1
1
2021
1682060062721_2079
31-38
https://khairulumma.com/index.php/about/article/download/5/4
https://khairulumma.com/index.php/about/article/view/5
تزکیہ نفس سے انسان کا ظاہر اور باطن پاک وصاف ہوجاتا ہے جس سے وہ دنیا میں عمدہ صفات اور آخرت میں اجر وثواب کا مستحق بنتا ہے، تزکیہ یہ ہے کہ انسان ایسی باتوں کے اپنانے کی کوشش کرے جو اس کے نفس کی طہارت سبب بنے۔ تزکیہ کی نسبت کبھی بندہ کی طرف کی اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ بندہ اس کا کاسب ہوتا ہے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها1 ترجمہ: فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ کبھی اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہی اس کا حقیقی فاعل ہے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ2 یعنی پاکیزگی تو اللہ تعالی جسے چاہتا ہے ، اور کبھی اس کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں تک تزکیہ کے پہنچانے میں واسطہ ہوتے ہیں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها3 یعنی (اے پیغمبر) ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کر لو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کر دو گے اوران کے لئے باعث برکت بنو گے۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ تزکیہ کے حصول کا آلہ ہوتا ہے جیسے وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً4 یعنی اور خاص اپنے پاس سے نرم دلی اور پاکیزگی بھی۔5
تزکیہ کا لغوی معنی: اس کا لغوی معنی پاکیزگی اور بڑھوتری کی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے "المالُ تنقُصه النَّفقة والعِلم يَزْكُو عَلَى الإِنْفاقِ" یعنی مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے ۔ والزَّكاء: مَا أَخرجه اللَّهُ مِنَ الثَّمَرِيعنی زکاء ان پهلوں کو کہا جاتا ہے جس کو اللہ تعالی زمین سے نکالتا ہے. وأَرضٌ زَكِيَّةٌ: طيِّبةٌ سَمِينَةٌ؛ حَكَاهُ أَبو حَنِيفَةَ.يعنی امام ابو حنیفہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ارض زکیہ عمدہ اور زرخیز زمین کو کہا جاتا ہے۔ وَتَقُولُ: هَذَا الأَمر لَا يَزْكُو بِفُلَانٍ زَكاء أَي لَا يَلِيقُ بِهِ۔ یعنی یہ بات فلاں کی شان کے لائق نہیں۔لغت میں اس کا ایک تقوی کے ہےجیسے کہا جاتا ہے رجل زكى يعنی متقی مرد، لغت میں اس کا ایک معنی تعریف اور مدح کی ہے جیسے زَكَّى نفسَه تَزْكِيةً یعنی اس نے اپنے آپ کی تعریف ومدح کی6۔ اس معنی میں یہ ایک حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے وَفِي حَدِيثِزينبَ: كَانَ اسمُها بَرَّةَ فغَّيره وَقَالَ تُزَكِّي نفسَها7.ترجمہ: زینب کی حدیث میں ہے کہ اس کا نام برۃ تھا تو نبی کریم ﷺ نے اسے تبدیل کیا اور فرمایا: وہ اپنے آپ کی تعریف کرتی ہے۔
تزكیہ کا اصطلاحی معنی: تصوف میں تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ علم نافع، عمل صالح اور مأمورات کے کرنے اور ممنوعات کے ترک سے نفس کی اصلاح اور پاکیزگی حاصل کی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں تزکیہ نفس کا معنی خود بیان فرمایا ہے ، آپ ﷺ کا ارشاد ہے، " ثلاث من فعلهن فقد ذاق طعم الإيمان. من عبد الله عز وجل وحده بأنه لا إله إلا هو، وأعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه في كل عام، ولم يعط الهرمة، ولا الدرنة، ولا المريضة، ولكن من أوسط أموالكم، فإن الله عز وجل لم يسألكم خيرها، ولم يأمركم بشرها،وزكى نفسه، فقال رجل: وما تزكية النفس؟ فقال: أن يعلم أن الله عز وجل معه حيث كان "8 ترجمہ: تین امور ایسے ہیں جو شخص انہیں انجام دیتا ہے تو اسے ایمان کی حلاوت محسوس ہوتی ہے۔ جوصرف ایک اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور خوش دلی سے اپنے مال کی زکوۃ ہر سال ادا کرتا ہے اور بہت بوڑھا ، کمزور اور بیمار جانور زکوۃ میں نہیں دیتا بلکہ اپنے مال میں درمیانہ مال دیتا ہے ؛ اس لئے کہ اللہ تعالی آپ سے بہترین مال کا مطالبہ نہیں کرتا اور نہ ہی گھٹیا مال کا حکم دیتا ہے، اور اپنے نفس کا تزکیہ کیا، تو ایک آدمی نے عرض کیا کہ تزکیہ نفس کیاہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہ تزکیہ نفس یہ ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ وہ جہاں بھی ہے اللہ تعالی اس کے ساتھ ہےتو اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے تزکیہ نفس کو ایمان کی حلاوت کا سبب قرار دیا۔9
قرآن میں تزکیہ کا مختلف معانی میں ورود: تزکیہ کا مادہ قرآن میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ،1۔ مصلحت کے زیادہ قریب کے معنی میں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، هُوَ أَزْكى لَكُمْ یعنی تمہارے لئے پاکیزہ ترین طریقہ ہے10۔2۔حلال کے معنی جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، فَلْيَنْظُرْ أَيُّها أَزْكى طَعاماً11یعنی وہ جا کر دیکھ بھال کرے کہ اس کے کون سے علاقے میں زیادہ پاکیزہ کھانا مل سکتا ہے۔3۔ حسن وجمال کے معنی میں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے، أَقَتَلْتَ نَفْساً زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ12یعنی ارے کیا آپ نے ایک خوبصورت جان کو ہلاک کیا جب کہ اس نے کسی کی جان نہیں لی تھی جس کا بدلہ اس سے لیا جاتا۔4۔ فواحش سے احتراز کے معنی میں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے، ما زَكى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ13 یعنی تو تم میں سے کوئی بھی فواحش سے پاک نہ ہوتا۔5۔ طاعت کے معنی میں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّما يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ14 یعنی جو شخص عبادت کرتا ہے تو وہ اپنے فائدے ہی کے لئے عبادت کرتا ہے۔6۔ تعریف اور مدح کے معنی میں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے، فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ15یعنی تم اپنے آپ پاکیزہ نہ ٹھہراؤ۔ 7۔ پاکی کے معنی میں جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها16 یعنی فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔
تزکیہ نفس کی اہمیت وضرورت: اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے مسلسل سات قسمیں کھانے کے بعد ارشاد فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها یعنی فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى.17یعنی جس نے نفس پاک کیا تو وہ کامیاب ہوا۔ انبیاء کرام علیھم الصلوات والتسلیمات لوگوں کو نفوس کی تزکیہ کی دعوت دیتے جیسا کہ موسی علیہ السلام نے فرعون سے فرمایا: هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى.18 ، یعنی کیا آپ کو تزکیہ کی طرف رغبت ہے۔ اور اللہ تعالی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ،19یعنی وہی ہے جس نے (عرب کے ) ناخواندہ لوگوں میں ان ہی (کی قوم ) میں سے (یعنی عرب میں سے) ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو (عقائد باطلہ واخلاق ذمیمہ سے ) پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور دانشمندی (کی باتیں ) سکھلاتے ہیں اور یہ لوگ آپ کی (بعثت کے ) پہلے سے کھلی گمراہی میں تھے۔
تزکیہ نفس بلند درجات اور دائمی نعمتوں کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے، وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِناً قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى. جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى20 یعنی اور جو اس کے پاس مؤمن بن کر آئے گا جس نے نیک اعمال بھی کئے ہوں گے تو ایسے ہی لوگوں کے لئے بلند درجات ہوں گے وہ ہمیشہ رہنے والے باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ صلہ ہے اس کا جس نے پاکیزگی اختیار کی۔نبی کریم ﷺ کی دعاؤں میں سے ہےاللهم آت نفسي تقواها. وزكِّها أنت خير من زكاها. أنت وليها ومولاها21، یعنی اے اللہ میرے نفس کو پرہیز گاری دے اور اسے پاک کر دےتو ہی سب سے بہتر اس کو پاک کرنے والا ہے تو ہی اس کا مالک اور آقا ہے۔
عمل کرنے کا مقصد فلاح وکامیابی ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے فلاح وکامیابی کو تزکیہ نفس پر مرتب کیا ہےچنانچہ اللہ تعالی کا سورۃ اعلی میں ارشاد ہے،قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ، اور سورۃ الشمس میں اللہ تعالی کا ارشاد ہےقَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا یعنی فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے اور نامراد ہو گا جو اس کو گناہ میں دھنسا دے۔ تو کامیابی اور ناکامی کا مدار اللہ تعالی نے تزکیہ نفس پر رکھا ہے ؛ اس لئے تصوف میں تزکیہ نفس کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے نفوس کے اصلاح اور تزکیہ کا خاص خیال فرماتے، نفس کی تزکیہ اور اصلاح اللہ تعالی سے ملانے والوں کا طریقہ ہے چاہے وہ انبیائے کرام علیہم السلام ہوں یا ان کے متبعین ہوں۔ خود نبی کریم ﷺ جب اپنی قوم کو دعوت دینے میں مصائب اور تکالیف کا شکار ہوتے تو رات کی تاریکی میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہوتے اور گریہ وزاری فرماتے ۔ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں پر قیام اللیل ایک سال تک واجب تھااور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ قلب کے اصلاح اور نیک اعمال پر ثابت قدمی میں مؤثر ہے۔ اس لئے ہر مسلمان پر عموما اور علماء اور دعاۃ پر خصوصا واجب ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح اور تہذیب نفس کو دوسرے امور پر ترجیح دے۔22
تزکیہ نفس کے حصول کے طرق: تزکیہ نفس کے حصول کے تین طرق ہیں تخلیہ، تحلیہ اور مجاہدہ۔ ان طرق سے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے
تخلیہ اور تحلیہ: اللہ تعالی نے قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى کے بعد فرمایا : وذكر اسم ربه فصلى (اپنے رب کا نام ذکر کیا پس نماز پڑھی)۔ تو یہاں اللہ تعالی نے تزکی کو ذکر وصلوۃ پر مقدم کیا گیا ہے اس سے تصوف کا ایک مسئلہ مستنبط ہوتا ہے وہ یہ کہ سلوک میں دو عمل ہوتے ہیں ایک تخلیہ اور دوسرا تحلیہ۔ تخلیہ کو تصفیہ وتجلیہ بھی کہتے ہیں۔ تخلیہ کے معنی یہ ہے کہ رذائل کو زائل کرنا اور تحلیہ کے معنی ہیں فضائل کو حاصل کرنا۔ تو لفظ تزکی میں اس طرف اشارہ ہے کہ فضائل حاصل کرو۔ تزکیہ میں فضائل کے حصول کے ساتھ معاصی کا ترک بھی داخل ہے البتہ زیادہ وضاحت کے لئے اللہ تعالی نے قرآن میں دونوں کو جمع فرمایاپس قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ميں منہیات کا ترک اوروذكر اسم ربه فصلى ميں طاعات کی تحصیل کو ذکر کیا اور ان دونوں کے مجموعہ پر فلاح وکامیابی کا مدار رکھا اس سے معلوم ہوا کہ فلاح کا مدار تخلیہ اور تحلیہ دونوں کے مجموعہ پر ہے اور یہی صوفیاء کا قول ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بدون ان دونوں کے سلوک کامل نہیں ہو سکتا۔
تخلیہ مقدم ہے یا تحلیہ: (خطبات حکیم الامت ص ۴۳۹، ج۲۲) شیوخ کا اس میں اختلاف ہے کہ تحلیہ مقدم ہے یا تخلیہ، بعض علماء تخلیہ کو مقدم رکھتے ہیں اور بعض علماء تحلیہ کو، بہرحال ان میں سے جس کو مقدم اور جس کو بھی مؤخر کیا جائے دونوں مفید ہے کیونکہ ان دونوں میں جانبین سے استلزام ہے جیسے ایک بوتل میں پانی بھرا ہوا ہو اور ہم پانی نکال کر اس میں ہوا بھرنا چاہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ پہلے پانی کو نکال دو ہوا خودبخود بھر جائے گی، دوسری صورت یہ ہے کہ کسی آلہ کے ذریعہ سے پہلے ہوا بھرنا شروع کرو پانی خود بخود ہی نکل جائے گا۔ اسی طرح فضائل کے حاصل کرنے سے رذائل خود بخود زائل ہو جاتے ہیں مثلا کسی نے سخاوت کی صفت حاصل کی تو بخل جاتا رہے گا اور رذائل کے زائل کرنے سے فضائل خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں مثلا بخل زائل ہو گیا تو سخاوت حاصل ہو جائے گی۔ غرض دونوں طریق مفید ہیں ، مگر چشتیہ نے تخلیہ کو مقدم کیا ہےاور مذکورہ آیت بظاہر ان کی مؤید ہے اور نقشبندیہ تحلیہ کو مقدم کرتے ہیں اور آیت واذكر اسم ربك وتبتل اليه تبتيلا (اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کرکے اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ ) كا ظاہر ان کا مؤید ہے۔23
بہرحال نفس کی تربیت اور تزکیہ کے بڑے قواعد میں یہ ہے نفس کی نفسانی خواہشات سے تخلیہ ہو؛ اس لئے کہ نفسانی خواہشات بے شمار بیماریوں کا سبب بنتا ہے ، بیماری کا علاج اس کی ضد سے کیا جاتا ہے پس دل کی بیماریوں کے علاج کا راستہ یہ ہے کہ ایسے طریق کو اختیار کیا جائے جو نفس کی خواہشات اور میلان سے بالکل متضاد ہوں اور یہ سب اللہ تعالی نے ایک ہی کلمہ میں جمع فرمایا ہے پس اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، وَأَمَّا منْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَىالنَّفْسَ عَنِ الهَوَى فَإنَّ الجَنَّةَ هِيَ المَأْوَى24ترجمہ: لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا توجنت ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی ۔ اور اللہ تعالی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں وَالَّذِِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا25ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے ہم انہیں ضرور باضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے۔ پھر اس کے بعد نفس کی تحلیہ اور بھلائی کے کاموں پر اسے عادی بنانامتعین ہوجاتا ہے یہاں تک کہ طاعات سے مانوس ہو کر اعمال خیر اس کی عادت بنے اس سے نفس کی بھلائی حاصل ہوگی؛ اس لئے اعمال کا اثر بہت گہرا ہے یہاں تک کہ وہ دل تک پہنچ جاتا ہے، پس جیسے ہر وہ صفت جو دل میں ظاہر ہوتا ہے اوراس کے اثرات اعضاء وجوارح پر ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح ہر وہ فعل جو اعضاء وجوارح جاری ہوتا ہے اس کا اثر دل پر ظاہر ہوتا ہے، یہ سلسلہ دورانی ہے یعنی دل کے صفات کا ظہور اعضاء اور اعضاء کے افعال کا اثر دل پر ظاہر ہوتا ہے اور قلب وجوارح یہ تعلق بہت ہی عجیب ہے۔26
پھر جب خواہشات نفسانی سے تخلیہ اور بھلائی وطاعات سے نفس کی تحلیہ حاصل ہو جائے تو اس کے بعدلازم ہے کہ نفس کو واجبات ومستحبات کی ادائیگی کا تابع بنائے اور منہیات ومکروہات سے بچائے رکھے؛ اس لئے کہ نفس کی فطرت میں سستی اور فتور ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تخلل الفترات للسالكين أمر لا بد منه، فمن كانت فترته إلى مقاربة وتسديد، ولم تخرجه من فرض، ولم تدخله في محرم،رُجي له أن يعود خيراً مما كان، ترجمہ: سالکین کے لئے سستی کا آنا ایک ضروری بات ہے پس جس کو اعمال کی تسدید میں سکون ملے اورسستی اس کے فرض کی ادائیگی سے نہ روکے اور اسے کسی حرام کام داخل نہ کرےاس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جس مقام پر بھی ہو وہ خیر کی طرف لوٹے گا۔27
مجاہدہ: تزکیہ نفس کے لئے تخلیہ اور تحلیہ کی طرح مجاہدہ بھی لازم ہے۔ مجاہدہ یہ ہے کہ نفس امارۃ بالسوء کے ساتھ ان شرعا مستحسن امور کے ساتھ برسرپیکار رہا جائے جو اس پر شاق ہوں۔ علامہ مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نفس کو بدنی مشقتوں اور خواہشات کی مخالفت پر آمادہ کرنا۔ بعض علماء فرماتے ہیں: مجاہدہ یہ ہے کہ اپنی استطاعت کو مطاع یعنی اللہ تعالی کے حکم میں استعمال کرنا۔28
ابن علان فرماتے ہیں: مجاہدہ جہد سے مفاعلہ ہے جس کے معنی طاقت کے ہے؛ اس لئے کہ انسان اپنے نفس کو ایسے امور میں استعمال کرتا ہے جو فی الحال یا فی المآل میں نافع ہوں۔ابن بطال فرماتے ہیں: بندہ کا اپنے نفس کے ساتھ کامل جہاد ہے۔ ابو عمرو بن بجید فرماتے ہیں: جس کا دین اس کے معزز ہوا تو اس کی نفس اس کے ہاں ذلیل ہو گی۔
نفس کی دو صفات ہیں، ایک یہ وہ شہوات میں منہمک ہوتی ہے اور دوسری یہ کہ وہ نیک اعمال سے روکتی ہے پس مجاہدہ اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں: نفس کے ساتھ جہاد بھی دشمن کے ساتھ جہاد کرنے کی طرح ہے؛ اس لئے کہ دشمن تین طرح ہے ان کے سرخیل شیطان ہے پھر اس کے بعد نفس ہے کیونکہ نفس ایسے لذات کی طرف داعی ہے جو انسان کو حرام میں مبتلا کرتا ہے جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور شیطان ان کاموں میں نفس کا مددگار بنتا ہے پس جو نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے تو وہ شیطان کو دفع کرتا ہے، تو نفس کا مجاہدہ انسان کو اللہ تعالی کی فرمان برداری اور گناہوں کے اجتناب پر ابھارتا ہے اور جب انسان ایسے اعمال پر قوی ہو جاتا ہے تو اسے دشمن سے لڑنا آسان ہو جاتا ہے۔
جہاد دو طرح ہیں ایک باطن کے ساتھ جہاد اور دوسرا ظاہری جہاد۔ نفس کے ساتھ جہاد کے چار درجات ہیں۔ ایک یہ کہ نفس کو دین کے امور سیکھنے پر آمادہ کرے۔اس کے بعد نفس کو ان پر عمل کرے۔اس کے بعد دین سے ناواقف لوگوں کو دین کی تعلیم دے، پھر اس کے بعد توحید کی طرف دعوت دے اور جو اللہ تعالی کے دین کی مخالفت کرے اور اس کی نعمتوں کا کفر کرے ان کے ساتھ قتال کرے۔ نفس کے ساتھ جہاد میں سب سے زیادہ معین شیطان کے ساتھ جہاد ہے کہ ان چیزوں کو دور رکھے جن کے ذریعہ سے شیطان وسوسہ اور شبہات پیدا کرتا ہے۔پھر اس کے بعد وہ منہیات جنہیں شیطان خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے پھر ایسے امور سے بچے جن کی تکثیر انسان کو شکوک وشبہات میں مبتلا کرتا ہے۔الغرض مجاہدہ کی تمامیت یہ ہے کہ انسان ہر حال میں متیقظ ہو کیونکہ جب بھی انسان غافل ہوتا ہے تو شیطان اور نفس اسے منہیات میں مبتلا کرتا ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہےکہ سعادت اخروی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ نفس کو خواہشات سے روکا جائے ، اس پر ایمان واجب ہے البتہ یہ تفصیلی علم کہ کن چیزوں کو ترک کیا جائے اورکن کو اختیار کیا جائے سو اس کا مدار شریعت پر ہے۔ مجاہدہ اور ریاضت کا طریقہ ہر انسان کا احوال کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے۔ اصل اس میں یہ ہے کہ انسان اسباب دنیا میں سے جس چیز سے زیادہ عجب میں مبتلا ہوتا ہے اس کو چھوڑے، پس جو مال یا جاہ وعظ میں قبول یا قضاء ولایت میں عزت یا تدریس وافادہ میں تلامذہ کی کثرت کو پسند کرتا ہے، تو سب سے پہلے اسے وہ چیز ترک کرنی ہوگی جس کی وجہ سے وہ خودپسندی میں مبتلاہے۔ پھر جب وہ خود پسندی کے اسباب کو چھوڑ دے تو پھر لوگوں سے الگ رہ کر اپنے قلب پر دھیان دے یہاں تک کہ اس کا دل اللہ تعالی کے ذکر اور فکر میں مشغول ہو جائے اور دل میں پیدا ہونے والے وساوس اور شہوتوں کی نگرانی کرے تاکہ جب یہ ظاہر ہو تو ان کا قلع قمع کرے کیونکہ ہر وسوسہ کا سبب ہوتا ہے اور وہ وسوسہ اس سبب کے ختم کئے بغیر ختم نہیں ہوتا اور یہ عمل اپنی آخری عمر تک جاری رکھے۔29
مجاہدہاخلاق حمیدہ کے حصول کا ذریعہ: زمین پر انسان کے خلیفہ بننے میں نفس کا مجاہدہ بنیادی چیز ہے، مجاہدہ سے تزکیہ نفس کے کئی اسباب ودواعی ہیں۔ علامہ راغب فرماتے ہیں: جو چیز ترکیہ نفس انجام دیتی ہے وہ علم اور وہ مقررہ عبادات ہیں جو اخروی زندگی کا سبب ہے جیساکہ پانی سے بدن پاک وصاف ہو جاتا ہے جو کہ دنیاوی زندگی کا سبب ہے اسی وجہ پانی کو زندگی کہا گیا ہے اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن میں نازل کردہ دین کو زندگی فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ30یعنی جب اللہ اور رسول ﷺ آپ کو اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندہ رکھتا ہے تو اسے قبول کرو۔پس علم اور عبادت کو اس لحاظ سے زندگی کہا گیا کہ جب بھی نفس اس کو گم پائے گاتو ہمیشہ کے لئے ہلاکت میں پڑ جائے گا جیسا کہ پانی کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلا يُؤْمِنُونَ31 یعنی ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے تو کیا پھر یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں۔
تزکیہ نفس فکر کی درستگی سے حاصل ہوتی ہے اور فکر کی درستگی علم کے حصول سے حاصل ہوتی ہے پھر اس سے حق وباطل کے درمیان اعتقاد میں تمییز، کلام میں صدق وکذب میں تمییز، افعال میں حسن وقبیح کے درمیان تمییز اور شہوت کی اصلاح پاکدامنی سے کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ مسلسل جود وسخا کا پیکر بن جاتا ہے اور اپنی طاقت بشری کے مطابق مواساۃکرتا ہے اور اپنے نفس کو خوف وحرص سے بچائے رکھتا ہے پس ان قوتوں سے نفس کو عدالت واحسان حاصل ہو جاتا ہے۔32
نفس کے مجاہدہ کے مراتب: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نفس کے مجاہدہ کے چار مراتب ہیں۔ ایک یہ کہ دین ورشد کے تعلم کے لئے نفس کا مجاہدہ۔ دوسرا یہ کہ علم دین کے تعلم کے بعد اس پر عمل کے لئے نفس کا مجاہدہ۔ تیسرا یہ کہ نفس کا مجاہدہ دین حق کی دعوت کے لئے ہو۔ چوتھا یہ کہ دین حق کی دعوت کے دوران تکالیف پر صبر کے لئے نفس کا مجاہدہ، اور یہ سب اللہ تعالی کے لئے ہو۔اس کے بعد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب ایک مسلمان مجاہدے کے یہ سب مراتب پوری کرتا ہے تو وہ ربانیین میں داخل ہو جاتا ہے؛ اس لئے کہ سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عالم اس وقت تک ربانی کہلانے کا مستحق نہیں یہاں تک کہ وہ حق کو پہچان لے اس پر عمل کرے اور پھر لوگوں کو سکھائے تو وہ ربانی کہلانے کا مستحق بن جاتا ہے۔33
مجاہدہ نفس کے فوائد: نفس کے مجاہدہ کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے کئی مندرجہ ذیل ہیں۔ مجاہدہ سے نفس اور خواہشات اللہ تعالی کی عبادت کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اس سے نفس شہوات سے دور ہوتا ہے اور قلب تمنی وتشہی سے روک دیا جاتا ہے ۔مجاہدہ سے نفس عبادت کی ادائیگی اور معاصی سے بچاؤ کے وقت تکالیف پر صبر کا عادی بن جاتا ہے۔اس سے شیطان اور اس کے وساوس کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔مجاہدہ سے نفس کو خواہشات سے روکا جاتا ہے جس میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔جو مجاہدہ کرتا ہے اور اپنے نفس کو مؤدب بناتا ہے تو وہ معاشرہ اور دوستوں میں بلند مقام حاصل کرتا ہے۔اپنے نفس کے ساتھ سوء ظن سے نفس کے محاسبہ اور تأدیب میں مدد ملتی ہے۔ مجاہدہ ایک سیدھا راستہ ہے جس سے اللہ تعالی کی رضامندی اور جنت حاصل ہوتی ہے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ: آخر میں ایک شبہ کا ازالہ بھی ضروری ہے وہ یہ کہ اللہ تعالی نے قرآن میں تزکیہ نفس سے منع فرمایا ہے توپھر تزکیہ نفس محمود کیسے ہو سکتا ہے؟ چنانچہ سورۃ النجم میں ارشاد ہے: فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقى، ترجمہ: لہذا تم اپنے آپ کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اپنے آپ کو مقدس اور متقی سمجھنے اور اپنی تعریفیں کرتے رہنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ نفس کی پاکیزگی حاصل کرنا ممنوع ہے۔34
خلاصۃ البحث: عاملین کا مقصد فلاح وکامیابی ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے فلاح وکامیابی کو تزکیہ نفس پر مرتب کیا ہےچنانچہ اللہ تعالی کا سورۃ اعلی میں ارشاد ہے،قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ، اور سورۃ الشمس میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا یعنی فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے اور نامراد ہو گا جو اس کو گناہ میں دھنسا دے۔ تو کامیابی اور ناکامی کا مدار اللہ تعالی نے تزکیہ نفس پر رکھا ہے ؛ اس لئے تصوف میں تزکیہ نفس کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے نفوس کے اصلاح اور تزکیہ کا خاص خیال فرماتے۔
حواشی و حوالہ جات
پی ایچ ڈی اسکالر، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور
لیکچرر، شعبہ اسلامیات وومن یونیورسٹی مردان
1: سورۃ الشمس : ۹
2سورۃ النساء: ۴۹
3سورۃ التوبۃ: ۱۰۳
4: سورۃ مریم: ۱۳
5نضرة النعيم فی مكارم أخلاق الرسول الكريم: 6/ 2197
6لسان العرب، ابو الفضل ، جمال الدین ابن منظور، محمد بن مکرم بن علی (المتوفی: ۷۱۱ھ)، دار صادر، بیروت، طبعہ ثالثہ، ۱۴/۳۵۹
7: سنن ابی داؤد، ۷/۳۰۸
8صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، حدیث : ۲۷۲۲
9معالم فی السلوک وتزکیۃ النفوس، عبد العزیز بن محمد بن علی، دار الوطن، طعبہ اولی ۱۴۱۴ھ، ص: ۵۷
10النور: 28
11الکھف: ۱۹
12الکھف: ۷۴
13النور: ۲۱
14فاطر: ۱۸
15النجم:32
16الشمس:9
17الاعلی: ۱۴
18النازعات: 18
19الجمعة: 2
20طہ: ۷۵، ۷۶
21صحیح مسلم، محقق : محمد عبد الباقی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، حدیث : ۲۷۲۲
22خطبات حکیم الامت، ۲۲/۴۳۸
23خطبات حکیم الامت: ۲۲/۴۳۹
24النازعات: 40، 41
25العنكبوت: 69
26مجلۃ البيان : تصدر عن المنتدی الاسلامی ۲۲/۱۰۷
27مدارج السالكين، ۳/121 1
28نضرۃ النعیم، /۳۳۰۵
29إحياء علوم الدين : 3/ 67- 69
30الأنفال: 24
31الأنبياء : 30
32الذريعة للراغب : 38
33زاد المعاد: 3/ 10- 11
34تفسير النسفی- ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی، دار النفائس 4/ 157
1
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |