3
1
2019
1682060060947_766
66-89
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/139/47
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/139
قبل از اسلام خطا بت:
قبل از اسلام دور جسے عہد جا ہلیت بھی کہا جا تا ہے میں فن خطابت کو بہت اہمیت حا صل تھی اور اسی بنا پر خطیب کو اعلیٰ مقام حا صل تھا اس لیے کہ خطا بت ایک اعلیٰ قسم کا تکلم ہے۔عرب کے با دیہ نشین قبا ئل جو عمو ماً اُمیّ ہوتے اور کسی قا عدے اور قا نون کے پا بند نہ ہو تے اور نہ کسی منظم حکو مت کا اُن پر ضبط ہو تا اور نہ وہ ایک با دشا ہ کے زیر نگیں جمع ہو تے، اس لیے وہ مجبور تھے کہ قلم کی بجا ئے زبا ن سے کام لیں ۔با یں وجہ فن خطا بت ان کے ہاں بہت اہمیت کا حامل رہا ۔جیسے ہر قبیلے کا ایک شا عر ہو تا ویسے ہی ہر قبیلے کا ایک خطیب بھی ہو تا ۔ چنا نچہ ایک معروف مصری ادیب شیخ احمد الا سکندری نے قبل از اسلام زما نہ جا ہلیت میں خطا بت کے جن طبعی اسباب کا ذکر کیا ہے اُن میں سے چند یہ ہیں:
1۔اہل عر ب چو نکہ عمو ماً نا خوا ندہ تھے اس لیے مجبور تھے کہ آلۂ کتا بت قلم کے عوض زبا ن سے کام لیں جو آلہ گفتا ر ہے ۔
2۔چو نکہ وہ لو گ مستقل قبیلوں ، چھو ٹے چھوٹے خا ندا نوں اور جنگجو گر و ہوں میں بٹے ہو ئے تھے اس لیے ان کی ہر جما عت اور گروہ کے لیے یہ با لکل آسان تھا کہ ایک مقام پر جمع ہو کر خطیب کی با ت کو سُن لیں۔
3۔ان لو گو ں میں میل ملا پ کے منظم ذرا ئع مو جود نہ تھے اور ڈا ک وغیرہ کا انتظام بھی نہ تھا اس لیے اُنہیں ایسے پیغام رسا ں کی اشد ضرورت تھی جو ممتاز اور نا مور ہو، فصیح اللسان اور قوی دلا ئل پیش کر سکتا ہو۔ ([1])
خطیب کی اس معا شرتی اہمیت کے پیش نظر ایک خطیب کی فخر و مبا ہا ت،تہنیت و تعزیت اور کسی غیر معمولی شخصیت کے لیے استقبا لی خطبا ت پڑ ھنے کی خد ما ت لی جا تیں۔
اس سلسلہ میں جناب ابو طا لب کا وہ خطبہ معروف ہے جو انہوں نے آنحضور ﷺاور حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے نکا ح کے موقع پر دیا تھا :
"اَلْحَمْدُ لِله الَّـَذِیْ جَعَلَنَا مِنْ ذُرِیةِ اِبرَاهِیْمَ ، وَ زَرْعِ اِسْمَا عِیْلَ ، وَضِئضَئِ مَعَدّ ، وَ عُنْصُرِ مُضَر، وَجَعَلَنَا حَضَنَةَ بَیتِه، وَسَوَّاسَ حَرمِه، وَجَعَلَ لَنَا بَیتًا مَحْجُوْجاً وَ حَرَمًا اٰمِنًا، وَجَعَلَنَا الحُکَّامَ عَلَی النَّاسِ ، ثُمَّ اِنَّ اِبْنَ اَخِیْ هٰذَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِالله (صَلـَی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ) لَا یُوْزَنُ ِرَجُل اِلَّا رَجَحَ بِه، وَاِنْ کَانَ فِی المَالِ قُلاً،فاِنَّ المَالَ ظِلُّ زَائِلُ، وَاَمْرُ حَائِل، وَمُحَمّـَدُ(صَلـَی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ) مَنْ قَدْ عَرَفتُمْ قَرَابَتَهُ وَقَدْ خَطَبَ خَدِیْجَةَ بِنْتِ خُوَیلَد ، وَقَدْ بَدَّلَ لَهَا مِنَ الصِّدَاقِ مَا اٰجَلَهُ وَعَاجَلَهُ اِثْنَتَا عَشَرَةَ اَوْقِیَةً ذَهَبًا وَ نَشَاء وَهُوَ وَاللهِ بَعْدَ هٰذَا لَهُ نَبَاءٌ عَظِیْمُ وَخَطَرُجَلَیلُ" ([2])
’’تمام تعر یفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ابرا ہیم ()کی اولا د سے، اسما عیل ()کی کھیتی سے اور معد کی نسل سےخضانہ اور مضر کی اصل سے پیدا فر ما یا نیز ہمیں اپنے مقدس گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر کیا ،ہمیں ایک ایسا گھر دیا جس کا حج کیا جا تا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے نیز ہمیں لو گوں کا حکمران مقرر فرمایا۔ حمد کے بعد میرا یہ بھتیجا جس کا نام محمد بن عبد اللہ (ﷺ )ہے اس کا دنیا کے جس بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گااس کا پلڑابھاری ہو گا۔اگر یہ مال دار نہیں تو کیا ہوا مال تو ایک ڈھلنے والا سایہ اور بدل جانے والی چیز ہےاور محمد (ﷺ) جس کی قرابت کو تم خوب جانتے ہو اس نے خدیجہ بنت خویلد()کا رشتہ طلب کیا ہے اور ساڑھے بارہ اوقیہ(تقرىباً 340گرام) سونا مقرر کیا ہے۔اور بخدا مستقبل میں اس کی شان بہت بلند ہوگی اور اس کی قدر و منزلت بہت جلیل ہو گی۔‘‘
اگر چہ خطا بت کا ملکہ بعض لو گوں میں فطر ی ہو تا ہے لیکن خطیب كى اس معا شرتی اہمیت کے پیش نظر بعض اہل عرب اپنے بچوں کو بچپن ہی میں اس فن یا اس فن کےلوازمات کی تر بیت دیتے اور اعلیٰ خطا بت کا ملکہ پیدا کرنے کی کو شش کر تے۔ خطیب اپنے خطا با ت میں دل نشیں اسلوب، سحر بیا نی ، سلیس عبا رت، خوش نما الفاظ، چھوٹے اور ہم وزن مسجع جملے اور ضرب الا مثال استعما ل کر تے۔ مقرر اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر یا اونٹ پر سوار ہو کر خطاب کر تا۔ اثنا ئے خطا ب ہا تھ ہلا تا اور منا سب اشاروں سے مفہوم کو وا ضح کر تا، ہا تھ میں عصا یا نیزہ پکڑتا یا تلوار کا سہا را لیتا اور ان سے اشا رہ کر نا بھی ان کے ہا ں را ئج تھا۔ مزید یہ کہ شا عر خوش وضع و خوش شکل ہو نے کے ساتھ سا تھ بلند آواز، خوش بیان ، دلیر اور بے باک ہو تا۔ ([3])
قبل ازاسلام یعنی جا ہلی دور کے خطبا میں بعض ایسی با تیں بھی تھیں جنہیں اسلام میں مستحسن نہیں سمجھا گیا جیسے گلا پھا ڑ پھا ڑ کر با تیں کر نا اور دوران خطبہ با چھیں کھو لنا۔ قدیم ادیب ابو عثمان جا حظ نے لکھا ہے کہ عر بوں کے ہاں متعدد خطبا با چھیں کھو لتے اور ہو نٹوں کو لٹکا نے میں بہت مبا لغہ سے کام لیتے تھے۔
عہدجا ہلی میں متعدد خطبا ء معرو ف تھے لیکن اُن میں رسول اللہ ﷺ کے سا تویں دادا کعب بن لؤی ، حرثان بن محرث المعروف ذو الا صبع ، قیس بن خا رجہ بن سنان ، خو یلد بن عمرو غطفا نی ،قُس بن سا عدہ ایا دی، اکثم بن عیسیٰ صیفی زیادہ معرو ف تھے اور مؤخر الذکر دو کی خطا بت کو رسول اللہ ﷺنے خود بھی سُنا ۔([4])
خطا بتِ نبوی
اللہ تعا لیٰ نے مقام نبوت اور خطا بت کو اکٹھا کیا اس لیے کہ انبیا ء ِکرام کا بنیادی فرض دعوت و تبلیغ تھا۔ رسول اکرم ﷺجس دور میں اس دنیا میں تشریف لا ئے اُس وقت عربوں کے ہاں خطا بت اور شا عری کو بہت اہم مقام حا صل تھا، ادب کے ان دونوں شعبہ میں فصا حت و بلا غت کو بہت حد تک پیش نظر رکھا جا تا۔ اس دور کے تقا ضوں کے مطا بق اللہ تعا لیٰ نے آنحضور ﷺکو قرآن مجید کی صورت میں عظیم معجزہ عطا فر ما یا اور اسی بنیاد پر آپ کو فصا حت و بلا غت کے اوصاف سے بھی نوازا گیا۔ فصا حت و بلا غت کی بنا پرآپ ﷺکا فن خطا بت بھی کما ل کاتھا یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺنے عر بوں میں خطا بت میں را ئج معائب کی بھی نشا ند ہی فر ما ئی۔محمد خلیل الخطیب نے ’خُطب المصطفیٰ ﷺ ‘کے عنوان سے ایک کتاب مدون کی جس میں آپ کے 558خطبات کو جمع کیا گیا ہے۔([5])
آپ ﷺکی خطا بت کی خصو صیات کا ذکر کیا جا تا ہے ۔
1۔ عا لم ہو نا
خطیب کے لیےضروری ہے کہ اس کا علم وسیع ہو اس لیے کہ علم کی وسعت سے خطیب میں اعتماد پیدا ہو تا ہے اور اس طرح خطبہ میں بیان کردہ معلو ما ت پرلوگ یقین بھى کر یں گے جبکہ کم علم خطیب اپنے خطا ب میں متعدد غلطیوں کا مر تکب ہو تا ہے۔ رسول اکرم ﷺکی خطا بت میں یہ حسن در جہ کمال کا تھا، جب خطا بت کا کمال علم سے ہے تو آپ کا علم میں کو ئی ثا نی نہیں تھا۔ تفسیر خازن میں سورۃآل عمران کی آیت179 کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ :
’’ایک بار چند منا فقین نے آپ ﷺکے علم کے با رے مىں کئی طرح کی با تیں کیں ۔جب آپ ﷺکو اس با رے مىں علم ہوا توآپ منبر پر تشریف فر ما ہو ئے اور اللہ تعا لیٰ کی حمدو ثنا کے بعد فر ما یا :
مَا بَالَ اَقوَامُ طَعَنُوْا فِی عِلْمِی لَا تَسئَلُوْ نِی عَنْ شَیئ فِیْمَا بَیْنَکُم وَبَیْنَ السَّاعَةِ اِلاَّ نَبَّاتُکُم بِه([6])
’’لو گوں کو کیا ہو گیا ہے کہ میرے علم میں طعن کر تے ہیں لہٰذا اس وقت سے قیا مت تک جو بھی خبریں ہیں کسی چیز کے بارے تم مجھ سے پو چھو تو میں اس کی خبر دوں گا۔ یہ سُن کر عبد اللہ بن حذافہ السہمی کھڑا ہوا اور پو چھنے لگا کہ میرا باپ کون ہے؟آپ ﷺنے فر ما یا حذافہ۔‘‘
جا مع التر مذی کی روا یت ہے کہ آپ ﷺنے اپنے با رے میں فر ما یا:
اَتَانِیْ اللّـَیلَةَ رَبِیّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِیْ اَحسَنِ صُوْرَةٍ۔ قَالَ: اَحسِبُهُ قَالَ فِی المَنَامِ ، فَقَالَ: یَا مُحَمـَّدُ هَلْ تَدرِی فِیْمَ یَختَصِمُ المَلَاءُ الاَعلٰی؟ قَالَ : قُلتُ : لَا ، قَالَ : فَوَضَعَ یَدَهُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتّٰی وَجَدتُ بَردَهَا بَینَ ثَدَیَیَّ ، اَوْقَالَ: فِی نَحْرِی ، فَعَلِمْتُ مَا فِی السـَمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَرْضِ([7])
’’آج رات تیرا رب تبارک و تعا لیٰ بہت حسین صورت میں آیا اور میں گما ن کر تا ہو ں کہ میں خواب میں ہو ں، اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا : کیا آپ جا نتے ہیں کہ مقرب فر شتے کس معا ملے میں جھگڑا کرتے ہیں؟ میں نے جواب دیا نہیں ۔پھر اللہ تعا لیٰ نے میرے کا ند ھوں کے درمیان اپنا ہا تھ رکھا یہاں تک کہ میں نےاس کی ٹھنڈک پا ئی ، یافرما یا :میرےسینے میں رکھا ،تو اس کے با عث میں نے جو کچھ آسما نوں اور زمین میں تھا معلوم کر لیا۔‘‘
علم کی یہ کیفیت کسی دوسرے انسا ن کے لیے تو نا ممکن ہے لیکن پھر بھی خطیب کے لیے ضروری ہے کہ جس مو ضوع پر کو ئی خطبہ دینا ہو تو اسے اس مو ضوع سے متعلق زیا دہ سے زیادہ معلو مات ہو ں۔
2۔عدم لحن
عدم لحن یعنی الفا ظ کی مخارج کے لحا ظ سے درست ادا ئیگی کر نا اور اس ادا ئیگی میں کسی قسم کا عیب نہ ہو نا ہے آپﷺ کی خطا بت کی بڑی خصو صیت تھی ۔ایک با ر حضرت ابو بکر صدیق نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کی کہ میں نے آپ ﷺسے بڑ ھ کر کسی شخص کو فصیح و بلیغ نہیں دیکھا تو اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا :
"وَمَا یَمنَعُنِی وَ اِنَّمَا اُنْزِلَ القُرْآنُ بِلِسَا نِیْ لِسَا نٍ عَرَبِیٍّ مُبِیْنٍ" ([8])
’’میری فصا حت میں کیا شے ما نع ہو سکتی ہے ؟قرآن حکیم میری زبا ن میں نا زل ہوا جو عر بی مبین میں ہے۔‘‘
معجم طبرا نی میں ہے کہ آپ ﷺسے ایک اور مر تبہ کسی شخص نے ایسا ہی سوال کیا جس کے جواب میں آپﷺ نے فرما یا :
"اَنَا اَعْرَبُ العَرَبَ،وُلِدْتُ فِی قُرَیْشٍ، نَشَاءْتُ فِی بَنِی سَعْدٍ فَانَّی یَاتِیْنِی اللـَحْنُ" ([9])
’’میں عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوں کیو نکہ میں قریش میں پیدا ہوا اور بنی سعد میں میری پرورش ہو ئی لہٰذا میرے کلام میں لحن کہاں سے آئے یعنی میری فصا حت و بلا غت میں نقص کہاں سے آئے۔‘‘
آپ ﷺنے اپنی خطا بت کے کما ل کے با رے یہ بھی فر ما یا :
"اَدَّبَنِیْ رَبِّی فَاَحسَنَ تَادِیْبِیْ" ([10])
’’ میرے رب نے مجھے ادب سکھا یا ہے اور میری خوب تر بیت کی ہے۔‘‘
ان ارشا دات سے یہ وا ضح ہو تا ہے کہ آپ ﷺکی خطا بت کا حسن اور اس میں کسی بھی قسم کا عیب نہ ہو نا آپ ﷺکی عمد گی زبا ن اور اعلیٰ تر بیت کی بنا پر تھا۔
3۔متعدد زبا نوں پر عبور
رسول اکرم ﷺکی اصل زبا ن عر بی تھی لیکن اس کے باوجو د آپ ﷺمتعدد قبا ئل کی زبا نوں میں کلام کر سکتے تھے۔ یہ آپ ﷺہی کی خصو صیت اورآپ ﷺکے فن خطا بت کا حسن تھا۔ حضرت عطیہ بن سعد السعدی روایت کر تے ہیں کہ ہما رے قبیلے بنی جَشم بن سعد کا ایک وفد آنحضور ﷺکی خد مت میں حا ضر ہوا اور میں ان میں سب سے چھوٹا تھا ۔ وفد کے لو گ مجھے سا مان کے پاس چھوڑ کر آپ ﷺکی خد مت میں پہنچے اور آپ ﷺکی خد مت میں اپنی چند حا جات پیش کیں۔ اس دوران آپ ﷺنے پو چھا کہ آپ کے وفد میں کوئی اور بھی ہے؟ تو انہوں نے عر ض کی ہاں یا رسول اللہ(ﷺ)! ایک بچہ ہے جسے ہم اپنے سامان کے پاس چھوڑ آئے ہیں۔ آپ ﷺنے حکم دیا کہ اُسے بھی بُلا لیا جا ئے ۔پھر میں بھی آپ ﷺکی خد مت میں حا ضر ہو گیا تو آپ ﷺنے ہما رے قبیلے کی زبان میں اس طرح فرما یا:
مَااَنطَا کَ اللهُ فَلاَ تَسأَلِ الناسَ شَیْئاً، فَاِنَّ الیَدَ العُلْیَا هِيَ المُنْطِیَةُ، وَاِن الیَدَ السُفْلَٰی هِیَ المُنْطَاةُ، وَاِنّ اللهَ هُوَ المَسئوُوْلُ وَالمُنْطِیُّ ، فَکَلَّـَمَنِیْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِلُغْتِنَا ([11])
’’ اگر اللہ تعا لیٰ تجھے بے نیاز کر دے تو تُو لو گوں سے کچھ بھی نہ ما نگتا کیو نکہ اوپر وا لا ہا تھ عطا کر نے والا ہو تا ہے اور نچلا ہا تھ عطیہ لینے وا لا ہو تا ہے ۔رسول اللہ ﷺنے ہما ری لغت میں ہم سے کلام فرما یا ۔‘‘
آپ ﷺنہ صرف دیگر زبا نوں کے عا لم تھے بلکہ ان زبا نوں کے حروف کی ادا ئیگی بھی درست طریقے سے ادا فرماتے تھے۔ مختلف زبا نوں میں حروف کے اختلاف کے بارے مىں اصمعی کا قول ہے کہ رو می زبا ن میں’سینٗ کا زیادہ استعمال ہو تا ہے اور ’ضاد‘ کا استعمال نہیں ہو تا، اسی طرح فارسی میں ’ثا‘ کا اور سُر یا نی میں’ذال‘کا ستعمال نہیں ہو تا۔ لیکن رسول اللہ ﷺکو ایسی کو ئی مشکل پیش نہیں آتی تھی اس لیے اللہ تعا لیٰ نے انبیا ء کرام کے با رے فر ما یا:
﴿وَمَآ اَرْسَلنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ﴾ ([12])
’’اور ہم نے تمام رسولوں کو بھی ان ہی کی قومی زبا ن میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تا کہ اُن سے (احکام الٰہیہ ) کو بیان کریں ۔‘‘
4۔شیریں زبا ن
خطا بت انسان کے کلام سے مترکب ہو تی ہے جس انسان کی عام حا لا ت میں کلام میں شیر ینی ہو تو اس كى خطابت میں بھی وہی چا شنی ہو تی ہے ،حا لا نکہ آپ ﷺ اپنے خطا بات میں تر نم استعما ل نہیں فر ما تے تھے۔ کلام کی شیر ینی کی وجہ سے سا مع دوران سما عت ہمہ تن گو ش ہو جا تا اور تو جہ سے آپ کے کلا م کو سنتا۔
سفر ہجر ت میں قدید کے علا قے سے جب آنحضور ﷺگزرے تو آپ حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ ایک خا تون اُم معبد عا تکہ بنت خا لد کی قیام گا ہ میں تشر یف لے گئے اور اس سے کھا نے کے لیے کچھ اشیا ء کے با رے پو چھا،جس پر اُس نے قحط کی بنا پر معذرت چا ہی ۔پھر آپ ﷺنے اس کے صحن میں ایک کمزور بکر ی دیکھی جو نقا ہت کے با عث دودھ دینے کے قا بل نہیں تھی،لیکن آپ ﷺنے اس سے اس بکر ی کا دودھ دوہنے کی اجا زت چا ہی ۔جس کے بعد آپ ﷺنے اس بکر ی کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور آپﷺ نے دودھ دوھویا ۔ جسے آپ ﷺنے خود پیا، حضرت ابو بکر صدیق کو بھی پلا یا اور اس عورت کو بھی ایک بر تن میں ڈا ل کر دیا اور اس کے بعد آپ ﷺاپنے سفر پر روا نہ ہو گئے ۔تھوڑی دیر بعد جب اُم معبد کا شو ہر گھر وا پس آیا تو اس سے اپنے شو ہر کو سارا واقعہ سنا یا اور آپ (ﷺ)کے اوصا ف ان الفا ظ میں بیا ن کیے:
"رَاَیت رَجُلاً ظَا هِرَ الوَضَأَةِ حَسَنَ الخُلُقِ مَلِیحَ الوَجهِ لَم تَعِبهُ ثَجلَةُ وَ لَم تُزرِ بِه صَعلَةُ قَسِیمُ وَسِیمُ فِی عَینِیهِ دَعَجُ وَفِی اَ شفَارِه وَطَفُ وَفِی صَوتِه صَحَلُ اَحوَلُ۔ اَکحَلُ اَزَجُ۔ اَقرَنُ وَفِی عُنُقِه سَطَحُ وَفِی لِحیَتِه کَثَا ثَةُ اِذَا صَمَتَ فَعَلَیهِ الوَقَارُوَاِذَا تَکَلَّمَ سَمَا وَعَلَاهُ البَهَاءُ حُلُوا المَنطِقِ فَصلُ لَا نَزرَ وَلَا هَذَرُ" ([13])
’’ میں نے ایک ایسا شخص دیکھا ہے جس کا حسن و جما ل نما یا ں تھا ۔چہرہ روشن تھا ،اخلاق پا کیزہ تھا ، خامو شی میں اس کا وقار تھا اور گفتگو میں اس کی آواز گردو پیش پر چھا جا تی تھی ۔ گفتگو ایسی تھی کہ زبان سے مو تیوں کی لڑی سلسلہ وار نکلتی چلی آ رہی ہو۔ کلا م نہا یت شىر یں اور واضح تھا ،نہ کم گو اور نہ کثیر الکلام ، دور سے آواز سب سے زیادہ بلند مگر خو ش آہنگ محسوس ہوتی اور قریب سے بہت شیریں لطیف تھی۔‘‘
ایسے ہی طفیل بن عمر و الدوسی ()کا اسلام قبول کرنا بھی آپ ﷺکی شىر یں کلامی کا نتیجہ تھا جس کا ذکر علامہ ابن عبد البر نے اس طر ح کیا ہے کہ بقول طفیل():
’’میں جب مکہ آیا تو یہاں کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ شاعر ہیں ۔آپ اپنی قوم کے ایسے سردار ہیں جس کی اطاعت کی جاتی ہے ، ہمیں خوف ہے کہ یہاں اس شخص سے ملاقات نہ کر لیں جس کی با توں میں جادو ہے اس سے بچ کے رہیں۔ اتفاقاً میں بیت اللہ کے پاس سے گزرا تو ایسی ہی ایک خوبصورت آواز سُنی تو خیال آیا کہ یہ اُسی شخص کی آواز نہ ہو جس سے لو گوں نے مجھے خبردار کیا۔ میں نے دل میں کہا چلو سنتے ہیں اگر درست با ت ہو ئی تو تسلیم کر لیں گے ورنہ وا پس آجا ئیں گے ۔ میں جب آپ (ﷺ)کی خد مت میں حا ضر ہوا تو آپ (ﷺ)کا کلام بہت خوبصورت تھا۔" اِسْتَمَعْتُ لَه، فَلَمْ اَسمَعْ کَلاَمَاً قَطُ اَحْسَنَ مِنْ کَلَامٍ یَتَکَلَّمُ بِه، قَالَ قُلتُ فِی نَفسِی: یَا سُبحَانَ الله مَا سَمِعْتُ کَالیَوْمَ لَفظًا اَحْسَنُ مِنْه وَلَا اَجمَلُ "([14]) میں نے ایسا کلام سنا کہ اس جیسا کلام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا اور میں نے خود سے کہا: سبحان اللہ ان جیسے عمدہ اور خوبصورت الفا ظ میرے کا نوں میں کبھی نہ گو نجے تھے۔‘‘
انبیا ء کرام کی حسن صوت کا ذکر حضرت قتادہ کی روا یت میں اس طرح بھی کیا گیا جس میں آپ ﷺ نے فر ما یا:
"مَآ بَعَثَ اللّـهُ نَبِیـاً قَطُّ اِلَّا بَعَثَه حَسَنُ الوَجْهِ، حُسْنُ الصَّـوَتِ ، حَتـٰی بَعَثَ نَبِیـُکُم فَبَعَثَه حَسَنُ الوَجْهِ ، حُسْنُ الصـَوْتِ" ([15])
’’اللہ تعا لیٰ نے جو نبی بھی مبعوث فر ما یا وہ خو بصورت چہرے وا لا اور اچھی آواز والا تھا ،یہاں تک کہ تمہا رے نبی(ﷺ)کو حسین صورت اور حسین آواز دے کر بھیجا۔‘‘
آپﷺ کی شىریں آواز کا عا لم یہ تھا کہ مکہ مکر مہ کے بڑے بڑے کا فر جیسے ابو جہل اوراخنس بن شریک آپﷺکے کلام کو چھپ چھپ کر سنا کر تے تھے۔
اس ضمن میں ابن ہشا م نے ایک واقعہ بھی نقل کیا ہے۔ اسی طر ح آپ ﷺکے خطا با ت کے دوران بھی صحا بہ کرام انتہا ئی تو جہ سے آپ کے خطا ب کو سنتے۔
5۔جہر الصوت ہو نا:
جہر الصوت ہو نے سے مراد یہ ہے کہ کو ئی خطیب جہاں خطبہ دے تو تمام حا ضرین و سا معین تک اُس کی آواز پہنچے۔ رسول کریم ﷺ کی خطا بت میں یہ خصو صیت بدر جہ اَتم پا ئی جا تی تھی۔ حضرت سیدہ اُم ہا نی روایت کرتی ہیں :
"کُنَّا نَسمَعُ قِرَاءَةَ رَسُول الله صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ فِی جَوْفِ الَلَّیلِ عِنْدَ الکَعْبَةِ وَاَنَاعَلَی عَرِیْشٍی" ([16])
’’ہم مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کو آدھی رات کے وقت کعبہ مکر مہ کے پاس قرا ءت فرماتے ہوئے آپﷺ کی قر ا ء ت کو سُن لیا کر تے تھے جب کہ ہم اپنی چھت پر ہو تے تھے۔‘‘
حضرت عبد الر حمن معا ذ التمیمی سے روا یت ہے:
"خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللـٰهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِمِنَیً فَفُتِحَت اَسمَاعُنَا حَتّٰی کُنَّا نَسمَعُ مَا یَقُولُ وَنَحْنُ فِی مَنَازِلَنَا وَطَفِقَ یُعَلِّمُهُم مَنَاسِکَهُم حَتّٰی بَلَغَ الجِمَارَوَضَعَ اصْبُعَیهِ السَّبَا بَتَینِ ثُمَّ قَالَ: بِحَصَی الحَذف ثُمَّ اَمَرَالمُهَا جِرِیْنَ فَنَزَلُوْامَقدَّمِ المَسجِدِ اَواَمَرَ الاَنْصَارَاَن یَنْزِلُوا مِنْ وَرَاءِ المَسْجِدِ قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ النَّاسُ بَعْدُ" ([17])
’’ حضرت عبد الر حمن معا ذ روا یت کر تے ہیں کہ نبی کر یم ﷺ نے لو گوں سے منیٰ میں خطاب فر ما یا ۔ہم منٰی میں تھے اور ہما ری سما عتیں تیز ہو گئیں حتی کہ رسول اللہ ﷺ جو فر ما تے ہم (صحیح صحیح) سن رہے تھے حالانکہ ہم اپنے مقا مات پر تھے ۔ آپ ﷺ انہیں حج کے طر یقے سکھا رہے تھے حتیٰ کہ جمرہ کے قریب پہنچ گئے ۔آپ ﷺنے اپنی دو نو ں شہا دت کی اُنگلیوں کو رکھا پھر کنکر ی پھینک کر بتا یا ،پھر مہا جر ین کو حکم دیا کہ وہ مسجد کے سامنے وا لے حصے میں اُتریں اور انصار کو حکم دیا کہ وہ مسجد کے پچھلی طرف اُتر یں۔ فر ما تے ہیں پھر اس کے بعد با قی لو گوں نے بھی پڑا ؤ ڈا ل دیا ۔‘‘
ابن سعد (م 230ھ) نے آپ ﷺ کی بلندی آواز کے با رے لکھا ہے کہ :
’’رسول اللہ ﷺ کی آواز وہاں تک پہنچتی تھی جہاں کسی دوسرے کی آواز نہیں پہنچتی تھی۔ ‘‘([18])
ان روا یات سے یہ وا ضح ہو جا تا ہے کہ رسول اللہﷺ جب خطا ب فر ما تے تو آپ ﷺکی آواز تما م حاضرین تک پہنچتی خواہ اُن کی تعداد کتنی ہی زیا دہ کیوں نہ ہوتی۔
6۔جا معیت کلام:
خطا ب میں کلام کا جا مع ہو نا بلند پا یہ خطیب کی علا مت ہو تی ہے۔ جا مع کلمہ کے با رے میں عر بی ادیب جا حظ نے لکھا ہے:
" اَلکلامُ الـَذِیْ قَلَّ عَدَدَ حُرُوْفِه وَکَثُرَ عَدَدَ مَعَا نِیْهِ" ([19])
’’ وہ کلمہ جس کے حروف کی تعداد کم ہو اور معا نی کثیر ہوں جا مع کلمہ کہلا تا ہے ۔ ‘‘
جا مع کلما ت کے بارے مىں آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
"بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الکَلِمِ" ([20])
’’ مجھے اللہ تعا لیٰ نے جا مع کلما ت عطا فر ما ئے ہیں ۔ ‘‘
اللہ تعا لیٰ نے آپ ﷺکو جا مع کلما ت کی اتنی صلا حیت عطا فر ما ئی کہ نہ صرف آپ ﷺکے کلما ت جا مع ہو تے بلکہ آپﷺ كے اس اسلوب نے عربوں کے جا مع کلما ت کو خو بصورت بنا یا جیسے اہل عرب کسی قبیلہ کے لو گ کسی وصف میں مساوی ہوتے تو اس کا اظہار اس طر ح کرتے:
سَوَاء کَاَسنَانِ الحِمَارِ فَلَا تَرَیلِذِی شَیبَةٍ مِنْهُم عَلَی نَا شِیءِ فَضلاً
’’اس قبیلے میں جوان اور بو ڑھے لوگ فضل میں گدھے کے د انتوں کی طر ح برا بر ہیں۔‘‘
اسی طرح عیب کے بیان میں اسی تشبیہ کو استعمال کر تے جیسے اس کلمہ میں ہے:
شَبَا بُهُم وَ شَیْبَهُمْ سَوَاءُفَهُمْ فِی الُّلوْمِ اَسْنَانِ الحِمَارِ ([21])
’’ اس قبیلہ میں جوان اور زیا دہ عمر کے لوگ نحو ست میں گد ھے کے دانتوں کی طر ح ہیں۔‘‘
اسی تشبیہ کو آنحضور ﷺ نے ان الفا ظ میں بیان فر ما یا :
"اَلنَّاسُ کُلُّهُم سَوَاءُ کَاَسْنَانِ المُشْطِ" ([22])
’’تمام انسا ن کنگھی کے دندا نوں کی طر ح مساوی ہیں۔‘‘
گدھے کے دانتوں اور گنکھی کے دند انوں میں مو خر الذکر مشبہ بہٖ ہر لحا ظ سے خوبصورت اور بلیغ ہے۔
محدثین کرام نے آنحضور ﷺ کے بہت سے جا مع کلما ت نقل کیے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
(الف) لَاتَجْلِسُوْاعَلَی ظَهْرِالطّـرِیْقِ ([23])
’’راستے کے در میان میں نہ بیٹھو۔ ‘‘
( ب) حُبُّکَ الشَّیءَ یُعمِی وَیُصِمُّ ([24])
’’کسی چىز کی محبت انسا ن کو اند ھا اور بہرہ کر دیتی ہے۔‘‘
( ج) اِذَا لَمْ تَستَحْىِىْ فَا صْنَع مَا شِئْتَ ([25])
’’جب تو حیا ء نہ کر تو پھر جو تو چا ہے کر۔ ‘‘
اِنَّ مِنَ البَیَانِ لَسِحْرًا ([26])
’’بے شک بعض بیان جا دو ہو تے ہیں۔‘‘
( د) اَلمُسْتَشَارُالمُؤتَمِنُ ([27])
’’جس سے مشور لیا جا ئے وہ اما نتدار ہو تا ہے۔‘‘
(ح) اَلحِکمَةُ ضَالَةُ الْمُوْمِنِ ([28])
’’دا نا ئی مو من کی گمشدہ چیز ہے جہاں وہ پا ئے وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘
(و) لَاَ یُلدَغُ المُوْمِنُ فِیْ جُحْرٍ مَرَّ تَیْنِ ([29])
’’مو من ایک سورا خ سے دو مر تبہ نہیں ڈسا جا تا۔‘‘
7۔ دوران خطا بت چہرے کے تاثرات دینا
ایک بلند پا یہ خطیب دوران خطا بت الفا ظ کے بیان کے سا تھ سا تھ اپنے جسم اور خصو صاً چہرے کے تا ثرات کا ضرور اظہا ر کر تا ہے۔ آنحضرت ﷺبھی دوران خطا بت اپنے چہرہ مبا رک سے بیان مضمو ن کے مطا بق تاثرات کا اظہا ر فر ما تے۔ دوران خطا بت جب آپ ﷺجو ش میں آتے تو آپ ﷺکی آنکھیں سُرخ ہو جاتیں، آوازگر ج دار اور بلند ہو جا تی۔ ایک با ر آپ ﷺنے اللہ تعا لیٰ کی ہیبت اور قوت و جبروت کا ذکر فرما یا تو اس وقت آپ ﷺکی کیا کیفیت تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی امام احمد کی اس روا یت میں منقول ہےکہ آپ ﷺنے سورۃ الزمرکی آیت 67منبر پر تلا وت فر ما ئی اور اس کے بعد فر ما یا:
"یَأخُذُ الجَبَّارُ سَمَاوَاتِه وَاَرضِه بِیَدِه وَقَبَضَ یَدَهُ، فَجَعَلَ یَقبِضُهَا وَیَبسُطُهَا ثُمَّ یَقُولُ:اَنَا الجَبَّارُ، اَنَا المَلِکُ،اَینَ الجَبِّارُونَ؟اَینَ المُتَکَبِـرونَ؟ قَالَ: وَیَتَمَا یَلُ رَسُولُ اللـٰه صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَن یَمِینِه وَعَن شِمَالِه حَتّی نَظَرتُ اِلَی المِنبَرِ یَتَحَرَّکُ مِن اَسفَلِ شَیءٍ مِنهُ حَتـٰی اِنّی لَاَقُولُ: اَسَاقِطُ هُوَ بِرَسُولِ اللهِ صَلّٰی اللـٰه عَلَیهِ وَسَلَّمَ ؟" ([30])
’’اللہ جبار زمین و آسمان کو اپنے ہا تھ میں لے لے گا ۔نبی ﷺاپنے ہا تھوں کو آگے پیچھے لے جا کر حر کت دیتے ہو ئے کہنے لگے کہ میں جبا ر ہو ں ، میں بادشاہ ہو ں، کہاں ہیں جبرکر نے والے لوگ؟ کہاں ہیں تکبر کر نے والے لو گ؟ اس دوران رسول اللہ ﷺدائیں با ئیں جھکتے ، اس وقت میں نے منبر کی طرف دیکھا کہ جیسے نیچے کوئی چیز حر کت کر رہی ہے اور میں کہنے لگاکہ آپ ﷺنیچے ہی نہ گر جا ئیں۔‘‘
امام مسلم کی روا یت ہے جس میں حضرت جا بر بن عبد اللہ بیان کر تے ہیں:
"کَانَ رَسُوْلُ الله صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِذَا خَطَبَ اِحْمَرَّتْ عَینَاهُ، وَعَلَا صَوْتُه، وَاشتَدَتْ غَضبُه حَتّٰی کَاَنَّه مُنْذِرُ جَیْشٍ یَقُوْلُ: صَبَّحَکُم مَسَّاکُم وَیَقُوْلُ: بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَةِ کَهَا تَیْنِ" ([31])
’’رسول اللہ ﷺ جب خطبہ ارشاد فر ما تے تو آپ ﷺکی آنکھیں سُرخ ہو جا تیں،آواز بلند ہوتی اور جوش زیادہ ہو تا اور یوں لگتا جیسے آپ ﷺکسی ایسے لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح و شام میں حملہ کر نے وا لا ہو ۔اور فرماتے: میں اور قیا مت ان انگلیوں کی طر ح سا تھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ چہرے کے تا ثرات کے علاوہ دوران خطبہ جہاں ضروری سمجھتے اپنے ہاتھوں سے اشا رہ بھی کر تے ۔‘‘
مسند احمد کی روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر نقل فر ما تے ہیں کہ :
’’ایک خطبہ کے دوران آپ ﷺنے اپنے ہا تھ مبارک سے مشرق کی طرف اشا رہ کر تے ہو ئے فر ما یا :
"اِنَّ الفِتْنَةَ هٰهُنَا مِنْ حَیْثُ یَطلَعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ یَعْنِی المَشْرِقِ" ([32])
’’ فتنہ یہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتاہے یعنی مشرق سے۔ ‘‘
اسی طرح خطبہ حجۃ الوداع کے آخر میں آپ ﷺنے جب کتاب و سنت کو مضبو طی سے پکڑ نے کے بارے میں حکم دینے کے بعد اپنی شہا دت کی انگلی آسمان کی طرف اُٹھا کر فر ما یا:
"فَقَالَ بِا صبِعِه السَّبَا بَةِ، یَرفَعُهَا اِلَی السَّمآءِ وَیَکنَتُهَا اِلَی النَّاسِ: اَللَّهُمَّ اشهَد ، اَللَّهُمَّ اشهَد، ثَلٰث مَرَّاتٍ" ([33])
’’ اے اللہ! گوا ہ رہنا ، اے اللہ گواہ رہنا ۔آپ ﷺنے یہ کلمہ تین با ر دہرا یا۔‘‘
8۔مواد خطبہ کو قصیر یا طویل کر نا
خطیب کا یہ کما ل بھی ہو تا ہے کہ وہ مو ضوع کے مطا بق اپنے خطبہ کو مختصر کر ے یا طو یل۔ رسول اللہ ﷺ کے خطبا ت کو دیکھنے سے یہ وا ضح ہو تا ہے کہ آپ ﷺمو قع محل اور مو ضوع کی ضرورت کے مطا بق اپنا موادِ خطبہ کم کر تے یا طویل ۔
اس ضمن میں معروف ادیب جا حظ نے لکھا ہے:
"خَطَبَ رَسُوْلُ الله صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَشرِ کَلِمَاتٍ: حَمِدَ الله وَأثنٰی عَلَیهِ ثَمَّ قَالَ:أیُّهَا النَّاسُ، اِنَّ لَکُم مَعَالِمَ فَانتَهُوا اِلَی مَعَالِمِکُم، وَاِنَّ لَکُم نَهَایَةُ فَا نتَهُوا اِلَی نَهَایَتِکُم، اِنَّ المُؤمَنَ بَینَ مَخَافَتَینِ: بَینَ عَاجِلٍ قَدمَضٰی لَا یَد رِی مَا اللهُ صَانِع بِه، وَبَینَ آجِلٍ قَد بَقِیَ لَا یدرِی مَا الله قَا ضٍ فِیهِ، فَلیَأ خُذِ العَبدُ مِن نَفسِه لِنَفسِه، وَ مِن دُنیَاهُ لِآخِرَتِه، وَمِنَ الّشَّیبَةِ قَبلَ الکِبرَةِ، وَمِن الحَیَاةِ قَبلَ المَوتِ، فَوَالَّذِی نَفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِه ، مَا بَعدَ المَوتِ مِن مُستَعتَبٍ، وَلَا بَعدَ الدُّنیَا مِن دَارِ، اِلَّا الجَنَّةِ أوِالنَّارِ" ([34])
’’آپ ﷺ نے دس کلما ت پر مشتمل خطبہ ارشاد فر ما یا؛ آپ ﷺنے اولا ّ اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا کی اور اس کے بعد فرمایا: اے لو گو! بے شک تمہا رے لیے علا ما ت ہیں تم ان علا متوں کی طرف چلو۔ تمہا رے لیے انتہا ئیں ہیں تم اپنی انتہا کی طرف چلو۔ بے شک بند ہ مو من دو خو فوں کے درمیان ہے۔ ان میں ایک آجل جلد آنے وا لی ہے جس کے با رے میں وہ نہیں جا نتا کہ اللہ تعا لیٰ اس کے سا تھ کیا معا ملہ کر نے وا لا ہے ۔ایک اجل ہے جو با قی ہے وہ نہیں جا نتا کہ اللہ تعا لیٰ اس کا کیا فیصلہ کر نے وا لا ہے۔ پس بندے کو چا ہیے کہ وہ اپنی ذا ت میں سے اپنی ذات کے لیے لے لے اور دنیا سے آخر ت کے لیے حصہ بنا ئے۔ اپنی جوا نی سے بڑھاپے کے لیے اور اپنی زند گی سے اپنی آخرت کے لىے حصہ بنا ئے۔ اس ذا ت کی قسم !جس کے قبضہ قدرت میں میری جا ن ہے موت کے بعد رضا طلب کرنے کا کو ئی موقع نہیں اور دنیا کے بعد جنت یا دوزخ کے علا وہ کو ئی گھر نہیں۔ میں نے یہ بات کہہ دی اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت طلب کر تا ہو ں۔‘‘
آپ ﷺ کے طو یل خطبہ کے با رے حضرت ابو زید عمرو بن اخطب سے روا یت ہے:
"صَلَّی بِنَا رَسُولُ الله صَلَّی الله عَلَیهِ وَسَلَّمَ الفَجرَ وَصَعِدَ المِنبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظـُهرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الِمِنبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرتِ العَصرَ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی، ثُمَّ صَعِدَ المِنبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمسُ فأخبَرَنَا بِمَا کَانَ هُوَ کَائِنُ فأعلَمُنَا اَحفَظُنَا" ([35])
’’ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فجر کی نماز پڑ ھا ئی اور منبر پر تشریف فر ما ہو ئے ۔پھر آپ ﷺنے ہمیں خطبہ ارشاد فر ما یا یہاں تک کہ ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔آپ ﷺمنبر سے نیچے تشریف لے آئے ، نماز ادا کی اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہو ئے اور اپنے خطبہ کو جا ری رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔اس دوران آپﷺ نے جو کچھ پہلے ہوا اور جو آئندہ ہو نے وا لا تھا سب کچھ بتا دیا ۔ ہم نے یہ سب کچھ جان لیا اور اُسے یاد بھی کر لیا۔‘‘
گو یا یہ خطبہ اتنا طویل تھا کہ اس خطبہ کے دوران آپ ﷺنے مسلسل تمام نما زیں وقفہ ڈا ل کر ادا فر ما ئیں اور نماز سے فا رغ ہوتے ہی سلسلہ کلام کو وہیں سے شروع فر ما تے جہاں سے آپ چھوڑتے تھے۔ اسی طرح خطبہ حجۃ الوداع بھی آپ ﷺکے طو یل خطبہ کی ایک مثا ل ہے۔
9۔سہل انداز کلام
حضور اکرم ﷺکے خطبات کی ایک خصو صیت یہ بھی تھی کہ ان خطبا ت میں آپ ﷺسہل انداز کلام کو اختیار فر ما تے اور کسی شخص کو بھی سمجھنے میں دقت پیش نہ آتی ،بلکہ وہ آپ ﷺکی با توں کو بآسا نی ذہن نشین کر لیتا۔
حضرت عا ئشہ صدیقہ بیان کر تی ہیں
"مَا کَانَ رَسُولَ الله صَلَّی الله عَلَیهِ وَسَلَّمَ یَسرُدُ سَردَکُم هٰذَا وَلٰکِنَّهُ کَانَ یَتَکَلَّمُ بِکَلَامِ یُبَیِّنُهُ، فَصل یَحفَظُهُ مَن جَلَسَ اِلَیهِ" ([36])
’’آپ ﷺ کی گفتگو میں لوگوں کی طر ح لگا تار اور جلدی جلدی نہیں ہو تی تھی بلکہ صاف صاف مضمون دوسرے سے ممتاز ہو تا جو پاس بیٹھنے وا لے اچھی طر ح ذہن نشین کر لیتے۔ ‘‘
اسی طرح صحیحین میں روا یت ہے کہ آپ ﷺجب خطبہ دیتے تو اپنے کلام کو تین بار دہرا تے تاکہ سننے والوں کو اچھی طر ح سمجھ آجا ئے۔ آپ ﷺکی گفتگو کو جو بھی سنتا ،یاد کر سکتا تھا ،بلکہ آپ ﷺکے الفا ظ کو شمار بھی کیا جا سکتا۔‘‘
10۔عصر ی مسائل کا بیا ن
ایک اعلیٰ خطیب کی ایک خو بی یہ بھی ہو تی ہے کہ وہ اپنے خطبا ت چند مو ضو عات پر محیط نہیں رکھتا بلکہ اس کے مو ضوعات خطبہ میں تنوع ہو تا ہے جس سے اس کی وسعت علمی کا اظہار ہو تا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے جب خطبا ت پر نظر کی جا تی ہے تو یہ وا ضح ہو تا ہے کہ مو ضوعات کی جتنی اقسام آپ ﷺکے خطبات میں ہیں ،دنیا کے کسی اور خطیب میں نہیں ۔مزید حسن یہ کہ خطبہ میں مو جو د احکام پرپہلے خود عمل کر نا آپ ﷺہی کی خصوصیت ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع کو اگر بنظر غا ئر دیکھا جا ئے تو وا ضح ہو تا ہے کہ اس خطبہ کا ہر جملہ ایک مو ضوع خطبہ ہے اور پچا س سے زا ئد مو ضوعات کا اس خطبہ میں بیان ہے۔ نیزمسا ئل بھی وہ جن کا تعلق اس عہد اور معاشرے کے مسا ئل سے تھا۔ آپ ﷺکے مو ضوعات عہد جا ہلی کے رسمی اور روایتی مو ضو عات سے با لکل جدا ہیں۔
11۔ لو گوں کی علمی لیاقت و شعور کے مطابق گفتگو کر نا
خطابت نبوی کا حسن کما ل تھا کہ آپ ﷺکبھی سا معین کی سمجھ سے با لا کو ئی با ت نہ فر ما تے ،حا لا نکہ آپﷺ دنیا میں تمام انسا نوں میں سب سے زیادہ عالم تھے۔ اس ضمن میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک روا یت مروی ہے جس میں آپ ﷺ نے فر ما یا : "أمِرْتُ/ أمِرْنَا أنْ أخَاطِبَ/ نُکَلِّمَ النَّاسَ عَلَی قَدْرِ عُقُوْلِهِمْ"([37]) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لو گوں سے ان کی عقل کے مطا بق خطا ب کروں۔ ‘‘
آپ ﷺکی خطا بت کا یہ حسن بھی تھا کہ آپ ﷺنے عام گفتگو کے علاوہ با لخصوص اپنے خطبات میں کبھی غیر مہذب گفتگو،فحش کو ئی ،بد کلا می اور گا لی نہیں دی۔اس ضمن میں آپ ﷺنے ارشا د فر ما یا :
"مَا أعْطِیَ عَبْد شَیْئاً شَرًا مِنْ طَلَاقَةِ لِسَانِه" ([38])
’’انسا ن کو زبا ن کی تیزی سے بڑھ کر کو ئی بُری چیز نہیں دی گئى۔‘‘
12۔فن خطا بت کی اصلا ح
رسول اکرم ﷺ نہ صرف دنیا کے ایک عظیم خطیب تھے بلکہ آپ ﷺنے اپنے دور کے خطبا کی خطابت میں مو جود چند معا ئب کی بھی نشا ند ہی کر نے کے علاوہ اُن کی اصلا ح کی ۔جیسے جا ہلی دور کے خطبا کا ایک فن یہ بھی تھا کہ وہ گلا پھاڑ پھا ڑ کر با تیں کر تے اور دوران خطا بت با چھیں کھو لتے اور اپنے ہو نٹوں کو لٹکا نے میں بہت مبا لغہ سے کام لیتے۔ان قبا حتوں کا ذکر کر تے ہو ئے رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا :
"اِنَّ الله یُبغَضُ البَلِیغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِی یَتَحَلَّلُ بِلِسَا نِه تَخَلُّلَ البَا قِرَةِ بِلِسَانِهَا" ([39])
’’ بے شک اللہ بہت تر پڑ با تیں کر نے وا لے لو گوں سے دشمنی رکھتا ہے جو اپنی زبا ن کو اس طر ح پھرا تے ہیں جیسے گا ئے ( گھاس کھا نے میں) چپڑ چپڑ کر تی ہے ۔‘‘
یعنی بے سو چے سمجھے جو جی میں آتا ہے بکے جا تے ہیں۔
حضرت ابو ثعلبہ سے مروی ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا :
"اِنَّ اَحَبَّکُم اِلَیَّ وَاَقرَبَکُم مِنِّی فِی الآخِرَةِ مَحَاسِنُکُم اَخلَا قًا وَاِنَّ اَبغَضَکُم اِلَیَّ وَ اَبعَدَکُم مِنِّی فِی الآخِرَةِ مَسَاوِیکُم اَخلَاقاً التَّرثَارُونَالمُتَفَیهقِونَ المُتَشَدَّقُونَ"([40])
’’میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں سب سے زیا دہ قریب اچھے اخلاق والے لو گ ہوں گے ۔اور مجھے سب سے زیا دہ نا پسند اور آخرت میں سب سے زیا دہ دُور وہ لو گ ہیں جو بد اخلاق ، بیہودہ گو، پھیلا کر لمبی با ت کر نے وا لے اور اور بہت منہ پھلا کر تکلف کے ساتھ با تیں کر نے وا لے ہو ں گے۔ا سی عیب کے بارے جا حظ نے آپ ﷺ کی یہ روا یت بھی نقل کی ہے:
"نَهَى الرَّسُوْلُ ﷺ وَبِقَوْلِه اِیَّایَ وَالتَشَادُقُ" ([41])
’’ رسول اللہ ﷺ نے تشادق یعنی با چھیں کھو ل کھو ل کر خطا بت سے منع فر ما یا ہے۔‘‘
بہر حا ل جس طرح اللہ تعا لیٰ نے آپ ﷺکو منصب نبوت کا خاتم بنا کر اس دنیا میں مبعوث فر ما یا اسی طرح دیگر تمام اوصا ف میں بھی آپ ﷺکو خا تم بنا یا ۔اور یوں آپ ﷺخا تم الخطبا ء بھی قرار پا تے ہیں۔ خطا بت نبوی کے کما لا ت کا بیان علا مہ قا ضی عیا ض مالکی(م544ھ) نے بڑے خو بصورت الفا ظ میں اس طرح کیا ہے:
وَاَمَّا فَصَاحَةُ اللِّسَانِ وَبَلَاغَةُ الْقَوْلِ فَقَد کَانَ صَلَّی الله عَلَیهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ بِالمَحَلِّ الاَفْضَلِ وَالمَوْضِعِ الَّذِی لَایُجْهَلُ سَلَاسَةَ طَبْعٍ وَبَرَاعَةِ مَنْزَعٍ وَاِیجَازَ مَقْطَعٍ وَ نَصَاعَةَ لَفظٍ وَجَزَالَةَ قَوْلٍ وَصِحَّةَ مَعَانٍ وَقِلَّةَ تَکَلُّفٍ اُوْتِیَ جَوَامِعَ الکَلِمِ وَخُصَّ بِبَدَائعِ الحِکَمِ وَعُلِّمَ اَلسِنَةَ العَرَبِ فَکَانَ یُخَاطِبُ کُلَّ اُمَّةٍ مِنْهَا بِلِسَا نِهَا وَیُحَا وِرُهَا بِلُغتِنَا وَیُبَارِیهَا فِی مَنْزَعٍ بَلَاغِتِهَا حَتّٰی کَانَ کَثِیْرُ مِنْ أصحَا بِه یَسئلُوْنَهُ فِی غَیْرِ مَوطِنٍ عَنْ شَرْحٍ کَلَا مِه وَتَفسِیرِقَوْلِه مَنْ تَأ مَّلَ حَدِیْثَهُ وَسِیرَهُ عَلِمَ ذٰلِکَ وَتَحَقَّقَهُ وَلَیسَ کَلَا مِه مَعَ قُرَیْشٍ وَالاَنْصَارِ وَأ هلِ الحِجِازِ وَنَجْدٍ کَکَلَامِه مَعَ ذِیِ المِشَارِ الهَمدَا نِی وَ طِهْفَةَ النُّهدِیِّ وَقَطَنِ بنْ حَارِثَةَ العُلبَسِی وَالاَشعَثِ بنِ قَیسٍ وَوَائلِ بْنِ حُجرٍ الْکِنْدِیِّ وَ غَیْرِهِم مِنْ اِقبَالِ حَضرَ مَوتَ وَمَلُوْکِ الیَمَنِ ([42])
’’نبى كرىم ﷺ فصا حت و زبا ن اور بلا غت کلام میں ایسے بلند اور ارفع مقام پر فا ئز تھے جہاں سلا ست طبع، فصا حت کا ملہ ،ایجاز، موزوں الفا ظ کا انتخاب، جزالت کلام، قلت تکلف اور صحت معا نی کی ہر خو بی مو جود تھی ۔ پھر آپ ﷺکو جوامع الکلم بھی عطا کیے گئے، اللہ تعا لیٰ نے آپ ﷺکو عرب کی تمام زبا نیں سکھا دیں تھیں اور آپ ﷺہر قوم کے محاورے اور روزمرہ کا استعمال فر ما تے ۔حتی کہ بعض صحا بہ کرام کو اس کلام کی شرح دریا فت کر نا پڑ تی اور آپ ﷺکے ارشاد گرا می کی تو ضیح و تشریح کے خواستگار ہوتے۔ منقول ہے کہ آپ ﷺکا کلام اس وقت مختلف نو عیت کا ہو تا جب آپ ﷺذی المشتعار ہمدا نی ، طہفۃ النہدہ، قطن بن حا رثہ، اشعث بن قیس اور وا ئل بن حجر الکندی کے سا تھ گفتگو فر ما تے ،جو حضر مو ت اور یمن کے رؤسا میں سے تھے۔‘‘
خطا بت نبوی ﷺ کے بارے مىں علا مہ احمد رضا خاں بر یلوی (م1921ء) کا یہ شعر بہت خوبصورت اور جامع ہے:
تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا ء عر ب کے بڑے بڑے
کو ئی جا نے منہ میں زبا ن نہیں ، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں ([43])
خطا بت نبو ی کے ان محا سن کی وجوہ کے با رے میں رسول اللہ ﷺ نے چار عنا صر تر کیبی کی نشا ند ہی فر ما ئی جن میں دو وہبی اور دو اكتسابى ہیں۔ ’وہبی ‘سے مراد آپ ﷺکی فطر ی جا معیت اور اللہ تعا لیٰ کی طرف سے تعلیم قرآن ہے اور اكتسابى سے مراد آپ کا تعلق قبیلہ قریش ([44])سے ہو نا اور بنو سعد اور دیگر قبا ئل مىں تر بیت پانا ہے ۔
عصر حا ضر کی خطا بت سننے اور اس کے مشا ہدہ سے یہ وا ضح ہو تا کہ آج کے بیشتر خطباء میں بہت سی خا میاں موجود ہیں جن میں کم علمی، بد زبا نی ، گا لی گلوچ ،شادق یعنی با چھیں کھول کھول کر تقر یر کر نا اور محدود مو ضو عات اہم ہیں۔ با یں وجہ آج ہما رے معا شرے میں خطیب کو وہ مقام نہیں مل سکا جو عر ب معا شرے میں خطیب کو حاصل تھا ۔مزید برآں ان کی دعوت و تبلیغ كا اسلام میں وہ اثر بھى نہیں جو ہونا چا ہیے۔
حوالہ جات
- ↑ -شیخ احمد الاسکندری، الوسیط فی الادب العربی و تا ریخہ، تر جمہ پرو فیسر عبد القیوم ، پنجاب ایڈا وا ئزری بورڈ فا ر بُکس، محکمہ تعلیم، لاہور،1957ء، صفحہ 51۔ ( شیخ احمد الاسکندری مصر کے ایک معروف ادیب گزرے ہیں جنہوں نے شیخ مصطفیٰ عنا نی بک کے ساتھ مل کر عربی ادب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی جس کا مکمل نام ’الوسیط فی الادب العربی و تاریخہ ‘ ہے ۔ اس کتاب کا اردو تر جمہ پرو فیسر عبدالقیوم اور مو لو ی محمد بشیر صدیقی نے کیا ہے اور یہ 1951 میں لا ہور سے طبع ہو ئی)۔
- ↑ -محمدکرم شاہ ، پیر، ضیا ء النبی ﷺ، مکتبہ ضیاء القرآن ، لا ہور،1420ھ، جلد 2، صفحہ136
- ↑ - الوسیط فی الادب العر بی ، ص:54
- ↑ -الجاحظ، ابو عثمان عمرو بن بحر ، البیان و التبیین،( باب ذکر اسما ء الخطبا ء)، دار الکتب العلمية، بیروت، 2009ء، جلد 1، ص 16، 208۔ شیخ الا حمد الاسکندری ، الوسیط فی الادب العر بی، ص:54، 55۔
- ↑ -حمد خلیل الخطیب ، خطب المصطفی ﷺ، دار الا عتصام، مقام و نا شر نا معلوم، سن اشاعت: 1954ء۔
- ↑ -خا زن، امام علاؤ الدین علی بن محمد ابرا ہیم ، تفسیر لباب التاویل فی معا لم التنزیل المعروف بتفسیر خازن، دار المعرفۃ ، بیروت ، (س۔ن) جلد 1،صفحہ 308
- ↑ -تر مذی، محمد بن عیسیٰ ، جا مع التر مذی، دارالسلام ، ریاض،1999ء، ابواب تفسیر القرآن، باب من سورۃ ص، رقم الحدیث: 3233
- ↑ - عیاض ما لکی قا ضی ، الشفاء فی تعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ، فاروقی کتب خا نہ ، ملتان (ت۔ن)، جلد 1، صفحہ 47
- ↑ - طبرا نی امام ابو القاسم سلیمان بن احمد ،معجم الکبیر، دار احیا ء التراث العربی ، بیروت، 2009ء، جلد 6، صفحہ 32۔
- ↑ - خفا جی شہاب الدین امام، نسیم الریا ض، دار الکتب العلمیہ، بیروت، جلد 1، صفحہ 427۔
- ↑ - طبراني كبير، رقم الحدیث: 442)، جلد 17، صفحہ 121
- ↑ -ابرا ہیم :4۔
- ↑ -حا کم ابو عبد اللہ نیشا پوری امام، المستدرک علی الصحیحین، دار المعرفۃ ، بیروت ، (س۔ن)جلد 3، صفحہ 9-11۔
- ↑ -ابن عبد البرّابو عمرو یوسف ، الاستیعاب فی معر فۃ الا صحاب، مکتبۃ العصر یہ، بیروت ، 2010ء، جلد 2، صفحہ 19۔
- ↑ -محمد ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ، دار الفکر، بیروت، 1994ء، جلد 1، صفحہ 254۔
- ↑ - البیہقی ابو بکر احمد بن الحسین ، دلا ئل النبوۃ ، المکتبۃ الا ثریۃ، سانگلہ ہل، (س۔ن)، جلد 6، صفحہ257۔
- ↑ - البیہقی امام احمد بن الحسین، السنن الکبریٰ، دار الفکر ، بیروت (س۔ن)جلد 5، صفحہ 138۔139۔
- ↑ - الطبقات الکبریٰ، جلد 2، صفحہ 185۔
- ↑ - البیان والتبیین، جلد 2، صفحہ10۔
- ↑ -بخا ری، محمد بن اسما عیل امام، الجا مع الصحیح ،دارالسلام، ریا ض، 1999ء، کتاب الا عتصام با لکتاب والسنۃ، رقم الحدیث: 7273
- ↑ -الجا حظ، ابو عمرو، البیان والتبیین، جلد 2، صفحہ 12۔
- ↑ - الجا حظ، ابو عمرو، البیان والتبیین، جلد 2، صفحہ 12 ۔
- ↑ -ایضاً، صفحہ 14۔
- ↑ -ابو داؤد، سلیمان بن اشعث ، السنن، دارالسلام ، ریا ض، 1999ء ، کتاب الادب، با ب فی الهوى، رقم الحدیث:5130
- ↑ -بخا ری ،محمد بن اسما عیل امام، الجا مع الصحیح، کتاب الا دب ، باباذا لم تستح فا صنع ما شئت54، رقم الحدیث:6120
- ↑ -تر مذی، محمد بن عیسی امام، جا مع التر مذی، ابواب البرّ والصلة، بابب ما جاء فی ان من البیان سحراًً، رقم الحدیث2028
- ↑ -ایضاً، ابواب الادب، باب ما جاء اَن المستشار مؤ تمن، رقم الحدیث: 2823
- ↑ -ابن ما جہ ،محمد بن یزید امام، السنن، دارالسلام، ریا ض، 1999ء، ابواب الزہد ، با ب الحکمۃ ، رقم الحدیث: 4169
- ↑ -ایضاً۔ ابواب الفتن، باب العزلۃ، رقم الحدیث:3982
- ↑ - ابن ما جہ ، السنن، ابوا ب الزہد، باب ذکر البعث، رقم الحدیث:4275۔ مسند امام احمد مىں یہ روا یت یو ں ہے: (هٰکَذَابِیَدِه وَیُحَرِّکُهَا یُقبِلُ بِهَا وَ یُدَبِّریُمَجِّدُ الرَّب نَفسَهُ ، اَنَا الجَبَّارُ، اَنَا المُتَکَبِّرُ اَنَا المَلِکُ ، اَنَا العَزِیزُ ، اَنَا الکَرِیمُ فَرَجَفَ بِرَسُولِ الله ِ صَلّٰی الله عَلَیهِ وَسَلَّمَ المِنبَرُ حَتّٰی قُلنَا لِیَخِرُّنَ بِه) احمد بن حنبل امام، المسند، (رقم الحدیث:5414) ، دار صادر ، بیروت ، (ت۔ن)،جلد 2، صفحہ 72۔
- ↑ -مسلم بن الحجا ج امام، الجا مع الصحیح، دار السلام ، ریا ض، 1999ء، کتاب الجمعة،باب تخفیف الصلوٰۃ والخطبة، رقم الحدیث:2005ء
- ↑ - مسند احمد، رقم الحدیث:6249)، جلد 2، صفحہ140۔
- ↑ -صحيح مسلم ، کتاب الحج ، باب الحجة النبی ﷺ، رقم الحدیث:2950
- ↑ - البیان وا لتبیین، ج 1، ص: 205۔
- ↑ - صحيح مسلم ، کتاب الفتن، باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض، رقم الحدیث: 7267
- ↑ - جا مع التر مذی، ا بواب المناقب، با ب قول عا ئشۃ ماکان یتکلم بکلا م بنىه، رقم الحدیث: 3639
- ↑ - الدیلمی ابو شجا ع شیرويه بن شهردار، الفردوس بما ثور الخطاب، دار الکتب العلمية، بیروت،2000ء ج 1، ص:399 العجلوا نی شیخ اسما عیل بن محمد ، کشف الخفا ء و مزیل الا لباس، مکتبة العلم الحدیث، دمشق، 2001ء، ج 1، ص:226
- ↑ -قر طبی، محمد بن ا حمدامام، تفسیر الجا مع لا حکام القرآن، دار احیا ء الترا ث العربی، بیروت،1966ء ، ج 12، ص281
- ↑ - سنن ابي داؤد ، کتاب الادب ، با ب ما جا ء فی التشدق فی الکلام، رقم الحدیث:5005
- ↑ - احمد بن حنبل امام ، المسند، رقم الحدیث: 17884،17895، ج4، ص: 193
- ↑ - البیان وا لتبیین،ج 4، ص: 19 مجد الدین ابن الا ثیر، النهاية فی غر یب الحدیث بذیل لفظ تشدق، مؤسسة اسماعیلیاں، قم، ایران،1394ء، ج2، ص: 453۔
- ↑ -عیاض قا ضی، الشفا ء بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج 1،با ب 2، فصل5، ص: 44۔
- ↑ -احمد رضا خا ں بر یلوی علا مہ ، حدائق بخشش، فر ید بک سٹال، لا ہور، (ت۔ن)، ج 1، ص: 38۔
- ↑ -ابن کثیر حا فظ عما د الدین، البدا یہ والنہا یہ، المکتبۃ القدوسیہ، لا ہو ر ،1984ء،ج 2، ص: 202۔ علامہ ابن كثىر كى رواىت كے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس نے قریش کی وجہ تسمیہ اس طرح بیان کی کہ قریش ایک سمندری جا نور کا نام ہے جو اپنی طا قت اور قوت کے با عث دوسرے تمام جا نوروں پر غا لب رہتا ہے، ہر جا نور پر اسے مکمل اختیارہو تا ہے جسے چا ہتا ہے فنا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کھا جا تا ہے اور جسے چا ہتا ہے اپنا دل بہلا نے کے لیے چھوڑ دیتا ہے، سب پر حا کم اور غالب ہو تا ہے لیکن اس پر نہ تو کو ئی حا کم ہو سکتا ہے اور نہ کو ئی غا لب ۔ اسی طرح قریش عرب کا وہ خا ندان ہے جس کی شجا عت و بہادری، جوا نمردی، لسا نی بر تر ی اور عزت و احترام کی خا طر اس کا نام "قریش" رکھا گیا ، اس ضمن میں شمرخ بن عمرو حمیری کا یہ شعر بھی پیش کیا جا تا ہے: وَقُرَیش هِیَ الَّتِی تَسکُنُ البَحرَبِهَا سُمِّیَت قُرَیشُ قُرَیشَاء تأ کُلُ الغَثَّ وَالسَّمَنَ وَلا تَترُکنَ جَنَا حَینِ رِیشَاءَ هٰکَذَا فِی البِلَادِ حَتّٰی قُرَیشُ یَکِلُّونَ البِلَا دَ اَکَلاً کَمِیشَا
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |