Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Negotiations > Volume 1 Issue 3 of Negotiations

سیرت رسول عربی ﷺ(از نور بخش توکلی)کے منہج و اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ |
Negotiations
Negotiations

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فلاح وبہبود کے لیے ہر دور میں انبیاء کا سلسلہ جاری رکھا اور اس عمل کی انتہاء نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہیں۔آپ ﷺ نے انسانی تاریخ میں تہذیب و تمدن،علمی تہذیب و روایات اور اخلاقیات کی جس معراج کو چھوا ہے اور اس کی بناء پرمعاشرے میں جو انقلاب آپ ﷺ کی سیرت و کردار نے برپا کیا ہے کسی بھی دوسرے انسان کے لیے انسانی تاریخ اس پہلو سے بالکل خاموش نظر آتی ہے ۔ جس کی بناء پرآپ ﷺ کی زندگی علوم و فنون کا ایک بہتا ہوا ایسا سمندر ہے کہ ہر فن کے انسان نے اس سے اپنی استطاعت کے مطابق استفادہ کیا۔امت مسلمہ میں سے ایک بڑ اطبقہ ایسا بھی ہے جس نے آپ ﷺ کی سیرت و کردار پر قلم اٹھایا اور اس کو موضوع سخن بنایا۔نور بخش توکلی برصغیر کی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جن کو اللہ نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے اس پہلو پر لکھنے کا شرف بخشا۔اس آرٹیکل میں آپ کی سیرت کی کتاب سیرت رسول عربیﷺ کے منہج و اسلوب پر گفتگو کرنے کاشرف حاصل کریں گے۔

سابقہ تحقیقات کا جائزہ

اس آرٹیکل سے قبل کچھ مئولفین اور سیرت نگاروں نے نور بخش توکلی کی شخصیت اور سیرت نگاری کے متعلق جزوی طبع آزمائی کی ہے اور مختلف جامعات میں ان پر الگ الگ مقالات لکھے گٗے ہیں ۔جی سی یونیورسٹی فیصل آباد مین نور بخش توکلی بحیثیت سیرت نگار کام ہوا ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہی ایم اے کی سطح پر نور بخش توکلی کی علمی و ادبی خدمات پر کام ہوا ہے لیکن نور بخش توکلی کی سیرت کی کتاب سیرت رسول عربی کے منہج و اسلوب پر کام میری نظر سے نہیں گزرا۔اس لیے ضرورت کے پیش نطر توکلی صاھب کا اس سیرت کی کتاب میں منہج و اسلوب کو زیر بحث لایا گیا ہے

نور بخش توکلی رحمتہ اللہ علیہ کا تعارف

کسی شخصیت کی علمی و دینی خدمات کا جائزہ لینے سے پہلے ان کی زندگی کے حالات پر مختصر نگاہ ڈالنا ضروری ہوتا ہے چونکہ پروفیسر نور بخش توکلی ؒنے خدمت خلق میں اپنی زندگی بسر کی اور ان کی خدمت کا دائرہ نہ صرف انہیں کے دور تک محدود تھا بلکہ آج کے دورِ جدید تک پھیلا ہوا ہے ۔ لہٰذا ان کی نفسیاتی ، معاشرتی ، ظاہری و باطنی طور پر ہم آہنگ زندگی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے جس کے نتیجے میں آپ کی پوری شخصیت اپنے ہمہ پہلوؤں کے ساتھ تحقیق کے تحت ڈھل سکے۔ ''علامہ نور بخش توکلیؒ یکم جون ۱۸۷۱ء بمطابق ۱۲ ربیع الاول ۱۲۸۸ھ '' قاضیاں'' نامی دیہات میں پیدا ہوئے ''1جو بھارت کے ضلع لدھیانہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہے آپ کی پیدائش چونکہ دیہات کی کھلی فضا میں ہوئی اس لیے دیہاتی زندگی کے اثرات آپ کے دل اور جسم پر مزین تھے آپ کے والد کا نام '' میاں شادی شدہ '' تھا جو سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور انتہائی دیندار اور پاک باز انسان تھے۔2 اس تربیت کا اثر یہ ہوا کہ آپ کی زندگی میں کوئی ایسا محرک پیدا نہ ہوا جو آپ کی زندگی میں تفرق کا باعث بنتا آپ بچپن ہی سے نماز ، روزہ اور قرآن مجید کی تعلیم میں انتہائی دلچسپی لینے لگے اور آپ نے یہ تعلیم دیہات کی فضا میں ہی مکمل کی۔ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک ماہر تعلیم انسان تھے بلکہ ایک مشہورو معروف شیخ طریقت بھی تھے ۔ آپ ایک اعلیٰ اخلاق و فضائل کا امتزاج تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے کامیاب عالم دین اور عظیم شیخ طریقت کی زندگی بسر کی علامہ توکلیؒ کی زندگی کے خصائص و فضائل کا جائزہ لینے کے لیے ان کی زندگی کے مندرجہ ذیل اخلاق و عادات کا جائزہ لینا بے حد ضروری ہے ۔

علامہ نور بخش توکلی رحمتہ اللہ علیہ کو رسول اکرم ﷺ کی ذات سے بے پناہ محبت تھی اور وہ ساری عمر دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے کہ اصل دین و ایمان محبت رسول ﷺ ہے ۔ چونکہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار محبت رسول اللہ ﷺ پر مبنی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کا دل محبت رسول سے منور تھا اور جب آدمی کا دل محبت کے اس نور سے منور ہوجاتا ہے تو دونوں جہاں میں سرخروئی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور محبت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی اتباع کی جائے جس کو علامہ توکلیؒ نے اپنی زندگی کا شعار بنا رکھا تھا۔ علامہ توکلیؒ کا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ تھا اس لیے آپ نے ایک پر کیف ماحول میں آنکھ کھولی اور اس نورانی ماحول کے اثرات کو قبول کرنا آپ کے لیے ایک فطری عمل تھا۔ اس گھرانے سے جو چیزیں آپ کو وراثتاً ملیں ان میں محبت رسول سر فہرست ہے پھر اس کے بعد پاک شریعت کی پابندی کرنا اور تیسرے نمبر پرعلم و معرفت سے طبعی لگاؤ ۔ آپ نے شروع سے ہی گاؤں میںموجود مسجد و مدرسہ کی طرف رجوع کیا اور علم حاصل کرنا شروع کر دیا۔ آپ نے قرآن مجید کے اسباق کے ساتھ ساتھ بنیادی شرعی مسائل بھی سیکھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے قریبی مڈل سکول میں داخلہ لیا۔ آپ نے اپنی ذہانت و محنت کی وجہ سے اساتذہ کی نظر میں نمایاں مقام حاصل کر لیا اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ 3 اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا ۔ اس کے حصہ سکول میں میٹرک اور ۱۸۸۷ء میں باقاعدہ طور پر علی گڑھ کالج کی انٹر کلاسز میں داخلہ لے لیا۔ علی گڑھ کالج میں قیام کے دوران آپ کو مغربی افکار سے شناسائی حاصل ہوئی اور اس کے ساتھ علامہ توکلی ؒکو شبلی جیسے اہل علم و اہل قلم سے درس و تدریس کا براہ راست موقع مل گیا۔ جس کی وجہ سے آپ نے مختلف علوم میں مکمل مہارت حاصل کی۔ اسی دوران آپ کو سیاسی ، معاشرتی اور بین الاقوامی تحریکات سے گہری آشنائی حاصل ہوئی۔ علی گڑھ میں رہتے ہوئے علامہ توکلی کی کچھ ایسی ادبی تربیت ہوئی جس کا اظہار آپ کی تصانیف سے عیاں ہوتا ہے ۔ اس دوران آپ صرف کلاسز تک محدود نہ رہتے تھے بلکہ مختلف اٹھنے والی تحریکوں میں شریک ہوتے تھے یہی وجہ ہے کہ MSF کے جرنل سیکٹری بھی رہے علی گڑھ کالج سے گریجوایشن پر آپ میں خود اعتمادی پیدا ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے پوسٹ گریجوایٹ کی ڈگری کے لیے بھی علی گڑھ یونیورسٹی کو منتخب کیا اور مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔4

علامہ نور بخش توکلی ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے تھے جب مغربی تہذیب نے نوجوان طبقہ کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا مادیت پرستی کا دور دورہ تھا اور اسلام کی حقیقت و اہمیت لوگوں کے دلوں سے اٹھ چکی تھی۔ شعائر اسلام کی تحقیر اور اہل حق و اولیاء اکرام کی تضحیک لوگوں کا وطیرہ بن چکا تھا۔ انہی دنوں میں امام احمد رضا خان بریلوی نے اسلامی تعلیمات میں از سر نو نئی روح پھونک دی اور اس کام کو انتہائی مؤثر انداز میں سر انجام دیا اور دشمنان اسلام کے پروپیگنڈے کا بھر پور جواب دیا۔ دوسری شخصیت جو اس کام میں پیش پیش تھی وہ علامہ محمداقبال تھے جنہوں نے اپنی شاعری اور تحریر سے اس کام میں معاونت کی۔ علامہ توکلی کے ان دونوں بزرگوں کے ساتھ تعلقات تھے لہٰذا انہیں ان کے نظریات و افکار سے بھی مکمل اتفاق تھا انہوں نے ان دونوں بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اصلاح دین کے نام کو آگے بڑھایا اس لیے آپ کا شمار نمایاں علمائے کرام میں ہوتا ہے جو صراط مستقیم کی طرف عوامی راہنمائی کے لیے میدان حق میں اترے۔ آپ نے ہر میدان میں عوامی اصلاح اور راہنمائی کے لیے اپنی صلاحتیوں سے کام لیا اور عوام کی فلاح کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اس کام کو بھر پور اور احسن انداز میں سر انجام دیا۔ مباحثہ اور تقاریر کے علاوہ تصانیف کو بھی عوامی ہدایت کا ذریعہ بنایا اور اس کام کے لیے بہت سی کتب لکھیں۔ جن میں شائستہ اور مہذب زبان و لہجہ اختیار کیاگیا جس سے کسی طبقے کی دل شکنی نہ ہوئی اور شاید یہی معیار تھا جو علامہ توکلی کی تصانیف کی مقبولیت کا سبب بنا۔

علامہ توکلی ؒ کی جب تصانیف پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ کے دل و دماغ میں امت مسلمہ کے لیے کتنی ہمدردی تھی اور ہمیشہ امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے مصلحانہ کوششیں جاری رکھیں۔ خاص طور پر سیرت رسول عربیﷺ کو ان حالات میں تالیف کر کے جب آپ ﷺ پر مشرقین مختلف قسم کے اعتراضات باندھ رہے تھے آپﷺ کو ایک عام انسان کی طرح پیش کیا جا رہا تھا جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے تھے تو آ پ نے اس کتاب کے ذریعے ان کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا۔ آپ کی علمی وسعت ، علم و عرفت حالات حاضرہ سے واقفیت ، حالات حاضرہ پر گہری نظر آپ کی تصانیف سے عیاں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ جو ان کے اندر عشق رسول ﷺ کا ایک سمندر موجزن تھا اور یہی محبت رسول ﷺ تھی جو علامہ توکلی ؒ کو حاصل تھی امت مسلمہ کے لیے ایک قطعی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتی تھی کیونکہ ہر وہ کام جس میں محبت ، عشق ،لگن شامل نہ ہو وہ حتمی طور پر سر انجام نہیں دیا جا سکتا اور حقیقت میں یہی محبت رسول ﷺ ، عقائد ،نظریات اور اعمال و افکار ہیں جو ایک حقیقی مسلمان کا خاصہ ہیں۔

سیرت رسول عربی ﷺکی وجہ تالیف

اللہ تعالیٰ نے جس ہستی کی خاطر تمام کائنات کو پید اکیا اور فرمایا کہ '' اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو کسی چیز کو پیدا نہ کرتا'' اس ہستی کی سیرت مبارکہ پر قلم اٹھانا یقیناً انعام و اکرام کا باعث ہے اس پر مستزادیہ کہ اس میں دلی محبت اور عشق رسول ﷺ کی ایمانی دولت بھی شامل ہو تو اللہ تعالیٰ انسان کو وہ نعمتیں اور بلندیاں عطا کرتا ہے جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا اور ایسی ہی شہرت و بلندی اور رفعت علامہ نور بخش توکلی ؒکی کتاب '' سیرت رسول عربی ﷺ '' کو حاصل ہوئی۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد مبارکہ

{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ'' حَسَنَۃ'' } 5

قرآ ن مجید میں پڑھنے کے بعد ہر مسلمان کے دل کی یہ آرزو اور تمنا ہوتی ہے نبی کریم ﷺ کی ہر سنت پر عمل پیرا ہو اور اس کو احسن ترین انداز میں بیان کر سکے۔ مگر یہ دولت انہیں کو حاصل ہوتی ہے جن کے سینے اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے کشادہ کر دیتے ہیں۔

علامہ نور بخش توکلی کو حضور خاتم النبین ﷺ کی ذات بابرکت سے گہری عقیدت و محبت تھی حضور ﷺ کی ذات با برکت سے محبت کا ثبوت ان کی کتاب '' سیرت رسول عربیﷺ'' ہے جس کے اوراق حضور ﷺ سے محبت بھرے جملوں سے مزین ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے محبت کا انداز ہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم سیرت رسول عربی ﷺ کے اسباب تحریر پر نگاہ ڈالتے ہیں۔

۱۔پہلی وجہ یہ تھی کہ مخالفین اسلام جو ازل سے اسلام کو نقصان پہنچانے کے درپیش تھے ان کو اسلام کی ترقی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اس لیے انہوں نے اسلام کی اہمیت مسلمانوں کے دلوں سے کم کرنے کے لیے اسلام کے ساتھ ساتھ بانی اسلام یعنی حضور اکرمﷺ کی سیرت و ناموس رسالت کو بھی داغدار ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی تا کہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کے دلوں میں حضور ﷺکی ذات کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں اور انہیں شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنایا جا سکے تو ان حالات میں علامہ نور بخش توکلیؒ کی دور بین نگاہیں مشرقین کے عزائم کو بھانپ گئیں اور انہوں نے '' سیرت رسول عربیﷺ'' میں مشرقین کی فریب کاری اور خطر ناک عزائم کی قلعی کھول دی۔

۲۔دوسری وجہ یہ تھی کہ قرآن مجید مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے اتر ا تھا اس لیے اس کے مفاہیم و مطالب اور اس کی مراد کو سمجھنے کے لیے ''سیرت محمدیہ '' کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری تھا کیونکہ سیرت محمدیہ ﷺ قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جا بجا قرآن مجید میں نبی پاک ﷺ کی اتباع پر زور دیا ہے۔

اس بارے میں علامہ موصوف خود تحریر فرماتے ہیں کہ '' حضور اقدس ﷺ کی سیرت سے واقف ہونا ہر ایک مسلمان پر فرض ہے کیونکہ حضور ﷺ حسب ارشاد الٰہی مسلمان کے لیے واجب تقلید نمونہ ہیں اسی واسطے حضور ﷺ کے اقوال و افعال ، اخلاق و عادات ، حرکات و سکنات، وضع قطع، رفتار گفتار اور طریق معاشرت وغیرہ سب کے سب بطریق اسناد نہایت صحت کے ساتھ محفوظ ہیں تا کہ قیامت تک آپ ﷺ کے نام لیواؤں کے لیے دستور العمل بنیں ''6

۳۔ تیسری وجہ علامہ توکلی ؒ خود لکھتے ہیں:'' ایمان کی شرط اوّل ختم المرسلین کی محبت ہے اور محبت کا تقاضا ہے کہ ہر چیز ، ہر رشتے حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ذات ، محبوب خدا کو جب تک نہ بنا لیا جائے تب تک نعمت ایمان کا حصول ممکن نہیں ''7

اسی لیے علامہ توکلی کی دلی تمنا تھی کہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ پر بھر پور روشنی ڈالی جائے تا کہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے ۔

۴۔ چوتھی اور آخری وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ توکلی فرماتے ہیں کہ '' اس پر آشوب زمانہ میں ملک ہند میں کئی فتنے بر پا ہیں۔ جو سب کے سب صراطِ مستقیم سے منحرف ہیں۔ اردو میں سیرت پر جو چند ایک کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں شاید ہی کوئی بہمہ وجوہ اہل سنت و جماعت کے معیار پر پورا اترے لہٰذا فقیر نے بتوفیق الٰہی اس کتاب میں مسلک اہلسنت کی پابندی کا پورا التزام رکھا ہے اور مستند اور معتبر روایات مع حوالہ درج کی ہیں ''8

سیرت رسول عربی ﷺکا منہج و اسلوب:

ان تمام وجوہات و اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر علامہ توکلیؒ نے سیرت رسول اکرم ﷺ پر انتہائی سادہ ، عام فہم زبان اور مستند انداز میں '' سیرت رسول عربیﷺ '' کے نام سے کتاب لکھی۔

تدریجی انداز:

علامہ توکلیؒ نے'' سیرت رسول عربیﷺ '' کے لیے پہلے سے کوئی خاکہ تیار نہیں کیا تھا بلکہ ارتقائی انداز میں اس کو تحریر کیا۔وہ مختلف اوقات میں آپ ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے رہتے اور عوام الناس تک پہنچاتے رہتے سب سے پہلے انہوں نے ربیع الاوّل کے مہینے میں میلاد النبی ﷺ پر رسالہ تحریر کیا جس پر انہوں نے آپ ﷺ کے خصائص بیان کرنے کے ساتھ ساتھ میلاد کے جواز پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد علامہ توکلی نے آپ کے جسم اقدس کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ''حلیہ النبیﷺ '' کے موضوع ر سالہ لکھا یہ رسالہ بھی ربیع الاوّل کے مہینے میں ۱۳۳۶ ھ کو طبع ہوا۔

اس سلسلہ کو آپ نے جاری رکھا اور ایک سال بعد ۱۳۳۷ھ کو آپ ﷺ کے معجزات کو قلمبند فرمایااور'' معجزات النبی ﷺ '' کے موضوع پر رسالہ تحریر کیا۔ اس کے بعد ۱۳۴۱ھ میں آپ کے معراج کے حالات واقعات کو سپرد قلم کرتے ہوئے '' معراج النبی ﷺ '' نامی رسالہ تحریر کیا پھر '' غزوات النبیﷺ '' کے نام سے ایک کتابچہ تحریر کیا۔۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ آپ اپنی ملازمت سے فارغ ہو گئے اس کے بعد علامہ توکلیؒ نے سیرت طیبہ لکھنے کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہوئے۔ علامہ موصوف خود لکھتے ہیں: '' چنانچہ سیرت کا ایک نہایت مختصر سا خاکہ ذہن نشین کر کے طبع آزمائی کرنے لگا عنائت الٰہی اور حضور تاجدار مدینہ ﷺ کی روحانی مدد شامل ہوئی ۔ پھر کیا بیان کروں حالات تھے پیارے پیارے جذبہ شوق میرے قلم کو کشاں کشاں کہیں سے کہیں لے گیا اور غایت واختصار کے باوجود یہ کیا تیار ہوگئی جو نظر قارئیں ہے ''9 ''لہٰذا ۲۱ محرم الحرام ۱۳۵۷ ھ بمطابق ۲۴ مارچ ۱۹۳۸ یہ کتاب مکمل ہوئی اور پہلا اڈیشن منظر عام پر رونما ہوا ''10

مندرجہ بالا حقائق واقعات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے علامہ توکلی ؒنے سیرت پر کتاب لکھنے سے پہلے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی اور نہ اس کام میں کوئی ان کا معاون تھا۔ بلکہ اس سارے کام میں توکلیؒ کی محبت ، خلوص اور تائید اپری شامل حال تھی۔ اللہ نے ان کا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا علامہ توکلی ؒنے خداد اد صلاحیتوں سے کام لیتے '' سیرت رسول عربیﷺ '' جیسی مستند اور مدلل کتاب لکھ کر ایک گراں قدر خدمت سر انجام دی جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس محققانہ انداز میں لکھی گئی کتاب سے انسانیت ہمیشہ مستند ہوتی رہے گی۔

سیرت رسول عربیﷺ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا طرز اسلوب تحریر بہت سی خوبیاں پر مشتمل ہے جن میں سے چند کا جائزہ لیا جاتا ہے جو درج ذیل ہیں۔

ادبی اسلوب:

سیرت رسول عربی ﷺکے مطالعہ کرتے ہوئے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے طرز تحریر میں ادب کی چاشنی موجود ہے۔ جو مصنف کی ادب کی خوبیوں کا اظہار کرتی نظر آتی ہے ۔ الفاظ کے چناؤ کے اندر ادبی رنگ کی جھلک کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایک لفظ کو بھی نکالا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریر اس کے بغیر مکمل نہیں ہو پا رہی گویا ایسے ہی جس طرح موتیوں کی مالا سے کسی ایک موتی کو نکالنے سے موتیوں کی مالابے رونق ہو جاتی ہے مصنف نے عام الفاظ کی بجائے ادبی الفاظ کا چناؤ کیا ہے۔

علامہ نور بخش توکلیؒ کا محققانہ طرزِ اسلوب:

علامہ توکلی ؒجو بھی واقعہ تحریر کرتے ہیں اس کی مکمل تحقیق کرتے ہیں پھر اس کا حوالہ دیتے ہیں بغیر تحقیق کے کسی بھی تحریر کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے پروفیسر اکرم رضا اس حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں۔ '' سیرت رسول عربیﷺ محققانہ مواد، علمی مباحث اور قرآن حدیث کے حوالہ جات کی بنا پر ایک مختصر سوانحی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے ''11

 

عام فہم طرز اسلوب:

دلچسپ ، عام فہم تحریر قاری کے اندر دلچسپی پیدا کرتی ہے علامہ توکلی کی تحریروں کے اندر سادہ الفاظ کا ستعمال کیا گیا ہے ہر ایک کی سمجھ میں آجاتا ہے ۔ بعض کتابوں اور تصنیفات کو پڑھتے وقت ساتھ ساتھ لغت کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے ان کو مکمل سمجھنے کے لیے مگر سیرت رسول عربی ﷺکو عام ادارے سے پڑھا ہوا قاری بھی با آسانی سمجھ کر مکمل استفادہ حاصل کرتا ہے۔

مصنف ومحقق علامہ عبدالحکیم شرف قادری سیرت رسول عربی ﷺکے طرزِ اسلوب کے حوالے سے یوں بیان فرماتے ہیں۔

'' ضرورت تھی کہ ایسی کتاب لکھی جائے جو مستند معلومات پر مشتمل ہو مسلک اہل سنت کی صحیح ترجمانی کرے اور انداز بیان سادہ اور عام فہم ہو حضرت مولانا نور بخش توکلی ؒقدس سرہ نے سیرت رسول عربیﷺ لکھ کر اس ضرورت کو پورا کر دیا۔ حضرت علامہ نور بخش توکلیؒ تصنیف و تالیف کی ضرورت و اہمیت اور افادیت سے پوری طرح با خبر تھے اس لیے انہوں نے اس طرف خصوصی توجہ فرمائی اور اس میدان میں خاصہ کام کیا قدرت نے انہیں وسیع معلومات ، قوت استدلال اور عام فہم انداز تحریر کاملکہ عطا فرمایا تھا ''12

عشق محمدی ﷺپر مبنی طرز اسلوب:

علامہ توکلی ؒنے سیرت رسول عربی ﷺعشق محمدی کو سامنے رکھتے ہو ئے لکھی جب بھی بارگاہ رسالت میں جاؤ عشق و محبت کے ساتھ جاؤ عام بندہ کی طر ح نہ ہو یعنی جس طرح عام شخص کی زندگی پر گفتگو کرتے ہیں۔ مگر جب ہم بارگاہ رسالت میں حاضر ہوں اور سیرت طیبہ کے حوالے سے لکھنے کا موقع ملے تو ہر لفظ کے اندر آپ ﷺ کے ساتھ عشق و محبت کی واضح جھلک نظر آنی چاہیے ۔

ربط پر مشتمل طرز ِ اسلوب :

سیرت رسول عربیﷺ کے طرزِ اسلوب میں یہ واضح بات دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہ اس کے اندر تمام مضامین، واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ہر لفظ دوسرے لفظ کے ساتھ جڑا ہوا ہے مربوط تحریر انداز ہے۔ یعنی جب ایک بات بیان ہوئی ہو اُس طرح کا ملتا جلتا واقعہ ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے قاری کو پڑھنے کے دوران کسی قسم کی ذہنی تشویش نہیں ہوتی۔

عقیدہ رسالت پر مشتمل اسلوب :

بعض لوگ صرف توحید پر ست ہوتے ہیں اور اپنی طرزِ تحریر میں صرف اللہ کا ہی ذکر کرتے ہیں مگر علامہ نور بخش توکلیؒ کی طرزِ تحریر میں عقیدہ توحید کے ساتھ ساتھ عقیدہ رسالت کی خوشبو بھی نظر آتی ہے اللہ کے بعد آپ ﷺ کی ذات مبارکہ ہی تمام تر عزت و تکریم کی مالک ہے ۔ ایمانی قوت کا اظہار صرف عقیدہ توحید پر نہیں بلکہ ساتھ رسالت پر بھی مبنی ہے۔

علامہ نور بخش توکلیؒ سیرت رسول عربیﷺ کی وجہ تالیف اسی سلسلہ کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں۔ ''اس پر آشوب زمانہ میں ملک و ہند میں کئی فتنے برپا ہیں جو سب کے سب مسلک اہل سنت و جماعت سے منحرف ہیں اردو میں سیرت پر چند کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں سے شاید ہی کوئی بہمہ وجوہ اہل سنت و الجماعت کے معیار پر پوری اترے ، فقیر نے بتوفیق الٰہی اس بات کا پورا التزام رکھا ہے '' 13

پُر دلیل طرز ِ اسلوب:

علامہ توکلیؒ کوئی بھی واقعہ بیان کرتے ہیں تو ساتھ اس کی دلیل بھی پیش کر دیتے ہیں واقعہ کی نوعیت کے مطابق سب سے پہلے قرآنی حوالے سے بات کو بیان کرتے ہیں پھر احادیث، سیرت اور تاریخ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں ساتھ اس کا حوالہ بھی لکھتے ہیں تا کہ قاری اگر اصل ماخذ کی طرف رجوع کرنا چاہے تو اسے کسی قسم کی مشکل یا پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

ہندوستان کی نوجوان نسل کے لیے :

اور جب ہم سیرت رسول عربی ﷺپر نظر ڈالتے ہیں توپتا چلتا ہے اس کے اندر علامہ نور بخش توکلیؒ نے خود کتاب کا تعارف کروایا اور لکھنے کی وجہ یوں بتائی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے لکھی گئی کہ وہ سیرت رسول طیبہ سے مستفید ہوںاور نوجوانِ نسل اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں اس وجہ سے علامہ توکلیؒ نے اس کی طرز تحریر کے اندر اسلوب انتہائی ساد ہ رکھا آج بھی قاری جب اس کو پڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب آج کے دور میں لکھی گئی حالانکہ اس کو لکھے ہوئے ایک صدی گزر گئی پھر بھی مکمل راہنمائی کا سامان مہیا کرتی ہے اس کا طرزِ اسلوب طرز تحریر عمدہ ، سادہ اور دلچسپ ہے۔ ادب کی چاشنی موجود ہے ۔ عبارت کے اندر ربط اور تسلسل پایا جاتا ہے ۔ تحقیق و جستجو پر مشتمل طرزِ تحریر ہے عشق محمدی کی واضح جھلک اس کے ایک ایک لفظ پڑھنے سے قاری کے سامنے عیاں ہوتی ہے۔

سیرت رسول عربیﷺ '' میں اخذ روایات کے اصول و قواعد:

نور بخش توکلی نہ صرف اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے بلکہ آپ خواجہ توکل صاحب کے خلیفہ ہونے کے ناطے سے اپنے دور کے شیخ کامل تھے ۔ آپ نے بطور پروفیسر بھی کام کیا۔جب آپ کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ آپ '' جامعہ نمانیہ ہند'' کے ناظم تعلیمات بھی رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ماہنامہ رسالہ کے ایڈیٹر بھی رہے ۔موصوف ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے۔

سیرت رسول عربیﷺ کو لکھے ایک پوری صدی ہونے کو ہے جب یہ کتاب لکھی گئی تو اُس وقت مؤلف کے پیش نظراردو ادب میں ایسی مثالیں بہت کم تھیں جن کو پیش نظر رکھاجا سکتا تا ہم پھر بھی آج کے جدید دور میں کسی کتاب یا تحقیق کو لکھنے کے لیے جو ماہرین نے قوانین و ضوابط اور معیار مقرر کیے ہیں علامہ نور بخش توکلی کتاب ' ' سیرت رسول عربیﷺ '' کو پڑھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ علامہ موصوف نے ان نئی کتب سیرت کے مقابلے میں اپنے دور کے تقاضوں کو نہ صرف یہ کہ پورا کیابلکہ '' سیرت رسول عربیﷺ''کو جدید دور کے قواعد و ضوابط کے عین مطابق بنایا یہ چیز موصوف کی علمی جستجو اور تحقیقی گہرائی کو اجاگر کرتی ہے۔ سیرت رسول عربی کے اخذ شدہ روایات کو ایک نظر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مؤلف نے اس دور میں بھی جب اس وقت رسائل و ذرائع آج کے اس جدید دور کی طرح آسان نہ تھے آپ نے اس وقت غیر ممالک میں چھپی ہوئی کتب سیرت وتاریخ ، تفاسیر تک نہ صرف رسائی حاصل کی بلکہ جا بجا '' سیرت رسول عربیﷺ '' کے اندر ان سے اخذ روایات کی واضح جھلک بھی نظر آتی ہے۔

ذیل میں آپ کی روایات سیرت کے مصادرو ماخذ کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔

قرآن مجید:

علامہ توکلی نے '' سیرت رسول عربیﷺ '' کو تالیف کرتے وقت سب سے بنیادی اور اولین ماخذ قرآن مجید سامنے رکھا ہے۔ کیونکہ زمین پر اس سے بڑھ کر کوئی اور ماخذ نہیں جس کی مدد سے حقیقت کی گہرائی کا علم ہو سکے ۔

ایک جگہ پر صبر، عفو در گزر کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے علامہ توکلیؒ فرماتے ہیں۔ '' محسن انسانیت کے ساتھ دشمنوں نے کیا کچھ نہیں کیا وہ کونسی تکالیف ہے جو نہیں پہنچائی مگر عظیم ذات نے کمال رحمت کا مظاہرہ کیا اور سب کو معاف کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئے۔''

{ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن}

'' ترجمہ: اور آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں''14

معتبر کتب حدیث سے روایات کو اخذ کرنا:

علامہ توکلیؒ نے قرآن مجید کے بعد دوسرا ماخذ معتبر کتب احادیث کو لیا اخذ شدہ روایات کے اندر وہ تمام واقعات کو سامنے رکھا جن کا قرآن پاک میں ذکر نہیں تھا مگر حدیث کے اندر ان کا مکمل ذکر ملتا تھا۔ اور جہاں بھی آپ کو تالیف کرتے وقت حدیث کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں پر حدیث صحیحہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک جگہ پر علامہ توکلی ؒغزوہ احد کے اندر صف آرائی کرنے کو یوں نقل کرتے ہیں۔

'' حضور ﷺ نے صف آرائی کے لیے پہاڑ کو پس پشت اور کوہ عینین کو جو وادی قنات میں ہے اپنی بائیں طرف رکھا کوہ عینین میں ایک شگاف یا درہ تھا جس میں سے دشمن عقب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتا تھا اس لیے آپ نے اس درے پر اپنے پچاس پیدل تیر انداز مقرر کیے اور حضرت عبداللہ بن جبیررضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنایا اور یوں ہدایت کی '' اگر تم دیکھو پرندے ہم کو اچک لے گئے ہیں تو اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس کسی کو نہ بھیجو اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور مار کر پامال کر دیا ہے تو بھی ایسا نہ کرنا ''15

کتب سیرت و تواریخ سے اخذروایات :

علامہ توکلی ؒنے قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ معتبر اور مستند کتب سیرت و تاریخ سے بھی استفادہ کیااور بعض واقعات کو کسی ایک سیرت و تواریخ کی کتاب سے اخذ نہیں کیا بلکہ مختلف سیر ت و تواریخ کی کتب سے روایات اخذ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

علامہ توکلیؒ آپ ﷺ کے تبلیغ علی الاعلان کے واقعہ سیرت ابن ہشام سے یوں نقل کرتے ہیں۔

''جب آنحضرت ﷺ نے اعلان دعوت کیا اور بت پرستی کی علانیہ مذمت شروع کی توسرداران ِقریش ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تیرا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے اور ہمارے آباؤ اجداد کو گمراہ بتاتا ہے اورہمیں احمق ٹھہراتا ہے تم اس کو منع کر دو یا بیچ میں سے ہٹ جاؤ ہم اسے سمجھا لیں گے ابو طالب نے انہیں نرمی سے سمجھا کر رخصت کر دیا۔ ابو طالب نے حضور اکرم ﷺ کو پاس بلا کر کہا۔ اے میرے بھتیجے ! تیری قوم نے میرے پاس آ کر ایسا ایسا کہا ہے تو اپنے آپ پر اور مجھے اقر ما لا یطاق کی تکلیف نہ دے ۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے بدیں خیال کہ اب میرے چچا نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور میری مدد سے عاجز آگیا ہے۔ یوں فرمایا اے میرے چچا! اللہ کی قسم اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں تا کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک اللہ اس کو غالب کر دے یا میں خود اس میں ہلاک ہو جاؤں ۔16

ایک موقع پر علامہ توکلی غزوہ سویق کے واقعہ کو الکامل فی التاریخ سے یوں نقل کرتے ہیں۔

''ماہ ذی قعد میں غزوہ سویق وقوع میں آیا۔ سویق کو عرب میں ستو لکھتے ہیں ۔ چونکہ اس غزوہ میں کفار کی غذا ستو تھی اس لیے اس نام سے موسوم ہوا اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ غزوہ بدر کے بعد ابو سفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک میں محمد ﷺ سے لڑائی نہ کر لوںجنابت سے سر نہ دھوؤں گا۔ اس لیے قسم کو پورا کرنے کے لیے وہ دو سوسوار لے کر نکلا ۔ مقام و عریض میں اس نے ایک نخلستان کو جلادیا اور ایک انصاری کو قتل کر دیا۔ رسول ﷺ نے تعاقب فرمایا۔ ابو سفیان اور اس کے ہمراہی بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو کے بورے پھینک کر بھاگ گئے جنہیں مسلمانوں نے اٹھا لیااور واپس چلے گئے''17

قصیدہ بردہ شریف کے اشعار کا استعمال:

علامہ توکلی ؒ نے قصیدہ بردہ شریف کے اشعار کو بطو رماخذ پیش کیا جس کی بدولت آپ کی تصنیف ایک پر کشش اور قاری کے دل پر اثر چھوڑ جانے والی تحریر سامنے آئی ۔ جس پر قاری کی اگر ایک دفعہ نظر پر جائے تو اس کا دل اس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور مسلسل پڑھتا جاتا ہے۔

عربی و فارسی اشعار کا استعمال:

مؤلف نے'' سیرت رسول عربی ﷺ'' کو تالیف کرتے وقت اس کے اندر جدید و قدیم عربی و فارسی اشعار کا استعمال کیا ہے اور آپ نے ان اشعار کا استعمال کیا جو اپنے علمی و ادبی اور فصاحت و بلاغت کی وجہ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ کسی بھی تحقیق ، تصنیف کے اندر ان کا استعمال اس تصنیف کے اندر چاشنی ، خوبصورتی اجا گر کرتے ہیں۔ اور پر کشش بنانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

خلاصہ بحث:

کسی بھی تصنیف کی اہمیت کا اندازہ اس کے مصادرو مراجع سے لگایا جا سکتا ہے ۔ سیرت کا سب سے بڑا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے اس کے بعد دوسرے ماخذ جن میں کتب احادیث ، کتب تفسیر، کتب سیرت و تواریخ شامل ہیں مگر جو اہمیت و فضیلت قرآن مجید کو حاصل ہے اس کا مقابلہ یہ ماخذ سیرت نہیں کر سکتے۔اب تک حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ پر مختلف زبانوں اردو ، فارسی اور عربی کتب میں موجود ہیں۔ اگر یہ دیکھا جائے کہ اس دنیا میں کسی شخصیت کی ذاتی زندگی پر سب سے زیادہ کس کا کام ہوا ہے تو وہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہے ۔ جو نہ صرف انسانوں کے لیے مکمل نمونہ اور رحمت ہیں بلکہ آپ کی سیرت مبارکہ پر لکھنا دونوں جہانوں کی سعادتوں کا باعث ہے۔

{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ'' حَسَنَۃ'' }18

جو بھی سیرت نگار جس کو اللہ تعالیٰ توفیق بخشتا ہے کہ وہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ پر کچھ الفاظ لکھ سکے تو اس کے مصادرو مراجع واضح اشارہ پیش کرتے ہیں اس نے کتنا مطالعہ کیا ہے اس کے پیش نظر کتنی کتب رہیں، ذخیر علمی کتنا ہے، اس کے علمی و ادبی ذوق اور تحقیقی جستجو کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب '' سیرت رسول عربیﷺ'' کے مصادرو مراجع کے فہرست پر نظر ڈالیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک ہی جلد میں اتنا علم سیرت جمع کر دیاکہ کوئی پہلو باقی نہ رہا مستند اور معتبر کتب کے حوالہ جات نے کتاب کو مزید خوبصورت دلکش بنا ڈالا حالانکہ دیکھا جائے تو اس وقت جب آپ نے یہ کتاب تالیف کی '' ذرائع ابلاغ '' عام نہ تھے ۔ کتب تک رسائی آسان نہ تھی مگر پھر بھی آ پ نے موجودہ تحقیق کے قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھا۔ مثلاً قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں تو پارہ نمبر سورت کا نام ، رکوع نمبر اور آیت نمبر تک لکھتے ہیں اس طرح حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کتاب کا نام ، مصنف کا نام ، جلد اور صفحہ نمبر تک بتاتے ہیں سیرت کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف، جلد، صفحہ اور مقام اشاعت تک بتاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت رسول عربی ﷺ جو مختصر مگر جامعیت کا عکس پیش کرتی ہے ایک سیرت پاک کے حوالے سے انسائیکلو پیڈیا ثابت ہوئی جس نے بہت سی کثیر جلدی کتب کو پیچھے چھوڑ دیا ۔

٭٭٭

 

1 عبدالحکیم شرف قادری،تذکرہ اکابر اہل سنت (لاہور : نوری کتب خانہ ، 2005ء)،559۔

2 علامہ نور بخش توکلی ،تذکرہ مشائخ نقشبندیہ (لاہور : مشتاق بک کارنر ، س ۔نء)،462۔

3 علامہ نور بخش توکلی ،سنت رسولﷺ کی ضرورت و اہمیت (لاہور : دارالعلوم انجمن نعمانیہ ، 1909ء)،7۔

4 علامہ نور بخش توکلی ،تذکرہ مشائخ نقشبندیہ (لاہور : مشتاق بک کارنر ، س ۔نء)،8-9۔

5''الاحزاب33:21''

6 علامہ نور بخش توکلی ،سیرت رسول عربی ﷺ (لاہور : مکتبہ حنفیہ ، س۔ نء)،26۔

7 ایضاً ، 26۔

8 ایضاً ، 26۔

9 ایضا، 25۔

10 ایضاً،27۔

11 پروفیسر اکرم رضا ،تقدیم سیرت رسول عربی (لاہور : مکتبہ حنفیہ ، س۔ نء)،17-18۔

12 عبد الحکیم شرف قادری ،حرف آغاز سیرت رسول عربی(لاہور : فرید بک سٹال ، 2005ء)،9-8۔

13 علامہ نور بخش توکلی ،سیرت رسول عربی ﷺ (لاہور : مکتبہ حنفیہ ، س۔ نء)،26۔

 

14''سورۃ الانبیا ء21:107''

15 ابو عبداللہ محمدبن اسماعیل بخاری، صحیح بخاری(مصر : المطبعۃ الامیریۃ، 1314 ھ) کتاب العباد ، باب مایکرہ من التنازع، داراسلام ، ریاض ، 1398ھ، رقم الحدیث :3039

16ابو محمد عبد الملک ابن ہشام ، سیرت ابن ہشام(بیروت : دارالکتب العلمیہ، 1422 ھ) ، 103

17 ابو الحسن عزیز الدین ابن الاثیر ،الکامل فی التاریخ (بیروت : دارالکتب العلمیہ، 1998ءجلد دوم) ، 103

18 ''سورۃ الاحزاب 33:21''

 

1

 

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index