Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Khair-ul-Ummah > Volume 1 Issue 1 of Khair-ul-Ummah

امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ کی زندگی اور علم تصوف میں خدمات |
Khair-ul-Ummah
Khair-ul-Ummah

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2021

ARI Id

1682060062721_2074

Pages

22-30

DOI

10.46896/khairulummah.v1i01.4

PDF URL

https://khairulumma.com/index.php/about/article/download/4/3

Chapter URL

https://khairulumma.com/index.php/about/article/view/4

Subjects

Almighty Allah intellectual Den-e-Islam spiritual

اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ دین اسلام ہے اور اپنے بندوں پر بے شمار نوازشات کے علاوہ انہیں دستور حیات قرآن عظیم کی شکل میں عنایت فرمایا۔ اس نور ہدایت کے ذریعے سینوں کو کھول کر تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لایا۔ آنکھوں کی بصارت دی اور حق و باطل میں تمیز سکھایا۔ جنہوں نے اس کے احکامات پر عمل کرکے سامنے رکھا، اسے فلاح و نجات اور دین و دنیا کی کامیابی ملی اور جس نے اسے چھوڑ کر نفسیاتی خواہشات کے پیچھے پڑگیا، وہ ناکام و نامراد ہوگئے۔ کیونکہ قرآن کریم حُجَّۃُ اللہ البالغۃ اور دائمی معجزہ خداوندی ہے۔ رسول کریمﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور امت کے بعد میں آنے والے حضرات نے دین اسلام اور قرآن عظیم کی بڑی خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا عطا فرمائیں۔

انسانیت کو تاریک اندھیاروں سے نکال کر دین کی روشنی میں لانے کے لئے زندگی وقف کرنے والوں کی صف میں ایک معروف شخصیت امام جلال الدین السیوطیؒ (911.849)کی ہیں۔ آپ نے گراں قدر تصنیفی و تالیفی خدمات کے ساتھ ساتھ علم تصوف اور تزکیہ میں امت مسلمہ پر بڑا احسان کیا۔ آپ نے تفسیر اور علوم القرآن کے علاوہ بہت سارے علوم و فنون میں کئی کتابیں لکھیں۔ علوم حدیث، جرح و تعدیل، فقہ، تاریخ اور ادب عربی میں بڑا سرمایہ امت کے حوالے کیا۔ اسی مختصر مضمون میں اس کا تذکرہ کیا جاتا ہےکہ آپ ایک بلند پایہ عالم اورمصنف کے ساتھ علم تصوف میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔اور تمام علمی خدمات کے پیچھے علم تصوف و تزکیہ کا کردار ہے۔

تعارف

نام و نسب:

امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب ''حسن المحاضرہ فی تاریخ مصر و القاہرہ'' میں اپنے حالات تفصیل سے تحریر کئے ہیں۔ اپنا نام، نسب، پیدائش، پرورش، اساتذہ و شیوخ اور تالیفات کا تفصیلا ذکر کیا ہے۔ عبدالرحمن بن کمال ابوبکر بن محمد بن سابق الدین بن فخر عثمان بن ناصر الدین محمد بن سیف الدین خضر بن نجم الدین ابو صلاح ایوب بن ناصر الدین محمد بن شیخ ہمام الدین الہمام خضیری السیوطی، آگے لکھتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ ہماری نسبت خضیری کی طرف کیوں کی جاتی ہے۔ باوثوق ذرائع سے فقط اتنا معلوم ہوا ہے کہ یہ بغداد میں ایک محلہ ہے اور میں نے ایک معتمدشخص سے اور اس نے میرے والد سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میرے پر دادا یا تو عجمی تھے یا مشرق سے آئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ نسبت مذکورہ محلے کی طرف ہے1۔

ولادت و پرورش:

آپ خود رقمطراز ہیں کہ میں شب اتوار کو مغرب کے بعد پیدا ہوا بمطابق یکم رجب المرجب ۸۴۹ ہجری (۲اکتوبر۱۴۴۵)کو۔ یتیم پھلا بڑا اور قرآن کریم کو آٹھ سال کی عمر میں حفظ کیا۔ پھر عمدہ منہاج الفقہ والاصول اور الفیہ ابن مالک زبانی یاد کےٗ۔ اس کے بعد علوم دینیہ کی طرف(۸۶۴ہجری کو )متوجہ ہوا۔ فقہ اور علم نحو کے ماہرین سے اس فن کی کتابیں پڑھیں اور علم میراث اس وقت کےایک ماہر استاد شیخ شہاب الدین شارمساحی سے حاصل کی ،اس شیخ کو اللہ تعالیٰ نے لمبی عمر اور بڑی علم عنایت فرمائی تھی۔ ۱۷ سال کی عمر میں (۸۶۶ہجری )کو مجھے تدریس کی اجازت مل گئی اور اسی سال تالیف کا کام بھی شروع کیا۔ پہلے تعوذ اور تسمیہ پرمختصر رسالے لکھ کر اپنے استاد شیخ علم الدین البلقینی سے تقریظ لکھنے کی درخواست کی۔ انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کرکے لکھ دی۔ میں آخر دم تک اس کے ساتھ وابستہ رہا۔ اس کے بعد ان کے بیٹے سے کتاب التدریب، الحاوی اور امام زرکشی کے تکملہ ''شرح المنہاج'' کے بعض اجزاء پڑھیں۔ انہوں نے ۸۷۶ہجری میں مجھے تدریس اور افتاء کی اجازت دی اور میرے مجلس میں حاضر بھی ہوتے تھے۔ اس وقت میری عمر ۲۷ برس تھی2۔

اس کے بعد شیخ الاسلام شرف الدین المنادی کے دروس میں شامل ہوتا رہا اور منہاج کا بقیہ حصہ آپ سے مکمل کیا۔ ادب عربی کے لئے شیخ علامہ تقی الدین شبلی حنفی کی مجلس اختیار کی۔ وہاں چار سال تک تعلیم حاصل کرتا رہا۔ آپ نے میرے دو تالیفات ''شرح الفیہ بن مالک'' اور عربی ادب کی کتاب ''جمع الجوامع'' پر تقریظ لکھ کر میرے علمی و تصنیفی کمال کی زبانی اور تحریری پیشنگوئی کی۔ علم تفسیر علم معانی کے حصول کے لئے تقریباً ۱۴ سال تک علامہ محی الدین کا فیجی کے مجلس کو لازم پکڑا۔ اسی طرح شیخ سیف الدین حنفی سے کشاف، توضیح اور تلخیص المفتاح کے کئی اسباق حاصل کئے3۔

علمی اسفار:

تحصیل علم کے لئے آپ نے دور دراز ملکوں کا سفر کیا۔ شام، حجاز مقدس، یمن اور ہندوستان چلے جانے کے بعد حج کی

ادائیگی کے موقع پر زم زم کا پانی پی کر اللہ سے دعا مانگی کہ علم فقہ میں اپنے استاد سراج الدین بلقینیؒ اور علم حدیث میں علامہ ابن حجر العسقلانیؒ کی طرح رسوخ فی العلم حاصل ہو4۔

آپ لکھتے ہیں کہ '' اللہ تعالیٰ نے مجھے علم تفسیر، علم حدیث، فقہ، نحو، معانی، بیان اور بدیع بطریقۂ بلغاء عرب میں بڑی مہارت سے نوازا۔ تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں نہ کہ فخر اور تکبر کی وجہ سے ،کیونکہ داڑھی سفید ہوچکی ہے، جوانی گزر گئی ہے اور دنیا سے میری رحلت کا وقت قریب آرہاہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر میں چاہوں تو ہر مسئلے میں ایسی کتاب تصنیف کر سکتا ہوں کہ اس مسئلے میں جتنے اقوال ہیں اس کے عقلی (علمی) اور نقلی (تاریخی) دلائل، اس کے ملحقات، اس پر اعتراضات اور ان کے جوابات موجود ہوں گے ،اس کے اختلاف کا موازنہ ہرایک چیز موجود ہوں گی۔ اس کے علاوہ اللہ نے مجھے علم اصول فقہ، علم جدل اور علم صرف میں بھی کافی مہارت دی ہے۔ علم الانشاء اور علم میراث سے بھی واقف ہوں رہا علم حساب تو یہ میرے لئے بہت مشکل اور سخت فنون ہیں۔ اور ذہن اس تک پہنچنے سے قاصر تھا۔علم حساب سے متعلق مسئلے کو دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ میں پہاڑ کو کندے پر اٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہوں۔ "و اذ نظرت فی مسألۃٍ تتعلق بہ فکانما احاول جبلا احملہ"۔

علم منطق تھوڑا بہت پڑھ چکا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس سے نفرت ڈالی دی ہے۔ اس کے بدلے مجھے علم حدیث سے نوازا گیا.

علمی خدمات اور گوشہ نشینی:

امام سیوطیؒ والد صاحب کی خلافت میں ''جامعہ شیخونیہ'' میں حدیث اور فقہ کی درس دینے لگے اور یہ تقرری علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفیؒ نے کی تھی۔ پھر خلیفہ وقت نے آپ کو خانقاہ ''مشائخ بیبرسیہ'' میں بلایا۔ اور کافی عرصہ تک وہاں تزکیہ اور تصوف سے وابستہ رہے۔ جب محمد بن قایتبای والی حکومت بنے تو آپ کو اس مسند سے الگ کیا۔ وجہ یہ تھی

"لان الخلفاء البیبر سیه کانت مکنظة برجال الصوفیة فدب الخلاف بینه وبینهم،حتی کادوایقتلونه،فترک السیوطی مشیخة البیبرسیة وکان یناهز اذاذالک الاربعین من عمره، فعتزل الناس واخذ فی التجرد للعبادۃ،والانقطاع الی الله تعالی الاشتغال به صرفا، والاعراض عن الدنیاواهلها"۔

کہ اس وقت اس خانقاہ میں صوفیاء کرام کی کثرت ہوئی اور آپس میں اختلافات پیدا ہوےٗ۔ جس سے آپ کی جان کو خطرہ تھا تو آپ نے بیبرسیہ کو چھوڑا۔ اس وقت آپ کی عمر چالیس سال ہوگئی۔

اس وقت امام صاحب ؒنے افتاء اور درس و تدریس کو چھوڑ کر دنیا وما فیہا سے بالکل الگ ہوکر ،عبادت و ریاضت اور تصنیف و تالیف اور علم تصوف وتزکیہ میں مستغرق ہو کر گوشہ نشین ہوگئے۔ 909ھ میں جب حالات بدلے تو امرآءوحکماءنےآپ کو دوبارہ بیبریس کی خانقاہ کو سنبھالنے کی پیشکش کی لیکن آپ نے انکار کیا۔روضۃ المقیاس "میں اقامت اختیار کی اور موت تک وہاں رہے۔ اور گھر کی وہ کھڑکی تک بھی نہ کھولی جودریائے نیل کی طرف تھی اور نہ ہی باہر نکلے۔ "التنفیس" کے نام سے ایک کتاب لکھ کر اس میں اپنا عذر اور گوشہ نشینی کے وجوہات کاذکرکیا ہے5۔

زہد و تقویٰ اور امراء وسلاطین سے دوری:

"کان السیوطی رحمه الله تعالی عابدا زاهدا،معرضا عن الدنیا،مقبلا علی الآخرة، فکان الامراء والاغنیاء یاتون الی زیارته، ویعرضون علیه الاموال النفیسة فیردها،واهدی الیه السلطان قانصوه الغوری خصیا والف دینار،فردالالف،واخذا خصیا فاعتقه،وجعله خادما فی الحجرة النبویة،قال لقاصدالسلطان:لاتعد تاتینا قط بهدیة،فان الله تعالی اغنانا عن مثل ذلک"۔

امام صاحب نہایت عبادت گزار، پرہیزگار، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے والی شخصیت تھے۔ ملاقات کے لئے امیر ترین لوگ تحفے پیش کرکے آتے، مگر آپ ان کےتحائف کو واپس کرتے۔ ایک دفعہ بادشاہ وقت نے آپ کے پاس ''قانصوہ غوری'' نامی ایک نامرد غلام اور ہزار دینار بطور تحفہ بھیج دئیے۔ انہوں نے ہزار روپے واپٍس بھیجے اور غلام کو لےکر آزاد کیا اور حجرۂ نبویﷺ کا خادم بنایا۔ ساتھ ہی بادشاہ کو قاصد کے ذریعے پیغام بھیجا کہ آئندہ میرے پاس ہدئیے مت بھیجا کرے ،اللہ نے ہمیں ان چیزوں سے مستغنی کیا ہے۔

"وکان لا یتردد الی السلطان ،ولا الی غیره ،وطلبه مرارا فلم یحضره الیه ۔وقیل لہ:ان البعض الاولیآء کان یتردد الی الملوک والامرآء فی حوائج اناس۔ فقال: اتباع السلف فی عدم ترددهم اسلم لدین المسلم"۔والف کتابا۔ ''مارواه الاساطین فی عدم التردد علی السلاطین''6۔

آپ نہ کسی بادشاہ اور نہ ہی کسی امیر کے دربار میں جاتے۔ حالانکہ بادشاہ نے کئی بار مدعو بھی کیا۔ آپ نے معذرت کی۔ بعض ساتھیوں نے کہا کہ عوام الناس کے حوائج اور کام نکلوانے کےلئے اگر بادشاہ کے پاس تشریف لے جائے تو بہتر ہوگا۔ آپ نے فرمایا ؛اسلاف کی اتباع ان کے پاس نہ جانے میں مسلمانوں کے دین کے لئے زیادہ مناسب ہے۔ اور اس موضوع پرایک کتاب لکھی کہ بادشاہوں اور امراٗ کے پاس جانے میں خیر نہیں ہے،بلکہ سلف صالحین ان کے دربار سے دور رہ کر گوشہ نشینی میں عافیت محسوس کرتے تھے۔

امام صاحب باوجود جید عالم ہونے اور علمی مہارت رکھنے کے ایک اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے۔ آپ کے بعض اشعار بہت عمدہ، معیاری ،علمی فوائد،شرعی احکامات اور اصلاح نفس پر مشتمل ہیں۔امام صاحب روحا نی معالج کے ساتھ جسمانی امراض کے ایک ماہر طبیب اور حکیم بھی تھے مجربات سیوطی کے نام سے ایک کتاب بھی موجودہے۔

اہل علم

مشاہیر علماء اسلام کی نظر:

(۱) آپ نے شاگرد ابن ایاس حنفی لکھتے ہیں کہ

''امام صاحب عالم فاضل ،علوم حدیث اور دیگر علوم میں ماہر تھے۔ اپنے وقت کے منفرد شخصیات، اسلاف کے یادگار اور متأخرین میں مایہ ناز تھے۔ ان کی تصنیفات و تالیفات ۶۰۰ تک پہنچ چکی ہیں اور وہ مجتہدین کے درجے پر فائز تھے''۔

(۲) علامہ نجم الدین العزی کہتے ہیں

''آپ علم حدیث اور اس کے فنون رجال، غریب اور استخراج احکام میں اپنے معاصرین میں سے بہت بڑے عالم تھے۔ امام صاحب کے محاسن علمیہ اور مناقب کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات ہی آپ کی کرامات و شخصیت کے لئے کافی ہیں''7۔

(۳) علامہ شوکانی نے آپ کے بارے میں لکھا ہے

''کہ امام صاحب کو وقت کے بڑے بڑے علماء نے اجازت دی ہے اور وہ تمام فنون میں اپنے معاصرین میں ایک بلند مقام پر فائز تھے۔ علمی شہرت دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی ہے۔ مفید تالیفات و تصنیفات کے حامل عالم ہیں، مثلاً علم حدیث میں ''الجامعین'' تفسیر میں ''الدرالمنثور فی تفسیر الماثور'' اور ''الاتقان فی علوم القرآن'' کے علاوہ آپ کی تصنیفات ہر فن میں منظور و مقبول ہیں۔ امام صاحب کی علمی خدمات اظہر من الشمس ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض حاسدین نے آپ کی عظمت کو تسلیم نہیں کیا''8۔

ناقدین:

امام سخاوی اور امام سیوطی کے درمیان ہم معاصر ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ دوری تھی۔ اس کی بنیاد پرامام سخاوی نے "الضؤاللامع''کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ لیکن یہ کتاب اپنے نام کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی تاریکی اور گپ اندھیرا ہے۔ اس میں آپ کی عیب جوئی کی گئی ہے اور اس کا اکثر حصہ گالی گلوچ پر مشتمل ہے۔ امام شوکانی نے اس کا بھرپور دفاع کیا ہے اور انہی کے الفاظ میں جواب دیا ہے اور الزامات کی تردید کی ہے۔

امام صاحب کی تائید میں ابن ایسا حنفیؒ اورامام شوکانیؒ نے خوب حق ادا کیا ہے۔ اورالذکر اگر ابن ایاسؒ پر شاگرد ہونے کی وجہ سے الزام لگ جائے تو پھر بھی شوکانیؒ نے ان الزامات کا خوب جواب دیا ہے اور آئمہ جرح و تعدیل کے مطابق اپنے اقران علماء کا جرح معتبر نہیں ہے۔ لیکن پھر وہ حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ کتاب ''الضؤ اللامع'' کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے۔ ویسے بھی امام سخاوی کے نزدیک بڑے بڑے علماء کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ کئ اہل علم حضرات اس کے قلم کے نوک سے زخمی ہوئے ہیں۔ علامہ شوکانی مزید لکھتے ہیں کہ ہر فن میں امام سیوطی کے تصنیفات مقبول ہیں اور سمندر پار دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی ہیں۔ لیکن حاسدین ان کی فضیلت اور مقام سے پھر بھی منکر ہیں9۔

بعض حضرات سےآپ کی کثرت تصانیف ہضم نہ ہوسکی اور واویلا شروع کیا کہ آپ نے دوسرے مصنفین سے علمی (سرقہ )چوری کی ہے۔ یہ خبر جب امام صاحب کو پہنچی تو انہوں نے اس کے جواب میں کتاب لکھی "الفرق بین المصنف والسارق" اور سب کو حیران کیا۔

شیوخ و اساتذہ کرام:

امام صاحب نے تحصیل علم کے لئے بڑی جدو جہد اور محنت کی اور اپنے وقت کے بہت سارے بڑے علماء کرام کے ہاں سفر کئے۔ آپ کے شیوخ اور اساتذہ کے تعداد 150 تک ہیں۔ کسی بھی ہم عصر عالم کے اتنے شیوخ جمع نہیں ہوئے ان میں سے بعض مشہور و معروف کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔

۱) احمد ابن ابراہیم الکنانی (۸۷۶ھ)۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں10۔

۲) احمد ابن علی بن ابی بکر الشارساحی الشافعی (م ۸۶۵ھ) آپ علم الفرائض اور علم الحساب کے ماہر تھے11۔

۳) احمد بن محمد بن محمد بن حسن بن علی بن یحییٰ تقی الدین (ولادت ۸۰۱) آپ علم نحو، علم التفسیر، علم الحدیث، فقہ، علم الکلام کے ماہر تھے۔

۴) تقی الدین شبلی الحنفی آپ نے ان سے علوم حدیث کی تعلیم پائی۔12

۵) صالح بن عمر بن ارسلان علم الدین البلقینی (۷۹۱۔۸۶۸)۔ آپ حدیث اور فقہ میں مہارت رکھتے تھے اور قاہرہ کے قاضی اور صدر مجلس کے عہدے پر فائز تھے13۔

۶) عبدالعزیز بن عبدالواحد بن عبداللہ التکروری الشافعیؒ (ولادت ۷۹۰۔۸۷۲)۔ آپ علم المیراث اور علم الاوقات کے بڑے عالم تھے14۔

۷) عبدالعزیز بن محمد بن محمد ابو الفضل المیقاتی (۸۱۱ھ)۔ آپ مثقات کے فن میں ماہر تھے اور کئی رسالے لکھ چکے تھے15۔

۸) عبدالقادر بن ابی قسام بن احمد بن محمد الانصاری العسدی العبادی المالکی المکی (۸۱۴۔۸۸۰ھ)۔ آپ علم النحو، حدیث اور فقہ میں علم کا سمندر سمجھے جاتے تھے16۔

۹) جلال الدین المحلی، محمد بن احمد بن ابراہیم المحلی الشافعیؒ (۷۹۱۔۸۶۴) مشہور تفسیر (تفسیر جلالین) آپ کی تصنیف ہیں جس کا بقیہ حصہ امام سیوطیؒ نے مکمل کیا17۔

۱۰) محمد بن سلیمان بن سعد الکافیجی الحنفی (۷۸۸۔۸۷۹ھ)۔ آپ معقولات، علم الکلام، نحو و صرف، علم المعانی، بیان، فلسفہ اور فلکیات کے بڑے عالم تھے۔ امام سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کی وفات کے بعد ان کو اپنا والد جیسے مشفق پایا18۔

۱۱) محمد بن عبدالواحد بن عبدالحمید السیواسی ثم الاسکندری کمال الدین بن ہمام الحنفیؒ (۷۹۰۔۸۶۱ھ)۔ آپ علم فقہ، علم اصول، نحو، معانی، بیان اور تصوف میں بڑے مقام پر فائز تھے۔ آپ کی تالیفات میں شرح الہدایہ (فتح القدیر للعاجز الفقیر) فقہ حنفی کی مستند ومعروف کتاب ہے19۔

۱۲) یحییٰ بن محمد بن محمد شرف الدین المناوی (۷۹۸۔ ۸۸۱ ھ)۔ آپ علم فقہ، تفسیر ،حدیث اور تصوف میں امام صاحب کے استاد تھے۔ دور دور سے لوگ علمی پیاس بجھانے کے لئے اور تصوف کا فیض حاصل کرنے کے لئےآ پ کے پاس آتے تھے۔امام صاحب نے تصوف کی تعلیم وتربیت آپ سے حاصل کی۔

مشہور شاگرد:

۱) عبدالقادر بن محمد بن احد الشاذلی الموذن الشافعیؒ (۹۳۵ھ) ان کی تصانیف بہت مشہور ہیں20۔

۲) محمد بن احمد بن ایاس النحفی ابوالبرکات (۸۵۲۔ ۹۳۰ھ) یہ بہت بڑے تاریخ دان اور مصنف اور مصر کے غلام طبقے سے تعلق رکھتے تھے21۔

۳) الحاج محمد سکیہ۔ ان کا تعلق کسیہ سے ہے اور دراصل یہ مناجہ سے ہے۔ عباسی دور میں سوڈان کے گورنر بنے اور عدل و انصاف کی مثالیں قائم کیں۔ نہایت سخی اور علماء کے قدر دان تھے22۔

۴) محمد بن عبدالرحمن بن علی بن ابی بکر العلقمیؒ (۸۹۷۔ ۹۶۳ھ)۔ آپ کا نام شمس الدین شافعی المسلک، فقیہ، حدیث کے جاننے والے اور جامع الازہر کے استاد تھے23۔

۵) محمد بن علی بن محمد بن علی بن طولون الدمشقی الحنفیؒ (م ۹۵۳)۔ آپ فقہ اور تراجم میں اعلیٰ پائے کے مؤرخ ہیں۔ التعلیقات آپ کی مشہور کتاب ہے24۔

۶) محمد بن قاضی رضی الدین بن محمد بن محمد بن جابر الغزی القرشی الشافعی ابولابرکات شیخ الاسلام (۹۰۴۔ ۹۸۴ھ)۔ علامہ نجم الغزی کے والد اور علوم کے دریا کے نام سے مشہور تھے25۔

۷) محمد بن یوسف بن علی بن یوسفؒ شمس الدین الشامی (م ۹۴۲ھ)۔ آپ محدث اور تاریخ میں مہارت رکھنے والے تھے۔ آپ نے شادی نہیں کی تھی آپ کی تصانیف میں (سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ ابی حنیفۃ النعمانؓ) مشہور ہیں26۔

تالیفات وتصنیفات:

امام صاحب اسلامی مکتبہ میں بڑے مقام پر فائز تھے اور تقریباً ہر فن میں آپ کی تصنیف موجود ہیں۔ ان کی تصنیفات مطبوع اور غیر مطبوع ۷۰۰ سے بھی زیادہ ہیں۔ چنانچہ آپ اس وقت فرماتے تھے جب اپنی حالات لکھ رہے تھے کہ میری تصنیفات ۳۰۰ تک پہنچ چکی ہیں۔

علاوہ ازیں جن سے آپ رجوع کر چکے ہیں۔ امام نجم الدین الغزی نے اپنی کتاب الکواکب السائرۃ میں لکھا ہے کہ امام سیوطیؒ کے شاگرد محمد بن علی بن احمد الدوادی المصری (م ۹۴۵ھ) نے امام صاحب کی تصانیف کو پانچ سو سے زیادہ قرار دی ہیں27۔استاد احمد شرقاوی نے آپ کی تصنیفات و تالیفات کی تعدادسات سو لکھی ہے۔

وفات:

آپ نے شب جمعہ کوسحری کے وقت ۱۹ جمادی الاولی ۹۱۱ھ میں اپنے گھر کے روضۃ المقیاس میں وفا ت پائی۔ آپ کی وفات کا سبب ان کے بائیں بازوں میں شدید ورم (سوجن) تھا حوش قوصون (جو باب القرافہ سے باہر) میں دفن کیا گیا۔ عبدالباسط بن خلیل الحنفیؒ نے آپ کی موت پر ایک مرثیہ پڑھی ان کے چند اشعار ملاحظہ ہو:

مات جلال الدین غیث الوریٰ

مجتہد العصر امام الوجوج

وحافظ السنۃ مہدی الہدیٰ

ومرشد الضال بنعع یعود

فیاعیونی انہملی بعدہ

ویا قلوب انقطری با الوقود

مصیبۃ حلت فحلت بنا

واورثت نار اشتغال الکبود

صبرنا اللہ علیہا وا ولاہ

نعیما حل دار الخلود

وعمہ منہ بوبل الرضا

والغیث بالرحمۃ بین اللحود28۔

خلاصہ البحث:

امام صاحب نے علمی دنیا میں بڑا کام کیا ہے۔اورمختلف علوم وفنون میں سینکڑوں کتابیں لکھیں،اس کے پیچھے زہدو تقوی تصوف اور خانقاہی زندگی ہے۔ آج بھی سوڈان میں دین اسلام کی چہل پہل آپ کی خانقاہی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔


حواشی و حوالہ جات

1 السیوطی امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر، حسن المحاضرہ فی تاریخ مصر والقاھرہ، دارالاحیاء والکتب العربیۃ عیسی البابی الحلبی مصر 1967، جلد 1 صفحہ 335، الزرکلی الاعلام، مطبعہ کوستا القاہرہ طبع2، 1954، جلد؛4صفحہ71،47

2 السیوطی امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر، حسن المحاضرہ فی تاریخ مصر والقاھرہ، دارالاحیاء والکتب العربیۃ عیسی البابی الحلبی مصر 1967، جلد 1 صفحہ 338، الکواکب السائرہ فی الاعیان المائۃ العاشرہ، نجم الدین الغزی، الناشر: دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان، 1/226۔شزارت الذھب فی اخبار منذھب عبدالحی بن احمد بن محمد، عبدالقادر الارنوؤط، الناشر: دارمن کثیر، دمشق، بیروت طبع اول 1986، جلد8، صفحہ 53

3 السیوطی امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر، حسن المحاضرہ فی تاریخ مصر والقاھرہ، دارالاحیاء والکتب العربیۃ عیسی البابی الحلبی مصر 1967، جلد 1 صفحہ 340،

4 ایضاً، صفحہ 342

5 ایضاً، صفحہ 341، شزارت الذھب فی اخبار منذھب عبدالحی بن احمد بن محمد، عبدالقادر الارنوؤط، الناشر: دارمن کثیر، دمشق، بیروت طبع اول 1986، جلد8، صفحہ 53

6 الکواکب السائرہ فی الاعیان المائۃ العاشرہ، نجم الدین الغزی، الناشر: دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان، 1/228۔شزارت الذھب فی اخبار منذھب عبدالحی بن احمد بن محمد، عبدالقادر الارنوؤط، الناشر: دارمن کثیر، دمشق، بیروت طبع اول 1986، جلد8، صفحہ 53

7 بدائع الذھور فی وقائع الدھور، لابن ایاس الحنفی، تحقیق: محمد مصطفیٰ۔ ناشر: دارالاحیاء والکتب العربیۃ عیسی البابی الحلبی مصر 1967، جلد 4 صفحہ 83،

8 البدر الطالع بمحاسن من بعد قرن التاسع، للشوکانی، مطبع: السعادہ القاہرہ، طبع اول : 1348ھ، جلد 1، صفحہ 348۔

9 ایضاً، جلد 1، صفحہ 333 و 334

10 حسن المحاضرہ، جلد 1، صفحہ نمبر339

11 الضوء اللامع لاھل القرن التاسع، شمس الدین ابوالخیر محمد بن عبدالرحمن (م: 902ھ)، الناشر: منشورات دار المکتبۃ الحیاۃ، بیروت، شزارت الذھب جلد 7، صفحہ 321۔ نظم العقیان، فی اعیان الاحیان، امام سیوطی، مطبع السوریہ الامریکیہ، نیوریارک، 1927۔ صفحہ 43۔

12 نظم العقیان، فی اعیان الاحیان، امام سیوطی، مطبع السوریہ الامریکیہ، نیوریارک، 1927۔ صفحہ 43۔ الضوء اللامع لاھل القرن التاسع جلد 2، صفحہ 11۔

13 بغیۃ الوعاۃ فی طبقات اللغویین والنحاۃ، امام سیوطیؒ، الناشر: المکتبۃ العصریہ لبنان، جلد 1، صفحہ نمبر375۔

14 حسن المحاضرہ، جلد 1، صفحہ نمبر 177۔

15 نظم العقیان، فی اعیان الاحیان، امام سیوطی، مطبع السوریہ الامریکیہ، نیوریارک، 1927۔ صفحہ 119۔ الضوء اللامع لاھل القرن التاسع جلد 2، صفحہ 11۔ الاعلام للزرکلی جلد 3، صفحہ 279۔

16 الضوء اللامع لاھل القرن التاسع جلد 4، صفحہ 220۔ 233۔

17 ایضاً جلد 4، صفحہ 234

18 بغیۃ الوعاۃ فی طبقات اللغویین والنحاۃ، امام سیوطیؒ، الناشر: المکتبۃ العصریہ لبنان، جلد 2، صفحہ نمبر 104۔

19 حسن المحاضرہ، جلد 1، صفحہ نمبر 352

20 شزارت الذھب جلد 7، صفحہ 303۔

21 بغیۃ الوعاۃ فی طبقات اللغویین والنحاۃ، امام سیوطیؒ، الناشر: المکتبۃ العصریہ لبنان، جلد 1، صفحہ نمبر 117 و118۔

22 الضوء اللامع لاھل القرن التاسع جلد 10، صفحہ 254۔ الاعلام جلد 9، صفحہ 212۔

23 کشف الظنون، حاجی خلیفہ، استنبول 1941، جلد1، صفحہ نمبر409، ھدیۃ العارفین، اسماء المصنفین والآثار المؤلفین، اسماعیل پاشا البغدادی، استنبول 1951، صفحہ 598۔

24 بدائع الذھور فی وقائع الدھور، لابن ایاس الحنفی، تحقیق: محمد مصطفیٰ۔ ناشر: دارالاحیاء والکتب العربیۃ عیسی البابی الحلبی مصر 1967، جلد 4 صفحہ 47، معجم المؤلفین عمر رضا کحالۃ، مکتبہ المتنبی، بیروت، 1951، جلد 8، صفحہ 236، الاعلام جلد 6، صفحہ 232۔

25 الاستتصا لاخبار دول المغرب الاقصیٰ، ابوالعباس ناصری، دارالکتاب، الدارالبیضاء، طبع اول، 1947، جلد2، صفحہ 101۔

26 شزارت الذھب جلد 8، صفحہ 338۔ کشف الظنون، حاجی خلیفہ، استنبول 1941، جلد1، صفحہ نمبر 560

27 شزارت الذھب جلد 8، صفحہ 338۔ کشف الظنون، حاجی خلیفہ، استنبول 1941، جلد8، صفحہ نمبر 364، معجم المؤلفین عمر رضا کحالۃ، مکتبہ المتنبی، بیروت، 1951، جلد 8، صفحہ 236، الاعلام جلد 6، صفحہ 232۔

28 الکواکب السائرہ فی الاعیان المائۃ العاشرہ، نجم الدین الغزی، الناشر: دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان، 2/53۔ شزارت الذھب جلد 8، صفحہ 298۔ مفاکھۃ الخلاء فی حوادث الزمان، شمس الدین محمد بن علی الدمشقی الصالحی الحنفی (م:953ھ)، الناشر: دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان طبع اول، 1998، جلد 4، صفحہ 231۔

25

 

 

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index