1
1
2020
1682060063651_3182
1-18
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/10/12
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/10
Key Words: Holy Qurān I‘jāz-al-Qurān miracle challenge Eloquence and Rhetoric Qurān style.
أ
ﻷمِیر:جلد 01؍ شمارہ 01 ..(جنوری–جون 0 220ء) )9(
" اعجاز القرآن" کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ
Research and analytical review of I‘jāz-al-Qurān
Majid Rashid
Khubaib Ahmad
The Holy Qurān which was revealed to the last Prophet Muhammadﷺ, Just as you are a collection of perfections, so is the word revealed to you a collection of perfections. One of the most important perfections of the Holy Qurān is the miracle of the Holy Qurān. The unique and unique way of reciting the Qurān is called I‘jāz-al-Qurān in Islamic terminology. The Holy Qurān challenged the opponents and deniers of the Holy Qurān to explain its uniqueness.O Beloved! Say: If man and jinn come together and strive to be like the Qurān, they will not be able to make the likeness of it, even if they become helpers of one another.
The Qurān is a book of miracles, and miracles are those that are beyond human power and beyond the reach of everyone, power and courage, especially a miracle that lasts for a couple of years or a limited time. Not for the sake of it, but for the challenge of the creation which will come after its coming, and which will make the way of guidance easy for those who ponder within themselves.
In this article, I will try to explain the different aspects of I‘jāz-al-Qurān and embellish it with arguments.
Key Words: Holy Qurān, I‘jāz-al-Qurān, miracle, challenge, Eloquence and Rhetoric, Qurān style.
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا آخری کلام جو آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا جس طرح آپ ﷺ کمالات کا مجموعہ ہیں اسی طرح آپﷺ پر نازل ہونے والا کلام بھی مجموعہ کمالات ہے۔ قرآن کریم کے کمالات میں سے ایک اہم کمال قرآن کریم کا اعجاز ہے۔قرآن مجید کا جدا گانہ اور بے مثل طریق ، اسلامی اصطلاح میں اعجاز القرآن کہلاتا ہے۔قرآن کریم نے اپنے بے مثل ہونے کو بیان کرنے کے لئے قرآن کریم کے مخالفین اور انکاری لوگوں کو چیلنج کیا :
" قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا"1
" کہہ دو کہ اگر انس و جن جمع ہو جائیں اور کوشش کریں کہ اس قرآن کی مثل بنا لائیں تو وہ ہرگز اس کی مثل نا بنا سکیں گے خواہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں " ۔
سورۃ بقرۃ میں یوں ارشاد فرمایا :
" وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ.فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ"2
" صرف ایک سورت کے مانند کلام لانے کا کہا گيا ہے ، اگر تمہیں اس بات میں شک ہو کہ جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کی مانند کوئی سورۃ بنا لاؤ اور اپنے گواہوں کو بلاؤ اگر تم سچے ہو۔ پس اگر تم نے اس کی مثل پیش نہ کی اور یاد رکھو کبھی نہ کر سکو گے۔ "
قرآنی اعجازِبیانی چند جہتیں
قرآنِ کریم معجزاتی کتاب ہے جو آخری نبی حضرت محمدﷺ پرنجماً نجماً 23 سال کے عرصہ میں نازل ہوااور معجزہ کہتے ہی اسے ہیں جو انسانی طاقت اور بس سے باہر اور ہر کسی کے لئے اس کی مثل بنانا، طاقت اور ہمت سے کوسوں دور ہو،خاص طور پر معجزہ بھی وہ ہو جو ایک دو سال یا محدود وقت کے لئے نہ ہو بلکہ اپنے آنے کے بعد قیامت تک آنے والی خلقت کے چیلنج ہو اور جو اپنے اندر غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہدایت کی راہیں بھی سہل کرتا ہو،رسولِ اکرمﷺنے ایک حدیث مبارکہ میں اسی حقیقت کو واضح فرمایا ہے:
" ما من الانبیاء نبی الا اعطی ما مثلہ امن علیہ البشر ، و انما کان الذی اوتیت و حیا اوحاہ اللہ الی ، و ارجو ان اکون اکثرھم تابعا یوم القیامۃ "3
" اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو ایک ایسا معجزہ عطا فرمایا ہے جس کو دیکھ کر انسانیت ہدایت حاصل کرتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی ایسا ہی معجزہ وحی کی شکل میں دیا ہے جو قیامت تک رہے گا ، جو بھی اس میں غور وفکر کرئے کا ہدایت حاصل کرے گا اس لئے مجھے اس بات کی امید ہے کہ میرے تابعین سب سے زیادہ ہو گے۔ "
البتہ جو عنادی اور ضدی ہو اور تکذیب اس کا اُوڑنا اور بچھونا ہو اور کا برتن اُلٹا ہی ہو تو وہ عقلی باتوں اور اٹکل بچو باتوں کی پیروی کرتا ہے ، ایسے ہی لوگوں کو قرآن کریم مختلف تین مراحل میں چیلنج کیا اور اپنی عظمت اور شان کو آشکارہ کر کے ان کی کمزوری، کمتری اور ضعف کو عیاں کیا ہے،سب سے پہلے مرحلہ میں چیلنج کیا :
"قُل لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا "4
" آپ فرما دیں: کہ اگر انسان اور جن تمام اکٹھے ہو کر اس بات کی کوشش کریں کہ قرآن کریم کی مثل قرآن بنا لائیں تو یہ بالکل نہ کر سکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کہ مدد گار ہی کیوں نہ بن جائے "۔
جب اس چیلنج کو پورا نہ کر سکے تو قرآن کریم نے ان کے ضعف اور کمزوری کی مزید واضح کرنے کے لئے دوسرا نر چیلنج کیا :
" أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ "5
جب وہ اس بات سے بھی عاجز آ گئے تو قرآن کریم اپنی عظمت کو مزید دوبالا کرنے اور ان کے حال کو روز روشن کی طرح واضح کرنے کے لئے مزید ہلکا چیلنج کیا :
"وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ" 6
( اور اگر تم اس بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر ناز ل کیا ہے اس میں شک میں مبتلا ہو تو اس کی مثل کوئی ایک ہی سورت بنا کر لے آؤ اور اور اگر تم سچے ہو تو اللہ کے علاوہ اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو ، اور اگر تم نہ کر سکے اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہو گے جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ) ۔
جب مخاطبین پوری طاقت کے باوجود اس کے مقابلہ کرنے سے بھی عاجز ہوئے ، بلکہ اتنا اعلیٰ اور شسدر کرنے والا چیلنج کہ چیلنج سے پہلے ہی کہہ دیا چاہے جتنا بھی آسان چیلنج کیا جائے کہ مخالفین اتنے کمزور و عاجز ہیں کہ نہ ماضی میں مقابلہ کر سکے ، نہ حال میں مقابلہ کر سکے اور نہ ہی قیامت تک مستقبل میں مقابلہ کر سکیں گے۔بہرحال قرآن کریم معجزہ ہے جس کا مقابلہ کرنا محال ہے ۔
اب اس اعجاز کی وجہ کیا ہے تو مناہل العرفان کے مصنف نے چوبیس(24) وجہ اعجاز کو بیان کیا ہے ، جن میں سے بعض وجوہِ صحیحہ اور بعض وجوہِ معلومہ کو بیان کرتے ہیں ۔7
علامہ خطابیؒ فرماتے ہیں:۔
"ذہب الأکثرون من علماء النظر الی أن وجہ الاعجاز فیہ من جہة البلاغة "۔
" اکثر اہل فکر ودانش علماء کی رائے ہے کہ وجہ اعجاز بلاغت کی جہت سے ہے۔ " 8
اسی بات کو علماء کرام کی اکثریت نے بیان کیا ہے، اگر منطقی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جن عربوں میں قرآن مجید کا نزول ہوا وہ علم و فن سے بے بہرہ تھے لیکن فصاحت وبلاغت کے شاہ سوار تھے۔ لگتا یوں ہے کہ زبان و ادب ، شعر و شاعری اور انداز بیان و تعبیر ان کے گھر کی لونڈی ہیں ، اس لئے وہ یہ مجبوری اور عذر پیش ہی نہ کر سکے کہ ہم تو اس فن سے آشنا ہی نہیں ہیں ، اس لئے صرف باخبر لوگوں ہی کو چیلنج کیا جائے ، احمد حسن الزیات بیان کر تے ہیں:۔
"من قائل أنہ الفصاحة الرائعة المذہب الواضح والأسلوب الموثق ونحن الی ہذا الرأی أمیل؛ فان القوم الذین تحدوا بہ لم یکونوا فلاسفة ولا فقہاء حتی یکون عجزہم عن الاتیان بمثلہ معجزة، انما کانوا بلغاء مصادع وخطباء مصاقع وشعراء فحولاً، وفي القرآن من دقة التشبیہ والتمثیل وبلاغة الاجمال والتفصیل وروعة الأسلوب وقوة الحجاج ما یعجز طوق البشر ویرمي المعارضین بالسُّکات والحَصَر " ۔9
" بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اس قرآن میں شاندار فصاحت، واضح فکر و نظریہ اور مستحکم اسلوب پائے جاتے ہیں میری یہی رائے ہے کیوں کہ جس قوم کو للکارا گیا وہ نہ تو منطقیانہ موشگافیوں سے واقف تھے نہ ہی فہم وفراست کے حامل کہ ان کا اس جیساکلام پیش کرنے سے عاجز رہنا معجزہ ہوتا، ہاں وہ میدان بلاغت کے ہیرو، بلند پایہ مقرر، اور قادرالکلام شاعر تھےنیز قرآن میں دقیق تشبیہ وتمثیل، ایجاز واطناب، حسین اسلوب اور قوت استدلال نے انسانی قوت کو درماندہ کردیا اور مخالفین پر سکتہ وسناٹا طاری کردیا " ۔
قرآن کریم کے اعجازِ بیانی کو چار انداز سے بیان کیا جاتا ہے:
1:مفردات کے بیان میں اعجاز
2:قرآن کریم کے جملوں اور ترکیبوں میں اعجاز
3:قرآن کریم کے بیانِ اسلوب میں اعجاز
4:قرآن ِ کریم کے نظم و ضبط میں اعجاز
1:مفردات کے بیان میں اعجاز
قرآن کریم کے مفردات میں اعجاز اس کمال درجہ کا ہے کہ قرآن کا ہر لفظ اتنا فصیح و بلیغ ہے اور اس کا اتنا درست استعمال ہے کہ اس کی جگہ کسی بھی دوسرے لفظ کو استعمال کیا جائے خواہ وہ لفظ اس کے ہم معنی اور ہم مفہوم ہی کیوں نہ ہو وہ مناسب نظر نہ آئے گا ، اس کے برعکس زبان دانی کا دعوی کرنے والوں کے کلام میں یہ خوبی معدوم ہے اور طرح طرح کی خامیاں پائی جاتیں ہیں۔
مثال کے طور پر عربی کا ایک مشہور شاعر متنبی ہے، اس کو اپنی قوت زبان پر اتنا فخر تھا کہ اس نے نبی ہونے کا دعوی کر دیا ۔ حالانکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا کمال قرآن ہی کا فیض تھا ، اس کے کلام میں بہت ساری خامیاں اور عیوب پائے جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جگہ اگر کسی اور لفظ کا استعمال کیا جاتا تو اچھا ہوتا ، جیسا کہ اس کا ایک شعر ہے:
" ان القتیل مضرجاً بدموعہ مثل القتیل مضرجاً بدمائہ"10
(محبت کی وجہ سے شہید ہونے والا جنگ میں شہید ہونے والے کی طرح ہوتا ہے۔)
لیکن ذرا ‘‘مثل’’ کو ہٹاکر ‘‘فوق’’ رکھدیں تو دیکھئے حسن کتنا دوبالا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس قرآن نے لفظ ‘‘ مثل’’ کو تقریباً چالیس(40) جگہوں پر استعمال کیا ہےاور کسی ایک جگہ بھی اپنی جگہ سے ہٹا نہیں سکتے ہیں اور ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ استعمال کرنا اچھا نہیں لکھتا اور فصاحت و بلاغت کے منافی ہے۔
لفظ مثل کی طرح قرآن کریم کے جس لفظ کو بھی لے لیں تو اس کے قائم مقام کسی ہم معنی لفظ کو استعمال کرنا فصاحت و بلاغت کے منافی نظر آتا ہے، جیسا کے قران کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
" أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ" 11
" تم لوگ بت کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑتے ہو۔ "
اگر ہم بنظر غائر دیکھیں تو معلوم ہوتا کہ اگر ہم’’ تذرون‘‘ کی جگہ’’ تدعون‘‘ کو استعمال کریں ، کیونکہ دونوں کا معنی ایک ہے تو یہ صنعت جناس کا اضافہ ہو جائے گا ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ قران کریم کا مقصد بالارادہ چھوڑنا ہے جو صرف ’’ تذرون‘‘ کا ہی معنی ہے ، کیونکہ ’’ تدعون‘‘ میں بالارادہ کی قید نہیں ہوتی۔
اگر ہم قرآن کریم کے مفرد الفاظ پر غور و فکر کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں بعض مواقع پر ایسے الفاظ کو استعمال کیا ہے جو اس معنی میں مشہور و معروف نہیں اور اس معنی کو سمجھنے کے لئے قرینہ کو مدنظر رکھنا ضروری ہو گا ، جس طرح قرآن کریم نے موت کے لئے لفظ توفی کو استعمال کیا جس کے معنی پورا پورا وصول کرنا ہے اور موت کا معنی قرینہ کی وجہ سے معلوم ہو گا جو صرف صرف قرآن کریم کا ہی کمال ہے جس کا مقصد عرب کے قدیم نظریہ کفر کی مخالفت کرنا ہے۔12
قرآن کریم کے مفردات کے اعجاز میں ایک بات یہ بھی باعث اعجاز ہے کہ ثقیل الفاظ جو فصاحت میں عیب بن سکتے ہیں ان کے استعمال کو قرآن کریم نے ترک کر دیا ہے اور ایسے باکمال الفاظ کا استعمال کیا ہے کہ سننے والا تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، مثال کے طور پر عرب پکی اینٹ کے لئے تین الفاظ(آجرّ، قرمد، طوب) استعمال کرتے ہیں اور تینوں ہی ثقیل الفاظ ہیں ، ان تمام الفاظ کی جگہ قرآن کریم نے لفظ ’’الطین‘‘ استعمال کیا ہے:
" فَأَوْقِدْ لِي يَاهَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا " 13
" اے ہامان گیلی مٹی پر آگ روشن کرکے میرے لیے ایک محل تعمیرکرو " ۔
ایسے ہی لفظ’’ارض‘‘ کی جمع کے لئے اس کے ساتھ لفظ ’’مثلھن‘‘ کو استعمال کیا ہے کیونکہ اس کی جمع لفظ اراضی اور ارضون دونوں کی ثقیل الفاظ تھے، جیسے کہ ارشادِ ربانی ہے:
" اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ " 14
" اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اورزمین بھی اتنی ہی۔ "
2:قرآن کریم کے جملوں اور ترکیبوں میں اعجاز
مفردات کی طرح جملوں کی ترکیب و بناوٹ اور بندش کی شوکت و سلاست بھی اعجاز پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ زبان سے ایک جملے کی ادائیگی کے بعد فورًا ہی دوسرے جملے کی ادائیگی ہو جاتی ہے اور کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی ۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں بعض جملے اس انداز میں بیان کیے گئے ہیں جس سے مشکل ترین باتوں کو بھی بالکل آسان پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ، جس طرح زمانہ جاہلیت میں قاتل سے بدلہ لینا قابل تعریف تصور کیا جاتا تھا اور اس کے بیان کے لئے مختلف جملے بیان کیے جاتے تھے:
"القتل أنفی للقتل "
قتل سے قتل کا خاتمہ ہو جائے گا ۔
" القتل احیاء للجمیع " (قتل ہر ایک کے لئے زندگی ہے) ۔
ان تمام کے برخلاف قرآن کریم اس کو یوں بیان کرتا ہے:
" وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ " 15
" اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے " ۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم نے مختصر اور جامع الفاظ میں ایک وسیع مفہوم بیان کیا ہے ، جس مفہوم کو مختلف جملے بیان کرنے سے عاری تھے ۔ قرآن کریم میں جہنم کی وسعت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
" يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ (30) " 16
" جس دن ہم دوزخ سے کہیں گے کہ تو بھر گئی ہے تو وہ جواب میں کہے گی کہ کیا اور بھی ہے "۔
بتوں کی عظمت وہیبت دلوں میں اتنی جاں گزیں تھی کہ اپنی قسمت کا فیصلہ کروانے کے لئے ان ہی کے پاس جاتے، ان کے ناموں کے احترام اور عقیدت مندانہ جذبات سے ان کے دل لبریز تھے۔ لیکن قرآن نے صرف ایک جملے میں سب کو پاش پاش کردیا۔
" إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ "17
" یہ محض تمہارے اور تمہارے آباء و اجداد کے رکھے ہوئے نام ہیں۔ ان سے حقیقت کا کچھ واسطہ نہیں اور نہ ہی کوئی نفع و نقصان ان سے متعلق ہے۔"
3:قرآن کریم کے بیانِ اسلوب میں اعجاز
قرآن میں اعلیٰ اور اکمل انداز میں اسلوب پایا جاتا ہے ، جس کا اقرار ہر صاحب ذوق انسان کرتا ہے نیز قرآن کریم کا اسلوب اشعار والا نہیں ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’ الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ میں تفصیلاً اس پر بحث کی ، جس کا خلاصہ یہ ہے:
قرآن مجید کا بیانِ اسلوب نثر ہے ، لیکن اس کے باوجود شعر سے بھی زیادہ چاشنی اس میں پائی جاتی ہے، اس وجہ یہ ہے اشعار کا مکمل لذت اس کی متوازن صوتی آہنگ کی وجہ سے ہوتی ہے، جس کے لئے اہل ذوق نے مختلف اصول و ضوابط کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔18
قرآن مجید جس زبان اور جس خطے میں نازل ہوا اس خطے کی زبان اور انہیں لوگوں کے اسلوب میں نازل ہوا۔ اس لیے عرب کے کسی شخص نے قرآن کے اسلوب پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ قرآن مجید جس طرح ایک فصیح اللسان شاعر کو سمجھ میں آتا ہے اسی طرح ایک عام ، ان پڑھ شخص کو بھی سمجھ میں آیا ۔
امین احمد اسلوب قرآن کے متعلق لکھتے ہیں "قرآن مجید عرب کی زبان میں اور انہی کے اسلوب میں نازل ہوا ، قرآن کے تمام الفاظ عربی ہیں سوائے چند الفاظ کے جو دوسری زبانوں سے لیے گئے ہیں لیکن ان الفاط پر عربیت کا اثر غالب آگیا۔
قرآن کا اسلوب عرب کا اسلوب ہے اس میں حقیقت ،مجاز اور کنایۃ عرب کے کلام کے مطابق ہیں کیونکہ قرآن کے پہلے مخاطب عرب ہی تھے تو اس لیے ان کو اس زبان میں مخاطب کیا گیا جو وہ سمجھتے تھے۔19
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
" وَمَآ أَرۡسَلۡنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ "20
" اور ہم نے ہر قوم میں رسول اسی قوم کی زبان میں بھیجا ہے تاکہ وہ ان کے لئے ہر چیز کو تفصیلاً بیان کرئے ۔ "
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا کہ رسول اللہ ﷺ انہی میں سے ہیں اور انہی کی زبان میں ان سے بات کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب بھی اسی قوم کی زبان میں نازل کی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود قرآن کو تمام صحابہ برابر سمجھنے سے قاصر تھے۔ جس طرح عربی میں لکھی ہوئی کتاب کو تمام اہل زبان نہیں سمجھ سکتے اسی طرح انگریزی اور اردو زبان میں لکھی ہوئی کتاب کو اہل زبان مکمل نہیں سمجھ سکتے کیونکہ عقل ، فہم و فراست میں طبقات اور درجات ہوتے ہیں، اسی طرح ہر شخص اپنی مادری زبان کا احاطہ نہیں کر سکتا، عربی زبان کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح کا ہے،اسی کی مناسبت سے حضرت عمر ؓ کا ایک واقع بھی ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : ۔
" أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ قَوْلِهِ وَفَاكِهَةً وَأَبا مَا الْأَبُّ فَقَالَ عُمَرُ نُهِينَا عَنِ التَّعَمُّقِ وَالتَّكَلُّفِ ۔ " 21
" ایک آدمی نے حضرت عمرؓ سے سورۃ عبس کی آیت " وَفَـٰكِهَةً۬ وَأَبًّ۬ا " ، میں " ا َبًّ۬ا " لفظ کے معنی دریافت کی تو حضرت عمر ؓنے اس سے کہا کہ ہمیں تکلفات میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے " ۔22
یہ تھے حضرت عمر ؓ جن کی فہم و فراست اور دینی علم کی گہرائی کو ہم جانتے ہیں۔ ان کے ساتھ عام صحابہ کا بھی یہی حال ہوگا ۔
قرآن مجید کا بیانِ أسلوب ان تمام سے جدا ہے کہ نہ وہ شعر ہے ، نہ مروجہ نثر ہے اور نہ ہی مسجع کلام ہے ،بلکہ اس کو جس انداز اور جیسے جملوں کی شکل اور أسلوب میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے الفاظ اور معانی دونوں ہی میں اعجاز پایا جاتا ہے ۔
عتبہ بن ربیعہ جو قریش کے سردار تھے جب انہوں نے اس کلام پاک کو سنا تو انہوں نے بھی کہہ دیا:
اللہ کی قسم! میں نے آج تک کوئی ایسا کلام نہیں سنا ہے ، نہ تو یہ شعر ہے اور نہ ہی اس میں جادو پایا جاتا ہے۔23
حضرت أبو ذر غفاریؓ کے بھائی حضرت انسؓ جو شاعر تھے ، وہ اپنے بھائی کا حال معلوم کرنے کے لئے مکۃ المکرمہ آئے تو جب ان کے کانوں نے قرآن کریم کا سماع کیا تو انہیں نے بھی گواہی دی کہ کہ آپ ﷺ کے کلام سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ آپﷺ سچے ہیں اور آپ ﷺ کے دشمن جھوٹے ہیں اور آپﷺ کا کلام سچا ہے ۔
امام جلال الدین سیوطی ؒ نے قرآن کریم کے بیانِ أسلوب کی خوبی کو بیان کرتے ہوئے سورہ ہود کی آیت تلاوت کی:
" وَقِيلَ يَاأَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَاسَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ وَقِيلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (44)"24
" اور حکم دیا گیا کہ اے زمین ! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور حکم تمام ہوا اور کشتی جودی ( پہاڑ) پر پہنچی اور فرمایا گیا کہ ہلاک ہوں ظالم لوگ۔ "
اس آیت کے بارے میں ابن ابی الاصبح کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے کہ میں نے آج تک اس طرح کے کلام کی مثال نہیں دیکھی ۔ اس میں (17)ا لفاظ ہیں اور (20) اسلوب بیان کی خوبیاں پائی جاتیں ہیں۔
قرآن کریم کے اعجاز کو علی وجہ الکمال کو ذہن نشین کرنے کے لئے اس کے اسالیب کا مطالعہ ضروری ہےکیونکہ اسالیب کا نرالہ اور منفرد ہونا بھی اعجاز کی صورتوں میں سے ایک ہے۔ اب قرآن مجید کے چند اسالیب کو مختصر انداز میں بیان کیا جاتا ہے:۔
1۔ عَود علیٰ البَدء
یہ قرآن مجید کا یہ ایک نرالہ اسلوب ہے جس میں کلام کی ابتداء جس بات سے ہو رہی ہو تو اسی بات کلام کو ختم کیا جائے ، اس سے مضمون کی اہمیت اور افادیت دلوں پر منقش ہو گی اور سامع اس کو بھلا نہ سکے گا ۔درمیان میں کسی بھی مناسب اور مطابقت کی وجہ سے مزید کچھ چیزیں اور بحثیں ذکر کر دی جاتیں ہیں جن پر ضرورت کے مطابق بحث کی جاتی ہے اور پھر اصل مقصد کی طرف عود آتے ہیں اور پوری گفتگو کو جامع انداز میں بیان کر دیا جاتا ہے ۔
جیسا کہ سورۃ المؤمنون کی ابتداء میں جب مومنوں کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ، تو اس میں سب سے پہلے نماز ذکر کیا گیا ہے:
" قَد اَفلَحَ المُومِنُونَ۔ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ "
تحقیق مومنوں نے فلاح پائی ، وہ مومن جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ۔ " 25
مختلف صفات کے بیان کے بعد دوبارہ نماز ہی کا ذکر کیا گیا ہے ، جس سے نماز کی عظمت و شان بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ، نیکوں کی ابتداء اور اور انتہاء کو بیان کرنا ہے ، اسی بات کی وضاحت آپﷺ نے احادیث مبارکہ میں بھی کی ہے: ۔
" وَلَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَيْسَ فِيهِ رُكُوعٌ " 26
"اس دین میں کوئی خیر نہیں پائی جاتی جس میں رکوع یعنی نماز نہیں پائی جاتی۔ "
2۔ علیٰ سبیل المشاکلہ
قرآن کریم اور عربی ادب میں بعض دفعہ ہم جنس اور ہم صورت اور ہم آواز الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ، وہاں پر لفظ کا لغوی معنی کی بجائے موقع محل کے اعتبار سے معنی کیا جاتا ہے جیسا کہ یہ شعر ہے:
" وَلم یبق سِوی العدوان دِنَّا ھمکما د انوا "27
" اور ظلم کا بدلہ دینے کے سوا کوئی راہ باقی نہ رہی۔ ہم نے انھیں بدلہ دیا جس طرح انھوں نے ہمارے ساتھ سلوک کیا۔ "
اس شعر میں ’’ دانوا‘‘ اپنے لغوی معنی میں استعمال نہیں ہو رہا بلکہ کہ ’’ فعلوا یا ظلموا‘‘ کے معنی میں استعمال ہو رہا ہے کیونکہ دشمن نے حملہ کرنے میں پہل کی تھی ، اسی مفہوم سے ملتی جلتی مثال قرآن کریم میں یوں بیان کی گئی ہے:
" وَجَز ؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃ مِّثلُھَا فَمَن عَفَاوَاَصلَحَ فَاَجرُہُ عَلَی اللہِ اِنَّہُ لَایُحِبُّ الظَّالِمِینَ " ۔ 28
" برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ "
اس آیت کریمہ میں برائی کے جواب میں برائی کا ذکر کیا گیا ہے ، حالانکہ برائے کے جواب میں انتقام لینا جائز ہے نہ کہ برا ہے ، اس لئے جہاں پر برائی کہنا محض لفظی ہم آہنگی کی وجہ سے ہے۔
3۔ نہی کے ساتھ قید
نہی کے ساتھ قید کا ذکر کرنا قرآن کریم کا ایک جامع أسلوب ہے جس کا بیان قران کریم کی معرفت سے بے خبر شخص مشکل میں گرفتار ہو سکتا ہے،حالانکہ قید کا مقصد اس کام کی مزمت علی وجہ الکمال بیان کرنا اور اس کے گھنونے پن کو واضح کرنا ہے جیسا کہ قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
" وَلَاتُکرِھوا فَتَیٰتِکُم عَلَی البِغَآءِ اِن اَرَدنَ تَحَصُّنًا لِّتَبتَغُوا عَرَضَ الحَیٰوۃِ الدُّنیاً " ۔29
" اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں۔ "
اس آیت کریمہ یہ مطلب نہیں ہے کہ لونڈیاں اگر نکاح کے لئے تیار ہو تو ان سے بدکاری نہ کرو اور اگر اس کا عکس ہو توانہیں زنا پر مجبور کرو ، ایسا مطلب نہیں ہے بلکہ یہاں قید کا ذکر اس کے ساتھ نفرت کے اظہار کے لئے ہے، اسی لئے اسلام نے تو غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کی ترغیب دی ہے:
" وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"
" تم میں سے جولوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو " 30
اسی طرح بیانِ أسلوب سورہ بنی اسرائیل میں بھی نظر آتا ہے ، یہاں پر ’’ خشیۃ املاق ‘‘ کی قید کو ذکر کیا گیا ہے:
" وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ" 31
" اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ "
اس آیت میں بھی ’’ خشیۃ املاق‘‘ کی قید کو مفلسی کے ڈر سے أولاد کے قتل کرنے کے گھنونے ہونے کو بیان کرنے کے لئے ہے ، کیونکہ رزاق والدین نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔
4۔ تصریف
قرآن کریم میں مختلف مضامین ، مختلف احکامات، نصائح وغیرہ میں مختلف انداز اور طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے ، کبھی ترغیب کے انداز میں، کبھی ترہیب کے انداز میں سمجھایا جاتا ہے ، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ علی وجہ الکمال بات سمجھ میں آجائے اور اس پر عمل کرنا سہل ہو جائے ، اسی اندازِ بیان کو تصریف کہا جاتا ہے ، جس کا لفظی معنی بھی گردش دینا اور ہیر پھیر کے ہوتے ہیں ۔32
قرآن مجید میں بھی تصریف کا مقصد یہی بیان کیا گیا ہے کہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے :
" اُنظُرکَیفَ نُصَرِّفُ الاٰیٰتِ لَعَلَّھُم یَفقَھُونَ " 33
" آپ دیکھیں کہ ہم آیات کو کیسے پھیر پھیر کو بیان کرتے ہیں ، تاکہ وہ اچھی طرح بات سمجھ سکیں ۔ "
پورے قرآن کریم میں بنیادی طور پر تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے جو قرآن کریم کے تین بنیادی مضامین توحید، رسالت اور آخرت ہیں، ان کو مختلف انداز اور مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا جس سے ہر دفعہ ایک نیا پن معلوم ہوتا ہے اور بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے اور کوئی بوریت بھی نہیں ہوتی ہے۔
سب سے پہلی چیز عقیدہ توحید ہے جس کو کہی پر اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت قرار دیا ہے:
“ فِطرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا، لَا تَبدیلَ لِخَلقِ اللہِ، ذَالِک الدِّینُ القَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکثَرَ النَّاسِ لَا یَعلَمُونَ “ 34
“ قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیاہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ “
قرآن کریم میں بعض مواقع پر مشرکین کی اپنے نفسوں کی گواہی سے استدال کیا گیا ہے کہ جب ان پر کوئی مشکل وقت ہوتا تو سب معبودانِ باطلہ کو بھول کر ایک ہی خدا کو پکارتے تھے اور جب مشکل وقت ٹل جاتا تھا ، تو حقیقی خدا کو بھلا دیتے تھے، جسطرح ان سورتوں کی ان آیات مبارکہ میں ہے: ۔
" فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ"35
" چناچہ جب ایلچی سلیمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : کیا تم مال سے میری امداد کرنا چاہتے ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے، البتہ تم ہی لوگ اپنے تحفے پر خوش ہوتے ہو۔ "
" وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ" 36
" اور انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اسی کے لیے خاص رکھیں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔ "
" لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ " 37۔
" وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح نے تو یہ کہا تھا کہ : اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ یقین جا نو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور جو لوگ (یہ) ظلم کرتے ہیں ان کو کسی قسم کے یارومددگار میسر نہیں آئیں گے۔ "
" وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (74) وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (75) فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (78) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (79) وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (80) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (81) " 38۔
" اور (اس وقت کا ذکر سنو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کہ : کیا آپ بتوں کو خدا بنائے بیٹھے ہیں ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اور آپ کی قوم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے والوں میں شامل ہوں۔ چناچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارا دیکھا۔ کہنے لگے : یہ میرا رب ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا : میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ : یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے : اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔ پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔ میں نے تو پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ اور (پھر یہ ہوا کہ) ان کی قوم نے ان سے حجت شروع کردی۔ ابراہیم نے (ان سے) کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو جبکہ اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے ؟ اور جن چیزوں کو تم اللہ کے ساتھ شریک مانتے ہو، میں ان سے نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچا دیں گی) الا یہ کہ میرا پروردگار (مجھے) کچھ (نقصان پہنچانا) چاہے (تو وہ ہر حال میں پہنچے گا) میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر بھی کوئی نصیحت نہیں مانتے ؟ اور جن چیزوں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، میں ان سے کیسے ڈر سکتا ہوں جبکہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک ماننے سے نہیں ڈرتے جن کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؟ اب اگر تمہارے پاس کوئی علم ہے تو بتاؤ کہ ہم دو فریقوں میں سے کون بےخوف رہنے کا زیادہ مستحق ہے ؟ "
" وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ (35) رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (36) " ۔39
" اور یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے ( اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے) کہا تھا کہ : یا رب ! اس شہر کو پر امن بنا دیجیے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچایے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔ میرے پروردگار ! ان بتوں نے لوگوں کی بڑی تعداد کو گمراہی کیا ہے۔ لہذا جو کوئی میری راہ پر چلے، وہ تو میرا ہے، اور جو میرا کہنا نہ مانے، تو (اس کا معاملہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں) آپ بہت بخشنے والے بڑے مہربان ہیں۔ "
" وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ " ۔40
" اور تم سے پہلے ہم نے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا جس پر ہم نے یہ وحی نازل نہ کی ہو کہ : میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہذا میری عبادت کرو۔ "
" يَاصَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (39) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40) " 41
" اے میرے قید خانے کے ساتھیو ! کیا بہت سے متفرق رب بہتر ہیں، یا وہ ایک اللہ جس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے ؟ اس کے سوا جس جس کی تم عبادت کرتے ہو، ان کی حقیقت چند ناموں سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حاکمت اللہ کے سوا کسی کو حاصل ہیں ہے، اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ "
کہیں کائنات کے پورے نظام سے توحید کے حق میں زبردست دلائل دیے گئے ہیں اور یہ ثابت کیاگیاہے کہ اس سارے عالم ہست وبود کا خدا ایک ہی ہے۔ جس طرح ان سورتوں کی ان آیات مبارکہ میں ہے : ۔
" قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (40) بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ (41) " ۔42
" (ان کافروں) سے کہو : اگر تم سچے ہو تو ذرا یہ بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے، یا تم پر قیامت ٹوٹ پڑے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ بلکہ اسی کو پکارو گے، پھر جس پر یشانی کے لیے تم نے اسے پکارا ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے دور کردے گا، اور جن (دیوتاؤں) کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو (اس وقت) ان کو بھول جاؤ گے۔ "
کہیں خدا کے بے شمار احسانات اور بے پایاں نعمتوں کا تذکرہ کرکے انسان کے جذبہ عبودیت کو مہمیز کیاگیاہے اور اسے اس بات پر آمادہ کیاگیا ہے کہ وہ ایک ہی خدا کو اپنی محبتوں اور اطاعتوں کا مرکز بنائے۔ جسطرح ان سورتوں کی ان آیات مبارکہ میں ہے:
“ يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (21) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (22)”۔43
“ اے لوگو اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔(وہ پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم ( یہ سب باتیں) جانتے ہو ۔ “
بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (90) ۔44
“نہیں (یہ افسانے نہیں) بلکہ ہم نے انہیں حق بات پہنچائی ہے، اور یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔”
غرض یہ کہ مختلف پیرایوں میں بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور کہیں بھی عبارت اور کلام میں تکرار کا عیب پیدا نہیں ہواہے نہ ثقالت اور غیرضروری طوالت کا احساس ہو رہا ہے بلکہ ہر بیان کی نوعیت دوسرے بیانات کی نوعیت سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔
5۔ تخلیص
اس اسلوب کو اردو شاعری کی اصطلاح میں گریز کہاجاسکتاہے ۔ یعنی بات میں سے بات پیدا کرنا، ایک مضمون بیان کرتے کرتے بیچ میں کوئی موقعہ کی ہدایت ونصیحت یا واقعہ بیان کرکے اصل موضوع کی طرف پلٹ آنا، اس کو امام ابن قیم جوزیؒ نے تخلص یا انتقال من فنٍ الی فنٍ کہا ہے۔
یہ اسلوب بڑی مہارت اور حسن بلاغت کا متقاضی ہے۔ مضمون کا رخ تھوڑے سے وقفہ کے بعد پھر اسی اصل مواد کی طرف پلٹا دیاجائے اور یہ تھوڑا سا عرصہ اس طرح نکالا جائے اور اصل مضمون سے اس کا تعلق اس طرح جوڑ دیاجائے کہ درمیان میں کوئی بے ربطی کسی قسم کا جھول اور کوئی بیگانگی پیدانہ ہو۔
سورہ مومنون کامطالعہ کیجئے۔ ابتدا اہل ایمان کی فلاح اور حق کی تکذیب کرنے والوں کے خسران کے اعلان سے ہوتی ہے جس میں خدا کی ربوبیت کے شواہد سے جزاوسزا پر استدلال بھی شامل ہے اور یہ سلسلہ آیت 23 وَعَلَیھَاعَلَی الفُلکِ تُحمَلُونَ( اور ان (جانوروں) پر اور کشتیوں پر سواری بھی کرتے ہو) پر ختم ہوتاہے۔ آگے مکذبین کے خسران اور مومنین کی فلاح پر تاریخی شواہد کا سلسلہ شروع ہوتاہے تو سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کا تذکرہ ہوتا ہے جو تاریخی تقدم کے اعتبار سے بھی رسولوں کی سرگزشت کا سرنامہ ہے اور خاص طور پر کشتی ہی کو ان کی اور ان کے ساتھیوں کی نجات کا اللہ تعالیٰ نے ذریعہ بنایا۔ کشتی کے ذکر کے بعد اس کشتی والے کے واقعہ کا ذکر اس طرح آگیا ہے گویا بات میں سے بات پیدا ہوگئی ہے۔ فرمایا: ۔
“اور ان(جانوروں) پر اور کشتیوں پر سواری بھی تم کرتے ہو۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا، اسے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سواتمہارے لیے کوئی معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔”45
تاریخی شواہد کے بعد آیت 50 سے پھر اصل مضمون دوبارہ شروع ہوگیاہے۔
" وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ "
" اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انھیں لےکر ڈھلک نہ جائیں۔اور اس میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ لوگ(خدا کی طرف) رہنمائی حاصل کرسکیں " ۔46
قرآن کریم کی یہ آیات مبارکہ بھی اس أسلوب کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو گی: ۔
" وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (5) وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ (6) وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَى بَلَدٍ لَمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (7) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (8) وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ (9) "
" اس نے جانور پیدا کئے جس میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔ ان میں تمہارے لیے جمال ہے جبکہ تم انھیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انھیں واپس لاتے ہو۔ وہ تمہارے لیے بوجھ کو ڈھو کر ایسے مقامات تک لیجاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق و مہربان ہے۔ اور اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق ہیں۔ اور وہ بہت سی ایسی چیزیں پیدا کرتاہے جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا " 47۔
اب ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کتنے جامع انداز میں تخلیق انسانی کے مقصد کو اور ہدایت اور رہنمائی کی باتوں کو ذکر کیا گیا اور بعد میں آیت نمبر 10 سے دوبارہ اصل مضمون کو دوبارہ بیان کیا گیا:
" الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّجَعَلَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ( 10)وَالَّذِيْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ(11) وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ (12) لِتَسْتَوٗا عَلٰي ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْـتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَـقُوْلُوْاسُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ (13) وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(14) ۔ " 48
" یہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا، اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے، تاکہ تم منزل تک پہنچ سکو۔ اور جس نے آسمان سے ایک خاص اندازے سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ذریعے ایک مردہ علاقے کو نئی زندگی دے دی، اسی طرح تمہیں (قبروں سے) نکال کر نئی زندگی دی جائے گی۔ اور جس نے ہر طرح کے جوڑے پیدا کیے اور تمہارے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سواری کرتے ہو۔ (٣)تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو، پھر جب ان پر چڑھ کر بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کی نعمت کو یاد کرو، اور یہ کہو کہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے بس میں دے دیا، ورنہ ہم میں سے یہ طاقت نہیں تھی کہ اس کو قابو میں لاسکتے۔ اور بیشک ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ "
" قَالَ هَلْ يَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ( 72) اَوْ يَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ يَضُرُّوْنَ(73) قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ(74) قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ (75) اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ (76) فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ (77) الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ 78۔ " 49
“ابراہیم نے کہا : جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری بات سنتے ہیں ؟ یا تمہیں کوئی فائدہ یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا ہے۔ ابراہیم نے کہا : بھلا کبھی تم نے ان چیزوں کو غور سے دیکھا بھی جن کی تم عبادت کرتے رہے ہو ؟ تم بھی اور تمہارے پرانے باپ دادے بھی۔ میرے لیے تو یہ سب دشمن ہیں، سوائے ایک رب العالمین کے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔”
" وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ(14) وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا ۚ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰي كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ ( 15) ۔50
اور اگرچہ ان کے دلوں کو ان (کی سچائی) کا یقین ہوچکا تھا، مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان ان کا انکار کیا۔ اب دیکھ لو ان فساد مچانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟ ۔ اور ہم داود اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ اور انہوں نے کہا : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ "
قرآن پاک مختلف الانواع احکامات،ہدایات اور مضامین کا ایسا جامع مجموعہ ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر حکم اور مضمون دوسرے حکم و مضمون سے باہم مربوط ہی نہیں، بلکہ ہر دو آیات و دو سورتوں اور دو پاروں وغیرہ کے درمیان باہمی ربط بھی محسوس ہوتا ہے ، یہاں تک کہ بعض مواقع پر تو قرآن کریم دو باہم مخالف مضامین کو اکٹھا بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان اس کو دیکھ کر حیران و سشدر رہ جاتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ باہم متضاد ہیں ہی نہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اس موقع کے مناسب و موافق یہی الفاظ اور مضمون تھا جس کو بیان کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ اور کوئی مضمون یہاں مناسب ہی نہ تھا۔ پھر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ دو مضامین و احکامات ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور اگر ایک کو دوسرے کے بغیر ذکر کیا جاتا تو مطلب واضح نہ ہوتا بلکہ اگر ان کو اکٹھے بیان کیے جائے تو بھی حسن و جمال اور باہمی ربط نظر آتا ہے ا ور اگرکسی بھی آیت اور مضمون کو الگ بھی لکھا جائے تو بھی مستقل مضمون نظر آتا ہے اور لگتا یہ ہے کہ اس کو اسی طرح بیان کرنا مناسب تھا۔اسی وجہ سےبعض حضرات نے ربط بین الآیات کا انکار کیا تو ان کے سامنے دوسری صورت ہی تھی ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کا اعجاز ذوقی ووجدانی ہے اور اگر اصول وضوابط کا پابند بھی تسلیم کرلیا جائے تو ہر اعتبار سے اس کا اعجاز الفاظ و مضامین کا ہے، یہاں تک کہ جو بھی ادیب و شاعر ایک فن میںکامل مہارت رکھتا بھی ہولیکن بالآخر جب اس کے کلام کا موازنہ کیاجائے تو بے اختیار زبان زدن ہو جائے گا " چہ نسبت خاک را باعالم پاک " اور " این الثری من الثریا " ۔اس بات کو دلیل سے ثابت کرنے کے لئے باہمی تقابل کو بیان کر کے ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
ایک تقابلی جائزہ
عربوں کا معروف و مشہور شاعر، رزم و بزم کا شہنشاہ اور ما فوق العادت قوت امراء القیس کو کہا جاتا ہے ، یہی شاعر اپنے رزمیہ اشعار میں گھوڑی کی مدح کرتے ہوئے یوں کہتا ہے:
(الف) “مكرٍّ مفرٍّ مقبلٍ مدبرٍ معاً ... كجلمودِ صخرٍ حطهُ السيلُ من علِ”51
“ وہ گھوڑا حملہ کرنے والا، بھاگنے والا،آگے آنے والا، پیچھے کو مڑنے والا سب ایک وقت میں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک پتھر ہے جس کو سیلاب نے اوپر سے لڑھکادیا ہے ”۔
(ب) “کُمیت یُزلّ اللِبْد عن حال متنہکماذَلّتالصفواءُبالمتنزّل”
“ وہ گھوڑا سیاہی وسفیدی مائل چتکبرا ہے، اس کی پیٹھ ایسی صاف ہے کہ نمدہ اپنی پشت کے وسط سے اس طرح پھسلاتا ہے جیساکہ صاف چکنا پتھر اپنے اترنے کی جگہ سے پھسل کر گرتا ہے ”۔
(ج) “علی الذَبْل جَیّاش کأن اہتزامہ اذا جاش فیہ حمیُہ غليُ مرجلٍ”
“ وہ دبلا پتلا ہے لیکن جوش ایسا کہ اس کے چلنے کی آواز گرمیٴ نشاط کے جوش میں دیگ کے ابلنے کی آواز معلوم ہوتی ہے “۔
(د) “اذا ما السابحات علی الونی أثرن الغبار بالکَدِیْد المُوَکَّل”
“ جس وقت تیز رفتار گھوڑے تھک ہار کر پامال شدہ زمین پر غبار اڑاتے ہیں وہ گھوڑا بدستور بارش کی مانند تیز چلتا ہے “۔
(ھ) “ یُزلّ الغلامَ الخِفّ عن صَہواتہ ویُلوي بأثواب العنیف المثقل”
“ ہلکے پھلکے اناڑی نوجوان کو اپنی پیٹھ سے پھسلادیتاہے، اور بھاری بھرکم تجربہ کار شہ سواروں کے کپڑے گرادیتا ہے “۔52
ان پانچ(5) اشعار میں اکاون(51) الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ، جن سے مقصود گھوڑے کے مدح بیان کرنا ہے ، جو بھی ان اشعار کو سنتا ہے وہ فصاحت و بلاغت کی تعریف کرتا ہے ، لیکن قرآن مجید میں ضمناً گھوڑے کی مدح کرتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے:
“ وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا (1) فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا (2) فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا (3) فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا (4) فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا (5)”53
“ قسم ہے دوڑتے ہانپتے گھوڑوں کی جوٹاپ مارکر آگ جھاڑتے ہیں، پھر صبح کے وقت تخت وتاراج کرتے ہیں، پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں، پھر اس وقت دشمنوں کی جماعت میں جاگھستے ہیں۔ “
ان پانچ آیات کریمہ میں بارہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، گھوڑے کی حقیقی اور واقعات خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے ، اس کے برعکس اشعار میں محض خیالات کو ہی بیان کیا گیا ہے ، شاعر امراء القیس نے گھوڑے کی مدح کرتے ہوئے اس کے بھاگنے کی بھی مدح کی ہے ، حالانکہ حقیقت میں جنگ سے فرار خواہ کسی سبب سے ہو عیت ہوتا ہے نہ کہ کمال۔ گھوڑے کے آگے بڑھنے کو دیگ سے آنے والی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے جو بالکل واضح نہیں ہے ، اس کے برعکس آیات کریمہ میں نہ فرار کا ذکر ہے اور نہ ہی گھوڑے کے دوڑنے کا ذکر کیا ہے ، بلکہ ہانپنے کا ذکر کیا گیا ہے جو بالکل واضح ہے،نیز اشعار میں ہے کہ تجربہ کار اور ناتجربہ کار دونوں کو گرا دیا جاتا ہے یا پھر اس کے سامان کو ضائع کر دیتے ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مالک کے وفا دار نہیں ہیں،اس کے برعکس آیات کریمہ میں گھوڑے اپنے آپ مشکل میں بھی ڈال کر منزل مقصود کی طرف بڑھتے رہتے ہیں جو وفاداری کی علامت اور دلیل ہے۔
اشعار میں کبھی موٹاپے کا بیان کیا ہے اور کبھی لاغری اور کمزوری کا جو کہ تعارض ہے اورجھوٹ بھی ہے۔ جبکہ آیات کریمہ میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ گھوڑے کا پامال شدہ زمین سے مٹی کا اڑانا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ اصل کمال تو جب ہے کہ زمین تربتر ہو پھر بھی تیز چلنے سے غبار اڑے۔
یہ وضاحت سے قرآنِ کریم کے اعجاز بیانی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
قاضی ابوبکر باقلانی نے اپنی کتاب اعجازالقرآن میں بلاغت کے دس وجوہ ذکر کرکے ہر نوع کے اعجاز کو تفصیلاً ثابت کیا ہے، وہ دس وجوہ درج ذیل ہیں: ۔
(1)الایجاز (2) التشبیہ (3) الاستعارہ (4) التلاؤم (5) الفواصل (6) التجانس (7) التصریف (8) التضمین (9) المبالغہ (10) حسن البیان۔54
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم معجزہ ہے جو اپنے مقصد میں پورے طور پر کامیاب رہا۔ اس نے پوری دنیا میں انقلاب عظیم بپا کیا۔سوئی انسانیت کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ بکھری ہوئی اقوام کو متحد کیا اور راہِ راست سے پھری ہوئی جماعت کو صحیح راہ پر لگادیا ، یہ سب اس کے اعجاز گراں مایہ قدر کا طفیل ہی تو ہے۔
خلاصہ کلام
ان سارے دلائل سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں اعجاز و فصاحت و بلاغت جس عمدہ اور منفرد انداز سے پائی جاتی ہے ، دوسری کتب اس سے خالی ہیں ، جب قرآن کریم میں اس اعلیٰ انداز سے اعجاز اور فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اور مخلوق اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رب کریم کا کلام ہے ، اس لئے ہمیں اسی کو مشعل راہ بنا کر زندگی کے تمام مراحل میں اس سے ہدایت اور روشنی حاصل کرنی چاہیے۔
Lecturer of Islamic Studies, KF University of Engineering & IT R.Y Khan Majid.rashid@kfueit.edu.pk
Visiting Lecturer of Islamic Studies, Lecturer of Islamic Studies, KF University of Engineering & IT R.Y Khan khubaib.ryk@gmail.com
1Al-Asrā’ 17:88.
2Al-Baqarah 2:23,24.
3Muhammad bin Ismā‘īl Bukhārī, Al-Jām‘ Al-Sahīh, Kitāb Fadā’l al-Qur’ān, Bāb: Keif Nuzūl al-Wahī, 2:744.
4Al-Asrā’ 17:88.
5Hūd 11:13.
6Al-Baqarah 2:23,24.
7‘Abd al-‘azīm Zarqānī, Manāhil al-‘Irfān (Misr: Matba‘ ‘īsā al-bābī al-Ḥalbī, S.N), 2:261.
8 Jalāl al-Dīn Suyūtī, Al-Ittiqān fi ‘Ulūm al-Qur’ān (Misr: Al-haī’at al-misriyyah al-‘āmah Lil kitāb, 1394 A.H), 4:14.
9Aḥmad Hasan al-ziyārat, Tārīkh al-adab al-‘arbī (Qāhirah: Dār NahÃhah Misr Lil Nashr, S.N), 89.
10‘Abd al-Rahmān al-barr Quwwatī, Sharah Dīwān al-Mutanabbī (Beirūt:1407 A.D), 1:132.
11Al-Sāffāt 37:125.
12Yatīmt al-bayān lil binūrī, Muqadmah Mushkilāt al-Qur’ān, 88,89.
13 Al-Qasas 28:38.
14 Al-Talāq 65:12.
15 Al-Baqarah 2:179.
16 Qāf 50:30.
17 Al-Najam 53:23.
18Aḥmad bin ‘Abd al-Raḥīm Shah Walī Allah, Al-Fawz al-kabīr Fī ’Usūl al-Tafsīr (Qāhirah: Dār al-Saḥwah, 1407 A.H), 216-230.
19Ahmad Amīn, Fajr al-Islām (Beirūt: Dār al-kutub al-‘ilmiyyah 2nd Edition, 2006 A.D), 190.
20Ibrāhīm 14:4.
21Ahmad bin ‘Alī bin Hajar ‘Asqalānī, Fath al-bārī (Beirūt: Dār al-m‘rifah, 1379 A.H), 13:271.
22Ahmad Amīn, Fajr al-Islām, 191.
23Qāzī ‘Ayāz, Al-Shifā’, Kitāb al-Shifā’ bi Ta‘rīf Huqūq al-Mustafā (Lahore: Farīd book stall, S.N), 13.
24 Hūd 11:44.
25Al-Mu’minūn23:1,2.
26Suleimān bin Ash‘ath, Sunan Abī Dā’ūd (Beirūt: Al-maktabah al- ‘asriyyah, S.N), 3:163.
27Abu al-Qāsim Zeid bin ‘Alī al-fārsī, Sharah Kitāb al-Humāsah (Beirūt: Dāe al-awza‘ī, S.N), 2:80.
28Al-Sūrā 42:40.
29Al-Nūr 24:33.
30Al-Nūr 24:32.
31Al-Asrā’ 17:31.
32Hamīd al-Dīn Farāhī, Muqadmah Tafsīr Nizām al-Qur’ān Wa Tāwīl al-Furqān bil Furqān (Beirūt: Al-Dā’irah al-ḥamīdiyyah, 2008 A.D), 48,49.
33Al-An‘ām 6:65.
34Al-Rūm 30:30.
35Al-Namal 27:36.
36Al-Bayyinah 98:5.
37Al-Mā’idah 6:72.
38Al-An‘ām 6:74-81.
39Ibrāhīm 14:35,36.
40Al-Anbiyā’ 21:25.
41Yūsuf 12:39,40.
42Al-An‘ām 6:40,41.
43Al-Baqarah 2:21,22.
44Al-Mu’minūn 23:90.
45Al-Mu’minūn 23:22.
46Al-Anbiyā’ 21:31.
47Al-Nahal 16: 5-9.
48Al-Zukhruf 43:10-14.
49Al-Shu‘rā’26 :72-78.
50Al-Namal 27:14,15.
51Abū Isḥāq bin Abī ‘Awn, Al-Tashbīhāt (Al-Maktabah Al-Shāmilah), 1:6.
52Amrū’u al-Qais bin ḥajar al-ḥārith al-kandī, Diwān Amrū’u al-Qais (Beirūt: Dār al-Ma‘rifah, 1425 A.H), 1:54.
53 Al- ‘ādiyāt 100: 1-5.
54Abū Bakr al-Bāqilānī Muḥammad bin al-Tayyib, I‘jāz al-Qur’ān lil-bāqilānī, Muḥaqqiq: Al-Sayyid Aḥmad Saqar (Misr: Dār al-Ma‘ārif, 1997 A.D), 262.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |