1
1
2017
1682060060947_1055
130-164
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/136/44
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/136
قرآنِ کریم کی عظمت و فضیلت اور اس کی اہمیت کسی تعریف یا تعارف کی محتاج نہیں۔ مسلمانوں کے لیے قرانِ کریم کی فضیلت کا مقام یہ ہے کہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ خدائے بزرگ و برتر کا وہ ابدی و مقدس کلام ہے جو خیر الانام ﷺکی صداقتِ نبوّت کی دلیل ہے۔ اور یہ رب العٰلمین کی طرف سے خاتم النّبیین رحمۃ للعالمینﷺ پر بذریعہ روح الامین عربی زبان میں نازل ہوا۔ جیسا کہ خود رب العزّت نے فرمایا:
﴿وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلعَٰلَمِينَ¤ نَزَلَ بِهِ ٱلرُّوحُ ٱلأَمِينُ¤عَلَىٰ قَلبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلمُنذِرِينَ¤ بِلِسَانٍ عَرَبِيّٖ مُّبِينٖ ﴾([1])
’’اور بے شک یہ (قرآن) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اتارا ہوا ہے، اس کو جبرئیلؑ جو روح الامین ہیں، آپ(ﷺ)کے دل پر لے کر اترے تا کہ آپ(ﷺ) ڈرانے والوں میں سے ہوں، (یہ قرآن) صریح عربی زبان میں ہے۔‘‘
مسلمانوں پر تو قرآنِ کریم پر ایمان لانے کے ساتھ ہی اس کے حقوقِ اربعہ (تعلّم، تدبّر، تعمیل اور تبلیغ) کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے۔ ان میں سے پہلا حق تعلّمِ قرآن یعنی قرآنِ کریم کو سیکھنے کا ہے۔ جس کی فضیلت میں آقائے دو جہاںﷺ یوں گویا ہوئے:
عَنْ عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:«خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ»([2]) ’’حضرتِ عثمانِ غنیسے روایت ہے: رسولِ اللہ ﷺنےفرمایا: تم میں سےبہترین وہ ہےجو (خودبھی) قرآن سیکھےاور(دوسروں کوبھی)سکھائے۔‘‘
تعلّمِ قرآن میں قراءت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی کا علم اور اس کے احکام کا فہم بھی شامل ہے۔ اور اس کی روزانہ تلاوت یا قراءت سے ادائے حقوقِ قرآن کی ابتداء ہوتی ہے۔
اور قرآنِ کریم کی درست تلاوت کے لیے درست کتابت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ صحتِ کتابت کا معیار اور اس کی بنیاد ’علم الرسم‘ پر ہے۔ اور صحتِ قراءت کا دار و مدار بڑی حد تک ’علم الضبط‘ پر ہے۔
جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ(ت728ھ)نے لکھا ہے:
"والقرآن كلام الله بحروفه ونظمه ومعانيه، كل ذلك يدخل في القرآن وفي كلام الله.وإعراب الحروف هو من تمام الحروف،([3]) كما قال النبيﷺ : « من قرأ القرآن فأعربه فله بكل حرف عشر حسنات»([4]) وقال أبو بكر وعمر _رضي الله عنهما_ إعراب القرآن أحب إلينا من حفظ بعض حروفه." ([5])
’’اور قرآن کلام اللہ ہے، اپنے حروف، نظم اور معانی سمیت، یہ سب قرآن میں اور کلام اللہ میں داخل ہیں۔اور اعراب الحروف دراصل اتمامِ حروف میں شامل ہے، جیسا کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا پھر اس پر اعراب لگائے تو اس کے لیے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں۔ اور ابو بکر و عمر نے فرمایا: قرآن کریم کے اعراب حفظ کرنا ہمیں زیادہ محبوب ہے اس کے بعض حروف حفظ کرنے سے۔‘‘
قراءتِ قرآن کی تعلیم کے دوران اور تعلیم کے بعدروزانہ تلاوتِ قرآن کے لیے ایک صحیح کتابت والے مصحف کی ضرورت ہر مسلمان کو پڑتی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے کتابت کی صحت علم الضبط کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی فن الضبط تعلّمِ قرآنِ کریم کے ساتھ لازم ہے۔اور قواعد الضبط کی معرفت سے ہی ایک غیر عربی شخص قرآنِ کی تعلیم صحیح طریقہ سے حاصل کرسکتا ہے۔کیونکہ علامات الضبط کے بغیر ایک غیر عربی شخص قرآنِ کریم کے تلفظ نہیں کرسکتا۔اس لیے علم الضبط کو تحریکِ حفاظتِ قرآن کا جزء سمجھا جاتا ہے۔
ضبط کی لغوی تعریف
’ضبط ‘کے لغوی معنی ’چمٹ جانے‘، ’مضبوطی سے تھام لینے ‘اور ’محفوظ کر لینے ‘کے ہیں۔ جیسا کہ مختلف کتبِ لغات میں ہے۔
چنانچہ امام فراہیدی (ت170ھ)اور علامہ الازہری(ت370ھ)نے ضبط نے متعلق لکھا ہے:
"الضَّبْطُ: لزوم شيءٍ لا يفارقه في كلِّ شيءٍ. ورجل ضابط: شديد البَطش والقُوَّة والجسم. ورجل أضْبَطُ، أي أَعَسَرُ يَسَرٌ، يعَملُ بيَدَيْهِ معاً، وامرأةٌ ضَبْطاء." ([6])
’’یعنی ’ضبط ‘کا مطلب ہے کسی چیز کےساتھ چمٹ جانا اس کو کوئی چیز اس سے جدا نہ کر سکے۔اور ضبط والے مرد سے مراد ہے سخت پکڑ، قوت اور جسم والا(یعنی مضبوط مرد)۔اور سب سے زیادہ ضبط والا یعنی(ہر) مشکل اور آسان کام کرنے والا، دونوں ہاتھوں سے اکٹھا کام کرنے والا ،اسی طرح مضبوط عورت ہے۔‘‘
علامہ جرجانی(ت816ھ)نے’التعریفات‘میں لکھا ہے:
"الضبط: في اللغة: عبارة عن الحزم" ([7])
’’لغت میں ضبط کو مضبوط اور پختہ کرنےسے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘‘
ابنِ منظور (ت711ھ)نے ضبط کو یوں لکھا ہے:
"الضَّبْطُ: لُزُومُ الشَّيْءِ وحَبْسُه، ضَبَطَ عَلَيْهِ وضَبَطَه يَضْبُط ضَبْطاً وضَباطةً " ([8])
’’ضبط کا مطلب ہے کسی چیز کےساتھ لازم ہونا اور اس کو روک لینا، اس نے اس پر قابو پا لیا اور اس نے اس کواحتیاط سے محفوظ کرلیا، وہ پختہ کرتا ہے۔ ضَبْطاً وضَباطةً دونوں اس کے مصدر ہیں۔‘‘
ضبط کی اصطلاحی تعریف
ضبط کی اصطلاحی تعریف دو طرح سے آتی ہے:
1۔محدثین کی اصطلاح میں ضبط2۔قراء کرام کی اصطلاح میں ضبط
محدثین کی اصطلاح میں ضبط
محدثین کی اصطلاح میں ضبط دو طرح کا ہے:1۔ضبطِ صدر2۔ ضبط الکتاب
ضبطِ صدر
ضبطِ صدر ،سے مراد ہےکسی چیز کوسینے میں محفوظ کر لینا یعنی حفظ کر لینا زبانی یاد کر لینا۔ حافظ ابنِ حجر (ت852ھ)ضبطِ صدر كو یوں لکھتے ہیں:
"والضبط ضبط صدر وهو أن يثبت ما سمعه بحيث يتمكن من استحضاره متى شاء"([9])
’’اور ضبطِ صدر یہ ہے کہ (راوی) جو سنے اسے پختگی سے اس طرح یاد کر لے کہ جب چاہے اور جہاں چاہے اسے(اپنی پختہ یاد کی ہوئی روایت) کو پیش کر سکے۔‘‘
ضبط الکتاب
ضبطِ کتاب سے مراد ہےکسی چیز کو لکھ کر محفوظ کرلینا۔
جیسا کہ حافظ ابنِ حجر (ت852ھ)لکھتے ہیں:
"وضبط علىٰ كتاب وهو صيانته لديه منذ سمع فيه إلى أن يؤدى منه"([10])
’’اور ضبطِ کتاب یہ ہے کہ راوی جب (روایت) سنے اسے اپنے پاس محفوظ رکھے یہاں تک کہ اسے ادا کردے یعنی آگے پہنچادے۔ ‘‘
قراء کرام کی اصطلاح میں ضبط
قراء کرام کی اصطلاح میں ضبط سے مرادہے کسی عبارت کو تلفظ کے ساتھ اعرابی شکل دینا(حرکات سے منضبط کرنا)۔
چنانچہ ابو عبید القاسم بن سلام الہروی(ت224ھ)نے اپنی کتاب ’الناسخ والمنسوخ‘ کےمقدمہ میں لکھا ہے:
"الضبط بالشكل لبعض الكلمات والأعلام مع التزام القواعد الإملائية للخط والقواعد الإعرابية للنحو" ([11])
’’کلمات و اعلام کوخط کےقواعدِ املائیہ اورنحوکے قواعدِ اعرابیہ کےالتزام کےساتھ اعراب لگانا ضبط ہے۔‘‘
علم الضبط کی تاریخ اور اس کےارتقاء کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے ضبط کے ہم معنی استعمال ہونے والی اصطلاحات ’النقط‘اور’الشکل‘ کی وضاحت کر نا ضروری ہے۔
نقط کی لغوی تعریف
نقطےسےمرادہےچھوٹاسانشان۔جیسا کہ علامہ الجوہری(ت393ھ)نے ’الصحاح‘ میں لکھا ہے:
"نقط، النُقْطَةُ: واحدة النُقَطِ. والنِقاطُ أيضا: جمع نقطة، مثل برمة وبرام، عن أبى زيد. ونقط الكتاب يَنْقُطُهُ نَقْطاً. ونَقَّطَ المصاحِفَ تَنْقيطاً، فهو نقاط." ([12])
’’ نُقَط جمع ہے اور اَلنُّقطَة واحد ہے۔ النُّقاط بھی جمع ہے نُقطة کی جیسے برمة اور برام ہے۔ ابو زید سے مروی ہے اور اس نے کتاب پر نقطے لگائے وہ اس پر نقطے لگاتا ہے اور مصاحف کو منقوط کر دیا۔ پس وہ نقاط ہے۔‘‘
ابنِ فارس(ت395ھ)نے ’مجمل اللغة‘میں لکھا ہے:
"نقط: النقط معروف. ويقال للقطعة من النخل: نقطة، وهي تشبيه بالنقطة لقلته." ([13])
’’النقط معروف ہے(یعنی الف لام کےساتھ)اورکھجوروں کےایک قطعے(یعنی کھجورکےچنددرختوں)کونقطہ کہا جاتا ہے اور اس کو نقطے سے تشبیہ ان(درختوں) کے کم ہونے کی وجہ سے دی جاتی ہے۔‘‘
ابنِ منظور(ت711ھ)نقط کے ذیل میں رقمطراز ہیں:
"نقط: النُّقْطة: وَاحِدَةُ النُّقَط؛ والنِّقاطُ: جَمْعُ نُقْطةٍ مِثْلُ بُرْمةٍ وبِرام؛ عَنِ أَبي زَيْدٍ. ونقَط الحرفَ يَنْقُطه نَقْطاً: أَعْجَمه، وَالِاسْمُ النُّقْطة؛ ونقَّط الْمَصَاحِفَ تنْقِيطاً، فَهُوَ نَقَّاط. والنَّقْطة: فَعْلة وَاحِدَةٌ.وَيُقَالُ: نقَّط ثَوْبَهُ بالمِداد وَالزَّعْفَرَانِ تَنْقِيطاً، ونقَّطَت المرأَة خدَّها بِالسَّوَادِ: تحَسَّنُ بِذَلِكَ." ([14])
’’نُقَط جمع ہے اور اَلنُّقطَة اس سے واحد ہے۔اور النُّقاط بھی جمع ہے نُقطة کی جیسے برمة اور برام ہے۔ ابو زید سے مروی ہے ونقَط الحرفَ يَنْقُطه نَقْطاً سے مراد ہے اس نے اس پر نقطے لگا ئے۔اور اَلنُّقطَة اسم ہے، اور اس نے مصاحف پر بہت نقطے لگائے پس وہ نقاط ہے یعنی بہت نقطے لگانے والا۔اور النَّقْطة سے مراد ایک دفعہ نقطہ لگانا۔اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے کپڑے پر سیاہی اور زعفران کے ساتھ بہت سارے نشان لگائے۔ اور عورت نے خوبصورتی کے لیے اپنے رخسار پر سیاہی سے نشان بنایا۔‘‘
نقط کی اصطلاحی تعریف
اصطلاحاً النقط کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1۔ نقط الاعراب 2۔نقط الاعجام
اعراب کی لغوی تعریف
ابنِ منظور(ت711ھ)نے ”لسان العرب“میں اعراب کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:
"الإِعْراب الَّذِي هُوَ النَّحْوُ، إِنما هُوَ الإِبانَةُ عَنِ الْمَعَانِي بالأَلفاظ. وأَعْرَبَ كلامَه إِذا لَمْ يَلْحَنْ فِي الإِعراب. وَيُقَالُ: عرَّبْتُ لَهُ الكلامَ تَعْريباً، وأَعْرَبْتُ لَهُ إِعراباً إِذا بيَّنته لَهُ حَتَّى لَايَكُونَ فِيهِ حَضْرَمة" ([15])
’’اعراب کی مثال یوں ہے کہ وہ (اعراب) الفاظ کے ساتھ معانی کی وضاحت ہے ۔اور أَعْرَبَ كلامَه اس وقت کہا جاتا ہے جب وہ (متکلم) اعرابی غلطی نہ کرے۔ اور کہا جاتا ہے : میں نے اس کے لیے کلام کا عربی میں ترجمہ کیا۔ وأَعْرَبْتُ لَهُ إِعراباً اس وقت کہا جائے گا جب تو اس کے لیے وضاحت کر دے یہاں تک کہ (کلام) میں کوئی اعرابی غلطی باقی نہ رہے۔‘‘
نشوان بن سعید الحمیری(ت573ھ) نے اعراب کے ضمن میں رقم کیا ہے:
"الإعراب: أعربَ الرجلُ: إذا بَيَّن وأفصح، ومنه إعراب الحروف، وهو تبيين حركاتها وسكونها" ([16])
’’اعراب مطلب فصیح العرب آدمی، (اس وقت کہا جاتا ہے) جب آدمی وضاحت و فصاحت سے کلام کرے، اسی سے اعراب الحروف ہے، اور وہ(اعراب) حروف کی حرکات و سکون کی وضاحت (کا نام) ہے۔‘‘
اعراب کی نحوی تعریف
علمائے نحو عوامل کے بدلنے کی وجہ سے کلمہ کے آخری حرف میں ہونے والی حرکت کی تبدیلی کو اعراب کہتے ہیں۔جیسا کہ الخوارزمی(ت610ھ) اور الجرجانی(ت816ھ)نے لکھا ہے:
"الْإِعْرَابُ : اخْتِلَافُ آخِرِ الْكَلِمَةِ بِاخْتِلَافِ الْعَوَامِلِ وَأَلْقَابُ حَرَكَاتِهِ: الرَّفْعُ، وَالنَّصْبُ، وَالْجَرُّ، وَيُسَمَّى السُّكُونُ فِيهِ جَزْمًا" ([17])
’’عوامل کی تبدیلی کی وجہ سے کلمہ کے آخر میں ہونے والی تبدیلی کو اعراب کہتے ہیں۔ اور اعراب کی حرکات کے القاب یہ ہیں۔ رفع(-ُ)، نصب(-َ)، جرّ(-ِ)، اور سکون(-ْ) کو علم النحو میں جزم کہتے ہیں۔‘‘
نقط الاعراب کی تعریف
ائمہ قراء کے نزدیک نقط الاعراب سے مراد وہ علامات ہیں جو حرکت،سکون،تشدیداور مد وغیرہ پر دلالت کرتی ہیں۔جیسا کہ امام الدانی(ت444ھ) نے بیان کیا ہے:
"نقط الإعراب أو نقط الحركات:هو نقط الحرف للتفريق بين الحركات المختلفة في اللفظ،كنقط الفتحة بنقطة من فوق الحرف، ونقط الكسرة بنقطة من تحت الحرف، ونقط الضمة بنقطة أمام الحرف أو بين يديه." ([18])
’’نقط الاعراب یا نقط الحرکات سے مراد وہ نقطہ (یانشان) ہے جو لفظ میں مختلف حرکات کے درمیان فرق کرنے کے لیے حرف پر لگایا جاتا ہے۔جیسے فتحہ کا نقطہ حرف کے اوپر لگایا جاتا ہے اور کسرہ کا نقطہ حرف کے نیچے اور ضمہ کا نقطہ حرف کے سامنے یا درمیان میں۔‘‘
اعجام کی تعریف
ابنِ منظور(ت711ھ)نے ’الاعجام‘کے حوالے سے لکھا ہے:
"وأَعْجَمْتُ الكتابَ إِذا نَقَطْتُه"([19])
’’اور میں نے کتاب کا ابہام دور کردیا جب میں نے اس (کتاب) پر اعراب و نقطے لگا دیے۔‘‘
امام ابو عمرو الدانی(ت444ھ)نے ”المحکم“میں ’الاعجام‘کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
"وَتقول أعجمت الْكتاب إعجاما إِذا نقطته وَهُوَ مُعْجم وَأَنا لَهُ مُعْجم وَكتاب مُعْجم ومعجم أَي منقوط" ([20])
’’اور تو کہتا ہے میں نے کتاب سے ابہام کو رفع کر دیا جب تو اس پر نقطے لگاتا ہے۔ اور وہ (کتاب) مُعجَم ہےاور میں اس کا مُعجِم ہوں (یعنی نقطے لگانے والا) اور کتاب مُعجَم ہے یعنی جس پر نقطے لگائے گئےہوں۔‘‘
نقط الاعجام کی تعریف
قراء کرام کے ہاں نقط الاعجام سے مراد وہ نشان (نقطے) ہیں جو حروف کے مابین التباس و اشکال کو زائل کرنے اور حروف کی صورتی شناخت کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے: حرفِ باء کے نیچے ایک نقطہ اور حرفِ تاء کے اوپر دو نقطے اور حرفِ ثاء کے اوپر تین نقطےاور یاء کے نیچے دو نقطے،اسی طرح باقی حروف کے نقطے۔یعنی اگر یہ نقطے نہ ہوں تو اکثر حروف ایک جیسے ہوں جیسے کہ شروع میں تھا ۔ چنانچہ امام الدانی(ت444ھ)لکھتے ہیں:
"نقط الإعجام، وهو نقط الحروف في سمتها، للتفريق بين الحروف المشتبهة في الرسم، كنقط الباء بنقطة من تحت، و نقط التاء بإثنتين من فوق، ونقط الثاء بثلاث نقط من فوق."([21])
’’نُقَط الاعجام سے مراد حروف پر لگائے جانے وہ نشان ہیں رسماً مشتبہ حروف میں تفریق کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ جیسے: حرفِ باء کے نیچے ایک نقطہ اور حرفِ تاء کے اوپر دو نقطے اور حرفِ ثاء کے اوپر تین نقطے۔‘‘
الشکل کی تعریف
اصطلاحِ قراء میں الشکل سے مراد سے وہ مخصوص علامات ہیں جن کے ساتھ قرآنِ کریم کو اعراب لگا کر مزین کیا جاتا ہے۔ اور ایسے ہی الشکل سے مراد ہے کتاب کو اعراب میں مقیّد کرنا۔
علامہ الازہری (ت370ھ)نے الشکل کی تعریف میں لکھا ہے:
"شَكَلْتُ الكِتابَ أشْكُلُهُ فَهُوَ مَشْكُولٌ إِذا قَيَّدْتَهُ." ([22])
’’میں نےکتاب پراعراب لگائےمیں اس پراعراب لگاتاہوں، وہ مشکول ہےجب تواس کو(اعراب میں) مقیّدکردے۔ ‘‘
ابنِ منظور (ت711ھ)شکل کے ذیل میں یوں رقمطراز ہیں:
"أَشْكَلْت الكتابَ بالأَلف كأَنك أَزَلْت بِهِ عَنْهُ الإِشْكال وَالإِلْتِبَاسَ. وشَكَلَ الكِتابَ يَشْكُله شَكْلًا وأَشْكَلَه: أَعجمه." ([23])
’’أَشْكَلْت الكتابَ الف کے ساتھ ہو تو اس کا مطلب ہے گویا تو نے اس طرح اس سے اشکال و التباس کو دور کردیا۔ شَكَلَ الكِتابَ يَشْكُله شَكْلًا وأَشْكَلَه کا مطلب ہے اس نے کتاب پر اعراب لگا دیے۔‘‘
مذکورہ بحث کا حاصل کلام یہ ہے کہ علم الضبط وہ علم ہے جس کے ذریعے حرف کو لا حق ہونے والی علامات، حرکت، سکون، تشدید اور مد وغیرہ کی پہچان ہوتی ہے۔اسی کو شکل اور نقط الاعراب بھی کہتے ہیں۔ضبط کی اصطلاح ان سب کے بعد وجود میں آئی۔ علم الضبط میں عموماً نقط (نقط الاعراب) اور شکل کے قواعد سے بحث کی جاتی ہے اور اعجام کا اس میں کم ہی ذکر کیا جاتا ہے۔تاہم تاریخی عمل کے لحاظ سے تو اعجام بھی ”تحریکِ ضبطِ قرآن“ ہی میں شامل ہے،لہٰذا اس کا مختصر تذکرہ اپنی جگہ پہ آئے گا۔اسی تحریک کے اسباب یعنی علم الضبط کی ضرورت اور اس کے ارتقاء کا جائزہ ہی اس وقت ہمارا موضوعِ بحث ہے۔
علم الضبط کاموضوع
علم الضبط کا موضوع وہ علامات و نشانات ہیں جوحرف کو پیش آنے والے حالات مثلاً حرکت، عدمِ حرکت، محلِ حرکت اور لونِ حرکت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں۔
علم الضبط کا فائدہ
حروف میں پائے جانے والے التباس کا خاتمہ، تا کہ مشدد اور مخفف، متحرک اور ساکن، مفتوح ومضموم اور مکسور ایک دوسرے کے ساتھ ملتبس نہ ہوں۔
علم الضبط کاحکم
علم الضبط کے متعلق ابتداء میں کچھ اختلاف پایا جاتا تھا ، کیونکہ یہ نبی مکرمﷺ کے دور کے بعد کی ایجاد ہے ۔ اور تقریباً ایسے ہی ہے جیسے حضرت ابو بکر کا قرآنِ کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنا تھا۔ لیکن بعد میں علماءِ کرام نے علم الضبط کو مستحب قرار دیا ہے۔ بلکہ علماء کا کتابتِ مصاحف اور نقاطِ مصاحف پر اتفاق ہے۔([24])
جیسا کہ امام النووی (ت676ھ)نے لکھا ہے:
"ويستحب نقط المصحف وشكله فانه صيانة من اللحن فيه وتصحيفه"([25])
’’اور مصحف پر نقاط (نقط الاعجام) لگانا اور شکل(حركات) لگانا مستحب ہے، پس بے شک یہ (حركات و نقاط) مصحف کو لحن اور تصحیف سے بچانے کے لیے ہیں۔‘‘
علم الضبط کے حکم میں امام ابنِ تیمیہ(ت728ھ)بڑی وضاحت سے یوں رقمطراز ہوئے ہیں:
"ذَلِكَ جَائِزٌ عِنْدَ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ وَهُوَ إحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ أَحْمَد وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ لَا يَكْرَهُ؛ لِأَنَّ الْحَاجَةَ دَاعِيَةٌ إلَى ذَلِكَ وَلَا نِزَاعَ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّ حُكْمَ الشَّكْلِ وَالنَّقْطِ حُكْمُ الْحُرُوفِ الْمَكْتُوبَةِ فَإِنَّ النُّقَطَ تُمَيِّزُ بَيْنَ الْحُرُوفِ وَالشَّكْلُ يُبَيِّنُ الْإِعْرَابَ لِأَنَّهُ كَلَامٌ مِنْ تَمَامِ الْكَلَامِ." ([26])
’’کہ علم الضبط اکثر علماء کے نزدیک جائز ہے اور یہ دو روایتوں میں سے ایک ہے۔ امام احمدسے منقول ہے کہ بعض نے اس کو مکروہ کہا ہے ۔اور صحیح تو یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ ضرورت اسی کا تقاضہ کرتی ہے۔ اور اس بارےمیں علماء کےدرمیان کوئی اختلاف نہیں کہ ”الشکل“ اور ”النقط“ کا حکم ”حروفِ مکتوبہ“ کےحکم کی طرح ہی ہے۔ بے شک النقط (نقط الاعجام) حروف کےدرمیان تمیز کرتے ہیں اور الشکل اعراب کو ظاہر کرتا ہے۔اس لیے یہ اتمامِ کلام میں سے ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ شیخ صاحب یوں گویا ہوئے:
"وَلَا رَيْبَ أَنَّ إعْرَابَ الْقُرْآنِ الْعَرَبِيِّ مِنْ تَمَامِهِ وَيَجِبُ الِإعْتِنَاءُ بِإِعْرَابِهِ" ([27])
’’اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اعراب القرآن عربی کی تکمیل کا حصّہ ہیں اور اعراب کی محنت(مشق) کرنا واجب ہے۔‘‘
امام سیوطی(ت911ھ)نے امام نووی کا قول نقل کیا ہے:
" نَقْطُ الْمُصْحَفِ وَشَكْلُهُ مُسْتَحَبٌّ لِأَنَّهُ صِيَانَةٌ لَهُ مِنَ اللَّحْنِ وَالتَّحْرِيفِ"([28])
’’مصاحف میں نقطے لگانا اور اس میں اعراب لگانا مستحب ہے اس لیے کہ اس طرح قرآنِ کریم کو غلط پڑھنے سے اور تحریف سے محفوظ بنایا جاتا ہے۔‘‘
"وَقَالَ ابن مجاهد: ينبغي ألا يُشْكَلَ إِلَّا مَا يُشْكِلُ" ([29])
’’اور ابنِ مجاہدنے کہا کہ: قرآنِ مجید میں سے سوائے مشکل لفظ و جملے کےاور کسی چیز پر اعراب لگانا جائز نہیں۔‘‘
تاریخِ علم الضبط
اس بات کو کسی حوالے سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور ابتداء ہی سے عربی میں ہی لکھ لیا گیا۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی صحابہ کی بڑی تعداد نے آپﷺکی بتائی ہوئی ترتیب اور طریقِ تلاوت کے مطابق پورا قرآن حفظ کر لیا تھا۔قرآنِ کریم کا ہر ہر حصّہ نزولِ وحی کے بعد جلد ہی لکھ لیا جاتا جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے:
«قَالَ عُثمَانُ: إِنَ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ مِمَّا يَأتِي عَلَيهِ الزَّمَانُ يَنزِلُ عَلَيهِ مِنَ السُّوَرِ ذَوَاتِ العَدَدِ، وَكَانَ إِذَا أُنزِلَ عَلَيهِ الشَّيءَ يَدعُو بَعض مَن يَكتُبُ عِندَه، يَقُولُ: ضَعُوا هَذَا فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا» ([30])
’’حضرت عثمان سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ کے پاس جب کوئی متعدد آیات والی سورت نازل ہوتی یا کچھ توآپ ﷺ اپنے کسی کاتب کو بلاتے اور فرماتے کہ اسے اس سورۃ میں لکھ دو جس میں فلاں فلاں ذکر ہے۔‘‘
بے شک ابتداء میں قرآنِ کریم غیر منقوط ( نقط الاعجام کے بغیر) اور غیر مشکول ( علاماتِ حرکات کے بغیر) تھا۔جیسا کہ امام ابو عمرو الدانی(ت444ھ)نے سنداً اس کی تفصیل بیان کی ہے:
"حَدثنَا فَارس بن أَحْمد بن مُوسَى الْمُقْرِئ قَالَ ثَنَا أَحْمد بن مُحَمَّد قَالَ حَدثنَا أَحْمد بن مُحَمَّد بن عُثْمَان قَالَ حَدثنَا الْفضل بن شَاذان قَالَ حَدثنَا مُحَمَّد بن عِيسَى قَالَ حَدثنَا إِبْرَاهِيم بن مُوسَى قَالَ أخبرنَا الْوَلِيد بن مُسلم قَالَ حَدثنَا الأوزاعي قَالَ سَمِعت يحيى بن أَبِي كثير يَقُول كَانَ الْقُرْآن مُجَردا فِي الْمَصَاحِف فَأول مَا أَحْدَثُوا فِيهِ النقط على الْيَاء وَالتَّاء وَقَالُوا لَا بَأْس بِهِ هُوَ نور لَهُ ثمَّ أَحْدَثُوا فِيهَا نقطا عِنْد مُنْتَهى الْآي ثمَّ أَحْدَثُواالفواتح والخواتم" ([31])
’’امام اوزاعیکہتے ہیں: میں نے یحیٰ بن ابی کثیرسے سنا وہ کہتے تھےکہ ابتدا میں قرآن کریم مصاحف میں ہر قسم کے نشانات و علامات سے خالی تھا پھر اس میں سب سے پہلے جو تبدیلی ہوئی وہ حروف پر نقطےلگائے گئے۔ یاء اور تا ء پر(یعنی نقط الاعجام)،اور (صحابہؓ و تابعینِ عظام نے) کہا اس میں کوئی حرج نہیں یہ اس (قرآن ) کے لیے روشنی ہے۔پھر آیات کےآخر میں نقطے دیے گئے، پھر آیات کے فواتح و خواتم کے نقطے لگائے۔‘‘
امام الدانی (ت444ھ)نے ہی ایک دوسری سند سے اس کو یوں بیان کیا:
"حَدثنَا فَارس بن أَحْمد قَالَ ثَنَا أَحْمَد بن مُحَمَّد قَالَ حَدثنَا أَبُو بكر الرَّازِيّ قَالَ ثَنَا أَبُو الْعَبَّاس الْمُقْرِئ قَالَ حَدثنَا احْمَد بن يزِيد قَالَ ثَنَا الْعَبَّاس بن الْوَلِيد قَالَ ثَنَا فديك من أهل قيسارية قَالَ حَدثنَا الأوزاعي قَالَ سَمِعت قَتَادَة يَقُول بدؤوا فنقطوا ثمَّ خمسوا ثمَّ عشروا" ([32])
’’امام اوزاعینے کہا: میں نے قتادہسےسنا کہ پہلے قرآن کریم پر نقاط لگائے گئے پھرخمس وعشر لگائے گئے۔‘‘
اسی طرح امام الدانی(ت444ھ)کا یہ قول بھی ملاحظہ فرمائیں:
"هَذَا يدل على أَن الصَّحَابَة وأكابر التَّابِعين رضوَان الله عَلَيْهِم هم المبتدئون بالنقط ورسم الخموس والعشور لِأَن حِكَايَة قَتَادَة لَا تكون إِلَّا عَنْهُم إِذْ هُوَ من التَّابِعين وَقَوله بدؤوا إلى آخِره دَلِيل على أَن ذَلِك كَانَ عَن اتِّفَاق من جَمَاعَتهمْ وَمَا اتَّفقُوا عَلَيْهِ أَو أَكْثَرهم فَلَا شكول فِي صِحَّته وَلَا حرج فِي اسْتِعْمَاله وَإِنَّمَا أخلى الصَّدْر مِنْهُم الْمَصَاحِف من ذَلِك وَمن الشكل من حَيْثُ أَرَادوا الدّلَالَة على بَقَاء السعَة فِي اللُّغَات والفسحة فِي الْقرَاءَات الَّتِي أذن الله تَعَالَى لِعِبَادِهِ فِي الْأَخْذ بهَا وَالْقِرَاءَة بِمَا شَاءَت مِنْهَا فَكَانَ الْأَمر على ذَلِك إِلَى أَن حدث فِي النَّاس مَا أوجب نقطها وشكلها"([33])
’’قولِ قتادہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ اور اکابر تابعینہی نقط اور خموس و عشور کی ابتداء کرنے والے ہیں۔اس لیے کہ حکایتِ قتادہانہی کی طرف منسوب ہے کیونکہ وہ خود تابعین میں سے تھے۔اور قتادہ کایہ قول بدؤوا الى آخِره اس بات پر دلیل ہے کہ قرآنِ کریم میں یہ تبدیلی جماعتِ صحابہکے اتفاق سے وقوع پذیر ہوئی اورجس چیز پر صحابہکا اتفاق ہو یا ان کی اکثریت کا اتفاق ہو تو اس کی صحت میں کوئی اشکال نہیں رہتا اور نہ اس کے استعمال کرنے میں کوئی حرج ہے۔ لیکن ہاں جو انہوں نے خود مصاحف کو نقط و شکل سے خالی رکھا تو اس سے ان کا ارادہ قراءات کی ان لغات میں فصاحت و وسعت پر دلالت کرنے کا تھا جن قراءات کو اختیار کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دی ہے۔پھر معاملہ یوں ہوا کہ لوگوں کو ایسا مسئلہ درپیش ہوا جس کے سبب قرآنِ کریم کے نقط و شکل واجب قرار پائے۔‘‘
عہدِنبویﷺ کے بعد عہدِ صدیقی میں سرکاری اہتمام سے ”أم“ یا ماسٹر کاپی کے طور پر قرآنِ کریم کا ایک نسخہ تیار کیا گیا جسے ”مصحف“ کا نام دیا گیا۔عہدِ عثمانیمیں اسی مصحفِ صدیقیؓ سے صحابہکے ایک بورڈ کے زیرِ نگرانی چھ مصاحف پر مشتمل ایک نیا ایڈیشن تیار کیا گیا۔ان مصاحف کی تیاری کے پیچھے ایک معروف واقعہ ہے جس کا موضوع اس وقت زیرِ بحث نہیں۔ ان میں سے ایک مصحف حضرت عثمانِ غنیاپنے پاس رکھ لیا اور باقی مصاحف مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور دمشق کی مرکزی مساجد میں عوام الناس کے استفادہ کے لیے رکھ دیے گئے۔
یاد رہے ان مصاحف کی کتابت بھی عربی حروف کی ان اٹھارہ صورتوں کے ساتھ ہوئی تھی جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ یعنی ان مصاحف میں حرکات (اعراب) تو درکنار مشابہ حروف کو متمیّز کرنے کے لیے نقطے بھی نہیں لگائے گئے تھے۔([34]) جبکہ قبل از ظہورِ اسلام بھی بعض حروف پر کبھی کبھار نقطے استعمال کر لیے جاتے تھے۔
حضرت عثمان غنی کے ایڈیشن کی تیاری کےقریباً چالیس سال بعد تک دنیائے اسلام میں قرآنِ کریم کی کتابت اسی طرح بغیر نقاط و حرکات کے جاری رہی۔([35])تاہم قرآنِ کریم کی تعلیم عہدِ رسالت سے ہی محض تحریر کی بجائے تلقی اور سماع پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس کی قراءت اور تلاوت عموماً درست ہی رہی۔ بالکل ایسے ہی جیسے انگریزی میں Putیا Cut اورFood یا Foot کی قسم کے الفاظ کے تلفظ کا فرق معلم کی شفوی تعلیم پر منحصر ہے نہ کہ طریقِ املاء اور ہجاء پر۔
واضعِ علم الضبط
اس میں کئی اقوال ہیں لیکن صحیح ترین روایات کے مطابق ابو الاسود الدؤلی (ان کا پورا نام،ظالم بن عمرو بن سفیان ہے اصحابِ علیمیں سے تھے)۔ ([36])
اما م ابو الاسودتابعین میں سے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم النحو کی بنیاد ڈالی اور ساتھ ہی قرآنِ مجید میں نقطوں کے ذریعے نظامِ شکل (حروف کی آواز علامات کے ذریعے متعین کرنا) کی ابتداء کی۔ ابو الاسود کے اس کام پر آمادہ ہونے کے پیچھےکئی محركات بیان کیےجاتے ہیں ۔([37])
سببِ وضعِ ضبط القرآن
پہلی صدی ہجری کے آخر نصف تک لاکھوں غیر عرب بھی اسلام میں داخل ہو کر قرآن بلکہ عربی زبان بھی سیکھ رہے تھے۔ کسی زبان کی صرف قراءت کی تعلیم ، بلکہ اس کا عام بول چال میں استعمال تک بھی کسی آدمی کو اہلِ زبان کی سی مہارت عطا نہیں کر سکتا۔عراق، شام اور مصر اس وقت تک اگرچہ بڑی حد تک عربی بولنے والے علاقے بن چکے تھے مگر عوام میں جہاں لحن کے ساتھ (غلط سلط) عربی بولنے کا رواج بڑھا وہاں قرآنِ کریم کی تلاوت میں بھی اس غلط عربی دانی کا مظاہرہ ہونے لگا۔اس وقت اہلِ علم کے ساتھ بعض مسلمان حکمرانوں کو بھی اس کے تدارک کا خیال پیدا ہوا۔ اپنی سیاسی الجھنوں کے باوجود حکمران ابھی تک قرآنِ کریم کی درست قراءت کو نہ صرف اپنے ایمان کا حصّہ تصور کرتے تھے بلکہ اسے اپنے اہلِ زبان ہونے کا لازمہ سمجھتے تھے۔اور قرآنِ کریم کا غلط پڑھنا نہ صرف سخت گناہ بلکہ عربی دانی کا عیب سمجھا جاتا تھا۔ عربی زبان میں اس لحن کے تدارک کی کوششوں کے نتیجے میں ایک طرف علمِ نحو وجود میں آیا اور دوسری طرف نقط المصاحف کا عمل ظہور میں آیا۔([38])
چنانچہ اس کے ضمن میں ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے جسے امام ابو عمرو الدانی(ت444ھ)نے ”المحکم“ میں سنداً یوں بیان کیا ہے:
"وَذَلِكَ مَا حدّثنَاهُ مُحَمَّد بن أَحْمد بن عَليّ الْبَغْدَادِيّ قَالَ ثَنَا مُحَمَّد بن الْقَاسِم الأنباري قَالَ ثَنَا أبي قَالَ حَدثنَا أَبُو عِكْرِمَة قَالَ قَالَ الْعُتْبِي كتب مُعَاوِيَة رَضِي الله عَنهُ إِلَى زِيَاد يطْلب عبيد الله ابْنه فَلَمَّا قدم عَلَيْهِ كَلمه فَوَجَدَهُ يلحن فَرده إِلَى زِيَاد وَكتب إِلَيْهِ كتابا يلومه فِيهِ وَيَقُول أمثل عبيد الله يضيع فَبعث زِيَاد إِلَى أَبي الْأسود فَقَالَ يَا أَبَا الْأسود إِن هَذِه الْحَمْرَاء قد كثرت وأفسدت من ألسن الْعَرَب فَلَو وضعت شَيْئا يصلح بِهِ النَّاس كَلَامهم ويعربون بِهِ كتاب الله تَعَالَى فَأبَى ذَلِك أَبُو الْأسود وَكره إِجَابَة زِيَاد إِلَى مَا سَأَلَ فَوجه زِيَاد رجلا فَقَالَ لَهُ اقعد فِي طَرِيق أبي الْأسود فَإِذا مر بك فاقرأ شَيْئا من الْقُرْآن وتعمد اللّحن فِيهِ فَفعل ذَلِك فَلَمَّا مر بِهِ أَبُو الأسود رفع الرجل صَوته فَقَالَ ﴿ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَرَسُوْلُهٗ ﴾([39]) فاستعظم ذَلِك أَبُو الْأسود وَقَالَ عز وَجه الله أَن يبرأ من رَسُوله ثمَّ رَجَعَ من فوره إِلَى زِيَاد فَقَالَ يَا هَذَا قد أَجَبْتُك إِلَى مَا سَأَلت وَرَأَيْت أَن أبدأ بإعراب الْقُرْآن إِلَيّ ثَلَاثِينَ رجلا فأحضرهم زِيَاد فَاخْتَارَ مِنْهُم أَبُو الْأسود عشرَة ثمَّ لم يزل يخْتَار مِنْهُم حَتَّى اخْتَار رجلا من عبد الْقَيْس فَقَالَ خُذ الْمُصحف وصبغا يُخَالف لون المداد فَإِذا فتحت شفتي فانقط وَاحِدَة فَوق الْحَرْف وَإِذا ضممتهما فَاجْعَلْ النقطة إِلَى جَانب الْحَرْف وَإِذا كسرتهما فَاجْعَلْ النقطة فِي أَسْفَله فَإِن اتبعت شَيْئا من هَذِه الحركات غنة فانقط نقطتين، فابتدأ بالمصحف حَتَّى أَتَى علَى آخِره"([40])
’’حضرتِ امیر معاویہ نے والئ بصرہ زیاد بن ابی زیاد کو خط لکھ کر عبیداللہ بن زیاد کو بلا بھیجا پھر جب عبیداللہ آپؓ کے پاس پہنچا اورآپؓ نے اس سے بات چیت کی تو دیکھا کہ وہ اپنی کلام میں بہت ہی عربی غلطیاں کرتا ہے تو آپؓ نے اس کو اس کے والد کے پاس واپس بھیج دیا اور ساتھ ایک خط بھی بھیجا جس میں اس کو ملامت کیااور کہا کیا عبیداللہ جیسا لڑکا بھی ضائع کردیا۔ تو اس پر زیاد نے ابو الاسود الدؤلی ()کو بلا بھیجا اور کہا کہ غیر عربی لوگ بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور انہوں نے عربی زبان کو بہت بگاڑ دیا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کچھ ایسے اصول و رموز وضع کردیں جن کی بدولت عوام الناس اپنے کلام کی تصحیح کر سکیں اور کتاب اللہ کو صحیح عربی میں ادا کر سکیں ۔تو ابو الاسود نے انکار کر دیا بلکہ زیاد کی بات کا جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا، تو اس پر زیاد نے ایک آدمی کو بلایا اور اسے کہا کہ ابوالاسود کے راستے میں بیٹھ جانا اور جب وہ تیرے پاس سے گزرے تو تو جان بوجھ کہ قرآنِ کریم کی غلط تلاوت کرنا۔ چنانچہ اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور جب ابوالاسود()اس کے پاس سے گزرنے لگے تو اس نے بآوازِ بلند سورۃ التوبہ کی تیسری آیت پڑھی اور لفظِ ]وَرَسُوْلُهٗ [کی لام کو کسرہ کے ساتھ پڑھا۔ چنانچہ یہ بات ابوالاسود ()پر بہت گراں گزری اور فرمایا کہ اللہ جل جلالہ پاک و بلند ہے اس سے کہ وہ اپنے رسول سے اعلانِ برأت کرے۔ پھر فوراً زیاد کے پاس واپس گئے اور کہا کہ میں تمہارا مطالبہ مانتا ہوں اور اس سے اس کام کے لیے تیس آدمی مانگے تو زیاد نے تیس آدمی حاضر کر دیے ۔تو ابوالاسود نے ان میں سے دس آدمی منتخب کیے پھر ان میں سے اور کم کیے پھر ان میں سے اور کم کیے اسی طرح کم کرتے گئے یہاں تک کہ (قبیلہ)عبدالقیس کے ایک آدمی کو منتخب کیا اور اسے کہا کہ مصحف لو اور اس کی سیاہی سے مختلف ایک رنگ کی روشنائی لو ۔پس جب میں اپنے ہونٹ کھولوں تو حرف کے اوپر ایک نقطہ لگا دینا اور جب میں اپنے ہونٹوں کو گول کروں تو حرف کے (سامنے) ایک طرف ایک نقطہ لگا دینا اور جب میں اپنے ہونٹوں کو جھکاؤں توحرف کے نیچے ایک نقطہ لگا دینا۔ اور جب تنوین پڑھوں تو دو نقطے لگا دینا۔ چنانچہ اسی طرح مصحف کے شروع سے لے کر آخر تک (انہوں نے)اعراب لگادیے۔یہاں تک کہ پورے قرآنِ مجید پر ”نقاطِ شکل“ لگانے کا کام مکمل ہو گیا۔اس طرح یہ ایک مقدس کام انجام پایا۔کہا جاتا ہے کہ یہ نقط سرخ رنگ کی روشنائی سے لگائے گئے۔ ‘‘
جیسا کہ امام الدانی (ت444ھ)کاقول ہے:
"لَا أَسْتَجِيزُ النَّقْطَ بِالسَّوَادِ لِمَا فِيهِ مِنَ التَّغْيِيرِ لِصُورَةِ الرَّسْمِ، وَلَا أَسْتَجِيزُ جَمْعَ قِرَاءَاتٍ شَتَّى فِي مُصْحَفٍ وَاحِدٍ بِأَلْوَانٍ مُخْتَلِفَةٍ، لِأَنَّهُ مِنْ أَعْظَمِ التَّخْلِيطِ وَالتَّغْيِيرِ لِلْمَرْسُومِ، وَأَرَى أَنْ تَكُونَ الْحَرَكَاتُ وَالتَّنْوِينُ وَالتَّشْدِيدُ وَالسُّكُونُ وَالْمَدُّ بِالْحُمْرَةِ، وَالْهَمَزَاتِ بِالصُّفْرَةِ"([41])
’’میں سیاہی سے نقطے دینا جائز نہیں سمجھتا کیونکہ اس میں رسمِ مصحف کا تغیر ہوجاتا ہے اور ایسے ہی میں ایک مصحف میں مختلف رنگوں کی روشنائیوں سے متفرق قراءتوں کا جمع کر دینا بھی جائز نہیں سمجھتا ۔اس لیے کہ یہ نہایت حد سے بڑھی ہوئی تخلیط اور مرسوم کی بے حد تغییر ہے۔ہاں میری رائے یہ ضرور ہے کہ حرکتیں، تنوین، تشدید، سکون اورمد سرخ روشنائی کے ساتھ لگائے جائیں اور ہمزہ زردروشنائی کے ساتھ۔‘‘
امام ابوالاسود (ت69ھ)نے ابتداءً صرف حرکاتِ ثلاثہ اور تنوین کو ہی نقطوں سے ظاہر کیا۔( باقی علامات بعد میں ایجاد ہوئیں)۔ ([42]) کتابتِ مصاحف یا رسمِ عثمانی کے لیے علاماتِ ضبط مقرر کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔اور یہ علامات بھی الفاظ کی بنائی حرکات کے لیے نہیں بلکہ صرف اعرابی حرکات کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی گئیں۔اسی لیے اسے نقط الاعراب کہتے ہیں۔
تاریخِ ضبط القرآن
امام ابوالاسود(ت69ھ)کا یہ طریقہ بہت جلد کوفہ کے بعد بصرہ اور پھر مدینہ منورہ کے مصاحف میں استعمال ہونے لگا۔اگرچہ نقطوں کے لئے مختلف شکلیں اور مختلف جگہ بھی استعمال ہونے لگی ، مثلاً کوئی نقطے کو گول(•) بناتے اور اسے ’النقط المدور‘ بھی کہتے تھے۔بعض نقطے كو مربع شکل(۰)میں لکھتے تھے اور بعض اسے اندر سے خالی گول دائرہ(ۍ) ہی بنا دیتے تھے۔مکہ مکرمہ میں ضمہ کا نقطہ حرف کے بائیں طرف سامنے کی بجائے اوپر اورفتحہ کا نقطہ حرف کے اوپر کی بجائے اس سے پہلے دائیں طرف لگانے کا رواج ہو گیا۔([43])
امام ابوالاسود کےبعد اہلِ علم انہی کے وضع کردہ نقط الاعراب پر ہی عمل کرتے رہے، یہاں تک کہ خلافتِ عباسیہ کا دور آگیااور معروف جلیل القدر عالمِ دین امام خلیل بن احمد الفراہیدیعلمی افق پر نمودار ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے امام ابوالاسود کی وضع کردہ علامات میں مناسب تبدیلیاں کیں اور ان میں بعض خوبصورتیوں کا اضافہ بھی کیا۔
جیسا کہ امام الدانی(ت444ھ)نے ابوالعباس کے حوالے سے لکھا ہے:
"وَأخذ عَن أبي الْأسود مَيْمُون الأقرن وَأخذ عَن مَيْمُون الأقرن الْخَلِيل بن أَحْمد وَزَاد الْخَلِيل فِي ذَلِك فَجعل على الْحَرْف المشدد ثَلَاث شُبُهَات وَأَخذه من أول شَدِيد فَإِذا كَانَ خَفِيفا جعل عَلَيْهِ خاء وَأَخذه من أول خَفِيف" ([44])
’’ابوالاسودسے میمون الاقرننے سیکھا اور میمون الاقرنسے خلیل بن احمدنے سیکھا اور خلیل نے پھر اس میں یہ زیادتی کی کہ مشدد حرف پر شین کے سرے(-ّ ) کی علامت لگائی اور ساکن حرف پر خاء کا سرا (ﺣ ) علامت کے طور پر لگایا۔‘‘
امام الخلیل بن احمد الفراہیدی(ت170ھ)نے فتحہ کی علامت ، بچھا ہوا چھوٹا الف ( -َ ) مقرر کی، کیونکہ فتحہ میں اشباع کرنے سے الف پیدا ہوتا ہے۔ اورکسرہ کی علامت چھوٹی یاء( ﮯ ) مقرر کی (جس کی بدلی ہوئی موجودہ صورت یہ( -ِ ) ہے)،کیونکہ کسرہ میں اشباع کرنے سے یاء پیدا ہوتا ہے۔اور ضمہ کی علامت چھوٹی واؤ (-ُ ) مقرر کی کیونکہ ضمہ میں اشباع کرنے سے واؤ پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام الدانی(ت444ھ)نے بواسطہ محمد بن یزید، ابو الحسن بن کیسان کا قول نقل کیا ہے:
"الشكل الَّذِي فِي الْكتب من عمل الْخَلِيل وَهُوَ مَأْخُوذ من صور الْحُرُوف فالضمة وَاو صَغِيرَة الصُّورَة فِي أَعلَى الْحَرْف لِئَلَّا تَلْتَبِس بِالْوَاو الْمَكْتُوبَة والكسرة يَاء تَحت الْحَرْف والفتحة ألف مبطوحة فَوق الْحَرْف" ([45])
’’امام خلیلکے طریقہ کے مطابق کتب میں جو”شکل“ کااندازملتا ہے وہ حروف کی صورتوں سے ہی ماخوذ ہے پس ضمہ واؤ کی چھوٹی صورت ہےجو حرف کے اوپر اس لیے لکھا جاتا ہے تا کہ اصل واؤ مکتوبہ کے ساتھ ملتبس نہ ہو، اور کسرہ یاء کی مخفف صورت ہے جو حرف کے نیچے لکھا جاتا ہے اور فتحہ بچھا ہوا الف ہے جو حرف کے اوپر لکھا جاتا ہے۔‘‘
امام ابوالاسودالدؤلی(ت69ھ)کے طریقِ اعراب کو ’الشکل المدور‘ اور امام خلیل بن احمد الفراہیدی(ت170ھ)کے طریقِ اعراب کو’الشکل المستطیل‘کہتے ہیں۔ امام خلیل بن احمدکے دور سے لے کر اب تک معمولی اصلاح و تبدیلی کے ساتھ انہی علامات پر عمل ہو رہا ہے۔
نیز امام خلیل بن احمد ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے ہمزہ، تشدید، روم اور اشمام وغیرہ کے لیے علامات و قواعدوضع کیے۔([46])
نقط الحرکات(الاعراب) کی جگہ
یعنی کون سا اعراب حرف پر کس صورت میں لگایا جائے گا یعنی کس جگہ پر اوپر، نیچے ، سامنے یا درمیان میں؟ اس کے متعلق امام ابو عمرو الدانی(ت444ھ)نے ’المحکم‘ میں یوں وضاحت کی ہے:
"اعْلَم ان الحركات ثَلَاث فَتْحة وكسرة وضمة فموضع الفتحة من الْحَرْف أَعْلَاهُ لأن الْفَتْح مُسْتَعْل وَمَوْضِع الكسرة مِنْهُ أَسْفَله لأن الْكسر مستفل وَمَوْضِع الضمة مِنْهُ وَسطه أَو أمامه لأن الفتحة لماحصلت فِي أعلاه والكسرة فِي أَسْفَله لأجل استعلاء الْفَتْح وتسفل الْكسر بقى وَسطه فَصَارَ موضعا للضمة فإذا نقط قَوْله الْحَمد لله جعلت الفتحة نقطة بالحمراء فَوق الْحَاء وَجعلت الضمة نقطة بالحمراء فِي الدَّال أَوْ أمامها إِن شَاءَ الناقط وَجعلت الكسرة نقطة بالحمراء تَحت اللَّام وَالْهَاء وَكَذَلِكَ يفعل بِسَائِر الْحُرُوف المتحركة بالحركات الثَّلَاث سَوَاء كن إعرابا أَو بِنَاء اَوْ كن عوارض"([47])
’’ بے شک حرکات تین ہیں فتحہ، کسرہ، ضمہ۔ پس فتحہ کا مقام حرف کے اوپر ہے اس کی بلندی کی وجہ سے اور کسرہ کا مقام حرف کی نیچے ہے اس کی پستی کی وجہ سے اور ضمہ کا مقام حرف کے درمیان میں یا اس کے سامنے ہے اس لیے کہ جب بلندی فتحہ کو اور پستی کسرہ کو مل گئی تو باقی وسط بچا پس وہ ضمہ کی جگہ بن گیا۔ پس جب ”الحمد لله“ کے اعراب لگائے جائیں تو فتحہ کا نقطہ سرخ روشنائی سے حاء کے اوپر لگایا جائے اور ضمہ کا نقطہ سرخ روشنائی سے دال کے اندر یا اگر نقطہ لگانے والا چاہے تو اس کے سامنے لگا دے اور کسرہ کا نقطہ سرخ روشنائی سے لام اور ھاء کے نیچے لگا دیا جائے۔ اور اسی طرح تمام متحرک حروف کو حرکاتِ ثلاثہ دی جائیں، خواہ وہ اعرابی حالت میں ہوں یا حقیقی یا کسی عامل کے سبب بدلی ہوئی صورت میں ہوں،سب یکساں ہیں۔‘‘
نقط الاعجام
نقط الاعجام سے مراد وہ علامات ہیں جو رسماً حروف کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں ([48])تا کہ معجم حروف مہمل حروف کے ساتھ ملتبس نہ ہوں۔
آسان الفاظ میں نقط الاعجام سے مراد وہ نشان ہیں جنہیں ہم حروف کے نقطوں کے نام سے شناخت کرتے ہیں۔پس نقطوں والے حروف کو معجم حروف کہتے ہیں اور بغیر نقطوں کے حروف کو مہمل حروف کہا جاتا ہے۔
معجم حروف کی تعداد پندرہ ہے،ایک قول کے مطابق چودہ ہے۔([49])
ب، ت، ث، ج، خ، ذ، ز، ش، ض، ظ، غ، ف، ق، ن،ي
مہمل حروف کی تعداد تیرہ ہے، ایک قول کے مطابق چودہ ہے۔([50])
ا، ح، د، ر، س، ص، ط، ع، ک، ل، م، و، ھ،(ی)
مہمل و معجم حروف کے چودہ چودہ والے قول کے مطابق ابنِ منظور الافریقی (ت711ھ)نے ابوالعباس احمد البونیکا بڑا دلچسپ قول نقل کیا ہے ،لکھتے ہیں:
"منَازِل الْقَمَر ثَمَانِيَة وَعِشْرُونَ مِنْهَا أربعة عشر فَوق الأرض، وَمِنْهَا أربعة عشر تَحت الأرض.قَالَ: وَكَذَلِكَ الْحُرُوف: مِنْهَا أربعة عشر مُهْملَة بِغَيْرنقط، وأربعة عشر مُعْجمَة بنقط، فَمَا هُوَ مِنْهَا غيرمنقوط،فَهُوَ أشبه بمنازل السُّعُود، وَمَا هُوَ مِنْهَا منقوط، فَهُوَ منَازِل النحوس والممتزجات، وَمَا كَانَ مِنْهَا لَهُ نقطة وَاحِدَة، فَهُوَ أقْربْ إلى السُّعُود، وَمَا هُوَ بنقطتين، فَهُوَ متوسط فِي النحوس، فَهُوَ الممتزج، وَمَا هُوَ بِثَلَاث نقط، فَهُوَ عَام النحوس." ([51])
’’چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں ان میں سے چودہ زمین کے اوپر ہیں اور چودہ زمین کے نیچے ہیں۔کہا اسی طرح حروف (حروفِ تہجی ) ہیں۔([52])ان میں سے چودہ مہمل بغیر نقطے کے ہیں، اور چودہ معجم ہیں نقطے کے ساتھ، پس جو نقطے کے بغیر ہیں وہ بلند منازل کی مانند ہیں، اور جو ان میں سے نقطے والے ہیں وہ پست منازل کی مانند ہیں اور ملے جلے ہیں، جس کا ایک نقطہ ہو وہ بلندی کے زیادہ قریب ہے اور جس کے دو نقطے ہوں وہ پستی کے درمیان ہے، وہ ملا جلا ہے، اور جس حرف کے تین نقطے ہوں وہ مطلق پست ہے۔‘‘
عربی زبان کی ابجد بنیادی طور پر اور تعلیمِ کتابت کی حد تک صرف اٹھارہ حروف پر مشتمل تھی۔ بلکہ متصل لکھنے کی صورت میں حروف کی یہ بنیادی شکلیں صرف پندرہ ہی رہ جاتی تھیں۔ حروف کی یہی اٹھارہ یا پندرہ صورتیں اٹھائیس آوازوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔کیونکہ ان میں سے اکثر حروف کی ایک سے زیادہ آوازیں تھیں۔([53])مثلاً ب، ت، اور ث، کے لیے ایک ہی حرف ( ٮ) استعمال ہوتا تھا۔اور ج، ح اور خ کے لیے ایک ہی لفظ (ح)استعمال ہوتا تھا۔کیونکہ ان پر نقطے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ایک ہی شکل بنتی ہے۔ بلکہ بعض حرفی رموز تو پانچ آوازوں تک کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ مثلاً ایک دندانہ (ﯨ) ہی ب، ت، ث، ن اور ی کے لیے استعمال ہوتاتھا۔صرف چھ حروف، ‘ا، ک، ل، م، و ، ہ ’ اپنی صرف ایک آواز رکھتے تھے۔([54])
واضع نقط الاعجام
نقط الاعجام کے واضع کے بارے میں بھی اہلِ علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق نقط الاعجام کےواضع نصر بن عاصم اللیثی(ت89ھ)اور یحیٰ بن یعمر(ت129ھ)ہیں جنہوں نے خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان کے دور میں والئ عراق حجاج بن یوسف الثقفی (ت95ھ)کے حکم پر یہ گرانقدر خدمت سر انجام دی۔
جیسا کہ علامہ شمس الدین الذہبی (ت748ھ)نے بیان کیا ہے:
"فإن أرجح الأراء في أن الواضع له: نصر بن عاصم، يحيى بن يعمر. وذلك صيانة للقرآن من الخطأ الذي تفشى على ألسنة الكثيرين الداخلين في الإسلام. فخيف على القرآن أن تمتد إليه أخطاء المخطئين في النطق العربي. الأمر الذي حمل أمير المؤمنين عبد الملك بن مروان أن يعمل جاهدا على إزالة هذا العبث فأمر الحجاج بن يوسف وكان واليا على العراق أن يزيل أسباب هذا التحریف عن القرآن. فكلف الحجاج اثنين من علماء المسلمين الذين لهم قدم راسخة من فنون العربية وأسرارها بوضع علامات تميز الحروف من بعضها موضعا النقط المسمى بنقط الإعجام." ([55])
’’پس راجح رائے یہ ہے کہ نقط الاعجام کے واضع امام نصر بن عاصماورامام یحیٰ بن یعمرہیں۔ اور یہ (نقط الاعجام) اس لیے وضع کیے گئے تا کہ قرآنِ کریم کو ان غلطیوں سے محفوظ رکھا جا سکے جو کثرت سے (غیر عربوں کے) اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زبانوں پر ظاہر ہونے لگی تھیں۔ پھر یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں عربی زبان کی یہ غلطیاں لوگ قرآنِ کریم میں بھی نہ کرنے لگیں، تو خلیفۂ وقت عبدالملک بن مروان کو اس خوف نے بڑھتی ہوئی تحریف کے ازالے کی کوشش پر ابھارا تو عبدالملک بن مروان نے اس وقت کے والئی عراق حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ قرآنِ کریم سے اس تحریف کے اسباب زائل کیےجائیں۔ پھر حجاج بن یوسف نے علمائے مسلمین میں سے دو ایسے قرّاء و شیخَین کو جو فنونِ عربی اور اس کے اسرار و رموز میں رسوخ رکھتے تھے، کو یہ ذمہ داری سونپی کہ حروف میں تمیز کرنے کے لیے علامات وضع کریں تو اس پر ان دونوں علماء (نصر بن عاصماور یحیٰ بن یعمر) نے قرآنِ کریم پر نقطے لگانے کی سعادت حاصل کی جس کو ’نقط الاعجام‘ کا نام دیا گیا۔
سببِ تدوینِ نقط الاعجام
عرب کے لوگ اپنی فصیح اللسانی کی وجہ سےمختلف حروف کی مطلوبہ آواز کو پہچان کر پڑھ سکتے تھے۔ مثلاً لفظِ ’حرب‘ کو حسبِ موقع حرب (جنگ)، حرث (کھیتی)، جرب (خارش)، حزب (گروہ) یا خرب (ویرانہ) اسی طرح بآسانی پڑھ لیتے تھے ۔جیسے ایک انگریزی دان حسبِ موقع G ،H ،S ،C کی درست آواز جان لیتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے براہِ راست نبی کریمﷺ سے یا ان صحابہ کرام سے قرآن مجید سیکھا تھا جنہوں نے براہِ راست آپﷺ سے سیکھا تھا۔
ابوالاسودکی اصلاح کے باوجودابھی تک یکساں صورت رکھنے والے حروف کی باہمی تمیز کے لیے کوئی تحریری علامت نہیں تھی۔ ان کی درست قراءت کا انحصار تلقّی اور سماع پر ہی تھا۔
جب فتوحاتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوگیا اور اسلام میں داخل ہونے والے عجمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تو نتیجتاً لغتِ عرب میں تحریف و بگاڑ بھی زیادہ اور عام ہونے لگا اور خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں یہ تحریف قرآنِ مجید کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔اورپھر عبد الملک بن مروان اموی کے دورِ حکومت میں عربی کو دفتری زبان بنا دیا گیا تو نہ صرف قرآنِ کریم بلکہ عام عربی تحریر کو بھی اس التباس سے بچانا ضروری محسوس ہوا۔ اسی اندیشے کے پیشِ نظر خلیفۂ وقت عبد الملک بن مرواننے والئ عراق حجاج بن یوسف الثقفی کو حکم دیا کہ وہ اس تحریف و بگاڑ کو قرآنِ مجید کی حدود تک پہنچنے سےدور رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کرے۔چنانچہ حجاج بن یوسف نے اس عظیم الشان خدمت کی انجام دہی کے لیے عراق کے دو معروف اہلِ علم جوامام ابوالاسود ہی کےشاگرد تھے امام نصر بن عاصم اور امام یحیٰ بن یعمر کو منتخب کیا۔ یہ دونوں علماء کرام فنونِ قراءات اور علومِ لغتِ عرب میں اپنے وقت کے امام تھے۔ چنانچہ ان دونوں ائمہ کرام نے مل کر عربی زبان کے اب تک رائج اٹھارہ حروف کو ان کی آوازوں کے مطابق چھوٹے چھوٹے نقطے لگا کرمشابہ حروف کو باہم متمیز کر کے اٹھائیس حروف میں بدل دیا۔
واضح رہے کہ ان اٹھائیس حروف کے نام ان کی آوازوں کے لحاظ سے الگ الگ پہلے سے موجود تھے۔([56]) صرف ان کی کتابت اٹھارہ شکلوں میں تھی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
چنانچہ ابوالعباس البرمکی (ت681ھ)نے ابو احمد العسکری (ت764ھ)کے حوالے سے لکھا ہے:
"أن الناس غبروا يقرؤون في مصحف عثمان بن عفان رضي الله عنه نيفاً واربعين سنة إلى أيام عبد الملك بن مروان، ثم كثر التصحيف وانتشر بالعراق، ففزع الحجاج بن يوسف الثقفي إلى كتابه وسألهم أن يضعوا لهذه الحروف المشتبهة علامات، فيقال: إن نصر بن عاصم قام بذلك فوضع النقط أفراداً وأزواجاً وخالف بين أماكنها، فغبر الناس بذلك زماناً لا يكتبون إلا منقوطاً، فكان مع استعمال النقط أيضاً يقع التصحيف، فأحدثوا الإعجام، فكانوا يتبعون النقط الإعجام." ([57])
’’بے شک لوگ چالیس سال سے زیادہ عرصہ مصحفِ عثمان بن عفّانہی پڑھتے رہے یہاں تک کہ عبدالملک بن مروان کا دورِ خلافت آگیا۔ پھر بہت زیادہ غلطیاں ہونے لگیں اور عراق میں پھیل گئیں تو حجاج بن يوسف کو قرآنِ کریم کے متعلق خدشہ ہوا تو اس نے لوگوں (اکابر علماء و قرّاءکرام) سے پوچھا کہ کون مشتبہ حروف (میں تمیز) کی علامات وضع کرے گا تو کہا جاتا ہے کہ نصر بن عاصم اللیثی اس کام کے لیے کھڑے ہوئے اور ایک ایک اور دو دو نقطے اور ان کے لیے حروف میں مختلف جگہیں مقرر کیں۔ پھر بہت عرصے تک لوگ منقوط (نقطے دار) کتابت کرتے رہے تو باوجود نقطوں کے استعمال کے غلطیاں ہوتی تھیں پھر انہوں نے اعجام وضع کیے پھر وہ نقط الاعجام کی اتباع کرنے لگے۔‘‘
اصوات کے لیےامام ابوالاسودکے رائج کردہ نقطوں کے بر عکس اعجام کے نقطے اسی روشنائی سے لگانے تجویز ہوئے جو روشنائی اصل متن کے لکھنے میں استعمال کی گئی ہو۔ تا کہ نقط الاعراب اور نقط الاعجام آپس میں ملتبس نہ ہوں۔ان دونوں قسموں کے نقطوں میں فرق کرنے کے لیے الگ الگ اصطلاحات تھیں۔ ابوالاسود کے طریقے کو نقط الاعراب، نقط الحرکات یا نقط الشکل کہتے تھے اور دوسرے طریقے یعنی نصر بن عاصماور یحیٰ بن یعمرکے طریقے کو نقط الاعجام کہتے ہیں۔
امام ابو عمرو الدانی(ت444ھ)نے اپنی کتاب ’المحکم فی نقط المصاحف‘ میں حروف کی ترتیب اور مختلف حروف کے لیے نقطوں کی مختلف تعداد (ایک، دو یا تین) اور ان کی جگہیں (اوپر یا نیچے) مقرر کرنے کی دلچسپ وجوہات بیان کی ہیں۔جن کی تفصیل یہاں غیر ضروری ہے ۔([58])
نوٹ
مذکورہ تمام بحث یہ محسوس ہوتا ہے کہ نقط الاعراب(ابوالاسود(ت69ھ)کا طریقِ ضبط)، نقط الاعجام (نصر بن عاصم(ت89ھ)اور یحیٰ بن یعمر(ت129ھ) کا طریقِ نقط)سے مقدم ہیں کیونکہ زیاد بن ابی زیاد اور امام ابوالاسودکا دور حجاج بن یوسف اور نصر بن عاصمو یحییٰ بن یعمرکے دور سے مقدم ہے۔ اور الشکل (خلیل بن احمد الفراہیدی(ت170ھ)کا طریقِ اعراب) ان دونوں قسم کے نقاط سے متاخر ہے ،کیونکہ خلیل بن احمدکا دور ان تینوں ائمہ کرام(ابوالاسود، نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر) سے متاخر ہے۔اس سےنقط الاعراب کے واضع کے متعلق پایا جانے والا ابہام بھی کافی حد تک دور ہوجاتا ہے ۔بلکہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نقط الاعراب کے واضع امام ابوالاسودہیں اور نقط الاعجام کے واضع امام یحییٰ بن یعمراور امام نصر بن عاصمہیں اور الشکل کے واضع امام خلیل بن احمدہیں۔
ترتیبِ حروف میں اختلاف
الف سے لے کر راء، زاء تک کی ترتیب میں تو تمام سلف و خلف اوراہلِ مشرق و مغرب کا اتفاق ہے۔ اس سے آگے کی ترتیب میں اختلاف ہے۔
اہلِ مشرق کی ترتیب
اہلِ مشرق تو اسی طرح راء، زاء کے بعد سین، شین اور باقی ساری ترتیب یہی ہے، جیسے کہ ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔
مثلاً: ا، ب، ت، ث، ج، ح، خ، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، ک، ل، م، ن، و، ہ، ی اور کچھ ہ،و بھی لکھتے ہیں یعنی ہ پہلے اور واو بعدمیں۔اوراس ترتیب کی وجوہات کی تفصیل بھی امام الدانی (ت444ھ)نے ’المحکم‘ میں بیان کی ہے۔([59])
اہلِ مغرب کی ترتیب
اہلِ مغرب الف سے لے کر راء، زاء تک کی ترتیب میں تواہلِ مشرق سے متفق ہیں لیکن اس سے آگے اختلاف کرتے ہیں ان کے ہاں حروف کی ترتیب اس طرح ہے۔
ا، ب، ت، ث، ج، ح، خ، د، ذ، ر، ز، ط، ظ،ک، ل، م، ن، ص، ض، ع، غ، ف، ق، س، ش، ھ، و،ی۔([60])
امام ابو عمرو الدانینے ان کے اس اختلافِ ترتیب اور اس کی وجوہات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اختلافِ نقاط
ترتیبِ حروف میں اختلاف کی طرح فاء اور قاف کے نقطوں کے مقام میں بھی اختلاف ہے۔ جیسا کہ امام الدانی (ت444ھ)نے لکھاہے:
"أهل الْمشرق ينقطون الْفَاء بِوَاحِدَة من فَوْقهَا وَالْقَاف بِاثْنَيْنِ من فَوْقهَا وَأهل الْمغرب ينقطون الْفَاء بِوَاحِدَة من تحتهَا وَالْقَاف بِوَاحِدَة من فَوْقهَا وَكلهمْ أَرَادَ الْفرق بَينهمَا بذلك"([61])
’’اہلِ مشرق فاء کے اوپر ایک نقطہ لگاتے ہیں اور قاف کے اوپر دو نقطے لگاتے ہیں جبکہ اہلِ مغرب فاء کے نیچے ایک نقطہ لگاتے ہیں اور قاف کے اوپر ایک نقطہ لگاتے ہیں ۔ مقصد سب کا فاء اور قاف کے درمیان فرق کرنا ہی ہے۔‘‘
اہلِ مغرب کے اختلافی حروف کی مثالیں
اہلِ مغرب فاء کے نیچے نقطہ اور قاف کے اوپر ایک نقطہ لگاتے ہیں ۔
جیسے فاء کی مثالیں:([62])([63])
قاف کی مثالیں
File:Picture 5.png([64])File:Picture 6.png([65])
جبکہ ان دونوں حروف کو کلمہ کے آخر میں واقع ہونے کی صورت میں نقطہ سے خالی رکھتے ہیں، اور اسی طرح نون کوبھی کلمہ کے آخر میں آنے کی صورت میں نقطہ سے خالی رکھتے ہیں۔
جیسے فاء کی آخر میں آنے کی صورت میں مثالیں:
File:Picture 7.png([66])([67])
قاف کی آخر کلمہ میں آنے کی صورت میں مثالیں
File:Picture 10.png([68])File:Picture 11.png([69])
نون کی آخر کلمہ میں آنے کی صورت میں مثال
ارتقاءِ ضبط القرآن
عباسی دور کی تقریباً ایک صدی تک کتابتِ مصاحف کا یہی طریقہ رائج رہا ۔یعنی حرکات بذریعہ رنگ دار نقاط، اور حروف کے نقاط ان کےمقابلے میں ذرا چھوٹے لیکن کتابتِ متن والی روشنائی سے لکھنا۔ اس کے باوجود بھی غلطی کا امکان ختم نہیں ہوا۔ کیونکہ نقط الاعراب اور نقط الاعجام ایک ہی صورت کے تھے۔ بس اتنا فرق تھا کہ نقط الاعجام سیاہ روشنائی سے لگائے جاتے تو وہ حروف ہی کا حصّہ لگتے تھے جبکہ نقط الاعراب حروف کی روشنائی کے سوا دوسری روشنائی سے لگائے جاتے اور سائز میں نقط الاعجام قدرے چھوٹے ہوتے ۔اہلِ عراق نقط الاعراب سرخ روشنائی سے لگاتے ،جبکہ اہلِ مدینہ حرکات سرخ روشنائی سے اور ہمزات زرد روشنائی سے لگاتے ۔
اہلِ عراق کے اعراب کی مثال:File:Picture 8.png([71])
اہلِ مدینہ کے اعراب کی مثال:File:Picture 13.png([72])
اور اہلِ کوفہ و بصرہ کی کچھ جماعتیں شاذ قراءات کو بھی مصاحف میں شامل کرتے تھے اور شاذ قراءات کے نقاط سبز روشنائی سے لگاتے تھے ، اور کبھی سبز روشنائی مشہور صحیح قراءات کے لیے استعمال کرتے اور سرخ روشنائی شاذ و متروک قراءات کے لیے۔ تاہم دو دو قسم کے نقطے لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کے لیے مشقت کا سبب بنتے تھے، ویسے بھی دو دو قسم کے نقاط اور مختلف قسم کی روشنائیوں کے استعمال کی وجہ سے کاتب کو بڑی مشقت کا سامنا ہوتا۔ کبھی مختلف روشنائیاں مطلوبہ مقدار میں میسر نہ ہوتیں تو کاتب کو مجبوراً موجودہ روشنائی سے ہی اعجام و اعراب کے نقط لگانے پڑتے، تو ایسی صورت میں نقط الاعراب اور نقط الاعجام آپس میں ملتبس ہو جاتے پھر غلطیاں پیدا ہوتیں۔ اس لیے آہستہ آہستہ وقت کی ضرورت کے مطابق اعراب کے نقطے محض قلم کے قط کے برابر ہلکی ترچھی لکیروں سے ظاہر کیے جانے لگے۔البتہ جب عربی خط میں تحسین و جمال کے پہلو ظاہر ہوئے اور مختلف حسین و جمیل اقلام (اقسامِ خط) ایجاد ہوئے تو نقط الاعجام کے لیے بھی تحریر کے حسن و جمال اور حروف اور حروف کے ہندسی تناسب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مناسب قط اور نقاط کی وضع و شکل کے لیے بھی خوشخطی کے قواعد مقرر کر لیےگئے۔
اسی اثناء میں ابو الاسود کے تلامذہ و متبعین نے نقط الاعراب کو وسعت دیتے ہوئے کچھ مزید علامات وضع کیں۔ مثلاً سکون کے لیےباریک قلم سے چھوٹی سی افقی(سرخ) لکیر حرف کے اوپر یا نیچے مگر اس سے الگ لگانے لگے۔([73])
نقاط کی مشابہت سے پیدا ہونے والے التباس کے امکان کو کم کرنے کے لیے اور کتابت میں بیک وقت متعدد روشنائیوں کے استعمال کی مشقت سے بچنے کے لیے مزید اصلاح کی ضرورت محسوس ہونےلگی۔([74])
چنانچہ مشہور نحوی اور واضع علم العروض خلیل بن احمد الفراہیدی (ت170ھ) ([75])نے وقت کی اس ضرورت کونئی علاماتِ ضبط ایجاد کر کے پورا کیا۔ اور یہی وہ علاماتِ ضبط ہیں جو کم و بیش آج بھی ہر جگہ نہ صرف کتابتِ مصاحف میں بلکہ ہر مشکول عربی عبارت کے لیےاستعمال ہوتی ہیں۔
امام الخلیل نے نقط الاعجام کو اسی طرح متن کی سیاہی سے لکھنا برقرار رکھا۔ البتہ الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا۔یعنی فتحہ کے لیے حرف کے اوپر ایک ترچھی لکیر(-َ)، کسرہ کے لیے حرف کے نیچے ترچھی لکیر (-ِ)، اور ضمہ کے لیے حرف کے اوپر ایک مخفف سی واؤ کی شکل (-ُ) اورتنوین کے لیے انہی حرکات کو ایک کی بجائے دو دوحرکات (-ً -ٍ -ٌ) مقرر کیا۔ان حرکاتِ ثلاثہ کے علاوہ امام فراہیدینے پانچ نئی علاماتِ ضبط ایجاد کیں یا ان کے لیے حرکاتِ ثلاثہ کی طرح ایک نئی صورت وضع کی۔([76])
امام فراہیدیکی وضع کردہ علامات در اصل حرکت کی صوتی مناسبت سے کسی حرف کی مخفف شکل تھیں گویا ہر علامتِ ضبط اپنے مدلول پر دلالت کرتی تھی۔
جیسا کہ امام الدانی (ت444ھ)رقمطراز ہیں:
"الشكل الَّذِي فِي الْكتب من عمل الْخَلِيل وَهُوَ مَأْخُوذ من صور الْحُرُوف فالضمة وَاو صَغِيرَة الصُّورَة فِي أَعلَى الْحَرْف لِئَلَّا تَلْتَبِس بِالْوَاو الْمَكْتُوبَة والكسرة يَاء تَحت الْحَرْف والفتحة ألف مبطوحة فَوق الْحَرْف" ([77])
’’امام الخلیلکے طریقہ کے مطابق کتب میں جو ”شکل“ کا انداز ملتا ہے وہ حروف کی صورتوں سے ہی ماخوذ ہے پس ضمہ واؤ کی چھوٹی صورت ہےجو حرف کے اوپر اس لیے لکھا جاتا ہے تا کہ اصل واؤ مکتوبہ کے ساتھ ملتبس نہ ہو، اور کسرہ یاء کی مخفف صورت ہے جو حرف کے نیچے لکھا جاتا ہے اور فتحہ بچھا ہوا الف ہے جو حرف کے اوپر لکھا جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح امام فراہیدینے سکون کے لیے حرفِ ساکن کے اوپر ’ہ ‘یا ’ح‘ کی علامت(-ْ ) وضع کی جو لفظِ جزم کے ’ج‘ یا ’م‘ کے سرے کا مخفف ہے۔تشدیدکے لیے آپ نے حرفِ مشدد کے اوپر(-ّ) کی علامت لگانا تجویز کیا جو ’ ش‘ کے سرے سے ماخوذ ہے۔ مدہ کے لیے حرفِ ممدود کے اوپر ’آ ‘ کی علامت تجویز کی جو دراصل لفظِ مد ہی کی دوسری یا مخفف شکل ہے۔ اسی طرح ہمزۃ الوصل، ہمزۃ القطع اور روم و اشمام کے لیے بھی علامات وضع کیں۔
امام فراہیدیکی ایجاد کردہ علامات کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں کتابت کے لیے دو قسم کی روشنائی استعمال کرنا ضروری نہیں تھا بلکہ متنِ قرآن پاک اور علاماتِ ضبط و نقاط سب ایک ہی روشنائی سے لکھے جانے لگے۔ اس سے کتابت میں مشقت اور قراءت میں التباس کے امکانات کم سے کم تر ہو گئے۔اس لیے یہ طریقہ بہت جلد مقبول ہو گیا۔ آج دنیا بھر میں کتابتِ مصاحف کا یہی طریقہ رائج ہے۔البتہ ضرورتاً اور بعض جگہ رواجاً اس میں مزید اصلاحات و ترمیمات کا عمل جاری رہا۔امام الخليل بن احمد الفراہیدیکی وضع کردہ علاماتِ ضبط،کتابتِ مصاحف میں علاماتِ ضبط کی اصلاح کی یہ تیسری کوشش تھی جو ایک بڑے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
جب امام فراہیدینے دوسری صدی ہجری کے اواخر میں علاماتِ ضبط کا یہ نیا طریقہ وضع کیا تو اس وقت تک ابوالاسود کا ایجاد کردہ طریقۂ نقط کتابتِ مصاحف کے لیے پوری دنیا میں استعمال ہو رہا تھا بلکہ اس میں مزید اصلاحات اور نئی نئی علامات کی ایجاد سے یہ طریقہ زیادہ مکمل اور قرآنِ کریم کی قراءت اور تجوید کی بہت سی ضرورتوں اور نطقی و صوتی تقاضوں کے لیے کافی و مکتفی بن چکا تھا۔
اس لیے شروع میں کافی عرصہ تک لوگ کتابتِ مصاحف کے لئے خلیلکے طریقے کی بجائے ابوالاسودکے طریقِ نقط کا استعمال ہی جائز سمجھتے تھے۔ الخلیلکا طریقہ کافی عرصہ تک صرف کتبِ شعر اور دیگر غیر قرآنی عربی عبارات کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا، بلکہ اسی وجہ سے اور شکل المصحف کے طریقۂ نقط سے ممتاز کرنے کے لیے اسے شکل الشعربھی کہتے تھے۔ دونوں قسم کے شکل کی صوری خصوصیات کی بناء پر ابو الاسودوالے طریقے کو الشکل المدور اور الخلیل کے طریقے کو الشکل المستطیل بھی کہتے تھے۔
مغرب اور افریقی ممالک میں تو کتابتِ مصاحف کے لیے ابوالاسود کے طریقِ نقط کو ایک قسم کی تقدیس کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔
تعلیمی اور تدریسی اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر الخلیلکا طریقہ یقیناً زیادہ بہتر تھا اور ایک ہی قسم کی روشنائی کے استعمال کے سبب اس میں سہولت بھی تھی اس لیے بہت جلد یہ طریقہ کتابتِ مصاحف میں بھی مستعمل ہونے لگا۔ عالمِ اسلام کے مشرقی حصے میں تو اس نے مکمل طور پر ابوالاسود اور ان کے متبعین کے طریقے کی جگہ لے لی ۔ خصوصاً خطِ نسخ کی ایجاد اور کتابتِ مصاحف میں اس کے استعمال کے بعد سے تو الخلیل کے طریقے کو ہی قبولِ عام حاصل ہوا۔ علاماتِ ضبط بذریعہ نقاط کا طریقہ خطِ کوفی کے لیے تو زیادہ موزوں تھا، اس لیے کہ خطِ کوفی اکثر و بیشترجلی قلم سے لکھا جاتا تھا جبکہ خطِ نسخ میں عموماً نسبتاً باریک قلم استعمال ہوتا تھا اور اس کے لیے نقط بذریعہ حرکات کا طریقہ ہی زیادہ موزوں تھا۔اور شاید یہ بھی ایک وجہ تھی آہستہ آہستہ اس کا رواج بلادِ مغرب میں بھی ہوگیا۔
حوالہ جات
- ↑ ()الشعراء،: 192-195
- ↑ ()بخاری،محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری: كتاب فضائل القرآن، باب خيركم من تعلم القرآن و علمه (رقم: 5027)۔
- ↑ () ابن تیمیہ،مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ( 3 ؍401،402)۔
- ↑ () طبرانی،معجم الأوسط للطبراني، باب من اسمه محمد: (7 ؍307 ، رقم:7574)۔
- ↑ () سیوطی،جامع الأحاديث للسيوطي (27 :437 ، رقم:30427)۔
- ↑ () العين(7 :23)؛ تهذيب اللغة(11 ؍339)۔
- ↑ () التعريفات(ص:137)۔
- ↑ () لسان العرب(7 ؍340)۔
- ↑ ()عسقلانی،ابن حجر،نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر للعسقلاني(4 ؍722)۔
- ↑ () ابن حجر،نخبة الفكر(4؍722)۔
- ↑ () قاسم بن سلام ،الناسخ والمنسوخ (المقدمه) (ص:84)۔
- ↑ () الصحاح(3 ؍1165)۔
- ↑ ()مجمل اللغة(ص:822)۔
- ↑ ()لسان العرب( 7 ؍417)۔
- ↑ () أيضاً ۔
- ↑ ()شمس العلوم(7؍4496)(اس کتاب کےدارالفکرالمعاصروالےایڈیشن کی11 جلدیں ہیں تمام جلدوں کےصفحات مسلسل ہیں)۔
- ↑ ()خوارزمی،المغرب في ترتيب المعرب للخوارزمي(ص:518)؛ التعريفات(ص:31)۔
- ↑ () المحكم (مقدمة المحقق)(ص:26)۔
- ↑ () لسان العرب( 11 ؍358) ؛ تهذيب اللغة(10؍17)۔
- ↑ () المحكم(ص:22)۔
- ↑ () المحكم (مقدمة المحقق) (ص:26)۔
- ↑ ()تهذيب اللغة (10؍17)۔
- ↑ ()لسان العرب( 11؍358)۔
- ↑ ()النووی،یحییٰ بن شرف الدین ،التبيان في آداب حملة القرآن للنووي(ص:189)۔
- ↑ ()التبيان ( ص:189)۔
- ↑ ()مجموع فتاوىٰ ابنِ تیمیہ (12؍586)۔
- ↑ ()مجموع فتاوىٰ ابنِ تیمیہ(12؍586)۔
- ↑ ()الاتقان(4؍185)۔
- ↑ ()الاتقان( 4؍185)۔
- ↑ ()احمد بن حنبل،مسند احمد، ت شاكر، باب مسند عثمان بن عفّان(1 ؍400)۔
- ↑ ()المحكم( ص:2)۔
- ↑ ()ايضاً ۔
- ↑ ()المحكم(ص:3)۔
- ↑ ()تصحيح التصحيف و تحرير التحريف للصفدي(ص:14)۔
- ↑ ()ايضاً( ص:4)۔
- ↑ ()ابن عساکر،تاريخِ دمشق(25؍176)۔
- ↑ ()الفهرست (ص:61)۔
- ↑ ()عفيف الدين اليافعي ،مرأة الجنان وعبرة اليقظان(1 ؍162)۔
- ↑ ()التوبہ: 3۔
- ↑ ()المحكم(ص:3) ؛ تاريخِ دمشق (25؍193)۔
- ↑ ()الاتقان(4 ؍185) ؛ النقط(ص:130)۔
- ↑ ()الاتقان(4 ؍184)۔
- ↑ () المحكم(ص:9)۔
- ↑ () ايضاً( ص:7)۔
- ↑ () ايضاً ۔
- ↑ ()النقط(ص:129)۔
- ↑ ()المحكم(ص:42 ) ؛ النقط(ص:131)۔
- ↑ ()معرفة القرّاء الكبار على الطبقات والأعصار للذهبي(ص:39)۔
- ↑ ()لسان العرب(1؍15)۔
- ↑ () ايضاً ۔
- ↑ () ايضاً ۔
- ↑ ()الفهرست(ص:21)۔
- ↑ ()المحكم(ص:36)۔
- ↑ () ايضاً ۔
- ↑ ()الذهبي،محمد بن احمد بن عثمان،معرفة القرّاء، مركز بحوث الإسلامية، استنبول، 1995ء( ص:39)۔
- ↑ ()المحكم (ص:26)۔
- ↑ ()أبي العباس البرمكي ،وفيات الأعيان(2 ؍32) ؛ الوافي بالوفيات للصفدي(11 ؍239)۔
- ↑ ()المحكم (ص28،29)۔
- ↑ ()المحكم(ص:31،32)۔
- ↑ ()المحكم(ص:31،32)۔
- ↑ ()ايضاً (ص:37)۔
- ↑ () آل عمران: 152
- ↑ () النساء: 9
- ↑ () المائدة : 29
- ↑ () ہود: 10
- ↑ () الانفال: 67
- ↑ () يوسف: 34
- ↑ () ص: 17
- ↑ () الذاريات: 5
- ↑ ()التوبہ: 113
- ↑ ()الفاتحہ: 2
- ↑ () البقرہ: 13
- ↑ () المحكم (مقدمة المحقق)(ص:39)۔
- ↑ () تصحيح التصحيف للصفدي(ص:13)۔
- ↑ () خلیل بن احمد کا پورا نام ابو عبد الرحمٰن الخلیل بن احمد الفراہیدی البصری ہے ۔
- ↑ () النقط(ص:129)۔
- ↑ () المحكم(ص:7)۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |