1
3
2021
1682060054107_1854
44-53
http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/download/29/23
http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/view/29
تعارف
محمدﷺ کائنات کی وہ واحد ہستی ہیں جن پر ہر زبان اور ہر مذہب کے پیروکاروں نے قلم اٹھایا علماء مغرب جنھیں مستشرقین کہا جاتا ہے ، نے بھی پیغمبر اسلام کی قائدانہ و مدبرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا لیکن منصب نبوت سے متعلق مفروضات نے جہاں ان کی تحقیق کو متہم کیا وہیں اسلام کے اس بنیادی عقیدے سے متعلق تشکیک و ابہام کا راستہ بھی کھلا۔اس مقالے میں اکیسویں صدی کے مشہور مستشرقین جن کی سیرتﷺ پر کتب کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہوئی کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لیا جائے گا تاکہ نبوت سے متعلق مغربی تفہیم اور محمدﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت کو واضح ہو۔
سابقہ لٹریچر کا جائزہ:
یوں تو مغرب میں مطالعہ اسلام اور سیرت نگاری کے حوالے سے انیسویں صدی میں باقاعدہ تصانیف کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جس کے ردعمل میں مسلمان اہل علم کی جانب سے تنقیدی جائزے کی بنیاد بھی رکھی جا چکی تھی کتب سیرت میں شبلی نعمانی کی '' سیرۃ النبی'' ، پیر کرم شاہ الازہری کی '' ضیاء النبی'' ، محمد حسین ہیکل کی '' پیغمبر اسلام''، ڈاکٹر حمید اللہ کی '' پیغمبر اسلام''، سید سلیمان ندوی کی '' مقالات سید سلیمان''، ڈاکٹر ثنا ء اللہ ندوی کی '' علوم اسلامیہ اور مستشرقین''، ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی کی '' اسلام، پیغمبر اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر، عبد العلیم احراری کی '' سیرت النبی اور مستشرقین'' سید صباح الدین کا مرتب کردہ نامور اہل علم کے مقالات کا مجموعہ '' اسلام اور مستشرقین'' شامل ہیں ۔ اس مقالے میں بالخصوص انیسویں صدی میں منصب نبوت کے حوالے سے مغربی ذہن کے اشکالات و فکری ارتقاءکو بیان کیا جائے گا۔
اسلام اور مغرب میں فکری و نظری تفاوت ہمیشہ سے موجود رہا ہے کیونکہ دین اسلام کا منبع و سرچشمے کی بنیاد وحدانیت اور عقیدہ نبوت کی پروردہ ہے جب کہ مغربی معاشرہ مادیت پرستی اور عقل پرستی کا مرہون منت ہے چنانچہ فکری و نظری اختلافات کا موجود ہونا ایک فطری امر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب ہمیشہ پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق اپنی سوچ کا اظہار کرتا آیا ہے جس کا ثبوت ہمیں اکیسویں صدی سے قبل ان کی تحاریر میں ملتا ہے۔
اکیسویں صدی سے قبل سیرتﷺ سے متعلق مغربی مؤقف:
آٹھویں صدی سے مغربی مؤقف تحریری طور پر سامنے آنا شروع ہوا جس میں پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق محض قیاس پر مبنی غیر تحقیقی رحجان دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس میں مغربی ذہن ''عقیدہ نبوت'' کوغیر تحقیقی بنیادوں پر نبوت کا انکار غیر سنجیدہ انداز میں کرتا ہوا نظر آتاہے۔ اگرچہ ان کتب کی عبارات قابل نقل نہیں ہیں مثلاً یوحنا دمشقی(676-749) نے فلسطین کے گرجا گھر میں بیٹھ کر کتب لکھیں۔1فرانسیسی مصنف ہنری دی کاستری نے اپنی کتاب میں مغربی ذہن کی عکاسی کرتے ہوئے ان خرافات کی نشاندہی کی جو پیغمبر اسلامﷺ سے متعلق مشہور کی گئیں۔2 ایولوگس ( متوفی 859)نے غیر سنجیدہ انداز میں اپنی فکر کا اظہار کیا۔3
اسلامی لٹریچر چونکہ عربی زبان میں تھا جس سے اہل مغرب نا آشنا تھے اور مذکورہ مغربی تصانیف میں کسی مستند ذریعہ معلومات سے استفادہ نہیں کیا گیا لہٰذا انہیں علمی و تحقیقی اعتبار سے اہمیت نہیں دی جا سکتی۔
دور حاضر میں سیرت کی مغربی تفہیم :
انیسویں صدی مغربی فکر میں انقلاب کی صدی تھی جو سیرت نگاری سے متعلق منظر عام پر آئی،جس میں مغربی مفکرین سے پیغمبر اسلامﷺ کی شخصی حیثیت کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اسلام اور مغرب کے درمیان موجود تناؤ کو ختم کرنے کی کوشش کی مثلاً کیرن نے اسی وجہ سے سیرت پر کتاب تصنیف کی۔4جس میں محمدﷺ کی قائدانہ صلاحیتوں، سیاسی بصیرت کو سراہا گیا۔
"As a skillful Arab politician, Muhammad knew how to use the rules of the tribal system to his own advantage"5
مائیکل کک نے بھی محمدﷺ کی سیاسی و دفاعی حکمت عملیوں کی تعریف کی اور ان کی قائدانہ سمجھ بوجھ کا قائل دکھائی دیا۔
"Muhammad's years in Madina were also important in more narrowly religious terms, they saw a spread of his religion closely associated with his military success"6
تھامس کار لائل بھی محمد ﷺ کے خلوص اور شائستگی سے متاثر ہو کر انہیں اپنی کتاب میں 100 ہیرو شخصیات میں اول نمبر پر رکھتا ہےاور لکھتا ہے کہ محمد صرف جلیل القدر انبیاء میں سے ہی نہیں بلکہ سچے ترین انسان ہیں جو خرافات و اتہامات کا پلندہ مغرب نے ان کے لیے گھڑا وہ ہرگز اب قابل قبول نہیں یہ ہمارے( مغرب) کے لیے باعث عار ہےاور قابل افسوس ہے۔7 اسی بات کی تائید میکس ویبر بھی کرتا نظر آتا ہے۔8 پیغمبر اسلام کے سیاسی اور معاشرت مصلح ہونے کا اعتراف ان سے ماقبل ہیوبرٹ گرائم، مارگولیتھ، پرنس کائتانی، منٹگمری واٹ، ارنلڈ اور ٹائن بی نے بھی کیا ہے۔9
محمد رسول ﷺ کے نبی ہونے پر مغربی ذہن کے اشکالات:
نبوت کا تعلق چونکہ عالم غیب اور ماورائے عقل محسوسات سے ہے جس کو کسی منطقیت اور مادیت کے پیمانے میں نہ ہی ناپا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کیمیاوی تجربہ گاہ میں تجربہ کیا جا سکتا ہے۔نبوت نہ ہی عقل کے احاطے میں آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ذہن انسانی اس کا ادراک کر سکتا ہے۔اس یقین اور بے یقینی کے درمیان صرف ایمان ہی حائل ہے۔مغربی ذہن جب منصب نبوت کو احاطہ عقل میں لانے کی کوشش کرتا ہے تو نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی عقل و استعداد سے اس کی کوئی تاویل کرے اور اس کی حقیقت کو ہی بدل دیتا ہے اگرچہ وہ انصاف پسند محقق ہونے کا کتنا ہی دعویٰ ہی کیوں نہ کرے۔مذکورہ امثال میں مغربی مصنفین یوں تو محمد ﷺ کی قائدانہ صلاحیتیوں، سیاسی و عسکری بصیرت، شخصی و عقلی خوبیوں کو مانتے نظر آتے ہیں لیکن محمدﷺ کی انسانی خوبیوں میں رطب اللسان نظر آنے والے جب آپﷺ کی نبوت پر بات کرتے ہیں تو ان کے اشکالات بڑھ جاتے ہیں۔اور وہ مورخانہ نقطہ نظر اور مخصوص مغربی نہج کی وجہ سے سیرت نگاری پر قلم اٹھاتے ہوئے منصب نبوت کی جمالیات اور جوہر نبوت کی حقیقت کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی خطے، سرزمین سے ہو۔مغربی ذہن میں کچھ فکریں مشترک نظر آتی ہیں مثلاً:
-
منصب نبوت سے عدم فہم
-
مورخانی نقطہ نظر
-
سائنٹفک طریقہ کار
-
مخصوص مغربی فکر
-
منتخب مستشرقین کی نبوت سے متعلق آراء کا تقابلی جائزہ
-
پیغمبر اسلام کی سیاسی و عسکری بصیرت اور مغربی فکر
پیغمبر اسلام کی قائدانہ بصیرت کو مغربی مصنفین نے دل کھو ل کر سراہا۔کیرن آرم سٹرانگ نے لکھا:
"Muhammad has been a familiar figure up to this point. Having endured years of persecution and defeat, he has been a Prophet unrecognized in his own country. But after the hijra Muhammad became spectacular success, politically as well as spiritually and the Christian west always distrusted this aspect of his career.10
کیرن نے رسول اللہ ﷺ کی بے مثال عسکری و قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی سیاسی بصیرت کو بھی برملا سراہا۔ ایک جگہ لکھتی ہے کہ محمدﷺ اپنی سیاسی دور اندیشی کی وجہ سے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اپنے دین کی طرف راغب کرنے میں پر امید نظر آتے تھے۔11
وہ خطے میں پائیدار امن کے خواہاں تھے اسی لئے انہیں مقاطعہ قریش جیسی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا طاقت کے اظہار کے لیے پیغمبر اسلام نے کبھی تلوار کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا بلکہ محض قیام امن کے حصول کے لیے جنگیں لڑی گئیں۔12
No radical, social and political change has ever been achieved without bloodshed and because Muhammad was living in the period of confusion and disintegration. Peace could be achieved only by the sword.13
مذکورہ حوالے میں کیرن نے لکھا کہ تاریخ میں کوئی بھی سیاسی و سماجی انقلاب بغیر خون ریزی کے رونما نہیں ہوا مگر محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں نے جب بھی تلوار اٹھائی اپنے دفاع کے لیے اٹھائی۔یہاں کیرن عیسائیت کے اس نظریے کا رد بھی کرتی نظر آتی ہے جس میں وہ سیاست و مذہب کو الگ کرتے ہوئے پیغمبر اسلامﷺ کی عسکری مہمات کو ایک '' جنگجوانہ عمل'' قرار دیتے ہیں اسی نظریے کی تائید آج مغرب کرتا ہے۔14
مائیکل کک اور پیغمبر اسلام ﷺ کی سیاسی بصیرت:
مشہور امریک مفکر، دانشور اور تھنک ٹینک اپنی کتاب "Mohammad (Past Masters)" میں توحیدی سیاست کے نام سے باقاعدہ ایک باب قائم کرتے ہوئے لکھتا ہے:محمد ﷺ کی زندگی میں نبوت اور سیاست کا امتزاج ہے۔کیونکہ ان کی کامیاب سیاسی حیثیت نے پیغمبرانہ مقام کو تقویت بخشی۔
The traditional biography of Mohammad presents his career as a remarkable combination of religion and politics and this combination can fairly be seen as a Prophet until he became a successful politician, but at the same time, his political opportunity turned on his credentials as a Prophet.15
ایک اور جگہ مائیکل کک لکھتا ہے کہ اسلامی انقلاب اصل میں سیای اقتدار پر مشتمل تھا ۔
"Mohammad, as Arab merchant turned Prophet and politician who in 620 established a theocratic state.16
مائیکل کک نے پیغمبر اسلام ﷺ کو ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے پیش کیا اور ان کی سیاسی کامیابیوں کا اعتراف بھی کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا کہ ان کی سیاست کی وجہ سے ان کے پیغمبرانہ منصب کو بھی طاقت ملی۔
میکسم روڈنسن اور پیغمبر اسلام کی سیاسی بصیرت"Muhammad" سیرت پر لکھی جانے والی اس کی کتاب فرانسیسی زبان میں تھی اس کتاب میں مصنف نے محمدﷺ کے قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:عرب کے لوگ محمدﷺ کی ذہانت، دور اندیشی،مکمل اخلاق اور اعتدال پسندی کے معترف ہو چکے تھے۔
"People of Arab must have been struck by his intelligence, his calm, moral perfection, confidant and balanced manner.17
پیغمبر اسلام ایک روحانی پیشوا……مغربی فکر کے آئینے میں:
کیرن آرم سٹرانگ کے نزدیک محمدﷺ کی نبوت کسی تاریخی اور روحانی پیشوا کی طرح ہے جس میں غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہوں وہ آپ ﷺ کی نبوت کا تقابل روحانی کردار ''ارشمیدس ''کرتی ہے۔
ارشمیدس جرمن مفکر، حساب دان اور ماہر فلکیات جب اپنا کوئی مشہور اصول دریافت کر لیتا تو چیختا ۔وہ حقیقی معنوں میں کسی تخلیقی فکر اور داخلی بصیرت پانے پر وجدان کی کیفیت پالیتا۔
"Euraka" Archimedes, when he discovered his famous principle crying "Euraka" I have found it. He was in a receptive frame of mind and the solution seemed to have entered unbidden as it had an existence independent of his mind.18
ایک جگہ پر وہ آپﷺ کی نبوت کو کسی شاعرانہ تخییل کی مانند قرار دیتی ہے:محمد اس شاعر کے برعکس جو کسی نظم کو سن کر بتدریج روشنی کی طرف آتا ہے ، باطنی طور پر روحانیت کی طرف مائل ہوتے اور اپنی روح کی گہرائیوں میں اتر کر کسی مسئلے کا حل تلاش کرتے۔
We shall see him turning inwards and searching his own soul for a solution to a problem, rather as a poet. Listen to the poem that he is gradually hauling to light.19
کبھی کیرن معاملے میں قیاس آرائی کرتے ہوئے اسے ایک جن کا حملہ قرار دیتی:محمد کا تصور ایک جن کا سا تھا جو جس کسی آتش ناک روح کی طرح ہوتا جو عرب کے لق و دق صحراؤں میں مسافروں کو تنگ کرتی، موسیقاروں کے دل میں لطیف خیالات پیدا کرکے وجدان پیدا کرتی۔
It seemed to him that a devastating presence had burnt into the cave, where he Was sleeping and gripped him in overpowering embrace, Mohammad was being attacked by Jinni, one of fiery spirit who haunted the Arabian steps, inspired the bards and soothsayers.20
کیرن آرم سٹرانگ نے ایک جگہ اپنی کتاب میں محمدﷺ کی نبوت کو عیسائی راہبہ سے تشبیہ دی، لکھتی ہے:محمد ﷺ کی زندگی کے معراج کے واقعات کے تجربات اس عیسائی راہبہ کےتجربات کے مماثل ہیں جو شہید ہوگئی تھی۔
Some aspects of the Isra and the Miraj are very close to mystical imitations when people are making a painful passage from one mode of life to another , it is for example uncannily similar to the young matron Perpetua, Christian martyr.21
کیرن جب اپنی کتاب میں نزول وحی کا ذکر کرتی ہے تو اس کے بیان سے اسکی غیر واضح اور مبہم سوچ کا پتہ چلتا ہے لکھتی ہے":غار حرا میں جب فرشتہ آیا تو محمدﷺ پر خوف اور دہشت طاری ہوگئی یہاں تک کہ فرشتوں نے بھی اسے ہولناک مصیبت جانا اور اپنے پروں کے نیچے چھپ گئے اور سمجھے کہ غلطی سے فرشتہ یہ پیغام لے کر آگیا ہے22
وحی سے متعلق کیرن جو اصطلاحات ذکر کرتی ہے وہ نبوت سے متعلق مغربی سوچ کی عکاس ہے وہ نبوت سے متعلق کسی غیر واضح اور مبہم تصور پیدا کرتی ہے۔مثلاً
پریشانیMalaise 23
روحانی مشقیںSpiritual Retreat 24
فرشتے کی غلطی Mistake of an Angle 25
ربانی جبر Divine Rape 26
الہامInspiration 27
روحانی مشاہدہSearching Soul 28
غیر صریح پیغام Explicit Message 29
گہرا وجدانDeeper Understanding 30
مندرجہ بالا اصطلاحات جو کیرن نے نبوت کی تفہیم کیلئے استعمال کی ہیں ان پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وحی کی تفہیم کیلئے ان الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے۔جس سے دین اسلام کے اس بنیادی اور محقق عقیدے پر زک لگانے کی کوشش کیا جاتی ہے۔
مائیکل کک کی نظر میں محمدﷺ ایک روحانی پیشوا"Muhammad: Past Masters" مائیکل کک کی سیرت پر لکھی جانے والی کتاب ہے جس میں وہ منصب نبوت سے متعلق اپنے ذہنی اشکالات کو بیان کرتے ہوئے اسے کسی مجنون، شاعر یا بد روح سے تشبیہ دیتا نظر آتا ہے کبھی وہ لکھتا ہے کہ وہ کسی دماغی مرض کا شکار تھے اسی لیے کفار و مشرکین مکہ نے انہیں دین اسلام کی تبلیغ چھوڑ دینے کے عوض ان کو بادشاہ بنا دینے اور ان کے دماغی مرض کا علاج کروا دینے کی پیشکش کی تھی،لکھتا ہے:محمد ﷺ کے لیے وحی کے نزول کا تجربہ اتنا پریشان کن تھا کہ وہ سمجھے کہ ان پر کسی کی جن کا، یا بدروح کا سایہ ہو گیا ہے اور وہ مجنون ہو گئے ہیں۔31
اسی طرح ایک جگہ مائیکل کک لکھتا ہے کہ محمد ایک موقع پر بت پرستی کی اجازت دینا چاہ رہے تھے کیونکہ مشرکین نے انہیں یہ پیشکش کی کہ وہ دین اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں اس کے عوض وہ انہیں بادشاہ بنا دینگے اور ان کا نفسیاتی علاج بھی کروا دینگے۔
"There was no real trouble until Muhammad began to disparage the local pagan gods. This was considered offensive. Even then the pagan showed great willingness to compromise. They offered to make Muhammad a king, or to obtain suitable medical treatment for his psychotic condition. Certainly on the one occasion when Muhammad yielded to the temptation to allow the pagan god a place in his religion"32
مغربی ذہن کے اشکالات:
مجموعی طور پر مغربی ذہن کے اشکالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انیسویں صدی میں مستشرقین کی نبوت سے متعلق فکر ماضی کے مقابل جدا تھی ماضی میں تصنیف شدہ لٹریچر میں اتہامات و مفروضات کے سوا کچھ نہ تھا لیکن اب مغرب نے منصب نبوت سے متعلق منطقی رسائی حاصل کر لی تھی جس کے مطابق محمدﷺ ایک روحانی پیشوا، غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک، وجدان رکھنے والی شخصیت تھے جیسا کہ اوپر کچھ شخصیات کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہی مغربی مفکرین جب اپنے مذہب یا نبیوں کا ذکر کرتے ہیں تو یہ اشکالات تب انہیں نہیں گھیرتے۔مثلاًمیکسم روڈنسن کی نظر میں محمد ﷺ ایک روحانی پیشوا۔
میکسم پیغمبر اسلام کی نبوت کو ایک روحانی تجربے کے طور پر پیش کرتا ہے جوجنوبی اور مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا کی مختلف شخصیات کو بھی ہو چکا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
محمد ﷺ کو ایک خاص قسم کے ذہنی تجربے سے گذرنا پڑا جیسا کہ جنوبی اور مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا کے جادوگروںسمیت دیگر ممالک میں '' شمن''33نامی لوگوں کو ہوا ہے جو اپنے لاشعور میں یہ گمان کرتے ہیں کہ ان پر کسی روح کا غلبہ ہوا ہے جو ان کے اندرونی اعضاء کو تبدیل کر کے نئے اعضاء دے سکتی ہے۔
"Muhammad had some mental experience of the kind known to many "Shammans" of North and Central Asia and Australian magicians. At the moment of their imitation, they feel that a spirit has taken away their internal organs and replace them with new ones.34
نبوت کی مغربی تشریح اور اس کے اثرات:
نبوت سے متعلق مغربی ذہن کے اشکالات اور ان کی تفہیم ذکر کرنے کے بعد دنیا ئے مشرق و مغرب میں ان کے کیا اثرات ہوئے ۔ مشہور نو مسلم مفکر اور دانشور محمد اسد اس پر یوں قلم اٹھاتے ہیں:مستشرقین اسلامی ادب سے متعلق اپنی تحقیق کی بنیاد تاریخی حقائق پر رکھنے کے بجائے اپنے پہلے سے متعین مقاصد کے حصول پر رکھتے ہیں جو سراسر تعصب پر مبنی ہوتے ہیں ۔جنھیں وہ تحقیق کے درپردہ پیش کرتے ہیں اور اپنے مطلوبہ نتائج سے متعلق شواہد گھڑتے اور سیاق و سباق سے ہٹ کر اسلامی روایات کی من چاہی تاویلات کے ذریعے تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔35
دین اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق مصادر کے تراجم میں من چاہی تاویلات کا سہارا لے کر اور منصب نبوت کی خود ساختہ تفہیم کی وجہ سے یہ مستشرقین اپنی تحاریر کے ذریعے مسلم اور مغربی ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتے ہیں۔36 ان شکوک و شبہات کو پیدا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل میں توحید و رسالت سے متعلق حقائق کو مسخ کر دیا جائے ترقی و تمدن کے نام پر ان کی تاریخ، ثقافت اور مذہبی عقائد میں تبدیلی پیدا کی جائے۔اور نئی نسل کی اس کے مطابق ذہن سازی کی جائے۔37مندرجہ بالا مستشرقین کی نبوت سے متعلق آراء ذکر کی گئیں ہیں جن میں پیغمبر اسلامﷺ کی نبوت کو ایک روحانی ، غیر معمولی طاقتوں کے حامل شخص کے مماثل شخصیات کے طور پر دکھایا گیا ہے جو دنیا میں مختلف خطوں میں پائے جاتے ہیں۔
مغربی لوگوں کے لیے وحی کی تفہیم ایک انتہائی مشکل امر ہے حالانکہ وہ خود بنی اسرائیل کے انبیائے کرام پر ایمان لاتے ہیں38 اگر ان کی نبوت پر انہیں کوئی اشکال نہیں تو پیغمبر اسلامﷺ کی نبوت کی تفہیم میں اشکالات ان کے مذہبی تعصب اور جانبداری کی علامت ہیں۔مثلاً مذہب عیسائیت کے پیروکار عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ حلول، عقیدہ مصلوبیت، عقیدہ حیات بعد الممات اور عقیدہ کفارہ پر ایمان لاتےہیں اور انہیں خدا کی ذات سے تبدیل ہو کر انسان مانتےہیں39لیکن خدا کے علاوہ انہیں کسی اور ما فوق الفطرت طاقتوں کی حامل شخصیت کے مماثل قرار نہیں دیتے۔
یونہی مذہب یہودیت میں اگرچہ یہودی انبیائے کرام کی تکذیب کرتے (40) اور انہیں بلاوجہ قتل کے مرتکب بھی ہوئے (41) اور ان افعال پر انہیں کوئی ندامت دامن گیر نہ ہوئی۔42 لیکن انہوں نے اپنے انبیاء کی نبوت کو کسی روحانی شخصیت یا ما فوق الفطرت شخص سے تشبیہ نہیں دی۔تمام شکوک و شبہات صرف محمد ﷺ کی نبوت سے متعلق ہی کیوں پیدا کیے گئے کیونکہ اولاً دیگر انبیائے کرام کے حالات مکمل و مستند نہیں تھے دوم یہ کہ وہ کسی خاص زماں و مکاں کے لیے نبوت لائے تو وہ نبی جس کی نبوت قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے ہے مغرب کو اسی کی نبوت سے خطرہ ہے لہٰذا اسی کی حقائق سیرت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔
مغرب کا نبوت سے متعلق فکری ارتقاء اور اس کے اثرات:
قدیم مستشرقین کی تحاریر میں غیر تحقیقی و غیر سنجیدہ طرز تحریر نظر آتا ہے لیکن انیسویں صدی میں جب مغرب میں فکری شعور بیدار ہوا منطقیت اور تحقیق کو فروغ ملا تو مغرب کے معتدل اہل علم نے اپنے پیش روؤں کی غیر تحقیقی ادب اور خود ساختہ نظریات کو رد کر دیا کیونکہ دور حاضر میں قدیم تاریخی افسانوں کی کوئی جگہ نہیں تھی۔43 مثلاً فلپ کے ہٹی نے اپنی کتاب "Islam and the West" کے صفحہ نمبر 311 میں ، ہمفرے پریدو نے اپنی کتاب''The True Nature of Imposture Fully displayed in the Life of Mohemet''کے صفحہ نمبر 54 پر سابقہ لغویات کی سختی سے تردید کی۔44
تھامس کارلائل وہ پہلا مغربی مفکر تھا جس نے غیر جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے مستشرقین مغرب کے اس قدیم طرز تحریر کو چیلنج کرتے ہوئے ان الفاظ کے ساتھ نہ صرف مسترد کیا بلکہ اسے مغرب کے لیے باعث ندامت کہا :
"The lies which well-meaning zeal has heaped round this man, are disgraceful to ourselves only"45
خلاصہ بحث:
قدیم مستشرقین کی تحاریر میں پیغمبر اسلام سے متعلق محض دشنام طرازی اور غیر سنجیدہ گفتگو کے سوا کچھ نہیں ہے جبکہ دور حاضر میں ان کی تحاریر میں پیغمبر اسلامﷺ کی قائدانہ اور عسکری صلاحیتوں کو کھلے دل سے سراہا گیا ہے۔ اسوہ حسنہ سے متعلق مغرب ذہن کے ہر دو صورتوں میں جو اشکالات رہے وہ ان کے مطالب ہیں تاکہ محمدﷺ کی نبوت سے متعلق شکوک و ابہام کیے جا سکیں ورنہ عیسیٰ علیہ السلام جن کے معاشرتی کردار سے متعلق تاریخ خاموش ہے اور محض روحانیت کا درس دیتی ہے 46اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپﷺ کی نبوت زماں و مکاں تک محدود ہے کہ خود ساختہ نظریات اور مفروضات کو جگہ مل سکے۔علمی اعتبار سے بڑی خیانت یہ ہے کہ اہل کتاب( مستشرقین) اپنے انبیاء سے متعلق نبوت کو ان پیمانوں پر نہیں ناپتے جن پر پیغمبر اسلام کی نبوت کو ناپتے ہیں۔ مغربی ذہن( منتخب مستشرقین کے حوالے سے ) ایک نبی کو بہترین لیڈر ، قائد،انقلاب انگیز شخصیت تو مان سکتا ہے مگر نبوت کی صفت سے متصف ماننے میں ان کے لیے سیکولرازم اور لبرل ازم کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ اس لیے وہ نبوت کو کسی جن، روحانی شخصیت اور شمن سے تشبیہ دیتے ہیں۔
تاریخ اور تحقیق دونوں کے مطابق سیرتﷺظاہر،واضح اور اٹل ہے۔ منصب نبوت عطائے الٰہی ہے مغربی تصدیق کی محتاج نہیں البتہ مستشرقین کی تصانیف ہر دور میں قابل تنقیح وتنقید ہیں تاکہ سیرتﷺ کی روشنی سے دنیا منور رہے۔پیغمبر اسلام ﷺ کی عالمگیرشخصیت سے مغرب کو کیا خطرات ہیں جس نے مغرب کو قلم اٹھانے پر مجبور کیا؟ پیغمبر اسلام کی نفسیات کو شخصی اور نبوی پہلوؤں پر تحقیقی انداز سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پیغمبر اسلام کی نفسیاتی کیفیت کا اہل کتاب کے انبیائے کرام کی نفسیات سے تقابل کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کے لیے ان خطوط پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭
1 محمد احمد دياب ، اضواء على الاستشراق والمستشرقون (مصر: وكالة الأهرام للتوزيع ، 1998ء)،15۔
2 Matthew Paris, Roger of Wendover's History (London: J. Haddon Printers, Castle street Finsbury), Vol-1, 74.
3 Reinhart Pieter Anne Dozy, Spanish Islam (London: Chatto & Windus Press, 1913),79.
4 Karen Armstrong, Muhammad: A Prophet for Our Time (New York: Harper Collins, 2006), 7.
5 Karen Armstrong, Muhammad: A Biography of the Prophet (London: Phoenix Press, 2001), 277.
6 Armstrong, Muhammad, 23.
7 Thomas Carlyle, On Heroes, Hero-Worship, and The Heroic in History (Newyork: Longmans, Green and Co, 1906), 25.
8 Max Weber, The Sociology of Religion (Massachusetts: Beacon Press, 1993), 47.
9 پروفیسر سید حبیب الحق ندوی ، اسلام اور مستشرقین (انڈیا: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، 1974ء)،26۔
10 Karen Armstrong, Muhammad: A Biography of the Prophet (London: Phoenix Press, 2001), 164.
11 Ibid, 107.
12 Ibid, 165.
13 Ibid.
14 Karen Armstrong, Muhammad: A Prophet for Our Time (New York: Harper Collins, 2006), 125.
15 Micheal Cook, Muhammad (United Kindom: Oxford University Press, 1983), 51.
16 Ibid, 2.
17 Maxim Rodinson, Muhammad. Translated by Anne Carter (USA: The Penguin Press, 1971), 49.
18 Karen Armstrong, Muhammad: A Biography of the Prophet (London: Phoenix Press, 2001), 85.
19 Ibid, 89.
20 Karen Armstrong, Muhammad: A Biography of the Prophet (London: Phoenix Press, 2001), 21.
21 Ibid, 141.
22 Ibid, 84.
23 Karen Armstrong, Muhammad: A Prophet for Our Time (New York: Harper Collins, 2006), 74.
24 Ibid, 82.
25 Ibid, 83.
26 Ibid, 84.
27 Ibid.
28 Ibid, 89.
29 Ibid.
30 Ibid, 225.
31 Micheal Cook, Muhammad (United Kindom: Oxford University Press, 1983), 15.
32 Maxim Rodinson, Muhammad. Translated by Anne Carter (USA: The Penguin Press, 1971), 56.
33 Phil Hine, Walking Between the Worlds: Techniques of Modern Shamanism (New York: Pagan News Publications, 1986), 6.
34 Micheal Cook, Muhammad (United Kindom: Oxford University Press, 1983), 34.
35 Mohammad Asad, Islam at Cross Road (Gibraltar: Dar-Al Andalus, 1982), 49-50.
36 Ibid, 55-56.
37 الاستاذ نذیر حمدان، الرسول في کتابات المستشرقین (سعودی عرب: رابطہ العالم الاسلامی، س ۔نء)،98۔
38 ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی ، الاستشراق و المستشرقون ما علیھم وما علیھم، مترجم: نور الحسن خان (لاہور : مرکز اہل سنت برکات رضا ، 2008ء)،43۔
39 H. Moutice Relton, Studies in Christian Doctrine (London: MacMillian Publishers, 1960), 28.
40()البقرہ, 87
41()البقرہ, 61
42 منیر احمد جوئیہ ،آئینہ صیہونیت (لاہور : طیب پبلشرز ، 2010ء)،29۔
43 Philip. K. Hitti, History of the Arabs (USA: MacMillian Publishers, 1970), 54.
44 ڈاکٹر عبد القادر جیلانی،اسلام، پیغمبر اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر (لاہور : بیت الحکمت ، 2005ء)،153۔
45 Thomas Carlyle, On Heroes, Hero-Worship, and The Heroic in History (Newyork: Longmans, Green and Co, 1906), 311.
46 Abd Al-Jabbar Danner, The Islamic Tradition: An Introduction (Lahore: Institution of Islamic Culture, 2001), 53.
1
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |