1
2
2020
1682060063651_3189
13-29
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/15/17
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/15
Key words: Al-Aṣābah Fī Tamīz al-Ṣaḥābah Hadīths related to commandments Ibn Ḥajar ‘Asqalānī Narrators prayer fasting.
أﻷمِیر:جلد1 0؍ شمارہ 02 ..( جولائی –دسمبر0 220ء) )19(
”الاصابہ فی تمییز الصحابہ“میں نماز و روزے سے متعلقہ روایاتِ اَحکام کا تحقیقی جائزہ
Research Review of the Traditions of Rulings on Prayer and Fasting in Al-Aṣābah Fī Tamīz al-Ṣaḥābah
Majid Rashid
The book “Al-Aṣābah Fī Tamīz al-Ṣaḥābah” is a famous book of Ibn Ḥajar ‘Asqalānī on the life and contribution of the Companions. This book is quoted as a reference to decide the status of companions. It would not be wrong to call it the encyclopedia of the companions of the Holy Prophetﷺ. Apart from its status as a reference book regarding the companions this book encompasses the Seerah of Holy Prophet in a detailed and well composed manner. The distinction of the book is not hidden from the experts of science and research. In the book and other similar books, the life of the companions was discussed and the biography of the Prophet ﷺwas also described, but another aspect that remained unexplored in these books is the virtues and commandments mentioned in it. There are also narrations about virtues. In this paper the researcher has evaluated the Hadiths related to prayer and fasting that are narrated in Al-Aṣābah Fī Tamīz al-Ṣaḥābah. The evaluation comprises of authenticity of narrators and text, narrators’ mutual association or disassociation and the final decree about the authenticity of a hadith in the light of all available evidences.
Key words: Al-Aṣābah Fī Tamīz al-Ṣaḥābah, Hadīths related to commandments, Ibn Ḥajar ‘Asqalānī, Narrators, prayer, fasting.
تعارف:
ابوالفضل شہاب الدین احمد بن علی بن محمد بن محمد بن احمد کنانی شافعی ہیں جو ابن حجر عسقلانی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ سنت ِنبوی کا علم بلند کرنے والے قاضی القضاۃ اور حفاظ و رواۃ میں منفرد شخصیت ہیں۔ آپ کی تصانیف 150 کتب سے متجاوز ہیں۔ علمِ حدیث کے فنون میں شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں آپ نے ضخیم کتب تصنیف نہ کی ہوں۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کی ایک شاندار تصنیف ہے۔ اس کی تیاری میں حافظ ابن حجرؒ نے اپنی قیمتی زندگی کی چالیس بہاریں صرف کیں مگر اس کی تشنگی ختم نہ کر پائے۔ کتبِ سیر و تراجم میں اس کا شمار اُمہات الکتب میں ہوتا ہے ،علما ء و طلباء میں سے کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اسے تذکار ِصحابہ میں مرجَع کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر ہم اسے اصحابِ رسولﷺ کا انسائیکلو پیڈیا قرار دیں تو شاید یہ بات غلط نہ ہوگی۔
اس کتاب میں کثرت سے روایاتِ احکام بھی پائی جاتیں ہیں ، اس آرٹیکل میں روایاتِ احکام جو نماز و روزے سے متعلقہ ہیں ان کے تحقیقی جائزہ کو پیش کیا گیا ہے اور ان میں پائے جانے والے تحقیقی نکات بیان کیے ہیں، جن سے ان روایات کا مرتبہ بھی معلوم ہوگا اور مجموعی موازنہ کے تحت روایات کے مقام اور مرتبہ کو بیان کیا ہے نیز روایات کا مجموعی موازنہ بیان کرنے میں مکتبہ القلم سے مدد لی گئی ہے۔
فجر کی نماز کے بعد نماز کا حکم:
"وله رواية عن النبي صلى اللَّه عليه وآله وسلم في السنن للنسائي وغيره من طريق نصر بن عبد الرحمن القرشي، واختلف في إسناده على علي بن نصر، وهو عند البغوي بسند صحيح، عن نصر، عن معاذ، عن رجل من قريش، قال: رأيت معاذ بن عفراء يطوف بالبيت، فطاف ولم يصلّ بعد الصبح أو العصر، فقلت: سمعت رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وآله وسلم ينهى عن الصّلاة بعد الصبح" ... الحديث.1
"ان کی نبی کریم ﷺ سے روایت سنن نسائی 2وغیرہ میں موجود ہے ، نصر بن عبد الرحمن قرشی کے طریق سے ، ان کی سند میں علی بن نصر پر اختلاف ہے ۔ امام بغویؒ کے ہاں سند صحیح ہے کہ نصر معاذ سے اور وہ قریش کے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے معاذ بن عفراء کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ انہوں نے طواف تو کیا لیکن عصر یا فجر کے بعد کا وقت تھا ، لہذا نفل نہیں پڑھے اور ارشاد فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ سے خود سنا ہے کہ آپ فجر کے بعد نفل پڑھنے سے منع فرماتے تھے" ۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد نفل نماز کی ادائیگی نہیں کرنی چاہیے اور اس کی تائید آپﷺ کے ارشاد مبارک سے ہوتی ہے۔
سند اور متن حدیث کا تحقیقی جائزہ:
رجل من قريش کا تعارف:
اس روایت سے بظاہر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت معاذ سے روایت کرنے والا رجل من قریش ہے ، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ کاتب کی غلطی سے رجل سے پہلے عن درج ہو گیا ہے کیونکہ رجل من قریش کا معاذ ہی سے تعلق ہے جو ان کی نسبت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ یہ الگ فرد نہیں ہے یا واؤ کو تفسیریہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے معاذ کی مراد یا نسبت کی طرف اشارہ ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام بغوی ؒ نے معجم الصحابہ میں واؤ کا ذکرنہیں کیا ہے اور راویت کو یوں ذکر کیا ہے :
"أخبرنا عبد الله قال: حدثنا أحمد بن إبراهيم الدَّوْرَقِي قال: حدثنا بهز بن أسد قال: أخبرنا شعبة قال: حدثنا سعد بن إبراهيم قال: سمعت نصر بن عبد الرحمن عن معاذ رجل من قريش قال رأيت معاذ بن عفراء يطوف بالبيت قال فطاف فلم يصلي بعد الصبح أو بعد العصر قال فقلت له ما يمنعك أن تصلي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى أو قال لا صلاة بعد صلاتين صلاة الصبح وصلاة العصر حتى تغرب الشمس".3
امام مزی کی بھی ذکر کردہ دو روایات کی دو اسناد میں نصر بن عبد الرحمن کی سند سے تضاد محسوس ہو رہا ہے کیونکہ پہلی روایت میں یہ آ رہا ہے کہ نصر بن عبد الرحمن اپنے دادا معاذ القرشی ؓ سے نقل کر رہےہیں جو معاذ بن عفراء کے ساتھ طواف کر رہے تھے اور دوسری سندمیں یوں آ رہا ہے کہ نصر بن عبد الرحمن اپنے دااد معاذ بن عفراء سے نقل کرتے ہیں ، اس سے معلوم ہو تا ہے معاذ القرشی ہی معاذ بن عفراء ہیں اور پہلی روایت سے ایسا معلوم نہیں ہو رہا ۔ 4 اس کی تائید تلخیص المتشابہ کی بھی روایت سے ہوتی ہے:
"أنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْمُقْرِئُ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ سَلْمَانَ النَّجَّادُ، نا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا الْحَوْضِيُّ، وَأَبُو الْوَلِيدِ، قَالا: نا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَدِّهِ مُعَاذِ بْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّهُ كَانَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ بَعْدَ الْعَصْرِ فَلا يُصَلِّي، فَقَالَ لَهُ مُعَاذٌ، رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا لَكَ لا تُصَلِّي؟ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صَلاةِ بَيْنَ صَلاتَيْنِ: بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ"، 5
اس روایت کی تائید و استشہاد میں مختلف روایات میں پیش کی جا سکتی ہیں جن میں سے چند ایک کا جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ما بہ الامتیاز اور ما بہ الاشتراک واضح ہو جائے ۔
"حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَنْهَى عَنْ صِيَامِ يَوْمَيْنِ، وَعَنْ صَلَاتَيْنِ، وَعَنْ نِكَاحَيْنِ، سَمِعْتُهُ يَنْهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَعَنْ صِيَامِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، وَأَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا، وَبَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا" 6
یہ مسند امام احمد بن حنبل کی روایت ہے جس میں حضرت ابو سعید خدریؓ آپ ﷺ کے قول کو نقل کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے لگاتار دو دن کے روزے، دو نمازیں اور دو نکاحوں سے منع فرمایا ہے، آپﷺ نے فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز سے منع کیا ، مزید یہ ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے روزے سے منع فرمایا اور یہ کہ عورت اور اس کی خالہ اور اس کی پھوپھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے سے منع کیا ہے ، اس لئے اس روایت کو بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے۔
"حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَنْهَى عَنْ صِيَامِ يَوْمَيْنِ، وَعَنْ صَلَاتَيْنِ، وَعَنْ نِكَاحَيْنِ، سَمِعْتُهُ يَنْهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَعَنْ صِيَامِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، وَأَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا، وَبَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا»" 7
یہ "المسند الموضوعی الجامع للکتب العشرۃ "کی روایت ہے جس کو روایت کرنے والے صحابی ابو سعید خدری ؓ ہیں اور حدیث کا مضمون اور الفاظ وہی ہیں جو امام احمد بن حنبل ؒ نے نقل کیے ہیں ، اس لئے اس روایت کو بھی بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے۔
فجر کے بعد نماز نہ پڑھنے کے بارے میں روایات کا مجموعی موازنہ:
اس روایت کے متن پر مجموعی حکم صحیح لغیرہٖ کا لگایا گیا ہے، اس لئے کہ اس طرح کے متن میں اسانید کی کل تعداد 860 ہے جن میں .0 35 فیصد یعنی 301 اسناد صحیح ہیں اور 32.2فیصد یعنی 277 اسناد حسن ہیں ، 26.9 فیصد یعنی 231 اسناد ضعیف ہیں ، 4 فیصد یعنی 34 اسناد شدید ضعیف ہیں ، 1.5 فیصد یعنی 13 اسناد متہم بالوضع ہیں ، 5. فیصد یعنی 4 اسناد موضوع ہیں ۔ اس روایت کے631 شواہد بیان کیے جاتے ہیں ۔ اس روایت کی تخریج میں 23 روایات بیان کی جاتیں ہیں۔
مسافر کے لئے نماز و روزے کا حکم :
"وذكر له من طريق الليث، عن معاوية بن صالح، عن عصام بن يحيى، عنه- حديثا في الصيام مثل حديث أنس بن مالك القشيري الكعبي: «إنّ اللَّه وضع عن المسافر الصوم وشطر الصّلاة»" 8
" لیث کے طریق سے ذکر کیا گیا ، انہوں نے معاویہ بن صالح سے ، انہوں نے عصام بن یحییٰ سے ، اس سے حدیث روزے کےبارے میں انس بن مالک القشیری الکعبی کی مثل نقل کی: اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزے اور نماز کا ایک حصہ ساقط کر دیا ہے"۔
اس روایت سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ شریعت نے مسافر کے لئے نماز اور روزے میں نرمی کو اختیار کی ہے ،روزے کو ساقط کر دیا ہے اور نماز کے حصے میں نرمی کو اختیار کیا ہے۔
سند اور متنِ حدیث کا تحقیقی جائزہ:
اس روایت میں آپ کے استاد ابو امیمہ ہیں ، حالانکہ آپ کے استادوں میں ابو قلابہ کا نام آتا ہے اوراسی طرح ابو امیمہ کے شاگردوں میں ابو قلابہ نام تو ہے لیکن عصام بن یحییٰ کے نام کا ذکر نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں روایت میں انقطاع ہے ۔9
اس روایت میں عصام بن یحییٰ معاویہ بن صالح سے روایت نقل کر رہے ہیں اور ’’کتاب الثقات ممن لم یقع فی الکتب الستہ‘‘ میں آپ کے شاگرد میں معاویہ بن صالح کا ذکر کیا گیا ہے جس سے سند کا اتصال ثابت ہوتا ہے ۔10
ابو امیمہ کا تعارف:
آپ کا پورا نام أنس بن مالك الكعبى القشيرى ہے ، آپ کی کنیت ابو امیۃ یا ابو امیمہ ہے اور بعض نے کہا کہ ابو میۃ ہے ، آپ بصرہ میں تشریف لائے ، آپ کا تعلق پہلے طبقہ سے ہے جو صحابہ کرامؓ ؓ کا ہے ، امام ابو داؤد، امام ترمذی ، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے آپ کی سند سے روایت نقل کی ہے ۔ابن حجر ؓ نے انہیں صحابی قرار دیا ہے ۔11
امام مزی نے ان کے اساتذہ میں آپ ﷺ کا ذکر کیا ہے جس سے سند کا اتصال ثابت ہوتا ہے اور اسی سند نے امام داؤد، امام ترمذی ، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت نقل کی ہے۔ 12
ابن حجر ؒ نے ابو امیمہ کے شاگردوں میں دو حضرات کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک ابو قلابہ عبد اللہ بن زید الجرمی ہیں جن سے سند سے روایت امام نسائی نے ذکر کی ہے اور دوسرے عبد اللہ بن سوادۃ القشیری ہیں جن کی سند سے روایت امام ابو داؤد ، امام ترمذی ، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے نقل کی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں روایت میں انقطاع موجود ہے۔ 13
اس روایت کی تائید اور استشہاد میں مختلف روایات پیش کی جاتیں ہیں جن میں چند کا جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
"ذكره بعض من ألف فِي الصحابة. وذكر له حديثًا فِي الصيام من حديث اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عِصَامِ بْنِ يَحْيَى، عَنْهُ مَرْفُوعًا- مِثْلُ حَدِيثِ الْقُشَيْرِيِّ: إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلاةِ. وَهَذَا حَدِيثٌ مُضْطَرِبُ الإِسْنَادِ، وَلا يُعْرَفُ أَبُو أُمَيْمَةَ هَذَا. ومنهم من يقول فيه أَبُو تميمة، ولا يصح أَيْضًا. ومنهم من يقول فيه: أَبُو أمية، ولا يصح شيء من ذلك من جهة الإسناد". 14
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں عصام بن یحییٰ ابو امیمہ سے نقل کر رہے ہیں اور وہ مرفوعاً روایت بیان کرتے ہیں جس میں یہی مضمون ایک اور انداز سے بیان کیا ہے ، اس لئے اس روایت سے بھی روایت مذکورہ کی تائید ہوتی ہے۔
"حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، وَأَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، قَالَ: كَانَ أَبُو قِلَابَةَ حَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ، ثُمَّ قَالَ لِي: هَلْ لَكَ فِي الَّذِي حَدَّثَنِيهِ، فَدَلَّنِي عَلَيْهِ، فَلَقِيتُهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَرِيبٌ لِي يُقَالُ لَهُ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ:أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّه - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي إِبِلٍ لجاري أُخِذَتْ، فَوَافَقْتُهُ وَهُوَ يَأْكُلُ، فَدَعَانِي إِلَى طَعَامِهِ، فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ. فَقَالَ: "ادْنُ -أَوْ قَالَ: هَلُمَّ- أُخْبِرْكَ عَنْ ذَاكِ: إِنَّ اللَّه وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ"، 15
صحیح ابن خزیمہ میں ایک اور سند کے ساتھ جس میں ابو قلابہ کا بھی ذکر ہے اور روایت کرنے والے حضرت انس بن مالک ؓ ہیں جس کا حاصل بھی یہی ہے کہ مسافر کے لئے روزے کی رخصت کا بیان ہے اس لئے اس روایت کو بھی بطور شاہد کے پیش کیا جاسکتا ہے۔
"أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ هَانِئِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ بَلْحَرِيشٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَافِرُ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَطْعَمُ، فَقَالَ: «هَلُمَّ، فَاطْعَمْ»، فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُحَدِّثُكُمْ عَنِ الصِّيَامِ: إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ " 16
سنن نسائی میں ایک اور سند کے ساتھ یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ سفر شرعی کی حالت میں روزہ ساقط ہو جاتا ہے اور کھانے پینے کی اجازت ہے ، اس لئے اس روایت کو بھی بطور شاہد کے پیش کیا جا سکتا ہے۔
سفرکی حالت میں نماز میں قصر کے بارے میں روایات کا مجموعی موازنہ:
اس روایت کی سند پر مجموعی حکم صحیح لغیرہٖ کا لگایا گیا ہے اس لئے کہ اس طرح کے متن میں اسانید کی کل تعداد211 ہے جن میں25.1 فیصد یعنی53 اسناد صحیح ہیں اور56.9 فیصد یعنی120 اسناد حسن ہیں ،16.1 فیصد یعنی 34 اسناد ضعیف ہیں ، 1.4 فیصد یعنی03 اسناد شدید ضعیف ہیں ،0.5 فیصد یعنی1 سند متہم بالوضع ہیں ،0 فیصد یعنی 0 اسناد موضوع ہیں، اس روایت کے 74 شواہد ہیں۔اس روایت کی تخریج میں 67 روایات پیش کی جاتی ہیں جن میں سے اکثر میں راوی صحابی حضرت انس بن مالکؓ ہیں ۔
مغرب اور فجر کی نماز کے بعد ذکر کا بیان:
"ذكره البغويّ، وقال: روى ابن وهب من طريق أبي عبد الرّحمن المعافريّ، عن عبّاد الشّيبانيّ، قال: قال رسول اللَّه: «من قال بعد المغرب أو الصّبح: لا إله إلّا اللَّه وحده لا شريك له ... » الحديث".17
"بغوی نے ان کا ذکر کیا کہ ابن وہب نے ان کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جس نے مغرب یا صبح کی نماز کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ......... کہا‘‘۔
اس روایت سے فجر اور مغرب کی نماز کے بعد کلماتِ مذکورہ کی فضیلت کا علم ہو رہا ہے۔
سند اور متنِ حدیث کا تحقیقی جائزہ:
ابو عبد الرّحمن المعافری تعارف:
آپ کا پورا نام عبد اللہ بن یزید معافری ہے ، آپ کی کنیت ابو عبد الرحمن ہے ، آپ کی نسبت الحبلی ، المصری ہے ، آپ کا تعلق تیسرے طبقے سے ہے جو وسطی من التابعین کا ہے ، آپ کی وفات افریقہ میں 100ھ میں ہوئی، آپ کی سند سے امام بخاری نے ادب المفرد میں، امام مسلم، امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایات نقل کی ہیں۔18
امام ذہبی ؒ نے آپ کے بارے میں ’’الإِمَامُ، الفَقِيْه، المُعَمَّر، قَاضِي الإِسْكَنْدَرِيَّة وَمُسندُهَا، أَبُو الحَسَنِ عَلِيُّ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ يَزِيْدَ بنِ أَبِي مَطَرٍ المَعَافِرِيُّ، الإِسْكَنْدَرَانِيُّ، المَالِكِيُّ.‘‘کہا ہے۔ 19
امام ابن حجرؒ نے بھی آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔20
امام مزی نے آپ کے بارے میں جو اقوال نقل کیے ہیں ان کا حاصل کچھ یوں ہے:
عثمان بن سعید الدارمی نے یحییٰ بن معین سے نقل کر کے کہا ہے کہ وہ ثقہ ہیں۔
ابن حبان نے اپنی کتاب ’’ الثقات‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔21
ابو عبد الرحمن المعافری کے اساتذہ کرام میں مندرجہ ذیل حضرات کے نام امام مزی نے ذکر کیے ہیں:
جابر ؓبن عبد اللہ، عبد اللہ بن عمر بن خطابج عبد اللہ بن عمرو بن العاص، عقبہ بن عامر الجہنی، عمارہ بن شبیب السبی، فضالہ بن عبیدج قبیصہ بن ذؤیب ، مستور بن شداد، ابو ایوب الانصاری، ابو البختری الازدی، ابو ذر غفاری، ابو سعید الخدری، ابو عبد اللہ الصنابحی ۔ 22
اس روایت میں عبد الرحمن المعافری ، عباد الشیبانی سے روایت نقل کر رہے ہیں ، لیکن امام مزی نے ان کے استادوں میں صحابہ کرام کا تو ذکر کیا ہے عباد الشیبانی کا ذکر نہیں کیا اس سے معلوم ہو رہا ہے روایت میں انقطاع پایا جاتا ہے یا عباد الشیبانی کا ذکر درست ہی نہیں بلکہ وہ مرسلاً روایت نقل کر رہے ہیں۔
اس طرح ذکر کے بارے میں جتنی روایات ہیں ان میں عبد الرحمن المعافری کو عمار السبائی بیان کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں انصار کے ایک آدمی نے نقل کیا ہےوہ آپﷺ سے نقل کرتے ہیں لیکن الاصابہ میں عبد الرحمن المعافری، عباد الشیبانی سے نقل کرتے ہیں، یہ ان کے تفردات میں سے ہے۔ نیز اسماء الرجال کی کتب میں عباد الشیبانی کے نام سے مشہور کسی راوی کا تعارف نہیں ملا ، یہاں معلوم یہ ہو رہا ہے کاتب کی غلطی سے عمار عباد سے بد ل گیا اور السبائی الشیبانی سے تبدیل ہو گیا ہو گا ، حقیقت حال بہتر اللہ تعالیٰ جانتے ہیں ۔
اس روایت کی تائید اور استشہاد میں مختلف روایات بیان کی جا سکتی ہیں جن میں سے چند ایک کا خلاصہ کلام یہاں بیان کیا جاتا ہے:
"أخبرنَا أَحْمد بن عَمْرو بن السَّرْح (قَالَ) ج أخبرنَا ابْن وهب قَالَ أَخْبرنِي عمر بن الْحَارِث أَن الجلاح حَدثهُ أَن أَبَا عبد الرَّحْمَن الْمعَافِرِي حَدثهُ أَن عمار السبائي حَدثهُ أَن رجلا من الْأَنْصَار حَدثهُ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ من قَالَ بعد الْمغرب أَو الصُّبْح لَا إِلَه إِلَّا الله وَحده لَا شريك لَهُ لَهُ الْملك وَله الْحَمد يحيى وَيُمِيت وَهُوَ على كل شَيْء قدير عشر مَرَّات بعث الله لَهُ مسلحة يحرسونه حَتَّى يصبح وَمن حِين يصبح حَتَّى يُمْسِي نَحوه (نوع آخر) وَذكر الِاخْتِلَاف على عبد الله بن بُرَيْدَة فِيهِ" 23
عمل الیوم و اللیلۃ میں بھی السنن نسائی کی مثل روایت نقل کی گئی جس سے وہی مفہوم واضح ہو رہا ہے جو الاصابہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے اس کو بھی روایت مذکورہ کے لئے بطور شاہد پیش کر سکتے ہیں۔
"حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلَّوَيْهِ الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عِيسَى الْعَطَّارُ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَالَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَبَعْدَ الْغَدَاةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ كَتَبَ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ، وَرَفَعَ لَهُ بِهَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا عَشْرَ خَطِيَّاتٍ، وَكُنَّ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ، وَحَرَسًا مِنْ كُلِّ مَكْرُوهٍ، وَكَانَ لَهُ بِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ عَدْلُ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَلَمْ يَلْحَقْهُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ ذَنْبٌ إِلَّا الشِّرْكُ»" 24
امام طبرانی نے مختلف اسناد سے فجر اور مغرب کی نماز کے بعد مخصوص ذکر اور اس کی فضیلت کو بیان کیا ہے، الفاظ کا اضافہ ہے اور مختلف اسناد بھی بیان کی ہیں اس لئے ان تمام روایات کو روایت مذکورہ جو الاصابہ میں ہے اس کے لئے بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے۔
فجر اور مغرب کے بعد ذکر کے بارے میں روایات کا مجموعی موازنہ:
اس روایت کے متن پر مجموعی حکم صحیح لغیرہٖ کا لگایا گیا ہے اس لئے کہ اس طرح کے متن میں اسانید کی کل تعداد546ہے جن میں17.2 فیصد یعنی94 اسناد صحیح ہیں اور41.8 فیصد یعنی228 اسناد حسن ہیں ،27.3 فیصد یعنی149 اسناد ضعیف ہیں ،9.2 فیصد یعنی50 اسناد شدید ضعیف ہیں ،3.3 فیصد یعنی18 اسناد متہم بالوضع ہیں ،1.3 فیصد یعنی7 اسناد موضوع ہیں ۔ اس روایت کے363 شواہد ہیں ۔
ظہر اور عصر کو جمع کرنے کا حکم :
"وأخرج حديثه النسائي، وإسحاق بن راهويه، ويحيى الحمّانيّ في مسنديهما، من طريق أبي حذيفة عبد الملك بن محمد بن بشير، عن عبد الرحمن بن علقمة، قال: قدم وفد ثقيف على النبيّ صلى اللَّه عليه وسلّم ومعهم شيء، فقال: «أصدقة أم هديّة؟ فإنّ الصّدقة يبتغى بها وجه اللَّه والهديّة يبتغى بها وجه اللَّه والرّسول ... » الحديث.حتى إنهم شغلوه حتى صلّى الظهر مع العصر". 25
" ان کی حدیث نسائی ، اسحاق بن راہویہ اور یحیٰ حمانی دونوں نے اپنی مسند میں نقل کی ہے جو بطریق ابی حذیفہ عبد الملک بن محمد بن بشیر عن عبد الرحمن بن علقمہ مروی ہے کہ وفد ثقیف نبی ﷺ کے پاس آیا ، ان کے پاس کوئی چیز تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: صدقہ ہے یا ہدیہ ؟ کیونکہ زکوٰۃ سے مقصود اللہ کی رضا ہوتی ہے اور ہدیے کی غرض رسول اللہﷺ کی رضا جوئی ہے۔ پھر ان لوگوں نے آپ ﷺ کو اتنا مشغول رکھا یہاں تک کہ آپﷺ نے ظہر کی نماز عصر کے ساتھ ملا کر پڑھی"۔
اسے ابوداؤد طیالسی نے اپنی مسند میں اسی سند سے نقل کیا ہے۔روایتِ مذکورہ سے صدقے کی فضیلت کے ساتھ ساتھ،عذر کے وقت جمع بین الصلوٰتین یعنی ظہر اور عصر کی نماز کو صورتاً اکٹھا کرنے کا جواز معلوم ہو رہا ہے۔
سند اور متنِ حدیث کا تحقیقی جائزہ:
اس روایت میں ان سے روایت کرنے والے ابو حذیفہ ہیں جوان کے اساتذہ میں سے ہیں ، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان عبد الملک بن محمد بن بشیر کا واسطہ ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت میں انقطاع پایا جاتا ہے۔26 اس لئے بھی امام ذہبی نے عبد الملک بن محمد بن بشیر کے اساتدہ میں عبد الرحمن علقمہ کا ذکر کیا اور عبد الملک بن محمد بن بشیر کے شاگردں میں ابو حذیفہ کا ذکر کیا ہے:
عبد الملك بن محمَّد بن بشير الكوفي.
عن: عبد الرحمن بن علقمة [الكوفي] .
وعنه: أبو حذيفة. 27
اس روایت کی تائید اور استشہاد میں مختلف روایات پیش کی جاتیں ہیں جن میں سے چند کا یہاں جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
"أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ الثَّقَفِيِّ قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ ثَقِيفٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُمْ هَدِيَّةٌ، فَقَالَ: «أَهَدِيَّةٌ أَمْ صَدَقَةٌ؟ فَإِنْ كَانَ هَدِيَّةً فَإِنَّهَا يُبْتَغَى بِهَا وَجْهُ رَسُولِ اللهِ، وَقَضَاءُ الْحَاجَةِ، وَإِنْ كَانَتْ صَدَقَةً فَإِنَّمَا يُبْتَغَى بِهَا وَجْهُ اللهِ» قَالُوا: لَا، بَلْ هَدِيَّةٌ، فَقَبِلَهَا مِنْهُمْ، وَقَعَدَ مَعَهُمْ يُسَائِلُهُمْ وَيُسَائِلُونَهُ حَتَّى صَلَّى الظُّهْرَ مَعَ الْعَصْرِ"۔ 28
السنن الکبری میں ظہر اور عصر کی نماز کے جمع کرنے کے بارے میں عبد الرحمن بن علقمہ الثقفی ؓ آپ ﷺ کے عمل کو نقل کرتے ہیں اور اس کے الفاظ اور مفہوم وہی ہے جو تاریخ المدینہ کی دوسری سند کا ہے، اس لئے اس روایت کو الاصابہ کی روایت کے لئے بطور مؤید پیش کیا جا سکتا ہے :
"أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ الثَّقَفِّيِّ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ ثَقِيفٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُمْ هَدِيَّةٌ، فَقَالَ: أَهَدِيَّةٌ أَمْ صَدَقَةٌ؟ فَإِنْ كَانَتْ هَدِيَّةٌ , فَإِنَّمَا يُبْتَغَى بِهَا وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَضَاءُ الْحَاجَةِ، وَإِنْ كَانَتْ صَدَقَةٌ فَإِنَّمَا يُبْتَغَى بِهَا وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالُوا: لَا بَلْ هَدِيَّةٌ، فَقَبِلَهَا مِنْهُمْ وَقَعَدَ مَعَهُمْ يُسَائِلُهُمْ وَيُسَائِلُونَهُ حَتَّى صَلَّى الظُّهْرَ مَعَ الْعَصْرِ ,[قال الألباني]: ضعيف الإسناد" 29
"المسند الموضوعی الجامع للکتب العشرۃ میں بھی عبد الرحمن بن علقمہ الثقفی نے آپﷺ کے عمل کو بیان کیا کہ ثقیف کا وفد حضور ﷺ کے پاس آیا اور ان کے ساتھ ہدیہ تھا، آپﷺ نے فرمایا: کیا یہ ہدیہ ہے یا صدقہ ہے؟ اگر ہدیہ ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو تلاش کیا جاتا ہے اور حاجت کو پورا کیا جاتا ہے اور اگر صدقہ ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو تلاش کیا جاتا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہدیہ ہے ، آپﷺ نے اس کو ان سے قبول کر لیا ، آپﷺ ان سے سوال کرتے تھے اور وہ حضور ﷺ سے سوال کرتے رہے یہاں تک کہ تاخیر ہو گئی یہاں تک کہ آپﷺ نے ظہر کے بعد عصر کی نماز متصلاً ادا کی ، اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد یہ ذکر کیا کہ امام البانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے"۔
ظہر اور عصر کی نماز کو جمع کرنے کے بارے میں روایات کا مجموعی موازنہ:
اس روایت کے متن پر مجموعی حکم ضعیف کا لگایا گیا ہے اس لئے کہ اس طرح کے متن میں اسانید کی کل تعداد49 ہے جن میں0 فیصد یعنی0 اسناد صحیح ہیں اور0 فیصد یعنی0 اسناد حسن ہیں ،100 فیصد یعنی49 اسناد ضعیف ہیں ،0 فیصد یعنی0 اسناد شدید ضعیف ہیں ،0 فیصد یعنی0 اسناد متہم بالوضع ہیں ،0 فیصد یعنی0 اسناد موضوع ہیں ۔ اس روایت کے01 شاہد ہے، اس روایت کی تخریج میں اسی سند سے 14 روایات بیان کی گئی ہیں ۔
دوسری روایت:
"وذكر له من طريق الليث، عن معاوية بن صالح، عن عصام بن يحيى، عنه- حديثا في الصيام مثل حديث أنس بن مالك القشيري الكعبي: «إنّ اللَّه وضع عن المسافر الصوم وشطر الصّلاة»" 30
"لیث کے طریق سے ذکر کیا گیا ، انہوں نے معاویہ بن صالح سے ، انہوں نے عصام بن یحییٰ سے ، اس سے حدیث روزے کےبارے میں انس بن مالک القشیری الکعبی کی مثل نقل کی: اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزے اور نماز کا ایک حصہ ساقط کر دیا ہے"۔
اس روایت میں آپ کے استاد ابو امیمہ ہیں ، حالانکہ آپ کے استادوں میں ابو قلابہ کا نام آتا ہے اوراسی طرح ابو امیمہ کے شاگردوں میں ابو قلابہ نام تو ہے لیکن عصام بن یحییٰ کے نام کا ذکر نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں روایت میں انقطاع ہے ۔31
اس روایت کی تائید اور استشہاد میں مختلف روایات پیش کی جاتیں ہیں جن میں چند کا جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
"ذكره بعض من ألف فِي الصحابة. وذكر له حديثًا فِي الصيام من حديث اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عِصَامِ بْنِ يَحْيَى، عَنْهُ مَرْفُوعًا- مِثْلُ حَدِيثِ الْقُشَيْرِيِّ: إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلاةِ. وَهَذَا حَدِيثٌ مُضْطَرِبُ الإِسْنَادِ، وَلا يُعْرَفُ أَبُو أُمَيْمَةَ هَذَا. ومنهم من يقول فيه أَبُو تميمة، ولا يصح أَيْضًا. ومنهم من يقول فيه: أَبُو أمية، ولا يصح شيء من ذلك من جهة الإسناد". 32
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں عصام بن یحییٰ ابو امیمہ سے نقل کر رہے ہیں اور وہ مرفوعاً روایت بیان کرتے ہیں جس میں یہی مضمون ایک اور انداز سے بیان کیا ہے ، اس لئے اس روایت سے بھی روایت مذکورہ کی تائید ہوتی ہے:
"حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، وَأَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، قَالَ: كَانَ أَبُو قِلَابَةَ حَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ، ثُمَّ قَالَ لِي: هَلْ لَكَ فِي الَّذِي حَدَّثَنِيهِ، فَدَلَّنِي عَلَيْهِ، فَلَقِيتُهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَرِيبٌ لِي يُقَالُ لَهُ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ:أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّه - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي إِبِلٍ لجاري أُخِذَتْ، فَوَافَقْتُهُ وَهُوَ يَأْكُلُ، فَدَعَانِي إِلَى طَعَامِهِ، فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ. فَقَالَ: "ادْنُ -أَوْ قَالَ: هَلُمَّ- أُخْبِرْكَ عَنْ ذَاكِ: إِنَّ اللَّه وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ،" 33
صحیح ابن خزیمہ میں ایک اور سند کے ساتھ جس میں ابو قلابہ کا بھی ذکر ہے اور روایت کرنے والے حضرت انس بن مالک ؓ ہیں جس کا حاصل بھی یہی ہے کہ مسافر کے لئے روزے کی رخصت کا بیان ہے اس لئے اس روایت کو بھی بطور شاہد کے پیش کیا جاسکتا ہے:
"حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، قَالَ: كَانَ أَبُو قِلَابَةَ حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ، ثُمَّ قَالَ لِي: هَلْ لَكَ فِي الَّذِي حَدَّثَنِيهِ؟ قَالَ: فَدَلَّنِي عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي قَرِيبٌ لِي يُقَالُ لَهُ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِبِلٍ لِجَارٍ لِي أُخِذَتْ، فَوَافَقْتُهُ وَهُوَ يَأْكُلُ، فَدَعَانِي إِلَى طَعَامِهِ، فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ: " ادْنُ "، أَوْ قَالَ: " هَلُمَّ أُخْبِرْكَ عَنْ ذَلِكَ، إِنَّ اللهَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ، وَشَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ "، قَالَ: كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَلَهَّفُ، وَيَقُولُ: " أَلَا أَكُونُ أَكَلْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَعَانِي إِلَيْهِ، " 34
سنن نسائی میں ایک اور سند کے ساتھ یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ سفر شرعی کی حالت میں روزہ ساقط ہو جاتا ہے اور کھانے پینے کی اجازت ہے ، اس لئے اس روایت کو بھی بطور شاہد کے پیش کیا جا سکتا ہے۔
سفرکی حالت میں نماز میں قصر کے بارے میں روایات کا مجموعی موازنہ:
اس روایت کی سند پر مجموعی حکم صحیح لغیرہٖ کا لگایا گیا ہے اس لئے کہ اس طرح کے متن میں اسانید کی کل تعداد211 ہے جن میں25.1 فیصد یعنی53 اسناد صحیح ہیں اور56.9 فیصد یعنی120 اسناد حسن ہیں ،16.1 فیصد یعنی 34 اسناد ضعیف ہیں ، 1.4 فیصد یعنی03 اسناد شدید ضعیف ہیں ،0.5 فیصد یعنی1 سند متہم بالوضع ہیں ،0 فیصد یعنی 0 اسناد موضوع ہیں، اس روایت کے 74 شواہد ہیں۔اس روایت کی تخریج میں 67 روایات پیش کی جاتی ہیں جن میں سے اکثر میں راوی صحابی حضرت انس بن مالکؓ ہیں ۔
یوم عاشورہ کے روزے کا حکم:
"روى ابن السكن، وابن شاهين، وابن مندة، من طريق عبد الرحمن بن عمرو بن جبلة، حدثتنا فاطمة بنت محمد بن الجلاس العقيلية، قالت: دخلت على امرأة من الحي يقال لها أم يزيد بنت وعلة بن يزيد، فحدثتنا عن أبيها أنه سمع رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وآله وسلم يقرأ في صلاة الفجر بقاف، وقل هو اللَّه أحد. زاد ابن مندة: وأنه سمع النبي صلى اللَّه عليه وآله وسلم يأمر بصوم عاشوراء". 35
"ابن سکن ، ابن شاہین اور ابن مندہ نے بطریق عبد الرحمن بن عمرو بن جبلہ روایت کیا ہے کہ ہم سے فاطمہ بنت محمد بن جلاس عقیلیہ نے روایت کیا ، فرماتی ہیں : میں قبیلے کی ایک خاتون ام یزید بنت وعلہ بن یزید کے پاس گئی ، انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فجر کی نماز میں سورہ ق اور قل ھو اللہ احد پڑھتے ہوئے سنا ، ابن مندہ نے یہ اضافہ کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو عاشورہ کے روزے کا حکم دیتے ہوئے سنا"۔
روایت مذکورہ سے فجر کی نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں کے ساتھ ساتھ یوم ِعاشورہ کے روزے کا علم ہو رہا ہے ۔
سند اور متنِ حدیث کا تحقیقی جائزہ:
جمال الدین جوزی نے عبد الرحمن بن عمرو بن جبلہ کے استادوں میں سعید بن عبد الرحمن اور سلام بن ابی مطیع کا ذکر کیا ہے لیکن اس روایت میں آپ روایت فاطمہ بنت محمد بن الجلاس العقیلیہ سے نقل کر رہے ہیں۔ اس روایت کا اتصال ثابت نہیں ہو رہا ۔ 36 صلاح الدین العلائی نے عبد الرحمن بن عمرو بن جبلہ اور ابو الجلاس کے درمیان ام بلج کا واسطہ ذکر کیا جس سے معلوم ہوتا ہے روایت میں انقطاع ہے۔37
اس روایت کی تائید اور استشہاد میں مختلف روایات پیش کی جاتیں ہیں ان میں چند کا یہاں جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
"حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، «يَأْمُرُ بِصَوْمِ عَاشُورَاءَ»"
یہ روایت ابو بکر ابن ابی شیبہ نے نقل کی ہے جس میں یوم عاشورہ کے روزے کے حکم کے بارے میں ایک روایت حضرت علی ؓ سے منقول ہے ، روایت کا مفہوم وہی ہے جو الاصابہ کی روایت کا ہے ، اس روایت کو الاصابہ کی روایت کے لئے بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے۔
"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقِ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: نا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ»" .38
یہ مسند بزار کی روایت ہے جسے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے نقل کیا گیا ہے جس میں آپﷺ نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اس روایت کو بھی روایت مذکورہ کے لئے بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے:
"حُدِّثْتُ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ الْجَمْرِيِّ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ، حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ الْجُلَاسِ الْعُقَيْلِيَّةُ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنَ الْحَيِّ يُقَالُ لَهَا: أُمُّ يَزِيدَ بِنْتُ وَعْلَةَ بْنِ يَزِيدَ، فَحَدَّثَتْنِي عَنْ أَبِيهَا: «أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ بِقَافٍ، وقُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ، وَأَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِصَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ»"39
یہ معرفۃ الصحابہ لابی نعیم کی روایت ہے جس میں وعلۃ بنت یزید سے روایت یوم عاشورہ کے روزے کے بارے میں ہے ، الفاظ کی تبدیلی ہے لیکن مضمون وہی ہے جو الاصابہ کی روایت کا ہے ، اس لئے اس روایت کو الاصابہ کی روایت کی تائید میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
یوم عاشورہ کے روزے کے بارے میں روایات کا مجموعی موازنہ:
اس روایت کی سند پر مجموعی حکم صحیح لغیرہ کا لگایا گیا ہے اس لئے کہ اس طرح کے متن میں اسانید کی کل تعداد191 ہے جن میں 39.3 فیصد یعنی75 اسناد صحیح ہیں اور38.2 فیصد یعنی73 اسناد حسن ہیں ،16.8 فیصد یعنی32 اسناد ضعیف ہیں ،1.6 فیصد یعنی 3 اسناد شدید ضعیف ہیں ،4.2 فیصد یعنی8 اسناد متہم بالوضع ہیں ،0 فیصد یعنی 0 اسناد موضوع ہیں ۔ اس روایت کے121 شواہد ہیں ۔
شروع اسلام میں روزے کے ابتدائی وقت کا بیان:
"ذكره ابن شاهين وابن قانع في «الصّحابة» ، وأخرج من طريق هشيم بن حصين، عن عبد الرّحمن بن أبي ليلى، أنّ رجلا من الأنصار يقال له صرمة بن مالك، وكان شيخا كبيرا، فجاء أهله عشاء وهو صائم، وكانوا إذا نام أحدهم قبل أن يفطر لم يأكل إلى مثلها، والمرأة إذا نامت لم يكن لزوجها أن يأتيها حتى مثلها، فلما جاء صرمة إلى أهله دعا بعشائه فقالوا:أمهل حتى نجعل لك سخنا تفطر عليه، فوضع الشّيخ رأسه فنام فجاءوا بطعامه، فقال: قد كنت نمت، فلم يطعم، فبات ليلته يتقلق بطنا لظهر، فلما أصبح أتى النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم فأخبره، فأنزلت هذه الآية: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ...40 ، فرخص لهم أن يأكلوا اللّيل كله من أوله إلى آخره، ثم ذكر قصّة عمر في نزول قوله تعالى: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُمْ . وهذا مرسل. صحيح الإسناد".41
"اور بطریق ہشيم بن حصین عن عبد الرحمن بن ابی لیلی روایت کی ہے کہ ایک انصاری صاحب جنہیں صرمہ بن مالک کہا جاتا تھا انتہائی بوڑھے ہو گئے ، اپنے گھر والوں کے پاس شام کا کھانا لے آئے ، وہ روزے سے تھے ۔ ان لوگوں کی عادت تھی کہ اگر افطار سے پہلے کسی کی آنکھ لگ جاتی تو دوسرے دن کے افطار تک کچھ نہ کھاتے تھے اور اگر عورت افطار کیے بغیر سو جاتی تو اس کا خاوند دوسری افطاری تک اس سے ہمبستر نہ ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے کھانا طلب کیا، وہ لوگ کہنے لگے: آپ ٹھہریں، ہم آپ کے لئے کھانا گرم کرتے ہیں، پھر آپ کھا لینا ۔ بوڑھے میاں نے سرہانے پر سر رکھا تو آنکھ لگ گئی، وہ لوگ کھانا لائے تو یہ جاگ کر بولے: میں تو سو گیا تھا، چنانچہ کچھ نہ کھایا اور رات بھر کبھی پیٹھ کے بل تو کبھی پیٹ کے بل بے قراری میں بسر کی۔ صبح نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے ، آپ ﷺ کو ساری بات بتائی جس پر یہ آیت نازل ہوئی : ’’ اس وقت تک کھاؤ یہاں تک کہ تمہارے لئے صبح کی سپیدی نمودار ہو جائے ‘‘۔ تو ان لوگوں کو پوری رات کھانے کی رخصت ملی جو رات کی ابتداء سے سحری تک تھی۔ پھر اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں :روزے کی رات تمہارے لئے اپنی بیویوں سے ہم بستر ہونا حلال ہے ۔ حضرت عمر ؓ کا واقعہ نقل کیا ہے ، یہ مرسل ہے اس کی سند صحیح ہے"۔
عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں اور طبرانی نے ابن شاہین بطریق مسعودی ایک بار عمرو بن مرہ عن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ عن معاذ بن جبل نقل کیا: فرمایا : تین حالتوں میں روزے حلال ہوئے، پھر وہ حدیث ذکر کی۔ اس میں ہے : افطاری سے پہلے روزہ رکھ کر اگر لوگ سو جاتے تو ان کے لئے کھانا اور مباشرت ممنوع تھی، یہاں تک کہ صرمہ آئے ، وہ دن بھر اپنے باغ میں کام کر کے تھک چکے تھے، آتے ہی ٹیک لگا کر سو گئے اور سوئے بھی افطاری سے پہلے تھے۔ بیدار ہوئے ، نہ کھایا نہ پیا( ایسے میں رات گزاری) بیدار ہوئے تو کمزور ہو چکے تھے۔
ابو داؤد نے اسی سند سے یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس کی سند متصل نہیں۔ اس واسطے کہ عبد الرحمن نے حضرت معاذؓ سے سماع نہیں کیا۔ بقول بعض یہ واقعہ صرمہ بن انس کا ہے جن کے تذکرہ سے روزے کا آغاز ہوتا ہے۔ جسے ہشام بن عمار نے اپنے فوائد میں بحوالہ قاسم بن محمد نقل کیا ہے کہ روزے کا آغاز اس طرح ہوا کہ عشاء سے عشاء تک کا روزہ ہوتا تھا ۔ جب آدمی سو جاتا تو نہ کھا پی سکتا اور نہ اپنی اہلیہ کے پاس جا سکتا۔ صرمہ روزے سے تھے، افطار کیے بغیر سو گئے...... ۔
سند اور متنِ حدیث کا تحقیقی جائزہ:
یہاں الاصابہ کی سند میں کاتب کی غلطی ہے ، غلطی سے ہشيم بن حصين لکھا گیا ہے جبکہ صحیح ہشيم عن حصين ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہشيم بن حصين نام کے کسی راوی کا ذکر نہیں ملتا اور دوسری دلیل یہ ہے کہ ابن قانع نے معجم الصحابہ میں یہی مضمون روایت کرتے ہوئے لکھا ہے:
"حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا سُرَيْجٌ، نا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ"
یعنی ابن قانع نے ہشیم بن حصین نہیں بلکہ ہشیم عن حصین لکھا ہے 42 اور امام طحاوی نے بھی اپنی کتاب شرح مشکل الآثار میں یہی مضمون نقل کیا ہے:
" حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، اخْبَرَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَيْلَى"
اور انہوں نے بھی ہشیم عن حصین لکھا ہے ، ہشیم بن حصین نہیں لکھا۔43
اور اسحاق بن ابی فروہ متروک راوی ہے ، طبری نے روایت کی ہے کہ صرمہ بن انس اپنے گھر والوں کے پاس روزے کی حالت میں آئے ، وہ انتہائی بوڑھے آدمی تھے، پھر اس طرح کا واقعہ نقل کیا ۔ طبری نے ہی بطریق السدی، اللہ تعالیٰ کے ارشاد:’’ جس طرح سابقہ لوگوں پر روزے فرض ہوئے اس طرح تم پر فرض ہوئے۔‘‘ 44
صحیح بخاری 45میں ہے یہ واقعہ قیس بن صرمہ کے ساتھ پیش آیا، جسے بطریق براء بن عازب نقل کیا ۔ ابوداؤد میں اسی سند سے صرمہ بن قیس لکھا ہے اور نسائی 46کی روایت میں ابو قیس بن عمرو، یا تو اسے اس پر محمول کیا جائے یہ واقعہ کئی لوگوں کے ساتھ پیش آیا ورنہ تمام روایات کو ایک شخص کی جانب لوٹایا جائے گا ، اس واسطے کہ انہیں صرمہ بن قیس، صرمہ بن مالک ، صرمہ بن انس انہی کو قیس بن صرمہ ، ابو قیس بن صرمہ اور ابو قیس بن عمرو کہا گیا ہے۔
اس روایت کی تائید اور استشہاد میں مختلف روایات پیش کی گئی ہیں جن میں سے چند کا جائزہ یہاں پیش کرتے ہیں:
"عَنِ البَرَاءِ رضيَ الله عَنهُ قالَ: كانَ اصْحابُ مُحَمَّدٍ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا كانَ الرَّجلُ صائماً؛ فَحَضَرَ الإفْطارُ فَنَامَ قَبْلَ أنْ يُفْطِرَ؛ لم يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ ولا يَوْمَهُ حَتَّى يُمسيَ، وَأنَّ قَيْسَ بنَ صِرْمَةَ الانْصارِيَّ كانَ صائماً، فَلَمَّا حَضَرَ الإفْطارُ اتَى امْرَاتَهُ، فَقالَ لَها: اعِنْدَكِ طَعامٌ؟ قَالَتْ: لا، وَلكنْ انْطَلِقُ فَاطْلُبُ لَكَ، وكان يَوْمَهُ يَعْمَلُ، فَغَلَبَتْهُ عَيناهُ، فجاءَتْهُ امْرَأتُهُ، فَلمَّا رَاتْه قالَتْ: خَيْبَةً لكَ ، فَلمَّا انْتَصَفَ النَّهارُ غُشِيَ عَليهِ. فَذُكِرَ ذلك للنَّبيِّ- صلى الله عليه وسلم - فنزَلتْ هذهِ الآيةُ: {أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ} فَفَرحُوا بِها فَرحاً شَديداً، ونَزَلَتْ: {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْابْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاسْوَدِ}".47
صحیح بخاری میں براءؓ کی سند سے روایت مروی ہے ، روایت کا مکمل مفہوم وہی ہے جو الاصابہ کی روایت والا ہے ، راوی تبدیل ہے ، اس لئے اس روایت کو الاصابہ کی روایت کے لئے بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے:
"حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ابِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كَانَ اصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا، فَحَضَرَ الإِفْطَارُ، فَنَامَ قَبْلَ انْ يُفْطِرَ لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ وَلا يَوْمَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الانْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا حَضَرَ الإِفْطَارُ اتَى امْرَاتَهُ، فَقَالَ لَهَا: اعِنْدَكِ طَعَامٌ؟ قَالَتْ: لا وَلَكِنْ انْطَلِقُ فَاطْلُبُ لَكَ، وَكَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، فَجَاءَتْهُ امْرَاتُهُ، فَلَمَّا رَاتْهُ قَالَتْ: خَيْبَةً لَكَ، فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ غُشِيَ عَلَيْهِ،"48
مؤطا میں امام مالک ؒ نے حضرت براء کی سند صحیح بخاری کی روایت کی مثل روایت نقل کی ہے ، اس لئے اس روایت کو بھی الاصابہ کی روایت کے لئے بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے:
"حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ ابِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: كَانَ اصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الإِفْطَارُ فَنَامَ قَبْلَ انْ يُفْطِرَ، لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ وَلا يَوْمَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الانْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْإِفْطَارُ اتَى امْرَاتَهُ، فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكِ طَعَامٌ؟ قَالَتْ: لا، وَلَكِنْ انْطَلِقُ فَاطْلُبُ لَكَ، وَكَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ وَجَاءَتْهُ امْرَاتُهُ، فَلَمَّا رَاتْهُ قَالَتْ: خَيْبَةً لَكَ. فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ غُشِيَ عَلَيْهِ، ......هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ". 49
"جامع ترمذی میں حضرت براء رضی الله عنہ سےروزےکےبارےمیں روایت ہے کہ اصحاب النبی ؓ رات کوسونےسےپہلےکھاپی لیتےتھےاور اسی طرح روزہ رکھ لیتےتھےیہاں تک کے شام ہو جاتی تھی نہ تودن کے وقت کچھ کھاتےاورنہ ہی رات کوکھاتے،تواسی حالت میں ایک صحابی ؓ کی حالت خراب ہو گئی اوران پر غشی کےدورےپڑنےلگےتواس کےبعدیہ آیت اتری تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئے، اس روایت کو بھی الاصابہ کی روایت کے لئے بطور شاہد پیش کیا جا سکتا ہے ، اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے" ۔
شروع اسلام میں روزے کے ابتدائی وقت کے بارے میں روایات کا مجموعی موازنہ:
اس روایت کے متن پر مجموعی حکم صحیح کا لگایا گیا ہے اس لئے کہ اس طرح کے متن میں اسانید کی کل تعداد31 ہے جن میں25.8 فیصد یعنی08 اسناد صحیح ہیں اور25.8 فیصد یعنی08 اسناد حسن ہیں ،38.7 فیصد یعنی 12 اسناد ضعیف ہیں ،6.5 فیصد یعنی02 اسناد شدید ضعیف ہیں ،3.2 فیصد یعنی01 سند متہم بالوضع ہیں ،0 فیصد یعنی 0 اسناد موضوع ہیں، اس روایت کے27 شواہد ہیں جن میں مختلف رواۃ ابتداء میں روزے کے وقت کو بیان کر رہے ہیں۔اس روایت کی تخریج میں 02 روایات پیش کی جاتی ہیں۔
نتائج البحث
اس تحقیقی جائزہ کے بعد چند اہم نکات جو ہمارے سامنے مترشح ہوئے وہ یہ ہیں :
الاصابہ میں بعض جگہوں پر رواۃ کے درمیان واسطہ حذف ہے۔
بعض جگہوں پر ایسا لگتا ہے جیسے کاتب کی غلطی سے تبدیلی رونما ہو گئی ہے۔
بعض مواقع جو نام موجود ہے اور اصل نام میں فرق معلوم ہوتا ہے۔
الاصابہ میں روایات ہر معیار کی پائی جاتیں ہیں۔
الاصابہ میں زیادہ تر روایات صحیح کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔
عبادات کی روایات میں منقطع روایات پائی جاتیں ہیں۔
بعض مواقع پر ایسے رواۃ پائے جاتے ہیں ، اگر ان کو درمیان سے نکال دیا جائے تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ دونوں صحابی ہیں اور دونوں کا ہی آپﷺ سے سماع ثا بت ہے۔
بعض مواقع پر کسی راوی کا غیر معروف نام بھی ذکر کیا گیا ہے۔
سفارشات و تجاویز
ابن حجرؒ نے حدیث اور مختلف علوم میں ایک مثالی کام کیا ہے ، الاصابہ فی تمیز الصحابہ صحابہ کی تاریخ کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں موجود نماز اور روزے کے بارے میں روایاتِ احکام پر تحقیقی جائزہ اس آرٹیکل میں پیش کیا گیا ، البتہ مختلف طریقہ کار ہیں جن پر الاصابہ میں مزید کام کیا جا سکتا ہے:
الاصابہ میں احادیثِ احکام کی استنادی حیثیت
الاصابہ میں مرقوم صحابہ کرام کی باہم رشتہ داریاں
الاصابہ کی روشنی میں عہد صحابہ کی تہذیب و ثقافت
رجال الاصابہ کا تحقیقی تجزیہ
الاصابہ کی روشنی میں صحابہ کرام ؓکے ذمیوں،غیر مسلموں سے تعلقات کا تحقیقی جائزہ
ریاست کے غیر مسلم ریاستوں سے تعلقات
صحابیت کا مختلف فیہ ہونا اور الاصابہ کا اسلوبِ تحقیق
الاصابہ میں مذکور اسانید کے اتصال کا تحقیقی جائزہ
الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں بیان کردہ روایات کا تحقیقی جائزہ
الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں بیان کردہ مخضرمین صحابہؓ کا تحقیقی جائزہ
الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں بیان کردہ صحابہؓ کے حالات کا تحقیقی جائزہ
الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں موجود وہ صحابہ کرامؓ جن کے لئے مصنف نے ’’ لہ رؤیۃ‘‘ استعمال کیا ان کے حالات کا تحقیقی اور تفصیلی جائزہ
Lecturer of Islamic Studies, KF University of Engineering & IT R.Y Khan Majid.rashid@kfueit.edu.pk
1Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, Al-Aṣābah FĪ TamĪz al-Ṣaḥabah, TeḥqĪq: ‘Adil Aḥmed ‘Abd al-Mawjōd wa ‘Ali Muḥammad Mu‘awiz (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1st Edition: 1415 A.H), 6:111.
2‘Abu ‘Abd al-Reḥmān Aḥmed bin Shu’ayb bin ‘AlĪ al-KhurāsānĪ, Al-Sunan al-Ṣughrā Li- Al-NisāĪ, Ḳitāb al-Mujtabā TeḥqĪq: ‘Abu Ghadah ‘Abd al-Fatāh (Ḥalab: Maḳtab al-Maṭbō’āt al-IslamĪyah, 2nd Edition: 1406 A.H), 1:258.
3‘Abu al-Ḥusayn ‘Abd al-BāqĪ bin Qān‘I al-BaghdādĪ, Mu‘jam al-Ṣaḥābah, TeḥqĪq: Ṣalāḥ bin Sālim al-MiṣrātĪ (Al-MadĪnah al-Munawrah: Maḳtabah al-Ghurabā al-AthrĪyah, 1st Edition: 1418 A.H), 5:285.
4Jamāl al-Dīn Abū al-Ḥajjāj Yūsuf ibn al-Zakī ʻAbd al-Raḥmān ibn Yūsuf al-Mizzī, TehzĪb al-ḳamāl FĪ Āsmā al-Rijāl, TeḥqĪq: Dr. Bishār ‘Awwād M’arōf (Beirūt: Mu’assast al-Risālah, 1st Edition: 1400 A.H), 29:352-53.
5Abū Baḳr Aḥmed bin ‘AlĪ bin Thābit al-KhaṭĪb al-BaghdādĪ, TalkhĪth al-Mutshābih FĪ al-Rasm, TeḥqĪq: Suḳynah al-ShhābĪ (Damishq: Ṭalās LĪ al-DĪrāsāt wa al-Tarjamah wa al-Nashr, 1st Edition: 1985 A.D), 1:473.
6Aḥmad bin Ḥanbal, Musnad, TeḥqĪq: Shu’ayb al-Arna’wūṭ Wa ‘Ādil Murshid (Beirūt: Mu’assast al-Risālah, 1st Edition: 1421 A.H), 18:180.
7‘Abd al-Jabbār Ṣuhayb, Al-Musnad Al-Musnad al-Mawḍō’Ī al-Jām‘I Lil ḳutub al-‘asharah (Al-Maḳtabah al-Shamilah, 2013), 10:453.
8Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, 7:17
9Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, TehdhIb al-TehdhĪb (India: Maṭba’ah Dā’irah al-Ma‘arif al-NiẓāmĪyah, 1326 A.H), 1:379.
10Zayn al- DĪn Qāsim bin Quṭlūbgha, Al-Thaqāt Miman lam Yaq‘a FĪ al-ḳutub al-Sittah, TeḥqĪq: ShādĪ bin Muḥammad bin SālĪm Āli Nu’mān (Yemin: Marḳaz al-Nu’mān Lil Baḥōth wa al-DĪrāthāt al-IslamĪyah, 1st Edition: 1432 A.D), 7:126.
11Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, TaqrĪb al-ThedhĪb, 115.
12Jamāl al-Dīn Abū al-Ḥajjāj Yūsuf ibn al-Zakī ʻAbd al-Raḥmān ibn Yūsuf al-Mizzī, TehzĪb al-ḳamāl FĪ Āsmā al-Rijāl, 3:379.
13Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, TehdhIb al-TehdhĪb, 1:379.
14ĀBu ‘Umar Yūsuf bin ‘Abdullah bin Muḥammad al-QurṭabĪ, Al-Isti’āb FĪ M‘arifa tul Aṣḥāb (TeḥqĪq: ‘AlĪ Muḥammad al-BajāwĪ), Beirūt: Dār al-jayl al-JadĪd, 1st Edition: 1412 A.H), 4:1603.
15Al-NaysāpōrĪ, Ṣaḥiḥ Ibn Khuzaymah, 2:982.
16‘Abu ‘Abd al-Reḥmān Aḥmed bin Shu’ayb bin ‘AlĪ al-KhurāsānĪ, Al-Sunan al-Ṣughrā Li- Al-NisāĪ, Ḳitāb al-Mujtabā, 4:181.
17Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, 3:504/, 4:350.
18 Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, TaqrĪb al-ThedhĪb, 329.
19Al. DhahbĪ, Siyyar I‘lām al-Nubalaā, 15:357.
20Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, TaqrĪb al-ThedhĪb, 329.
21Jamāl al-Dīn Abū al-Ḥajjāj Yūsuf ibn al-Zakī ʻAbd al-Raḥmān ibn Yūsuf al-Mizzī, TehzĪb al-ḳamāl FĪ Āsmā al-Rijāl, 16:317.
22Jamāl al-Dīn Abū al-Ḥajjāj Yūsuf ibn al-Zakī ʻAbd al-Raḥmān ibn Yūsuf al-Mizzī, TehzĪb al-ḳamāl FĪ Āsmā al-Rijāl, 16:316.
23Abū ‘Abd al-Raḥmān Aḥmad bin Shu’ayb al-KhurāsānĪ, ‘Amal al-Yawum wa al-Laylah, TeḥqĪq: Fārūq Ḥammādah (Beirūt: Mu’assast al-Risālah, 2st Edition: 1406 A.H), 385.
24Abū al-Qāsim Sulaymān bin Aḥmed Al-ṬabrānĪ, Al-Du‘ā’, TeḥqĪq: Muṣṭafā ‘Abdul Qādir (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1st Edition: 1413 A.H), 223-24.
25Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, 4:283.
26Abū Nu’aym Aḥmad bin ‘Abdullah bin Aḥmad Al-AṣbahānĪ, M‘arifah al-Ṣaḥābah, TeḥqĪq: ‘ĀdĪl bin Yūsuf al-‘AzazĪ (Al-Riyāḍ: Dār al-Waṭan lil Nashr, 1st Edition: 1419 A.H), 4:1840.
27Shams al-DĪn ĀbĪ ‘Abdullah Muḥammad bin Aḥmad Al-ZahbĪ, TahdhĪb TehzĪb al-ḳamāl FĪ Āsmā al-Rijāl, TeḥqĪq: GhanĪm ‘Abbās GhanĪm wa MajdĪ al-Sayyid ĀmĪn (Al-Qāhirah: Alfārūq al-Ḥaditha lil-Ṭabā’t wa al-Nashr, 1st Edition: 1425), 6:164.
28Al-BayhqĪ, Al-Sunan al-ḲabĪr, 6:201.
29‘Abd al-Jabbār Ṣuhayb, Al-Musnad Al-Musnad al-Mawḍō’Ī al-Jām‘I Lil ḳutub al-‘asharah, 10:439.
30Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, 7:17.
31Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, TehdhIb al-TehdhĪb, 1:379.
32ABu ‘Umar Yūsuf bin ‘Abdullah bin Muḥammad al-QurṭabĪ, Al-Isti’āb FĪ M‘arifa tul Aṣḥāb, 4:1603.
33Al-NaysāpōrĪ, Ṣaḥiḥ Ibn Khuzaymah, 2:982.
34Aḥmad bin Ḥanbal, Musnad, 33:436.
35Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, 6:478.
36Abū al-Farj ‘Abd al-Reḥmān bin ‘AlĪ bin Muḥammad Al-JawzĪ, Al-Ḍu’afā’ Wa Al-Matrōḳōn, TeḥqĪq: ‘Abdullah Al-QādhĪ (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1st Edition: 1406 A.H), 2:98.
37Abū SaĪd KhalĪl bin ḳyiḳaldĪ bin ‘Abdullah Al-DimishqĪ, Jāmi’ Al-TeḥṣĪl FĪ ’Ihḳām al-MarāsĪl, TeḥqĪq: ḤumdĪ bin ‘Abdul Majeed al-SalfĪ ((Beirūt: ‘Ālam al-Kutub, 2st Edition: 1407 A.H), 174.
38Abū Baḳr Aḥmen bin ‘Amr Al-Bazāz, Musnad Known as Al-Baḥr al- Zakhār, 6:182.
39Al-ĀṣbahānĪ, M‘arifah al-Ṣaḥābah, 5:2736
40Al-Baqarah, 2:187.
41Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, 3:343.
42‘Abu al-Ḥusayn ‘Abd al-BāqĪ bin Qān‘I al-BaghdādĪ, Mu‘jam al-Ṣaḥābah, 2:24.
43Abū J‘affar Aḥmed bin Muḥammad Al-ṬaḥāwĪ, Sharḥa Mushḳil al-Āthār, TeḥqĪq: Shu’ayb al-Arna’wūṭ (Beirūt: Mu’assast al-Risālah, 1st Edition: 1415 A.H), 1:419.
44Al-Baqarah, 2:184.
45Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Ismā’Īl BukharĪ, Al-ṣaḥĪḥ, TeḥqĪq: Muḥammad Zuhayr bin Nāṣir al-Naṣir (Dār Ṭawq al-Nujāt, 1st Edition: 1422 A.H), 1:553.
46‘Abu ‘Abd al-Reḥmān Aḥmed bin Shu’ayb bin ‘AlĪ al-KhurāsānĪ, Al-Sunan al-Ṣughrā Li- Al-NisāĪ, Ḳitāb al-Mujtabā, 4:147.
47Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Ismā’Īl BukharĪ, Al-ṣaḥĪḥ, 1:553.
48Mālk bin ’Anas, Al-Mawṭā, TeḥqĪq: Muḥammad Muṣṭafā al-A‘ẓamĪ (Abū ẒahabĪ: Mu’assast Zāyid bin Sultān, 1st Edition: 1425 A.H), 1:338.
49Muḥammad bin ‘Īsā Al-TirmdhĪ, Al-Sunan, TeḥqĪq: Aḥmed Muḥammad Shāḳir, Muḥammad F’awād ‘Abdul BāqĪ (Miṣar: Maḳtabah wa Maṭbah Muṣṭafā al-BābĪ al-ḤalabĪ, 2nd Edition: 1395), 5:60.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |