرصہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔اس کے بعدانھوں نے روزگار کے سلسلے میں امریکہ میں سکونت اختیار کی اور وہ آج کل بھی وہیں مقیم ہیں۔

عمران اقبال نے اردو ادب کو سفرناموں ،افسانوں ،ناول اور تذکرہ نگاری سے نوازا ہے ۔نثر نگاری ان کابنیادی حوالہ ہے۔انھوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی ادب و ثقافت اور سیاست میں حصّہ لینا شروع کر دیا تھا۔بچپن سے انہیں کہانیاں ،ناول، بچوں کے رسالے،اخبارات ،میگزین پڑھنے کا شوق تھا۔ ان کا پہلا افسانہ۱۹۷۴ء میں"جھوٹے سپنے"جب کہ دوسرا افسانہ"شعلے"کے عنوان سے ماہنامہ'' شمع'' کراچی میں شائع ہوا۔ماہنامہ'' شمع'' دہلی میں بھی ان کے افسانےشائع ہوتے رہےاسی طرح وہ کراچی سے چھپنے والےماہنامہ'' سپورٹس آبزرور ''کے لکھاری بھی رہے اور پھر یہ سلسلہ'' آداب عرض ''اور ''سلام عرض'' جیسے ادبی میگزین تک پھیل گیا۔ان کی تحریریں رسالہ '' فراست ''بہاول پور اور ''اخبار جہاں'' کراچی میں شائع ہوتی رہیں۔

عمران اقبال کا پہلاسفرنامہ"بحر اوقیانوس کے کنارے"بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس کے دو ایڈیشن بالترتیب۱۹۹۷ءاور۲۰۰۸ءمیں شائع ہوچکے ہیں۔دوسراسفرنامہ" پردیس میں کبھی کبھی "۲۰۰۰ء میں منظر عام پر آیا۔

افسانوی مجموعہ میں"آخری عورت" ، ''ادھورےخواب کا منظر"،" مون سون"اور "نام گم ہو جاتے ہیں"نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ناول"لندن کی وہ شام "بہاول پور اور لندن کے مکینوں کی زندگیوں کا خوبصورت مرقع ہے۔تذکروں پر مبنی کتاب"بہاول پور میں اردو شاعری"کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔

عمران اقبال ایک سوشل ورکر ہیں۔وہ چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کے وائس چئیر مین بھی رہے جب کہ بہاول پور کی قدیم ادبی تنظیم ''چولستان علمی و ادبی فورم ''کے بانی اراکین میں شامل ہیں۔چولستان علمی وادبی فورم نےعمران اقبال کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑ ھایا ۔ عمران اقبال ڈربن ساؤتھ افریقہ کی تنظیم اسلامک سنٹر انٹر نیشنل کے تاحیات رکن ہیں۔انھوں نے فوٹوگرافی میں متعدد اعزازات حاصل کیے ہیں۔ان کی اکثر تصانیف کے سرورق ان کی فوٹو گرافی کے فن کمال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔عمران اقبال امریکہ کے انٹر نیشنل فری لانس فوٹو گرافر آرگنائزیشن واشنگٹن ڈی سی کے بھی تا حیات ممبر ہیں۔ عمران اقبال کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو ادب سے وابستگی ہے۔

عمران اقبال کی تخلیقات میں افسانہ ،ناول ،سفرنامہ اور تذکرہ شامل ہے۔وہ اپنے منفرد اندازِ تحریرکی بدولت اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔بحیثیت فکشن نگار انھوں نے اپنے افسانوں میں عورت اور اس کے مسائل کو پیش کیا ہے۔معاشرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وہ اپنے افسانوں کی مظلوم اور بے بس عورت کو ظلم کی چکی میں پستے ہوئے دکھاتے ہیں: جب عملی کردار ہی شخصیت اور میلان کی کسوٹی ہے تو ہمارے لیے ان عوامل کا مطالعہ ضروری ہے جن کا نتیجہ عورت کی مسخ شدہ شخصیت ہے۔1

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بعض اوقات زندگی میں اپنی عزت کو بچانے کے لیے ایسے اقدامات اٹھالیتے ہیں جو ان کو سخت تکلیف پہنچاتے ہیں۔انہیں اپنی عزت تکلیف سے زیادہ عزیز ہوتی ہےکیونکہ مفلس لوگوں کے پاس عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور وہ اس کی حفاظت جان سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں۔خالہ پروین اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ نیک نامی کو بچانے کے لیے وہ اپنی بیٹی ندا کو دلہن کے جوڑے میں زہر دے کر ماردیتی ہےاورندیم کو اس کی رخصتی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہے: میں نے ندا کو دلہن بناکر زہر دے دیا اور اس کی رخصتی کردی۔لیکن وہ میرے پاس ہی رہی۔میں اس کے بنا بھی تو نہیں رہ سکتی تھی مجھے ڈر لگتا تھا۔تم دیکھو نا،اسے چنبیلی کے پھول پسند تھے۔میں روزانہ یہ پھول اس کے قدموں میں ڈالتی رہی ہوں۔2

افسانہ "الزبتھ "میں مشرقی و مغربی تہذیبیں آپس میں متصادم نظر آتی ہیں۔مغربی تہذیب کی نمائندہ الزبتھ مرکزی کردار ظہیر کو

اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے۔اپنے اپاہج شوہر سے متنفر جنسی تسکین کے حصول کے لیے مختلف لوگوں سے مراسم قائم کرتی ہےجسے مشرقی معاشرے میں بالکل بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔مشرقی تہذیب قدیم روایات کی امین ہے جبکہ مغربی تہذیب میں بے راہ روی عام ہے۔جہاں مغربی معاشرے میں برائیاں پائی جاتی ہیں وہیں کچھ اچھائیاں بھی موجود ہیں۔

" آنکھیں کھارے پانی کا سمند ر "میں تبسم کو حالات کی چکی میں پستے ہوئے دکھایا گیا ہے۔جواپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کےگھروں میں کام کرنا شروع کردیتی ہے۔سخت محنت کے باوجود ان کی گزر اوقات مشکل سے ہوتی ہے۔باپ کے ہوتے ہوئے بھی زمانے کی ٹھوکریں اس کا نصیب ٹھہرتی ہیں۔

افسانے میں منظر کشی کا عنصر قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے۔بعض اوقات لوگوں کے معاشی حالات کا منظر الفاظ کی صورت میں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ قاری کے سامنے فلم سی چلنے لگتی ہے۔باپ تو اپنی بیٹیوں کی حفاظت خود سے بڑھ کر کرتے ہیں لیکن فضلو کاکردار ایک ایسے باپ کے طور پر سامنے آتاہے کہ جو اپنی غرض پوری کرنے کے لیے ہر حد پار کر دیتا ہے۔یہاں معاشرے کے منفی پہلوؤں کو دکھایا گیا ہے۔مجبور بیٹی کی بے بسی کے منظر کوتلخ انداز میں بیان کیا گیا ہے جو اپنے باپ سے سخت نفرت محسوس کرتی ہے:

" شام کے سائے رفتہ رفتہ سیاہی میں ڈوبتے جا رہے تھے اور وہ بنی سنوری بیٹھی تھی۔اسے اپنے باپ کے چہرے پر بے غیرتی کے سائے لہراتے نظر آئے۔نجانے کیوں اس کے دل میں طوفان سا اٹھا۔۔۔۔۔۔نفرتوں کا طوفان۔اس کا جی چاہا کہ وہ اس کا چہرہ ناخنوں سے لہو لہان کردے۔اس

نے سوچا یہ میرا کیسا باپ ہے جو اپنی غرض کے لیے خود اپنی بیٹی کا سودا کر رہا ہے۔ باپ تو بیٹیوں کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں۔لیکن یہ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ نہیں نہیں یہ میرا باپ نہیں ہو سکتا۔یہ تو میرادلال ہے۔شدید ترین نفرت کے زیر اثر وہ چیخ پڑی" 3

" آخری عورت"میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھریلو مسائل پیش کیے گئے ہیں۔شک ایک ایسی بیماری ہے جو سکون کو غارت کر دیتی ہے۔ اس کی بدولت خوش حال گھر انہ تباہ ہو جاتا ہے۔انسان نہ تو خود سکون سے رہتا ہے اور نہ ہی کسی اورکو رہنے دیتا ہے۔یوں شکی انسان ایک ان دیکھی آگ میں جلنے لگتا ہے۔مرکزی کردار فیصل اسی کشمکش سے دو چار ہو کر اپنی وفاداربیوی پہ شک کرتا ہے۔اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دیتا ہے تو وہ غصّےسےکہتی ہے کہ ایک کمزور انسان شک کی آگ میں خود بھی جھلستا ہے اور دوسروں کے لیے بھی آزمائش کا باعث بنتا ہے۔

روہی کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے۔ روہی سے جڑے ہوئے مسائل کو بڑی مہارت سے کہانی کا روپ دیا گیاہے۔ یہ ایک معنی خیز کہانی "بچھو" ہے۔بچھو کے زہریلے ہونے کو انسان کے زہریلے پن سے کم تر قرار دیا گیاہے۔افسانے میں روہی سے نکلنے والے کالے بچھو کا ذکر بھی ملتا ہے جو نہ صرف دیکھنےمیں خوفناک ہےبلکہ اس کا زہر بھی جانداروں کو تڑپا دیتا ہے۔یہ افسانہ روہی میں بسنے والے ایک خاندان کی داستان ہے۔سکو سونے جیسی رنگت والی لڑکی تھی ، خوبصورتی اس کے لیے وبال جان بن گئی :

" سکو جس کا اصل نام سکینہ تھا چولستان کے وسیع وعریض صحرا میں وہ پھول تھی جس کی خوشبو چہارسو پھیلنے لگی تھی۔جس کے رنگ قوس قزح کے رنگوں جیسے تھے۔تپتے سونے جیسی رنگت،پتلی کمر، ستواں ناک ،گہری اور سیاہ بھوری آنکھیں،لمبے سیاہ بال جو کسی ناگن کی طرح کمر سے نیچے تک لہراتے ہوئے سیاہ گھٹاؤں کوبھی شرمادیتے۔چال ایسی جیسے کوئی بدمست ہرنی ماحول سے بےخبر ہو۔ اٹھارہ سال کی عمرمیں اس کا شباب صحراؤں میں پکے ہوئے پیلو کی طرح رس کی بوندیں ٹپکاتا تھا" 4

جنس معاشرے کا ایک تاریک پہلو ہے۔شریف لڑکیاں اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ۔وحشی درندے ہر وقت اس تاک میں رہتے ہیں کہ کسی معصوم کی زندگی تباہ و برباد کردیں۔سچل ایک غریب چولستانی ہے جو اپنی بیٹی سکو کو گوشت خور وحشی درندوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود ناکام رہتا ہے۔وہ اپنی عزت محفوظ رکھنے کے لیے وہاں ہجرت کر تا ہےکہ جو سیاہ بچھوؤں کی آماجگاہ ہے۔ سچل انسان نما بچھوؤں سے ڈرتا ہے کہ کہیں اس کی عزت کو داغ نہ لگ جائے۔: عورت کا وجود ی شعور ایک ایسی زبان میں اظہار کرتا ہے جس میں جگہ جگہ رازداری کی کیفیت ہوتی ہے۔5

متوسط طبقے کے لوگوں کی مفلسی اور عزت کے لٹنے کو منفرد اور تلخ حقائق کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔بیٹی کی موت کا بدلہ لینے کے منظر کو تمام تر جزئیات سے پیش کر کےمعاشرے کے بھیانک چہروں کوبےنقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔افسانے کا اختتام چونکادینے والا ہے: " پو پھٹ رہی تھی۔غم سے نڈھال سچل اور حسینہ جوان بیٹی کی لاش کے سرہانے سر جھکائے خاموش تھے۔تیز ہوا میں چولھے کی راکھ اڑ رہی تھی۔سچل بوجھل قدموں سے اٹھا۔وہ گھر کے پچھواڑے میں آیا اوراس نے اپنی تیز دھار والی کلہاڑی اٹھائی اور باہر نکل گیا۔سورج طلوع ہوچکا تھا۔جاتے ستمبر میں اس روزسورج آگ برسا رہا تھا" 6

" دوسرا آدمی "کاموضوع غربت اوراس سےجنم لینے والے مسائل پر مشتمل ہے۔ معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امیر لوگ اپنی ہوس کو مٹانے کے لیےمجبور لڑکیوں کو استعمال کرتے ہیں اور اپنا مقصد پورا ہوتے ہی استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ممتاز خان رنگین مزاج ہونے کی بناء پر شازیہ کو عیش وعشرت کے سنہرے خواب دکھا کر اپنے جال میں پھنسالیتا ہے۔اس کے حسن کو امیر سوسائٹی میں کیش کروانے کے لیے شادی کی پیشکش کرتا ہے۔بیوٹی پارلر کی مالکن نفیسہ اسے ممتاز سے شادی کرنے کے لیے اکساتی ہے۔: " ویسے بھی ازدواجی زندگی میں ہر جگہ ڈرامہ ہو رہا ہے۔ کسی گھر میں عورت کے سامنے مرد اداکاری کر رہا ہےاور کہیں مرد کے ساتھ عورت اداکاری کر رہی ہے۔کچھ اخلاقی،سماجی،مذہبی اور قانونی پابندیوں کی وجہ سے بہت سی کوتاہیوں کے باوجود دونوں ایک دوسرے کےلیے برداشت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔تم بھی صرف سمجھوتہ کر رہی ہو۔ تمھارا شوہر ہرگز تمھارا آئیڈیل نہیں"7

مرکزی کردارشازیہ آسودہ حال رہنا چاہتی ہے اسی لیے وہ ایک صاحبِ حیثیت شخص ممتاز سے شادی کر لیتی ہے۔گھر کی چار دیواری میں غیر محفوظ یہ کردار ہمارے معاشرے کا حقیقی عکس ہے۔شادی کے فوراً بعدممتاز اسے افتخار احمد چوہدری کے بستر کی زینت بنا دیتا ہے۔ شازیہ کو ہرروز اذیت سے گزرنا پڑتا تھا۔آخر ایک دن وہ اپنی زندگی سے تنگ آکر خود پر تیزاب ڈال لیتی ہے: ہمارے اپنے معاشرے میں عورت بے پناہ زیادتیوں اور نا انصافیوں کا شکار ہے۔نہ اس کے دینی حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں نہ دینوی۔جاگیردارانہ معاشرہ عورت سے بھیڑ بکری جیسا سلوک کرتا ہے۔8

افسانہ"دھند" میں زندگی کے تلخ حقائق کو موضوع بنایا گیا ہے۔مشرقی اور مغربی تہذیب کے نمائندہ دو کرداروں کو شہزاد اور جولیٹ کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ان دونوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔وہ دونوں اپنے حصار میں قید نظر آتے ہیں۔مشرقی تہذیب کا نمائندہ شہزاد جولیٹ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔وہ جنسی تعلقات استوار کرنے کی بجائےاسے شادی کے لیے کہتا ہے تو اس پرجولیٹ تلخ اندازمیں جواب دیتی ہے : زندگی بہت خوبصورت ہے۔جیسے چاہو لطف اٹھاؤ۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ انسان کو رسم ورواج کی دیواروں میں قید کر دیا جائےاور پھر پیار،محبت۔۔۔۔۔ مجھے نفرت ہوگئی ہے ان کھوکھلے لفظوں سے۔کہاں تھی وہ محبت جب میں پیدا ہوئی۔تمھاری طرح کا کوئی انسان محبت کے نام پرمیری معصوم ماں کے بدن کو نوچتا کھسوٹتا رہا اور پھر ہمیشہ کے لیے اسے سسکنے اور تڑپنے کے لیے چھوڑ کر واپس چلا گیا۔9

" آخری اسٹیشن"میں عورت کے استحصال کو موضوع بنایا گیا ہے۔مرکزی کردار رخشندہ کے ذریعے ان عورتوں کی بے بسی کو ظاہر کیا گیا ہے کہ جو اپنے گھروں میں بھی خود کو گوشت خور درندوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتیں۔ظفر کے ساتھ شادی کے نتیجے میں اس کی زندگی جہنم بن گئی۔وہ جب بھی چاہتا رخشندہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا دیتا۔وہ انسان نہیں بلکہ ایک وحشی درندہ تھا۔یہ معاشرے کا المیہ ہے کہ جب عورتیں جنسی تشدد کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں تو انہیں مار پیٹ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مرکزی کردار بھی ایسے حالات سے دوچار ہے: ظفر کی آنکھیں غصّے سے ابل پڑیں۔وہ لال پیلا ہوتے ہوئے اول فول بکنے لگا۔تم جہیز میں جتنا زیور اور سامان لائی ہو وہ مجھے معلوم ہے۔شکر کرو تم جیسی لاوارث کو اس گھر میں پناہ مل گئی ہے تم ہو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جاہل مطلق۔10

مکالمے کو کہانی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔اس کے بغیر کہانی آگے نہیں بڑھ سکتی ۔جب محافظ ہی عزت کے دشمن بن جائیں تو عورت پل بھر میں مر جاتی ہے۔رخشندہ بھی اسی صورت حال سے دو چار ہے۔ ظفر اور رخشندہ کے درمیان مکالمہ ملاحظہ کریں: وہ انگلی نچاتے ہوئے بولا۔تمھارے لیے خوشخبری آج رات تمھاری اس خوبصورتی اور جوانی کا سودا ہوجائے گا۔ پھرتم۔۔ وہ حقارت سے بولا۔ کویت یا جہاں بھی جانا چاہو جاسکتی ہو۔ آپ کیا چاہتے ہیں۔میری زندگی تو برباد کر چکے ہیں ۔اب مجھے اسی وہ سسکتے ہوئے بولی۔ جہنم میں بقیہ زندگی جی لینے دیں۔11

یہ معاشرے کا المیہ ہے کہ شریف گھر کی لڑکیاں غربت سے تنگ آکر اپنی عزتوں کا سودا کرتی ہیں۔پیٹ کی خاطر انسان سب کچھ کر گزرتا ہے۔غریب کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔بے بس اور مجبور لڑکیاں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیےعزت کو داؤ پر لگادیتی ہیں۔افسانے کے دونوں کردار اسی صورتحال سے دو چار ہیں۔

انسان اپنی زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملتا ہے جو پہلی ملاقات میں ہی اپنا گہرا اثر چھوڑجاتے ہیں۔رابعہ پہلی نظرمیں ہی آصف کو دل دے بیٹھی اور یوں وہ ہر وقت اس کے خیالوں میں کھوئی رہتی ۔جلد ہی دونوں کے درمیان حیا کے پردے سمٹتے ہی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت آصف اس سے علیحدگی میں ملنے کی خواہش ظا ہر کرتے ہوئے اپنے انتقام کے بارے میں بتاتا ہے۔

افسانہ''ادھورے خواب کا منظر''میں تانیثی شعور کی جھلک نمایاں ہے۔طویل جدائی کے بعد ملن کی رُت نصیب والوں کے حصّے میں آتی ہے۔وصل کے چندلمحات میں انسان اپنی ساری زندگی جی لیتا ہے۔دکھ کے مقابلے میں خوشیوں کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔بعض اوقات انسان محبوب سےقربت کے لمحات کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ازل سے ہی محبت کا انجام جدائی رہا ہے۔ محبت کرنے والے ہمیشہ خالی ہاتھ اور خالی دامن رہ جاتے ہیں۔افسانے کے دونوں کردار ساجد ارمان اور افشین اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔عمران اقبال کے فن افسانہ نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر نجیب جمال رقمطراز ہیں: "آج جب میں ان کے افسانوں کا انتخاب کر رہا ہوں اور اس کی کہانیوں پر از سرِنو ایک نظر ڈال رہا ہوں تو یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے اپنی بصیرت کے مشاہدے اور تجربے کو ہم آمیز کر کے جو کہانیاں لکھی ہیں ان میں وہ خارج سے باطن کی تہہ میں اترتا ہے اور اس غواصی سے وہ انسانی لاشعور کی تہہ در تہہ لطافتوں اور کثافتوں کی خبر لاتا ہے"12

افسانہ "پاپ" تانیثی شعور کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس افسانے میں وڈیرے اور جاگیر داروں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔ طاقتور طبقہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ہمیشہ کے لیے دبا دیتا ہے۔یہ معاشرے کا المیہ ہے کہ غریب لوگ ہمیشہ ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا ان کے لیے باعثِ جرم بن جاتا ہے۔شیما بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے ۔ وہ خود کو بچانے کی کوشش میں موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے: ایک نوجوان عورت کی لاش چولستان کے گاؤں سانول کے ایک ٹوبے میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔لاش گل سڑگئی تھی۔پولیس موقع پر پہنچ گئی۔گاؤں کے زمیندار نے لاش کو شناخت کر لیا تھا۔شیماں ان کے گاؤں کی رہائشی تھی۔شاید کسی زہریلے جانور نے اسے کاٹ لیا تھا۔ پولیس نے اتفاقی حادثہ قرار دے کر لاش گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دے دی ۔13

"دھنک رنگ لڑکی "میں سمیرا کے کردار کو وفا شعار بیوی کے روپ میں دکھایا گیا ہےجو اپنی عزت کی خاطر دنیا کی ہر بڑی آسائش کو ٹھکرانا جانتی ہے۔ذیشان ملک گھٹیا کردار کا مالک ہے ،وہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت سمیرا کی زندگی میں آتا ہے تاکہ شادی کے بعد اسے گوشت خور وحشی درندوں کے حوالے کر سکے۔جلد ہی سمیرا سے شادی کرکےاسے اپنے دوستوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو سب مل کر اس کی عزت لوٹتے ہیں۔ہوش میں آتےہی وہ خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہتی اور ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے: تانیثیت کے مبلغ یہ مانتے ہیں کہ ادب اور زندگی میں جتنے بھی اصول بنائے گئے ہیں، وہ تمام مردوں نے ہی بنائے ہیں۔14

" دو راستے "میں عشرت محمود کی گندی ذہنیت کو اس کےکردار کے ذریعے پیش کیا گیا ہے جو اپنی شاطرانہ چال چلتے ہوئے ملازمت کی سہولتوں اور دیگر مالی فوائد کا ذکر کرتا ہے۔اس کی ساری باتیں سننے کے بعد لائبہ اپنی شخصی آزادی کو قائم رکھنے کی شرط رکھتے ہوئے کہتی ہے: میں کسی بھی قیمت پر اپنی شخصی آزادی سے محروم نہیں ہو نا چاہتی۔ میری تربیت اسی طرح ہوئی ہے اور شاید ہر انسان کی یہی تمنا ہے۔جو لڑکیاں ماڈرن ہوتی ہیں اور مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں وہ ضروری نہیں کہ بےشرم اور اخلاق باختہ ہوں۔ان کی زندگی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔15

افسانے میں لائبہ کا کردار ایک شمع کی مانند ہے جو خودتو بجھ کردوسروں کی تاریک راہوں کو روشن کر دیتی ہے۔اکیسویں صدی کی لڑکیوں کے لیے اس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔شمع نے اپنے بلند کردار کی بدولت یہ بات ثابت کردی کہ حالات چاہے جس رخ پر بھی کروٹ لے رہے ہوں ہمیں اپنی شخصی آزادی کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہیےعشرت محمود کا اصل چہرہ بے نقاب ہوتے ہی وہ اپنا آخری پتا پھینکتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھارے پاس صرف دو راستے ہیں۔ایک طرف شاندار مستقبل کی نوید اور دوسری طرف نام نہاد روایت کا بھرم ۔تم اپنے لیے خود راستہ منتخب کر لو۔لائبہ اس کی شخصیت پر تنقید کرتے ہوئے جواب دیتی ہے: میں ماڈرن ضرور ہوں لیکن زندگی کی سب حقیقتوں سے بخوبی آگاہ ہوں۔ اور پھر میری جیسی ہر لڑکی کا ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔صرف عزت اور محنت کی زندگی گزارنا جہاں کوئی شخص ہماری عزت ِ نفس کو مجروح نہ کرسکے۔16

عمران اقبال نے اپنے افسانے"مسلمان" میں جہاں مغربی تہذیب کے بدنما چہرے سے پردہ اٹھایا وہیں انہوں نے مشرقی تہذیب میں پائی جانے والی خامیوں کو بھی پیش کیا ہے۔ افسانے میں پاکستانی اور ایشیائی باشندوں کی خود غرضی کو اجاگر کیا ہے۔یہ لوگ مغربی ممالک میں جاکر وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جھوٹی محبت کا ڈراما رچاتے ہیں۔گلوریا پاکستانی لڑکے تنویر سے محبت کرتی ہے اور شادی سے پہلے مرکزی کردار سے مسلمان بننے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔

محبت ایک انمول تحفہ ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔کچھ لوگ اپنی محبت کو پانے کے لیے ساری عمر سرگرداں رہتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے پیار کو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔افسانے میں کرن اسی صورتحال سے دوچار ہے۔وہ مرکزی کردار گلریز جمال کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس سے محبت کرنا نہیں چھوڑتی اور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے: مجھے پتا ہے آپ کی زندگی میں مجھ سے پہلے بھی ایک عورت آچکی ہے۔اگر اسے ہمارے تعلق کا علم ہوگیا تو شاید اسے بہت تکلیف ہوگی ۔میں خود عورت ہوں اور دوسری عورت کے جذبات سمجھ سکتی ہوں۔مجھے اپنی اورآپ کی عمروں کا فرق بھی معلوم ہے ۔لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں بس آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔17

" پارٹ ٹائم جاب "میں متوسط طبقے کے لوگوں کی غربت و افلاس کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔یہ طبقہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے ہر طرح کاکام کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ سمیرا کو مستقل کام تو نہ ملالیکن اسے پارٹ ٹائم جاب کے طور پر اچھا پیشکش کی گئی اور وہ بخوشی اس کام کو سر انجام دینے لگی۔اس کام میں اسے زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑی اور معاوضہ بھی اچھا خاصا ملنے لگا: تم ہفتے میں ایک دن کام پرآؤ گی۔جس دن ماسی جنت چھٹی کرتی ہے اور ہاں تمھاری تنخواہ بھی دوگنی یعنی تین ہزار ماہانہ ہوگی۔ پلوشہ نے شوخ انداز میں اپنی بات مکمل کی۔اطمینان اور خوشی سمیرا کے انگ انگ میں پھوٹنے لگی۔18

" سوکھے پتے "تانیثی شعور کے حوالے سے عمدہ افسانہ ہے۔اس میں عشرت بائی ماضی کی حسین یادوں میں کھوکر اپنی زندگی کے تلخ حقائق کویاد کرتے ہوئے غمگین ہو جاتی ہے۔وہ مرینہ جان کو ہوس پرست درندوں سےبچاتے ہوئے اپنی آواز کھو بیٹھی۔یہاں پر کھوکھلے معاشرے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہےجو اپنے مفاد کے لیے ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہوتا ہے۔ خوفناک حادثے کی بدولت عشرت بائی کا حسن ڈھل چکا تھا اور وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ ماضی میں کچھ ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں کہ جن کو بھلانا انسان کے بس کی بات نہیں۔یہ انسان کا المیہ ہے کہ اپنی محبوب شخصیت کےسامنے سارے دکھ کھول کر بیان کر دیتا ہے۔عشرت بائی اسی صورتحال سے دوچار ہو کرجیسے تیسے اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی ہے۔وہ اپنے محبوب اختر ساز کو تباہی و بربادی کی داستان تمام تر جزئیات کے ساتھ سناتی ہے۔

" ستلج برج "تانیثیت کی عمدہ مثا ل ہے۔اس افسانے میں محبت کی ناکامی کو موضوع بنایا گیا ہے۔مشرقی معاشرے میں پروان چڑھنے والی لڑکیاں کبھی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھاتیں چاہے انہیں کسی ناپسند یدہ مرد سے ہی بیاہ دیا جائے۔یہاں لڑکیوں کے دلی جذبات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔روایتی محبت کی کہانی کبھی پروان نہیں چڑھتی کیونکہ دو دلوں کے درمیان ظالم سماج، رسوم ورواج اور ذات پات کا فرق دیوار بن جاتا ہے۔پارو اسی صورتحال سے دوچار ہے۔

شادی ایک ایسا جوا ہےجو سب کے لیے شادمانی کا باعث نہیں بنتا۔خوشگوار ازدواجی زندگی قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔شادی کہیں تودامن خوشیوں سے بھر دیتی ہے اور کہیں پچھتاوے کا باعث بن جاتی ہے۔زبیدہ کی شادی اپنے کزن شبیر کے ساتھ طے پاگئی جو ہر وقت نشے میں دھت رہتا ،شادی کی پہلی رات ہی زبیدہ پر ساری حقیقت آشکار ہوگئی تو اس لمحے وہ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو کراپنی قسمت کو کوسنے لگی:شادی کے چند روز بعد ہی زبیدہ اور اس کے گھر والوں کو معلوم ہوگیا کہ انھوں نے کتنا بڑا دھوکہ کیا ہے۔شبیر نشہ کرنے کا عادی اور جواری تھا۔اسے ملازمت سے فارغ کر دیا گیاتھا۔ وہ سارا دن جرائم پیشہ افراد کی صحبت میں وقت گزارتا اور رات گئے گھر لوٹتا۔بات بات پر وہ زبیدہ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے لگا۔ساس سسر کی جانب سے جہیز کم لانے کےطعنے علاوہ تھے۔19

اردو فکشن کی دنیا میں عمران اقبال کا نام نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے ظلم وستم سے ستائی ہوئی عورتوں کو موضوع بنایا ہے۔عورتوں کے جذبات و احساسات ،گھریلو مسائل ،اور ان کے جائز حقوق کو نہ صرف کھلم کھلا بیان کیا ہے بلکہ انہیں تانیثی شعور بھی بخشا ہے۔جس کی بدولت وہ اپنےحق کےلیے آواز بلند کر کےاپنے ساتھ ہونے والی تمام نا انصافیوں کا حساب لے سکتی ہیں۔دوسروں کے لیے تو سبھی لڑتے ہیں لیکن جو اپنے لیے لڑنا سیکھ جائے اسے تانیثی شعور کہتے ہیں۔عمران اقبال نےخیالی محبوبہ کی بجائے بھٹہ مزدور ،کسان و محنت کش ، سماجی و معاشرتی نا انصافیوں کا شکار عورت کا عکس پیش کیا ہے۔یہ عورت ملازمت کے علاوہ زیور تعلیم سے محروم روپ میں نظر آتی ہے۔اسی طرح اسےباپ بھائی اور شوہر کے جرائم کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ سماج کی یہ کمزور ہستی قتل،زبردستی نکاح،ونی،کاروکاری،خانگی و جنسی تشدد کا شکار،تیزاب گردی اور پھٹتے چولہوں کا شکار ذہنی و نفسیاتی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔عمران اقبال نے اپنے افسانوں میں اپنوں کی بے حسی اورجنسی استحصال کی مختلف صورتوں کو نمایاں کیا ہے۔ان کے کردار ہمیشہ تخلیق میں نمو پا کر شعور و ادراک کی نئی جہتیں سامنے لاتے ہیں۔عمران اقبال نے ایسی عورت کی حقیقی تصویر پیش کی ہے جسے ہر قدم پر مرد کے جابرانہ رویے ،فرسودہ رسم و رواج،شوہر اور سسرال کے مظالم،خانگی،تشدد اور جنسی ہراسانی کی مختلف صورتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عمران اقبال کے افسانوں میں عورت کے نفسیاتی مسائل ،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں،بیوروکریٹس اور افسران بالا کی جنسی بھوک کی عکاسی کی گئی ہے۔

 

٭٭٭

 

1 عتیق اللہ،تانیثی جمالیات کا تعین:شبہات و امکانات (نئی دہلی : ماڈرن پبلی کیشنز ، 2004ء)،106۔

2 عمران اقبال،آخری عورت (لاہور : الحمد پبلی کیشنز ، 2003ء)،84۔

3 ایضا، 84۔

4 عمران اقبال،آخری عورت (لاہور : الحمد پبلی کیشنز ، 2003ء)،98۔

5 ڈاکٹر ناصر عباس نئیر،جدید اور مابعد جدید تنقید (کراچی :انجمن ترقی اردو ، 2004ء)،291۔

6 عمران اقبال،آخری عورت (لاہور : الحمد پبلی کیشنز ، 2003ء)،108۔

7 عمران اقبال،آخری عورت (لاہور : الحمد پبلی کیشنز ، 2003ء)،115۔

8 ساجد علی(مترجم)،جنسی تفریق اور اسلام (لاہور :مشعل بکس ، س ۔نء)،11۔

9 عمران اقبال،آخری عورت (لاہور : الحمد پبلی کیشنز ، 2003ء)،129۔

10 عمران اقبال،ادھورے خواب کا منظر (لاہور :الحمد پبلی کیشنز، 2004ء)،30۔

11 عمران اقبال،ادھورے خواب کا منظر (لاہور :الحمد پبلی کیشنز، 2004ء)،31۔

12 ڈاکٹر نجیب جمال،عمران اقبال کے منتخب افسانے (لاہور :21 سینچری پبلی کیشنز، 2013ء)،8۔

13 ایضا،100۔

14 انور پاشا(مرتب)، تانیثیت اور ادب (دہلی :عرشیہ پبلی کیشنز، 1995ء)،22۔

15 عمران اقبال، مون سون (لاہور :الحمد پبلی کیشنز، 2005ء)،88۔

16 ایضا،90۔

17 عمران اقبال، نام گم ہوجاتے ہیں (لاہور :الحمد پبلی کیشنز، 2008ء)18۔

18 ایضا، 40۔

19 ایضا، 10۔

1

 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...