Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Bahis Journal of Islamic Sciences > Volume 3 Issue 1 of Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

جرم وسزا کا اسلامی تصور: معاشرتی اثرات کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2022

ARI Id

1682060063251_3051

Pages

29-42

PDF URL

https://www.brjisr.com/index.php/brjisr/article/download/93/140

Chapter URL

https://www.brjisr.com/index.php/brjisr/article/view/93

Subjects

The Qur'an social system crime sin punishment. کلیدی الفاظ : قرآن معاشرتی نظام جرم گناہ سزا

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

ساری کائنات کا خالق ،مالک اور رازق اللہ تعالی ہے۔وہی اقتدار اعلی کا بلا شرکت غیرے  مالک اور انسانوں کا رب رحیم وکریم ہے۔انسانوں کے لئے قوانین حیات مقرر کرنا اسی کا اختیار کلی ہے۔اس کا قانون عدل بے گناہ افراد میں اطمینان خاطر پیدا کرتا ہے اور بڑے جرائم پر اس کی مقرر کردہ سخت سزائیں مجرموں کو ارتکاب جرم سے روکنے ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور دوسرے افراد کے لئے عبرت وموعظت کا سامان مہیا کرنے کا باعث ہیں۔اسلامی قانون عدل وانصاف کی ضمانت فراہم کرتا ہے،معاشرتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور عزت وحرمت کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔انسانوں اور رب کے باہمی تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں زندگی میں وہ راحت ،آرام اور آسائشیں پیدا ہوں جن کا قرآن حکیم میں بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔جس نسل نے تخلیق پاکستان میں حصہ لیا  ،اس کے لئے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ  ایک سہانا خواب اور جنت گم گشتہ کا حصول تھا،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد معاشرے سے فیڈ بیک ملتی ہے وہ کسی طرح حوصلہ افزاء نہیں ہے۔اس لئے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا معاذ اللہ خدائی قوانین اپنی تاثیر کھو چکے ہیں۔ ۔اس  مکالہ میں مولف نے اسلامی حدود کی افادیت کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ اسلامی سزاؤں کے نفاذ ہی سے احوال امت کی اصلاح ممکن ہے۔

مقاصد شریعت کا مقصد

جب ہم مقاصد شریعت کی بات کرتے ہیں یا حکمت تشریع کا سوال ہمارے سامنے آتا ہے ۔ تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمیں شریعت کے احکام صرف اس لئے ماننے چاہئیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان احکام کو ماننے کا حکم دیا  ہے ۔ اگر اللہ اور رسول کے پیش  نظر احکام شریعت کی کوئی حکمت نہ بھی ہوتی  ہم ان احکام کے ماننے کے اسی طرح پابند ہوتے ہیں  ، جیسے اب پابند ہیں  ، جب حکمتوں کے دفتر تیار ہو چکے ہیں ۔ ان حکمتوں کو جاننا نہ جاننا ایمان اور شریعت پر عمل درآمد کی شرط نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر ہم حکمت نہ جانتے ہوں تب بھی ایمان لانا ہماری ذمہ داری ہے اور شریعت کے احکام  کو ماننا اور ان پر عمل کرنا ہمارا فرییضہ  ہے۔ اور اگر ہم حکمت جانتے بھی ہوں تو اس سے ہمارے پیش نظر  ایمان میں مزید اضافہ اور پختگی اور شریعت کے احکام پر اطمینان قلبی سے عمل درآمد ہی کا مقصد  ہونا چاہئے ۔

اپنی عقل سے تو انسان ہر چیز کا فیصلہ  کرتا   ہی   ہے ۔ کوئی دشمن بھی آپ کو کوئی طبی نسخہ بتائے اور آپ کی عقل اس کو درست  تسلیم کرے تو آپ اس کو مان لیتے ہیں ۔ آپ کا کوئی مخالف بھی اگر آپ کو کسی مسئلہ کا حل بتائے اور وہ آپ کی عقل میں آجائے تو آپ کو اسے ماننے میں تامل نہیں ہوتا ۔ اس لئے اگر احکام شریعت کے ماننے یا نہ ماننے کا دارومدار انسان کی اپنی عقل پر ٹہرادیا جائے تو پھر شریعت شریعت نہیں رہتی ۔ وہ دنیا کے کسی بھی عام انسان کے مشورے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہوگی ۔ اس لئے یہ بات پہلے دن سے صاف ہونی چاہئے کہ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ حکم شریعت کا حکم ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فلاں بات کا حکم دیا ہے ۔ تو وہ بات ہمارے لئے حرف آخر ہونی چاہئے ۔ اور اس پر ہمارا ایمان اتنا مضبوط ہونا چاہئے جس طرح کہ اس وقت سورج کے پوری روشنی کے ساتھ طلوع ہونے پر ہمارا ایمان ہے ۔ اگر حکمت سمجھ میں آجائے  تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔ اس سے ہمارے ایمان میں پختگی آجانی چاہئے ۔ اور اگر حکمت سمجھ میں نہ آئے تو اس کو اپنی عقل کی کمی اور اپنی فہم کا قصور سمجھنا چاہئے۔

 

 

 

یہ بات  قرآن پاک   نے بھی واضح کردی ہے ۔ سورۃ النساء میں ارشاد ربانی ہے :

فلاو ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم  ثم لا یجدو ا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلمو ا تسلیما ؐ [1]

یعنی ' ہر گز نہیں ، قسم ہے آپ کے رب کی ، یہ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک اپنے آپس کے ہر اختلاف میں  آپ کو حکم نہ بنائیں ، پھر آپ نے جو فیصلہ کیا ہو اس پر  اپنے دل میں ذرا  برابر تنگی یا حرج محسوس نہ کریں '۔ انسان دل میں تنگی اور حرج کب اور کیوں محسوس کرتا ہے ؟ حرج اور تنگی وہیں محسوس ہوتی ہے جہاں فیصلہ اپنی خواہش کے خلاف محسوس ہوتا ہے ۔ اللہ اور رسول کا فیصلہ سننے کے باوجود اگر دل میں تنگی محسوس ہوتی ہے تو اس کہ وجہ یہ ہے کہ  عقل میں وہ بات نہیں آتی ۔ حکم کی حکمت  اور مصلت اس  وقت سمجھ  میں نہیں آتی تو انسان تنگی محسوس کرتا ہے ۔

لیکن اس کے باوجود احکام شریعت کی مصلحتوں سے واقف ہونے کی کوشش کرنا یا اللہ کے فرمودات اور احکام کی حکمتیں جاننے کی خواہش ہونا اللہ کے

مقرب اور نیک انسانوں کا طریقہ رہا ہے ۔ [2]

حرام کام

 اللہ تعالیٰ نے  جیسے شرک کو حرام کیا ہے (1) ہر فحش یعنی بے حیائی کے کام بدکاری اغیرہ کو حرام کیا ہے کھلم کھلا ہو یا چھپ کر (2) ہر گناہ کی بات کو  حرام کیا ہے (3)ناحق ظلم کرنے والے کو  (4) اللہ پر بے سند بات لگادینے کو بھی حرام کیا ہے  غیر دین کو دین خداوندی غیرضروری کو اس میں ضروری قرار دینا بھی بے سند بات لگانا ہے (5) ماں باپ پر احسان فرض اور ان کو تکلیف دینے والی ہر بات حرام قرار دی ہے (6) جب کہ وہی رزق دیتے ہیں  تو  اولاد کو ادفلاس کی وجہ سے قتل کرنا حرام ہے  افلاس کے ڈر  سے روک کی تدبیربھی  درست نہیں (7)بیحیائی کے ہر طریقے  کے پاس بھی جانا حرام ہے نا محرم کو دیکھنا ہاتھ لگانا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھنا سفر میں ساتھ لینا اس سے بے ضرورت بات کرنا وغیرہ وغیرہ خواہ  ظاہر میں ہوں یا چھپ کر ہوں ۔(8) مسلمان یا رعیت  کا کافر جس کا خون کرنا حرام کیا گیا ہے اس کو سوائے حق صورت قصاص بغاوت ارتد زنا رجم کے اس کو قتل کرنا  حرام ہے  ۔  (9) یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ  سوائے اس طریقہ کے اس کے لئے بہتر ہوکہ اسی کے کام میں لگایا جائے صرف قاضی  یا باپ دادا یا ان کا مقرر کیا ہوا جو ہواس کو اجازت  ہے کہ تجارت کرکے بڑھایا جائے مگر ایمانداری سے یا  اس کی حفاظت کی جائے یا خود بہت غریب ہوتو بقدر عرف کام کی تنخواہ لیلے  ۔ کسی کو مفت دینا صدقہ و خیرات کرنا یا نقصان کی صورت اختیار کرنا ولی کو بھی حرام ہوگا ۔ (10) ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کیا کرو کہ دوسرے کا حق ذرہ برابر بھی اپنی طرف نہ آئے اس میں دغا کرنا حرام ہے دوکانداروں کو خصوصیت سے یہ خیال رکھنا ضروری ہے ۔ (11) جب کوئی بات کرو کسی جگھڑے کا فیصلہ کردیا کسی کی گواہی دویا  کوئی اور بات کرو تو انصاف کا خیال رکھو چاہے مقابلہ میں قرابت دار ہی کیوں نہ ہو بے انصافی کرنا حرام ہوگا ۔(12) اللہ تعالیٰ سے جو عہد کرو کہ کسی بات پر قسم کھالی یا کسی کام کے ہوجانے کی منت مان لی کہ یہ ہوگیا تو خدا کے لئے یہ کام کروں گا یا یہ خیرات کروں گا اگر دونوں باتیں جائز کاموں میں ہوں تو ان کو پورا کرنا ضروری ہے اور خلاف کرنا حرام ہے ۔(13) اسلام کے تمام احکام الٰہی ہیں ان کے خلاف کرنا گناہ ہے ۔ (14) اسلام کے سوا دوسری راہیں خدا سے جدا کرنے والی ہیں وہ سب حرام ہیں جتنا جتنا کوئی  دوسری راہ کی طرف جھکے گا اتنا ہی گناہ ہوگا۔[3]

نظریات میں جھکے یا افعال وعادات ومعاشرت میں کہ سب غیر اسلامی طریقے حرام ہیں ۔ہر ایک درجہ کا گناہ ہے ۔

اسلامی سزائیں

اسلام میں  جزا و سزا کے دو تصور پائے جاتے ہیں ایک دنیا  میں اور دوسرا آخرت میں۔جس طرح دو جنتیں ہیں اسی طرح دو جہنم بھی ہیں۔  اگر کسی زمین کے ٹکڑے پر احکام ِخداوندی نافذ ہوجائیں تو  وہ خطہ ء ارض جنت کی نظیر بن جاتاہے۔اور جہاں کوئی قانون نہ ہو اس کے لیے کہاجاتاہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے یعنی جس طرح جنگ میں کسی کی جان محفوظ نہیں ہوتی اسی طرح جہاں  کوئی قانون نہ ہو وہاں بھی کوئی محفوظ نہیں رہتا۔

اگر انسان دنیا میں اچھے کام کرے گا تو اس کا اجر پائے گا اور اگر گناہ آلود زندگی بسر کرے گا تو اس کی سزا میں جہنم  کی آگ میں جلایا جائے گا۔ اللہ نے ایمان  لانےکے ساتھ  اعمال صالحہ  کرنےکا بھی حکم دیا ہے۔ جیساکہ ارشاد فرمایا:

 وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهُمۡ جَنَّٰتٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ..[4]

اور خوشخبری سنادو ان لوگوں  کو  جو ایمان لائے  اور  کرتے رہے نیک اعمال کہ ان کے لئے جنتیں  ہیں بہ رہی ہیں جنکے نیچے نہریں ۔                                              

انسان کی فلاح و کامرانی دو باتوں  پر منحصر ہےان میں اول ایمان  دوم اعمال صالحہ۔ اگر کسی شخص کو  یہ  پسند  ہو کہ وہ  دنیا  اورآخرت دونوں میں  کامیاب ہوجائیں تو اس کے لیے لازمی ہے کہ  وہ سب سے پہلے ایمان لائے اور پھر نیک اعمال کرے۔ 

قانون پر پوری طرح عمل کرنے والے کو تو سزا  کی نوبت ہی  نہیں آتی مگر غفلت یا غلطی سے مبتلا ہونے والوں کی سزا الٰہی دینی ضروری ہے کہ نہ وہ دوسرے اس قانون  کے خلاف کبھی نہ کرسکیں گے ۔ ہر عقل یقین رکھتی ہے کہ جرموں  پر سخت  سزا  ہوگی  تو جرم ختم ہوسکتا  ہے   ورنہ  برابر  جاری  رہے گا ۔

 اگر نو عمر بچوں کو ماں باپ  برائیوں پر ایسی سزائیں دیتے ر ہیں  گے کہ وہ اس حرکت کے تصور سے بھی کانپ جائیں تو وہ حرکت ان سے ہمیشہ کو چھوٹ سکتی ہے اگر ایسا نہ کریں گے تو ہمیشہ کے لئے  وہ  حرکتیں ان کے دلوں میں جڑ پکڑ کر ایسی مضبوط ہوجائیں گی کہ کبھی چھوٹ نہ سکیں گی اسی طرح ہر انتظام کا حال ہے ۔ آج کل چوری ڈاکہ قتل پر معمولی سزائیں دی  جاتی  ہیں تو یہ جرم عام ہو رہے ہیؔں جن ملکوں میں شدید سزائیں ہیں وہاں جرائم کم کم ہیں ۔  اسلام میں سخت ترین جرموں ،  زنا  کاری ، شراب  نوشی ، چوری ڈاکہ پر وہ سخت  ترین سزائیں  مقرر کی ہیں  کہ ان کے جاری کرنے کا اعلان ہوتے ہی تمام جرائم ختم ہوجاتے ہیں ۔اسلاف  مسلمانوں کا حال تو تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے اور موجودہ زمانہ میں سعودی عربیہ مملکت میں مشاہدہ ہوسکتا ہے ، جہاں اسلامی سزاؤں کے جاری ہونے  سے پہلے چوری قتل  عام  تھا اور اب بالکل صفر کے درجہ میں ۔

یہ جرائم کی سزاؤں کا ہلکا کرنا خود جرائم کی پرورش کرنا  اور  دنیا کو بدامنی  میں مبتلا کرنا ہے  اسلام  اس سے پاک ہے ۔اسلام میں زنا  کاری کی سزا بشرطیکہ معتبر اور پختہ ثبوت سے ثابت ہوجائے ۔ شادی شدہ کے لئے پتھر مار مار کر ہلاک کرنا ہے اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگانا ہے خود غور کرکے دیکھ لیا جائے کہ اس کے اعلان کے بعد کس کی جراُت ہوسکتی ہے کہ وہ اس خطرناک جرم کے قریب بھی جا سکے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ۔[5]

''جو اللہ اور اس کی رسالت سے لڑائی کریں اور زمین پر شر پھیلائیں، ان کی جزا  ء  یہ  ہے کہ وہ ہلاک کیے جائیں یا سولی  پر چڑھا دیے جائیں یاایک سمت   سے ان کے ہاتھ  اور دوسری جانب سےپاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں بے زمین کر دیا جائے (اب قید کیا جاتا ہے  ملک بدر نہیں کیا جاسکتا) ۔''
آیت مذکورہ میں مختلف سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جس کا جرم جتنا سنگین ہوگا اس کو ویسی ہی سزا ملے گی۔اگر کسی نے چوری کی یا ڈاکہ ڈالا اس کی ان میں سے جو کم ہو وہ سزا ہے اور اگر کسی نے قتل بھی کیا ہے تو پھر اسے سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

چوری جو دس درہم سے زائد کی ہو ثبوت معتبر مل جانے پر اس کی سزا اول بار میں داہنا ہاتھ کاٹ ڈالنا ہے دوسری باری میں بایاں بایاں پاؤں ، اس اعلان کے بعد چوری کون کرسکتا ہے ؟  رہزنی کی سزا   سولی ہاتھ  کاٹنا قتل کردینا  مختلف صورتوں میں ہوتا ہے ۔ شراب پینے پر اسی کوڑے ، پاکدامن پر تہمت لگانے سے اسی کوڑے کی حد ہے ۔ یہی بات ہے جو ان جرائم کو ختم کرسکتی ہے  اور ان سے ہلکے جرائم پر تعزیرات (1) ہیں پھر حاکم کی صوابدید پر ہیں کہ وقت موقع حیثیت وغیرہ کو دیکھ کر جاری کرسکتا ہے جن سے اس جرم کا پوارا انسدادہوسکے ۔(2)

تعزیرات وہ سزائیں  کہلاتی ہیں  جو کسی جرم پر جج خود متعین کرے ۔ قرآن وحدیث میں جن جرموں کی سزائیں متعین ہیں وہ حدود کہلاتی ہیں۔[6]

چورکی سزا کے متعلق  ارشاد ہوا:

 وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُـوٓا اَيْدِيَـهُمَا جَزَآءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّـٰهِ  وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ حَكِـيْـمٌ۔[7]

" اور سارق اور سارقہ کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کے  کرتوت کی  کمائی کا انجام ہے اور اللہ کی جانب سے سزا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

چوری کرنا اور چور کہلانا  دو الگ لگ مفہوم رکھتے ہیں۔ جو شخص  ایک آدھ  مرتبہ چوری  باحالت مجبوری یا نادانی میں کرلیتا ہے ۔اس پر چور کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چور وہ شخص ہے جس کا پیشہ ہی چوری کرنا ہو جب وہ  اسلامی ریاست میں ثبوت کے ساتھ گرفتار کیاجائے  گاتو اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔

مخزومی قبیلے کی سارقہ کےحوالے سے بیان کی گئی روایت میں راویوں کے الفاظ میں  اختلاف  پایاجاتاہے۔ایک روایت میں یہ الفاظ تحریر کیئے گئے ہیں:

بد کاری کے متعلق اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:                                                   

وَلَاتَقْرَبُواالزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً۰وَسَآءَ سَبِیْلًا۔[8]

نہ جانا قریب بھی بدکاری کے بیشک وہ  فاحش کام اوربرا ئی کاراستہ ہے۔''

بدکاری کی یہ سزا تجویز کی گئی  جیسا کہ ارشاد ہوا:                       

 الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْاکُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَامِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃ’‘ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ والْیَوْمِ الْاٰخِرِوَلْیَشْھَدْعَذَابَھُمَا طَآءِفَۃ’‘ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔۔[9]

زانی عورت اور زانی مردکو  کوڑے مارو  ہر ایک کو دونوں میں سے سو کوڑے ۔ اور نہ دامن گیر ہو تم کو ان دونوں پر ترس کھاؤ  ۔  اللہ کے دین کے معاملے میں اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور روز آخرت  پر  ہونا  چاہیئے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کو ایک جماعت مسلمانوں میں سے ۔

جب جرم ثابت ہوجائے تو   حد نافذ کی جائے گی ۔ اور حد نافذ کر نے کے لیے  چار گواہوں کا ہونا لازمی ہے جو یہ کہیں کہ ہم  نے ان دونوں کو برا کام کرتے دیکھا۔اگر الزام لگانے والے نے چار گواہ پیش نہ کیے تو الزام لگانے والا فاسق قرار پائے گا اور اس کی سزا ہوگی کہ:

 وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْابِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَاتَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاج وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔۔[10]

اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر پھر نہ لائیں چار گواہ تو کوڑے مارو ان کو اسی  کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی شہادت کبھی ۔ اور یہی ہیں جو فاسق ہیں ۔

البتہ  زبردستی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا تجویز کی  جائے گی۔اس کے لیے گواہی کی ضرورت نہیں البتہ فیصلہ  مظلوم کے بیان اور قرائنی شہادتوں کے پیش نظررکھ کرکیا جائے گا  اور ریاست بطور تعزیر سخت سے سخت سزا تجویز کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ ان سزاؤں  سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں سزا کیوں رکھی گئی ؟  اس کا جواب یہی ہے کہ اسلام  ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرے کے قیام کا خواہ ہے۔ جہاں  ہر شخص چاہے  وہ مرد ہو یا عورت مسلم ہو یا غیر مسلم  سب کی جان مال عزت اور آبرو محفوظ رہے۔

ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ' وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ' ، [11] کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ گویا اللہ کی عبادت انسان اپنے  فیصلہ  اور اپنی آزادانہ مرضی اور ذوق و  شوق سے کتنی کرتا ہے ، یہ دکھانا  مقصود ہے ۔ مجبوری میں تو ساری مخلوقات اللہ کے حکم کی پیروی  کرتی ہیں ۔ اللہ کے تکوینی احکام کے پابند تو چاند ، سورج ، ستارے  اور سب ہی ہیں ۔ جس طرح بھی ، جب بھی اور جو بھی اللہ کا حکم ہوتا ہے ، بلکل اسی طرح یہ چیزیں عمل کر رہی ہیں ۔ دریا بھی اللہ کے حکم کی پابندی  کر رہے ہیں ۔ صحرا کے ذرے بھی کر رہے ہیں ، پہاڑوں کے پتھر بھی کر رہے ہیں ۔ جانور اور پرندے بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن انسان اپنی مرضی سے احکام تشریعی کی کتنی پابندی کرتا ہے ، یہ انسانوں اور اللہ کی دوسری مخلوقات کو بتانا اور دکھانا مقصود تھا ۔

یہ تو  اس بات کی مثالیں تھیں کہ عمومی طور پر کائنات کی پیدائش کے پیچھے اللہ کی ایک بڑی حکمت کے تحت آئیں گے۔اب اگر  جزوی احکام میں جزوی حکمتیں نہ بھی پائی  جائیں تو  کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ بڑی حکمت موجود ہے ، اس کے ہوتے ہوئے جزوی حکمت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر حکم کی جزوی حکمت بھی رکھی گئی ہے ۔ اس بڑی اور عمومی حکمت کے علاوہ جزوی حکمتیں بھی ہر حکم میں پائی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر نماز کے بارے میں فرمایا گیا کہ ' ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر '،[12] نماز فحشاء اور منکر دونوں سے روکتی ہے ۔ فحشاء اس برائی کو کہتے ہیں  جس کا اصل منشاء اور مظہر انسان کے دل میں ہو ، منکر وہ برائی ہے جس کا نقصان معاشرہ میں ظاہر ہوتا ہو ۔ گویا فحشاء سے مراد چھپی برائی اور منکر سے مراد کھلی برائی ہے ۔ یوں چھپی اور کھلی ہر قسم کی برائی سے اللہ  نے منع کیا ہے اور اس کو روکنے میں نماز بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ یہ نماز کی ایک اخلاقی اور روحانی حکمت ہے ۔روزہ  کے بارے میں   فرمایا 'لعلکم  تتقون ' (سورۃ البقرہ - ) یہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا کرنے کے لئے ہے ۔ زکوٰۃ  کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ تمہارے  مال  اور جذبہ تملک وتمول کو پاکیزہ کرتی ہے ۔ ' تطھرھم وتزکیھم بھا  [13]    ' حج کے بارے میں بتایا گیا کہ اس سے تمہارے دل میں اللہ اور اس کے شعائر کی یاد پیدا ہوگی ۔

 ' لتذکرواللہ علیٰ ما ھذاکم '  ( سورۃ البقرہ - ) ۔فے کے مال کے جو احکام بتائے گئے ہیں ان کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ پورے ملک اور معاشرہ کا مال ودولت ایک جگہ مرتکز ہوکر نہ رہ جائے ۔

' کے لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم '  ( سورۃ حشر – ۔ ) ۔ قصاص کی حکمت یہ بتائی گئی کہ تمہاری زندگی کا دارومدار ایک دوسرے کے جان ومال کے احترام پر ہے ، اور جان کے احترام کی بنیاد احکام قصاص پر ہے ۔ ' ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب '۔ ( سورۃ البقرہ  ) آیہ مدائنہ میں لین دین اور قرض کے احکام بتائے گئے ہیں ۔ لین دین اور قرض کے معاملات کے بارے میں قرآن پاک کے سورۃ بقرہ میں جو احکام دیئے گئے ہیں ، ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ  ' ذالکم اقسط عنداللہ '۔( سورۃ البقرہ)   یہ  عدل وانصاف کے زیادہ قریب ہے کہ تم اس طرح کے معاملہ کرو ۔ عدل و انصاف کی پیروی تمہارے لئے بھی آسان ہوگی اور تمہارے دوسرے فریق کے لئے بھی آسان ہوگی ۔ دستاویز کو لکھنے کا حکم دیا گیا کہ ممکن ہو تو لکھ دو کہ کس کا حق کتنا بنتا ہے ۔ اس کی حکمت یہ بتائی گئی کہ ' وادنیٰ الا ترتابو ' ، ( سورۃ البقرہ ) تمہیں کوئی شک وشبہ نہیں ہوگا دوسرے نے میرا حق تو نہیں مار لیا ۔

بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ انتہائی دیانت دار آدمی کے بارے میں آپ کا خیال ہوتا ہے کہ آپ نے اس کی واجب الادا رقم ادا کردی ہے اور اس کے جو پیسے آپ کی طرف  بنتے تھے وہ آپ نے دے دیئے ہیں ۔ لیکن اُس کا خیال ہوتا ہے کہ آپ نے اس کے پیسے نہیں دیئے ہیں ۔ اب دونوں طرف ایک بدگمانی اور غلط فہمی باقی رہ جاتی ہے ۔ آپ کو ہمیشہ  یہ غلط فہمی رہے گی کہ آدمی تو بڑا دیانت دار بنتا تھا لیکن مجھ سے  دو مرتبہ پیسے لے لئے۔ میں پہلے ہی ادا کردیئے تھے ، لیکن یہ صاحب پیسے لے کر بعد میں مکر گئے کہ میں نے نہیں لئے اور دوبارہ پیسے لے لئے ۔ ممکن ہے آپ نے ایک ہی مرتبہ دیئے ہوں اور آپ کی یاداشت غلطی کر رہی ہو ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے دل میں بھی بدگمانی پیدا ہوکہ  یوں تو بڑے نستعلیق بنتے تھے ۔ لیکن اب میرے پیسے  دینے سے منکر ہوگئے تھے اور اگر میں خود نہ لے لیتا تو اس کو نہیں دینے تھے ۔ یوں یہ بدگمانی دونوں کے دلوں میں ہمیشہ رہے گی ۔ بدگمانی بہت بری چیز ہے ۔ اس سے دلوں میں کھوٹ پیدا ہوجاتا ہے ، تعلقات میں بگاڑ آجاتا ہے اور بعض اوقات دشمنیاں تک پیدا ہوجاتی ہیں ۔ لیکن اگر آپ قرض کا معاملہ تحریر میں لے آئیں تو اس بدگمانی سے بچنے کا موقع مل جائے گا ۔ ممکن  ہے  آپ قرض کا معاملہ تحریر میں لے آئیں تو اس بدگمانی سے بچنے کا موقع مل جائے گا ۔ممکن ہے

 آ پ مروت  اور حجاب کی وجہ سے پیسے نہ لیں ۔ اور اگر آپ نے  پیسے مروت میں نہیں لئے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ نے خوشی سے چھوڑدیئے ۔ دوسرے فریق کے لئے اس طرح پیسے لینا جائز نہیں ہوگا ۔ ان تمام مسائل ومشاکل سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ شک اور بدگمانی سے بچنے کا پہلے ہی دن بندوبست کرلو اور ان نتائج سے بچنے کے لئے یہ معاملہ لکھ لو ۔ اگر لکھو گے تو یاداشت پر اعتماد نہیں کرنا پڑے  گا ۔ یہ وہ حکمت ہے جس کی طرف  اشارہ    کرتے ہوئے فرمایا گیا : 'وادنیٰ الاترتابوا' ( سورۃ البقرہ)   قطع ید کا حکم دیا گیا ہے کہ چوری کا ارتکاب  کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس سخت سزا کی حکمت یہ بتائی گئی کہ  ' جزاء بما کسبا نکالا من اللہ ' ( سورۃ مائدہ ) [14]۔ اللہ کی طرف  سے ان کو عبرت ناک  سزا دی جائے اور انہوں نے جوناجائز کمائی کی ہے اس کا بدلہ انہیں  ملنا چاہئے۔ پردے کے بارے  میں  کہا گیا کہ ' ذالک ادنیٰ ان لا یعرفن فلا یو ذین ' [15]کہ جو بدکار اور بدکردار لوگ ہیں ان کو پتہ چل جائے کہ یہ باعزت خواتین ہیں ، اس لئے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کریں حجاب اور باحیا لباس سے یہ فائدہ خودبخود حاصل ہوجاتا ہے ، کہ اخلاق ، کردار اور حیا کا تحفظ ہوجاتا ہے ۔ یہ ان حکمتوں کی چند جستہ جستہ مثالیں ہیں جو قرآن مجید میں جا بجا بیان ہوئی ہیں ۔ احادیث کا ایک  سرسری  جائزہ لیں  تو وہاں بھی نہر حکم کے پیچھے  کوئی نہ کوئی حکمت بیان ہوئی ہے ۔ اگر آپ  کے وقت ہو تو برصغیر کے امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب 'حجۃ اللہ البالغہ ' ضرور پڑھ لیجیئے ۔

لیکن ایک مسلمان اگر ان سب احکام کی پیروی  کرتا ہے جو اس کو لازما کرنی چاہیئے ، وہ صرف رضائے الٰہی کے لئے کرنی چاہئے ۔ کسی مصلحت یا حکمت کے لئے نہیں کرنی چاہئے ۔ نماز اس لئے پڑھنا کہ یہ مجھے بدکرداری سے روکے گی تو میں اچھے کردار والا مشہور ہوجاؤں گا   تو میری شہرت اچھی ہوگی اور نیک نامی مزید بڑھے گی ۔ یہ مقصد نہیں ہونا چاہئے ۔ عمل صالح کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہئے ۔ اگر انسان  ان احکام پر ان کی صحیح روح کے ساتھ عمل کرے گا تو فوائد اور مصالح خودبخود حاصل ہوجائیں گے۔

غرض شریعت کے احکام کی پشت پریہ اور اس طرح کی بے شمار حکمتیں ہیں جو قرآن مجید میں سینکڑوں اور احادیث میں ہزاروں مرتبہ بیان ہوئی ہیں ۔ ان سب پر جب ائمہ اسلام نے غور کیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان سب حکمتوں کا خلاصہ اور جڑ  ایک بنیادی حکمت اور اساسی مصلحت میں پوشیدہ ہے ۔ اور یہ حکمت اور مصلحت ہے جو قرآن پاک کی سورۃ الحدید میں بیان ہوئی ہے ۔ سورۃ الحدید کی یہ آیت انتہائی اہم آیات میں سے ہے ۔   قرآن پاک میں بنیادی کلیات جن آیات میں بیان ہوئے ہیں ان آیات میں بھی جو انتہائی  بنیادی اہمیت رکھنے والی آیت ہے ، ارشاد باری ہے

' ولقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معھم الکتاب والمیزان '  [16]

کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا ۔ ان کے  ساتھ کتاب اور میزان نازل کی ' لیقوم الناس بالقسط' تاکہ لوگ عدل وانصاف پر قائم ہوجائیں ۔ لہٰذا  لوگوں  کا حقیقی اور مکمل عدل اور انصاف کی بنیاد پر قائم  ہوجانا ، یہ تمام آسمانی کتابوں کا بنیادی مقصدتھا اور یہی تمام  انبیاء علیہم السلام کا اس زندگی کے حوالے  سے بنیادی ہدف تھا ۔ جملہ شرائع الٰہیہ  اور کتب سماویہ کی تمام تر تعلیم کی منزل مقصود یہی تھی کہ یہاں اس دنیاوی زندگی میں لوگوں کو عدل و انصاف پر قائم کردیا جائے ۔  [17]

ناحق قتل کرنا :                                                            

نا حق قتل کرنا کسی  مسلمان کو  یا رعیت کے  کافر کو مگر قصاص میں زنا کی حد میں مرتد ہونے میں یا بغاوت  میں راہزنی میں کافر رعایا کا حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے  قتل کرنا نا حق نہیں یا آیات احادیث میں صاف آرہا ہے ۔

ومن یقتل مؤمنا متعمد ا فجزاء ہ جہنم خالد فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا عظیما ؐ [18]

اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی اصل سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ کو اس میں رہتا اور اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوں گے اور اس کو اپنی خاص رحمت سے   دور کردیں گے اور اس کے لیے بڑے  عذاب کو تیار کریں گے )

شرک کے بیان میں سورۃ نساء کی آیت گذر چکی ہے کہ شرک سے کم گناہ جس کو چاہیں گے بخش دیں گے اس لئے یہاں یہ اشارد ہے کہ  اصل سزا تو یہی ہے کہ دوزخ میں ہمیشہ رہے غضب ولعنت عذاب عظیم ہو مگر فضل ہوھا تو بخش بھی دیا جائے گا بلاسزا یا سزا کے بعد۔

 " ولا تقتلو االنفس التی حرم اللہ الا بالحق " [19]

اور جس کا خون اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے  اس کو قتل مت کرو مگر حق ہے ۔

  " من اجل ذالک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس اور فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احی الناس جمیعا " [20]

اور اسی  قتل نا حق کو خرابی کی وجہ سے ہم نے خصوصیت سے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص کے یا بلا کسی  فساد  کے جو ملک میں اس سے پھیلا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچالیا ۔

جو حکم بلا انکار نقل ہو وہ اس اُمت کے لئے ہوتا ہے ۔[21]

زمین کے جس خطے میں  اللہ کا حکم نافذ ہوجائے وہ  خطہ  دار السلام کہلاتا ہے اور وہاں کے رہنے والے مسلمان۔اللہ رب العٰلمین کا فرمان ہے:

وَعَدَ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَـهُـمْ دِيْنَهُـمُ الَّـذِى ارْتَضٰى لَـهُـمْ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًاۚ يَعْبُدُوْنَنِىْ لَا يُشْرِكُـوْنَ بِىْ شَيْئًاۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ۔ [22]

 اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ماننے والے ہیں  اور انہوں نے اچھے افعال سر انجام دیئے کہ انہیں ضرور زمین پر حکومت دے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو  دی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرورکھڑا کر دے گا اور بیشک ان کے ڈر کو امن سے بدل دے گا، اس شرط پر کہ میری اطاعت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شامل نہیں کریں، اور جو اس کے بعد شکرنہ کرے وہی فسق  کرنے والےہوں گے۔''

اگر چہ اس آیت کے مخاطب جن سے خلافت کا وعدہ کیا گیا وہ   اللہ کے رسول  محمد سلام علیہ  اور آپ کے اصحاب ہیں لیکن اس  کاحکم عام ہے جو  اسلامی ریاست کے حصول کے لیے جدوجہد کرے گا قربانیاں دے گا تکالیف برداش کرے گا اسے یہ فضیلت حاصل ہوگی۔ ایک مقام پر ارشاد ہوا:

اَلَّـذِيْنَ اِنْ مَّكَّنَّاهُـمْ فِى الْاَرْضِ اَقَامُواالصَّلَاةَ وَاٰتَوُا الزَّكَاةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَـهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلّـٰهِ عَاقِـبَةُ الْاُمُوْرِ۔[23]

جو لوگ امن کے لیے خطرہ ہوں اور زمین میں امن کے قیام کے بعد فساد فی الارض کا زریعہ بنیں ان کے لیے  ارشاد فرمایا: وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔  [24]'' اور فتنہ تو قتل سے بھی زیادہ سنگین ہے

قرآنی ارشاد فرمایا:

 وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ۔ [25] "اور  قصاص میں زندگانی ہے۔"
یعنی معاشرے کی زندگی قصاص میں پوشیدہ ہے۔اگر قاتل کو سزا نہ دی گئی  تو وہ ڈھیٹ بن جائے گا اور وہ توبہ کرنے کے بجائے ایک قتل اور سہی کا نعرہ لگاتارہے گا۔ قصاب کی طرح انسانوں کو ذبح کرنے  کا عادی بن جائے گا۔ اگر معاشرے میں  کسی ایک  قاتل کو سزا دے دی جائے توپھر معاشرے میں کسی کو کسی بے گناہ  انسان کے قتل کی جراءت نہ ہوگی۔ہمارے معاشرے میں آئے دن قتل کی وارداتوں میں  اضافہ ہوتا جارہا ہے قتل کرنے والے صرف جرائم پیشہ افراد ہی نہیں بلکہ دولت مند ،جاگیرداروں  کی بگڑی اولاد بھی شامل ہے ان کے ہاتھوں  غریب لوگوں کی جان و عزت دونوں محفوظ نہیں ۔  جب کوئی قاتل گرفتاکربھی  کرلیاجائے تو فوراً اس کی ضمانت ہوجاتی ہے اور اسے بے گناہ  ثابت کرکے رہاکردیاجاتاہے۔ معاشرےمیں رشوت اتنی عام ہوچکی ہے کہ اسے برائی سمجھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ معاشرےمیں انسانی خون کی کوئی قیمت نہیں  ،پانی مہنگا اور خون سستا ہوگیا ہے۔احکامِ خداوندی کو یکسر  فراموش کیا جارہا ہے۔اللہ کے نزدیک انسان کے خون کی قدر و قیمت کا اندازہ اس آیت ِ کریمہ سے بھی لگایاجاسکتا ہے جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد ہوا:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِنَفْسٍ اَوْفَسَادٍفِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَاقَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۔[26]

" جس  نے قتل کیا کسی جان کو سوائے قصاص یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم  میں  تو اس نے تمام انسانوں کو قتل  کردیا ۔"

خدائے رحمٰن کے عباد کی ایک خاصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ:

 وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِىْ حَرَّمَ اللّـٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ۔۔ [27]

''اور (خدائے رحمٰن کے عبادت ) کسی  جان کوقتل نہیں کرتے جس کی حرمت اللہ نے  قائم کی ہے سوائے  یہ کہ قصاص ۔''

 خدائے رحمٰن کی امت محمدیہ پر اتنی عنایت فرمائی سابقہ حکم  جو اہل کتاب کو دیا گیا تھا  رعایت دیدی یعنی ان کے ہاں  قتل کی سزا  صرف قصاص مقرر تھی۔ قرانی شریعت نے اسے منسوخ کر کے  قتل کی دو اقسام مقرر کردیں ۔ایک قتل خطا اور دوسرا قتل عمد۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَاً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَاً فَـتَحْرِيْرُ رَقَـبَةٍ مُّؤْمِنَـةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهْلِـهٓ  اِلَّآ اَنْ يَّصَّدَّقُوْاۚ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَـبَةٍ مُّؤْمِنَـةٍ  وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَـهُـمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهْلِـهٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَـبَةٍ مُّؤْمِنَـةٍ  فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّـٰهِۗ وَكَانَ اللّـٰهُ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا۔ وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّـمُ خَالِـدًا فِيْـهَا وَغَضِبَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ وَلَـعَنَه وَاَعَدَّ لَـه عَذَابًا عَظِيْمًؐا۔ [28]

اور مؤمنوں کی یہ روش ہرگزنہیں کہ کسی مؤمن  کو قتل کرے مگربھول  سے، اور جو کسی مؤمن کو بھول سے قتل کرے تو وہ   مؤمن  غلام   کی گردن چھڑائے اور مقتول کے وارثین کو معاوضہ ادا   کرے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں۔ اور اگر مؤمن مقتول ایسی قوم سے تھا   جس سے تمہاری(اسلامی ریاست کی) دشمنی ہے تو ایک ماننے والے غلام کی گردن چھڑائے۔ اور اگر وہ مقتول مسلم کسی ایسی قوم میں سے تھا جس سے تمہارا معاہدہ  ہوچکاہے تو پھر  اس کے وارثوں کو  بھی خون بہا دے اور ایک ماننے والے غلام کی گردن چھڑانی  ہوگی، پھر جو غلام نہ پائے وہ مسلسل دو ماہ  صیام میں  گزارے۔ اللہ سے بخشش  طلب کرے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور جو کوئی کسی مسلم کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔''

حاصل ہوا کہ  اقرآنی نظام میں قتل کی دو اقسام مقرر کی گئیں ہیں بحر حال قتل عمد کے مرتکب کو ہو حال مین قتل ہی کیا جائے گا جس کو سزا دینے کا اختیار صرف اورصرف ریاست کو ہوگا۔

 ۔جیسا کہ ارشاد ہوا:

وَلَا تَاْكُلُوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْـمِ وَاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ۔ [29]

اور ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ، اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ سے کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔''

اسلامی ریاست  میں بغیر اجازت اورناجائز طریقے سے کسی کا مال کھانا  کی اجازت نہیں ۔

اس کے معنےٰ یہ ہیں کہ ایک دوسرے کا مال حرام راستوں مثلاً چوری،ڈاکہ زنی،رشوت ، جھوٹ، سود، خیانت اوردھوکہ کے ذریعے سےحاصل کرنا۔ایک مرتبہ سیدہ حفصہ ؓ   بنت عمر اوررسول سلام علیہ کی زوجہ محترمہ  یہ خبر سن کر کہ مال غنیمت آیا ہے، سیدنا عمرکے پاس آئیں اورکہا کہ امیر المومنین !میں ذوالقربٰی میں سے ہوں، اس لیے اس مال میں سے مجھ کو بھی عنایت کیجئے، عمرنے جواب دیا کہ "بے شک تم میرے خاص مال میں حق رکھتی ہولیکن یہ تو جماعت المسلمین کا مشترکہ  مال ہے، افسوس ہے کہ تم نے اپنے باپ کو دھوکا  دینا چاہا، وہ بے چاری خفیف ہوکر چلی گئیں۔[30]

قرآنی نظام میں  میں ناجائز طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانا ،  کسی کی زمین یا مکان  پرقبضہ کرناحرام اورگناہ کبیرہ ہیں ۔ اسلامی معاشرے  میں کوئی بھی شخص کسی  کے مال ودولت پرقابض نہیں ہوسکتا جرم ثابت ہونے پراس کے خلاف سخت کاروائی کا حکم ہے ۔ اسے بطور تعزیر سخت سے سخت سزادی  جائے گی۔

دین میں  خمر نوشی پر پابندی بتدریج نافذ ہوئی تھی خمر نوشی کے متعلق سوال کیا گیا تو قرآن مجید میں ارشاد ہوا:يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا۔[31]

دریافت کرتے ہیں  وہ تم سے شراب کے بارے میں اور جوئے کے ۔ کہہ دو ان دونوں میں گناہ بڑے ہیں اور کچھ فائدے ہیں لوگوں کے لئے ۔

پھر کسی موقع پر  یہ آیت مبارکہ نازلہ ہوئی:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ. [32]     

اس آیت میں عام لوگوں کو ہدایت کردی گئی کے جو لوگ شراب نوشی کرتے ہیں وہ  نشے کی حالت میں نماز کے اجتماع میں شریک نہ ہوں۔ گویا  شراب ایک دم   حرام نہیں دی گئی بلکہ آہستہ آہستہ  حرمت کا حکم نازل کیا گیا۔ اس کے بعد شراب کے حرام ہونے کا حکم نازل کردیا گیا:

اے وہ لوگو جو ایمان لائے بلاشبہ  شراب اور جوا اور بت اور پانسے ( یہ سب ) ناپاک کام اعمال شیطان سے میں ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ بلاشبہ چاہتا ہے شیطان کہ ڈلوادے تمہارے درمیان عداوت اور دشمنی شراب اور جوئے سے اور راک دے تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے تو کیا تم ( ان کاموں سے ) باز آؤ گے ۔۔[33]

ایک حدیث میں ہے کہ:ابن عمرو بن العاصؓ ہی سے مروی ہے کہ حضور سلام علیک کا ارشاد ہے:’’نیکی جتلانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا، نہ والدین کا نافرمان اور نہ ہی  خمر کا پینے والا۔[34]

 

 

اسلام کا تصور الہٰ اور آخرت:                      

اللہ کی موجودگی  انسان  کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ  اسے اس کا مالک ہر وقت دیکھ رہا ہے تو وہ باغیانہ اور جرمیانہ زندگی گزارنے سے باز  رہتا ہے۔اسلام کا تصور آخرت انسان کو دنیا میں  گناہوں  سے آلودہ زندگی گزارنے سے باز رکھتا ہے۔   یہ وہ دو بنیادی عقائد و نظریات  ہیں   جو اسلام کی اساس ہیں اور  ہر نبی کی تعلیمات کا مرکز و محور بھی رہے ہیں۔ انسان کے دل میں  جب احساس جوابدہی رچا بسا ہوتا ہے تو  وہ صرف گناہ و جرم سے ہی نہیں بچتا بلکہ وہ  بری صحبت اور جرمانہ زندگی بسر کرنے والوں  کے سائے سے بھی  دور رہتا ہے۔

قرآن مجید میں  ایک جگہ یہ بحث ہے کہ ہم نے موت وحیا کا یہ سلسلہ کیوں پیدا کیا ہے ۔ ویسے تو  اللہ تعالیٰ  خالق ہے جس کو چاہے پیدا کرے  ، جس کو چاہے  پیدا  نہ کرے ۔ کون پوچھ سکتا ہے کہ کسی کو کیوں پیدا کیا  اور کسی کو پیدا کیون نہیں کیا گیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خود اس سلسلہ  پیدائش اور موت وحیات کی حکمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ " لیبلوکم ایکم احسن عملا "[35] ، تا کہ اللہ تعالیٰ   آزما کر دکھائے  کہ کون اچھے  عمل کرنے والا ہے اور کون برا عمل کرنے والا ہے ۔ یعنی عمل کی اچھائی اور برائی میں لوگوں کا امتحان مقصود ہے ۔ یہ پوری زندگی  آزمائش  ہے ۔ یہ پوری زندگی ایک امتحان ہے  اور اس امتحان کی وجہ سے انسانوں کے لئے یہ سارے معاملات اور حالات پیدا کئے گئے ہیں ۔

 

خلاصہ ء بحث:

اسلام بزریعہ قرآن  جرم و سزا کا ایک منظم نظام مہیا کرتا ہے۔قرآن اول تو ہر شخص کو اللہ تعالیٰ اور یومِ دین پر ایمان لانے  کی تلقین کرتاہے۔ اور اس کے بعد تقوٰی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے، جس کی موجودگی میں انسان کے قلب  اور ذہن گناہ  سے پاک رہتے ہیں۔

اسلام میں اس دنیا سے جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا  اور نیک و بد کا انعام وسزا  پانا  اس  پر بھی ایمان  لانا  ضروری  ہے ۔ ذرا  سے غور کرلینے پر یہ بھی بالکل فطری بات  معلوم ہوگی ۔ انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے ، روح وجسم  تو عنصری ۔ لیکن غور اس پر کرنا ہے کہ یہ روح وجسم کا عارضی میل کیوں ہوا تھا یعنی  زندگی کا مقصد کیا تھا تو اب  جو ہم کائنات عالم پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے  کہ  ان کے اس دنیا میں آنے کی غرض ادنیٰ   درجہ کی چیز کا اعلیٰ درجہ کی چیز کے کسی فائدہ کے لئے ہونا ہے اور اس ادنیٰ کے اوپر درجوں کے اعلیٰ ہوں گے  یہ سب کے فائدہ و ضرورت کی ہوگی کہ اگر یہ نہ ہوں تو ان کے فائدے اور ضرورتیں بند ہوجائیں ۔جمادات  انسان کو  اپنی  جان  اور عزت   اور مال  بہت محبوب ہیں انہی کی محبت بغاوت  ، سرکشی  ،کفر وشرک اور گناہوں پر آمادہ کرتی ہے اور اس کے جسم کے خمیر عناصر اربعہ کے خاصوں سے بھی اس میں غصہ ، تکبر ، ظلم ، جبر ، زیادتی بغض ، کینہ ، حسد ، بخل ، غصب ( دوسروں کی چیزیں لینا ) اور فتنہ وفسادات کو ہر سبب نمودار ہوتا ہے ۔

لیکن یہ بھی  ظاہر ہے کہ ان سب وفسادات کا ہر سبب نمودار ہوتا ہے ۔لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کا بعض موقعوں پر مثلا دشمنوں ، چوروں ، ڈاکوؤں  اور مجرموں وغیرہ کے مقابلہ پر ہونا بھی ضروری ہے اس لئے ان باتوں کو نیست ونابود کرنا  بھی نہیں مگر بلکل آزاد چھوڑنا  بھی نہیں کہ دوسروں کی زندگی تلخ کردیں  ان کو قابو میں لانے کی ضرورت ہے ۔ پھر اور عمدہ   عادتوں  اور باتوں کی ، اور خدا سے غفلت  کے بجائے اس کی یاد کو ہر وقت مگر اس طرح کہ اور کاموں میں خلل انداز نہ ہوسکے قائم کرنا ، شرافت  کو اجاگر کرنے کے لئے ضروری ہے ۔ اور کمال یہ ہوگا کہ جتنا ہوسکے خدائی صفتوں کا رنگ اختیار کرے۔

ہمارے دین نے ایسے معاشرے  کے ہر افراد  کی ضروریات اور جائز و حلال طریقوں سے حاصل  کرتا ہے  اور ایسے راستہ اختیار کرتا ہے جس سے ناجائز مجرمانہ راستہ اختیار نہ کرنا پڑے ۔  جب اس طریقوں سے جرائم کم نہیں ہوتے تو پھر اسلام ریاست کو سزاؤں کے نفاذ کا حکم دیتا ہے ۔اسلام ایک ایسا معاشرتی نظام قائم کرنے پر زور دیتا ہے  جس میں سخت سزائیں دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتا ۔ اور ایسے طریقے اپنائے جاتے ہیں جس میں جرائم کے ارتکاب کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخض جرم کرتا ہے تو  ریاست  اسےعبرت  کے طور پرسزا  دیتی ہے۔ ان سزاؤں سے لوگ عبرت حاصل کرکے گناہ،فساد، اور برائی  کے راستے پر چلنے سے باز رہ  سکیں۔ قرآن  سزا  دینے کے وقت  مسلمانوں کی  ایک گروہ  کی حاضری کوبھی لازمی قرار دیتا ہے۔

 

 

نتائج                

٭ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ  نہیں ہوسکتا یہ ہی اصل الاصول ہے ۔

٭ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں انسان کی اپنی بھلائی مضمر ہے ۔

٭معاشرے کی برائیوں سے لاتعلق نہ ہو رہو ، اپنے امکان اور  صلاحیت کے مطابق اصلاح کی کوششیں کرتے رہو ، کسی اخلاقی برائی کے نتائج صرف بالفعل ملوث افراد ہی پر نہیں ہوتے بلکہ خاموش اور راضی رہنے والوں پر  بھی ہوتے ہیں ۔

 

 

سفارشات

 

٭ نماز  انسان میں عمدہ اخلاقی خوبیاں پیدا کرتی ہے اور نماز ذی المعارج میں بیان کردہ اخلاقی فضائل کا مصداق بناتی ہے ۔ اور اس سے معاشرے میں امن و امان پیدا ہوتا ہے ۔اور اس کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔

٭  نظام اخلاق اسلامی میں توبہ کی اہمیت مسلمہ ہے سزا  اسی قصور پر ہے جو باغیانہ  جسارت کے ساتھ کیا جائے ۔ جب انسان اپنے کیے پر شرمندہ اور اصلاح کے لئے تیار ہو تو بڑے سے بڑے مجرم کے لئے مایوسی و نا امیدی  کا موقع نہیں ہے ۔

٭ اس اصول اخلاق کو میں سب سے بنیادی اصول اخلاق سمجھتی ہوں اور اگر انسان صرف ایک یہ اصول ہی اپنالے تو انسان کی خانگی ، معاشرتی ، معاشی ، سیاسی اور تمدنی  زندگی سے ہر قسم کا فساد ختم ہوسکتا ہے ۔ وہ اصول یوں ہے کہ کسی بھی انسان کے ساتھ کوئی معاملہ کرتے  ہوئے صرف ایک بات سوچ لو کہ اگر تم اس شخص کی جگہ ہوتے تو تم کیا معاملہ وسلوک متوقع رکھتے  ، جو سلوک تم  چاہتے  وہی اس سے کرو ، کبھی بھی حقوق العباد کی پامالی نہ ہوگی ۔



[1] ۔القرآن  ، 4  : 65

[2] ۔ محمود احمد غازی ، محاضرات فقہ ، ناشران و تاجران  کتب الفیصل ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور  ،ص 275،297

[3]  ۔ جمیل احمد تھانوی قدس سرہ  ، ترتیب وتدوین ، خلیل احمد تھانوی  ،  اسلام اور حدود وتعزیرات ،ناشرات ادارہ اشرف التحقیق جامعہ لاہور، ص 84،85

 

[4]  ۔ القرآن 2 : 25

[5]  ۔ القرآن    5 : 33

۔[6] جمیل احمد تھانوی قدس سرہ،ترتیب وتدوین ، ص 66،67

[7]  ۔ القرآن   5: 38

[8]  ۔القرآن  17 : 32

[9]   ۔ القرآن  24 : 2

[10]  ۔ القرآن  24 : 4

[11]  ۔ القرآن            51 : 56

  [12] ۔القرآن    29 : 46

[13]  ۔ القرآن    9 :103

 

[14]  ۔ القرآن  5 : 38

[15]۔ القرآن 33  :  59

[16] ۔ القرآن  57  : 25

.[17] محمود احمد غازی ، محاضرات فقہ ، ناشران و تاجران کتب الفیصل، غزنی اسٹریٹ  اردو بازار لاہور ،ص 304 تا 306 

[18]  ۔ القرآن  4 : 12

[19]  ۔ القرآن  6 : 151

[20]  ۔ القرآن    5: 35

[21] ۔ محمود احمد غازی ، ص  98،99

[22]  ۔ القرآن 55 : 24

[23]  ۔ القرآن 22 :41

[24]  ۔ القرآن     2 : 191

[25]  ۔القرآن  2 : 178

[26]  ۔  القرآن  5 : 32

[27]  ۔ القرآن 25 : 68

[28] ۔ القرآن  4 : 92 - 93

[29]  ۔ القرآن  2 : 188

.[30]  کنز الایمان  ، جلد  6 حدیث  350

[31]  ۔ القرآن  2 : 219

[32]  ۔ القرآن  4 : 43

[33]  ۔ القرآن  5 : 90 -91

[34] ۔ حدیث  نمبر  5688

[35] ۔ القرآن  67 : 2

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index