Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Khair-ul-Ummah > Volume 1 Issue 1 of Khair-ul-Ummah

فتح مکہ میں آنحضرت ﷺکا سیاسی کردار |
Khair-ul-Ummah
Khair-ul-Ummah

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2021

ARI Id

1682060062721_2073

Pages

39-52

DOI

10.46896/khairulummah.v1i01.6

PDF URL

https://khairulumma.com/index.php/about/article/download/6/5

Chapter URL

https://khairulumma.com/index.php/about/article/view/6

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

فتح مکہ آپﷺکی سیرت طیبہ میں ایسا منفرد واقعہ ہےجس میں آپﷺنے سياسی بصيرت اورحکمت عملی سے کام لے کر ثابت کر ديا کہ اسلام ايک ناقابل تسخير قوت ہے اور وہ اسلام کو مٹانے کے لئے کتنی بھی کوششیں کر لیں وہ اسلام کو کبھی بھی نہیں ختم کر سکتے ہیں۔فتح مکہ میں آپﷺکی سياست کا یہ نتيجہ تھا کہ آپ ﷺنےعرب جيسے ملک ميں امن و عدل کی حکومت قائم کر دی اورعرب والےاسلام کی حکومت کے مطیع بن گئے ۔مکہ کو فتح کرنے کی وجہ سے آپ ﷺ نےکفار و مشرکين کا زور ختم کر ديا اوروہ اپنی شکست کوتسلیم کرتے ہوئےاسلام قبول کرلیا۔ آپﷺ نے مکہ کی فتح میں ثابت کر ديا کہ آپ ﷺ کا مقصد معاشرے میں امن و اصلاح قائم کرنا تھااور دشمنوں سے انتقام لینا نہیں تھا۔مکہ کو فتح کرنے سےپورے جزيرۃ العرب پر اسلامی نظام رائج ہو گیا۔یہ آپﷺکی سیاسی بصیرت، تدبر، اور یقین محکم کا نتیجہ تھا کہ آپﷺنے بغیر خون بہائے نہ صرف مکہ کو فتح کرلیا بلکہ اس کے نتیجے میں پورے ملک میں اسلام کی حکومت قائم کردی اورمکہ کا نظم و نسق اسلامی اصولوں کے مطابق ترتيب ديا گيا۔فتح مکہ میں آپﷺکا سیاسی کردار اورآپﷺنےجس سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اس کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • اسلام میں معاہدات کے احترام پر بہت زور دیا گیاہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کو اسلام میں قطعا حرام کیا گیا اور بدترین عمل قرار دیا گیا ہے۔قرآن مجید میں معاہدہ پر سختی سے عملدرآمد کا حکم دیا گیا ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ﴾(1)

ترجمہ:اے اہل ایمان! اپنے عہد و پیمان (قول و قرار ) کو پورا کیا کرو۔

اس آیت قرآنی میں مسلمانوں کو آپس کے عہدو پیمان کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلمان جو بھی وعدہ کریں اس کو ضرور پورا کریں ، وعدہ کو پورا نہ کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔

آپﷺنے ایک عظیم قائد اور مدبر کی حیثیت سے قریش مکہ کے ساتھ کئے ہوئے حدیبیہ کےمعاہدے کو پوری طرح نبھایااور نازک حالات میں بھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ابو جندل ؓ (2) اور ابو بصیر ؓ (3)کے واقعات اس چیز کے ثبوت ہیں ۔ قریش نے وعدہ خلافی کی اورمعاہدے کی خلاف ورزی کی۔آپﷺنےاس کے باوجود اپنےحلیفوں پر ظلم کرنے والوں سے بدلہ لینے کے لئے جلدی نہیں کی۔ کیونکہ آپﷺخون ریزی کو ناپسند کرتے تھے۔ اس لئے آپﷺنےسیاسی بصیرت اور تدبر سے کام لیتے ہوئےاپنے نمائندے کویہ تجاویز دے کرقریش مکہ کی طرف روانہ کیا:

  • بنی خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔

  • قریش قبیلہ بنی بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔

  • اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔(4)

    آپﷺکی یہ تجاویزانتہائی درگزر کرنے والی ، خونریزی اور انتقام لینے والی نہیں تھیں لیکن قریش مکہ نے تکبراورغرور کی وجہ سےپہلی دو مثبت پیشکشوں کو رد کر کےتیسری پیشکش کو قبول کرلیتے ہیں۔اب آپﷺپر لازم تھاکہ آپﷺاپنے حلیف بنوخزاعہ کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری کرتے ہوئے ان کا مکمل طور پر ساتھ دیں اور قریش کو ان کی وعدہ خلافی کا سبق سکھائیں ۔آپ ﷺنے بہترین حربی سیاست سےکام لیتے ہوئےاپنی فوج کو مکہ تک پہنچا دیا اور ان کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور مکہ کو فتح کرلیا۔

    • فتح مکہ کے واقع میں آپﷺکے عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی قوم کے لیڈر اور نمائندوں کی بد عہدی پوری قوم کی بد عہدی ہے۔کیونکہ اگر کچھ لوگ بد عہدی کریں اور باقی لوگ اس کی مذمت نہ کریں اور ناپسندیدگی ظاہر نہ کریں توپوری قوم کی بد عہدی ہو گی۔ فتح مکہ کاسبب یہی تھا کہ انہوں نے صلح کے معاہدہ کے باوجود بنوبکر نےبنو خزاعہ سےاپنے آدمیوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے قریش سے مل کر ان پر حملہ آور ہوئےاور ان کے کئی افراد قتل کردیئے۔(5) بنو خزاعہ پر حملہ میں قریش کے کچھ لوگ شامل ہوئے اور ان کی قوم کےدوسرے لوگوں نے مذمت نہیں کی اور اس پر خاموشی اختیار کی تو یہ پوری قوم کی بد عہدی ہے۔

    • فتح مکہ کی مہم میں آپﷺکی سیاست کا ایک اہم اصول یہ تھا کہ ہمیشہ حق کی حمایت کی جائے اور ظلم کی مخالفت کی جائے۔آپﷺنے مکہ کی طرف جانے کا ارادہ اس لئے کیا کہ حق کا ساتھ دیا جائے اور ظلم کو روکا جائے۔ فتح مکہ کی مہم میں آپﷺکا مقصد امن وسلامتی برقرار رہے،ظلم کو ختم کرنا تھا۔ مظلوم بھائیوں کو کفار کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے جنگ کرنا ضروری ہےجیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

    ﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ هذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلهُا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا ﴾(6)

    ترجمہ:اوربھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سےحمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔

    اس آیت قرآنی میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ کفار کے ظلم سے لوگوں کونجات دلانے کے لئے جہاد کریں۔جس علاقے میں مسلمانوں پرظلم و ستم ہورہا ہو تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو کافروں کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے جہاد کرنا چاہئے۔ مسلمان اور قریش کے درمیان دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہونے کےباوجودبنوبکرقریش کے ساتھ مل کربنو خزاعہ پر حملہ آور کردیااور ان کے کئی افراد قتل کردیئے۔ بنو خزاعہ نےآپﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے پر بیتی ظلم کی داستان بیان کی اور آپ ﷺسے مدد مانگی توآپﷺ نے ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کا وعدہ فرمایا۔(7)

    • آپﷺنےسیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے مکہ کے کچھ مقامات کو مکہ والوں کےلئے امن گاہیں مقرر فرمائیں۔ابو سفیان ؓ کے گھرمیں پناہ لینے والوں کو ، اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے والوں اورجو شخص حرم میں داخل ہو گاان سب کو امان دی ۔(8)یہ اعلانات کر کے آپﷺنےایک طرف ان کو بچانے اور محفوظ رکھنے کا انتظام کردیا اور دوسری طرف اعلی انسانی ہمدردی اور امن پسندی کا ہی ثبوت دیتے ہوئے انہیں اپنے بلند کردار سے اسلام کی طرف راغب کیا۔اس کے علاوہ ان اعلانات سے آپﷺکی سیاسی حکمت عملی یہ تھی کہ مکہ والے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیں اور وہ ان امان کے طریقوں کو اختیار کر کے یہ ظاہر کر دیں کہ وہ امان کے طلب گار ہیں۔ آپﷺکی اس بہترین سیاسی حکمت عملی سے مکہ فتح ہو گیا اورپورے مکہ میں امن و امان قائم ہو گیا۔

    • فتح مکہ کی مہم کے دوران آپﷺکے عمل سےایک اہم اسلامی سیاسی اصول سامنے آتا ہے کہ معزز دشمن اسلام لانے کے بعد بھی معزز رہیں گے۔ ابو سفیان ؓنے جب اسلام قبول کیا تو آپﷺنےانہیں اعزاز عطا فرمایا اور ان کے گھر کو دار الامان قرار دیا۔(9)

    • نبی اکرمﷺکی زندگی کی سب سے بڑی فتح کے دن آپﷺاللہ کی مکمل بندگی کی حالت میں مکہ میں داخل ہوئے ۔آج کے کسی بھی دنیوی سیاست کے لیڈرسے اس چیزکی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔آپﷺکا مکہ میں فاتحانہ داخلہ ہوتا ہےلیکن آپ ﷺکے دل میں نہ تو فتح اور کامیابی کا نشہ ہے اور نہ ہی آپﷺکے احساسات پرتکبراور غرور طاری ہے ۔بلکہ آپﷺکا سر عجزوانکساری اور اللہ کے شکر کے ساتھ جھکا ہوا ہےاور اونٹنی کے پالان کو چھو رہا ہے۔اس وقت آپﷺکی زبان مبارک سے اللہ تعالی کی حمد اور بڑائی کے الفاظ جاری ہو رہے تھے۔اس منظر کو ابن ہشام اپنی کتاب سیرۃ ابن ہشام میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

    ''أَنّ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ لَمّا انْتَهَى إلَى ذِي طُوًى وَقَفَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُعْتَجِرًا بِشُقّةِ بُرْدٍ حِبَرَةٍ حَمْرَاءَ ، وَإِنّ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ لِيَضَعَ رَأْسَهُ تَوَاضُعًا لِلّهِ حِينَ رَأَى مَا أَكْرَمَهُ اللّهُ بِهِ مِنْ الْفَتْحِ حَتّى إنّ عُثْنُونَهُ لَيَكَادُ يَمَسّ وَاسِطَةَ الرّحْلِ ''(10)

    ترجمہ:جب رسول اللہ ﷺذی طوی میں پہنچےتو آپﷺسواری پر ٹھہرے رہےآپ ﷺکا عمامہ بغیر شملے کا تھااور وہ نصف سرخ یمنی چادر کا تھا،اور اللہ کے رسولﷺ نے اپنا سر اللہ کے حضور میں انکسارو خضوع کے ساتھ جھکا رکھا تھا اس لئے کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکو فتح مکہ سے نوازا تھا ۔سر اتنا جھکا ہوا تھا کہ کہ ریش مبارک کجاوے کے پٹھے سے لگ رہی تھی۔

    گویا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپﷺ نے عظیم فتح حاصل کی تھی اور آپﷺایک عظیم فاتح تھے۔ آپﷺنے اپنے دشمنوں پرزبردست غلبہ حاصل کیا تھا لیکن اس کے باوجود آپﷺانتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ مکہ میں داخل ہوتے ہیں۔

    • نبی اکرم ﷺنے بہترین سیاسی حکمت عملی سے آہستہ آہستہ قریش کے تمام سیاسی حلیفوں کا خاتمہ کیا۔اب صرف قریش رہے گئے تو آپﷺنےسیاسی بصیرت سے فیصلہ کیا کہ ان پر بغیر کسی نقصان اور انتقام کے فتح حاصل کی جائےاور قریش کی افرادی قوت کو بچایا جائے اور اس قوت کو مستقبل میں اسلام کے لئے استعمال کیا جائے ۔اس دن آپﷺکے سامنے آپﷺکے بڑے بڑے دشمن کھڑے تھےجنہوں نے :

  • بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا یا کرایا تھا۔

  • انہوں نےآپﷺ اور مسلمانوں کو بہت دکھ،تکالیف اور اذیتیں پہنچائی تھیں۔

  • مسلمانوں کو تکلیفیں دے کر ان کے وطن سے نکالا تھا۔

  • دین اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئےحبش،شام،نجداور یمن تک کے سفر کیے تھے۔

  • جنہوں نے مسلمانوں کو مدینے میں سکون سے رہنے نہیں دیا تھا اور کئی دفعہ مسلمانوں پر حملے کیے تھے۔(11)

    لیکن آپﷺنےان سے مظالم کا بدلہ لینے کے بجائےعفوودرگذر سے کام لیا۔آپﷺنےان کے لئے عام معافی کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا :

    (( لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ )))12(

    ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش نہیں ۔

    آپﷺنے اپنے دشمنوں پر رحم وکرم کیا اور ان سے کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ فرمایا۔ آپﷺنے انہیں تباہ کرنے اوران سےانتقام لینےکے بجائے انہیں معاف کردیا۔ فتح مکہ کے دن آپﷺاپنے دشمنوں سے انتقام لے سکتے تھے کیونکہ وہ مغلوب تھے۔ لیکن آپ ﷺنےان کےتمام قصورمعاف فرمادیے اورانہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔آپﷺنے ان سےرواداری اور عفوو درگذرکا سلوک کیا۔آپﷺنےمکہ کے لوگوں سے عفوودرگزر کرکے ان پراحسان فرمایااور آپﷺکے اس رویہ سے متاثر ہو کر خوشی خوشی اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہو گئےاور انہوں نے اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ان سے اسلام کی قوت میں اضافہ ہوااوران کی وجہ سےاسلام کو شام،عراق،فارس،مصر اور افریقہ میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں جیسے صفوان بن امیہ ؓ ، عکرمہ بن ابو جہل ؓاورعبداللہ بن سعد بن ابی سرح ؓوغیرہ۔

    • فتح مکہ کے واقع میں آپﷺکی سیاست کا یہ پہلو نمایاں نظر آتا ہے کہ آپﷺنے ذاتی دشمنی کو کبھی بھی نظام کی بہتری میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔آپﷺنے ہر باصلاحیت انسان کی قدر کی اورآپﷺنے ان کی صلاحیتوں کواسلام کی خاطر وقف کرنے کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔آپﷺکی اس اعلی سیاسی بصیرت کی وجہ سے آپﷺکے گردایسے لوگ جمع ہو گئے جو میدانوں کے فاتح،بہترین مشیر اور بہترین سفیر ثابت ہوئے۔مثلاآپ ﷺ جانتے تھے کہ ابوسفیان کے خاندان میں جنگی اور انتظامی صلاحتیں موجود ہیں۔اس لئے آپﷺنےمزاحمت کے گڑھ کو امن کا گھر قرار دیااور عکرمہ بن ابوجہل کومعاف فرما کر اعلی منصب پر فائز کیا۔(13)

    • فتح مکہ کے موقع پر آپﷺکا خطبہ آپﷺکی سیاسی حکمت و بصیرت پر مبنی سیاسی زندگی کا بے مثال شاہکار ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

    ''لَا إلَهَ إلّا اللّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ أَلَا كُلّ مَأْثُرَةٍ أَوْ دَمٍ أَوْ مَالٍ يُدّعَى فَهُوَ تَحْتَ قَدَمَيّ هَاتَيْنِ إلّا سَدَانَةَ الْبَيْتِ وَسِقَايَةَ الْحَاجّ أَلَا وَقَتِيلُ الْخَطَأِ شِبْهِ الْعَمْدِ بِالسّوْطِ وَالْعَصَا ، فَفِيهِ الدّيَةُ مُغَلّظَةً مِئَةٌ مِنْ الْإِبِلِ أَرْبَعُونَ مِنْهَا فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا. يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ، إنّ اللّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِيّةِ وَتَعَظّمَهَا بِالْآبَاءِ النّاسُ مِنْ آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَاب''(14)

    ترجمہ:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلے نے سب لشکروں کو شکست دی۔ خبردار! ہر قسم کا فخر، مالی اور نسبی امتیاز جن کے دعوے کیے جاتے ہیں، آج میرے پاؤں تلے ہیں سوائے بیت اللہ کی خدمت اورحاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کے۔ خبردار! اگر کسی کو کوڑے یا لاٹھی کے ساتھ غلطی سے ماردیا جائے تو قاتل پر سخت دیت لاگو ہوگی یعنی سو اونٹ جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ بھی ہوں گی۔''اے قریش! اللہ تعالیٰ نے تمھارا جاہلی تکبر اور آبائی فخر ختم کردیا۔ سب لوگ آدم ؑ کی اولاد ہیں اور سیدنا آدم ؑمٹی سے بنے تھے۔

    پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی:

    ﴿يَا أَيّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّهِ أَتْقَاكُمْ﴾(15)

    ترجمہ:اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔

    یہ خطبہ کسی شہنشاہ،فاتح یا حکمران کا نہیں تھابلکہ اللہ کے رسولﷺ برحق کا تھا۔اس میں آپ ﷺنے تمام انسانی برادری کو خطاب کیا۔ آپ ﷺنے اس کی ابتدا توحید کی تعلیم اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے روکا ۔اس خطبہ میں عالمگیر دینی اقدارکا درس دیا گیا ہے ۔آپﷺ نے سود اور خون کاانتقام لینا حرام قرار دیااورتمام جاہلی اعزازات کو ختم کر دیا سوائے خانہ کعبہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانےکے۔ آپ ﷺنےغلطی سے قتل ہونے والے شخص کی دیت مقرر کی جو سو اونٹنیوں پر مشتمل ہوگی جن میں سے چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں ۔مکہ کی حرمت اور تمام انسانوں کی برابری اور حقوق میں مساوات کا حکم دیا۔آپ ﷺ نے انسان کے لئے عزت کا معیار تقوی قرار دے کر اس چیز کو ثابت کر دیاکہ دین اسلام سچا،فطری اور الہامی ہے۔اس خطبے سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺنےبہت ہی کم مدت میں نصرت الہی کی بدولت اسلام کے دشمنوں کو شکست دے کر توڑ کر رکھ دیا اور عرب کے لوگوں کے دلوں کو مسخر کردیا۔ آپ ﷺکےاس خطبے کے جو سیاسی پہلو نکلتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

    1۔اعلان امن

    نبی اکرمﷺنےاس خطبہ میں قیامت تک مکہ کی حرمت کا اعلان کیا۔آپﷺنےمکہ میں خون بہانےاور درخت کےکاٹنے سےمنع کیا۔مکہ کی حرمت میں کسی صحابی نے بھی شک نہیں کیا۔ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

    ''اگر میں حرم میں اپنے والد کے قاتل کو دیکھ لوں تو بھی یہاں سے نکل جانے تک اسے کچھ نہ کہوں۔''(16)

    مکہ مسلمانوں کےلئےامن اورپناہ کی جگہ ہے۔قرآن مجیدمیں ارشاد ہوتا ہے:

    ﴿وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا﴾(17)

    ترجمہ:اورجب ہم نےکعبہ کولوگوں کےلیےعبادت گاہ اورامن کی جگہ بنایا۔

    اس آیت قرآنی میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی دو خصوصیتیں بیان فرمائی ہے۔ ایک یہ کہ لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے آتا ہے۔وہ دوبارہ آنے کے لئے بے قراررہتا ہے۔دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف بھی نہیں رہتا۔جاہلیت کے دور میں لوگ حدود حرم میں اپنےدشمن سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا۔مَثَابَةً کی وضاحت ابن کثیر ،ابو برکات النسفی اور ثنا اللہ المظہری بیان کرتے ہیں کہ کعبہ حجاج اور عمار کے لئے مرجع ہے کہ وہ وہاں سے واپس آکر پھر اس کی طرف لوٹتے ہیں۔(18) چنانچہ اس سے واضح ہوا کہ مکہ مکرمہ لوگوں کے لئے امن اور پناہ کی جگہ ہے۔یہاں کسی انسان کو اپنی جان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    2۔اعلان آزادی

    فتح مکہ کےدن آپﷺنے اپنے دشمنوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیااور ان سب کو آزاد اور معاف کر دیا۔اس دن آپﷺکےسامنےآپﷺکےبڑے بڑے دشمن سرجھکائے کھڑے تھے۔انہوں نےآپﷺ کوبہت تکلیفیں پہنچائی تھیں۔انہوں نےآپﷺکو کاہن،ساحر، شاعراور دیوانہ تک کہا۔یہ کبھی آپﷺکے اوپر پتھرپھینکتے تو کبھی آپ ﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھاتے۔یہ کبھی آپ ﷺکےجسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے اورکبھی آپ ﷺکی گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔یہاں تک کہ انہوں نےآپ ﷺ کوقتل کرنے کی کوشش بھی کی ۔(19)ان کی دشمنی کی وجہ سےآپﷺاورصحابہ کرام ؓنےاپنا وطن چھوڑ دیا۔ مدینہ میں بھی ان لوگوں نےمسلمانوں کوامن و سکون کے ساتھ زندگی بسرکرنے نہیں دی۔ فتح مکہ کےدن ان سب سےآپ ﷺانتقام لے سکتے تھے،لیکن آپﷺکواس دن انتقام سےکوئی غرض نہیں تھی۔اس لئےآپ ﷺ نے چند لوگوں کےسواان سب کومعاف کردیا ۔(20)

    3۔حرمت جان انسانی

    عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ خون کا انتقام لینا اپنا خاندانی فرض اور فخر کی بات سمجھتے تھے اور یہ انتقام نسل در نسل چلتا رہتا تھا ۔فتح مکہ کے واقعہ میں آپ ﷺنےانسانی جان کی حرمت کی مثال قائم کی۔آپﷺنے مکہ کو فتح کرنےکےبعد کسی کوذلیل نہیں کیا کیونکہ آپﷺکامقصدقتل وغارت اور خون ریزی نہیں بلکہ انسانی عظمت کاتحفظ تھا۔آپﷺاپنےلشکرکےساتھ نہایت رازداری سےمکہ تک پہنچ گئےتاکہ قریش مکہ کولڑائی کاموقع نہ ملے۔کیونکہ اگر دونوں فوجوں کے درمیان لڑائی ہوتی تو انسانی خون بہتا۔حضرت سعد بن عبادہ ؓ نےفتح مکہ کے دن ابو سفیان ؓ کو قریش کے ساتھ جنگ اورخون ریز واقعات بپا کرنے کی دھمکی دی ۔(21)نبی اکرمﷺکوجب اس بات کا پتا چلاتو آپﷺنےفرمایا

    ((هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الكَعْبَةَ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الكَعْبَةُ ))(22)

    ترجمہ: آج کا دن تو وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کعبہ کو عظمت و بزرگی عطا فرمائے گا اور کعبہ کو آج غلاف پہنایا جائے گا ۔

    آپﷺنےان الفاظ میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی دھمکی کی نفی فرمائی اورانہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آج قتل و غارت کا دن نہیں بلکہ آج کعبہ کی عظمت و بزرگی کا دن ہے۔کیونکہ آپﷺپرامن طور پر مکہ کو فتح کرنا چاہتے تھے اور فتح مکہ کے دن کسی کی قتل نہیں کرنا چاہتے تھے۔آپﷺنے اس خطبہ میں انسانیت کے احترام کا خاص خیال رکھا اور انسان کو قتل ہونے سے بچایا۔

    4۔جاہلی فخروغرورکاخاتمہ اورمساوات انسانی کااعلان

    آپﷺنےمساوات عالم قائم کی۔آپﷺنےانسانی نسلوں،طبقوں اورمعاشروں کی بنیادپرفضیلت اور برتری کو ختم فرمادیا ۔آپ ﷺنےفتح مکہ کےدن خطبے میں فرمایا:

    (( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَتَعَاظُمَهَا بِآبَائِهَا فَالنَّاسُ رَجُلَانِ بَرٌّ تَقِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى اللَّهِ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ هَيِّنٌ عَلَى اللَّهِ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَخَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ ))(23)

    ترجمہ: اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے زمانہ جاہلیت کا فخر اور اپنے آباء واجداد کی وجہ تکبر کرنا دور کردیا ہے۔ اب لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو اللہ کے نزدیک متقی اور کریم ہے۔ دوسرا وہ جو اللہ کے نزدیک بدکار بدبخت اور ذلیل ہے۔ تمام لوگ آدم ؑ کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا ۔

    اس خطبےمیں آپﷺنےجاہلی فخروغرور،نسل اورنسب کےغرورکومٹاکرانسانی مساوات کادرس دیا۔ حضرت آدم ؑکی اولادہونےکےناتےسےسب انسان برابرہیں۔عربی وعجمی،امیروغریب اورحاکم و محکوم میں کوئی فرق نہیں، سب انسان برابر ہیں۔ خداکے نزدیک برتری کا معیار صرف تقوی ہے۔آپﷺنےاس خطبہ میں مساوات انسانی پر زور دینے کے لئے ساتھ ہی اس آیت قرآنی کا ذکر کیا:

    ﴿يَا أَيّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّهِ أَتْقَاكُمْ﴾(24)

    ترجمہ:اےلوگو!ہم نےتم کوایک مرداورایک عورت سےپیداکیااورپھرہم نےتمھیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرےکوپہچان سکو۔ تم میں سب سےزیادہ معززوہ ہےجو اللہ تعالی سےزیادہ ڈرتاہے۔

    اس آیت قرآنی میں اللہ تعالی تمام انسانوں سے خطاب کر کے قوموں اور قبیلوں کے تعلق سے یہ حقیقت واضح کی کہ سب آدم ؑ اورحوا ؑ کی اولاد ہیں اور جب سب کی اصل ایک ہے ۔قبیلےاورقومیں اس لئے بنائے تھےکہ تم ایک دوسرے سے الگ الگ پہچانے جاسکو۔انسانوں کے درمیان فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔

    گویا کہ اس سے واضح ہوا کہ اس خطبےمیں آپﷺنےجاہلی فخروغرور،نسل اورنسب کےغرورکومٹاکرانسانی مساوات کادرس دیا۔ سب انسان برابرہیں،ان میں اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو وہ صرف تقوی کی صفت کی وجہ سے ہے۔

    • مکہ عرب کا سیاسی اور دینی مرکز تھااور عرب کی سیاسی اور دینی پیشوائیت قریش کے پاس تھی۔آپﷺنے فتح مکہ میں قریش کی پیشوائیت اور سیادت کو ایسے تدبر سے خاتمہ کیاکہ وہ آپﷺکے سامنے گھٹنےٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔

    • مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد سیاسی اعتبار سے آپﷺکا جو اہم مقصد تھا وہ یہ کہ اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کرنا اور خانہ کعبہ پر مشرکین کے قبضے کو ختم کرنا۔ مکہ کی فتح کےدن آپﷺسب سےپہلےمسجدحرام میں گئےاس وقت بیت اللہ کےاردگرداورچھت پرتین سوساٹھ بت تھے،آپﷺکےہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سےانہیں ٹھوکر مارتے اور ساتھ ساتھ اس آیت شریفہ کی تلاوت فرماتےرہے:

    ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾(25)

    ترجمہ:حق آگیااورباطل مٹ گیایقیناًباطل تومٹنےوالاہی ہے۔

    اس آیت قرآنی میں اللہ تعالی آپﷺ کی زبان مبارک سے حق کی آمد اور باطل کے فرار کا اعلان کرایا جا رہا ہے اور یہ کہ باطل کو ثبات نہیں ۔ابو بركات النسفی کے مطابق حق سے اسلام مراد ہےاور باطل سے شرک مراد ہے۔ (26)صحیح بخاری میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

    ((دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَحَوْلَ الْبَيْتِ سِتُّونَ وَثَلَاثُ مِائَةِ نُصُبٍ فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِي يَدِهِ وَيَقُولُ{ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ }{ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ }))(27)

    ترجمہ:کہ فتح مکہ کے دن جب نبی کریمﷺمکہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ نبی کریمﷺایک چھڑی سے جو دست مبارک میں تھی ' مارتے جاتے تھے اور اس آیت کی تلاوت کرتے جاتے «جاء الحق وزهق الباطل،‏‏‏‏جاء الحق،‏‏‏‏وما يبدئ الباطل وما يعيد» کہ حق قائم ہو گیا اور باطل مغلوب ہو گیا ،حق قائم ہو گیا اور باطل سے نہ شروع میں کچھ ہو سکا ہے نہ آئندہ کچھ ہو سکتا ہے۔

    مکہ کوبتوں سےپاک کرنےکےبعدآپﷺنےمکہ کےاردگردجوبت پرستی کےچندمراکزتھے،ان کاخاتمہ کیا۔آپﷺنےبت پرستی کےان بڑےمراکزکےخاتمےکےلئےصحابہ کرام ؓکےلشکروں کوبھیج کران سب بتوں کوتوڑکربت پرستی کاخاتمہ کر دیا۔(28)اس طرح ناصرف مکہ بلکہ اس کےاطراف سےبھی بت پرستی کاخاتمہ ہوگیا۔ ان بتوں کی شکست ان کے ذہنوں کی شکست تھی۔وہی لوگ جو کل تک مشرک تھے وہ توحید کے داعی بن گئے۔آپﷺ کا مکہ میں تشریف لاتے ہوئے مکہ کے ہر گھر اور ہر گوشے میں توحید کا دور دورہ ہو گیا۔

    • آپ ﷺنے بحیثیت سیاسی لیڈرمکہ میں ایک نئے معاشرے اور اس کے امتیازی خصوصیات کا اعلان فرمایا۔ آپ ﷺنے بت پرستی کا خاتمہ کر دیا۔آپ ﷺنے قریش مکہ کے تمام قدیم اور متعفن جاہلی کاموں مثلا آبا‎ؤاجداد پر فخر،قومیت اور دیگر عصبیتوں پر مباہات اور شکل وصورت ،زبان اور حسب ونسب کے فرق کے لحاظ کا خاتمہ کر دیا۔کیونکہ آپ ﷺچاہتے تھے کہ قریش کے پرانی عادات واطوار اوررسوم و روایات ختم ہونے چاہیےاور قریش مکہ کو پاک وصاف ہو کر اسلام میں داخل ہونا چاہیئے۔

    • آپ ﷺایک بہترین سیاسی لیڈر کےلحاظ سے ایک بہترین فیصلہ کیا کہ وہ جب اسلام قبول کرنے کے لئے آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺنےان سے جب بیعت لی تو ان سے مندرجہ ذیل باتوں کا عہد لیا:

    ((أَنْ لَا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا نَسْرِقَ وَلَا نَزْنِيَ وَلَا نَقْتُلَ أَوْلَادَنَا وَلَا يَعْضَهَ بَعْضُنَا بَعْضًا فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَمَنْ أَتَى مِنْكُمْ حَدًّا فَأُقِيمَ عَلَيْهِ فَهُوَ كَفَّارَتُهُ وَمَنْ سَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ))(29)

    ترجمہ: کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اور نہ ہم چوری کریں گے اور نہ زنا کریں گے اور نہ ہم اپنی اولادوں کو قتل کریں گے اور نہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے۔ پس تم میں سے جس نے وعدہ وفا کیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو تم میں سے کسی حد تک پہنچا وہ اس پر قائم کی گئی تو وہ اس کا کفارہ ہوگی اور جس پر اللہ نے پردہ رکھا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اگر چاہے اسے عذاب دے اگر چاہے اسے معاف کر دے۔

    آپ ﷺنےان سےیہ عہد لے کر ایک تو انہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی اطاعت کا پابند بنایااور دوسرا معاشرے کی برائیوں سے انہیں روک کر معاشرے کی برائیوں کا خاتمہ کیا۔آپ ﷺنےمردوں اور عورتوں دونوں سےبیعت لی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں اسلامی ذمہ داریوں میں شریک ہیں۔

    • آپ ﷺ نےبہترین حاکم کی حیثیت سے مکہ میں اسلام کے قانون الہی کو نافذ کیا۔آپ ﷺ نےمکہ میں ظلم پر مبنی نظام کا خاتمہ کر دیااور معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا کیا۔آپ ﷺ نےکفار کی سیاسی سازشوں کا خاتمہ کردیااوراہل مکہ میں سیاسی شعور بیدار کیا۔آپ ﷺنے مکہ میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔آپ ﷺنےنیکی کو فروغ دیا اور برائی کوسدباب کیا تاکہ پاکیزہ معاشرہ قائم ہو سکے۔

    • کلید برداری کعبہ اللہ کی خدمت کا بہت معزز منصب تھا اور یہ اعزاز عثمان بن طلحہ ؓکے خاندان کے پاس تھا ۔ آپ ﷺ نے کلید بردار عثمان بن طلحہ ؓ کوخانہ کعبہ کی چابی واپس کر دی اور فرمایا:

    ''يا بني أبي طلحة تالدة خالدة لا ينزعها منكم أحد إلا ظالم ''(30)

    ترجمہ:اےاولاد ابی طلحہ !اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لے لو وہ تم سے سوائے ظالم کے کوئی نہیں چھینے گا۔

    اس طرح آپ ﷺنےاس دن وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے عثمان بن طلحہ ؓ کوخانہ کعبہ کی چابی واپس کر دی۔ علماء کی رائے ہے کہ بیت اللہ کی کلید برداری کا منصب اس خاندان سے لے کر کسی کے حوالے کرنا ناجائز ہے۔ قاضی عیاض اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

    '' وهي ولاية لهم عليها من رسول الله صلى الله عليه و سلم فتبقى دائمة لهم ولذرياتهم أبدا ولا ينازعون فيها ولا يشاركون ما داموا موجودين صالحين ''(31)

    ترجمہ: یہ منصب انہیں رسول اللہﷺنے عطا فرمایا،اس لئے یہ ہمیشہ انہیں اور ان کی نسلوں کو حاصل رہے گا۔نہ ان سے چھین کرکسی اور کو دیا جاسکتا ہےاور نہ کسی اور کو ان کے ساتھ شریک کیا جا سکتا ہےبشرطیکہ اس خاندان کا وجود ہو اوراس کے افراداس کے اہل ہوں۔

    اس دن سے آج تک کعبہ کی کلید برداری کا اعزاز بنو شیبہ کے خاندان کو حاصل ہے۔موجودہ دور میں شیخ صالح الشیبی کلید بردار ہیں(32)۔

    • سیاسی پناہ کا قانون انسان کے بنیادی حقوق کا ضامن ہے۔اسلام کے قوانین میں سیاسی پناہ کے قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اسلام میں یہ قانون ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم کسی حالت میں پناہ مانگے تو اسے پناہ دی جائے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

    ﴿وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَه﴾(33)

    ترجمہ: اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے۔

    اس آیت قرآنی میں بتایا جارہا ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ و امان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کر سکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو۔

    فتح مکہ کے دن آپﷺنے ام ہانی ؓ کے خاوند کے دو رشتہ دار حارث بن ہشام اور زہیر بن ابی امیہ کوسیاسی پناہ دی ۔ام ہانی ؓ آپﷺ کے پاس آئی اورآپ ﷺکو بتایاکہ میرے خاوند کے دو رشتہ دار میرے گھر پناہ لیے ہوئے ہیں ۔آپ ﷺنے فرمایا:

    ((قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ ))(34)

    ترجمہ:اے ام ہانی!جس کو تم نے پناہ دی میں بھی اس کو پناہ دیتا ہوں ۔

    آپ ﷺنے ان الفاظ میں ام ہانی ؓکےخاوند کے دو رشتہ داروں کو پناہ دی اور انہیں قتل نہیں کیا گیا۔عورت کا کسی کو پناہ دینے کے بارے میں سہیلی لکھتے ہیں:

    '' هو موقوف على إجازة الإمام ''(35)

    ترجمہ:(عورت اگر کسی کو پناہ دے گی تو )یہ امام کی اجازت پر موقوف ہوگی۔

    • آپ ﷺنےایک مدبر سیاست دان کی حیثیت سےمکہ کو فتح کرنے کے بعداپنی حکومت کو مستحکم بنانےکے لئے اور مفتوحہ علاقے کے نظم و ضبط کو مضبوط بنانے کے لئے خاص انتظام کیا۔آپ ﷺنےمکہ کی نظم و نسق کی ترتیب،گورنر کا تقرراور اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔آپ ﷺنے مکہ کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کے لئے حضرت عتاب بن اسید ؓ کو مکہ کا عامل بنایا جو لوگوں کو نماز پڑھاتا تھا اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کونو مسلموں کو اسلام کی تعلیم دینے کے لئے مامور فرمایا۔(36)

    • فتح مکہ کے دن مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ نے پرانی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئےقبیلہ بنی ہذیل کے ایک مشرک کو قتل کر دیا۔آپ ﷺکو اس کا بہت دکھ ہوا۔آپ ﷺنے اس کا خون بہا ادا کیااورآپﷺنے لوگوں کو یہ خطبہ دیا:

    (( إِنْ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، لاَ يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلاَ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا اليَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ ))(37)

    ترجمہ: مکہ (میں جدال وقتال وغیرہ) کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے آدمیوں سے نہیں حرام کیا، پس جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ مکہ میں خون ریزی کرے اور نہ (یہ جائز ہے کہ) وہاں کوئی درخت کاٹا جائے پھر اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺکے لڑنے سے (ان چیزوں کا) جواز بیان کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺکو اجازت دے دی تھی اور تمہیں اجازت نہیں دی اور مجھے بھی ایک گھڑی بھر دن کی وہاں اجازت دی تھی پھر آج اس کی حرمت ویسی ہی ہوگئی جیسی کل تھی، پھر حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کو (یہ خبر) پہنچادے ۔

    اس خطبے میں آپ ﷺ نے مکہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قیامت تک حرام قرار دیااور مسلمانوں کو قتل و غارت اور درخت کاٹنے سے منع کیا۔

    • آپ ﷺنےایک فتح مکہ کے موقع پرپاس وفا کا ثبوت دیا۔انصار نےآپ ﷺکا مکہ میں داخلہ دیکھا اور پھرآپ ﷺکے خاندان اور قوم کے آدمی آپ ﷺکےگرد اکٹھے ہو گئے تو انصار نے سمجھاکہ شایدآپ ﷺ یہیں اپنے شہر میں قیام فرمائیں گے۔آپ ﷺپر اس بارے میں وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺنے فرمایا:

    ((قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ ))(38)

    ترجمہ: تم نے کہا کہ مجھ کو کنبے والوں کی محبت آگئی اور اپنے شہر کی الفت پیدا ہوئی۔

    آپ ﷺکو جب انہوں نے اپنے دل کی بات بتائی تو آپﷺنےانصارکو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

    ((وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ)) (39)

    ترجمہ: اوراب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ۔

    آپﷺچاہتے تو آپﷺمکہ میں رہ سکتے تھے کیونکہ مکہ میں بیت اللہ اور آپﷺکے رشتہ دار تھے۔مگر آپﷺکی وفاداری نے یہ برداشت نہیں کیا کہ مشکل وقت میں کام آنے والوں کو چھوڑ دیا جائے۔

    • آپ ﷺکا مکہ میں قیام کے دوران ایک عورت (40)نے چوری کی تو نبی اکرم ﷺنے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کی قوم کے لوگوں نے حضرت اسامہ ؓ کو سفارشی بنا کر آپ ﷺکے پاس بھیجا تو آپ ﷺکو یہ بات بری لگی اور فرمایا:

    (( إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا))(41)

    ترجمہ:تم سے پہلی قوموں کو صرف اس بات نے ہلاک کیا کہ اگر ان میں سے کوئی باعزت آدمی چوری کر لیتا تھاتو اس کو سزا نہیں دیتے تھے لیکن اگر کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تھا تو اس کو سزا دے دیتے تھے۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدﷺ کی جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں یقینااس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔

    اس طرح آپ ﷺنےثابت کیا کہ حدود شرعی میں کوئی سفارش نہیں اور اس کےہاتھ کاٹ دیئے گئے۔اس سے ثابت ہوا کہ اس وقت قانون صرف غریب پر لاگو ہوتا تھا اور امیر لوگ سفارش اور رشوت کے ذریعہ بچ جاتے تھے ۔آپ ﷺنےامیراورغریب میں فرق کوختم کردیا ۔چاہےامیر جرم کرے یا غریب دونوں کو اسلام کے احکام کے مطابق سزا دی جائے گی۔

    نبی اکرم ﷺنے بہترین سیاسی حکمت عملیاں اختیار کر کے مکہ کو فتح کرلیا۔مکہ کی فتح سے دین کو فروغ حاصل ہوااور سیاسی اعتبار سے مملکت اسلامیہ کی دھاک ہر طرف بیٹھ گئی۔فتح مکہ آپﷺکی زندگی میں وہ آخری قدم تھا جس کے بعد آپﷺ اپنی حکمرانی میں پورے عرب کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئےاور آپﷺنے اپنی زندگی میں ہی اسلامی ریاست کو مضبوط کر لیا۔

    خلاصہ

    آپﷺدنیا کے عظیم ترین سیاستدان ہے۔آپﷺ بطور سیاستدان وحکمران عظیم منتظم ومدبر تھے ۔ آپﷺکی سیاست دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے ۔ آپﷺکی سیاست کا سب سے عظیم شاہکار فتح مکہ ہے اس میں آپﷺ نے عرب جیسے ملک میں امن و عدل کی حکومت قائم کر دی۔ کفار و مشرکین کا زور آپ ﷺ نے توڑ دیااور انہوں نے فتح مکہ کے موقع معافی مانگ لی اور اسلام قبول کرلیا۔ آپﷺنے پورے عرب میں اسلامی معاشرہمکمل طور پر اسلامی سیاسی اصولوں کے مطابق قائم کر لیا۔ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد سیاسی اعتبار سےآپﷺکا جو اہم مقصد تھا وہ یہ کہ اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کرنا اور خانہ کعبہ پر مشرکین کے قبضے کو ختم کرنا۔یہ بہت ہی مشکل کام تھا مگر اللہ کے بھروسے ،مدد اور مسلمانوں کی ثابت قدمی سے وہ کامیاب ہو گئے۔آپﷺکی بہترین سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے اسلام کو فتح حاصل ہوئی۔

    حوالہ جات

    1()سورۃ المائدہ:5/1

    2() ابو جندل ؓ:آپ کا نام عبداللہ تھا۔آپ اسلام میں پہل کرنے والے خوش نصیبوں میں سے تھے۔آپ کاشمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سخت اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔صلح حدیبیہ کی شرائط جب لکھی جارہیں تھیں تو وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آکر اسلام قبول کرنے کا اعتراف کیا۔پھر انہیں ان کے والد واپس لے گئے۔یہ یمامہ میں شہید ہوئے اس وقت ان کی عمر اڑتیس سال تھی(الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، 7/69)

    3() ابو بصیر ؓ:آپ کا نام عتبہ بن اسید تھا۔آپ بنو زہرہ کے حلیف تھے۔آپ نبی اکرم ﷺکی خدمت میں صلح حدیبیہ کے موقع پرحاضر ہوئے تھے ۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کی وجہ سے آپﷺنے عتبہ کو اس کی قوم کے حوالے کیا تو وہ ان سے بھاگ کر عیص کے مقام پر رہنے لگے ۔آپﷺنے بعد میں انہیں مدینہ بلا لیا لیکن مدینہ جانے سے پہلے یہ بیمار ہو گئے اور وہی فوت ہو گئے(اسد الغابۃ، 3/145)

    4()فتح الباری،8/6

    5( ) شرح معانی الآثار، کتاب السیر،باب الحجۃ فی فتح، حدیث نمبر:5444، 3/315

    6()سورۃ النساء:4/75

    7()مسند ابی يعلى، 7/343

    8()المعجم الکبیر،حدیث نمبر:7264 ،8/9

    9()صحيح مسلم، کتاب الجہاد و السیر،باب فتح مکہ ،حدیث نمبر:86 ، 3/1407

    10() سیرۃ ابن ہشام، 4/25

    11()رحمۃ للعالمینﷺ، 1/136

    12()السنن الکبری، 6/383

    13()رسول اکرمﷺ کی حکمت انقلاب،سید اسعد گیلانی، ادارہ ترجمان القرآن،لاہور،اکتوبر1981 ء؁،ص:610

    14()سیرۃ ابن ہشام، 4/34

    15()سوره الحجرات: 49/13

    16()رسول اکرمﷺ کی سیاست خارجہ، محمد صدیق قریشی،قنطارا پبلی کیشنز،جہلم،1978؁ء، ص:302

    17()سورۃ البقرۃ:2/125

    18()تفسير القرآن العظيم1/412۔مدارك التنزيل وحقائق التاويل، 1/85۔ التفسير المظہرى، 1/124

    19() تاريخ الامم و الرسل والملوك، 1/ 548

    20() سیرۃ ابن ہشام، 4/28

    21()المغازی ، 2/821

    22()صحیح بخاری، کتاب المغازی ، باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم الرایۃ ،حدیث نمبر :4280 ،5/146

    23()الجامع الكبير ، کتاب تفسیر القرآن،باب و من سورۃ الحجرات، حدیث نمبر: 3270، 5/242

    24()سورۃ الحجرات: 49/13

    25()سورۃاسراء :17/ 81

    26() مدارك التنزيل وحقائق التاويل،2/269

    27()صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب این رکز النبیﷺ الرایۃ یوم الفتح ، رقم الحدیث :4287، 10/349

    28()تاريخ الامم والرسل والملوك، 2/163

    29()صحیح مسلم،کتاب الحدود،باب الحدود کفارات لاہلہا ، رقم الحدیث :1709، 3/1333

    30()الطبقات الكبرى، 2/137

    31()المنہاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج،کتاب الحج،باب استحباب دخول الکعبہ للحجاج، 9/84

    32()کلید کعبہ کی خدمت روز قیامت تک ایک ہی خاندان کے سپرد،عکاظ اردو ،جدہ،15ستمبر 2017؁ء

    33()سورۃالتوبہ :9/ 6

    34()صحیح مسلم،کتاب صلوۃ المسافرین،باب استحباب صلوۃ الضحی،حدیث نمبر:336، 1/498

    35()الروض الانف،7/201

    36()الطبقات الكبرى، 2/137

    37()صحیح بخاری، کتاب المغازی ، باب منزل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الفتح ،حدیث نمبر :4295 ،5/149

    38()صحيح مسلم، کتاب الجہاد و السیر،باب فتح مکہ ،حدیث نمبر:84 ، 3/1405

    39()صحيح مسلم، کتاب الجہاد و السیر،باب فتح مکہ ،حدیث نمبر:84 ، 3/1405

    40()فاطمہ بنت الاسود مخزومی

    41()صحیح مسلم،کتاب الحدود،باب قطع السارق الشریف وغیرہ، رقم الحدیث :1688 ،3/1315

    43

     

     

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index