1
1
2020
1682060063651_3187
89-100
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/8/7
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/8
Monotheism Sikh Dharma Polytheistic Beliefs Wahdat-ul-Wujud and Wahdat-ul-Shuhud.
أﻷمِیر:جلد01 ؍ شمارہ01 ..(جنوری –جون0 220ء) ) 95(
سکھ مت کا تصور توحید اور اس پر اسلامی تعلیمات کے اثرات کا تجزیاتی مطالعہ
(گرو گرنتھ صاحب کی روشنی میں)
An analytical study of the concept of monotheism in Sikhism and Islamic influences on it
Sheraz Ahmad
The basic concept of monotheism is found in the teachings of Guru Nanak. There are basically two doctrinal things in Sikhism. One is the belief in the oneness of God and the other is the promotion of human brotherhood. In Guru Granth Sahib, the words of some devotees also convey the idea of polytheistic beliefs. However, as far as the words and ideas of Guru Nanak are concerned, they seem to be safe from polytheism. According to Sikh Dharma, God is the Creator and Almighty of the world and he is eternal. Guru Nanak's concept of God is similar to Islam's concept of monotheism. The monotheism of Sikhism as a whole is between Islam and Hinduism. In addition to acknowledging the existence of God, Granth Sahib also acknowledges the greatness of the gods and goddesses. But Guru Nanak used to give the status of creatures to all these gods and goddesses. The philosophy of Wahdat-ul-Wujud is very strong in Sikhism. But in Islam and Sikhism there is a clear difference between the interpretations of the doctrine of Wahdat-ul-Wujud and Wahdat-ul-Shuhud. Undoubtedly, Guru Nanak was deeply influenced by the concept of monotheism in Islam. Similarly, other Gurus have also stated contradictory teachings in their discourse on monotheism in Granth Sahib.
Keywords: Monotheism, Sikh Dharma, Polytheistic Beliefs, Wahdat-ul-Wujud and Wahdat-ul-Shuhud.
انسانوں کے اجتماعی اعمال سے تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور انسانی اعمال ان کے افکار و نظریات سے سرزد ہوتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت اور فکرو عمل کی بنیاد عقیدہ ہوتا ہے۔کسی بھی انسانی معاشرے میں عقیدہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہےکیونکہ عقائد کی روشنی میں جملہ شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ایک عملی نظام تشکیل پاتا ہے اور یہی نظام کسی معاشرے میں اس مذہب کی شناخت کا سبب بنتا ہے۔عقیدہ سے مراد وہ قلبی تصدیق ہے جو کسی انسان میں یقین کی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جو انسان کے دل میں ایسا پختہ یقین پیدا کرے کہ اس کے مذہبی معاملات کےصحیح اور درست ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔ عقیدہ وہ بنیادی ستون ہے جس پر تمام افعال و اعمال کی بنیاد ہے۔ عقیدہ وہ کیفیت ہے جسے انسان اپنے قلب سے اس طرح تسلیم کرے کہ اسے سکون و ثبات مل جائے اور کسی قسم کی مزید طلب و تردد باقی نہ رہے۔عقائد میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل عقیدہ توحید ہے۔
توحید کے لغوی معنی وحدت کے ہیں ۔ اصطلاح میں توحید سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدت کو تسلیم کرنا اور اس پر استقامت اختیار کرنا ہے، یعنی انسان کے تمام امور میں تصور توحید کو اس طرح برقرار رکھا جائےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات واحد ، اس کے اختیارات، اس کی صفات الوہیت اور عبادات میں کوئی اس کا شریک نہ ہو۔عقیدہ توحید تمام عقائد کی اصل الاصول ہے اور صالح اعمال دین کی فرع ہیں۔
سکھ مت میں تصور توحید:
برصغیر میں ایک خدا کی عقیدت و محبت کے ساتھ پرستش کی روایت نہایت قدیم ہے۔چودھویں صدی عیسوی تک ہندوستان کے مذہبی رجحان یعنی بھگتی مت اور مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے کٹھ جوڑ کے نتیجہ میں کچھ نئے رجحانات پیدا ہونا شروع ہوئے ۔ بھگتی تحریک میں ایسے سنت اور روحانی پیشواء پیدا ہوئے جو معبود حقیقی کے لئے اگرچہ ہندی اصطلاحات رام، ہری اور سوامی استعمال کرتے تھے لیکن اس سے ان کی مراد خدائے واحد ہی ہوتا تھا جو جسم سے پاک ہے اور وہ اپنی ذات، صفات اور کمالات میں یکتا ہے۔اسی مخصوص مذہبی ماحول میں سکھ مذہب نے جنم لیا اور بھکتی مت کی ان خصوصیات کو نئی بلندیوں سے متعارف کروایا۔سکھ مت میں تصور خدا کو مول منتر کے ذریعے آسانی سے بیا ن کیا جا سکتا ہے۔ مول منتر کو ان کے تمام کلام میں سب سے زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے۔اس میں باباگرو نانک نے بڑی جامعیت سے ذات خدا وندی کا تصور پیش کیا ہے۔ انھوں نے بت پرستی کی بڑی سختی سے مخالفت کی ہے۔مول منتر کو گرو گرنتھ صاحب کے شروعاتی اشعار میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
ایک اونکار ست نام کرتا پُرکھ نربھو نر ویر
اکال مورت اجونی سہہ بھن گر پر ساد1
” خدا ایک ہے۔ اسی کا نام سچا ہے۔ وہی قادر مطلق ہے۔ وہ بے خوف ہے۔ اسے کسی سے دشمنی نہیں ۔ وہ ازلی اور ابدی ہے۔ بے شکل و صورت ہے۔ قائم بالذات ہے۔ خود اپنی رضا اور توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔“
‘Concise Encyclopedia of Sikhism’میں تصور توحید کو یوں بیان کیا گیا ہے:
“Sikhism is uncompromisingly monotheistic and the unity of the deity is consistently emphasized. Briefly, God for the Sikhs is described in the mul mantra. One Supreme being, Immutable and Eternal Name, the creative masculine principle, without fear and without rancour, the timeless verity, unincarnated and self-existent, known through His grace.”2
”سکھ مذہب غیر متصادم طور پر توحید پرست ہے اور مستقل طور پر خدا کی واحدانیت پر زور دیتا ہے۔مختصراً سکھوں کے لئے خدا کا تصور مول منترا میں بیان کیا گیا ہے۔اقتدار اعلیٰ کا مالک ، غیر متزلزل اور ابدی نام، بغیر کسی خوف اور رنجش کے لازوال حقیقت، ابدی سچائی، بے نیاز اور ہر جگہ موجود، جو اپنے فضل کے ذریعے جانا جاتا ہے۔“
سکھ افکار کے مطابق حقیقی خدا صرف ایک ہے ۔جس طرح چنگاری آگ کے بغیر وجود نہیں رکھ سکتی اسی طرح انسانی روحیں خدا کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں ۔ خدا ساری کائنات کا عالم ہے کیونکہ وہ ہماری ضروریات کو جانتا ہے۔ وہ مہربان ہے کیونکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔وہ غالب ہے کیونکہ وہ ناقابل تسخیر ہے۔وہ لافانی ہے کیونکہ وہ پیدائش اور موت سے بالا تر ہے۔ تخلیق کائنات سے قبل کائنات کو تخلیق کرنے کی خدا کی مرضی موجود تھی۔ گرو نانک دیو نے اس کیفیت کو گرو گرنتھ صاحب میں یوں بیان کیا ہے۔
اربد نربد دھند ھوکارا دھرن نہ گگنا حکم اپارا
نا دن رین نہ چند نہ سورج سن سمادھ لگائیدا
کھانی نہ بانی پیئون نہ پانی اوپت کھپت نہ آون جانی
کھنڈ پتال سپت نہی ساگر ندی نہ نیر وہائیدا
نا تد سرگ مچھ پیالادوزک بہشت نہی کھے کالا
نرک سرگ نہی جمن مرنا نہ کوئی آئے نہ جائیدا 3
”ان گنت سالوں سے اندھیرا تھا ۔ نہ آسمان تھا نہ زمین، صرف اس کا لامتناہی حکم موجود تھا۔نہ دن نہ رات، نہ سورج اور نہ چاند ، یہ اس کی مرضی تھی۔ وہ تجریدی مراقبہ میں تھا۔ نہ تو بارودی سرنگیں تھیں اور نہ ہی نباتات، نہ ہوا تھی اور نہ پانی، نہ زندگی تھی اور نہ موت اور نہ ہی روحوں کی نقل مکانی کا دور تھا۔یہاں نہ براعظم تھے نہ کہکشائیں تھیں ۔ نہ سمندر تھے اور نہ جنت نہ دوزخ ، نہ کوئی خلقت اور نہ ہی کوئی تباہی تھی۔“
اسمائے خدا وندی:
گرو گرنتھ صاحب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ گرو نانک نے خدا کے لئے کئی نام ذکر کئے ہیں ،جن میں سے کچھ ہندی روایات سے اخذ کئے ہیں مثلاً ہری، گوبند، موہن کرنہار وغیرہ اور اسی طرح کچھ مسلم روایات سے ماخوذ ہیں ۔ جیسے اللہ، خدا، رحیم، رب وغیرہ۔ مگر ان کی مراد وہی ایک واحد ذات ہے جس کی عقیدت کے ساتھ بندگی کی جائے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی نئے اسماء بھی ذکر کئے ہیں۔ آپ اس ذات کو ست کرتار (خالق حقیقی) اور ستنام (نام حق) سے موسوم کرتے ہیں۔
خدائے واحد کا تصور:
سکھ مت اپنے متبعین کو واحدانیت کی سختی سے تلقین کرتا ہے اور ایک سچے خدا پر بھروسہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ جیسا کہ گرو نانک کی تعلیمات ہیں۔ خدا ہر چیز میں موجود ہے اور وہ بذات خود ہر چیز سے واقف ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں، ساری دنیا اس کی محتاج ہے۔خدا نےاپنے ایک حکم سے پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے۔نہ صرف اس کائنات کو پیدا کیا ہے بلکہ اس کی ہر ایک چیز کو منظم اور مربوط انداز سے ترتیب بھی دیا ہے۔ پانی اور ہوا کا امتزاج کرتے ہوئے انسانی جسم کو زندگی دی ، چاند اور سورج کو ایک عظیم فانوس بنایا اور زمین کو انسانوں کی زندگی اور موت کے لیے تخلیق کیا۔
گرو نانک اور دوسرے سکھ گرو صاحبان نے گر وگرنتھ صاحب کے متعدد مقامات پر خدا تعالیٰ کی توحید کو اپنایا ہے اور اس کی صفات کاملہ کو بیان کیا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق خدا تعالیٰ کی ذات واحد ہے اور وہ ہمیشہ سے قائم و دائم ہے۔پیدائش اور موت سے مبرا ہے ۔وہ ذات کل عالم سے جدا بھی ہے اور سب کے ساتھ منسلک بھی ہے۔ وہ ہر شے میں موجود ہے ، ذرے ذرے میں اس کا جلوہ ہے لیکن وہ سب سے علیٰحدہ اور جدا ہےمگر اس کا احساس ایک ہادی کامل ہی کر سکتا ہے۔ یہ کائنات اسی ذات کے فضل و کرم سے چل رہی ہے اور اس کے جلوے جا بجا موجود ہیں۔ گرونانک خالق کائنات کی واحدانیت کا پرچار کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو واضح انداز میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
صاحب میرا ایک ہے اور نہیں بھائی
کرپا تے سکھ پایا ساچے پرتھائی4
”ہمارا خالق اور مالک ایک ہی ہے۔اور کوئی نہیں ہے۔ اس کے فضل سے ہی انسان سکھ اور آرام پا سکتا ہے۔“
سکھ مذہب میں بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ خدا ایک تصور کے طور پر نہیں بلکہ ایک حقیقی وجود کے طور پر موجود ہے۔ خدا ایک ناقابل بیان حقیقت ہے مگر اس شخص کے لیے قابل فہم ہے جو وقت اور توانائی صرف کر کے اس عظیم ہستی کا ادراک حاصل کر لیتا ہے۔سکھ گرو صاحبان نے خدا کے وجود کے ثبوت کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔ان کے نزدیک خدا ایک ایسی حقیقت ہے جس کے لیے کسی بھی منطقی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔سکھ عقائدکے مطابق خدا ایک ہے، برحق ہے، عظیم و دانا ہے، اس کا کوئی جونی چکر نہیں ، کوئی علامت و رنگ نہیں ، کوئی ذات و نسب نہیں، کوئی شکل و صورت نہیں اور کوئی خاکہ و نقشہ نہیں ۔ اس ذات کی تعبیر کا کوئی کافی و شافعی طریقہ ممکن نہیں۔ وہ حرکت و تغیر سے عاری ، بے خوف و خطر ، اور روشن ہے۔ وہ ناقابل تصور طاقت کا مالک ہے۔
گرو گرنتھ صاحب کے متعدد مقامات پر خدا تعالیٰ کو شجرہ نسب سے پاک قرار دیاگیا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
الکھ اپارا گنم اگو چر نہ تش کال نہ کرماں
جات اجات اجونی سنبھو نہ تش بھاؤ نہ بھر ماں
نہ تش مات پتا ست بندھپ، نہ تش کام نہ ناری
اکل نرنجن اپر پرنپر سگلی جوت تمہاری5
”نہ تو خدا کا کوئی شجرہ نسب ہے اور نہ آئندہ کے لئے کوئی نسل ہے اس کی نہ تو کوئی ماں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی باپ ہےاور نہ ہی اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی بیوی ہےاور نہ ہی اس کا کوئی رشتہ دار ہے۔ وہ ان باتوں سے بلند وبالا ہے ۔اس کی شناخت اس کے پاکیزہ کلام کے ذریعے ہوتی ہے۔“
گرو نانک ظاہری قوانین کی پیروی کے مقابلے میں تقدیر الہٰی پر راضی رہنے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔اپنی خواہش نفس کو ختم کر کے راضی بہ رضا رہتے ہوئے ہی انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے متبعین کو رب کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔رب کی رضا اور خوشنودی کے سامنے سر کو جھکا نےاور اس کو اپنا رب یقین کر کے اپنی خودی اور خود پسند ی کو مٹا نے کی تلقین کرتے ہیں۔خدا ئے ذوالجلال کی تعریف کرتے ہوئے بابا نانک فرماتے ہیں:
گاونہے تدھنوں کھنڈ منڈل
کر کر رکھے تیرے تھارے 6
”اےخدا تیری بنائی ہوئی ساری کائنات تیرے نام کی تسبیح پڑھ رہی ہے۔“
گرو نانک اپنے پروردگار سے اظہار محبت کرتے ہوئے گرو گرنتھ صاحب میں رقمطراز ہیں:
نانک کاغذ لکھ مناں پڑھ پڑھ کیجئے بھاؤ
مسو توٹ نہ آوی لیکھن پون چلاؤ
بھی تیری قیمت نہ پوے ہوں کیوں ڈاکھاں ناؤ 7
”اے نانک لاکھوں من کاغذ ہوں اور میں پڑھ پڑھ کر ان کا خلاصہ نکالوں اور بیشمار سیاہی اور قلم بھی ہوں اور ہوا کی مانند چل رہے ہوں۔مگر میں پھر بھی تیرا حسن بیان کرنے سے قاصر رہوں گا۔ یہ بیشمار کاغذ اور سیاہی ختم ہو جائیں گے مگر تیرا حسن ختم نہیں ہو گا۔“
سکھ مت میں بت اور مورت بھگتی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔اپنے اصلی مالک خدا کو چھوڑ کر مورتیوں سے مدد مانگنے سے منع کیا گیا ہے۔یہ بت اور مورتیاں کسی کے نفع یا نقصان کی مالک نہ ہیں۔لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے گرو نانک گروگرنتھ صاحب میں فرماتے ہیں۔
دیوی دیوا پوجئے بھائی کیا مانگو کیا دے
پاہن نیر پکھا لیے بھائی جل مہ بڈہہ تے8
”جو لوگ دیوی اور دیوتاؤں کو پوجتے ہیں اور ان کے سامنے سر جھکا کر ناک رگڑتے ہیں اور ان کو ضرورت پوری کرنے والا سمجھتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں ۔ وہ غور سے سن لیں یہ مورتیاں اور بت نہ تو کسی کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ کچھ لے سکتے ہیں۔“
گرو نانک خدا سے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ندر تدھ ارد اس میری جن آپ اپائیا
تاں میں کہیا کہن جاں تجھے کہائیا 9
”اے اللہ آپ کا کام تو کرم کرنا ہے اور میرا کام دعا مانگنا ہے۔ اے خدا تجھے کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ تو خود بخود ہے۔ میں تیرا ذکر بھی تیری دی ہوئی توفیق ہی سے کر سکتا ہوں ۔ تیری توفیق کے بغیر میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔“
گرو صاحبان اپنے آپ کو خدا کے سامنے عاجز و بے بس تسلیم کرتے ہیں ۔ دنیا کی تمام نعمتیں فانی ہیں۔ اگر لازوال اور لافانی رب کا قرب حاصل ہو جائے تو یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ گرو جی گرو گرنتھ صاحب میں بیان کرتے ہیں:
تو پربھ داتا دان مت پورا ہم تھارے بھکاری جیئو
میں کیا مانگوں کچھ تھر نہ رہائی ہر دیجے نام پیاری جیئو 10
”اے دونوں جہاں کے مالک حقیقی داتا تو ہی ہے۔ ہم سب تیرے ہی در کے بھکاری ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ تجھ جیسے غیر فانی خدا سے کیا مانگوں ۔ کیونکہ دنیا کی ہر چیز فنا اور ختم ہو جانے والی ہے ۔ اس لئے دنیا اور دنیا کی چیزوں کو مانگنا ایسا ہی ہے کہ آپ سے فنا ہونے والی چیز کو مانگتا ہوں ۔ اس لئے اے مالک میں آپ سے دعا کر کے آپ ہی کو مانگ رہا ہوں۔آپ مجھے مل جائیں کیونکہ آپ کی ذات فنا ہونے والی نہیں ہے۔ آپ مل جائیں تو سب کچھ مل گیا، اس لئے آپ کو مانگ رہا ہوں۔“
گرو گرنتھ صاحب میں موجود خدا کی صفات:
گرو گرنتھ صاحب کا ایک بنیادی اور خالص مضمون توحید الہٰی ہے۔اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ گروگرنتھ صاحب میں متعدد مقامات پر بعض بھگتوں کا کلام ملتا ہے جس سے مشرکانہ عقائد اور تصورات کی عکاسی ہوتی ہے۔تاہم جہاں تک گرو نانک کے عقائد اور کلام کا تعلق ہے وہ مشرکانہ نظریات سے مختلف ہے اور ان کی تعلیمات شرک سے بلند و بالا ہیں۔ گرو نانک نے گرنتھ صاحب میں خدا تعالیٰ کی جن صفات کاملہ کا تذکرہ کیا ہے وہی صفات الٰہیہ قرآن مجید میں بھی موجود ہیں۔گرو گرنتھ صاحب میں گرو صاحبان اور بعض بھگتوں نے اپنے اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کیا ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ سکھ مت میں فلسفہ اوتار پھر سے امنڈ آیا اور گرو ارجن دیو کے زمانہ کے بعد اس میں شرک کی ملاوٹ بھی نظر آتی ہے۔گرو گرنتھ صاحب کا تجزیاتی مطالعہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ذیل صفات کا تذکرہ ملتا ہے۔
مددگارخدا:
خالق کائنات اپنے بندوں کا ہمیشہ معاون ومددگار ہوتا ہے۔ جو انسان اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑتا۔ انسان خواہ کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو، تمام دنیا اس کی دشمن بن جائے،اگر اپنے خالق کی عظمت اس کے دل میں ہے تو ان مشکلات سے بآسانی نکل آئے گا۔ رب تعالیٰ اس کے لئے راہیں کھول دے گا اور اس پر اپنا فضل اور رحم فرمائے گا۔ گرو ارجن دیواسی کیفیت کو گرو گرنتھ صاحب میں بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
جاں کو مشکل ات بنے ڈھوئی کوئے نہ دے
راگو ہوئے دشمناں ساکھ بھی بھج کھلے
سبھو بھجے آسرا چکے سبھ اسراؤ
چت آوے اس پار برہم لگے نہ تتی واؤ 11
”جب کوئی شخص بہت سی مشکلات کا شکار ہو جائے ، اسے کوئی پناہ دینے کے لئے بھی تیار نہ ہو اور اس کے دشمن بھی اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہوں ۔ یہاں تک کہ اس کے نزدیکی رشتہ دار بھی اسے چھوڑ دیں اور اس کے تمام سہارے ایک ایک کر کے دم توڑ جائیں ۔ایسی حالت میں اگر اس شخص کے دل میں خدا کی محبت اور عظمت قائم ہے تو اسے گرم ہوا بھی نہیں چھو سکے گی۔ “
یکتائی:
گرو گرنتھ صاحب میں بابا نانک نے توحید کا جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کے مطابق خدا اپنی صفات میں یکتا ہے۔ توحید کی صفات خاص کسی دوسری ہستی کی طرف منتقل نہیں کی جا سکتیں۔ چنانچہ گرو گرنتھ صاحب میں مرقوم ہے:
صاحب میرا ایکو ہے
ایکو ہے بھائی ایکو ہے
آپے مارے آپے چھوڈے آپے لیوے دیئے
آپ ویکھے آپے وگسے آپے ندر کریئے12
”میرا خالق اور مالک ایک ہی ہے۔ہاں بھائی وہ ایک ہی ہے۔وہی مارنے والا ہے اور وہی زندہ کرنے والا ہے۔ وہی دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور وہی جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے۔“
گرو گرنتھ صاحب میں جہاں پر خدا تعالیٰ کے جلووں کا ہر چیز میں موجود ہونا بیان کیا گیا ہے، اس طرح اس امر کی بھی وضاحت ملتی ہے کہ خدا اپنی مخلوق سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ وہ اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے ۔ اس دنیا کی ہر چیز اس کی دسترس میں ہے۔وہ کسی بھی چیز سے غافل نہیں ہے۔ اس کائنات کی تخلیق کے بعد وہ اس سے باخبر ہے۔خالق اور مخلوق کا کسی بھی حوالے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ گرو نانک گرو گرنتھ صاحب میں خدا کی واحدانیت کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
جن اُپائی رنگ روائی
بیٹھا ویکھے وکھ اکیلا 13
”جس خدا نے اس عالم کائنات کی تخلیق کی ہے ، وہ واحد یگانہ اور اپنی مخلوق سے الگ ہے نیز ہر چیز پر اس کی نظر ہے۔“
رحیم و کریم:
گرو گرنتھ صاحب میں خدا تعالیٰ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جو شخص اپنے سابقہ گناہوں پر نادم ہو ، سچے دل سے توبہ کا خواستگار ہو اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرے تو خدا تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ راگ آسا میں گرو نانک فرماتے ہیں:
صاحب ردے وسائے نہ پچھوتا وہی
گناہ بخشنہار شبد کما وہی
نانک منگے سچ گر مکھ گھا لئے
میں تجھ بن اور نہ کوئی ندر نہا لئے 14
”خدا کی عظمت اور محبت کواپنےدل میں جگہ دینے والا انسان کبھی بھی نہیں پچھتاتا اور ایسے انسان کے تمام گناہ پروردگار بخش دیتا ہے۔نانک جی کہتے ہیں کہ اگر کوئی سچی توبہ کرے تو ایسے انسان کے خدا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اوراس کے سوا کوئی حقیقی مہربان نہیں ہے۔“
انسان خطا کا پتلا ہے۔اس سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے رب کے حضور گناہوں کا اعتراف کر لیتا ہے اور اس سے بخشش کا خواستگار ہوتا ہے تو رحیم و کریم رب اپنے بندے کو معاف کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔چنانچہ گرو ارجن گرو گرنتھ صاحب میں فرماتے ہیں:
کر اُپدیش جھڑکے بہو بھاتی بہڑ پتا گل لاوے
پچھلے اوگن بخش لئے پربھ آگے مارگ پاوے 15
”وہ خدا غلطی پر انسان کی سرزنش بھی کرتا ہے اور پھر جب وہ اصلاح کر لیتا ہے اور اپنے گناہوں پر نادم ہوتا ہے ۔ مولا ہر اس شخص کے جملہ گناہ معاف کر دیتا ہے جو صدق دل سے توبہ کر کے آئندہ ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔“
خدا تعالیٰ کی رحیمی اور کریمی کو گرو گرنتھ صاحب میں متعدد مقامات پر وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔خدا تعالیٰ کی صفت رحیم و کریم کا تذکرہ گرو گرنتھ صاحب میں ان الفاظ میں بھی کیا گیا ہے۔
اسنکھ خطے کھن بخشنہارا
نانک صاحب سدا دئیارا 16
”خدا تعالیٰ انسان کی لاکھوں غلطیاں پل بھر میں معاف کر دیتا ہے۔نانک جی کہتے ہیں کہ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔“
وحدت الوجود کا تصور:
اس کائنات میں جگہ جگہ خدا تعالیٰ کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ انسان بذات خود قدرت خداوندی کا بہت بڑا شاہکار ہے۔ان چیزوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے اوصاف و کمالات اور اس کےمظاہر قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جیسے کسی تصویر کو دیکھ کر مصور کی طرف ذہن جاتا ہے۔ اگر تصویر اچھی ہو تو یہ مصور کے فن اور کمال کا اظہار کرتی ہے۔ مصور اس تصویر کے اندر نہیں ہوتا بلکہ تصویر کے باہر ہوتا ہے مگر تصویر میں اس کی مصوری جھلکتی ہے۔ اسی طرح شاعر اپنے کلام کے اندر نہیں ہوتا ، شعر سے اس کے کلام کا اندزہ ہوتا ہے۔ کائنات کی ہر ہر چیز اور خود انسان پروردگار کی قدرت اور اس کی تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
گرو گرنتھ صاحب میں صفات الہٰیہ کو بیان کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے جلوے ہر جگہ موجود ہیں اور جب یہ جلوے کسی شخص کو نظر آتے ہیں تو خالصتاً موحد بن جاتا ہے۔ یہ مقام خدا کے فضل سے نصیب ہوتا ہے۔ جیسا کہ گرو گرنتھ صاحب میں مرقوم ہے:
سبھناں مہے ایکو ایک وکھانے جاں ایکو ویکھے تاں ایکو جانے
جاں کو ئی بخشے میلے سوئے ایتھے اوتھے سدا سکھ ہوئے
کہت نانک کون بدھ کرے کیا کوئی سوئی مکت جاں کو ئی کرپا ہوئے
ان دن ہرگن گاوے سوئے شاستر بید کی پھر کوک نہ ہوئے 17
”ہر ایک چیز میں خدا کا جلوہ موجود ہے ۔ اگر کسی انسان کو یہ مقام مل جائے کہ اسے ہر شے میں خدا کا جلوہ نظر آنے لگے تو ایسا انسان واقعی توحید پرست کہلانے کا حقدار ہے۔ یہ مقام اپنی کسی بسیار کوشش کی بناء پر حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ جسے چاہتا ہے، بخشتا ہے۔ گرو نانک فرماتے ہیں کہ یہ کوشش خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو ، نجات صرف اسے ملتی ہے جو فضل الہٰی کا وارث ہو اور اسی کو شب و روز ذکر الہٰی کی توفیق ملتی ہے۔اس کے بعد ایسا شخص شاستروں اور ویدوں کی طرف سے عائد شدہ رسومات سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔“
سکھ مت کے مذہبی ادب میں جہاں وحدت الوجود کا تصور موجو دہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کوبھی بڑی صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ خالق کائنات اپنی مخلوق سے الگ ہستی ہے۔اس کائنات کا پورا نطام اس کے تصرف میں ہے۔
اوتار پوجا کی تائید:
ہندومت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا انسانوں اور مختلف جانوروں کی شکل میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔سری رام چندر اور سری کرشن کو بھی خدا کا اوتار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کو اوتار فلاسفی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں ایسے شبد موجود ہیں جن کی وجہ سے بھگت بانی میں تضاد پایا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر اوتار کی تائید کی گئی ہے اور بھگت بانی کے شبدوں میں سری کرشن اور رام چندر کو الوہیت کو درجہ دیا گیا ہے۔ جیسا کہ گرو گرنتھ صاحب کے ذیل شبد میں رام چندر اور سری کرشن کی الوہیت کو تسلیم کیا گیا ہے:
دھن دھنن او رام بین باجےمدھر مدھر دھن انہت گاجے
دھن دھن میگھا روما ولی دھن دھن کرشن اوڈھے کانبلی 18
” ہر جگہ پر رام چندر اور سری کرشن کا چرچا ہے۔ دنیا میں انھی کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔دنیا ان کو تسلیم کر چکی ہے۔“
ان شبدوں میں اوتاروں کی مدح سرائی کی گئی ہے اور رام چندر اور سری کرشن کے گیت گائے گئے ہیں۔
اوتار دھارن کی نفی:
گرو گرنتھ صاحب میں اوتار پوجا کےاس نظریے کی تائید کے ساتھ ساتھ نفی بھی کی گئی ہے۔گرو گرنتھ صاحب میں بھگت بانی کے ایسے شبد بھی موجود ہیں جن میں رام چندر اور سری کرشن کی الوہیت کا رد کیا گیا ہے۔ گرو نانک صاحب نے مول منتر میں خدا کی ایک صفت اجونی کا تذکرہ کیا ہے۔جس سے مراد غیر مجسم اور لامحدود خدا کا تصور ہے۔گرو گرنتھ صاحب میں خدا کے اوتار دھارن کرنے کا تصور غلط قرار دیا گیا ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں گرو ارجن دیو لکھتے ہیں:
اوتار نہ جانے انت پرمیشر پار برہم بے انت 19
”ان لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ وہ اوتاروں یعنی رشیوں کو عین پرمیشور سمجھتے ہیں۔پرمیشور تو انسانی قالب اختیار کرنے سے پاک ہے۔“
اسی طرح بھگت کبیر اوتاروں کا رد کرتے ہیں اور خدا کی ہستی کو کسی حدود کے بغیر غیر مجسم خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ تکنیکی انداز میں سمجھاتے ہوئے گرو گرنتھ صاحب میں لکھتے ہیں:
تم جو کہت ہو نند کو نندن نند سو نندن کاکو رے
دھرن اکاس دسو دس ناہی تب ایہہ نند کہا تھورے
سنکٹ نہی پرے جون نہی آوے نام نرنجن جاکو رے
کبیر کو سیامی ایسو ٹھا کر جا کے مائی نہ باپو رے 20
” تم یہ کہتے ہو کہ نند کا بیٹا خدا یا خدا کا اوتار ہے تو نند کا باپ کیا ہو گا؟ کیونکہ تمہارے عقیدے کی رو سے اگر نند کا بیٹا خدا یا خدا کا اوتار ہو سکتا ہے تو نند کا باپ تو اس سے بھی بلند و بالا ہونا چاہیے۔جب یہ زمین و آسمان نہیں تھےاس وقت تمہارا مصنوعی خدا اور فرضی معبود کہاں تھا؟ یاد رکھو جس ہستی کا نام خدا ہے وہ کسی بندش یا حدود میں نہیں آتا۔وہ غیر مجسم اور لامحدود ہے۔کبیر جی کہتے ہیں کہ ہم تو ایسے خدا کو ماننے والے ہیں جو ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے۔“
خداتعالیٰ کا سروپ:
گرو گرنتھ صاحب میں بعض مقامات پر خدا تعالیٰ کا سروپ بھی بیان کیاگیا ہے۔ اس میں خد اکی ایسی صفات کو بیان کیا گیا ہے جو کہ انسانوں کا خاصاہیں۔ بظاہر یہ سروپ انسانوں کو سمجھانے کے لیے بیان کیا گیا ہےلیکن اگر ان صفات کولفظی اعتبار سے دیکھا جائے تو شرک کے درجے میں شمار ہوتی ہیں۔ گرو نانک نے اپنے کلام میں خدا کو جسم و جسمانیت سے پاک قرار دیا ہے ، لہٰذا اسے شاعر کا انداز بیان کہہ سکتے ہیں۔سروپ بیان کرنے کے بعد خدا کی عبادت کی تلقین بھی موجود ہے۔جیسا کہ گرنتھ صاحب میں مذکور ہے:
ترلا جیانی آپ بھانی اچھ من کی پورریئے
سارنگ جیئوپگ دھرے ٹھم ٹھم آپ آپ سندھوریئے21
”اے مولا تیری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں اور دانت بھی موتیوں کی مانند ہیں۔ تیرا ناک بہت خوبصورت ہےاور بال بہت لمبے ہیں۔تیرا جسم سونے کا ہے۔اے سہیلیو اسی کی عبادت کرو۔اے خدا تیری چال بہت اچھی ہے اور تیرا کلام بہت میٹھا ہے اور تو دل کی تمام مرادیں پوری کرنے والا ہے۔“
حکم و رضا کا تصور:
سکھ مت میں حکم بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔اس کا تعلق برہما اور اس کی تخلیق سے ہے۔سکھ مت کے مذہبی فلسفے میں خدا تعالیٰ کےفرمان، فیصلے اور قانون کو حکم کہا جاتا ہے۔گرو نانک دیو اپنے کلام میں اکثر مقامات پر لفظ 'سلطان' کا استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے ایک خود مختار اور سپریم کمانڈر جس کا حکم غالب ہو۔
پروفیسر کوہلی لکھتے ہیں کہ:
“Several words have been used as synonyms of Hukam in Guru Granth Sahib viz. Aagya, Anroop, Phurman, Parwana, Chiri, Haakaara, Qudrat, Lekh, Kirt, Kalam. Bachan, Shabad, Bani, Amar and Raza.” 22
”گرو گرنتھ صاحب میں حکم کے لیے متعدد مترادف الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً آگیا،انروپ، پُھرمن، پروانہ، چری، ہکارا، قدرت، لیکھ، کِرت، کلام، بچن، شبد، امراور رضا وغیرہ۔“
اس کے علاوہ سکھ صحائف میں حسب ذیل الفاظ سے بھی حکم کی وضاحت کی گئی ہے۔
۱۔ حکم خدا وندی ناقابل تسخیرہے۔
۲۔ ایک حکم خدا کی طرح ہوتا ہے۔
۳۔ حکم خالق و مالک ہے ۔ روح اور دنیا کو بچانے والا اور تباہ کرنے والا ہے۔
۴۔ حکم لافانی ہے۔
۵۔ حکم کرم (نیک اعمال کرنے) اور آواگون سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
۶۔ حکم سے آگاہی باعث اجر ہے جبکہ اس سے نادانی باعث سزا ہے۔
سکھ فلسفے کے مطابق حکم اٹل، نڈر، قادر مطلق اور عداوت کے بغیر ہوتا ہے۔ حکم کو دل و جان سے سرتسلیم خم کر لینا اجر وثواب کا باعث ہے جبکہ حکم سے کنارہ کشی باعث تادیب ہے۔یہ نیک اعمال کرنے کا باعث اور جونی چکر سے سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
خلاصہ بحث:
جب ہم گرو نانک کی تعلیمات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس میں توحید کا بنیادی تصور ملتا ہے۔ سکھ مذہب بھی توحید کا قائل ہے ۔سکھ دھرم میں بنیادی طور پر دو اعتقادی چیزیں نظر آتی ہیں ۔ ایک خدا کی وحدانیت پر یقین اور دوسرا انسانی بھائی چارے کا فروغ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ گرو گرنتھ صاحب میں بعض بھگتوں کے کلام سے مشرکانہ عقائد کا تصور ملتا ہے تاہم جہاں تک گرونانک کے کلام اور نظریات کا تعلق ہے ، وہ شرک سے پاک ہیں۔سکھ دھرم کے عقیدے کے مطابق خدا دنیا کا خالق اور قادر مطلق ہے۔وہ ازلی اور ابدی ہےجسم و جسمانیت سے پاک ہونے کی وجہ سے مورتیوں میں اسے قید کرنا بعید از قیاس ہے۔ وہ ہر شے میں موجود ہے اور ہر دل میں مکین ہے۔وہ خیال سے ماوراءہے۔ اگرچہ سکھ شخصی خدا پر بھی یقین رکھتے ہیں لیکن گرو نانک نے خدا کو 'نرنکار' یعنی بے صورت کہا ہے۔
چونکہ گرو نانک کے پیشرو بھگت کبیر ہیں اور بھگت کبیر نے مسلمانوں اور ہندؤں کو یکساں طور پر مخاطب کیا ہے ۔گرو نانک بھی بھگت کبیر کی طرح مختلف چشمہ ہائے فکر کے ذریعے ہندو مسلم اتحاد کے خواہاں تھے۔بھگت کبیر نے خدا کی ذات کے لیے ہری، گوبند، رام، اللہ، رحمان اور رحیم کے الفاظ کا بے تکلف استعمال کیا ہے۔ بعینہ گرو نانک نے بھی خدا کو ایسے ہی ناموں سے پکارا ہے ، ان میں سے کچھ ہندی روایات سے ماخوذ ہیں اور کچھ مسلم روایات سے اخذ کیے گئے ہیں۔ گرونانک کا مقصد مختلف مذاہب کو خدا تعالیٰ کی توحید اور معرفت پر جمع کرنا تھا۔ اسی لیے گرو نانک نے خدا کےلیے مختلف نام استعمال کیے ہیں۔
گرو نانک کا عقیدہ ہے کہ خدا کی ذات یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ ازل سے قائم و دائم ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے میں اس کا ظہور ہے۔عالم کائنات کا وہ منبع و مبدا ء ہے۔ وہ اس کائنات سے جدا بھی ہے اور اس میں شامل بھی ہے لیکن پیدائش و موت سے بالا تر ہے۔ وہ والدین اور اولاد سے پاک ہے۔تمام مخلوق کو اس کے سہارے کی ضرورت ہے جبکہ اسے کسی سہارے کی حاجت نہیں ہے۔ وہ ذات و نسب اور شکل و صورت سے ماوراء ہے۔ سکھ مت کا خدا کے بارے میں یہ تصور اسلام کے تصور توحید سے مماثلت رکھتا ہے۔
مجموعی طور پر سکھ مذہب کی توحید پرستی اسلام اور ہندومت کے بین بین ہے ۔ خدا کی ذات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ گرنتھ صاحب میں دیوی دیوتاؤں کی عظمت کا اقرار بھی موجود ہے۔ مگر گرو نانک ان سب دیوی دیوتاؤں کو مخلوق کا درجہ دیتے تھے۔ گرو نانک کی تعلیمات میں بت اور مورت بھگتی کی مذمت بیان کی گئی ہے او رحقیقی خالق و مالک کے در کو چھوڑ کر دیوی دیوتاؤں سے مدد مانگنے کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔یہ پتھر کی مورتیاں کسی انسان کے نفع و نقصان کی وارث نہیں ہو سکتیں۔گرنتھ صاحب میں غیر فانی خدا سے مدد طلب کرنے کی تعلیم مذکور ہے۔گرو گرنتھ صاحب میں بعض بھگتوں کے کلام سے اوتار پوجا کی تائید کا نظریہ ملتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اوتار کے نظریے کی نفی بھی کی گئی ہے۔
گرو گرنتھ صاحب میں متعدد مقامات پر خدا کی ان صفات کا تذکرہ موجود ہے جو کہ قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں۔جیسا کہ معاون و مددگار ، رحیم و کریم اور یکتا و بے مثل وغیرہ۔سکھ مذہب میں وحدت الوجود کا فلسفہ نہایت مستحکم صورت میں موجود ہے جو کہ مسلم صوفیاء اور مسلمانوں کے کچھ طبقات کے ہاں بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام اور سکھ مت میں وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے نظریے کی تعبیرات کا واضح فرق ہے۔ بلا شبہ گرو نانک اسلام کے تصور توحید سے بے حد متاثر تھے۔اسی طرح دیگر گرو صاحبان نے بھی گرنتھ صاحب میں توحید سے متعلق اپنے کلام میں متضاد تعلیمات کو بیان کیا ہے۔
سکھ مت میں حکم و رضا کے فلسفے کی بہت اہمیت ہے۔ہمہ قسم حالات میں حکم ربی اور رضائے الٰہی کے تابع رہنا اور مشیت ایزدی کو مان کر زندگی بسر کرنا ،ایک مسلمہ اصول ہے۔ یہ حالات چاہے زندگی کے حسین لمحات کی صورت میں میسر ہوں یا مصائب آلام کی صورت میں ملیں ؛ انھیں صبر و حلم سے برداشت کرنا سکھ مذہب کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
اگر گرو گرنتھ صاحب کی تعلیمات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ گرو نانک نے ہندی معاشرے میں جنم لیا اور پھر انھیں پنجاب کی سر زمین کا وہ ماحول میسر آیا جس میں بھگتی تحریک اور مسلمان صوفیاء کی صحبت شامل تھی۔ چونکہ گرو نانک کا تعلق ایک کھتری ہندو خاندان سے تھا۔ جس کی تعلیمات سےوہ متنفر تھے۔ جب آپ بھگتوں ،سنتوں اور مسلم صوفیاء کی تعلیمات کی طرف مائل ہوئے تو آپ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس طرح گرو نانک نے اپنے آبائی مذہب سے علم بغاوت بلند کیا اور توحید کے پرستار بن گئے۔
* JPO, Punjab Highway Patrol, Lodhran. sherazalmas@gmail.com, ORCID ID (0000-0003-2253-3943.
1 Gurū Granth Jap Jī, 1.
2 Harbans Singh, Concise Encyclopaedia of Sikhism (Patiala : Publication Bureau Punjabi University, 2013), 232.
3 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Mārū, Maḥallah,1:1035.
4 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Āsā, Maḥallah,1:420.
5 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Sūrath, Maḥallah, 1:597.
6 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Āsā, Maḥallah,1:347.
7 Gurū Granth Ṣāḥib, SirĪ Rāg Maḥallah, 1:15.
8 Gurū Granth ṢāḥibWaḍ Hans Maḥallah, 1:637.
9 Gurū Granth ṢāḥibWaḍ Hans Maḥallah, 1:566.
10 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Sūrath, Maḥallah, 1:597.
11 Gurū Granth Ṣāḥib, SirĪ Rāg Maḥallah, 5:70.
12 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Āsā, Maḥallah,1:350.
13 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Talang, Maḥallah,1:723.
14 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Āsā, Maḥallah,1:420.
15 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Sūrath, Maḥallah, 5:624.
16 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Goṛī, Maḥallah, 5:260.
17 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Malhārh, Maḥallah, 3:1261.
18 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Mālī Goṛā, Bānī Bhagat Nāmdeo, 988.
19 Gurū Granth Ṣāḥib, Rām Kalī, Maḥallah, 5:894.
20 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Goṛī Kabīr, 339.
21 Gurū Granth ṢāḥibWaḍ Hans Maḥallah, 1:567.
22Surindar Singh Kohli Prof., The Sikh Philosophy (Amritsar : Singh Brothers), 48.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |