3
1
2019
1682060060947_817
07-44
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/137/45
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/137
دور ِنبویﷺمیں قرآن کی کتابت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بھی اور اپنے طور پر بھی قرآن کی کتابت کیا کرتے تھے۔مثال کے طور پر حضرت زید بن ثابت آپؐ کے کاتب ہونے کی حیثیت سے ایک سرکاری کاتب کا درجہ رکھتے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
"إن زید بن ثابت قال أرسل إلی أبوبکر رضی الله عنه قال إنک کنت تکتب الوحی لرسول اللهﷺ فاتبع القرآن فتتبعت۔"([1])
’’ حضرت زید بن ثابت ؓکہتے ہیں مجھے حضرت أبوبکرنے ایک پیغام برَکے ذریعے یہ کہلوا بھیجا کہ تم (اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں ان )کے لیے وحی لکھا کرتے تھے ۔ پس تم قرآن کو تلاش کرو(اور جمع کرو)۔ پس میں نے قرآن کو تلاش کیا(اور جمع کیا)۔
صحابہ کی ایک جماعت آپﷺسے قرآن کو نقل کرتی تھی اور بعض اوقات یہی صحابہ احادیث بھی لکھ لیا کرتے تھے۔ پس آپﷺ نے ایک خاص دورانیے میں احادیث لکھنے سے منع فرما دیا تاکہ قرآن کے ساتھ احادیث خلط ملط نہ ہو جائیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی سعید الخدری أن رسول اللهﷺ قال: لا تکتبوا عنی و من کتب عنی غیر القرآن فلیمحه. ([2])
’’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: مجھ سے (قرآن کے علاوہ) نہ لکھو اور جس نے مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ لکھا ہے‘ وہ اسے مٹا دے۔‘‘
جب صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کے اسلوب و مزاج سے اچھی طرح واقف ہو گئے تو پھر آپﷺ نے احادیث لکھنے کی اجازت بھی جاری فرما دی۔ ( [3])آپؐ کے زمانے میں کچھ صحابہ سرکاری کاتبین وحی تھے لہٰذا سرکاری طور پر جمع شدہ قرآن بھی موجود تھا جبکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے طور پر بھی قرآن جمع کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر صحابہ كرام کے پاس قرآن کے مختلف اجزا لکھی ہوئی صورت میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جمع صدیقی کے وقت حضرت زید بن ثابت مختلف صحابہ کے پاس کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
"فتتبعت القرآن أجمعه من العسب و اللخاف و صدور الرجال۔"([4])
’’پس میں نے قرآن کو تلاش کیا اور اسے کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں‘ پتھروں اور لوگوں کے سینے سے جمع کرنے لگا۔‘‘
یہ واضح رہے کہ صحابہ کے پاس مکمل مصاحف، لکھی ہوئی صورت میں نہ تھے بلکہ ان کے پاس قرآن کے متفرق غیر مرتب اجزا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمع صدیقی کے وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بعض آیات کسی بھی صحابی کے پاس لکھی ہوئی نہ مل رہی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں:
فقدت آىة من الأحزاب حین نسخنا المصحف قد کنت أسمع رسول اللهﷺ یقرأ بها فالتمسناها فوجدناها مع خزىمة بن ثابت الأنصاری۔([5])
’’ جب ہم نے مصحف کو لکھ لیا تو سورۃ احزاب کی ایک آیت ہم نے کم پائی جسے میں نے اللہ کے رسولﷺ سے پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ پس ہم نے اس آیت(کی لکھی ہوئی صورت) کو تلاش کیاتو ہم نے اسے خزیمہ بن ثابت انصاریؓ کے پاس پایا۔‘‘
خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں قرآن کی کتابت
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے زمانے میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سرکاری طور پر ایک ایسے مصحف کی تیاری کاحکم دیا گیاجس میں قرآن کی جمیع آیات وسور کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہو۔ اس مصحف کی تیاری کا تذکرہ بہت سی روایات میں ملتا ہے۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
أن زید بن ثابت رضی الله عنه قال أرسل إلی أبوبکر مقتل أهل الیمامة فإذا عمر بن الخطاب عندہ قال أبوبکر رضی الله عنه إن عمر أتانی فقال إن القتل قد استحر یوم الیمامة بقراء القرآن وإنی أخشی أن یستحر القتل بالقراء بالمواطن فیذهب کثیر من القرآن وإنی أری أن تأمر بجمع القرآن قلت لعمر کیف تفعل شیئا لم یفعله رسول اللهﷺ قال عمر هذا الله خیر فلم یزل عمر یراجعنی حتی شرح الله صدری لذلک ورأیت فی ذلک الذی رأی عمر قال زید قال أبوبکر إنک رجل شاب عاقل لانتهمك و قد کنت تکتب الوحی لرسول اللهﷺ فتتبع القرآن فاجمعه فولله لو کلفونی نقل جبل من الجبال ما کان أثقل علی مما أمرنی به من جمع القرآن قلت کیف تفعلون شیئا لم یفعله رسول اللهﷺ قال هو والله خیر فلم یزل أبوبکر یراجعنی حتی شرح الله صدری للذی شرح له صدر أبی بکر وعمر رضی الله عنه ما فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللحاف وصدور الرجال۔([6])
’’حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں اہل یمامہ کی جنگ کے وقت بلوا بھیجاتو انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکرؓ کے پاس حضرت عمرؓموجود ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا: عمرؓ میرے پاس آئے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یمامہ کی جنگ میں قراء کی کثیر تعداد شہید ہوئی ہے اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ بعض دوسرے مقامات پر بھی قراء کی ایک بڑی تعداد شہید ہوجائے اور ہم سے قرآن کا اکثر حصہ ضائع ہو جائے۔ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ آپ(یعنی ابو بکرؓ ایک جگہ) قرآن جمع کرنے کا حکم جاری فرمائیں۔ میں (یعنی ابوبکرؓ) نے عمرؓ سے کہا: تم وہ کام کیسے کرو گے جو اللہ کے رسولﷺ نے نہیں کیا۔ عمرؓ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اس کام میں خیر ہی خیر ہے۔پس عمرؓ مجھے اس کام کے لیے مشورہ دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے ا س کے لیے میرے سینے کوکھول دیااور اس مسئلے میں میری رائے بھی وہی ہو گئی جو عمرؓ کی ہے۔حضرت زیدؓ نے کہا:حضرت ابوبکرؓ نے مجھے یہ کہا کہ تم ایک نوجوان اور سمجھدار آدمی ہو اور ہم تم میں کوئی عیب بھی نہیں دیکھتے اور تم اللہ کے رسول ﷺ کے کاتب بھی تھے۔ پس تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔ (زید رضی الہ عنہ فرماتے ہیں)اللہ کی قسم! اگر وہ حضرات مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تویہ کام مجھ پر قرآن جمع کرنے کی نسبت آسان تھا۔ میں(زیدؓ) نے کہا: آپ حضرات وہ کام کیسے کریں گے جو اللہ کے رسولﷺ نے نہیں کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا:اللہ کی قسم! یہ کام خیر ہی خیر ہے۔ پس حضرت ابو بکرؓ مجھے اس کام پر مجبور کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ بھی ویسے ہی کھول دیا جیسا کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا کھولا تھا۔پس میں نے قرآن کو تلاش کیا اور اسے کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں‘ پتھروں اور لوگوں کے سینے سے جمع کرنے لگا۔‘‘
ایک اور روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابتؓ کے ساتھ حضرت عمرؓ بھی اس کام میں شریک تھے اور یہ حضرات جمع صدیقی کے دوران اس وقت تک کسی صحابی سے کوئی آیت مبارکہ قبول نہ کرتے تھے جب تک کہ وہ صحابی اس بات پر دو گواہ نہ پیش کر دے کہ اس نے وہ آیت مبارکہ اللہ کے رسولﷺ کے سامنے لکھی تھی اور پڑھی تھی۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن هشام بن عروۃ عن أبىه قال: لما استحر القتل بالقراء یومئذ فرق أبوبکر علی القرآن أن یضیع فقال لعمر بن الخطاب و لزید بن ثابت: اقعدوا علی باب المسجد فمن جاءکما بشاهدين علی شیء من کتاب الله فاکتباہ۔([7])
’’ ہشام بن عروۃؒ اپنے والد عروۃ بن زبیر ؒسے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: جب قراء کی بڑے پیمانے پر شہادت ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ اس بات سے گھبرا گئے کہ قرآن ضائع نہ ہو جائے۔ پس انہوں نے حضرت عمر اور زید رضی اللہ عنہما سے کہا:مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور جو تمہارے پاس کسی چیز(یعنی لکھی ہو ئی ہو اورپڑھی ہوئی) پر دو گواہ لے کر آئے کہ وہ کتاب اللہ میں سے ہے تو اسے لکھ لو۔‘‘
یہ واضح رہے کہ جمع قرآن کے لیے دو گواہوں کی جو شرط عائد کی گئی تھی وہ صرف حفظ کے لیے نہ تھی بلکہ اس میں قرآن کی کسی آیت کی کتابت پر بھی دو گواہ پیش کرنے کا حکم تھا۔ [8]حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں جمیع قرآن لکھی ہوئی شکل میں جمع کر لیا گیاتھا لیکن یہ مرتب نہیں تھا یعنی ایک مصحف کی بجائے مختلف صحیفوں کی صورت میں تھا۔ مثال کے طور پر اس کو آسانی کے لیے یوں سمجھ لیں کہ جیسے قرآن کی ۱۱۴ سورتیں ہیں‘ اب یہ تمام سورتیں تو موجود ہوں لیکن متفرق طور پر‘ یا اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ جیسے قرآن کے تیس پارے ہیں ۔ اب یہ تیس اجزامتفرق طور پر ہوں تو ان کو ’صحف‘ کہیں گے اور اگر ان کو ایک جلد میں جمع کر دیں تو اس کو ’مصحف‘ کہیں گے۔ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ کے زمانے میں ’صحف‘ تھے نہ کہ ’مصحف‘ ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
وقال عثمان للرهط القرشیین الثلاثة إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی شیء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانهم ففعلوا حتی نسخوا الصحف فی المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصة۔([9])
’’حضرت عثمانؓ نے تین قریشی صحابہؓ سے کہا: جب تمہارا اور زید بن ثابتؓ کا کسی لفظ کو لکھنے (کے رسم) میں اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ پس ان چاروں صحابہ نے یہ کام کیا اورتمام ’صحف‘ کو ’مصاحف‘ میں نقل کر دیا۔ پھر حضرت عثمانؓ نے (حضرت ابو بکرؓکے زمانے میں تیار شدہ) صحف حضرت حفصہ کو لوٹا دیے(کیونکہ حضرت ابو بکرؓ سے وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے تھے اور حضرت عمرؓ سے پھر حضرت حفصہ ر ضی اللہ عنہا کو ملے تھے)۔‘‘
خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں قرآن کی کتابت
سىدنا ابوبکر کے زمانہ میں صحابہؓ کے جزوی و انفرادی صحیفے ان کے پاس موجود رہے۔حضرت عمرکے زمانہ میں جب سلطنت وسیع ہوئی تو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف شہروں کی طرف ہجرت کر گئے ۔ بعض صحابہ کو حضرت عمرؓ نے خود بھی بھیجا تھاجیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو کوفہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو شام اور ابو موسی اشعری کوبصرہ کی طرف بھیجا گیا۔ ان کبار صحابہ نے اپنے اپنے شہروں میں اپنے صحائف کے مطابق قرآن کی تعلیم و تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر صحابیؓ نے جو حرف اللہ کے رسول ﷺ سے نقل کیا تھااس کے مطابق اپنے شاگردوں کو قرآن کی تعلیم دی۔اس طرح مختلف اسلامی شہروں میں مختلف قرآنی قراءات کا ظہور ہواجس سے سلطنت اسلامیہ کے بلاد و امصار میں قرآن کی قرا ء ات کے حوالے سے ایک تنازع پیدا ہو گیا۔ ہر شہر کے لوگ اپنے شہر کی قر اء ت کو صحیح اور دوسری کو غلط کہنے لگے حالانکہ ان میں سے اکثر قراءات، أحرف سبعہ کے ذیل میں اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت تھیں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی الشعثاء قال: کنت جالسا عند حذيفة وأبی موسی وعبد الله بن مسعود فقال حذیفة: أهل البصرۃ یقرؤون قراءۃ أبی موسی، وأهل الکوفة یقرؤون قراءۃ عبد الله أما والله أن لو قد أتیت أمیر المؤمنین لقد أمرته بغرق هذه المصاحف‘ فقال عبد الله: إذا تغرق فی غیر ماء۔([10])
’’ابو شعثاء ؒسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں حضرت حذیفہ‘ حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھا تھا کہ حضرت حذیفہؓ نے کہا: اہل بصرہ ابوموسی اشعریؓ کی اور اہل کوفہ عبداللہ بن مسعودؓ کی قراء ت پڑھتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر میں امیر المؤمنین (عثمانؓ)کے پاس آؤں توانہیں ان جمیع (اختلافی)مصاحف کے غرق کرنے کا حکم دے دوں۔ اس پر ابن مسعودؓ نے کہا: تب تو تم بھی پانی کے بغیر ہی غرق ہو جاؤ۔‘‘
اس روایت کی سند ایک ’مدلس‘ راوی کے عنعنہ کی وجہ سے’ ضعیف‘ ہے لیکن اس روایت کے متن کی تائید بعض صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق قراء ات کے یہ اختلافات محاذ جنگ اور سرحدی علاقوں میں بھی بہت نمایاں ہو گئے تھے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
أن حذيفة بن الیمان قدم علی عثمان وکان یغازی أھل الشام فی فتح إرمینية وأذربیجان مع أھل العراق فأفزع حذيفة اختلافهم فی القراءة فقال حذيفة لعثمان یا أمیرالمؤمنین أدرک هذه الأمة قبل أن یختلفوا فی الکتاب اختلاف اليهود والنصاری۔([11])
’’حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور وہ اہل عراق و اہل شام کے ساتھ مل کر آرمینیہ اور آذر بائیجان کی فتح کے لیے جنگ کر رہے تھے۔ اس موقعے پر صحابہ رضی اللہ عنہم کی قراء ات کے اختلافات سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ سے کہا: اے امیر المؤمنین!اس امت کو پکڑیں اس سے پہلے کہ یہ بھی یہود و نصاری کی طرح اللہ کی کتاب میں اختلاف کرنے لگے۔‘‘
جمع عثمانی سے پہلے قراء ات قرآنیہ کی صورت حال
اب ذیل کی بحث میں ہم جمع عثمانی سے پہلے پڑھی جانے والی قراء ات کے بارے دو نکات واضح کرنا چاہتے ہیں:
۱۔ متفر ق أحرف کی قراء ت کے علاوہ اس عرصے میں یعنی جمع عثمانی سے پہلے کچھ ایسی قراء ات بھی رائج و عام تھیں جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن سمرة رضی الله عنه قال: عرض القرآن علی رسول اللهﷺ عرضات فیقولون: إن قراءتنا هذه العرضة الأخیرة هذا حدیث صحیح علی شرط البخاری بعضه و بعضه علی شرط مسلم و لم یخرجاه تعلیق الذهبي فی التلخیص: صحیح۔([12])
’’حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: قرآن مجید ،اللہ کے رسولﷺ پر کئی مرتبہ پیش کیا گیا اور صحابہ کا کہنا یہ تھا کہ ہماری یہ قراء ت (یعنی جمع عثمانی والی) عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔ (امام حاکم ؒنے کہا ہے کہ) اس روایت کابعض حصہ بخاری کی شرط پر اور بعض مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام ذہبی ؒنے بھی اپنی ’تعلیق‘ میں اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔‘‘
اس بارے میں بھی صحابہ میں اختلاف تھا کہ کسی قاری صحابی کی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن مجاهد عن ابن عباس قال: قال أی القراءتین کانت أخیرا قراءة عبد الله أو قراءة زید قال قلنا قراةء زید قال: لا إلا إن رسول اللهﷺ کان یعرض القرآن علی جبریل کل عام مرة فلما کان فی العام الذی قبض فيه عرضه عليه مرتین وکانت آخر القراءة قراءة عبد الله تعلیق شيخ أحمد شاكر: إسناده صحیح۔([13])
’’ حضرت مجاہد ؒ ‘ ابن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے شاگردوں سے)سوال کیا: دونوں قراء ات میں کون سی قراء ت آخری ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی یا حضرت زید بن ثابتؓ کی؟ہم نے جواب دیا: حضرت زید بن ثابتؓ کی قراء ت۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا: نہیں! حضرت جبرئیل ؑقرآن مجید، اللہ کے رسول ﷺ پر ہرسال ایک مرتبہ پیش کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو مرتبہ پیش کیا اور عبد اللہ بن مسعودؓ کی قراء ت آخری قراءت ہے۔‘‘
بعض صحیح روایات کے مطابق حضرت زید بن ثابتؓ کی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق تھی۔ علامہ ابن حجرؒ نے ان روایات کو بیان کرنے کے بعد ان میں یوں موافقت پیدا کی ہے کہ یہ دونوں اقوال ہی اپنی جگہ درست ہیں۔ دونوں صحابہ یعنی حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما کی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق تھی۔([14] )
بہرحال ان روایات کو بیان کرنے سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ عرضہ أخیرہ میں کچھ قراء ات منسوخ ہو گئی تھیں اورغالب گمان یہی ہے کہ یہ منسوخ قرا ء ات عموماً ان مترادفات کے قبیل سے تھیں جن کی اجازت آپؐ کے زمانے میں تیسر و عدم حرج کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے دی گئی تھی۔اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ میں کچھ ’حروف‘ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں اور کچھ باقی ہیں جن کی تلاوت ہم آج تک کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے اور آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ([15])
۲۔ جمع عثمانی سے پہلے اسی طرح ایک اور مشکل (جو کسی حد تک جمع عثمانی کے بعد میں بھی رہی)یہ بھی درپیش تھی کہ بعض صحابہ نے آپؐ کی تفسیرکو اپنے مصاحف میں لکھ کر قرآن کے ساتھ خلط کر دیا تھا۔ یعنی اللہ کے رسولﷺ نے جس خدشے کے پیش نظر قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے سے منع کیا تھا ‘ اس کا عملی مظہر کچھ اس طرح سامنے آنے لگاتھا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم تفسیری نکات کو بھی بطور قرآن نقل کر رہے تھے جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہ‘ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھن نے اپنے کاتب کو یہ ہدایت کی کہ وہ قرآن لکھتے وقت سورۃ بقرۃ میں ’وصلاۃ العصر‘کے الفاط بھی لکھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی یونس مولی عائشة أم المؤمنین أنه قال: أمرتنی عائشة رضی الله عنها أن أکتب لها مصحفا ثم قالت: إذا بلغت هذه الآية: حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطی، فآذنی فلما بلغتها آذنتها فأملت علی:حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا لله قانتین، ثم قالت: سمعت لها من رسول اللهﷺ۔([16])
’’یونس مولی حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:مجھے حضرت عائشہؓ نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں۔ پھر یہ کہا کہ جب میں اس آیت یعنی ’حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی‘پر پہنچوں ‘ تو انہیں مطلع کروں۔ پس جب میں(یعنی کاتب) اس آیت مبارکہ پر پہنچا تو انہیں خبر دی۔ پس انہوں نے مجھے یہ آیت اس طرح املا کروائی: حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا للہ قانتین‘ اور پھر فرمایا: میں نے اللہ کے رسولﷺ سے ایسے ہی سنا ہے۔‘‘
بعض دوسری روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’صلاۃ العصر‘ کے الفاظ در حقیقت اللہ کے رسول ﷺ کی تفسیر تھی یا ایسی تلاوت تھی جو منسوخ ہو چکی تھی۔([17] )
مصحف عثمانی کی تیاری
ان حالات میں حضرت عثمان ؓ نے یہ کوشش کی کہ وہ سرکاری طور پر ایک ایسا مصحف تیار کروائیں جس میں عرضہ اخیرہ کے مطابق جمیع أحرف قرآنیہ کو نقل کر دیں تاکہ عوام الناس، اللہ کے رسولﷺ سے منقول صحیح قراء ات سے واقف ہو سکیں اور جہالت میں ایک دوسرے کی قراء ت کا رد نہ کریں۔ علاوہ ازیں اس مصحف کی تیاری سے یہ بھی مقصود تھاکہ جن منسوخ قراء ات یا تفسیری نکات کی تلاوت تاحال جاری ہے‘ ان کو ختم کیا جائے اور تمام مسلمانوں کو سرکاری مصحف کے مطابق قراء ت کا پابند بنایا جائے۔ اس کے لیے حضرت عثمانؓ نے چار صحابہ یعنی حضرت زید بن ثابت‘ عبد اللہ بن زبیر‘ سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کا انتخاب کیا۔ اس سرکاری مصحف کی تیاری کے بعد حضرت عثمانؓ نے اس کی کئی ایک کاپیاں تیار کروائیں اور مختلف شہروں میں بھیج دیں۔ علاوہ ازیں ایک کام یہ بھی کیا گیا کہ صحابہؓ کے پاس موجود ان کے ذاتی مصاحف کو جمع کر کے جلا دیا گیا۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
وقال عثمان للرهط القرشیین الثلاثة إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی شیء من القرآن فاکتبوه بلسان قریش فإنما نزل بلسانهم ففعلوا حتی نسخوا الصحف فی المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصة و أرسل إلی کل أفق بمصحف مما نسخوا و أمر بما سواه من القرآن فی کل صحیفة أو مصحف أن یحرق۔([18])
’’حضرت عثمانؓ نے تین قریشی صحابہؓ سے کہا: جب تمہارا اور زید بن ثابتؓ کا کسی لفظ کو لکھنے (کے رسم) میں اختلاف ہو جائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھو کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ پس ان چاروں صحابہؓ نے یہ کام کیا اورتمام ’صحف‘ کو ’مصاحف‘ میں نقل کر دیا۔ پھر حضرت عثمانؓ نے (حضرت ابو بکرؓکے زمانے میں تیار شدہ) صحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیے۔ حضرت عثمانؓ نے ایک ایک مصحف مختلف اسلامی شہروں میں بھیج دیا اور ان سرکاری مصاحف کے علاوہ قرآن کے ہر صحیفے یا مصحف کے بارے یہ حکم جاری کیا کہ اسے جلا دیا جائے۔‘‘
حضرت عثمانؓ کے مصحف کی تیاری میں‘ مدینہ میں موجود چارصحابہؓ نے ‘ جمع صدیقی کو بنیاد بناتے ہوئے ایک مصحف تیار کر دیاتھا۔ پس اس مصحف کی تیار ی میں جمیع قراء صحابہؓ کی طرف رجوع نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے یہ قوی امکان موجود ہے کہ کچھ أحرف قرآنیہ(یعنی قرا ء ات کے اختلافات) جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے اپنا یہ مصحف مختلف شہروں میں بھیجا تو بعض کبار صحابہؓ کی طرف سے مختلف قسم کا رد عمل سامنے آیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عبد الأعلی بن الحکم الکلابی قال: أتیت دار أبی موسی الأشعری فإذا حذیفة بن الیمان وعبد الله بن مسعود وأبو موسی الأشعری فوق إجار لهم فقلت: هؤلاء الله الذین أرید فأخذت أرتقی إليهم فإذا غلام علی الدرجة فمنعنی فنازعته فالتفت إلی بعضهم قال: خل عن الرجل. فأتیهم حتی جلست إليهم فإذا عندهم مصحف أرسل به عثمان وأمرهم أن یقیموا مصاحفهم عليه فقال أبو موسی: ما وجدتم فی مصحفی هذا من زیادة فلا تنقصوها وما وجدتم من نقصان فاکتبوه.([19])
’’عبد الأعلی بن حکم کلابی نے کہا: میں ابو موسی اشعری کے گھر آیا تو وہاں چھت پرحضرت حذیفہ بن یمان‘ ابوموسی اشعری اور عبد بن مسعود رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ میں نے(دل میں) کہا: یہ تو وہی لوگ ہیں جن کی تلاش میں ‘ میں تھا۔ پس میں نے سیڑھیاں چڑھنا چاہیں تو ایک غلام نے مجھے روکا۔ میں اس سے الجھ پڑا تو ان حضرات میں سے ایک نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا: اسے آنے دو۔ پس میں ان کے پاس آ کر بیٹھ گیاتو ان کے سامنے وہ مصحف موجود تھا جو حضرت عثمان نے ان کو بھیجا تھااور انہیں یہ بھی حکم جاری کیا تھا کہ وہ اپنے مصاحف ‘ اس مصحف کے مطابق درست کر لیں۔ حضرت ابو موسی اشعریؓ نے کہا: میرے مصحف میں اگر تم (مصحف عثمان کے بالمقابل) کوئی زیادتی دیکھو تو اس کو باقی رہنے دو اور اگر اس میں (مصحف عثمان کے بالمقابل) کوئی کمی دیکھو تو اس کو لکھ لو۔‘‘
اس روایت میں ’ عبد الأعلی بن الحکم الکلابی‘ راوی کا تذکرہ تو کتب جرح و تعدیل میں موجود ہیں لیکن کوئی جرح و تعدیل مروی نہیں ہے۔ اس روایت کے متن کی تائید بعض دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے بھی حضرت عثمانؓ سے اپنا مصحف چھپا لیا تھا اور اپنے شاگردوں کو بھی اپنا مصحف چھپانے کا حکم دیا تھا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن خمیر بن مالک عن عبد الله قال: أمر بالمصاحف یعنی ساء ذلک عبدالله بن مسعود قال: من استطاع منکم أن یغل مصحفاً فلیغلل فإنه من غل شیئا جاء بما غل یوم القیامة. ثم قال عبدالله لقد قرأت القرآن من فی رسول الله سبعین سورة و زید بن ثابت صبی أفأترک ما أخذت من فيَّ رسول الله.([20])
’’حضرت خمیر بن مالک ابن مسعودؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جب مصاحف کے بارے(جلانے کا) حکم دیا گیا تو یہ بات ابن مسعودرضی اللہ عنہ کو بہت ناگوار گزری۔ابن مسعودؓ نے(اپنے شاگردوںسے) کہا: جو تم میں سے اپنا مصحف چھپانے کی استطاعت رکھتا ہے وہ چھپا لے کیونکہ جو بھی کوئی چیز چھپائے گا اسے قیامت کے دن لے کر آئے گا۔ ابن مسعودؓ نے کہا: میں نے اللہ کے رسولﷺ سے قرآن کی ستر سورتیں اس وقت سیکھیں جبکہ زید بن ثابتؓ ابھی بچے تھے۔ کیا میں اس(بچے) کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ سے سیکھے ہوئے قرآن کو چھوڑ دوں۔‘‘
شیخ أحمد شاکر نے اس روایت کی سند کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے۔ ([21])
یہی وجہ ہے کہ بعض کبار قراء صحابہ رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ کچھ ایسی بھی قراء ات مروی ہیں جو رسم عثمانی میں نہیں ہیں۔ ہماری رائے میں جو قراء ات بعض کبار قراء صحابہؓ سے صحیح سند سے مروی ہیں‘ ان میں تین احتمالات ممکن ہیں:
1۔ وہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی ہوں۔
2۔ وہ آپ کے تفسیری نکات کے قبیل سے ہوں جنہیں بعض صحابہؓ نے غلطی سے قرآن سمجھ کر نقل کر دیا ہو۔
3۔ وہ ان أحرف کے قبیل سے بھی ہو سکتی ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہوں لیکن جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔ہمارے نزدیک اگر معروف اور کبار صحابہ ؓ سے صحیح سند کے ساتھ کوئی ایسی قراء ت مروی ہو جو رسم عثمانی کے خلاف ہو اور اس میں دوسرا احتمال بھی ممکن نہ ہو تو اسے تیسرے احتمال پر محمول کرنا پہلے پر محمول کرنے سے زیادہ بہتر اور راجح ہے اور اس موقف کی تائید بعض روایات‘ دلائل ‘ شواہد اور أئمہ سلف کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔
بعض روایات کے مطابق حضرت عمر ؓ نماز میں بعض ان أحرف کی تلاوت کرتے تھے جو جمع عثمانی میں موجود نہیں ہیں جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
أبان بن عمران النخعی قال: قلت لعبد الرحمن بن الأسود: انک تقرأ "صراط من أنعمت عليهم غیر المغضوب عليهم وغیر الضالین" فقال حدثنی أبی وکان ثقة أنه صلی خلف عمر بن الخطاب فسمعه یقرؤها۔([22])
’’ابان بن عمران فرماتے ہیں کہ میں عبد الرحمن بن اسود سے کہا: آپ ’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم وغیر الضالین‘ پڑھتے ہیں توانہوں نے جواب دیا:مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور وہ ثقہ راوی ہیں کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو ان کو یہ آیت ایسے ہی پڑھتے سنا۔‘‘
اس روایت کی سند’صحیح‘ ہے۔([23] )ایک اورروایت کے الفاظ ہیں:
أن عمر بن الخطاب قرأ فی صلاۃ الصبح سورۃ آل عمران فقرأ: الم الله لا إله إلا ھو الحی القیام۔([24])
’’حضرت عمر بن خطابؓ نے صبح کی نماز میں سورۃ آل عمران میں ’الم اللہ لا إلہ إلا ھو الحیی القیام‘ پڑھا۔‘‘
اس روایت کی سند’ حسن لغیرہ ‘ہے۔([25]) ایک روایت کے مطابق ابن عباسؓ نے مغرب کی نماز میں’ إذا جاء فتح اللہ والنصر‘پڑھا۔روایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی نوفل بن أبی عقرب قال سمعت ابن عباس یقرأ فی المغرب: "إذا جاء فتح الله والنصر."([26])
اس روایت کی سند ’حسن‘ درجے کی ہے۔ ([27])
صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن ابراهيم قال قدم أصحاب عبد الله علی أبی الدرداء فطلبهم فوجدھم فقال أیکم یقرأ علی قراءۃ عبد الله قال کلنا قال فأیکم أحفظ فأشاروا إلی علقمة قال کیف سمعته یقرأ ’’واللیل إذا یغشی‘‘ قال علقمة ’’والذکر والأنثی‘‘ قال أشهد أنی سمعت النبیﷺ یقرأ هکذا وهؤلاء یریدونی علی أن أقرأ ’’وما خلق الذکر والأنثی‘‘والله لا أتابعهم۔([28])
’’حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ کے کچھ اصحاب ابو درداءؓ کے پاس آئے۔ پس ابو درداءؓنے ان سے کہا: تم میں سے کون ابن مسعودؓ کی قراء ت کے مطابق تلاوت کرتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا: ہم سب۔ حضرت ابو درداءؓ نے کہا: تم میں کون سب سے زیادہ ان کی قراء ت کو یاد رکھنے والا ہے تو انہوں نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت ابو درداءؓ نے علقمہؒ سے کہا: تم نے ابن مسعود رضی اللہ کو ’ واللیل إذا یغشی‘ کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟۔ علقمہ ؒ نے جواب دیا:(واللیل إذا یغشی والنھار إذا تجلی) والذکر والأنثی‘۔ابو داداء ؓنے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اللہ کے نبیﷺ کو یوں پڑھتے ہوئے سنا ہے اور یہ حضرات(یعنی اہل شام) یہ چاہتے ہیں کہ میں ’وما خلق الذکر والأنثی‘پڑھوں۔ اللہ کی قسم! میں ان کی پیروی نہ کروں گا۔‘‘
ان روایات کی قراء حضرات عموماً یہ تاویل کرتے ہیں کہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم منسوخ قراء ات کی تلاوت کرتے تھے اور انہیں ان قراء ات کے نسخ کا علم نہ تھا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ راشدمسجد نبوی میں جماعت کی نماز میں منسوخ قراء ت کی تلاوت کریں اور کوئی صحابیؓان کو متنبہ نہ کرے ،ممکن نہیں ہے۔ حفاظت قرآن اور تبلیغ قرآن کے پہلو سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ بنیادی فریضہ تھا کہ وہ قرآن اور غیر قرآن میں تمیز باقی رکھیں۔ پس اگر کبار قراء صحابہؓ کی ایک جماعت نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز میں اس تلاوت کو سنا اور اس پر سکوت اختیار کیا تو اس قراء ت کو حضرت عمرؓ کے علاوہ جمہور قراء صحابہ کی تائید بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ مان لینا کہ خلیفہ ثانی کو بھی منسوخ اور غیر منسوخ قرآن کا علم نہ تھا اور صحابہؓ منسوخ قراء ت کی تلاوت پر سکوت اختیار کرتے تھے‘ سے بہت زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کر لیا جائے کہ جمع عثمانی، عرضہ اخیرہ میں باقی رکھے گئے جمیع أحرف کو جامع نہ تھی اگرچہ ان أحرف کی اکثریت کی جامع ضرور تھی۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جمع عثمانی کے بعد بھی ابن عباس ؓ بعض ایسی قراء ات کی تلاوت نماز میں کر رہے ہیں جو رسم عثمانی کے موافق نہیں ہیں۔بعض قراء ایسی قراء ات کو تفسیر ی نکات کی قبیل سے قرار دیتے ہیں حالانکہ صحابہؓ کی طرف سے تفسیر کو نماز میں پڑھنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
یہ بات واضح رہے کہ جمع عثمانی پر سب صحابہ کا اجماع و اتفاق تھا۔ اختلاف صرف اس مسئلے میں تھا کہ بعض صحابہؓ کے پاس اپنے مصاحف میں کچھ اضافی أحرف ایسے تھے جو جمع عثمانی میں موجود نہ تھے ۔ پس وہ صحابہؓ جمع عثمانی کے ساتھ اپنے ان أحرف کی تلاوت کو بھی جاری رکھنا چاہتے تھے جبکہ حضرت عثمان ؓ ان أحرف کے مطابق تلاوت کی اجازت دینے کے قائل نہ تھے۔یا تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہصحابہؓ کے وہ اضافی أحرف جمع عثمانی کے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں لہٰذا انہیں مصحف عثمانی میں نہ رکھا گیا یا پھر اس میں ایک دوسرا احتمال یہ بھی ممکن ہے کہ جمع عثمانی کی بنیاد مدنی صحابہؓ سے قرآن جمع کرنے پر رکھی گئی اور بقیہ بلاد اسلامیہ مثلاً کوفہ وغیرہ کے مصاحف یا قراء صحابہؓ سے اس بارے مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔ اس دوسرے احتمال کی تائید بعض روایات سے بھی ہوتی ہے کہ جمع عثمانی میں متفرق أحرف جمع کرنے کی کوشش ضرور کی گئی تھی لیکن یہ کوشش مدینہ اور اس کے قرب و جوار کے صحابہؓ سے جمع کرنے پر ہی منحصر تھی۔امام دانی ؒ (متوفی ۴۴۴ھ)نے اپنی سند سے ایک روایت بیان کی ہے جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
أنس بن مالک قال اختلف المعلمون فی القرآن حتی اقتتلوا أو کان بینهم قتال فبلغ ذلک عثمان فقال عندی تختلفون وتکذبون به و تلحنون فيه یاأصحاب محمدﷺ اجتمعوا فاکتبوه للناس إماما یجمعهم قال و کانوا فی المسجد فکثروا فکانوا إذا تماروا فی الآية یقولون أنه أقرأها رسول اللهﷺ هذه الآية فلان بن فلان وهو علی رأس أمیال من المدينة فیبعث إليه من المدینة فیجیء فیقولون کیف أقرأك رسول اللهﷺ آية کذا و کذا فیکتبون کما قال۔([29])
’’ انس بن مالک قشیری سے روایت ہے کہ قرآن کے معلمین کا قرآن کی قراء ات کے بارے اختلاف ہو گیا یہاں تک کہ ان میں لڑائی شروع ہو گئی۔ یہ بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا:اے اصحاب محمدؐ! میرے ہوتے ہوئے تم آپس میں اختلاف کرتے ہو اور ایک دوسرے کی قراء ت کو جھٹلاتے ہواور اس میں غلطیاں نکالتے ہو۔ چلیں! مل جل کرلوگوں کے لیے ایک ایسا مصحف امام لکھتے ہیں جو ان کو جمع کر دے۔انس بن مالک نے کہا: صحابہ رضی اللہ عنہم اس وقت مسجد نبوی میں تھے اور ان کی تعداد کافی بڑھ گئی تھی ۔ پس جب ان میں قرآن کی کسی آیت کے بارے اختلاف ہوتا تھا تو کہتے تھے : یہ آیت اللہ کے رسول ﷺ نے فلاں ابن فلاں کو پڑھائی ہے اور وہ شخص مدینہ سے کئی میل کے فاصلے پر ہوتا تھا۔ پس اسے مدینہ بلوایا جاتا اور وہ آتا تھا۔ پس وہ اس سے پوچھتے کہ تمہیں اللہ کے رسول ﷺ نے فلاں فلاں آیت کیسے پڑھائی اور پھر اس آیت کو ویسے ہی لکھ لیتے تھے جیسے وہ صحابیؓ بتلاتے تھے۔‘‘
بعض روایات میں’ثلاث لیال‘ یعنی تین راتوں کے الفاظ بھی آئے ہیں۔[30] مدینہ سے تین راتوں کی مسافت اس دور کے ذرائع نقل و حمل کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ مکہ کی بنتی ہے۔پس ان روایات کی روشنی میں معلوم ہوتاہے کہ جمع عثمانی میں مدینہ اور اس کے قرب جوار میں رہائش پذیر صحابہ رضی اللہ عنہم سے قرآن کی متفرق قراءات جمع کی گئی تھیں۔
ہمارے خیال میں اس میں کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے کہ جمع عثمانی میں کچھ أحرف نقل ہونے سے رہ گئے۔ ان أحرف کے نقل ہوئے بغیر بھی قرآن اپنی جگہ مکمل تھا۔ اس کی مثال ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ روایت حفص عن عاصم جو سبعہ أحرف کا ایک جزء ہے ‘ بطور مکمل قرآن کفایت کرنے والی ہے۔ اسی بات کو اللہ کے رسول ﷺ نے یوں بیان فرمایا تھا کہ ان أحرف میں ہرحرف کافی و شافی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی بن کعب قال: ما حک فی صدری شیء منذ أسلمت إلا أنی قرأت آية وقرأها رجل غیر قراءتی فأتینا النبیﷺ قال قلت: اقرأتنی آية کذا و کذا قال نعم فقال الآخر ألم تقرئنی آية کذا وکذا قال نعم أتانی جبریل عن یمینی ومیکائیل عن یساری فقال جبریل اقرأ القرآن علی حرف واحد فقال میکائیل استزده حتی بلغ سبعة أحرف کلها شاف کاف. (تعلیق شعیب الأرنؤوط : إسناده صحیح علی شرط الشیخین.)([31])
’’ حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تھا اس وقت سے میرے سینے میںصرف ایک ہی بات کھٹکی تھی کہ میں نے ایک دفعہ ایک آیت پڑھی اور کسی دوسرے صاحب نے وہی آیت دوسری طرح پڑھی۔پس ہم دونوں اللہ کے نبیﷺ کے پاس آئے۔ میں نے کہا: کیا آپ نے مجھے فلاں فلاں آیت نہیں پڑھائی۔ آپؐ نے جواب دیا: ہاں!۔ پس دوسرے صحابیؓ نے بھی یہی سوال کیاتو آپ نے ان کو بھی یہی جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: میرے پاس حضرت جبرئیل اور میکائیل علیہما السلام دائیں اور بائیں سے آئے۔ حضرت جبرئیل ؑنے کہا:قرآن ایک حرف پر پڑھیں۔ حضرت میکائیل ؑنے کہا: آپ ایک حرف سے زائد پر پڑھنے کا مطالبہ کریں۔(میں نے یہ مطالبہ کیا) تو قرآن ساتھ حروف تک پہنچ گیاجن میں سے ہر ایک حرف کافی و شافی ہے۔ شعیب ارنؤوط نے کہا ہے کہ اس کی سند شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
غالب گمان کے مطابق اسی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت عثمان ؓ نے سبعہ أحرف کے جمیع اختلافات جمع کرنے میں بلاد اسلامیہ کے جمیع قراء صحابہ سے رائے اور مشورہ نہیں لیا بلکہ مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں آباد صحابہؓ کی ایک جماعت کی قراء ات پر اعتماد کرتے ان سے آسانی سے میسر آنے والے متفرق أحرف کو اپنے مصاحف میں جمع کر دیا۔بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جمع عثمانی کے دوران بعض شہروں سے مختلف صحابہؓ کے مصاحف بھی منگوا ئے گئے تھے جبکہ بعض شہروں سے یہ مصاحف طلب نہیں کیے گئے تھے۔ ابراہیم نخعی ؒ کی ایک روایت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے:
عن إبراهيم قال: قال رجل من أهل الشام مصحفنا ومصحف أهل البصرة أحفظ من مصحف أهل الکوفة قال: قلت لم؟ قال: إن عثمان لما کتب المصاحف بلغه قراءة أهل الکوفة علی حرف عبدالله فبعث به إليهم قبل أن یعرض وعرض مصحفنا ومصحف أهل البصرة قبل أن یبعث به۔([32])
’’حضرت ابراہیم نخعیؒ سے روایت ہے کہ ان سے اہل شام میں سے کسی نے یہ کہا: ہمارا اور اہل بصرہ کا مصحف(عثمانی) اہل کوفہ کے مصحف(عثمانی) کی نسبت زیادہ محفوظ و مضبوط ہے۔ میں (ابراہیم نخعیؒ) نے کہا: وہ کیسے؟۔ اس شخص نے جواب دیا: جب حضرت عثمانؓ نے (مختلف شہروں کے لیے) مختلف مصاحف لکھوائے تو انہیں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی قراء ت میں سے جو خبر پہنچی تھی اس کے مطابق انہوں نے اہل کوفہ کا مصحف تیار کروا دیااور ابن مسعودؓ کا مصحف حضرت عثمان ؓ پر پیش نہ ہوا جبکہ اہل شام اور اہل بصرہ کا مصحف حضرت عثمان ؓ کے مصحف بھجوانے سے پہلے ہی ان پر پیش کر دیے گئے تھے۔‘‘
علامہ ابن حجرؒ (متوفی852 ھ)نے اس روایت کی سند کو ا براہیم مخعیؒ تک ’صحیح ‘ کہا ہے۔[33] یہ موقف جمہور ائمہ سلف صالحین کا بھی ہے کہ جمع عثمانی میں جمیع أحرف جمع نہ ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ابراہیم بن سعید الدوسری لکھتے ہیں:
وذھب أئمة السلف وأکثر العلماء إلی أن مصاحف العثمانية لم تشتمل علی جمیع الأحرف السبعة وإنما اشتملت علی جزء منها۔([34])
’’ائمہ سلف اور اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ مصاحف عثمانیہ جمیع أحرف سبعہ پر مشتمل نہ تھے بلکہ وہ اس کے ایک جز پر مشتمل تھے۔‘‘
شیخ حمد بن عبد اللہ الحمدلکھتے ہیں:
ومعلوم أن ما استقر عليه المصحف فی عهد عثمان لیس حاویاً للمصحف کله بل هوحاو لشیء فيه وضع علی هذه الآية درءاً للخلاف والفتنة والفرقة فی کتاب الله تعالی۔([35])
’’یہ بات معروف ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جو مصحف تیار ہوا‘ وہ مصحف کے جمیع اختلافات کو حاوی نہ تھا بلکہ اس کے بعض اختلافات پر مشتمل تھا۔ اور مصحف کو اس ہیئت پر اس لیے رکھا گیا تھا تا کہ اللہ کی کتاب میں اختلاف‘ فتنے اور تفرقے سے روکا جائے۔‘‘
امام دانی ؒ (متوفی ۴۴۴ھ)کے نزدیک بھی جمع عثمانی میں جمیع أحرف موجود نہ تھے۔ امام زرکشیؒ(متوفی ۷۹۴ھ) لکھتے ہیں:
قال أبو عمرو وجه حسن من وجوه معنی الحدیث وقال بعض المتأخرین هذا هو المختار قال والأئمة علی أن مصحف عثمان أحد الحروف السبعة والآخر مثل قراءة ابن مسعود وأبی الدرداء {الذکر و الأنثی} کما ثبت فی الصحیحین ومثل قراءة ابن مسعود {إن تعذبهم فإنهم عبادک و إن تغفرلهم فإنک أنت الغفور الرحیم} وقراءة عمر{ فامضوا إلی ذکر الله } والکل حق والمصحف المنقول بالتواتر مصحف عثمان ورسم الحروف واحد إلا ما تنوعت فيه المصاحف وهو بضعة عشر حرفا۔([36])
’’ابو عمرو دانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس قسم کی روایات(یعنی جن میں رسم عثمانی کے خلاف قراء ات مختلف صحابہ سے مروی ہیں) کی صحیح توجیح یہی ہے اور بعض متاخرین نے کہا ہے کہ یہ اس مسئلے میں راجح قول ہے کہ ائمہ سلف کا کہنا یہ تھا: مصحف عثمان أحرف سبعہ میں سے ایک حرف پر تھا اور دوسرا حرف عبد اللہ بن مسعود اور ابودرداء رضی اللہ عنہماکی قراء ت ’ الذکر والأنثی‘ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قراء ت ’إن تعذبھم فإنھم عبادک وإن تغفرلھم فإنک أنت الغفور الرحیم‘اور حضرت عمرؓ کی قراء ت ’فامضوا إلی ذکر اللہ‘ہے۔ اور یہ سب حروف حق ہیں۔ اور ہم تک مصحف عثمانی تواتر سے منقول ہے اور اس کا رسم ایک ہی ہے سوائے دس سے کچھ زائد ان مقامات کے کہ جن میں مختلف مصاحف عثمانیہ میں بھی باہم اختلاف ہے۔‘‘
امام دانی ؒ سے اس کے برخلاف بھی قول ثابت ہے یعنی مصحف عثمانی جمیع أحرف کو شامل تھے۔([37] )
بعض علماء کے خیال میں رسم عثمانی کے خلاف صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ات کو اگرچہ قرآن تو نہیں کہیں گے لیکن ان کے قرآن ہونے کے احتمال کی نفی بھی ممکن اوردرست نہیں ہے۔ مکی بن ابی طالب (متوفی ۳۸۶ھ) کا یہی موقف ہے۔اس موقف کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ حضرت عثمان نے جمیع أحرف جمع نہ کیے تھے کیونکہ اگر مصاحف عثمانیہ جمیع أحرف کے اختلافات کو جامع مانع تھے تو پھر ان مصاحف کے علاوہ قراء ات کو نہ جھٹلانے کا کیا معنی و مفہوم بنے گا؟ابن ابی رضاابو العباس حموی (متوفی ۷۹۱ھ)لکھتے ہیں:
عن الحسن بن علی الجعفی أن النبیﷺ حض علی متابعة ابن مسعود فی الترتیل ویشهد لذلک قوله فی الرواية الأولی من أراد أن یسمع القرآن الحدیث قال الجعفی یعنی الترتیل لا حرفه المخالف للرسم قال مکی ولا یمتنع أن یرید الحرف الذی کان یقرأ به ونحن نقرأ به ونرغب فيه ونرويه ما لم یخالف خط المصحف فإن خالفه لم نکذب به ولا نقرأ به۔([38])
’’حسن بن علی سے منقول ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے روایات میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی متابعت پر جو ابھارا ہے تو اس سے آپؐ کی مراد ترتیل میں ان کی متابعت ہے نہ کہ ان کے اس حرف میں جو رسم عثمانی کے خلاف ہے جیسا کہ پہلی روایت کے الفاظ گزرے ہیں کہ جو قرآن سننا چاہے (جیسا کہ نازل ہوا ہے تو و ہ ابن مسعود ؓ سے سنے)۔ مکی ؒنے کہاکہ اللہ کے رسول ﷺ( کے فرمان میں ان ) کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کے اس حرف کو سنو جو وہ پڑھتے تھے۔پس ہم عبد اللہ بن مسعود ؓ کے اس حرف کی قراء ت کریں گے اور اس میں رغبت رکھیں گے جب تک کہ وہ مصحف عثمانی کے علاوہ نہ ہو۔ پس اگر وہ مصحف عثمانی کے علاوہ ہو گا تو ہم نہ تو اسے جھٹلائیں گے اور نہ ہی اس کی تلاوت کریں گے۔‘‘
یہ واضح رہے کہ جو أحرف حضرت عثمانؓ نے اپنے مصاحف میں جمع کر دیے تھے ان پر تو سب صحابہ کا اجماع تھا کہ یہ قرآن ہے۔ اصل اختلاف اس میں تھا کہ بعض أحرف بعض صحابہ کے پاس ذاتی طور پر موجود تھے جنہیں وہ ترک کرنے پر تیار نہ تھے۔ یہی أحرف بعد میں کئی ایک صحیح اخبار سے بھی نقل ہوئے ہیں۔ ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی 224ھ) رسم عثمانی کے مخالف چند أحرف نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
هذا الحروف التی ذکرناه فی هذين البابین من الزوائد لم یروها العلماء واحتمله علی أن هذا مثل الذی بین اللوحین من القرآن ولأنھم کانوا یقرؤون بهذا فی الصلاۃ ولم یجعلوا من جحدها کافرا إنما تقرأ فی الصلاۃ ویحکم بالکفر علی الجاحد لهذا الذی بین اللوحین خاصة وهو ما ثبت فی الإمام الذی نسخه عثمان بإجماع من المهاجرين والأنصار وإسقاط لما سواه ثم أطبقت عليه الأمة فلم یختلف فی شیء منه۔([39])
’’ یہ حروف جن کا ذکر ابھی ہم نے دو ابواب میں کیا ہے‘ ان زوائد میں سے ہیں جن کو علماء نے روایت نہیں کیا۔ انہوں نے ان زائد حروف کو اس قرآن کی مانند قرار دیا ہے جو ما بین الدفتین ہے کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم ان حروف کی نماز میں تلاوت کیا کرتے تھے۔ لیکن علماء کے نزدیک ان (زائد) حروف کا منکر کافر نہیں ہے۔ یہ صرف نماز میں پڑھے جا سکتے ہیں جبکہ کفر کا فتوی اس شخص پر لگایا جائے گا جو ان حروف کا انکار کرے جو مابین الدفتین ہیں۔اور یہ وہ حروف ہیں جو مصحف امام میں بھی موجود ہیں جسے حضرت عثمان ؓ نے مہاجرین اور انصار کے اتفاق سے لکھوایا تھا اور اس کے ماسوا کو ساقط کر دیا تھا۔ پھر امت کا بھی اس(یعنی مصحف عثمانی) پر اتفاق ہو گیااور اس کے بارے کسی چیز میں بھی کوئی اختلاف نہ ہوا۔‘‘
درج ذیل عبارت سے ابو عبید قاسم بن سلام ؒکا بھی وہی موقف معلوم ہوتاہے جو مکی بن ابی طالبؒ کا ہے۔امام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے ۔ امام صاحب لکھتے ہیں:
وهذا النزاع لابد أن یبنی علی الأصل الذی سأل عنه السائل وهو أن القراءات السبعة هل هي حرف من الحروف السبعة أم لا؟ فالذی عليه جمهور العلماء من السلف والأئمة أنها حرف من الحروف السبعة بل یقولون إن مصحف عثمان ھو أحد الحروف السبعة وهو متضمن للعرضة الأخیرۃ التی عرضها النبیﷺ علی جبریل والأحادیث والآثار المشهورۃ المستفيذة تدل على هذا القول وذهب طوائف من الفقهاء والقراء وأهل الکلام إلی أن هذا المصحف مشتمل علی الأحرف السبعة۔([40])
’’ اور یہ اختلاف لازماً اس اصل پر مبنی ہو گا جس کے بارے سائل نے سوال کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا قراء ات سبعہ حروف سبعہ میں سے ایک حرف ہیں یا نہیں؟جمہور علمائے سلف صالحین اور ائمہ کا کہنا یہ ہے کہ قراء ات سبعہ ، حروف سبعہ میں سے ایک حرف ہیں بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مصحف عثمان بھی حروف سبعہ میں سے ایک حرف پر مشتمل تھااور یہ ایک حرف اس عرضہ اخیرہ کو متضمن ہے جسے اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ پر پیش کیا تھا۔ أحادیث اور مشہور و معروف آثار اس قول پر دلالت کرتے ہیں۔ فقہاء ‘ قراء اور متکلمین کی ایک دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ مصحف عثمان جمیع أحرف پر مشتمل تھا۔‘‘
امام ابن تیمیہ ؒکے الفاظ ’بل یقولون إن مصحف عثمان هو أحد الحروف السبعة‘سے ان کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک جمع عثمانی میں منزل من اللہ جمیع أحرف سبعہ موجود نہ تھے۔ یہ واضح رہے کہ امام ابن جریر طبری ؒکی رائے اور ابن تیمیہ ؒکی اس عبارت میں بیان شدہ موقف میں فرق ہے۔ ابن جریر طبری ؒ کے نزدیک مصحف عثمان ایک حرف پر تھا اور بقیہ چھ حروف منسوخ ہو چکے تھے۔جبکہ ابن تیمیہؒ کی اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ عرضہ اخیرہ میں أحرف سبعہ میں سے جن أحرف کو باقی رکھا گیا تھا‘ مصحف عثمان ان میں سے بعض أحرف پر مشتمل تھا۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے حوالے سے ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ایک مصحف نہیں بلکہ کئی مصاحف تیار کروائے تھے اور انہیں مختلف شہروں کی طرف بھیج دیاتھا۔ ان مصاحف کی تعداد میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ بعض نے چار‘ بعض نے پانچ اور بعض نے چھ اور بعض نے سات بھی نقل کی ہے۔[41] آٹھ اور نو کا قول بھی موجود ہے۔
ابن ابی داؤد رحمہ اللہ کی کتاب المصاحف کی کئی ایک روایات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے مختلف شہروں کے لیے جو مختلف سرکاری مصاحف تیار کروائے تھے ان میں بھی باہمی اختلاف تھا کیونکہ ان مصاحف میں متعلقہ شہروں کی قراء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مصاحف کو تیار کیا گیا تھا۔جو نسخہ حضرت عثمانؓ کے پاس تھا اسے ’مصحف امام ‘ کا نام دیا گیا۔اس موضوع سے متعلق روایات کے مطالعہ کے لیے کتاب المصاحف کے عنوانات باب ما کتب عثمان رضی الله عن من المصاحف اور الإمام الذی کتب منه عثمان رضی الله عنه المصاحف‘ وھو مصحفه‘ اور ’اختلاف مصاحف الأمصار التی نسخت من الإمام‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں امام دانی ؒ کی کتاب ’المقنع فی رسم مصاحف الأمصار‘ کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
رسم عثمانی کے علاوہ ،صحیح سند سے ثابت قراء ات کی نماز میں تلاوت
امام ابن تیمیہ ؒ(متوفی ۷۳۲ھ) کا کہناہے کہ رسم عثمانی کے علاوہ صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ت کے نماز۱ و ر غیر نماز میں پڑھنے کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھیفرماتے ہیں کہ ایسی قراء ت کے قرآن یا غیر قر آن ہونے کے بارے قطعی علم حاصل نہیں ہوتا۔ وہ لکھتے ہیں:
وأما القراءة الشاذة الخارجة عن رسم المصحف العثمانی مثل قراءة ابن مسعود وأبی الدرداء رضی الله عنهما واللیل إذا یغشی والنهار إذا تجلی والذکر والأنثی کما قد ثبتت ذلک فی الصحیحین، فهذا إذا ثبتت عن بعض الصحابة فهل یجوز أن یقرأ بها فی الصلاۃ؟ علی قولین للعلماء هما روایتان مشهورتان عن الإمام أحمد وروایتان عن مالک إحداھما یجوز ذلک لأن الصحابة والتابعین کانوا یقرؤون بهذا الحروف فی الصلاۃ والثانىة لا یجوز ذلک وھو قول أکثر العلماء ۔۔۔ ولهذا کان فی المسألة قول ثالث وهو اختیار جدی أبی البرکات أنه إن قرأ بهذه القراءات فی القراءة الواجبة وهي الفاتحة عند القدرۃ علىه لم تصح صلاته ۔۔۔ ولهذا القول ینبنی علی أصل وھو أن ما لم یثبت کونه من الحروف السبعة فهل یجب القطع بکونه لیس منها؟ فالذی عليه الجمهور أنه لایجب القطع بذلک ۔([42])
’’ وہ قراء ات شاذہ جو رسم عثمانی سے خارج ہیں مثلاً عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہما کی قراء ات ’واللیل إذا یغشی والنھار إذا تجلی والذکر والأنثی‘جیسا کہ صحیحین میں موجود ہے۔۔۔پس اگر ایسی قراء ت صحابہ سے ثابت ہو جائے تو کیا اسے نماز میں پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے علماء کے دو موقف ہیں۔ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ سے اس بارے دواقوال منقول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ ایسی قراء ت سے نماز جائز ہے کیونکہ صحابہ و تابعین ان حروف کی نماز میں تلاوت کرتے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے اور یہ اکثر علماء کا قول ہے۔۔۔اس مسئلے میں ایک تیسرا قول میرے دادا ابو البرکات کا ہے کہ اگرکسی شخص نے قراء ت واجبہ یعنی سورہ فاتحہ میںایسے حروف کی تلاوت کی تو نماز صحیح نہ ہو گی جبکہ اسے رسم کے مطابق قراء ت کی قدرت حاصل ہو۔اور یہ قول اس اصل پر مبنی ہے کہ جس کے بارے قطعی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ وہ حروف سبعہ میں سے ہے ‘ پس کیا اس سے یہ بات لازماً ثابت ہوتی ہے کہ وہ حروف سبعہ میں سے نہیں ہے؟۔ اس مسئلے میں جمہور کا قول یہ ہے کہ ہمیں اس کے حروف سبعہ میں سے نہ ہونے کا علم قطعی طور پر حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
امام صاحب کے نزدیک قراء ات عشرہ متواترہ کے علاوہ بھی بعض قراء ات کا پڑھنا صحیح ہے بشرطیکہ وہ قاری کے نزدیک صحیح سند سے ثابت ہوں ۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
بل من ثبت عندہ قراءة الأعمش شیخ حمزۃ أو قراءة یعقوب بن إسحاق الحضرمی ونحو هما کما ثبت عنده قراءة حمزۃ والکسائی فله أن یقرأ بها بلا نزاع بین العلماء المعتبرین المعدودین من أھل الإجماع و الخلاف۔([43])
’’ پس جس کے نزدیک حمزہ کے شیخ اعمش یا یعقوب بن اسحاق وغیرہ کی قراء ت ایسے ہی ثابت ہو جیسا کہ حمزہ اور کسائی کی قرا ء ت تواس لیے اسے پڑھنا جائز ہے اور اس بارے اجماع اور اختلاف میں معتبر شمار ہونے والے علماء میں سے کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہؒ نے یہ بھی لکھاہے کہ یہ اختلاف خلف میں پیدا ہوا ہے کہ مصحف عثمانی کی بنیاد پر مروی سبعہ عشرۃ قراء ات منزل من اللہ جمیع أحرف سبعۃ ہیں یا ان کا بعض ہیں۔ سلف میں اس بارے کوئی اختلاف موجود نہ تھا ۔[44] امام صاحب کے نزدیک نقل قرآن کی اصل بنیاد حفظ ہے نہ کہ کتابت۔[45] پس امام صاحب کے نزدیک صحابہؓ کے واسطے سے اللہ کے رسول ﷺ سے جو قراء ت صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو وہ قراء ت شاذہ نہ ہو گی۔ ([46])
اس کی وجہ صاف ظاہر نظر آتی ہے کہ جمع عثمانی کی اصل بنیاد تلقی ہے یعنی جمع عثمانی میں معیارِمقصود اس چیز کو بنایا گیا ہے کہ کسی طرح یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ قراء ت فلاں صحابی نے اللہ کے رسول ﷺ سے سیکھی ہے۔ پس صحابہ کی آپؐ سے تلقی ثابت کرنے کے لیے کچھ اصول و ضوابط وضع کیے گئے ۔ یہ واضح رہے کہ اصل مطلوب وہ اصول و ضوابط نہیں تھے جو جمع عثمانی میں ملحوظ رکھے گئے بلکہ وہ اصول و ضوابط بھی کسی چیز کے لیے وضع کیے گئے تھے اور وہ یہ ثابت کرنا تھا کہ کسی صحابی کی آپؐ سے تلقی ثابت ہے یا نہیں؟اگر کسی صحابی کی تلقی اللہ کے رسول ﷺ سے صحیح سند سے ثابت ہو جائے اور وہ قراء ت رسم عثمانی میں نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ رسم عثمانی کے مطابق ہیں کیونکہ وہ اس معیار پر پوری اترتی ہے جو جمع عثمانی میں اصل بنیاد تھا۔
اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جمع عثمانی میں صرف تلقی مطلوب نہ تھی بلکہ عرضہ اخیرہ کے مطابق تلقی مطلوب تھی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن مسعود ؓ کے بارے یہ بات ثابت ہے کہ وہ عرضہ اخیرہ میں تھے اور ابن عباس ؓ وغیرہ ان کی قراء ت کو عرضہ اخیرہ کی قراء ت قرار دیتے تھے۔یہ بھی واضح رہے کہ عرضہ اخیرہ میں کچھ منسوخ تو ہوا تھا لیکن کیا منسوخ ہوا تھا؟ اس کی کوئی فہرست کسی روایت میں جاری نہیں ہوئی ۔اس لیے اگر کوئی معروف فقیہ یا قاری صحابیؓ مثلاً حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ حضرت ابی بن کعب‘ حضرت ابو موسی اشعری‘ حضرت عبد اللہ بن عباس یا حضرت عمر رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک کسی قراء ت کو نقل کر رہا ہے تو حضرت زید بن ثابت ؓ کی طرح ہمیں اس کی قراء ت کے بارے بھی یہ یقین رکھنا ہو گا کہ وہ عرضہ اخیرہ ہی کے مطابق ہے کیونکہ اہل فن صحابہ منسوخ قراء ات سے لاعلم نہیں ہو سکتے ۔امام ابن قیمؒ کے نزدیک بھی صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ت کے مطابق نماز صحیح ہے، چاہے وہ قراء ات رسم عثمانی میں ہوں یا نہ ہوں۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
وکذلک لا یجب علی الانسان التقید بقراءة السبعة المشهورین باتفاق المسلمین بل إذا وافقت القراءة رسم المصحف الامام وصحت العربية وصح سندها جازت القراءة بها وصحت الصلاة بها اتفاقا بل لو قرأ بقراءة تخرج عن مصحف عثمان وقد قرأ بها رسول الله والصحابة بعدہ جازت القراءة بها ولم تبطل الصلاة بها علی أصح الأقوال۔([47])
’’ اسی طرح انسان پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو معروف و متفق علیہ قراء ات سبعہ کے ساتھ مقید کر لے۔ پس اگر قراء ت، مصحف امام کے رسم سے موافق ہواور عربی قواعد کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو تو اس کو پڑھنا جائز ہے اور اس کے ساتھ نماز بالاتفاق صحیح ہو گی بلکہ اگر اس نے ایسی قراء ت کے ساتھ نماز پڑھی جو مصحف عثمان میں نہیں ہے لیکن اللہ کے رسول ﷺاور ان کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے پڑھا ہوتو اس قراء ت کا پڑھنا جائز ہو گا اورصحیح قول کے مطابق اس کے ساتھ نماز بھی درست ہو گی ۔‘‘
علامہ ابن جوزیؒ اور علی بن سلیمان المرداویؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک بھی رسم عثمانی میں غیر موجود صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ت کے ساتھ نماز جائزاور صحیح ہے۔امام مرداوی ؒ لکھتے ہیں:
وإن قرأ بقراء ۃ تخرج عن مصحف عثمان لم تصح صلاته وتحرم لعدم تواتره وهذا مذهب وعليه جماهير الأصحاب ۔۔۔ وعنه یکره وتصح إذا صح سندہ لصلاۃ الصحابة بعضهم خلف بعض واختارها ابن الجوزی والشیخ تقی الدین وقال هي أنص الروایتین ۔۔۔قلت وهو الصواب۔([48])
’’اگر اس نے کوئی ایسی قراء ت پڑھی جو رسم عثمانی کے مطابق نہیں ہے تو اس کی نماز صحیح نہ ہو گی اور جمہور حنابلہ کے نزدیک اس کا پڑھنا حرام ہو گا۔۔۔امام احمدؒ سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ ایسی قراء ت کا پڑھنا ناپسندیدہ ہے لیکن نماز درست ہو گی بشرطیکہ وہ قراء ت صحیح سند سے ثابت ہے کیونکہ صحابہؓ نے اس قراء ت کے ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ دوسرے قول کو علامہ ابن جوزی ؒ اور امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے۔ ابن تیمیہؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ امام احمد ؒسے صحیح ترین روایت ہے۔۔۔ میں بھی یہ کہتا ہوں کہ امام ابن تیمیہؒ کا یہ قول درست ہے۔‘‘
امام احمد سے ایک روایت کے مطابق رسم عثمانی میں غیر موجود صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ات سے نماز جائز ہے۔ ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں:
فأما ما یخرج عن مصحف عثمان کقراءة ابن مسعود وغیرها فإن قرأ بشیء منهما مما صحت به الرواية واتصل إسنادها ففيه روایتان إحداھما لا تصح صلاته لذلک والثانية تصح لأن الصحابة کانوا یصلون بقراءتهم فی عصر النبیﷺ وبعدہ وکانت صلاتهم صحیحة بغیر شک وقد صح عن النبیﷺ قال: من أحب أن یقرأ القرآن غضا کما أنزل فلیقرأ علی قراءة ابن أم عبد وقد أمرالنبیﷺ عمر وهشام ابن حکیم حین اختلفا فی قراءة القرآن فقال: اقرؤوا کما علمتم وکان الصحابة رضی الله عنهم قبل جمع عثمان المصحف یقرؤون بقراءات لم یثبتها فی المصحف ویصلون بها لا یری أحد منهم تحریم ذلک ولا بطلان صلاتهم به۔([49])
پس جہاں تک اس قراء ت کا معاملہ ہے جو مصحف عثمان سے خارج ہو جیسا کہ ابن مسعود ؓ کی قراءت۔۔۔پس اگر صحیح متصل روایت کی بنیاد پر ثابت شدہ کوئی ایسی قراء ت پڑھ لی جائے تو اس بارے امام احمدؒ سے دو روایات مروی ہیں۔ ایک روایت تو یہ ہے کہ اس کی نماز درست نہ ہو گی اور دوسری یہ ہے کہ اس کی نماز صحیح ہو گی کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم ان قراء ات کوآپؐ کے زمانے میں اور آپؐ کے بعد بھی پڑھتے تھے اور ان کی نماز بلاشہ صحیح تھی۔ آپؐ سے یہ بھی صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جو یہ چاہتا ہے کہ وہ قرآن جیسے نازل ہوا ہے ‘ اسی طرح پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ ابن مسعود ؓ کی قراء ت پڑھے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہما میں اختلاف ہوا تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پڑھو! جیسا کہ تمہیں سکھایا گیا ہے۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عثمان ؓ کی جمع سے پہلے ایسی قراء ات پڑھتے تھے جو مصحف عثمانی میں باقی نہیں رکھی گئیں تھیں۔ وہ ان قراء ات کو نمازوں میں بھی پڑھتے تھے اور کسی صحابیؓ نے بھی اس کی حرمت یا اس سے نماز باطل ہونے کا فتوی جاری نہیں کیا۔‘‘
امام مالک ؒ سے ابن وہبؒ کی روایت کے مطابق رسم عثمانی میں غیر موجود صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ت سے نماز درست اور صحیح ہے۔([50] ) بعض حنفیہ کے نزدیک نماز میں رسم عثمانی میں غیر موجودصحیح سند سے ثابت شدہ قراء ت کی تلاوت اگرچہ مکروہ ہے لیکن نماز ہو جائے گی۔([51] )
شیخ محمد بن صالح بن محمد العثیمین رحمہ اللہ کا اس مسئلے پر تفصیلی اور عمدہ کلام موجود ہے۔ ان کے نزدیک بھی صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ت سے نماز درست ہے اگرچہ فتنے کے خوف سے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔شیخ فرماتے ہیں:
لکن هناك قراءات خارجة عن المصحف الذی أمر عثمان بجمع المصاحف عليه‘ وهذا القراءات صحیحة ثابة عمن قرأ بها عن النبیﷺ لکنها تعد عند القراء شاذة اصطلاحا وإن کانت صحیحة وقد اختلف العلماء رحم الله فی هذه القراء ۃ الشاذة فی أمرین: الأمر الأول: هل تجوز القراء ۃ بها داخل الصلاۃ وخارجها أو لا تجوز؟ الأمر الثانی هل هي حجة فی الحکم أو لیست بحجة؟ فمنهم من قال: إنها لیست بحجة و منهم من قال إنها حجة ۔ وأصح الأقوال أنه إذا صحت هذه القراءة عمن قرأ بها من الصحابة فإنها مرفوعة إلی رسول اللهﷺ فتکون حجة وتصح القراءة بها فی الصلاۃ وخارج الصلاۃ لأنها صحت موصولة إلی رسول اللهﷺ لکن لا نقرأ بها أمام العامة لأننا إذا قرأنا بها أمام العامة حصل بذلک فتنة وتشویش وقلة اطمئنان إلی القرآن الکریم وقلة ثقة به و هذا لا شک أنه مؤثر ربما علی العقیدۃ فضلا عن العمل ۔۔۔ فإن قال قائل إذا صحت القراءة وصححتم الصلاۃ والقراءة بها وأثبتم الأحکام بها فلماذا لا تقرؤونها علی العامة؟ فالجواب أن هدى الصحابة رضي الله عنهم ألا تحدث الناس لا تبلغه عقولهم کما فی حدیث علی رضي الله عنه حدثوا بما یعرفون أی بما یمکن أن یعرفوه وهضموہ وتبلغه عقولهم أتحبون أن یکذب الله ورسوله؟ لأن العامی إذا جاءه أمر غریب عليه نفر وکذب وقال: هذا شیء محال وقال ابن مسعود: إنک لا تحدث قوما حدیثا لا تبلغه عقولهم إلا کان لبعضهم فتنة وصدق رضی الله فلهذا نحن لا نحدث العامة بشیء لا تبلغه عقولهم لئلا تحصل الفتنة ویتصرر فی عقیدته و عمله۔([52])
’’ لیکن کچھ ایسی قراء ات بھی ہیں جو اس مصحف عثمانی سے خارج ہیں کہ جس پر مصاحف جمع کرنے کاحضرت عثمانؓ نے حکم جاری کیا تھا۔ یہ قراء ات ان سے صحیح سند سے ثابت ہیں جنہوں نے ان کو پڑھا ہے لیکن قراء کے ہاں ان کو اصطلاحاً شاذ کہتے ہیں اگرچہ وہ صحیح ہی کیوں نہ ہوں۔ ان قراء ات کے بارے علماء کا دو امور میں اختلاف ہے۔ پہلا امر تو یہ ہے کہ کیا ان قراء ات کی نماز اور غیر نماز میں تلاوت جائز ہے؟ اوردوسرا امر یہ ہے کہ کیا یہ قراء ات استنباط حکم میں حجت ہیں؟بعض علماء نے ان کو حجت قرار دیا ہے اور بعض نے نہیں۔صحیح ترین قول یہ ہے کہ اگر یہ قراء ات صحابہؓ سے صحیح سند سے ثابت ہو جائیں تو یہ آپؐ تک مرفوعاً ثابت ہیں پس یہ حجت ہوں گی اور ان کی نماز اور غیر نمازمیں تلاوت جائز ہو گی کیونکہ یہ اللہ کے رسول ﷺ تک متصل سند سے ثابت ہیں لیکن ان قراء ات کو عامۃ الناس کے سامنے نہیں پڑھا جائے گا کیونکہ جب ہم انہیں عامۃ الناس کے سامنے پڑھیں گے تو فتنہ اور وساوس جنم لیں گے اور قرآن کے بارے اطمینان اور اعتماد میں کمی واقع ہو گی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ چیز بعض اوقات عقیدے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے چہ جائیکہ کہ عمل پر ہو۔۔۔پس اگر کوئی قائل یہ کہے کہ جب قراء ت بھی صحیح ہے اور آپ نے نماز کو بھی صحیح قرار دیا ہے اور نماز میں اس کی تلاوت کو بھی تو پھر عامۃ الناس پر اس کی تلاوت ہم کیوں نہ کریں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہؓ کی ہمیں یہ رہنمائی ملی ہے کہ لوگوں کے ساتھ وہی بات کریں جو ان کی عقل کے مطابق ہوجیسا کہ حضرت علی ؓ کا قول ہے: لوگوں سے وہ بات کرو جسے وہ جانتے پہچانتے ہوں یعنی جسے وہ جان سکیں اور ہضم کر سکیں اور وہ ان کی عقول سے بالاتر نہ ہو‘ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلائیں؟۔ جب کسی عامی کے پاس کوئی نیا معاملہ آتا ہے تو وہ اس سے بھاگتاہے اور اس کو جھٹلاتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ ایک ناممکن امر ہے۔ اسی طرح عبد اللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے: کسی قوم سے ایسی بات بیان نہ کرو جو ان کی عقول سے بالاتر ہو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو فتنہ پیدا ہو گا اورانہوں نے سچ کہا تھا۔ پس ہم عامۃ الناس کے سامنے ایسی بات بیان نہیں کرتے جو ان کی عقول سے بالاتر ہو تاکہ فتنہ پیدا نہ ہواور ا ن کا عقیدہ و عمل خراب نہ ہو۔‘‘
اس بات کہ جمع عثمانی جمیع أحرف کے اختلاف کو شامل نہیں ہے‘ پر ایک اعتراض یہ وارد کیا جا سکتا ہے کہ کیا قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا ہے اور ’ إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحفظون‘ کا کیا معنی ہو گا؟ اس کا ایک ممکنہ جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ بھی ضائع نہیں ہوا بلکہ عرضہ أخیرہ میں باقی رکھے گئے جمیع أحرف کے اختلافات محفوظ ہیں۔قراء کا عمومی موقف یہ ہے کہ یہ جمع عثمانی میں محفوظ ہیں اور ہمارا موقف یہ ہو گا کہ جمع عثمانی کے علاوہ بھی حدیث کی کتب یا صحیح سند کے ساتھ صحابہ اور تابعین کی مروی قراء ات میں محفوظ ہیں۔قرآن کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ قرآن بحىثىت مجموعی امت کے پاس محفوظ رہے گا نہ کہ ہر ہر شخص کے پاس۔ اگر ہم آس پاس نگاہ دوڑائیں اور غور کریں کہ کتنے اشخاص ہیں جنہیں روایت حفص کے مطابق قرآن پڑھنا آتا ہے؟ یا کتنے حفاظ اور قراء ہیں جو روایت حفص کے علاوہ بھی روایات کو جانتے ہیں۔ اسی طرح قراء میں بھی بعض دو روایات‘ بعض سبعہ قراء ات اور بعض عشرہ صغری اور بعض عشرہ کبری کے ماہر ہیں۔ پس کسی کے پاس قرآن کے أحرف کے اختلافات کا کچھ حصہ ہے تو دوسرے کے پاس کچھ دوسرا ہے اور قرآن امت کے پاس بحثیت مجموعی محفوظ ہے۔
بعض حضرات یہ بھی اعتراض وارد کر سکتے ہیں کہ امت میں رسم عثمانی کے خلاف قراء ات کی تلاوت تسلسل سے جاری نہیں رہی ہے۔ ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ عشرہ کبری میں موجود فروش کے اختلافات کی تلاوت کرنے والے دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے؟۔ شاید ان کو انگلیوں پر گنا جا سکے۔ یہ بھی واضح رہے کہ جو قراء عشرہ کبری کی تلاوت کرتے بھی ہیں وہ بھی بطور تعلیم و تعلم کرتے ہیں ۔ پس اسی طرح رسم کے خلاف مروی ان صحیح قراء ات کو بھی بطور تعلیم و تعلیم توہر دور میں پڑھا جاتا رہا ہے اگرچہ اس پڑھنے کا دائرہ کار اتنا وسیع نہیں رہا۔
یہ بھی واضح رہے کہ سبعہ عشرہ قراء ات میں بعض ایسی قراء ات بھی ہیں جو مصاحف عثمانیہ میں سے کسی بھی مصحف کے رسم میں موجود نہیں ہیں۔ مثلاً’صراط‘کا لفظ جمیع مصاحف عثمانیہ میں ’ص‘ کے ساتھ لکھا گیا ہے جبکہ قراء حضرات اس کو ’س‘ کے ساتھ بھی بطور متواتر قراء ت نقل کرتے ہیں۔[53] اسی طرح کے کئی اور الفاظ بھی ایسے ہیں مثلاً’مصیطر‘اور ’بضنین‘ وغیرہ کہ جو جمیع مصاحف عثمانیہ میں ایک لفظ یعنی ’ص‘ اور ’ض‘کے ساتھ موجود ہیں جبکہ ان میں دو الفاظ یعنی ’ص‘ اور ’س‘ او ر ’ض‘ اور ’ظ‘کے ساتھ قراء ات نقل کی جاتی ہیں اور بعض ممالک میں طبع شدہ مصاحف میں دوسرا لفظ پہلے لفظ کے اوپر لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں لفظ’مصیطر‘میں ’ص‘ کے اوپر ایک چھوٹا’سین‘ ڈال دیا جاتا ہے۔
اسی طرح ہم ایک اور اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہیں گے کہ رسم عثمانی بھی خبر واحد ہی سے ثابت ہے۔ آج مصاحف عثمانیہ ہمارے مابین موجود نہیں ہیں۔ آج ہمیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ رسم عثمانی کیا ہے؟ ہمیں ماہرین فن مثلاً امام دانی(متوفی 444ھ) ‘ امام سلیمان بن نجاح (متوفی 496ھ)اور امام ابن ابی داؤد(متوفی 316ھ) رحمہم اللہ کی خبر واحد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصاحف عثمانیہ کا رسم یہ تھا۔پس جب صحیح سند سے کوئی قراء ت صحابہؓ سے ثابت ہو جائے اور وہ رسم عثمانی کے خلاف ہو تو یہ خبر واحد کا خبر واحد سے تعارض ہے نہ کہ متواتر و آحاد کاتعارض۔یعنی صحیح بخاری سے ثابت شدہ روایت یہ کہتی ہے کہ فلاں الفاظ بھی قرآن ہیں جبکہ’المقنع‘ کی خبر واحد یہ کہتی ہے کہ وہ رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے قرآن نہیں ہے۔
یہاں ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ خبر واحد کے ذریعے جو رسم عثمانی نقل ہوا ہے اس میں کل کا کل اتفاقی نہیں ہے۔ اس میں بھی بعض الفاظ میں ماہرین فن کا اختلاف مروی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصحف مدینہ(یعنی مصحف مجمع الملک فھد) میں بھی بعض کلمات کے رسم الخط میں اختلاف کی صورت میں علماء نے ترجیح کے اصول قائم کیے ہوئے ہیں۔مصحف مدینہ کے آخر میں ہے:
وأخذ هجاؤه مما رواه علماء الرسم عن المصاحف التی بعث بها الخلیفة الراشد عثمان بن عفان رضی الله عنه إلی البصرة والکوفة و الشام و مكة‘ والمصحف الذی جعله لأهل مدينة، والمصحف الذی اختص به نفسه‘ وعن المصاحف المنتسخة منها۔ وقد روعی فی ذلک ما نقله الشیخان أبوعمرو الدانی وأبوداؤد سلیمان بن نجاح مع ترجیح الثانی عند الاختلاف۔([54])
’’ اس مصحف کے ہجے وہ نقل کیے گئے ہیں جو علمائے رسم سے ان مصاحف کے حوالے سے مروی ہیں جو خلیفہ راشد عثمان بن عفان ؓ نے بصرہ‘ کوفہ‘ شام‘ مکہ‘ اور مدینہ بھیجے تھے ۔ علاوہ ازیں مصحف امام اور ان مصاحف کی نقول سے جو رسم منقول ہے(اس کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے)۔ اس مصحف میں جس کو شیخان یعنی امام دانی اور سلیمان بن نجاح رحمہما اللہ نے نقل کیا ہے ‘ اس کا لحاظ رکھا گیا ہے اور ان میں اختلاف کی صورت میں دوسرے کو ترجیح دی گئی ہے۔‘‘
خلاصۂ کلام
اس کے باوجود قرآن کی تلاوت میں احتیاط کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماراموقف وہی ہے جو قراء کاہے کہ اسی قراء ت کو بطور قرآن نماز میں پڑھا جائے جس میں درج ذیل تین شرائط پائی جاتی ہوں:
۱۔ وہ صحیح سند سے ثابت ہو اور قراء کے ہاں معروف ہو۔
۲۔ مصاحف عثمانیہ میں کسی مصحف کے رسم کے مطابق ہو۔
۳۔ قواعد لغویہ عربیہ کے موافق ہو۔ ([55])
رسم عثمانی میں غیر موجود صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ات کے مسئلہ میں، ہم رسم عثمانی کی پابندی کو ایک انتظامی مسئلے کے طور پر واجب سمجھتے ہیں نہ کہ شرعی۔ مثال کے طور پرآج بھی اگر مسلمان علماء فتنے و فساد کے خوف سے کسی اسلامی ملک میں روایت حفص کے علاوہ روایات قراء ا ت عشرہ متواترہ کی نماز میں قراء ت پر پابندی کے بالاتفاق قائل ہوں تو اس کو بالفعل نافذ بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ روایت حفص کافی و شافی ہے۔
پس اگر کوئی قراء ت صحابہؓ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو جائے اور کوئی عالم دین اس صحیح سند سے ثابت شدہ قرا ء ت کو بھی قرآن قرار دے یا کوئی شخص اس قراء ت کے مطابق نماز پڑھے تو ہمارے خیال میں اس مسئلے کو انتظامی‘ سد الذرائع اور مصلحت کے دلائل کی بنیاد پرتو کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن مزعومہ اجماع کے دعووں پر نہیں ‘کیونکہ خود حضرت عمر اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما سے اس قراء ت کے مطابق نماز ثابت ہے جسے آج ہم رسم عثمانی کی مخالفت کی وجہ سے قراء ت شاذہ قرار دیتے ہیں۔ جب صحابہ‘ تابعین اور علماء کی ایک جماعت سے صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ات شاذہ کی تلاوت میں اختلاف ثابت ہے تو اجماع کیسے ثابت ہو گیا؟۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں علماء کا تو اختلاف ہے لیکن قراء میں نہیں ہے اور مسئلہ چونکہ قراء ت کا ہے لہذا قراء کا اجماع معتبر ہو گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہؓ سے بڑھ کر کون قاری ہو گا؟ خاص طور پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ جن کے بارے آپﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ ابن مسعود ؓ سے قرآن سیکھو۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ صحیح سند سے ثابت شدہ قراء ات میں رسم عثمانی کی پابندی کا مسئلہ انتظامی ہے، اسے شرعی نہیں بنانا چاہیے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ البخاري‘ محمد بن اسماعيل‘ صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبیﷺ‘ 6/184‘ دار طوق النجاة‘ مصر‘ 1422ھ‘ رقم الحديث: 4989
- ↑ ۔ مسلم بن الحجاج‘ صحیح مسلم‘ کتاب الزهد و الرقاق‘ باب التثبت فی الحدیث وحکم کتابة العلم‘ 4/2298‘ دار إحياء التراث العربي‘ بيروت ‘ رقم الحديث: 3004
- ↑ ۔ صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب کتابة العلم‘ 1/34‘ رقم الحديث: 111۔113
- ↑ - صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن‘ 6/183‘ رقم الحديث: 4986
- ↑ - ايضاً‘ رقم الحديث: 4988
- ↑ ۔ صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن‘ 6/183‘ رقم الحديث: 4986
- ↑ ۔ سنن ابي داؤد، کتاب المصاحف‘ باب جمع أبی بکر الصدیق رضى الله عنه فی المصحف‘الفاروق الحديثة‘ القاهرة‘ 2002ء، ص:51
- ↑ ۔ العسقلاني ، ابن حجر، فتح الباری: 9/14-15‘ دار المعرفة‘ بیروت‘ 1379ھ
- ↑ ۔ صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن‘ 6/183‘ رقم الحديث: 4987
- ↑ ۔ کتاب المصاحف‘ باب کراهية عبدالله بن مسعود ذلک‘ ص 71
- ↑ ۔ صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن‘ 6/183‘ رقم الحديث: 4987
- ↑ ۔ الحاكم‘ محمد بن عبد الله النيسابوري‘ المستدرک علی الصحیحین‘ کتاب التفسیر‘دار الکتب العلمية‘ بیروت‘ 1411ھ‘ رقم الحديث: 2904، 2/250
- ↑ ۔ احمد بن حنبل‘ مسند أحمد‘ باب مسند عبد الله بن العباس‘دار الحديث‘ القاھرۃ‘ 1995ء‘ رقم الحديث: 2494، 3/134
- ↑ ۔ فتح الباری: 9/44
- ↑ ۔ ابن تيمية‘ أحمد بن عبد الحليم‘ مجموع الفتاوى‘ دار الوفاء‘ الرياض، 13/395
- ↑ ۔ صحیح مسلم‘ کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ‘ باب الدلیل لمن قال الصلاۃ الوسطی هي صلاۃ العصر‘رقم الحديث: 629، 1/437
- ↑ ۔ صحیح مسلم‘ کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ‘ باب الدلیل لمن قال الصلاۃ الوسطی هي صلاۃ العصر‘ رقم الحديث: 630، 1/438
- ↑ ۔ صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن‘رقم الحديث: 4987، 6/183
- ↑ ۔ کتاب المصاحف‘ باب ما کتب عثمان رضي الله عنه من المصاحف‘ ص 134
- ↑ - کتاب المصاحف‘ باب كراهية عبد الله بن مسعود ذلک‘ ص 76؛ مسند أحمد، رقم الحديث: 3929، 4/88
- ↑ ۔ مسند أحمد، رقم الحديث: 3929، 4/88
- ↑ ۔ کتاب المصاحف‘ باب مصحف عمر بن الخطاب رضی الله عنه‘ ص 159
- ↑ ۔ کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ، دار البشائر الإسلامية‘ بیروت‘ 2002ء، ص 285-286
- ↑ ۔ کتاب المصاحف‘ باب مصحف عمر بن الخطاب رضي الله عنه؛ سعید بن منصور‘ سنن سعید بن منصور: 3/1029‘ دار العصیمی‘ الریاض‘ الطبعة الأولی‘ 1414ھ، ص 163
- ↑ ۔ کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ص 288
- ↑ - کتاب المصاحف‘ باب مصحف عبد الله بن عباس رضی الله عنه ‘ ص 204
- ↑ ۔ کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ص 204
- ↑ ۔ صحیح بخاری‘ کتاب التفسیر‘ باب وما خلق الذکر والأنثی‘رقم الحديث: 4944، 6/170
- ↑ ۔ الداني‘ عثمان بن سعيد‘ المقنع فی رسم مصاحف الأمصار‘ باب ذکر من جمع القرآن فی الصحف أولا ومن أدخله ‘ مكتبة الكليات الأزهرية‘ القاهرة، ص 17
- ↑ ۔ أيضاً
- ↑ ۔ احمد بن حنبل‘ مسند أحمد‘ 35/69‘ مؤسسة الرسالة‘ بیروت‘ 2001ء‘ رقم الحديث: 21132
- ↑ ۔ کتاب المصاحف‘ باب ما کتب عثمان رضی الله عنه من المصاحف‘ ص 135
- ↑ ۔ فتح الباری: 9/20
- ↑ ۔ الدوسري‘ ابراهيم بن سعيد‘ المنهج فی الحکم علی القراء ات، جامعة الامام محمد بن سعود‘ الرياض‘ 2011ھ، ص 22
- ↑ ۔ العثيمين‘ محمد بن صالح‘ شرح زاد المستقنع: 5/59‘ المکتبة الشاملة.
- ↑ - الزركشي‘ محمد بن عبد الله‘ البرهان فی علوم القرآن: 1/215‘ دار المعرفة‘ بیروت
- ↑ ۔ الداني‘ عثمان بن سعيد‘ الأحرف السبعة للقرآن، مکتبة المنارة‘ مكة المكرمة‘ الطبعة الأولی‘ 1408ھ، ص 43
- ↑ ۔ ابن ابي الرضا الحموي‘ القواعد والإءارات في أصول القراءات، دار القلم‘ دمشق‘ 1406ھ ، ص 40-41
- ↑ ۔ قاسم بن سلام‘ فضائل القرآن، دار ابن كثير‘ بيروت‘ 1415 ھ ، 2/148
- ↑ ۔ مجموع الفتاوی: 13/395
- ↑ ۔ کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ص 238-239
- ↑ ۔ مجموع الفتاوی: 13/397-398
- ↑ ۔ مجموع الفتاوی: 13/392-393
- ↑ ۔ايضاً: 13/401
- ↑ ۔ اىضاً
- ↑ ۔ ايضاً
- ↑ ۔ ابن القيم الجوزية‘ إعلام الموقعین: 4/263‘ دار الجیل‘ بیروت
- ↑ ۔ المرداوي‘ علي بن سليمان‘ الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف علی مذهب الإمام أحمد بن حنبل: 2/63‘ دار إحیاء التراث العربی‘ بیروت‘ الطبعة الأولی‘ 1419ھ
- ↑ - ابن قدامة المقدسي‘ المغنی: 2/357-358‘ مكتبة القاهرة‘ القاهرة‘ 1388ھ
- ↑ ۔ ابن عبد البر‘ الاستذکار الجامع لمذاھب فقهاء الأمصار: 2/35‘ دار الکتب العلمىة‘ بیروت‘ 2000ء
- ↑ ۔ ابن عابدين‘ محمد أمين بن عمر‘ رد المحتار علی الدر المختار‘ کتاب الصلاۃ‘ باب فروع قرأ بالفارسىة أو التوراة أو الإنجیل‘ 4/14‘ دار الفكر‘ بيروت‘ 1412ه
- ↑ ۔ العثيمين‘ محمد بن صالح‘ الشرح الممتع علی زاد المستقنع: 3/82-83‘ دار ابن الجوزی‘ الطبعة الأولی‘ 1422ھ
- ↑ ۔ شعبان محمد اسماعيل‘ رسم المصحف وضبطه بین التوقیف والاصطلاحات الحدیثة: دار السلام‘ الطبعة الثانية‘ 1422ھ، ص 27
- ↑ ۔ المصحف المدنی، مجمع الملک فهد، المدینة المنورة، المملكة السعودية العربية.
- ↑ ۔ ابن الجزري‘ محمد بن محمد‘ النشر فی القراء ات العشر: 1/44‘ المکتبة التجارية الکبری‘ 1380ھ
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |