1
1
2020
1682060063651_3186
69-88
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/9/10
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/9
Ibn Taymiyya Islamic Jurisprudence Jurisprudential principles Distinctions Ijtihad.
أ ﻷمِیر:جلد1 0؍ شمارہ10..( جنوری–جون 2020ء) )75(
ابن تیمیہ متفرد کیوں؟ اسباب و علل کاتجزیاتی مطالعہA Research Review of the Reasons of Ibn Taymiyya’s Distinctions
Muhammad Fazal Haq Turābī
Ibn Taymiyya is known as a controversial figure due to his differences. Most of the scholars have differed with him on most of the jurisprudential and principled issues. There are many reasons for Ibn Tamiya’s differences. The difference between intellect and its use is the most important, that is, the way of thinking. The jurisprudential ability and competence that elevated him to the status of ijtihad was a result of uniqueness in ijtihad and jurisprudence. Disagreements can be caused by the circumstances of that era and the behavior of the people of that era. All the principles and their preferred methods based on which he solved jurisprudential and doctrinal issues and all the reasons why he disagreed with a section of the ummah and the ummah know these differences in the form of the differences of Ibn Taymiyya. It is very important that his jurisprudential insight and ijtihad efforts be revealed, although in many issues the majority of the scholars of the ummah have disagreed with him and their opinion differs from the great taste. Ibn Tamiya’s method of inference in jurisprudential and principled issues and the principles by which he formed an opinion on an issue and on what basis he preferred principles in solving problems are the key issues that will be discussed in the following article.
Key words: Ibn Taymiyya, Islamic Jurisprudence, Jurisprudential principles, Distinctions, Ijtihad.
تعارف
قرون اولیٰ میں اسلام میں منجملہ عبادات ، معاملات اور تعاملات کے بارے میں براہ راست قرآن و سنت سے راہنمائی اور روشنی لی جاتی تھی۔چوتھی صدی ہجری سے پہلے تک کسی امام یا کسی فقہی مذہب کی تقلید کا عام رواج اور دستور نہیں تھا۔تقلید اور کسی مذہب کے تعین اور التزام کے بغیر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاتا رہاہے۔اور ان کی فہم و کیاستی کے مطابق وہ شریعت اسلام پر ہی عمل کررہے ہیں۔اور براہ راست اللہ جل جلا لہ کے رسول معظم ﷺ ہی کی تعلیمات پر براہ راست عمل کررہے ہیں۔بوقت ضرورت اور حاجت کسی عالم دین سے مسئلہ کی دریافت کی جاتی تھی اور اس کے فتویٰ پر عمل کیا جاتا تھا ۔یہ بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کی ایک براہ راست صورت تھی جو فطرت اور دینی تقاضوں کے عین مطابق تھی اللہ جل جلا لہ کا فرمان ہے:
" فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ 1
اس صورت حال میں بھی چوتھی صدی کے معاملات دینی اور اسلامی بغیر تقلید کے رواں دواں تھے اور عمل کی صورت حال تسلی بخش تھی۔اس صدی میں بھی ایک معین مذہب کی تقلید خالص کا کوئی عام رواج اور دستور ہرگز نہ تھا اور کسی معین مذہب کے اصول و طریق پر فتویٰ اور استفتاء کا بھی عام چال چلن نہ تھا۔
اس صدی میں دوطبقات تھے ۔ ان دو طبقات کا معاملہ الگ الگ اور مختلف النوع تھا ۔عوام اور خواص کے دو مختلف طبقات تھے۔عوام اجتماعی مسائل میں اور ان مسائل میں جنکے اندر فقہاء کا آپس کا اختلاف نہیں ہے۔رسول کریم ﷺ کی پیروی اور تقلید کرتے تھے ۔اہم عبادات مثلا وضو ، نماز ، اور زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل اپنے شہر کے مشہور و معروف اور کتاب و سنت کے عامل اساتذہ اور تربیت کنندگان سے سیکھ کر ان پر عمل کرتے رہتے تھے ۔ غیر معمولی صورت حال میں اور مشکلات میں درپیش مسئلہ کے بارے میں کسی مفتی سے استفادہ کرتے تھے ۔مگر وہ مفتی کسی مذہب یا امام کا پابند نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی مستفتی کسی مذہب یا امام کی قید سے فتویٰ کا طلب گار ہوتا تھا ۔
اسلام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا ایک فطری اور سادہ سا طریق کار تھا ۔یہی خالصیت تھی جس کی وجہ سے اس دور کے سادہ لوح انسان بھی جدیدیت کے اس دور کےا چھے خاصے پڑھے لکھے انسان سے ترقی میں کوسوں آگے تھے۔بس اسلامی تعلیمات کے بارے میں اپنے معاملات کے سلجھاؤ کے بعد اس پر عمل شروع ہوجاتا تھا۔اس انداز میں اس دور کی حیثیت بھی ایک اعلیٰ ، کتاب و سنت کی شاہراہ پر سادہ ،تصنع اور ملاوٹ کے بغیر جاری و ساری تھی۔ جس میں اسلامی تعلیمات پر خالصیت اور للٰھیت سے عمل کیا جارہاتھا ۔جو قرون اولیٰ کا ایک نمونہ تھا اور وہی تعلیمات ہی روح اور جان کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس صدی کے دوسرے طبقہ کے بارے میں یہ امر ہے کہ جوطبقہ خواص کا تھا جو حدیث نبوی ﷺ کے ساتھ ایک خاص ربط اور تعلق رکھتے تھے ۔حدیث کے ساتھ شغل اور مصروفیت کی وجہ سے ان کی احتیاج اور ضرورت نہ ہونے کے برابر رہی تھی ۔کیونکہ ان کے پاس احادیث صحیح اور صحابہ کے آثار کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا ،جس کی موجودگی میں ان کو ادھر ادھر نظر التفات کلی طور پر منع تھا ۔مشہور حدیث جس پر فقہاء کرام عامل تھے اور جس پر عمل نہ کرنے کا کسی کے پاس کوئی عذر لنگ بھی نہیں ہے یا اکثر صحابہ اور تابعین کے اقوال جن کو ایک دوسرے کی تائید حاصل تھی ۔ان کیلئے کفایت کا سامان رکھتے تھے۔قلبی اطمینان نہ ہونے کی صورت میں اس وجہ سے کہ روایات ایک دوسرے کے متعارض ہیں یا وجوہات ترجیحات بھی ظاہر و باہر نہیں ہیں۔یا کسی اور اشکالی اور مشکل کی صورت میں متقدمین فقہاء کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ان کے اقوال اگر متعد د ہوتے تو ان میں سے جو قول زیادہ قابل اعتماد اور دلائل اور براہین کے ساتھ کتاب و سنت کے قریب ہوتا تو اس اصول کو اختیار کر لیا جاتا تھا ۔ اس میں کسی تعصب کا مظاہرہ نہ کیا جا تا تھا ۔خواہ وہ قول اہل مدینہ کا ہے یا وہ قول اہل کوفہ کا ہے ۔
وضاحت اور صراحت سے تہی دامنی مسئلہ میں پاتے تو اہل تخریج اپنی تخریج اور اجتہاد فی المذہب سے کام لیتے اور کتاب و سنت کی روشنی میں اپنی تخریج اور فقاہت کو انہیں مذہب کی طرف منسوب کردیا جاتا تھا ۔جس میں وہ اپنی تخریج اور فقاہت کا مظاہرہ کرتے تھے۔محدثین کرام کا ایک خاص گروہ یہ بھی کرتا تھا جس مذہب کی طرف ان کا قلبی میلان اور تعلق ہوتا تھا تو اکثر مسائل میں وہ اسی مذہب سے اتفاق کرلیتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایسے محدثین کو ان مذاہب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔جیسے نسائی جو حدیث کے بہت بڑے امام ہیں اور بیہقی جو حدیث میں امامت کے درجہ پر فائز ہیں ۔ان محدثین کو شوافع کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاسی اور تمدنی حالات کی شاہراہ کو رواں دواں رکھنے کیلئے یہ بھی ضروری ہوگیا تھا۔ اس وقت میں قضا اور افتاء کے عہدوں اور مناصب عالیہ پر انہی لوگوں کو سرفراز کیا جاتا تھا ۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ فقہیہ اس وقت میں اس کو کہا جاتا جو اجتہاد کی قابلیت اور صلاحیت رکھتا تھا ۔شاہ ولی بن عبد الرحیم لکھتے ہیں۔
"فکان لایتولیٰ القضاء ولا الافتاء الا مجتھد ولا یسمیٰ الفقیہ الا مجتھدا"۔2
ابن تیمیہ پوری زندگی مبالغہ اور غلو سے انحراف اور بچنے کی تعلیم و تربیت کرتے رہے، مگر آپ کے بعد آپ کی شخصیت سے متاثر لوگوں نے آپ کے بارے میں بھی غلو اور مبالغہ کی راہ اختیار کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور یوں ان مبالغہ اور غلو کرنے والوں نے آپ کی شخصیت کی تعلیم و تربیت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔آپ کی فقاہت اور اجتہادیت کے بارے میں غلو کرتے ہوئے آپ کو مجتہد مطلق قرار دے دیا گیا ۔جس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی مذہب سے کوئی انتساب نہیں رکھتے تھے۔اصول و ضوابط اور فروعات میں اپنے ایک مستقل مسلک کے حامل تھے۔یہ بلا دلیل دعویٰ افراط سے معمور ہونے کے ساتھ ساتھ آپکی ثقاہت کیلئے ضرر رساں بن سکتا ہے اور دوسرے مذہب کیلئے سوء ادبی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے ۔
سید محمد صدیق حسن خان قنوجی آپکے تعارف میں رقمطراز ہیں۔"شیخ الاسلام امام الائمہ المجتھدالمطلق"3
ایک دوسرے مقام پر آپ لکھتے ہیں۔
"امامین ہمامین شیخ الاسلام حضرت احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ حرانی و حافظ محمد بن ابی بکر ابن القیم باوجود بلوغ رتبہ اجتہاد مطلق نزد عامہ منتسب بسوئے امام احمد اند "۔4
ابن تیمیہ ؒ کے بارے میں مجتہد مطلق کا دعویٰ خام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اکثر آراء و افکار میں مذہب حنبلی سے وابستہ نظر آتے ہیں اور کھلےلفظوں میں اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ یہ مذہب تمام مذاہب میں بہتر اور اقرب الیٰ السنۃ ہے۔اختلاف اقوال میں امام احمد کا مذہب راجح ہے۔ منفرد ہونے کی صورت میں ایسا قول بھی مل جائے گا جس میں دوسرے آئمہ موافق ہونگے۔
ابن تیمیہ احمد بن عبد الحلیمؒ (728ھ)لکھتے ہیں۔
"وان کان لہ بصر بالادلۃ الشرعیۃ عرف الراجح فی الشرع"5
ابن تیمیہ ؒنے اپنے مذہب کی بنیاد امام احمد کے اصولوں پر رکھی ہے۔جس کی وہ مخالفت کے در پے بھی نہیں ہوتے ہیں ۔اس وجہ سے مجتہد مطلق یا مستقل مجتہد کا دعویٰ تو خام ہے۔ آپ کو مذہب حنبلی کا فقہیہ بھی نہیں گردانا جا سکتا ہے۔ کیونکہ حفظ احادیث، تقابلی مطالعہ ، اصول فقہ کے دقائق کا علم ، استقلالی شان ، مجتہدانہ بصیرت اور شرائط اجتہاد کا اجتماع اس بات کی نفی کرتا ہے۔افراط و تفریط سے بچ کر رائے قائم کی جائے اور غلو سے کام نہ لیا جائے تو اس صورت حال میں آپ کے لئے مجتہد منتسب کا دعویٰ بلا تامل کیا جا سکتا ہے ۔
محمد ابو زہرہ لکھتے ہیں۔
"القول المعتدل الذی لامغالاۃ فیہ ولاشطط ولابخس ولارکس انہ مجتھد منتسب"6
آپ میں مطلق یا منتسب کی خصوصیات پائی جاتی ہیں مگر آپ کادور تو اجتہاد کے دور کے بعد کا دور ہے اور اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا تھا ۔ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخصیت کو پیدا کرنے پر قادر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی تو ایسا دعویٰ کیا گیا ہے جیسے ابن الھمام جو علوم عقلیہ اور نقلیہ کے ماہر تھے۔7اور جس کو رد بھی کیا گیا ہے کہ وہ فقیہ النفس بھی نہ تھے ۔8آپ کے فتاویٰ اور اختیارات اس دلیل کیلئے کافی ہیں کہ آپ مجتہد منتسب تھے۔ حنبلی مذہب سے موافقت بر بنائے تقلید نہیں ہے بر بنائے تحقیق ہے ۔ موافقت بر بنائے تحقیق اور اختیارات میں متفرد ہونا بربنائے فقاہت اور اجتہاد ہے۔ابن تیمیہ تو صاحب صلاحیت کیلئے شدت سےتقلید کی مخالفت کے در پے تھے ۔ابن تیمیہ کی آراء اور افکار کو حنبلی مذہب کی ذیلی فروع میں اس لئے شمارنہیں کیا گیا ہے کیونکہ مذہب حنبلی کو مدون ہوئے پانچ صدیاں بیت چکی تھیں دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ آپ کو تفرد کا الزام دیتے تھے آپ برابر ثابت کرتے رہے کہ یہ مسائل آئمہ اربعہ کے اصول استدلال پر مبنی ہیں اور انہی کی نوع سے ہیں مگر شدید مخالفت کی وجہ سےحنابلہ کیلئے یہ جسارت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔دوسری طرف قید وبند کی صعوبت کی وجہ سے آزادانہ اور خود مختارانہ آپ اشاعت نہ کر سکے ۔
ابن تیمیہؒ کے متفرد ہونے کے اسباب اور وجوہات میں سے ایک بڑا سبب آپ کی فقاہت اور اجتہادیت ہے۔ فقاہت اور اجتہادیت کے طرز استدلال اور طریقے میں لازمی امر ہے کہ تحقیقات دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں ۔ابن تیمیہ کا یہ تفرد نفسانیت ،اناننیت اور خواہش نفسی کے جذبہ سے کوسوں دور تھا ۔بلکہ مجتہد منتسب کے درجہ پر فائز ہونے کی وجہ سے تقویٰ اور ورع پر مبنی تھا۔
راہ اعتدال :ابن تیمیہ ؒ کے متفرد ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی وہ نہ تو غلو کا پہلو اختیار کرتے ہوئے ایسی تقلید کی حرمت اور حرام ہونے کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ ایسی تقلید کے قائل ہیں جو غیر مشروط اور غیر مقید ہو ۔جس میں کتاب و سنت اور اس کے درمیان کوئی حد فاصل بھی نہ رہے بلکہ وہ راہ مستقیم پر چلتے ہوئے متوازن اور معتدل راہ کے اختیار کرنے کے در پے ہوتے ہیں ۔اقتصاد ، میانہ روی اور اعتدالیت ہی میں کامیابی کی ضمانت مضمر ہے ۔
"ما عال من اقتصد "9
ابن تیمیہ ؒ اس نازک صورت حال میں اسلام کے مزاج اور قدرتی امر کے مطابق ایک متوسط راہ کو اختیار کرتے ہیں۔جس کی نظائر اور امثلہ بہت ساری ہیں۔تقلید کی بےجا عصبیت کے طوفان پر بند باندھتے ہیں تو متفرد نظر آتے ہیں ،جبکہ قرآن و سنت کی اتباع کرنے والی تقلید کی تقلید میں مذہب حنبلی کے موافق اور مطابق نظر آتے ہیں ۔عوام اور درجہ اجتہاد سے خالی علماء کیلئے مجتہدین کی طرف رجوع اور ان کی تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور ان آئمہ کی حیثیت وسائط و وسائل اور ذرائع کی سی ہے اور مذاہب کی پیروی ایک عملی ، قدرتی اور دینی امر ہے ۔
حلت و حرمت کا معیار:اللہ جل جلا لہ اور اس کے رسول معظم ﷺ کی حلت و حرمت اور وجوب کے ساتھ حلال ، حرام اور واجب کی درجہ بندی کے ساتھ معاملہ کرنا تمام انسانوں اور جنوں کیلئے ضروری ہے۔ ظاہری اور باطنی معاملات میں فرض ہے۔ لیکن عوام کے معاملہ میں ایسے دلائل اور براہین اور قرآن و سنت سے براہ راست استنباط کے معاملہ میں کوتاہ ہیں۔ وہ جن مسلمان اماموں کی پیروی کرتے ہیں تو ان کی حیثیت ایک مبلغ کی سی ہے۔ جو اپنی فہم اور استطاعت کے مطابق قرآن و سنت کے مفہوم اور تعلیم کو سمجھاتے ہیں ۔اس کی قرآنی مثال موجود ہے کہ اللہ جل جلا لہ کے دو عظیم پیغمبروں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے مقدمہ کا فیصلہ کیا ۔ان میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی فہم عطاء فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے تعریف دونوں کی ہے۔
اللہ جل جلا لہ کا ارشاد ہے۔
" فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَۚ-وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا "۔10
انبیاء کرام اپنی وراثت میں درہم ودینار اور مال و دولت کو نہیں چھوڑ کرجاتے ہیں بلکہ انبیاء کرام علیھم السلام کی میراث علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث علمائے کرام کو ہی قرار دیا گیا ہے۔11
مذاہب ار بعہ کی اہمیت وحیثیت:ابن تیمیہؒ علماء کرام کی حیثیت اور مذاہب ار بعہ کی اہمیت وحیثیت کو ایک مثال سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اجتہاد ،احکام کے بارے میں ان چار آدمیوں کی طرح ہیں۔جو اندھیرے میں کعبہ کی سمت تلاش کرنے میں مصروف عمل ہیں۔اور ان چاروں میں سے ہر ایک اپنے گروہ اور جماعت کے ساتھ ایک ایک سمت میں اللہ تعالیٰ کے فرض کو ادا کرنے میں مشغول اور شاغل ہے۔ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ یہی صحیح سمت ہے۔ جس طرف وہ نماز پڑھ رہا ہے ، تو ان چاروں گروہوں کی نماز درست ہے۔اگرچہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے والا ایک ہی ہوگا اور یہی وہ مجتہد ہے جس کو دوگنا اجر وثواب ملے گا ۔احمد بن عبد الحلیم (728ھ) لکھتے ہیں۔
"فالمصیب للقبلۃ واحد والجمیع فعلواماامرو بہ لا اثم علیہم "12
صحیح حدیث کے مفہوم کے مطابق جب فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرتا ہے ،اور صواب فیصلہ پر صحیح جاتا ہے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں ۔اور اگر وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کرجاتا ہے تو وہ ایک اجر سے محروم ہوجاتا ہے اور ایک ہی اجر سے نوازا جاتا ہے۔13
اسلامی فقہ کا ماخذ:اسلامی فقہ کا ماخذ تو کتاب و سنت ہے۔ جس میں کسی لیت و لعل کی ضرورت ہر گز نہیں ہے اور جس میں انکار کی گنجائش ہر گز نہیں ہے۔خاص فقہ اور خاص طریقہ کے مطابق احکام شریعت کی بجا آوری اور عبادات کی ادائیگی بھی ایک فطری اور قدرتی امر ہے ۔ جس کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ مگر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت کی اطاعت کیلئے اپنے آپ کو ہمہ وقت تیار رکھے۔ انسان اپنے والدین آقا ، شہر ، اور بادشاہ کے دین و مذہب پر پھلتا پھولتا ہے۔ ہوش و حواس سنبھالنے کے بعد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمان برداری کی بجائے قوم، زمانہ ، بادشاہ اور رسم ورواج کا پابند رہیگا تو وہ جاہلیت کی طرف کو پلٹنے کی کوشش کررہاہے ۔صراط مستقیم کے مل جانے کے بعد اوہرادہرکے راستوں پر اندھی تقلید میں بھٹک جانا اور اڑجانا قابل مذمت ہے۔ اللہ جل جلا لہ نے ارشاد فرمایا ہے۔
" وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا "14
ابن تیمیہ کی تحقیق:جو شخص تحقیق و تدقیق اور استنباط و استدلال پر مہارت تامہ کی صلاحیت و قابلیت رکھتا ہو اور اپنے خداداد تحقیق اور علم کے مطابق اس حیثیت میں ہو کہ وہ مختلف اقوال میں وجوہ ترجیحات کے ساتھ راجح قول کا علم رکھتا ہو تو اس کے بارے میں ابن تیمیہ کی تحقیق یہ ہے کہ اس کو تقلید کرنا مطلقا حرام ہے یا جائز ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ با وقت ضرورت و حاجت جائز ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے پاس وقتی اتنی گنجائش اور وسعت ہو کہ وہ دلیل سے مسئلہ کا استنباط کرسکے اور تحقیق کر سکے یہی قول منصفانہ اور عدل و انصاف کے زیادہ قریب ہے ۔
ابن تیمیہ احمد بن عبد الحلیم (728ھ) لکھتے ہیں۔
"وقیل یجوز عند الحاجۃ کما اذا ضاق الوقت عن الاستدلال وھٰذ القول اعدل الاقوال"15
اجتہاد میں مہارت تامہ اور تقلید:جس شخص کو اجتہاد میں مہارت تامہ اور قدرت کاملہ حاصل ہو اور وہ نصوص پر گہری نظر رکھتا ہے اور نصوص کا مقابلہ کرنے اور ان کو دور کرنے میں دلائل و براہین اس کا ساتھ بالکل نہ دیتے ہوں تو ایسی صلاحیت و قابلیت کے حامل شخص کیلئے ضروری ہے کہ کتاب و سنت کی پیروی میں پہل کرنے میں کوئی کوتاہی نہ چھوڑے۔ اس کیلئے نصوص کی پیروی اور اتباع لازم اور واجب ہے ۔ اس مجتہد کو اس بات کا یقین کامل ہو جائے کہ اس مسئلہ اور مذکورہ مسئلہ کی کوئی ایسی دلیل نہیں ہے۔جس سے اس وارد نص کو دور کیا جاسکے تو س پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ اس نص پر عمل کرتے ہوئے کتاب وسنت کی بالا دستی کو بحال رکھے۔اگر بصورت دیگر وہ ان وارد شدہ نصوص پر عمل نہیں کرتا ہے اور تقلید پر مصر اور اڑا رہتا ہے، تو وہ ظن و تخمین اور خواہشات نفسانی کی پیروی کر نے والوں میں سے ہو جائے گا۔اللہ جل جلا لہ اور اس کے رسول ﷺ کا بہت بڑا نا فر مان کہلائے گا ۔احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ (728ھ)لکھتے ہیں۔
"فھٰذا یجب علیہ اتباع النصوص ان لم یفعل کان متبعا للظن وما تھوی الانفس وکان من اکبر العصاۃ للہ ولرسولہ"۔16
اور ایسے لوگوں کے بارےمیں وعید قرآنی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
" إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ "۔17
حق کا معیار:ابن تیمیہؒ کے متفرد ہو نے کی وجہ یہی ہےکہ آپ فقہیات کو کتاب وسنت کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں۔ کتاب وسنت کو حق کا معیار بنانے کی آپ نے دعوت دی اوراور اس پر عمل کر کے دکھایا۔ متفرد ہو نے کی شان نے یہ بتلایا کہ کتاب وسنت ہی مسائل کا ماخذ ہیں۔ آپ نے ان مسائل کو قرآن وسنت کی طرف لو ٹانے میں مندرجہ ذیل قرآنی ارشاد کا نمونہ بن گئے۔
" فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ "۔18
قرآن وسنت کی بالا دستی:ابن تیمیہؒ نے اپنے تفرداتی امور سے اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ اسلامی فقہ اور احکام کا ماخذ قرآن وسنت ہیں۔ جبکہ فقہی مذاہب اور فقہی دائروں میں ایک عرصہ ہوا احکام و مسائل میں غو رو فکر اور تقابل ومقابلہ کا ایک تحقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہو گیا تھا۔اجتہاد اور استنباط کا سلسلہ ایک عرصہ سے مسدود کر دیا گیا تھا۔ آ پ نے اپنے تفرد کی وجہ سے مسائل اور احکام کا جب قرآن وسنت کے ساتھ مقابلہ اور موازنہ کیاتو آپ نے بڑی جرات ،بہادری اور بے باکی کے ساتھ قرآن وسنت کی بالا دستی کو قائم رکھا۔ قرآن وسنت کو معیار حق بنانے میں انہوں نے عملی اقدامات سے ایک روح پھونک دی اور قرون اولیٰ کی مثالوں کی یاد ترو تازہ کر دی تھی۔
ابن تیمیہؒ اپنی خداداد صلاحیتوں اور قابلیتوں کی وجہ سے چاہتے تھے کہ جس طرح انہوں نے فلسفہ، منطق، کلامی مباحث اور عقائد کے مسائل میں سب معاملات کو قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کرنے کی ایک کامیاب کو شش کی تھی ،جس کی وجہ سے ان سب علوم وفنون اور عقائد و افکار نے اسلام کے در دولت پر اپنے عجز کے ساتھ سر تسلیم خم کر دیا تھا۔ بالکل اسی طرح ابن تیمیہ چاہتے تھے کہ فقہ اسلامی میں بھی کتاب وسنت کی بالا دستی قائم ہو جائے۔ کتاب وسنت کا ہی نور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی کرن پیدا کر دے اور قرآن وسنت کی خوشبو چار دانگ عالم کو معطر و منور کر دے۔
کتاب وسنت حاکمیت اوربالا دستی کے اس جوش وجذبے نے ان کے اندر انفرادی خصوصیات پیدا کر دیں تھیں۔ جن کی وجہ سے وہ متفرد ہو گئے۔اگر ان حالات وواقعات کا تجزیہ کیا جائے تو ان حالات وواقعات کا ایک طبعی تقاضا یہی تھاکہ فقہ اسلامی میں کتاب وسنت کے ذریعے ایک جان پیدا کر دی جائے اور یوں مقاصد شریعت کی تکمیل میں ایک قدم آگے بڑھ جائے گا۔کتاب وسنت کی بالا دستی اور حاکمیت کا یہ نعرہ اس عصبیت، تقلید، سیاسی کشمکش اور اخلاقی پستی کے ماحول میں ایک نعرہ" لا تذر"ثابت ہوا۔ جس نے انا ،ہٹ دھرمی ،عصبیت اور جمود وتعطل کی تمام پیچیدہ گرہوں کو کھونے میں ایک لا ثانی کر دار ادا کیا تھا۔
اتباع رسول کا جذبہ :اللہ جل جلا لہ نے قرآ ن مجید میں صراحتا بیان فر مایا ہے کہ اس کی محبوبیت اس وقت تم کو نصیب ہو سکتی ہے۔جب رسول معظم ﷺکی اتباع اور فرمانبرداری کی جائے۔آپ ﷺکا متبع اور آپ ﷺکا پیرو کار اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ جو ولی اللہ ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
" قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ "۔19
ابن تیمیہ نے اس رازکو پا لیا کہ محبوبیت کا راستہ وہی راستہ ہے۔ جو قرآن وسنت کی تابعیت میں ہے کتاب وسنت سے اسی شغف اور اشتغال نے آپ کو متفرد بنا دیا۔
مصدر شریعت
ابن تیمیہؒ میں تمام علوم کی جامعیت کی خوبی بدرجہ اتم موجود تھی۔جس کی وجہ ان کا ذوق مطالعہ ،انابت اور خاندانی میراث کا بڑی حد تک عمل دخل ہے۔ ابن تیمیہ کے متفرد ہو نے کی وجوہات میں سے ایک وجہ جو نہا یت اہمیت کی حامل ہے۔ وہ مصدر شریعت ہے۔ ابن تیمیہ نہایت دیانتداری اور تقویٰ کی بنا پر مصادر شریعت کو دوسرے تمام معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث و آثار کے محافظ تھے۔احادیث وآثار کی موجودگی میں وہ دوسرے عقلی ،نقلی دلائل کی طرف اپنی طبیعت کو کم ہی لگاتے تھے۔
احادیث وآثار کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ سلف صالحین کا فہم ہمارے فہم سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے۔ان کا افہام و تفہیم ہماری فہم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے۔وہ اپنے فہم میں طاق اور تام تھے جبکہ ہم اپنے فہم میں ناقص اور خام ہیں۔اسلامی فقہ کا مطالعہ جب ژرف نگاہی اور بصیرت سے کرتے ہیں تو ان کے سامنے فقہ کے عجائب اور غرائب کا ایک ظہور ہو جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان عجائب فقہ اور غرائب فقہ کا جب احادیث سےمقابلہ اور موازنہ کیاجاتاہےتوآثار و احادیث کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال میں پرانی روایت اور روش کے بر عکس ابن تیمیہ غرائب فقہ میں وہ پہلو اختیار کرتے ہیں۔جو مصادر شریعت کے زیادہ قریب ہو۔مصادر شریعت سے قربت اور قرابت کرنے کی یہ توجیہ ان کو تفرد کی راہ پر لے جاتی ہے۔جس سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ اپنے تفرد میں اپنی جیب سے تراشی ہوتی ایک رائے قائم نہیں کر لیتے ہیں۔بلکہ آپ کی یہ رائے احادیث و آثار کی روشنی میں مستنبط ہوتی ہے۔ یہ وہی طریق کار ہے جو دوسرے آئمہ مجتہدین اپنی فقہ اور استنباط و استد لال میں احتیار کرتے ہیں۔ آپ کے تفرد اور رائے میں فرق صرف یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ کا یہ تفرد صدیوں بعد احادیث وآثار اور مصادر شریعت کے قریب ہونے کی وجہ سے منظر عام پر آیا ہے۔ جبکہ غرائب فقہ کو صدیاں بیت چکی ہوتی ہیں۔اسی بنا پر تحقیقی اور اجتہادی پذیرائی کی بجائے آپ پر تفرد کا الزام لگادیا جاتا ہے جو کسی صورت میں انصاف کے قریب نہیں ہے۔
حاجات انسانی
ابن تیمیہ اپنے فتا ویٰ جات اور افکار و آراء میں انسانی حاجات کو نہایت قدروقیمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس بات میں کوئی مفر اور مقر نہیں ہے۔جن وانس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہوئی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
" وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ "۔20
مقصد تخلیق جب اللہ جل جلا لہ کی عبادت ہے۔ جبین نیاز کو اس کی بار گاہ میں جھکانا ہے، تو فطری اصولوں کے مطابق اسلام میں تنگی اور اکراہ کو منع کیا گیا ہے۔ اسلام کی عبادات کا تصور نہایت سادہ اور فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ جس میں کوئی تنگی ،حرج اور اکراہ کا تصور نہیں پایا جاتا ہے اور انسانیت کو تکلیف مالا یطاق سے بھی مکلف نہیں کیا گیا ہے۔ بر عکس دوسرے مذاہب اور ادیان کے ان میں عبادت اور دوسرے حالات وواقعات نہایت تنگی ،تکلیف اور مجبوری سے مکلف ہیں۔جو بشری تقاضا اور طاقت کے بالکل خلاف ہیں۔مثلا عیسائیت میں رہبانیت کا ایک عام شعار تھا ۔اسلام کی آمد نے اس بات کو واضح طور پر ختم کردیا اور فرمایا:
"لارھبانیۃ فی الاسلام "۔21
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات بشارت و نظارت پر مبنی ہے اور یہ سب تعلیمات دین کی آسانی پر منتج ہو تی ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
"الدین یسر"۔22
اسلامی تعلیمات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ بشارت اور سہولت کے ذریعے سے ان کی نشر و اشاعت ہو۔ نفرت ،خوف،تنفیر سے بچا جائے تاکہ انسانیت کو جب قرب کے لمحات نصیب ہوں گے تو وہ آسان راستوں پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔:
"بشروا ولا تعسروا "۔23
جس کا مطلب خوشخبری سناؤاو رتنگی پیدا نہ کرو ۔ابن تیمیہ نے بھی اپنی فقہ کی بنیاد حاجات انسانی کے لحاظ پر کی ہے۔ سہولت کو پیش نظر رکھا ہے جو آپ کے متفرد ہونے کا ایک سبب بن گئی ہے۔
مصالح عامہ
ابن تیمیہ دین میں آسانی پیدا کرنے کے درپے ہوتے ہیں کہ جیسے دین اور دین پر عمل کرنا قرون اولیٰ میں آسان اورعام تھا ۔دین کی وہی کیفیت اور حالت آسانی کی صورت میں اب بھی رائج کردی جائے تا کہ دین پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اس لئے وہ مصلحت عامہ کا بہت زیادہ خیال اور لحاظ رکھتے ہیں۔ ایسے معاملات اور واقعات جن میں وہ مصلحت کا پہلو دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ ایسی مصلحت کے خلاف قرآن و سنت میں کوئی نص بھی وارد نہیں ہے تو وہ آسانی کی خاطر اس کو اختیار کرنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔
سہولت اور آسانی دینی معاملات میں پیدا کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کا دین پر عمل کرنا آسان ہو جائے اور وہ دین کی ڈگر پر چل پڑیں ۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دین کو کھلونا بنا لیا جائے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے مسائل کو توڑ موڑ کر اپنے ہی لئے راہ ہموار کر لی جائے۔ ابن تیمیہ اس خیال اور ان کے متعلق ایسا خیال کرنا ہی سوء ادب ہے۔ آپ کےتمام معاملات اور تحقیقات آپ ﷺ کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔آپ بھی اس مصلحت اور آسانی کے درپے ہیں جنکے بارے میں آپ ﷺ کی تعلیمات موجود ہیں اور آپ ﷺ اپنی امت کیلئے آسانیاں پیداکرتے رہے ہیں تاکہ دین پر چلنا آسان ہو جائے ۔ مصالح عامہ یا مصالح مر سلہ سے مراد یہ ہے کہ کسی فعل میں مصلحت راجحہ موجود ہے اور شرع میں اس کے خلاف کوئی حکم بھی وارد نہیں ہے ۔
جلب منفعت و دفع مضرت: اس مصالح عامہ کی تعریف کی روشنی میں یہ بات آسان ہو جاتی ہے کہ ایک مجتہد شریعت کے اصولوں کے مطابق ہی عوام اور امت کے لئے آسانی کی وہ راہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔ جس سے شریعت نے منع نہیں فرمایا ہے اور وہ راہ ایسی راہ ہے کہ اس پر چلنے سے دین پر چلنا مزید آسان ہو جائے گا۔مصالح عامہ یا مرسلہ کی دو اقسام ہیں ۔ 1۔جلب منفعت 2۔ دفع مضرت، ان دو اقسام کی وضاحت یہ ہے کہ مصلحت سے نفع مقصود ہوتا ہے اور فائدہ حاصل ہوتا ہے جو جلب منفعت کا مفہوم ہے۔ جب کہ دفع مضرت کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی مصلحت اور طریق کار اختیار کیا جائے کہ نقصان اور تکلیف سے بچا جائے۔ یہ بھی دفع نقصان کی وجہ سے ایک نفع حاصل کرنا ہی ہوتا ہے ۔
مصلحت کا دائرہ کار:مصلحت کے بارے میں ایک گروہ غلطی کا شکار ہے۔ ان کے نزدیک مصلحت صرف جان و مال ، عرض و عقل اور دین میں محدود۔ابن تیمیہ کے نزدیک یہ بات غلط ہے کہ مصلحت صرف ان پانچ امور میں محصور نہیں ہے۔ مصالح عامہ اور مرسلہ میں جلب منفعت بھی تعلق رکھتی ہے۔ جس کا دائرہ کار دفع مضرت سے زیادہ ہے۔ اور وہ دین اور دنیا کے کافی سارے معاملات کو دخیل ہے ۔ دنیاوی معاملات میں خلق کی بھلائی اور دینی امور میں معارف و احوال اور زہد و عبادت داخل ہیں۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ جومصالح کو صرف عقوبات یعنی سزاؤں تک محدود اور محصور رکھتا ہے اس کا فکری زاویہ محدود اور تنگ ہے
ابن تیمیہؒ مصالح عا مہ کو اصول استدلال قرار نہیں دیتے ہیں اور صرف نظر سے بھی کام نہیں لیتے ہیں ۔کیونکہ مصالح عامہ سے شریعت صرف نظر نہیں کرتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا دین مکمل ہو چکا ہے اور آپ ﷺ نے ہر اس چیز کو بیان فرمادیا ہے جو جنت کے قریب کرنے والی ہے۔ کوئی شخص ایسی شے کو مصلحت سمجھ بیٹھا ہے ۔ جس کے بارے میں شرع وارد نہیں ہے۔یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شارع کی بیان فر مودہ مصلحت کا اس کے پاس علم نہیں ہے یا وہ شخص مصلحت کو غلط مصلحت سمجھ بیٹھا ہے۔ جو در حقیقت مصلحت ہی نہیں ہے۔ مصلحت کا مفہوم بھی وہی ہے کہ جو حاصل اور غالب ہوتی ہے ۔مصلحت بعض فقہاء کے نزدیک رائے اور استحسان کی اصطلاح سے مشہور ہے ، جو مالکیہ کے نزدیک علم کا 10/9 واں حصہ ہے۔
یہ بات وا ضح ہے کہ ہر مصلحت حقیقی کو خاص جزئی میں شارع ﷺ کی تائید لازمی طور پر حاصل ہوتی ہے۔اور یہ تائید نصوص میں تھوڑی سی توجہ سے مل جاتی ہے یا وہ تائید دقت نگاہی اور ژرف نظری سے مجتہد پا لیتا ہے۔
ابن تیمیہؒ کی ہستی وہ ہستی ہے، جس نے شریعت کو عوام الناس کی مصالح کے قریب لانے میں ایک اہم اور ضروری کردار ادا کیا ہے اور آپ نے اس کی وضاحت کر دی ہے کہ مصلحت وہی مصلحت ہو تی ہے جس میں شریعت کی پاسداری اور تائید موجود ہو تی ہے ۔عوام الناس مشکلا ت میں گھرے ہوئے تھے اور طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ آپ نے شریعت سے مصالح کی قربت کرکے مرض کا درماں کیا۔
آپ کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ جو آپ میں انفرادیت کی خوبی پیدا کر جاتا ہے کہ لوگ مصلحت کا غلط استعمال کرکے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے تھے ۔ آپ نے ان کے غلط طریق کار کا شدت سے مقابلہ کیا اور اس اصطلاح کے بارے میں وہی فکر اور نظریہ قائم کیا جو شریعت کے عین اصولوں کے مطابق تھا اور قابل عمل بھی تھا ۔
مکروہات اور محظورات پر عمل :بعض نام نہاد متصوفہ نے افراط و تفریط کی حدوں کو پھلانگتے ہوئے اپنی خود غرضانہ مصلحتوں ، الہامات اور تصوف کے ذوق کو مصالح عامہ کے نام سے رواج دینا شروع کر دیا تھا اور اس طریق کار سے شریعت کی نصوص کی دیواروں کو منہدم کئیے جانے کی سازش بڑے زور و شور سے جاری و ساری تھی ۔شریعت کے لبادہ میں کار ابلیس وسعت اختیار کرتا جارہا تھا ۔جس کا عقل سلیم اور منطق سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا ۔مصالح کے غلط استعمال کی وجہ ایک عظیم حرج واقع ہو رہا تھا۔ مصالح عامہ کو اپنے ممنو ع امور کے لئے بطور ڈھال پیش کیا جارہا تھا اور مختلف بہانوں اور حیلوں سے شرعی مصلحتوں کے اعتبار سے صرف نظر کیا جارہا تھا ۔ واجبات اور مستحبات کو ترک کرکے مکروہات اور محظورات پر عمل کیا جارہاتھا۔
بعض فرقوں کی طرف سے یہ بھی سازش جاری تھی کہ مصالح عامہ کو آڑ بنا کر یہ نظریہ رواج دیا جا رہا تھا کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ جو شے عقل کے ادراک سے حاصل ہو جائے وہ درست اور شریعت کے عین مطابق ہے اور جو شےعقل کے ادراک میں نہ آئے اس کا انکار کر دیا جائے۔ اس آڑ میں یہ بہت بڑی سازش تھی اور راہ مستقیم سے ہٹانے کیلئے سارے اوچھے ہتھکنڈے بھی آزمائے جارہے تھے ۔اس طرح تو ایمان بالغیب سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ ایمان بالغیب سے ہاتھ دھونے کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ ایمان اور اسلام سے نکل جائیں گے ۔حالانکہ یہ عام بات ہے کہ شریعت کے احکام اور اعمال کی مصلحت عام آدمی کی بس میں نہیں ہے۔ جبکہ خواص میں سے اکثر کے ہاں وہ مصلحت ان پرروشن ہو جاتی ہے جو دقت نگاہی اور ژرف نگاہی سے مطالعہ کرتے ہیں ۔اور دوسرے لوگوں کیلئے واضح نہیں ہو تی ہے تو اس میں ہر کسی کی اپنی عقل کا لحاظ ہے۔ ایسی عظمت و رفعت والی شخصیات بھی گزری ہیں جن پر شریعت کی تمام مصالح روشن تھیں ۔
ابن تیمیہؒ نے اس طریق فکر کی بھی شدت سے مخالفت کی اور واضح طور پر بتلایا کہ اس میں شریعت کا نقص نہیں ہے۔ اس میں انسانی عقل اور رائے کے تفاوت کا قصور ہے۔ ورنہ شریعت اسلامیہ مصالح کے بالکل قریب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مصالح اوراسرار و رموز کسی پر روشن ہوتے ہیں اور کسی پر روشن نہیں ہوتے ہیں۔ بصیرت، ژرف نگاہی ، دقت نظر اور تقویٰ میں جتنا کمال حاصل ہوتا جائے گا اتنا ہی مصالح اور اسرار و رموز شریعت میں آگاہی کے نور میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
مصالح عامہ کے بارے میں اپنے فتاویٰ جات اور فقہ میں آپ کے ان زریں خیالات اور نظریات نے ایک الگ راہ کے انتخاب پر آپ کو مجبور کیا ۔جس میں امت محمدیہ ﷺ کی راہنمائی اور قرون اولیٰ کی شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا جذبہ آپ کے قلب و جگر میں جاگزیں تھا۔
مصالح عامہ کی فقہی اصطلاح کو لوگوں نے اپنے مفادات ، خیالات اور نظریات کی ترویج اور رواج کے لئے ڈھال کی حیثیت سے غلط استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔جس کی وجہ سے یہ اصطلاح ابن تیمیہ کے نزدیک مشکوک بھی ہو گئی پھر آپ نے بروقت اس کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اپنے عملی اقدامات کے ذریعے سے اس کو زندہ اور جاوید بنا دیا۔ہر دور میں یہ مصیبت اور اضطرابیت رہی ہے کہ لوگوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل اور مفادات کیشی کے لئے دین کا سہارا ضروری سمجھا ہے۔ شریعت کی ان روشن اصطلاحات کو غلط طریق سے استعمال کرنے کا رجحان صدیوں پرانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ کے دور میں اپنے مخصوص عقائد اور اعمال کو رواج دینے کے لئیے اور مالی منفعت کے حصول کے لئیے اس فقہی اصطلاح کا سہارا ڈھونڈا گیا اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس غلط استعمال اور طریق کار نے ظلم و ستم کا ایک بازار گرم کردیا ۔بادشاہوں اور امراء سلطنت نے لوگوں کے نا حق خون سے اپنی تلواروں کو رنگین کیا۔ان کی جان و مال پر آفت کا آسمان ٹوٹ پڑا۔
بدعات کارواج :اہل کلام ، تصوف اور رائے نے انکے ساتھ ساتھ حکومت کے بڑے گروہوں نے مصلحت اور منفعت عامہ کےنام پر بدعات کو رواج دیا ۔جو نہ مصلحت ہے اور نہ ہی منفعت کا اس میں کوئی پہلو پایا جاتا ہے ۔24
ابن تیمیہ کے متفرد ہونے کی ایک وجہ یہی تھی کہ آپ مصالح عامہ وہ گردانتے اور سمجھتے ہیں جن میں نفی اور اثبات کی صورت میں کوئی دلیل شرعی موجود ہے ۔جن میں کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ہے آپ اس میں تامل کرتے ہیں کیونکہ ان میں شارع علیہ السلام کی ثبوت اور عدم ثبوت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ وہ مصلحت درست ہے جس پر دلیل شرعی قائم ہے اور قیاس صحیح کے ساتھ درست ہے ۔
ابن تیمیہ نے عام فقہاء کی طرح زمانہ اور اہل زمانہ کا اعتبار نہیں کیا بلکہ آپ نے شریعت کے اعتبار کے ساتھ عوامی مصلحت کو پیش نظر رکھا ہے۔ مصلحت کو شریعت کے قریب لانے کی وجہ سے متفرد ہو گئے ہیں۔
مقاصد شریعت :
اسلام کے جوہر کے بارے میں معلوم کرنا ہو تو اس بارے میں عرض ہے کہ اسلام کا جوہر اللہ تعالی کی بندگی اور اطاعت ہے۔اس بندگی اور اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ جل جلا لہ کے احکام کو کما حقہ بجا لایا جائے۔ اس حوالے سے اللہ جل جلا لہ نے اپنی خاص رحمت اور فضل سے انسانیت کی رشد وہدایت کے لئے انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کو مبعوث فرمایا ہے۔جو مختلف ملکوں اور زمانوں میں رشدو ہدایت کے آفتاب بن کر طلوع ہو تے رہے۔ہدایت کا یہ سامان آحری نبی حضرت محمد ﷺکے ذریعے اپنی آخری اور کامل شکل میں بندوں تک پہنچا دیا گیا۔اللہ کےا حکام کی بجا آوری انسان کے لیے نہایت ضروری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ فطری طور پر انسان کے ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے ،کہ آخر ان احکام خداوندی اور ان احکام کی پابندی کی نوعیت اور حالت کیسی ہے۔
اگر جدید ذہین یہ گمان کرے کہ ان احکام کی بجا آوری اور پابندی میں کوئی حکمت اور مصلحت کا تقاضا نہیں ہے اور ان میں کوئی حکمت اور مصلحت نہیں پائی جاتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ،سفطہ اور جنون ہے۔اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اعمال اور ان کی بجا آوری کی صورت میں ثواب وجزاء کے درمیان مناسبت نہیں ہے۔یہ اس کی کم عقلی اور عدم واقفیت کی دلیل ہے۔
شریعت اور احکام کی پا بندی کو ایک مثال کے ذریعے آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے ۔آقااپنے غلام کی جانچ پرکھ کے لئیےایک پتھر کو اٹھانے اور کسی درخت کو چھونے کا حکم صادر فرمائے جس سے امتحان و آزمائش کے سوا کوئی فائدہ درکار نہ ہو۔تو اطاعت او ر روگردانی کی صورت میں اس کو جزا وسزا کا مستحق قرار دیا جانا قیاس کے بالکل قریب ہے۔مگر یہ تصور نہایت غلط ہے ۔ سنت اور قرون اولی ٰ کا اجماع اس کو غلط قرار دیتے ہیں۔
احکام کے اسرار و رموز:عبادات اور معاملات دونوں کے بارے میں شریعت کے احکام میں سے ہر ایک حکم کی کوئی نہ کوئی غایت ، حکمت اور مصلحت ہے۔ جو اس کو دوسرے ادیان اور مذاہب سے ممتاز کردیتی ہے ۔
یہ الگ بات ہے کہ اللہ جل جلا لہ کے ان احکام پر عمل کرنا ضروری ہے اور ان احکام کی مصلحتوں اور حکمتوں کو جاننا شرط اور ضروری نہیں ہے۔احکام کے اسرار و رموز ، مصالح اور حکم کی واقفیت اور شناسائی سے انسان کا سینہ کھل جاتا ہے ۔اور اس ادراک کی روشنی میں شرح صدر کے ساتھ عمل میں ہمہ تن گوش اور مشغول ہو جاتا ہے۔انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ حقیقت حال کھل جا ئے اور ظاہر ہو جائے تو پھر عمل پذیری کا عمل جوش و جذبہ کے ساتھ سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شروع ہو جاتا ہے۔
ابن تیمیہ ان چیدہ چیدہ شخصیات میں سے ایک شخصیت تھے ۔جن کو اللہ تعالی نے احکام کے اسرار ورموز اور مصالح و حکم کے درک میں کافی ساری بصیرت سے مالا مال کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے علم و فضل اور فقاہت و اجتہاد کی بنیاد پر زندگی کے مسائل حل کرنے اور راہنمائی کا سامان تیار کرنے میں منفرد اور متفرد نظر آتے ہیں۔
مقاصد شریعت سے آگاہی:ابن تیمیہ نے مقاصد شریعت سے کما حقہ آگاہی اور واقفیت حاصل کی ہے۔ جس کے نتیجہ میں آپ نے احکام شریعت کے باہمی روابط کو باطریق احسن سمجھا ہے اور آپ نے مقاصد شریعت کی روشنی میں نت نئے مسائل کو نئے حالات وواقعات میں دریافت کرنے میں انتھک کو شش میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مقاصد شریعت کے تناظر میں معاشی معاملات ، ملکی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں راہنمائی کے لئے مقاصد شریعت سے آپ کوپوری پوری بصیرت حاصل ہے۔
مقاصد شریعت کی روایتی فہرست میں 1۔دین 2۔جان 3۔عقل4۔نسل 5۔مال شامل ہیں۔ جبکہ مقاصد شریعت میں اضافہ کی صورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔1۔انسانی شرف و عزت 2۔آزادی او رانفرادی حقوق 3۔امن و امان اور نظم و نسق 4۔ازالہ غربت اور کفالت عامہ 5۔دولت و آمدنی کی تقسیم 6۔بین لاقوامی پر امن تعامل ۔25
ابن تیمیہؒ نے ان مذکورہ مقاصد شریعت کو بنظر عمیق اور بصیرت کے ساتھ مطالعہ فرمایا اور ان کی روح اور جان کو نافذ کرنے میں اپنی پوری صلاحیت اور قابلیت کو صرف کیا۔ انسانیت کی راہنمائی میں متفرد ہو کر اپنی تحقیقات کے زاویوں کو آنے والوں کیلئے جلا بخش گئے ہیں۔
ابن تیمیہ ؒ نے اپنی انفرادیت کی بنا پر مقاصد شریعت کو جان و مال، عزت و آبرو ،عقل او ردین میں محصور کرنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ آپ کے خیال کے مطابق منافع و مفادات کا حصول اور نقصان ومضرت کو دفع کرنا بھی مقاصد شریعت میں سےہے۔ پیش رو لوگوں نے صرف دفع مضرت کو مقاصد شریعت میں گردانا ہے۔ جبکہ آپ کی انفرادی اور اجتہادی کاوشوں میں سے ایک کاوش یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جلب منفعت بھی د نیوی اور دینی فوائد میں سے ہے اور آپ کی انفرادیت کی وجہ بن گئی ہے ۔ جبکہ پہلے اصولی لوگوں کے ہاں اس کا ذکر تک نہ ہے۔
ابن تیمیہ ؒنے ان لوگوں پر سخت تنقید اور کلام کیا ہے۔ جن لوگوں نے مقاصد شریعت میں کمی اور کوتاہی کی ہے۔ اس طرح انسانیت ایک بہت بڑی خیر اور اپنی فلاح سے محروم ہو نے کے درپے ہو جاتی ہے۔ اوراس کے باوجود سے وہ اپنے ثمرات اور نتائج کے حصول میں آسان راستے پر گامزن ہوجاتے ہیں ،جو شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے ۔خیر،بھلائی اور خیر خواہی صرف نقصان دہ اشیاء کو دور کرنے میں نہیں ہو تی ہے بلکہ اشیاء کے حصول میں بھی بھلائی اور خیر کار فرما ہوتی ہے ،بشرطیکہ ان کا حصول طریق شریعت کے عین مطابق ہو۔
اللہ جل جلا لہ کے رسول کریم ﷺ کا ارشاد ذیشان ہے کہ "الدین النصیحۃ"۔26دین خیر خواہی کانام ہے۔دینی خیر خواہی عام ہے کہ وہ خیر خواہی دفع ظلم کی صورت میں ہو یا وہ خیر خواہی استفادہ اور افادہ کی صورت میں ہو۔ یعنی جلب منفعت اسی طرح اہم اور مقاصد شریعت میں سے ہے جس طرح دفع مضرت ہے۔بصورت دیگر اسلامی اور دینی خیر خواہی میں محصور ہو کر رہ جائے گی اور جس سے معروضی کامیابی کے نتائج کم حاصل ہو نگے۔ مقاصد شریعت کو یکطرفہ اور نا قص قرار دینے کی صورت میں آپ متفرد ہو جاتے ہیں ۔
نجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں۔
"ابن تیمیہ کی یہ بات اہم ہے کہ مقاصد شریعت کا بیان ایجابی۔ قدروں پر مشتمل ہونا چاہیے جو انسانوں کو صرف مضرتوں سے بچانے پر اکتفاء نہ کر تی ہو بلکہ ان کی فلاح و بہبود میں اضافہ کو بھی مطلوب قرار دیتی ہو ان کے نزدیک مقاصد شریعت کی فہرست پنجگانہ، یکطرفہ اور اعتبار سے ناقص ہے"۔27
یہی ابن تیمیہؒ کی خصوصیات اور انفرادیت ہے کہ آپ نے تمام مقاصد کا غور و خوض سے مطالعہ کیا ہے۔ اور ان کی اصلی روح کو ظاہر کرنے میں متفرد ہوتے چلے گئے۔مقاصد شریعت میں عقل کا بھی ایک اہم کردار ہے اور اس کی حیثیت متعین کرنے کے لئے ابن تیمیہ کے افکار وآراء بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ جس میں عقل کو بھی ایک گونہ حیثیت سے نوازا گیا ہے ۔احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (728ھ) لکھتے ہیں۔
"لکن معرفۃ ذالک علی وجہ التفصیل، ومعرفۃ الغایۃ التی تکون عاقبۃ الافعال من السعادۃ والشقاوۃ فی الدار الآخرۃ، لا تعرف الا بالشرع"28
مقاصد شریعت کی تجدید و تحدید میں ابن تیمیہ نے انفرادی حیثیت اختیار کی ہے ،جس کی وجہ سے ان مقاصد کا دائرہ کار وسعت پذیر ہو گیا ہے اور ان کی افادیت میں دوچند اضافہ ہو گیا ہے۔ اس وسعت پذیر دائرہ کا ر کی وجہ سے ایک دوسرے سےتبادلہ خیال اور دوسرے امور جن میں امت محمدیہ ﷺ کی خیر خواہی اور بھلائی پوشیدہ ہے۔ وہ بھی ظاہر ہوتی چلی جائیگی۔ مقاصد شریعت کی تحدید ، توسیع و توضیح میں جو کارنامہ ابن تیمیہ نے سر انجام دیا ہے ،اس لحاظ اور اعتبار سے آپ کی شخصیت میں انفرادیت کا پہلو اجاگر ہو گیا ۔اپنی تحقیقات کے ذریعے سے دوسرے لوگوں کا رخ تحقیق کی طرف موڑنا بھی باہمی روابط اورتعاون کا پیش خیمہ ہے ،جو قرآنی تعلیمات ہی کا نتیجہ ہے ۔ اللہ جل جلا لہ نے ارشاد فر مایا ہے۔
" وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ"29
" وَتَعَاوَنُوا عَلَی البرِّ وَالتَّقوَی "30
مقا صد شریعت کے ثمرات کے حصول کیلئے اسلامی حکومت کا اہم کردار ہے۔ امام اور رعایا باہم شریک ہیں ۔امام اور رعایا کودین اور دنیا کے مفادات کے حصول کےلئے معاون اور مددگار ہونا چاہیے۔
ابن تیمیہؒ کی فقاہت اور اجتہادیت :ابن تیمیہؒ کی فقاہت اور اجتہادیت کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو بات واضح اور روشن ہو جاتی ہے ،کہ آپ کی فقاہت اور اجتہادیت کا ایک بڑا حصہ عوام کی راہنمائی کا ہے اور وہ فقاہت اور اجتہادیت جس میں دوسرے مذاہب کے ساتھ تقامل اور موازنہ موجود ہے ان میں بھی عوامی راہنمائی کا ایک سامان موجود ہے۔ جس میں سیاست ،شہریت اور جوروستم کے دفع کرنے کا ایک نظام مرتب کیا گیا ہے۔ آپ کے متفرد ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ آپ نےاسلامی مذاہب کے اندر سے ہر اس چیز کو اخذ کرلیا ہے جن میں آفتاب نبوت کی روشنی اور سلف صالحین کے آثار کا وجود پایا جاتا ہے۔ ان کی فقاہت اور اجتہادیت میں عبقریت کا ظہور ہے جس میں وہ اس بات کے درپے ہیں کہ ان کا مسلک اور ان کی وضاحت سلف صالحین سے ثابت شدہ ہے۔
وہ اس بات کے بھی در پے رہتے ہیں کہ وہ اس کے ثبوت میں مقدمین کی آراء اور افکار کی پیشکش کرسکتے ہیں اور انہیں کے فتاویٰ جات اور انہیں کے اقوال پر ان کا مسلک مبنی ہے ۔ وہ اپنے فتاویٰ میں مذاہب اربعہ کے قریب قریب ہی رہتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کےمسلک کا مرکز و محور سلف صالحین ہی ہیں ۔اسلاف سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کرتے ہیں۔
مسائل طلاق میں وہ اپنے مذہب کو آئمہ اربعہ کے قریب قریب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ،مگر از سر نو تحقیق کی صورت میں اختلاف ممکن ہوجاتا ہے ۔جس کے دو سبب ہیں ان میں سے پہلا سبب بھی یہی ہے کہ ان کے سامنے عظیم المرتبت اوررفیع المرتبت آئمہ اربعہ کی شخصیات ہیں۔اور دوسری طرف شریعت کی نصوص ،آثار سلف ،اجتماعی مصالح اور مفاسد تھے جو اس بات کے متقاضی تھے کہ ان عظیم شخصیات سے ادب و احترام اور تحقیق کے دائرہ میں اختلاف کیا جائے ۔ ان کے تقویٰ اور دین داری نے ان کو مجبور کردیا کہ راہ تقلید پر چلنے کی بجائے اسلامی اصولوں کے مطابق مسائل کے حل میں اپنی تحقیق ظاہر کر دی جا ئے ،چاہے اس کی پاداش میں کوہ گراں سے انہیں کیوں نہ ٹکرانا پڑ جائے ، تو آپ اپنی تحقیق میں مذاہب آئمہ کو پورے خلوص کے ساتھ جگہ دیتے ہیں۔ انہیں کے اصولوں کی روشنی میں عوام کی مشکلات کاحل اور ان پر عائد پابندیوں کے ازالہ کیلے وہ انداز تحقیق اختیار کرتے ہیں جس سے وحشت اور نفرت کو دور کیا جاسکے اور کسی پر حرف بھی نہ آئے۔
ابن تیمیہؒ نے اپنی فقہ میں آزاد صاحب استدلال واستنباط اور دلائل و وبراہین کی پیروی کر نے والےنظر آتے ہیں۔تقلید کی روش پر وہ گامزن ہر گز نہیں ہیں۔اپنی معلومات کی وسعت اور دقت نگاہی کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اختیارات اور تفردات میں کسی مذہب کے پابند ہر گز نہیں آتے ہیں۔بلکہ وہ قرآن وسنت اور اپنے اصولوں کے مطابق مسائل کے حل میں اپنی کاوشوں کو صرف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ملکہ استنباط میں رسوخ :اس کے علاوہ وہ اپنے فتاویٰ جات میں مذہب حنبلی کی حدود اور قیود کا پاس اور لحاظ رکھتے ہوئے مسائل کی تحقیق میں مصروف نطر آتے ہیں۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مذہب حنبلی کے مقلد محض نہیں ہیں بلکہ وہ اس کے محقق ہیں اور آپ کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ میں ملکہ استنباط راسخ صورت میں بدرجہ اتم موجود ہے۔مصادر شریعت ،قیاس ،آثار کی تحقیق اور مصلحت عوام میں "الدین یسر"کے در پے رہتے ہیں۔تاکہ عوام پر بوجھ نہ پڑے اور اس طرح اور اس معاملہ میں وہ سلف صالحین اور آئمہ اربعہ کے اسلوب اور منہج کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔
فقیہہ مجتہد :مقلد محض نہ ہونے اور فقیہ مجتہد ہونے کی وجہ سے آپ متفرد ہوتے ہیں۔لیکن ایسی مثالیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ،جن میں ان کی انفرادیت مذاہب اربعہ یا کسی اور مذہب سے ہم آہنگ نہ ہوتی ہو۔مثال کے طور پر اگر ان کی رائے میں مذاہب اربعہ سے مطابقت اور موافقت نہیں پائی جاتی ہے تو دوسرے مذہب ظاہری سے مطابق ہو جاتی ہے۔ایسے مسائل جن میں آپ کل مذاہب بمعنی کل امت سے الگ اور منفرد ہوں ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
فقہ حنبلی کا پاس: وہ اپنے طریق کار میں حد اوسط اور درمیانی رائے کے قبول کرنے کے در پے ہو تے ہیں یا اس کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ان افکار اور آراء میں تطبیق کی پوری کوشش کر تے ہیں۔مگر وہ فقہ و حدیث کے مقررہ اصولوں سے ہر گز منفرد نہیں ہوتے ہیں۔ان کی پیروی کرتے ہیں اور فقہ حنبلی کا لحاظ اور پاس تو آپ ضرور رکھتے ہیں ،جس کی تدوین اور تہذیب میں ان کے خاندان کا بہت بڑا حصہ ہے۔
متفرد خصو صیات :ابن تیمیہؒ کے متفرد ہو نے کی وجہ سے ان کے متعلق جو کہا گیا یا کہا جاتا ہے۔ ان سے قطع نظر ، نظر انصاف سے دیکھا جائے تو وہ اپنی انفرادیت میں فقہ ،اصول فقہ اور مصادر فقہ سے تعلق اور ممارست کی وجہ سے ایک خاص مہارت اور ملکہ کے مالک ہیں۔جو ان کواپنے اسلاف سے نصیب ہوا۔ثروت فقاہت ،سلف تا خلف وسعت نظری اور بصیرت ایسی خصوصیات اور انفرادیات ہیں جن کا انکار کر نا تعصب اور حسد کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
مذہب حنبلی کی پپروی:ہماری نپی تلی رائے کے مطابق ادوات اجتہاد، روایت و روایت اور اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ فقاہت اور اجتہاد کے ایک اعلیٰ مقام پر تھے۔اگر وہ حنبلی مذاہب کے اصولوں کا پاس اور لحاظ نہ رکھتے ہوتے تو اس صو رت ان کو ایک مستقل اجتہاد کی حیثیت سے ایک مستقل مجتہد کا درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا۔مگر آپ کو اپنے فتاویٰ اور تفردات میں حنبلی مسلک کے اصول وضوابط کی پابندی کی وجہ سے مذہب حنبلی کے مجتہدین میں شمار کیا جائے تو تو قرین انصاف ہے۔
فقہ اسلامی کی وسعت پذیری :یہ حقیقت ہے کہ ابن تیمیہ کے دور میں فقہ اسلامی اپنی وسعت پذیری آخری حدوں کو چھو چکی تھی۔ اسلام کے آئمہ مجتہدین اور حدیث کے محدثین نے اس فقہ اسلامی کو بحث و مناظرہ کے دور سے گزار کر اتنا مصفیٰ اور منقیٰ کر دیا تھا اور ایسے اصول و ضوابط دیئے جا چکے تھے جن کی روشنی میں آنے والے وقتوں میں تخریج آسانی سے کی جا سکتی تھی۔با الفاظ دیگر آئمہ مجتہدین نے پچھلوں کے لیے کسی کام کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی تھی۔
اس کے علاوہ اہل سنت کی فقہ کے علاوہ فقہ شیعت بھی اپنی تدوین کے دور کو عبور کر چکی تھی۔ خوارج نے بھی اپنی فقہ کو مکمل کر نے میں سرعت کا مظاہرہ کر دیا تھا۔ اصحاب تخریج اور اصحاب اجتہاد اتنی کثرت سے ظاہر ہو چکے تھے، جو اپنی فقہ کے اصول وضوابط کے مطابق اس کے قیام اور بقا کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور سبقت لے جانے کےچکر میں ایک دوسرے سے دست بگریباں ہونے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔یہ وہ حالات و واقعات ہیں کہ ابن تیمیہ اپنی فقہی نوادرات اور فتاویٰ جات میں اپنےحوصلے اور ہمت کے مطابق خاص انفرادیت اور استقلالی حیثیت حاصل نہ کر سکے۔تدوین کے دور کو کافی عر صہ گزر چکنے کے بعد آپکی تفردیت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا تھا۔چہ جا ئیکہ آپ کو ایک مستقل مجتہد کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا۔
کامیاب رہنمائی وپیشوائی
ابن تیمیہؒ کے متفرد ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے فقہ کے بارے میں ایک کامیاب راہنمائی اور پیشوائی کے ساتھ ساتھ انقلابی حیثیت کا بھی نعرہ لگایا تھا۔اس دور میں فقہ کے اندر جو فتاویٰ جات دیئے جاتے تھے۔ان کی نوعیت واقعات وحوادث کے مطابق تھی۔ زمانی اور عرفی اختلاف نے ان میں سے ایک خاص قسم کا تنوع پیدا کر دیا تھا۔جس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کی سر حدیں اپنی اشاعت کے حوالے سے مشرق تا مغرب پھیل چکی تھیں۔ ان ممالک اور شہروں کے طبعی لحاظ سے اپنے حوادث اور اپنے واقعات تھے، تو اصحاب تخریج علماء نے ان ممالک اور شہروں کے حوادث واقعات اور زمان و مکان کے عرف کے مطابق راہنمائی و پیشوائی میں مصروف عمل تھے۔ ابن تیمیہ کے زمانہ کے حوادث اور واقعات قریبی ممالک اور شہروں میں یکساں اور برابر تھے ۔ان شہروں اور ممالک میں مدون فقہ اور مذاہب اسلامیہ کے مطابق ان حوادث اور واقعات کی راہنمائی میں اورپیشوائی میں پورے خلوص کے ساتھ کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی تھی ۔
اس زمانہ کے علماء جو اپنی اپنی فقہ کے مطابق حوادث وواقعات کے حوالے سے علمی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ جامد علماء تھے۔ کیونکہ آج اس دور میں بھی حوادث وواقعات کی نوعیت کے مطابق گزشتہ اسلامی فقہی ذخیرہ میں سے نتائج کو تلاش کرکے راہنمائی کا حق اداکیا جاتا ہے۔ ان علماء کے خلوص کا یہ عالم تھا وہ علماء تو کبھی کبھی براہین اور دلائل کی روشنی میں اپنے آئمہ سے اختلاف بھی کرتے تھے ۔اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔ بسا اوقات شوافع اور مالکیہ نے حنابلہ کے اقوال پر فتویٰ دیا ہے ۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وہ علماء جامد نہیں تھے ۔ وہ اس مسلک کو بعض اوقات قبول کرلیتے تھے جو کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہوتا تھا۔
ابن تیمیہؒ نے اپنے زمانہ کے حوادث اور واقعات کے مطابق حنبلی مذہب کے اصولوں کی پیروی میں مقلد محض اور جامد ہونے کا بالکل ثبوت نہ دیا آپ نے جمود وتعطل کی ساری سلاخوں کو توڑ دیا اور کتاب و سنت کی روشنی میں کامیاب راہنمائی اور پیشوائی میں متفرد ہو گئے ،مگر فقہ اسلامی میں جو جمود و تعطل تھا بھی تو آپ نے اس کو متحرک کرکے محرک ثابت ہوئے۔
وراثت علمی سے استفادہ
ا بن تیمیہ ؒ آبائی وراثت علمی کے ساتھ ساتھ اپنی محنت شاقہ اور ذوق مطالعہ کی بصیرت افروز وراثت علمی سے پورا پورا استفادہ کرنے کی وجہ سے اپنی نگارشات میں منفرد نظر آتے ہیں۔ ابن تیمیہ نے جب فقہی میدان عمل میں قدم رکھا تو آپ کے سامنے مذاہب اربعہ کے علا وہ امامیہ ، زیدیہ ، ظاہریہ اور اباضیہ کے مذاہب اور ان کی فقہ کے اقوال اور احوال کا ایک انبار لگا ہو ا تھا ۔جن میں سے ہر ایک مذہب اپنی اپنی جگہ مختلف مناہج ، طریقہ استنباط اور استدلال میں انفرادیت رکھتا تھا اور دوسرے مذاہب سے قدرے مختلف تھا ۔اس صورت حال میں اس بات کے کیئے جانے کا امکان باقی رہ جاتا ہے کہ ابن تیمیہؒ کو کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ وہ ایک ایسی بات کریں جو ان مذاہب سے کوئی لگاؤ نہ رچکھتی ہو، حالانکہ ان مذاہب میں کوئی ایسی نہ ایسی بات موجود ہے جو آنے والوں کیلئے حق اور صواب کی راہ اختیار کرسکتی ہے ۔ جس کی آسان سی مثال یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اقوال ،ا جتہادات اور فتاویٰ جات جن میں وہ متفرد ہوئے ہیں ۔کی باتیں ان مذہب میں بھی آسانی سے تلاش کی جاسکتی ہیں۔حیرت اور ورطہ حیرت میں ڈالنے والی بات تو تب ہوتی جب ابن تیمیہ اپنے تفردات میں سے ایسی بات پیش کرتے جو منجملہ مذاہب میں سے کسی مذہب کے اندر بھی وہ بات نہ پائی جاتی ہو ، تو پھر درست تھا کہ آپ نے یہ حیرت انگیز اور تعجب والا قول کیا ہے۔
دینی تصلب اور ایمانی قوت:اس صورت حال کی حقیقت یہ ہے کہ آئمہ اربعہ اپنے فتاویٰ جات اور اقوال میں اخذ و استنباط کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ ان کا یہ شعار تھا کہ وہ تفردات اور انفرادیت سے بچتے تھے ۔جس کی وجہ دینی تصلب اور ایمانی قوت تھی اور اپنی رائے میں دوسرے کی رائے کی تائید سے حوصلہ افزا ء حالات رائے صواب کی قربت کوبہتر سمجھتے تھے۔ یہی طریقہ کار ابن تیمیہ نے اپنایا ہے کہ آپ ساری اسلامی فقہ کےذخیرہ سےاستفادہ کرتے ہیں اور حتی الامکان کوشش میں رہتے ہیں کہ انفرادیت کی راہ سے دور رہیں مگر ساتھ ساتھ دینی تصلب اور ایمانی قوت کے مطابق دلائل و براہین کی روشنی میں منفرد ہوتے ہیں ۔دونوں صورتوں میں دینی تصلب اور قوت ایمانی کا جذبہ ان کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
وسعت اجتہاد
ابن تیمیہؒ کی فقہیات کا بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ وہ اپنی فقہیات میں ظاہری طور پر حنابلہ کے اصول و ضوابط اور ان کی آراء و افکار کے پابند رہتے ہیں اور حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس مذہب کے دائرہ کار سے باہر نہ نکلیں۔ فقہ کی جزئیات میں اختلاف کا دارومدار بھی حنابلہ کے اصول و ضوابط پر مبنی ہوتا ہے اور اپنے افکار و آراء پر حنابلہ کے اصول و ضوابط کو منطبق کرنے میں پوری کوشش بروئے کار لاتے ہیں۔ بصورت دیگر حنبلی مذہب سے کوئی نظیر اور مثال تلاش کر ہی لاتے ہیں۔جن سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی فقہیات میں اول سے لےکر آخر تک حنبلی مسلک کے پیروکار ہیں۔
دوسرے مذاہب اسلامیہ کے مقابلہ میں حنابلہ کے ہاں اجتہاد کی وسعت پذیری بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنابلہ کے اکثر علماء کے نزدیک یہ بات ہے کہ کسی دور کا مجتہد مطلق سے خالی رہنا درست نہیں ہے ۔محمد بن علی شوکانی لکھتے ہیں۔
"فذھب مجمع الی انہ لایجوز خلو الزمان عن مجتھد"، وقالت الحنابلۃ لایجوز خلو العصر عن مجتھد"31
حنابلہ کے ہاں کبھی بھی تحقیق اور اجتہاد کا دروازہ مقفل نظر نہیں آیا ہے ۔وہ ہر صاحب صلاحیت اور قابلیت کو دعوت اجتہاد دیتے ہیں کہ وہ حنابلہ کے اصول و ضوابط کے مطابق اپنے تحقیقی دائرہ کار کو وسعت دیتا رہے ۔یہی وجہ ہے کہ حنابلہ کا کوئی دور مجتہدین سے خالی نہیں رہاہے ۔ یہانتک کہ ابن تیمیہ نےحنابلہ کے اجتہاد کو اپنی فقہیات کی وجہ سے اوج ثریا پر لے جانے میں کمال کر دکھایا ،یہی وجہ ہے کہ حنابلہ میں اقوال کی کثرت ہے ۔حنابلہ کے ہاں جو قول امام احمد کے اصول و ضوابط پر تخریج شدہ ہوگا وہ مذہب حنبلی ہی شمار کیا جائے گا ۔کثرت اجتہاد کی نمو اور شادابی کی وجہ سے ابن تیمیہ اپنے تفردات میں امام احمد کے اصول و ضوابط پر ہوتے ہیں اور نئی تحقیقات کی وجہ سے منفرد نظر آتے ہیں جو ان کی انفرادی خوبی ہے۔
ہمارے خیال میں یہی وہ نکتہ ہے جس میں وہ مورد الزام ٹھہرائے جاتے ہیں ۔حالانکہ اگر بنظر غور دیکھا جائے تو یہ حقیقت حال بھی کھل جائے گی اورظاہر ہو جائے گی۔ آپ اپنے تفرد کی صورت میں بھی کسی نہ کسی مذہب سے لازمی طور پر میلان اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ابن تیمیہؒ کے ان مسائل اور فتاویٰ جات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جن میں وہ منجملہ مذاہب سے الگ تھلگ راہ پر چل نکلے ہیں۔
اجتہادکی بنیادی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ دلائل کی پیروی کی جائے۔دلائل کی پیروی اور تقلید مطلق کی پہلو تہی آپ کے متفرد ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب بن گیا ہے۔
ابن تیمیہؒ نے اپنے تفردات کی وجہ سے اسلامی روح اور اسلامی طرز فکر میں ایک جان پیدا کردی تھی اور قرون اولیٰ کے دینی تصلب اور قوت ایمانی کے جذبہ میں محرک ثابت ہوئے تھے کہ ہر حال میں اللہ جل جلا لہ اور رسول معظم حضرت محمد ﷺ کی اتباع اور اطاعت کی جائے ۔جو دین اور دنیا میں سرخروئی کی واحد ضمانت ہے۔ آپ نے اطاعت کے اسلامی تصور کو واضح اور نکھار کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
" مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ "32
ابن تیمیہؒ کی اپنی فقہی کاوشوں اور نگارشات میں بنظر عمیق نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روشن ہوتی نظر آتی ہے کہ ابن تیمیہ رجال کے تابع نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ دلائل اور براہین کے تابع نظر آئے ہیں۔آپ ہر اس مذہب کی موافقت اختیار کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ،جس میں دلائل و براہین ،قیاس و کیاستی اور کتاب وسنت کی قوت موجود ہو اور اس ترتیب میں کتاب و سنت درجہ اولیٰ میں گردانتے ہیں ۔
ابن تیمیہؒ اپنی فقہیات میں اگر چہ رجال کے تابع نہیں ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے خود ساختہ اصولوں اور ضابطوں کی بنا پر اپنی فقہیات کی بنیادیں استوار کردیتے ہیں۔اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ ابن تیمیہ رجال کے دلائل و براہین اور ان کے اثبات و اختلاف سے متعلقہ تمام لوازمات کا اصول و ضوابط کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں۔اگر ان کا تجزیہ اصول و ضوابط کی روشنی میں درست ہو پاتا ہے تو وہ رجا ل کو اہمیت دینے اور ان کی قدرو قیمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے ہیں اختلاف رجال سے نہیں ہے۔
ابن تیمیہؒ اپنے تفردات میں کسی کی علمی جاہ و جلالت ، منصب ، تعصب و عداوت اور دوسرےکی تحقیق کی راہ میں حائل امور سے نہ مرعوب ہوتے ہیں اور نہ ہی ان سے اپنے آپ کو آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اپنی صلاحیت و قابلیت کی روشنی میں اجتہادی امور کو بروئے کار لاکر جو قول ان کے سامنے حق کی شکل میں نمودار ہوجاتا ہے اور جس کی پشت پر دلائل و براہین ہوتے ہیں اس کے قبول کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے ہیں ۔ اگرچہ ان پر کیسا ہی دباؤ کیو ں نہ ہو۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1Al-Anbiyā’ 21:7.
2Shāh Walī Allāh Ahmad bin ‘Abd al-Raḥīm, Hujjat Allah al-Bālighah (Karāchī: Nūr Muhammad Kārkhānah Tijārat, S.N), 1:153.
3Al-Tāj al-Mukallil min Jawāhir Māthar al-tarāz al-ākhir (Qatar: Wazārat al-awqāf wa al-sha’ūn al-Islāmiyyah, 2007 A.D), 413.
4Abu Al-Tayyib Muhammad ‘Atā’ullah Bhūjiyanī, Hayāt Sheikh al-islām Ibn e Teimiyyah (Lahore: Maktabah Salfiyah1971 A.D), 663.
5Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah (Beirūt: Dār al-kutub al- ‘Ilmiyyah, 1403 A.H), 2:199.
6Abu Zuhrah Muhammad bin Ahmad, Hayātuho wa ‘Asruho ‘ārā’ho wa fiqhuho (Al-Qāhirah: Dār al-fik al-‘arbī, 1991 A.D), 375.
7Abu al-hasanāt Muhammad ‘Abd al-ḥayy bin ‘Abd al-ḥalīm Lakhnavī, Tarb al-amāthil ‘Alā hāmish al-fawā’id al-bahiyyah (Karachi: Qadīmī kutub khānah, S.N), 180.
8Abu Al-Tayyib Muhammad ‘Atā’ullah Bhūjiyanī, Hayāt Sheikh al-islām Ibn e Teimiyyah, 665.
9Shams al-Dīn Muhammad bin ‘Abd al-Raḥmān al-sakhāvī, almāsid al-ḥasanah fi bayān kathīr min al-aḥādīth al-mushtahirah ‘Alā al-sunnah (Beirūt: Dār al-kutub al-‘Ilmiyyah, 1429 A.H), 423. Hadith No. 962.
10Al-Anbiyā’ 21:78,79.
11‘Abd Allāh bin ‘Abd al-Raḥmān al-dārmī, Sunan al-dārmī (Karachi: Qadīmī Kutub khanah, S.N), 1:110. Hathith No. 342.
12Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 20:28.
13Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ (Riyād: Dār al-salām, 1429 A.H), 611. Hadith No.7352.
14Al-Baqarah 2:170.
15Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 20:212.
16Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 20:213.
17Al-Najam 53:23.
18Al-Nisā’ 4:59.
19āl e Imrān 3:31.
20Al-Zāriyāt 51:56.
21Abī Bakr ‘Abdullah bin Muhammad bin Ibrāhīm ibn e abī Sheibah, al-Musannaf (Beirūt: Dār al-Fikr, S.N), 3:449.
22Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ, Hadith No.39.
23Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ, Hadith No.69.
24Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 3:24.
25Muhammad Nijāt Allāh Siddīqī, Maqāsid Sharī‘at (Islamabad: Idārah Taḥqīqāt Islāmī, 2009 A.D), 21.
26 Sharaḥ Al-Arba‘īn al-Navaviyyah (Lahore: Maktabah Raḥmāniyyah, S.N), 36. Hadith No. 7.
27Muhammad Nijāt Allāh Siddīqī, Maqāsid Sharī‘at, 12,13.
28Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah (Madīnah Mnawwarah: Taba‘ bi amr al-malik Fahad, 1425 A.H), 3:115.
29Al-Tawbah 9:71.
30Al-Mā’idah 5:2.
31Muhammad bin ‘Alī Al-shawkānī, Irshād al-faḥūl ilā Taḥqiḥq al-ḥaq min ‘ilm al-Usūl (Riāḍh: Dār al-Faḍhīlah, 1421 A.H), 2:1035,1037.
32Al-Nisā’ 4:80.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |