Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Negotiations > Volume 1 Issue 3 of Negotiations

اقبال کی شخصی تعمیر کے چند پہلو: تحقیقی مطالعہ |
Negotiations
Negotiations

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

3

Year

2021

ARI Id

1682060054107_1852

Pages

26-32

DOI

10.54064/negotiations.v1i3.27

PDF URL

http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/download/27/21

Chapter URL

http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/view/27

Subjects

Iqbal Upbringing Thought Philosophy Nature Skill Questioning

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تلخیص

حیاتِ اقبال بہت سی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس مضمون میں اقبال کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے کچھ ماخذوں اور محرکات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اقبال کی شخصیت استفہامی کفیت سے بھی دوچار رہی۔ اس مضمون میں اُس کیفیت کےچندپہلوبھی دیکھےجاسکتےہیں۔اقبال کی تربیت کاپہلامکتب گھرکاماحول تھا۔والداوروالدہ کی شخصیت نےابتداسےہی اثراندازہوکرنمایاں خوبیوں کامالک بنادیا۔اساتذہ نےنکھارکرمزیدکندن کردیا۔اقبال پرسرسیدکی تحریک کےاثرات بھی تھے۔اس مضمون میں بہت سےنئےپہلوؤںپرتحقیق وتنقیدکی جھلک نظرسےگزرےگی۔اقبالیات کےحوالہ سےیہ نکتۂ نظربہت اہمیت کاحامل ہے۔ان محرکات پرغورکی ضرورت ہےجواقبال کی شخصیت اورعلم ودانش کاحصہ ہیں اورعوام الناس کےلیےمتاثرکن ہیں۔ان محرکات کےمطالعہ سےاقبال کےذہنی ارتقاءکاجائزہ لیاجاسکتاہے۔فکرِاقبال کےتمام محرکاتاورماخذہمارےلیےقابلِ تحسین وتقلیدہیں۔پوشیدہ افکارکی جانچ کارویہ ہمیشہ اقبال پرحاوی رہا۔اقبال کےافکارفکروفلسفہ سےبھرپورہیں۔خیالات وافکارکےاظہارنےاقبال کوانفرادیت عطاکی۔اقبال کےاستفہام اوراستفسارکی کیفیت سےبہت ہی عالمانہ اورفاضلانہ پہلودیکھنےکوملتےہیں۔اس مضمون میں ان پہلوؤں کی جھلک بھی دیکھنےکوملےگی۔اقبالیات میں تحقیق وتنقیدکےطلبااس مضمون کےمطالعہ سےاستفادہ کرتےہوئےنئی راہوں پرگامزن ہوں گے۔استفسارواستفہام کامطالعہ اقبال کےفکرونظرکوجاننےاورجانچنےکےلیےبہت ہی اہم ہے۔اقبال نےفطرت کےمناظرسےبھی محبت کااظہارکیامگراس کی بھی حدوں کاتعین کیاورنہ لوگ فطرت کوبھی بت بناکراس کی بھی پوجاشروع کردیتے۔ماہرین کےمستندحوالےاس تحقیقی مضمون کاحصہ ہیں جواقبالیات کےموضوعات میں معاونت فراہم کریں گے۔

اس بات پرسب اتفاق رکھتےہیں کہ اقبال کاگھریلوماحول مذہبی تھا۔والدصوفی منش اوروالدہ نہا یت نیک تھیں۔یہ پہلامکتب ومدرسہ تھاجہاں اقبال کی تربیت ہوئی۔اقبال کومطالعہ قرآن سےخاص شغف تھا۔جب بھی پڑھتےخاص سوچ سمجھ کرپڑھتےاس لیےقرآن کےمطالعہ نےانہیں بہت زیادہ متاثربھی کیا۔گھریلوماحول ہی انسان کی پہلی درسگاہ ہواکرتاہے۔اس درسگاہ میں والداوروالدہ پہلےاستادہوتےہیں جن کااثربچےکی شخصیت پراثراندازہوتاہے۔اقبال کےگھرکامذہبی ماحول اوروالدین کی دینداری یہ وہ چیزیں ہیں جواقبال کےقلب ونظرکاپہلاسبق ہے۔اس کےبعداقبا ل کی شخصیت کومتاثرکرنےوالی دوسری شخصیت 'مولوی میرحسن' کی ہے۔آپ "اقبا ل گر"1ہیں۔

اقبال اپنےاستادمحترم کابہت احترام کرتےتھے۔آپ کےآستادمولوی میرحسن نےتعلیم وتربیت کاذمہ لیااورخاص اندازاختیارکرتےہوئےاقبال کےقلب وذہن کوروشن چراغ بنادیا۔اقبال اس بات پرایمان رکھتےتھےکہ انہیں فکروفلسفہ کایہ جوفیض حاصل ہواہے،اسکےلیےذہنی کشادگی مولوی میرحسن ہی کےکرم سےحاصل ہوئی ہے۔مولوی میرحسن کی محبت نےعلم ودانش کےنکتےاقبال کوسمجھائےہیں۔اقبال حضرت محبوب الہٰی نظام الدین اولیاءؒکےمزارپرجاکردعاگوہوئےتھےاورزمین وآسمان کےمالک سےدرخواست کی تھی کہ مولانامیرحسن کی زیارت سےشادمانی عطافرما۔نظم "التجائےمسافر" میں کہتےہیں۔

وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی

 

 

رہےگامثل حرم جس کاآستاں مجھ کو

نفس سےجس کےکھلی آرزوکی کلی

 

 

بنایاجس کی مروت نےنکتہ داںمجھ کو

دعایہ کرکہ خداوندآسمان وزمین

 

 

کرےپھراس کی زیارت سےشادماں مجھ کو2

یہ وہ دورتھاجب سرسیداحمدخان کی تحریک زوروں پرتھی۔ مولانامیرحسن بھی سرسیداحمدخان سےمتاثرہوئےاوران کی تحریک کاحصہ بنے۔ اقبال نےبھی مولوی میرحسن سےفیضان ِنظرحاصل کیا۔اس لیےہم کہہ سکتےہیں اقبال کاتعلق بھی سرسیداحمدخاں سےاورسرسیدکی تحریک سےہے۔جسٹس جاویداقبال لکھتےہیں۔

He received his early education in Sialkot under Moalana Syed Mir Hasan, an enthesiastic follower of Syed Ahmad Khan. It can be deduced that Iqbal become acquainted with the Aligarh movement through the Moalana and justified its aims in theearlier part of his career.3

اقبال نےاپنی زندگی میں سرسیدکی تحریک کےاثرات بھی دکھائے۔اس طرح گھرکےبعدماخذومحرکات میں دوسراماخذ مولانامیرحسن کاہےجن کی شخصیت نےاقبال کےذہن اورقلب ونظرپرگہرےنقوش چھوڑے۔اوراقبال نےبھی شاگردی کاحق اداکردیا۔

ماخذومحرکات کاتیسراادارہ پروفیسرآرنلڈکاہے۔اقبال کےذہن وفکرپرآرنلڈکےبہت اثرات ہیں۔آرنلڈانتہائی قابل استاداورفلسفہ کےماہرتھے۔اقبال نےآرنلڈسےباقاعدہ فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔آرنلڈکی وفات پراقبال نےنظم لکھی جواس بات کامنہ بولتاثبوت ہےکہ وہ نظم ایک ماتم ہے۔اقبال کےلیےپروفیسرآرنلڈصرف ایک استادنہ تھےبلکہ دوستوں کی طرح اقبال پرمہربان تھے۔اقبال نےاس محبت کااظہارکرتےہوئےلکھاہے۔

توکہاں ہےاےکلیم طورذروۂ سینائےعلم

 

 

تھی تری موجِ نفس بادِنشاط افزائےعلم

اب کہاں ہےوہ شوقِ رہ پیمائی صحرائےعلم

 

 

تیرےدم سےتھاہمارےسرمیں بھی سودائےعلم

کھول دےگادشت وحشت عقدۂ تقدیرکو

 

 

توڑکرپہنچوں گامیں پنجاب کی زنجیرکو

دیکھتاہےدیدۂ حیراں تری تصویرکو

 

 

کیاتسلی ہومگرگرویدۂ تقدیرکو4

درج بالابیان کردہ اشعارکاپہلامصرع پروفیسرعبدالحق نےاس طرح لکھاہے : "توکہاں ہےاےکلیم طورذروۂ سینائےعلم"5

ڈاکٹرگیان چندنےابتدائی کلام اقبال میں اس مصرع کےحوالہ سےلکھاہے: "کلام: کلیم ذرہ سینائےعلم (بیاض: کلیم،اےشعلۂ سینائےعلم رذاق وبانگ: مطابق متن) 6

تدوین کےمسائل کیوجہ سےیہ مصرع کلام اقبال مرتبہ محمدانورخان ۱۹۲۴ءمیں مختلف، بیاضِ اقبال قلمی جوعمادالدین کےذخیرےسےمیسرآئی تھی اس میں مختلف،کلیاتِ اقبال مرتبہ عبدالرزاق حیدرآباد۱۹۲۴ءاوربانگ دارا۱۹۲۴ءمیں ملاجلاشائع ہوا۔پروفیسرعبدالحق نے"طور" کےاضافےسےیہ مصرع درج کیاہے۔ "طور" کالفظ ا ب تک کہیں بھی سامنےنہیں آیا۔

پروفیسرعبدالحق کاشوقِ جستجواوراندازتحقیق انہیں تدوین وتالیف کی طرف لےکرگیااوراس طرح اقبالیات میں آپ یہ دعوی ٰکرتےہیں کہ بہت سےپہلوؤں پرتحقیق کی ضرورت ہے۔اقبال کواگرصحیح طورپرسمجھناہےتوضروری ہےکہ اقبال نےجواشاروں اورکتابوںمیں باتیں اپنےاشعارمیں،اپنےخطبات میں،اپنےخطوط میں اوراپنےدیگرمضامین میں کہی ہیں،وہ وضاحت سےسامنےلائی جائیں۔پروفیسرعبدالحق نےاقبال کےتین ماخذبیان کیےہیں۔پہلاماخذوالدین جن سےمذہبی ماحول میسرآیادوسرامولانامیرحسن،جن کی محفل سےاقبال کےقلب وذہن میں دانش اورآگہی کی قلعی کھلی اورتیسراماخذپروفیسرآرنلڈکاہےجن کی تعلیم نےاقبال کےذہن میں پوشیدہ گتھیوں کوسلجھانے میں مدددی۔اس کےبعدپروفیسرعبدالحق نےان محرکات کاذکرکیاہےجواقبال کی شخصیت اورعلم ودانش کاحصہ ہیں اورعوام الناس کےلیےمتاثرکن ہیں

پروفیسرعبدالحق نےاقبال کےخطوط کی اہمیت پرروشنی ڈالی ہے،اس سےیہ بات واضح ہوتی ہےکہ اقبال نےشاعری کےعلاوہ بھی خطوط میں اپنےجوہردکھائےہیں،اقبال کےخطوط لیلیٰ مجنوں کےخطوط نہیں بلکہ علم وادب،فکروفلسفہ،اورسیا ست وتاریخ سےلبریزخزانہ ہے۔

اقبال کی شاعری کودیکھیں۔وہ نظمیں جوخاص طورپرانجمن حمایت اسلام کےجلسوںمیں پیش کی گئی ہیں ان نظموں میں اقبال نےمسلمانوں کوان کاشاندارماضی یادکرایاہےاورساتھ ہی اس بات پربھی سنجیدگی سےغورکرنےکی طرف رغبت دی گئی ہےکہ تمہاراحال اب کیاہے؟سب گفتارکےغازی نظرآتےہیں کردارکاغازی ڈھونڈنےسےبھی نہیں ملتا۔اس دورکی نظموں کےحوالہ سےپروفسیرعبدالحق کہتےہیں۔"ان نظموں میں اسلامی روح کی طرف بار بار اشارے ملتے ہیں۔اس دور کا یہ ایک خاص انداز فکر تھا جس کی مثالیں شبلی و حالی کی نظموں میں کثرت سے ملتی ہیں"7

اقبال کافکروفلسفہ جوبھی راہ اختیارکرےحتمی نتیجہ ملت کی اصلاح کےلیےیہی تجویزکرتےتھےکہ دلوں کوحبِ رسولؐ سےمنورکیاجائے۔اس طرح سیرت ِنبویؐ کی اتباع ہی کامیابی کی زمانت دےسکتی ہے۔اقبال کی شاعری ہو،خطوط ہوں،خطبات ہوں،بیانات ہوں۔اقبال کےہاں فلسفہ،سیاست،تاریخ،مذہب،دین ،غرض یہ کہ ہروہ چیزمیسرآسکتی ہےجودوسروں کےدل کوراحت فراہم کرتی ہواورعمدہ ترین ماخذومحرک ثابت ہوتی ہو۔

پروفیسرعبدالحق نےاقبال کےابتدائی افکارکاذکرکیاہے۔اقبال کی ان خوبیوں کاذکرپروفیسروقارعظیم نےکچھ اس طرح کیاہے:

" اقبال فلسفی ہیں اور ایسے فلسفی جنہیں مشرق و مغرب کے فلسفیوں پر یکساں عبور ہے۔ وہ عالم دین ہیں اور ایسے عالم دین جنہوں نے دین کی صحیح روح کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ وہ سیاستدان ہیں اور دنیا کی سیاست کے پیچ وخم ان کی نظر کے سامنے ہیں۔ وہ تاریخ دان ہیں اور تاریخ کی روشنی میں حال کا جائزہ لیتے اور مستقبل کی زندگی کا تصور کرتے ہیں۔ وہ شاعر ہیں اور ان کی حکمت جذبے کے اضطراب کو اپنے اندر سمیٹتی اور سموتی ہے۔ اقبال کی جامع ذات علم کی شیدائی ہے۔ انہیں زندگی کے جس گوشے میں علم کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہے، بے تابانہ اسکی طرف لپکتے ہیں "8

اس طرح واضح ہےکہ اقبال کی شخصیت میں کس قدرخوبیاںموجودتھیں۔سیدوقارعظیم نےجوباتیں بیان کی ہیں پروفیسرعبدالحق نےمحرکات میں تفصیلی طورپران باتوںپرروشنی ڈالی ہے۔سیدوقارعظیم کی باتوں میں بیان کردہ خوبیوں سےان ماخذوں کی طرف اشارہ ہوتاہےجن کاذکرپروفیسرعبدالحق مختلف جگہوں پر کیاہے۔تین ماخذ،والدین،مولانامیرحسن اورپروفیسرآرنلڈ،خاص بات جوپروفیسرعبدالحق نےکی ہےوہ حب ِرسولؐ کی ہے۔امت ِمسلمہ کی کامیابی کےلیےحبِ رسولؐ ہی وہ راستہ ہےجوکامیابی کاضامن ہے۔

اقبال نےاپنےکلام کا بہت ساحصہ حذف کردیاتھاجس کی سب سےبڑی وجہ وہ زبان وبیان کی خامیاں قراردیتےتھے۔شاعری کاکچھ ایساحصہ نظرسےبھی گزرتاہےجواقبال کےابتدائی کلام سےہم آہنگ نظرنہیں آتا۔کلام اقبال کاوہ حصہ جسےاقبال نےحذف کیاتھااب بہت حدتک شائع ہوکرسامنےآچکاہے۔اس کی مدد سے ہم اقبال کےذہنی ارتقاکاجائزہ لےسکتےہیں۔اقبال فکروفلسفہ کی نگاہ سےدیکھتےاورسوچتےتھے۔اس لیےاقبال کوشاعری اورنثرمیں سےکسی ایک کی حدمیں قیدکرنامناسب نہ ہوگا۔اگرہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ شاعرصرف اشعارمیں ہی اپنےافکارکی ترجمانی کرتاہے۔لوگ صرف شاعری تک ہی اس شاعرکی شخصیت محدودکردیتےہیں جوکسی بھی طرح مناسب نہیں۔اقبال کویہ صفت حاصل ہےکہ وہ مفکرتھےاوران کےاشعارفکروفلسفہ لیےہوئےہیں۔اس طرح ان کی شاعری میں فن کاپہلوبہت اہمیت حاصل کرچکاہے۔یہی وجہ ہےکہ اقبال کاہرجملہ،ہرتحریراورہرتقریربہت اہمیت رکھتی ہے۔وسیلۂ اظہارکی کوئی اہمیت نہیں ہےفکرونظرمیں خیالات اورافکارکی افادیت زیادہ ہواکرتی ہے۔اقبال کےخیالات اورنظریا ت کابہت کم حصہ ہےجوکلام میں منتقل ہواہے۔ہربات جوذہن میں ہوتی ہےبعض اوقات اسکااظہارمشکل ہوجاتاہے۔اقبال کےبارےمیں غورکریں توجگہ جگہ نیارنگ دکھائی دےگا۔اقبال کی لکھی ہوئی ہرسطرکوشائع کرناچاہیے۔یہ قوم کی میراث ہےکسی کامالِ غنیمت نہیں ہے۔اقبال کی نثری تحریریں اقبال کی شاعری سےکسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔اورنہ ہی یہ کمی یابیشی کےمعیارپرجانچی جاسکتی ہیں بلکہ نثری موادتلاش کیاگیاتوایسامحسوس ہواکہ وہ شاعرانہ موادسےزیادہ ہی ہے۔

اقبال کواگربطورشاعردیکھناہوتوہم شاعری تک محدود رہ کربات کرسکتےہیں اگرفکرکےحوالہ سےبات کریں تواقبال کی لکھی ہوئی ایک ایک سطرکوذہن میں رکھناہوگا۔اقبال صرف شاعرہی نہ تھےبلکہ مفکربھی تھےاس لیےشعروفن کی بحث کرتےوقت فکرونظرکوبھی سامنےرکھناہوگااورجب ہم اقبال کےاسلوب فن کی بات کرتےہیں توفکروفلسفہ کی بات خودہی چھڑجاتی ہے۔بعض اوقات فکروفلسفےکےمسائل بہت دقیق ہوتےہیں۔شاعری میں ان کااظہاردشوارہوتاہےاوردوسروں کی سمجھ سےبالاترہوجاتاہے۔اس کےلیےنثرکااندازہی سب سےبہترسمجھاجاتاہے۔نثرمیں فلسفیانہ نظریات کی تشریح آسانی سےبیان کی جاسکتی ہے۔اظہاروترسیل کادہی عمدہ اندازہے۔اقبال نےاپنےفلسفیانہ خطبات کونثری اسلوب میں پیش کیااورفکرونظرکےفلسفیانہ اسلوب کےاظہارکےلیےاقبال نےنثرکااندازہی اختیارکیاہے۔اقبال کےفکروفن کےحوالہ سےدیکھیں جس کاآغازباقیات کےابتدائی دورکےبعدشروع ہوتاہے۔ناقدین نےاسےاقبال کاابتدائی دورتسلیم کیاہے۔پہلےدورمیں اقبال کےذہن پرقوم کی اصلاح کاجذبہ غالب تھا۔جبکہ دوسرےدورمیں استفہام واستفسارکےجذبےکارجحان نظرآتاہے۔جبکہ دوسرےدورمیں استفہام واستفسارکےجذبےکارجحان نظرآتاہے۔اقبال اس دورمیں شدیدذہنی خلش اوراضطراب میں مبتلاتھےاورانفس وآفاق کےرازجاننےکےلیےبےقراردکھائی دیتےہیں۔ان حالات میں وہ یہ بھی چاہتےہیں کہ اپناحال اورمقام بھی متعین کرسکیں۔اقبال حقیقت جاننےکےلیےبےچین ہیں۔نظم"ہمالہ" میں سوال اٹھاتےہیں۔حالانکہ جواب نہیں ملتا۔نظم"گلِرنگیں" میں سوال کیےہیں۔نظم"عہدِطفلی" میں بھی یہ جذبہ عیاں ہے۔اس سےیہ بات سامنےآتی ہےکہ سوالات کرنےسےاقبال کاتلاش وتفکرمزیدپروان چڑھ رہاہے۔ان سوالات سےہم اقبال کےفکرونظرکاتجزیہ آسانی سےکرسکتےہیں اس دورمیں جہاں اقبال فکرونظرکےدورِاستفہام سےگزرےوہاں کچھ مایوسی کاشکاربھی نظرآئے۔

؎زندگانی جس کوکہتےہیں فراموشی ہےیہ

 

 

خواب ہے،غفلت ہے،سرمستی ہے،بےہوشی ہےیہ9

انسان اگراپنی حقیقت جان لےتووہ غفلت کاشکارہوجاتاہے۔اس پرسستی اوربےہوشی طاری ہوجاتی ہے۔زندگی کےبارےمیں جان لینےکایہ نقصان ہوتاہےکہ انسان متحرک نہیں رہتا۔دوسرےدورمیں کچھ ایسااستفہامی رویہ اقبال کےہاں نظرآتاہے۔

دوسرےدورمیں اقبال فطرت پرست بھی نظرآتےہیں۔اس دورمیں اقبال کی شاعری میں فطرت کی مصوری دیکھنےکوملتی ہے۔اس کےلیےنظم"ایک آرزو"۔"ماہ نو"اور "ابر" کےچنداشعارمثال کےطورپرپیش کیےجا سکتے ہیں۔

اقبال نےاس دورمیں کچھ نظموں کےتراجم بھی لکھےہیں۔ان تراجم میں اخلاقی پہلوکوخاص طورپرمدنظررکھاہے۔ان تراجم میں زیادہ نظمیں بچوں کےلیےہیں۔"بانگ درا"کےحصہ اول پرغورسےنظرڈالیں توہم دیکھتےہیں کہ اس حصہ میں اپنےخیالات ونظریات کوابتدائی طورپراس حصہ میں مضبوطی سےپیش کیاہے۔اقبال نےتلمیحات وتضمین سےبھی مددلی ہےاوراپنےفکروفن کومزیدتقویت دی ہے۔سرسیداحمدخاں کاکرداروگفتار،غالب کامفکرانہ وفلسفیانہ فکراورمولاناروم کاصوفیانہ علم وعرفا ن اقبال کےلیےمتاثرکن تھا۔اقبال ان کے فکر و فلسفہ سے متاثر ہوئے اور ان سے فیض یاب بھی ہوئے۔ تصوف پرتواقبال نےتنقیدی نگاہ بھی ڈالی۔نظم "زہداوررندی" میں تو شدیدتنقید نظر سے گزرتی ہے۔

پھروہ دورآتاہےجب مغرب میں دین سےبیزاری کی تحریکیں چلناشروع ہوجاتی ہیں۔دین اورسیاست کوعلیحدہ علیحدہ کرنےکارویہ پروان چڑھناشروع ہوا۔ریاست اورعبادت گاہ زندگی کےدوعلیحدہ پہلوقراردیےگئے۔اقبال نےاس پربھی قلم اٹھایا۔دین،دنیااورسیاست کےحوالہ سےہماری ذمہ داری کیاہے؟اقبال کےاشعارمیں اس حوالہ سےبھی بہت ساموادمل سکتاہے۔

اقبال نےمرثیوں کوبھی اپنےپیغام کےلیےموثراندازمیں استعمال کیاہے۔یہ پیغام اقبال کےفکروفلسفہ کاپیغام ہے۔اقبال نےاگر"داغ" کامرثیہ کہاہےتواسکےآخری اشعارمیں بھی اقبال کافکرپوشیدہ ہے۔اقبال نےملکہ وکٹوریہ کاجومرثیہ کہاہےاسمیں سیاست کےبنیادی اصولوں اورضابطوں کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

اقبال کےہاں اس دورمیں ہی فکروفن کاسمندرغوتےکھاتامحسوس ہوتاہے۔ناقدین،محبانِ اقبال اورشناسانِ اقبال نےمتعددموضوعات پرگفتگوکی ہےاوراقبال کاموقف واضح کیاہے۔اگرچہ "بانگِ درا" کی اشاعت۱۹۲۴ءمیں ہوئی مگرپروفیسرعبدالحق نےاقبال کےجن افکارپرروشنی ڈالی ہےوہ اقبال کے۱۹۰۵ء تک کےدورکےکلام پرمشتمل ہیں۔اقبال کےافکاراس دورمیں بھی ا نتہائی مضبوط ا ورمدلل تھے۔آہستہ آہستہ ا قبال کےفکروفن میں مزیدمضبوطی آتی رہی اور "اقبال گر" مولوی میرحسن کابنایاہوااقبال سرمایہ افتخاربن گیا۔

اقبال عقدہ رازتلاش کرنےمیں راحت محسوس کرتےتھے۔نتیجہ جوبھی ہووہ اس پرتوجہ نہیں دیتےتھےبس کوشش یہی رہتی کہ ایساعمل بارباراورباقاعدگی سےجاری رہناچاہیے۔نتائج سےبےنیازہوکراقبال تلقین کرتےتھےکہ اپنی کوشش میں مصروف رہناچاہیے۔اقبال کافلسفۂ عمل شروع سےآخرتک اسی اندازسےرواں دواں ہےاورآخری دورتک اقبال اپنےاس نظریہ کی تبلیغ کےلیےکوشاںرہے۔یہ ایسافلسفہ ہےجوجہدِمسلسل کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتاہے۔اس طرح پوشیدہ اشیاءکی تلاش اوراس کےبارےمیں جانچ کارویہ اقبال پرحاوی نظرآتاہے۔زندگی کےآخری یاتیسرےدورمیں اس رویہ کی شدت پائی جاتی ہے۔اقبال فطرت سےبھی بہت زیادہ قریب نظرآتےہیں۔شعراکی فطرت سےقریب ہونےکی وجہ روحانی تاثرات ہیں روحانی شاعری کےمعاشرتی محرکات مکمل طورپراثراندازہورہےہیں۔شعراکوفطرت سےقریب ہونےکی وجہ روحانی تاثرات ہیں۔روحانی شاعری کےمحرکات مکمل طورپراثراندازہوتےرہےہیں ۔

ایک اوروجہ ہےجسےافلاطونی یاصوفیانہ اثرات بھی کہہ سکتےہیں۔اس اثرکےتحت ان شعراکوفطرت میں بےپناہ حسن محسوس ہوتاہےیہ حسن دراصل ان کےنزدیک حسنِ ازل ہے۔شعراکرام اس حسنِ ازل کاذکرمختلف اندازسےکرتےہیں۔مگران کامرکزی خیال یہی ہوتاہےکہ ہرشےحسین ہےاورحسنِ ازل کی جھلک لیےہوئےہے۔اسےاگراپنی اصل سےجداکردیاجائےتویہ بےقراررہتی ہے۔اقبال بھی فطرت کےمناظرسےبہت دلچسپی رکھتےتھے۔آپ فطرت کی تحسین کےقائل تھےاورانہیں بھی فطرت اورقدرت کےہرمنظرمیں حسنِ ازل کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔اقبال متفکرانہ اندازمیں ذات وکائنات کےمتعلق سوالات لیےہوئےتھےاورانکےجواب کی تڑپ شدت سےتھی۔اس لیےآپ کائنات کی ہرشےسےمخاطب ہوتےتھے۔ہرایک سےسوالات کرتےتھے۔ذات اورکائنات کےتعین میں انہیں فطرت کی بےشماراشیاءسےمحبت معلوم ہوتی ہے۔انسان اورکائنات کےباہمی رشتوں پربھی روشنی ڈالیں تواقبال کےتصورات ہمیں استفہام کی دنیامیں ضرورپھراتےہیں۔فطرت پرستی کارجحان عام تھااقبال نےاس دورکےبعدفطرت کوہمیشہ ایک ثانوی مقام دیااس ڈرسےکہ کہیں فطرت بھی کوئی بت ہی نہ بن جائے۔اقبال کےفکروفن میں فطرت پرستی کوکوئی خاص مقام حاصل نہیں ہے۔پس منظرکےطورپرکہیں ذکرہےیاپھرفطرت سےاپنےدیگرمقاصدپورےکیےہیں۔اسطرح نہیں جیسےولیم ورڈزورتھ کامعاملہ ہو۔اقبال نےفطرت کےمناظرومظاہرکاتذکرہ اپنےفکروفلسفہ میں پیش کیاہے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کے فکر و فلسفہ پر مشرقی ماحول کا نمایاں اثر تھا۔ اقبال کی تربیت میں گھر کے ماحول، والدین اور ابتدائی اساتذہ کا اثر بھی نمایاں طور پر اقبال کی شخصیت پر نظر آتا ہے۔ اقبال استفہامی کیفیت کے تاثر سے اشیاء کی حقیقت سے آگہی کا شعور بیدار کرنے میں کامیاب رہے یہی وجہ ہے کہ فکرِ اقبال میں بصیرت کا جہان آباد ہے۔

اقبال کےماخذاورمحرکات کامطالعہ اقبالیات کےطلباکونئی راہوں پررواں دواں کرتاہےاورساتھ ہی اقبال کی استفہامی کیفیت کاپہلوبھی فکرِاقبال کےگوشوں کونئی راہوں پرگامزن کرتاہے۔اقبالیات کےطلباان موضوعات کےمطالعہ سےتحقیق وتنقیدکی نئی راہیں استوارکریں گےاورفکرِاقبال کےنئےپہلوسامنےآئیں گے۔

٭٭٭

 

1 اقبال ،اقبالنامہ مرتبہ شیخ عطاءللہ(لاہور : اقبال اکیڈمی پاکستان ، 2005ء)،648۔

2 اقبال ،کلیات ا قبال اردو, بانگ درا،التجائےمسافر (لاہور : اقبال اکیڈمی پاکستان ، 2004ء)،123۔

3 Allama Iqbal, Stray Reflections Edited by Javed Iqbal (Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 2012), 167.

4 اقبال ،کلیات ا قبال اردو, بانگ درا،نالہ فراق (لاہور : اقبال اکیڈمی پاکستان ، 2004ء)،105۔

5 پروفیسر عبدالحق ،اقبال کےابتدائی افکار،فکری سرگزشت (دہلی : جمال پرنٹنگ پریس ، 1929ء)،72۔

6 ڈاکڑ گیان چند ،ابتدائی کلام ا قبال (دہلی : فوٹوآفسٹ پرنٹر ، 1988ء)،418۔

7 پروفیسر عبدالحق ،اقبال کےابتدائی افکار،فکری سرگزشت (دہلی : جمال پرنٹنگ پریس ، 1929ء)،85۔

8 پروفیسر سید وقار عظیم ،اقبالیات کامطالعہ، مرتبہ،ڈاکٹرسیدمعین الرحمن (لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، 1977ء)،207۔

9 اقبال ،کلیات اقبال اردو،بانگ درا،بچہ اورشاعر (لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، 2004ء)،120۔

1

 

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index