3
1
2019
1682060060947_846
85-95
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/140/48
https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/140
نبى كرىمﷺ كى بعثت سے قبل اہل عرب كا معاشرتى نظام جہاں فكرى، اخلاقى اور سماجى خرابىوں كا شكار تھا وہاں سماجى طور پر اىك بڑى قبىح فكر ىہ بھى تھى كہ ان كى اكثرىت خاندانى، قبائلى اور جغرافىائى طور پر عصبىت كا شكار تھى، ان عصبىتوں نے ان كو كئى طرح كے تفاخر مىں مبتلا كر ركھا تھا، حضور اكرمﷺ نے اپنى نبوى حكمت عملى سے جہاں دىگر فكرى و سماجى خرابىوں كا تدارك كىا وہاں نسلى منفى و قبائلى عصبىتوں كے حوالے سے بھى كامل رہنمائى عطا كى زىر نظر مقالہ مىں آپﷺ كے عصبىت كے خاتمے مىں كردار اور تعلىمات پىش كى جارہى ہىں۔
عصبىت كى تعرىف كرتے ہوئے امام فراہىدى لكھتے ہىں :
اَلْعَصَبِيَّةُ
اپنے لوگوں ىا ہم مذہب لوگوں كى حماىت و مدد كا جذبہ تعصب كہلاتا ہے۔ اسى طرح العصبي كہتے ہىں ظلم كے خلاف اپنى جماعت كا مددگار۔ ([1])
اسى طرح ابن منظور افرىقى تعصب كى تعرىف كرتے ہوئے لكھتے ہىں:
تعصب : پٹى باندھنا، عصبىت سے كام لىنا عصبىت دكھلانا ، دلىل ظاہر ہونے كے بعد بھى حق كو قبول نہ كرنا۔ اىك تعرىف ىہ بھى كى گئى ہے كہ دىن اور مذہب مىں غىور ہونا اور سخت حفاظت كرنا۔ ([2])
مذكوره بالا تعريفات سے واضح ہوا كہ تعصب جانبدارى كا نام ہے اور عصبىت ىعنى گروہ بندى كو فروغ دىنا ہے اور اسى روىہ سے تعصب كى سوچ راسخ ہوتى ہے لىكن تعصب كى اىك جہت مثبت بھى ہے جس كا تعلق دىنى حمىت و غىرت كے ساتھ ہے اور اس فكركے معاشرے پر اثرات خىر كى ہى صورت مىں سامنے آتے ہىں۔
نبی کریم ﷺ نے ایسے ہی معاشرہ کی بنیاد رکھی جس میں ہر انسان کو بلاتفریقِ مذہب و قبیلہ اس کے حسب ِ حال حقوق حاصل تھے ۔اس معاشرہ میں حقوق کی ادائیگی میں کبھی بھی مذہب ، قبیلہ ، خاندان، علاقہ، حسب نسب، رکاوٹ نہیں بنا۔ہر طرح کے تعصب و عصبیت سے پاک معاشرہ معرض وجودمیں آیا۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
]يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ [3])[)
’’اے لوگو! ہم نے پیدا کیا ہے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے اور بنا دیا ہے تمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔بیشک تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو پرہیز گارہے۔بیشک اللہ ہر شے کو جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
خاندانوں اور قبیلوں میں انسانوں کا تقسیم ہونا کائنات کے تنوع کا ایک رنگ بھی ہے اورانسانی شناخت کی وجہ بھی لیکن قوم، خاندان قبیلہ وغیرہ کی تقسیم سے ان کے اعلیٰ و ادنی ، برترو کم تر ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس وجہ سے ان کے حقوق کا تعین کیاجاسکتا ہے اور نہ کوئی خاندان یا قبیلہ اپنی نسل و قومیت کی بنا پر برتری کا اظہار کر سکتا ہے ۔
حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دور جاہلیت کے عرب دیگر گوناگوں خرابیوں کے ساتھ ساتھ تفاخر کی بیماری میں بری طرح مبتلا تھے وہ اپنے آپ کو سب سے برتر ، اشرف اور اعلیٰ خیال کرتے۔ ان سب میں قریش کے فخر و مباہات کی شان ہی الگ تھی۔۔۔۔تفاخر کا یہ نظریہ فقط جاہل اور غیرمہذب عربوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ روئے زمین پر جو متمدن اور شائستہ قومیں آباد تھیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی صورت میں اس بیماری میں مبتلا تھیں۔ کہیں اپنی نسل اور قومیت پر فخر کیا جاتا تھا اور کہیں ان کے وطن کی سر زمین ان کی بڑائی اور برتری کا باعث تھی ۔ اور کہیں زبان و رنگ وجہ افتخار بنے ہوئے تھے۔ اس فاسد نظریہ نے مختلف قوموں کو متحارب گروہوں تقسیم کر دیا تھا۔ وطنیت ، قوم ، ، رنگ، نسل اور زبان کے بتوں کی پوجا آج بھی اسی زور و شور سے ہو رہی ہے ۔ اس مختصر سی آیت میں ان تمام بنیادوں کو منہدم کرکے رکھ دیا جن پر مختلف قوموں نے اپنی برتری اور شرافت کے ایوان تعمیر کر رکھے تھے۔([4])
نظری اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو تعصب کے دو پہلو ہیں ایک پہلو مثبت ہے جبکہ دوسرا پہلو منفی ہے ۔مثبت پہلو فکری اتقان و استحکام عطا کرتا ہے مثلاً دین ، قرآن ،نا موس رسالت وختم ِ نبوت پر متصلب ہونا عین مطلوب ہے اس کا سماجی طور پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا اظہار بھی فرمایا ہے ۔ غزوہ حنین کے موقع پر جب آپ نے فرمایا :
"انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب." ([5])
’’میں(اللہ کا سچا ) نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ ‘‘
اس میں آپ ﷺکی دینی حمیت اور حق پر ہونے کا اظہار ہے۔ دین کے حوالے سے اس طرح کا اظہار محمود ہی ہے ۔
تعصب کا منفی پہلو وہ ہے جس سے انسانوں کے مابین نزاع کی صورت پیدا ہو اور معاشرہ تفریق و انتشار کا شکار ہو جائے۔دینی حمیت و غیرت کے حوالے سے متصلب ہونے اور علاقائی و نسلی اور وطنی طور پر متعصب ہونے میں بہت فرق ہے۔اول الذکر میں اپنے حق پر ہونے کا پختہ یقین و اعلان ہے اور اس بنیاد میں کسی کی حق تلفی نہ ہی کی جاتی ہے نہ کی جاسکتی ہے۔ جبکہ موخرالذکر تعصب کی وجہ برتری کے زعم میں آکر انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کو مشکل بنانا ہے ۔یہی مذموم ہے اور اسی کا ہر جہت سے نبی کریم ﷺ نے مختلف طریقوں سے سد باب فرمایا ہے۔نبی کریم ﷺ کے تعصبات پر مبنی رویوں کے خاتمے کے لیے اُسوۂ حسنہ میں تین جہات نظر آتی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
1۔سماجی تعصبات کا خاتمہ 2۔قبائلی تعصبات کا خاتمہ 3۔نسلی وعلاقائی تعصبات کا خاتمہ
1۔سماجی تعصبات کا خاتمہ
مدینہ منورہ آمد کے بعد نبی کریم ﷺ کا اہل ایمان کے مابین رشتہ مواخاۃ قائم کرنا ([6])سماجی تعصبات کے خاتمے کا اعلان تھا مہاجرین و انصار میں مختلف خاندانوں کے مختلف حیثیتوں کے لوگ تھے لیکن اب ان سب کو شناخت کا ایک نیا حوالہ عطا کیا گیا۔مہاجرین میں اکثریت قریش ہی کی تھی اور قبائل قریش جس طرح تمام عرب میں اپنے نسلی تفاخر کی بات کیا کرتے تھے اس کی واضح مثال غزوہ بدر میں بھی سامنے آتی ہے کہ مکہ میں کفار نے ابتدا میں انصار مدینہ سے لڑنے ہی سے انکار کر دیا تھا۔ ([7] )نبی کریم ﷺ خود اس معاشرے میں رہے اور ان کے ہر طرح کے رویوں کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ اس کے محرکات سے بھی بخوبی واقف تھے اس لیے آپ نے مواخاۃ قائم کیا ۔ظاہری پہلو تو برادری قائم کرنا اور امداد باہمی پر مبنی تھا جبکہ باطنی پہلو خاندانی برتری و قومیت کا خاتمہ ہی تھا ۔اس طرح کی ایک اور مثال حصرت بلال ؓ کو فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم تھا حضرت بلال ؓ کے اذان دینے کے موقع پر قریش کے چند لوگوں نے جس طرح کی آراء دیں ([8]) اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا اتنے عظیم الشان موقع پر ایک آزاد کردہ غلام کو اس اعزاز سے نوازنا فی الحقیقت اس متعصب فکر ہی کا خاتمہ تھا جو برتری کے جھوٹے دعوی میں مبتلا تھی ۔
2۔قبائلی تعصبات کا خاتمہ
میثاق مدینہ صرف ایک قانون ہی نہیں بلکہ سماجی و ریاستی نظم کا ایک ہمہ جہت منشور بھی ہے اس قانون کو جو مدینہ منورہ کے مختلف قبائل کے درمیان خارجی و اندرونی طور پر امن و امان اور سماجی بہبود کا معاہد ہ تھا دوسری جہت سے دیکھا جائے تو یہ تمام قبائل کے مابین تمام تعصبات کے خاتمے کا سرکاری اعلان تھا ۔ ان میں یہود کے قبائل ، اوس و خزرج کے قبائل اور پھر مہاجرین جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے سب کو سماجی و ریاستی طور پر پہلی بار قانونی طور پر بلا تفریق ِ رنگ و نسل و قبیلہ حقوق عطا ہو رہے تھے ۔اور اس عہد کے مضبوط ترین قبائلی نظام پر کاری ضرب تھی یہ ایک بہت بڑا کام تھا جو صرف نبی کریم ﷺ ہی کر سکتے تھے اور آپ نے اس کو صرف تحریری طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر نافذ بھی کیا اور اس کے ثمرات بھی سب تک پہنچے ۔اسی طرح بیرون مدینہ آپ نے کافی قبیلوں سے معاہدات کیے تھے جو مدینہ منورہ کے استحکام ہی کے لیے تھے لیکن ان سے ان جھگڑوں کا خاتمہ کرنا ہی مقصود تھا جو عصبیتوں کی بنیاد پر جاری تھے ۔
قبائلی تعصبات کے خاتمہ کے لیے نبی کریم ﷺ نے ایک اور نہایت موثر حکمت عملی اختیار کی وہ تھی آپ کا مختلف قبائل میں نکاح فرمانا اس میں آپ نے نہ صرف مسلم قبائل میں نکاح فرمائے بلکہ غیر مسلم قبائل میں بھی نکاح کیے تاکہ مذہبی تعصبات کا بھی خاتمہ ہو سکے ۔حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت حفصہ ، حضرت ام سلمہ ، حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت زینب بنت جحش سے نکاح کر کے ان تمام خواتین کے خاندانوں کو ان کی اسلامی خدمات کے حوالے سے صلہ عطا کرنا بھی تھا اور قبائلی تعلقات کو استحکام دینا بھی تھا۔
اس طرح حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت جو یریہ اور حضرت ماریہ سے نکاح کر کے اسلام دشمن قوتوں کو اخلاق اور محبت کا پیغام دینا تھا کہ تم ذات رسالت مآب ﷺ اور اسلام کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہو جبکہ اللہ کے نبی ﷺتم سے کس طرح کے تعلقات چاہتے ہیں۔نبی کریم ﷺ موخرالذکر نکاح سے سماجی طور پر جو اثرات سامنے آئے اس ضمن میں صرف حضرت عائشہ صدیقہ کا وہ فرمان ہی کافی ہے جو انھوں نے حضرت جویریہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ :
’’ان سے زیادہ اپنے خاندان والوں کے لیے بابرکت خاتون میں نے نہیں دیکھی جس کی وجہ سے خاندان کی ایک کثرت کو فائدہ ہوا ہو ۔‘‘([9])
3۔نسلی وعلاقائی تعصبات کا خاتمہ
نبی کریم ﷺ بعثت مبارکہ سے قبل پورا عرب معاشرہ نسلی و علاقائی تفاخر میں مبتلا تھا نسلی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو وہ اپنے باپ دادا اور خاندان پر بڑا فخر کرتے تھے اور دوسرے خاندانوں بالخصوص غلاموں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ رکھتے اس طرح علاقائی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اہل عرب غیر عربوں کو عجمی (گونگا) کہتے تھے ۔ نبی کریمﷺ نے تعصب و تفاخر کے ان دونوں باطل تصورات کا مختلف صورتوں میں خاتمہ کیا اس میں سب سے پہلے آپ نے غلام آزاد کرنے کی اہمیت و اجرو ثواب کا مژدہ سنایا ان کے حقوق متعین کیے ان کو سماج کے مرکزی دائرے میں لے آئے آپ اگر غلاموں کے صرف حقوق ہی متعین فرماتے اور مختلف صورتوں میں ان کی آزادی کا حکم نہ دیتے تو اس سے ان کو حقوق تو حاصل ہو جاتے لیکن ان کے حوالے سے تعصبات کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا اس لیے آپ ﷺنے سب سے پہلے ان کی آزادی کی ہی بات کی تاکہ ان کو غلام نہ کہا جائے اس ضمن میں نبی کریم ﷺکا حضرت سلمان فارسی کو نہ صرف غلامی سے آزاد کروایا بلکہ ان کو اپنے خاندان کا فرد قرار دے کر علاقائی تعصبات کا خاتمہ کرنے کی ہی جہت ہے۔علاقائی تعصبات کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک اور طریقہ اختیار فرمایا اور وہ ہے نجاشی شاہ حبشہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنا ([10])یہ واقعہ آپ کے خصائص میں سے ہے اس میں بھی یہی حکمت نظر آتی ہے کہ جن لوگوں نے مسلمانوں اور اسلام کو اس کے مشکل ترین حالات میں عزت دی ان کو اعزاز سے نوازنا مقصود تھا تاکہ خدمت دین کرنے والوں کو اعزازو انعام عطا کرنے میں علاقہ و نسل رکاوٹ نہ بنے اور اہل اسلام کی سوچ و طنیت و قومیت سے پاک ہو کر صرف ملت ِ واحدہ کی صورت اختیار کر جائے۔
دور جاہلیت میں عموماً یہ ہوتا تھا کہ کسی کمزور یا چھوٹے خاندان کا فرد کوئی جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی اور اگر بڑے خاندان کا فرد قانون سے انحراف کرتا تو وہ اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے بچ جاتا ۔عدل کا حقیقی نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے عصبیتیں فروغ پاتیں۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
]وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ[ ([11])
’’ کسی قوم (یا گروہ) کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو،عدل کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔‘‘
نفاذ عدل کے حوالے سے یہ کلی حکم ہے کہ کسی گروہ،قبیلہ،قوم کی دوستی و دشمنی اس امر میں رکاوٹ بنی تو پھر سماج میں امن وامان کا قائم رہنا مشکل ہو گا اور جب معاشرے میں امن و سکون نہ ہو گا تو اس معاشرے میں ترقی و خوشحالی اور انسانی وقار ایک خواب بن کر رہ جائیں گے۔اسی لیے نبی کریمﷺ نے فرمایا:
"ليس منا من دعا إلى عصبية وليس منا من قاتل على عصبية وليس منا من مات على عصبية" ([12])
’’جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں،اورجس نے عصبیت کی بنا پر قتل کیا وہ بھی ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت کی بنیاد پر مرا وہ بھی ہم میں سے نہیں۔‘‘
ملک و جغرافیا کی وجہ سے عصبیت کا اظہار اسلام کی آفاقیت کے خلاف ہے ۔برادری وقبیلہ کی وجہ سے عصبیت کا اظہار اسلام کے ملت واحدہ کے تصور سے انحرافی صورت اختیار کرنا ہے۔اور اگر سماجی اعتبار سے عصبیت کا ظہور ہو گا تو اس سے سیاسی عدم استحکام،فرقہ واریت کا فروغ ہو گا۔اور اگر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہو گی ،اپنی جماعت یا من پسند افراد تک ہی وسائل و مراعات کو محدود رکھا جائے گا تو اس سے کرپشن کا دروازہ کھلتا ہے۔
اس لیے نبی کریمﷺ نے قبائلی،سماجی،جغرافیائی اور سیاسی تعصبات کی نفی کر کے انسانی حیات کے دو بنیادی حقیقی پہلوؤں کی طرف متوجہ کیا۔ایک تو یہ کہ ہر انسان ابن آدم ہے،یعنی تمام انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے ایک باپ کی اولاد ہیں اس بنا پر کسی کو کسی پر کسی بھی اعتبار سے فضیلت حاصل نہیں۔دوسرا پہلو جو انسانی عظمت کا ہے اس کے لیے تقویٰ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تقویٰ باطنی حالت کا نام ہے جس کا اظہار اعمال سے ہوتا ہے۔اور اس حالت کو سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کوئی نہیں جانتا ۔
ان واضح تعلیمات کے ہوتے ہوئے کسی انسان کے کسی بھی حوالے سے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و اعلیٰ یا فائق سمجھنے جیسی سوچ کی نفی ہو جاتی ہے۔
خلاصۂ بحث
سماجی استحکام اور انسانی رویوں کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ ہر طرح کے تعصبات سے پاک ہو کیونکہ قبائلی ، طبقاتی ، لسانی اور علاقائی تعصبات سے نہ صرف افرادی صلاحیتوں اور قوتوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ سماجی اورمعاشی انصاف کی فراہمی میں بھی یہ رویہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے نبی کریم ﷺ نے جس معاشرہ کی تشکیل فرمائی اس کی اسا س ہی میں مواخاۃ مدینہ اور میثاق مدینہ کی صورت میں ذات و طبقات کی برتری کے تما م باطل تصورات کا خاتمہ فرمایا ۔موجودہ معاشروں میں قبائل و طبقات اور قومیت و وطنیت کی سوچوں نے اسلام کی آفاقیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نقصان اسلامی معاشروں کو ہی اٹھانا پڑا ۔ آج اگر ہم اپنے معاشرہ کو دیکھیں تو اس امر کے اظہار میں دور ائے نہ ہو گی کہ علاقائی ، قبائلی ، طبقاتی اور لسانی تعصبات نے وحدت ملی کے اعلیٰ اصول کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے تصور ملت سے بھی رو گردانی کی ہے جس سے ایک ہی معاشرہ میں رہنے والوں کے مابین عصبیتوں کا ایک جہان نظر آتا ہے ۔ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تعصبات پر مبنی رویوں کی بیخ کنی کرنے سے قبل ان محرکات اور خارجی و داخلی عناصر کے بارے میں مکمل آگاہی ضروری ہے ۔جو ایسے رویوں کو جنم دیتی ہے قبائلی و طبقاتی تعصبات کی ایک بڑی وجہ معاشی نا انصافی بھی ہے جس کی وجہ سے ان محروم قبائل و طبقات تک مراعات نہیں پہنچتی یہ محرومیاں اور نا انصافیاں ان کو متعصبانہ رویوں پر مجبور کرتی ہیں ۔اگر حقیقی معنوں میں معاشی انصاف ہو تو اس طرح کی صورت حال میں کافی حد تک قابو پایا جاسکتاہے ۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور بڑا عنصر جو نہ صرف ایسے رویوں کو تقویت دیتاہے وہ ہے سیاسی عصبیت ، جو سیاسی پارٹی بھی مرکز یا صوبے میں اقتدار میں آتی ہے تو الا ماشاء اللہ تمام سرکاری مراعات و وسائل کو صرف اپنی پارٹی تک ہی محدود رکھتی ہے ۔ ایسے عالم میں میں مختلف قبائل و طبقات بغیر کسی نظریہ کی بنیاد پر اپنے مفادات کی خاطر سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں ۔جس سے نہ صرف معاشی ناانصافی کا دروازہ کھلتا ہے بلکہ عصبیتیں بھی مضبوط ہوتی ہیں ۔اس لیے نبی کریمﷺ نے سماجی،قانونی اور معاشی عدل قائم کر کے تمام عصبیتوں کا احسن طریقے سے خاتمہ کر کے قرآن کے ملت واحدہ کے تصور کو راسخ کیا جس کے ثمرات سے معاشرے کے ہر فرد مستفید ہوا۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ فراہىدى، خلىل بن احمد ، كتاب العىن، من منشورات دارالہجرة، اىران، ص: 310
- ↑ ۔ الافرىقى، ابن منظور ، محمد بن مكرم، لسان العرب، دار صادر بىروت، جلد اول، ص: 606-603
- ↑ - الحجرات: 13
- ↑ ۔ الازہرى، محمد كرم شاہ الازہرى، ضىاء القرآن پبلى كىشنز لاہور 1399ھ ج 4، ص: 600
- ↑ ۔ دہلوى، شىخ عبدالحق، مدارج النبوة، مترجم غلام معىن الدىن نعىمى، ضىاء القرآن پبلى كىشنز لاہور 2002ء ج 2، ص: 376
- ↑ ۔ الشامى، ىوسف الصالحى، سبل الہدى والرشاد، قاہرہ، 1975ء ، ج 3 ، ص: 527
- ↑ ۔ ابن جوزى، عبدالرحمن، الوفاء بأحوال المصطفىٰ، مترجم علامہ محمد اشرف سىالوى، حامد اىنڈ كمپنى لاہور 2002ءص:707
- ↑ ۔ مدارج النبوة، ج 2، ص: 355
- ↑ ۔ مدارج النبوة، ص:65 5
- ↑ ۔ ايضاً، ص: 275
- ↑ - المائدة: 8
- ↑ - سنن ابى داؤد، رقم الحدىث: 5121
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |