1
1
2020
1682060063651_3185
36-55
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/12/14
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/12
Key words: Gifts Distribution of wealth Islamic system economy Muslim prosperity God's creation purpose
ح کمت عطیات رسولﷺ؛ ایک تحقیقی جائزہ )46(
حکمتِ عطیاتِ رسول ﷺ؛ ایک تحقیقی جائزہ
A Research Review of the Wisdom (purposes) of the Holy Prophet's Gifts
Sania Yaseen
Bareera Hameed
The religion that the Prophet ﷺ brought is a complete religion, and its teachings are for every aspect of life whether it is political life or economic life, individual life or collective life, there are rare instances of his guidance. In the Islamic system, the issue of distribution of wealth has been given great importance. On the contrary, it seems that the whole economy is based on making this sector stable and fair. So that wealth does not accumulate in one place but circulate it through donations and gifts other than Zakat. One of the purposes of the donations of the Holy Prophet was to train the Companions. With the donations of the Holy Prophet, the concentration of wealth was eliminated, the pleasure of Allah was obtained, and the state was strengthened internally and externally Muslims became economically and socially prosperous. The Muslim Ummah needs it in the present age to adopt the highest aspect of the life of the Holy Prophet and should not accumulate wealth but should spend it in various ways on God's creation without any purpose. This paper focuses on the wisdom of gifts/Attiyaat of the Prophet ﷺ. Why the Prophet ﷺfeel the need of giving other than Zakat.
Key words: Gifts, Distribution of wealth, Islamic system, economy, Muslim prosperity, God's creation, purpose
اللہ رب العزت نے ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات کو تخلیق فرمایا ہے یہی اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے ان گنت مخلوقات کو وجود بخشا اور ان کی رزق رسانی کا اہتمام فرمایا ۔ انسان کامعاشی مسئلہ روئےزمین پر اس کے ظہورکے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا۔اسلام زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔خواہ وہ سیاسی ہوں ، معاشی ہوں یا معاشرتی ۔اسلام صرف عبادت پر ہی زور نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔مثال کے طور پر اسلام کے معاشی پہلو پر غور کیا جائے تو پورا معاشی نظام ایک نقطہ کے گرد گھومتا نظر آئے گا،وہ نقطہ نظر گردشِ دولت ہے۔اسلام دولت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دولت چند ہاتھوں میں مرتکز نہ رہے اس کے لئے اسلام نے بہترین نظام بنایا ہے۔دولت کا انسانی معاشرے میں گردش کرنا اس طرح ضروری ہے جس طرح خون کا جسم کے مختلف حصوں میں پہنچنا ضروری ہے۔
عطیہ کی تعریف:
عطا ، بخشش، انعام دی ہوئی چیز۔عطیہ وہ ہدیہ ہے جو دلی محبت کے اظہار الفت کے حصول اور ثواب کی غرض سے دیاجائے۔1
اصطلاحی تعریف:
کسی شرط کے بغیر دوسرے کو جومال دیا جائے وہ ہدیہ یا عطا ہے جس میں ایک شخص پہل کر کے دوسرے کو اس کی طلب کے بغیر ہدیہ دے اور بغیر کسی غرض کے نیت خالص ثواب کی ہو۔
قرآن مجید کی رو سے عطیہ کی اہمیت:
قرآن کریم میں بھی جا بجا راہِ خدا پر خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے :
"وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ"2
"اور جو کچھ تم راہ خدا پر خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پوراپورا دیا جائے گا اور تمہارا ذرا بھی نقصان نہیں کیا جائے گا۔"
آیت مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے دولت کو اپنی راہ پر خرچ کرنے یعنی (عطیہ، زکوٰۃ، صدقات) کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف اس اجر کا بدلہ اپنے ذمہ رکھ لیا ہے اور بے شک خدا بہتر بدلہ دینے والا ہے ۔ قرآن کریم کے علاوہ احادیث میں بھی دوسروں پر مال خرچ کرنے کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے۔ حدیث میں ارشاد ِ پاک ہے:
"تهارُو تَحَابُّو اوَ تَصَافُخُو یُذُهب الغِلَّ عِنکُم"3
"ایک دوسرے کو ہدیہ دو اور محبت بڑھاؤ ۔ ایک دوسرے سے مصافحہ کرو اس سے تمہارا حسد اور کینہ دور ہوتا ہے۔"
احادیث مبارکہ کی روشنی سے پتاچلتاہے کہ تحفےتحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے اور دلوں سے حسد کینہ جاتا رہتاہے ۔ خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
" تهارُو تَحَابُّو"4
"ایک دوسرے کو تحفہ دو اس سے باہمی محبت بڑھے گی۔"
نبی کریم ﷺ خود بھی تحفہ قبول فرماتےتھے اور اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کے لئے کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم شکریہ ادا کر دیا کرو یا تحفے کی تعریف ہی کر دیا کرو اس سے دینے والے پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اس سے یہ سلسلہ جاری رہتاہے ۔
ہبہ کے لغوی معنیٰ:
ہبہ کے لغوی معنی تحفہ دینا ، احسان کرنا کے ہیں۔
ہبہ کے اصطلاحی معنیٰ:
اصطلاح میں کسی شخص کو اپنی کسی چیز کا بلا عوض مالک بنانا ہے ۔
ہبہ کے ارکان :
یعنی وہ کون سی چیز ہے جس کی بناء پر ہبہ پایا جاتا ہے۔علامہ علاؤ الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں کہ ہبہ کے ارکان دو ہیں :
1۔ ایجاب 2۔ قبول
قبول : جس شخص کو تحفہ دیا جا رہا ہے وہ اسے قبول کر لے تو قبول پایا جائے گا یعنی اس کا اس چیز پر قبضہ کرنا ضروری ہے ۔ بغیر قبضے کےہبہ مکمل نہیں ۔
شرائط:
تحفہ دینےکی کچھ شرائط ہوتی ہیں ۔ جن کی بناء پر تحفہ قبول ہوتا ہے وہ شرائط درج ذیل ہیں :
تحفہ دینے والا عقلمند اور بالغ ہو۔
جو چیز تحفہ دے وہ اس کے پاس موجود ہو ۔ غائب چیز کا تحفہ درست نہیں۔
ہبہ کے شرعی ماخذ:
ہبہ کے شرعی ماخذ سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کا خیال کیسے رکھ سکتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا کہ:
يَا نِسَاءَ المُسْلِمَاتِ، لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ5
" اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے تحفے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو۔"
احادیث مبارکہ سے تحفہ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے کہ کسی کے بھی تحفہ کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیئے۔ دوسری جگہ احادیث میں ارشادہے :
"عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَقَدْ كَانَ يَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ مَا يُرَى فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِهِ الدُّخَانُ» ، قُلْتُ: فَمَا كَانَ طَعَامُهُمْ؟ قَالَتْ: " الْأَسْوَدَانِ: التَّمْرُ، وَالْمَاءُ، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ لَنَا جِيرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، جِيرَانُ صِدْقٍ، وَكَانَتْ لَهُمْ رَبَائِبُ، فَكَانُوا يَبْعَثُونَ إِلَيْهِ أَلْبَانَهَا "6
"حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عروہ سے کہا اے میرے بھانجے ایک ایسا بھی وقت تھا کہ ہم ایک چاند دیکھتے پھر دوسرا چاند دیکھتے دو دو مہینے رسول ﷺ کے گھروں میں آگ نہ سلگتی میں نے پوچھا اے خالہ پھر کونسی چیز آپ کو زندہ رکھتی تھی حضرت عائشہ ؓ نے فرمایادو کالی چیزیں یعنی چھوہارے اور پانی مگر یہ کہ نبی کریم ﷺ کے پڑوس میں انصار تھے اور ان کے پاس دودھ دیتے تو آپ ﷺ ہم کو بھی پلاتے"۔
حدیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ دو دو مہینے نبی کریم ﷺ کے گھر چولہا نہ جلتا تھا اور ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے کام آتا تھا لوگوں کی یہ تعلیم دینی تھی انہیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ ترقی کا راز کس چیز میں پوشیدہ ہے؟ حضور پاک ﷺکتنے خوبصورت طریقے سے تحفہ کے باہمی تبادلے سے تربیت کی ۔تحفہ کے باہمی تبادلے سے نہ صرف کینہ اور نفرت دور ہوتی ہے ۔بلکہ پیار اور محبت بھی بڑھتی ہے ۔حضرت ابو ہریرہ ؓ نبی کریم سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا آپس میں تحفہ دیا کرو، لیا کرو کیونکہ تحفہ سینے کی کدورت دور کرتا ہے۔ یاد رکھو کوئی ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسائے کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھے۔7
عطیاتِ رسول ﷺ کی اقسام:
آپﷺ کی سخاوت کسی کے مانگنے پر ہی محدود نہ تھی بلکہ بغیر مانگے ہی لوگوں کو سب کچھ مل جاتا تھا۔ آپ اس قدر سخی تھے کہ کوئی کچھ مانگنے آتا توآپ اسے خالی نہ بھیجتے اگر آپ کے پاس کچھ موجود نہ بھی ہوتا تو آپﷺ قرض لے کر عطا فرماتے یا پھر وعدہ فرماتے غرض یہ کہ آپﷺ ہر طرح سے لوگوں کو عطا فرماتے ۔آپﷺ نے لوگوں کو جو کچھ عطا فرمایا اس کی اقسام درج ذیل ہے:
زکوٰۃ کی تقسیم میں سے مؤلفۃ القلوب کے نام دیئے گئے عطیات۔
نبی پاکﷺ کی عطا غیر مسلموں کو ۔
نبی پاک ﷺ کی عطائے عام۔
زکوٰۃ کا معنی و مفہوم:
زکوٰۃ کے معنی میں بڑھنا ، اضافہ کرنا ، پاک ہونا شامل ہے ۔زکوٰۃ سے مراد وہ مالی عبادت ہے جو ہر صاحب ِ نصاب مسلمان اپنے مال میں سے شریعت کی نظر میں زکوٰۃ لینے کے مستحق ہیں ۔
اسلام نے جہاں دولت کو ایک جگہ جمع کرنے سے منع فرما کر سَخت عذاب کی وعید سنائی ہے وہیں پر معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے بڑے موثر اقدامات تجویز کئے ہیں۔ جن میں سے ایک زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک میں کم از کم بتیس (32) مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ساتھ ساتھ ذکر ہوا ہے ۔
سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"8
"اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو"
نظام زکوٰۃ کا قیام اسلام کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے جیسا کہ سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
"الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ"9
" یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے زکوٰۃ دیں گے لوگوں کو نیکی کا حکم دیں گے برائی سے منع کریں گے اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے ۔"
زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر کا اظہار ہے یہ ایک مالی عبادت ہے جس کا مقصد ناداروں کی کفالت ہے ۔ نظام ِ زکوٰۃ پورے معاشرے کو تنگ دلی ، خود غرضی ، حسد و بغض سے پاک کر کے محبت ، ایثار، خلوص و تعاون کے جذبات پیدا کرتاہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعے مومن کے دل سے تمام مادی محبتیں نکال کر اپنی محبت بٹھانا چاہتاہے اور یہ تربیت دینا چاہتا ہے کہ مومن اللہ کی راہ میں اپنا مال و جان حتیٰ کہ اپنی تمام قوتیں و صلاحیتیں قربان کر کے روحانی سرور محسوس کر کے شکر کے جذبات سےسرشار ہو کر اللہ نے اسے اپنے فضل و کرم سے اپنی راہ میں جان و مال قربان کرنے کی توفیق بخشی۔10
مصارفِ زکوٰۃ:
یعنی وہ لوگ جن کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ان کا تعین بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورہ توبہ میں وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے ۔
"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ"11
"صدقات ( یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کا جن کی تالیف القلوب منظور ہے ۔ اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور خدا کی راہ میں مسافروں کی امداد میں ( یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کیے گے ہیں اورخدا جاننے والا اور حکمت والا ہے۔"
آیت کی روشنی میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں ان آٹھ مصارف کے علاوہ زکوٰۃ کسی اور پر صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ اوپر بیان کیے گئے آٹھ مصارف میں فقراء و مساکین کے علاوہ جن کی تالیف قلبی پر زور دیا گیا ان کو قرآن مجید میں مؤلفۃ القلوب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
مؤلفۃ القلوب کی تعریف:
وہ لوگ جن کی دلجوئی کے لئے انہیں صدقات دیئے جاتے ہیں عام طور پر وہ چار قسم کے لوگ ہیں ۔ مسلمان ، غیر مسلم ، غریب حاجت مند و نو مسلم ان کی دلجوئی اس لئے کی جاتی ہے کہ یہ اسلام پر پختہ ہو جائیں۔12
نو مسلم رئیس ان انعامات کے مستحق:
مؤلفۃ القلوب کے نام پر جن پر انعامات کی بارش کی گئی ان میں سے ایک نو مسلم رؤسا اہلِ مکہ تھے۔ اسلام میں اب بڑی بڑی ہستیاں شامل ہو رہی تھیں۔ انہوں نے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن ان کا عقیدہ پختہ نہیں تھا یعنی اسلام کودل سے قبول نہیں کیا تھا ان کے دماغوں پر جاہلیت کی چھاپ تھی جو اسلام کو دل سے قبول کرنے میں آڑے آرہی تھی ان کے نام درج ذیل ہیں:
اقرع بن حابس (تمیمی)
عینہ بن حصین ( مزاری)
مالک بن عوف (نصری)13
مسلمانوں کو اذیت سے بچانے کے لئے انعامات کی تقسیم:
اس قسم میں ایسے لوگوں کو انعامات سے نوازا گیا جو کہ غیر مسلم تھے اور اسلام لانے والے مسلمانوں کو اذیت دیتے تھے چنانچہ ان کے شر سے اہلِ اسلام کو بچانے کے لئے انہیں مال دیا گیا تاکہ یہ لوگ مسلمانوں کو اذیت دینے سے باز آجائیں اور اسلام قبول کر لیں۔
"نبی کریم ﷺ کے لائحہ عمل سے پتا چلتاہے کہ آپﷺ نے نہایت دانشمندی سے اپنے عمل اپنی عطا، صبر ، محنت ، جود و سخا اور کوشش کے ذریعے تمام مسلمانوں کو یکجا کیا اور اللہ کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا ۔ آپ کی جو د وسخا کایہ عالم تھا کہ آپ سوالیوں کے علاوہ ایسے ہی احسان فرما دیتے تھے "۔14
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے :
"هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ "15
"یہ ہمارا عطیہ ہے چاہو تو احسان کرو چاہو تو رکھ چھوڑو تم سے کچھ حساب نہیں۔"
آیت کے آخری جملے سے اس بات کی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اللہ پاک نبی کریمﷺ سے عطا کے بارے میں کوئی پوچھ نہیں آپﷺجسے چاہیں عطا کریں جسے چاہیں اللہ کی رحمت اور مرضی و منشاء کے حوالے کر دیں۔
مالِ فئے سے الفت کی بناء پر تقسیم:
تیسری قسم میں نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو انعامات سے نوازا جن کے دلوں میں اسلام کے خلاف بغض و عناد کی آگ بھڑک رہی تھی تاکہ ان کے دلوں میں اسلام کے لئے محبت و الفت کا جذبہ پیدا ہو۔16
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
"مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ"17
"اور جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے (بطورِ فئے) وہ خدا کے اور پیغمبر کے قرابت والوں اور یتیموں حاجتمندوں اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولتمند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔تو جو پیغمبر تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے ۔"
آیتِ مبارکہ کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے (مالِ فئے) کی تقسیم کے طریقے بھی بتا دیئے اور ساتھ ساتھ پیغمبر کا ادب اور فرمانبرداری بھی سکھا دی کہ پیغمبر جو دیں اسے بغیر سوال کیے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہنے کےساتھ خدا سے ڈرتے رہو اور خدا سے نہ ڈرنے والوں کےلئے عذاب کی وعید سنائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ہدایت اور سیدھے راستے پر چلانے کے لئے اپنے برگزیدہ پیغمبران کی طرف مبعوث فرمائے جو لوگوں کو (واحد لا شریک ) کی تعلیم دیتے تھے لیکن دنیا اپنی پستی اور تاریکی میں ڈوبے رہنے کے باعث پیغمبروں کو طرح طرح سے اذیت دیتے تھے تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ بالخصوص نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو آپ ﷺ کو پتھر مارتے یہاں تک کہ آپ کے جوتے مبارک خون سے تر ہو جاتے۔ گلی کے اوباش لڑکے آپ کے پیچھے لگاتے دوران نماز آپﷺ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دیتے آپ کو (نعوذ باللہ) دیوانہ کہتے ۔غرض ہر طرح سے آپ کو نقصان پہنچاتے ۔ یہ آپ کے صبر اور جدوجہد کا نتیجہ ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا پیغام حق کر دکھایا اور اسلام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔ وہی لوگ جو کبھی آپ پر ایمان نہ لاتے تھے آج آپ پر کٹ مرنے کو تیار تھے اور ادب کا تو یہ عالم تھا صحابہ کرام کا کہ آپ سےکوئی بات پوچھنی ہوتی تو دعا فرماتے کوئی دیہاتی آئے آپﷺ سے عرض کرے اور ہمیں بھی اس کا جواب مل جائے انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ"18
"اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور بہت صاف ستھرا ہے ۔"
صدقہ ڈھال ہوتا ہے ہوسکتا ہے نبی ﷺ سے عرض کے دوران تم سے کوئی بے ادبی نہ ہو جائے اس لئے اہلِ ایمان کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔
غیر مسلموں کو نبی ﷺ کی عطا:
مؤلفۃ القلوب کے علاوہ آپ ﷺ نے جن پر انعامات کی بارش کی ان میں غیر مسلم بھی شامل تھے آپ کی عطا صرف مسلمان اور اہلِ ایمان تک ہی محدود نہ تھی۔ بلکہ آپ کی عطا ہر خاص و عام امیر غریب مسلم غیر مسلم سب کے لئے تھی ۔ جب بات آپ ﷺ کی عطا غیر مسلموں پر کی جا رہی ہو اور صفوان بن امیہ کے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتا۔
صفوان بن امیہ کو آپﷺ کی عطا:
رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ لوگوں میں کچھ ایسے آدمی بھی ہیں جنہیں ہم ان کے اسلام کے حوالے کر دیتے ہیں یعنی ان کے اسلام کے حوالے کر دیتےہیں یعنی ان کے اسلام پر اعتماد کرتے ہیں اور کچھ کو عطا کرتے ہیں حکمت کے پیش نظر جیسے نبی کریم ﷺ نے صفوان بن امیہ کو (جو کہ مسلمان نہیں تھا) گھا ٹی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جس قدر اونٹ بھیڑ بکریاں موجود تھیں یعنی گھاٹی مویشیوں سے بھری پڑی تھی سب اس کو دے دی۔19
اعرابی کوآپ ﷺ کی عطا:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول ﷺ کے ہمراہ تھا اور آپ ﷺ نے موٹے کنارے والی چادر اوڑھ رکھی تھی ایک اعرابی آیا اور اس نے آپﷺ کی چادر کو زور سے کھینچا جس کے باعث آپ کی گردن مبارک پر نشان پڑ گیا اور کہنے لگا اے محمد:
"میرے ا ن دونوں اونٹوں کو مال سے لاد دو تم کچھ اپنے باپ کے مال سے تونہیں دو گے رسول اللہﷺ خاموش رہے اور یہی کہا کہ مال تو اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں چنانچہ حضور ﷺ کے حکم کے مطابق ایک اونٹ پر کھجور اور دوسرے پر جو لاد دیا گیا۔"20
حضور ﷺ کی عطا ابو سفیان کو :
دشمن کو دوست اور مددگار بنانے کے لئے اور دوستوں کو انعام دے کر عظیم کار گزاریوں پر آماد کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ کی بصیرت نے جس نمایاں اصول سے کام لیا ،سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ سے اس کی نظیر مل جاتی ہے ۔ دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کو بعض مراعات دینے سے اعداء کی قوت غالبہ میں کمی واقع ہو جاتی ہے اس سلسلے میں مثال درج ذیل ہے :
فتح مکہ سے پہلے ایک مرتبہ مکہ میں سخت قحط پڑا حضور ﷺ نے ابو سفیان کے پاس پانچ سو اشرفیوں کی خطیر رقم بھیجی کے مکہ کے محتاجوں اور غریبوں میں تقسیم کر دے ۔ابو سفیان نے بے بسی کے عالم میں جھنجلا کر کہا محمد ﷺ چاہتاہے کہ ا ب مکہ کے غرباء اور جوانوں کو ورغلا کر ہمارے خلاف کھڑا کر دے۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ابھی صلح حدیبیہ نہیں ہوئی تھی اور مسلمانوں کے معاشی دباؤ کے باعث قریش کی تجارت بند ہو کر روزگارختم ہو چکا تھا۔ابو سفیان کا روزگار بھی تجارت سےتھا ،آنحضرت ﷺ نے اسے مدینہ کی اچھی کھجوروں کی ایک بڑی مقدار بھیجی اور معاوضے میں طائف کا چمڑا طلب کیا۔21
حضور ﷺ کی حکمت:
حضور ﷺ کی عطا میں ایک حکمت کا یہ پہلو بھی پوشیدہ تھاکہ اس کے ذریعے صحابہ کرام کی براہ راست تربیت کی جارہی تھی کہ کسی کو کچھ دینا بھی ہے اور احسان بھی نہیں جتانا یہ ایک خوشگوار پہلو ہے جس کے ذریعے سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں اور ایسے لوگوں کو لئے اللہ پاک نے بہت درجے رکھے ہیں خود اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتے ہیں:
"الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"22
"اور جو لوگ اپنا مال خدا کے رستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتےہیں اور نہ کسی کو تکلیف دیتے ہیں ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس تیار ہے اور قیامت کے روز نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے۔"
مذکورہ آیت کی روشنی میں ایسے لوگوں کے لئے ان کے پروردگار کے پاس صلہ (انعام) کا ذکر کیا گیا ہے جو کسی کو برضائے الٰہی عطا کر ے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے اور نہ احسان جتاتے ہیں۔
نبی پاک ﷺ کی عطائے عام:
انبیاء فطرتاً جود و سخا کا بہترین مظہر ہوتے ہیں اس کے بغیر وہ دعوت الی اللہ کا کام نہیں کر سکتے ۔ خاتم ا لنبین ﷺ چونکہ آنے والے تمام ادوارکے لئے اسوہ حسنہ ہیں اس لئے آپﷺ کا ذکر جود و سخا ابن عباس ؓ اپنے ان الفاظ میں کرتے ہیں :
"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، حَتَّى يَنْسَلِخَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ أَجْوَدَ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ "23
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں ملتے، جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کی خدمت میں 80 درہم لائے گئے آپ نے ان سب کو ایک چادر پر پھیلا دیا ۔جب تک ان سب کو تقسیم نہ فرمایا اپنی جگہ سے نہیں اٹھے حضرت سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کے پاس (شکم اطہر) پر بھوک کے باعث پتھر بندھا تھا۔24
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص کسی غرض کے تحت آپﷺ کے پاس حاضر ہوا ۔ آپﷺ نے نصف غلہ وسق کسی سے ادھار لے کر اسے دیا جب قرض خواہ نے اپنے قرض کا آپﷺ سے مطالعہ فرمایا تو آپ نےاسے پورا وسق عطا فرمایا اور فرمایا نصف تمہارا قرض اور نصف ہماری عطا۔
آپ ﷺنے قبیلہ ہوازن والوں کے چھ ہزار قیدی بغیر معاوضے کے واپس کر دیے۔
اور ایک مرتبہ حضرت عباس کو اتنا سونا عطا فرمایا کہ وہ اٹھا بھی نہ سکے۔25
"مصطفیٰ بن زیاد نے حسن سے روایت کیا ہے کہ نبی کی خدمت میں ایک سوالی آیا فرمایا بیٹھواللہ دے گا دوسرا آیا پھر تیسرا حضور ﷺ نے سب کو بٹھا لیا آپ کے پاس دینے کو اس وقت کچھ نہ تھا اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے چار اوقیہ چاندی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کی حضور ﷺ نے ایک ایک اوقیہ تو ان تینوں میں تقسیم کر دیا اور ایک اوقیہ کے لئے پکار بھی دیا مگر کوئی نہ آیا ۔ رات ہوئی تو حضور ﷺنے وہ چاندی اپنے سرہانے رکھ دی۔ام المومنین حضرت عائشہؓ آپ کی بےچینی کا عالم دیکھ رہی تھیں لیٹتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں پھر لیٹتے ہیں چنانچہ آپؓ نے وجہ پوچھی تو آپ نے بتایا مجھے ڈر ہے کہ میری موت آجائے اوریہ چاندی میرے پاس ہی ہو"۔26
غرض حضور ﷺ کی عطا کی نظیر دنیا عالم میں کہیں نہیں ملتی آپﷺسے زیادہ سخی اور عادل دنیا میں اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا لیکن بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے حضور ﷺ کی عادلانا تقسیم پر اعتراض کیا۔
تقسیم غنیمت پر اعتراض:
ہر مال غنیمت میں پانچواں حصہ رسول کریم ﷺ کے لئے مخصوص ہوتا ہے خواہ وہ اس معرکہ میں شریک ہوئے ہوں یا نہیں البتہ بدر کی جنگ میں سے ایسے صحابہ کرام کو مال ِ غنیمت میں سے حصہ دیا گیا جو جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔27
ذوالخویصرہ کا آپﷺ کی تقسیم پر اعتراض:
اہلِ علم کو معلوم ہے کہ غزوہ حنین فتح مکہ کے بعددر پیش آیا جبکہ عرب کا زیادہ تر علاقہ فتح ہو چکا تھا ۔اس غزوہ میں لشکر اسلام کو کثیر مال ہاتھ آیا ۔ سپہ سالار خمس میں سے بعض نو مسلموں کو مؤلفۃ القلوب کی نسبت زیادہ عنایت فرماتے ہیں تو ذوالخویصرہ نامی گستاخ اور منہ پھٹ جس کی نسل سے آگے خوارج کا گروہ پیدا ہوا بول اٹھا:
" اے محمد ! اس تقسیم میں عدل کیجئےیہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا"
اس گستاخی پر اس کی گردن اڑا دینے پر حضور ﷺ کو کوئی چیز مانع نہ تھی مگر صبر و تحمل کے اس پیکر نے صرف اتنا فرمایا کہ
"تجھ پر افسوس ہے اگرمیں بھی انصاف نہیں کروں گا تو دنیا میں کون انصاف کرے گا۔"28
یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں اس طرح فرماتے ہیں:
"وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ"29
"اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں اگر ان کو اس میں سے خاطر خواہ کچھ مل جائے تو خوش رہیں اگر (اس قدر) نہ ملئے تو جھٹ خفا ہو جائیں۔"
آیت کی رو سے اسے لالچی اور خود غرض لوگوں کا پتا چلتا ہے جن کو صدقات میں سے کچھ مل جائے تو ٹھیک ورنہ دو جہاں کے بادشاہ کی عادلانہ تقسیم پر بھی اعتراض کرتے ہیں ۔
معتب بن قشیر کا آپﷺ کی تقسیم پر اعتراض:
"امام مسلم ، امام بخاری اور امام بہیقی نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا جب حضور ﷺ نے حنین کے روز مالِ غنیمت تقسیم فرمایا اورسردار ان ِ عرب کو ترجیح دی تو ایک انصاری شخص نے کہا اس تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیا گیا ۔ آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے عدل نہ کیاتو کون کرے گا"۔30
عطیاتِ رسول ﷺ کی وجوہات و اسباب:
حکمت کے پیش نظر حضور ﷺ نے اسلام کے ابتدائی دور میں جب اسلام پوری طرح نہیں پھیلا تھا ۔ آپﷺ نے لوگوں کو مانوس کرنے کے لئے زکوٰۃ ، صدقات اور مالِ غنیمت میں سے ہدیہ دیئے تاکہ ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کےلئے محبت و الفت پیدا ہو اور وہ سچے مسلمان بن جائیں ان کےذریعے اسلام کو تقویت پہنچے۔
غیر مسلموں کو عطیہ دینے کی حکمت:
پہلے تذکرہ گزر چکا ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کچھ کو تو ان کے اسلام کے حوالے کر دیتے ہیں اور کچھ کو عطا کرتے ہیں جیسے کہ حضور ﷺ کی عطا(صفوان بن امیہ) کو اس قدر کثیر تعداد میں جب وہ واپس اپنے قبیلے پہنچا تو کہا:
"یَا قَومِ اَسلِمُوا فَانِ مُحمَّدًا یُعطِی عَطاءً لَا یَخشَی الفَاقه"
"اسلام قبول کر لو محمد ایسے فیاض ہیں کہ فقر کی کوئی پرواہ نہیں رہتی۔"
مکہ والوں پر حضور ﷺ کی عطا کا سبب و وجہ:
زمانہ قحط میں حضور ﷺ کا ابو سفیان کو اشرفیوں اور کھجوروں کی عطا اور ان تمام اقدامات سے مقصودیہ تھا کہ انسانی سطح پر ان سے ہمدردی کی جارہی ہے لہٰذا وہ اپنی دشمنی کو شدت کی حد تک نہ پہنچائیں نیز آپﷺ کے حُسن وتدبر کا نتیجہ یہ تھا کہ آپﷺ کو مکہ فتح کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد قریشیوں میں اسلام جذب کرانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔31
تالیف قلبی:
حضور ﷺ نے اکثر نو مسلم رؤسا اہل مکہ اور غیر مسلموں کو عطا کیا پہلی قسم میں حضور ﷺ نے اس لئے عطا کیا کیونکہ وہ متذبذب العتقاد تھے اس کے ذریعے ان کا اسلام پر اعتقاد پکا ہو گیا اور انہوں نے اسلام کو دل سے قبول کر لیا۔
دوسری قسم میں بعض ایسے غیر مسلم لوگوں کو اس لئے عطا کیا گیا تاکہ ان کے شر سے اہلِ اسلام کو اذیت سے بچایا جا سکے۔
کسی کی مدد چھپا کر کرنے میں حکمت:
اسلام نے کسی کو کچھ دینے کا اصول چھپا کر بتایا ہے کہ خفیہ طور پر مدد کی جائے اعلانیہ دینے سے سائل بے حیائی کا عادی ہو جاتا ہے کیونکہ جب کسی کی ذات فقر و فاقہ کی داستان عام ہو جاتی ہے تو پھر اسے اپنے فعل سے غیرت اور شرم نہیں آتی اور ڈر یہ ہے کہ اظہار و اعلان کایہ طریقہ دنیا میں گداگری اور بھیک مانگنے کے پیشے کی اشاعت کا سبب بن جائے اس لئے حضور ﷺ نے فرمایا ہے:
"بہتر صدقہ وہ ہے جو داہنے ہاتھ سے دو اور بائیں ہاتھ کو خبربھی نہ ہو۔"32
ایسے انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کے متعلق کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
"مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"33
"اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اُگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے مال کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے اور وہ بڑی کشائش والا سب کچھ جاننے والا ہے ۔"
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
"مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ"34
"تم میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی اورا سی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔"
اعلانیہ دینے کی ممانعت قرآن و حدیث کی روشنی میں :
اللہ اور اس کے رسول نے کسی کو صدقہ یا خیرات اعلانیہ دینے سے اس حکمت کے پیش نظر منع فرمایا ہے کہ دینے والا نمائش اور شہرت طلبی سے اپنے اخلاق کو محفوظ رکھ سکے ۔ جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی اس آیت سے کر دی۔
ارشاد ِ خداوندی ہے:
"الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"35
"اور جو لوگ اپنا مال شب و روز میں کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔"
دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
"وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ"36
"خرچ کرو اس میں سے جو روزی دی ہم نے تم کو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے اور پھر کہے اے میرے رب! کیوں نہ ڈھیل دی مجھ کو تھوڑی مدت کےلئے کہ میں خیرات کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا"
اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث میں جگہ جگہ خرچ کرنے یعنی (صدقہ و خیرات) کرنے پر زور دیا ہے اور فرمایا ہے ( صدقہ و خیرات) گناہ کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو۔
ایک حدیث میں ہے کہ :
"إن الصدقة لتطفئ عن اهلها حر القبور، وإنما يستظل المؤمن يوم القيامة في ظل صدقته"37
"حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے روز ہر شخص اپنے صدقہ کے سائے میں ہو گا یہاں تک کہ لوگو ں کے درمیان جنت و دوزخ کا فیصلہ کر دیا جائے گا"۔
دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے:
"عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لاَ تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، ارْضَخِي مَا اسْتَطَعْتِ"38
"حضرت اسماء سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا خرچ کر اور شمار نہ کرور نہ اللہ تعالیٰ تجھ پر شمار کرے گا (یعنی گن گن کر دے گا) اور روک کر نہ رکھ اللہ تجھ پر روک رکھے گا جہاں تک ہو سکے خیرات کر۔"
"قرآن پاک کی آیت و احادیث صدقہ و خیرات کی اہمیت واضح کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کی ترغیب دیتی ہے ۔قرآن و حدیث صدقہ و خیرات کو غرباء کا امراء پر حق قرار دیتاہے نہ کہ احسان بلکہ حضرت ابنِ عمر کا قول ہے کہ اگر مالِ زکوٰۃ غرباء کی ضرورت سے کم پڑ جائے تو قصبہ کے امراء کی ذمہ داری ہے کہ غرباء کو ان کے پاؤں پر کھڑا کریں۔39
عطیاتِ رسول ﷺ کے واقعات و امثال:
کسی کو تحفہ دینا ایک اہم اخلاقی فضیلت ہے بلکہ یوں کہیں کہ سچائی کے بعد یہ دوسری اہم اخلاقی فضیلت ہے جس کا فائدہ دوسروں کو پہنچتا ہے۔ صفات متعدیہ میں سب سے زیادہ نفع بخش اخلاقی صفت ہے جس کے حقیقی معنیٰ ہیں کہ انسان بخوشی اپنے کسی حق کو دوسرے کے حوالے کر دے ۔ اپنا حق معاف کرنا اپنا ضرورت سے زائد مال عطا کرنا بلکہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت پوری کرنا عطا کے مفہوم میں آتا ہے جس میں معمولی سطح کی عطا سے لے کر کسی کے لئے اپنی جان دینے کا اعلیٰ معیار شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی یہ صفت بہت پسند ہے اور دنیا میں حضرت محمد ﷺ سے زیادہ سخی اور کوئی نہ ہو گا نہ ہے ذیل میں حضور ﷺ کی سخاوت کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینے کی مثال:
آپﷺ کو حضرت فاطمہ ؓسے بڑی محبت تھی جب کبھی آتیں تو آپ ﷺ فرطِ محبت سے کھڑے ہو جاتے اپنی جگہ پر بٹھاتے مگر آپﷺ نے انہیں کبھی دنیوی آسائشوں کا سامان مہیا نہیں کیا خود چکی پیستیں ، پانی کی مشک بھر کر لاتیں جس کی وجہ سے ہاتھوں پر گڑھےاور سینے پر نیل پڑ جاتے انہی حالات کی وجہ سے کنیز کا مطالبہ لےکر ابا جان کے پاس آئیں محبت و شفقت کرنے والے والد نے کہا
"وَ اللهلَااعطِیُکُمَاَواَدعُ اَھلالصُّفةِتطُویٰبُطُونهملاَاَجِدمَااَنفِقُعَلَيهم"40
"بخدااہلِ صفہ کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر تمہیں کچھ نہیں دے سکتا"
لوگوں کو سوال سے بچانے کے لئے حضور ﷺ کی عطا:
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے حضور ﷺ سے کچھ طلب کیا ۔آپﷺ نے ان کو عطا فرمایا لیکن ان کی طلب ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے پھر طلب کیا حضور ﷺ نے پھر عطا کیا یہاں تک کہ جو کچھ آپ ﷺ کے پاس تھا سب کچھ ختم ہو گیا تو آپ ﷺ نے ان انصاریوں سے فرمایا کہ میرے پاس جو مال بھی کہیں سے آئے گا میں اسے جمع کر کے اپنے پاس نہیں رکھوں گا بلکہ تم کو دیتا رہوں گا۔لیکن اس طرح مانگ مانگ کر خود عیشی حاصل نہیں ہوگی بلکہ اللہ کا قانون ہے جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے خود کو بچانا چاہے تو اللہ پاک اس کی مدد فرماتے ہیں اور سوال کی ذلت سے اس کو بچاتے ہیں ۔41
اصحاب صفہ کی مدد:
اصحاب صفہ ایسا گروہ تھا جو خود کوئی کام نہ کرتا تھا بلکہ تعلیم و عبادت میں مشغول رہتا تھا یہ ناداروں اور حاجت مندوں کی ایک جماعت تھی۔ حضور ﷺ ان کی خدمت کے لئے مسلمانوں کو توجہ دلاتے تھے خود فاقہ میں رہ کر بھی ان کا خیال کیا۔ اصحاب صفہ ہی کے سلسلے میں ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے وہ ان میں سے تین کو لے جائے اور جس کے پاس چار آدمی کاکھانا ہےوہ ان میں سے پانچ آدمیوں کو ساتھ لے جائے۔42
آپ ﷺ کے حُسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر کافر کا مسلمان ہونا:
" ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ وہ کہتےہیں ایک رات کافر حضور ﷺ کا مہمان ہوا ۔آپ ﷺ نے ایک بکری کا دودھ پیش کیا وہ پی گیا پھر دوسری حتیٰ کہ سات بکریوں کا دودھ کا پی گیا آپﷺ نے کسی طرح کی ناپسندیدگی کا اظہار نہ کیا آپﷺ کے حُسن ِ اخلاق کی تاثیر تھی کہ وہ صبح کو مسلمان ہو گیا اور صرف ایک بکری کے دودھ پر اکتفا کر گیا"۔43
آپ ﷺ کی فیاضانہ روش سے لوگوں کو اتنا حوصلہ ہو گیا تھا کہ وقت کی مناسبت کا لحاظ رکھے بغیر آپﷺ سے امداد طلب کرتے حدیث میں ہے کہ عین اقامت الصلواۃ کے وقت ایک شخص نے حضور ﷺ کا دامن پکڑ کر کہا میری حاجت ہے اور مجھے ڈر ہے کہ میں بھول نہ جاؤں لہٰذا اسے ابھی پورا کریں۔آپﷺ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اس کا کام کر کے آئے تو صلوۃ کی تکمیل کی ۔
ایک دفع ایک مسلمان خاتون نے اپنے ہاتھ سے ایک چادر بن کر آنحضور ﷺ کی خدمت میں پیش کی آپ نے اس تحفےکو قبول کر لیا ۔اس وقت ایک غریب مسلمان نے آپ سے وہ مانگ لی آپﷺ نے اسی وقت اس کے حوالے کر دی کیونکہ آپ کسی کا سوال رد نہیں فرماتے تھے۔44
عطیات کے معاشی اثرات و نتائج:
اسلامی نظام عطا ایک مکمل نظام ہے کیونکہ اس کے ذریعےوسیع پیمانے پر لوگوں کی معاشی مدد کی جا رہی ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی پوشیدہ حکمت ہے جس کے ذریعے معاشرہ میں فراہمی وسائل کا ایک ذریعہ ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ نے اپنےپاس رکھا ہے ۔ ذیل میں دین اسلام کی معاشی اثرات میں سے چند کی وضاحت کی جاتی ہے :
ارتکاز دولت کا خاتمہ:
حضور ﷺ کی عطا کا ہی نتیجہ تھا جس کے ذریعے صحابہ کرام کی تربیت ہوئی اور انہوں نے پھر عطا کرنا شروع کر دیا اور انہی سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ارتکازِ دولت کا خاتمہ ہو گیا۔ آج کے دور میں معاشی نقطہ نظر سے ارتکاز دولت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور کئی مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہے تاہم ایک اسلامی ریاست میں حضور ﷺ کی عطا کا طریقہ اس مسئلہ کا یقینی حل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ارتقاز دولت کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جس سے معاشرہ خوشحال ہوتاہے ۔
نصرتِ دین:
عطیات کا ایک اہم مصرف مسلمانوں کو غیر مسلموں کے شر سے بچانے اور نو مسلموں کو اسلام پر پختہ کرنے اور اسلام قبول کرنےپر کفار کو زکوٰۃ میں سے مالی مدد کرنے سے دین کی حفاظت اور دین کی تبلیغ ہوتی ہے ۔
مضبوط اسلامی ریاست:
ایک ریاست اس وقت اندرونی طور پر مضبوط ہوتی ہے جب اس کے باشنددوں میں اتحاد و اتفاق اور اپنے لیڈر پر مکمل اعتماد ہو جس طرح حضور ﷺ نے مؤلفۃ القلوب کی بناء پر نومسلموں کو مالِ غنیمت میں سے عطیے دئے جو کہ متذبذب العتقاد تھے تاکہ ان کا عقیدہ پختہ ہو۔ نتیجتاً ریاست اندرونی طو ر پر مضبوط ہو گئی۔45
رضائےالٰہی کا ذریعہ:
اگرنبی پاک ﷺکے اسوہ حسنہ کو دیکھاجائے تویہ بات سمجھ آتی ہے کہ عطیات ِ رسول نیکی اور رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے۔ایک سچا مسلمان جب اپنا مال بغیرکسی احسان کے اپنا مال خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کے بندوں میں خرچ کرتاہے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آتاہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
"وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ"46
"جو لوگ اللہ کی رضا کے لئے دل کی پوری آمادگی اور اثبات کےساتھ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پرہو۔"
مذکورہ آیت کی روشنی سے پتا چلتاہے کہ خدا کی خوشنودی پر مال خرچ کرنے والے کو اونچے باغ سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی اونچائی کے باعث ناگوار زمین اور موسم کے اثرات سے محفوظ رہتاہے اور خوب پھیلتاہے اس طرح دوسروں کو عطا کرنے والا بھی اخلاق اور مال کے لحاظ سے خوب ہمکنار ہوتا ہے ۔
عطیہ کے پُر اثر ہونے کی شرط:
ہر نیک کام شروع کرنے کی پہلی شرط خلوص ِ نیت ہوتی ہے ۔کوئی کام کتنا ہی نیک اور اچھا کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کا ارادہ غلط سوچ پر مبنی ہو تو وہ بارگاہ الٰہی سے شرف قبولیت حال نہ کر سکے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی کو کچھ (تحفہ) دے رہے ہیں اور اس کا مقصد محض دکھاوا ہو یا اس کے پیچھے کوئی غرض چھپی ہو تو وہ اپنا مقصد کھو دیتا ہے ۔ اور بارگاہ الٰہی میں قبول بھی نہیں ہوتا اور بارگاہ الٰہی سے اس کے لئے وہی کچھ ہوتا ہے جس کی اس نے نیت کی ہوتی ہے ۔ جیسے کہ حضور پاک ﷺ کا ارشاد ہے
"إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى"47
"اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔"
مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی مثلاًاگرکسی کی عطا کا مقصد محض دکھاوا ہوگا کہ لوگوں کے سامنے اس کی عزت بنے توایسے لوگوں کے لئے اللہ پاک کے پاس نہ تو اجر ِ عظیم ہے اور نہ ہی اس کے درجے بلند ہوں گے۔48
عطیاتِ رسول ﷺ کے سیاسی اور سماجی اثرات :
فتح مکہ :
حضور ﷺ کے مکہ والوں کو ان کے قحط کے زمانے میں عطیات سے نوازنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ قریش مکہ حضور ﷺ کے مکہ فتح کرنے میں آڑے نہ آئے اور حضور ﷺ نے مکہ فتح کر لیا۔
غیر مسلموں کا مسلمان ہونا:
حضور ﷺ کی عطا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر کافر تیزی سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے جن میں حضرت ابو ذر غفاری ابلِ ذکر ہیں۔49
دائرہ اسلام کی وسعت:
اسلام کا دائرہ وسیع ہونے کی مثال حضور ﷺ کی عطا اس قدر صفوان بن امیہ سے لیتے ہیں جو خود بھی اسلام لے آئے اور بستی والوں کو بھی کہا آپ کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"بستی والو:دائرہ اسلام میں آجاؤ حضور ﷺ اس قدر عطا فرما رے ہیں کہ فکر کا کائی اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا۔"
گداگری کا خاتمہ:
حضور ﷺ کی عطائے عام کا اولین مقصد لوگوں کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانےسے بچانا تھا ۔ کیونکہ بھیک مانگناایک معاشرتی لعنت ہے اور احادیث میں بھی اس کی سخت ممانعت ہے حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے:
"مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ، حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ القِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ"50
"جو شخص ہمیشہ مانگتا پھرتا ہے حتیٰ کے قیامت کے روز وہ اس طرح آئےگا کہ اس کے چہرےپر گوشت کا ٹکڑابھی نہ ہوگا۔"
مذکورہ حدیث میں اس بات کا پتاچلتاہے کہ جو لوگ اللہ پر توکل کئے بغیر لوگوں سے مانگتےہیں تو قیامت کے دن وہ اس صورت اٹھائے جائیں گے کہ ان کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔
زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ مانگنےکو عیب نہ سمجھتے تھے ۔ بلاضرورت آپؐ سے سوال کر دیتے تھے آپﷺ انہیں عطا کرتے وہ پھر مانگتے آپؐ پھر عطا فرماتے حتیٰ کہ ان کی طلب ختم نہ ہوتی ۔حضور ﷺ انہیں دے کر سوال سے منع فرماتے اور فرماتے جہاں سے مال آئے گا میں تمہیں دیتا رہوں گا میں مال جمع نہیں کرتا
حضور کریم ﷺ کے اس فرمان سے امت مسلمہ کو بتایا گیا کہ مال جمع کرنااور مال سے محبت اچھی نہیں ہے بلکہ مال سے محبت تو انسان کو دوزخ کے قریب لے جاتی ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں 51
"وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ"52
"تباہی ہے ہر طعنہ دینے والوں اور غیبت کرنے والوں کی جو مال جمع کرتا ہے اور اسے گن گن کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ہرگز نہیں وہ جھونک دیاجائے کا حطمہ میں ۔"
مذکورہ آیت کی روشنی میں مال سے محبت کرنے والوں اور مال جمع کرنے والوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے وہ اس آیت پر غور کریں اور اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوزخ سے پچاس اور اللہ پاک نے قرآن مجید میں اور حضور ﷺ نے جواپنے عمل کو دوزخ سے بچا سکتے ہیں۔
چنانچہ حضور ﷺ کی عطا ایک ایسی نیکی ہے ۔
معاشرتی ترقی:
انسانی زندگی کی بقاء کا را ز معاشرے کے قیام میں پوشیدہ ہے ۔ معاشرہ کی مثال ایک جسم کی سی ہے اور معاشرے کے افراد کو اس کے اعضاء سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ معاشرےکی کامیابی کا راز اس کے اعضاء کی صحت و سلامتی میں پوشیدہ ہے ۔ جو اگر اپنا کام درست طریقے سے نہ کریں تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ معاشرے کی ترقی کرنے اور اس تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے عطا ایک ایسا عمل ہے جو زیادہ سے زیادہ فرد کو معاشرے کے اور معاشرے کوفرد کے ساتھ خیر خواہی ، فیاضی اور سخاوت کے رشتوں میں پروتا ہے۔
طبقاتی کشمکش کا خاتمہ:
معاشرہ مختلف طبقات پر مشتمل ہے ۔ امیر ، غریب ، متوسط۔ حضور ﷺ کی عطا کا یہ طریقہ تمام طبقات میں باہمی محبت ، اخوت اور ہمدری کو فروغ دیتی ہے ۔ اس طرح معاشرے کے مابین کشمکش ختم ہوتی ہے ۔
شرح جرائم میں کمی:
جب دولت ایک جگہ جمع نہیں ہوگی ۔ زکوٰۃ، صدقات و عطیات کے ذریعے گردش کرتی رہے گی اس سے وہ سارے جرائم ختم ہو جائیں گے جو غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔
معاشرے کے مابین انتشار کا خاتمہ:
ایک معاشرے میں امیر ، غریب اور متوسط ہر طرح کے طبقے پائے جاتے ہیں حضورﷺ کی احسان جتائے بغیر لوگوں کو عطا کا طریقہ لوگوں کو ایک دوسرے کا مددگار بناتی ہے جس سے باہمی کشمکش دور ہوتی ہے ۔
بے لوث خدمت:
معاشرے کی ترقی کا راز معاشرے کے مابین تعاون سے ہوتا ہے جو اپنے سے برتر سے سہارا لے کر اپنے سے کمزوروں کا سہارا بنتا ہے ۔
محبت کا فروغ :
ایک دوسرے کو تحفے تحائف کے تبادلے سے دلوں کی نفرتیں دور ہوتی ہیں ۔باہمی محبت بڑھتی ہے معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے 53
عطیاتِ رسول ﷺ سے مستفید اصحاب کا رد عمل:
حضور پاک ﷺ نے معلفۃ القلوب کی بنا پر بعض کو عطا کیااور بعض کو چھوڑ دیا حضور ﷺ کی عطا سے محروم رہ جانے والوں میں زیادہ تر انصار شامل تھے جنہوں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر ناراضگی کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا :
"امام بخاری نے حضرت عمر بن تغلب سے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے بعض کو عطا کیا اور بعض کو چھوڑ دیا گو یا کہ وہ آپ پر ناراض تھے ۔ ان لوگوں میں عمر بن تغلب بھی شامل تھے۔ حضرت سعید بن عبادہ بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہو کرعرض کرتے ہیں یا رسول اللہ انصار کا قبیلہ اپنے دلوں میں خلش پاتا ہے کہ مالِ غنیمت کی تقسیم میں آپ نے عرب کے رؤساء کو عطا کیا اور انہیں چھوڑ دیا۔حالانکہ ہماری تلواروں سے بے انتہاء منافقین کا خون ٹپک رہا ہے چنانچہ آپﷺ نے انصار کو ایک خیمے میں جمع کیا اور سعد سے مخاطب ہو کر فرمایا سعد تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت سعد نے فرمایا کہ میں بھی اسی قوم کا فرد ہوں۔تو آپﷺنے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد انصار کو طویل خطبہ دیا اور فرمایا کیا تم گمراہ نہ تھےاللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے تمہیں راستہ دکھایا تم غریب تھے اللہ نے میرے ذریعے تمہیں غنی کیا ۔ تم آپس میں دشمن تھے اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔یہ کیسی بات ہے جس کی مجھے خبرملی ہے ۔ انصار نے عرض کی یا رسول اللہ ہمارے بڑوں نے کچھ نہیں کہا جب کہ یہ بات نو عمر انصار نے کہی ہیں۔آپﷺ نے فرمایا اے انصار:تم مجھ سے دنیا کی معمولی چیز کے بدلے ناراض ہوتے ہو کیا تمہیں یہ گوارا نہیں کہ لوگ اپنے گھروں میں بھیڑ بکریاں لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں حضورﷺ کو لے کر جاؤ"۔54
آپﷺ کا یہ خطبہ سن کر انصار کی روتے روتے داڑھیاں تر ہو گئیں اور فرمایاہم اس تقسیم پر اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
"وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ"55
"اگر اس پر خوش رہتے جو خدا اور اس کے رسول نے انہیں دیا تھا تو کہتے خدا ہمیں کافی ہے۔ اور اگر خدا اپنے فضل سے اور پیغمبر (اپنی مرضی سے)ہمیں (پھر) دیں گے تو ہمیں تو خدا ہی کی خواہش ہے۔ تو ان کے حق میں بہتر ہوگا۔"
اس واقعہ کے بعد انصار نے کسی بھی قسم کا مال لینے سے انکار کر دیا اور کہا ہمارے لئے اللہ اور اس کا رسول کافی ہے۔آپﷺ نے آنے والے وقت کی پیشن گوئی کے تحت بحرین کا مال ان کے لئے مختص کرنے کا ارادہ فرمایا اور فرمایا:
"میرے بعد تمہیں چھوڑ کر اوروں کو ترجیح دی جائےگی تم صبر کرنا حتیٰ کہ حوضِ کوثر پر مجھ سے ملاقات کرنا۔"
آپﷺ کی تقریر کا انصار پر اس قدر اثر ہوا کہ پھر کبھی انہوں نے شکایت کا لفظ اپنے ہونٹوں پر نہ لائے اور حق پر لڑنے کےلئے ہر وقت تیار رہتے بغیر کسی شکایت کے۔
معتب بن قشیرکا رد عمل:
معتب بن قشیر وہی شخص ہے جس نے غائبانہ کہا کہ قریش کو مالِ غنیمت ملتا ہے اور ہم جن کی تلواروں سے وریش کا خون ٹپکتا ہے محروم رکھے گئے ہیں۔معتب بن قشیر اپنے قول سے انکاری ہو گیا اور گواہ صرف حضرت عبداللہ بن مسعود تھے۔ اس لئے فردِ واحد کی گواہی سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔56
غلط فہمی کا خاتمہ:
"حضور ﷺ کی عطاکا ایک مقصد فاقے مٹانا تھا۔ نبی رحمت اپنی عطا کے ذریعے غریبوں اور محتاجوں کی غربت ختم کرتے تھے۔ حضور ﷺ کی شان عطا اتنے کمال پر دکھائی دیتی ہے کہ دنیا میں جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آپﷺ ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری کرتے تھے۔ لوگوں کی تنگ دستی کو اپنی شان سے خوشحالی میں بدلتے تھے اور خوشحالی کا بھی یہ عالم ہوتا کہ اب سوال کرنے والے خود عطا کرنے والے بن جاتے ۔ آپ ﷺ کے اخلاق کے اعلیٰ ترین پہلو عطا کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آپﷺ سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ خود سخاوت کے درجے پر نافذ ہونے والے نبی پاک ﷺ کے بھوک اور فاقے کے باعث پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے۔ حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ خصوصاً اخلاق کا پہلو ان لوگوں کےلئے واضح ثبوت ہے ۔ کہ اسلام تلوار پر نہیں بلکہ حضور ﷺ کے اعلیٰ و ارفع کردار سے پھیلا"۔57
حضورﷺ کے کردار سے اسلام پھیلنے کی مثال:
"صفوان بڑا دانشمند سردار تھا وہ خود بیان کرتا ہے کہ رسول کریمﷺ مجھے جو غنائم عطا کر رہے تھے ۔ وہ مجھے تمام مخلوق سے زیادہ مقبول تھے آخر کار ایک وقت ایسا آیا کہ نبی کریم ﷺ مجھے اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو گئے"۔58
ابوسفیان کے گھر کودارِامن قرار دینا:
"حضوراکرمﷺ کی ابوسفیان کو100 اونٹ اور چالیس اوقیےچاندی کی عطا، اسی طرح ان کے بیٹوں کوعطا سے متاثرکاواقعہ ابو سفیان کے اسلام لانے کا سبب بنا اورحضور ﷺ کی شان بے مثال نے ابو سفیان کے گھر کو دار امن قرار دیا یعنی جو ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا اسے امن دیا جائے گا"۔59
خلاصہ:
اسلام نے دولت جمع کرنے کی مذمت کی ہے اور اسے گردش میں رکھنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس سے تمام لوگ یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکیں اس ضمن میں اسلام نے دولت خرچ کرنے کی دو صورتیں بھی بتا دیں ہیں یعنی صدقات واجبہ ، صدقات نافلہ۔
حضورﷺ کی عطا سے ارتکازِ دولت کا خاتمہ ہوا، اللہ کی رضا حاصل ہوئی، اندرونی اور بیرونی طور پر ریاست مضبوط ہوئی۔ مسلمان جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے مکہ فتح ہو گیا۔ معاشرہ مختلف طبقات سے نکل کر ایک امت بن گیا ۔غرض مسلمان معاشی اور معاشرتی طور پر خوشحال بن گئے۔ اسلامی نظام میں تقسیم دولت کے مسئلے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری معیشت کی بنیاد ہی اس شعبہ کو مستحکم اور عادلانہ بنانے پر رکھی گئی ہے ۔ دولت کسی ایک طبقے میں نہیں بلکہ امیر غریب، متوسط غرض ہر طرح کے طبقے بلکہ معاشرے کے تمام افراد ا س سے استفادہ کرنے لگے جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی ایک سوال کرنے والے کو جب اتنی بڑی ہستی عطا کرے تو اس سوالی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ خوشحال ہو جاتا اور خودعطا کرنے والا بن جاتا ۔ یہ تھی حضور پاک ﷺ کی شان کہ ایک طرف دینے والا اس قدر دے رہا ہے اور دوسرے پر احسان بھی نہیں جتا یا جا رہا ۔ معاشرے سے غربت بھی ختم ہو رہی ہے اور لوگوں کو لوگوں کے سامنے سوال کرنے سے بھی بچایا جا رہا ہے تاکہ اس کی عزت بھی مجروح نہ ہو۔ خود رحمت ِ دو عالم کے شکم اطہر پر بھوک کے مارے پتھر بندھے ہوتے تھے کئی کئی دنوں تک گھر میں چولہا نہ جلتا تھا۔ دوسری طرف ارتکاز دولت کے خاتمہ پر زور دیا گیا ہے اور ان کو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے تاکہ وہ دولت کو ایک جگہ جمع کر کے نہ رکھیں بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ عطیہ اور ہدیہ کے ذریعے دولت کو گردش میں رکھیں اور جو لوگ خدا کے بتائے ہوئے احکامات پر چلتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور بے شک وہ بہترین اجر دینے والا ہے ۔ آج کے دور میں امت مسلمہ کو چاہیئے کہ حضور ﷺ کی سیرت کے اعلیٰ ترین عطا کے پہلو کو اپنائے ۔ دولت جمع ر کے نہ رکھے بلکہ اسے مختلف طریقے سے بغیر کی غرض اور دکھاوے کے خلق خدا پر خرچ کرے ۔
M.A Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Govt. Sadiq College Women University, Bahawalpur.
Lecturer, Dept. of Islamic Studies, The Govt. Sadiq College Women University, Bahawalpur. Bareera.hameed@gscwu.edu.pk
1 Muftī Muhammad Shafi‘a, Kitāb al-ta‘arīfāt( Lakhnaw: Idārah afādāt ashrafiyah, 1638 A.D), 2 :317.
2 Al-Anfāl8 : 60.
3 Imām Mālik bin Anas, Mu’ttā ( Atak: Maktabah Islāmiyah, Jan.2009 A.D), Hadith No. 1831.
4 Muhammad Bin Ismā‘īl Bukhārī, Al-adab Al-Mufrad ( Riyāz: al-m ‘ārif Lil nashr wal tawzī‘, 1998A.D), Hadith No.594.
5 Bukhārī, Al-Jāmi‘ Al-Sahīh, Hadith No. 2566.
6 Muhammad bin Yazīd Qazvīnī, Al-Sunan ibn e mājah( Riyāz: Dār Ahyā’ Kutab al-‘arbiyah, S.N) Hadith No.4145.
7 ‘Allāmah Muhammad Liyaqat ‘Alī Rizvī, Aljām‘ Al-Sahīh Mutarjam Abu al-‘ulā Muhammad Sahiy ud din Jahāngīr ( Lahore: Pakistan Publishers, 2016A.D), 61,62.
8 Al-Baqarah 2 : 83.
9 Al-Hajj 22 : 41.
10 Dr. Mahmūd Ahmad Ghāzī, Muhādrāt ma‘īshat wa Tijārat ( Lahore: Alfaisal Nāshrān wa Tājrān, 2016 A.D), 127.
11 Al-Tawbah 9 : 60.
12 Muftī Muhammad Shafi‘a, Kitāb al-ta‘arīfāt( Lakhnaw: Idārah afādāt ashrafiyah, 1638 A.D), 415.
13 Pīr Muhamamd Karam Shāh Al-Azharī, Diyā’ Al-Nabī (Lahore: Diya’ Al-Qur’ān Publications, 1420A.H), 4: 427.
14 ‘Allāmah Shiblī Nu‘māniī, Sīrat Al-Nabī (Lahore: Maktabah Islāmiyah, 2000 A.D), 1:569.
15 Al-Sād 38 : 39.
16 Safī Al-Rahmān Mubārak Purī, Al-Rahīq Al-Makhtūm ( Lahore: Maktabah Salfiyah, 2000 A.D), 569.
17 Al-Hashr 59 :7.
18 Al-Mujādilah 58 : 12.
19 Muhammad Aslam Qāsmī, Sīrat Halbiyah Urdu (Karachi: Dār Al-Ishā‘at Publishers, 2009 A.D), 3 :370.
20 Dr. Muhammad Tāhir Al-Qādrī, Nūr Al-Absār Binakr Al-Nabiy Al-Mukhtār (Lahore: Minhāj Al-Qur‘ān Printers, 1992 A.D), 91.
21 Khālid ‘Alvī, Insān e Kāmil ( Lahore: University Book Egency, 1974 A.D), 374.
22 Al-Baqarah 2 : 262.
23 Bukhārī, Al-Jāmi‘ Al-Sahīh, Hadith No. 1902.
24 Dr. Muhammad Tāhir Al-Qādrī, Husn e Akhlāq ( Lahore: Yosaf Markete Ghaznī Street Urdu Bāzār, 2003 A.D), 101.
25 Dr. Muhammad Tāhir Al-Qādrī, Nūr Al-Absār, 89-91.
26 Dr. Muhammad Tāhir Al-Qādrī, Nūr Al-Absār, 89-91.
27 Qāzī Muhammad Sulemān Mansūr purī, Rahmat lil ‘ālamīn ( Faisalabad: Markaz Al-Harmaīn Al-Islāmī, 2007 A.D), 1 : 561-562.
28 Mahbūb Al-Rasūl Qādrī, Anwār e Sīrat Al-Nabī ( Punjab: Zaviyah Qādriyah, S.N ) , 111,112.
29 Al-Tawbah 9 : 58.
30 Imām Muhammad bin Yūsuf Al-Sālihī Al-Shāmī, Subul Al-Hudā Wa al-Rishād Fī Sīrat Khair al-‘ibād ( Lahore: Zāviyah Publishers, 20014 A.D), 5 : 365.
31 Pīr Muhamamd Karam Shāh Al-Azharī, Diyā’ Al-Nabī,4 :249.
32 ‘Allāmah Shiblī Nu‘māniī, Sīrat Al-Nabī, 6: 160.
33 Al-Baqarah 2 : 261.
34 Al-Baqarah 2 : 245.
35 Al-Baqarah 2 : 274.
36 Al-Munāfiqūn 63 : 10.
37 ‘Allāmah Nāsir Al-Din Al-Bānī, Silsilah Ahādīs Al-Sahīhah ( Lahore: Maktabah Qudūsiyah Publications, 2009 A.D), Hadith No.906.
38 Bukhārī, Al-Jāmi‘ Al-Sahīh, Hadith No. 1434.
39 Prof. ‘abd al-hamīd Dār, Islāmī mu‘āshiyāt, 245.
40 Bukhārī, Al-Jāmi‘ Al-Sahīh, Hadith No. 353.
41 Dr. Muhammad ‘Abd Al-Hayy, ’usvah Rasūl e Karīm (Karachi: Idārah Al-Rashīd Binūrī Twon, S.N), 409.
42 Khālid ‘Alvī, Insān e Kāmi , 656.
43 Prof. Dr. ‘Abd Al-Ra’ūf Zafar, Atrāf e Sīrat ( Lahore: Nashriyat Shafiq Press, 2014 A.D), 124.
44 Prof. Dr. ‘Abd Al-Ra’ūf Zafar, Atrāf e Sīrat, 124.
45 Prof. Dr. ‘Abd Al-Ra’ūf Zafar, Zafar Al-Islām (Lahore: Nashriyat Shafiq Press, 2014 A.D), 314.
46 Al-Baqarah 2 : 256.
47 Sulemān Bin Ash‘as, Sunan Abi Dā‘ūd (Beirūt: Maktabah Al-‘Asriyah Al-Seidā, S.N) Hadith No. 2201.
48 Dr. Idrīs Lūdhī, Aslām awr Ma‘āsir Ma‘ashī Afkāe wa Masā’il (Multan: S.N), 263.
49 Pīr Muhamamd Karam Shāh Al-Azharī, Diyā’ Al-Nabī,4 :427.
50 Bukhārī, Al-Jāmi‘ Al-Sahīh, Hadith No. 1474.
51 Prof. ‘abd al-hamīd Dār, Islāmī mu‘āshiyāt, 240.
52 Al-Humazah 104 : 1-4.
53 Dr. Mahmūd Ahmad Ghāzī, Muhādrāt ma‘īshat wa Tijārat, 128.
54 Shāh Mu‘īn Al-Din Ahmad Nadvī, Tārīkh e Islām (Lahore: Maktabah Islamiyah, 2013 A.D), 95.
55 Al-Tawbah 9 : 59.
56 Muhammad Ahmad Hāshmīl, Ghazwah Hunein, (Mutarjam Akhtar Fateh Purī) (Karachi: Pakistan Publishers, 1978A.D), 276,277.
57 Muhammad Bin Ismā‘īl Bukhārī, Al-Jāmi‘ Al-Sahīh, (Mutarjam Mawlānā Muhammad Dā’ūd Darāz) (Dehlī Publishers, 2004 A.D),4:387.
58 Muhammad Ahmad Hāshmīl, Ghazwah Hunein, (Mutarjam Akhtar Fateh Purī), 1978A.D), 307.
59 ‘Allāmah Shiblī Nu‘māniī, Sīrat Al-Nabī, 1 :314.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |