3
1
2019
1682060060947_1266
39-72
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/138/46
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/138
اس كائنات مىں بلند ترىن مقام انسان كا ہے اور انسان كا مقام و مرتبہ علمى و عملى صفات ہىں، انہى صفات سے انسان كا معاشرتى مقام اور اصلاح معاشرہ كے لىے كاوشوں كا اندازہ ہوتا ہے، امت مسلمہ كى تارىخ مصلحىن، مجددىن، علماء اور صلحاء سے بھرپور ہے عصر حاضر كے بلند پاىہ علماء مىں اىك نام علامہ ڈاكٹر محمود احمدغازى رحمہ اللہ كا ہے جن كى زندگى تعلىم و تعلم اور بہت سے اداروں كى سربراہى سے معمور ہے۔ اس مختصر تحقىقى مقالہ مىں ان كى خدمات حدىث پىش كرنے كى سعى كى جائے گى۔
فرمان بارى تعالىٰ ہے:
﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء﴾([1]) ’’اللہ سے ڈرنے والے علماء ہی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر محمود احمد غازی علومِ اسلامیہ کے قدیم و جدید پہلوؤں پر گہری نظر رکھنے والے عالم با عمل تھے۔ وہ جہاں علمی حلقوں میں ایک بلند منزلت پر فائز سمجھے جاتے تھے وہاں ان کی ذاتی خوبیوں کےپہلوؤں کو بھی اللہ تعالی نے لوگوں میں شائع کردیا تھا۔ گویا وہ عجزوانکساری، ورع و تقوی اوراخلاق و تہذیب کے مرقع وپیکر تھے اور یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی ذات سے شاىد ہى کسی کو کوئی شکوہ و شكاىت پىدا ہوئى ہو۔
مختصر حالات
ڈاکٹر صاحب 18 ستمبر 1950ء میں پیداہوئے۔1954ء میں حفظ قرآن شروع کیا ۔ 1960ء میں دینی مدارس سے تعلیم کا آغاز کیا اور وقت کے جید علماء سے دینى تعلیم حاصل کی۔1977ء میں آپ نے ایم اےعربی زبان و ادب مىں کیا اور پھر انگریزی اور عربی میں مہارت حاصل کی۔
1980ء میں قائداعظم یونیورسٹی مىں فیکلٹی آف شریعہ اینڈ لاء کا قیام عمل میں آىا۔جس کے روح رواں ڈاکٹر موصوف تھے۔ اسى فیکلٹی کی بنیاد پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی عالمِ وجود میں آئی ۔ آپ کی تدریس بھی اسی فیکلٹی میں رہی ۔ اسی طرح 1981ء میں ادارہ تحقیقات اسلامی کا عربی مجلہ ’الدراسات الاسلامیہ ‘چھپنا شروع ہوا 1983ء تک آپ اس کے مدیر رہے۔ 1984ء میں ’’فکر و نظر‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری ملی۔1985ء میں ’’دعوہ اکیڈمی ‘‘کے قیام میں بھی آپ پیش پیش رہے۔ 1988ء میں ’’دعوہ اکیڈمی‘‘ کے مدیر ِعام کے طور پر کام کیا اور اسی سال آپ کی پی ایچ ڈی شعبہ عربى پنجاب یونیورسٹی سے مکمل ہوئی۔ 1991ء میں ’’دعوہ اکیڈمی‘‘ کے ساتھ ’’شریعہ اکیڈمی‘‘ کی نظامت بھی آپ كو سونپ دی گئی ۔1994ء سے 2004ء تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کےنائب صدر رہے۔1999ء میں قومی سلامتی کونسل کے رکن رہے۔2000ء میں وفاقى مذہبی امور کی وزارت بھی آپ كو سونپ دی گئی ، جو 2002ء میں آپ نے چھوڑ دی۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق 1988ء تک تدریس و تحقیق سے رہا لیکن اس کے بعد مسلسل انتظام وانصرام کے امور سے منسلک رہے۔2006ء میں کلیہ معارف اسلامیہ قطر سے وابستہ ہوگئے۔2010ء میں پاکستان میں ’’وفاقی شرعی عدالت ‘‘میں بطور جج منتخب کیے گئے۔ اسى سال بحىثىت جج وفاقى شرعى عدالت آپ اپنے خالق حقىقى سے جاملے، رحمة الله رحمة واسعة.
تصانیف
ڈاکٹر صاحب کوجہاں اللہ تعالی نے تقریرکی صلاحیت عطا فرمائی تھی وہاں تحریر کے میدان میں بھی آپ کو اىك خاص ملکہ حاصل تھا۔ آپ نے سىكڑوں مقالات لکھے جو تحقیقی اورعلمی جرائد میں طبع ہوئے۔ علاوہ ازیں اردو عربی اورانگریزی زبان میں آپ نے تالیف و تدوین کا کام کیا۔
اردوکتب:
1۔ ادب القاضی،اسلام آباد 1983ء
2۔ مسودہ قانونِ قصاص و دیت، اسلام آباد1986ء
3۔احکام بلوغت، اسلام آباد1987ء
4۔ اسلام کاقانو ن بین الممالک،بہاولپور1997ء
5۔محاضرات قرآن، الفیصل ناشران كتب، لاہور 2004ء
6۔محاضرات حدیث، الفیصل ناشران كتب، لاہور2004ء
7۔محاضرات فقہ، الفیصل ناشران كتب، لاہور 2005ء
8۔محاضرات سیرت، الفیصل ناشران كتب، لاہور2007ء
9۔محاضرات شریعت و تجارت، الفیصل ناشران كتب، لاہور2009ء
10۔اسلامی شریعت اورعصر حاضر،انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد2009ء
11۔ قرآن ایک تعارف ، اسلام آباد 2003ء
12۔محکمات عالم قرآنی، اسلام آباد2003ء
13۔امربالمعروف ونہی عن المنکر، اسلام آباد1992ء
14۔اصول الفقہ(ایک تعارف ،حصہ اول ودوم) اسلام آباد2004ء
15۔قواعد فقہیہ اسلام آباد
16۔ تقنین الشریعہ ،ٰاسلام آباد2005ء
17۔ اسلام اور مغرب كے تعلقات، زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی2009ء
18۔مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، الشریعہ اکادمی گوجرانوالا2009ء
19۔اسلامی بینک کاری ایک تعارف، زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، كراچى : 2010ء
20۔ فریضۂ دعوت و تبلیغ، دعوہ اکیڈمی اسلام آباد2004ء
21۔ اسلام اور مغرب، زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، كراچى: 2010ء
عربی تصانیف:
1۔تحقیق و تعلیق السیر الصغیر امام محمد بن حسن الشیبانی اسلام آباد، طبع: 1998ء
2۔القرآن الکریم۔ المعجزة العالية الکبریٰ اسلام آباد1994ء
3۔یاامم الشرف(ترجمہ کلام اقبال)1986ء
4۔تاریخ الحركة المجددية، بیروت 2009ء
5۔العولمة ،قاهرة 2008ء
انگریزی تصانیف:
1-The Hijrah: its philosophy and message for the modern man 1980-1988-1999
2-An Analytical Study of the Sannosiyyah Movement of North Africa Islamabad 2001(based on Ph. D theises.)
3-Renaissance and Revivalism in Muslim India 1707-1867, Islamabad 1998
4-The shorter book on Muslim International Law, Islamabad 1998
5-State and Legislation in Islam, Islamabad 2006
6-Prophet of Islam, his life and works
Qadianism, Lahore1992
ڈاکٹر محمود احمدغازی اور محاضرات ِ حدیث
ڈاکٹر محمود غازیعلوم القرآن ، فقہ اورعصری علوم سے بہرہ ور ہونے كے ساتھ ساتھ علم حدیث سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے اوران کی حدیث و علوم حدیث سے محبت اور انس ان کی کتاب ’’محاضرات حدیث ‘‘حدیث ، علوم حدیث ، تاریخ تدوین حدیث اور مناہج محدثین پر بارہ خطبات پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر موصوف کی علم حدیث مىں تبحر علمى كا نشان ہىں۔آپ علم حدیث کے بارےمیں فرماتےہیں:
’’ ہمارے معاشرے میں حدیث کا لٹریچر عام کرنے کی ضرورت ہے اور حدیث کی اساس پر لٹریچر مرتب کرنے کی بھى ضرورت ہے جو عام فہم ہو اورروز مرہ کی زندگی سے متعلق ہو اور اس پر کسی مؤقف کی چھاپ نہ ہو۔([2] )
یہ بات بلا تردد کہی جاسکتی ہےکہ برصغیر میں ہونے والے علم حدیث کے کام کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھى برصغیر کو اعزاز حاصل ہےکہ اس میں ایسے رجال حدىث پیدا ہوئے جنہوں نے اس خطہ میں خصوصاً اور عالم اسلام میں عموماً علم حدیث کے فروغ میں حصہ لیا اوریہ کام اتنےوسیع انداز میں ہوا کہ عرب دنیا میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے گئے ۔
ڈاکٹرمرحوم کو اللہ تعالی نےگوں نا گوں صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے علم حدیث پر ایک جامع کام’’محاضرات حدیث‘‘ کی صورت میں كىا جس میں انہوں نے دریا کو کوزےمیں بند کردیا ہے اور جس کے مطالعہ سے پتا چلتاہے کہ ڈاکٹر صاحب کی علم حدیث پر کس قدر گہری نظر تھی۔
مجموعہ محاضرات حدیث کے اہم مندرجات کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔محاضرات حدیث میں ڈاکٹر موصوف نےحدیث اور علم حدیث کے اہم پہلوؤں کا احاطہ کر دیا ہے ۔ ’محاضرات حدیث‘ میں ہرخطبہ علم حدیث کی اہمیت کو اجاگر کرتا نظر آتا ہے۔ محاضرات حدىث جو ان کے ختمی مرتبتﷺ سے تعلق اورمحدثین سے گہری وابستگی کی دلیل ہىں۔ محاضرات میں خطبات کی فہرست کچھ یوں ہے:
1۔ حدیث ایک تعارف
2۔ علم حدیث کی ضرورت واہمیت
3۔ حدیث وسنت بطور ماخذ شریعت
4۔ روایت حدیث اور اقسام حدیث
5۔ علم اسناد ورجال
6۔ جرح وتعدیل
7۔ تدوین حدیث
8۔ رحلہ اور محدثین کی خدمات
9۔ علوم حدیث
10۔ کتب حدیث، شروح حدیث
11۔ برصغیر میں علم حدیث
12۔ علوم حدیث، دور جدید میں
مذکورہ بالا خطبات میں ہر ایک خطبہ علوم حدیث کے اىك خاص پہلو کو واضح کر رہا ہے بہرکیف محاضرات میں درج خطبات کے اہم مندرجات کو ہم یہاں پیش کرنے کی کوشش کریں گے، جن سے ڈاکٹر صاحب کی خدمات حدیث کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جامعین حدیث کو خراج تحسین
ڈاکٹر صاحب محدثین کی خدمات کو امت اسلامىہ کے لیے احسان عظیم اور آنے والى نسلوں کے لیے منارہ ٔنور تصور کرتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’کسی بھی چیز کو محفوظ رکھنے کے جتنے بھی طریقے ہو سکتے ہیں اور انسانی ذہن اور دماغ میں آ سکتے ہیں وہ سارے کے سارے سنت اور ارشادات رسول اللہ ﷺ کو محفوظ رکھنے کے لیے محدثین نے اور امت مسلمہ نے اختیار کیے اور ان سب ممکنہ طریقوں سے محفوظ ہو کر علم حدیث مرتب و منقح ہو کر ہم تک پہنچا ہے۔ دنیا کے کسی علم پر اتنے بڑے انسانی دماغوں اور اتنے غیر معمولی یادداشت رکھنے والے انسانوں نے مسلسل غور وخوض نہیں کیا جتنا علم حدیث پر غوروخوض ہوا۔‘‘ [3]
احادیث کے مجموعۂ کتبِ ستہ پر تبصرہ
ڈاکٹر صاحب احادیث کے مجموعات کو محدثین کی بیش بہا کاوش اور امت محمدیہ کے لیے ذخیرہ نایاب سمجھتے تھے۔ محاضرات حدیث میں کتب احادیث كے بارے مىں ان کے تبصرے درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری کے بارے مىں لکھتے ہیں:
’’امام بخاری (م ۲۵۶ھ)سے پہلے جتنے مجموعے کتب حدیث کے تھے باستثناء مسند امام احمد کے وہ اکثر وبیشتر امام بخاری نے اس کتاب میں سمو دیے ہیں۔ امام بخاری نے کل احادیث جو اس میں لکھی ہیں ان کی تعداد دس ہزار سے کم ہے لیکن اس میں تکرار بھی شامل ہے۔ اس میں ایک حدیث کی مختلف روایات اور سندیں بھی شامل ہیں ان سب کو نکال کر جو احادیث بنتی ہیں وہ دوہزار چھ سو کے قریب ہیں۔‘‘
امام بخاری کی اسی کتاب کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی، غالباً حدیث کی کسی کتاب کو یا کسی محدث کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جتنی امام بخاری کی کتاب کو حاصل ہوئی۔ کتاب کی ترتیب کے ضمن میں امام بخاری نے پہلے یہ کیا کہ اس کتاب کے ابواب کا ایک نقشہ مرتب کیا کہ اس کے ابواب کیا کیا ہوں گے۔ ان تمام ابواب کا نقشہ مرتب کرنے کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ مسجد نبوی میں گئے اور روضۂ رسولﷺ پر حاضری دی، وہاں دو رکعت نماز پڑھ کر انہوں نے اس کتاب کو لکھنے کا آغاز کیا اور سولہ سال تک اس کتاب کولکھتے رہے اور احادیث کی چھان پھٹک کرتے رہے۔ امام بخاری نے جتنی احادیث نقل کی ہیں وہ سب کی سب صحیح لذاتہ ہیں، اس میں صحیح لغیرہ بھی کوئی نہیں اور اکثر احادیث مستفیض ہیں۔ صحیح بخاری کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کی مثال امت مسلمہ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کی ۵۳ شروحات کا ذکر حاجی خلیفہ نے "کشف الظنون" میں کیا ہے۔ مولانا عبدالسلام مبارکپوری نے ایک کتاب "سیرۃالبخارى" لکھی جس مىں انہوں نے صحىح بخارى کی ۱۴۳ شروحات کا ذکر کیا ہے‘‘ ([4])
ہم عرض كرتے ہىں كہ امام بخاریؒ نے روضۂ رسولﷺ پر نہىں بلكہ مكہ مكرمہ مىں خانہ کعبہ مىں حاضری دی تھى اور وہاں استخارہ کیا تھا۔ روضۂ رسول كا كسى كتاب مىں بھى ذكر نہىں ہے، غالباً غازى صاحب كو سہو ہوگىا ہے۔
صحیح مسلم
صحیح مسلم کے بارے میں ڈاكٹر غازى صاحب لکھتے ہیں :
’’صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم کا درجہ آتا ہے۔ امام مسلم (م ۲۶۱ھ) کے اساتذہ میں امام بخاری، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی کے ایک براہ راست شاگرد حرملہ بن یحییٰ بھی شامل ہیں اس لىے امام مسلم کو دو بڑے محدثین سے براہ راست اور بڑے فقیہ سے بالواسطہ کسبِ فیض کا موقع ملا۔ امام شافعی سے ان کے شاگرد کے ذریعے اور امام احمد سے براہ راست ۔ امام صاحب نے امام اسحاق بن راہویہ سے بھی براہ راست کسب فیض کیا ،لیکن ان کے خاص اساتذہ قتیبہ بن سعید اور ابو عبد اللہ بن القعنبی تھے۔ صحیح مسلم میں ان دونوں کی روایات کثرت سے ملیں گی۔صحیح مسلم میں بلا تکرار چار ہزار احادیث ہیں۔ ([5])
سنن ابی داؤد
سنن ابی داودکے بارے میں ڈاكٹر صاحب كا فرمان كچھ ىوں ہے :
’’ امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث (م ۲۷۵ھ) كى سنن مىں پانچ لاکھ احادیث میں سے چار ہزار آٹھ سو کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ احادیث صرف سنن اور احکام سے متعلق ہیں۔ صحاح ستہ میں فقہی احادیث کا سب سے بڑا ماخذ یہی کتاب ہے۔ صحاح ستہ کی کسی اور کتاب میں فقہی احادیث اتنی بڑی تعداد میں موجود نہیں ہیں۔ اس میں تکرار برائے نام ہے۔ کہیں کہیں کوئی حدیث دوبارہ نقل ہو گئی ہے ورنہ ایک حدیث دوبارہ نقل نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے چار ہزار آٹھ سو احادیث میں اکثر وبیشتر وہ ہیں جو ایک ہی بار بیان ہوئی ہیں۔ یہ کتاب جب سے لکھی گئی ہے ہمیشہ مقبول رہی ہے، علماء اور طلباء نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ اس کی شرح امام خطابی(م۳۸۸ھ) نے "معالم السنن" كے نام سے لکھی ۔ پھر امام ترمذی نے اس کتاب کی تلخیص کی اور اس تلخیص کی شرح علامہ ابنِ قیم نے لکھی۔برصغیر پاک و ہند کے عالمِ دین مولانا شمس الحق عظىم آبادى نے "عون المعبود" كے نام سے اس كى شرح لکھی ہے جو عرب ممالک میں بھی مقبول ہے۔([6])
جامع ترمذی
جامع ترمذی کے بارے میں ڈاكٹر صاحب كے الفاظ كچھ ىوں ہیں :
سنن ابی داؤد کے بعد جامع ترمذی کا درجہ آتا ہے۔ امام ترمذی امام بخاری اور امام مسلم دونوں کے براہ راست شاگرد ہیں۔ امام ابو داؤد کے بھی شاگرد ہیں۔ قتیبہ بن سعید جو امام مسلم کے استاد ہیں وہ امام ترمذی کے بھی استاد ہیں۔جامع ترمذی جامع ہے یعنی حدیث کے آٹھوں ابواب اس میں شامل ہیں۔ اس میں عقائد، اخلاق، احکام، تفسیر، فضائل، فتن، اشراط قیامت، علامات قیامت یہ سب موضوعات شامل ہیں اس لیے اس کا درجہ جامع کا ہے اور اس طرح وہ امام بخاری کی جامع کے برابر ہے۔ صحاح ستہ میں امام بخاری اور امام ترمذی دونوں کی کتابیں جامع ہیں۔
جامع ترمذی کے اہم خصائص میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ حدیث کے درجہ کا تعین بھی کرتی ہے۔ امام ترمذى پہلے حدیث بیان کرتے ہیں اور پھر اس کا درجہ بیان کرتے ہیں۔ امام صاحب یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث سے جو احکام نکلتے ہیں ان احکام میں بقیہ محدثین اور فقہاء کی رائے کیا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ امام ترمذی ایک باب میں جو احادیث بیان کرتے ہیں وہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ’’ فی الباب عن فلان وفلان وفلان‘‘ اس باب میں فلاں فلاں صحابہ کی احادیث بھی ہیں اور ان احادیث کو انہوں نے اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا۔‘‘ ([7])
جامع ترمذی کی شرح کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’تحفۃ الاحوذی‘‘ سنن ترمذی کی اتنی ہی جامع شرح ہے جتنی صحیح بخاری کی فتح الباری ہے۔جامع ترمذی کی اس سے بہتر کوئی اور شرح موجود نہیں ہےاور یہ برصغیر کے ایک صاحب علم کا اتنا بڑا کارنامہ ہےجسے دنیائے اسلام میں انتہائى قدر كى نگاہ سے دىكھا جاتا ہے۔اس کتاب کا بیروت، تہران، مصر، ہندوستان،پاکستان اور کئی دوسری جگہوں پر بارہا چھپنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کتاب کو دنیاےاسلام میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحبِ تحفة الاحوذى صاحبِ عون المعبود کے شاگرد تھے۔ ڈاكٹر غازی صاحب ایک واسطہ سے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (مؤلف تحفة الأحوذى)کے شاگرد ہیں۔مولانا امین احسن اصلاحی بھی مبارکپوری کے شاگرد ہیں۔([8])
سنن نسائی
سنن نسائی کے بارے میں ڈاكٹر صاحب لکھتے ہیں :
سنن نسائى اس اعتبار سے بہت ممتاز ہے کہ صحیحین کے بعد سب سے کم ضعیف حدیثیں اس میں ہیں۔ صحیحین میں تو کوئی نہیں ہے بقیہ دونوں کتابوں ابوداؤد اور ترمذی میں ضعاف کی تعداد سنن نسائی کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کے رجال یا راوی سنن کی بقیہ کتابوں کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہیں یعنی چار کتابوں ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی اور نسائی میں نسائی کے رجال سب سے قوی ہیں۔ اس کے راوی سب کے سب مستند ہیں اور اس کی شرائط بخاری اور مسلم کی شرائط کے بہت قریب ہیں۔ امام نسائی کو علل الحدیث میں بڑی مہارت تھی انہوں نے علل الحدیث کی جابجا نشاندہی کی ہے۔ امام ترمذی نے بھی علل کی نشاندہی کی ہے لیکن امام نسائی اس میں زیادہ نمایاں ہیں۔ امام ترمذی کی طرح وہ اسماء اور کنیٰ (کنیتوں) کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ امام ترمذی سے ملتے جلتے ہیں۔ انہوں نے غریب الحدیث کی شرح بھى کی ہے گویا یہ وہ کتاب ہے جو ابوداؤد اور ترمذی دونوں کی خصوصیات اپنے اندر رکھتی ہے اور ایک اعتبار سے صحیحین کے بعد اس کا درجہ آتا ہے۔([9] )
اس کی ایک شرح "التعلیقات السلفیہ" مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجہانی نے لکھی ہے جو پانچ جلدوں میں سعودی عرب سے شائع ہوئى ہے، جو اسلامى ممالك خصوصاً پاكستان مىں بہت مشہور ہے اور نہاىت عرق رىزى سے لكھى گئى ہے، شاید ىہ ڈاكٹر محمود احمد غازی صاحب کی نظر سے نہیں گزری۔
سنن ابن ماجہ
سنن ابن ماجہ کے بارے میں ڈاكٹر صاحب رقم طراز ہیں :
سنن ابن ماجہ میں حدیث کی بقیہ کتابوں کے مقابلے میں ضعیف احادیث زیادہ ہیں۔ ان کی ٹھیک ٹھیک تعداد کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا دشوار ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ان کی تعداد چونتیس ہے ، کچھ کا خیال ہے کہ ایک سو کے قریب ہے ، کچھ کا خیال ہے کہ ایک سو بتیس یا ایک سو پینتیس کے قریب ہے۔ پھر ضعیف کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے۔ ایک محدث کی رائے میں ایک حدیث ضعیف ہے تو دوسرے کی رائے میں وہ ضعیف نہیں ہوتى یا اتنی ضعیف نہیں ہوتى ۔ پھر ضعاف کے بھی مختلف درجات ہیں بہر حال اس کتاب میں ضعاف کی تعداد زیادہ ہے۔اس کی ایک شرح سیوطی نے ’’مصباح الزجاجۃ‘‘كے نام سے لکھی ہے۔ ([10])
مجموعات حدیث کی درجہ بندی
ڈاکٹر صاحب احادیث کی کتب کے فنی اور استنادی اعتبار سے درجوں کے قائل تھے اس بارے مىں وہ
شاہ ولی اللہ کے كام کا ذکر کرتےہیں:
’’شاہ صاحب نے علم حدیث کی تاریخ کا ایک قابل ذکر کام یہ کیا ہے کہ حدیث نبوی کے پورے ذخائر کو جمع کرکے اور ان کا مطالعہ کرکے ان میں جو اسرار دین اور شریعت کے بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں ان کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ سارے علوم حدیث اور علوم نبوت کی روح پڑھنے والے کے سامنے آجاتی ہے یہ کارنامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی جس کتاب میں ہے اس کا نام ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ ہے۔‘‘ ([11])
’’شاہ ولی اللہ محدث دہلوى نے دوباتیں ارشاد فرمائى ہیں۔ ایک ىہ کہ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جائےاور لوگوں میں عدم وحدت کے رجحان کو کیسے کم کیا جائے۔ یہ ان کی اولین کوشش ہواکرتی تھی۔ ان کی دوسری کوشش یہ ہوا کرتی تھی کہ ان مسلکی اختلافات کو اور مسلمانوں میں جو متنوع آراء ہیں ان کو حدیث نبوی اور رسول اللہﷺ کی سنت سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے اور کس طرح سے علم حدیث کو عام کیا جائے کہ اختلافات حدود کے اندر آجائیں۔‘‘ ([12])
حجیت حدیث و سنت
ڈاکٹر صاحب نے محاضرات کےخطبات میں بڑے احسن انداز مىں حجیتِ حدیث کا ذكر كىا ہے، وہ كہتے ہیں :
’’بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول كرىمﷺ نے احادیث کولکھنے سے منع فرمایا ۔اسی طرح بعض واقعات میں یہ بھی آتا ہے کہ خلفاء راشدین میں سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے پہلے احادیث کے مجموعے تیار کروانے کا ارادہ ظاہر کیا تو یا تو ارادہ بدل دیا یا اس تیار شدہ مجموعہ کو ضائع کردیا۔ان روایات کی بنیاد پر منکرین حدیث نے بہت کچھ حاشیہ آرائی کی ہےاور یہ دعویٰ کیا ہےکہ رسول اللہﷺ نے چونکہ احادیث کو لکھنے سے منع کردیا تھااس لیے علم حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ۔ نہ رسول اللہﷺ نے اپنی سنت کو واجب التعمیل قراردیا ہے اور نہ قرآن مجید کوسمجھنے کےلیے سنت ضروری ہے۔ اگر سنت واجب التعمیل اور تدوین حدیث ضروری ہوتی تو رسول اللہﷺ احادیث کو اسی طرح لکھواتے جس طرح قرآن مجید کو لکھوایا۔یہ بظاہر ایسی مضبوط دلیل معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص اس کو پڑھتا ہے وہ متاثر ہوجاتاہے لیکن یہ تصویر کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک چھوٹا سا رخ ہے۔ آپ نے ممانعت کیوں فرمائی؟ کن لوگوں کے لیے ممانعت فرمائی؟ کس زمانے میں ممانعت فرمائی؟ اس پر کوئی منکرِ حدیث اظہارِ خیال نہیں کرتا۔اسى طرح وہ احادیث بھی موجود ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے احادیث لکھنےکی اجازت دی۔ احادیث کو لکھوایا۔ اپنے حکم سے اپنے بعض ارشادات کو ضبط تحریر میں منتقل کروایا اور صحابہ کرامؓ کو تحریری طور پر منتقل کیا۔‘‘ ([13])
حدیث کی ضرورت و اہمیت بىان كرتے ہوئے ڈاكٹر صاحب كہتے ہیں:
’’سنت اگر نہ ہو تو قرآن پاک کے الفاظ کے کوئی معنی متعین نہیں کیے جاسکتے، نہ لغت کی مدد سے متعین کیے جاسکتے ہیں اور نہ کسی اور ذریعے سے۔ مثلا قرآن پاک میں اعتکاف کا تذکرہ ہے ﴿وَاَنْـتُـمْ عَاكِفُوْنَ فِى الْمَسَاجِدِ﴾([14])اعتکاف سے کیا مراد ہے؟ عاکف کس کو کہتے ہیں؟ قرآن پاک میں اس طرح کےدرجنوں نہیں سیکڑوں احکام ہیں جن کی تعبیر و تشریح کسی کے لیے ممکن نہیں ہے اگر سنت کی تعبیر و تشریح ہمارے سامنے نہ ہو۔ اسی طرح قرآن پاک کی کچھ آیات میں کچھ الفاظ ہیں جن کےلیے مبہم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی ان کی مراد واضح نہیں ہے۔ سنت سے ان کی تفسیر ہوجاتی ہے۔ کچھ آیات مجمل ہیں سنت سے ان کی تفصیل سامنے آجاتی ہے ۔ کچھ آیات ہیں جو مطلق اور عمومی انداز میں آئی ہیں سنت سے ان کی تقیید ہوجاتی ہے۔ سنت اس کو قید کر دیتی ہے کہ اس سے مرادیہ ہے۔ کچھ الفاظ ہیں جو قرآن مجیدمیں عام استعمال ہوئے ہیں سنت ان کو خاص کر دیتی ہے کہ اس سے خاص مراد یہ ہے اور اس سے باہر نہیں ہے۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کے لیے تشریح کی ضرورت ہوتی ہےکہ ان کو نافذ کیسے کیا جائے گاسنت سے ان احکام کی شرح ہوجاتی ہے ۔قرآن پاک میں کچھ احکام اىسے ہیں جن سے سنت کے دائرے كى توسیع ہوجاتی ہے ۔ اگرچہ اس کا دائرہ بظاہر یہاں تک معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا انطباق آگے بھی ہوگا۔ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں کہ قرآن میں ان کے متعلق ایک اصول آیا ہے لیکن اس اصول سے کون سے جزوی مسائل نکلتے ہیں، ان کی مثالیں سنت نے دے دی ہیں۔ قرآن پاک کی رو سے سنتِ رسولؐ کا یہ کام ہے کہ وہ ان سب چیزوں کی وضاحت کرے۔‘‘ ([15])
حدیث اور سلسلہ ٔاسناد
حدیث کی استنادی حالت کو مصئون ثابت کرنے کےلیے غازی صاحب نے سند کی عظمت و ضرورت کو یوں واضح کیا ہے :
’’رسول اللہﷺ کے ارشادات پر عمل درآمد فرض ہے اس لیے ان ارشادات کو جاننا بھی فرض ہے اور جانا نہیں جاسکتا تھا جب تک کہ سند کا معاملہ صاف نہ ہو اس لیے اسناد کاعمل دین کا حصہ بن گیا ’’لولا الاسناد لقال من شاء ماشاء‘‘۔ یہ جملہ حضرت عبداللہ بن مبارک کا ہے جو امیر المؤمنین فی الحدیث کہلاتے ہیں کہ اسناد دین کاحصہ ہىں ’’اگر اسناد کاعمل نہ ہوتا تو دین کے بارے میں جس کا جو جی چاہتا وہ کہہ دیا کرتا‘‘ اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا اس لیے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ رسول اللہﷺ کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہو جائے اسناد کے عمل کو لازم قرار دیا گیا اور ىہ بات مسلمانوں کےعلمی مزاج کا حصہ بن گئی کہ جو علمی بات کسی کے سامنے کہی جائے وہ پوری سند کے ساتھ کہی جائے۔ یہ روایت مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم میں موجود نہیں۔ بلا استنثاء اور بلاخوف تردید یہ کہی جاسکتی ہے کہ سند کا یہ تصور صرف اور صرف مسلمانوں کی روایت میں پایا جاتا ہے کسی اور قوم کی مذہبی یا غیر مذہبی روایت میں سند کا کوئی تصور نہیں۔مسلمانوں کے ہاں نہ صرف علم حدیث بلکہ تمام علوم و فنون میں اسناد کی پابندی لازمی سمجھی گئی ۔آپ تفسیر کی پرانی کتابیں اٹھاکر دیکھ لیں ، سیرت کی پرانی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں حتی کہ ادب، شعر،فصاحت، بلاغت، صرف، نحو اور لغت ان سب کی سندیں موجود ہیں۔‘‘ ([16])
وحی کا اثبات و اہمیت
ڈاکٹر صاحب وحی خفی ىعنى حدیث نبوی کو قرآن مجید کی طرح اللہ تعالی کے احکامات و ارشادات کاحصہ سمجھتے ہیں وحی خفی كى تشریح کرتے ہوئے كہتے ہیں:
’’رسول كرىم ﷺ پر وحی دو طریقوں سے آتی تھی۔ ایک وہ وحی ہوتی تھی جو وحی جلی کہلاتی ہےیعنی جس کے الفاظ، جس کی عبارتیں ، جس کے کلمات اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے تھے اور جس میں رسول اللہ ﷺ کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ وہ وحی تھی کہ جس کے الفاظ اور کلمات معجز ہ ہیں جن کا اسلوب، جن کا معیار، جن کی فصاحت و بلاغت معجزہ کی سطح تک پہنچی ہوئی ہے، یہ وحی قرآن مجید کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ جو وحی ہوتی تھی وہ متعین الفاظ میں نہیں ہوتی تھی وہ سنت ہے جس کے صرف معنی اور مفہوم آپ تک منتقل ہوئے۔ یہ وحی بعض اوقات جبریل امین کے ذریعے سے نازل ہوئی، بعض اوقات کسی اور ذریعے سے بھی نازل ہوئی۔ حضور ﷺ نے خواب میں کوئی چیز دیکھی یا ویسے ہى اللہ نے دل میں کوئی چیز ڈال دی۔ سنت آپ(ﷺ) تک پہنچانے کے لیے وحی خفی کی رہنمائی کے کئی طریقے تھے جس میں وہ طریقہ بھی شامل تھا جس طریقے پر قرآن مجید نازل ہوتا تھا اس کے علاوہ بھی کئی طریقے شامل تھے بہر حال یہ وحی خفی کہلاتی ہے۔‘‘ ([17])
خبرِواحد اورمحدثین
ڈاکٹر صاحب خبرواحد کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’خبرِواحد کے بارےمیں بڑی تفصیلی بحثیں ہیں کہ خبر صحیح بھی ہو اور خبر واحد بھی ہو تو اس کا حکم شریعت میں کیا ہے؟فقہائے اسلام اور محدثین کے دور سے لے کر آج تک اس پر عمل آمد ہوتا چلا آرہا ہے ۔ بعض محدثین کا خیال یہ ہے کہ اگر خبر واحد صحیح ہے تو ہر حال میں واجب التعمیل ہے اور اس پر عمل کیا جائے گا۔ بعض فقہاء كا جن میں حضرت امام ابوحنیفہ بھی شامل ہیں، کہنا ہے کہ اگر خبرواحد طے شدہ سنت اور قیاس سے متعارض ہو تو قیاس اور طے شدہ سنت کو ترجیح دی جائے گی اور خبر واحد کا کوئی اور مفہوم قراردیا جائےگا۔ اس پر ظاہری معنوں میں عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس میں صرف یہی دورائے نہیں بلکہ اور بھی آراء موجود ہیں اور انہی کی بنیاد پر فقہی مسالک وجود میں آئے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں صدر اسلام سے فقہی مسالک جتنے بھی بنے وہ اکثر و بیشتر 75یا 80 فیصد خبرواحد کے بارے میں اختلاف ہی کی بنیاد پر وجود میں آئے۔‘‘ ([18])
مذکورہ بالا نگارشات سے واضح ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کو حدیث اور علم حدیث سے نہ صرف شغف تھا بلکہ علم حدیث میں گہرا درک بھی رکھتے تھے ۔ اور ان کا علمی ورثہ ان کی علم حدیث کی خدمت اور محبت کا واضح ثبوت ہے ۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی علم حدیث کے داعی تھے اور اس کے دفاع میں ہر وہ کوشش جو ایک عالم حدیث کو کرنی چاہیے، اس کےخواہاں رہتے تھے ۔ورثۂ حدیث کے خلاف شکوک وشبہات پھیلانے والوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب وارثان علوم حدیث کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حدیث رسول ﷺپر اعتراض کرنے کی جو ذہنیت ہے، وہ یہودی ذہنیت ہے جو صحابہ کے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔سنن ابی داؤد میں سلمان فارسی کی ایک روایت ہے كہ ان سے کسی یہودی نے بڑے طنز ، استہزا اور مذاق سے پوچھا كہ کیا تمہارے رسول تمہیں غسل خانہ استعمال کرنے کے طریقے بھى بتاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بتاتے ہیں ۔ آپ نے بتایا کہ جب استنجاء کرو تو اس طرح کرو ۔ انہوں نے اس پر ناراضى كا اظہار کیا نہ ناپسندیدگی ظاہر کی اور نہ ہى اس کو طنزو مذاق کے طور پر لیا اور کہا کہ ہمارے پیغمبر ہمیں ہر اچھی بات بتاتے تھے۔ ہر زمانےمیں یہودی اسى طرح سوالات کرتے رہے ہیں ، لہٰذا ان تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے جو حدیث کا علم رکھتے ہیں یا جنھىں اللہ تعالی نے علم حدیث مىں دلچسپی عطا فرمائی ہے كہ وہ علم حدیث کا دفاع كرىں۔‘‘ ([19])
علم حدیث کو عام کرنا ڈاکٹر صاحب کی دلی خواہش تھی وہ کتب احادیث کی شروح کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور عصر حاضر میں جدیدمسائل اور تقاضوں کو سامنے رکھتےہوئے حدیث کی شروحات مرتب کرنےپر زور دیتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’جس طرح متن حدیث کو نئے اندازسے مرتب کرنےکی ضرورت ہے اسی طرح علم حدیث کی نئی شرحیں لکھنے کی بھى ضرورت ہے۔۔۔ یہ ایک نئی دنیا ہے جس پر ابھی کام کا شاید آغاز بھی نہیں ہوا اوراگر آغاز ہواہے تومحض آغاز ہی ہے۔([20])"
شاید ڈاکٹر صاحب کی نظرسے ىہ بات نہىں گزرى كہ مسند احمد کی شرح عربی زبان میں پچاس جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔ اسى طرح ابن ملقن کی صحیح بخاری کی شرح 38 جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
علم حدیث اور اصول فقہ
ڈاکٹر صاحب علم اصول فقہ کا منبع بھی علم حدیث کو ہی تصور کرتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’علم حدیث اس نبوغ اور عبقریت کا نمونہ ہےکہ جس میں معلومات اور معاملات کی وسعت كا دارومدار ہوا اور اصول فقہ اس نبوغ اور عبقریت کا نمونہ ہے جس پر تخلیقی صلاحیتیں اور نئے نئے افکار و نظریات کوسامنے لانے پر معاملات کی بنیاد ہو۔‘‘([21])
علم حدیث اور تاریخ
علم حدیث کی حقانیت اور دنیا پر اس کےاثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف علم حدیث کو تارىخ کا ماخذ سمجھتے ہیں چنانچہ كہتے ہیں:
’’دنیا کا کوئی مؤرخ اسلام کے اس احسان کو مانتا ہے یا نہیں مانتا ۔مانتا ہے تو بلاشبہ عدل و انصاف کی بات کرتا ہے اورنہیں مانتا تو بڑا احسان فراموش ہےیا کم ازکم ناواقف ضرور ہے، لیکن تاریخ کا صحیح تصور اورتاریخ کا وہ صحیح شعور جس طریقے سے مسلمانوں کو اور ان سے دنیاکو حاصل ہوا اس کا اولین مصدر و ماخذ علم حدیث ہے ۔‘‘([22])
حفاظت حدیث
حدیث وعلوم حدیث کی حفاظت کےبارےمیں محدثین کے کیےگئے کاموں کو آگے بڑھانےکے لیے ڈاکٹر صاحب موصوف ہر وہ طریقہ استعمال کرنے کے قائل تھے کہ جس سےعلوم حدیث کو آسان اورمحفوظ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے وہ كہتے ہیں:
’’لیکن اس سے بھی زیادہ جو مشکل کام ہے وہ رجال کی کمپیوٹرائزیشن کا کام ہے۔ 6لاکھ افراد کےبارےمیں تفصیلات، معلومات کے اس تمام ذخیرے کےساتھ جو علماء رجال و جرح و تعدیل کے آئمہ نے جمع کیا ہے اس کو کمپیوٹرائز کرنا انتہائی اہم مشکل اور لمبا کام ہے۔ اس کےلیے ایک نئے سافٹ ویئر کی ضرورت ہے۔ ىہ سافٹ ویئر وہى آدمی بنا سکتا ہے جو خود بھی محدث ہو ، علم حدیث بھی جانتا ہو اور پروگرامنگ(Programming) بھی جانتا ہو۔اگر علم حدیث نہ جانتا ہوتو شاید اس کے لیے سافٹ ویئر بنانا بہت مشکل ہوگا۔ ‘‘([23])
علم حدیث اوردورِ جدید :
ڈاكٹر محمود احمد غازی علم حدیث کو بنیادی علم قرار دیتے ہوئے جدید دور کےتقاضوں کو پورا کرنےوالی تحقیقات کے حامی تھے۔ وہ محض قدامت پرستی پر یقین نہ رکھتےتھے بلکہ قدیم کو بنیاد بناتے ہوئے علم حدیث کےمتعلق جدید تحقیقات کے ذریعے اکتشافات اور ان کے حل پر زور دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے وہ كہتے ہىں:
’’بیسویں صدی کو اگر ہم دو رحاضر یا دورجدید قرار دیں تو اندازہ ہوتاہے کہ بیسویں صدی کےدوران علم حدیث میں ایک نئی سرگرمی پیدا ہوئی ہے اور علم حدیث پر کام کرنے کے نئےنئے میدان اور نئے نئے موضوعات سامنے آئے ہیں۔خاص طور پر دنیائے عرب میں اہل علم کی ایک بہت بڑی تعداد نے علم حدیث پر ایک نئے انداز سےکام کا آغاز کیا ہے اور تحقیق اور علمی کاوش کے ایسے ایسے نمونہ دنیا کے سامنے رکھے ہیں جن کو علم حدیث کی تاریخ میں ایک نئے دور کانقطہ آغاز کہا جا سکتاہے ۔عرب دنیا میں بہت سی جامعات کے شعبہ ہائے اسلامیات نے اور بہت سی جامعات اسلامیہ نے علم حدیث کے موضوع پر ایسے نئے نئے مقالات تیار کرائے ہیں جنہوں نے علم حدیث کےان تمام گوشوں کو از سرنو زندہ کر دیا ہےجن کو ایک طویل عرصہ سےلوگوں نے نظر انداز کر دیا تھا۔‘‘([24])
ڈاكٹر صاحب مزید لکھتےہیں:
’’یہ مت سمجھو کہ انگور کے خوشے سے شراب نچوڑنے والے کاکام ختم ہو چکا ہے۔ابھی توانگور کے خوشوں میں ہزاروں شرابیں ہیں جو نچوڑی جانی ہیں اورجن کو نکال کر ابھی لوگون کے سامنے پیش کرنا ہے یہی معاملہ علم حدیث کا ہے کہ علم حدیث کے تمام علوم و فنون میں تحقیق کے ایسے ایسے گوشے ابھی موجود ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے او راہل علم ان پر کام کر رہے ہیں ۔اس معاملہ میں دنیائے عرب کی جامعات نے خاص طور پر جامعہ ازہر، سعودی عرب، شام اورمراکش کی جامعات نے علم حدیث کےموضوعات پر قابل ذکر ذخیرہ پیش کیا ہے اورعلم حدیث کو ایک نئے انداز سے مرتب کرنے کی طرح ڈالی ہے ۔ان حضرات کےنام لىے جائیں تو گفتگو طویل ہو جائےگی جنہوں نے علم حدیث كو نئی جہتوں سے نوازا ہے ۔ ایسے حضرات کی تعداد بھی درجنوں سے بڑھ کر سیکڑوں میں ہے جو آج عرب دنیا کے گوشے گوشے میں علم حدیث اور علوم حدیث پر نئے انداز سے کام کر رہے ہیں ۔‘‘([25])
علم حدیث پر جدید پہلوؤں سے کام کرنے کی ضرورت کو ڈاكٹر غازی صاحب بڑی اہمیت دىتے تھے اور اس كى ترغیب دلاتے تھے۔ اىك جگہ كہتے ہىں:
’’تہذیب و تمدن کی اساس کس بنیادپر بنتی ہے اور قوموں کا عروج وزوال کیسے ہوتا ہے؟ سابقہ محدثین نے اپنی کتابیں مرتب کرتےوقت اپنے سامنےیہ موضوعات نہیں رکھے۔ انہوں نےاپنےزمانہ اور اپنی ضروریات کے لحاظ سے عنوانات تجویز کیے اورموضوعات رکھے ،لیکن سارے موضوعات کواسی طرح سے(Re-arrange) کریں تو نئےنئےعلوم وفنون سامنےآئیں گے۔ اس لیے نئے انداز سے علم حدیث کے مجموعے مرتب کرنے کی ضرورت ہے جن میں آج کےدور کےتہذیبی ، تمدنی ، سیاسی ، معاشی، اجتماعی ، اخلاقی اور روحانی ضروریات کےمطابق ابواب کی ترتیب اور تقسیم کی جائے۔ ماخذ یہی قدیم کتابیں اور یہی ذخائر رہیں گے جو آئمہ اسلام نے 458ھ تک مرتب کرکے ہمیں دے دیے تھے۔پانچویں صدی ہجری تک جو مجموعے مرتب ہوگئے وہ تو بنیادی ماخذ ہیں وہ توایک طرح سے (Power Houses) ہیں جہاں سے آپ کو Connectionملتا رہےگا،لیکن کنکشن سے آپ نئی نئی مشینیں چلائیں، نئےنئے کام کریں، نئے نئے انداز سے روشنی پیدا کریں، نئے نئے راستے روشن کریں۔ یہ کام ہمیشہ ہوتا رہےگا اور وہ پاور ہاؤس اپنی جگہ موجود رہیں گے۔‘‘([26])
مستشرقین کی مثبت خدمات پر ستائش:
ڈاكٹر محمود احمد غازی صاحب علم اوراہل علم کے قدردان تھے اور خواہ وہ کسی مذہب یا مکتبِ فکر سےتعلق رکھتاہو۔ علم کی خدمت میں جتے اشخاص کو تحسین کی نظر سے دیکھتے اور ان کی ستائش کا حق ادا کرتے ۔ مستشرقین کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن ان کے علم حدیث سے متعلقہ کارناموں کو ڈاكٹر غازی صاحب سراہتے ہیں اور ان پہلوؤں کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں جن کی وجہ سے طالبان حدیث کو آسانی ہوئی آپ فرماتے ہیں :
’’اس کےساتھ ساتھ ہمیں یہاں مستشرقین کی مثبت علمی کاوشوں کااعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اچھی بات کی تعریف کرے اور بری بات کی برائی کی نشاندہی کرے ۔ ہم مستشرقین کے کاموں پر تنقید کرتےہیں ۔ مستشرقین کے جو کام تنقید کے قابل ہیں ان پر تنقید کرنی چاہیے ۔جہاں جہاں غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ جہاں جہاں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں یا پیدا کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں مستشرقین نےکوئی اچھا کام کیا ہے اس کا اعتراف بھی کرناچاہیے۔مستشرقین کا کیا ہوا ایک غیر معمولی کام المعجم المفهرس لالفاظ الحديث جیسے جامع انڈکس کی ترتیب ہے۔ یہ مستشرقین کی ایک جماعت نے سالہاسال کی کوششوں کےبعد تیار کی ہے ۔ ..........یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔جب کوئی شخص علم حدیث پر کام کر رہا ہو اور احادیث کے حوالے تلاش کر رہا ہو اور اس کتاب سے مدد لے اس وقت اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے ۔ یہ ان چند کتابوں میں سے ہے جو حدیث کے طلبہ بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور علم حدیث کا کوئی استاد، کوئی محقق اور کوئی مصنف اس کتاب سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔یہ مستشرقین کا ایک قابل قدر کارنامہ ہے اور ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ انہوں نے اچھی کاوش کی ہے ہم اس کی قدر کرتےہیں ۔‘‘ ([27])
رحلۃ اور محدثین کی خدمات:
رحلۃ فی طلب الحدیث، یعنی علمِ حدیث کے حصول اور تدوین کی غرض سے سفر۔ یوں تو حصولِ علم کے لىے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا مسلمانوں کی روایات کا ہمیشہ ہی ایک اہم حصہ رہا ہے،لیکن علمِ حدیث کے حصول کی خاطر سفر کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔ محدثین کرام نے علم حدیث کے حصول،احادیث کی تحقیق،راویوں کی جرح و تعدیل اور رجال کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی خاطر جو طویل اور مشقت انگیز سفر اختیار کیا ان سب کی داستان نہ صرف دلچسپ اور حیرت انگیز ہے،بلکہ علمِ حدیث کی تاریخ کا ایک نمایاں اور منفرد باب ہے۔ محدثین کے تذکرے میں رحّال،یعنی بہت زیادہ سفر کرنے والا اور جوّال،بہت زیادہ پھرنے والا،یہ صفات بہت کثرت سے نظر آتی ہیں۔بعض محدثین کے بارے میں تذکرہ نویس لکھتے ہیں کہ طاف البلاد،انہوں نے مختلف ملکوں کا چکر لگایا تھا۔
ایک محدث ہیں ابن المقری،جو غالباً پانچویں صدی کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے روئے زمین میں مشرق و مغرب سے لے کر چار مرتبہ سفر کیا۔ طفت الشرق والغرب اربع مرّات،جب وہ شرق اور غرب کہتے ہیں تو شرق سے ان کی مراد وسط ایشیا کے وہ علاقے ہوتے ہیں جو مسلمانوں میں علوم و فنون کا مرکز تھے،سمرقند اور بخارا۔ اور غرب سے ان کی مراد ہوتی ہے اسپین،اندلس،غرناطہ،فاس،قیروان،رباط، گویا اندلس سے لے کر سمر قند اور بخارا تک اور شمال میں آذربائیجان اور آرمینیا سے لے کر جنوب میں مصر اور یمن تک۔ انہوں نے علمِ حدیث کی تلاش میں اس پورے علاقے کا چار مرتبہ چکر لگایا۔
امام یحیٰ بن معین کے والد نے دس لاکھ پچاس ہزار درہم ترکے میں چھوڑے جو یحیٰ بن معین کو ملے۔ انھوں نے ىہ ساری رقم علمِ حدیث کے حصول اور اس کی خاطر سفر کرنے میں صرف کردی۔ انہوں نے وسیع پیمانے پر سفروں کا سلسلہ اختیار کیا اور علمِ حدیث کے حصول میں جو توّسع وہ اپنا سکتے تھے وہ انہوں نے اپنایا۔ انہوں نے ایک مرتبہ امام احمد کے ساتھ مل کر ایک علمی سفر کیا۔ طویل سفر طے کر کے بغداد سے یمن پہنچے اور وہاں امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی سے ان دونوں بزرگوں نے بعض احادیث کی تحقیق و تحصیل کی ۔
ایک مرتبہ یہ دونوں بزرگ کوفہ گئے وہاں ایک محدث ابو نعیم فضل بن دُکین تھے۔ امام احمد نے یحیٰ بن معین سے کہا کہ یہ ایک بہت مستند راوی ہیں۔ اطمینان رکھو،مَیں نے تحقیق کر لی ہے۔ امام یحیٰ بن معین نے کہا کہ جب تک میں خود تحقیق نہ کرلوں مَیں ان کے عادل اور حجت ہونے کی گواہی نہیں دے سکتا۔ چنانچہ یہ دونوں بزرگ ان کی خدمت میں پہنچے۔اپنا تعارف نہیں کروایا اور نہ ہی اپنا نام بتایا۔جا کر صرف یہ بتایا کہ ایک علاقے سے آپ کے پاس علمِ حدیث سیکھنے آئے ہیں۔
صحیح مسلم کی ایک روایت ہے: حضورﷺ نے فرمایا کہ "من سلك طرىقا يلتمس فىه علماً سهل الله طرىقا إلى الجنة."([28]) جو شخص کسی راستے پر چلا اور اس کا مقصد علم حاصل کرنا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کے لىے جنت کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔اس سے بھی علمِ حدیث اور علمِ دین اختیار کرنے کےلىے سفر کرنا پسندیدہ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ)نے اس کو ایک پسندیدہ چیز اور جنت کا ایک ذریعہ قرار دیا ہے۔
علمِ حدیث کے لىے صحابہ کے سفر
حضرت جابر بن عبداللہؓ ایک مشہور صحابی ہیں ۔ان کو اطلاع ملی کہ رسول اللہﷺ کے ایک صحابی شام میں مقیم ہیں جن کا نام عبداللہ بن انیسؓ ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی حدیث ہے جو انہوں نے نہیں سنی۔ انہوں نے سفر کے مصارف اور زادِراہ کا انتظام کیا،اونٹ خریدا اور ایک مہینے کا سفر کر کے شام پہنچے۔ دمشق گئے،عبداللہ بن انیسؓ کے مکان کا پتہ کیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا،ملازم نکلا، اس نے اندر جا کر بتایا کہ کوئی بدو آیا ہے ،پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں،بال گرد آلود ہیں،معلوم ہوتا ہے کہ دور سے سفر کر کے آیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن انیسؓ نے کہا کہ جا کر نام معلوم کرو۔ انہوں نے کہا کہ'جابر'، عبداللہ بن انیسؓ نے ملازم سے مزید وضاحت کروائی کہ کون جابر؟ باہر سے جواب لایا گیا کہ ’’جابر بن عبداللہؓ ‘‘۔ یہ نام سنتے ہی عبداللہ بن انیسؓ تڑپ اٹھے۔اندر سے دوڑتے ہوئے نکلے،حضرت جابرؓ کو گلے لگایا،پیشانی کو بوسہ دیا اور پوچھا کہ کیسے تشریف لائے؟ انہوں نے کہا بس اتنا معلوم کرنا تھا کہ فلاں حدیث کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ وہ آپؓ کے پاس ہے۔ اس کے الفاظ کیا ہیں اور آپؓ نے رسول اللہ(ﷺ) سے کن الفاظ میں اس حدیث کو سنا تھا؟ انہوں نے دہرایا کہ ان الفاظ میں سنا تھا۔ انہوں نے کہا الحمدللہ، صرف اس غرض کے لىے آیا تھا اس کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں تھی ۔ اونٹ کی باگ موڑ لی اور واپس مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔
علمِ حدیث کے لىے تابعین کے سفر
ایک تابعی ہیں زید بن الحباب یا تبع تابعین میں سے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک روایت ملی ،جس کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کو تین بزرگوں نے روایت کیا ہے ۔ایک روایت کے راوی کوفہ میں،دوسری روایت کے راوی مدینہ میں اور تیسری روایت کے راوی مصر میں ہیں۔ مَیں پہلے کوفہ گیا۔ وہاں شیخ سے مل کر اس کی تصدیق کی اور اس روایت کو حاصل کیا۔ اس كے بعد دوسرا سفر مَیں نے مدینہ منورہ کا اختیار کیا۔ مدینہ منورہ میں جو شیخ تھے ان سے اس روایت کو لیا اور وہاں سے مصر پہنچا تو معلوم ہوا کہ جن سے ملنے آیا ہوں ان سے ملاقات کے اوقات مقرر ہیں اور ان مقررہ اوقات کے علاوہ وہ کسی سے نہیں ملتے ۔فجلست علی بابه (میں ان کے دروازے پر بیٹھا رہا)۔ جب وہ باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک بدو دروازے پر بیٹھا ہوا ہے ۔ پوچھا کہ کس لىے آئے ہو؟ بتایا کہ اس غرض سے آیا ہوں انہو ں نے حدیث پڑھ کر سنائى اور حدیث کے الفاظ کی تصدیق کی کہ یہی الفاظ تھے: "الفرق مابین صیامنا و صیام اهل الکتاب اکلة السحر.([29] )’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں اہم فرق سحری كھانے کا ہے ‘‘ اہلِ کتاب جب روزہ رکھتے تو سحری نہیں کھاتے اور ہم جب روزہ رکھتے ہیں تو سحری کھا کر رکھتے ہیں۔([30])
برصغیر میں علمِ حدیث
برصغیر میں ایک خاص دور میں علمِ حدیث پر بہت کام ہوا۔ یہ کام اتنے وسیع پیمانے پر اور اتنی جامعیت کے ساتھ ہوا کہ عرب دنیا میں بہت سے حضرات نے اس کا اعتراف کیا اور اس کے اثرات وسیع پیمانے پر دنیا میں بھی محسوس کىے گئے۔ مصر کے ایک نامور دانشور اور عالم علامہ سید رشید رضا نے یہ لکھا کہ اگر ہمارے بھائی ،برصغیر کے مسلمان نہ ہوتے تو شاید علم حدیث دنیا سے اٹھ جاتا۔ یہ اٹھارھویں انیسویں صدی کی صورتِ حال کا تذکرہ ہے۔ برصغیر کے علماء کرام نے اس دور میں علمِ حدیث کا پر چم بلند کیا جب دنیائے اسلام اپنے مختلف مسائل میں الجھی ہوئی تھی۔
برصغیر میں اسلام خلفائے راشدین کے زمانے میں ہی آگیا تھا۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانے میں مغربی ہندوستان میں بمبئی اور تھانہ میں مسلمانوں کی آبادیاں وجود میں آچکی تھیں۔ ظاہر ہے یہ سب حضرات تابعین تھے جو ہندوستان آئے اور جن کی آبادیاں برصغیر میں قائم ہوئیں۔انہی تابعین کے ہاتھوں برصغیر میں اسلام باقاعدہ طور پر داخل ہوا ۔سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے زمانے میں مسلمانوں کے قافلے یہاں آنے شروع ہوگئے تھے۔
پھر جب 92ھ میں محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں سندھ اور موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ فتح ہواتو ان کے ساتھ بڑی تعداد میں تابعین اور بعض صحابہ کرامؓ بھی تشریف لائے۔
برصغیر میں علمِ حدیث کا پہلا دور
یہ وہ دور ہے جس میں ہندى مسلمانوں کے علمی روابط دنیائے عرب کے ساتھ بالعموم اور عراق کے ساتھ بالخصوص قائم ہوئے۔ عراق کے لوگ بڑی تعداد میں یہاں آئے ۔اسی طرح دوسرے عرب ممالک سے بھی لوگ بڑی تعداد میں یہاں آ کر بسے۔ ان میں اہلِ علم بھی شامل تھے اور محدثین بھی ۔
برصغیر میں علم حدیث کا دوسرا دور
اس کے بعد جب دہلی میں مسلمانوں کی سلطنت قائم ہوئی ۔اور وہ دور شروع ہوا جس کو دورِ سلطنت کہتے ہیں۔ اس وقت بڑی تعداد میں علمائے کرامؒ برصغیر میں آئے جن میں علم ِ حدیث کے ماہرین بھی شامل تھے۔
انہی دنوں ایک بزرگ جو علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد تھے ، ہندوستان آئے اور اپنے ساتھ علمِ حدیث کے ذخائر بھی لے کر آئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد وہ ہندوستان سے واپس چلے گئے۔
موجودہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک بہٹ بڑے محدث نے،جو اس زمانے میں دنیائے اسلام میں صفِ اوّل کے چند محدثین میں سے ایک تھے، اس علاقہ کو اپنا وطن بنایا اور لاہوری کہلائے۔ انہوں نے علمِ حدیث پر جو کام کیا وہ کئی سو سال تک پوری دنیائے اسلام میں بہت مشہور و معروف اور مقبول رہا۔ ان کا اسمِ گرامی تھا امام حسن بن محمد صغانی لاہوری۔ امام صغانی لاہوری کے نام سے مشہور ہوئے۔ پھر ایک طویل عرصے کے بعد وہ لاہور سے دنیائے عرب چلے گئے اور حجاز میں سکونت اختیار فرمائی اور حرمین میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ حدیث پر ان کی کتاب ہے " مشارق الانوار النبویہ فی صحاح الاخبار المصطفویہ" جس کو مختصراً مشارق الاانوار کہا جاتا ہے۔
برصغیر میں علمِ حدیث کا تیسرا دور
دورِ مغلیہ جو دورِ سلطنت کے بعد آیا کو ہم علمِ حدیث کے اعتبار سے ایک نئے دور کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔ یہ دور دو بڑی شخصیات سے عبارت ہے۔ اور وہ دو بڑی شخصیات جن کے تذکرے کے بغیر برصغیر میں علمِ حدیث کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔اگر یہ کہا جائے کہ ان میں ایک شخصیت تو ایسی ہے کہ دنیائے اسلام میں حدیث کی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی تو درست ہے۔ ان میں سے پہلی شخصیت تو شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی ہے اور دوسری شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تذکرے کے بغیر علمِ حدیث کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے امیر المومنین فی الحدیث ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ
برصغیر میں علمِ حدیث سے اعتنا کرنے والے سو فیصد علماء براہ راست شاہ ولی اللہ کی روایت سے وابستہ ہیں۔
شاہ عبدالعزیزبن شاہ ولى اللہؒ محدث دہلوى
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نواسے حضرت شاہ محمد اسحاق تھے ۔ انہوں نے کم و بیش چالیس یا پچاس سال ہندوستان میں درسِ حدیث دیا اور ہزاروں تلامذہ ان سے درسِ حدیث پڑھ کر فارغ ہوئے۔
حضرت میاں سىد نذیر حسین محدث دہلویؒ المعروف شىخ الكل
شاہ محمد اسحاق کے شاگردوں میں بعض محدثىن حضرات بڑے نمایاں ہیں جن سے وہ روایتیں آگے چلیں جو ہندوستان کے ہر علاقے میں پھیلیں۔ان کے ایک شاگرد تھے جو شیخ الکل یعنی ہر فن کے استاد اور سب کے استاد کہلاتے تھے۔ وہ تھے میاں نذیر حسین محدث دہلوی۔ شاہ محمد اسحاق 1857 کے ہنگامہ کے کچھ سال بعد ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے۔ باقی زندگی وہیں گزاری اور وہیں ان کا انتقال بھی ہوا۔ پھر ان کے بعد ان کی جانشینی ہندوستان میں جن حضرات نے کی ان میں ایک تو میاں نذیر حسین محدث دہلوی تھے۔ اردو زبان میں حدیث کی کتابوں کے پہلے مترجم علامہ وحید الزمان ہیں جو حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ کے شاگرد ہیں۔
میاں سىد نذیر حسین کے دوسرے شاگرد تھے علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ ،یہ اتنے بڑے محدث ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے زمانے میں ان سے بڑا محدث کوئی نہیں تھا ،یا اگر تھے تو ایک دو ہی تھے ، تو شاید یہ مبالغہ ہو گا۔ انہوں نے وہ کارنامے انجام دیے جو بہت غیر معمولی تھے۔ ان کا ایک کارنامہ تو یہ تھا کہ انہوں نے ' غایہ المقصود' کے نام سے سنن ابى داؤد کی شرح لکھی جو بتیس جلدوں میں تھی۔
علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوریؒ
علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ کے ایک شاگرد اور ان کے سلسلہ کے ایک اور بزرگ علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری تھے۔ ىہ بھى صفِ اوّل کے محدث تھے ۔ انہوں نے سنن ترمذی کی ایک شرح لکھی جس کا نام ’’ تحفۃ الاحوذی‘‘ ہے۔
نواب سىد صدیق حسن خانؒ
ایک اور بزرگ جن کا تذکرہ ضروری ہے۔وسطی ہندوستان کے شہر بھوپال کے رہنے والے تھے۔ بنیادی طور پر وہ حدیث اور فقہ کے عالم تھے۔ تذکرہ اور رجال ان کا مضمون تھا۔ ان کا نام نواب سید صدیق حسن خان تھا۔ ان کی شادی شاہ جہاں بیگم والىٔ بھوپال سے ہوئی۔ چونکہ بیگم بھوپال نے ان سے نکاح کر لیا تھا اس وجہ سے ان کو نواب کا لقب ملا اور نواب صدیق حسن خان کہلانے لگے۔ اصل حکمرانی ان کی بیگم کی تھی لیکن چونکہ وہ ملکٔہ بھوپال کے شوہر تھے اس لىے ان کو بہت وسائل حاصل ہو گئے تھے۔ ان وسائل سے کام لے کر انہوں نے ایک بڑا تحقیقی ادارہ قائم کیا ۔ خود بھی کئی کتابیں لکھیں اور اپنی نگرانی میں اور بھی بہت سے کتابیں لکھوائیں۔ ان میں علومِ حدیث پر درجنوں کتابیں شامل ہیں۔([31])
علم حدیث کی کمپیوٹرائزیشن
اگرچہ تاحال علم حدیث پر بیسوں پروگرامز مرتب ہوچکے ہیں اورکمپیورز کےماہرین نےعلم حدیث کوطالبان علم حدیث کےلیے اس قدر آسان کردیا ہے کہ مہینوں کے مطالعے کا سفر گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے اور آج ایک عام طالب علم کی رسائی کمپیوٹر کےذریعے ان تمام علوم تک ہو چکی ہے جن تك عام حالات مىں ناممكن تھى۔ ڈاكٹر محمود احمد غازی کمپیوٹرائزیشن میں علم حدیث مىں زىادہ رفتار کے خواہاں تھے اور یہ خواہش رکھتے تھے کہ دوسر ے علوم کی طرح علوم حدیث میں خاص طور پر اسماء الرجال کے انڈیکس کی کمپیوٹرائزیشن کی جائے ان کے اس بارے مىں احساسات یوں ہیں :
’’ایک نیا میدان جو علم حدیث کےباب میں سامنے آیاہے اور جس پر بڑا کام ہوا ہے لیکن ابھی نامکمل ہے۔وہ حدیث کی کمپیوٹرائزیشن ہے۔ حدیث کی کمپیوٹرائزیشن پر کئی جگہ کام ہو رہا ہے ۔ آج سے بیس سال پہلے لندن میں ایک ادارہ Islamic Computing Centerکےنام سے بنا تھا۔ میں نے بھی اس کا دورہ کیا ۔وہاں کےایک صاحب یہاں پاکستان بھی آئے تھے۔ اس زمانے میں صدر ضیاء الحق صاحب سے ملے۔ اس کے بعد سعودی عرب میں یہ کام شروع ہوا۔ اس دور کے ایک فاضل ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی بھی یہ کام کر رہے تھے ۔اسی طرح سےمصر اور کئی دوسرے علاقوں میں یہ کام شروع ہوا اور بڑے پىمانے پر اس کام کے نمونے اور سی ڈیزسامنے آئی ہیں ۔
میرے اپنے استعمال میں ایک ایسی سی ڈی ہےجس میں حدیث کی پندرہ بیس کتابوں کوسمو دیاگیا ہے۔ اس میں تمام صحاح ستہ ، مسند احمد اورحدیث کی دوسری بڑی کتابیں موجود ہیں اور کمپیوٹر کے ذریعے چند منٹ میں آپ کے سامنے آ سکتی ہیں۔ چھوٹی سی سی ڈی جیب میں رکھیں اور کہیں بھی کمپیوٹرکے ذریعے اس کو دیکھ لىں۔ یہ ایک مفید چیز ہے لیکن ابھی حدیث کے متون بھی سارے کے سارے کمپیوٹرائز نہیں ہوئے۔ حدیث کی چند کتابیں ہی کمپیوٹرائز ہوئی ہیں یہ سارے بنیادی مآخذ جو بیسویں صدی میں شائع ہوئے یا اس سے پہلے شائع ہوئے لیکن زیادہ متداول نہیں تھے وہ سارے کے سارے کمپیوٹرائز ہونے باقی ہیں۔
لیکن اس سے بھی زیادہ جو مشکل کام ہے وہ رجال کی کمپیوٹرائزیشن کاکام ہے ۔چھ لاکھ افراد کے بارےمیں تفصیلات ،معلومات کے اس تمام ذخیرے کے ساتھ جو علمائے رجال اور جرح وتعدیل کےائمہ نے جمع کیاہے ،اس کو کمپیوٹرائز کرنا انتہائی اہم ،مشکل اور لمبا کام ہے ۔ اس کے لیے ایک نئے سافٹ ویئرکی ضرورت ہے ۔ ىہ سافٹ ویئر وہى بنا سکتاہے جو خود بھی محدث ہو ۔ علم حدیث بھی جانتا ہو اور پروگرامنگ بھی جانتاہو ۔‘‘([32])
حاصلِ بحث
ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک مایہ ناز سکالر اور عہد ساز شخصیت تھے ۔ آپ اسلامی و عصری علوم سے بہرہ ور تھے ۔ ڈاکٹرصاحب علوم اسلامیہ میں مختلف موضو عات پر تخصص رکھتے تھے۔ ان میں ایک علم حدیث اور علوم حدیث کا موضوع بھی ہے جسے ڈاکٹر صاحب تمام علوم کا منبع تصور کرتے تھے اورعلم حدیث کو شائع کرنے اور اس کو بنیاد بنانے پر زور دیتے تھے ۔آپ تاریخ و فقہ کا سر چشمہ بھی حدیث ہی کو مانتے تھے ۔ان کی علوم حدیث پر خدمات میں ان کے 12 خطبات جو ’’محاضراتِ حدیث‘‘ کے نام سے مرتب ہیں ان میں ڈاکٹر صاحب نے حدیث کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے اور حدیث کی ضرورت و اہمیت اور حجیت پر اپنی عالمانہ رائے دی ہے اور دلائل سے واضح کیا ہے کہ اگر دنیا پر اسلامی علم کی دھاک بٹھانی ہے تو علم حدیث ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم دوسرے علوم پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کتب حدیث اور محدثین کی جہود کو طالبان علم حدیث کے لیے مینارۂ نور قرار دیا ہے ۔ اسی طرح ورثہ حدیث کو انھوں نے مسلمانوں کا نہایت قیمتی اثاثہ شمار کیا ہے اور حدیث کے دفاع اور اشاعت پر زور دیا ہے ۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ فاطر : 35
- ↑ ۔ علی اصغر چشتی ، ڈاکٹر ، پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی شخصیت و خدمات، معارف اسلامی جنوری تا جون2011ء جلد10 شمارہ نمبر1،کلیہ عربی و علوم اسلامیہ ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد،ص:9
- ↑ ۔ غازی ،محمود احمد ، ڈاکٹر ، محاضرات حدیث (الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور،2004)، ص 32
- ↑ - ایضا، ص387 تا 390ملخصا ً
- ↑ -محاضرات حدىث: ص391۔392
- ↑ - ایضا: ص 392۔394
- ↑ - محاضراتِ حدىث، ص 394۔395
- ↑ - محاضراتِ حدىث ،ص 430۔431
- ↑ ۔ اىضاً، ص: 398،399
- ↑ -محاضراتِ حدىث، ص 400۔401
- ↑ - ایضا، ص: 425۔426
- ↑ - ایضا ، ص : 436
- ↑ - محاضرات حدىث ، ص: 267۔268
- ↑ - البقرہ :187
- ↑ -محمود احمد ، غازی ، ڈاکٹر ، محاضرات حدیث ،ص: 121
- ↑ - ایضا، ص:217۔219
- ↑ - محاضراتِ حدىث ، ص: 102
- ↑ - ایضا، ص: 159۔160
- ↑ - محاضراتِ حدىث، ص:462۔463
- ↑ - ایضاً ص:458
- ↑ - محاضراتِ حدىث، ص71
- ↑ - ایضا،ص71۔72
- ↑ - محاضراتِ حدىث، ص460
- ↑ - ایضاً، ص441۔ 442
- ↑ - محاضراتِ حدىث، 442۔443
- ↑ - ایضا، ص457۔458
- ↑ - ایضا،443۔ 444
- ↑ - مسلم، صحيح مسلم، الجامع الصحيح ، رقم الحديث:6853
- ↑ ۔ صحىح مسلم، كتاب الصىام، باب أكلة السحور، رقم الحدىث: 1069
- ↑ - ایضا، 291-323
- ↑ - محاضرات حديث، ص، 413۔438۔
- ↑ - محاضرات حديث، ص : 459۔460.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |