Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Bahis Journal of Islamic Sciences > Volume 3 Issue 2 of Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

مسئلہ ختم نبوت پر دلائل کا منہج و اسلوب : تجزیاتی مطالعہ |
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

پیش ِ لفظ

اللہ رب العزت نے جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نبوت و رسالت کے سلسلہ کا آغاز سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمایا اور اس سلسلہ کا اختتام جناب سیدنا حضرت محمد ﷺ پر فرمایا۔ قرآن و سنت کے قطعی نصوص سے ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیا گیا۔ آپ ﷺ قصر نبوت کی آخری اینٹ ہیں۔ اب تا قیامت کوئی نبی کوئی رسول کسی صورت میں بھی نہیں آئے گا اور قیامت تک حضرت محمد ﷺ نبی و رسول ہی کی رسالت کی تعلیمات رہیں گی، اسی کو ختم نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے کہ جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں۔ عہد نبوت سے لے کر موجودہ دور تک ہر مسلمان اس پہ ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت ﷺکسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔ یہ مسئلہ صریح آیات قرآنی‘ احادیث متواترہ اور اجماع اُمت سے ثابت ہے۔ سطور ذیل میں واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ختم نبوت کے نقلی و عقلی دلائل کیسے پیش کئے جارہے ہیں۔ اور عمومی طور پر نقلی و عقلی دلائل میں کون سے دلائل ایسے ہیں جنہیں مسلم مفکرین اور علماء پیش کرتے آئے ہیں؟نیز اس پر ملکِ پاکستان میں قانون سازی کس نوعیت کی ہے ؟ لہذا اس بحث کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے ۔

حصہ اوّل:۔ ختم نبوت کے نقلی دلائل

نقلی دلائل کے ضمن میں قرآنی آیات‘ احادیث مبارکہ‘ اجماع اُمت‘ ائمہ لغت کی آراءاور مفسرین کے اقوال کا تذکرہ کیا جائے گا۔

۱۔ قرآن سے دلائل:

مسئلہ ختم نبوت پر قرآن کریم کی متعدد آیات دلالت کناں ہیں۔ محقق علماءکے نزدیک ایک صد کے قریب آیات صراحتاً یا اشارةً یہ مسئلہ بیان ہوا ہے۔

ذیل میں چند آیات اور ان کی تفسیر میں علماءکے اقوال درج کئے جاتے ہیں۔

پہلی دلیل:

اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔

"ماکان محمدا ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین۔ وکان اللہ بکل شیءعلیما"1

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔

اس آیہ مبارکہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم جاننے کیلئے ”ختم “ سے متعلق ائمہ لغت کی رائیں پیش کی جاتی ہیں ۔

خاتم اور ارباب لغت کی آراء:

امام زہری ہروی (م 370ھ) بالاتفاق عربی لغت میں امامت کا درجہ رکھتے ہیں۔ لفظ ”ختم“ سے متعلق ان کی تصریحات یہ ہیں۔

"الخاتِم والخاتَم من اسماءالنبی وفی التنزیل (ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہو خاتم النبیین)مَعْنَاهُ: آخِرُ النَّبِيِّينَ"2

خاتم (بالجر ) اور خاتم ( بالفتح ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے گرامی ہیں اور قرآن میں بھی مذکور ہے کہ محمد ﷺ تم میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں، یعنی سب سے آخر میں آنے والے ہیں۔

علامہ جوہری (م398ھ) اپنی کتاب ’’ الصحاح ‘‘ میں رقمطراز ہیں:

"وخاتِمَةُ الشيء: آخرُه. ومحمدٌ صلى الله عليه وسلم خاتِمُ ‌الأنبياء عليهم الصلاة والسلام"3

کسی چیز کے خاتم کے معنی آخر کے ہوتے ہیں ، انہی معنوں میں آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں ۔

ابن منظور افریقی ( م :711ھ) لکھتے ہیں:

"‌وخاتِمُ كُلِّ شَيْءٍ وخاتِمَته: عَاقِبَتُهُ وآخِرُه. واخْتَتَمْتُ الشَّيْءَ: نَقيض افتَتَحْتُه"4

اور خاتم یا خاتمہ کے معنی انجام و آخر کے ہیں ۔ اور جب بولا جائے "واخْتَتَمْتُ الشَّيْءَ" تب افتتاح کی ضد مراد ہوتا ہے۔

امام راغب اصفہانی (م:502ھ) تحریر کرتے ہیں:

"«وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ» لأنه ‌خَتَمَ ‌النّبوّة، أي: تمّمها بمجيئه"5

آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت کو کمال و تمام تک پہنچا دیا ہے ۔

ابو البقاء الحسینی (م1094ھ) نے مصطلحات عربیہ پر ایک مستند کتاب لکھی ہے جو ’’ کلیات ابی البقاء ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں یہ صراحت سے مذکور ہے کہ: "وَتَسْمِيَة نَبينَا خَاتم الْأَنْبِيَاء لِأَن ‌الْخَاتم آخر الْقَوْم قَالَ الله تَعَالَى: {مَا كَانَ مُحَمَّد أَبَا أحد من رجالكم وَلَكِن رَسُول الله وَخَاتم النَّبِيين}"6

ہمارے حضرت محمد ﷺ کا نام "خَاتم الْأَنْبِيَاء" ہے اس لیے کہخاتم کے معنی آخر قوم کے ہیں جیسے مہر، خط کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ خاتم النبیین کے بھی یہی معنی ہیں۔

ماہرین لغت کے مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہوتاہےکہ خاتم النبیین کے معنی آخری نبیؐ کے ہیں ، جن کے بعد اب کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔

خاتم النبیین کی تفسیر اور مفسرین کرام

ارباب لغت کی طرح ائمہ تفسیر نے بھی خاتم النبیین کی تفسیر میں یہی تصریح کی ہے۔ چند معروف علمائے تفسیر کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

امام المفسرین علامہ ابن جریر طبریؒ (م310ھ) لکھتے ہیں:

"ولكنه رسول الله وخاتم النبيين، الذي ختم النبوة فطبع عليها، فلا تفتح لأحد بعده إلى قيام الساعة… واختلفت القراء في قراءة قوله (وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ).... فقرأ ذلك قراء الأمصار سوى الحسن وعاصم بكسر التاء من خاتم النبيين، بمعنى: أنه ختم النبيين. ذُكر أن ذلك في قراءة عبد الله (وَلَكِنَّ نَبِيًّا خَتَمَ النَّبيِّينَ) فذلك دليل على صحة قراءة من قرأه بكسر التاء، بمعنى: أنه الذي ختم الأنبياء صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم وعليهم، وقرأ ذلك فيما يذكر الحسن وعاصم (خَاتَمَ النَّبِيِّينَ) بفتح التاء، بمعنى: أنه آخر النبيين"7

مگر وہ اللہ کا رسول ہے اور خاتم النبیین ہے ۔ یعنی جس نے نبوت کو ختم کردیا اور اس پر مہر لگا دی کہ اس کے بعد قیامت تک وہ کسی کے لئے نہ کھلے گی … اور لفظ خاتم النبیین کی قرأت میں قاریوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ حسن اور عاصم کے سوا تمام ممالک کے قاریوں نے اس کو خاتم النبیین بالکسر پڑھا ہے اس معنی میں رسول اللہ ﷺ نے نبیوں کے سلسلے پر مہر لگا دی … اور جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عاصم نے اس کو خاتم النبیین بالفتح پڑھا ہے اس معنی میں نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں۔

محی السنۃ ابو محمد حسین بن مسعود البغوی (م510ھ) رقمطراز ہیں:

"خَتَمَ اللَّهُ بِهِ النُّبُوَّةَ. لِأَنَّهُ خَتَمَ بِهِ النَّبِيِّينَ فَهُوَ خَاتَمُهُمْ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُرِيدُ لَوْ لَمْ أَخْتِمْ بِهِ النَّبِيِّينَ لَجَعَلْتُ لَهُ ابْنًا يَكُونُ بَعْدَهُ نَبِيًّا. وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمَّا حَكَمَ أَنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ"8

اللہ نے آپ کے ذریعہ سے نبوت کو ختم کیا پس آپ انبیاء کے خاتم ہیں … حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ ﷺ پر نبوت کا اختتام نہ ہوتا تو حضرت زید کو بیٹا بنا لیتے اور وہ ان کے بعد نبی ہوتا( اسی لیے بیٹا نہیں بنایا کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں) اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

علامہ جار اللہ زمخشری (م538ھ) تحریر کرتے ہیں:

"فإن قلت: كيف كان آخر الأنبياء وعيسى ينزل في آخر الزمان؟ قلت: معنى كونه آخر الأنبياء أنه لا ينبأ أحد بعده، وعيسى ممن نبئ قبله، وحين ينزل ينزل عاملا على شريعة محمد، مصليا إلى قبلته، كأنه بعض أمّته"9

اگر تم کہو کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی کیسے ہوئے جبکہ عیسیٰ آخری زمانے میں نازل ہوں گے ؟ تو میں کہوں گا کہ آپ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ بنایا جائے گا اور عیسیٰ ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنائے جاچکے ہیں اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیؐ پر عمل کرنے والے اور آپ ؐ کے قبلے کی طرف نماز پڑھنے والے بن کر نازل ہوں گے گویا کہ وہ آپؐ کی امت کے ایک فرد ہیں۔

علامہ آلوسی بغدادیؒ (م1270ھ) لکھتے ہیں:

"والمراد بالنبي ما هو أعم من الرسول فيلزم من كونه صلّى الله عليه وسلم خاتم النبيين كونه خاتم المرسلين والمراد بكونه عليه الصلاة والسّلام خاتمهم انقطاع حدوث وصف النبوة في أحد من الثقلين بعد تحليه عليه الصلاة والسّلام بها في هذه النشأة"10

لفظ نبی بہ سنت رسول کے عام ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے لازم آتا ہے کہ آپؐ خاتم المرسلین بھی ہوں اور ان کے خاتم ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس زندگی میں نبی کریم ﷺ کے نبوت سے آراستہ ہوجانے کے بعد اب جن و انس میں سے کسی شخص کے اندر از سر نو وصف نبوت پیدا نہ ہوگا۔

 

دوسری دلیل

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا"11

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔

امام ابن کثیرؒ اس آیہ کریمہ سے ختم نبوت پر استدلال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

"هذه أكبر نعم الله تعالى عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ حَيْثُ أَكْمَلَ تَعَالَى لَهُمْ دِينَهُمْ، فَلَا يَحْتَاجُونَ إِلَى دِينِ غَيْرِهِ، وَلَا إِلَى نَبِيٍّ غَيْرِ نَبِيِّهِمْ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عليه، ولهذا جعله الله تعالى خَاتَمَ الْأَنْبِيَاءِ وَبَعَثَهُ إِلَى الْإِنْسِ وَالْجِنِّ"12

یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے ان کے لئے دین کو کامل فرمایا، لہٰذا امت محمدیہ نہ اور کسی دین کی محتاج ہے ، نہ کسی نبی کی اور اسی لئے اللہ عزوجل نے آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین بنایا اور تمام جن و بشر کی طرف مبعوث فرمایا۔

پیر کرم شاہ صاحب ازہری (م1998ء) اسی نکتے کو ان الفاظ میں اجاگر کرتے ہیں:

یہ آیت حضور نبی کریم ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ جب دین مکمل ہوچکا ، اس کے احکام میں ردو بدل کی گنجائش نہ رہی تو پھر کسی دوسرے نبی کے آنے کی بھی ضرورت نہ رہی۔13

ختم نبوت پر سنت سے دلائل

بے شمار احادیث میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ علماء نے صراحت کی ہے کہ ختم نبوت کی احادیث درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ حافظ ابن حزمؒ (م: 456ھ) لکھتے ہیں:

"وَقد صَحَّ عَن رَسُولالله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِنَقْل الكواف الَّتِي نقلت نبوته واعلامه وَكتابه أَنه أخبر أَنه ‌لَا ‌نَبِي ‌بعده"14

وہ تمام حضرات جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی کتاب ( قرآن کریم ) کو نقل کیا ہے، ان سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

علامہ ابن کثیر ؒنے«وَلكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ» کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت مبارکہ واضح ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، ان کے الفاظ ہیں:

"فَهَذِهِ الْآيَةُ نَصٌّ فِي أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ، وَإِذَا كَانَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ فَلَا رَسُولَ بعده بالطريق الْأَوْلَى وَالْأَحْرَى، لِأَنَّ مَقَامَ الرِّسَالَةِ أَخَصُّ مِنْ مَقَامِ النُّبُوَّةِ، فَإِنَّ كُلَّ رَسُولٍ نَبِيٌّ وَلَا يَنْعَكِسُ، وَبِذَلِكَ وَرَدَتِ ‌الْأَحَادِيثُ ‌الْمُتَوَاتِرَةُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَدِيثِ جماعة من الصحابة رضي الله عنهم"15

وہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی نبی نہیں آئے گا تو رسول کا نہ آنا بطریق اولی ثابت ہو رہا ہے اس لیے "رسول" خاص ہوتا ہے بنسبت " نبی " کے کیونکہ ہر رسول نبی ہوتو ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ۔ اور مسئلہ ختم نبوت پر رسول مکرم ﷺ کی متواتر احادیث وارد ہوئی ہیں ، جن کو صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت نے بیان فرمایا ہے ۔

اس باب میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں۔

پہلی حدیث

رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

"عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا ‌هَلَكَ ‌نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ"16

بنی اسرائیل کا حال یہ تھا کہ ان کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے ، جب کوئی نبی مر جاتا تو دوسرا نبی اس کی جانشینی کرتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے بلکہ خلفاء ہوں گے ۔

دوسری حدیث:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"عَنْ ‌أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ"17

میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائے مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار حیرت کرتے تھے مگر کہتے تھے کہ اس اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کردی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

تیسری حدیث:

ارشاد نبوی ﷺ ہے :

«عَنْ أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"فُضِّلْتُ عَلَى الأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ ‌جَوَامِعَ ‌الْكَلِمِ. وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ. وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ. وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا. وَأُرْسِلْتُ إلى الخلق كافة. وختم بي النبيون»18

مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی۔ رعب کے ذریعہ سے میری نصرت فرمائی گئی۔ میرے لئے غنیمت کو حلال کیا گیا۔ میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی وضو کی جگہ تیمم جائز کیا ) مجھے تمام دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا اور مجھ سے انبیاء کے سلسلے پر مہر لگا دی گئی ۔

چوتھی حدیث:

جناب رسالتمآب ﷺ کا فرمان ذی شان ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ ‌فَلَا ‌رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ"19

رسالت اور نبوت کا سلسلہ اب منقطع ہوچکا ہے۔ میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول۔

پانچویں حدیث:

ایک اور مقام پر سرورگرامی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ "‌أَنَا ‌مُحَمَّدٌ. وَأَنَا أَحْمَدُ. وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَى بِيَ الْكُفْرُ. وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَقِبِي. وَأَنَا العاقب". والعاقب الذي ليس بعده نبي"20

میں محمد ہوں ، محمد احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر کو محو کیا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔

درج بالا تمام احادیث سے یہ امر نکھر کر نظر و بصر کے سامنے آجاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب کسی نئے نبی کی آمد کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں اور قیامت تک آپ ﷺ ہی کی نبوت کا سکہ چلے گا۔جو احادیث یہاں پیش کی گئی ہیں وہ تمام اس مسئلہ میں بالکل واضح اور قطعی الدلالت ہیں۔ احادیث کے ذکر کے بعد مسئلہ ھذا پر اجماع امت کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

اجماع امت

جیسا کہ سطور بالا میں بیان ہوا، ختم نبوت کا عقیدہ ، اجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے اور اس میں کبھی بھی اہل اسلام کا اختلاف نہیں ہوا۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے بقول اسلامی تاریخ کا پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا تھا : وہ لکھتے ہیں

"واولاجماع کہ دریں امت منعقد شدہ اجماع برقتل سلیمہ کذاب بودہ کہ بسبب دعویٔ نبوت بود، شنائع دگرو صحابہؓ رابعد قتل معلوم شدہ ، چنانکہ ابن خلدن اور دہ سپس اجماع بلا فصل قرنًا بعد قرن بر کفر و ا ارتداد و قتل مدعی نبوت مائدہ"21

سب سے پہلے اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا وہ مسلیمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا جس کا سبب صرف اس کا دعویٰہے۔ اس کے بعد قرناً بعد قرن مدعی نبوت کے کفر و ارتداد اور قتل پر ہمیشہ اجماع بلا فصل رہا ہے۔

ختم نبوت کے عقلی دلائل

عقیدہ ختم نبوت کے نقلی دلائل کے بیان کے بعد اب اس باب میں عقلی دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ( م1979ء ) نے اس حوالے سے بڑی نفیس بحث فرمائی ہے، جو عقلی پہلو سے ختم نبوت پر فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ، اب نبی کریم کی آخر ضرورت کیا ہے ؟ کے زیر عنوان مولانا تحریر فرماتے ہیں:

قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آئی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چارحالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں۔

اول یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے ہو کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔

دوم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہوکہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھلا دی گئی ہو ، یا اس میںتحریف ہوگئی ہو ، اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔

سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی اور تکمیل دین کے لئے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔

چہارم یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لئے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔

اب ظاہر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبی کریم ﷺ کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔

قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتا رہی ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ ؐ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء علیہم السلام آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔

قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہاہے کہ حضور اکرم ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے ۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا۔ جو کتاب آپ لائے تھے اس میں ایک لفظ کی بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی ، نہ قیامت تک ہوسکتی ہے ۔ جو ہدایت آپ ؐ نے اپنے قول و عمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپ ؐ کے زمانے میں موجود ہیں ۔ اس لئے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔

پھر قرآن مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے ذریعے دین کی تکمیل کردی گئی ۔ لہٰذا تکمیل دین کے لئے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔

اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت تو اگر اس کے لئے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں آپ ؐ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ وجہ بھی ساقط ہوگئی۔

اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پانچویں وجہ کونسی ہے جس کے لئے آپ ؐ کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو ؟ اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لئے اصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے ، تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لئے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لئے وہ آئے ؟ نبی اس لئے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لئے ہوتی ہے یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لئے ، یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لئے۔ قرآن و سنت محمد ﷺ کے محفوظ ہوجانے اور دین کے مکمل ہوجانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ہوچکی ہیں ، تو اب اصلاح کے لئے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیاء ؑ کی۔

تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اٹھ کھڑا ہوگا ۔ جو اس کو مانیں گے وہ ایک امت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ مانیں گے وہ لا محالہ دوسری امت ہوں گے ۔ ان دونوں امتوں کا اختلاف محض فروعی اختلاف نہ ہوگا بلکہ ایک نبی پر ایمان لانے اور نہ لانے کا ایسا بنیادی اختلاف ہوگا جو انہیں اس وقت جمع نہ ہونے دے گا۔ جب تک ان میں سے کوئی اپنا عقیدہ نہ چھوڑ دے پھر ان کے لئے عملاً بھی ہدایت اور قانون کا ماخذ الگ الگ ہوں گے ، کیونکہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور اس کی سنت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے ماخذ قانون ہونے کا سرے سے منکر ہوگا۔ اس بنا پر ایک مشترکہ معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔

ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ ختم نبوت امت مسلمہ کے لئے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہواہے۔ اس چیز نے ایسے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کردیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمد ﷺ کو اپنا ہادی و رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور ماخذ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کاقائل نہ ہو وہ اس برادری کافر رہے ہر وقت ہوسکتا ہے یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہوسکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوجاتا کیونکہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔

آدمی سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہہ دے گی کہ جب تمام دنیا کے لئے ایک نبی بھیج دیا جائے اور جب اس نبی کے ذریعہ سے دین کی تکمیل بھی کردی جائے اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کردیا جائے تو نبوت کا دروازہ بند ہوجاناچاہیے تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہوکر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لئے اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امت میں بار بار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔ نبی خواہ ’’ ظِلی ‘‘ ہو یا ’’ بروزی ‘‘ امتی ہو یا صاحب شریعت اور صاحب کتاب ، بہر حال جو شخص نبی ہوگا اور خد ا کی طرف سے بھیجا ہوا ہوگا ، اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کے ماننے والے ایک امت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔ یہ بتفریق اس حالت میں تو ناگزیر ہے جبکہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو۔ مگر جب اس کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہے تو خدا کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خوامخواہ اپنے بندوں کو کفر و ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں کبھی ایک امت نہ بننے دے۔ لہٰذا جو کچھ قرآن سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے عقل بھی اسی کو صحیح تسلیم کرتی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہیے۔22

پیر کرم شاہ صاحب ازہری ؒ ختم نبوت کی عقلی دلیل دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:

قدرت کے کام حکمت سے خالی نہیں ہوتے۔ جب حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت جملہ اقوام عالم کے لئے اور قیامت تک کے لئے ہے، جب حضور اکرم ﷺ پر نازل شدہ کتاب بغیر کسی ادنیٰ تحریف کے جوں کی توں ہمارے پاس موجود ہے ، جب سرور عالم ﷺ کی سنت مبارکہ اپنی …… نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔ تو پھر کسی اور نبی کی بعثت کا فائدہ کیا ہے اور اس سے کس مقصد کی تکمیل مطلوب ہے۔ آفتاب محمد ی طلوع ہوچکا ہے۔ عالم کا گوشہ اس کی گردنوں سے روشن ہورہاہے تو پھر دن کے اجالے میں کسی چراغ کو روشن کرنا قطعاً قرین دانشمندی نہیں ہے۔23

پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:

انبیاء کی بعثت کا مقصد صرف یہی تھا کہ انسان ہدایت پائے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوگیا تو اب عقلی طور پر بعثت انبیاء کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے تھا ، چنانچہ اسی لئے آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین فرما دیا کہ اب نہ قرآن مجید کے بعد کوئی ہدایت نازل ہوگی اور نہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی آئے گا ۔24

شبہات پر اعتراضات:

ختم نبوت پر شبہات پیدا کرنے والی سب سے بڑی بیماری منصب نبوت سے بے خبری اور جہالت ہے۔ نئے نبی کی تلاش کرنے والوں کی کوتاہ بینی اور پست نظری اس مرتبہ بلند کو دیکھنے سے مانع ہوتی ہے جو حق تعالیٰ جل شانہ نے انبیاءعلیہم الصلوٰة والسلام کو عطا فرمایا ہے انہیں یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ ہر وہ شخص جو ان کی دانست میں سوسائٹی کی اصلاح کیلئے کوشاں ہو اور اپنے ذہن کی بلندی یا کردار کی خصوصیات کی وجہ سے معاصرین میں ایک ممتاز درجہ حاصل کرے۔ منصب نبوت کا اہل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ صرف اصلاحی کام ہی نہیں بلکہ انقلابی کام بھی اس منصب عظیم کی اہلیت و صلاحیت سے ادنیٰ تعلق بھی نہیں رکھتا ہے۔ نبوت نہ تو محض فکر مندی کا نام ہے نہ عملی صلاحیتوں کا۔ بے شک انبیاءعلیہم السلام ذہن وفکر کے لحاظ سے ساری دنیا سے ممتاز ہوتے ہیں اور اخلاق و کردار نیز عملی صلاحیتوں اور استعداد کے اعتبار سے ان کے کاخ بلند تک عوام کا طاہر خیال بھی نہیں پہنچ سکتا۔ مگر یہ مرتبہ عظمی ذہن و فکر یا علم و عمل کی بلند پروازی سے بہت بلند اور ان کی دسترس سے باہر ہے۔ یہ ایک وہی مرتبہ اور انتخابی درجہ ہے جس پر وہی حضرات ممتاز اور فائز ہوتے ہیں جنہیں رب العالمین کی رحمت خاصہ نے اس عہدے کیلئے منتخب کرلیا اور اپنے خطاب سے منحرف فرمایا۔ وحی ربانی ان کی خصوصیت خاصہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انتخاب ان کا حقیقی امتیاز ہے۔25

 

 

جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے پیرو کاروں کیخلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جہاد

اسود عنسی

حضور خاتم الانبیین کے دور مبارک میں اسود عنسی نامی ایک بدبخت نے دعویٰ نبوت کیا تو اس کے قتل کیلئے حضرت فیروز دیلمیؓ کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خصوصی مہم پر روانہ فرمایا جنہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد اسود عنسی کو جہنم واصل کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے ذریعے اسود عنسی کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے فیروز دیلمیؓ کی تعریف فرمائی۔

مسیلمہ کذاب

اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں مسیلمہ کذاب نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ بہت سارے لوگ اس کے پیروکار بن گئے۔ آقائے نامدار کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جھوٹے مدعیان نبوت کیخلاف جہاد کیلئے جید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل دس ہزار کا ایک لشکر حضرت خالد بن ولید ؓکی قیادت میں بھیجا کہ تحفظ ختم نبوت اور اس کے منکرین کے مرتد اور واجب القتل ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کا پہلا اجماع تھا۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی جماعت کے خلاف وہی معاملہ کیا گیا جو کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

سجاح بنت حارث

بنو تمیم کے قبیلہ پر بوع سے تعلق رکھنے والی اس عورت نے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا۔ عراق سے بڑا لشکر ساتھ لائی اور مدینہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ پھر مسیلمہ کذاب سے مل گئی اور اس سے نکاح کرلیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کے خلاف جہاد کیا۔26

طلحہ اسدی

یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مرتد ہوگیا تھا اور پھر نبوت کا دعویٰ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے قتل کیلئے حضرت ضرار بن ازور کو بھیجا تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس شخص کا معاملہ انتہائی سنگین ہوگیا اور حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں اس کیخلاف جہاد کیا گیا۔27

 

 

مرزا غلام احمد قادیانی

ختم نبوت کے اقرار اور انکار اور ختم نبوت کے معنی اور نبوت وحی کے دعوﺅں سےمتعلقمرزاصاحبکےتضادمیںاگرکوئیمعقولیتاورتطبیقپیداکیجاسکتی ہے تو صرف اسی طرح کہ ان کو مختلف ادوار عمر اور مختلف زمانوں سے متعلق قرار دیا جائے جس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں مرزا غلام احمد قادیانی پر مختلف ادوار گزرے ہیں:۔

پہلا دور۔ وہ تھا جب مرزا قادیانی سب مسلمانوں کی طرح مسلمان تھے اور اُمت کے اجماعی عقائد و نظریات کو بلا کسی جدید تاویل و تحریف کے تسلیم کرتے تھے اور ایک مبلغ اسلام کی حیثیت سے کچھ چیزیں لکھتے ہیں۔

دوسرا دور:۔ وہ تھا جس میں انہوں نے کچھ دعوے شروع کئے اور ان میں تدریج سے کام لیا۔ مجدد ہوئے‘ مہدی بنے‘ یہاں تک کہ مسیح موعود بنے۔ یہاں پہنچ کر یہ خیال آنا ناگزیر تھا کہ مسیح موعود تو اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم رسول و نبی اور صاحب وحی تھے۔ عقیدہ ختم نبوت کے ہوتے ہوئے کسی نئے شخص کا مسیح موعود بننا تو ختم نبوت کے خلاف ہے۔ اس وقت انہوں نے ختم نبوت کے معنی میں تحریفیں شروع کیں۔ نبوت کی خود ساختہ چند قسمیں تشریعی غیر تشریعی ‘ ظلی‘ بروزی‘ لغوی اور مجازی بتا کر ختم نبوت کے یقینی عموم و اطلاق کو مشکوک کرنا چاہا اور اپنی مزعومہ اقسام نبوت سے بعض قسموں کا بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جاری رہنا بتایا اور اپنے حق میں اسی طرح جاری رہنے والی نبوت کے مدعی بن گئے۔

تیسرا دور:۔ وہ تھا جس میں تاویل و تحریف سے بے نیاز ہوکر کھلے طور پر ہر قسم کی نبوت کے بلاتفریق تشریعی و غیر تشریعی معاملے جاری قرار دیئے اور خود کو صاحب شریعت نبی بتایا۔

دوسرا دور انیسوی صدی عیسوی کے آخر یا بیسویں صدی کے شروع میں تھا پہلا اس سے پہلے اور تیسرا اس کے بعد بیان مذکور کی تصدیق میں مرزا قادیانی کی اپنی تصانیف سے نیز ان کے خلیفہ دوم کی چند تحریروں سے نقل کیا جاتا ہے۔28

ماضی قریب میں مرزا غلام احمد قادیانی کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ ثابت ہوا ہے اور اس کی رخنہ اندازی تاحال جاری ہیں ، اس فتنہ کی احساسیت کو بروقت بھانپتے ہوئے علمائے برصغیر نے انتھک جدوجہد اور محنت سے اس کے آگے دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی ، اور اس سلسلہ میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ، اس میں سب سے اہم کام "تحریک ختم بنوت" کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس تحریک نے بہت جانیں گنوائیں بہت مشکلات کا سامنا کیا تاہم ایک بہت بڑی کامیابی بھی حاصل کی ۔ وہ یہ کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے آپ ﷺ کی ختم نبوت کا قانون پاس کروایا اور اس امر کو قانون کا حصہ بنوایا کہ تا قیامت کوئی نبی کوئی رسول کسی شکل میں نہیں آئے گا۔ اس کامیابی کی کچھ رویداد ذیل میں پیش کی جاتی ہے ۔

 

 

تحریک ختم نبوت 1974ء

تحریک ختم نبوت 1974ءسے ہماری مراد دستور پاکستان 1973ءمیں دوسری ترمیم کی پارلیمنٹ سے متفقہ منظوری کیلئے مسلمانان پاکستان کی مشترکہ جدوجہد ہے۔ اس ترمیم کی منظوری سے انگریزوں کا پروردہ نوے سالہ قدیم قادیانی فتنہ اپنے منطقی انجام تک پنچا۔ یعنی دستوری طور پر نبوت کے جھوٹے دعویٰ دار مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین دونوں گروہوں (قادیانی و لاہوری) کو اسلام کے مسلمہ عقیدے ختم نبوت کے انکار کے سبب غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔

قادیانی فتنہ اسلام کے لبادہ میں مسلمانوں کو مرتد بنانے کی تحریک تھی جس کا اجرا انگریز کے ایما پر مرزا غلام احمد قادیانی نے انیسویں صدی کے آخری ربع میں کیا۔ مرزا قادیانی نے درجہ بہ درجہ متعدد دعاوی کئے جن میں مصلح موعود‘ مامور من اللہ‘ مجدد‘ رثیل مسیح / مسیح موعود اور نبوت کے دعاوی شامل ہیں۔ مرزا قادیانی نے اپنی تحریروں کے ذریعے مسلمانوں کے مسلمہ نظریات پر وار کئے۔ نیز برگزیدہ شخصیات کی توہین اور قرآنی آیات میں تحریف لفظی و معنوی کا مرتکب بھی ہوا۔ 26مئی 1908ءکو مرزا قادیانی جہنم واصل ہوا تو اس کے متبعین نے خلافت کے نام پر اپنے مذموم نظریات کا پر چار جاری رکھا۔ برطانوی اقتدار کے زیر اثر تقریباً پون صدی تک یہ فتنہ پرورش پاتا رہا۔

قیام پاکستان کے بعد مرزائیوں نے پاکستان کا رخ کیا اور جھنگ کے قریب ایک وسیع قطعہ اراضی اونے پونے دام حاصل کرکے ریاست در ریاست قائم کرلی۔ اس ریاست کا نام ربوہ رکھا گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں چوہدری جوکہ مرزائی تھے۔ نے مرزائیوں کو مختلف اداروں خاص کر فوج اور وزارت خارجہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔

مختصر عنوان اور آغاز نفاذ

یہ ایکٹ آئین (ترمیم دوم) ایکٹ 1974ءکہلائے گا۔

یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔

آئین کی دفعہ 196 میں ترمیم

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جسے بعدازیں آئین کہا جائے گا دفعہ 106 کی شق 3 میں لفظ ”فرقوں“ کے بعد الفاظ اور قوسین ”اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) “ درج کئے جائیں گے۔

آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم

آئین کی دفعہ 260 میں شق (2) کے بعد حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی ۔ یعنیجو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوکہ آخری نبی ہیں۔ کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے

یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کی اغراض کیلئے مسلمان نہیں ہے۔29

 

خلاصہ کلام

مندرجہ بالا بحث کا حاصل یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر سلسلہ نبوت و رسالت کی تکمیل ہوچکی ہے اور کسی نئے نبی کے آنے کا شرعی و نفلی اعتبار سے کوئی امکان ہے اور نہ عقل ہی اس کی متقاضی ہے، لہٰذااب ہر مدعی نبوت کذاب اور دجال شمار ہوگا اور اس کو پیغمبر ماننے والا کافر و مرتد سمجھا جائے گا۔ اور خدانخواستہ کوئی بنوت کا دعوی کرے تو اس سے اس کی نبوت پر دلیل مانگنے کی بھی گنجائش نہیں وہ بنا دلیل کے ہی جھوٹا اور کذاب ہے۔

 

ایمان

ختم نبوت کے حوالے سے ہماری ذمہ داریوں میں سب سے پہلے ہمارا ایمان ہے۔ ہمارا عقیدہ نہ علم کا محتاج ہے نہ عقل کا‘ عقیدہ تو بلاتامل اور بے چون و چرا دل سے قبول کرلینے کا نام ہے۔ علمائے کرام نے پیام ختم نبوت‘ مقام ختم نبوت اور منصب ختم نبوت و رسالت کو موجودہ عہد کے عقلیت پرست لوگوں کی زبان میں پہنچا دیا ہے۔عقیدہ ختم نبوت ضروریات دین میں شامل ہے اوراس کا انکار یقینا کفرو ارتداد ہے جس سے کوئی تاویل نہیں بچا سکتی۔ اہل سنت کے نزدیک یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے منکرین ختم نبوت کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا وہ ایک منصف مزاج اور سمجھدار مسلمان کیلئے ایسی دلیل ہے جس کے بعد اسے کسی اور دلیل و برہان کی احتیاج باقی نہیں رہتی۔

 

تحفظ

انکار ختم نبوت کا فتنہ بہت ہی شدید فتنہ ہے اس کی شدت کی نسبت سے اس کے مقابلے کا فریضہ بھی اہم ہوجاتا ہے اگر ہم اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو کل دربار الٰہی میں ذلیل و خوار اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نادم و شرمسار ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ مقابلے کی ایک ہی شکل ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کو دلائل وبراہن کی روشنی میں دلنشین انداز میں پیش کیا جائے گا اور اس کے لٹریچر اور کتب کو حتی الامکان ہر مسلمان تک پہنچایا جائے۔ موجودہ دور میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

1۔ القرآن 40:33

. Al-Quran 40:33

2

-الهروي،محمد بن أحمد بن الأزهري (م: 370ھ) تهذيب اللغہ، بیروت: دار إحياء التراث العربي،2007ء، 7/ 138. ابن منظور ،الافریقی، محمد بن مکرم (م: 711ھ) لسان العرب، بیروت: دار صادر، طبع: سوم، 1414ھ، 12/164

- Al-Harawi, Muhammad bin Ahmad bin Al-Azhari (AD: 370 AH) Tahdheeb Al-Lugha, Beirut: Dar ul Ihya Al turas Arabi , 2007-, 7/ 138. Ibn Manzoor, Al-Afriqi, Muhammad bin Makram (AD: 711 AH) Lisan Al-Arab, Beirut: Dar Sader, printed : Soum, 1414 AH, 12/164

 

3 ۔الجوہری ، إسماعيل بن حماد (م:393ھ) الصحاح تاج اللغہ وصحاح العربية ،بیروت: دار العلم للملايين، 1407ھ، 5/ 1908

43. Al-Jawhari, Ismail bin Hammad (AD: 393 AH), Al-Sihah Taj al-Lughah and Sahih al-Arabiyyah, Beirut: Dar al-Ilm Li’l Millions, 1407 AH, 5/1908

۔ابن منظور ،الافریقی، محمد بن مکرم (م: 711ھ) لسان العرب، بیروت: دار صادر، طبع: سوم، 1414ھ، 12/164

54. Ibn Manzoor, Al-Afriqi, Muhammad Ibn Makram (AD: 711 AH) Language of the Arabs, Beirut: Dar Sadir, Type: Third, 1414 AH, 12/164

.الراغب الاصفہانی، الحسين بن محمد (م: 502ھ) المفردات في غريب القرآن، بیروت: دار القلم ، 1412ھ، ص: 275

5. Al-Ragheb Al-Isfahani, Al-Hussein Bin Muhammad (AD: 502 AH), Al-Mufradat fi Gharib Al-Qur’an, Beirut: Dar Al-Qalam, 1412 AH, p.: 275

6ابو البقاء، أيوب بن موسى الحسيني(م:1094ھ) الكليات معجم في المصطلحات والفروق اللغویہ ،بیروت: مؤسسة الرسالة، ص: 431

76. Abu Al-Baqa, Ayoub bin Musa Al-Husseini (AD: 1094 AH), Colleges, A Dictionary of Terms and Linguistic Nuances, Beirut: Al-Risala Foundation, p.: 431

طبری، محمد بن جرير(م:310ھ)جامع البیان، مکہ مکرمہ:دار التربية والتراث، 20/279

7.Tabari, Muhammad bin Jarir (d: 310 AH) Jami al-Bayan, Makkah Mukarramah: Dar al-Hiliya wa al-Tratah, 20/279.

8 ۔ الحسين بن مسعود ، بغوی، محی السنہ ، (م:510ھ)معالم التنزیل ، بیروت:دار إحياء التراث العربي، 1420ھ، 3/646

98. Baghwi, Mohi al-Sunnah, al-Husayn bin Masoud (d: 510 AH) Maalam al-Tanzil, Beirut: Dar Ihya Al-Turath al-Arabi, 1420 AH, 3/646

.زمخشری، جار اللہ ، محمود بن عمرو(م: 538ھ)الکشاف، بیروت: دار الکتاب العربی، 1407ھ، 3/544-545

109.Zamakhshari, Jarullah, Mahmood bin Amro (d: 538 AH) al-Kashaf, Beirut: Dar al-Kitab al-Arabi, 1407 AH, 3/544-545.

۔آلوسی، شهاب الدين محمود بن عبد الله (م:1270ھ) روح المعانی، بیروت :دار الکتب العلمیہ،1415ھ، 11/213

10.Alousi, Shahab al-Din Mahmud bin Abdullah (d: 1270 AH) Rooh al-Ma'ani, Beirut: Dar al-Kitab al-Ulamiya, 1415 AH, 11/213

11۔ القرآن 3:5

1211. Al-Quran 3:5

۔ابن کثیر، إسماعيل بن عمر (774ھ) تفسیر القرآن العظیم ، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1419ھ ، 3/22

12. Ibn Katheer, Ismail bin Umar (774 AH) Tafsir al-Qur'an al-Azeem, Beirut: Dar al-Kitab al-Ulamiya, 1419 AH, 3/22

13 .ازھری، پیر محمد کرم شاہ (م: 1998ء) ضیاء القرآن ، لاہور: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، 1/440

13.Azhri, Pir Muhammad Karam Shah (d: 1998) Zia-ul-Quran, Lahore: Zia-ul-Quran Publications, 1/440

14 .ابن حزم، علی بن احمد(م: 456ھ) االفصل في الملل والأهواء والنحل، قاہرہ :مكتبة الخانجي، 1/67-68

1514.Ibn Hazm, Ali bin Ahmad (AD: 456 AH) Al-Fasl fi Al-Milal, Al-Ahwaa and Al-Nahl, Cairo: Al-Khanji Library, 1/67-68

۔ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ، 6/381

1615.Ibn Kathir, Tafsir al-Qur'an al-Azeem, 6/38

.بخاری ، محمد بن اسماعیل ، (م:256ھ) ، بیروت : دار طوق النجاة ، 1422ھ، کتاب احادیث الانبیاء ، ‌‌بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، حدیث : 3455، 4/169

1716. Bukhari, Muhammad bin Ismail, (AD: 256 AH) , Beirut: Dar Touq Al-Najat, 1422 AH, Kitab ul Hadiths of the Ambiyah, Bab Ma zikr Ana Bani Israeel, Hadith: 3455, 4/169

. صحیح البخاری، کتاب المناقب ، باب خاتم النبیین، حدیث: 3535، 4/186

1817. Bukhari, Sahih al-Bukhari, Kitab al-Manaqib, Bab Khatam al-Nabiyin, Hadith: 3535, 4/186

مسلم، امام (م:261ھ) صحیح مسلم، بیروت: دار إحياء التراث العربي، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ،حدیث: 523، 1/371

18. Muslim, Imam (AD: 261 AH) Sahih Muslim , Hadith: 523, 1/371

19ترمذی، محمد بن عیسی ، امام ( م: 279ھ) سنن الترمذی ، بیروت: دار الغرب الإسلامي،1996ء، ابواب الرویاء ، بَابُ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ، حدیث: 2272، 4/118

2019. Al-Tirmidhi, Muhammad bin Issa, Imam (AD: 279 AH) Sunan Al-Tirmidhi, Beirut: Dar Al-Gharb Al-Islami, 1996-, Abwab alroya , Bab un nabawat lqib mu bashrat, Hadith: 2272, 4/118

۔صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، باب اسماء النبی، حدیث:2354، 4/1828

20. Sahih Muslim, Kitab al-Fadayl, Babul Asma Nabi , Hadith: 2354, 4/1828

21۔ انور شاہ کشمیری، (م: 1933ء) خاتم النبیین 67

21. Anwar Shah, Allama , kashmiri (d: 1933) Khatam-ul-Nabieen 67

22. مودودی ، ابو الاعلی ، سید (م: 1979ء) تفہیم القرآن، لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، 4/152-154

2322. Maududi, Abul-Ali, Syed (d. 1979) Understanding the Qur'an, Lahore: Interpreter of the Qur'an Institute, 4/152-154

۔ پیر محمد کرم شاہ ازھری، ضیاالقرآن:73/4

2423. Azhri, Pir Muhammad Karam Shah, Zia-ul-Quran: 73/4

۔ یوسف سلیم چشتی ،ختم النبوت:22 مشمولہ احتساب قادیاننیت 6/340

2524. Yuosuf Salim Chishti , Khattam al-Nubuat: 22 Contents Accountability Qadianiyyah: 6/340

۔ محمد اسحق صدیقی سندیلوی۔ اگست 1988 عالمی مجلس احرار بنی ہاشم۔ ملتان۔ ص 17

25. Muhammad Ishaq Siddiqui Sandilvi. August 1988 World Majlis Ahrar Bani Hashim. Multan. Page 17

26 . محمد متین خالد ،تحفظ ختم نبوت اہمیت و فضیلت‘ ناشر۔ ادارہ تالیفات ختم نبوت ، لاہور پرنٹر۔ موہر رحمانیہ ، 2008ء،ص 50

2726. Muhammad Mateen Khalid. Publisher. Tahafuz Khatman Nabubat ihmiyat w fazilat Idara Talifat , Lahore Printer. Mohar Rahmaniya, 2008, p 50

۔ مشتاق احمد، تاریخ تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ ،چنیوٹی پرنٹر جے ایم ایڈور ٹائزر اردو بازار 5 لوئر مال لاہور : انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان اشاعت مئی 2008ء، ص 27

27. Mushtaq Ahmad, Tarikh tahfuz Khatman-e-Nububat ki Saad Saala, Chinyuti Printer JM Advertiser Urdu Bazaar 5 Lahore : International Khatman-e-Nububat Movement Pakistan Publication May 2008, p 27

28 ۔محمد شفیع، ختم نبوت، کراچی: مکتبہ معارف القرآن مطبع۔ احمد برادرز پرنٹنگ پریس ستمبر، 2012ء،ص 15

28. Muhammad Shafi, Maulana, Muft, Khatam Nabubat, Karachi: Maktaba Ma'rif al-Qur'an Muktaba. Ahmad Brothers Printing Press September, 2012, p 15

29

۔محمد ثاقب رضا قادری ، تحریک ختم نبوت 1974ء لاہور: دارالنعمان، طبابع۔ مقصود احمد۔ ستمبر 2017ء،صفحہ: 17

29. Muhammad Saqib Raza Qadri, Tehrik Khatame Nabuwat 1974 Lahore: Darul Numan, Printers. Maqsood Ahmed. September 2017, Page: 17

 

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...