1
1
2020
1682060063651_3183
19-35
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/11/13
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/11
Key Words: The Subcontinent Ilm al- Ḥadīth Muḥaddithīn propagation of Ḥadīth-learning Shah Abdul Haq Shah Waliullah.
أ ﻷمِیر:جلد 01؍ شمارہ 01 ..(جنوری–جون 0 220ء) )31(
بر صغیر میں علم حدیث کی نشر و اشاعت اور محدثین کرام کی خدمات کا علمی جائزہ
Analytical study of the propagation of Ḥadīth-learning and the services of Muḥaddithīn in the Subcontinent
Hafiz Fareed ud Din
Muhammad Fazal Haq Turābī
Ḥadīth learning has a very high status in Islamic education after the Exegesis of the Holy Qurān (Tafsīr). Oddly enough, Non-Arab (‘Ajam) has a more important and key role than Arabs in the service of this knowledge. In this regard, the subcontinent is also being remained in the forefront. It started when Muhammad bin Qasim strengthened the Arab government in Sindh. Sheikh Abdul Haq Muhaddith Dehalvi is one of the prominent names in the teaching and writing of ḥadīth which travels gradually and reaches the family of Shah Waliullah, which is undoubtedly the pinnacle of ḥadīth knowledge in the subcontinent. The types of hadith that have been worked on, in connection with the service of ḥadīth, include the text of ḥadīth, commentaries, as well as summaries of ḥadīth and others. The entire Islamic world has benefited from all these teaching and writing services. The subcontinent, especially Pakistan, is gaining a central position in the Islamic world, which is the result of the propagation of Islam and understanding of the Qurān and Ḥadīth. In this regard, it is imperative to re-evaluate the services of the historians of this land. The said article will not only provide an introductory review of the Muḥaddith in the subcontinent and their authorship as well as a compilation but will also highlight the broadcasting and writing services of the hadith learning.
Key Words: The Subcontinent, Ilm al- Ḥadīth, Muḥaddithīn, propagation of Ḥadīth-learning, Shah Abdul Haq, Shah Waliullah.
ہندوستان انسانیت کا پہلا پڑاؤ
ہندوستان یعنی سرزمین ہندوپاک کو یہ شرف حاصل ہے یہ سرزمین لوگوں میں مکہ کی وادی کے بعد بہترین وادی ہے ، اس وادی کو یہ شرف حاصل ہے کہ سرندیب (سری لنکا) میں بنی نوع انسان کے والد محترم حضرت آدم علیہ السلام ایک پہاڑ پر اترے جو آپ کے آنے کی وجہ سے '' جبل مقدس '' کے نام سے مشہور ہوا ، آپکی زوجہ محترمہ حضرت حواء علیھا السلام کو عرب کے علاقہ جدہ میں اتاراگیا ،حضرت آدم علیہ السلام کے اتر جانے کے بعد علم وحکمت کے چشمے ہندوستان کی سرزمین پر پہلی مرتبہ پھوٹے کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام جبل مقدس پر فرشتوں کی آوازیں سنتے رہتے تھے ، حضرت آدم علیہ السلام کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ کائنات انسانی کے پہلے مہاجر ہیں جو پیدل چل کر حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ۔
حضرت آدم علیہ السلام جس پہاڑ پر اتارے گئے اس کا نام ، بوذ ، دجنی ، اور راجون بتایاجاتا ہے، جس پر آدم علیہ السلام کے قدم شریف کے نشان سے ایسا نور اور روشنی آتی ہے جو آ نکھوں کو خیرہ کردیتی ہے ، ہر روز کی بارش قدم شریف کے لئے غسل کی خدمت سر انجام دیتی ہے ، حضرت آدم علیہ السلام حضرت حواء علیھا السلام کی تلاش میں نکلے تو حضرت حواء میں محبت اور قربت پیدا کردی گئی تو جس مقام پر آپ ملے تو اس کا نام مزدلفہ پڑ گیاہے، اور اس دن کا نام ملاپ ( یعنی جمع ہونے ) کی وجہ سے جمعہ پڑگیا ۔
عجیب و غریب پہاڑوں میں سے سر اندیب کا پہاڑ ہے جس کی لمبائی 260میل سے کچھ اوپر ہے اور ا س میں ہیرے کی وادیاں بھی ہیں۔1مزدلفہ کے مقام پر ہندوستان اور عرب کی پہلی ملاقات تھی ۔حضرت آدم علیہ السلام پہلے ہندوستانی پہلے عرب کے باشندہ حضرت حواء علیھا السلام سے ملاقات کی سراندیب کے امیر امراء قدم مبارک کی تعظیم وتکریم کرتے ہیں اور قدم کی زیارت کرنے والوںکوبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
''وولاۃ سرندیب الیوم قوم من الھنود یعظمون القدم المبارکۃ ویکرمون زوارھا ''2
حضرت آدم علیہ السلام کو کلمات توبہ کا القاء اور قبولیت
توبہ کے کلمات ہندوستان میں سیکھے اور آپ کی قبولیت کی دعا بھی ہندوستان ہی میں منظور ومقبول ہوئی دعائے توبہ کے کلمات مندرجہ ذیل تھے ۔
''اللھم انی اسئلک بحق محمد وآل محمد سبحانک لاالٰہ الاانت عملت سوء ا وظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم''3
ہندوستان یعنی پاک وہند کے عرب سے تعلقات اور روابط کی تاریخ اتنی ہی پرانی تاریخ ہے ،جتنی بنی نوع انسان کی تاریخ کا دائرہ ہے، تاریخ انسانی کے پہلے مہاجر، پہلے بیت اللہ کا حج کرنے والے ،اور عرب دنیا سے پہلے ملاقات کرنے والے ،ہندوستانی یعنی حضرت آدم علیہ السلام تھے۔
نگاہ نبوت اور ہندوستان
رسول اللہ ﷺ نے ہندوستان سے جنگ کا وعدہ فرمایا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں ہندوستان کے غزوہ تک زندہ رہا تو اس غزوہ ہند میں اپنی جان ومال دونوں قربان کردوں گا ،اگر شہید ہوگیا تو افضل شہیدوں میں سے ایک ہوں گا ، اگر واپس آؤ ںگا تومیں صرف (آزاد) ابوہریرہ ہی رہوں گا ،یعنی (دوزخ کی آگ سے آزاد رہوں گا )۔
''وعدنا رسول اللہ ﷺ غزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی ومالی فان اقتل کنت من افضل الشھداء وان ارجع فانا ابو ھریرہ المحرر ''4
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو گروہوں کو اللہ تعالی نے دوزخ کی آگ سے بچالیا ،ایک وہ گروہ جو ہندوستان سے جنگ لڑے گا اور ایک وہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔
''قال رسول اللہ ﷺ عصابتان من امتی احرزھما اللہ من النار عصابۃ تغزوالھند وعصابۃ تکون مع عیسیٰ ابن مریم''5
حضرت بیر زطن ہندی یمنی نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اسلام قبول کیا ۔ یہ خالص ہندوستانی بزرگ طبیب حاذق تھے ،آپ کو قربت زمانی کے ساتھ ساتھ قربت مکانی کا بھی شرف حاصل ہے ۔حضرت بابا رتن 6بن سا ہوگ ساکن تبرندی دہلی میں پیدا ہوئے آپ پہلے ہندوستانی ہیں جن کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے، آپ ﷺ نے ان کے لئے طویل عمر کی دعا فرمائی جو 632سا ل زندہ رہے۔آپ کو معجزہ شق القمر کے مشاہدہ کا شرف بھی حاصل ہے۔
تجارتی امور اور مال تجارت کی در آمدگی اور برآمدگی کے حوالے سے دیکھاجائے تو ہندوستان کی مندرجہ ذیل اشیاء عرب میں عام شائع اور دستیاب تھیں۔ مسک ، مشک ، خوشبو، عود ، ہندوستان کی مشہور لکڑی عرب کی مر غوب ترین خوشبو ،کافور ، قفور ، قافور، ہندی لفظ کپور کا معرب ہے ،زنجبیل ، سونٹھ ، قرنفل ،لونگ فلفل ، مرچ، سارج ، ساگوان بہترین عمارتی لکڑی ، قسط ،کٹھ لکڑ، کست ، کٹھ کا معرب ہے ،مشہور ہندی دوا ہے ، داذی ، تاڑی کا معرب ہے ، (شراب کی قسم ہے) دجاج سندی ، سندھی مرغی ، مسندہ، حندیہ، سندھی خاص کپڑے ، برد یمانی ، فوطہ ، لنگی اور چادر ،قرطق، کرتہ کا معرب ہے ۔
ان اشیاء کا عرب دنیا میں عام رواج تھا ممکن ہے کہ یہ اشیاء بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کی جاتی ہوں اور آپ ﷺ کے استعمال میں بھی آتی ہوں۔ اور یوں ہندوپاک کو غلامی کا موقع نصیب ہوا ہو ۔
ھندوستان نسل انسانی کے پڑاؤ کا پہلا مقام ہے حضرت آدم علیہ السلام نے زمین پر اپنا پہلا قدم ہندوپاک کی سرزمین پر رکھا ، سرور کائنات ﷺ کی نگاہ نبوت کے سایہ سے بھی ہندوستان محروم نہیں اور صحابی رسول کو ہندوستان کی سرزمین پر جام شہادت کی تمنا تھی ،ہندوستانی اشیاء کا عرب میں استعمال ، ہندوستان کو شرف صحابیت ، شرف قرب زمانی ومکانی ،تبلیغ اسلام کے جذبہ سے سرشار اسلامی لشکروں کی ہندوستان میں آمد ،خصوصا محمد بن قاسم کی آمد روز روشن کی طرح ظاہر کرتی ہے،کہ ہندو پاک زمانہء اسلام ہی سے قرآن وحدیث کے نور سے منور تھا ،ہندوپاک کے لوگ جو مسلمان ہوئے ان کے پاس حدیث ہی کی دولت تھی جس کی وجہ سے اخلاق او رعمل کی وہ مثال ثابت ہوئے جس سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے ،سندھ کے مسلمانوں کو علم حدیث شریف سے خاص دلچسبی تھی ، چناچہ ایک عرب سیاح ابوالقاسم نے سندھ کا دورہ کرنے کے بعد لکھا ہے ۔''اکثرھم اصحاب الحدیث '' سندھ کے اکثر لوگ اصحاب الحدیث تھے ''
قاضی عبد الکریم سمعانی نے اپنی کتاب ''الانساب'' میں سندھ کے مختلف شہروں میں آباد متعدد محدثین کا ذکر کیا ہے بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ کے ایک استاذ ابو علی سندھی تھے ،عرب سیاح مقدسی نے منصورہ کے قاضی ابومحمد منصوری کو دیکھا جو ظاہری مذہب (امام داود ظاہری کے پیروکار ) کے امام تھے۔ 7مقدسی نے سندھی مسلمانوں کی بہت تعریف کی ہے ۔ان کے ہاں علم او راہل علم کی وجہ سے اسلام کو تازگی حاصل ہے ۔اسلام کی تازگی قرآن و حدیث کے نور سے ہی تازہ ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ابو حفص ربیع بن صبیح السعدی البصری ۔تبع تابعی اور بہت بڑے محدث ہیں آپ کی وفات ہندوستان میں ہوئی اور اسلام میں سب سے پہلے تصنیف کرنے کا شرف بھی آپ کو حاصل ہے ۔''واول من صنف فی الاسلام '' 8
ہند حدیث شریف کے فن کا محافظ ہوگیااور حدیث شریف کے علم کو بھی سر نگوں نہ ہونے دیا ۔ علوم حدیث میں ایسی خدمات سر انجام دیں جس کا ایک عالم ممنون احسان رہا۔9
حدیث بر صغیر میں
قرآئن اور آثار سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آفتاب نبوت ﷺ کی کرنوں نے اسی قطعہ کو بھی منور و معطر کیا ہے ۔''اسلام بر صغیر میں خلفاء راشدین کے زمانہ ہی میں آگیا تھا ،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مغربی ہندوستان میں بمبئی اور تھانہ میں مسلمانوں کی آبادیاں وجود میں آچکی تھیں ظاہر یہ ہے کہ یہ سب حضرات تابعین تھے جو ہندوستان میں آئے اور جن کی آبادیاں بر صغیر میں قائم ہوئیں ۔ انہی تابعین کے ہاتھوں بر صغیر میں اسلام باقاعدہ طور پر داخل ہوا ''10
برصغیر میں اسلام کی آمد اور اس کا استحکام باقا عدہ محمد بن قاسم کے دیبل کو فتح کرنے سے ہوا ،اس لئے سند ھ کو باب الاسلام کا نام دیا جاتا ہے،سنہ 711ء ، سنہ 92ھ ،میں محمد بن قاسم کی آمد ہوئی اور دو چار سال میں عظیم فتوحات کے بعد جب محمد بن قاسم واپس ہوا ،تو اس کا چھ ہزار کا لشکر تیس ہزار افراد میں تبدیل ہوچکا تھا ، سندھ کو فتح کرنے کے بعد وہاں چار ہزار مسلمانوں کو 11سکونت اور مسکن دیا گیا۔12
یہ بات تو واضح ہے کہ اسلامی لشکر دعوت اسلامی کے جذبہ سے مالامال ہوتا تھا تو لازما دعوت وتبلیغ میں مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو اپنا شعار بنایا ، قرآن وسنت ہی کو وعظ و نصیحت کے لئے عمل میں لایا جاتا رہاہوگا ، کیونکہ ان ایام میں فقہی مذاہب نے جنم ہی نہ لیا تھا ، اسلام کا ذخیرہ علمی قرآن و سنت اور اصحاب کے اقوال و افعال اور تقریرات کے گرد گھومتا تھا ، اصحاب رسول ﷺ ہدایت کے چمکتے دمکتے ستارے اور ماخذ مذہب ہیں ۔13
بر صغیر میں حدیث کی آمد اور اشاعت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1۔عرب فتوحات کا دور
2۔ عجمی فتوحات کا دور
3۔حدیث کی نشاۃ ثانیہ کا دور
1۔ عرب فتوحات کا دور
بر صغیر کا یہ وہ پہلا دور ہے جس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے ، کہ اسلام اور عرب جب اور جس کے ہاتھوں سندھ میں داخل ہوا وہ دور بر صغیر کے لئے عرب فتوحات کا دور ہے برصغیر میں حدیث شریف کے حوالے سے یہ دور ایک زریں اور خالصتا قرآن وحدیث کا دور کہلایا جا سکتا ہے ،اسلام کی قد آور شخصیات جو بھی اس سر زمین پر تشریف لائیں تو ان کا اوڑھنا بچھونا قرآن وسنت ہی تھا یعنی دعوت اسلامی میں صرف قرآن وسنت ہی کی آواز تھی قرآن وسنت ہی قانون اور دستور حیات تھا ۔ عرب فتوحات کا دور خالصتاحدیث ہی کا دور تھا فرمان رسول ﷺ کی آواز ہر سوجلوہ فگن تھی ۔
2۔عجمی فتوحات کا دور
عجمی فتوحات کے دور سے مراد ہے کہ ، ایران ، افغان ، غزنی کے علاقوں سے آنے والے فاتحین کے باشندے جنہوں نے برصغیر میں عنان سلطنت کوسنبھالا ۔ عجمی فاتحین جنہوں نے برصغیر میں اپنا قدم ٹکایا ان کا دور عجمی فتوحات کا دور کہلایا جاسکتا ہے ،عجمی فاتحین اپنے ساتھ قرآن وسنت کے علاوہ فقہ، فلسفہ ، منطق ،شعر وشاعری ، جیسے عقلی علوم کا ایک ذخیرہ اکابر علماء اور فضلاء کی صورت میں لائے ۔
اس دور میں فقہ و اصول فقہ اور عقلی علوم کا دور دورہ زیادہ ہوگیاتھا ،اور حدیث شریف کی طرف توجہ بہت ہی کم ہوئی ، اس کی وجہ صرف اور صرف حکمران ہی تھے جیسے ان کا مزاج تھا انہوں نے ویسے ہی علوم وفنون کو پذیرائی دی تاہم جس دور میں عقلی علوم شاہی مزاج کے مطابق اپنے جوہر سے ہر کس وناکس کی عقل کو خیرہ کر رہے تھے،اسی دور میں قرآن وسنت کے محافظین کی ایک جماعت نےبھی اپنے اشغال اور دستور حیات کے اثبات کے لئے حدیث ہی کو اپنے لئے دلیل اور برھان بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی تھی،حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر کے عظیم مرید سلطان الاولیاء 14شیخ نظام الدین محبوب الٰہی '' کان یسمع الغناء ،''15سماع سنتے تھے ۔
علماء کا ایک گروہ سماع کا انکار کرتا تھا ، بادشاہ وقت سلطان غیاث الدین کی موجود گی میں اس مسئلہ کے لئے ایک مجلس منعقد ہوئی تو اس مجلس میں شیخ نظام الدین محبوب الٰہی علیہ الرحمہ سماع کے جواز پر احادیث ہی پیش کرتے تھے جبکہ علماء کا گروہ حدیث کے مقابلہ میں فقہی روایات کو بیان کرتا تھا ، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں اولیاء اللہ ہی حدیث کے محافظ اور عامل ہوتے ہیں ، عجمی فتوحات کے دور میں بر صغیر کے اندر عقلی علوم کا طوطی بولتا تھا تاہم اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی ایک جماعت بھی اس کی اشاعت اور حفاظت کے کار خیر میں لگی ہوئی تھی۔
3۔حدیث کی نشاۃ ثانیہ کا دور
برصغیرمیں حدیث کی نشاۃ ثانیہ کا دور محدث دہلوی حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی حدیثی خدمات سے شروع ہوتا ہے ،اور یہ دور حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کے لائق فائق فرزند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ پر ختم ہوتا ہے ،برصغیر میں علم حدیث شریف کے بارے میں لکھا گیاہے کہ جب سے اہل اسلام نے بر صغیر کو فتح کیااس وقت سے حدیث شریف کا علم برصغیر میں کبریت احمر یعنی خالص سونے اور چاندی کی طرح نایاب تھا کہ اللہ تعالیٰ جل جلا لہ نے بر صغیر پر احسان فرمایا اور سب سے پہلے اس حدیث شریف کے علم کو حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ بر صغیر میں لائے تھے ۔
''وھو اول من جآء بہ فی ھٰذا الا قلیم ''16
اس اندھیرے کو اجالے میں یوں بدلا گیا ہے ،حضرت شیخ محدث دہلوی پہلی پہلی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دہلی میں درس اور افادہ سے اھل ھندپر فیض عام کیا ۔17 محنت شاقہ کے ساتھ اس علم کی نشرو اشاعت کی ،اللہ تعالیٰ نے آپ سے او ر آپ کے علوم سے بہت سارے مؤمن بندوں کو نفع دیا ،یہاں تک کہ جو یہ کہاگیا کہ آپ سب سے پہلے حدیث کو ہندوستان لائے یہ غلط ہے ۔حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کو سب سے پہلے برصغیر میں حدیث کی شرح اور اشاعت ، تصنیف وتالیف، میں سبقت کا شرف حاصل ہے۔
حدیث شریف کی برصغیر میں نشاۃ ثانیہ کا یہ دور سوم حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی حدیثی خدمات یعنی اشاعت حدیث ،شرح حدیث اور تصنیف و تالیف حدیث سے شروع ہوتا ہے ،اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی خا ص رحمت سے اس فن شریف کو یوں سینچا جو ایک شجرہ طیبہ کی صورت اختیار کرگیا اور اسکی شاخوں اور ٹہنیوں کی حفاظت میں اولیاء اور علماء کی ایک جماعت نے اپنی تمام طاقتوں کو صرف کیا اور حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ اور ان کے فرزند ار جمند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے اس شجرہ طیبہ کو سدا بہار بنادیا کہ آج کل برصغیر اس شجرہ طیبہ کے ثمرات سے نفع اٹھارہاہے ۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویعلیہ الرحمۃ تا قیامت مؤمنین اور مؤمنات کی دعاؤں کے حقدار بن گئے ہیں حضرت شاہ عبد العزیز علیہ الرحمۃ کے بعد بر صغیر کے کل محدثین آپ ہی کے خوشہ چین ہیں اور انکی حدیث کی سند کا سلسلہ آپ ہی سے جڑ کر سرور کائنات ﷺ سے قربت کا شرف رکھتا ہے۔
ہندوپاک برصغیر کے محدثین
محمد بن قاسم ثقفی نے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں جب سندھ کو فتح کیا اور یہاں جب عرب حکومت مستحکم ہوگئی تو تبع تابعین ، اہل بیت نبی ﷺ کے لوگ اور دوسرے اہل علم وفضل سندھ میں آتے رہے ۔ان کی سکونت کی وجہ سے وہ یہاں پلے بڑہے اولادیں ہوئیں آگے نسلیں چلیں اور دوسرے شہروں کی طرف سفر کیا ۔ چار صدیوں تک حدیث کو حفظ کیا،حدیث کی روایت حفظ اور اتقان سے کی ۔ انکی تصنیفات نے چار دانگ عالم میں سفر کیا ۔
محدثین
1۔اسرئیل بن موسیٰ بصری ،تبع تابعی ہیں حدیث میں ثقہ ہیں18
2۔منصور بن حاتم نحوی ،آپ سے بلاذری نے فتوح البلدان میں روایت کیا ہے19
3۔ابراھیم بن محمد الدیبلی
4۔احمد بن عبد اللہ الدیبلی
5۔احمد بن محمد المنصور ی ابوالعباس ،منصورہ کے قاضی تھے ، امام داود بن علی ظاہر ی کے مذہب پر آپکی تصنیفات ہیں ۔
6۔خلف بن محمد الدیبلی
7۔شعیب بن محمد الدیبلی
8۔ابومحمد عبد اللہ المنصوری
9۔علی ابن موسیٰ الدیبلی
10۔فتح بن عبد اللہ الندی
11۔محمد بن ابراھیم الدیبلی 20
12۔موسیٰ بن یعقوب ثقفی ، فقیہ تھے آپکی اولاد میں سے ہر ایک صدر امام اجل ،بدرالملۃ والدین ،ونجم الشریعۃ، کے لقب سے مشہور تھا۔21
13۔یزید بن ابی کبشہ دمشقی ، اموی حکومت کے ستونوں میں سے ایک ستون تھا ،سنہ 96ھ میں وفات پائی۔ 22
14۔ابوحفص ربیع بن صبیح ، شیخ حدیث صالح صدوق ، عابد اور مجاہد تھے سنہ 160ھ میں وفات پائی۔ 23
15۔ابو معشر نجیح سندھی ، نو مسلم تھے ، مدینہ منورہ میں اقامت کی وجہ سے مدنی کہلائے ، سیر ومغازی کے امام تھے،سب سے پہلے سیرو مغازی کو آپ ضبط تحریر میں لائے ۔سنہ ۱۷۰ھ میں انتقال فرمایا ، بوجہ شہرت خلیفہ ھارون الرشید نے خود انکی نماز جنازہ پڑھائی۔ 24فقیہ عالم مقبرہ کبیرہ بغداد میں آسودہ خاک ہیں ۔25
16۔ابوعبداللہ محمد بن رجاء سندھی (246ھ/860ء)۔26
آپ نے ایران میں اقامت فرمائی اس لئے اسفرائنی کہلائے ، آپ کا لقب رکن من ارکان الحدیث ، حدیث کے ارکان میں سے ایک رکن تھے،321ھ میں وفات پائی بیٹا محدث تھا جو بغداد میں در س دیتاتھا۔27
17۔حافظ ابو بکر محمد بن محمد بن رجاء السندھی (م 286ھ/899ء)
18۔ابوالعباس احمد بن محمد بن صالح منصوری (چوتھی صدی ہجری ) منصورہ دوسری صدی ہجری کا مشہور شہر جس کو اہل ہند بھکر کہتے تھے ، اس شہر میں علم حدیث کی کافی اشاعت ہوئی ۔
19۔ابومحمد عبد اللہ بن جعفر مرہ منصوری (م 390ھ/ 1000ء)
20۔ابو جعفر محمد بن ابراھیم دیبلی (232ھ/846ء)دیبل کراچی کانام ہے جس کو محمد بن قاسم نے فتح کیا ۔
21۔ ابوالعباس احمد بن عبداللہ دیبلی (م 333ھ/954ء)
22۔ابوالعباس محمد بن محمد بن عبد اللہ الوراق الدیبلی (م 354ھ/965ء)
23۔ابوجعفر بن خطاب قصداری قصدار (قزداد) سند ھ کا مشہور شہر جسکو مسلمانوں نے سنان بن سلمہ کی قیادت میں فتح کیا جو علم حدیث کا مرکز تھا ۔
24۔ ابوداود سیبویہ بن اسماعیل بن ابوداود الواحدی کزداری (م 460ھ/ 1068ء)۔28
25۔ شیخ عبد المعطی بن حسن بن عبد اللہ (متوفیٰ احمد آباد 989ھ)
26۔شہاب احمد بن بدرالدین مصری (متوفیٰ احمد آباد 992ھ)
27۔شیخ محمد بن احمد بن علی فاکہی حنبلی (متوفیٰ احمد آباد 992ھ)
28۔شیخ محمد بن محمد عبد الرحمان مالکی مصری (متوفیٰ احمد آباد919ھ)
29۔شیخ رفیع الدین چشتی شیرازی (متوفیٰ اکبر آباد 954ھ)
30۔شیخ ابراھیم بن احمد بن حسن بغدادی
31۔شیخ ضیاء الدین مدنی (مدفون کاکوری)
32۔ شیخ بہلول بدخشی
33۔خواجہ میر کلان ھروی (متوفیٰ اکبر آباد 981ھ)
34۔ شیخ عبد اللہ بن سعداللہ سندی
35۔شیخ رحمۃ اللہ بن عبد اللہ بن ابراھیم سندی
36۔شیخ یعقوب بن حسن کشمیری (متوفیٰ 1003ھ)
37۔شیخ جوھر کشمیری (متوفی ٰ 1026ھ)
38۔شیخ عبد النبی بن احمد گنگوہی
39۔شیخ عبد اللہ بن شمس الدین سلطانپوری
40۔شیخ قطب الدین عباسی گجراتی
41۔شیخ احمد بن اسماعیل مندوی
42۔شیخ راجع بن داود گجراتی
43۔شیخ علیم الدین مندوی
44۔شیخ معمر ابراھیم بن داود ، منکپوری، مدفون اکبر آباد
45۔شیخ محمد بن طاھر بن علی پٹنی صاحب مجمع البحار (متوفیٰ 986ھ)
46۔سید عبد الاول بن علی بن علاء حسنی (متوفیٰ 968ھ)
47۔شیخ طاھر بن یوسف سندی (متوفیٰ 1004ھ)
48۔شیخ عبد الحق بن سیف الدین بخاری دھلوی (متوفیٰ 1052ھ)
49۔شیخ نور الحق بن شیخ عبد الحق (متوفیٰ 1073ھ)
50۔شیخ الاسلام بن شیخ نورالحق
51۔شیخ سلام اللہ بن شیخ الاسلام
52۔شیخ احمد بن عبد الاحد سرھندی
53۔شیخ محمد سعید بن احمد بن عبد الاحد سرھندی
54۔فرخ شاہ بن محمد سعید بن احمد بن عبد الاحد سرھندی ،70ہزار احادیث متنا ، اسنادا ، جرحا اور تعدیلا،آپکو یاد تھیں ۔
55۔شیخ سراج احمد بن فرخ شاہ سرھندی رامپوری
56۔شیخ محمد اعظم بن سیف الدین معصومی سرھندی
57۔شیخ محمد افضل سیالکوٹی
58۔شیخ صبغۃ اللہ رضوی خیرآبادی
59۔ شیخ فاخر یحییٰ عباسی الٰہ آبادی
60۔شیخ خیرالدین سورتی
61۔شیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم عمری دھلوی ،(متوفیٰ 1176ھ) 62۔شیخ عبد العزیز بن ولی اللہ دھلوی ۔29
ہندوپاک کے محدثین کی حدیث میں تصانیف
حدیث شریف اور اصول حدیث میں ہندوپاک بر صغیر کے محدثین عظام کی بہت زیادہ کتب ہیں جنہوں نے عرب وعجم میں خراج تحسین حاصل کیا ہے اور اس فن شریف کی خدمت میں ایک اعلیٰ کارنامہ سر انجام دیا ہے ۔ذیل میں اُن کُتب کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے:
کُتبِ حدیث
1۔ مشارق الانوار از شیخ امام حسن بن محمد بن حیدر صنعانی لاہوری
یہ کتاب لوگوں میں مقبول اور متداول ہے ، جس میں صحیحین کی صرف قولی احادیث کو جمع کیا گیا ہے تاکہ فرمان مصطفیٰ ﷺ سے عام آدمی بھی براہ راست مستفید ہوسکے ، اس کا اردوترجمہ بھی عام دستیاب ہے ، مترجم مولوی خرم علی ہیں۔
2۔مصباح الدجیٰ فی حدیث المصطفیٰ از شیخ امام حسن بن محمد بن حیدر صنعانی لاہوری
3۔ والشمس المنیرہ از شیخ امام حسن بن محمد بن حیدر صنعانی لاہوری
4۔ عین العلم والسبعین از شیخ علی بن شہاب ھمدانی۔ اس میں مناقب اہل بیت میں سترہ احادیث ہیں اور اکثر احادیث فردوس دیلمی سے ماخوذ ہیں۔
5۔تخریج عین العلم والسبعین از یہ کتاب فتح محمد بن عیسیٰ السندی برھانپوری کی تصنیف ہے۔
6۔کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال ازحضرت علی متقی علیہ الرحمۃ
چار جلدوں میں ہے جس میں جامع الاصول کی ترتیب کے مطابق امام سیوطی کی حدیث کی کتاب جمع الجوامع کو ترتیب دے دیا گیا ہے۔
7۔ منہج العمال فی سنن الاقوال
امام سیوطی کی حدیث کی کتاب '' الجامع الصغیر ''کواس میں ترتیب دیا گیا ہے ۔
8۔البرھان فی علامات مھدی آخرالزمان از شیخ علاء الدین علی بن حسام المتقی ھندی مہاجر مکی (متوفیٰ ۹۷۵ھ)
یہ کتاب''العرف الوردی فی اخبار المھدی اور عقدالدرر فی اخبار المھدی المنتظر '' کی تلخیص ہے ۔
9۔ملتقط جمع الجومع از شیخ طاھر بن یوسف سندی برھانپوری
10۔ وطائف النبی فی الادعیۃ الماثورۃ از شیخ عبد النبی بن احمد احمد نعمانی گنگوہی
11۔نزل الابرار لما صح من مناقب اھل البیت الاطہار
12۔مفتاح النجا من مناقب آل العباء
13۔ تحفۃ المحبین فی مناقب الخلفاء الراشدین ازمرزا محمد بن رشتم بدخشی دھلوی
14۔ التنبیہات النبویۃ فی سلوک الطریقۃ المصطفویۃ از شیخ ولی اللہ بن غلام محمد سورتی
زھد ، آداب اور اس سے متعلقہ ابواب کی جامع کتاب ۔
15۔طریق الافادۃ شرح سفر السعادۃ (فارسی) از شیخ عبد الحق محدث دھلوی
16۔ماثبت باالسنۃ فی ایام السنۃ (عربی) از شیخ عبد الحق محدث دھلوی
17۔خلاصۃ المناقب فی فضائل اھل بیت ازشیخ سلام اللہ بن شیخ الاسلام بخاری دھلوی
18۔کتاب بسیط ازقاضی ثناء اللہ عثمانی پانی پتی ۔ دو جلدوں میں ہے۔ ''وھو احسن الکتب المؤلفۃ فی الآداب النبویۃ واخلاقہ ﷺ''
آداب نبویہ اور اخلاق نبویہ ﷺ کی کتابوں میں سے بہترین کتاب ہے ۔
19۔النوادر من احادیث سید الاوائل والآواخر ازشیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم محدث دھلوی
الاربعینات
20۔الاربعین ازسید علی بن شہاب حسینی ھمدانی۔ جن کی سند انس بن مالک رضی اللہ عنہ تک متصل ہے ۔
21۔الاربعین ازشیخ کبیر محمد بن یوسف حسنی دہلوی نزیل گلبرگہ (متوفیٰ 825ھ)
ہر حدیث کے نیچے آثار صحابہ ، تابعین اور متقدمین مشائخ سے ایک سطر ہے ۔
22۔الاربعین ازشیخ خواجگی بن شمس الدین حسینی عریضی کروی ، یہ مشارق الانوار سے ماخوذ ہے ۔
23۔ الاربعین فی ابواب علوم الدین ازشیخ عبد الحق بن سیف الدین بخاری دھلوی
24۔الاربعین ازشیخ احمد بن عبد الاحد عمری سرھندی ، طریقہ مجددیہ کے اما م ہیں۔
25۔ الاربعین ازبادشاہ محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر دہلوی نے بادشاہت کے تخت پر براجمان ہونے سے پہلے تصنیف فرمائی ۔
26۔الاربعین ۔عالمگیر بادشاہ نے تخت نشین ہونے کے بعد تصنیف فرمائی ، پھر فارسی میں ترجمہ کیا اور مفید حواشی سے اسکو مزین کیا ۔
27۔الاربعین از شیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم عمری دہلوی ، آپ کی سند حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک متصل ہے ۔
مؤطا کی شروحات
28۔المصفیٰ شرح المؤطا ازشیخ یعقوب ابی یوسف بیانی لاہوری ، عربی میں ہے۔
29۔المحلیٰ شرح المؤطا ازشیخ سلام اللہ بن شیخ الاسلام بخاری دہلوی، عربی میں ہے ۔
30۔المسویٰ شرح المؤطا از شیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم عمری دہلوی ، عربی میں ہےغریب الفاظ کی شرح اور بیان مذاہب پر اکتفاء ہے۔
31۔المصفیٰ شرح المؤطا از شیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم عمری دہلوی، فارسی میں اجتہاد اور تحقیق کی بنیاد پر تصنیف ہے ،آپکی وفات کے بعد آپکے صاحبزادے شیخ محمد امین نے اسکی تصحیح اور تہذیب کی۔ اسکی تہذیب سے 1179ھ میں فراغت پائی ۔
صحیح بخاری کی شروحات
32۔شرح صحیح البخاری از شیخ امام حسن بن محمد بن حیدر صنعانی لاہوری
33۔فیض الباری شرح صحیح البخاری ازسید عبد الاول بن علی بن علاء حسینی
34۔شرح علیہ ازشیخ یعقوب بن حسن صرفی کشمیری (متوفیٰ 1003ھ)
35۔غایۃ التحقیق
36۔وشرح علیہ ازشیخ عثمان بن عیسیٰ بن ابراھیم سندی برھانپوری
37۔وشرح علیہ ازشیخ طاہر بن یوسف سندی برھانپوری ،وہ قسطلانی سے ماخوذہے ۔
38۔الخیرالجاری شرح صحیح البخاری ازشیخ یعقوب ابی یوسف بیانی لاہوری
39۔تیسیر القاری ازمفتی نور الحق بن عبد الحق محدث دہلوی ،فارسی میں چھ جلدیں ہیں ۔
40۔فیض الباری از شیخ محمد اعظم بن سیف الدین سرہندی
41۔شرح بسیط علیہ از شیخ الاسلام ببن محب اللہ بخاری دہلوی ، فارسی میں ہے ۔
42۔نور القاری ازشیخ نورالدین بن محمد صالح گجراتی
43۔ضوءالدراری ازسید غلام علی حسینی بلگرامی ،باب زکواۃ تک قسطلانی سے ماخوذ ہے ۔
44۔مختصر لطیف ازشیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم عمری دہلوی ، بخاری کے ابواب کے تراجم کا حل پیش کیا ہے۔
ثلاثیات بخاری کی شروحات
بخاری کی ثلاثیات کی شروحات سے بھی پاک وہند کے محدثین کا دامن مالا مال ہے ۔
صحیح مسلم کی شروحات
45۔المعلم شرح صحیح مسلم از شیخ یعقوب ابی یوسف بیانی لاہوری
46۔ المطر التجاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ازمفتی ولی اللہ بن احمد علی حسینی فرخ آبادی
47۔شرح علیہ ازشیخ فخرالدین بن محب اللہ بخاری دہلوی ، فارسی میں ہے ۔
48۔ شرح علیہ ازشیخ سراج احمد سرہندی
49۔شرح علیہ بالقول ازمفتی صبغۃ اللہ بن محمد غوث شافعی مدارسی
جامع الترمذی کی شروحات
50۔شرح علیہ ازشیخ طیب بن ابی طیب سندی (متوفیٰ ۹۹۹ھ)
51۔شرح علیہ ازشیخ سراج احمد سرہندی ، فارسی میں ہے ۔
52۔شرح علیہ بالقول از مفتی صبغۃ اللہ بن محمد غوث شافعی مدارسی
سنن ابی داود کی شروحات / سنن ابن ماجہ کی شروحات
53۔شرح علیہ از سراج احمد عمری سرہندی ، فارسی میں ہے۔
54۔انجاح الحاجۃ از شیخ عبد الغنی بن ابی سعید عمری دہلوی مہاجر ، عربی میں ہے۔
شمائل ترمذی کی شروحات
55۔شرح علیہ از شیخ محمد عاشق بن عمر حنفی (متوفیٰ 1033ھ)فارسی میں ہے ۔
56۔شرح علیہ ازمفتی نور الحق بن عبد الحق بن سیف الدین بخاری دہلوی
57۔معین الفضائل شرح الشمائل ازشیخ فاضل بن حامد گجراتی
58۔اشرف الوسائل شرح الشمائل ازشیخ سیف اللہ بن نور اللہ بخاری دہلوی ،1091ھ میں تصنیف فرمائی ۔
59۔شرح علیہ از شیخ حاجی محمد کشمیری (متوفیٰ 1006ھ)
60۔دررالفضائل شرح الشمائل ازشیخ علیم الدین بن فصیح الدین قنوجی ، عربی میں ہے ۔
61۔شرح علیہ ازشیخ محمد فیض بن محمد صادق بلگرامی ، فارسی میں ہے ۔
مشکاۃ المصابیح کی شروحات
62۔شرح بسیط علیہ از شیخ عبد العزیز کاھانی سندی
63۔شرح علیہ ازشیخ محمد سعید بن احمد عمری سرھندی
64۔ذریعۃ النجاۃشرح المشکاۃ ازشیخ عبد النبی بن عبد اللہ شطاری گجراتی
65۔زینۃ النکات شرح المشکاۃ ازسید محمد بن جعفر حسینی گجراتی
66۔شرح علیہ ازشیخ طیب بن ابی طیب سندی برھانپوری
67۔شرح علیہ
گجرات کے علماء میں سے کسی کی تصنیف ہے جو 993ھ میں اسکی تالیف سے فارغ ہوئے ۔
68۔لمعات التنقیح فی شرح المشکاۃ المصابیح ازشیخ عبد الحق بن سیف الدین بخاری دہلوی ، عربی میں ہے ۔
69۔اشعۃ اللمعات شیخ مذکورکی فارسی چار جلدوں میں کتاب ہے ، غریب اور مشکلات کے ضبط میں آسانی پیداکرنے والی مقبول متداول کتاب ہے ۔
70۔جامع البرکات منتخب شرح المشکاۃ ، شیخ محدث علیہ الرحمۃ ،بہت مفید کتاب ہے ۔
مشارق الانوار کی شروحات
71۔شرح علیہ
یہ شرح تصوف کی زبان میں ہے ۔
72۔شرح علیہ از سید محمد بن یوسف حسنی دھلوی مدفون گلبرگہ،فارسی میں ہے ۔
73۔وشرح علیہ ازشیخ منور بن عبد المجید لاہوری
74۔وشرح علیہ از سید احمد بن محمد حسینی غریضی کردی المشہور ،محی الدین احمد
الحصن الحصین کی شروحات
75۔وشرح علیہ ازشیخ حاجی محمد کشمیری ،(متوفیٰ 1006ھ)
76۔وشرح علیہ ازشیخ فخرالدین بن محب اللہ بخاری دہلوی ،فارسی میں ہے ۔
77۔ وشرح علیہ ازشیخ منور بن عبد المجید لاہوری
78۔ وشرح علیہ ازشیخ محمد فیض بن محمد صادق ،بلگرامی فارس میں ہے ۔
الاربعین امام نووی کی شروحات
79۔الدر الثمین بشرح الاربعین ازشیخ عبد اللہ بن عبد القادر مدراسی
80۔شرح الاربعین ازشیخ وجیہ اللہ بن مجیب اللہ بن محمد ھندی سن تصنیف 1214ھ ہے ۔
81۔شرح الاربعین ازشیخ رفیع الدین محدث مراد آبادی ۔
82۔الظفر المبین ترجمۃ الاربعین ۔نامعلوم مصنف
عین العلم کی شروحات
83۔حق العلم شرح عین العلم از شیخ عبد العظیم بر ھانپوری (متوفیٰ 1141ھ)
84۔ترجمۃ عین العلم ازشیخ رفیع الدین محدث مراد آبادی
غنیۃ الطالبین کی شروحات
85۔ترجمہ غنیۃ الطالبین از شیخ عبد الحکیم بن شمس الدین سیالکوٹی ، فارسی میں ہے ۔
86۔شرح غنیۃ الطالبین از شیخ رفیع الدین محدث مراد آبادی ، فارسی میں ہے ۔
کتاب الآ ثار امام محمد کی شروحات
87۔التعلیق المختار علی کتاب الآثار از مولوی عبد الباری بن عبد الوھاب انصاری لکھنوی کا بسیط حاشیہ ہے ۔
88۔فیض الستار فی شرح کتاب الآثار از مولوی عبد العزیز بن عبد الرشید
غریب الحدیث میں تصنیفات
89۔مجمع بحار الانوار از شیخ محمد بن طاہر بن علی پٹنی گجراتی ۔ یہ مفید اور احسن کتابوں میں سے ایک کتاب ہے ،ہر غریب الحدیث اس میں جمع ہے ، صحاح ستہ کی ایک شرح ہے ،یہ کتاب جب سے وجود میں آئی ہے اہل علم کے درمیان اس کی قبولیت پر اتفاق ہے ، ا س عظیم کارنامہ کی وجہ سے محمد طاہر کا اہل علم پر عظیم ایک عظیم احسان ہے ۔
90۔الیم الذ غرب فی لغات الحدیث المنتخب علی ترتیب حروف المعجم از شیخ عبد اللہ صدیقی الٰہ آبادی
91۔فہرس اللغات والجمل للصحیحین ازشیخ حسین عطاء اللہ بن صبغۃ اللہ شافعی مدارسی
یہ ایک بڑی جلد میں کتاب ہے گویا کہ مفتاح الصحیحین (صحیحین کی چابی ہے )۔
موضوعات میں تصنیفات
92۔فی الموضوعات رسالتان ازشیخ حسن بن محمد بن حیدر صنعانی لاہوری موضوعات میں دو رسالے ہیں ۔
93۔تذکرۃ الموضوعات ازشیخ محمد بن طاھر بن علی پٹنی گجراتی ۔ جامع کتاب ہے ۔اس میں بہت سی چیزیں جمع ہیں اور یہ کتاب علی قاری اور شوکانی کی کتاب الموضوعات سے زیادہ بڑی اور کثیر مضامین کی حامل ہے۔
94۔تذکرۃ الاصفیاء بتصفیۃ الاصفیاء ازشیخ عبد الحق بن فضل اللہ نیوتنی، یہ کتاب مختصر اور کتاب عراقی کااختصار ہے۔
95۔تمیز الطیب من الحیث مما تدور علی السنۃ الناس من الحدیث ازشیخ عبد الحق بن فضل اللہ نیوتنی ،امام سخاوی کی مقاصد حسنہ کا اختصار ہے ۔
تخریج میں تصنیفات
96۔تخریج السبعین ازشیخ فتح محمد بن عیسیٰ سندی محدث برھانپوری
97۔تخریج احادیث البیضاوی از شیخ عبد اللہ بن صبغۃ اللہ شافعی مدارسی
98۔تخریج احادیث الصفوۃ از شیخ احمد بن صبغۃ اللہ شافعی مدارسی
99۔تشبیہ المبانی فی تخریج احادیث مکتوبات الامام الربانی ازشیخ محمد سعید بن صبغۃ اللہ مدراسی حیدر آبادی
100۔تخریج احادیث الاطراف ازشیخ محمد سعید بن صبغۃ اللہ مدراسی حیدر آبادی
اصول الحدیث میں تصنیفات
101۔شرح علی شرح نخبۃ الفکر ازشیخ وجیہ الدین علوی گجراتی
1002۔امعان النظر فی توضیح نخبۃ الفکر ازشیخ محمد اکرم بن عبد الرحمان سندی ، بسیط شرح ہے ۔
103۔وشرح علیہ ازشیخ عبد النبی بن عبد اللہ شطاری گجراتی
104۔وشرح علیہ ازمفتی عبد اللہ بن صابر علی ٹونکی
105۔وشرح علیہ ازمولوی محمد حسین اسرائیلی ہزاروی ، فارسی میں ہے ۔
106۔المنہج از شیخ نظام الدین ، بن سیف ا لدین علوی کاکوروی ۔
107۔مختصر از نورالاسلام بن شیخ سلام اللہ بن شیخ الاسلام
108۔بلغۃ الغریب فی مصطلح آثار الحبیب از سید مرتضیٰ بن محمد حسینی بلگرامی المعروف زبیدی
109۔العجالۃ النافعۃ ، شیخ عبد العزیز بن ولی اللہ دہلوی ، فارسی میں ہے ۔
اسماء الرجال میں تصنیفات
110۔المغنی ازشیخ محمد بن طاہر بن علی پٹنی گجراتی
111۔الاکمال فی اسماء الرجال از شیخ عبد الحق بن سیف الدین بخاری دہلوی ۔اسماء الرجال اور مشکوٰۃ کے راویوں میں ایک بسیط کتاب ہے ۔
112۔کتاب بسیط فی رجال صحیح مسلم ازشیخ عبد اللہ بن عبد القادر شافعی مدارسی
113۔اکمل الوسائل لرجال الشمائل
114۔کشف الاحوال عن نقد الرجال فی اسماء الضعفاء
115۔بدرالغررۃ فی اسماء القراء العشرۃ از شیخ عبد الوھاب بن محمد غوث شافعی مدراسی
اسانید میں تصنیفات
116۔رسالہ ازشیخ عبد الحق بن سیف الدین دہلوی
117۔الارشاد فی مہمات الاسناد ازشیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم دہلوی
118۔مدارج الاسناد ازقاضی مرتضیٰ خاں گوپاموی
119۔رسالۃ بسیطۃ ازشیخ ولی اللہ بن عبد الرحیم دہلوی
120۔ النور والبہاء فی اسانید الحدیث وسلاسل الاولیآء ازسید احمد نوری مار ھروی30
حدیث اور حدیث سے متعلقہ علوم کی کتب کا حضرت شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اللہ دھلوی علیہ الرحمۃ تک ایک مختصر سا تذکر ہ اور فہرست ہے ۔حضرت شاہ عبد العزیز علیہ الرحمۃ کے بعد بہت سارے فضلاء اور علماء کی عربی اور اردو کتب حدیث کا تذکرہ عمدًامصلحتا قلم انداز کردیا گیا ہے ۔کیونکہ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ تک ہر ایک متفق ہے آپ کے بعد ہر ایک مسلکی تعصب کا شکار ہوگیا ہے ،حضرت شاہ صاحب کو ہر ایک تعظیم وتکریم کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، تا حال فضلاء اور علماء آپ ہی کے خوشہ چین ہیں اور ان کا سلسلہ سند حدیث آپ ہی پر اختتام ہوتا ہے ۔ گویا آپ بر صغیر پاک و ہند کے استاد کل ہیں ۔
خلاصہء ابحاث
اللہ جل جلا لہ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ خصائص اور امتیازات عطاء فرمائے جو اقوام عالم میں سے کسی کا حصہ نہ بنے ،ان امتیازات اور خصائص میں سے جانثاران نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ ان قدسی صفات ذوات نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا، بانکپن ، بات چیت ، قول واقرا ر ،نازونیاز ، انداز ہائے دلربا ، غرض کہ قبل از ولادت سے لیکر پوری حیات وصال کا ایک ایک لمحہ کی تصویر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت احتیاط کے ساتھ ہم تک پہنچائی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس کا کوئی پہلو تشنہ اور وضاحت طلب رہاہو ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ،فعل اور تقریر ، صحابی کےقول ، فعل ، تقریر اور تابعی کے قول ، فعل و تقریر کا نام جمبہور محدثین کے نزدیک حدیث ہے ، تقریر سے مراد یہ ہے کہ ان پاک ذوات کے سامنے کوئی کام ہوا ہو یا کسی نے بات کی تو ان قدسی صفات ذوات نے اس بات یا کام کو بر قرار رکھا اور ثابت رکھا یعنی اس سے منع نہ فرمایا انکار نہ کیا تو یہ تقریر ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ، فعل ، اور تقریر حدیث مرفوع ، صحابی کا قول ، فعل اور تقریر حدیث موقوف اور تابعی کا قول وفعل اور تقریر حدیث مقطوع کہلاتا ہے ،حدیث کے لئے خبر ،اثر کے الفاظ بھی وارد ہوتے ہیں ، حدیث کو قبولیت اور عدم قبولیت کے لحاظ سے بھی حدیث کو تقسیم کیا گیا ہے:
حدیث اورحدیث مردود ۔ حدیث مقبول کی دو قسمیں ہیں ،حدیث صحیح اور حدیث حسن۔ حدیث صحیح کی پھر دو قسمیں ہیں ، حدیث صحیح لذاتہ اور حدیث صحیح لغیرہ۔ اسی طرح حدیث حسن کی بھی پھر دو قسمیں ہیں ،حدیث حسن لذاتہ اور حدیث حسن لغیرہ۔
حدیث صحیح وہ حدیث ہوتی ہے جسکی سند متصل ہو ، رواۃ ضبط و اتقان اور حفظ میں تام ہوں اور وہ حدیث معلل اور شاذ نہ ہو، حدیث حسن وہ حدیث ہوتی ہے جس میں مذکورہ اوصاف خمسہ میں سے کوئی ایک صفت میں کمی پائی جائے ۔
احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضبط تحریر میں لانے کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہی شروع ہوگیاتھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع شروع میں حدیث کی کتابت سےبوجوہ حکمت کثیرہ منع بھی فرمایاتھا مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور قرائن و آثار سے ثابت ہے کہ کتابت حدیث کی اجازت ہو گئی تھی ، خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کے دور سے لیکر امام بخاری علیہ الرحمۃ تک حدیث کی روایت ، درایت اور حفظ واتقان میں بڑے اہتمام اور انصرام کے ساتھ توجہ مبذول رہی ہے ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی روایت میں بہت زیادہ احتیاط کرتے تھے اور سماع حدیث میں احتیاط کے دامن کو کبھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔
اکثر اوقات تو حدیث کی تلاوت پر شہادت کو طلب کرلیا کرتے تھے،حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت میں اسی احتیاط کی بنا ء پر اسماء الرجال کا ایک عظیم فن معرض وجود میں آیا جسکی مثال ازل سے ابد تک کوئی قوم پیش نہیں کرسکتی ہے اور یہ صرف خاصہ مسلمانوں کو ہی حاصل ہے اس فن اسماء الرجال سے (بائیو گرافی ) کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں راویوں اور شخصیات کے حالات وواقعات اور ان کی سوانح عمری ضبط تحریر میں لاکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ و مامون کردیا گیا ،حدیث شریف کے ارتقائی مراحل میں زمانہ نبوت ، زمانہ خلافت راشدہ سے لیکر باقاعدہ اہتمام حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت میں ارتقاء اپنی بلندی کی منازل طے کرتا ہے ۔حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ اور آپ کے شاگردوں نے احادیث کی کتب صحاح تصنیف کرکے اسوہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو آسان سے آسان بنادیا ، اور اس فن شریف کو بام عروج پر پہنچادیا ، بر صغیر پاک وہند میں حدیث شریف کے حوالے سے عظیم الشان اور جلیل القدر خدمات معرض وجود میں آئیں حضرت علی متقی علیہ الرحمۃ کی '' کنزالعمال '' جیسی حدیث شریف کی عظیم کتاب جو ایک حدیث کے حوالے سے ایک انسائیکلو پیڈیا ہے دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتی ہے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی حدیثی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں اور یہ سلسلہ حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ اور آپ کے لائق فائق فرزند حضرت شاہ عبد العزیز علیہ الرحمۃ پر ختم ہوتا ہے ۔
اللہ جل جلا لہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ رسول معظم ﷺ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے ہیں بلکہ آپ کو جو وحی کی جاتی ہے اسی وحی کا تکلم کرتے ہیں رسول کریم ﷺ کے قول وفعل اور تقریر کا نام حدیث اور سنت ہے امت محمدیہ ﷺ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ جیسے قرآن مجید جوں کا توں اس امتیازی کام یہ بھی کیا ہے کہ اپنے نبی ﷺ کی زباں گوہر فشاں سے نکلا ہوا ایک ایک حرف اور لفظ اور ایک ایک ادا حتیٰ کہ ابروے یار کی نشست و برخاست کو محفوظ کرلیا ہے حدیث کے حفاظتی اقداماتاور قبولیت حدیث کے اصول و ضوابط اس انداز میں مرتب کیے جس سے ہزاروں علوم و فنون کی دوامی نہریں عالم رنگ و بو کی تشنہء طلبی کو سیراب کررہی ہیں قرآن کی تفسیر حدیث مبارکہ ہے ۔ حدیث مبارکہ کے فیض کو عام کر نے کے لیے اصحاب رسول ﷺ اور آپکے شاگردان باوفا اور باصفا تابعین کی جماعت نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ہے ۔ حدیث کی طلب ، تحقیق ، تبلیغ، اشاعت اور تدوین میں وہ زریں مثال قائم کی جس کی مثال ماضی دینے میں قاصر اور مستقبل خاسر رہےگا ۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Abu al-Fatah Shahāb al-Dīn Muhammad bin Ahmad al-abshīhī, Al-Mustarif fi kulli fanni Mustazrif (Karachi: Qadīmī kutub khānah, S.N), 410.
2 Ghulām ‘Alī āzād Huseinī wāsṭī bilgarāmī, Sabḥat al-marjān fi āthār Hindustān Taḥqīq: Muḥammad Sa‘īd Tarīḥī (Beirūt: Dār al-Rāfidīn, 1st Edition, 2015), 45.
3 Ghulām ‘Alī āzād Huseinī wāsṭī bilgarāmī, Sabḥat al-marjān fi āthār Hindustān 47.
4 Al-kutub al-Sittah, Al-Sunan, Al-Nisā’ī, Kitāb al-Jihād (Saudi ‘Arab: Dār al-Salām, 2008 A.D), 2292. Hadith No. 3175.
5 Al-kutub al-Sittah, Al-Sunan, Al-Nisā’ī, Kitāb al-Jihād, Hadith No.3177.
6 ‘Abd al-ḥayy al-ḥasnī, Al-A‘lām biman fi Tārīkh al-Hind min al- A‘lām Known as Nuzhat al-khawātir wa bahjat al-masāmi‘ wa al-nawāzir (Beirūt: Dār ibn e ḥazm, 1420 A.H), 1:95.
7 Salīm Tāriq Khān, ‘ālmi mu‘āshirah awr Tahzībīn (Bahawalpur: Subḥān Academy, 2012 A.D), 286-288.
8 Ghulām ‘Alī āzād, Sabḥat al-marjān fi āthār Hindustān, 73.
9 ‘Abd al-ḥayy bin Fakhr al-dīn al-ḥasnī, Nuzhat al-khawātir wa bahjat al-masāmi‘ wa al-nawāzir, 1:10.
10Dr. Mahmūd Ahmad Ghāzī, Muḥādirāt e Hadīth (Lahore: Al-feishal Nāshirān, 2010 A.D),414.
11 Salīm Tāriq Khān, ‘ālmi mu‘āshirah awr Tahzībīn, 286.
12 Aḥmad bin Yaḥyā Balāzrī, Fatūḥ al-buldān (Iran: Bakhsh Marbūt, S.N), 191.
13 Shāh ‘Abd al-‘azīz Muḥadith Dehlwī, Tuḥfah Ithnā ‘Ashariyyah (India: Munshī Nul Kishor, 1296 A.D), 72.
14 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf, ‘Ulīm al-Hadīth (Lahore: Al-ḥamd Market Urdū bāzār, 2014 A.D), 635.
15 ‘Abd al-ḥayy al-ḥasnī, Ma‘ārif fi anwā‘ al-‘ulūm wa al- Ma‘ārif (Damishq: Matbū‘āt Majma‘ al-lughat al-‘arabiyyah, 1993 A.D), 12.
16 Nawāb Siddīq ḥasan khān Qanūjī, Al-ḥittah fi Zikr al-saḥaḥ al-sittah (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 1985 A.D), 1466.
17 ‘Abd al-ḥayy al-ḥasnī, Ma‘ārif al-‘awārif fi anwā‘ al-‘ulūm wa al- Ma‘ārif, 137.
18 Al-a‘lām bi man fi Tārīkh al-hind min al- a‘lām, 1:41.
19 ‘Abd al-ḥayy bin Fakhr al-dīn al-ḥasnī, Nuzhat al-khawātir wa bahjat al-masāmi‘ wa al-nawāzir, 1:57.
20 ‘Abd al-ḥayy al-ḥasnī, Ma‘ārif al-‘awārif fi anwā‘ al-‘ulūm wa al- Ma‘ārif, 135.
21 ‘Abd al-ḥayy bin Fakhr al-dīn al-ḥasnī, Nuzhat al-khawātir wa bahjat al-masāmi‘ wa al-nawāzir, 1:37.
22 ‘Abd al-ḥayy bin Fakhr al-dīn al-ḥasnī, Nuzhat al-khawātir wa bahjat al-masāmi‘ wa al-nawāzir, 1:45.
23 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf, ‘Ulīm al-Hadīth, 633.
24 Salīm Tāriq Khān, ‘ālmi mu‘āshirah awr Tahzībīn, 287,288.
25 Al-a‘lām bi man fi Tārīkh al-hind min al- a‘lām, 1:50.
26 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf, ‘Ulīm al-Hadīth, 633.
27 Salīm Tāriq Khān, ‘ālmi mu‘āshirah awr Tahzībīn, 288.
28 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf, ‘Ulīm al-Hadīth, 633,634.
29 ‘Abd al-ḥayy al-ḥasnī, Ma‘ārif al-‘awārif fi anwā‘ al-‘ulūm wa al- Ma‘ārif, 136-139.
30 ‘Abd al-ḥayy al-ḥasnī, Ma‘ārif al-‘awārif fi anwā‘ al-‘ulūm wa al- Ma‘ārif, 142-461.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |