Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Bahis Journal of Islamic Sciences > Volume 3 Issue 2 of Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

عصر حاضر میں حصول انصاف میں مشکلات مسلم فکر کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences
Al-Bahis Journal of Islamic Sciences

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2022

ARI Id

1682060063251_3057

Pages

46-55

PDF URL

http://brjisr.com/index.php/brjisr/article/view/113

Chapter URL

http://brjisr.com/index.php/brjisr/article/view/113

Subjects

: Justice Safety life Properity Freedom. کلیۃ الفاظ : جان و مال کی حفاظت عدل و انصاف شخصی آ زادی

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انصاف کا مفہوم 

انصاف کے لغوی معنی کسی چیز کو دو برابر حصوں میں بانٹنا ہے (لسان العرب)انصاف کا لفظ بہت حد تک عدل کے ہم معنی ہے ۔اردو میں عدل و انصاف کے معنی یکساں ہیں عدل کے لغوی معنیٰ سیدھا کرنا ، برابر تقسیم کرنا ، توازن قائم کرنا ، مساوات قائم کرنا ، برابر رکھنا ہے ۔

حضرت داتا گنج  بخش لکھتے ہیں کہ عدل کے معنی کسی چیز کو اس کے صحیح موقع و محل میں رکھنا ہے  اس کی ضد ظلم ہے جس کے معنی کسی چیز کو ایسی جگہ رکھنا جو اس کے لائق نہ ہو ( کشف المحجوب ) قرآن کریم میں عدل کے لیے قسط کا لفظ بھی ملتا ہے  عدل کے سہارے کائنات کا  سارا نظام  چل رہا ہے ہر شے اپنے مقررہ مدار میں رواں دواں  ہے کائنات کے سارے اجزاء ایک مکمل توازن میں ہیں اجزائے عالم کے درمیان پائیدار توازن ہے یہ توازن قائم  نہ رہے تو کائنات کا نظام  درہم برہم ہو جائے گا گویا اللہ تعالیٰ نے کائنات کو عدل و انصاف کے ساتھ بنایا ہے انسان بھی عدل کے ساتھ بنایا گیا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔

یا یھا الانسان ما غرک بربک الکریم ، الذی خلقک فسوٰک فعد لک  ۔[1]

اے انسان ! تجھے اپنے رب  کریم سے کس چیز نے بہکایا ؟ جس ( رب نے ) تجھے پیدا کیا ، پھر ٹھیک ٹھاک کیا پھر ( درست اور ) برابر بنایا۔"

اسلام مکمل ضابطہ حیات

اسلام نے اس کائنات کا  نظام چلانے کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ہے جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام  کا  اس دنیا  میں آنے سے ہوگیا تھا اور رسول ؐ پر اس کی تکمیل ہوئی  یہ ایک ہم گیر اور جامع نظام ہے جس میں فرد اور اجتماع دونوں کے حقوق و فرائض سب اس نظام کی بنیاد عدل وانصاف کے تصور پر ہے ۔ اسلام کے اس نظام کے تحت زمین پر حکم اعلیٰ صرف اللہ کی ذات ہے انسان کی  حیثیت  نائب  اور خلیفہ کی ہے انسان کی ذمیداری ہے کہ سارے کاروبار حیات کو اللہ کی مرضی کے مطابق  لے کر چلیں ۔ زمین   اور اس کے وسائل پوری انسانیت کے لئے تخلیق کئے گئے  ہیں ۔ تمام انسانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق انہیں استعمال کرنے کا حق  ہے لیکن کسی فرد کو ان وسائل پر قبضہ کرنا یا  اس کو ذخیرہ کرنے کا حق حاصل نہیں جس کی وجہ سے  دوسرے افراد محروم ہوجائیں ۔ہر شخص کے جس طرح حقوق ہیں مثلا جان ومال ، عزت و آبرو   کا تحفظ اس طرح اس کے فرائض بھی ہیں کہ اس کی ذات  دوسرے انسانوں کے لئے سہولتوں اور راحتوں کا سامنا پہنچانے کا موجب ہوا اور کسی کو کسی سے کوئی  تکلیف  نہ پہنچے ۔

عدل و انصاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ  : اورمحمد ؐ کے ارشادات اسلام انصاف کو محض قانونی ، معاشرتی یا سیاسی  نہیں  ، بلکہ زندگی کے ہر گوشے  میں انصاف  کا حکم دیتا ہے ۔ اور اسے ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے  اور انصاف کا فیضان حاکم و محکوم دوست دشمن سب کے لئے یکساں قرار دیا ہے ۔ ارشاد  باری تعالیٰ ہے ۔

لا یجرمنکم شناٰ  ن قوم علی الا  تعدلو اعدلو ا  ، ھوا قرب     للتقویٰ ،   واتقو االلہ ،  ان اللہ خبیر بما تعملون  ۔  [2]

 " کسی  قوم کی عداوت تمہیں خلاف  عدل پر آمادہ   نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہیز گاری  کے زیادہ قریب ہے ،  اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ  تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ "

عدالتی انصاف

اردو میں عدل  کے معنی عدالتی انصاف کے لئے جاتے ہیں قرآن حکیم اور احادیث میں عدل  کا لفظ انہی معنوں میں بار بار آرہا ہے ۔ حضرت محمد ؐ کے انصاف کا یہ  عالم تھا کہ مسلمان یہود ( نصاریٰ) بھی اپنے فیصلے آپ  ﷺ سے کرواتے  تھے  بعض اوقات ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کریں اور نعوذ بااللہ انہیں راہ حق سے ہٹاکر آپ  ﷺ کی شہرت کو نقصان پہنچائیں اسی لئے  قرآن پاک میں آپؐ کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو  ن کے مقدمات کا فیصلہ کریں اور  چاہیں  تو انکار کردیں لیکن جب  فیصلہ  ہی کرنا ہو تو انصاف سے کریں ۔

اسلام رنگ ونسل ، قبیلہ ، خاندان ، آزاد ، غلام مرد و عورت اور امیر و غریب کی کوئی تفریق نہیں کرتا قریش کی ایک عورت نے چوری کی تو حضور ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیالوگوں کے آپ  ﷺ کے غلام حضرت  زید کے بیٹے اسامہ کو آپؐ کے پاس سفارش کے لئے بھیجا  آپؐ کو اسامہ سے بڑی محبت تھی مگر سفارش  سن کر فرمایا کیا تم حدوداللہ  میں سفارش کرتے ہو اس کے بعد آپؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کو اس چیز نے ہلاک کیا کہ  جب بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے  چھوڑ دیتے تھے اور کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کردیتے تھے اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیتا ۔[3] بدر کی جنگ کے قیدیوں میں حضرت عباس رضہ بھی تھے جو حضور ﷺ کے چچا تھے مدینہ میں ان کا ننھیال تھا بعض انصار نے عرض کیا اجازت ہو تو اپنے بھانجہ عباس کا فدیہ چھوڑدیں  ۔ آپؐ  نے فرمایا ایک درہم بھی کم نہ ہو ۔ [4]

یہود خیبر مسلمانوں کے جانی دشمن تھے ۔ آپؐ کے ساتھ بد عہدی کر کے کئی جنگیں  لڑچکے تھے بالاخر اسلامی حکومت کو  تسلیم کرلیا ۔ ایک دفعہ انہوں نے ایک صحابی کو شہید کردیا عینی گواہ میسر نہیں تھے اس لئے نبی ﷺ نے بیت المال سے خون بہا کی رقم ادا کردی اور یہود کو چھوڑ دیا ۔ [5]

جان و مال کی حفاظت

اللہ تعالیٰ نے بلا تخصیص رنگ ونسل پر انسان کی جان ومال عزت و آبرو کی حفاظت کا حکم   فرمایا ہے :

من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکا نما قتل الناس جمیعا ۔[6]

جس نے کسی شخص کو قتل کیا بغیر کسی کے قتل کے یا زمین پر فساد پھیلایا پر تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا ۔ نبی اکرم ﷺ  کا فرمان ہے،

دفدالک المسلم الذی لہ دمۃ اللہ ورسولہ فلا  تحفر واللہ فی زمتہ ۔ [7]

پس یہ وہ مسلم ہے جس کی جان ومال کی حفاظت کا ذمہ اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول نے لیا تو خبردار  اللہ تعالیٰ کی  دی ہوئی ضمانت میں غداری نہ کرو ۔

ایک اور مقام پر فرمایا : کل المسلم  علی المسلم حرام دمہ وملہ وعرضہ ۔[8]

"مسلمان  کی ہر چیز دوسرے  مسلمان  پر حرام ہے اس کا خون اس کا مال اور اس کی آبرو ۔"

مسلمان معاشرے میں زمی یعنی غیر مسلم کے لئے بھی   اصول ہے کہ اس کا خون مسلم کے خون کی طرح اس کی دیت مسلم کی دیت کی طرح اور اس کا مال مسلمان کے  مال کی طرح ہوگا۔ محمد ﷺ نے خطبہ حجۃ الودا ع کے موقع پر اعلان فرمایا : ان دمائکم واموالکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ھٰذا ۔  " تمہارے لوگوں کے خون اور مال تم پر ایسے حرام ہیں  جیسے  آج کا دن حرمت کا ہے ۔"

شخصی  آ زادی :

اسلام کا پہلا اصول یہ ہے کہ بغیر جرم کے کسی کو قید نہیں کہا  جا سکتا  ارشاد ہوتا ہے : لا یوسر رجل فی الاسلام بغیر عدل ۔ [9]

اسلام میں کوئی بغیر عدل کے قید  نہیں ہوسکتا ۔

مسلک  کی آزادی

اسلام  میں ہر شخص کو عقیدے رائے کا خیال اور مسلک کی آزادی دیتا ہے بشرطیکہ وہ اختلاف رائے کو خون ریزی اور فتنہ وفساد کا ذریعہ نہ بنائے اس کی ایک روایت حضرت علی ٰ تعالیٰ عنہ نے قائم کی انہوں نے خوارج کے معاملے میں ۔

  اہل نا اہل کے مراتب کا خیال رکھنا :

عدل یہ ہے کہ اہل ونااہل کا خیال رکھا جائے  اگر معاشرے میں سے ہر تمیز ختم ہوجائے تو انسانی برادری کا نظام درہم برہم ہو جائے گا ۔ حفظ مرائب کے بغیر امن وعافیت کی بنیاد مٹ  جاتی ہے اور انصاف کا خون ہوجاتا ہے ۔

 فرمایا تم  جہاں چاہو  رہو اور ہمارے اور تمہارے درمیان شرط یہ ہے کہ تم خونریزی ورایزنی اختیار کرو اور ظلم نہ کرو اور ظلم نہ کرو ۔[10]

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لا اکراہ  فی الدین  ،  قد تبین الرشد من الغی ۔[11]

دین کے  معاملے میں کوئی زبردستی نہیں بلا شبہ ہدایت گمراہی سے الگ  ظاہر ہوچکی ۔

سورۃ انعام میں ارشاد فرمایا : ولا تسبو االذین یدعون من دون اللہ فیسبوااللہ عدوا بغیر علم ۔ [12]

اور تم ( اے مسلمانو  ) ان کو جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں برا بھلا مت کہو کیونکہ پھر وہ بھی جہالت کے باعث حد سے تجاوز کرکے اللہ کی شان میں گستاخی کرنے لگیں گے ۔

آپؐ نے اہل نجران کو مسجد نبوی میں عبادت  کرنے کی اجازت دی ، فرمایا : دعو ھم فضلو االی المشرق  ۔[13]

ان کو اپنے حال پر چھوڑدو چنانچہ انہوں نے مشرق کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ۔

حضرت عمر رضہ نے اپنے غلام کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا تو حضرت  عمر  رضہ نے فرمایا ،  لا اکراہ فی الدین  ، [14]

قرآن  پاک میں  ارشاد ہوتا ہے : ولو شاء ربک  لاٰمن  من  فی الارض  کلھم  جمیعا  ، افانت  تکرہ الناس حتٰی یکونو امومنین ۔[15]

اور اگر  آپ  کا  رب چاہتا  تو  تمام  روئے  زمین کے لوگ  سب کے  سب  ایمان لے آتے  تو کیا  آپ لوگوں  پر زبردستی کرسکتے  ہیں یہاں  تک کہ وہ مومن ہی ہوجائیں ۔

حکم حق کہنا 

حکم  ہے کہ حق کہنے کے لئے اخلاقی جرات کی ضرورت ہوتی ہے ارباب  اختیار کرو بعض دفعہ کلمہ حق کہنے سے غصہ آجاتا ہے اور خوفناک  سزائیں  دینے پر آتے  ہیں ۔  یزید کے دربار میں اہل بیت کرام  کے سر پیش ہوئے تو ساتھ ہی  اسیران سادات کا مظلوم اور بے سہارا قافلہ بھی تھا ان میں  حضرت حسین کی ہمیشرہ  حضرت  زینب بھی تھیں  یزید نے برسردربار حضرت حسین کے خلاف گستاخانہ فقرے کہے اس وقت حضرت زینب کا سہارا ہوئے اللہ کی ذات کے سوا کوئی  نہ تھا  ہر طرف موت کے بسیرے تھے تاہم آپ نے نہایت  بے خوفی سے  یزید کو منہ توڑ جواب دیا اور کلمہ عدل کہہ کر رہے۔ اس وقت انہوں نے اپنے نانا کی اس ارشاد کی تصویر  پیش کی ۔

 افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جابر ۔ [16] عدل کا تقاضا پر ہے کہ دوست دشمن دونوں کے لئے حق کی بات کی جائے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ۔ ترجمہ : انسان رضا اور ناراضی دونوں حالتوں میں حق بات کہے ۔

اہل و ناہل کے مراتب کا خیال رکھنا

عدل یہ ہے کہ اہل ونااہل کا خیال رکھا جائے  اگر معاشرے میں سے ہر تمیز ختم ہوجائے تو انسانی برادری کا نظام درہم برہم ہو جائے گا ۔ حفظ مرائب کے بغیر امن وعافیت کی بنیاد مٹ  جاتی ہے اور انصاف کا خون ہوجاتا ہے ۔

قرآن  پاک میں سورۃ القصص میں ارشاد ہوا ، جس  کا مفہوم کچھ یوں ہے :

آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے ہے جو اونچی سرکار اور فساد کے خواہش مند نہیں ۔

ادائے حق

ہر انسان پر متعدد حقوق عائد ہوتے ہیں   جن کو اچھی طرح ادا کرنا ضروری ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حق ہے یعنی توحید کا اقرار کرنا اور شرک سے  اجتناب کرنا ۔ شرک ظلم ہے  جو  عدل و انصاف  کے مخالف ہے اللہ کے حق کے بعد حضرت محمد ؐ کا حق ہے  اور یہ حق پر ہے کہ محمدؐ کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ محبوب رکھیں ۔ ان کے بعد والدین ، اولاد ،  رشتہ دار ، اساتذہ دیگر مسلمانوں کے حقوق اور پھر غیر مسلم کے بھی حقوق ہوتے ہیں ۔ اسلام نے نہ صرف  انسانوں بلکہ حیوانات کے حقوق پر بھی زیادہ زور دیا اور فرمایا کہ ان کے حقوق بھی پورے کردیا  کرو  جیسے انسانوں کے حقوق ہیں ویسے ہی ان کے فرائض بھی ہیں جن کے بارے میں تاکید کی گئی کہ اپنے فرائض پورے کرو تاکہ تمہیں تمہارا حق مل سکے کیوں کہ ایک کا حق دوسرے  کا فرض ہوتا ہے اگر ہر شخص فرد پورا کرے تو دوسرے کو اس کا حق خود  بخود مل جاتا ہے ۔

حسن قضا

انسانوں کے آپس کے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہونے چاہئیں اگر کوئی کسی سے  چیز ادھار دے یا قرض لے تو اسے احسن طریقے  سے ادا کرے  بد دلی اور طبیعت پر بوجھ   نہ  کریں ۔ حضورؐ  نے ایک بدو سے ایک اونٹ ادھار لیا بدو اونٹ لینے آیا تو سخت الفاظ میں آپ ﷺ سے تقاضا کیا ۔ صحابہ کرام  نے چاہا کہ اسے سزا دیں لیکن آپ  ﷺنے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو حق دار کو بولنے کا حق ہے ۔ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا اسے اونٹ خرید کردو صحابہ نے عرض کیا اس وقت  تو اس سے افضل  اونٹ ملے گا ۔ آپؐ نے فرمایا اسے  وہی لے کر دو تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں  بہترین ہیں ۔

مدینہ کے ایک شخص نے حضورؐ کو ایک پیمانہ کھجور  قرض دیا تھا وہ  مانگنے آیا ۔حضور ﷺ نے  ایک انصاری سے فرمایا کہ وہ اسے ادا  کرے انصاری نے  دو کھجور دینا چاہی  وہ قرض کی کھجور سے ادنیٰٰ تھی قرض خواہ نے قبول کرنے سے انکار کیا انصاری نے کہا کیا تو حضورؐ کی دی ہوئی چیز واپس کرنا چاہتا ہے  اس نے جواب دیا ہاں حضورؐ سے بڑھ کر دل کا سزا وار کون ہے حضور ؐ  کی آنکھوں میں آنسو آئے فرمایا سچ کہا مجھ سے بڑھ کر عدل کا سزا وار کون ہے  آپ ؐ نے اسے حسب طلب کھجور دلائی ۔[17]

 

 

 

ناپ تول کی درستی : عدل اور صحیح ناپ تول میں چولی دامن کا ساتھ ہے سورۃ رحمٰن میں ارشاد ہے :

والسماء رفعھا ووضع المیزان ؐ الا تطغوفی المیزان ؐ ، واقیمو الوزن بالقسط ولا تخسر المیزان ، ؐ[18]

اللہ وہی  ہے  جس نے میزان  قائم کی ناپ تول میں عہد شکنی نہ کرو اور وزن قائم  کرو انصاف سے اور میزان میں کمی نہ کرو،

  قرآن کریم میں  ایک ایسی قوم کا ذکر ہے جو ناپ تول میں کمی کرتے  تھے اور نا انصافی کرتے تھے  جس کی وجہ سے اس قوم پر عذاب آیا  ۔

بلا تفریق انصاف کی فراہمی

 اسلام انصاف کو صرف عدالت تک محدود نہیں رکھتا بلکہ انفرادی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے ہر گوشے میں عدل کا حکم  دیتا ہے وہ جس طرح فرد کے ساتھ انصاف  کا حکم دیتا ہے اس طرح قومی ملکی اور  بین المملکتی  معاملات میں بھی ہر ہر قدم پر امن کی نگرانی کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ان اللہ یا مرکم ان تؤدوا الامانات الیٰ  اھلھا واذا حکتم بین الناس ان تحکمو ا بالعدل ۔ [19]

اللہ تعالیٰ  تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت رکھنے والوں  کے پاس صحیح طریقے سے پہنچادو  اور جب تم معاملات کا فیصلہ  کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔

دوسری  آیت میں فرمایا : یاایھاالذین اٰمنو کو نو قوامین بالقسط ۔ [20] اے ایمان والو انصاف کے لئے پورے کھڑے ہوجاؤ ۔

 حصول انصاف میں مشکلات مسلم فکر کا تجزیاتی مطالعہ 

انسان کے اندر بیک وقت متضاد اور متحارب  قوتیں سرگرم عمل ہیں  جن کی وجہ سے کچھ  انسانی  طاقت حاصل کرکے دوسروں کے حقوق چھین لیتے ہیں اور ان کو غربت و جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں ان کو بالاتر طبقے کے لئے مزید دولت کمانے اور ان کا اقتدار مٖضبوط کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں اور پھر ان کو  ظلم کی چکی میں پسینے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں   گویا ایک ایسے معاشرے کا نقشہ بن جاتا ہے جس کی تصویر کشی قرآن  کریم نے فرعون  کے حوالے سے  اس طرح کی ہے :

 ان فرعون علا فی  الارض وجعل اھلھا شیعا یستضعف طائفۃ  منھم یذبح  ابناء ھم  ویستحی  نسا ء ھم، انہ کان من المفسدین ۔[21]

یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور  کر رکھا تھا  اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بیشک وشبہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔

یہ واحد اس طرح کی  بہت سی خرابیاں نا انصافیاں کسی نہ کسی سبب سے ہر دؤر ہر علاقے ، ہر خطہ اور  ہر معاشرے میں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ موجودہ معاشرہ بھی  بنی  نوع کی خرابیوں کے  ہر قسم کی برائیوں اور طرح طرح کے ظلم وستم کی آماجگاہ بن گیا ہے ایک طرف جاگیرداروں ، ضعیف کاروں اور سیاسی آمروں کے باعث  انسانیت سسک سسک کر دم ہی توڑ دیتی ہے دوسری طرف ایک گھر سے  لے کر اعلیٰ ترین عدالتوں تک  ظلم و تشدد کی داستانیں ہر جگہ نظر آتی ہیں  عدل وانصاف کی دھجیاں کوچہ وبازاروں میں بکھری پڑی ہیں کوئی خرابی وبرائی ایسی نہیں جو معاشرے کے رگ وپے  میں سراہت  نہ کرتی ہو ظلم ، قتل و غارت گری ، لوٹ مار ، جھوٹ وفریب ، منافقت ، فرقہ بندی ، حسد کینہ ، دشمنیاں ، عداوتیں ، گھروں اور زمینوں پر ناجائز قبضے غرض ہر قسم کی برائی موجود ہے ایک ایسی پریشان کن صورتحال  ہے جسکا سامنا  آج ملک  کےعزیز  باشندوں کو درپیش ہے با اثر  طبقہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عدالت پر اثر انداز ہوتا ہے حالانکہ عدل کے معاملے میں اسلام کسی جھکاؤ اور اثر و رسوخ کا قائل نہیں ۔ اللہ رب العزت خود عادل ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 ان اللہ بامر بالعدل والاحسان ۔[22]

 اللہ تعالیٰ عدل کا ، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے  ارشاد ہوتا ہے  :

: لقد ارسلنا رسلنا بالبینٰت وانزلنا معھم الکتاب والمیزان  لیقوم الناس بالقسط ۔[23]

اور  ہم نے اپنے  رسولوں کو کھلی نشانیاں  دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل و انصاف کے احکام اتارے  تاکہ لوگ  انصاف پر قائم رہیں ۔"

صاحب اختیار  اور صاحب اقتدار کو معلوم ہونا چاہئے کہ اختیار  اور حکمرانی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اصل طاقت اس کے پاس ہے ۔ اس زندگی  کا ایک دن خاتمہ ہونے والا ہے دنیا کی  چوکا چوند اور عیش وعشرت میں مست ہوکر حکمران مفادات کے غلام اور  جابر  بن جاتے ہیں نا انصافی ، زیادتی  ، میرٹ کی پامالی  یہ سب  برائیاں ان میں عود  کرتی  آتی ہیں  حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ امانت  اس  لئے سونپی ہے کہ وہ  عوام کے خادم بن کر رہیں اور فرض شناس سے کام کریں  نیز اللہ کے احکام کو نافذ کرنے والے بنیں  اور  ملک  میں  انصاف کا   بول بالا کریں ۔ نبی ﷺ کا فرمان  ہے جس بندے نے اللہ  کی  رعایا کا وہ  کام بنایا اور اس نے پوری طرح خیر خواہی نہ کی تو  وہ جنت کی خوشبو نہ پا سکے گا  اور فرمایا جس کسی کو مسلمانوں  کے معاملات کا ذمہ دار بنایا  اور اس کی قرابت داری کی بنا پر کسی کو  عہدے پر مقرر کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے نہ کوئی  صدقہ قبول کرے گا اور نہ سفارش یہاں تک  کہ اللہ تعالیٰ اسے  جہنم میں ڈال دے گا ۔[24]

 

عدالتی نظام

ایسا ہے کہ جج صاحبان ، بلد  امتیاز اور بے لاگ انصاف کرنے سے میں تسائل سے کام لیتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں  ایسے جج بھی گزرے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی کوئی فیصلہ نہیں کیا وہ تاریخوں پر تاریخ دیتے ہیں اور اس طرح  ان کی  دوسری جگہ ٹرانسفر ہوجاتی ہے وہاں بھی اسی طرح وقت گزار  کر چلے جاتے ہیں کچھ جج سفارش  اور رشوت لے کر بھی فیصلہ کردیتے ہیں کچھ حکومتی دباؤ  پر اور کچھ غنڈوں لٹیروں کے خوف سے بھی فیصلہ  نہیں کر پاتے  عدالتی نظام میں  یہ بھی خامی ہے کہ وکیل اکثر احتجاج پر رہتے ہیں نیز کچھ وکیل دونوں  طرف سے پیسے بٹورتے ہیں اور اس طرح  انصاف نہیں  ہوپاتا ۔ اور حقدار  حق سے محروم رہ جاتا ہے ۔

انصاف میں تاخیرکرنا بھی انصاف کے خون کرنے کے مترادف ہوتا ہے ، ہمارے ہاں مقدمات 20 اور 25 سال چلتے ہیں تب تک مدعی موت کے منہ  میں چلا جاتا ہے اور وہ زندگی میں انصاف سے محروم رہ جاتا ہے۔

کرائے کے گواہ  بعض اوقات چشم دیدہ گواہی دیتے ہیں بسا اوقات گواہ  زور آور قبضہ مافیا یا قاتل یا زیادتی کرنے والے کے ڈر سے بھی گواہی نہیں دیتے کیونکہ  وہ ان کو بھی قتل کی  دھمکیاں دیتے ہیں اور وہ اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے گواہی سے گریز کرتے ہیں ۔

عادی مجرم رشوت ، سفارش ، جھوٹی گواہی ، جعلی دستاویزات اور دھونس دھمکی سے دوسروں کا حق ہڑپ کرتے ہیں ۔

پولیس کی کار کردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک کی پولیس میں سے 90 فیصد مجرموں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں  وہ ان کو تحفظ  دیتے ہیں اور جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا ۔

 خلاصہ

 معاشرے میں پھیلی ہوئی ان خرابیوں کو دور  کرنے کے لئے ضروری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو بعید نہیں کہ انسانیت مکمل تباہی کے دھانے  پر پہنچ جائے جیسے کسی  آبادی میں گندگی کے ڈھیر ہوں اور اسے اٹھانے اور صفائی کرنے کا انتظام نہ ہو اور روزانہ گندگی میں اضافہ ہو رہا ہو تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹ پڑے گے  اور اس طرح پوری آبادی موت  کی آغوش میں چلی جائے گی ٹھیک اسی طرح معاشرے  کی اخلاقی اور عدالتی خرابیوں کو نہ روکا گیا  تو سارا انسانی معاشرہ انسانی تشخص کھو بیٹھے گا  یہی وجہ ہے کہ انسانیت کو زندہ  رکھنے اور اس کے تشخص کو پروان چڑھانے کے لئے بنی نوع انسان کی خدمت اور فرعونیت کا خاتمہ کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور اسی محنت  اور کوشش کو قرآن حکیم نے جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی ضرورت ہے ۔ اور ہر جہاد  معاشرے کے ہر فرد پر فرض ہے ۔ حکمران عدل وانصاف  کا اعلیٰ معیار قائم کریں اور لوگوں  کے حقوق کا تحفظ کریں۔

نتائج

مسلمانوں کو چاہئے  کہ وہ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ مقصد محض رضائے الٰہی اور پرچم اسلام کی سر بلندی اور حصول انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دؤر کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔  مسلمانوں  کے پاس تو اپنی سرمایہ اور آسمانی ہدایت اور حکمت کا سرچشمہ قرآن میں محفوظ ہے اور دوسرے محمدﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام کا احوال جن میں پوری قوت ہے وہ بھی ان کے پاس موجود ہے جس سے مسلمان خصوصا نوجوان نسل آگاہی اور ہدایت حاصل کرکے دنیا کی امامت اور سعادت کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔

 

 

سفارشات

٭عدالتوں کے جج رشوت ، سفارش ، جھوٹی گواہی ، جعلی دستاویزات پولیس کے ناجائز ہتھکنڈوں کو ختم کرکے ہر کسی کو بلا امتیاز اور  بے لاگ انصاف فراہم کریں ۔ انصاف کی فراہمی میں دیر نہ کریں ، وکیل اپنے پیشے سے مخلص ہوجائیں اور سائلیں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔ وکیل اپنی فیس مناسب رکھیں تاکہ غریبوں کو بھی انصاف کے حصول میں آسانی ہو ۔

٭معاشرے کا ہر فرد سچی گواہی دینے سے نہ گھبرائے پیشہ ور گواہوں کی حوصلہ شکنی کریں اور ہر کسی میں انہی لوگوں کی گواہی کو قبول نہ کیا جائے ۔*

٭علماء کرام قول وفعل کے تضاد کو ختم کریں اور قوم کی صحیح  راہنمائی کریں خود بھی سماجی برائیوں سے اجتناب کریں  اور قوم کو بھی صحیح  ڈگر پر چلائیں اور انہیں حقوق وفرائض  سے آگاہ کریں ۔ سوشل میڈیا  ورکر  معاشرے میں امن وامان کی بحالی اور انصاف کے حصول میں مدد  کریں اور لوگوں کو برائیوں کے خلاف متحرک کریں تاکہ اگر چور ، ڈاکو ، قاتل ، قبضہ واردات کرتے ہوئے خوف خدا کے ساتھ میڈیا کا خوف بھی ان کے دلوں میں پیدا ہو اور دوسروں کے حقوق غضب کرنے میں سو بار سوچیں۔

٭ پولیس والے  اپنے اندر خوف پیدا کریں اور جو فرض ان کے سپرد کیا گیا ہے  اسے احسن طریقے سے انجام دیں افراد جو ا ن کے  رحم و کرم پر ہوتے ہیں انہیں انصاف  دلانے میں اپنا کردار ادا کریں وہ سفارش اور رشوت سے دورر ہیں ۔

٭عوام اپنا فرض پورا کریں اور فرض شناس  قوم بن کر اپنے بہن بھائیوں کے حقوق کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد پر بہت زیادہ زور دیا ہے فرمایا میں اپنا حق تو معاف کرسکتا ہوں لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں کروں گا جب تک بندہ  خود نہ معاف کردے ۔

بہتر یہ ہے کہ ہر شخص پہلے اپنی اصلاح کرے یعنی نیکی کا ہے ہر سفر شروع کرنے  کے لیے اپنی اصلاح  ضروری ہے ۔*

اصلاحی کمیٹیوں کا قیام محلے ، گاؤں   ،شہر کی سطح پر ہونا چاہئے جو ظلم اور نا انصافی کی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کے لئے اقدامات اٹھائے ۔*

٭ خطبات ، درس وتقاریر میں امن وآشتی اور انصاف کو اجاگر کیا جائے ۔ مذہبی ادارے انٹر نیٹ پر  اللہ کے اس حکم یعنی انصاف کی فراہمی کے لئے مثبت پیغامات پہنچانے کا اہتمام کریں  علماء حق کو ایسے فورمز مہیا کئے جائیں  جن سے وہ اللہ کے انعامات کو اجاگر کریں اور اس طرح   معاشرے میں امن کا بول بالا ہو ۔

 



.[1]  القرآن82   : 7،8

Al-Quran 82 :  7,8 ۔1

 .[2] القرآن  5 : 8

  • .Al-Quran 5:82

.[3]  صحیح بخاری ، الجامع  ،باب من المنتظر حی تدفن ، جلد 4 ، ص  175، الترغیب والترھیب کتاب الحدود ، جلد 2

4- Sahih Bukhari , Al-Jamea,Bab min AlmMuntazir  Hayee  tadafin jild 4, pg 175, Al-Targhib wal Tarheeb Book Al-hadood , Jild 2

.[4] صحیح بخاری ، جامع ، دینی دستر خوان ، تالیف الحاج عبدالقیوم مہاجر مدنی ، جلد اول ،ص 281

5. Shahih Bukhari , Al –Jamia ,Deni daster khawan ,jild awal , Pg.281

.[5]ابو اعلیٰ مودودی ، اسلامی ریاست , صحیح بخاری الجامع ،  ص 56،57

6. Abu Ala Mododi , Islami Riyasat , Shahih Bukhari Al-Jamia , Pg – 56,57

.[6]  القرآن   5 : 32

7.Al-Quran 5 : 32

.[7]البخاری ، محمد بن اسماعیل ، الجامع ، 1/39 سنن ابن امام، کتاب الدیات من قتل معاہدہ رقم الحدیث 2686

 . Al-Bukhari , Muhammad Bin Ismaeel , Al-Jamia  1/398

.[8] ایضا صحیح مسلم ، 1/34

                                                                                                            9. Ibid , Sahih Muslim  , 1/ 34

.[9]موطا امام مالک بن انس ، کراچی اصحح المطالع ، الصحیح البخاری ، جلد 3 ، رقم الحدیث 3340

 10. Mota Imam Malik Bin Anas , Karachi aSiHIH Al – Mutalia  

.[10]نیل الاوطار ، جلد ،7 ص 13

-Neel otar , Jild 7 , pg 1310

.[11] القرآن 2:  256

11-Al-Quran 2: 256

.[12]  القرآن 6 : 108

 -Al-Quran 6 : 10812

.[13] سلیمان ندوی ،  سیرۃ النبی  ، ج 2 ، ص 98 ، 99 ، ابن ہشام ، تحقیق  عبدالرؤف دارالجبل  سیرۃ النبویہ ، دائرہ المعارف ج 4 ص 185

 

 .Suleman Nadvi , Seerat Un Nabi , Jild 2 , Pg, 98 , 99 13

. [14]  شبلی نعمانی ، الفاروق ملتان ، مکتبہ صدیقی ، جلد دوم ، ص 475  

 . Shibli Nomani , Al – Farooq  Multan , Maktaba Siddiqi , Jild ,2 Pg , 47514

.[15] القرآن 106 : 99

 .Al-Quran 99 : 10615

[16] ۔ ترمذی ، ابواب الفتین ابن ماجہ ، رقم الحدیث 4012

16 .Tirmizi , Abwab ul Fitin , Ibn Maja , Raqim Al Hadis 4012

.[17] صحیح بخاری ، الجامع  ،باب من المنتظر حی تدفن ، جلد 4 ، ص  175، الترغیب والترھیب کتاب الحدود ، جلد 2

17- Sahih Bukhari , Al-Jamea,Bab min AlmMuntazir  Hayee  tadafin jild 4, pg 175, Al-Targhib wal Tarheeb Book Al-hadood , Jild 2

.[18]القرآن  7،8،9 :55

 .Al-Quran 55 : 7,8,920

[19] ۔ القرآن      4 :  58

21 .Al-Quran 4 : 58

[20] ۔ القرآن 4 : 135

 .Al-Quran  4 : 13522

[21]  ۔القرآن 28 : 4.

 .Al-Quran 4 : 2823

  .[22] القرآن 16 :90

24 .Al-Quran  , 16 : 90

.[23] القرآن 25 : 57

 .Al-Quran 25 : 5725

.[24]حاکم المستدرک ، ص 271

26 .Hakim Al- Musdarik , pg . 271

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...