Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Negotiations > Volume 1 Issue 3 of Negotiations

حکیم مومن خان مومن ؔ کے معاشقے |
Negotiations
Negotiations

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

یہ مسلّم ہے کہ عشق و محبت کا جذبہ ہمیشہ سے انسان کے خمیر میں داخل ہے۔ تہذیب کا دورِ آغاز ہو یا عہد ِ کمال، انسان اس جذبے سے کبھی خالی نہیں ہو تا۔اس کے ساتھ ساتھ اس جذبے کی قوّت اور شدّت بھی ایک امر واقع ہے، یہاں تک کہ کبھی کبھی بڑھ کر تمام انسانی جذبات وحسیّات پر غالب آجاتا ہے۔انسانی روح کو فطرتاًخوبصورتی کی طرف میلان ہے۔چاہے یہ جمال کسی بھی چیز میں ہو۔اور یہ میلان بہ نسبت دوسرے لوگوں کے مقابلے میں شاعر میں زیادہ شدّت کے ساتھ پایا جا تا ہے۔ اس لیے حکیم مومن خان مومن کی زندگی کا سب سے رنگین باب ان کی حیات ِ معاشقہ ہے۔ چوں کہ مومن ؔ رنگین طبیعت کے مالک اور خوش مزاج تھے اس لیے ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ مومن ؔ کو طب سے بھی گہرا لگاؤ تھا اس لیے اس واقفیت نے اور بھی بارگاہِ حسن میں باریاب ہو نے کا موقع دیا۔ دیوانِ مومن میں پروفیسر ضیاء ا حمد بد ایونی لکھتے ہیں:ویسے مومن کی ہر مثنوی ان کے عشق کی ایک داستان ہے۔1

مومن کی پہلی محبت:

اس بیان کی روشنی میں ہم مومن ؔ کے عشق کے زمانہ کا تعیّن آسانی سے کر سکتے ہیں۔ان کی پہلی مثنوی "شکایت ستم"1213ھ(1816)اس مثنوی کا آغاز اس شعر سے کرتے ہیں۔

ایں نالہ شکایت ستم نامی

بامن خرد گفت سال اتمام

اس وقت مومن ؔ کی عمر 16 سال تھی۔ مومن ؔ اپنے عشق کے آغاز کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ نو (9) سال کی عمر میں عشق میں آموختہ ہو گئے تھے۔ مومن ؔ نے اس محبت کے پیچھے تعلیم چھوڑ دی۔ وہ ہر وقت ملاقات ِیار میں سر گر داں رہے۔ مومن ؔ کی یہ محبت اس وقت ختم ہو ئی جب ان کے عزیز و اقارب کو اس محبت کا پتا چل گیا۔

آفت جان و دل فراق و وصال

الغرض یونہی کٹ گئے دو سال

اس محبت کی ابتدا کچھ یوں ہے کہ (1811ء)میں مومن ؔ کی ملاقات اس معشوق سے ایک شادی میں ہو ئی ۔ان کی محبت کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ دن گزرتے گئے کہ اس معشوق کو موت نے اٹھا لیا۔ یوں مومن ؔ پر ہجر و فراق کا زمانہ شروع ہوا۔مومن کے بقول:

رشک سے خضر پائمال ہوا

ملک الموت سے وصال ہوا

یوں سترہ سال کی عمر میں مومن ؔ اپنی محبت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

دیکھیں آگے دکھا ئے کیا کیا دن

ہے ابھی سترہ برس کا سن

مومن ؔ کی دوسری محبت:

پہلی محبت کی ناکامی کا اثر ابھی تک ختم نہیں ہو اتھا کہ بیس برس کی عمر میں ایک دوسری محبوبہ کے عشق میں گرفتار ہو ئے۔ اس محبت کا اندازہ ان کی مثنوی "قصّہ غم" سے ہو تا ہے۔ یہ مثنوی (1235ھ)میں لکھی گئی ہے

نام ایں چند نالہ پیہم

ہم چو تاریخ گشت قصّہ غم

اس مثنوی سے مومن ؔ کے مزاج اور سیرت کے گوشے نمایاں ہو تے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ مومن ؔ کی یہ محبت کیسے اور کیوں کر ختم ہو ئی۔ ان کی یہ محبت بھی بار آور نہیں ہو ئی اور1236ھ میں یہ محبت بھی اختتام پذیر ہوئی۔

مومن ؔ کی تیسری محبت:

مومن ؔ کو جب دوسری محبت میں بھی ناکامی ہو ئی تو ان کے غم و الم اور بھی بڑھ گئے۔ قدرت کی بات کہ اس دفعہ مومن ؔ کے غم کا زمانہ بہت کم رہا اور بہت جلد ہی ان کی تیسری محبت کاآ غاز ہوا۔وہ یوں کہ مومن ؔ ایک روز سیر کی غرض سے جارہے تھے کہ ایک گھر کی کھڑ کی سے اشارہ بازی شروع ہو ئی۔ مومن ؔ کو یہ اشارے عجیب لگے اور آخر کاراس محبوب سے ملاقات کا راستہ نکال ہی لیا۔ اب روز ان کا جانا اور کچھ دیر بیٹھ کر چلے آنا ان کا معمول بن گیا۔ ایک روز وہاں بیٹھے تھے کہ کسی کی آمد کی اطلاع ہو ئی اور مومن ؔ کو پردہ کی وجہ سے باہر آنا پڑا۔ جب دیر ہو ئی تو اپنے گھر واپس چلے آئے۔ اگلے دن جب محبوب کے در پر دوبارہ تشریف لے گئے تو صاحب ِ خانہ نے بتا یا کہ ان کے یہاں کوئی "مہمان عزیز" بہ غرض علاج آیا ہے اگر تم نبض دیکھ لو تو شاید بیمار کا علاج آسان ہو جائے۔ پسِ پردہ نبض دیکھی گئی۔ نبض کا دیکھنا کیا تھا کہ مسیحا خود بیمار بن گیا۔ اس وقت مومن ؔ پر کیا گزری، اس کا تفصیل سے ذکر مثنوی "قولِ غمین"(1236ھ) میں موجود ہے۔یہ محبوبہئ دل نواز امتہ الفاطمہ تھیں۔امتہ الفاطمہ ایک عفت نا آشنا عورت تھی جو لکھنؤ سے دہلی آئی تھی۔اس خاتون کے بارے میں عبد الحئی بد ایونی اپنے تذکرہ "شمیم سخن"(1891ء)میں لکھتے ہیں: امتہ الفاطمہ نامی طوائف پورب کی رہنے والی ہے۔ قبل از بلوہ سن1857ء بیمار ہو کر دہلی پہونچیں۔2

درگا پر شاد نادر "تذکرہ گلشن ناز"(1292ھ)میں یوں لکھتے ہیں:حضرت نے نسخہ مثنوی "قول غمین" اس کی مفارقت کے بیان میں خوب موزوں فرمایا ہے۔ اب نہیں معلوم یہ رنڈی زندہ ہے یا مر گئی۔3 امتہ الفاطمہ کا نبض دیکھتے وقت مومن ؔ نے اس کے ہاتھ کے بارے میں کہا۔

صاف صندل سے زیادہ وہ ہاتھ

نرم مخمل سے زیادہ وہ ہاتھ

شیفتہ امتہ الفاطمہ کے مومن کے ساتھ ملنے، ان کا علاج کرنے اور پھر عشق اختیار کرنے کے بارے میں "گلشن ِ بے خار" میں یوں لکھتے ہیں:

شرح نسخہ حسن و جمال ہما موزوں قد است۔4

امتہ الفاطمہ موسوم بہ صاحب جی نہ صرف مومن ؔ کی نگاہ کا مرکز تھی بلکہ اس زمانے میں ہر کوئی اس کے حسن کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ مومنؔ کے ساتھ عشقیہ کہانی کے بارے میں "گلشن ِ ناز" میں درگا پر شاد نادرؔ بھی لکھتے ہیں:"امتہ الفاطمہ نام مشہور بہ صاحب جی، غدر سے پہلے پورب سے طلوع ہو کر جلوہ افروز دہلی ہو ئی۔ حکیم مومن خان مرحوم سے اپنی بیماری کا علاج چاہا۔ مگر یہاں یہ نقشہ ہوا۔مژدہ باد اے مرگ عیسیٰ آپ ہی بیمار ہے۔یعنی حکیم صاحب حکمت کا راستہ بھول کر از خود فراموش ہو کر نسخہ عشق کا وزن شروع کر بیٹھے۔ اس وفادار نے بھی اپنے مریض و طبیب کو برابر ایک سال تک خوب ہی دل کھول کر شربت ِ وصل پلایا۔5

اس ایک سال کے عرصے میں مومن ؔ امتہ الفاطمہ سے محبت قائم کیے رکھی۔ مومن ؔ کی بد قسمتی دیکھیں کہ محبت کا راز فاش ہو گیا اور امتہ الفاطمہ واپس اپنے وطن لکھنو چلی گئیں۔ اس حوالے سے فضیح الدین رنج ؔ "بہارستان ِناز"(1299ھ) میں لکھتے ہیں: "امتہ الفاطمہ بیگم نام مشہور بہ صاحب جی ملکہ مشرق سے مثل خورشید انور و مہر منور رونق افزائےخطہ لطافت بنیاد شاہجہاں آباد ہو کر کچھ بیمار ہوئی حکیم مومن نے علاج کیا۔ صحت پا کر ایک سال تک حکیم صاحب مرحوم کے ہم پہلو رہی پھر لکھنؤ چلی گئی"6

آگے اس کے حسن و جمال کے بارے میں لکھتے ہیں: "سبحان اللہ ایسی حسین نازک اندام عنبری موتھی کہ ہر پیچ زلف پر خم کا حلقہ دام بلا تھا۔ آئینہ روئے درخشان مرات حیرت افزأ تھا"7

مومن ؔ اس محبت میں بھی ناکام ہو گئے۔اور اس تصور سے دل کو تسلّی دیتے رہے۔

زندگی میں ہو اگر وصل محال

بعد مرنے کے مقرر ہو وصال

اس محبت کے لیے مومن ؔ سہسوان (بد ایوں) بھی گئے۔ حیاۃالعلماء8میں لکھا ہے کہ مومن ؔ نواب محمد سعید خان سے جو اس زمانہ میں سہسوان میں ڈپٹی کلکٹر تھے، ملاقات کی غرض سے آئے۔ سہسوان میں ایک پوشیدہ غرض لیے آئے تھے اور وہ غرض صاحب جی سے ملا قا ت کرنی تھی۔اس حوالے سے مومن ؔ کہتے ہیں:

صاحبو میرا حال مت پوچھو

بندہ سخت بے وفا ہوں میں

چھوڑ دلّی کو سہسوان آیا

ہر زہ گردی میں مبتلا ہوں میں

عذر بے جا سر کشی کے لیے

شاکی بے سبب جفا ہوں میں

اک خدا وند شوخ کے غم میں

قابل رحم ہو گیا ہو ں میں

کوئی پہنچا دو میرے صاحب تک

کہ گلام گریز پا ہوں میں

مومن کی چوتھی محبت:

مومن ؔابھی اس محبت کے غم کو فراموش نہ کرسکے تھے کہ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اس شادی مین مومنؔ مہتمم خاص تھے۔ یہاں ان کی ایک خوبر و حسینہ سے ملاقات ہو گئی۔ان کا دیکھنا تھا کہ مومن ؔ اس پر فریفتہ ہو گئے۔ جب تک شادی کی تقاریب ہو تی رہیں، ان دونوں کی خوب ملاقاتیں ہو تی رہیں۔ مگر جب شادی کی رسمیں اختتام کو پہنچیں تو وہ ایک دوسرے سے علا حدہ ہو گئے۔اس حسینہ کے گھر مومن ؔ کا پیغام پہنچنا ہی تھا کہ وہ طیش میں آگئی اور اس نے مومن ؔ کو انکار کر دیا۔اس ناکامی کا صدمہ اور "صید"کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم اتنا بڑھ گیا کہ مومن ؔ بیمار پڑ گئے۔ انھوں نے اس حادثے کی یاد میں مثنوی "تف آتشیں"(1241ھ)میں لکھی۔

محبت میں ان پے درپے ناکامیوں کی وجہ سے مومن ؔکافی بیزار ہو گئے تھے۔ عزیز و اقارب اور شاگرد لوگ ان کا دل بہلا تے رہے مگر ناکام۔ وقت گزرتا گیا اور مومن ؔ کے دل کو تھوڑا قرار آگیا۔ بلکہ یوں کہیے کہ محبت سے ایک قسم کی نفرت سی ہو گئی تھی کہ سابق محبوبہ، جس کا ذکر "تف آتشیں"میں ہے، کا خط آیا۔ا س خط میں انھوں نے شدید اشتیاق دید کا اظہار کیا تھا۔لیکن مومن ؔنے اسے یہ جواب دیا۔

تھا مطوّل بسکہ عذرا ضطراب

مختصر سا یہ لکھا میں نے جواب

کر گیا بے خود ہجوم اشتیاق

اب برابر ہمیں وصل و فراق

گر ملو شکر عنایت کچھ نہیں

اور نہ ملے تو شکایت کچھ نہیں

اس حسینہ خوبرو کی مومن ؔ سے ملاقات ہو ئی۔ انھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ مومن ؔ کی نظر کچھ اور چند حسینوں پر پڑ گئی۔ مومن ؔ کی اس حالت کا پتا جب اس حسینہ کو چلا تو وہ مومن ؔ کی طرف سے بہت بد ظن ہو ئی اور اس نے مومن ؔکے ساتھ اپنا رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا۔

مومن کی پانچویں محبت:

مومن ؔ کا یہ عشق خالص حقیقی تھا۔ اس عشق میں وہ توبہ تائب ہو چکے تھے اور اپنی تمام تر توجہ انھوں نے پاکیزہ، مذہبی اور مقدس زندگی گزارنے کی طرف کی تھی۔ یوں ان کی مذہبی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مومن ؔ کی اس زندگی کے حوالے سے کریم الدّین "طبقات الشعرائے ہند" (1265ھ)میں یوں لکھتے ہیں:"ابتدا ء میں تمام اوقات شعر گوئی اور لہو لعب دنیا میں صرف کرکے تمام مزے عیاشی کے اٹھا کر اب توبہ کی۔ بلکہ شعر بھی کہنا چھوڑ دیا۔ا ب پابند نماز و روزہ کے بھی بہ نسبت سابق کے بہت ہیں"9

مومن کے عشق کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کامعشوق بازاری ضرور ہے اور نہ ہیں مومن ؔ کا عشق بازاری ہے۔ ان کے عشق میں خودداری ہے۔وہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتے جو عاشقی کے خلاف ہو اور حسن و عشق کے مرتبے سے گرا ہوا ہو۔مومن ؔ مذہبیت کے باوجود زاہد خشک نہ تھے۔ ان کے نعتیہ قصائد سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کا ایک ایک شعر جذبہ محبت کا آئینہ دار ہے۔ان کو اگر مجمع اضداد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گاکیوں کہ ان میں بعض متضاد اوصاف مشترک تھے۔وہ کبھی دلربا حسینوں کے ہاں نظر آتے ہیں تو کبھی جذبہ شہادت سے سر شار نظر آتے ہیں۔مگر اتنا ہے کہ حکیم مومن خان مومن کے معاشقوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ سب ان کے مقدر میں لکھا تھا ورنہ عام طور پر تو انسان ایک ہی عشق کر بیٹھتا ہے لیکن مومن کی تشنگی ہر عشق میں رہ جاتی ہے اور تاک میں بیٹھے تھے کہ چلو اگلا عشق کامیاب ہو جائے مگر ایسا نہ ہوا ۔ اور ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ

شب بت کدہ میں گزرے ہے دن خانقاہ میں

٭٭٭

1 مرتبہ پروفیسر ضیا ء احمد بد ایونی ،دیوانِ مومن، طبع سوم(دہلی : مطبع رفاہ ِ عام ، 1846ء)،45۔

2 عبد الحئی بد ایونی ،شمیم سخن(رام پور : رضا لائبریری ، 1864ء)،18۔

3 درگا پر شاد نادر ،تذکرہ گلشن ناز(علی گڑھ : آزاد لائبریری ، 1292ھ)،54۔

4 شیفتہ ،گلشن بے خار مطبوعہ نولکشور (علی گڑھ : آزاد لائبریری ، س ۔نء)،123۔

5 درگا پر شاد نادر ،تذکرہ گلشن ناز(علی گڑھ : آزاد لائبریری ، 1292ھ)،62۔

6 فضیح الدین رنج ،بہارستان ناز(علی گڑھ : رضا لائبریری ، 1299ھ)،62۔

7 ایضاً۔

8 تاج الدین نقوی سہسوانی ،حیاۃالعلماء

9 کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند(علی گڑھ : انجمن ترقی اُردو لائبریری ، 1848ء)،445۔

1

 

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index