5
1
2021
1682060060947_2042
27-48
https://hpej.net/journals/al-tabyeen/article/view/1120/660
تمہید
بدھ مت اگرچہ الہامی مذہب نہیں، لیکن بدھ مت کی مذہبی و نظری تعلیمات امن و امان اور عفوودرگزر کی داعی ہیں۔اس کے علاوہ ہمدردی، غمگساری، دوسروں پر رحم کرنے جیسی اخلاقی صفات کا غلبہ ہے، اسى طرح ظلم وجور، قتل وغارت،سنگدلی و بے رحمی اور کسی بھی جاندار کو اذیت میں مبتلا کرنےکی بھى سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق جنگ کرنا تو در کنارمیدان جنگ کا نظارہ کرنا یا ان سپاہیوں تک کو دیکھنے میں بھی قباحت سمجھی گئی ہے جو جنگ کے لىے مستعد کھڑے ہوں،جبکہ ان کےمذہبی تعلیمات کےبرعکس بدھ مت کےحاملین نےجس طرح عصر حاضر میں روہنگیا کےمظلوم مسلمانوں کوجس بہىمت و سفاکیت کا نشانہ بنایا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ بدھ بھکشوؤں نے گوتم بدھ کی تعلیمات پر کہاں تک عمل کیا ہے؟برما کی آزادی کے ساتھ ہی بدھ بھکشوؤں نے مسلمانوں کو بدھ مت کےلىے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کی نسل کشی شروع کردی۔اور انہوں نے مساجد پر حملے کرنے، گھروں کو مسمار کرنے ،مسلم خواتین کی عصمت دری کرنے اور یہاں کی مسلم آبادی کو بے جا ہراساں کرنا شروع کیا۔جس کے باعث ہزاروں مسلمان اپنا گھربار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔تشدد کے واقعات جس کا آغاز جون ۲۰۱۲ء کو ہوا،اس میں برما کا مسلم اکثریتی صوبہ اراکان شدید متاثر ہوا۔ان تمام فتنوں اور فسادات کی ایک اہم جڑ وہاں کے متعصب بدھ بھکشو تھے۔برمامیں مسلمانوں کےخلاف مہم کی قیادت بدھسٹ مذہبی رہنماءآشین وراتھو کر رہا تھا۔اس تحریک کا نام ماباثا تحریک ہے۔اس کا مطلب نسل اور مذہب کو بچاؤ ہے۔اس تحریک کو علامتی طور پر ۹۶۹ لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ اور اس تحریک کی وجہ سے مسلمانوں کوخصوصاً مذہبی اور عموماً ہر لحاظ سے بہت نقصان پہنچا۔ روہنگیا کو سماجی، سیاسی، معاشی، اور مذہبی لحاظ سے ہر قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ ان تمام مسائل میں جو روہنگیا کے لىے بنیادی نکتہ ہے وہ ان کا مسلمان ہونا ہے۔ اور اس لىے روہنگیا مسلمانوں کے دینی تشخص کو ختم کرنے کے لىے ہر روز نئے طریقے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ان کو اجتماعی نمازوں سے روکنا، حج و قربانی سے روکنا، مذہبی تہواروں کو ادا کرنا بلکہ یہاں تک کہ مردوں کو دفن کرنے میں بھی مسائل و مشکلات پیداکرنا اور اس بات کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے الگ کیا جائے۔اس مقالہ میں روہنگیا مسلمانوں کے مذہبی مسائل اور اس کے اثرات کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔
مذہبی مسائل
اراکان برما کے چودہ صوبوں میں سے ایک ہے جہاں صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اسلام پہنچا۔ ۱۴۳۱ء سے ۴۸ مسلم حکمران گزرے جن کے عدل و انصاف او رحسن اخلاق سے اب تک دنیا محو حیرت ہے۔ ۱۷۸۴ء میں برمی راجہ بودوپایہ نے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر دی تھی، شعائر اسلام کو مٹانا اور مساجد و مدارس کو منہدم کرنا اس نے اپنا نصیب العین بنا لیا تھا۔ تمام شعائر اسلام پر پابندیاں عائد کیں۔ مثلاً حج، قربانی، اجتماعی نماز، جمعہ و عیدین نیز تبلیغی دوروں پر مکمل پابندی لگادی۔ پھر برما کی آزادی کے بعدسرکاری ملازمت ، پرمٹ کے بغیر ایک بستی سے دوسری بستی میں جانے، وعظ و تبلیغ کی مجالس، مساجد ومدارس کی نئی تعمیر، اجازت نامہ کے بغیر مسلمان لڑکیوں کی شادی اور بچوں کے اسلامی نام رکھنے تک کی ممانعت ہوگئی۔۱۹۷۸ء سے ’’مسلم ہٹاؤ پالیسی‘‘ کے تحت گنجان مسلم آبادیوں کا انخلاء حکومت کا محبوب مشغلہ بن گیا۔آپریشن کنگ ڈریگن کنگ جسے ناگا من بھی کہا جاتا ہے ، برمی فوج نے ۱۹۷۸ء میں اس ملک کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے اشتراک سے شروع کیا تھا۔
“The operation pushed between 200,000 to 250,000 Rohingya from Myanmar to Bangladesh”.[2]
’’اس آپریشن 200000سے 250000کے درمیان روہنگیا مسلمانوں کو میانمار سے بنگلہ دیش دھکیل دیا۔‘‘
روہنگیا مسلمانوں کو آج سے نہیں بلکہ کئی صدیوں سے مذہبی مسائل کا سامنا ہے۔ اور ہر نئے آنے والے دن ان کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔روہنگیا مسلمانوں کو اپنے مذہب پر چلنا اور مذہبی احکامات ادا کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ان مذہبی احکامات میں چاہے وہ اجتماعی نماز ہو ، اپنے مردوں کی تجہیز وتکفین ہو یا اپنے دوسرے مذہبی احکامات ہوں ان تمام کا ادا کرنا روہنگیا مسلمانوں کے ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ روہنگىا مسلمانوں كو درپىش بڑے مسائل كا ذكر كىا جاتا ہے:
عقیدے کی آزادی
دنیا کےتمام مہذب و جدید معاشروں میں تمام انسانوں کو اپنے مذہب کے مطابق عقائد رکھنے کی اجازت ہے۔ اور خصوصاً جہاں پر اقلیتوں میں عوام رہتے ہوں وہاں پر ان کو خصوصی قوانین کے تحت اپنے عقیدے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔مگر برما میں روہنگیا مسلمانوں کو اپنے عقیدے کی آزادی حاصل نہیں۔یہاں تک کہ ان کے مساجد ومدارس بند کر دیے گئے۔
’’ان پر مسجدوں میں باجماعت نمازیں پڑھنے کی پابندی لگادی گئی اور مساجد پر تالے ڈال دیے گئے۔‘‘[3]
روہنگیا مسلمانوں کو ان کى مساجد سے روکا جاتا ہے۔ وہ نماز باجماعت ادا نہیں کرسکتے، ان کے مدارس و مساجد کو یا تو مسمار کر دیا گیا ہے یا ان کو تالے لگا دیئے گئے ہیں۔
مساجد و مدارس اور مقابر کی مسماری
برما میں روہنگیا مسلمانوں کی دینی تشخص کو ختم کرنے کے لیے بدھ پیروکاروں اور حکومتی اہلکاروں نے مساجد و مدارس اور قبرستانوں کو تباہ کرنا شروع کیا ہے۔ اور مختلف حیلے بہانوں سے ان کو گرا کر ان پر قبضہ کر رہے ہیں۔اور مسلمانوں پر زندگی اتنی تنگ کر دی گئی ہے کہ وہ اسلامی نام تک نہیں رکھ سکتے۔
اراکان میں مسلمان اپنا نام عربی یا اسلامی نام مثلاً عبداللہ، عبدالرحمٰن وغیرہ نہیں رکھ سکتے۔[4]
پورے برما میں تقریباً پچیس سو مساجد ہیں اوراتنى ہی مساجد صرف برما کی ریاست راکھائن میں ہیں۔ ایسے ہی اسلامی مدارس بھی بہت سے ہیں ان میں شعبہ عالمیت اور فاضلىت کی تعلیم اردو زبان میں رکھی گئی ہے۔ برمی مسلمانوں کے مابین اراکانی خواتین کی پردہ نشینی کی مثال دی جاتی تھی یہ تمام چیزیں برما کے مسلمانوں کی دینی بیداری کا واضح ثبوت ہے۔ مسلمانوں كى مساجد کو مسمار کرنا اور ان جگہوں کو پگوڈوں اور سرکاری عمارات میں استعمال کرنا عام بات ہے۔
۲۷ دسمبر ۱۹۸۹ء کو ۱۱ مساجد ایک مدرسہ اور کئی مکاتب تباہ کردیئے گئے۔ اکیاب کی جامع مسجد کو پیوند زمین کردیا گیا۔ [5]
اکیاب کی جامع مسجد کے لىے وقف گراؤنڈ پر قبضہ کرکے اسے بدھوں کے حوالے کر دیا گیا تھا کہ بدھ اپنے مخصوص مذہبی تہواروں اور ناچ گانوں پر مبنی پروگرام کے لىے ہال تعمیر کرسکیں۔دراصل بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں کو اپنے دشمن سمجھتے ہیں ۔ایک برمی بدھ بھکشوانٹرویو دیتے ہوئےکہتا ہے:
“We do not think of (the Rohingya) as Muslims but as invaders. They want to take our land and rape our women.”[6]
’’ہم روہنگیا کو مسلم نہیں بلکہ حملہ آوروں کی طرح سوچتے ہیں۔ یہ ہماری زمین لینا اور ہماری عورتوں کی عزت لوٹنا چاہتے ہیں۔‘‘
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برمی حکام تمام برمی مسلمانوں کو بھی اذیت کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔برمی حکام نے ینگون کے تمام قبرستانوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ۱۹۹۱ء میں ہی وزارت دفاع کے سامنے واقع قبرستان کو پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔
“A mosque located in the Muslim section of a Mandalay cemetery was burned during communal violence.”[7]
’’مانڈلے کے مسلم علاقےمیں واقع ایک مسجدکو تشدد کے دوران جلا دیا گیا تھا۔یہ تما م کام حکومتی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ بدھ مت کی تعلیمات، اخلاقی لحاظ اور بین الاقوامی قوانین کے علاوہ اگرچہ ان کے اپنے آئین میں یہ درج ہے۔‘‘
“Every citizen is equally entitled to freedom of conscience and the right to freely profess and practice religion subject to public order, morality or health and to the other provisions of this Constitution”.[8]
’’ہر شہری آزادئ ضمیر اور آزادانہ طور پر مذہب کا نظم و نسق ، عوامی نظم ، اخلاقیات یا صحت سے متعلق اور اس آئین کی دوسری شقوں کے پابند ہونے کا بھی حقدار ہے۔‘‘
اراکان میں صدیوں پُرانی مساجد ومدارس کو مسمار کردیا گیا اور ان کے ساتھ ملحقہ زمین پر کہیں سرکاری عمارتیں تو کہیں بدھوں کے لىے پگوڈے بنائے گئے۔اور مسلمانوں سے ان کے دینی ورثہ کو چھین لیا گیا۔اور ان کے دین کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں اور ان کى مساجد و مدارس کو شہید کیا جارہا ہے۔
۵ اپریل ۱۹۹۲ء کو ایک مسجد پر فائرنگ کر کے ۲۰۰ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔[9]
بڑی تعداد میں مساجد، مدارس اور مقابر کو ملیامیٹ کردیا گیا یا نذرآتش یا پھر ان پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ۲۰۰سے زیادہ مساجد پر قبضہ کرکے ملٹری کیمپس اور اصطبل بنا دیے گئے ہیں۔مذہبی اداروں کے ساتھ وقف زمینوں کو سؤروں کی چراہ گاہوں یا پھر کیلے کے فارموں میں تبدیل کردیا گیا یا پھر شہروں میں ایسی جگہوں پر عوامی بیت الخلاء بنائے گئے ہیں۔ جون ۲۰۱۲ء کے بعد انتہا پسند بدھ اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کے دوران، ملک بھر میں ایک بڑی تعداد میں مساجد کو یا تو نقصان پہنچا یا مسمارکر دیئے گئے تھے مسلمانوں کو مسجدوں کی مرمت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
برمنائزیشن پالیسی کے تحت بوتھیڈانگ کے قبرستان پر قبضہ کرلیا گیا اور بعد ازاں اسے ہموار کردیا گیا۔مسلمانوں کو اس امر کا علم اس وقت ہوا جب وہ ایک میت کو دفنانے کے لیے قبرستان گئے ۔قبرستان پر قابض فوجیوں نے میت کو دفنانے سے بزور روک دیا اور ایک فوجی افسر نے میت کے ساتھ آنے والے مسلمانوں کو دھمکی آمیز لہجے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:
’’اگر مسلمان برما میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے طور طریقوں اور مذہب کو خیرباد کہنا ہوگا اور بدھ اکثریت کی طرح اپنے مردوں کو دفن کرنے کی بجائے نذر آتش کرنا ہوگا “۔[10]
برمیوں کے بقول مردوں کو دفنانے کی وجہ سے بہت سی قیمتی زمین ضائع ہو جاتی ہے جو کہ قومی دولت کا زیاں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ برما میں لاکھوں ایکڑ زمین بغیر کاشت کے بنجر پڑی ہے اور مردوں کو جلاتے وقت ٹنوں کے حساب سے قیمتی ایندھن ضائع ہوتا ہے۔مسلمانوں کے قبرستانوں کواور ان کے آباؤ اجداد کے آثار مٹا ڈالنے کی غرض سے تھانوں اور کچہریوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔[11]
برمی فوج اور بدھ بھکشو روہنگیا کے ایسے دشمن ہیں کہ ان کو ہر طرح سے ان کے مذہب سے دور کرنے اور مذہبی احکامات ادا کرنے سے روکنے میں سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اور ان پر ہر طرح سے مظالم ڈھا رہے ہیں۔اور ان تمام مظالم میں سختی اور تیزی جنرل نیون کےدورِ اقتدار سے شروع ہوئی ہے۔
جنرل نیون کا دور اور مسلمان
جنرل نیون اشتراکی نظام سےبےحدمتاثر تھے، اور وہ برما میں لاگو کرنا چاہتے تھے۔جبکہ اشتراکی نظام میں سب سے پہلے مذہب کی بیخ کنی کے لىے اقدامات کئے جاتے ہیں۔اور نیون دورمیں بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ اور برمی حکمرانوں نے مسلم دشمنی کے پیش نظر بدھوں کواس مہم سے مستثنیٰ قرار دے دیا اور مسلمان اس پالیسی کی زد میں آگئے۔اس کے چند چیدہ نکات درجہ ذیل ہیں۔
قربانی پر پابندی
اگرچہ قربانی پر پابندی کا آغاز اُونو کے دور میں ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے اشارے پر ہوا تھا۔اس معاملے میں بہت زیادہ سختی جنرل نیون کے دور میں برتی گئی۔استدلال یہ پیش کیا گیا کہ جانور اور مویشی ملک کی دولت ہیں۔ قربانی کے ایام میں چونکہ بہت زیادہ تعداد میں مویشی ذبح کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ملک میں جانوروں کی قلت پیدا ہو جاتی ہے لہٰذا قربانی نہ کی جائے۔ جبکہ مذہبی آزادی کا مظاہرہ ثابت کرنے کے لیے حکومت نے چند بڑے شہروں کی حد تک بہت ہی محدود پیمانے پر قربانی کے لیے پرمٹ جاری کرنے کا اعلان کیا۔
۶ جولائی ۱۹۹۰ء کو مسلمانوں کے قربانی کے ہزاروں جانور ضبط کرلیے گئے کچھ افراد سے بھاری رشوت لے کر ان کے جانور چھوڑ دیے گئے۔ [12]
حاصل کردہ اجازت ناموں کے حامل افراد میں سے دس فیصد لوگوں کو بمشکل اجازت ملی جس کے لیے بھی رشوت دینی پڑی۔ اب جو افراد اس میں کامیاب ہو ئے انہیں پولیس نے تنگ کرنا شروع کیا۔ پولیس والوں کے خلاف عدالت میں فریاد لےکر جانے والوں کو یہ جواب ملتا کہ ہمارا جو کام تھا ہم نے کردیا ۔اب تم پولیس والوں کو راضی کرکے قربانی کر لو۔
حج پر جانے کی ممانعت
آزادی کے بعد برمی مسلمانوں کی تعدادحج پر جانے كے لحاظ سے کم تھی، لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ تعداد میں برمی مسلمان حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کر لیتے۔لیکن جنرل نیون کے دورِاقتدارمیں آنے کے بعد حکومت نے حج پر پابندی لگادی اور عذریہ پیش کیا کہ اس سے زرِ مبادلہ ضائع ہوتا ہے۔"سعودی حکومت حاجیوں کے ہر سال اعدادوشمار جاری کرتی ہے ۔ ۱۹۶۲ء سے ۱۹۸۰ء تک ان اعداد و شمار کے مطابق برما سے کوئی مسلمان حج پر نہیں گیا۔"[13]
تمام تر کوششوں کے باوجود ان اُنیس سالوں میں برما سے کوئی بھی مسلمان فریضہ حج کے لىے نہیں گیا۔ اور نہ ہی کسی مسلمان نے کوئى عمرہ ادا کیا۔
اسلامی لٹریچراور قرآن کی اشاعت پر پابندی
ایک عرصہ تک اسلامی لٹریچر کے شائع کرنے اور بیرون ملک سے منگوانے پر پابندی عائد رہی۔تاہم کچھ عرصہ قبل بیرونی دنیا کے دباؤ کے نتیجے میں برمی زبان میں ترجمہ کے ساتھ کچھ قرآن مجید شائع ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد مقامی آبادی سے بےحد کم ہے۔ مذہبی کتابوں کی اشاعت کے لىے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے۔ بعد ازاں اس کی رجسٹریشن کروانی پڑتی ہے۔
"دوسرے ممالک سے اسلامی کتب بھی منگوانے کی ممانعت ہے۔"[14]
باہر سے مذہبی کتابوں کے لانے پر پابندی عائد ہے ۔ لیکن مولانا مودودیؒ کی کتاب "دینیات" کا ترجمہ بھرپور کوشش کے بعد شائع کیا گیا ہے۔
عبادت گاہوں کی تعمیر کی آزادی
عالم جدید میں تمام انسانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادت کریں۔ اور اس کے لىے ان کو اس کی اجازت ہوتی ہے کہ اپنے مذہب کے مطابق اپنے لىے عبادت گاہیں تعمیر کریں۔ اور ان عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق اپنے مذہبی احکام و رسوم ادا کریں۔لیکن اس کے برعکس برما میں روہنگیا مسلمانوں کو اپنے مذہبی احکامات کو ادا کرنے کے لىے عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہیں، بلکہ جو عبادت گاہیں آباد ہیں ان کی چھوٹی موٹی مرمت کی بھی اجازت نہیں۔روہنگیا کو نئى مساجد بنانے کی قطعاً اجازت نہیں۔ پرانے مساجد کی مرمت وغیرہ کی اجازت بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔[15]
روہنگیا کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے لىے نئى مساجد یا مدارس تعمیر کریں۔ اور پرانی آباد مساجد میں بھی كسى قسم كى تعمیر کی اجازت بہت مشکل اور رشوت دے کر ملتی ہےجوتقریباً نہ ملنے کے برابر ہوتی ہے۔
نمازوں میں مداخلت
مسلمانوں کی دینی زندگی پر یلغار جاری رکھی گئی ہے نماز پڑھنے والا شخص حکومت کی نظروں میں سب سے بڑا مجرم ہوتاہے۔مسلمان سرکاری ملازم جمعہ کی نماز نہیں پڑھ سکتاہے۔ عام لوگوں کو بھی گوناگوں ہتھکنڈوں سے روکا جاتاہے۔ نماز جمعہ کے وقت علاقہ مجسٹریٹ جامع مسجد کے احاطے میں اپنا دربار لگا لیتااور مختلف مقدمات کی سماعت شروع کر دیتا۔ اگر کوئی دربار سے اٹھ کر نماز پڑھنے جائے تو مجسٹریٹ پوچھتا ہے کہ نماز زیادہ ضروری ہے یا ہمارا دربار؟ جواب میں اگر وہ نماز کو ترجیح دیتا تو اسے مار مار کر لہولہان کردیا جاتاہے۔
تبلیغ کی ممانعت
مسلمانوں کو تبلیغ کے لیے ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ جانے کی اجازت کے بجائے پابندی عائد کردی ہے۔ وقف املاک اور قبرستانوں کو ضبط کرکے غیر مسلموں کے حوالے کردیا گیا، علماء کی بےعزتی کی جاتی ہے، انہیں گالیاں دی جاتیں ہیں۔ مارا پیٹا جاتا اور لیبر کیمپ میں کام کیلىے مجبور کیا جاتاہے۔ سپاہی اکثر و بیشتر مساجدمیں داخل ہوجاتےہیں۔ وہاں بیٹھ کر شراب پیتے اور سور کو مسجد میں لاکر رکھا جاتا ہے۔کوڑا کرکٹ اور پتھر مسجد میں پھینکے جاتےہیں۔ لاوڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔مسلمانوں کےمدارس کے انتظامی کام میں مداخلت کرتے اور مساجد کو اپنے حکم کے مطابق چلاتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ روہنگیا مسلمان اپنے دین کا پرچار نہیں کرسکتے۔ روہنگیا پر پابندی ہے کہ وہ تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اور علماء سے حکومتی اہلکاروں کو شدید نفرت ہے۔
قومی شہریت(NRC[16])کا کھیل
NRC یعنی National registration card کا سسٹم جاری کرکے مسلم پردہ نشین خواتین کے نصف بدن کھلوا کر تصویریں اتاری جاتی اور بندرگاہوں میں آمدورفت کے موقع پر برقع اور بدن کے کپڑے کھلوا کر شناختی کارڈ میں درج نشان دیکھنے کے بہانے سے انہیں برہنہ کیا جاتاہے۔ غیرت مند حساس عورت اگر پولیس والوں کی فرمائش کی تعمیل میں پس و پیش کرتی تو اسمگلنگ کرنے کے الزام میں زبردستی کپڑے اور برقع خود پولیس والے اتار لیتےہیں۔جس بستی کی شامت آ جاتی تو اس بستی کے جوانوں، بوڑھوں، عورتوں، بچوں اور حتیٰ کے بیماروں تک کو نہیں بخشتے۔ " ان سب کو حوالات میں گائیوں بھینسوں کی طرح ٹھونس دیا جاتا۔یہ حوالات کم اور گھوڑوں کا اصطبل زیادہ ہوتے تھے۔"[17]
امیگریشن والے مسلم آبادی میں داخل ہوجاتے اور ہلچل مچا دیتےہیں۔ رات کو مسلم بستیوں کا محاصرہ کیاجاتاہے۔ اب یہ اہلکار بستی میں گھس جاتےہیں جو گھر سے نکلتاہے بند کر لیا جاتاہے۔کوئی نماز پڑھنے کے لىے مسجد میں جا رہا ہوتاہے۔ کوئی رفع حاجت کے لىے گھر سے کچھ دور جنگل میں جا رہا ہوتا تھا،کوئی اپنی کسی اور ضرورت کے لىے نکلتاہے، عرض کسی کو بھی معاف نہیں کیا جاتا ہے۔مسلم خواتین کو اجنبی مردوں کے ساتھ رکھا جاتا۔ پردہ نشیں خواتین کی بے پردگی کی جاتی ہے،ان تکالیف میں بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کے کراہنے سے قیامت کا سماں پیدا ہو جاتاہے۔
قانون فسخ نکاح اور شادی کے قوانین
مارچ ۱۹۵۳ء میں "قانون فسخ نکاح مسلمانان برما" منظور ہوا جس کی رو سے مسلمان عورتوں کو بدھ عورتوں کے مساوی حقوق مل گئے یعنی اپنے خاوندوں کو طلاق دینے کا مساوی موقع اور فسخ نکاح کے بعد شادی کا جہیز اپنی ملکیت میں رکھنے کا حق۔ یہ مسلمانوں کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت تھی کیونکہ اس حوالے سے اسلام میں واضح احکامات موجود ہیں۔ یہ بھی مسلمانوں کے دینی امور میں مداخلت کرنا اور ان میں بگاڑ پیدا کرنے مترادف ہے۔
اس کے علاوہ ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کر پاتے اور شادی کی منظوری کے لیے ہزاروں روپے رشوت دینا پڑتی ہے۔جبکہ دوسری طرف اراکان میں نکاح شادی کے حوالہ سے جو نئے قوانین نافذ کیے گئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
- نکاح سے قبل باقاعدہ درخواست دے کر منظوری لینا پڑتی ہے۔ جس کی کم از کم فیس پچاس ہزارکیات ہے۔
“In general, most Rohingya couples must pay a substantial amount of money to the NaSaKa*, varying from 50,000 to 300,000 kyat”.[18]
’’عام طور پر اکثرر روہنگیا جوڑےکو ناساکا کو کافی رقم ادا کرنا پڑتی ہے ، جو۵۰،۰۰۰ سے۳۰۰،۰۰۰ کیات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ‘‘
- شادی کے لیے کم از کم عمر لڑکی کے لیے پچیس برس ہے جبکہ اراکانی مسلمان اپنی بچیوں کو عصمت دری سے بچانے کے لیے بالغ ہونے کے فورًا بعد ان کی شادی کر دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
- طبی علاج و معائنہ کے نام سے جوان لڑکی کو حکومت کے مقرر کردہ تھانہ یا ادارہ میں ہفتے دو ہفتے تک تنہا رہنا پڑتا ہے۔
- کسی مجبوری کے تحت بھی مسلمان کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ملتی۔
- بیوی فوت ہوجانے پر ایک سال تک دوسری شادی کرنے کی ممانعت ہے۔
ان تمام پابندیوں اور قوانین کی وجہ سے روہنگیا مسلمان كو شادی کے لىے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ روہنگیا جو کہ عمومی طور پر غریب ہوتے ہیں۔ اور یہ تمام قوانین پورے نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے وہ غیر شادی شدہ رہتے ہیں۔
برمامیں فرقہ ورانہ فسادات
برما فرقہ ورانہ تشدد کی لپیٹ میں ہے اور اس کی اىك مثال رنگون کے شمال میں سینکڑوں دیہاتوں میں پھیلا تشدد ہے، جہاں فتنہ و فساد میں دو افراد ہلاک جبکہ۱۰۰ سے زائد گھر، دکانیں اور مساجد تباہ کر دئے گئے۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اوکن کے علاقے میں فرقہ ورانہ فسادات اُس وقت بھڑک اٹھے جب سائیکل پر سوار ایک مسلمان بچی بدھ مت کے ایک مذہبی پیشوا سے ٹکرا گئی۔ ٹکر کے نتیجے میں مذہبی پیشوا کے ہاتھ سے پیالہ چھوٹ کر گرا اور ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد ارد گرد کے گاؤں میں بسنے والے لوگوں نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اوکھن میں ہونے والے فسادات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان ہونے والے معمولی تنازعات بھی فسادات کی چنگاری بھڑکا سکتے ہیں۔[19]
میختیلا*میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے ۱۰،۰۰۰ سے زائد مسلمانوں کو اپنے گھربار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ انہیں یہ عارضی کیمپ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا ان مسلمانوں کی حفاظت کے پیش ِنظر کیا گیا ہے۔میختیلا میں ابھی تک فرقہ ورانہ فسادات کے نشانات باقی ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میختیلا میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں میں ایک اسلامی سکول کے ۴۰ بچے بھی شامل تھے۔فِل روبرٹسن ہیومن رائٹس واچ میں ایشیا کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کے الفاظ میں:
’’ایسا لگتا ہے کہ آج کی حقیقت یہی ہے کہ برما میں فرقہ ورانہ تشدد ہورہاہے۔ پولیس وہیں ہوتی ہے مگر اسے روکنے کے لیے کوئی کوشش یا اقدام نہیں اٹھاتی۔ بالآخر، کچھ عرصے بعد فوج کو آنا پڑتا ہے۔ یہی مسئلہ ہم نے اراکان کی ریاست میں دیکھا۔ اب یہی مسئلہ وسطی برما میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔‘‘[20]
دنیا میں تمام مسائل کے کچھ اسباب ہوتے ہیں اور اسی طرح روہنگیا مسلمانوں کے مذہبی مسائل کے بھی کچھ اسباب ہیں جن کا ذکر درجہ ذیل کیا جاتا ہے۔
اراکان میں مسلمانوں پر ظلم اور ان کے مسائل کے اسباب
دنیا میں جب بھی کوئی مسئلہ جنم لیتا ہے تواس مسئلے کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ ایسے ہی برما میں روہنگیا مسلمانوں کے مذہبی مسائل کے بھی کچھ اسباب ہیں جن کی وجہ سے روہنگیا مسلمانوں کو مذہبی مسائل سے دوچارہونا پڑا۔ ان میں سب سے زیادہ اہم کردار آشین وراتھو کا ہے۔ جو بدھوں کا ایک مذہبی رہنما ہے۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
آشین وراتھو اور اس کی حقیقت
بدھ مت اپنے امن پسند عقائد کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بدھ مت کے پیروکاروں کو سختی سے ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ چلتے ہوئے اپنے پاؤں بھی زمین پر زور سے نہ رکھیں تاکہ زمینی کیڑے مکوڑے کچلےنہ جائیں۔ خود اس مذہب کے بانی گوتم بدھ نے دنیا میں ناانصافی، بے رحمی اور ظلم ہوتا دیکھ کر ایک طویل عرصہ تک سکون اور امن کی تلاش میں ویرانوں اور جنگلوں میں ریاضت کی اور اپنی تعلیمات میں بھی امن پسندی کا پرچار کیا۔ لیکن میانمار میں بدھ بھکشوؤں کے موجودہ مذہبی رہنما کے طور پر شہرت رکھنے والے آشین وراتھوکے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور ان کے خلاف بدھوں کے دل و دماغ میں بھی نفرت کے بیج بوتا ہے۔ آشین وراتھو کی تعلیمات اپنے مذہب کے بانی رہنما گوتم بدھ کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہیں۔ ۱۰ جولائی۱۹۸۸ء کو مانڈلے کے قریب "کیاوسکے" کے علاقے میں پیدا ہوا۔وہ ایک قوم پرست برمی بدھ بھکشو اور برما میں مسلم مخالف تحریک کا رہنما ہے۔ ۲۰۰۱ءمیں اس نے تحریک ۹۶۹ میں شمولیت اختیار کرلی۔ ۹۶۹ان کے مذہب بدھ مت کے بانی رہنما گوتم بدھ کا دیا ہوا عدد ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ۲۱ویں صدی میں بدھ مت کا خاتمہ ہو جائے گا۔چونکہ ۷۸۶ کا عدد ۲۱ بنتا ہے لہٰذا مسلمان ۷۸۶کا عدد اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ ۲۱ویں صدی میں بدھ مت کو ختم کیا جاسکے۔تحریک ۹۶۹ میں شمولیت کے بعد اس کو متنازع تقاریر سے شہرت ملی۔ لیکن اس کی تقاریر اور بیانات کو تنقید کا سامنا بھی رہا۔
۲۰۰۳ءمیں اس کی تقریروں کی بنیاد پر ۲۵ سال کی قیدہوئی۔ مگر۲۰۱۲ء میں صرف ۹ سال بعد ہی اسے جیل سے رہا کردیا گیا۔[21]
آشین وراتھو اور اس کی ۹۶۹ نامی تنظیم بدھ انتہا پسندی کو تربیت دینے میں خاصی بد نام ہے۔
"آشین وراتھواور اس کے پیروکاروں کو بدھسٹ کہنے کی بجائے مسلمان اقلیت کا دشمن کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔"[22]
یقیناً ایک مذہبی رہنما نسلی اور مذہبی فسادات کو بھڑکانے یا انہیں روکنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ اب اس کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ خون ریزی کو شعار بنائے یا انسانی خون کی قدر و قیمت سے اپنی قوم کو روشناس کرائے۔ برما کے بدھسٹ مذہبی رہنماء بدھ مت کی تعلیمات کے عین برعکس مذہبی منافرت پھیلانے میں کافی سرگرم ہیں۔۹۶۹ کے نام سے موسوم ایک مذہبی انتہا پسندتنظیم قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے۔ یہ تنظیم مذہبی منافرت، نسلی تعصب، عدمِ رواداری اور انتہا پسندی کی ایک علامت بن گئی ہے۔آشین وراتھو کا کہنا ہے کہ میانمار کے مسلمان میانمار کے ذخائر اور وسائل پر اپنا قبضہ بڑھا رہے ہیں۔اور اپنی قوت میں اضافہ کر رہے ہیں۔مسلمانوں کے طاقت میں آنے کا مطلب میانمار میں بدھ پیروکاروں کا صفایا ہے۔اس بیان کے بعد وراتھو نے بدھ پیروکاروں کو مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا۔ آشین وراتھو نے اپنی نفرت آمیز تقاریر میں روہنگیا مسلمانوں کیخلاف زہر افشانی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ وراتھو نے برمی مسلمانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا:
“Ashin Wirathu has compared Muslims to “mad dogs,” labeled the Rohingya “the enemy”.[23]
’’آشین وراتھو نے روہنگیا کو "دشمن" کا لیبل لگاتے ہوئے ، مسلمانوں کو "پاگل کتوں" سے تشبیہ دی ہے۔‘‘
نفرتیں بانٹنے اور اشتعال انگیزی کو ہوا دینے میں مذکورہ راہب نے ایسی بدنامی پائی ہے کہ ٹائم میگزین نے جولائی ۲۰۱۳ء میں اپنے سر ورق پر اس کی ایک تصویر شائع کی اور اس پر یہ سرخی جما دی۔The face of Buddhist terror[24] "بدھ مت میں دہشتگردی کا چہرہ" آشین وراتھو ایسی کئی ریلیوں کی سربراہی بھی کر چکا ہے جن کا مطالبہ یہ تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کو کسی دوسرے ملک بھیج دیا جائے۔
مذہبی تعصب
برما میں بدھ بھکشو کے موجودہ روحانی رہنما آشین وراتھو کا اور اس کی تنظیم کا عقیدہ ہے کہ مسلمان جہاں دیکھو اسے مارو اور صرف مارو نہیں بلکہ پُر تشدد طریقے سے مارو۔ اس ضمن میں وہ اپنی تنظیم کو مختلف غیر انسانی اور اذیت ناک نت نئے طریقے بھی سکھاتا ہے، جان لینے کے یہ طریقے انسانیت سے اس قدر گرے ہوئے ہیں کہ سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ میانمار میں اس تنظیم کو بنیاد پرست تصور کیا جاتا ہے ۔
میانمار حکومت آشین وراتھو کے مسلمان دشمن عزائم جاننے کے باوجود اس کی سرپرستی کرتی رہتی ہے اور اس کی نفرت انگیز اور تشدد پر ابھارنے والی تقریر باقاعدہ نشر ہوتی رہی ہیں ۔[25]
دوسری طرف حکمران پارٹی کی رہنما اور امن کا نوبل انعام جیتنے والی برما کی آنگ سان سوچی کی پراسرار اور معنی خیز خاموشی اس بات کی گواہی رہى ہے کہ اسے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور بے گناہ جانوں کے ضیاع پر قطعاً کوئی افسوس نہیں ہے ۔
969تحریک
اس تحریک کے یہ تین عدد"969"بدھ کے فضائل، بدھ مت رسومات اور بدھ برادری کی علامات ہیں۔ اس تحریک کا قائد آشین وراتھو ہے۔ اس تنظیم کا سیاسی نظریہ اسلام کی اشاعت و ترقی روکنا اور بدھ مت کا احیاء ہے۔ پہلا ہندسہ ۹ گوتم بدھ کی نو خصوصی صفات کی علامت ہے ، اور ہندسہ ۶ اس کے مذہب کی چھ خصوصی صفات اور آخری ہندسہ ۹بدھ سنگھ (راہب برادری) کے نو خصوصی اوصاف کی نمائندگی کرتا ہے۔
کئی تنظیموں اور مختلف ذرائع ابلاغ نے اس 969 تحریک کو "اسلاموفوبیا" یا مسلم مخالف قرار دیا ہے۔[26]
لیکن بدھ مت حامی اس سے انکار کرتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ بھکشو آشین وراتھو کی تحریک راکھائن کے بھکشوؤں کو بنگالیوں کی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کی تحریک ہے۔
“If we are weak, our country will be Muslim. We must take care of our religion and our race. That is more important than Democracy”.[27]
’’اگر ہم کمزور ہوئے تو ہمارا ملک مسلمان بن جائےگا۔ہمیں اپنے مذہب اور اپنی نسل کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ جمہوریت سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
یہ سراسر جھوٹ ہے۔ جبکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ اسلام مخالف ایجنڈے پر مبنی تحریک ہے ۔ جس کا عملی مظاہرہ مسلمانوں کے قتل عام ،تشدد ، اور خواتین کی عصمت دری کی صورت میں آج دنیا کے سامنے ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار دی انڈیپنڈنٹ (The Independent)نے انہی مظلوموں میں سے ایک مظلوم کی درد بھری روداد کچھ یوں نقل کی ہے:
’’عبدالرحمان نامی اس روہنگیائی مسلمان کا کہنا ہے کہ چٹ پئین (Chut Pyin*)گاؤں میں بہت سے روہنگیائی مسلمانوں کو بانس سے بنی کٹیا میں بند کر دیا گیا اور پھر اسے آگ لگائی گئی۔ میرے بھائی کو دوسرے افراد کے ساتھ اجتماعی طورپر زندہ جلایا گیا۔ میں نے دیگر اہلِ خانہ کو کھیتوں میں مقتول پایا جن کے جسموں پر گولیوں اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگے گہرے گھاؤ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ میرے دو بھتیجوں کے سر کاٹے گئے تھے ان میں سے ایک کی عمر محض چھے سال کی تھی اور دوسرے کی نو سال۔ میری سالی کو گولیوں سے چھلنے کر دیا گیا تھا۔‘‘[28]
روہنگیا مسلمانوں کو جتنے بھی مذہبی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے زیادہ تر اسباب بدھ مت کے مذہبی رہنماؤں کی وجہ سے ہیں۔ ان کی نفرت انگیز تقریروں نے بدھ برادری کے دلوں میں انتہائی نفرت اور روہنگیا کے لىے حقارت پیدا کی ہے۔ ان تمام مسائل سے جو برمی معاشرے میں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان کا جائزہ درج ذیل مىں پیش کیا جاتا ہے۔
روہنگیامسائل کےاثرات
ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہے کہ سکون و اطمینان کی زندگی گزارے۔ اس کے باوجود ہر دور میں اور ہر مقام پر سماج میں اپنے اىسے ناسور موجود ہیں جو انسانوں کی فطری خواہشات کے خلاف سرگرم رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو متشدد افکارونظریات ہیں تو دوسری وجہ اقتدار کی ہوس ہے ۔لہٰذا وہ کسی نہ کسی بہانے امن وامان غارت کرتے رہتے ہیں ۔سکون و اطمینان انسانوں کو میسر آئے اس کے خلاف سرگرم رہتے ہیں، ساتھ ہی اپنے پسندیدہ عمل کو انجام دینے کے لیے جھوٹ وفریب اور ظلم و زیادتیوں کا سہارا لیتے ہیں۔موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان دنیا کے دہشت گرد بڑی سرعت کے ساتھ مسائل پیش کرتے رہتے ہیں۔مذہبی نوعیت کے پر تشدد واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ امن و محبت اورروحانیت کا پیغام دینے کے بجائے بہت سےمذہبی رہنما اب نفرتوں کی تبلیغ کررہے ہیں۔
1990ء کی دہائی سےروہنگیا نہ صرف سیاسی اور معاشی امتیازی سلوک کا شکار ہوئے ، بلکہ مذہبی طور سے انھیں انتہا پسند بدھ تحریکوں کے ذریعہ پھیلائے جانے والے مسلم دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔
“The 969 Movement enjoyed the support of senior government officials and some members of the NLD”.[29]
’’969 تحریک کو سینئر سرکاری عہدیداروں اور این ایل ڈی کے کچھ ممبروں کی حمایت حاصل ہے۔
میانمار میں مسلمانوں کو نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی کا بھی سامنا ہے اور اس پابندی کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ دھمکیاں، خوف، تفریق، شہریت نہ دینے اور مذہبی آزادی سلب کرنے جیسے اقدامات بھی میانمار کے مسلمانوں کی زندگیوں میں کئی طرح کی مشکلات کا باعث ہیں۔ اس صورت حال میں اگست ۲۰۱۷ء میں راکھائن ریاست میں روہنگیا کے خلاف شروع کیے گئے عسکری آپریشن سے مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔واضح رہے کہ اگست ۲۰۱۷ءکے آخر میں راکھائن ریاست میں شروع ہونے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچے تھے، جو وہاں مختلف مہاجر بستیوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آزادی کے بعد حکومت نے زمینیں سرکاری تحویل میں لینے کی آڑ میں سینکڑوں دینی مدارس اور مساجد کی وقف زمینیں ضبط کر لیں جن میں منگڈاؤ جامع مسجد کی بہت بڑی زمین بھی شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثر مسجدیں ویران اور مدارس بند ہوگئے۔
مسلمانوں کی گنجان آبادیوں کے درمیان طے شدہ پروگرام کے تحت غیر مسلموں کو بسایا گیا اور مسلمانوں سے زمینیں چھین کر ان میں تقسیم کی گئیں جس سے بہت سے علاقوں کے مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور اس طرح مسلمانوں کی اجتماعیت کو جان بوجھ کر بکھیر دیا گیا۔[30]
1990ء میں منگڈاؤ ٹاون میں مسلمانوں کی سینکڑوں دکانیں چھین لی گئی اور مساجد وتبلیغی مراکز بند کرادیئے گئے ،مسلمان اس تمام عرصہ میں ظلم وستم کی چکی میں پس ہی رہے تھے کہ اچانک۱۶مارچ۱۹۹۷ء کودن دیہاڑے بے لگام شدت پسندبودھ صوبہ راکھائن کے مسلم اکثریتی علاقے مانڈلےمیں داخل ہوگئے اور قتل و غارت گری شروع کردی جس کے نتیجے میں متعدد مسلمان شہید،سینکڑوں گھر ومساجد مسمار اور ہزاروں کتب کو نذر آتش کردیا گیا ،۱۲جولائی ۲۰۰۱ء ایک مرتبہ پھرسفاکیت دندنانے لگی،شدت پسند بدھوں نے ایک مسجد کے معصوم نمازیوں پر حملہ کرکے فسادات کو ایک مرتبہ پھر ہوا دی ،ان فسادات کے نتیجے میں گیارہ مساجد شہید،چار سو گھر نذر آتش اور سات سو مسلمان شہید کردیئے گئے۔
ایشین کوریسپانڈنٹ" اخبار نےبرمی حقوق انسانی کے حوالے سے اپنی خبر میں لکھا ہے کہ :
’’گزشتہ برس ینگون شہر سے منسلک تھرکیٹہ قصبے میں گھر سے باہر با جماعت نماز ادا کرنے پر جرم قبول کیے جانے والےمسلمان شہریوں کو سزائے قید صادر کی گئی ہے۔‘‘[31]
اسی خبر کے مطابق قصبے میں گزشتہ برس ماہ اپریل میں انتہا پسند بدھ متوں نے مسلمان اسکولوں میں با جماعت نماز کی ادائیگی پر اسکولوں پر دھاوا بول دیا تھا جس پر ان اسکولوں پر مہر لگا دی گئی تھی۔
بنیادی انسانی حقوق میں شامل عبادت کرنے کی آزادی پر پابندی عائد کیے جانے والے علاقے میں موزوں مقام پر باجماعت نماز پڑھنے کی ممانعت ہے تو عبادت گاہوں کی تعمیر کرنا بھی منع ہے۔[32]
برمی حقوق انسانی کے نیٹ ورک کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر قصداً پابندی عائد کی گئی ہے اور ان افراد کو کسی بھی مقام پر عبادت ادا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔راکھائن کے سٹوے (اکیاب)شہر میں حکومت کی سخت نگرانی میں مسلمانوں نے ۱۸۷۸ءمیں تعمیر کردہ تاج الدین جامع مسجد میں نماز ِ عید ادا کی۔
نماز کے بعد راکھائن سمیت بدھ مت گروہ کی جانب سے قتل کیے جانے والےمسلمانوں اور دنیا کے دیگر ملکوں میں مظالم تلے زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔[33]
اراکان میں نسلی فسادات کی ایک لہر فروری ۲۰۰۱ء میں پھوٹ پڑی۔ یہ فسادات اراکان کے شہرسٹوے(اکیاب) میں ہوئے، بدھ مت کے پیروکاروں نے برمی پولیس فورس اور فوج کی پشت پناہی میں تین بڑے مسلم اکثریتی علاقوں اوہ منگلہ، ناظرپاڑہ اور مولوی پاڑہ کو آگ لگا دی، جس میں ایک طرف املاک اور اثاثوں کو نقصان پہنچا تو دوسری طرف ڈیڑھ ہزار مسلمان مارے گئے۔
’’راکھائن میں"۹۶۹"بدھ تنظیم روہنگیا کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اور میانمار کی حکومت اور فوج اس تنظیم کی دہشت گرد کارروائیوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔‘‘[34]
ان تمام مظالم سے تنگ آکرصرف ۱۹۹۱ء میں پانچ لاکھ اراکانی مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی جن میں سے اب بھی تین لاکھ روہنگیا اراکانی مہاجرین کیمپ میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ۳ جون ۲۰۱۲ء میں برمی حکومت نے پھر روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا جو تاحال وقتاً فوقتاً اندرونی طور پر جاری ہے۔ اس دوران کم و بیش ایک لاکھ اراکانی مسلمان شہید ہوئے، تین لاکھ بے گھر ہوئے اور پندرہ لاکھ اراکانی مسلمان متاثر ہوئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ستائی ہوئی قوم اراکانی روہنگیا مسلمان ہیں۔اس کے علاوہ وہاں کے علماء کرام اور دینی رہنماؤں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ "دو سال قبل برما واپس جانے والے چند جید علماء اور قدآور حضرات کو حکومت نے جولائی ۲۰۰۰ء میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔"[35]
ان گرفتاریوں کا آغاز مولوی علی احمد کی گرفتاری سے ہوا ، انہیں مجاہد اور دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا تھا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اراکان کے مدارس عربیہ کے لیے یہ قانون جاری کیا گیا ہے کہ روزانہ دو مرتبہ طلبہ اور علماء کی فہرست اور رپورٹ فوج کو پہنچائی جائے، جو غیر حاضر ہوتا ہے اس پر دہشت گرد یا باغی کا الزام لگ جاتا ہے، دوبارہ اس کا داخلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ علماء و مشائخ کے مواعظ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔روہنگیا مسلمان ایسے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں دنیا کا کوئی بھی مہذب انسان زندگی نہیں گزار سکتا۔ روہنگیا مسلمانوں کی زندگی انتہائی اذیت میں گزر رہی ہے۔ جہاں روہنگیا مسلمان اپنے دین پر چلنے سے بھی قاصر ہیں۔ جہاں وہ اسلام کے بنیادی احکامات بھی ناممکن حد تک مشکل میں ادا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کو روہنگیا مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے لىے برمی حکومت سے حکومتی سطح پر سہولیات فراہم کرنے کے لىے اپیل کرنا چاہیئے۔۔ کیونکہ یہ اقوام متحدہ کا زریں اصول ہے کہ اقلیتوں کو مذہبی آزدی ملنی چاہیئے۔
آسیان کو بھی یہاں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ رکن ممالک میں روہنگیامہاجرین کی یکساں تقسیم ، مہاجرین کی واپسی کے لىے ایک ٹائم لائن ، اور میانمار پر تنازعہ حل کرنے کے لىے دباؤ کے ذریعے بحران سے نمٹنے کے لىے ایک طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری ان ممالک کو مالی امداد اور قرض دے کر بھی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے جو مہاجرین کو رہائش فراہم کریں گے۔
خلاصۂ بحث
مىانمار حكومت كے پاس انتہا پسند فوج كے ساتھ ساتھ بنىاد پرست مذہبى عناصر كى اجارہ دارى و سرپرستى ہونے كى وجہ سے روہنگىا مسلمانوں كے خلاف جانبدارانہ اقدامات پر اىك لمبے عرصے سے عمل كىا جارا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے لیےان کا دین ان کے لىے عذاب بنا دیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے لیے دین کی بنیادی احکامات ادا کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔ چاہے وہ نماز باجماعت ہو، جمعہ و عیدین کا اجتماع ہو، قربانی یا حج ہو،یا دینی مدارس کا قیام یہ تمام دین سے متعلقہ کام انتہائی مشکل بنا دیئے گئے ہیں۔اگر کوئی مسلمان اپنے دین پر ممکن حد تک عمل پیرا ہو تو وہ حکومت کی نظر میں مجرم ٹھہرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مساجد، مدارس اور مقابر کو نیست ونابود کر رہے ہیں۔ اور ان مقامات پر حکومت اور بدھ مت کے پیروکار قابض ہو رہے ہیں۔ان حالات میں کسی کے لیے بھی اپنے دین پر قائم رہنا انتہائی مشکل ہے۔
* پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ علوم اسلامیہ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز،اسلام آباد
**اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ علوم اسلامیہ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز،اسلام آباد
[2]۔Mariqi, Atikur Rahman, “Ethno-Political Conflict: The Rohingya Vulnerability in Myanmar”, International Journal of Humanities and Social Science Studies, Vol. 1, No. 2(2015) pp: 288-295.
https://www.academia.edu/15225831/Ethno-political_Conflict_The_Rohingya_Vulnerability_in_Myanmar (Accessed April 2, 2020)
[3]۔ نور محمد خان، روہنگیا مسلمانوں کا المیہ۔۔۔ حل کیا ہے؟ تاریخی پسِ منظر، مسائل اور حل کا جائزہ، ای پیپر ٹیم، جنوری ۲۰۱۷ء،ص:۱
[4]۔ مولانا سیف اللہ خالد،المیہ اراکان ، ماہنامہ چشمِ بیدار لاہور ،جلد:۶، شمارہ نمبر :۹، ستمبر ۲۰۱۲ء ، ص:۱۴
[5]۔ محمد الیاس انصاری، اراکانی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، حراء پبلی کیشنز، اردو بازار ، لاہور،۱۹۹۲ء، ص:۶۲
[6]۔ U.S. Commission on International Religious Freedom, Burma: Religious Freedom and Related Human Rights Violations are Hindering Broader Reforms, 732 North Capitol Street, NW, November 2014, p:5
[7] ۔U.S. Commission on International Religious Freedom, Burma: Religious Freedom and Related Human Rights Violations are Hindering Broader Reforms, p:6
[8] ۔Constitution of the Republic of the Union of Myanmar, Constitution, 34, Printing & Publishing Enterprise, Ministry of Information, P: 9
http://www.burmalibrary.org/docs5/Myanmar_Constitution-2008-en.pdf/Accessed April 2, 2020)
[9]۔ ماہنامہ چشمِ بیدار،مولانا سیف اللہ خالد،المیہ اراکان ، ص:۲۰
[10]۔ اراکانی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، محمد الیاس انصاری،ص:۱۴۵
[11]۔ نور محمد خان، روہنگیا مسلمانوں کا المیہ۔۔۔ حل کیا ہے؟ تاریخی پسِ منظر، مسائل اور حل کا جائزہ،ص:۲
[12]۔ اراکانی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، محمد الیاس انصاری،ص:۱۴۶
[13]۔ ایضاً،ص:۶۱
[14]۔ ماہنامہ چشمِ بیدار ، ملک احمد سرور،روہنگیا مسلمانوں پربرمی حکومت اور بودھوں کے مظالم، ص:۱۸
[15] ۔ایضاً
[16] ۔میانمار کی شہریت کا قانون: اس قانون کے تحت شہریوں کو قومی رجسٹریشن کارڈ (NRC) دىا جاتا ہے، جبکہ غیر شہریوں کو غیر ملکی رجسٹریشن کارڈ (FRC: Foreign Registration Card (دیا جاتا ہے۔
[17]۔ محمد الیاس انصاری، اراکانی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی ،ص:۶۴
[18] ۔Noah Berlatsky , Burma Genocide & Persecution, gale and green heaven press, USA, 2015, P:36
* ناساکا: بعض اوقات "بارڈر امیگریشن ہیڈ کوارٹر"سے جانا جاتا ہے ،یہ ایک انٹر ایجنسی فورس ہے جو۱۹۹۲ء میں قائم کی گئی تھی اور اس میں تقریباً ۱۲۰۰ امیگریشن ، پولیس ، انٹیلی جنس اور کسٹم حکام شامل ہیں۔
[19]۔https://www.urduvoa.com/a/religious-violence-spread-in-burma/1654257.html (Accessed April 8, 2020)
* میحتیلا : ینگون، مانڈلے اور بےگن شاہراہوں کے سنگم پر مانڈلے خطے میں میحتیلا جھیل کے کنارے وسطی برما کا ایک شہر ہے۔
[20]۔ https://www.hrw.org/tag/rohingya-crisis (Accessed April 8, 2020)
[21]۔https://www.theguardian.com/world/2013/apr/18/buddhist-monk-spreads-hatred-burma, (Accessed April 8, 2020)
[22]۔http://content.time.com/time/magazine/article/0,9171,2146000,00.html (Accessed April 13, 2020)
[23]۔ Thomas Fuller, “Extremism Rises Among Myanmar Buddhists,” New York Times, June 20, 2013. http://www.nytimes.com/2013/06/21/world/asia/extremism-rises-among-myanmar-buddhists-wary-of-muslim-minority.html. (Accessed April 13, 2020)
[24]۔ Monday, July 01, 2013, Cover Credit: PHOTOGRAPH BY ADAM DEAN / PANOS FOR TIME
http://content.time.com/time/covers/asia/0,16641,20130701,00.html (Accessed April 13, 2020)
[25] ۔محمدفاروق عزمی ،مسلمانوں کی قتل گاہ۔ برما ،قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل یثرب کالونی بینک سٹاپ لاہور کینٹ ،مئی۲۰۱۹ء ، ص:۱۲۷
[26] ۔ایضاً ، ص: ۱۳۳
[27]۔ Society for Threatened Peoples, The Rohingya People in Burma, Published Society for Threatened Peoples, March 2014,P:14http://cgsdu.org/wp-content/uploads /2019/03/ Rohingy-Memorandum_ENGLISH.pdf (Accessed April 17, 2020)
* چٹ پئین: میانمار كى ریاست اراکان کا ایک گاؤں جو بنگلہ دیش اور میانمار کى سرحد کے قریب واقع ہے۔
[28] ۔https://www.independent.co.uk/news/world/asia/burma-massacre-rohingya-latest-rakhine-state-security-forces-buddhist-130-chut-pyin-a7923451.html (Accessed April 17, 2020)
[29]۔ Marshall. A. ‘Special Report; Myanmar Gives Official Blessing to Anti-Muslim Monks’. Reuters. 27 June 2013. Available at https://www.reuters.com/article/us myanmar-969-specialreport/special-report-myanmar-gives-official-blessing-to-anti-muslim-monks idUSBRE95Q04720130627 (Accessed April 19, 2020)
[30] ۔http://zahidrashdi.org/1234 (Accessed April 20, 2020)
[31]۔https://asiancorrespondent.com/2018/05/burma-muslims-jailed-for-praying-in-the-street/ (Accessed April 21, 2020)
[32]۔https://www.trt.net.tr/urdu/jnwby-yshy/2018/05/04/mynmr-myn-bdh-khy-pyrwkhr-mslmnwn-khy-mdhhby-azdy-khy-khlf-bhy-srgrm-964157 (Accessed April 21, 2020)
[33]https://www.trt.net.tr/urdu/mshrqi-wsty/2018/08/22/mynmr-myn-fsrdh-mhwl-myn-yd-mny-y-jrhy-hy-1036283 (Accessed April 21, 2020)
[34] http://irak.pk/rohingya-muslim-of-arakan/ (Accessed April 21, 2020)
[35] ۔اراکانی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، محمد الیاس انصاری،ص:۹۳
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2021 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |