1
1
2020
1682060063651_3184
56-68
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/13/15
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/13
أ
ﻷمِیر:جلد 01؍ شمارہ 01 ..(جنوری–جون 0 220ء) )62(
نشرا لطیب فی ذکرالنبی الحبیب ﷺ کاتعارف و منہج؛ ایک تجزیاتی مطالعہ
An Analytical Study of the " Nashr al-Tīb fi Zikr-un-Nabi Al-Habib"
Muhammad Fakhar ud Din
Sira of the Holy Prophet ﷺ is the only subject that can quench the thirst of every subject in the universe and guarantee the solution of every problem. Love and Obedience to the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) is a must. Mawlana Ashraf Ali Thanwi ranks high in the list of biographers through his famous book "Nashr al-Tīb" in remembrance of the Beloved Prophet (May God bless him and his family and grant them peace) which is comprehensive enough to do its function. The book is one of his excellent works in its own way. It is a valuable book in Urdu language which has been presented in an unparalleled manner. It shows the love of the Holy Prophet ﷺ as well as his teachings; mysteries and secrets which is Narrated in the style of Mathnavi Maulana Rum.
In the said article, the introduction and method of " Nashr al-Tīb fi Zikr-un-Nabi Al-Habib" will be presented. In order to know the services and style of writing and purpose of Mawlana in Sira Nigari and the only purpose of Sira Nigari is to achieve love of of the Holy Prophet and obedience to Him ﷺ.
Key Words: Sira of the Holy Prophet ﷺ, "Nashr al-Tīb", Ashraf Ali Tahanawi,
Love of the Holy Prophet ﷺ, Obedience of the Holy Prophet ﷺ.
تعارف ِشیخ اشرف علی تھانوی:
شیخ اشرف علی تھانوی ، تھانہ بھون میں پیدا ہوئے اسی لئے مکانی نسبت تھانوی سے مشہور و معروف ہیں ۔ شیخ اشرف علی تھانوی کی پیدائش بھی عجیب و غریب انداز میں ہوئی ہے ۔شیخ تھانوی کی ولادت اس وقت ایک عظیم مجذوب افضل المجازیت حافظ غلام مر تضیٰ کی دعا کی برکت سے ہوئی جس قصہ اور تفصیل بڑی وضاحت کے ساتھ اشرف السوانح میں موجود و مذکور ہے شیخ اشرف علی تھانوی اور اپنی والدہ کی طرف سے علوی اور اپنے والد کی طرف فاروقی تھے شیخ اشرف علی تھانوی نے قرآن مجید ، فارسی ، اور ابتدائی عربی کی تعلیم اپنے ہی علاقے تھانہ بھون اور میرٹھ وغیرہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے مشہور مدرسہ دیوبند میں آپ نے صرف و نحو ، علم معانی و بدیع وبلاغت ، منطق و فلسفہ ، فقہ و اصول فقہ ،حدیث و اصول حدیث،اور تفسیر و اصول تفسیر کی تعلیم و تربیت مدرسہ دیوبند کے جید اساتذہ سے حاصل کی ۔شیخ اشرف علی تھانوی کو ذوالفقار علی دیوبندی کے فرزند ارجمند محمود الحسن دیوبندی جو مدرسہ دیوبند کے پہلے مدرس تھے ، سے بہت زیادہ استفادہ کا موقع ملا ہے ۔شیخ اشرف علی تھانوی کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حصول علم کے لئے آپ کو دور دراز علاقوں کا سفر کرنے کی زحمت کو گوارا نہیں کرنا پڑی ہے آپ کی تعلیم و تربیت کا من جملہ سامان مدرسہ دیوبند میں دستیاب ہوگیاتھا مدرسہ دیوبند میں آپ شیخ رفیع الدین دیوبندی سے فارغ اوقات میں بہت زیادہ استفادہ کرتے تھے ۔ 1
آپ جب مدرسہ دیوبند سے فارغ ہوئے تو درس و تدریس میں مشغول ہوگئے آپ تازہ تازہ فارغ التحصیل ہوئے تھے تو پھر آپ اپنے اساتذہ کے مشورہ سے کانپور میں درس و تدریس کے لئے چلے گئے ۔کانپور میں آپ کی درس و تدریس ایک مدت مدید تک رہی ہے کانپور میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ فتویٰ نویسی کی ذمہ داری کو بھی نبھاتے تھے ۔2
شیخ اشرف علی تھانوی کے ددھیالی اور ننھیالی خاندان صاحب نسبت تھے اور ان کے بزرگوں کے مزارات پر عرس و غیرہ بھی ہوا کرتے تھے ایسی نسبت کو شیخ اشرف علی تھانوی نے بھی حاصل کی تھی ۔ پہلے پہل آپ کا ارادہ تھا کہ شیخ رشید احمد گنگوہی کے دست پر بیعت ہوجائیں انہوں نے آپ کا زمانہ ء طالب علمی میں امتحان بھی لیا تھا مگر چند وجوہات کی بنا پر یہ بیعت نہ ہوسکی پھر آپ نے خط و کتابت کے ذریعے شیخ العرب و العجم حاجی امداد اللہ مہاجرمکی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے قبلہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سلسلہء چشتیہ صابریہ کے ایک عظیم اور صاحب کرامت بزرگ ہیں جنہوں نے سیدنا مہر علی شاہ علیہ الرحمۃ کو اپنے کشف کی بنا پر کہا تھا کہ ہندوستان جاؤ اور ایک فتنہ کی سرکوبی آپ ہی کروگے ۔سیدنا مہر علی شاہ علیہ الرحمۃ کو قبلہ حاجی صاحب علیہ الرحمۃ نے اپنی خلافت سے بھی نوازا تھا ۔شیخ اشرف علی تھانوی مکہ شریف میں ایک عرصہ تک آپ کی صحبت سے بھی فائدہ اٹھایا اشرف السوانح کے مؤلفین کے مطابق قبلہ حاجی صاحب علیہ الرحمۃ شیخ اشرف علی تھانوی پر بہت زیادہ شفیق اور مہربان تھے ۔ 3
شیخ اشرف علی تھانوی کے معاصرین کی لسٹ بہت ہی طویل ہے کیونکہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مختلف فکریات نے جنم لے لیا تھا اور جس کے نتیجے میں ہر قسم کے لوگ علماء ، فضلاء ، مشائخ ، ادیب اور شعراء کا دور دورہ ہوگیاتھا اس لئے آپ کے متعلقین اور عقیدت مندوں کی لسٹ بہت طویل ہے ۔ معاصرین شیخ تھانوی میں شیخ تھانوی کو سب سے زیادہ احمد رضا خان بریلوی کی طرف سے مزاحمت ہوئی ۔ شیخ تھانوی اور شیخ احمد رضاخان بریلوی کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے جو اب تک بھی زہریلے جراثیم کے ساتھ ہندوپاک میں پائے جاتے ہیں جو اتحاد و یگانگت کے منافی ثابت ہورہے ہیں ۔ اور شیرازہ بندی کے منتشر ہونے کا سبب بن رہے ہیں شیخ تھانوی اور شیخ احمد رضاخان بریلوی کے درمیان اختلافات کے اس خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی رواداری اور امن و امان کی فضا کو پروان چڑھایا جاسکے ۔شیخ تھانوی اور شیخ احمد رضاخان بریلوی جانبین کی طرف سے ایک دوسرے کی تردید اور رد میں ہمہ وقت قلم متحرک رہا تھا ۔شیخ اشرف علی تھانوی کانپور کے مدرسہ سے فراغت پانے کے بعد مستقل طور پر تھانہ بھون میں مقیم ہوگئے اور پیری مریدی کے ذریعے دولت کو عام کرنے لگے تھانہ بھون ایک خانقاہ اور خانقاہی نظام کی شکل اختیار کر گیا ۔شیخ اشرف علی تھانوی نے تصنیف و تالیف میں بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کی تصنیف و تالیف میں سینکڑوں کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جس میں یک دو ورقی کتابوں سے لیکر ضخیم کتابوں کی بھی فہرست شامل ہے ۔ آپ کی کتابیں درس نظامی سے متعلقہ علوم کے ساتھ ساتھ فقہ حدیث ، اور تفسیر میں بھی عام ہیں من جملہ کتابوں کا جائزہ لیاجائے تو بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے تعلیم وتربیت اور ارشاد میں جو کتب تصنیف فرمائی ہیں و بہت وقیع ہیں شیخ تھانوی کی کتاب '' بہشتی زیور '' کو آپ کے حلقہ میں بہت ہی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے اگر چہ ا س کتاب میں بعض مسائل کلام فیہ ہیں ۔شیخ تھانوی کا قرآن مجید کا ترجمہ اور اس کی تفسیر بیان القرآن کئی جلدوں میں عام دستیاب ہے آپ کی نگرانی میں ایک رسالہ '' الامداد '' کے نام سے تھانہ بھون سے شائع ہوتا تھا جس میں آپ تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام فرماتے تھے ۔
نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیبﷺ:
''نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ''صلی اللہ علی وآلہ وسلم '' درمیانہ سائز کے تین سو اکتیس(331) صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ۔ہمارے پیش نظر نسخہ کو تاج کمپنی لمٹیڈ ، کراچی نے شائع کیا ہے جس پر سن اشاعت ندارد ۔کتاب ھٰذا کی کتابت جلی حروف میں کی گئی ہے جس وجہ سے کتاب کھلی کھلی لگتی ہے ۔ غالب گمان کے مطابق ہندوستانی نسخہ کو جوں کا توں اشاعت اور قاری حضرات کے ذوق مطالعہ کے لئے پیش کردیا ہے ۔اس کتاب کو دیگر اشاعتی اداروں نے بھی بڑی آب وتاب سے شائع کیا ہے ۔دارالاشاعت کراچی نے اس کو اعلیٰ سفید کاغذ پر اچھے انداز میں شائع کیا ہے مگر کتابت ناقص ہونے کی وجہ سے الفاظ ایک دوسرے میں خلط ملط ہوتے نظر آتے ہیں ۔ اس کتاب کو اکبر بک ڈپو ، لاہور نے بھی شائع کیا ہے ۔ہمارے پیش نظر نسخہ میں کتابت جلی ہونے کے باوجود کاغذ اخباری زرد ناقص ہے ۔اجمالی اور تفصیلی فہرست سے یہ نسخہ عاری ہے ۔یہ کتاب اپنے انداز بیان میں بہت مشکل ہے ۔ انداز تحریر اور لفظی ثقالت قاری کے ذہن پر بوجھ لادنے میں کافی ثابت ہوتی ہے اس لئے اس کتاب کی تسہیل کی ضرورت تھی ۔ جو اب یہ ضرورت پوری کردی گئی ہے اور کتاب عام قاری کےلئے بھی مفید ثابت ہوگئی ہے ۔
وجہ تسمیہ:
نشر کا معنی ہے پھیلانا ، بکھیر نا، طیب بمعنی خوشبو ،نبی غیب کی خبر دینے والا پیغمبر ، اور حبیب کا معنی ہے اللہ تعالی کا دوست ۔
اللہ جل جلا لہ ، کے دوست نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ کے تذکرہ ءجمیل کی خوشبو سے عالم رنگ و بو میں مانگ بھرنا اس کتاب کے نام کا معنی و مفہوم ہوا ۔شیخ تھانوی کی اس تصنیف لطیف کا مقصد اور وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ذکر خیر اور تذکرہ جمیل سے امن و سکون کو پایا جائے اور بلاؤں اور مصیبتوں کو دور کیا جائے آپ ﷺ باعث امن عالم اور بلاؤں اور وباؤں سے شفا بخش ہیں ۔
وجہ تالیف:
آپﷺ سے محبت کےتقاضا کو آپﷺ کے ذکر خیر سے پورا کرنے کی سعی ، دوست و احباب کے خطوط کی آمد ،گھروں میں خیر و برکت کاحصول ظاہری اور باطنی فتنوں سے نجات اور پریشان خاطر لوگوں کی قلبی تالیف کیلئے یہ کتاب معرض وجود میں آئی ۔
شیخ اشرف علی تھانوی تالیف کی وجہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
''اس وجہ سے اور زیادہ آمادگی ہوئی کہ آج کل فتن ظاہری جیسےطاعون اور زلزلہ و گرانی وتشویشات مختلفہ کے حوادث سے عام لوگ اور فتن باطنی جیسے شیوع بدعات و الحاد وکثرت فسق وفجور سے خاص لوگ پریشان خاطر اور مشوش رہتے ہیں ایسے آفات کے اوقات میں علماء امت ہمیشہ جناب رسو ل اللہ ﷺ کی تلاوت و تالیف روایات اور نظم مدائح و معجزات اور تکثیر سلام و صلوٰۃ سے توسل کرتے رہے ہیں چنانچہ بخاری شریف کے ختم کا معمول اور حصن حصین کی تالیف اور قصیدہ کی تصنیف کی وجہ مشہور و معروف ہے میرے قلب پر بھی یہ بات وارد ہوئی کہ اس رسالہ میں حضور ﷺ کے حالات و روایات بھی ہونگے جابجا اس میں درود شریف بھی لکھا جا ئے گا ۔ پڑھنے سننے والے بھی اس کی کثرت کریں گے کیا عجب اللہ تعالیٰ ان تشویشات سے نجات دیں چنانچہ اسی وجہ سے احقر آج کل درود شریف کی کثرت کو اور وظائف سے ترجیح دیتا ہوں اور اس کو اطمینان کے ساتھ مقاصد دارین کے لئے زیادہ نافع سمجھتا ہوں ''4
1329ھ تک تھانوی صاحب کا قصبہ طاعون کی وبا سے محفوظ رہا ۔اورکتاب جہاں شائع ہوگی وہاں امن و سکون کی ضمانت شیخ تھانوی کا یقین ہے ۔
منہج کتاب:
شیخ اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ مندرجہ ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔
1۔مقدمہ ۔2۔فصول ۔3۔خاتمہ ۔
1۔ مقدمہ
''نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ''ﷺ کے مقدمہ میں شیخ اشرف علی تھانوی نے اس کتاب کے طرز اور ماخذ وغیرہ کو بیان کیا ہے۔کتاب ھٰذا کا مقدمہ مندرجہ ذیل تین مضامین پر مشتمل ہے ۔1۔ مضمو ن اول ۔ 2 ۔مضمون دوم ۔ 3۔مضمون سوم۔
مضمون اول
مقدمہ کتاب کے مضمون اول میں شیخ تھانوی نے اپنی کتاب کے مصادر و مراجع کو بیان کیا ہے ۔ہمارے حساب اور شمار کے مطابق شیخ تھانوی کے بیان کردہ مصادر و مراجع کی تعداد پندرہ (15) بنتی ہے ۔مفتی الٰہی بخش کاندھلوی کے رسالہ کو شمار میں لایا جائے تو پھر یہ تعداد سولہ (16) پہنچتی ہے ۔
مضمون دوم
شیخ تھانوی نے مضمون دوم میں احباب کے فرمائشی خطوط کا ذکر کیا ہے جن میں ان کو کہاگیا ہے کہ کتاب میں مواعظ اور نصائح اور مناسب لطائف ونکات کا بھی معرض تحریر میں لایا جائے ۔تو ان فرمائشی حالات کی روشنی میں تین ابواب کی تجویز ہوئی تھی جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
1۔باب اول حالات وسیر نبویہ۔
2۔باب دوم مواعظ و نصائح مناسبہ میں ، باب کا نام باب الانوار۔
3۔باب سوم میں نام باب الاخبار لطائف علمیہ میں باب کا نام باب الاسرار ۔
پھر دیگر وجوہات اور انتفاع اورعدم انتفاع اور حجم کے خیال کے پیش نظر بعض امور کو مناسب مقامات اور حواشی میں جگہ دینا ہی قرار پایا ۔فتح محمد خان کا شوق تھا کہ اس کی تکمیل کرکے طبع کے لئے ان کے حوا لے کیا جائے جس کا وعدہ تو کرلیا گیا مگر ان کی اجازت سے مدرسہ دیوبند میں اس کو طبع کرایا گیا اور بنام خدا 1328 ھ میں اس کا قصد کیا گیا ۔
مضمون سوم
مقدمہ کے مضمون سوم میں بیان کیا گیا ہے کہ مقام ذوق و شوق میں اشعار کو موقع و محل کے مطابق لایا گیا ہے اگر عورتوں میں اس کتاب کو پڑھنے یا سنانے کا اتفاق ہو تو وہ اشعار چھوڑ دئیے جائیں شیخ تھانوی کی یہ بات محل نظر ہے کیونکہ من جملہ اشعار محبت رسول ﷺ کے ازدیاد اور اضافہ کا سبب ہیں ۔ فصاحت و بلاغت اور اخلاق حسنہ کا مرقع ہیں جن میں اخلاق اور ادب سے گری ہوئی بات کا شائبہ تک نہ ہے ۔ کیونکہ ان کے مؤلفین اپنے وقت کے بر گزیدہ اہل اللہ تھے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تھے جن سے غیر اخلاقی کام کا تصور بھی نا ممکن ہے ۔اللہ تعالی کے اخلا ق سے متصف لوگوں کے اشعار کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
2۔ فصول
شیخ اشرف علی تھانوی کی یہ کتاب اکتالیس (41) فصول میں منقسم ہے ۔ان فصول میں سے بعض فصلیں ایسی ہیں کہ ان کو ایک الگ مختصر کتابچہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ بارہویں فصل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے معراج شریف کے بارے میں ہے یہ فصل اپنے متنوع موضوعات اور عنوانات کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اگر اس کو علیحدہ کتابی صورت میں بھی شائع کیا جائے تو وہ مختصر کتابچہ کی صلاحیت رکھتی ہے ۔شیخ تھانوی نے خود اس فصل کے عظیم الشان ہونے کی وجہ سے اس کا نام خود تجویز فرمایا تھا جو مندرجہ ذیل ہے ''تنویر السراج فی لیلۃ المعراج''5
کتاب ھٰذا کی تما م فصول موقع ومحل کے مطابق ضخامت اور حجم میں جدا گانہ ہیں فصول کے اختتام پر جو اہتمام ہے اس بارے میں شیخ تھانوی خود لکھتے ہیں ''اکثر ختم فصول پر قصیدہ بردہ شریف کے اشعار ہیں اور انکے ساتھ ایک شعر درود کا بھی جو قصیدہ بردہ شریف کا نہیں ہے تبرکا بڑھا دیا گیا ہے اور بعض جگہ الروض النظیف کے اشعار ہیں اور اسی طرح ان کے ساتھ بھی ایک شعر درود کا جو اس کا نہیں ہے ''6
مشمولات کتاب:
شیخ اشرف علی تھانوی کی یہ کتاب مندرجہ ذیل اکتالیس فصول مع عنوانات پر مشتمل ہے ۔
مشمولات کتاب اپنی ترتیب وتہذیب کے لحاظ سے عمدہ ہے اور حسن ترتیب میں بہتر ہے ۔
نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ:
فصل نمبر۔ عنوانات و موضوعات۔
1۔ نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ۔
2۔سابقین میں آپ ﷺ کے فضائل ظاہر ہونے میں ۔
3۔آپ ﷺ کا شرف و نزاہت نسب میں ۔
4۔آپ ﷺ کے نور مبارک کے بعض آثار کے ہونے میں آپ ﷺ کے والد ماجد و جد امجد میں ۔
5۔آپﷺ کے بعض برکات بطن مادر میں ۔
6۔بعض واقعات وقت ولادت شریفہ میں ۔
7۔بعض واقعات زمانہ طفولیت میں ۔
8۔یوم ماہ و سنہ وقت مکان ولادت شریفہ میں ۔
9۔ان کے ناموں میں جن کے متعلق آپ ﷺ کی تربیت اور رضاع یکے بعد دیگرے ہوتا رہا ۔
10۔شباب سے نبوت تک کے بعض حالات ہیں ۔
11۔نزول وحی اور کفار کی مخالفت میں ۔
12۔واقعہ معراج شریف میں فوائد متعلقہ واقعہ معراج تفسیر آیۃ الاسراء ۔
13۔ہجرت حبشہ میں ۔
14۔زمانہ اقامت مکہ بعد النبوت کے بعض متفرق اہم واقعات میں مختصرا ۔
15۔ہجرت مدینہ طیبہ میں ۔
16۔قدوم مدینہ طیبہ کے بعض اہم متفرق واقعات میں۔
17۔آپﷺ کے غزوات کا بیان ۔
18۔آپﷺ کے وفود کا بیان ۔
19۔حکام اور اہل کاروں کے متعین فرمانے میں ۔
20۔فرمانوں کی روانگی میں ملوک و سلاطین کی طرف ۔
21۔ آپ ﷺ کے بعض شمائل و اخلاق و عادات میں ۔
22۔آپ ﷺ کے بعض معجزات میں ۔
23۔ آپ ﷺ کے بعض اسماء شریفہ میں مع ان کی مختصر تفسیر کے ۔
24۔آپ ﷺ کے بعض خصائص میں ۔
25۔آپﷺماکولات، مشروبات ، مرکوبات وغیرہ میں ۔
26۔آپﷺ کے اہل و عیال و حشم و خدم میں ۔
27۔وفات شریف سے آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی امت پرنعمت رحمت الٰہیہ کے تام اور کامل ہونے میں ۔
28۔آپﷺ کے عالم بر زخ میں تشریف رکھنے کے متعلق بعض احوال وفضائل میں۔
29۔آپ ﷺ کہ ان بعض فضائل مختصہ میں جو میدان قیامت میں ظاہر ہونگے ۔
30۔آپﷺ کے وہ فضائل مختصہ جو جنت میں ظاہر ہونگے ۔
31۔آپ ﷺ کے افضل المخلوقات ہونے میں ۔
32۔ان بعض آیات کی مختصر تحقیق میں جن کے ظاہر الفاظ سے حضور ﷺ کے فضائل کے معارضہ کا نعوذ با اللہ وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے اور اسی نمونہ سے بقیہ نصوص کی تحقیق بھی سمجھ میں آسکتی ہے ۔
33۔آپﷺ کے بعض لوازم عبدیت کے بیان میں ۔
34۔آپﷺ کی شفقت میں امت کے ساتھ ۔
35۔آپﷺ کے حقوق میں جو امت کے ذمہ ہیں جن میں ام الحقوق محبت ومتابعت فی الاصول و الفروع ہے۔
36۔آپ ﷺ کی توقیر و احترام وادب کے وجوب میں ۔
37۔آپﷺ پر درود شریف بھیجنے کی فضیلت میں ۔
38۔آپﷺ کے ساتھ توسل حاصل کرنے میں دعا کے وقت ۔
39۔آپ ﷺ کے اخبار وآثار کی کثرت ذکر و تکرار میں ۔
40۔ زیارت فی المنام کے بیان میں ۔
41۔حضرات صحابہ واہل بیت و علماء کی محبت و عظمت میں ۔
''نشر الطیب '' کی فہرست اور عنوانات وموضوعات اپنی وضاحت میں اتنے واضح ہیں جن پر تبصرہ کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ بتایا جائے کہ ان فصول میں سیرت کے کن پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے ۔
مصادر و مراجع :
شیخ اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب '' نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ''صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصنیف وتالیف میں مندرجہ ذیل مستند کتب کو پیش نظر رکھا ہے۔
1۔مشکوٰۃ المصابیح ۔2۔صحاح ستہ ۔3۔شمائل ترمذی ۔4۔مواہب لدنیہ ۔5۔ زاد المعاد از ابن القیم ۔6۔ سیرۃ ابن ہشام۔7۔الشمامۃ العنبریہ فی مولد خیر البریہ ۔از تصنیف صدیق حسن خاں قنوجی ۔8۔تاریخ حبیب الٰہ ۔9۔قصیدہ سردہ شریف ۔10۔الروض النظیف ۔11۔شیم الحبیب ۔
1۔مشکوٰۃالمصابیح
یہ حدیث شریف کی ایک عظیم الشان کتاب ہے جس میں ہر باب سے متعلق تین فصول ہوتی ہیں۔حسن ترتیب میں اور اخذ حدیث میں یہ ایک عظیم الشان کتاب خطیب تبریزی کی کتاب ہے اس کتاب کی شروحات میں مرقات از ملا علی قاری ، لمعات اور اشعۃ اللمعات معروف زمانہ کتب ہیں ۔ شیخ تھانوی نے اکثر احادیث اپنی کتاب میں اس حدیث شریف کی کتاب سے نقل کی ہیں ۔
2۔صحاح ستہ
صحاح صحیح کی جمع ہے اور ستہ بمعنی چھ کے ہیں ۔یعنی صحیح احادیث کی چھ کتابیں ۔صحیح بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابوداؤد، نسائی ، اور ابن ماجہ ،صحاح ستہ کے نام سے مشہور ومعروف ہیں ۔ ان کتب ستہ کو صحاح کے نام سے جو موسوم کیا جاتا ہے وہ تغلیبا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ان میں اکثر احادیث صحت کے اعلی مقام و مرتبہ میں ہیں ۔ اس کا ہر گز یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان کے علاوہ اور احادیث صحیح نہیں ہیں یا بمعنی غلط ہیں۔
3۔شمائل ترمذی
شمائل ترمذی امام ترمذی کی سیرت مصطفیٰ ﷺ پر ایک عظیم الشان کتاب ہے جس میں آپ علیہ الرحمۃ نے آپ ﷺ کے اخلاق و عادات ،خصائل وشمائل ،اور آپﷺ کے احوال کے متعلق احادیث کو جمع کیا گیا ہے درحقیقت یہ کتاب حدیث کے تناظر میں سیرت کی ایک عظیم کتاب ہے ۔ اس کتا ب کی بہت ساری شروحات بھی ہیں ۔
4۔مواہب لدنیہ
یہ سیرت مصطفیٰ ﷺ پر لکھی جانے والی عظیم الشان کتابوں میں سے ہے ۔ یہ کتاب امام قسطلانی علیہ الرحمۃ کی تصنیف لطیف ہے بقول شبلی نعمانی میں اس کتاب میں غزوات اور سرایا کے علاوہ سب کچھ ہے ۔7شیخ اشرف علی تھانوی نے نشرالطیب میں اس کتاب سے بہت زیادہ نقل کیا ہے بسا اوقات تو پوری کی پوری فصل کو مواہب لدنیہ سے ترجمہ کرکے نقل فرمادئیے ہیں ۔ہمارے ناقص خیال میں نشر الطیب کے اکثر حصہ کی بنیاد مواہب لدنیہ پر ہی رکھی گئی ہے ۔ شیخ تھانوی کا اس کتاب سے کثیر النقل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ کتاب مستند اور معتبر ماخذ اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ۔
5۔زاد المعاد
ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم کی یہ تصنیف لطیف ہے اور سیرت مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے درجہ استناد میں حیثیت رکھتی ہے ۔ زادالمعاد مختلف مطابع سے مختلف جلدوں میں شائع ہوئی ہے شیخ تھانوی نے نشرالطیب کی چھبیسویں فصل جو آپ ﷺ کے اہل وعیال اور حشم و خدم میں ہے ساری کی ساری زادالمعاد سے لکھی گئی ہے ۔بعض لوگوں نے اس کتاب کا اختصار بھی کیا ہے اردو تراجم عام دستیاب ہیں۔
6۔سیرۃ ابن ہشام
محمد بن اسحاق کی سیرت کی کتاب کو زندہ جاوید بنانے والی یہ کتاب ہے ۔ سیرت کے قدیم ماخذوں میں سے ایک کتا ب ہے ۔ جس کو شیخ تھانوی نے اپنی تصنیف لطیف میں پیش نظر رکھا ہے ۔
7۔الشمامۃ العنبریۃ
اس کتاب کا پورا نام ''الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ ''ہے۔جو صدیق حسن خان قنوجی بھوپالی کی تصنیف ہے ۔نواب صاحب کی یہ تصنیف سید شبلبخی معروف بمومن کی کتاب ''نور الابصار''کی تلخیص ہے ۔ نواب صاحب نے من جملہ موضوعات اور معلومات نور الابصار سے اخذ کئیے ہیں ۔
شیخ اشرف علی تھانوی نواب صاحب کی کتاب کو ماخذ میں رکھنے کی مصلحت بیان کرتے ہیں : '' اس رسالہ کو ماخذ میں رکھنے کی یہ مصلحت تھی کہ جن میں ظاہریت غالب ہے نواب صاحب کے انتساب سے ان کے غلو کی بھی اصلاح ہوجاوے ''8
نواب صدیق حسن خان نے میلاد شریف کے حوالے سے جو سیرت کی بنیاد ہے مستند روایات اور آثار کو جمع فرمایا ہے ۔میلاد النبی ﷺ کی اہمیت پر نواب صاحب لکھتے ہیں :
حضرت کے میلاد کا حال سن کر فرحت حاصل نہ ہو اور شکر خدا کا، حصول پر اس نعمت کے نہ کرے، وہ مسلمان نہیں 9
8۔تاریخ حبیب الٰہ
شیخ اشرف علی تھانوی کی کتاب ''نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ''ﷺ کے ماخذو مراجع میں مفتی عنایت احمد کاکوروی کی یہ کتاب '' تاریخ حبیب الٰہ ''بھی شامل ہے ۔مفتی عنایت احمد صاحب جنگ آزادی کے سر فروشوں میں سے شامل تھے جس کی پاداش میں آپ کو جزیرہء انڈیمان کی سزا سنائی گئی جس میں بھی اسلام کے سر فروشوں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا ۔ قید و بند کی صعوبت کئی نادر روز گار تصانیف آپ سے یاد گار ہیں ۔
9۔ قصیدہ بردہ شریف
10 ۔ الروض النظیف
یہ عربی زبان میں سیرت پر مشتمل ایک منظوم شہ پارہ ہے جو سیرت کے من جملہ پہلوؤں کو محیط ہے ۔شیخ تھانوی نشر الطیب میں جہاں کہیں بھی '' من الروض '' کہتے ہیں اس سے مراد '' الروض النظیف '' ہوتا ہے ۔
11۔ شیم الحبیب
فصاحت و بلاغت میں ادبی اعتبار سے عربی زبان کا ایک شاہ پارہ ہے ۔ جس کو مفتی الٰہی بخش کاندھلوی نے لکھا ہے مفتی الٰہی بخش کاندھلوی نے مثنوی شریف کا دفتر ششم مولائے روم سے خواب میں پڑھا اور اس کی تکمیل پر مامور ہوئے ،10 ''شیم الحبیب '' کو شیخ تھانوی نے ترجمہ کے ساتھ نشر الطیب میں من و عن ایک فصل 21 میں درج کردیا ہے ۔11یہ رسالہ بھی اپنی فصاحت و بلاغت اور سیرت کے من جملہ پہلوؤں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے عربی زبان و ادب میں ایک گرانقدر حیثیت کا مالک و مختار ہے ۔خاتم مثنوی کے اس رسالہ کے ترجمہ کو شیخ تھانوی نے '' شم الطیب ''کے نام سے موسوم کیا ہے ۔
اہمیت:
شیخ اشرف علی تھانوی کی سیرت مصطفیٰﷺ پر یہ کتاب اپنی متنوع خصوصیات کے اعتبار سے بہت ہی اہمیت کی حامل کتاب ہے۔دینی اور اخروی سعادتوں اور برکات پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب علم و ادب اور معلومات کا بھی ایک بیش بہا خزینہ ہے ۔جس میں سیرت مصطفیٰ ﷺ کے من جملہ پہلوؤں کو ایک حسن ترتیب کے ساتھ ایک مویتوں کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے جس کی وجہ سیرت مصطفیٰ ﷺ کے موضوع پر مشتمل مالاؤں میں ایک مالا کا اضافہ ہوگیا ہے ۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل عنوانات کے حوالے سے اپنی اہمیت رکھتی ہے ۔
1۔وعظ و نصیحت ۔2۔ زبان و ادب کی چاشنی ۔3۔مستند روایات ۔4۔افادیت ۔5۔تحقیقی انداز ۔6۔اسلوب نگارش ۔7۔عصر حاضر اور افادیت ۔8۔لطائف و اسرار ۔
وعظ و نصیحت:
اللہ جل جلا لہ ، نے اپنے رسولوں علیھم السلام کو اس لئے مبعوث فر مایا ہے کہ وہ انسانیت کو رشدو ھدایت کا سامان فراہم کریں تاکہ انسانیت دین اور دنیا میں کامیاب اور سرخرو ہوجائے انسانیت کی کامیابی کی ضمانت سیرت مصطفیٰ ﷺ کی اتباع میں مضمر ہے۔کتاب ھٰذا میں موقع بموقع اور مناسبت مقام کی بنا پر وعظ و نصیحت اور اخلاقی دروس کا اہتمام احسن انداز میں کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب مجرد احادیث و روایات اور سیرت کے وقائع اور قصص پر مشتمل نہ ہے بلکہ ان سے اخلاقی سبق کے اخذ میں اپنی اہمیت میں اہم ہے ۔
زبان و ادب کی چاشنی:
نشر الطیب زبان و ادب کی چاشنی میں بھی اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کتاب کی ایک خاصیت یہ ہے کہ قاری کے ذوق طبع کو اجاگر کرنے کے لئے تقریبا ہر فصل کے آخر میں قصیدہ بردہ شریف اور الروض النظیف سے پر معنی اشعار لائے گئے ہیں جو ذوق و شوق کو جلا بخشتے ہیں ۔مولائے روم ،حافظ شیرازی ،مولانا جامی ، دیگر شعراء اور خود مؤلف شیخ تھانوی کے اشعار جا ذبیت اور دلکشی کے ساتھ مناسب مقامات پر موجود ہیں جن کی وجہ سے کتاب کے سیاق و سباق اور نفس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے اور قاری کے ذوق طبع میں فرحت آجاتی ہے ۔مؤلف کتاب شیخ تھانوی کے اشعار سے محبت رسول ﷺ کا لطف اٹھائیں ۔
یا شفیع العباد خذ بیدی : انت فی الاضطرار معتمدی
لیس لی ملجا سواک اغث : مسنی الضر سیدی سندی
غثنی الذھر یا ابن عبد اللہ : کن مغیثا فانت لی مددی
یا رسول الالٰہ بابک لی : من غمام العموم ملتحدی12
مستند مرویات:
نشر الطیب مستند ماخذ ومرجع پر مشتمل ہے سیرت مصطفیٰ ﷺ کو قرآن و حدیث اور سیرت کی مسلمہ کتب سے بیان کیا گیا ہے جن پر سیرت نگاروں کا مدار ہے ۔اس کتاب میں کوئی موضوع روایت ہرگز موجود نہ ہے ۔ضعیف روایات کے اتنے زیادہ شواھد اور متابعات مل جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے ضعف کا جبر ہوجاتا ہے ۔تاہم یہ کتاب مستند احادیث اور روایات کا ایک حسین گلدستہ ہے ۔
تحریک اتباع رسول ﷺ:
سرور کون ومکاں ﷺ کی محبت ایمان ہے ایمان کی جان ہے ۔ محبت اس وقت زیادہ جلوہ نمائی کرتی ہے جب اس میں اتباع اور اطاعت کا عنصر غالب آجائے ۔ محب محبوب کی محبت میں اس وقت صادق الوعد اور صادق القول ہوتا ہے جب وہ محبوب کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی کو اپنے لئے اوڑھنا بچھونا بنالے ۔سرور کون ومکاں ﷺ کی اتباع کی صورت میں محبت سے یہ انعام و اکرام نصیب ہوتا ہے کہ محب اور مطیع اللہ جل جلا لہ کا محبوب بن جاتا ہے ۔ یہ کتاب اس لحاظ سے ماضی قریب اور عصر حاضر کی سیرت کی کتابو ں میں امتیازی حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں محبت رسول ﷺ کے لئے اتباع رسول ﷺ کی تحریک وعظ و نصیحت کی صورت میں دی گئی ہے ۔ کتاب میں مقام و مناسبت سے اسی جذبہء اطاعت و اتباع کو بطریق احسن ابھار ا گیا ہے اور قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی ہے ۔تاکہ محب رسول ﷺ اتباع رسول ﷺمیں اسلامی اعمال کی ایک چلتی پھرتی تصویر بن جائے اور دین و دنیا کی تمام خوبیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر انسانیت کےلئے امن و سکون کا ایک سفیر ثابت ہو ۔ شیخ تھانوی لکھتے ہیں : محبت علی سبیل الکمال ، واجب ہےپس متابعت بھی علی سبیل الکمال واجب ہو گی۔13
افادیت:
''نشر الطیب '' اپنی افادیت کے اعتبار سے بھی ایک اہم کتاب ہے جو ایک عام قاری کے لئے نہایت مفید کتاب ہے ۔جس کو روزانہ تلاوت کرکے دنیوی اور دینی سعادتوں سے دامن مراد کو پر کیا جا سکتا ہے ۔تاکہ محبت رسول ﷺ اور اتباع رسول ﷺ کا جذبہ پروان چڑھے کتاب کے مؤلف کا مشورہ اور ھدایت یہ ہے کہ جب مستورات میں اس کتاب کی تلاوت کی جائے توذوق و شوق کے اضافہ کےلئے جو اشعار بڑھائے گئے ہیں ان کو ترک کردیا جائے ہمارے نزدیک وہ اشعار اخلاق حسنہ ہی پر مشتمل ہیں ان کے ترک کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے حالانکہ نعتیہ اشعار جو محبت رسول ﷺ اور اتباع رسول ﷺ پر مشتمل تو صحابیات رضوان اللہ علیھن اجمعین سے بھی ثابت ہیں ۔کتاب ھٰذا میں کوئی شعر ایسا نہ ہے جو اخلاقی اعتبار سے گرا ہوا ہو ۔
سیرت مصطفیٰ ﷺ کو اللہ جل جلا لہ ، نے یہ اعجاز بخشا ہے کہ سیرت کی کتابوں میں سیرت سے متعلق اشعار جو ذوق و شوق اور عشق و محبت کے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں ان کو پڑھنے سے ذہن منفی اثرات کو قبول کرے یہ نا ممکن اور محال ہے ۔
تحقیقی انداز:
کتاب کا انداز تحقیقی ہے ۔معارضہ کے وسوسوں کو بھی کافور کیا گیا ہے ۔احادیث و آثار کی صحت کے حوالے سے بھی اعجاز و اختصار کے ساتھ کلام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے استنادی نکھر کر سامنے آجاتی ہے کتاب ھٰذا رطب و یابس سے بالکل پاک ہے ہر بات کو ناپ تول کے تحقیق کے میزان سے گزار کر لکھی گئی ہے کتاب کا اسلوب محققانہ ہونے کے باوجود قاری پر گراں نہیں گزرتا ہے کیونکہ تحقیق کو زبان و ادب اور اشعار نے تازگی اور طراوت بخش دی ہے ۔شیخ اشرف علی تھانوی کے انداز تحقیق کی ایک جھلک ملاحظ کریں :
'' ان بعض آیات کی مختصر تحقیق میں جن کے ظاہر الفاظ سے حضور ﷺ کے فضائل کے (جن میں سے کچھ رسالہ ھٰذا میں وارد کئیے گئے ہیں ) معارضہ کا نعوذ باللہ وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے اور اسی نمو نہ سے بقیہ نصوص کی تحقیق بھی سمجھ میں آسکتی ہے "14
تحقیقات ، دفع اشکالات اور معارضات کے حل میں انداز تحقیقی اجاگر ہوتا ہے ۔
اسلوب نگارش:
شیخ اشرف علی تھانوی کا اس کتاب میں اسلوب نگارش قدرے مشکل ہے ۔ بسااوقات علمی اور تحقیقی اصطلاحات کے استعمال سے اپنی کتاب کو اختصار کے دائرہ میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے قاری کا مفہوم و مطالب تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی تسہیل کی گئی ہے ۔ جس میں مغلق اور پیچیدہ عبارات کے اغلاق کو مفتوح کیا گیا ہے ۔ اسماء وغیرہ کے اعراب کو واضح کیا گیا ہے ۔مندرجہ ذیل عبارت سادہ ذہن و عام قاری کے لیے قدرِ مشکل کی مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ شیخ تھانوی لکھتے ہیں: طبعی مقتضا ہے کہ آپ کے ساتھ امت کو اعلیٰ درجہ کی محبت ہونی چاہیے۔اگر نص شرعی بھی نہ ہوتی اور جب کہ نصوصِ شرعیہ بھی اس کے ایجاب میں موجود ہیں تو داعی عقل و طبع کے ساتھ داعی شرع بھی مل کر آپ کے وجوب محبت کو موکد کرتا ہے اور در حقیقت اعظم غایت اس رسالہ کی اس عمل کی طرف اہلِ ایمان کو متوجہ کرنا ہےاور یقینی امر ہے کہ ان اسباب و دواعی کے ہوتے ہوئے محبت سے اتباع کا انفکاک ،عادتاً محال ہے ۔جس درجہ کی محبت ہو گی اُسی درجہ کا اتباع ہو گا۔ 15
افادیت عصر حاضر:
نشر الطیب عصر حاضر میں اپنی افادیت کے حوالے سے بھی ایک اہم کتاب ہے ۔ کتاب کی افادیت یوں روشن ہوتی ہے کہ کتاب میں سیرت مصطفی ﷺ کے تمام پہلوؤں کو لیا گیا ہے اور سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی ایک اچھی ترکیب اور ترتیب میسر آگئی ہے جو عصرحاضر کے تقاضا کے عین مطابق ہے عصر حاضر کے قاری کیلئے ایک ایسی کتا ب کی ضرورت ہوتی ہے جو کم خرچ اور بالا نشین ہونے کے ساتھ ساتھ کم وقت میں ساری معلومات فراہم کرنے میں اپنی مثال آپ ہو ۔یہ کتا ب اس ضرورت کو پورا کرنے میں اہمیت کی حامل ہے تمام سیرت کے پہلوؤں پر مشتمل ہونے اور اعجاز و اختصارمیں قاری کے تمام مطالبات اور تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں ادبی چاشنی بھی ہے اور تحقیقی انداز بھی ،اختصار بھی ہے اور مطالب کی ترجمانی بھی ہے زوداثر بھی ہے اور شخصیت آفرین بھی ہے۔
لطائف واسرار:
شیخ اشرف علی تھانوی تصوف سے موانست اور تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی کتاب میں سیرت مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے موقع اور مناسبت سے لطائف اور اسرار سے بھی پردہ اٹھاتے جاتے ہیں جو خواص کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔لطائف و اسرار باطنی علوم کا خاصہ ہیں ۔ حضرت شیخ تھانوی کو اپنے پیر ومرشد کے ساتھ خاص مناسبت تھی جو مثنوی کے غوا ص تھے مثنوی شریف اسرار و رموز کا ایک سمندر ہے اسی تعلق کی بنا پر آپ بھی اپنی کتاب کو لطائف و اسرار اور اسرار ورموز سے مزین کرتے چلے جاتے ہیں۔ جس کی مثال الاسراء کی تفسیر ہے۔16
خلاصہ بحث:
نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ سیرت مصطفیٰ ﷺ پر ایک مشہور ومعروف کتاب ہے شیخ اشرف علی تھانوی کی یہ کتاب بلاؤں ، مصیبتوں ، اور بیماریوں کو رفع دفع کرنے کے سبب تالیف کی گئی ہے جیسے بخاری شریف کے ختم شریف ''بلیآت کے رد میں مجرب اور معروف ہیں ایسے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی سیرت پاک آپ ﷺ کے حسن و جمال کا تذکرہ ، آپﷺ کے عادات ، خصائل اور شمائل کاتذکرہ آپﷺ کے اخلاق کا تذکرہ آپﷺ کے غزوات اور احوال کاتذکرہ جمیل بھی مصیبتوں ،تکلیفوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے ۔ شیخ اشرف علی تھانوی کی یہ کتاب بھی اسی تناظر میں لکھی گئی اور اللہ جل جلا لہ نے آپﷺ کے تذکرہ جمیل اور ذکر خیر کی وجہ سے علاقہ کو طاعون کی مصیبت اور تکلیف سے دور رکھا اور علاقہ کو محفوظ رکھا ۔
شیخ اشرف علی تھانوی نے اس کتاب کو اکتالیس فصول میں تقسیم کیا ہے اور ہر فصل کو ایک نئے عنوان کے ساتھ شروع کرتے ہیں جس سے پوری فصل کا مضمون اور مندرجات قاری کے ذہن میں آجاتا ہے کہ اس فصل میں وہ کیا پڑھنے والا ہے فصل کے اندراجات میں شیخ تھانوی اس عنوان کے متعلق قرآنی آیات سے شروع کرتے ہیں اگر اس عنوان کی مطابقت سے ان کو میسر آجاتی ہیں احادیث نبویہﷺ کا ذکر کیا جاتا ہے اور بسا اوقات علمائے امت کے اقوال سے بھی اپنی کتاب کو مستند بناتے ہیں ۔
قرآنی آیات اور احادیث کے بیان میں تعارض اشکالات کو بھی حل کرنے کےلئے ایک علیحدہ ٹاپک شروع کردیتے ہیں یا ان کا حل کرنے کا وعدہ کرلیتے ہیں کہ فلاں فصل پر اس بارے میں بحث ہوگی ۔شیخ اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب کو مستند کتب کے حوالہ جات سے مزین کیا ہے حوالہ جات میں قدرے تساہل سے کام لیتے ہیں ۔ فصل کے آغا ز میں حاشیہ لکھ کر اس بات کا اظہار کردیتے ہیں کہ اس فصل کی احادیث کو کس کتاب سے لیاگیا ہے ۔
کتاب کا نام بیان کرنے کے بعد حوالہ مکمل درج ہرگز نہ فرماتے ہیں کتاب کا نام ذکر کرنے کے بعد ، کتاب کے صفحہ ، جلد اور فصل کا تذکرہ کئیے بغیر حوالہ ہوتا ہے یعنی حاشیہ میں وہ حوالہ کتاب کی جلد اور صفحہ کی قید و بند سے آزاد ہوتا ہے اور کتاب کے مقام طبع کا تو ہرگز ہرگز ذکر نہ فرماتے ہیں ۔
شیخ اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب کو چند ایک معتبر کتب سے اخذ فرمایا ہے جن کی تفصیل خود بتاتے ہیں یہ کتاب ابن قیم کی کتاب زاد المعاد ، الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریہ از نواب صدیق حسن خان بھوپالی ،تواریخ حبیب الٰہ از عنایت احمد کا کوروی اور الکلام المبین وغیرہ سے ما خوذ ہے ۔نشر الطیب میں زیادہ تر واقعات قبل از ولادت او ر بعد از ولادت کو مواھب اللدنیۃ جو شارح بخاری امام قسطلانی کی ایک عظیم الشان کتاب ہےسے ما خوذ ہیں۔ نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ رطب و یابس اور سطحی روایات سے پاک اور صاف ہے ۔
سفارشات اورنتائج:
شیخ اشرف علی تھانوی کی سیرت مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں کتاب اپنی وقعت اور حیثیت کے لحاظ سے مندرجہ ذیل سفارشات اور نتائج کی متقاضی ہے ۔
1۔اس کاا نداز بیان صعوبت کو لئے ہوئے ہے جو عا م قاری کے لئے لفطی ثقالت کی وجہ سے استفاد ہ میں مشکل کا باعث بنتا ہے ۔کتا ب اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کتاب کی تسہیل کی جائے عربی عبارات کو اعراب دیا جائے ، پیرا بندی کے ساتھ عنوانات کا اضافہ کیا جائے مشکل مقامات کو خارج از کتاب کردیاجائے ،تو وضاحت طلب مقامات کے لئے توضیحی نوٹس کو شامل کیا جائے ، اعلام و اماکن کا درست تلفظ واضح کردیاجائے ۔
2۔ یہ کتاب اپنی اہمیت کے لحاظ سے اس قابل ہے کہ اس کتاب کی دیگر روایات جو احادیث کے علاوہ ہیں ان کی تخریج کا اعلیٰ پیمانے پر اہتمام کیا جائے تاکہ کتاب کی روایتی سند اور حیثیت معلوم کرنے میں کوئی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
3۔ یہ کتاب اپنی جامعیت ، ایجاز و اختصار ،اسلوب بیان اور مؤثریت میں اس قابل ہے کہ اس کتاب کا عربی زبان بالخصوص اور دیگر عالمی زبانوں میں ترجمہ کرایا جائے تاکہ عربی اور انگریزی خواں و فضلاء بھی اس کی افادیت اور اہمیت کا ادراک کرسکیں ۔
4۔ یہ کتاب اس بات کی بھی متقاضی ہے کہ کتاب کے اصولی مندرجات اور اشکالات کو متن سیرت سے الگ کرتے ہوئے اس الگ کتاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ یہ اشکالات عام قاری کےلئے مخل فی الفہم نہ رہیں ۔
5۔یہ کتاب اس بات کی بھی متقاضی ہے کہ شیخ تھانوی کے تفردات کا بنظر عمیق مطالعہ کیاجائے اور عربی عبارات کا ترجمہ کیاجائے اورتسلسل اور روانی میں مخل ہونے والی عربی عبارات کو مناسب مقام پر رکھتے ہوئے اس کی اشاعت اور تحقیق کا بندو بست کیا جائے اور سیرت کے شائقین تک رسائی کو یقینی بنایا جائے
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 ‘Azīz al-Ḥasan Majzūb & ‘Abd al-ḥaq, Ashraf al-Sawāniḥ (Multan: Idārah Talīfāt e Ashrafiyyah, 1427 A.H), 1:14.
2 Muḥammad Akbar Shāh Bukhārī, Pachās Jalīl al-qadr ‘Ulamā’ (Lahore: Al-Mīzān Publishers, 2006 A.D),49.
3Dr. Ghulām Muḥammad, Hayāt e Ashraf (Karachi: Maktabah Thānvī, S.N), 56.
4Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb (Karachi: Tāj Company, S.N), 3.
5 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 45.
6 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 6.
7 Mawlāna Shiblī Nu‘mānī, Sīrat al-Nabī (Islamabad: National Foundation, 1985 A.D), 1:9.
8 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 4.
9 Nawāb Siddīq ḥasan Khān Qanūjī, Al-Shamāmat al-‘Azīziyyah Min Mawlid e Kheir al-Bariyyah (S,M.N, 1305 A.H), 12.
10 Shāh ‘Abd al-‘Azīz Dehlvī, Majmū‘ah Kamālat e ‘Azīzī (Karachi: Dār al-Ishā‘at 1st Edition, 1986 A.D), 20.
11 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 140.
12 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 194.
13 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 278.
14 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 263.
15 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 278.
16 Ashraf ‘Alī Thānvī, Nashr al-Tīb Fī Zikr e Nabī al-ḥabīb, 95.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |