1
2
2020
1682060063651_3188
1-12
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/14/16
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/14
Key words: Adam responsibilities creation right deeds stages of human creation.
أ ﻷمِیر:جلد1 0؍ شمارہ02 ..( جولائی–دسمبر0 220ء) )5(
اسلام کا تصوّر انسان اور اس کی ذمّہ داریاں ایک تحقیقی جائزہ
Islamic Concept of Man and his Responsibilities
Tasmia kaukab
Allah Almighty has completed this world by the creation of human being. He Almighty has made the men superior than the other creation of all the world .By his creation Allah Almighty has designated some responsibilities to him as well. If He will fulfil these responsibilities and do right deed, Allah almighty will pleased by him and he will deserve the Heaven and if he will not fulfil his responsibilities which were designated by Allah almighty and will misconduct, then due to misconducting of his deeds he will go to Hell. By this article, I tried to describe the meaning of man and point out the process and stages of creation of human, his responsibilities and some hidden but bitter facts about human life. When a person accept and understand these facts, his life will be easy. In this research paper descriptive method of research has been adopted by researcher
Key words: Adam, responsibilities, creation, right deeds, stages of human creation.
تمھید: اللہ تبارک و تعالٰی نے کائناتِ ارضی کی تکمیل تخلیقِ انسانی سے فرمائی۔اور نسل انسانی کو پیدا کرنے کے بعد شتر بے مہار نہیں چھوڑ دیا بلکہ کچھ عہدے اور اہم ذمہ داریاں بھی سونپیں جن میں سے کچھ ذمہ داریوں کی حیثیت فرضِ کفایہ کی ہے اور کچھ فرضِ عین کی حیثیت رکھتی ہیں۔پھر ان فرائض منصبی کو بجا لانے یا نہ بجا لانے پر حیات بعد الموت کے بعد جنت یا دوزخ کا مستحق قرار دیا۔زیرِ نظر تحریر میں محققہ نے انسان کا تعارف،تخلیقِ انسانی کے مختلف مراحل،انسان کی حیثیت و حقیقت اور اسکی ذمہ داریوں کو مستند مصادر و مراجع کی روشنی میں بیان کرنے کی ادنٰی سی کوشش کی ہے۔ تا کہ دور حاضرکے اس مادہ پرستی اور قربِ قیامت کے پُر فتن دور میں بھٹکا ہؤا انسان راہِ راست کی طرف پلٹ آئے اور اپنے اصلی اور حقیقی مقام جنت کا مستحق ٹھہرے۔
انسان کی لغوی تعریف
لفظ "انسان" عربی زبان کےلفظ" اَلْاِنس" سےمشتق ہےجس کےلغوی معنی "آدمی "اور "بشر "کےہیں۔ اسم "الانس "کے ساتھ "ان "زائد تان برائے مبالغہ لگانے سے "انسان " بنتا ہے۔1 علامہ فیروز آبادی متوفی ۸۱۷ھ لکھتے ہیں:
"بشر" " انسان" کو کہتے ہیں۔" بشر" کا لغوی معنٰی انسان کی ظاہری کھال ہے اور جلد کو جلد سے ملانا "مباشرت "ہے اور "بشارت" اور" بشری "کا معنی خوشخبری دینا ہے۔"2
لفظ" انسان " "انسیان " کا اسم تصغیر ہے ۔حضرت ابن عبّاس اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں: " کہ انسان کو اس لئے انسان کا نام دیا گیا ہے کہ اس کے ذمہ ایک کام لگایا گیا تھا تو وہ اسے بھول گیا۔"3
ابنِ عساکر نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا : " اللہ نے آدم علیہ السلام کو بروزجمعہ بعد از عصر سطح زمین سے پیدا کیا اور اس کا نام آدم ؑرکھا،بعد ازاں ان سے عہد لیا، جب وہ اپنے اس عہدبھول گئے تو اسے انسان کا نام دیا۔"4 "الانیس" کا لفظی مطلب انس کرنے والا ہے یعنی ہر وہ چیز جس سے " انسیت" یعنی محبت ہو جائے۔"5
تخلیق انسانی ازروئےقرآن و سنّت
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالٰی نے انسان کی بناوٹ،اس کائنات ارضی میں اس کی آمد ا ور پیدائش کے بارے میں کئی جگہوں پر ذکر کیا ہے ۔ان سب دلائل کے مطالعےسے انسانی تخلیق کے درج ذیل تین مراحل سمجھ میں آتے ہیں۔لہذٰا ذیل میں انھیں تین عنوانات کی روشنی میں تخلیق انسانی کوموضوع ِ بحث بنائیں گے۔
1۔مراحلِ تخلیق حضرت آدم علیہ السلام 2۔ مراحلِ تخلیق ابن آدم ؑ 3۔عالم ارواح میں تخلیق رُوح انسانی
1۔ حضرت آدم کی تخلیق کے مراحل
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"إِذْ
قَالَ رَبُّكَ
لِلْمَلَائِكَةِ
إِنِّي خَالِقٌ
بَشَرًا مِنْ
طِينٍ ۔
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ
وَنَفَخْتُ
فِيهِ مِنْ
رُوحِي فَقَعُوا
لَهُ سَاجِدِينَ۔"6
"جب
آپ کے رب نے فرشتوں
سے کہاکہ میں
گیلی مٹی سے بشر
بنانے والا ہوں
تو جب میں اس کا
پتلا بنالوں
اور اس میں اپنی
طرف سے (خاص)
رُوح
پھونک دوں تو
تم سب اس کو سجدہ
کرنا۔"
درجہ
بالاآیات میں
خالق کائنات
نے تخلیق آدم
علیہ السلام
کا ذکر کرکے اسے
افضل المخلوقات
ثابت کیا ہے۔
اکثر مفسرین عظام نے ان آیاتِ
قرآنی کی تفسیرمیں
درج ذیل احادیث پیش کی ہیں۔
امام جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
"ابو موسٰی اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالٰی نے آدم کو ایک مشت خاک سے پیدا کیا جو تمام روئے زمین سے لی تھی، یہی باعث ہے کہ فرزندانِ آدم میں اسی خاک کا اندازہ قائم رہا کہ ان میں سرخ بھی ہیں ،سفید بھی ہیں،سیاہ بھی ہیں، درمیانی رنگ کے بھی ہیں، سہل بھی ہیں حزن بھی ہیں، خبیث بھی ہیں اور طیب بھی ہیں"۔7
مطلب مٹی سے پیدا ہونے والے اس انسان کی شکل و صورت اور عادات و سیرت کا انحصار اس مٹی کی ایک مٹھی پر ہے جس سے اس کو پیدا کیا گیا۔
اکثر محدثین ، مؤرخین اور مفسرین نے ابن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ" حضرت آدم علیہ السلام "کو "آدم" اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کو (ادیم ارض ) سطح زمین کی سرخ سفید اور سیاہ مٹی سے بنایا گیا ہے۔"8
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کیچڑ (گیلی مٹی) بنادیا، پھر اس کو چھوڑ دیا، حتیٰ کہ سیاہ رنگ کاگارا ہوگئی پھر اس سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا اور ان کی شکل بنائی، پھر اس کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ وہ خشک ہوکر بجنے والی مٹی کی طرح ہوگیا۔ ابلیس اس پتلے کے پاس سے گزر کر کہتا تھا کہ یہ کسی بڑے مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی لےپتلے میں اپنی پسندیدہ رُوح پھونک دی، اس رُوح کا اثر سب سے پہلے ان کی آنکھوں اور نتھنوں میں ظاہر ہوا، ان کو چھینک آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو الحمدللہ کہنے کا القاء کیا ۔ انہوں نے الحمدللہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم علیہ السلام اس گروہ کے پاس جاؤ اور ان سے بات کرو دیکھو یہ کیا کہتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام ان فرشتوں کے پاس گئے اور کہا السلام علیکم۔ انہوں نے کہا وعلیک السلام۔ پھر آدم علیہ السلام اللہ کے پاس گئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، انہوں نے کیا کہا حالانکہ اللہ کو خوب علم ہے حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: اے رب میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے کہا وعلیک السلام۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے آدم علیہ السلام یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کے سلام کا طریقہ ہے"۔9حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
"سب سےپہلے آدم علیہ السلام کی آنکھ اور ناک کے نتھنوں میں جان پڑی۔ جب سارے جسم میں روح پھیل گئی تو آدم علیہ السلام کو چھینک آئی۔ اسی موقع پراللہ نے اپنی حمدبیان کرنے کا حکم دیا۔تو آدم ؑنے اللہ کی حمد بیان کی ۔ اور جوابا اللہ تعالٰی نے فرمایا : "رحمک ربک" پھر فرمایا یہ جو لوگ سامنے ہیں انھیں قریب جا کر "سلام علیک' کہہ پھر دیکھ تجھے کیا جواب دیتے ہیں! آدم ؑسلام کرکے واپس آئے تو باوجود اس کے کہ اللہ ان کے اس عمل سے خوب آگاہ تھا، مگر پھر بھی اس نے پوچھا : انھوں نے تجھے کیا جواب دیا؟ آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ انھوں نے مجھے "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ" کہہ کر جواب دیا ہے،فرمایا: یہ تیرا اور تیری اولاد کا سلام ہے۔"10
الغرض اللہ تعالٰی نے پہلے مٹی سےآدم علیہ السلام کا پتلا بنایا پھر اس میں روح پھونکی۔حتیٰ کہ گوشت پوست کا جیتا جاگتا انسان بن گیا۔
مراحل تخلیق ابن آدم ؑ
شکم مادر میں اللہ تعالیٰ نےانسان کی تخلیق کیسے فرمائی ہے اور انسانی جسم کن مراحل سے گزر کر ایک جیتا جاگتا خوبصورت انسان کی شکل میں کیسے تبدیل ہوتا ہے ،اس کی تفصیل سورۃ المؤمنون میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے:
"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ ۔ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ۔"11
"ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصےسے بنایا پھر اسے ایک محفوظ جگہ میں نطفےمیں تبدیل کیا پھر اس نطفہ کو لوتھڑے میں بدل دیا پھر اس لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بناکر کھڑا کر دیا۔ بس بہت ہی با برکت ہےسب تخلیق کاروں سے اچھا تخلیق کار۔ "
اس سے ثابت ہؤا کہ مصورنے شاہکار کو تخلیق کیا ۔لہذا شاہکار میں نقص یا عیب نکالنا، اس کی شکل وصورت پر تنقید کرنا جائز نہیں ،
کیو نکہ اس کا مصور کوئی اور نہیں بلکہ خالق کائنات خود ہے۔ ان آیات میں انسانی تخلیق کے جو مراحل بیان ہوئے ہیں۔ حدیث میں بھی اس کی وضاحت کچھ اس طرح ملتی ہے۔
"عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ " إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ"12
"حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا اور آپﷺ صادق و مصدوق ہیں۔ بے شک تم میں سے کسی ایک کی خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے۔ پھر چالیس دن تک وہ جما ہوا خون ہوتا ہے پھر چالیس دن میں وہ گوشت بن جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے۔"
تخلیقِ روح انسانی اور عالمِ ارواح
انسانی روح کی تخلیق عالمِ ارواح میں لفظِ کُن سے ہوئی ۔جب خالقِ ارواح نے لفظ کن کہا توتمام روحوں کی تخلیق ہوئی اور اسی عالم میں "عہد الست "ہوا اور تمام روحوں سے اللہ نے سوال کیا ’’الست بربکم‘‘ یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں جس پر تمام روحوں نے" بلیٰ "کہہ کر اللہ تبارک وتعالٰی کےرب ہو نے کا اقرار کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ رُوح کی تخلیق جسم کی تخلیق سے پہلے ہوئی ہے اور اس پر دلیل یہ حدیث بھی ہے۔
"عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ۔"13
"حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :"رُوحیں مجتمع لشکر ہیں، جو ان میں سے ایک دوسرے سے متعارف ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے سے الفت رکھتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے ناآشنا ہوتی ہیں وہ آپس میں اختلاف کرتی ہیں۔"
امام ابن حجر ؒعسقلانی متوفی ۸۵۲ھ لکھتے ہیں :
" يُرَادَ الْإِخْبَارُ عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ فِي حَالِ الْغَيْبِ عَلَى مَا جَاءَ أَنَّ الْأَرْوَاحَ خُلِقَتْ قَبْلَ الْأَجْسَامِ وَكَانَتْ تَلْتَقِي فَتَتَشَاءَمُ فَلَمَّا حَلَّتْ بِالْأَجْسَامِ تَعَارَفَتْ بِالْأَمْرِ الْأَوَّلِ فَصَارَ تَعَارُفُهَا وَتَنَاكُرُهَا عَلَى مَا سَبَقَ مِنَ الْعَهْدِ الْمُتَقَدِّمِ وَقَالَ غَيْرُهُ الْمُرَادُ أَنَّ الْأَرْوَاحَ أَوَّلُ مَا خُلِقَتْ خُلِقَتْ عَلَى قِسْمَيْنِ وَمَعْنَى تَقَابُلِهَا أَنَّ الْأَجْسَادَ الَّتِي فِيهَا الْأَرْوَاحُ إِذَا الْتَقَتْ فِي الدُّنْيَا ائْتَلَفَتْ أَوِ اخْتَلَفَتْ عَلَى حَسَبِ مَا خُلِقَتْ عَلَيْهِ الْأَرْوَاحُ فِي الدُّنْيَا إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ بِالتَّعَارُفِ۔"14
"اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اس کا مقصد ابتداء خلقت کی خبر دینا ہو جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ارواح کو ا جسام سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور جب ارواح کاا جسام میں حلول ہؤاتو ان ارواح کی آپس میں شناسائی یا عدم شناسائی عالم ارواح کے لحاظ سے ہوئی ۔ رُوحیں جب دنیا میں ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو ان کا ایک دوسرے سے اتفاق یا اختلاف بھی اسی سابقہ شناسائی یاعدم شناسائی کی بنیادپر ہوتاہے۔"
امام جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ )نے بھی اس حوالے سے حدیث پیش کی ہے۔ : "اللہ تعالیٰ نے ارواح کو اجسام سے پہلے پیدا کیا ہے"۔15
علامہ بدرالدین عینیؒ حنفی( متوفی ۸۵۵ھ )نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا ہے کہ روحوں کو اجسام سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ اجسام کے ختم ہونے کے بعد بھی روحیں باقی رہتی ہیں۔ اس کی تائید میں یہ حدیث نقل کی ہے :
"كانتقال أَرْوَاح الشُّهَدَاء إِلَى أَجْوَاف طير خضر۔"16
"شہداء کی رُوحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں رہتی ہیں۔"
تخلیق انسانی کا مقصد
جب ایک مناسب سوجھ بوجھ والاانسان کوئی کام شروع کرتا ہے تو اُس کے پیش نظر کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ رات دن کوشش کرتا ہے ، اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا ہے اور اُن مقاصد کے حصول میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہے۔اس سلسلہ میں در پیش مسائل و مصائب کو حوصلے سے برداشت کرلیتا ہے ؛لیکن اپنے مقصد اور مشن سے پیچھے نہیں ہٹتا اور نہ ہی لا یعنی اوربیکار اشیاء میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے ، یہ تو ایک انسان کی بات ہے ۔ تو کیا ہم نے کبھی خالق انسان کے بارے میں سوچا کہ اس نے انسان کی یہ حیرت انگیز جسمانی ساخت ، دماغ ، معدہ کا پیچیدہ نظام ، آنکھ ، کان ، ناک ، ہونٹ ، زبان اور دیگر اعضاء کی مناسب تخلیق کیسے اور کیوں کرکی ہوگی ؟ کیا یہ سارا نظام یوں ہی بے مقصد اور خود بخود وجود میں آگیا؟ کیا اس کے پیچھے کسی بڑی قدرت کا ہاتھ محسوس نہیں ہوتا؟ کیا اللہ تعالٰی نے اس کو بغیر کسی ذمہ داری اوربغیر کسی مقصد کے پیدا کیا؟ یا اس کابھی کوئی مقصد ہے ؟ اس کا جواب بھی اللہ تعالی نے قرآن حکیم کی متعدد آیات میں بیا ن کیا ہے کہ انسان کی تخلیق اور اسے زمین پر تمکنت دینابےمقصدنہیں ہےارشادِ باری تعالٰی ہے:
"اَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ۔"17
" کیا تم نے یہ گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے کار پیدا کیا ہے اورتم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟ ۔"
یعنی اے انسانوں! تم دنیا کی خوبصورتی ،رعنائیوں اور رنگینیوں میں مگن ہو کر یہ نتیجہ نکال بیٹھے ہو کہ ان رنگینیوں سے لطف اندوز ہونا ہی تمھارا کل مقصد حیات ہے۔اور تم ہمارے پاس واپس نہیں آؤ گے؟نہیں ،نہیں ہر گز نہیں ، اس زندگی کو دوام ہر گز حاصل نہیں ہے۔ اورہم نے تمھیں محض کھیل تماشے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ اسکی حقیقت کچھ اور ہے جس کو تم نہ صرف نظر انداز کئے ہوئے ہو بلکہ غفلت کی تاریکی میں ڈوب چکے ہو۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خالق کائنات نے اس خوبصورت مخلوق کو لا یعنی اور بےمقصد پیدا کر دیا ہو!
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ حضرتِ انسان کو اس دنیا میں صرف گزر بسر کرنے، سامانِ دنیا سے تمتع حاصل کرنے یا کھیل کود کے لیے پیدا کیا ہے تو یہ کام تو اس کائنات کی دیگر مخلوق بخوبی ادا کر رہی ہے۔حضرتِ انسان کی تخلیق پھر چہ معنیٰ دارد؟ جس کے لیے یہ پوری کائنات مسخر کی گئی ہےآخر کوئی مقصد تو ہوگا۔ جس کی وضاحت اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کی اس آیت مبارکہ میں خود بیان فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔"18
"اور میں نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے تخلیق نہیں کیا۔"
اللہ تعالٰی نے قرآنِ حکیم میں تخلیق انسانی کا مقصد عبادت الٰہی کو قرار دیا ۔اور اس آیت مبارکہ میں" عبادت "سے مراد اللہ تبارک و تعالٰی کی معرفت و پہچان ہے۔ 19
بندگی کا صحیح مفہوم:
عام طورپر" عبادت "سےمرادپرستش، پوجا اور چند خاص آداب بجا لانا سمجھاجاتاہے۔ یعنی تسبیح پکڑ کر مصلے پر بیٹھ جانا عبادت ہے۔یا راہبانہ طرز زندگی عبادت ہے۔ اس کام کے لئے تو فرشتے ،چرند پرند ،اور شجر و حجر ہی کافی تھے۔تو عبادت کا یہ نام نہاد مفہوم نامکمل اور ادھوراہے۔ عبادت اور بندگی کا جامع و مانع مفہوم خالقِ کائنات کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی اور منشا نہیں رہتی بلکہ اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دینے کا نام عبودیت ہے۔اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں اللہ کی نازل کردہ کتاب قرآن سے رہنمائی حاصل کرنا ، سیاست، معیشت اور معاشرت کے اصول قرآن و سنت کے مطابق بنانا اور انفرادی و اجتماعی فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کرنا ہی تخلیقِ انسانیت کا مقصد ہے۔ قرآن و سنت کے بر خلاف فیصلے کرنے والوں کے لیے خالقِ انسان کا فتویٰ ہے جو قرآن میں تین مقامات پر صادر ہوا ہے:
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ20
اور جو اللہ کی نازل کردہ کتاب قرآن کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔
اس کے بر عکس انسان کا مقصدِ تخلیق بھی واضح طور پر قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ سورہ ملک میں موت و حیات کی تخلیق کا مقصد انسانی اعمال کی جانچ بیان کیا گیا ہے ۔گویا اصل چیزحسنِ عمل ہے جس کی جانچ کے لیے یہ کائنات تخلیق ہوئی ،انسان کو پیدا کیا گیا اور موت و حیات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
"الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ۔"21
"اس نے دنیا میں موت و حیات کا سلسلہ اس لیے قائم کیا تاکہ وہ تم انسانوں کو پرکھ سکے کہ تم میں سے کون اپنے رب کی بہترین بندگی کرتا ہے۔" اسی حقیقت کو صوفیاء نے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ کائنات کی ہر شی کو اللہ نے انسان کے لیے تخلیق کیا ہے جبکہ خود انسان کو اپنے لیے پیدا کیا ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
1۔ نفاذِ دین کی کوشش
جب انسان کے دل و دماغ میں اللہ کی معرفت کا نور سرایت کر جاتا ہے اور اس کے ظاہر ی اعمال شریعت و سنت محمدیﷺ سے آراستہ و مزین ہو جاتےہیں تو اس پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ تمام عالمِ انسانیت تک پیغامِ اسلام پہنچائے اس ضمن میں قرآنی آیہ امر باالمعروف و نہی عن المنکر ہو یا حدیثِ مبارکہ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ہو یا خطبہ حجۃ الوداع ليبلغ الشاهد منكم الغائب ہو نہ صرف یہ کہ دین کا پیغام پہنچانا ہے بلکہ نفاذ دین کا فریضہ بھی ادا کرنا ہے۔ جس کے لیے قرآنی آیہ واضح طور پر رہنمائی کرتی نظر آتی ہے:
هُوَ الَّـذِىٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـهٝ بِالْـهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٝ عَلَى الـدِّيْنِ كُلِّـهٖ ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ شَهِيْدًا22
حضرت محمدﷺ نے اپنے جان نثار ساتھیوں رضوان اللہ اجمعین کو عملی طور پر نفاذ دین کے لیے تیار کیا۔ مکہ میں آپﷺ نے اپنےصحابہ کے عقائد کی پختگی پر زور دیا اور باذن اللہ ان کا تزکیہ نفس فرمایا۔ جب ان کےدل و دماغ اللہ کی معرفت سے روشن ہوگئےتو آپﷺ نے مدینہ میں ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور اپنے جان نثار وں کو معاشرہ میں عملی طور پر متحرک کردار ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ معاشرہ میں صبغۃ اللہ کا رنگ غالب آجائے۔اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے ہوتا ہے۔
جامع ترمذی کی روایت ہے:
"عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الآيَةَ:"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ"23 وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ."24
"حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کسی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں ہوگا۔ اور تم اس آیت سے غلط مطلب نکالتے ہو اور ہم نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے سنا، جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو اللہ ان سب پر عذاب لے آئے گا۔ اور ہیشم کی روایت میں ہے، جس کسی قوم میں گناہوں پر عمل کیا جاتا ہے اور وہ ان گناہوں کو مٹانے پر قادر ہو پھر نہ مٹائیں تو عنقریب اللہ ان سب پر عذاب لے آئے گا۔"
بحیثیت انسان جہاں ہر فردکی نہ صرف اپنی اصلاح ضروری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کا تابع ہو، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے میں اسلامی قانون کو رائج کرنے کے لیے عملا کوشش کرےتاکہ معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوسکے۔الغرض یہی انسان کا مقصد تخلیق ہے اور اسی میں اظہارِ بندگی ہے۔
2۔ تکریم انسانیت
یہ فضیلت صرف انسان کوہی حاصل ہےکائنات کی اربوں کھربوںمخلوقات میں سے صرف انسان کو ہی اللہ تعالٰی نےاس فضل وتکریم کے لئے منتخب کیا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ اسراء میں فرماتا ہے:
"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا"25
"اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی و تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اوراپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔"
یعنی یہ حقیقت اظھر من الشمس ہے کہ انسان کو زمین اور اسکی نعمتوں پر اقتدار کسی اور نے نہیں دیا یقینا یہ اللہ کا دیا ہؤا ہے اور اس کا خصوصی کرم اور مہربانی ہے پھر اس سے بڑھ کر سفاہت و جہالت اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اس عالی مرتبہ پر فائز ہوکر اللہ کی بجائے اسکی مخلوق کے آگے سر جھکائے۔غیر اللہ کے گن گائے۔اور اپنے دل میں غیراللہ کا ڈر و تقوٰی رکھے۔(اعاذنا اللہ منھا)
بنی آدم کو یہ فضیلت انسان ہونے کے ناطے ملی ، نا کہ اس کے دنیاوی مقام و مرتبہ کی بناء پر۔لیکن افسوس !آج ہم انسانیت کو بالکل بھول چکے ہیں ،قابل تکریم انسا ن کو نہیں بلکہ اسکے عہدے ،مقام ،مرتبہ اور دنیاوی جاہ و حشمت کو سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگر عہدِ رسالت کی طرف جھانک کر دیکھیں تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب اللہ کے رسولﷺ ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ سے حکمتا صرفِ نظر فرماتے ہیں تو بارگاہِ اِلٰہی سے آپ کو تنبیہ کی جاتی ہے :
"عَبَسَ وَتَوَلَّى ۔ أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى ۔ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى ۔ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْر۔ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى ۔ فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى ۔ وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى۔ وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى ۔ وَهُوَ يَخْشَى ۔ فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى ۔ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ۔ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ۔"26
"تیوری چڑھائ اور منہ پھیرا ، اس پر کہ اس کے پاس وہ نابینا حاضر ہوا۔اور تمھیں کیا معلوم شاید وہ ستھرا ہو ۔ یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی۔ جو بے پروائی کرتا ہے اس کی طرف تو پوری توجہ کرتا ہے۔ حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تیرا کوئی نقصان نہیں۔ اور جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہؤا آتا ہے، اور وہ ڈر بھی رہا ہے ۔تو اُس سے بے رُخی برتتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ،قرآن تو نصیحت کی چیز ہے۔ جو چاہے اس کو یاد کر لے۔"
عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک نابینا صحابی تھے ،ایک دن رسول خدا ﷺ مکہ کے سرداروں کے ساتھ بیٹھے انھیں دعوت دیں دے رہے تھے جب عبد اللہ بن ام مکتوم وہاں آئے اور دین سے متعلق کوئ سوال کیا ۔آپ ﷺ کو ذرا ناگوار گزرا کہ اس وقت عبد اللہ نہ آتے ان سرداروں کو تو بات نہ سننے کا بہانا چاہئے۔لیکن اللہ تبارک و تعالٰی کو آپ ﷺ کا یہ انداز اچھا نہ لگا اور قرآن کی درج بالا آیات نازل فر دیں۔
3 ۔خلیفۃ اللہ کا منصب
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کواپنی خلافت اور نیا بت کے لئےباقی مخلوقات پر فوقیت دیتے ہوئے چنا ہے۔ قرآنِ حکیم میں متفرق مقامات پر اس بات کا ذکرموجودہے۔ جن میں سے چند آیات یہ ہیں۔
"وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُون ۔"27
"پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرّر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا جب کہ ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور تقدیس تو کرہی رہے ہیں۔ فرمایا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔"
بعض اہل علم نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے خلافت کی تعریف یہ کی ہے۔
"خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کے ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے اور اس کی منشاء کو ٹھیک ٹھیک پورا کرے۔اللہ ربّ العزت نے انسان کو یہ اعلیٰ اور ارفع مقام اس لیے عطا فرمایا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کو بجا لاتے ہوئے اسلامی نظام کو نافذ کرے اور نظامِ عدل و انصاف قائم کرے۔"28
تو ثابت ہؤا کہ انسان کی بحیثیت خلیفۃ اللہ ذمہ داری اللہ کے قوانین کا نفاذ ہے نا کہ اللہ کے قوانین کو اپنی مرضی کے تحت توڑنا مروڑنا۔اور اس میں پیوند کاری کرنا۔
4۔ انسان بحیثیت احسن تقویم
اللہ تبارک وتعالٰی قرآن مجید میں ارشادفرماتاہے:
"لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ۔"29
"بے شک ہم نے انسان کو سب سے اچھی ساخت اور بیت پر پیدا کیا ہے۔"
جب اللہ تعالٰی خود انسان کی ساخت کی تعریف کر رہا ہے تو اس صورت میں ایک انسان کو کہا ں یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی ساخت و ہیت میں نقص اور عیب نکالتے پھریں اور خوش شکل یا بد شکل کی تقسیم کرتے پھریں۔
اس سورۃ مبارکہ کی ابتداء میں اللہ نے تین قسمیں کھاکر جواب قسم میں یہ فرمایاکہ "بے شک ہم نے انسان کو سب سے اچھی ساخت اور بیت پر پیدا کیا ہے۔" اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر ارضی مخلوق کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ اس کا منہ نیچے کی طرف جھکا ہوا ہے صرف اور صرف انسان کو طویل القامت ،سیدھا بنایا ہے جو ا کہ پنے ہاتھوں سے کھاتا اورپیتا ہے ۔پھر اس کے تمام اعضاء کوانتہائ تناسب سے بنایا انسان میں جانوروں اور دیگر مخلوقات کی طرح بے ڈھنگا پن نہیں ہے ۔جو اعضاء دو دو ہیں ان میں مناسب فاصلہ کا ہونا، گرمی سردی سے بچنے کے لئے لباس پہننے کا شعور ،ستر کو ڈھکانپنے کا احساس ا،پھر اس میں عقل و شعور،فہم و تدبر اورسماعت و بصار ت کی قوت ودیعت کرنا ، جوکہ درحقیقت اللہ تبارک و تعالی کی ذاتی صفات ہیں گویا اس نقطہ نظر سے انسان اللہ تبارک و تعالٰی کی صفات کا مظہر اور اس کا پرتو ہے ۔بعض اہل علم نے تو اس حدیث مبارکہ کو بھی اسی معنٰی و مفہوم پرمحمول کیا ہے۔
"اذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ۔"30
"جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو مارے تو چہرے سے اجتناب کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے۔"
حیات انسانی کے تین اہم حقائق:
اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں حیات انسانی سے متعلق تین بہت اہم حقائق بیا ن فرمائے ہیں۔اللہ فرماتاہے۔
"وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ۔"31
" وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیے تاکہ تمھیں جو کچھ دیا ہے اس میں تمھیں آزمائے۔"
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالٰی نے تین حقائق منکشف کئے ہیں۔
1۔تمام انسانوں کی زمین میں حیثیت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی ہے، یعنی اللہ تعالٰی نے اپنی ملکیت میں سے کثیراشیاء پر انسان کو امین بنایا ہے۔ اور ان پر ہر طرح سے تصرف کے اختیارات دئیے ہیں۔ یعنی انسان امین ہے اورہر وہ چیز جس میں تصرف کا اختیار اسے حاصل ہے وہ امانت الہی ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی۔
2۔ان انسانوں میں فرق مراتب بھی اللہ ہی نے رکھا ہے۔کسی کی امانت کا دائرہ کار وسیع کر دیا اور کسی کا دائرہ کارمحدود کر دیا، کسی کو اختیارات زیادہ چیزوں پر دیے ہیں اور کسی کو کم پر عطا کئے،کسی میں صلاحیت زیادہ رکھی کسی میں کم حتیٰ کہ انسانوں میں سے بھی بعض کو ایک دوسرے کی امانت میں سونپ دیا ۔۔ اللہ کی اس تقسیم پر راضی رہنا ہی انسانیت کی معراج ہے۔اللہ نے کوشش سے منع نہیں فرمایا ۔ لیکن کوشش کے باوجود اگر آپ وہ سب کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو آپکی خواہش ہے تو پھر اللہ کی رضا سمجھ کر اس خوش دلی سے قبول کر لیا جائے۔
3۔ان سب کا حقیقی مقصد دراصل امتحان اور آزمائش ہے۔ پوری انسانی زندگی امتحانی مرکزہے اور اللہ نےجس کو جو کچھ بھی دے رکھا ہے اسی میں اس کا امتحان مقصودہے۔کہ اس نے اللہ کی اس سونپی ہوئی امانت میں تصرفات کیسے کیے؟ اسکی سونپی ہوئی ذمہ داری کی حقیقت کو کس حد تک سمجھنے میں کامیاب ہؤا؟ادائے امانت کا حق کس حد تک ادا کیااور اپنی قابلیت یا نا اہلی کا ثبوت کیسے پیش کیا انسان کی حیات اخروی ودائمی کا دارو مدار ۔ اسی امتحان کے نتیجہ کی بنیاد پر ہو گا۔(اللهم افلحنافی الدنیاوالاخرۃ)
خلاصہ:
حاصلِ کلام یہ ہےکہ مخلوقات میں سے ایک ایسی مخلوق جو کہ بشر کے نام سے موسوم ہے، جسے انسان بھی کہا ہے،اگر احکاماتِ اِلٰہیہ کو بجا لانے کا صحیح حق ادا کرتا ہے، اللہ یومِ آخرت ،تقدیر ،ا،لہامی کتب،ملائکہ پر ایمان بالغیب رکھتا ہے،ارکان اسلام کی پابندی کرتاہے،حقوق و فرائض کا خیال رکھتا ہے،اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھتا،اورپورا بھی کرتا ہے،بحیثیت انسان اپنی خلافت و نیابت کی ذمہ داریوں کونبھاتا ہے تو اللہ کی طرف سےاسے "أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔"32 کی سند پکڑا دی جاتی ہے۔یعنی وہ قابلِ خلافت بھی ہےاور نیابت کا حقدار بھی ہے،قابلِ تکریم بھی ہےاور احسنِ تقویم بھی ہے،"أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَالَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔"33 بھی ہے۔ لیکن اگر وہ ان ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا، زندگی کو محض کھیل تماشہ سمجھ کر گزارتا ہے،ایمان بالغیب میں دراڑیں ہیں،اعمالِ صالحہ سے دور ہے اور نافرمانی کی زندگی گزار رہا ہے ،تو پھر اسے قرآن میں "أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ"34کہا گیا ہے۔ پھر وہ اپنے منصبِ انسانیت سے گر جاتاہے۔وہ علیین کی صف سے نکل جاتا ہے اور اسفل سافلین میں شامل ہو جاتا ہے۔(اعاذنا اللہ منھا) اور اگر انسان اپنی ذمہ داریوں کو حسبِ استطاعتِ انسانی پورا کرتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے "أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ"35اور"أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ"36 جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہی انسان اگر اپنی زندگی کی حقیقتوں کو سمجھ کر دل سے قبول کر لیتا ہے تو نہ صرف اُس کی اپنی زندگی آسان ہو جائے گی بلکہ اُس سے منسلک دیگر افراد بھی پُر سکون زندگی گزاریں گے اور انسانی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔
Ph.D Research scholar, The Islamia University of Bahawalpur
/Muallimah, Bait Ur Rahman Islamic Centre GSCWU.Bahawalpur. E.mail: tasmia12sh@gmail.com
1Abu ‘Abdullah Muhammad bin abi bakr Zein al-Dīn al-Rāzī, Mukhtār al-Siḥāḥ (Beirūt: Maktabah al-‘asriyyah, 1420A.H), 50.
2 Muhammad bin Ya‘qūb Ferūz ābādī, Al-Qāmūs al-Muḥīt (Beirūt: Mu’assisat al-risālah lil tabā‘ah, 1426 A.H), 1:698.
3Abu ‘Abdullah Muhammad bin abi bakr Zein al-Dīn al-rāzī, Mukhtār al-Siḥāḥ, 50.
4Jalāl al-Dīn ‘Abd al-Raḥmān bin abī bakr Suyūtī, Durr e Manthūr (Karāchī: Dār al-Ishā‘at, 2012 A.D), 1:148.
5Abu ‘Abdullah Muhammad bin abi bakr Zein al-Dīn al-rāzī, Mukhtār al-Siḥāḥ, 50.
6Sād:71,72.
7 Abu ‘Abdullah Muhammad bin Sa‘d, Tabqāt ibn e Sa‘d (Karachi: Nafīs Academy, S.N), 1:45.
8Jalāl al-Dīn ‘Abd al-Raḥmān bin abī bakr Suyūtī, Durr e Manthūr (Irān: āyat allah al-‘azmī, S.N), 1:49.
9Jalāl al-Dīn ‘Abd al-Raḥmān bin abī bakr Suyūtī, Durr e Manthūr, 1:48.
10Ibin Sa‘d, Tabqāt ibn e Sa‘d, 1:50.
11Al-Mu’minūn: 12-14.
12 Muslim bin ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Musnad al-Saḥiḥ al-Mukhtasar (Beirūt: Dār aḥyā’ al-Turāth al-‘arbī, S.N), 4:2036.
13 Abu ‘Abdullah Muhammad bib Ismā‘īl, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ (Eygept: Dār tawq al-nijāt, 1422 A.H), 4:133.
14Aḥmad bin ‘Alī bin ḥajar ‘Asqalānī, Fath al-Bārī (Lahore: Dār Nashr al-kutub al-Islāmiyyah, 1981 A.D), 6:369.
15Jalāl al-Dīn ‘Abd al-Raḥmān bin abī bakr Suyūtī, Al-ḥāvī Lil Fatāvī (Eygept: Matba‘ al-sa‘ādat, 1378 A.H), 1:572.
16Abū Muḥammad Mahmūd bin aḥmad bin Mūsā Badar al-Dīn al-‘einī, ‘Umdat al-Qārī (Eygept: Idārat al-tabā‘ah, S.N), 15:216.
17 Al-Mu’minūn: 115.
18Al-Zāriyāt: 56.
19 ‘Alī bin Muḥammad Al-Mullā al-Qārī, Al-Asrar al-Marfū‘ah fi al-akhbār al-mawḍū‘ah al-ma‘rūf bil mawḍū‘āt al-kubrā (Beirūt: Dār al-kutub al-‘Ilmiyyah, 1405 A.H), 179.
20 Al-Mā’idah: 44.
21 Al-Mulk: 2.
22 Al-fataḥ: 48.
23Al-Mā’idah: 105.
24 Muḥammad bin ‘īsā Tirmazī, Al-Sunan al-Tirmazī (Eygept: Maktabah Mustafā al-bābī, S.N) 4:467.
25Banī Isrā’īl: 70.
26 Al- ‘abasa: 1-11.
27Al-Baqarah: 30.
28 Mawdūdī, Tafhīm al-Qur’ān,
29Al-Tīn: 4.
30Muslim bin ḥajjāj al-Qusherī, Al-Jami‘ al-Saḥiḥ, 4:2016.
31Al-An‘ām: 165.
32Al-Baqarah 2:5.
33Al-Mu’minūn: 10,11.
34Al-A‘raf: 179.
35Al-Wāqi‘ah: 8.
Al-Wāqi‘ah: 10.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |