1
2
2020
1682060063651_3190
30-41
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/16/18
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/16
Key words: ‘Usūl e Ḥadīth Authenticity of Hadith Muhadithin Basic principles Compilation of Hadith Literature.
ک ُتب اصول حدیث اکیسویں صدی میں ایک تعارفی جائزہ )34(
کُتبِ اُصول حدیث اکیسویں صدی میں ؛ایک تعارفی جائزہ
An Introductory Review of the Books written on ‘Usūl e Ḥadīth in 2ist Century
Sumaira Bibi
Muslims are a unique nation in the world who have shown unparalleled activism in preserving their sayings and relics. Caution was in view from day one. The simple precautionary measures taken in the early days later took the form of theology. In the beginning, the principles and rules of this knowledge did not exist in a disciplined form, although the scholars of Muḥaddithin adhered to the basic principles of this knowledge from the very beginning. However, references to these principles were to be found in the books of the pious. In the 4th Hijri, the scholars of Muhaddithin compiled the previous scattered work on the art of the principle of Ḥadith. Now these comprehensive definitions and terms are before us in a systematic and disciplined form in the books of ‘Usūl e Ḥadīth. In this short essay, the definition and necessity and importance of Hadith and ‘Usūl e Ḥadīth have been highlighted and also an introductory review of books written on ‘Usūl e Ḥadīth th and their authors and authors has been presented. Which indicates this. How strict were the rules and regulations of the Muslim Ummah for examining the authenticity and text of the Holy Hadith and how did they separate the authentic, weak and subject matter of the hadiths and write their separate books? And how hard they have worked to promote art.
Key words: ‘Usūl e Ḥadīth, Authenticity of Hadith, Muhadithin, Basic principles, Compilation of Hadith Literature.
علم اصول حدیث ایک تعارف:
علم ِاُصولِ حدیث ایک ایسا فن ہے جو اُن قواعد و ضوابط کا مجموعہ ہے جن کی روشنی میں راوی کے حالات اور اس کی روایت کردہ حدیث
کے قبول و رد کا فیصلہ کیا جاتا ہےیا وہ علم ہے جس کے ذریعے راوی اور روایت کے حالات معلوم ہوتے ہیں۔1 چونکہ حدیث دینِ اسلام کادوسرا بنیادی ماخذ ہے جس کی حجت کا جاننا ،سنداور متن سے واقفیت کا ہونا ضروری ہےکیونکہ حدیث کے قبول، مردود، ضعیف اور موضوع ہونے کافیصلہ اس کی سند یعنی راویانِ حدیث کی حالت کے پیش نظر کیا جاتا ہےاور سند وہ سلسلہ روایت ہے جو متن ِحدیث تک پہنچتا ہے۔محدثین نے اسناد کی چھان بین کی طرف خصوصی توجہ دی تاکہ صحیح روایات کو موضوع روایات سے الگ کر دیا جائےاور شکوک وشبہات کورفع کر دیا جائے۔ حدیث کی صحت کوراوی کے صدق وعدل سے پرکھا جاتا ہے۔ اسنادِحدیث کی تحقیق مسلمانوں کے ہاں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سند ِحدیث کی معلومات کے لئے کئی قسم کی کتب لکھی گئیں ۔
ان میں معرفتہ الصحابہ،معرفتہ التابعین،کتب ِطبقات ،کتبِ اَ نساب،تاریخ ِاَقوال رواۃ الحدیث،کتب ِرجال ،کتب ِمخصوصہ کے رجال،ثقات اور کتبِ ضعفاءوغیرہ شامل ہیں۔حتی کہ محدث وطالبِ حدیث کے آداب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ علماء اسلام نے عام طور پر اور محدثین نے خاص طور پرطالبِ حدیث کی تربیت میں ادب کو بہت اہمیت دی ۔محدثین طالبِ علم کی حرکات کا خیال رکھتے تھےاور انہوں نے آدابِ طالب پر طویل بحث کی ہے۔فنِ تخریج ِحدیث ،انواع ِکتبِ حدیث ،مراکزِحدیث، مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ،کوفہ کے مراکزِحدیث،بصرہ کے مراکز ،مصر کے مراکز،مدارسِ علومِ حدیث، فتنہ انکارِحدیث اور اس کے اسباب،کتب ِطبقات،منکرین ِحدیث،وضاعینِ حدیث،محرفینِ حدیث، برصغیر کے منکرینِ حدیث وغیرہ کا اپنی کتب میں تذکرہ کیا ہے۔
(الف) علمِ اصول حدیث کا آغاز و ارتقاء:
ابتداء میں اس علم کے اُصول و قواعد منضبط شکل میں نہ تھے اگرچہ علماء محدّثین اس علم کےبنیا دی اصولوں کا التزام شروع ہی سےکرتے تھے۔اب وہ جامع تعریفات اوراصطلاحات ِاصولِ حدیث کی کتب میں ایک مرتب ومنضبط شکل میں ہمارے سامنے ہیں ۔ البتہ متقد مین کی کتب میں ان اصولوں کی طرف اشارات مل جاتے تھے ۔متاخرین نےاس علم کو باقاعدہ ایک فن کی شکل دی اور اس کے اصول و قواعد کو احاطہ تحریر میں لائے۔چوتھی ہجری میں علماء محدثین نے فن اصولِ حدیث پر سابقہ بکھرے ہوئے کام کوباسند مرتب کیا۔اس دور میں لکھی جانے والی کتب مندرجہ ذیل ہیں:
1 ۔المحدیث الفاصل بین الراوی والواعی:
علمِ حدیث سے جس شخصیت نے سب سے پہلے منظم انداز سے تمام اصناف کو یکجاکرتے ہوئے علم مصطلح حدیث کو مرتب کرنے کا اعزاز حاصل کیا وہ قاضی ابو محمدالحسن بن عبدالرحمن بن خلاد رامہر مزی (۳۶۰ھ)ہے ۔ یہ کتاب فنی اعتبار سے اصولِ حدیث پر لکھی جانے والی پہلی کتاب شمار کی جاتی ہے۔2
2۔معرفتہ علوم الحدیث:
یہ کتاب ابو عبداللہ محمد بن الحاکم نیشاپوری (۳۰۱ تا ۳۵۵ھ) کی تصنیف ہے۔ یہ اصول ِحدیث پر دوسری بڑی کتاب ہے اور یہی وہ پہلی کتاب ہے جس کا نام "علوم الحدیث "رکھا گیا ۔ اس میں صحیح ،ضعیف، مرسل اور مفصل وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کچھ ایسے انواع بھی قائم کی گئی ہیں جن کا پہلے التزام نہیں تھا۔
3۔ کتاب المدخل الی معرفتہ الصیحح:
یہ امام حاکم کی علمِ حدیث پر مشتمل دوسری کتاب ہے ۔مدخل دراصل کسی علم کے مبادیات پر مشتمل کتاب کو کہتے ہیں۔
4۔ الکفایہ فی اصول علم الراویہ:
یہ کتاب حافظ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی رحمتہ اللہ( ۴۶۳ھ)کی تالیف ہے۔ اس کتاب کو اصولِ حدیث کی ابتدائی معروف کتابوں میں تیسری قراردیا جا تا ہے۔حافظ ابن حجر ؒنے بھی یہی ترتیب بیان کی ہے۔3
5۔نخبتہ الفکر:
یہ کتاب حافظ ابوالفضل شہاب الدین ابن حجرالعسقلاتیؒ کی تالیف ہے اور کہاجاتا ہے کہ یہ حافظ ابن الصلاح ( ۵۵۷)کی علوم حدیث کا اختصارہے۔علماء میں یہ بےحد مقبول ہوئی۔اس کےعام فہم ہونے کے ناطے اسے حفظ کرنا آسان ہے۔
6۔ مقدمہ ابنِ الصلاح:
یہ کتاب ابو عمر و عثمان بن الصلاح الشھرزوری ؒ کی تالیف ہے۔اس کتاب میں آپ نےاصولِ حدیث کی ایک نئی ترتیب منظم کی ہے۔یہ کتاب علمی حلقوں میں مقدمہ ابنِ الصلاح کےنام سے مشہور ہے اور اصطلاحاتِ حدیث کے فن میں سب سے بہترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔
درج ذیل بالاکتب کے علاوہ اور بہت سی تصانیف ہی ہیں۔
7۔ المستخرج:
احمدبن عبداللہ اصفہانی(۳۳۶ھ تا۴۳۰ھ)نےحدیث کی اصطلاحات یا وہ مسائل جورہ گئےتھے انھیں ابو نعیم اصفہانی نے اپنی اس کتاب میں سمونے کی کوشش کی ہے۔
8۔ انواع علوم الحدیث
ساتویں صدی ہجری کے عظیم محدث قاضی القضاہ احمد بن خلیل بن سعادۃ(۶۳۷ھ)ہیں۔ انہوں نے علوم الحدیث تحریر کی جو علم حدیث کے مختلف انواع پر مشتمل ہے۔
9۔ الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع
یہ خطیب بغدادی (۴۶۳ھ)کی حدیث کے حوالے سے دوسری کتاب ہے جس میں روای اور محدث کے آداب تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔
9۔الالماع الیٰ معرفتہ اصول الروایہ وتقیید السماع
قاضی عیاض بن موسیٰ الیحصبی ۴۷۶ھ کو پیدا ہوئے اور ۵۴۴ھ میں فوت ہوئے ۔علم حدیث کے حوالے سےالالماع بہت مفید کتاب ہے۔جس میں مصنف نے معرفتہ ضبط ،تقیید السماع والروایات ،درایت ، طلب علم حدیث کے ٓاداب ،سماع اور اس کے آداب ،طلب حدیث میں نیت ،انواع اخذ ونقل اور روایت کی قسمیں ،الصیہ با لکتاب ،خط تقیید والسماع ،الکتابہ ،روایت باللفظ وروایت با لمعنی وغیرہ کے عنوانات پر تبصرہ کیا ہے۔
10۔مالا یسع الحدیث جھلہ
ابوحفص عمر بن المجید المیا نجی ۵۸۱ھ میں فوت ہوئے۔ اپنے وقت کے بڑے مشہور محدث تھے۔ انہوں نے ائمہ حدیث پر نہایت جامع اور مختصر کتاب تحریر کی ۔جس میں پہلے علم کی فضیلت پر احادیث لکھی ہیں پھر علم حدیث کی فضیلت پر بحث کی ہے ۔4
(ب) برِصغیر میں اصول حدیث کا تاریخی ارتقاء
برِصغیر پاک و ہند میں حدیث کی نشر و اشاعت اور اس کی ترقی وترویج علماء الحدیث کے ذریعہ بہت زیادہ ہوئی ۔ان علماء نے درس وتدریس کے ذریعہ بھی حدیث کی بہت اشاعت کی اور ساتھ ہی تصنیف وتالیف کے ذریعہ علم ِحدیث کو خوب پھیلایا ۔علم حدیث کی نشرو اشاعت میں نمایاں خدمات انجام دیں اور ان سے بے شمار علمائے کرام نے اکتساب فیض کیا۔ تفسیر،حدیث،فقہ اور دوسرے علوم اسلامیہ پر ان کو کامل عبور تھا۔ابتدائی چار صدیوں میں ہندوستان میں لوگوں کا رجحان صرف حدیث نبوی کی طرف تھا کیونکہ اسلام ہندوستان میں داخل ہوا تو قرآن و حدیث کے علاوہ اور کسی چیز کا وجود نہیں تھا ۔لوگ علماء اور محدثین کا بہت احترام کرتے تھے۔چنانچہ ابو القاسم مقدسی جس نے سلطان محمود غزنوی سے پہلے (۳۷۵ھ/۹۸۵ھ)میں سندھ کو دیکھا"ان میں اکثر لوگ حدیث کی طرف رجحان رکھنے والے ہیں "۔
1۔ عرب سے آنے والےمحدثین
۱۔ابو حفص ربیع بن صبیح بصری 5۲۔اسرائیل بن موسٰی بصری6 ۳۔شیخ اسماعیل7 ۴ ۔یزیدبن ابی کبشہ دمشقی
برِصغیر میں علم حدیث کے فروغ کا آغاز دسویں صدی ہجری ہے۔ اس وقت مصر، شام اور حجاز میں امام حدیث حافظ محمد بن عبدالرحمٰن سخاوی رحمتہ اللہ علیہ(۹۰۲ھ م) کے فضل و کمال کا آفتاب نصف النہار پر تھا ۔ امام سخاویؒ نے مدینہ منورہ میں درسِ حدیث کا سلسلہ شروع کر کے نور کا مرتبہ حاصل کر لیا تھا۔8
2۔ حافظ ابن حجر مکی (1504 ء /1567ء)
حافظ محمد بن عبد الرحمٰن سخاویؒ کے بعد حافظ ابن حجرؒ مصنف "صواعق محرقہ "مسند تحدیث پر فائز ہوئے یہ ابو الحسن بکری ؒ کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ ابن حجرؒ کی حدیث کی تدریس اور اس کی نشرو اشاعت میں نمایاں خدمات ہیں۔ ان سے بے شمار علمائے کرام نے اکتسابِ فیض کیا۔ تفسیر ،حدیث،فقہ اور دوسرے علوم اسلامیہ پر ان کو کامل عبور تھا۔
3۔محمد بن طاہرپٹنی (913 ھ /984ھ)
شیخ محمد طاہر ؒ حدیث میں صاحبِ کمال تھے ۔ حدیث میں ان کے علم وفضل کی شہرت پورے عالم اسلام میں تھی ۔ حدیث کے علاوہ لغت اور عربی میں کامل دسترس رکھتے تھےاورانہوں نے اپنے علمی کمال کی وجہ سے علم حدیث کے لئےمفید خدمات انجام دیں۔ انہوں نے صرف حدیث کی شرح و توضیح اور اس کی علمی خدمات ہی انجام نہیں دی بلکہ حدیث وسنت کی خدمت ،اس کا فروغ اور اشاعت بھی ان کی زندگی کا مقصد اولین تھا ۔شیخ محمد بن طاہر ۹۸۶ھ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔
4۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703 ء /1762 ء)
برصغیر پاک وہند میں حدیث کی اشاعت اور اس کی خدمت میں حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہؒ کی خدمات سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ درس وتدریس اور وعظ وتبلیغ کے علاوہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ تصنیف وتالیف پر توجہ دی۔حدیث اورمتعلقات حدیث پر متعدد کتابیں تصانیف لکھیں ۔حدیث پر ان کی دو کتابیں "المسوی من احادیث الموطا "(عربی ) اور"المصفٰی" (فارسی) بہت مشہور ہیں۔ یہ دونوں کتابیں موطاامام مالک کی شروحات ہیں علاوہ ازیں ان کے شرح تراجم ابواب بخاری (عربی) اور حجتہ اللہ البالغہ جیسی بے نظیر اور عدیم المثال کتب رقم فرمائیں۔
5۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی (1551 ء /1642ء)
شیخ عبدالحق بن سیف الدین بن سعد اللہ محرم ۹۵۸ھ مطابق جنوری ۱۵۵۱ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔اپنے والد محترم سے تحصیل علم کے بعد مکہ معظمہ جا کر شیخ عبدالوہاب متقی ؒ(۱۰۰۱ھ)سے حدیث کی تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں ہندوستان واپس آئےاور حدیث کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا اورساری زندگی اس علم کی خدمت میں بسر کر دی۔ "کمال فی اسماء الرجال " اور"شرح مشکوۃالمصابیح" ان کی مشہور کتب ہیں ۔
6۔شیخ احمد سرہندی (1564 ء /1624ء)
فن حدیث کی اشاعت اورخدمت کرنے والوں میں امام ربانی مجددالف ثانی المعروف شیخ احمد سر ہندیؒ بھی شامل ہیں۔انہوں نے ایک رسالہ لکھا"رسالہ اربعین"۔
7۔شاہ عبد القادر دہلوی (1753 ء /1814ء)
شاہ عبد القادردہلویؒ۱۱۴۰ھ/۱۷۵۳ءکو دہلی میں پیداہوئے ۔علوم اسلامیہ کی تحصیل اپنے والد شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے فراغت کے بعد ساری زندگی تدریس فرماتے رہے۔تفسیر،حدیث اور فقہ میں ان کو عبور حاصل تھا۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ قرآن ِمجیدکا بامحاورہ ترجمہ ہے۔
(ج) 2000ءسے 2010 ءکی دہائی میں اصولِ حدیث پر لکھی گئی کتب کا تعارفی جائزہ
اس عرصہ میں درج ذیل کتب معرضِ وجود میں آئیں:
1۔التحدیث فی علوم الحدیث ازڈاکٹر عبدالرؤف ظفر
یہ کتاب ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر کی تحریرکردہ ہے ۔ ۲۰۰۴ء مکتبہ قدوسہ اردو بازار ،لاہورسے شائع ہوئی۔مذکورہ کتاب ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
تعارف ِمصنف:
ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر ۸ جنوری۱۹۵۱ءکو بہاولنگر میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام عبدالغفار تھا۔آپ کا تدریسی تجربہ ۳۱ سال کا تھا ۔ تحقیقی کتابیں ۱۸ ،کورس کی کتابیں ۷، تحقیقی مضامین۹۵ ہیں۔اس کےعلاوہ عربی انگلش اور اردو میں ان کے ۶۴ کے قریب مقالات بھی شائع ہو چکے ہیں۔
تعلیمی قابلیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم چشتیاں سے حاصل کی۔ بی ایڈ کی ڈگری گورنمنٹ کالج ملتان سے حاصل کی ۔یونیورسٹی آف بہاولپور سے ایم اے اسلامک اسٹڈیزمیں سلور میڈلسٹ کیااور ایم اے عربی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔آپ نے پی ایچ ڈی ۱۹۸۸ءمیں گلاسکو یونیورسٹی اسکاٹ لینڈسے کیا۔ اورآپ نےقائداعظم سکالرشپ بھی حاصل کیا۔اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے آپ ۱۹۸۸ ء سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں حدیث شریف کے استاد اور ۱۹۹۱ءسے مسند سیرت کے ڈائریکٹر رہے۔ ہائر ایجوکشن کمیشن اسلام آبادکی طرف سے ۲۰۰۳ء کے بہترین ٹیچر ایوارڈ کے لیے منتخب ہوئے۔گورنرپنجاب نے لاہورمیں بہترین ٹیچر ایوارڈ کے سلسلہ میں شیلڈدی اوربہادر والا کی اسلامی یونیورسٹی کی طرف سےبہترین ٹیچر ایوارڈ ۲۰۰۵ء میں شیلڈدی گئی۔آپ کے زیرِ نگرانی ایم اے ،ایم فل ،پی ایچ ڈی کے بہت سے طلباءنے مقالہ مکمل کیا اور انہیں ڈگری سے نوازا گیا۔ان کی تصانیف میں تفسیرِالقرآن کا مفہوم،۱۹۹۱ء، تسمیۃ المشائخ ،۱۹۹۴ ء،معراج النبی حقائق واسرار،۱۹۹۴،جامع القرآن وحدیث،۲۰۰۰ء،مقالاتِ سیرت، ۲۰۰۵ء، اسوہ کامل، ۲۰۰۹ء،علوم حدیث فنی فکری اور تاریخی مطالعہ، ۲۰۰۶ءاورالتحدیث فی علومِ الحدیث، ۲۰۰۷ءشامل ہیں۔آپ نے۱۴فروری ۲۰۲۰ء میں وفات پائی۔
تعارف کتاب:
التحدیث فی علوم حدیث کی ابواب بندی عناوین کے تحت کی گئی ہے۔ ہر عنوان کے تحت اس سے متعلقہ مواد بیان کیا گیا ہے۔بابِ اول میں علم،حدیث کےارتقاء پرروشنی ڈالی گئی ہے اور باقی ابواب اقسام حدیث پر مشتمل ہے۔آخری باب میں صحاح ستہ اور ان کے مؤلفین پرتبصرہ کیا ہے۔مذکورہ کتاب میں علم اصول حدیث کے ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں قرن اول سے عصرِحاضر تک اصولِ حدیث پر جتنا کام ہوا ہے اس کا اختصار سے جائزہ لیا گیا ہے۔ چونکہ اسلام کی ابتدائی چندصدیوں میں فن حدیث کی کوئی مستقل درجہ بندی نہ تھی۔چوتھی صدی ہجری میں علما ءنے اصطلاحات کو ایسی کتب میں جمع کر د یاجوبعد میں مرجع کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ مذ کورہ کتاب میں جامع تصانیف کا ذکر ملتا ہے جو پہلے مرتب ہوئی اس کے علاوہ متعددکتب کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔حدیثِ قبول کی متعلقہ کتب یعنی عام طور پر یہ غلطی پائی جاتی ہے کہ صحیح ترین کتابیں دو ہیں بخاری اور مسلم۔ یہ الگ بات ہے کہ امام بخاری اور مسلم کی صحیحین کو جو درجہ حاصل ہے وہ کسی اور تصنیف کو حاصل نہیں ۔بعض لوگوں کا کہنا ہے وہ حدیث صحیح نہ ہو گی جو صحیحین میں موجود نہ ہو ۔ یہ بات غلط ہے چند ایسی کتب لکھی جا چکی ہے جن میں صحیح روایات درج ہیں۔ ان میں سےامام مالک بن انس بن مالک(۹۳ھ۔ ۱۷۹ ھ)کی موطا ،امام مسلم بن حجاج بن مسلم نیشاپوری(۲۰۴ھ۔۲۶۱ھ)کی الجامع الصحیح،امام سلیمان بن اشعت بن اسحاق بحستانی(۲۰۲ھ۔۲۷۵ھ)کی السنن ،امام محمد بن یزید ابن ماجہ قزونیی(۲۰۹ھ۔۲۷۳ھ)کی السنن اورامام محمد بن عیسی بن عیسی ترمذی(۲۰۹ھ۔ ۲۷۹ھ)کی السنن ہیں۔
جرح وتعدیل سے متعلقہ چند معروف کتب محمد بن سعد بن منیع الزہری(۸۴۵ م )کی الطبقات الکبری ، یحی بن معین بن عون بن زیاد (۸۴۸م ) کی التاریخ ،محمد بن اسماعیل بن ابراہیم البخاری( ۸۷۰ھ م)کی التاریخ الصغیر، التاریخ الکبیر ،التاریخ الاوسط ،الضعفاء الصغیراورالضعفاء الکبیراورابراہیم بن یعقوب الجوزجانی(۸۷۳ ھ م )کی احوال الرجال کاتذکرہ شامل ہے۔
2۔علوم حدیث (فنی، فکری اور تاریخی مطالعہ) از ڈاکٹرعبدالرؤف ظفر
یہ کتاب بھی ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر کی تحریر کردہ ہے کتاب ہذا ۲۰۰۶ء میں مشیران کتب خانہ، فرسٹ فلور ،الحمد مارکیٹ ،غزنی سڑیٹ اردو بازار ،لاہورسے شائع ہوئی۔ مذکورہ کتاب ۹۲۸ صفحات پر مشتمل ہے۔
علوم الحدیث کی ابواب بندی عناوین کے تحت کی گئی ہے ۔ہر عنوان کے تحت اس سے متعلقہ مواد بیان کیا گیا ہے اس کتاب کے چار ابواب اصول حدیث سےمتعلقہ ہیں۔ سند کےآغاز،ارتقاءاوراہمیت کے بیان کے ساتھ ساتھ مستشرقین کے سندِحدیث پر اعتراضات اور ان کے جوابات کا بھی ذکر ہے۔ اصول حدیث کے علاوہ مذکورہ کتاب میں دور صحاح ستہ اور دیگر اکابرومحدثین کا مختصر تذکرہ ملتا ہے۔اس کے علاوہ مراکز حدیث ، برصغیرمیں اسالیبِ تدریس ِحدیث کو اس کتاب کا موضوع بحث بنایا گیا ہے۔منکرینِ حدیث ،مستشرقین کےاعتراضات کے ساتھ خوارج ،اہلِ تشیع ،معتزلہ کے تاریخی پس منظر ، عقائد اور روایتِ حدیث پر تفصیلی بحث کی گی ہے۔
3۔آئینہ اصولِ حدیث (حصہ دوم) از مفتی انعام الحق نقشبندی
یہ کتاب مفتی انعام الحق قاسمی نقشبندی کی تحر یر کردہ ہے۔یہ کتاب فروری۲۰۰۷ءادارہ فیضانِ الٰہی،عالی پورگجرات(انڈیا)سے شائع ہوئی۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے مذکورہ کتاب (حصہ دوم)۱۶۸صفحات پرمشتمل ہے۔
تعارفِ مصنف:
بنیادی طور پرآپ کا تعلق صوبہ ِبہار(انڈیا)سے ہے۔آپ نےدورہ حدیث دارالعلوم دیوبند سے ۱۹۸۷ء میں کیا ۔دورہ حدیث کرنے کےبعد آپ نے عربی ادب میں ماسٹرکی ڈگری بھی حاصل کی۔آپ نےتخصص فی الافتاء مدرسہ ریاض العلم جون پوریوپی انڈیا سے کیا۔آج کل آپ دارالعلوم علی پورنوساری گجرات انڈیا کے دارالافتاء کے رئیس مفتی ہیں۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم شریف،مشکوۃشریف اورہدایہ شریف پڑھا رہے ہیں۔آپ نے فقہ اور تصوف کے موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں مثلاً آئینہ اصولِ حدیث، رہبر علم حدیث،مریض کے شرعی احکام ،اہلِ دل کے تڑپا دینے والے واقعات ۴جلدیں ، مجالس فقیر وغیرہ شامل ہیں۔۱۹۹۳ء میں آپ نے مولانا ابرار لحق شاہ ؒ سے بیعت کا تعلق قائم فرمایا اور حضرت شاہ صاحبؒ کی وفات تک آپ سے روحانی فیض پاتے رہے ۔ آپ کی وفات کے بعد آپ نے ڈھاکہ میں حضرت شیخ الطاف حسین مدظلہ سے بیعت کی جو حضرت مولانا اشرف تھا نوی ؒکےخلیفہ ہیں۔حضرت شیخ الطاف حسین نے آپ کوتصوف چاروں سلاسل میں اجازت خلافت عطاءفرمائی۔چاروںسلاسل میں مجاز ہونے کے باوجود آپ نے ۲۰۰۵ءمیں حضرت جی دامت برکات تہم سے مکہ مکرمہ بیعت کی ۔۲۰۰۷ءمیں حضرت دامت برکا تہم نے آپ کو اجازت خلافت کی ذمہ داری سونپی۔آپ کی تصانیف میں" سفر کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا"،حج وعمرہ کےمسائل کا انسائیکلوپیڈیااور"زکوۃکے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا9"شامل ہیں۔
تعارف کتاب:
"آئنیہ اصولِ حدیث" کی ابواب بندی عناوین کے تحت کی گئی ہے ۔ہر عنوان کےتحت اس سےمتعلقہ مواد بیان کیا گیا ہے۔اس میں حدیث کی اقسام ،ہر ہر قسم کی اصطلاحی تعریف کی وضاحت ،شرائط،مثال کی تشریح ،ذیلی اقسام کی تعریف وحکم ،کتب حدیث کی اقسام اوراس کی تعریفات ،کتب حدیث کے طبقات ،راویوں کے طبقات روایوں کے فرق و مراتب ،حالات کے اعتبار سے راویوں کے طبقات، صحاح ستہ کا درجہ اسناد ،جرح وتعدیل سے متعلق اہم معلومات کوموضوع بحث بنایا گیا ہے۔
(د) 2011ء سے2019ء کی دہائی میں اصول حدیث پر لکھی گئی کتب کا تعارفی جائزہ
1۔محاضراتِ حدیث از ڈاکٹرمحموداحمدغازی
درج بالا کتاب ڈاکٹرمحموداحمدغازی کی تحریرکردہ ہے.کتابِ ہذا مئی۲۰۱۲ءمیں الفیصل غزنی ٹریٹ،اردو،بازارلاہورسےشائع ہوئی.مذکورہ کتاب ۴۸۰صفحات پر مشتمل ہے۔
تعارف ِمصنف:
ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک ناموراسلامی اسکا لر تھے۔دور جدید کے مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ڈاکٹر محمود احمدغازی۱۳ستمبر۱۹۵۰ءمیں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کراچی ہی میں حاصل کی۔ کراچی کے بڑے تعلیمی ادارے جامعۃ العلوم اسلامیہ بنوری ٹا ؤن میں بھی کچھ عرصے زیرِ تعلیم رہے ۔۶۰ کی دہائی کے آخر میں آپ کے والد حافظ محمد احمد صاحب اسلام آباد منتقل ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب بھی وہیں چلے گئے۔آپ کی مزید تعلیم اسلام آباد اور پنڈی میں ہی مکمل ہوئی ۱۹۷۲ ءمیں جامعہ پنجاب سے ماسٹر کیا اور پھر اسی یونیورسٹی سے آپ نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔آپ نے بہت سارے اہم عہدوں پر کام کیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور ،صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ،ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ،ڈائریکٹر جنرل دعوۃاکیڈمی،جج شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان ، خطیب شاہ فیصل مسجد اسلام آباد ،رکن ِاسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ اہم ترین مناصب پر فائز رہے ۔ڈاکٹر صاحب اردو ،عربی،فارسی، انگریزی ،فرانسیسی سمیت سات زبانو ں کے ماہر تھے اور ان زبانوں میں تحریر اور گفتگو دونو ں کا مکمل ملکہ رکھتے تھے ۔آپ کئی کتب کے مصنف بھی تھے۔اردو دان طبقے میں ڈاکٹر صاحب کا سلسلہ "محا ضرات"بڑا مقبول ہوا جس کی چھ جلدیں اہلِ علم کو متاثر کر چکی ہیں .ان میں ہر جلد ۱۲ خطبوں پر مشتمل ہے جن کے موضوعات یہ ہیں :قرآن ، حدیث،سیرت،فقہ ،شریعت ،معیشت و تجارت اس کے علاوہ اردو میں ان کی کتب میں محاضرات معیشت و تجارت ،محاضرات فقہ،محاضرات قرآن،محاضرات حدیث،محاضرات شریعت ،اسلام اور مغرب تعقات ،مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم ،اسلامی بنک کاری : ایک تعارف ،ادب القاضی اورقرآن مجید کا ایک تعارف وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر محمود احمد غازی کا ۲۶ ستمبر۲۰۱۰ء کو انتقال ہوا۔10
تعارف ِکتاب:
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے محاضرات ِحدیث میں بارہ خطبات پیش کیے ہیں ۔ ان میں حدیث ،علوم حدیث ،تاریخ ،تدوین حدیث اور محدثین سے متعلقہ موضوعات پر بارہ (۱۲)خطبات پیش خدمت ہیں خطبات کا آغاز ۷ اکتوبر ،۲۰۰۳ء بروز پیر ہوا ۱۹اکتوبر ،۲۰۰۳ء تک مسلسل بارہ روز یہ سلسہ جاری رہا ۔ کتاب ھذامیں علم حدیث رجال ،جرح وتعدیل ،حدیث کی اقسام اور ان کے حکم موضوع بحث بنایا گیاہے۔
2۔معارفِ اُصول حدیث از مولانا محمد شاکر علی نوری:
"معارفِ اصولِ حدیث"مولانا محمد شاکر علی نوری کی تحریر کردہ ہے۔یہ کتاب دسمبر ۲۰۱۳ءمیں مکتبئہ طیبہ ،۱۲۶کا مبیکراسٹریٹ،ممبئ سے شائع ہوئی۔مذکورہ کتاب ۳۳۷صفحات پر مشتمل ہے۔
تعارف ِمصنف:
محمد شاکر علی نوری ایک بھارتی مسلمان سنی مکتب فکر کےعالم دین مبلغ اسلام ہیں ۔۱۹۶۰ء بمقام جونا گڑھ کا ٹھیاواڑہ صوبہ گجرات میں عبدالکریم میمن نوری کے یہاںولادت ہوئی۔ ۵ستمبر۱۹۹۲ءکو ممبئ میں تحریک سنی دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی رہنمائی فرمارہے ہیں۔آپ نے ملک وبیرون ملک کے طویل وعرض میں متعدددارالعلوم اوراسلامی انگلش میڈیم اسکولوں کا قیام فرمایا ۔ہر تاریخ سالوں پر دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈی سنٹر(جارڈن)پوری دنیا میں اثرورسوخ رکھنےوالے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کر رہا ہے۔ ۲۰۰۹ءاور۲۰۱۴۔۲۰۱۵ءکی سروے رپورٹ میں مولانا موصوف کا نام بھی فہرست میں موجود ہے۔ مولانا محمد شاکر نوری صاحب کوتاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضاازہری،سجادہ نشین آستانہ،غوث اعظم قادریہ،بغدادشریف اورشہزادہ سید العلماء حضرت سیدحسنین میاں نظمی مارہروی سے مختلف سلاسل کی اجازت وخلافت حاصل کی۔
دینی تعلیم کو عام کرنے کے لیے ایک سو گیارہ مدارس قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں جب کہ اب تک ایسے ۲۵مدارس اسکول قائم ہوچکے ہیں۔مولانا موصوف کا وقت تبلیغی اسفار،تربیت،مبلغین تحریک کی بہتر تنظیم اوراپنے مدارس کی نگرانی اورتجارت جیسے امورمیں صرف ہوتا ہے۔ہر تین سال پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ایک سہ روز فقہی سمینار اور آخر میں اجلاس عام بھی منعقد کراتےہیں۔آپ کی تصنیف وتالیف میں رمضان کیسے گزاریں؟،گلدستہ سیرت النبیؐ ،مژدہ بخشش (نعتوں کا مجموعہ)اور عظمت ماہ محرم اور امام حسین کی قربانی کیا ہے؟،امام احمدرضااوراہتمام نماز،بےنمازی کا انجام ،مسلم کےچھ حقوق ،حیات خواجہ غریب نواز،خواتین کا عشقِ رسول اورخواتین کے واقعات وغیرہ شامل ہیں۔
تعارف ِکتاب:
"معارف اصول حدیث" کی ابواب بندی عناوین کے تحت کی گئی ہے ۔ ہر عنوان کے تحت اس سے متعلقہ مواد بیان کیا گیا ہے اس کتاب کا پہلا باب مبادیات فنی حدیث پر مشتمل ہے۔اصطلاحاتِ حدیث اور اقسام حدیث کے علاوہ اصولِ حدیث کے متعلق دیگر مفید بحثوں کو شامل کیا ہے ۔فتاوء رضویہ شریف میں جو محدث جلیل سید نا امام احمد رضاؓ نے اصولِ حدیث سے متعلق افادیات ،تو ضیحات وتحقیقات کا بھی ذکر ملتا ہے۔11
3۔آسان اصول حدیث از مولانا خالدسیف اللہ رحمانی
مذکورہ بالا کتاب مولانا خالدسیف اللہ رحمانی کی تحریر کردہ ہے یہ کتاب ۳۰اپریل۲۰۱۴ءمیں کتب خانہ نعیمیہ دیوبند،سہارنپو،یوپی سے شائع ہوئی مذکورہ کتاب ۸۴ صفحات پر مشتمل ہے۔
تعارف مصنف:
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۱۰جمادی الاولی۱۳۶۷ھ مطابق نومبر ۱۹۵۶ءمیں بہار کے ایک قصبہ جالے(ضلع در بھنگہ )کے معروف علمی گھرانے میں ٓانکھیں کھولیں تاریخی نام نور خورشید رکھا گیا جبکہ اصل نام خالد سیف اللہ طے پایا اور اسی نام سے معروف ہوئے۔والد گرامی حکم زین العابدین علاقہ کے معروف لوگوں میں تھے ۔جبکہ دادا عبدالا حد دارالعلوم دیو بند کے فاضل اور اس دور کے اہم علما ءمیں تھے وہ مدرسہ احمدیہ مدھو بنی کے شیخ بھی رہے ہیں جبکہ چچا مشہور عالم اور دینی و عملی رہنما قاضی مجاہد السلام قاسمی تھے ۔فقہ اور قضا کے باب میں جن کا مقام بلند معروف ومسلم رہا ہے ۔خالد سیف اللہ کا ناننہالی خاندان بِہار کے مشہور بزرگ بشارت کریم گٹرھلوی سے وابستہ تھا۔ اس خانوادہ کے مورث اعلٰی ملا سید محمد علی ہیں جو ملا سیسو کےنام سے مشہور تھے ۔انہوں نے سید شہید کی تحریک میں.شرکت کی اور معرکہ بالا کوٹ کے بعدبہار لوٹے۔
خالدسیف اللہ نےابتدائی تعلیم اپنی دادی،والدہ اور پھوپھامولانا وجیہ الدین سے حاصل کی۔فارسی اورعربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد محترم سے پڑھیں۔ اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دو گھرا (ضلع در بھنگہ) میں کسبِ فیض کیا۔پھر یہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر کا رخ کیا جو اس وقت بھارت کا معارف ادارہ اور تشنگان علم دین کامرکزتوجہ بنا ہوا تھا۔انہوں نے یہاں متوسطات سے دورہ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی ۔یہاں منت اللہ رحمانی سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا ان کے علاوہ وہاں کے دیگر اساطین اصحاب علم وفضل اسا تذہ سے بھی استفادہ کیا ۔خالد سیف اللہ کے اساتذہ میں مولانا سید شمس الحق صاحب،مولانا اکرام علی صاحب،مولانا حسیب الرحمن صاحب،مولانا فضل الرحمن قاسمی صاحب اور مولانا فضل الرحمن رحمانی وغیرہ شامل ہیں۔
مونگیر میں دورہ مکمل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہاں دورہ حدیث مکمل کیا۔اس دوران جن اساتذہ سےاکتساب فیض کیا ان میں شریف حسین دیوبندی،مفتی محمود الحسن گنگوہی،محمدحسین بہاری،معراج الحق،سید انظر شاہ کشمیری،مفتی نظام الدین اور محمدسالم قاسمی سرفہرست ہیں۔دارالعلوم دیوبندسےفراغت کے بعد خالد سیف اللہ امارت شرعیہ پٹنہ آگئے اور وہیں افتاوقضا کی تربیت حاصل کی۔اس کے بعد مختلف مدارس میں وقتا فوقتا تدریسی خدمات سرانجام دیتے ر ہے۔
قرآنیات کے موضوع پر خالد سیف اللہ کی پہلی کتاب "قرآن ایک الہامی کتاب "ہے چند سال قبل ہندو تنظیم کے بعض ذمہ داروں کی طرف سے قرآن کی بعض آیات پر اعتراضات سامنے آئے انہوں نے فوراً ان اعتراضات کا عملی جائزہ لیا اور ان کا ایک تسلی نخش جواب دیا۔ یہ تحریر" ۲۴آیتیں "کے نام سے شائع ہوئی ہے۔فقہ القرآن کے موضوع پر بھی ان کے متعدد مقالات ہیں جو ابھی تشنہ طباعت ہیں،قرآن کا ترجمہ ومختصر تشریع پر بھی انہوں نے کام کیا ہے جو ابھی مکمل نہیں ہوا۔حدیث کے موضوع پر بھی متعدد کتابیں ہیں مدارس کے طلبہ کے لیے" آسان اصول حدیث" تحریر کی جو متعدد مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔آثارالسنن کا تکملہ ابھی غیر مطبوع ہے۔جبکہ علوم حدیث کے موضوع پر متعدد مقالات اور تحریر یں کسی مجموعہ میں شامل ہونے کی منتظر ہیں۔ایک طویل عرصہ تک حدیث کی مشہور کتابیں صحیح بخاری اور سنن ترمذی کا درس بھی دیا ہے۔
تعارف کتاب:
"آسان اصول حدیث"میں اصولِ حدیث کے بنیادی مباحث کو بڑے آسان اور دلنشیں پیرا میں شامل کیا گیاہے ۔ ہر باب کے بعد تمرینات کی گئی ہیں،یہ کتاب اصولِ حدیث پرمصنف کے وسیع مطالعہ اور طویل تدریسی تجربات کا نچوڑ ہے۔ان کے نزدیک علم اصولِ حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے قبول کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے احادیث کی سند اور متن کا حال معلوم ہو۔موضوع اور غرض کی تعریف کے ساتھ ہی اس کی وضاحت کےلیےقرآن اور حدیث سے بھی واضح کردیا ہے۔
حدیث مقبول کی تعریف کے ساتھ اسکی دو اقسام بھی بیان کی گئی ہیں اس اصول کے تحت حدیث کوقبول یا رد کیا جاتا ہے۔اسناد کی جا نچ پرکھ کی جاتی ہےاس لئے مقبول بہ اعتبار روایت سند کہتے ہیں ۔احادیث مقبول بہ اعتبار سند پانچ طرح کی ہیں صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لغیرہ،حسن لذاتہ،معمولی درجہ کی ضعیف ۔ضعیف حدیث کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے"جس حدیث کے سلسلہ سند میں بہت زیادہ ضعیف نہ ہو" اس سے واضح ہے کہ اس کے راوی پر وضع حدیث یا کذب کی تہمت نہ ہو۔یہ دو صورتوں میں مقبول ہو۔فضائل ترغیبات اور احتیاطی احکام میں۔
نا مقبول بہ اعتبار متن یعنی جن قرائن کی بنا پر حدیث کا متن اس کےظاہری معنی کے ساتھ نا مقبول ہے ان میں اہم امور یہ ہیں:
۱۔حدیث کا قرآن مجید سے متعارض ہونا۔
۲۔حدیث مشہور کے خلاف ہونا ۔
۳۔راوی کا خود اس روایت پر عمل نہ کرنا۔
۴۔صحابہ نے اسے رد کر دیا ہو ۔
۵۔قواعدِشریعت کے خلاف ہو۔نیزاسباب میں ان پانچ امور کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہیں۔
مولانا صاحب نے کتاب ھذاکے آخری باب میں مزید اصطلات بیان کی ہیں جن سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ان اصطلاحات میں المُتِفَق والمُفترِق،الموتلف والمختلف ، متشابہ ،محرف ،مصحف ،مقلوب،مہمل ،مِثلہ ،نحوہ،مدبج اورذکرالحدیث وغیرہ شامل ہیں۔
خلاصہ بحث:
مسلمان دنیا کی ایسی منفردقوم ہےجس نے اپنے اقوال و آثار کو محفوظ کرنے میں بے مثال سرگرمی کا مظاہرہ کیا ۔ روزِ اول سے ہی احتیاط پیشِ نظر رہی۔ ابتدائی دور میں جو سادہ احتیاطی تدابیر تھیں آگے چل کر اصولِ علمیہ کی صورت اختیار کر گئیں ۔اس مختصر سے مقالہ میں حدیث اور اصولِ حدیث کی تعریف اور ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہےحدیث سے مراد رسولﷺ کے اقوال ،اعمال اور تقاریر ہیں جبکہ علم اصول حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے ایسے اصول وقوانین بنائے گئےہیں جن کی بنیاد پر راوی اور مروی کے حالات معلوم ہوتے ہیں۔کیونکہ علم اصول حدیث کے بغیر حدیث کے بارے میں جاننا نا ممکن ہے۔اور اصول حدیث پرتحر یر کردہ کتب کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔جن میں المحدث الفاصل بین الراوی والواعی، معرفتہ علوم الحدیث ، کتاب المدخل الی معرفتہ الصحیح من السیقم، الکفایہ فی اصول علم الراویہ، نخبتہ الفکر، مقدمہ ابنِ الصلاح، المستخرج، انواع علوم الحدیث، الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، الالماع الیٰ معرفتہ اصول الروایہ وتقیید السماع، مالا یسم الحدیث جھلہ ،برِصغیر میں اصول حدیث کا تاریخی ارتقاء۔ عرب سے آنے والےمحدثین ابو حفص ربیع بن صبیح بصریؒ ،اسرائیل بن موسٰی بصریؒ، شیخ اسماعیلؒ،یزیدبن ابی کبشہ دمشقیؒ،امام سخاوی ابن حجر مکی ، محمد بن طاہرپٹنی ؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ(۱۱۷۶ھ۔ ۱۷۶۲ء)، شیخ احمد سرہندیؒ (۱۵۳۲ھ/۱۶۲۲ء)، شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ، شاہ عبد القادر دہلویؒ کی احادیث سے متعلقہ بے مثال خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
۲۰۰۰ءسے ۲۰۱۰ ءکی دہائی میں اصولِ حدیث پر لکھی گئی کتب کا تعارفی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہےجن میں ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر کی دو کتابیں التحدیث فی علوم الحدیث"میں حدیث کی تعریف ، ارتقاء، اقسام اوراصول حدیث کے انواع واقسام سے متعلق طویل بحث کی گئی ہیں جرح و تعدیل اور صحاح ستہ اور مؤلفین پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔علوم الحدیث اصول حدیث سے متعلقہ ابواب اوراس کی اقسام سے کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ مراکز حدیث ، برصغیر میں اسالیب تدریس ِحدیث کو اس کتاب میں موضوع بحث بنایا گیاہے منکرین حدیث مستشرقین اور دیگر فرقے خوارج ،شیعہ اورمعتزلہ کا بیان درج ہےآئینہ اصولِ حدیث میں حدیث کی تعریف ،اصولِ حدیث کی تعریف، اقسام حدیث کے احکام کو تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔محاضرات حدیث جو ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر کردہ کتاب کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ جس میں حدیث اور سنت کی تعریف ، اس کی اہمیت وضرورت سے متعلقہ خطبہ پر تفصیل سے تبصرہ کیا گیا ہے،اقسام حدیث ، اسناد ورجال ،علم جرح وتعدیل رحلتہ اور محدثین کی خدمات ،شرح حدیث اور علم حدیث پر اعتراضات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اورمعارف اصولِ حدیث کا تعارفی جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ اس میں مبادیات فنِ حدیث اصطلاحات حدیث واقسام ، اصولِ حدیث ،محدثین ،احناف محدثین اورامام احمد رضاؒ نے اصول ِحدیث سے متعلقہ افادات ،توضیحات وتحقیقات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ نیزآسان اصولِ حدیث کا تعارف ذکر ہوا ہے کہ اس میں حدیث کی تعریف ،اصولِ حدیث کی تعریف ،اقسام حدیث کے احکام کو تفصیل سے موضوع بحث بنایا گیا۔
M.A Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Govt. Sadiq College Women University, Bahawalpur.
Lecturer, Dept. of Islamic Studies, The Govt. Sadiq College Women University, Bahawalpur. Shaziaashiq95@gmail.com
1 Dr. ‘Abd al-ra’ūf Zafar, Al-Tahdīth fi ‘ulūm al-Hadith (Lahore: Maktabah Quddūsiyah, 2004 A.D), 104.
2 Ibn e Hajar ‘Asqalānī, Nuzhat al-nazar Sharah Nukhbat al-fikr fi Mustalih Ahl al-Athar (Beirūt: Dār Al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1994 A.D), 32.
3 Ibn e Hajar ‘Asqalānī, Nuzhat al-nazar, 22.
4 Ibn e Hajar ‘Asqalānī, Nuzhat al-nazar (Multan: Fārūqī Kutub Khānah, S.N), 2.
5 ‘Abd al-Rahmān bin ‘Abd al-Jabbār, Jahūd al-khulussah fi Khidmat al-Sunnah Al-Mutahirah (Banāras: Aljāmi‘ah al-salfiyyah, S.N), 22.
6 Muhammad Ishāq Bhattī, Barr e Saghīr min Islām ke Awwalīn Naqūsh(Lahore: Matbū‘ah 1990 A.D), 189.
7 Suleimān, Maqālāt e Suleimān (Matbū‘ah A‘zam Gharh, 1967 A.D), 2:4.
8 ‘Abd al-rashīd ‘Irāqī, Barr e Saghīr Pāk o Hind min ‘Ilm e Hadith (Lahore: Muhaddith Ravīzī Academy, 2007 A.D), 34.
9 Http: / /ur: wikipedia .org.
10.https://ur..wikipedia.org
11. https://ur.m.wikipedia.org
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |