Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Bahis Journal of Islamic Sciences > Volume 3 Issue 1 of Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

سیرتِ صحابہ کرام کی روایات کے اصول و ضوابط : معاصر آراء کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

موضوع کاتعارف      

 حدیث مبارکہ، سیرت طیبہ اور تاریخی روایات کے  بیان کرنے کے مقاصد   ، رد و قبول کے اصول و ضوابط الگ الگ ہیں ۔ قرون اولی کے علماء نے  اپنے میدان کے  مطابق ان تینوں مضامین کے لیے مستقل اصول و ضوابط   مرتب کیے ہیں ۔   سیرت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسا موضوع ہے جو من وجہ سیرت کا حصہ ہے اور من وجہ تاریخ کا حصہ ہے ،  چنانچہ جب بھی سیرت صحابہ کے حوالہ سے بحث  ہو تو ضروری ہے کہ سیرت و تاریخ  کی روایات کے روایتی معیار اور رد و قبول کے اصول  و ضوابط کے تناظر میں  بحث کی جائے ۔ سیرت النبی ﷺاورسیرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے اہم عنوانات پر سیرت نگاروں ،علماء ،محققین اورتاریخ دانوں نے نہایت گراں قدر خدمات سرانجام دیں ہیں اور عرق ریزی سے معلومات کوجمع کیاجس کی وجہ سےہم صحیح معنوں میں  سیرت النبیﷺاورکردارصحابہ رضی اللہ عنہم سے روشناس ہوسکے،لیکن بدقسمتی سے بعض مصنفین نے صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے بارے میں کچھ ایسی روایات اوربے بنیاد تاریخی حوالوں کو بھی اپنی تصانیف میں جمع کردیا ہے جواس مقدس جماعت کےلائق شان نہیں اور ان سیرت و تاریخ کی روایات کے اصول و ضوابط پر پورا نہیں اترتی ۔

 موجودہ دورکے جید مؤرخین  نے سیرت و تاریخ  کی تصانیف و تالیفات کے مقدمہ میں سیرت صحابہ پر بے مثال کام کیا ہے ، ان  کی تالیفات  میں اصلا  تو سیرت طیبہ ، سیرت خلفائے راشدین و صحابہ اور صحابہ کرام  کے اہل بیت اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ تعلقات و روابط پر تحقیقی کام کیا ہے لیکن ابتداء میں بھی (مقدمہ میں)   اور ضمنا بھی  سیرت و تاریخ کے اصول روایت  پر سیر حاصل گفتگو کی ہے   اور کوشش کی ہے وہ تمام اصول سامنے لائیں جو معیاری بھی ہوں ،  مسلّمہ بھی ہوں،  سیرت و کردار ِ صحابہ میں اور مشاجرات صحابہ میں توازن و اعتدال کی راہ ہموار کرنے والے ہوں ۔  آئندہ کی سطور میں  معاصر مؤرخین مثلا مولانا شبلی نعمانی ( متوفی: 1913ء) ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی (متوفی: 1985ء)  اور مولانا نافع ؒ    (متوفی: 2014ء) کی جانب سے بیان کردہ  اصول سیرت و تاریخ  کا خصوصی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے اس سلسلہ میں کوشش  یہ کی جائے گی کہ واضح ہو کہ اس موضوع میں اعتدال کی راہ کیسے اختیار کی جا سکتی ہے، ناموس  اہل ِ بیت و صحابہ کرام کیسے قائم رہ سکتی ہے   اور ایسی روایات سے کیسے  بچا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں  اہل ِ بیت یا ذات صحابہ پر کوئی حرف  نہ آئے یا تفرقہ کا عنصر پیدا نہ  ہو سکے ۔ 

روایات کاتجزیاتی مطالعہ

سیرت النبی ﷺہویا سیرت صحابہ کرام ؓان نفوس قدسیہ کے بارے میں جو روایت یا جو واقعہ بھی نقل کیاجائے وہ تعلیمات ِقرآنی ،سنت مشہورہ اورمسلمہ حقائق کے مطابق ہوحتی المقدور باسند متقدمین ،متاخرین اورمصنفین سے رہنمائی لی جائے ۔اس مذکورہ بحث میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے نزدیک سب سے معتبر مآخذ قرآن کریم ہے جس کی محفوظیت میں کوئی شک نہیں ۔

صداقت حدیث پرکھنے کامعیار

 

احادیث کی جانچ پڑتال اورصداقت کوناپنے کی سب سے بڑی کسوٹی قرآن کریم ہےجواللہ رب العزت کے وعدے کے ساتھ پوری محفوظیت کےساتھ ہم تک پہنچاہے شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہی ہے اسی معیار پر احادیث کی قبولیت کافیصلہ ہوتاہے ملت اسلامیہ کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ احادیث کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن پاک ہے جو اس معیارپر پوری اترے گی وہ واجب العمل ہوگی اورقابل تقلیدہوگی۔

"یہی وہ معیار ہے جس کا فیصلہ خود رسول اکرمﷺنے کیا ہے ،آپﷺنے ارشاد فرمایاکہ میراقول خدا کے قول کو رد    نہیں کرسکتامگرخداکا قول میرے قول کو رد کرسکتاہے"[1]

احادیث کی وضعیت سے بچنے کےلئےعلماءمحدثین نےراویوں کاچال چلن پرکھنا ضروری سمجھاکیونکہ یہ محاسبہ متن کی صحت کےلئے ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ایک ایسی حدیث وضع کرلی جائے جو قرآن کی مخالفت کی بجائے تائیدمیں ہوتب بھی اسے بطورحدیث  قبول نہیں کیاجاسکتاکیونکہ اس قسم کے اقوال احادیث نبی اکرم ﷺکا درجہ نہیں پاسکتےاس میں بہت زیادہ چھا ن پھٹک کی ضرورت ہے اورراویوں کاچال چلن ،عدالت وضبط کاپرکھناانتہائی لازم ہے۔[2]

فن اسماء الرجال کی ابتدا

احکامات اسلامی،سنت وسیرت نبویﷺ،سیرت صحابہ ؓاورقرون اولیٰ کے بہت سے اہم واقعات سو برس  یا  اس کے بھی بعد قلم بند ہوئےتو مصنفین کودقت کا سامناتھاکہ کمزوروقوی دونوں قسم کی روایتوں  میں فرق کیسے واضح کیا جائےکیونکہ اسلام راست بازی اورسچائی کی تعلیم دیتا ہےجبکہ دوسری قوموں نے اس بات کا اہتمام نہ کیا توآ ج ان کی ہر بات مشکوک ہے تو مسلمانوں نے سیرت نبوی ﷺ،سیرت صحابہ ؓاورقرون اولیٰ کےواقعات قلم بند کرنے کےلئے  جو معیا رمقرر کیاوہ بہت اعلیٰ ہےاس میں روایوں پربہت زیادہ تحقیق کی گئی اس تحقیق میں علماءنے  اپنی پوری پوری زندگی لگادی اس کےلئےاسماء الرجال کا فن ایجاد ہواجس کے ذریعے آج ہمیں پانچ لاکھ راویوں کے حالات معلوم ہیں ۔[3] 

لیکن اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ مسلمانوں نے رجال پر بھروسہ محض کر کے سند ہی کی بنیاد پر روایات قبول کرنے کا تہیا کر لیا  بلکہ علم روایت  کو معتمدبہ حصہ دے کر اس کے ساتھ ساتھ علم درایت کو بھی اپنایا ۔

علم درایت کی ابتداء

یہ وہ علم ہے جس میں روایات  کے مضمون اورمتن پرعلماء محدثین  ، سیرت نگاروں اورر مؤرخین تنقیداوربحث کرتے ہیں حقیقت حال یہ ہے کہ قرآن مجید ہی نے درایت کے اصول قائم کیےجیسے جیسے احادیث جمع کی جانے لگیں علماء محدثین نے درایت  کےاصول وقوانین بھی منضبط کیے انضباط کے ان اصول وضوابط کی ابتداء صحابہ کرام کے دورمیں ہوچکی تھی ایسی روایات جوقرآن کریم ،کسی دوسری مضبوط روایت ،کسی مسلمہ حقیقت یامستنداورمعتبرتاریخی واقعہ کے خلاف ہوں تودرایت کے اصول کے تحت قابل تقلیدنہ ہوں گی خلاصہ کلام یہ کہ جوروایت عقل اوراصول مسلّمہ کے خلاف ہوتوسمجھ لیناچاہیے کہ یہ مصنوعی ہے اس میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ روای معتبر ہے یانہیں جیساکہ پہلے بیان کیا گیاکہ درایت کی ابتداخودقرآن نے قائم کی مثلاً [4]۔                                        

"قرآن مجیدکی آیتیں حضرت عائشہ ؓکی برات اورطہارت کے متعلق جو نازل ہوئیں ان میں ایک یہ ہے

وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ

                   اورجب تم نے سناتویہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کو ایسی بات بولنا                مناسب نہیں سبحان اللہ یہ بڑا بہتان ہے۔

اس عام اصول کی بنا پر اس خبر کی تحقیق کایہ طریقہ تھا کہ پہلے راویوں کے نام دریافت کئے جاتے پھر دیکھا جاتا کہ وہ ثقہ اورصحیح الروایتہ ہیں یا نہیں ؟پھر ان کی شہادت لی جاتی ،لیکن خدانے اس آیت میں فرمایاکہ سننے کے ساتھ تم نے کیوں نہیں    کہہ دیا کہ یہ بہتان ہے۔اس سے قطعاًثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کا خلاف قیاس جوواقعہ بیا ن کیا جائے قطعاًسمجھ لینا چاہئےکہ غلط ہے اس طرز تحقیق یعنی درایت کی ابتداء خود صحابہ ؓکے عہد میں ہوچکی تھی"[5]

 

اہل اسلام نےدرایت کے یہ اصول ہرہر مقام پر اپنائے رکھے اسی وجہ سے ہمارے عقائدکوطہارت ،عبادات کوشرف قبولیت اورمسائل کوبالیدگی ملی کیونکہ ہم نےہرقسم کی عصبیت اورتمع ولالچ کاخاتمہ کرکےاللہ تبارک تعالیٰ کے احکامات اورفرامین رسول اللہ کومقدم جانااوراپنے ہرمسئلہ اورمعاملے کواسی کسوٹی  پرپرکھا۔ اسی طرح ہم نے اپنی تاریخ کو بھی ہرطرح کی خرافات اورلغوآمیزش سے پاک رکھنے کا اہتمام کیا۔

"اسلامی تاریخ کی عظمت وہیبت اس وقت اوربھی قلب پر طاری ہوجاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہےکہ اسلامی تاریخ کے جس حصہ کوچاہیں اصول درایت پر پرکھ کر اورعلوم عقلیہ کی کسوٹی پر کس لیں ،کوئی کھو ٹ کوئی سقم کسی جگہ نظر نہیں آسکتا"[6]

1۔روایت کے علاوہ درایت پر مولانا سعید اکبر آبادی ؒ کا موقف

آپ فرماتے ہیں کہ عہد ِنبوت اورعہد صدیق اکبرؓکے حالات ہم تک کتب حدیث اور تاریخ وسیر ت کی کتابوں کے ذریعے پہنچے ہیں یقینی بات ہے ہمارے نزدیک مقد م احادیث نبویہ ہیں ممکن حد تک احادیث صحیحہ سے مدد لیتے ہیں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک احادیث وہ ہیں کہ جن میں تاریخی واقعات کو بیا ن کیا گیا ہے اوردوسری وہ ہیں جن میں کوئی شرعی حکم لاگو کیا گیا یا اس سلسلہ میں آقاعلیہ السلام کا کوئی قول عمل بیان کیا گیا۔انسان اپنی فطرتوں اورمزاجوں کے اعتبار سےمختلف ہوتے ہیں

ظاہری سی بات ہے یہ اوصاف صحابہ کرام میں بھی موجودتھے اس لئے بعض معاملات میں صحابہ کرام ؓ کا مختلف الرائے ہوجانا کوئی اچنبھاکی بات نہیں لیکن اصل حقائق تک پہنچنا ایک راسخ العلم محقق کا ہی کام ہے آپ ؒنے یہاں اصول روایت کےساتھ ساتھ اصول درایت کی جانب بھی توجہ دلائی۔[7]

"اس بناپراس نوع کی احایث سے استدلال کرتے وقت ایک صاحب تحقیق کا فرض ہے کہ اصول روایت کے علاوہ درایت       کے ان         اصول کو بھی پیش نظر رکھے۔

(1)واقعہ کا جو اصل راوی ہے اس کے تعلقات صاحبِ واقعہ یعنی جس کے متعلق وہ واقعہ بیان کیا گیا ہے اُس کےساتھ کس قسم کےتھے       ۔

(2)جو واقعہ اُس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کیا اُس کے مسلمہ اوصاف وکمالات کے پیش نظر اس واقعہ کا صدور اُس سے ہوسکتا تھا                        ۔

 (3)نفس واقعہ کی نوعیت کیا ہے ؟صاحبِ واقعہ کی شخصیت سے قطع نظر کیا وہ واقعہ اس ماحول میں پیش آسکتا تھا۔ (4)اگرواقعہ کو صحیح مان لیا جائےجائےتوطبعاًاس پر نتائج مرتب ہونے چاہئیں وہ ہوئے یا نہیں"

ان معروضا ت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ احادیث صحیحہ کی بیان کردہ وہ احادیث اگر خلاف واقعہ ہوں یا ان پر عمل متروک ہوچکا ہوتو حدیث کی حیثیت اپنی جگہ مسلّم لیکن عمل نص قرآنی ،سنت مشہورہ اورمسلمہ حقائق کےمطابق کیا جائے گالیکن ان حقائق تک ایک راسخ العلم عالم اورمحقق ہی پہنچ سکتا ہے  جیساکہ مولاناسعید اکبر آبادی ؒ نے بھی بیان فرمایا کہ ایک نکتہ رس ہی اصل حقیقت تک پہنچ سکتا ہے کہ جو روایت بیان کی جارہی ہے اس میں کس حد تک صداقت ہے اورکتنی بات مخاصمت اورحسن ظن نہ ہونے کی وجہ سے جگہ پاگئی ہے۔

مزید مولاناسعید احمد اکبر آبادی ؒ اپنے مؤقف کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں کہ اس حقیقت سے کوئی سلیم الفطرت مسلمان انکار نہیں کرسکتا کہ صحیحین  کا مرتبہ کتب احادیث میں سب سے اعلیٰ ہے لیکن یہ مرتبہ کثیر العدد اورمجموعی حیثیت کی وجہ سے ہے اوربتلانا مقصود یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ جو حدیث احادیث صحیحہ کی کتب میں بیان کی گئی ہے دیگر کتب احادیث سے زیادہ اعلیٰ اورزیادہ صحیح ہے اگرمسلمہ حقائق اگر غیر صحیح کےساتھ زیادہ جامع ہیں تو پھر یقیناًاس کوترجیح دی جائے گی مثلاًبعض مقامات پرحضرت علی ؓکی سیدنا صدیق اکبرؓ کی بیعت خلافت کو حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کےچھ ماہ بعدبیان کیا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ اس حدیث کو ؓصحیح بخاری میں حضرت عائشتہ الصدیقہ سے منقول بیان کیا گیا ہے جب کہ دیگر کتب احادیث میں حضرت علی ؓ کی بعیت کے بارے میں بیان کیاجاتا ہےکہ آپؓ نے بعیت عامہ کے دن ہی حضرت ابوبکر ؓسے بعیت کی اب اگر وجوہات قبول غیر صحیح روایت کے ساتھ زیادہ ہوں تو اسی کو قبول کیاجائےگا۔[8]

تیسری بات مولاناسعید اکبر آبادی یہ فرماتے ہیں کہ نقد وجرح کے جو اصول تاریخی واقعات پر لا گوکئے جاتے ہیں اس کا اطلاق کسی صحیح حدیث میں بیان کئے جانے والے واقع پر بھی ہونا چاہئے اگرچہ اس روایت کو صحیحین میں بیان کیا گیا ہوایساممکن ہے کہ راوی کو واقع سے متعلق اشتباہ پیش آگیا ہواب ایک مور خ کی ذمہ داری ہے کہ وہ روایت کو نقد وجرح کی کسوٹی پر پرکھے محض ا س پر اکتفا نہ کرے کے کسی معتبر کتاب کی روایت ہے یاکسی معتبر شخصیت کی روایت ہے۔[9]

2-مولانا نافع ؒ         کامنہج استدلال

حضرت مولانا محمد نافع ؒکی تصانیف کامطالعہ کرنےوالا قاری اس بات سے باخوبی واقف  ہےکہ مولاناباسند اوربادلیل گفتگوکے عادی تھےآپ حتی المقدورنصوص قرآنی اورسنت مشہورہ کے مطابق واقعات کو سامنے لاتےہیں اس کے ساتھ ساتھ خلفائے ثلاثہ کے متعلق کسی موقف میں روایت بیان کرتے ہیں توحضرت علی ؓاور ان کے خاندان کے افراد سے مروی روایت ضرور بیان کرتے ہیں پھر باسند متقدمین کی گفتگو کو بیان فرماتے اورمتاخرین کو تائید کےلئے لاتےہیں آپ کی کتاب"رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ" میں واضح ہےکہ صحابہ کرام کی الفت ومحبت کے واقعات کااستدلال آپ ؒ نے قرآن کریم سے کیااور درایت کی دعوت فکراس انداز میں دی کہ تمام روایات ،تاریخی واقعات اورحقائق کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھاجائے جیساکہ آپ چندتمہیدی امور میں فرماتے ہیں کہ:

"جب ہمارے دعویٰ کی اصل دلیل (نصوص قرآنی وآیات فرقانی )ہیں تویہاں مقام استدلال میں وہی روایات قابل تسلیم اورلائق قبول ہوں گی (جو نص قرآنی اورسنت مشہورہ کے مطابق ہوں اورجن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باہمی   الفت واخوت،رافت وعطوفت کے واقعات درج ہوں اورجن میں محبت ویگانگت اوردوستی وآشتی کے حالات                مذکور ہوں "[10]

مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں واضح ہے کہ صحابہ کرام ؓکے باہمی تعلقات اورروابط کے واقعات کا استدلال قرآن کریم کے حکم ‘‘رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ"کرتے ہوئے مولانا محمد نافع ؒ  نے واشگاف الفاظوں میں فرمایاکہ ایسی روایات جوصحابہ کرام کے درمیان مشاجرات ،تنازعات اورناراضگی کے فسانے سنانے کے لئے پیش کی جائیں درست نہیں اورپھرمزید یہ کہ جوروایات نص قرآنی اورسنت مشہورہ کے خلاف ہوں ان میں موافقت وتطبیق کی صورت بھی مفقود ہوتو  وہ قابل رد ہوں گی یہی وہ بنیادی قاعدہ اوراصول ہے جو اہل سنت اور اہل تشیع کے نزدیک تسلیم شدہ ہےکہ جو روایت نص قرآنی اورسنت مشہورہ کےخلاف ہواوران میں موافقت کی صورت بھی ممکن نہ ہو تو وہ روایت رد ہو گی ۔ اس کی مثال آپ ؒ اہل تشیع کی  مشہورکتاب احتجاج طبرسی سے دیتے ہیں جوکہ درج ذیل ہے۔[11]

"(فاذا اتاکم  الحدیث فاعرضوہ علی کتاب علی کتاب اللہ عزوجل وسنتی فماوافق کتاب اللہ وسنتی فخذوابہ وماخالف کتاب اللہ وسنتی فلاتاخذوابہ) "[12]

 حاصل یہ ہے کہ امام محمدباقررحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکریم ﷺنے فرمایاکہ جب تمھارے پاس کوئی حدیث پہنچے تو اس کو کتاب اللہ اورمیری       سنت پر پیش کرو،جوکتاب اللہ اورمیری سنت کے موافق ہواس کو قبول کرو اورجو کتاب اللہ اورمیری سنت کے بر خلاف ہواس  کو مت تسلیم کرو۔

توجہ کی جائے اورانہی اصول وضوابط کےآئینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت وکردار کودیکھا جائے۔

مذکورہ مسائل پر دیگر محقیقن کا مؤقف

مذکورہ بالابحث یقیناًایک طویل بحث ہے جس پر اختصار سے گفتگو کی کوشش کی ہےلیکن مذکورہ مسائل پر جو بحث مولاناسعید احمد اکبر آبادی ؒ نے اپنی کتاب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں اورمولانا محمدنافع ؒ نے اپنی کتاب" رحماءُبینہم "میں کی ہے ان حقائق کو جاننےکے لیے دیگرمعتبر کتب سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے اس لیے چند حوالاجات دیگر کتب سے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

روایت کی قبولیت اورعدم قبولیت کے اسباب

جیساکہ مولانا سعید احمداکبر آبادیؒ نے درایت پر مؤقف بیا ن کیاہےاگر ہم اس سلسلہ میں دیگر کتب کو دیکھیں تویہ اصول ضوابط ابتدا ء اسلام سے چلے آرہے ہیں اب جیساکہ بعض فقہا ء اس بات کےقائل ہیں کہ جو چیزآگ پرپکی ہوئی ہواس  کوکھانے سے وضو ٹؤٹ جاتا ہے ابن عباس ؓنے حضرت ابوہریرہ ؓکی  روایت  کودرایت کے خلاف جانا۔

" قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ، وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ» ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ  ابْنُ عَبَّاسٍ: يا أَبَا هُرَيْرَةَ،أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الدُّهْنِ؟ أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الحَمِيمِ؟"[13]

حضرت عبداللہ بن عباس ؓکے سامنے جب اس مسئلہ کوحضرت ابوہریرہ ؓنےآنحضرتﷺکی طرف منسوب کیاتو عبداللہ بن عباس ؓنے فرمایاکہ اگریہ صحیح ہےتو کیا اس صورت میں اس پانی کے پینے سے وضونہیں ٹوٹ جائے گا جوآگ پر گرم کیاگیا ہو؟یقیناًحضرت ابوہریرہ ؓکوحضرت عبداللہ بن عباس ؓ ضیعف الروایتہ نہیں سمجھتے تھے لیکن حقیقت حال یہ کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓکے نزدیک یہ روایت درایت پر پوری نہیں اترتی تھی اوریہ خیال کیا کہ حضرت ابو ہریرہؓ کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہوگی اس لئے انہوں نے یہ روایت تسلیم نہیں کی ۔اس مقام پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس قسم کی احادیث کو قبول یا عدم قبول کرنے کا جو تامل ہے  اس کا تعلق اس بات سے نہیں کہ راوی ثقہ ہے یا ثقہ نہیں اورنہ اس کا مطلب یہ کہ روایت کرنے والے پر اعتماد نہیں اسے جھوٹا یا دروغ گو سمجھا گیاہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ ثقہ راوی سے بھی حدیث کے سمجھنے میں غلطی واقع ہوسکتی ہے بعض اوقات ثقہ راویوں کی روایت سے بھی انکار کی نوبت آسکتی ہے اس کی وجہ بد اعتمادی نہیں بلکہ حسن ظن یہی ہوتا ہے کہ راوی کوسمجھنے میں غلطی ہوئی ہوگی۔[14]

اسی طرح حضرت عائشہ ؓصدیقہ کے سامنےجب حضرت عبداللہ بن عمرؓکی یہ روایت بیا ن کی گئی کہ (ان المیت لیعذّبُ ببکاء الحّی)مردوں پر نوحہ کیا جائے تو ان پر عذاب کیاجاتا ہے۔تو حضرت عائشتہ الصدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔

             "قَالَتْ: إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِّي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ، وَلَا مُكَذَّبَيْنِ، وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ،"[15]

تم لوگ نہ خود جھوٹے ہو  نہ تمھارے راوی جھوٹے ہیں لیکن کان غلطی کرجاتاہے

متعدد مواقع ایسے ہیں جب واقعات کی چھان پھٹک اورمسائل کے استنباط کرتے ہوئے  احادیث صحیحہ کی کتابوں کی احادیث کو چھوڑ دیا گیا اوردیگر احادیث کی کتب کی حدیث کو قبول کرلیا گیا جو نصوص قرآنی ،سنت مشہورہ اورمسلمہ حقائق کے مطابق تھیں یاجن پر اجماع امت ہوگیاہواب جیسامثلاًبخاری شریف کی حدیث ہے۔

"عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فَلَمْ يُمْنِ؟ قَالَ: عُثْمَانُ: «يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُلِلصَّلاَةِ وَيَغْسِلُ ذَكَرَهُ»"[16]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سےپوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہمبستر ہولیکن انزال نہیں ہواتووہ کیاکرے؟حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ نماز کی طرح وضو کرلے اورذکر کو دھو لے۔لیکن جبکہ "اجما ع امت  یہی ہے کہ دخول کے بعد انزال ہویا نہ ہوغسل واجب ہوجاتا ہے "۔[17]

مذکورہ بحث کی روشنی میں تاریخی واقعات ،مسلمہ حقائق ہوں یاروایات غرض یہ کہ ان سب کو نص قرآنی کے موافق ہونا جیساکہ عظیم مورخ علامہ عبدالرحمان ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ:

"اس صورت میں بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ معلومات عامہ اور متعدد مآخذسے باخبر اورفکرصحیح اوراستقلال

طبعیت     بھی رکھتا ہوجو اس کو حق وصواب تک پہنچائیں اورلغزش و         اغلاط سے بچائیں ۔کیونکہ  اگرنقل وروایت پر ہی اعتبار کرلیا جائےاوراصول عادت ،قواعدسیاست ،طبیعت تمدن انسان کی اجتماعی حالت کوحکم نہ بنایاجائے ۔اورغائب کو حاضر اورحال کو ماضی پر              قیاس نہ کیا جائے تولغزش وغلطی اورشاہراہ صدق صواب سے دور                   ہوجانے کا قوی احتمال ہے"[18]

سیرت ِصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارےمیں روایات کاقبول اورعدم قبول

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں اس با ت کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے اوریہی بات کتاب صدیق اکبررضی اللہ عنہ اوررحماءُبینہم کے مصنفین نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سیرت صحابہ میں انہی روایات کو قبول کیاجاسکتاہے جوکہ احکامات ِقرآنی اورسنت مشہورہ کے خلاف نہ ہوں چاہے وہ روایات احادیث صحیحہ کی کتب سے لی گئی ہوں ۔جیساکہ محقق اہلسنت مولاناابوریحان عبدالغفورسیالکوٹی فرماتے ہیں کہ:

"صحابہ کرامؓ کی عظمتِ شان اورجلالت قدرچونکہ کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ،اجماع امت ،منقولات متواترہ اوردلائل وبراہین عقلیہ ثابت ہے اس لئے ان کے بارے میں تاریخی روایات تورہیں ایک طرف حدیثی روایات بھی صرف وہی قبول کی جائیں گی     جوان کی عظمت ِشان اورجلالت قدر کے موافق ومطابق ہوں گی رہیں وہ حدیثی روایات جن سے کسی صحابی پرکوئی حرف آتا ہو،ان کی قرآنی وحدیثی اوراجماعی عظمت شان نیزعقلی ونقلی جلالت قدر مجروح ہوتی ہوتو وہ غیر صحیح وغیر ثابت ہوں توسرے سےقابل التفات ہی نہ ہوں گی اورجو صحیح ثابت ہوں ان کی اگر کوئی مناسب ومعقول تاویل ممکن ہوتو تاویل کرلی جائے گی ورنہ وہ  حدیثی صحیح روایات بھی مردودومتروک ہوں گی"[19]

3-علامہ شبلی نعمانی ؒکے نزدیک قبولیت روایت کے اصول وضوابط

پھر اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً انہی اصول وضوابط کی پابندی پر مولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒاور مولانا محمد نافع ؒنے زور دیا ہے ۔جو اصول وضوابط ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر  اپنی کتاب اسوہ کامل محمدﷺمیں بیا ن کرتے ہیں کہ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے قبول روایت کے سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ کا جو طرزعمل پیش کیااورعلماٗئے نقد وحدیث نے جن اصول وضوابط کی پابندی کی اس سے درج ذیل نتائج اخذ کیئے  ہیں ،            

"1۔سب سے پہلے واقعہ کی تلاش قرآن مجید میں پھر احادیث صحیحہ میں پھر عام  احادیث میں کرنی چاہیے اگرنہ ملے تو روایات سیر ت                                       کی طرف توجہ کی جائے ۔

2۔                    کتب سیر ت محتاج تنقیح ہیں اوران کے روات واسنادکی تنقید لازم ہے۔

3۔      سیر ت کی روایتیں بہ اعتبار پایہ ءصحت ،احادیث کی روایتوں سے فروتر ہیں اس لیے بصورت دیگر اختلاف احادیث کی روایات                       کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی ۔        

4۔بصورت اختلاف روایات احادیث ،رواۃ ارباب حدیث فقہ کی روایات کو دوسروں پر ترجیح ہوگی۔

5 ۔سیرت کے واقعات میں سلسلہ علّت ومعلول کی  تلاش نہایت ضروری ہے۔

6۔نوعیت واقعہ کے لحاظ سے شہادت کا معیار قائم کرنا چاہیے ۔

7۔  روایات میں اصل واقعہ کس قدر ہے؟اورراوی کی ذاتی رائےوفہم کاکس قدر جزوشامل ہے۔

8۔اسباب خارجی کا کس قدراثر ہے۔                 

9۔جوروایت عام وجوہ عقلی ،مشاہدہ عام،اصول مسلمہ اورقرائن ِحال کے خلاف ہوگی لائق حجت نہ ہوگی ۔

10۔اہم موضوع پرمختلف روایات کی تطبیق وجمع سے اس کی تسلی کرلینی چاہیے کہ راوی سے ادائے مفہوم میں غلطی تو نہیں ہوئی ۔

11۔روایات احاد کو موضوع کی اہمیت اورقرائن حال کی مطابقت کے لحاظ سے قبول کرنا چاہیے۔"[20]

 

 مؤرخین کے بارے میں مولانا سعیدا کبر آبادی کا موقف

ہر صاحب علم اس بات سے باخوبی واقف ہے کہ کتب احادیث نبوی ﷺ کے بعد تاریخ کی کتب کو دوسرے درجے پر اہمیت دی جاتی ہے آپ ؒ نے اپنی اس کتاب میں کسی متقدم مؤرخ کی روایت کومحض  صر ف اس لئے قبول نہیں کیا کہ وہ مورخ زمانہ قدیم کا ہے جیسا کہ عام مصنفین کا طریقہ رہا ہے اوروہ اس پر فخر کرتے ہیں لیکن اس پر مولانا اکبرآبادیؒ کا موقف یہ رہاہےکہ ہوسکتاہےکہ کوئی مورخ متقدم کسی خاص فہم وفکر میں کوئی تعصب رکھتا ہویا وہ روایات کو چھان پھٹک کے بغیرجمع کرنےکا عادی ہواوراس متقدم مورخ کے مقابلے میں ایک بعد والا مورخ یعنی متاخر زیادہ محقق و نقاد ہواورروایت کرنے میں زیادہ محتاط ہوتو یقیناًاس  صورتحال میں ہرذی شعور یہی فیصلہ کرے گاکہ متاخر کی بات زیادہ قابل قبول ہے ۔[21]

مولاناسعیداکبرآبادیؒ اورمولانا محمدنافعؒ کے موقف میں یکسانیت ہے

مولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒ کا اپنی کتاب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اورمولانا محمد نافعؒ کا اپنی کتاب" رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ" میں موقف تقریباًالفاظوں کے معمولی ردوبدل کے ساتھ ایک جیسا ہےجیساکہ مولانا محمدنافع ؒ بیان فرماتے ہیں کہ وہی روایات تسلیم کی جائیں گی جو نص قرآنی ،سنت مشہورہ اورمسلمہ حقائق کے مطابق ہونگی اسی طرح مولانا سعید اکبر آبادی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مورخ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحابہ کرام کے بارے میں (جو ان نفوس قدسیہ کے لائق شان نہیں) محض اس لئے کسی واقعہ کو قبول نہ کرے کہ وہ احادیث کی کتب میں بیان کیا گیا ہےبلکہ اسے نقد وجرح کی کسوٹی پر پرکھے ،روایت کے ساتھ ساتھ اسے درایت کی کسوٹی پربھی پرکھےضروری نہیں کہ صحیحین کی ہر روایت دوسری کتب حدیث سے زیادہ صحیح ہے اگر وجوہ قبول دوسری حدیث میں زیا دہ ہے تو پھر اس کو قبول کرنا چاہئے۔

عجمی سازشوں کی بے نقابی

مذکورہ بالابحث پراگرگہرائی سےتحقیق وتفتیش کی جائے تویہی بات آشکارہ ہوتی ہے کہ اسلام سے خائف عجمیوں نے سازش کے تحت روایات میں ملاوٹ وتخلیط کرکے حقائق کو مسخ کرنے کوشش کی گئی اورصحابہ کرام کےر وشن کرداروں کو گہنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا انشاء اللہ آگے چل کر ہم ان کی نشاندہی ناقابل تردید دلائل سے کریں گے۔

تفرقہ اندازی کی اصل بنیادوں کی نشان دہی

 اسلام نے جہاں فکری طور پر اپنے پیروکاروں کومضبوط کیا اس کے ساتھ ساتھ ایسی قوت ایمانی بھی عطا کی جس کی بنیاد پر بے سروسامانی اور قلت افراد کے باوجود بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دی روم وفارس جیسی سلطنتوں کو پیوند خاک کیا ایسے میں جب اہل طلسم نے دیکھا فکری اور عسکری میدان میں ان کا سامنا کرنا ناممکن ہے تو       ایسے  میں اہل باطل کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ مسلمانوں کو منافقتوں اورسازشوں سے کمزورکیا جائےمرتدین کی بغاوت سے لیکر فاروق اعظم ،عثمان غنی اورحضرت علی رضی اللہ عنہم کی شہادت تک عجمی سازشوں کا نتیجہ تھا کتابوں اور روایات میں قطع وبرید کی اورجھوٹے قصے کہانیوں سے سادہ دل مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ، تو ہردور کے اہل حق اورراسخ العلوم حق وباطل کی تفریق کو واضح  کرتے چلے آئے ہیں اسی طرح موجودہ دور میں مولانا محمد نافع ؒ اسی فریضہ کی انجام دہی کےلیے میدان عمل میں نکلے اورکتاب رحماء بینہم تصنیف کی آپ ؒ نے نہایت عرق ریزی سے عجمی سازشوں کو اپنی اس تصنیف میں بے نقاب کیا ہے کہ کس طریقے سے کتابوں کی روایات میں کس طرح سے قطع وبرید کرکے اسلامی اخوت وبھائی چارہ کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کی گئی ۔[22]

روایات کی قبولیت اورعدم قبولیت پر تعلیمات رسولﷺ

روایت کی قبولیت اور عدم قبولیت کی تعلیم نبی اکرمﷺنےخودفرمائی، اس سلسلے میں خطیب البغدادی نے اپنی کتاب "الکفایہ فی علم الروایہ"میں ایک باسند روایت نقل کی ہے جوکہ درج ذیل ہے۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ          تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي "[23]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں نبی ﷺسے کہ آپ ﷺنے فرمایاکہ عن قریب میری جانب منسوب مختلف قسم کی روایتیں تمہارے پاس پہنچیں گیں جواللہ کی کتاب اورمیری سنت کےمطابق ہوں وہ صحیح ہوں  گی اورجو اللہ کی کتاب اورمیری سنت سے ٹکراتی ہوں وہ درست نہیں ہونگی۔

اہل اسلام کےلیے کتب کا ایسا مواد قابل التفات ہی نہیں جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺکے خلاف ہواورجانبین (اہل سنت وشیع) کے ہاں یہی مسلمہ اصول ہیں جن پر پرکھ کر کھرے اورکھوٹے کی پہچان ہوجاتی ہے۔

"وقال معروف بن خربوذ عن أبي الطفيل عن علي قال: حدثوا الناس بما يعرفون ودعوا ما ينكرون أتحبون أن يكذب الله ورسوله. فقد زجر الإمام علي رضي الله عنه عن رواية المنكر وحث علي التحديث بالمشهور وهذا أصل كبير في الكف عن   بث الأشياءالواهية والمنكرة من الأحاديث في الفضائل والعقائد والرقائق"[24]

 (علی رضی اللہ عنہ )فرماتے ہیں کہ معروف اورمشہورباتیں بیان کیاکرواورمنکریعنی معروف کے خلاف باتیں عوام میں بیان نہ کروکیا تمہیں ایسی باتیں محبوب ہیں جن میں اللہ اوراس کے رسول کی تکذیب ہو؟پس تحقیق ہمارے امام علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں منکر روایات کے بیان کرنے سے منع کیا اورمشہور روایات کے بیان کرنے کی تلقین فرمائی ہے ،بے بنیاد اوربے جوڑ روایات کے پھیلانے اورعام کرنے سے روکنے کےلیے بہترین اصول بیان کیے یہ روایات چاہے عقائد سے تعلق رکھتی ہوں یا فضائل یا ترغیبات سے تعلق رکھتی ہوں ، سب پر یہی اصول لاگو کرنا ضروری ہیں ۔

4.3.مشاجرت ومناقشت پرمبنی روایات کی حقیقت: بعض افراد کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح حضور ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورحضور ﷺکے قریبی رشتہ داروں میں تفریق ،مخاصمت ،مناقشت اورمشاجردکھانے کےلیے ایڑی چوٹی کازور لگایا اوراپنےان مقاصد فاسدہ کی تکمیل کےلیے ان روایات کا استعمال کیا جومحدثین کے نزدیک ازروئےاسناد صحیح نہیں یاکثرت جرح کے ساتھ مجروح ہوتے ہیں مثلاًان کے راوی دروغ گو،رافضی ،متروک ،ضعیف،کزاب یامنکرالحدیث ہوں گےپھر اگرسنداً          روایت صحیح بھی ہوتوکیاکیاجاتا ہےکہ اس روایت کا مفہوم ،الفاظ ومطالب کچھ ہوتے ہیں لیکن کیونکہ مقصد ان نفوس قدسیہ میں مشاجرت ثابت کرنا اس  لیےاس کے مفہوم ومطالب میں ردوبدل کردیتےہیں اوراس جھوٹ فریب کی ایک تیسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ روایت بھی درست ہوتی ہے اوراصل روایت کا متن بھی ٹھیک ہوتا ہےلیکن روایت میں رواۃکی جانب سے قطع وبرید کردی جاتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس قطع وبرید کو راسخ العلم اوراس فن کا ماہر ہی معلوم کرسکتاہے جو ہر ایرے غیرے کا کام نہیں متن میں ملاوٹ کی وجہ سے مضمون میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اورروایت قابل قبول نہیں رہتی۔ایسی روایات جو ناقدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جانب سے بیان کی جاتی ہیں اوران کی تشہیر کی جاتی ہے جوکہ عموماًمشاجرت ومقاطعت پر مبنی ہوتی  ہیں انہیں سن کر یا دیکھ کرجلدبازی نہیں کرنی چاہیے تھوڑی سی تلاش وجستجو سے یقیناًآپ بھی اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان روایات کا تعلق مندرجہ بالا بیان کردہ روایات کی اقسام میں سے ہوتاہے۔[25]

غیر واقعی قصوں کو بیان کرکے منافرت پھیلانا

اہل سنت والجماعت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اورآپ کے خاندان کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرابت ،مودت اورخوشگوار تعلقات رہے ہیں جو حقیقت پرمبنی ہیں جن سے احادیث کی کتب بھری پڑی ہیں اورقرآن بھی رحماءُ بینہم کی گواہی دے رہاہےکہ یہ آپس میں مہربا ن ہیں مولانامحمدنافع ؒ نے اپنی اس تصنیف کی جلداول میں حضرت علی ؓ،حضرت فاطمہؓ اورحضرت ابوبکر صدیق کے درمیان خوشگوار تعلقات اور باہمی مراسم کو روایات سے ثابت کیا ہے اورجن روایتوں میں قطع وبرید کرکے غیر واقعی چیزو ں کو ثابت کرنے   کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگایاگیا ہے، ان تمام روایتوں کی قطع وبرید کی مولانامحمدنافع ؒ  نے نشان دہی کی ہے جس میں منافر ت پھیلانے والوں نے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے نصوص صریحہ اورمسلمہ واقعات کے خلاف کام کیا ہے ۔[26]

ملاوٹ وتخلیط کردہ روایتوں کی نشاندہی

یوں توایسے بہت سے مقامات ہیں جن میں خاندان حضرت علی رضی اللہ عنہ اورخلفائے ثلاثہ ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مناقشت ومشاجرت کو ثابت کرنے کےلیے کچھ ناعاقبت اندیشوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہےلیکن چندمسائل ایسے ہیں جن پر درجنوں جلدوں میں کتابیں لکھ کر اپنے مخصوص ذہن کے مطابق ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا ہےمثلاًمسئلہ باغ فدک،بیعت خلافت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ، وغیر ہ جیسے عنوانات کو تختہ مشق بنایاگیا ان میں فریق مخالف دلیل کے طور پر جن روایا ت کو پیش کرتاہےان میں صرف وہ روایات لاتا ہے جن میں راویوں نے اپنے ظن وگمان کے مطابق بات کی ہے اوران مخصوص رواۃ کے علاوہ مناقشت ومشاجرت کی بات دیگر راویوں کی روایت  میں نہیں ملتی اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے مسئلہ فدک پر بات کریں گے جس سےان شاء اللہ با ت بالکل واضح ہوجائے گی۔

مسئلہ باغ فدک

لوگوں کے درمیان کثرت سے یہ پروپیگنڈاکیا گیا کہ نعوذباللہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خاندان  حضرت علی ؓاوررسول اللہﷺکے قرابت داروں کے مالی حقوق غصب کیے ان پر بہت زیادہ ظلم کیے اورایڑی چوٹی کا زور لگا کریہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان خاندانوں کے درمیان عداوت ودشمنی تھی ایسی صورتحا ل میں ضروری ہے کہ ان سازشوں کوبے نقاب کیا جائے تاکہ مطاعن اورشکوک وشبہات کی اصل صورتحال واضح ہے[27]۔مسئلہ فدک کا معاملہ ان نفوس قدسیہ کےدرمیان کسی قسم کے نزاع کا باعث نہیں بنااس کی اصل حقیقت اتنی ہی جیساکہ اس حدیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہے

"أَنَّ فَاطِمَةَ وَالعَبَّاسَ رَضِی‘اَللہُ عَنہُما أَتَيَا أَبَا بَكْرٍرَضِی اَللہُ عَنہُ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا، أَرْضَهُ مِنْ فَدَكٍ، وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ، فَقَالَأَبُو بَكْرٍ:سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا المَالِ» وَاللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي"[28]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ اورعباس رضی اللہ عنہماابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے فدک اورخیبرکے خمس کامطالبہ بطور میراث پیش کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی اکرم ﷺ سے سناہے آپ ﷺفرماتے ہیں کہ ہم انبیا ء (علہم السلام) کی (مالی)وراثت جاری نہیں ہوتی بلکہ ہم جوکچھ چھوڑ کررخصت ہوتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے (جو اللہ کی راہ میں وقف ہوتا ہے)لیکن آل محمدﷺاس مال سے اسی طر ح کھاتے رہیں گے(اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوگی)اللہ کی قسم حضور ﷺ کی قرابت داری مجھے اپنی قرابت داری سے زیادہ عزیز ہے۔حقیقت حال اتنی ہی ہےجتنی کہ مندرجہ ذیل روایت میں بیان کی گئی جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدینہ ، خمس خیبر،فدک کو فرمان نبوی ﷺکی وجہ سے میراث کے طور پر تقسیم نہیں کیا گیا لیکن رسول اللہ ﷺکےقرابت داروں میں مذکورہ بالاجگہوں کی آمدن اسی طرح تقسیم ہوتی  رہی جس طرح سے رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ہوتی تھی اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ رسول اللہ ﷺکے قرابت داروں کو اپنے گھروں والوں پر ہمیشہ ترجیح دی ۔کتاب الخراج لامام ابی یوسف کی اس عبارت سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

قال وحدثنی محمد بن عبدالرحمان بن ابی یعلی عن ابیہ قال :سمعت علی رضی اللہ عنہ یقول ،قلت یارسول اللہ ان رایت ان تولینی حق من الخمس فاءقسمہ فی حیاتک کی لایناز عناہ احدبعدک فافعل قال ففعل قال ففعل قال فولانیہ رسول اللہ فقسمتہ فی حیاتہ ثم ولایت ابوبکررضی اللہ عنہ فقسمتہ فی حیاتہ حتیٰ اذاکان آخرسنتہ من سنی عمرفاءتاہ مال کثیر فعذل حقناثم ارسل ابی فقال خذہ قسمہ فقلت یا میر المؤمنین بناعنہ العام غنی وبالمسلمین الیہ حاجتہ فردہ علیھم تلک السنتہ"[29]

 

مجھ سے بیان کیاعبدالرحمان بن ابی یعلیٰ کہتے ہیں میرے والد نے کہاکہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺاگر آپ ﷺ مناسب خیال کریں  توخمس میں سے ہمارے حق کو میری تولیت میں دے دیں میں آپ ﷺکی زندگی میں اسے تقسیم کردوں تاکہ آپ ﷺکے بعد ہم سے کوئی اس سلسلہ میں جھگڑا نہ کرے حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا آپ ﷺنے مجھے خمس کا والی مقررکردیااورمیں نے آپ ﷺکی زندگی مبارکہ میں اسے تقسیم کیا پھرسیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے بھی اسے میری تولیت میں دےدیااورمیں آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اسے تقسیم کرتارہاپھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا والی مجھ ہی کو بنادیا اور میں ان کی زندگی میں بھی تقسیم کرتارہایہاں تک جب سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دور کا آخری سال آیا تو انہوں نے ہمارا حق علیحدہ کیا اورپھر مجھے بلابھیجااورکہااسے لواورتقسیم کرلواس پر میں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین اس سال ہمیں اس کی ضرورت نہیں اوردوسرے مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہے لہذااسےان میں تقسیم کردیجئے چنانچہ انہوں نے وہ مال مسلمانوں میں تقسیم کی طرف منتقل کردیا۔

ملاوٹ وتخلیط والی وہ روایتیں جن سے نزاع پید اکیا گیا

کتب احادیث میں جہاں جہاں بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی خمس خیبر اورفدک کے مسئلہ پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراضگی کے الفاظ ہیں یعنی غضب ناکی کے الفاظ یا ہجران کےوہ صرف اورصرف (محمدبن مسلم بن عبید اللہ بن شہاب الزہری ) ابن شہاب زہری کی روایتوں میں ہیں مندرجہ ذیل روایت بھی اسی عنوان پر ہے جوکہ ابن شہاب زہری کی ہی روایت کردہ ہے اس مقام پر خصوصی  توجہ ضروری ہے اگر اس پہلو کو سمجھ لیاجائے تو سارا مسئلہ حل ہوتا ہے۔

"أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ فَاطِمَةَ وَالعَبَّاسَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ، أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ، وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَ،فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا المَالِ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لاَ أَدَعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلَّا صَنَعْتُهُ، قَالَ: فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ"[30]

 

رسول اکرم ﷺ سے سناہے آپ ﷺفرماتے ہیں کہ ہم انبیا (علہم السلام) کی (مالی)وراثت جاری نہیں ہوتی بلکہ ہم جوکچھ چھوڑ کررخصت ہوتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے (جو اللہ کی راہ میں وقف ہوتا ہے)لیکن آل محمدﷺاس مال سے اسی طر ح کھاتے رہیں گے(اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوگی)اللہ کی قسم میں کوئی حکم نہیں دیتا حضور ﷺ نےفیصلہ اس کےسوا نہیں کیا ۔کہا(ایک مذکرنے)فاطمہ ؓ نے انہیں چھوڑ دیاپس کلام نہ کیا یہاں تک کہ وفات پائی  ۔اس روایت میں توجہ اس جانب دلانا مقصودہے کہ قَالَ: فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ۔کہا(ایک مذکر نے)  فاطمہؓ نے انہیں(ابوبکرؓ)کو چھوڑ دیا ۔روایت کو کیونکہ حضرت عائشہؓ کے حوالے سے بیان کیا جارہاہے اگر "قال" کے بعد الفاظ اگرحضرت عائشہ ؓکے ہوتے تو"قال "مذکرکی بجائے مونث کا صیغہ آتا"قالت" ہوتا اب یہاں جو "قال" کا صیغہ استعمال ہواہے اس کا مطلب یہ ہےکہ "قال " کے بعد جتنے الفاظ ہیں یہ اضافہ کسی اورمذکرکی جانب  سے ہےاب اس چیز کی وضاحت نہیں اس "قال " کا قائل معمر بن راشد ہیں یاکوئی اورشخص یا پھر "قال "کے فاعل ابن شہاب زہری خود ہیں ۔[31]

مرویات کا مختصرتعارف

مولانا محمدنافع ؒ بیان کرتے ہیں کہ سید ناصدیق اکبررضی اللہ عنہ سے جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے فدک کی زمین اورخیبر کا خمس کا مطالبہ بطور میراث کیا مختلف باسند 36مقامات پر ان روایات حدیث اورتاریخی روایات کوبیان کیا گیا ہےجن کی تفصیل اس طرح ہے المصنف لعبدالرزاق ایک عدد ،مسلم شریف دوعدد،بخاری شریف پانچ عدد،مسند امام احمدپانچ عدد،طبقات ابن سعددوعدد،مسندابی عوانہ اسفرائینی تین عدد،ترمذی شریف دوعدد ،ابوداؤد شریف چار عدد،نسائی شریف ایک عدد،المثقی لابن جارودایک عدد،شرح المعانی الآثارطحاوی ایک عدد،مشکل الآثارطحاوی ایک عدد،السنن الکبریٰ للبیہقی چھ عدد ،فتوح البلدان بلاذری ایک عدد،تاریخ الامم والملوک لابن جریرایک عدداورتاریخ مدینہ المنورہ لابی زید عمر بن شبہ النمیری البصری۔جن 36مقامات کی روایات کی جانب کتابوں کا تعارف پیش کی گیا ہے ان میں سے گیارہ عدد روایات وہ ہیں جن میں ابن شہاب زہرہ نہیں ہیں بلکہ دیگر صحابہ اوردیگر راوی ہیں ان میں سےکسی بھی روایت میں رنجیدگی اورکشیدگی کے الفاظ نہیں ہیں ماسواان 25مقامات کے جن میں ابن شہاب زہری موجود ہیں اب ان 25میں سے تقریباً9 عدد مقامات ایسے ہیں جن میں ابن شہاب زہری موجود لیکن کشیدگی اوررنجیدگی کا ذکر نہیں اورتقریباً16مقامات ایسے ہیں جن میں رنجیدگی اورکشیدگی کے الفاظ موجود ہیں اوران میں سے ایک بھی ایسی نہیں جن میں ابن شہاب زہری موجودنہ ہو۔اوران روایتوں میں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ رنجیدگی اورکشیدگی کے لفظوں  کا اضافہ "قال "مذکر کے صیغہ کے بعد ہے نہ کہ مؤنث کے صیغہ'قالت "کے بعد اسے مولانا محمد نافع اس طرح سے واضح کیا ہےجوکہ درج ذیل ہے۔

لفظ قال کی دریافت

مذکورہ ۱۶مقامات میں (جہاں مناقشانہ کلمات پائے جاتے ہیں ) تدبر کرنےسے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ الفاظ مندرجہ     ذیل مواضع میں "قال"کے بعد مذکورہ ہوئے ہیں یعنی "قال"کا مقولہ ہیں "قالت "کا مقولہ نہیں اورحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے کلام سے خارج ہیں اس "قال "کا قائل زہری کا کوئی شاگرد ہے ،معمر بن راشد یا کوئی دوسراآدمی ۔"قال " کا فاعل خود ابن شہاب زہری ہے اورکشیدگی کے مذکورہ الفاظ اس کے اپنے فرمودات میں سے ہیں جو اصل روایات میں                     آمیخت  کردیے گئے ہیں"

جن مواضع میں "قال " کا لفظ استعمال ہوا ہے اس حوالہ سے مولانا محمد نافع ؒ نے اپنی اس کتاب میں سات کتب کی روایات کو پیش کیا ہے۔حافظ کبیرابوبکر عبدالرزاق بن ہمام ؒ المتوفی(211ھ)کتاب "المصنف"جلدخامس،امام محمدبن اسماعیل البخاریؒ جلدثانی کتاب الفرائض ،مسند ابی عوانہ جلدرابع،علامہ ابوبکراحمدبن الحسین البیہقی کی تصنیف مشہور السنن  الکبریٰ جلدسادس،مسلم شریف،تاریخ الامم والملوک  لابی جعفر محمدبن جریر طبری(المتوفی310)حافظ عماد الدین ابن کثیر ؒ کی البدایہ جلدخامس میں بخاری سے روایت نقل کی گئی ان تمام کتب کی روایات میں  " قَالَ: فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ ۔کے الفاظ موجود ہیں یعنی کشید گی اوررنجیدگی کے الفاظ "قال" کے بعد ہیں اورسند ہذا میں زہری موجود ہے۔[32]

اس حوالہ سے الکفایہ فی علم الروایہ میں ربیعہ بن ابی عبدالرحمان ( متوفی: 142ھ) (ابن شہاب زہری کے ہم عصر ہیں )اس حوالہ سے ابن شہاب زہری کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی رائے کوروایت میں ذکرنہ کریں اوراگر اپنی رائے بیان کرنا ہوتو اس میں فرق رکھا کریں عبارت درج ذیل ہے۔

"كَانَ رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ لِابْنِ شِهَابٍ: " إِنَّ حَالِي لَيْسَتْ كَحَالِكَ , فَقَالَ لَهُ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَيْفَ ذَلِكَ؟ قَالَ رَبِيعَةُ: أَنَاأَقُولُ بِرَأْيِي , مَنْ شَاءَ أَخَذَهُ فَعَمِلَ بِهِ , وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ , وَأَنْتَ تُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَحَفَّظْ فِي حَدِيثِكَ" [33]

غرض یہ کہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمان ،ابن شہاب زہری سے کہتےہیں کہ میرا حال تمہارے جیسا نہیں ابن شہاب نے ان سے کہاوہ کیسے ربیعہ نے ان سے کہاجب آپ لوگوں کو روایت بیان کریں تواپنی روایت میں اوراپنی رائے میں فرق قائم کیا کریں تاکہ لوگوں کو آپ کی رائے اورنبی اکرم ﷺ کی حدیث میں فرق معلوم ہوسکےیعنی دونوں میں تخلیط نہ ہو۔

"ناظرین باتمکین پر عیاں ہوگیا کہ ابن شہاب زہری اپنی مرویات میں اختلاط وتخلیط فرمایا کرتے تھے اس وجہ سے ان کے ہم عصرحضرات کو اس گفتگواوراس مکالمہ کی ضرورت پیش آئی ۔نیز اہل علم کے اطمینان کے لیے یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ علامہ ابن شہاب زہری کے ادراجات فی الروایات بے شمار پائے جاتے ہیں ۔بہت سے اکابر علماء مثلاًدارقطنی،طحاوی،ابن عبدالبر،بیہقی ،ابوبکر الحازی،امام نوی،جمال الدین الزیلعی،ابن کثیر ،ابن حجر عسقلانی ،جلال الدین سیوطی اورملاعلی قاری وغیرہم رحہم اللہ نے زہری کے      ادراجات                    کو تصریحاًذکر کیا ہے اوران کی عبارت کو ہم نے جمع کیا ہے"[34]

 چندتوجہ طلب مرویات

جس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض ہونا رنجیدہ ہونا اورکبیدہ خاطر ہونا بیان کیا گیا ہے بالکل اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت علی رضی اللہ عنہا کے ساتھ متعدد بار رنجیدہ ہونا ،ناراض ہونا اہل تشیع کی معتبر کتابوں میں درج ہے اس سلسلہ میں مولانا محمد نافع ؒ نےاپنی کتاب رحماءُبینہم میں اہل تشیع کی کتب سے چار واقعات  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہونے کے درج کیے ہیں ۔(1) اہل تشیع کی مشہور تصنیف علل الشرائع  جسے معروف عالم شیخ صدوق نے بیان کیا (2)ملاباقر مجلسی کی تصنیف بحارالانوارجلددہم (3)الامالی للشیخ الطوسی جزثانی(4) شیخ صدوق ابن بابویہ القمی کی علل الشرائع باب نمبر 148ص185۔186،طبع جدید۔مولانامحمد نافع ؒ نے علل شرائع کی کتا ب صفح نمبر185،186باب نمبر148 طبع جدید عراق  سے جو حوالہ پیش کیا ہے اس کی تفصیل اس طرح ایک بدبخت آدمی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بتلایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی لڑکی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں منگنی کا خطبہ ہوچکا ہے عورتوں میں فطرتاًاللہ تعالی ٰ نے یہ جزبہ رکھا ہےاس وجہ سے حضرت فاطمہ سخت رنجیدہ ہوئیں اسی پر یشانی اورغمناکی میں صبح سے شام ہوئی شام کے وقت حضرت حسن وحسین اورام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ساتھ ملاکر اپنے والد صاحب دراقدس کے گھر تشریف لے آئیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب گھر تشریف لائے اورخاتون جنت اوربچوں کو گھرمیں نہ پایا تو بہت فکر مند ہوئے انہیں یہ بات اچھی نہ لگی تو مسجد میں جاکر لیٹ گئے اورجب ساراواقعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضو ر ﷺکو سنایا اورفاطمہ رضی اللہ عنہا کی رنجیدگی اورغمناکی دیکھی تو کپڑے پہن کر مسجد میں تشریف لے گئے اور اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگئےا وراللہ تبارک تعالیٰ سے دعاکی کہ اے اللہ اس رنجیدگی اورغمناکی کو دور کردے اوربچوں کو ساتھ لیکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئےآپ ﷺنے ان کے پاؤں پر پاؤں رکھ کربیدار کیا اورفرمایا قم یا اباتراب!آرام کرنے والوں کو تونے بے قرار کردیا ہے (اورفرمایا) کہ جاؤابوبکر ،عمر اورطلحہ کو بلاکر لے آؤحضرت علی ان تینوں کو بلالائے نبی اکرم ﷺکی خدمت میں جب یہ سب جمع ہوگئے تو آپ ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متوجہ کرکے ارشاد فرمایا کہ یاعلی اماعلمت ان فاطمہ بضعۃ منی وانامنھافمن اذاھافقداذانی ومن اذانی فقد اذااللہ ۔   ۔       ۔     ۔فقال علی بلی یارسول اللہ اے علی کیا آپ نہیں جانتے کہ فاطمہ میر جسم کا ٹکڑاہے میری اولاد ہے جس نے اسے دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا ،جس نے مجھ دکھ دیا اس نے اللہ کو دکھ دیا توعلی رضی اللہ عنہ نے عر ض کیا جی رسول اللہ سچ فرماتے ہیں اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے معذرت کی ۔رنجیدگی کے یہ واقعات اہلسنت کی کتب میں موجود ہیں ابوجہل کی لڑکی کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا منگنی وخطبہ کا واقعہ اس طرح مولانامحمد نافع ؒ نے بخاری شریف کی جلد ثانی ص 787اورجلداول ص528کاحوالہ پیش کیا ہےکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ،نبی اکرم ﷺکے پاس ناراض ہوکر آئیں اورآپ ﷺ کو اس بات کا بڑا رنج ہوا آپ ﷺنے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں اس بات کی کسی طرح اجازت نہیں دے سکتااگر علی وہاں نکا ح کرنا چاہتے ہیں تو میر ی بیٹی کوطلاق دے دیں ۔اللہ کے دشمن کی بیٹی (ابوجہل کی لڑکی ) اوراللہ کے رسول کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں ۔ فاطمہ میرے جسم کاٹکڑا ہیں جو با ت اس کو بری لگتی ہےوہ مجھے بھی بری لگتی ہے اورجو بات اس کو دکھ دیتی ہے وہ مجھے بھی دکھ دیتی ہے۔

"فانماھی بضعتہ منی یریبنی ماارابھاویوذینی مااذاھا"[35]  پھر اسی طرح بخاری شریف کی ایک اورحدیث ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کاابوجہل کی بیٹی سے شادی کا واقعہ بیان ہواجوکہ در ج ذیل ہے۔

إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔"[36]

بے شک علی بن ابی طالب نے فاطمہ پر ابوجہل کی بیٹی کوپیغام نکاح بھیجا پس میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا کہ آپ ﷺاس بارے میں منبر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اورمیں اس دن بالغ تھا ۔آپ ﷺنے فرمایابے شک فاطمہ مجھ سے ہے اورمیں خوف کھا تا ہوں کہ ان کو ان کےدین کے بارے میں فتنہ میں ڈالا جائے گا ۔پھر آپ ﷺنے بنوعبدالشمس سے اپنادامادگی کا رشتہ ذکر فرمایا اوراپنی ان کے ساتھ دامادگی کے رشتہ کی تعریف فرمائی آپ ﷺنے فرمایا اس نے مجھ سے بات کی تو مجھ سے سچ بولااورمجھ سے وعدہ کیا تو مجھ سے پورا کیا اورمیں کسی حلال کو حرام نہیں کرتا اورکسی حرام کو حلال نہیں کرتا لیکن اللہ کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اوراللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی جمع نہیں ہوسکتیں ۔ بتلانا مقصود یہ ہے کہ اگربالفرض اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے رنجیدہ ہوئیں تو رنجیدگی کے الفاظ تو ان روایات میں بھی موجود ہیں بلکہ اہل تشیع کی کتب کے الفاظ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارےمیں زیادہ سخت ہیں لیکن ان رنجیدگی کے الفاظوں کو صرف سید ناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیوں بڑھاوادیاگیااگر کسی مشکوک جگہ رنجیدگی کے الفاظ ہیں تو صلح اورمودت ومحبت کےا لفاظ بھی ہیں اوران واقعات کےبعد کے ہیں ۔

مرویاتِ رضامندی

"رَوَى إِسْمَاعِيْلُ بنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: لَمَّا مرضت فاطمة أتى أبو بكر،فَاسْتَأْذَنَ فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا فَاطِمَةُ هَذَا أَبُو بَكْرٍيَسْتَأْذِنُ عَلَيْكِ. فَقَالَتْ: أَتُحِبُّ أَنْ آذَنَ لَهُ. قَالَ: نَعَمْ.قُلْتُ: عَمِلَتِ السُّنَّةَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهَا- فَلَمْ تَأْذَنْ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا إلَّا بِأَمْرِهِ.قَالَ: فَأَذِنَتْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَتَرَضَّاهَا وَقَالَ: وَاللهِ مَا تَرَكْتُ الدَّارَ وَالمَالَ وَالأَهْلَ وَالعَشِيْرَةَ إلَّا ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ وَمَرْضَاتِكُم أَهْلَ البَيْتِ. قَالَ: ثُمَّ تَرَضَّاهَا حَتَّى رَضِيَتْ" [37]

جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور(گھر کے اندر)آنے کی اجازت طلب کی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ابوبکر اند رآنے کی اجازت طلب کررہےہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ااگر آپ پسند فرمائیں تو اجازت دے دی جائے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا مجھے پسند ہےاجازت دی گئی ابوبکر رضی اللہ عنہ اندرتشریف لائے اوررضامند ی چاہنے کے لیے بات کرنے لگے کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ ﷺکی رضامندی حاصل کرنے کےلیے  ہم نے اپنا گھر مال وزراورعزیز واقارب کو چھوڑا(آپ کا) کلام جاری تھا کہ یہاں تک فاطمہ رضی اللہ عنہا(حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ) سے رضامند ہوگئیں۔اس کے ساتھ ساتھ مولانا محمد نافعؒ نے اپنی کتاب رحماء بینہم میں مذکورہ مسئلہ پر اہل تشیع کی کتب کے حوالے بھی پیش کیے ہیں ان میں سے ایک پیش نظر ہے جوکہ درۃ نجفیہ شرح نہج البلاغہ ص331،332تالیف ابرہیم بن حاجی حسین بن علی بن الغفارالدنبلی تاریخ تصنیف ہذا1291ھ طبع ایران سے لیا گیا ہے ۔

 

"وذالک ان لک مالابیک کان رسول اللہ ﷺیاخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل منہ فی سبیل اللہ ولک علی اللہ ان اصنع بھاکما کان یصنع فرضیت بذالک واخذت العھدعلیہ بہ"[38]

یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ( اس مسئلہ میں اطمینان دلاتے ہوئے ) کہا کہ آپ کے والدمحترم کے لئے برحق تھا وہی حق آپ کےلیے ثابت ہے حضور علیہ السلام "فدک " کی آمد سے تمہارے اخراجات لیتے  تھےاورباقی ضرورت مندوں لوگو ں میں تقسیم کردیتے تھے اوراللہ کے راستہ میں اس سے سواری وغیر ہ تیا رکرتے تھے اوراللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر مجھ پر آپ کا حق ہے کہ فدک کے متعلق میں وہی طریق کا رجاری رکھوں جس طرح نبی کریم   ﷺرکھتے تھے پس اس معاملہ فدک کے متعلق فاطمہ رضی اللہ عنہاراضی اورخوش ہوگئیں اوراس چیز پر فاطمہ رضی اللہ عنہانے ابوبکر رضی اللہ       عنہ سے پختہ وعدہ اور عہد لیا   

مذکورہ مسائل پر دونوں کتب کا تقابل

مذکورہ مسائل پر مولانامحمد نافع ؒ کی کتاب "رحماء بینہم" کی پہلی جلد اورمولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒ کی کتاب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ مسائل پر اگر تقابل کیا  جائے تو دونوں کے موقف میں یکسانیت ہے اوردونوں نے ان مذکورہ مسائل پر بحث کی ہے ۔مولانا سیعد احمد اکبر آبادی ؒ نے ان پر مختصر لیکن جامع گفتگو کی ، بخاری شریف کی ایک روایت جوکہ سیدنا صدیق اکبر رضی  اللہ عنہ کی بیعت خلافت کے حوالے سےہے  جسےابن شہاب زہری نے بیا ن کیا ہے اس بارے میں مولانا سعید اکبر آبادی ؒ   نےضعیف قرار دیا ہے کیو نکہ زہری نے اس کی سند بیان نہیں کی اس کے علاوہ اس روایت کا یہ جز باقی روایات کے خلاف ہے کہ بنوہاشم میں سے کسی نے بیعت نہیں کی روایت درج ذیل ہے ۔

"حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن شہاب سےعروہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پا س کے پیغام بھیجا کہ وہ چیزیں جو کہ اللہ تعالی ٰ نے رسول اللہ ﷺکو مدینہ میں عطا کی تھیں اورفدک وخیبر کا جو کچھ بچا ہوا ہےان میں سے جو میری میرا ث ہےمجھےدے دی جائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشادہے کہ ہمار ا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اورمحمد کے اکارب بھی اس میں سے کھائیں گے اللہ کی قسم آنحضرت ﷺکاصدقہ آپکی حیات مبارکہ میں جس صورت میں تھا میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا اورمیں اس بارے میں وہی عمل کروں گا جو آنحضرت ﷺ کا عمل تھا یہ فرما کر حضرت فاطمہ کو ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز دینے سے انکار کیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوگئیں اوران کو چھوڑ دیا اوروفات پانے تک ان سے کلام نہ کیا نبی اکرم ﷺ کی وفات مبارکہ کے چھ ماہ بعد تک حضرت فاطمہ حیات رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رات کے وقت ان کی تدفین کردی اورابوبکر کو بے خبر رکھا اورحضرت علی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی حضرت فاطمہ کی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بڑاوقار تھا لیکن حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اب ان کی لوگوں میں پہلے جیسی بات نہیں رہی اس پر انہوں نے ان سے صلح اوربیعت کرنی چاہی ان مہینوں میں حضرت علی نے بیعت نہیں کی تھی اس لیے حضرت علی نے حضرت ابوبکر کو اپنے گھر بلایا اوریہ تنبیہ کی کہ ساتھ کوئی نہ آئے اس لیے کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کر رہے تھے کہ عمر ان کے ساتھ آئیں چنانچہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کو مشورہ دیا کہ وہ اکیلے نہ جائیں ابوبکر نے فرمایا کہ مجھے ان سے یہ توقع نہیں کہ وہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں ۔اللہ کی قسم میں ان کے پاس ضرور جاؤں گااس لیے ابوبکر ان سے ملنے آئے تو حضرت علی نے کلمہ شہادت پڑھ اورکہا ہم آپ کی فضیلت اورجس قدر اللہ نے آپ کو دیا اسکوجانتے ہیں اورجو (خلافت ) اللہ نے آپ کو عطا کی ہے ہم اس میں آپ کی حرص نہیں کرتے لیکن آپ نے خلافت کامعاملہ خود ہی طے کرلیا جب حضور ﷺ کی قرابت کی وجہ سے ہم اس میں اپنا حصہ جانتے تھے یہ بات سن کر ابوبکر رونے لگے اورپھرکہنا شروع کیا جس اللہ کے قبضہ میں میری جان ہے اس ذات کی قسم مجھے نبی اکرم ﷺ کی قرابت اپنے اعزہ کی صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے اورجو اختلاف میرے اورتمہارے درمیان واقع ہوگیا ہے تو میں نے اچھائی کرنے میں کوئی کمی نہیں رکھی اورمیں نے کوئی بھی  کام رسول اللہ ﷺکے خلاف نہیں کیا یہ سن کر حضرت علی نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ آپ دپہر  کے بعد بیعت کے لیے آئیے پھر جب حضرت ابوبکر نماز ظہر ادا کرچکے اورآپ نے کلمہ تشہد پڑھا اورحضرت علی کا گمان اوران کی بیعت سے علیحدگی اوراس کا عذر انہوں نے بیان فرمایاپھر استغفار ادا کیا اوراس کے بعد حضرت علی نے کلمہ شہادت پڑھاابوبکر کے بڑائی کے حق کو بیان فرمایاانہوں کہاکہ میں نے جوکچھ کہا اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں حضرت ابوبکر سے حسد کرتا تھا اورجو  انعامات اللہ نے انہیں دیے ہیں ان کا انکاری تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ خلافت کے سلسلہ میں ہم بھی اپنا حصہ سمجھتے تھے اس سلسلہ میں ابوبکر نے ہم سے بات ہی نہ کی اس بات کا ہمیں افسوس تھا یہ سن کر سب مسلمان خوش ہوئے اورانہوں نے کہا آپ نے ٹھیک فرمایامسلمان حضرت علی سے قریب ہوگئے جب وہ امر بالمعروف کی جانب پلٹ آئے۔اس روایت کو ابن شہاب زہری نے روایت کیا ہے ان کے بارے میں تقریباًانہی خدشات اوراحتمالات کاذکر مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے کیا ہے جوکہ مولانا محمد نافع ؒ نے کیا ہے مولانا سعید اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم میں بھی اس کے علاوہ زہری  ہی سے روایت ہے کہ کسی شخص نے ان سے ذکر کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی  اللہ عنہا کی وفات تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی توا نہوں نے یہ کہا کہ صرف حضرت علی نہیں بلکہ بنو ہاشم میں سے کسی نے بھی نہیں کی جبکہ حافظ ابن حجرنے اسے بیہقی سے نقل کیا ہےکہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ زہری نے اس کی سند بیان نہیں کی۔بیہقی نے اس روایت کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ بھی بیان ہے کہ اس روایت کے علاوہ یہ جز بھی تمام روایات کے خلاف ہے کہ بنوہاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی ۔[39]

نتائج تحقیق

مولاناسعیدا کبرآبادیؒ کی تصنیف"صدیق اکبررضی اللہ عنہ"اورمولانامحمدنافعؒ کی تصنیف"رُحماءُ بینہم"دونوں کتب موضوعات ،مضامین اورمستنددلائل کے حوالے سے شہرہ آفاق ہیں۔مذکورہ دونوں مصنفین  کاکتب تصنیف  کرنےکا مقصدمتلاشیان حق تک مستنددلائل ومآخذ کی روشنی میں خلفائے راشدین خصوصاًسیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کاروشن کردارآشکارہ کرناہے اوران روایات وتاریخی حوالوں کی حقیقت کو بیان کرنا ہےجن ملاوٹ وتخلیط شدہ روایتوں اورتاریخی حوالوں کو آڑبنا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مشاجرت کی کیفیات  کے تاثرات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہےجبکہ یہ روایات ان نفوس قدسیہ کے لائق شان نہیں ۔ ،مذکورہ بالادونوں کتب میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا کہ کون سی روایات قابل قبول ہیں اس عنوان پر سیر حاصل بحث کی گئی اور مستنددلائل کی روشنی میں ان روایات وتاریخی حوالوں کی  تحقیق وتفتیش سے نشاندہی کی گئی جن کی وجہ سے نزاع پید اہواپھردونوں مصنفین کے مؤقف کا دیگرمعروف محققین ومصنفین سے ہم نےموازنہ کیا تودیگر مصنفین کا بھی قریب قریب یہی نظریہ اورمؤقف ہے جومولانامحمدنافع ؒ اورمولاناسعیدا کبرآبادی ؒ کا ہے۔دونوں مصنفین نےاپنے قلم کوہرطرح کی دل آزاری اورفرقہ واریت سےپاک رکھتے ہوئے خلفائے راشدین خصوصاًسیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان شکوک شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی جن کی وجہ تفریق ونزع پیداہوتا ہےاوررحُماءُبینہم (آپس میں مہربان) کے قرآنی اعلان کواجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی جوخلفائے ثلاثہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان بدرجہ اتم موجود تھا۔



[1]  ۔ واحدبخش سعیدی،تنویربخاری وغیرہ،علوم الحدیث ، اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور،لاہور ،ایورنیوبک پیلس اردوبازار،ص 241

[2] ۔  مرجع سابق ،ص  241،242                   

[3] ۔ شبلی نعمانی،سلیمان ندوی،علامہ سید،سیرت الّنبیﷺ،لاہور ، ادارہ اسلامیات دیناناتھ مینشن مال روڈ،جدیدایڈیشن،اشاعت اول جمادالثانی1423ھ ستمبر2002ء،جلد اول ص  54 

[4]  ۔   واحدبخش ، سعیدی ،تنویربخاری وغیرہ،علوم الحدیث اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور،لاہور، ایورنیوبک پیلس اردوبازار،س ن، ص  24

[5]  ۔ شبلی نعمانی ،سلیمان ندوی ،سیرت الّنبیﷺ، جلد اول ص  54

 [6]۔  اکبرشاہ نجیب آبادی،تاریخ اسلام، جلد:اول،ص:30

[7]  ۔ سعیداحمد،مولانااکبرآبادی،صدیق اکبررضی اللہ عنہ،ص  19،18

[8] ۔  مصدرسابق،ص  21،20

 .[9] مصدرسابق،ص 19

[10] ۔ محمدنافع ،رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ،لاہور،دارالکتاب یوسف مارکیٹ،غزنی سٹریٹ اردوبازار،دسمبر2019ء،ص 51

[11] ۔ مصدر سابق، ص 50

[12] ۔ مصدرسابق ،ص 51                       

 ۔[13] الترمزی،محمد بن عیسیٰ(متوفی 279ھ)مصر،مکتبہ ومطبعہ،مصطفی البابی الحلبیی،طباعت ثانی1395ھ1975ء ،ج1، ص114

[14]۔ شبلی نعمانی،سلیمان ندوی ،سیرت الّنبیﷺ، جلداول ص 74

 ۔[15] مسلم بن حجاج ،ابوالحسن القشیری(متوفی261ھ)صحیح مسلم،بیروت ، داراِحیاء التراث العربی، باب المیت یعذب ببکاءاھلہ علیہ، حدیث نمبر،929، جلد2،  ص 641

[16]  ۔ محمدبن اسماعیل،صحیح بخاری ،جلد1 ،ص  66

[17] ۔ محمدامین  ،صفدراکاڑوی،تجلّیات صفدر،ملتان ،  ناشرمکتبہ امدادیہ ،ٹی بی ہسپتال روڈ، جلددوم،ص 201

[18]  ۔  عبدالرحمان،مقدمہ تاریخ ابن خلدون،اردوترجمہ،عبدالرحمان،دہلوی،کراچی، دارالاشاعت اردوبازار،ایم جناح روڈ،دسمبر2009ء،ص 78

  ۔[19] محمدطاہر،پروفیسرقاضی علی الہاشمی،حدیث کلابِ حواب کاتاریخی تحقیقی اورعلمی محاکمہ،حویلیاں ہزارہ،قاضی چن پیرالہاشمی اکیڈمی مرکزی جامع مسجدسیدنامعاویہ چوک،اشاعت اول،رمضان المبارک1423ھ نومبر2002ء،ص 10

[20]  ۔عبدالرؤف،ظفر،اُسؤہ کامل محمدﷺ،لاہور، میٹروپرنٹر،2009ء،ص 74

 ۔[21] سعیداحمد اکبرآبادی،صدیق اکبررضی اللہ عنہ، ص 22

[22] ۔ ،محمدنافع،رُحَمَاءُ بَینَہم،لاہور،جلداول،ص 45

 ۔[23] خطیب البغدادی،ابوبکر،احمدبن علی بن ثابت بن احمدبن مھدی(متوفی: 463ھ)الکفایۃ فی علم الروایۃ،مدینہ منورہ: المکتبۃ العلمیۃ ،ص  430

[24]  ۔الذہبی،شمس الدین،ابوعبداللہ ،محمدبن احمدبن عثمان بن قایماز(متوفی748ھ)تزکرۃ الحفاظ،بیروت :دارالکتاب العلمیہ،طباعت اولیٰ1419ھ،1998ء،جلد  اول،ص16،15

[25] ۔ محمدنافع،رُحَمَاءُ بَینَہم،جلداول،ص 104،105

[26] ۔ ایضا جلداول،ص 177

[27] ۔ مصدرسابق،جلد اول،ص 109

[28] ۔محمدبن اسماعیل،صحیح بخاری ،حدیث : 4035،جلد  5 ،ص  90

[29] ۔ ابویوسف،قاضی امام،کتاب الخراج،مترجم،نیازاحمد،مولانااکاڑوی،ص 71،72

[30] ۔ محمدبن اسماعیل،صحیح بخاری،حدیث6725،6726 ،جلد:8،ص 149

ہمیں بتلایا معمر سے زہری  سےعروہ سے عائشہ رضی اللہ عنہاسے فاطمہ اورعباس رضی اللہ عنہماحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ  عنہ کی خدمت میں آئے رسول اللہ ﷺکی طرف سےفدک کی زمین اورخیبرکے خمس کامطالبہ بطور میراث پیش کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی

[31] ۔ محمدنافع،رُحَمَاءُ بَینَہم،جلداول،ص  132

[32] ۔ ایضا  ص 139

[33] ۔ خطیب البغدادی،ابوبکراحمدبن علی  (المتوفی463ھ)الکفایہ فی علم الروایہ،ص 169

۔ [34] محمدنافع ، رُحَمَاءُ بَینَہم،جلد اول،ص 146

[35] ۔ محمدنافع،رُحَمَاءُ بَینَہم،جلداول،ص 148،152

[36] ۔ محمدبن اسماعیل،صحیح بخاری،حدیث3110،جلد 4 ،ص 83

[37]  ۔ الذہبی،شمس الدین ابوعبداللہ ،محمدبن احمدبن عثمان بن قائماز(المتوفی748ھ)سیراعلام النبلاء الحدیث،قاہرہ : دارالحدیث،طبقۃ  الاولیٰ،السابقون الاولون،فاطمہ بنت رسول اللہ ،طباعت1427ھ،2006ءجلد 3،ص 416،417

 ۔[38] محمدنافع،رُحَمَاءُ بَینَہم،جلد:اول،ص:159،158

[39] ۔ سعید احمد، اکبر آبادی،صدیق اکبررضی اللہ عنہ،ص 98،929

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index