Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Bahis Journal of Islamic Sciences > Volume 3 Issue 1 of Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

منفعت حیوانات کی مختلف نوعیتیں: بائیبل اور قران کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ |
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اللہ تعالی کی پیدا کردہ یہ بے زبان مخلوق اس لیے انسان کے رحم کی مستحق ہے کہ یہ پیدا ہی اس کی خدمت کیلئے کی گئی ہے ۔انسا ن کے بے شمار فوائد جو مادی ہوں یا سماجی ،آرائشی ہو ں یا جسمانی،مالی ہوں یا غذائی،دفاعی ہوں یا طبی انہی حیوانات کی بدولت ہی پورے ہوتے ہیں۔ ان حیوانات کے اجسام ،بالوں ،ہڈیوں ،جلدوں اور مختلف اعضاء میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کیا کیا منفعتیں اور باطنی اور ظاہری اسرار پنہاں کر رکھے ہیں ۔ان کی تخلیق میں کیا کیا عجائبات و غرائب ہیں اور انسان کی دلی راحت کا کتنا بڑا ذریعہ اور سبب ہیں ،یہ تو نا ممکن سی بات ہے ۔تاہم کچھ چیدہ چیدہ فوائد جنہیں ہرخاص و عام اس دنیا میں دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے ۔اللہ تعالی نے انسان کی خدمت،فائدے اور باربرداری کیلیے پرندوں،چوپایوں اور بہائم کو نہ صرف پابند کر دیا ہے بلکہ انہیں ذبح کر کے کھا بھی سکتا ہے اور ان سے حاصل شدہ کھالوں کو استعمال میں بھی لا سکتا ہے۔ان چوپایوں پر سواری سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔

قرآن  میں مذکورجانوروں کی اہمیت

درج ذیل قرآنی آیات اس بات کی طرف ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ کس طرح ان جانوروں کو ہماری خدمت کیلیے مسخر کر دیا ہے۔  

﴿وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَکُمْ فِیْھَا دِفْئٌ  وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْھَا تَاْکُلُوْنَ۔﴾[1]

اسی نے چوپائے پیدا کیے ہیں جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمھارے کھانے کے کام آتے ہیں۔

 

﴿وَ لَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَّمْ تَکُوْنُوْا بٰلِغِیْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ﴾[2]

اور ان میں تمھاری رونق بھی ہے جب چرا کر لائو تب بھی اور جب چرانے لے جائو تب بھی اور وہ تمھارے بوجھ ان شہروں تک تک اٹھائے لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدہی جان کیے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔

 

﴿اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌوَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَ زِیْنَۃً……………….. وَ لَوْشَآئَ لَھَدٰی کُمْ اَجْمَعِیْنَ۔﴾[3]

یقینا تمھارا رب بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔گھوڑوں ،خچروں ،گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وہ باعث زینت بھی ہیں اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے .

 

درجہ بالا آیات سے مفسرین نے  چار نکات بیان کیے ہیں۔

پہلا نکتہ: "ان الحیوان شدید الارتباط بالانسان ،وثیق الصلۃ بہ،قریب الموقع منہ،ومن ھنا کان للحیوان علی الانسان  حرمۃ وذمام"۔[4]

بے شک حیوانات کا انسانوں سے بہت گہرا تعلق اور مضبوط رشتہ ہے اور ان کا ماحول بھی قریبی ہے۔

دوسرا نکتہ:"ان اشراف الاجسام الموجودۃ فی العالم السفلی بعد الانسان سائر الحیوانات لاختصاصھا بالقوی الشریفۃ وھی الحواس الظاہرۃ والباطنیۃ والشھوۃ والغضب"۔[5]

یقینا اس موجودہ دور میں انسانوں کے بعدقوی شرافت کی خوبیوں، ظاہری ،باطنی،شہوت اور غصے کے لحاظ سے سب سے عمدہ حیوانات کے اجسام ہیں۔

تیسرا نکتہ:بلاشبہ ان آیات سے اللہ تعالی کی مراد یہ ہے کہ انسان گہری نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرے۔ ان جانوروں کے صرف کھانے ،سواری کرنے ،بوجھ لادنے،ان سے لباس بنانے پر نہ لگا رہے بلکہ اپنی  نظر کو وسعت دے اور ان جانوروں کے ساتھ رحم دلی اور احسان کرے۔ امام رازی ؒفرماتے ہیں: "واعلم ان وجہ التجمل بھا ان الراعی اذا روحھا بالعشی وسرحھا بالغداۃ تزینت عند تلک الاراحۃ والتسریح الافنیۃوتجاوب فیھا الثغاء والرغاء وفرحت ربابھا وعظم وقعھم عند الناس بسبب کونھم لھا مالکین"[6]۔ میں نے تو اس جمال سے یہ توجیہ نکالی ہے کہ ان کا مالک جب صبح کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور جب شام کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور ان کے چرنے اور ان کے جگالی کرنے سے راحت محسوس کرتا ہے اور ان ملکیتی جانوروں کے سبب سے لوگوں کے سامنے اپنا بڑا پن ظاہر کرتا ہے۔

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:"وجمال الانعام والدواب من جمال الخلقۃ وھومریء بابصار موافق للبصائر ومن جمالھا:کثرتھا وقول الناس اذا راوھا :ھذہ نعم فلان،ولانھا اذا راحت توفر حسنھا ،وعظم شانھا و تعلقت القلوب بھا"۔[7]

مخلوق میں سے جانوروں اور چوپایوں کا جمال اللہ کی تخلیق میں سے ہے۔وہ اس سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور ان کا جمال ان کی کثرت میں ہی ہے۔

 

چوتھا نکتہ: ان آیات میں جو چند جانوروں کا نام لیا گیا ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ باقی تمام جانور غیر اہم ہیں بلکہ ان کا تذکرہ تو صرف مثال دینے کیلیے کیا گیا ہے۔اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے۔"ویخلق مالا تعلمون"

اس کی تفسیر میں امام رازی فرماتے ہیں:"لان انواعھا واصنافھا واقسامھا کثیرہ خارجۃ عن الحد والاحصاء فکان احسن الاحوال ذکرھا علی سبیل الاجمال کما ذکر اللہ تعالی فی ھذہ الایۃ"۔[8]

اللہ تعالی نے  فرمایا:﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍیَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ یُحْشَرُوْن۔﴾[9]

؛ جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازئووں سے اڑتے ہیں۔

﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰلِکُوْنَ  وَذَلَّلْنٰہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاْکُلُوْن وَلَہُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ اَفَلاَ یَشْکُرُوْن۔﴾ [10]

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی ہوی چیزوں میں سے ان کیلیے چوپائے پیدا کیے جن کے یہ مالک ہو گئے ہیں۔

 

﴿وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْن۔﴾ [11]

تمھارے لیے تمھارے چوپایوں میں بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس میں سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کیلیے سہتا پچتا ہے۔

 

درجہ بالا  آیات کریمہ میں حقوق البہائم کے حوالے سے  چند نقاط کو واضح کیا گیا کہ:

  1. حیوانات بلکہ ہر شے کا حقیقی مالک  اللہ تعالی ہی ہے
  2. انسان  ایک نائب کی حیثیت سے حیوانات پر ملکیت رکھتا ہے۔
  3. حیوانات کی ملکیت بھی اللہ تعالی کی  ایک نعمت ہے۔
  4. ان میں  بے پناہ قوت ،قوی ہیکل اور عظیم الجثہ ہو نے کے باوجود انہیں  انسان کا مطیع بنا دیا گیا ہے۔
  5. ہر قسم کا سامان اٹھا کر دوردراز کی منزلوں تک پہنچانا اور انسان کی ہر طرح کی خدمت بجا لائے ۔
  6. یہ محض اللہ  تعالی کی انسان پر مہربانی اور شفقت ہے۔
  7. حیوانات پر ملکیت بھی بطور امانت اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو سونپی گئی ہے۔
  8. جس طرح انسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اسی طرح حیوانات کی تخلیق بھی اللہ نے ہی فرمائی ہے ۔حیوانات کی نعمت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْم﴾

 

احادیث میں بہائم کا تذکرہ:

ان حیوانات کا انسان کی خدمت بجا لانا جب محض اللہ کی مہربانی ہے تو انسان کو ان کے ساتھ محبت و آشتی اور رحم دلی والا سلوک کرنا چاہیے۔ لہذا مخلوق خدا ہونے کی حیثیت سے انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ان سے ہر جائز فائدہ تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کی تخلیق کا مقصد ہی یہی ہے لیکن ان پر ظلم و ستم کرنا کسی بھی طرح کی زیادتی کرنا شرعاً اور اخلاقاً درست نہیں۔

  1. گھوڑے کے پالنے میں اجر و ثواب: ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ تعالی پر ایمان کے ساتھ اور اس کے وعدہ ثواب کو سچا جانتے ہوے اللہ کے راستے میں گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا پینا اور اس کا پیشاب ا ور گوبر سب قیامت کے دن اس کے ترازو میں ہو گا اور سب پر اس کو ثواب ملے گا۔ [12]
  2. جانوروں کو دعا میں شریک کرنا: اس سے بڑھ کر جانوروں کے حقوق کا کون علمبردار ہو سکتا ہے کہ جب جانوروں کو کھانے پینے کی ضرورت ہو خاص طور پر بارش کی تو اللہ کے نبی ﷺ اپنی دعا میں جانوروں کو شریک کرتے تھے۔اور دعا میں فرماتے تھے کہ اے اللہ تو اپنے بندوں اور جانوروں پر بارش نازل فرما۔نبی ﷺ نے اپنی نماز  استسقاء والی دعا میں ارشاد فرمایا: "اللھم اسق عبادک وبھائمک وانشر رحمتک "[13]۔اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو پانی پلا اور اپنے شہروں میں اپنی رحمت پھیلا۔
  3. بھلائی کی وصیت: اللہ کے رسول ﷺ نے جانوروں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کی ہے۔اور ان کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے۔اسی وجہ سے اللہ کے رسول ﷺ نے کھیتی کے مالک کیلیے اجر کا کہا ہے جس کی کھیتی سے جانور کچھ کھا جائیں۔
  4. صدقہ: جو بھی مسلما ن کھیتی باڑی کرتا ہے ۔پس اس میں سے پرندے،انسان ،چوپائے کھا جاتے ہیں تو یہ اس کے لئے  صدقہ ہے۔[14]

حیوانات سے انتفاع  اور ان کی حکمتیں:

اس بات میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے اس دنیا میں جس چیز کو بھی پیدا فرمایا اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور رکھی۔ کوئی حکمت ہماری  سمجھ میں آجاتی ہے اور کوئی سمجھ میں نہیں آتی۔چنانچہ اللہ تعالی نے حیوانات کو بھی مفید طور پر تخلیق فرمایا ۔ان  کو پیدا کرنے کا مقصد صرف اور صرف انسان کی خدمت ہے۔ اللہ تعالی نے زمین میں  انسان کی زندگی کے لئے تمام تر نعمتوں کی فروانی میسر کی ہے۔اسی زمین میں اللہ سبحانہ و تعالی نے جانوورں کے چارے کا سامان بھی پیدا کیا ہے اور اونچے اونچے پہاڑ پیدا کئے ہیں ۔جس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے۔ ﴿وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحَاہَا  اَخْرَجَ مِنْہَا مَائَ ہَا وَمَرْعَاہَا وَالْجِبَالَ اَرْسَاہَا مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِاَ نْعَامِکُمْ﴾[15]

 

اللہ تعالی کے اس زمین کو بچھانے کا مقصد انسان کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بقا ء کے لئے تمام عناصر بہم پہنچانا ہے۔اور اسی طرح آیت(متاعا لکم ولانعامکم)میں اشارہ ہے کہ تمھارے لیے چوپایوں میں مختلف قسم کے حیوانی فوائد ہیں۔اور یہ خالق کائنات نے اگر فائدے رکھے ہیں تو یہ عین بشری مصلحت کے مطابق ہیں۔اس پر انسان کو اللہ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ جتنا زیادہ شکر ادا کیا جائے گا اتنا ہی اللہ تعالی مزید عطا فرمائیں گے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزٍیْدَنَّکُم﴾[16]؛ ﴿وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا﴾[17]؛ ﴿فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن﴾[18] انسان کو اللہ کی عبادت کرتے ہوئے  ان حیوانات کے فوائد کو اللہ کی بڑی بڑی نعمتوں میں شمار کرنا چاہیے اور اس خالق حقیقی کا شکر بجا لانا چاہیے جس نے یہ حیوانی اور غیر حیوانی فوائد انسان کو پہنچائے۔

  • اقتصادی فوائد:  گوشت،چربی،دودھ ،مکھن ،گھی،چمڑہ،اون وغیرہ الغرض ہر اس چیز کو کھانا، استعمال میں لانا،فائدہ حاصل کرنا جس کو شریعت نے حلال ٹھہرایا ہے۔﴿وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْن۔﴾[19]
  • ’’اور بلاشبہ تمھارے لیے چوپائوں میں یقینا بڑی عبرت ہے، ہم ان چیزوں میں سے جو ان کے پیٹوں میں ہیں، گوبر اور خون کے درمیان سے تمھیں خالص دودھ پلاتے ہیں۔
  •  

﴿وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا  ومنھا تا ء کلون۔﴾[20]

 

  • ذرائع نقل و حمل: چوپایوں کو نقل و حرکت کے لئے نیز حربی و دفاع کے کام  بھی لیے جاتے ہے۔
  • زینت کی مثال : ﴿وَ لَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ ۔﴾[21]
  • ’’اور ان میں تمھاری رونق بھی ہے جب چرا کر لائو تب بھی اور جب چرانے لے جائو تب بھی۔‘‘
  •  
  •  ﴿وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَۃً وَّ فَرْشًا﴾[22]
  • ’’اور چوپائوں میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے ‘‘

﴿وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَکُمْ فِیْھَا دِفْئٌ  وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْھَا تَاْکُلُوْنَ۔﴾[23]

’’اور چوپائے، اس نے انھیں پیدا کیا، تمھارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان اور بہت سے فائدے ہیں اور انھی سے تم کھاتے ہو۔‘‘

 

ان آیات کا غور سے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ آیات ان فوائد کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جو انسان حیوانات سے حاصل کرتے ہیں۔اور قیامت تک بنی آدم ان حیوانات کے محتاج رہیں گے۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

سواری کرنا،غذا کا حصول،چمڑوں سے لباس بنانا ،گھر بنانا،چادریں بنانا،دودھ کا حصول اور دودھ سے بننے والے مکھن ،پنیراور گھی کا حصول ،کھیتی باڑی،پہرے داری،شکار،تجارت،زینت اور جمال ،اس طر ح حیوانات کے فضلے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جس سے انسان کو فائدہ حاصل ہو تا ہے۔زمین کو کھاد میسر ہوتی ہے،گیس بنانا ،ایندھن کے طور پر استعمال کرنا،زمین کی زرخیزی ، چمڑے سے جو فوائد حاصل کیے جاتے ہیں ان میں سےخیمے، جیکٹس، بیگز (بستے)، توڑے، چٹائیاں،  ترپالیں،جوتیاں،پرس وغیرہیں۔جانوروں سے خوشبو حاصل کی جاتی ہے جیسے کستوری،عنبر  وغیرہ ۔جانوروں کے دانتوں کو نمائشی چیزوں کے بنانے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے ۔جیسے ہاتھی کے دانت انہی فوائد میں سے بعض حیوانات سے جنگو ں کے اندر حربی  فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔مثلا گھوڑا،اونٹ،خچر،ہاتھی وغیرہ۔

قرآن میں ذکر ہے؛ ﴿وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًافَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًافَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا﴾[24]

’’قسم ہے ان ( گھوڑوں) کی جو پیٹ اور سینے سے آواز نکالتے ہوئے دوڑنے والے ہیں!  پھر جو سم مار کر چنگاریاں نکالنے والے ہیں۔        

 

  • بحری حیوانات سے فوائد: ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ ھُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا ۔﴾ [25]
  • طبی فوائد:قرآن میں شہد کی مکھی کے فوائد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس کے شہد میں بہت سے امراض کی شفا رکھی گئی ہے۔

﴿وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ۔﴾[26]

 حیوانات کے حوالے سےاسلام کا امتیاز:

مولانا نجیب اللہ ندوی رقم طراز ہیں:" جانوروں اور حیوانات کے حقوق تک کا تحٖفظ کیا ہے۔دنیا کے کسی مذہب یا سیاسی دستور میں محنت کش جانوروں کے حقوق کا کوئی ایسا مکمل قانون موجود نہیں ہے۔جس میں ان کے حقوق کی پوری ضمانت و حفاظت کی گئی ہو۔اگر کہیں قانونی طور پر بعض جانوروں کی حفاظت بھی کی گئی ہے تو اس کا تعلق محض جذبات و روایات یا محض مادی منفعتوں سے ہے۔مگر اس حیثیت سے ان کے حقوق متعین نہیں کیے گئے ہیں کہ وہ خدا کی ایک بے زبان مخلوق ہیں اس لیے ان کے ساتھ بھی انسان کو رحم و کرم کا معاملہ کرنا چاہیے ۔ ضرورت کیلیے ان سے کام لینا اور فائدہ اٹھانا تو صحیح ہے مگر ان پر ظلم و ستم کرنا ان کو آرام نہ پہنچانا اخلاق و قانون دونوں لحاظ سے مجرمانہ فعل ہے"۔[27]

حیوانات ایک امت: ہمیں جتنے بھی چوپائے اور چرند پرند نظر آتے ہیں یہ اپنی اپنی جگہ انسان کی مانند ایک امت ہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے۔﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍیَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ یُحْشَرُوْن۔﴾[28]  آیت کے عموم سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جس طرح انسان ایک امت ہے اسی طرح حیوانات بھی ایک امت ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی ،رحم و کرم اور نرم روی کا رویہ رکھنا چاہیے۔اس آیت کریمہ کی تشریح نبی ﷺ کے خود عمل سے ہوتی ہےحضرت جابر ؓ نے فرمایا:"امرنا رسول اللہ ﷺ بقتل الکلاب حتی ان المرء ۃ تقدم من البادیۃ بکلبھا فنقتلہ ثم نھی رسول اللہ ﷺ عن قتلھا وقال علیکم بالاسود البھیم ذی النقطتین فانہ شیطان"[29] رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تمام کتوں کو مار دینے کا حکم دیا اس حکم پر ہم یہاں تک عمل پیرا تھے کہ اگر کوئی عورت دیہات سے مدینہ منورہ آتی اور اس کے ساتھ کتا ہوتا تو ہم اسے مار ڈالتے مگر پھر رسول ﷺ نے سب کتوں کو مار دینے سے روک دیا اور فرمایا صرف اس کتے کو مارنا ضروری ہے جو کالا سیاہ ہو اور جس کی آنکھوں پر دو سفید نقطے ہوں کیونکہ وہ شیطان ہے۔

حیوانات کو تکلیف دینے کی ممانعت:

  1. جانور کو باندھ کر قتل کرنے کی ممانعت: جانور کو باندھ کر قتل کرنے سے مراد یہ ہے کہ جانور کو باندھ لیا جائے اور پھر اس کو ہدف بنایا جائے،اور اسکی طرف تیر پھینکے جائیں حتی کہ جانور مر جائے۔اس طریقے میں جانور کو بہت زیادہ تکلیف پہنچتی ہے اور اس کی موت کا سبب بنتا ہے۔اسلام نے حرام قرار دیا ہے انسانوں کے لیے کہ وہ جانوروں ،چوپایوں کو باندھ کر رکھیں ،ان کو تکلیف دینے کے لیے نشانہ بازی کریں۔اسی طرح انسان نشانہ بازی سیکھنے کے لیے ،شکار سیکھنے کیلیے ان کو ہدف بنائے۔اسی طرح جانوروں کا کوئی جز کاٹنا منع ہے۔یہ تمام چیزیں اسلام میں حرام ہیں ۔جانوروں کو باندھ کر مارنے کی حرمت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔

رسول ﷺ نے اس بندے پر لعنت کی ہے جو جانوروں کو باندھ کر تیر اندازی کرتا ہے،نشانہ بازی یا ان کے ساتھ کھیلتا ہے۔"عن سعید بن جبیرؓ قال:کنت عند ابن عمر ،فمرو بفتیۃ او بنفر نصبوا دجاجۃ یرمونھا،فلما راو ابن عمر تفرقواعنھا،وقال ابن عمر:من فعل ھذا؟ان النبی ﷺ لعن من فعل ھذا  "۔ [30]

روایت ہے کہ ہم جنت البقیع میں آئے وہاں پر قریشی نوجوان مرغی کو مار رہا تھا ۔جب انہوں نے ابن عمر ؓ کو دیکھا تو بھاگ گئے۔ابن عمر ؓ نے فرمایا مجھے یہ بات پسند نہیں ہے ۔کہ مجھے دیکھ کر لوگ اس طرح بھاگیں میں تو چاہتا ہوں کہ دنیا میں ایسے زندگی بسر کروں جیسے کہ نوح ؑ نے اپنی قوم میں بسر کی تھی ۔اے ابو عبدالرحمن رسول ﷺ نے لعنت کی ہے اس پر جو جانوروں کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔

وعن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال شعبۃ فقلت لہ عن النبیﷺ فقال عن النبی ﷺ انہ نھی او قال لایتخذ شیء فیہ الروح غرضا۔[31] رسول ﷺ نے منع کیا ہے جس چیز میں بھی روح ہے اس کو باندھ کر نشانہ نہ بنایا جائے۔امام نووی ؒ اس کی شرح یوں کرتے ہیں کہ اس منع سے مراد حرمت ہی ہے۔کیونکہ اس سے جانوروں کو عذاب ہوتا ہے ان کی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور بندے کا اپنا مال ضائع ہوتا ہے۔

عن عبداللہ ابن جعفر قال:مر رسول اللہ ﷺ علی اناس وھم یرمون کبشا بالنبل، فکرہ ذلک، و قال : لا تقتلوابالبھائم۔[32]  عن انس بن مالک ؓ قال :نھی رسول اللہ ﷺ عن صبر البھائم۔[33] انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع کیا۔مندرجہ بالا تمام احادیث جانوروں کو باندھ کر مارنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔

  1. جانوروں پر لعنت کرنا حرام ہے :  اسلام کی تعلیمات سے یہ بات بھی ملتی ہے کہ جانوروں کو گالی دینا اور لعنت کرنا منع ہے کیونکہ اسلام نے جانوروں کو بھی روح سے تعبیر کیا ہے۔انسان کیلیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس پر لعنت کرے جو لعنت کا مستحق نہیں ہے ۔جانور لعنت کے کبھی مستحق نہیں ہوتے کیونکہ یہ اپنے مالک کے کام کاج میں اس کی معاونت کرتے ہیں۔اور خاص طور پر اس وقت کہ جب ہمیں معلوم ہے کہ لعنت پھٹکار ہے اور خیر سے دور کر دینے والی چیز ہے ۔

روی عمران بن حصین فقال:بینما رسول اللہ ﷺ فی بعض اسفارہ وامرء ۃ من الا نصار علی ناقۃ، فضجرت، فلعنتھا،فسمع ذلک رسول اللہ ﷺ، فقال:خذو ما علیھا ودعوھا فانھا ملعونۃ ۔[34]

عمران بن حصین ؓ  نے روایت کیا ہے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے انصار میں سےایک عورت اونٹنی پر سوار تھی اور اسے ڈانٹ رہی تھی اور اس نے اس پر لعنت کر دی ۔رسول ﷺ نے سن لیا اور آپ ﷺ نے اس اونٹنی سے اترنے کا حکم دیا  پس بے شک یہ ملعونہ ہے۔حافظ ابن قیمؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:صحیح بات یہ ہے کہ اس کو سزا دینے کیلیے ایسا کیا گیا تھا کہ وہ دوبارہ ایسی بات نہ کہے اور غیر مستحق پر لعنت نہ کرے اور مال میں سزا اس لیے دی گئی کہ صدقہ خیرات میں ترغیب دلانا مقصود تھا۔

عن زید بن خالد قال : قال رسول اللہ ﷺ لا تسبو ا الدیک فانہ یوقظ للصلوۃ  ۔[35]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مرغ کو گالی مت دو کیونکہ یہ نماز کیلیے بیدار کرتا ہے۔ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے کس طرح جانوروں کی حرمت کا خیال رکھاہے۔

  1. جانوروں کو داغنا : عربی لغت میں الوسم  داغنا کو کہتے ہیں ۔ اثر الکی، والوسام والسمۃ بکسرھما ما وسم بہ الحیوان من ضروب الصور، والمیسم بکسر المیم:المکواۃ ۔[36] الوسم لغوی طور پر کہتے ہیں  لوہے کی کسی گرم چیزسے نشان لگانا بعض دفعہ مار کر بھی جانوروں کو داغا جاتا ہے۔ اصطلاحی مفہوم: ویقال:وسم الشیء یسمہ اذا علمہ بعلامۃ یعرف بھا ،ومنھا قولہ تعالی:سیماھم فی وجوھھم، اور کہا جاتا ہے کہ چیز کو داغنا جب اس کی کوئی نشانی وضع کرنا مقصود ہو اس وقت اس کو داغنا ۔ داغنے کی دو قسمیں ہیں:       ۱۔   چہرے کو داغنا        ۲۔  چہرے کے علا وہ اور کسی جگہ کو داغنا
  2. چہرے کو داغنا: چہرے کو داغنے کے عدم جواز پر جمہور علماء کا اجماع ہے اور اس بارے میں نبی ﷺ کی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔روی جابر فقال:نھی رسول اللہ ﷺ عن الضرب فی الوجہ وعن الوسم فی الوجہ۔[37] ایک اور روایت میں ہے کہ رسول ﷺ کے قریب سے گدھا گذرا جس کے چہرے کو داغا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ۔مر علیہ حمار وقد وسم فی وجھہ فقال :لعن اللہ الذی وسمہ۔[38] اللہ لعنت کرے اس شخص پر جس نے اس کو داغا ہے۔ اور نبی ﷺ کا لعنت بھیجنا یہ حرمت کی بڑی واضح دلیل ہے۔قال النووی:واما الوسم فی الوجہ فمنھی عنہ بالاجماع۔[39]  چہرے کے علاوہ کسی اور جگہ کو داغنا:پہلا قول:جمہور علمائے کرام مالکی،شافعی، حنبلی اس طرف گئے ہیں کہ چہرے کے علاوہ داغنا جائز ہے۔روضۃ الطالبین میں ہے: وسم النعم جائز فی الجملۃ،و لکن الوسم علی موضع صلب ظاہر لا یکثر الشعر علیہ والاولی فی الغنم الاذان،وفی الابل و البقر الافخاذ ۔[40] اونٹ کو داغنا کلی طور پر جائز ہے۔لیکن یہ داغنا اس کی پشت پر ہو گا جہاں پر زیادہ بال نہیں ہوں گے۔کشاف القناع میں ہے:استحب لہ ای الامام وسم الا بل والبقر فی افخاذھا ووسم الغنم فی اذانھا ۔[41] بہوتیؒ کہتے ہیں کہ میرے امام نے اس بات کو مستحب کہا ہے کہ اونٹ اور گائے کی ران کو داغا جائے گا اور بکری کے کان کو داغا جائے گا۔تحفۃ الاحوذی میں ہے:فیحرم وسم الادمی وکذا غیرہ فی وجھہ علی الاصح ویجوز فی غیرہ۔[42] انسان کو داغنا حرام ہے۔اسی طرح ہر چیز کے چہرے کو داغنا حرام  ہے۔اور ان دو کے علاوہ داغنا جائز ہے۔

عن ابن عباس ؓ قال:رای رسول اللہ ﷺ حمارا موسوم الوجہ فاکرہ ذلک ،قال :فواللہ لا اسمہ الا فی اقصی شیء من الوجہ ،فامر بحمار لہ فکوی فی جاعرتیہ ،فھو اول من کوی الجاعرتین۔[43] دوسرا قول:حنفیہ کے نزدیک چہرے کے علاوہ بھی داغنا مکروہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ﴿وَّ لَاُضِلَّنَّھُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّھُمْ  وَلَاٰمُرَنَّھُمْ  فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہ۔﴾[44] محل استدلال یہ ہے کہ شیطان بھی جانوروں کے کاٹنے کا حکم دیتا ہے۔لہذا چہرے کے علاوہ کسی جگہ کو داغنا یہ بھی مکروہ ہے۔

  1. جانوروں کو نشہ کھلانا: اسلام میں ممنوع ہے کہ جانوروں کو نشہ والی چیزیں کھلائی جائیں اور نجاست والی کیونکہ یہ جانوروں کو ضرر دینے کی ایک قسم ہے۔اور وہ حرام ہے ۔
  2. جانوروں کو خصی کرنا: عن ابن عمرؓ قال :نھی رسول اللہ ﷺ عن اخصاء الخیل والبھائم ،ثم قال ابن عمر ؓ  فیھا نماء الخلق۔[45] عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا رسول ﷺ نے گھوڑے اور چوپایوں کو خصی کرنے سے منع کیا ہے۔پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ یہ اللہ کی تخلیق کی موت ہے۔جانوروں کو خصی کرنا ایک پرانا اور معروف فعل ہے اس سے جانور موٹا زیادہ ہوتا ہے اس کی افزائش زیادہ ہوتی ہے۔
  3. ملکیتی جانوروں پر خرچ کرنا: اسلام دین رحمت ہے۔ اللہ سبحا نہ وتعالی اپنے بندوں پر رحم کرتاہے خاص طور پر ان لوگوں پر جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔جب کسی کے اپنے ملکیتی جانور ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی خوراک،رہائش،صحت کا بندوبست کرے کیونکہ اس نے ان کو باندھ کر رکھا ہوتا ہے اور وہ اللہ کی وسیع زمین میں چر نہیں سکتے لہذا وہ تمھارے محتاج ہیںاس لیے یہ بات لازم ہے کہ وہ ان پر خرچ کرے۔ایسا آدمی جو چند جانوروں کا مالک ہو ۔اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہوے جانوروں کی خوراک،رہائش،صحت ،آرام و سکون اور اس طرح کی جو بھی چیزیں جو جانوروں کو مستلزم ہیں ان کا خیال رکھے۔ احسان کے اندر یہ بات بھی آتی ہے کہ بندہ اپنے ملکیتی جانوروں پر خرچ کرے۔امام نوویؒ کی کتاب مجموع شرح مہذب میں  ہے۔ملکیتی جانوروں کی رہائش، خوراک کا بندوبست کرنا لازم ہے۔[46]
  4. جانوروں کی لڑائی کرانا حرام ہے: اسلام میں جانوروں کی آپس میں لڑائی کروانا جائز نہیں ،اور اسی طرح انسانوں کی جانوروں کے ساتھ لڑائی کروانا یہ بھی جائز نہیں ہے۔
  5. جانوروں کو ان کے چہرے پر مارنا حرام ہے:جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نےفرمایا چہرے پر مارنا ہر ایک کے لیے اسلام میں منع ہے کیونکہ اس سے آدمی اور جانوروں کا احترام لازم آتا ہے۔ یہ مارنا اس وجہ سے بھی حرام ہے کہ چہروں میں حواس پائے جاتے ہیں جیسے آنکھ ،ناک،کان،اور چہرے.[47]
  6. جانوروں کی گردنوں سے تندی کے پٹے اتارنے کا حکم: اس منع کے اسباب یوں بیان کیے گئے ہیں۔ کہ شاید یہ اس لیے منع کیا گیا ہو کہ شرک کی روک تھام مقصود ہو۔کیونکہ جاہلیت میں لوگ اس طرح کا عقیدہ رکھتے تھے۔یہ عقیدہ شیطان اور جنوں کی طرف سے قائم کیا گیا تھا۔جانوروں کی شہ رگ کٹنے کا خدشہ ہے،گردن گھونٹ کر رگیں پھولنے کا خدشہ ہےکہ وہ  اس کی موت کا سبب بنے۔
  • بائیبل میں چو پایو ں سے متعلق احکامات۔۔۔ تخلیق کا مقصد انتفاع حیوانات:

ذیل میں بائبل میں مذکور چند احکامات کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔

  • خُدا نے کہا، "پانی  کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں اور مویشیوں اور تمام زمین پر اور زمین پر رینگنے والے ہر رینگنے والے جانور پر حکومت کریں۔ "پس خدا نے انسان کو اپنی شبیہ پر پیدا کیا، خدا نے ان سے کہا، "پھلاؤ اور بڑھو اور زمین کو بھر دو اور اس کو مسخر کرو۔ سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور زمین پر چلنے والی ہر جاندار چیز پر غلبہ حاصل کرو۔"[48]
  •  خُدا نے نوح اور اُس کے بیٹوں کو برکت دی اور  کہا، "پھلاؤ اور بڑھو اور زمین کو بھر دو۔ آپ کا خوف اور  زمین پر رینگنے والی ہر چیز اور سمندر کی تمام مچھلیوں پر ہوگا۔ وہ آپ کے ہاتھ میں پہنچائے جاتے ہیں۔ ہر چلنے والی چیز جو زندہ رہتی ہے آپ کے لیے خوراک ہوگی۔ اور جیسا کہ میں نے آپ کو سبز پودے دیئے ہیں، میں آپ کو سب کچھ دیتا ہوں۔ لیکن تم گوشت کو اس کی جان یعنی خون کے ساتھ نہ کھانا۔ اور آپ کے خون کا مجھے حساب چاہیے: ہر حیوان سے اور انسان سے۔ میں اس کے ساتھی آدمی سے انسان کی زندگی کا حساب مانگوں گا۔[49]
  • جو راستباز ہے وہ اپنے حیوان کی جان کا خیال رکھتا ہے، لیکن شریر کا سکون ظلم ہے۔[50]
  • بھیڑیا بھیڑ اور چیتا بکری کے بچے کے ساتھ، بچھڑا اور شیر اور موٹا بچھڑا ایک ساتھ لیٹیں گے۔ اور ایک چھوٹا بچہ ان کی رہنمائی کرے گا۔[51]
  • تم اپنے بھائی کے بیل یا بھیڑ بکریوں کو گمراہ ہوتے نہ دیکھو اور ان کو نظر انداز کرو۔ تم انہیں اپنے بھائی کے پاس واپس لے جانا۔ اور اگر وہ تمہارے قریب نہیں رہتا اور تم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے تو تم اسے اپنے گھر لے جانا اور جب تک تمہارا بھائی اسے تلاش نہ کرے وہ تمہارے ساتھ رہے گا۔ پھر تم اسے اسے واپس کر دو۔ اور تُو اُس کے گدھے کے ساتھ یا اُس کے کپڑے کے ساتھ یا اپنے بھائی کی کھوئی ہوئی چیز کے ساتھ جو وہ کھو جائے اور تُم کو مل جائے۔ آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں. تم اپنے بھائی کے گدھے یا بیل کو راستے میں گرتے ہوئے نہ دیکھو اور ان کو نظر انداز کرنا۔ آپ ان کو دوبارہ اٹھانے میں اس کی مدد کریں گے۔ [52]
  • "جب بیل روند رہا ہو تو اس کا منہ نہ لگانا۔[53]
  • اپنے ریوڑ کی حالت کو اچھی طرح جانو، اور اپنے ریوڑ پر توجہ دو، [54]
  • چھ دن تم اپنا کام کرو، لیکن ساتویں دن آرام کرو۔ تاکہ تیرے بیل اور گدھے کو آرام ملے اور تیری لونڈی کا بیٹا اور پردیسی تروتازہ ہو جائے۔[55]
  • اور خُدا نے کہا، ’’پانی جانداروں کے غول کے ساتھ تیرنے دیں، اور پرندے زمین کے اوپر آسمان کی وسعتوں میں اڑنے دیں۔‘‘ پس خُدا نے بڑے سمندری جانداروں اور ہر ایک جاندار کو جو حرکت کرتا ہے، جس کے ساتھ پانی میں بھیڑ، اپنی قسم کے مطابق، اور ہر پروں والے پرندوں کو اس کی قسم کے مطابق پیدا کیا۔ اور خدا نے دیکھا کہ یہ اچھا ہے۔ اور خُدا نے اُن کو یہ کہتے ہوئے برکت دی کہ پھلدار ہو اور بڑھو اور سمندروں میں پانی بھرو اور پرندے زمین پر بڑھنے دو۔ اور شام ہوئی اور صبح ہوئی، پانچواں دن۔ اور خُدا نے کہا، ” مویشی اور رینگنے والے جانور اور زمین کے درندوں کو اُن کی قسموں کے مطابق۔ اور ایسا ہی تھا۔ [56]
  • اور میں اُس دن اُن کے لیے میدان کے درندوں،  زمین و پرندے کے رینگنے والی چیزوں سے وعدہ لیا۔ اور مَیں کمان، تلوار ،جنگ کو مُلک سے دور کروں گا اور تُجھے سلامتی سے لیٹا دوں گا۔[57]
  • انسان خدا کے نزدیک جانوروں سے زیادہ قیمتی ہے - اللہ تعالیٰ نے انسان کو خوراک کے لیے جانوروں کو مارنے کا اختیار دیا ہے، لیکن ہمیں خوراک کے لیے انسانوں کو مارنے کا اختیار نہیں ہے۔[58]
  • خُدا نے خود جانوروں کی کھالیں آدم اور حوا کے لیے لباس بنانے کے لیے استعمال کیں - [59]
  • متعدد صحیفے دکھاتے ہیں کہ لوگ جانوروں کے مالک ہیں اور چرواہے ہیں اور انہیں اپنے مقاصد اور خوشحالی کے لیے استعمال کرتے ہیں -[60]مرد جانوروں سے زیادہ ذہین ہیں - [61]
  • جانوروں سے  قیامت والے دن جو پوچھا جائے گا اس کے متعلق بائبل میں درج احکامات جانوروں کی کوئی روح نہیں ہے، کوئی اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے، کوئی ابدی تقدیر نہیں ہے، اور اس لیے وہ صحیح اور غلط کے لیے جوابدہ نہیں ہیں۔ یسوع ان کو بچانے کے لیے نہیں مرے کیونکہ انہیں بچانے کی ضرورت نہیں ہے۔انسان اپنی روح، اپنی ذہانت، خُدا کے نزدیک اُن کی قدر، اُن کی اخلاقی ذمہ داری، اُن کی ابدی تقدیر، اور اُس قیمت میں جو خُدا نے اُنہیں گناہ سے بچانے کے لیے ادا کی ہے، جانوروں سے برتر ہیں۔
  • انسان کی روح اوپر کی طرف جاتی ہے، لیکن حیوان کی روح زمین پر جاتی ہے۔ ایک احساس ہے جس میں ایک جانور کی روح ہوتی ہے - حیوانی زندگی۔ لیکن یہ ماضی کی موت کو جاری نہیں رکھتا ہے۔[62]
  • مردوں کی زندگیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا، اچھے یا برے، اور اسی کے مطابق ابدی انعامات حاصل کریں گے -[63] جانوروں کی یہ اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے - [64]
  • آخر میں، ان سب کا  اہم ثبوت  کہ یسوع انسانوں کو بچانے کے لیے مرا ، جانوروں کو نہیں - [65]

خلاصہ کلام:

اسلام دین رحمت اور فطرتی دین ہے ۔اور یہ ایسا دین ہے جس نے حیوان ناطق اور حیوان غیر ناطق دونوں کے حقوق ادا کرنے کی تعلیمات دیں ہیں ۔اور یہ کیسے ممکن تھا  کہ وہ اللہ جس کی صفات رحمن اور رحیم ہیں ۔وہ جانوروں کے بارے میں ایسی تعلیمات نازل کرتاجس سے اس کی بے زبان مخلوق کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ۔ مغربی ممالک اور تنظیمیں اسلام کی بارے اسلام کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہیں کہ اسلام بہت ہی ظا لمانہ اور بے رحم دین ہے ۔اور ہمارے سادہ لوح مسلمان ان کی اس بات پر یقین کئے بیٹھے ہیں باب ہذا میں آسان اردو میں اسلام کی جانوروں کے بارے میں تعلیمات کیا ہیں ان کہ بارے میں تفصیل بتائی گئی ہے۔قرآن مجید میں بہت سی آیات  حیوانات کی فضیلت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ۔ان آیات کریمہ کا مقصد یہ ہے کہ حیوانات بلکہ ہر شے کا حقیقی مالک اللہ تعالی ہی ہے اور انسان تو ایک نائب کی صورت میں حیوانات پر ملکیت رکھتا ہے ۔حیوانات پر ملکیت یہ قدرت کا ایک کرشمہ ہے ۔اپنی بے پناہ قوت ،قوی ہیکل اور عظیم الجثہ ہونے کے باوجود ان کو انسان کا مطیع بنا دیا گیا ہے،تاکہ وہ اس کا سامان اٹھا کر دور دراز کی منزلوں تک پہنچائے۔اور اس کی ہر طرح کی خدمت بجا لائیں ۔ان جانوروں کا وجود ہی انسانوں کیلئے رحمت ہے حدیث قدسی ہے کہ جانوروں کے وجود کی وجہ سے ہی زمین کو بارش عطا کی جاتی ہے ، رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر جانور نہ ہوتے تو تمہیں بارش نہ ملتی۔ انسان ان حیوانات سے بہت سے اقتصادی،طبی ،خوردو نوش،لباس اور ذرائع نقل و حمل کے فائدے لیتا ہے۔

 

 

نتا ئج تحقیق:

  • قرآن و سنت کی رو سے انسان حیوانات سے جو  فوائد حاصل کرتے ہیں درج ذیل ہے۔سواری کرنا،غذا کا حصول،چمڑوں سے لباس بنانا ،گھر بنانا،چادریں بنانا،دودھ کا حصول اور دودھ سے بننے والے مکھن ،پنیراور گھی کا حصول ،کھیتی باڑی،پہرے داری، شکار،تجارت،زینت اور جمال  و غیرہ۔
  • اس طر ح حیوانات کے چمڑے سے جو فوائد حاصل کیے جاتے ہیں ان میں سےخیمے، جیکٹس، بیگز (بستے)، توڑے، چٹائیاں،  ترپالیں، جوتیاں،پرس وغیرہیں۔جانوروں سے خوشبو حاصل کی جاتی ہے جیسے کستوری،عنبر  وغیرہ ۔جانوروں کے دانتوں کو نمائشی چیزوں کے بنانے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے ۔جیسے ہاتھی کے دانت انہی فوائد میں سے بعض حیوانات سے جنگو ں کے اندر حربی  فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔مثلا گھوڑا،اونٹ،خچر،ہاتھی وغیرہ۔


[1] ۔النحل ۱۶؛ ۵  

[2] ۔النحل ۱۶؛ ۷۔۸

[3] ۔ یقینا تمھارا رب بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔گھوڑوں ،خچروں ،گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وہ باعث زینت بھی ہیں اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے .

[4] ۔القرطبی، ۱۰/ ۶۹ ؛

[5]۔الرازی، ۱۹/ ۲۲۸؛

[6] ۔ الرازی، ۱۹/ ۲۲۸

[7] ۔ القرطبی، ۱۰/ ۷۰

[8] ۔ الرازی، ۱۹/ ۲۳۱

[9] ۔ الانعام ۶: ۳۸

[10] ۔ یسین: ۷۱ ۔۷۳؛

[11] ۔ النحل ۱۶ :۶۶؛  

[12] ۔ صحیح بخاری،رقم الحدیث:۲۵۵۳

[13] ۔ ابو داود؛ رقم الحدیث: ۱۱۵۳، کتاب الادب،باب ما جائک فی الدیک والبھائم

[14] ۔ صحیح بخاری،رقم الحدیث: ۶۰۰۸ ؛ رقم الحدیث: مسلم ۱۵۵۳

[15] ۔ النازعات؛ ۳۳-۳۹

[16] ۔ سورۃ إبراہیم ۷ ا؛گر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا ۔

[17] ۔ سورۃ إبراہیم ۳۴

[18] ۔ الرحمن؛ ۱۳

[19] ۔ النحل ۱۶؛ ۶۶؛

[20] ۔ المومنون؛ ۲۱

[21] ۔النحل ۱۶؛ ۶؛

[22] ۔الانعام ۶؛ ۱۴۲ ؛                                                                                       

[23] ۔ النحل ۱۶ ؛ ۵

[24] ۔العدیت، ۱۔۵                                                                                                                                                                                      

[25] ۔ النحل ۱۶؛ ۱۴

[26] ۔ النحل ۱۶؛ ۶۸۔۶۹

[27] ۔ مولانا مجیب اللہ ندوی، اسلامی قانون محنت و اجرت، ص:۲۲۰،مطبوعہ دیال سنگھ لائبریری ،لاہور،س۔ن

[28] ۔ الانعام ۶؛ ۳۸

[29] ۔ مسلم، رقم الحدیچ؛ ۱۵۷۰

[30] ۔ صحیح مسلم، رقم الحدیث : ۱۹۵۸؛   بحاری۔ رقم الحدیث: ۵۵۱۵

[31]۔ صحیح مسلم، رقم الحدیث : ۱۹۵۸

[32] ۔ نساءی، رقم الحدیث:  ۶۷۶۴

[33] ۔ بحاری۔ رقم الحدیث: ۵۵۱۳؛ نعمانی کتب خانہ ،لاہور،س۔ن

[34] ۔ صحیح مسلم، رقم الحدیث : ۲۵۹۵

[35] ۔ ابوداود، رقم الحدیث:  ۵۱۰۱

[36] ۔ القاموس المحیط، باب میم، فسل واو، مادہ، و۔س۔م، ۴/ ۲۶۳

[37] ۔ مسلم، رقم الحدیث:  ۲۱۱۶

[38] ۔ صحیح مسلم، ۲۱۱۷

[39] ۔ النووی، ۲۹۵۲

[40] ۔ نووی۔ ۲/ ۱۹۷

[41] ۔ البہوتی، کشاف القناع، ۲/ ۲۶۵

[42] ۔ مبارکپوری، تحفہ الاحوزی، ۵/ ۳۶۷

[43] ۔ صحیح مسلم، ۲۱۱۸

[44] ۔ نساء، ۴؛ ۱۱۸

[45] ۔ نیل الاوطار، ۸/ ۲۲۸

[46] ۔ مجموع المہزب، ۱۸/ ۳۱۸

[47] ۔ صحیح مسلم، ۲۱۱۶

[48]۔ پیدائش  1:26-28      

[58] متی ۔ 10:29-31؛ 12:11،12; 6:26; 15:26۔

[59] Gen. 3:21۔

[60] زبور 32:9؛ جیمز 3:3،7۔

[61] ایوب 35:10،11؛ زبور 73:22؛ ہوسیع 7:11؛ زبور 32:9۔

[62] یسعیاہ 31:3

[63] پیدائش 2:16،17؛

[64] میتھیو 7:6؛ 23:33; 12:34

[65] titus 2:11،12؛ 3:3-7؛

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...