1
2
2020
1682060063651_3191
42-63
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/19/21
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/19
Key Words: Qur’ānic Text Qir‘at Goldziher Maẓahib al-Tafsīr al-Islāmī Orientalism.
سیرت طیبہ کی تشریعاتی حیثیت کا تحقیقی و تاریخی جائزہ )52(
سیرت طیبہ کی تشریعیاتی حیثیت کا تحقیقی و تاریخی مطالعہ
A Research review of the legislative Status of the Sirah of Holy Prophet ﷺ
Hafiz Fareed ud-Din
The deeds and actions of the Holy Prophet ﷺ is a practical interpretation of the Holy Qur'an. Allah Almighty has stated his Shari'ah in short but comprehensive words that “take what the Holy Prophet ﷺ has given you and which you forbid”. Therefore, his command is the command of Allah Almighty and not yours. That is why the Holy Qur'an has declared his obedience to be the obedience of Allah Almighty. And from the instructions of the selected scholars of the ummah, it is clear that the legislative status of The Sirah is authenticated. Allah Almighty has given him a special position of Shariah.
As for the legislative status of Sira-e-Taiba, both the special and the general legislation are specific or special to him. Special legislation etc i.e. you have legislated for a specific person at certain times like accepting the condition of a person that he will convert to Islam if he prays only two prayers. The other person cannot join. The general legislation in which you have enacted all kinds of legislation for the common ummah is included. The center and axis of Islamic law is your caste. You have complete control over the status and sanctity, likes and dislikes as you like, for whom you can make Shariah whenever you want. It is as if you are a follower of the Shari'ah. He also has full authority in the brief description of the Qur'an, in the adherence to the Absolute, and the explanation of similarities. You are authorized to legislate as a Shari'ah and Shari'ah in all areas of worship, affairs, debates, and crimes.
Therefore, in this article, the legislative status of His Sira-e-Taiba has been explained in the light of Qur'an and Hadith, Sahabah and Tabi'een, and the commandments of Imams and jurists.
Key Words: Sīrah of the Holy Prophet ﷺ, Shāri‘, legislative status of the Sunnah, general legislation, Special legislation.
تعارف
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے نبی و رسول مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل فرمائیں۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب آخری نبی خاتم النبیین ﷺ پر نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ پر نازل فرمایا یعنی قرآن و سنت، وہی شریعت ہے۔ ما انزل اللہ علیٰ نبیہٖ کے علاوہ کو دین کہا جا سکتا ہے نہ شریعت۔ الوہی ہدایت قرآن و سنت اور آپ ﷺ کی اطاعت و محب کے ساتھ مشروط ہے۔ قرآن ماخذ قانون نہیں بلکہ خود قانون ، دستور، ہدایت اور شریعت ہے۔ آنحضرت ﷺ قرآن کے شارح اور شارع ہیں ۔ مقالہ ہٰذا میں آپ ﷺ کی تشریعی حیثیت کو قرآن و حدیث، صحابہ و تابعین کے اقوال و اعمال کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔
تشریعیت کا لغوی مفہوم:
تشریعیت کا لفظ '' شرع '' سے ماخوذ ہےاور خود لفظ تشریعیت باب تفعیل ہے ، شرع کا باب فتح یفتح ہے اور اس کا مصدر شرعا بنتا ہے اور قوم کے صلہ کے ساتھ استعمال ہو تو اس کا معنی ہے قانون بنانا شریعت جاری کرنا ۔عبد الحفیظ بلیآوی لکھتے ہیں :
''شرع (ف)شرعا ۔للقوم ''قانون بنانا ۔ شریعت جاری کرنا ۔لہم الطریق : ظاہر کرنا کیا جاتا ہے شرع اللہ لنا کذا بشریعتہ یعنی خدا نے ہمارے لئے ایسا ظاہر کیا ''۔1
شریعت کی جمع شرائع ہے جس کا معنیٰ ہے سنت اور طریقہ کے ہیں ۔ وہ طور طریقے جو اللہ جل جلا لہ نے اپنے بندوں کےلئے سنن اور احکام کی صورت میں ظاہر اور بیان فرمائے ہیں ۔لوئیس معلوف لکھتا ہے :
'' ماشرع اللہ لعبادہ من السنن والاحکام ''2
شریعت کا لغوی معنیٰ واضح راستے اور طریق کے بھی ہیں شرع مصدر ہے پھر اس مصدر کو بمعنی ٰ راستے کےلئے اسم بنا یا گیا ہے اور طریقہ الٰہیہ کےلئے مستعار سے لیا گیا ہے ۔امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
'' الشرع یضیح الطریق الواضح یقال شرعت لہ طریقا والشرع مصدر ثم جعل اسما للطریق النہج فقبل لہ شرع وشرع شریعۃ واستعید ذالک الطریقۃ الآلھیۃ ، قال '' شرعۃ ومنھاجا ''3
راہ اور دستور :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،نے شرع اور منہاج کے درمیان فرق بیان فرمایا ہے قرآن جس کو وارد کر ے وہ شرع ہے اور سنت جس کو وارد کرے وہ منہاج ہے ۔قرآنی احکام کو سنت اور حدیثی احکام کو منہاج کا نام دیا گیا ہے ۔حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں :
'' الشرعۃ ما ورد بہ القرآن، والمنہاج ماورد بہ السنۃ ''4
عبد الحفیظ بلیآوی نے مصباح اللغات میں شرع اور اس کے مشتقات کے معانی میں وسعت پیدا کرتے ہوئے مندر جہ ذیل معانی بھی درج کئے ہیں :
1۔حق کو غالب کرنا باطل کو مٹانا۔2۔پانی میں داخل ہونا پانی اوکر سے پینا ۔3۔جانور کو پانی کے گھاٹ پر لے جانا ۔4۔نیزے کو سیدھا کرنا ۔5۔بہادر ۔6۔ کشتی ۔7۔چوکھٹ۔8۔کشتی میں بار بان لگانا ۔9۔جوتے کا تسمہ ۔10۔مثل، برابری مساوی ۔الشرع ، الشریعۃ کا مطلب قانون بنانا ، شریعت جاری کرنا ۔5 چنانچہ لوئیس معلوف لکھتا ہے :
''اشرع الشریعۃ : سنھا الشرع (مص): ماشرع اللہ لعبادہ ''۔6
''تشرع '' عین کی تشدید کے ساتھ ہوتو اس کا معنی شریعت کی پابندی کرنا ہے ۔ ارادہ ظاہر کرنے کےلئے تشرع کے لفظ کا استعمال نہیں کیاجاتاہے ۔ مولوی نورالحن نیر لکھتے ہیں : '' عربی میں تشریع ۔(ارادہ ظاہر کرنا)ہے تشرع نہیں ہے ''7
تشریع علم بدیع کی ایک اصطلاح کے طور پر بھی مستعمل ہے ۔سید ریاض حسین شاہ تشریع کی تعریف میں رقمطراز ہیں :
'' شعر کی بنیاد قافیوں پر اس طرح ہو کہ دونوں میں سے ایک ساقط ہوجائے تو ان میں سے کسی ایک کے قائم مقام رہنے پر بھی معنی شعر درست رہے ''8
تشریعیت کا مادہ اشتقاق اپنے مختلف معانی کے ساتھ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل مقامات پر وارد ہوا ہے ۔
1۔'' شِرْعَةً وَّمِنْـهَاجًا '' ۔ 9 ایک دستور اور راہ ۔
2۔'' ثُـمَّ جَعَلْنَاكَ عَلٰى شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا ''10 پھر تجھ کو رکھا ہم نے ایک رستہ پر دین کے کام کے سو تو اسی پر چل ۔
3۔'شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ ''۔11 راہ ڈالدی تمہارے لئے دین میں ۔
4۔'' اِذْ تَاْتِيْـهِـمْ حِيْتَانُـهُـمْ يَوْمَ سَبْتِـهِـمْ شُرَّعًا ''12۔ جب آنے لگیں ان کے پاس مچھلیاں ہفتہ کے دن پانی کے اوپر ۔
قرآن مجید کی درج بالا آیات میں ''شرع '' کا لفظ معانی میں استعمال ہوا ہے جس سے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے ۔ کہ شرع کا لفظ ذو معانی وضع میں ہے جس کو وا ضع لغت نے مختلف معانی کےلئے وضع کیا ہے ۔
لفظ تشریعیت کے مختلف معانی کی وضاحت کے بعد یہ بات واضح اور ظاہر ہوجاتی ہے کہ شرع کا لفظ ، راستہ ، طریق واضح ، شارع عام ، عادت ، گھاٹ ، کشتی ،بہادر ، تیر کو درست کرنا ، بلندی ، مثل و مثیل ، مساوات ، جوتے کا تسمہ ، طریق الٰہیہ ، چوکھٹ ،کشتی کو باد بان لگانا ،حق کو غالب کرنا اور باطل کو مٹانا ، اور بلند کرنا کے مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ لغت کے بیان کردہ ان اصلی اور لغوی معانی پر دقت نگاہی سے غور کیا جائے تو ان معانی میں واضح ،راستہ اور اس کے لوازمات کا معنی قدر مشترک ہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ تشریعیت کا لغوی مفہوم یہ ہوا کہ قانون بنانا ، قانون وضع کرنا ،احکاما ت کو جاری کرنا ،اور ان کو نافذ کرنا ، آئین بنانا اور نافذکرنا یعنی آئین اور قانون کی وضع تشکیل اور تنفیذ لفظ تشریعیت کے لغوی اور اصلی مفہوم میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون ساز ، واضع قانون ، اور قانون اور آئین کے تشکیل کنندہ اور نافذ کو شارع کہاجاتا ہے ۔شارع کا معنیٰ ایک عام راستہ بھی ہے قانون بھی ایک عام راستہ اور واضح طریق ہوتا ہے جس پر سب لوگوں کو یکساں چلنا اور چلانا پڑتا ہے ۔ لوئیس معلو ف لکھتا ہے :
'' الشارع ، ج شوارع : الطریق النافذ الذی یسلکہ جمیع الناس ''13
تشریعیت کا اصطلاحی مفہوم
تشریعیت کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ اللہ جل جلا لہ ، کے نازل کردہ احکامات اور آڈرز کو واضح کرنا اور ان احکامات کی روشنی میں قانون اور آئین سازی یعنی شریعت کو بیان کرنا ، تشریعیت کے اصطلاحی مفہوم میں شامل ہے ۔شرع بیان اور اظہار کا نام ہے یعنی ایسے طریقے اور مذہب کا بیان اور اظہار جو گھاٹ کا کام دے اور آنے والا اپنی تشنہ طلبی کو بھلائے اور ختم کرتے ہوئے مکمل طور پر سیراب ہوجائے اور اس کو کسی اور گھاٹ پر جانے کی ضرورت نہ پڑے ۔ سید علی بن محمد جرجانی لکھتے ہیں:
''(الشرع ) فی اللغۃ عبارۃ عن البیان والاظھار یقال شرع اللہ اذا ای جعلہ طریقا و مذھبا '' 14
شریعت کے معنی میں وضاحت پیداکرتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شریعت التزام عبودیت کی بجا آوری کانام ہے اور اس راستے کا نام ہے جو دین میں مکمل طور پر داخل اور شامل کردیتا ہے اور جو قرآن کا تقاضا بھی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے ۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِى السِّلْمِ كَآفَّـةً ۔15
ترجمہ ۔اے ایمان والو ۔داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے۔
سید علی بن محمد جر جانی لفظ شریعت کے بارے میں رقمطراز ہیں :
''ھی الائتمار بالتزام العبودیۃ وقیل الشریعۃ ھی الطریق فی الدین ''16
شریعت کے معنی و مفہوم اور اصطلاحی تعریفات کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ اظہار بیان اور سیدھا راستہ ،نشان منزل اور گھاٹ ہے جس پر آجانے کے بعد کسی دوسرے گھاٹ کی تشنگی باقی نہ رہے وہ وہی شریعت ہے جس کو اللہ جل جلا لہ ، نے اپنے بندوں کےلئے قرآن حکیم کے ذریعے واضح طور پر بیان فرمایا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مفہوم بھی واضح ہوجاتا ہے کہ شریعت ، قانون اور آئین شرعی کی وضع ، ساخت اور تشکیل و تنفیذ کا حق اللہ جل جلا لہ کے پاس ہی محفوظ ہے اس ذات باری تعالی کے سوا تشریعیت اور قانون و آئین سازی کسی کے قبضہ اختیار اور اقتدار میں ہرگز نہ ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی تشریعیت اور حاکمیت کے مفہوم کو اپنے ذوق اور محبت سے یوں تعبیرکرتے ہیں کہ آپ ﷺ طالب اور مطلوب کے درمیان رابطہ کا سبب ہیں اللہ الصمد ملک کے باد عزیز ہیں ھو ا اللہ احد کے ملک کے بادشاہ ہیں۔ عشق میں ڈوبی ہوئی آپ کی تحریر یہ ہے:
'' موجب رابطہ طالب و مطلوب عزیز مصر صمدیت ملک مملکت احدیت ''17
آپ ﷺ کی شارعیت کے بارے میں منظور احمد فیضی رقمطراز ہیں : ''حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ماذون من اللہ ہوکر شارع ہیں ۔ شریعت گر ہیں ۔ شریعت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اداؤں کا نام ہیں ۔اللہ تعالی نے احکام حضور ﷺ کو سپرد کردئیے ہیں جو چاہیں جس کے لئے چاہیں احکام شریعت سے خاص فر مادیں (اور جو چاہیں جس کے لئے چاہیں حلال و حرام فرمادیں ۔ آپﷺ حلال بھی فرماتے ہیں ۔ حرام بھی فرماتے ہیں اور فرض بھی فرماتے ہیں )''18
امام جلا ل الدین سیوطی لکھتے ہیں :
''باب اختصا صہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بانہ یخص من شاء بما شاء من الاحکام ''19
آپ ﷺ کی تشریعی حیثیت اتنی مسلم ہے جس کا انکار آفتاب نیمروز کا انکار ہے ۔ قرآن مجید مجمل احکامات پر مشتمل ہر شے کو حاوی ایک کتاب ہے اور اس کی تعبیر اور تشریح آپ ﷺ کی زبان درفشاں ہیں ۔ تشریعیت کے لغوی اور اصطلاحی توضیحات کے بعد ثمرہ یہ ہے کہ تشریعیت اور تشریعی حیثیت کا معنی و مفہوم ، وضع قانون ، تشکیل آئین،اور قانون سازی ہے ۔قانون وآئین کی وصفیت اور تشکیل کا حقدار اللہ تعالی ہی ہے ۔ اللہ جل جلا لہ نے اس تشریعیت کے عظیم منصب اور مقام و مرتبہ پر اپنے خاص بندوں کو فائز فرمایاہے جنکی حیثیت نائب اور خلیفہ ہونے کی ہے ۔جو تشریعی امور کو بطور امانت قرآن وسنت کی روشنی میں وضع کرتے ہوئے نفاذ کے عمل کو آگے بڑ ھاتے ہیں۔ اللہ جل جلا لہ ، کے رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تشریعی حیثیت سب سےاعلی و ارفع اور بلند و بالا ہے اللہ جل جلا لہ ، نے آپ ﷺ کو من جملہ امور اور احکامات میں مختار کل بنا دیا ہے ۔قرآن مجید کی حلت و حرمت کی جو شان دلربائی ہے وہی شان سنت کی حلت و حرمت کی ہے آپ ﷺ کی سنت اور سیرت کی تشریعی حیثیت اللہ جل جلا لہ ، کے حکم اور اذن سے مستقل تشریعی حیثیت ہے ۔اللہ جل جلا لہ کے بعد رسول کریم ﷺ وضع قانون ،آئین سازی ، آئین و قانون کی ساخت پر داخت اور تشکیل و تنفیذ میں اقتدار اعلی کی صفت سے متصف ہیں ۔
قرآن اور تشریعی حیثیت
اس عالم رنگ و بو میں موجود ادیان میں وضع قانون یعنی قانون سازی کو اس دین میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے ۔دین اسلام جو اللہ جلا لہ کا پسندیدہ دین ہے ۔
'' اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ ''20
اس دین متین میں شارعیت بھی وضع قانون ، قانون سازی کی حیثیت اور قدرت و طاقت اللہ جل جلا لہ کو حاصل ہے ،اللہ جل جلا لہ کی عطاء سے نبی کریم ﷺ دین اسلام کے شارع ، واضع قانون ،یعنی قانون ساز کی حیثیت اور اتھارٹی رکھتےہیں ۔ اللہ جل جلا لہ کی حاکمیت ، شارعیت ، وضع قانونیت ذاتی ،اصلی اور حقیقی ہےجبکہ آپ ﷺ شارع ،واضع قانون اور قانون ساز ہونے میں اللہ جل جلا لہ کے نائب اور مظہر ہیں ۔آپﷺ کے پاس شارعیت ، وضع قانونیت،اور قانون سازی کی جو حیثیت اور اتھارٹی ہے وہ نیابتی اور تفویضی حیثیت کی ہے ۔
اللہ جل جلا لہ کے رسول کریم ﷺ ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے مطاع مطلق ہیں ۔ اللہ جل جلا لہ کے احکامات آپﷺ کے احکامات ہیں اللہ جل جلا لہ کے اوامر و نواہی رسول کریم ﷺ کے اوامر ونواہی کہلائیں تو عین حقیقت ہے۔
قرآن کریم نے آپ ﷺ کی حاکمیت ، شارعیت ، وجع قانونیت اور قانون سازی کی حیثیت اور اتھارٹی کو بکثرت مقامات پر واضح کرکے اسی حقیقت کی طرف توجہ مبذول فرمائی ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ جل جلا لہ کا ارشاد مبارک ہے ۔
'' وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا''21
'' فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ ثُـمَّ لَا يَجِدُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ''22
اطاعت رسول ﷺ اطاعت خداوندی کا ہی درجہ رکھتی ہے ۔ رسول کریم ﷺ کی اطاعت کے بغیر اطاعت خداوندی کے تصور کی کوئی صورت این محال است و جنون ہے ۔
'' قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُـوْبَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ ''23
اللہ جل جلا لہ اپنے امر نہی ، اخبار ، اور بیان میں آپﷺ کو اپنے ہی مقام پر فائز کردیا ہے ۔ ان امور میں اللہ جل جلا لہ ، اور رسول کریم ﷺ کے درمیان تفریق کرنا بالکل جائز نہیں ہے ۔
'' وَاللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝٓ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُـوْا مُؤْمِنِيْنَ'' 24
اس آیت میں '' ان یرضوہ '' میں (ہ) کی ضمیر ایک ذات کو ظاہر کرتی ہے حالانکہ سیاق آیت میں دو ذاتوں کا بیان ظاہرہے، اس میں اشارہ ہے رسول کو راضی کرنا اللہ ہی کو را ضی کرنے کے مترادف ہے ۔ ان ذات کی ایک ہی رضا ہے ایک ہی حقیقت ہے ان میں تفریق ہرگز نہیں ہے۔
'' وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى ''25
اللہ کے فرمان اور رسول ﷺکے فرمان کے درمیان فرق مٹادیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان وحی ہے اور نبی کریم ﷺ کا فرمان بھی وحی ہے ۔
اللہ جل جلا لہ ، رسول کریم ﷺ کے افعال کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں قرآن کریم میں متعدد آیات ایسی ہیں جن میں وحدانیت او رسالت کے تعلق کو واضح اور آشکار کرنے کے لئیے اللہ جل جلا لہ نے اپنے اسم مبارک کے ساتھ ہی اسم رسالت ﷺ کا ذکر کیا ہے ۔ جس رسول کریم ﷺ کی تشریعیت اور حاکمیت کا عطاء الٰہی چابت ہونے کی حقیقت آشکارا اور واضح ہوجاتی ہے اسم جلا لت اور اسم رسالت ﷺ کے ساتھ ہونے کی چند آیات الوہیت اور رسالت کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہیں ۔
'' اِنَّ الَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ لَعَنَهُـمُ اللّـٰهُ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَـهُـمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا ''26
''ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ شَآقُّوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ ۚ وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ فَاِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ''27
'' اِنَّ الَّـذِيْنَ يُحَآدُّوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ اُولٰئِكَ فِى الْاَذَلِّيْ ''28
قرآن مجید کی یہ آیات واضح اور صراحتا ًاعلان عام فرماتی ہیں کہ قانون سازی ، وضعیت قانون ، شارعیت کی اتھارٹی اور حیثیت صرف اللہ تعا لیٰ ہی کے پاس ہے ۔اللہ جل جلا لہ کی عطاء اور مہربانی سے یہ حیثیت اور اتھارٹی اسکے رسول کریم ﷺ کے پاس ہے ۔ اللہ جل جلا لہ ، اور رسول کریم ﷺ کے درمیان کوئی فرق ، امتیاز ، اختلاف ، تنا قص اور ضد اور تضادیت کا گمان تک کا شائبہ نہ ہے اس اعتبار سے آپﷺ تمام جہانوں کے حاکم مطلق ، مختار کل ، اور مقتدراعلی کی حیثیت پر فائز ہیں اور تمام خلفاء جو قرآن و سنت کے منھاج پر تھے یا دعویٰ دار تھے وہ آپﷺ کے خلفاء کی حیثیت رکھتی ہیں ان کے پاس آپﷺ کے قانون تفویضی ہیں ، وہ آپﷺ کے نائب ہیں۔
خلافت در اصل صاحب شریعت ، رسول مقبول ﷺ کی نیابت اور آپﷺ سے مفوضہ امور کا ایک منصب ہے جس کا مقصد دنیا کا تحفظ اور دنیاوی امور کو اچھے انداز میں چلاتا ہے ۔خلیفہ کو خلیفہ کے نام سے اس لئے موسوم کیا جاتا ہے کہ وہ خلیفہ امت میں نبی کریم ﷺ کا نائب ہونے کی حیثیت سے حق نیابت ادا کرتا ہے ۔
علم عمرانیات کے بانی ابن خلدون اپنی مشہور زمانہ تاریخ کی کتا ب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ،
'' انہ نیابۃ عن صاحب الشریعۃ فی حفظ الدین وسیاسۃ الدینا واما تسمیۃ خلیفۃ ملکونہ یخلف النبی ﷺفیامتہ ''29
دین و ایمان اللہ جل جلا لہ ، اور اس کے رسول ﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے کا نام ہے ان دونوں دعوتوں میں سے صرف ایک ہی دعوت کاا نکار کرنے والا دین ودنیا میں مردود ہے۔
حدیث میں تشریعی حیثیت
قرآن مجید کے انداز اور اسلوب کے مطابق آپﷺ نے بھی اپنی احادیث مبارکہ میں اپنی تشریعیت کو واضح طور پر بیا ن فرمایا ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپﷺ کی تشریعیت قرآن مجید کے بعد پوری آب وتاب کے ساتھ مسلم ہے ۔قرآن مجید اور سیرت و سنت کا تشریعیت میں چولی دامن کا تعلق ہے اور وہ ایک دوسرے کے لئیے لازم و ملزوم اور چاندنی چاند سا تعلق واسطہ اور رابطہ رکھتے ہیں ، جن میں سے کسی ایک کی اہمیت اور حجیت اور ضرورت کے انکار سے دین اسلام اور شریعت کا انکار لازم آتاہے جس سے ایمان اور اسلام کی ساری عمارت زمین بوس ہوتی نظر آنے لگے گی اللہ جلا لہ ، کے رسول معظم ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں اپنی تشریعی حیثیت کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے اور امت کو تلقین فرمائی ہے ۔رسول کریم ﷺ کافرمان ہے کہ:
''ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ سنتی ''30
" میں تم میں دو امر ایسے چھوڑے جارہاہوں جب تک ان دو امروں کو تھامے رہوگے تو راہ راست سے کبھی نہ بھٹکو گے ۔ ایک کتاب اور دوسری اپنی سنت"۔
میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا ۔اصحاب رسول ﷺ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کون انکار کرےگا ،؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری اطاعت سے روگردانی کرے گا وہ انکار کرنے والا ہوگا (وہ جہنم میں جائے گا )۔ آپﷺ کی حدیث کے مطابق آپﷺ نے اپنی تعلیمات اور سنت کو ایمان ہی قرار دیا ہے تعلیمات قرآن و سنت کی روشنی میں تشریح یا تشریع کو متضمن ہیں ۔دونوں صورتوں میں آپﷺ کی تشریحیتی حیثیت اور تشریعی حیثیت ایمان ہے ۔ آپﷺ کے فرمان کے مطابق وہ شخص ایمان کی جان سے خالی ہے جب تک اس کی خواہشات آپﷺ کی تعلیمات کے مطابق اور موافق نہ ہو جائیں ۔
آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
''ایھا الناس قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی''۔31
اسلاف امت اورتشریعی حیثیت
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
خلیفہء اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کی سنت مبارکہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنایا ،خلافت کے ابتدائی ایام میں جب مختلف فتنوں نے سر اٹھایا تو آپ نے ان فتنوں کی سر کوبی کے لیےآپﷺ کی تشریعی حیثیت کو مشعل راہ بنایا ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جب فیصلہ جات پایہء تکمیل کو پہنچ جاتے تو اللہ جل جلا لہ ، کا شکر ادا فرماتے کہ جس نے ایسے لوگوں کو موجود رکھا جن کے سینوں میں نبی کریم ﷺ کی سنت وتشریعیت کا خزانہ عام ہے ۔
''الحمد للہ الذی جعل فینا من یحفظ عن نبینا ''32
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے طریقہء کار کی جو وضاحت کی اس سے آپ رضی اللہ عنہ کی سنت اور تشریعیت ہی کو اپنے لیے چراغ راہ بنانے کا ذکر ہے ۔ آپرجی اللہ عنہ نے فرمایا جب تک میں اللہ جل جلا لہ، اور اس کے رسول کریم ﷺ کی اطاعت کرتا رہوں تو تم میری اطاعت کرو اگر میں اللہ جل جلا لہ ، اور اس کے رسول معظم ﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت نہیں ہے ۔ مشہور سیرت نگار ابن سعد نے آپکے یہ الفاظ نقل کیےہیں :
'' اطیعونی مااطعت اللہ ورسولہ فان عصیت اللہ ورسولہ فلا اطاعۃ لی علیکم ''33
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قرآن کے بعد آپﷺ کی تشریعیت کی بالادستی کو تمام مسائل میں دیکھنے کے خواہاں تھے قرآنی آیات کے بارے میں شبہات پیدا کئیے جانے کے خطرہ کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے آپ نے فرمایا ایسے حالات میں آپ رضی اللہ عنہ ، نے سنن کے ذریعے گرفت کرنے اور شبہات کے جوابات دینے کو فرمایا آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک اہل سنت ہی اللہ کی کتاب کا زیادہ علم رکھتے ہیں ۔علی متقی ہندی آپ رضی اللہ عنہ کے قول کو نقل فرماتے ہیں :
''سیاتی قوم یجادلونکم بشبھات القرآن فخذوھم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بکتاب اللہ ''34
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، نے خطبہ میں فرمایا تمہارے لئیے سنت ، فرائض ،احکام مقرر ہو گئے ہیں ۔روشن راستہ تمہارے لئے صاف ہے اب کوئی صورت نہیں رہتی ہے کہ تم لوگوں کی وجہ سے ادہر ادہر بھٹکتے پھرو۔مالک بن انس آپ کا خطبہ نقل کرتے ہیں :
''ایھا الناس قد سنت لکم السنن وفرضت لکم الفرائض وترکتم علی الواضحۃ الا ان تضلوا باالناس یمینا و شمالا ''35
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،نے عورت کے پیٹ میں ساقط بچے کی دیت کے بابت مشورہ کیا۔ حضرت مغیرہ نےکہا رسول کریم ﷺ نے دیت ایک غلام یا لونڈی مقرر کی تھی ۔ اس بات پر آپ نے شہادت مانگی تو حضرت محمد بن مسلم نے شہادت دی تو آپ نے سزا فورا نافذ کردی۔36
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ احادیث اور سنن کے معاملہ میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتے تھے ۔آپ رضی اللہ عنہ کی من جملہ مرویات کی تعداد ایک چھیالیس ہے ۔جن میں سے تین احادیث کو امام بخاری اورا مام مسلم علیہ الرحمۃ اپنی کتاب میں لائے ہیں، وہ متفق علیہ احادیث ہیں ۔ آٹھ بخاری میں اور (5) مسلم شریف میں ہیں قلت روایت سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ حدیث ، سنت اور حیثیت تشریعیت میں آپ کو لگاؤ نہ تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ روایت میں آپ احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ تشریعیت اور سنت کی بالادستی دیگر اصحاب کی روایات اور مرویات اور بیانات کی روشنی میں آپ قائم رکھتے تھے روایت کی ذمہ داری سے آزاد رہ کر دیگر اصحاب کی روایت پر کلی اعتماد کرتے تھے ۔حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے جن الفاظ اور شرائط پر آپ رضی اللہ عنہ سے بیعت کی تھی ان الفاظ سے حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کا کتاب و سنت ، سیرت مصطفی ٰ ﷺ اور آپﷺ کی تشریعیت کی حیثیت کے متعلق ایک گہرا تعلق اور توجہ خاطر کا اظہار ہوتا ہے کہ یہی امور سعادت سرمدی کی ضامن ہیں ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کتاب وسنت اور شیخین کی سیرت پر بیعت کی تھی ۔چشم فلک نے عثمانی دور خلافت میں نظارہ کیا اور آپ بال برابر اپنے بیعت کے عہد سے متجاوز نہ ہوئے ۔حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے الفاظ بیعت مسند احمد بن حنبل میں بایں طور ہیں ۔
''ابایعک علی کتاب اللہ وسنۃ رسولہ وسیرۃ ابی بکر و عمر رضی اللہ عنھما ''37
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے پر اپنے قول سے رجوع کرتے ہوئے قرآن وسنت کی بالادستی اور تشریعیت کی اہمیت اور ضرورت کو اپنی بات پر مقدم رکھا ۔38
حضرت علی رضی اللہ عنہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ شہر مدینہ کے باب ،چچازاد بھائی ، اور داماد ہیں ۔اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیرت مصطفیٰ ﷺ کی تشریعیت مسلم ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے چند مرتدین کو جلانے کا حکم دیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے حدیث بیان کی جو اپنا دین بدلے اسی کو قتل کردو ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، نے حدیث سن کر حضرت عبد اللہ ابن عباس کی صداقت کی تعریف فرمائی ۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ کی تشریعیت کو اپنی رائے پر مقدم رکھا ۔امام ترمذی السنن میں حدیث لائے ہیں : ” حضرت علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کی تشریعاتی حیثیت کی فوقیت بیان کی دین کا دارو مدار ذاتی رائے اور قیاس آرائیوں پر نہیں ہے ۔“39
حضرت عمر بن عبد العزیز
حضرت عمر بن عبد العزیز بنو امیہ کے چشم و چراغ تھے اور اپنی حکومت کے نظم و نسق اورعدل و انصاف اور امت کی خیر خواہی کے جذبہ سے معمور ہونے کی وجہ سے آپکو '' عمر ثانی '' کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے آپ کا دور حکومت خلفائے راشدین کے منہج اور اسلوب پر ہونے کی وجہ سے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر نے میں شاہد عادل تھا ۔ عالم اسلام کی آپ ہی پہلی شخصیت پروقار ہیں جنہوں نے سرکاری آڈر ز کے ذریعے احادیث نبویہﷺ کی تدوین کی داغ بیل ڈالی اور شہاب زہری جیسے عظیم محدث کو ا سکی تدوین پر مامور کیا حدیث کی تدوینی خدمت ہی ظاہر کرتی ہے کہ آپ کے نزدیک سیرت مصطفیٰ ﷺ کی تشریعیت کا کیا مقام و مرتبہ تھا ۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ '' امام اعظم ''40کے لقب سے مشہور و معروف ہیں ۔آپ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول ﷺ کی صفات اور کمالات کے جامع ہیں قرآن ، حدیث ، تفسیر ، فقہ ، اور دیگر اسلامی علوم و فنون میں امامت کے مقام و مرتبہ پر فائز ہیں ۔ موافق اور غیر موافق سبھی آپ کے فضائل و کمالات اور مناقب و مراتب کے معترف ہیں ۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سرتاج المحدثین کے نزدیک سیرت مصطفیٰ ﷺ کا تشریعی مقام و مرتبہ روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر ہے۔آپ علیہ الرحمۃ کے فقہی مذہب کی بنیاد ہی قرآن و سنت ہے ۔ آپ کا مذہب وہی بات بنی جو حدیث سے ثابت ہوئی ۔امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
''اذاصح الحدیث فھو مذہبی ''41
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کی مجلس پر وقار میں ایک شخص آیا ۔ مجلس حدیث شریف کی تلاوت سے کشت زعفران بنی ہوئی تھی ۔ اس شخص نے کہا کہ احادیث کو چھوڑ دو۔حضرت امام اعظم نے یہ سن کر اس شخص کی سخت ڈانٹ ڈپٹ کی اور سخت سست کہا۔ فرمایا اگر سنت نہ ہوتی ہم میں سے کوئی بھی قرآن کو سمجھ نہ پاتا ۔ قرآن کی تفہیم سنت ہی پر موقوف ہے ۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ عالم اسلام کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اللہ جل جلا لہ ، کے عائد کردہ فرائض ، اور رسول کریم ﷺ کے عائد کردہ فرائض میں فرق فرمایا ہے۔ آپ علیہ الرحمۃ نے احکام الٰہیہ اور تشریعیت مصطفویہ میں مراتب کا فرق بتا کر ان کی بالا دستی کو قائم و دائم فرمایا ہے۔اور یوں ان کا ادب دوسرے آئمہ کی نسبت اللہ تعالی سے زیادہ ہے ۔
حضرت امام ما لک علیہ الرحمۃ
حضرت امام مالک علیہ الرحمۃ عالم مدینہ کے لقب سے مشہورو معروف ہیں ۔سیرت مصطفیٰ ﷺ آپ کے دل و جان میں رچی بسی ہوئی تھی آپ رضی اللہ عنہ اھل مدینہ کے عمل کو بھی حجت قرار دیتے تھے جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی حدیث ، سنت ، اور سیرت مصطفیٰ ﷺ سے محبت اور الفت ظاہر ہوتی ہے ۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے قائم کردہ فقہی ترتیب کے نقش اول پر آپ ہی نے عالم اسلام میں سب سے پہلے حدیث شریف کی کتاب '' المؤطا '' کو ترتیب دیا۔ جس کو بخاری کی تالیف سے پہلے کتاب اللہ کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہونے کا شرف حاصل رہا ہے آپ رضی اللہ عنہ ، اپنے ماننے والوں کو فرمایا کرتے تھے کہ میرے فتاویٰ جات پر مقدم حدیث رسول ﷺ ہی ہے ۔ حضرت محمد ﷺ کے سوا ہر کسی کی بات کو چھوڑا اور اپنایا جاسکتا ہے ۔امام مالک علیہ الرحمۃ کو امام دار الہجرۃ بھی کہا جاتا ہے ۔
حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ
آپ رضی اللہ عنہ تشریعیت مصطفیٰﷺ پر بہت سختی سے عامل اور پابند تھے ۔ آپ کے فرمان کے مطابق جو خبر رسول کریم ﷺ سے محدثین کے نزدیک ثابت ہو اور آپ کا قول اس کے خلاف ہو تو آپ کے مطابق آپ اس سے اپنی زندگی میں اور اپنی موت کے بعد اس سے رجوع کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ نے اپنے مذہب کی بنیاد صحیح حدیث پر رکھی ہے۔آپ نے ہر حدیث کو بڑے غور و فکر سے پرکھا روایت اور درایت کے اصولو ں کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد جو حدیث آپ کے نزدیک صحیح ثابت ہوئی آپ نے اسکو اپنا مذہب بنالیا ۔
امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :''اذا صح الحدیث فھو مذہبی ''42
حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ نے فرمایا جو میراقول حدیث صحیح کے خلاف ہو تو اس وقت میری تقلید چھوڑدو حدیث رسول ﷺ پر عمل کرو ۔
حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ
حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ آئمہ اربعہ میں سے چوتھے امام ہیں ۔ آپ کا فقہی مذہب عرب میں بہت پھیلا ہے حرمین شریفین ؎ میں آپ علیہ الرحمۃ کے مذہب ہی کی پیروی اور تقلید جاری و ساری ہے ۔آپ کے مذہب کی بنیاد حدیث پر ہے ۔کیونکہ آپ علیہ الرحمۃ کو حدیث کی درس وتدریس اور جمع و ترتیب اور تدوین سے بہت زیادہ شغف رہا ہے ۔ آپ نے حدیث شریف میں ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے جس میں 30ہزار کے قریب احادیث ہیں ۔ 43جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ علیہ الرحمۃ کو حدیث سے بہت زیادہ مما رست ہے ۔ جس کی وجہ سے آپ کے مذہب پر ظاہر حدیث کا تفقہ غالب ہے ۔ آپ علیہ الرحمۃ دوسرے آئمہ ثلاثہ کی طرح حدیث و سنت اور تشریعیت مصطفیٰ ﷺ کو قرآن کے بعد مقدم رکھتے ہیں ۔
آئمہ اربعہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ ، حضرت امام مالک علیہ الرحمۃ ، حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ ،اور حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کے دل و دماغ میں قرآن و سنت کی ذاتی رائے اور فکر پر فوقیت ، ترجیح اور تقدیم کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔قرآن و سنت پر ذاتی رائے کو فوقیت دینا ان قدسی صفات شخصیات کے حاشیہء خیال میں بھی نہ تھی ۔آپ سب لوگوں نے اپنے مذاہب کے اصول و ضوابط میں قرآن وسنت کو مقدم رکھا ۔اپنے اصحاب کو قرآن و سنت کی پابندی کی تعلیم دیتے ہوئے دین میں رائے کے دخل کو منع فرمایا اور تشریعیت مصطفیٰ ﷺ کا علم بلند کرنے میں آپ نے اور آپ کے اصحاب نے وہ کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے جن کی مثال مستقبل دینے سے قاصر اور خاسر رہے گا ۔
اعیان امت اور تشریعی حیثیت
حضرت امام عبد الوہاب شعرانی
حضرت امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمۃ کے نزدیک اللہ جل جلا لہ نے ، آپ ﷺ کو اختیار دیا تھا کہ آپ ﷺ جو چاہیں اپنی طرف سے حکم مقرر فر مادیں اللہ جل جلا لہ ، نے آپ ﷺ کو اختیار فی التشریع کا اعلیٰ منصب نہ دیا ہوتا تو آپ ﷺ اللہ جل جلا لہ ، کی حرام کردہ اشیاء میں سے مستثنیٰ کرنے کی جرات ہرگز نہ فرماتے ۔
اسی مضمون کو امام عبد الوہاب شعرانی اپنی ایک دوسری کتاب کشف الغمہ میں بیان فرماتے ہیں:
'' وکان لہ ان یخص من شاء مما شاء من الاحکام ۔۔۔۔وکان انس رضی اللہ عنہ یصوم من طلوع الشمس لا من طلوع الفجر فا الظاھر انھا خصوصیۃ لہ ''۔44
اللہ جل جلا لہ ، نے آپ ﷺ کو شریعت کے احکام میں اختیار اور منصب عطاء فرمایاتھا کہ آپﷺ جو چاہیں جس کے لئیے چاہیں مخصوص فرمادیں ۔
ابن تیمیہ
امام ابن تیمیہ سرور کون و مکاں ﷺ کی تشریعاتی حیثیت کے بیان میں رقمطراز ہیں :
''وقد اقامہ اللہ (الصلوٰۃ والسلام) مقام نفسہ فی امرہ ونھیہ واخبارہ وبیانہ ''45
اللہ جل جلا لہ ، نے آپﷺکو امر ،و نہی اور خبر و بیان میں اپنا قائم مقام بنایا ہے ۔
ابن قیم
آپ ﷺ نے جو خصوصی فیصلہ جات فرمائے تو وہ آپ ﷺ کی تشریعیت عامہ ہے ۔
امام ابن قیم لکھتا ہے ۔'' کانت اقضیتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام الخاصۃ تشریعا عاما''۔46
امام نووی
آپ ﷺ کو اختیار ہے کہ آپﷺعموم میں سے جو چاہیں مخصوص فرمالیں ۔
امام نووی لکھتے ہیں:
''وللشارع ع قلیہ الصلوٰۃ والسلام ان یخص من العموم ماشاء ''۔47
ملا علی قاری
مشکوٰۃ المصابیح ''کے عظیم شارح حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمۃ حدیث ربیعہ کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ہمارے آئمہ کرام نے آپﷺ کی خصوصیت میں سے شمار کیا ہے کہ آپﷺ جس کے لئے جو چاہیں جو مخصوص فرمادیں ۔
ملا علی قاری لکھتے ہیں :
''عند ائمتنا من خصائصہ علیہ الصلوٰۃ والسلام انہ یخصمن شاء مما شاء ''48
امام فاسی
دلا ئل الخیرات کے عظیم شارح امام فاسی علیہ الرحمۃ آپ ﷺ کے نام مبارک '' وکیل '' کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ احکام شریعت آپﷺ کے سپرد کئیے گئے ہیں ۔آپﷺ اپنے اجتہاد سے حکم فر ماتے تھے ۔یہ آپﷺ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خصوصیت میں سے ہے ۔
'' ان یکون المراد التفویض الیہ فی الاحکام الشریعۃ فیحکم باجتہادہ حسبما ذکرو افی خصائصہ انہ یجوز ان یقال لہ احکم بما تشاء مما حکمت بہ فھو صواب موافق لحکمی علی ما صححہ الاکثرون فی الاصول الیس ذٰلک لغیرہ''49
شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ
شیخ عبد الحق محدث دہلوی جو بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے حضوری تھے ۔”بعض اولیاء اللہ ایسے بھی گزرے ہیں کہ خواب میں یا حالت غیبت میں روز مرہ ان کو دربار نبوی ﷺ میں حاضری کی دولت نصیب ہوتی تھی ایسے حضرات صاحب حضوری کہلاتے ہیں انہیں میں سے ایک حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ہیں کہ یہ بھی اس دولت سے مشرف تھے اور صاحب حضور ﷺ تھے “۔50
شیخ محقق علیہ الرحمۃ پاک وہند بر صغیر کی پہلی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حدیث کی درس وتدریس ،تصنیف وتالیف ،اور اشاعت و ترویج میں سب سے پہلے کارنامہ سرانجام دیا ہے۔نواب صدیق حسن بھوپالی قنوجی کے مطابق تو آپ بر صغیر میں سب سے پہلے حدیث شریف کے علم کو لانے والے ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث شریف کا علم آپ سے پہلے آچکا تھا مگر درسا ، تدریسا ،تصنیفا ،تالیفا ،اور اشاعتا ،اور ترویجا ، آپ کو سبقت حاصل ہے۔نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں۔''وھو اول من جآء بہ فی ھٰذا الا قلیم ''51
حضرت محقق کے نزدیک تشریعیت میں آپﷺ کو اختیار کلی حاصل تھا کہ آپﷺ بعض احکا م کی بعض اشخاص کےلئیے تخصیص فرمائیں ۔آپﷺ جو چاہیں جس کے لئے چاہیں حلال و حرام کردیں ۔جس کے لئے چاہیں مخصوص فرمادیں اور جس کے لئے چاہیں آپﷺ مخصوص نہ فرمائیں۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے نزدیک تشریعیت میں آپﷺ ماذون اور مختار ہیں اور یہ آپﷺ کے خصائص اور فضائل میں سے ہے ۔ جسکو جس میں سے چاہتے ہیں خاص کردیتے ہیں ۔ ساری شریعت اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے حوالے کردی ہے جس میں جسے چاہیں ترمیم کریں اور اضافہ فرمائیں ۔
تشریعیت کی اقسام
اللہ جل جلا لہ ، کے رسول معظم ﷺ کی تشریعی حیثیت میں ان اقسام کا ذکر کیا جاتا ہے ۔جن میں رسول معظم ﷺ کی تشریعیت قانون سازی ، حکم سازی ،اور حاکمیت کی بالادستی قرآن مجید سے نہیں بلکہ یہ تشریعیت براہ راست آپﷺ کی سنت نبوی ﷺ سے معرض وجود میں آئی ہے اس تشریعیت میں آپﷺ خود ہی اپنی زبان وحی سے ، تشریعیت ، وضع قانون ، حاکم سازی اور اپنی حاکمیت بیان فرماتے ہیں ۔ بنیادی طور پر آپ ﷺ کی تشریعیت کی دو اقسام ہیں ۔1۔ تشریعیت بحیثیت شارح قرآن 2 ۔تشریعیت بحیثیت شارع۔
تشریعیت بحیثیت شارح قرآن
اس تشریعیت میں آپﷺ قرآن مجید کے تمام احکام الٰہیہ کی توضیح ، وضاحت اور تفسیر آپﷺ فرماتے ہیں آپﷺ کی تفسیر ، توضیح اور تفسیر کی اعتباریت اور اہمیت تشریعیت بصورت شارحیت ہے۔
تشریعیت بحیثیت شارع
رسول معظم ﷺ اللہ جل جلا لہ کی بارگاہ گہر بار کی طرف سے براہ راست شارع بھی ہیں ایسے احکام جو قرآن مجید میں براہ راست مذکور نہ ہیں آپﷺ نے ان کو بیان فرمایا ۔ اللہ جل جلا لہ نے قرآن مجید میں مردار ، خون ، خنزیر کا گوشت ، اور جس جانور پر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا جائے ان کو حرام فرمایا ہے ۔ ان حرام کردہ جانوروں کے علاوہ کئی ایسے جانور ہیں جن کو آپ ﷺ نے حرام فرمایا ہے۔عورتوں کے لئے سونے کی دھات بناؤ سنگھار کے استعمال میں جائز ہے جبکہ آپﷺ نے سونے کو اپنی ہی شارعیت کی بنا پر مردوں کے لئے حرام فرمایا ہے ۔ ریشم کو مردوں کے لئے حرام فرمایا ہے ۔ایسے ہی ان گنت امور شریعت اسلامیہ میں آپﷺ کی شارعیت ہی کو ظاہر اور بیان کرتے ہیں ۔اللہ جل جلا لہ ، کے رسول معظم ﷺ کی اس براہ راست شارعیت کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیاجاتاہے ۔1۔ جنائی تشریعیت2۔تسببی تشریعیت3۔کفاراتی تشریعی 4۔نہی تشریعیت5۔ شہاداتی تشریعیت۔
1۔ جنائی تشریعیت
اللہ جل جلا لہ ، نے آپﷺ کو جنایات کے باب میں تشریعیت کا اختیار تفویض فرمایا ہے ، جنایات سے مراد وہ سزائیں ہیں جو کسی منع شدہ معاملہ کے ارتکاب کی صورت میں دی جاتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم ﷺ نے کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ جنایات کا بیان قرآن مجید میں بھی موجود ہے ۔ شراب کی حرمت ، کا حکم قرآن مجید میں موجود اور مذکور ہے ۔ حد شراب شراب کی حد یعنی شراب پی لینے کی صورت میں اس کی کیا سزا ہے ۔ شراب کی حد کا ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں ہے شراب پینے کی سزا قرآن مجید نے نہیں مگر آپﷺ کی سیرت نبویہﷺ سے ثابت ہے وہ سزا ہے اسی (80)کوڑے ۔شراب کی سزا 80 کوڑے وہ تشریعیت ہے جو سیرت مصطفیٰ ﷺ سے براہ راست شریعت اسلامیہ کا حصہ بنی ہے۔رجم کی حد ، شادی شدہ مردو عورت زنا کریں تو ان کی سزا ، مرتد کی سزا جو اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھر جائے کی سزائے موت بھی آپﷺ کی سنت اور آپﷺ کی براہ راست شارعیت ہی کی وجہ سے دین اسلام کا حصہ ہیں ۔
2۔تسببی تشریعیت
تسببی تشریعیت سے مراد آپﷺ کی وہ قانون سازی اور وضعیت قانون ہے جو کسی دوسرے قانونی فعل کی وجہ اور سبب سے معرض وجود میں آیا ہو ۔ دوسرے قانونی فعل کی وجہ سے وجود میں آنے والے قانون کی وصفیت سیرت مصطفیٰ ﷺ سے ہی ہوئی ہو۔ شریعت اسلامیہ میں قاتل مقتول کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا ہے اور وہ مقتول کی وراثت کا وارث نہیں ہوتا ہے ۔ قاتل کا محروم الارث ہونا کی تشریعیت یعنی قانون سازی سیرت مصطفیٰ ﷺ ہی سے ثابت ہے ۔
3۔ کفاراتی تشریعیت
کفارہ کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت کے کسی امر کو توڑنے کی صورت میں کفارہ ادا کیا جاتا ہے تاکہ شریعت کے قانون کی خلاف ورزی کی تلافی ہوجائے ۔ خلاف ورزی کا وہ گناہ مٹ جائے اور سر سے ذمہ اٹھ جائے روزہ کو جان بوجھ کر توڑنا قضا اور کفارہ کو لازم کرتا ہے کفارہ صوم یہ کہ روزی توڑنے والا شخص مسلسل ساٹھ (60) روزے رکھے ۔یا وہ شخص ساٹھ (60)مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے ۔ کفارہ صوم کی تشریعیت کا لزوم آپﷺ کی براہ راست تشریعیت ہی کی وجہ سے ممکن آیا ہے ، جس کا قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے ۔
4۔ تشریعیت نہی
قرآن مجید میں حرام کردہ اشیاء اور امور محدود اور قابل شمار ہیں جن کا صراحتا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے ، اللہ جل جلا لہ ، کے عطا کردہ اختیار سے آپﷺ نے براہ راست خود تشریعیت ، قانون سازی ، اور وضعیت قانون کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بعض اشیاء و اعمال کو خود حرام ٹھہرالیا ہے ۔ مردوں کو ریشم حرام ہے قرآن مجید میں اس کا حرام ہونا مذکور نہیں ہے ۔ اسی طرح سونے کے زیورات کا مردوں کو استعمال کرنا حرام ہے ۔ اس جیسے دیگر اشیاء و اعمال کو جو حرام ٹھہرایا گیا ہے انکی یہ حرمت براہ راست سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے جو آپ ﷺ کی تشریعی حیثیت علی التصویر ہے ۔
5۔ شہاداتی تشریعیت
مقدمات میں عدالتی ضابطہ جات اور شہادات کے قوانین اور اسی تناظر میں سزائیں جنکو تعزیرات اور سیاست سے تعبیر کیا جاتا ہے شہاداتی ضابطہ جات اور دیگر معاملات جن کی حیثیت اسلام اور احکام میں مسلم ہے یہ بھی براہ راست آپﷺ کی سیرت سے ثابت ہوتی ہے عدالتی معاملات اور ضابطہ جات کی یہ حیثیت آپﷺ کی تشریعیت ہی کی وجہ سے ممکن اور صورت وجود میں آتی ہے گواہی مدعی کے ذمہ اور قسم منکر کے ذمہ لازم ہے۔ جیسے شہاداتی امور میں آپﷺ کی تشریعیت ہی کار فرما ہوتی ہے ۔
خصائص تشریعیت
اللہ جل جلا لہ ، نے اپنے رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کوتشریعیت کا جو مقام و مرتبہ اور منصب عطا ء فرمایا ہے اس تشریعاتی مقام و مرتبہ کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں ۔1۔تشریعیت عامہ2۔ تشریعیت خاصہ۔
تشریعیت عامہ
حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو جو تشریعیت ، وضع قانون اور قانون سازی ، کا جو اختیار اللہ جل جلا لہ نے آپ ﷺ کو عطا فرمایا ہے اس میں تشریعیت عامہ کا مفہوم یہ ہے کہ آپﷺ کے وہ قانون اور قانون سازی جس کا براہ راست تمام امت کے ہر فرد سے تعلق ہے ۔ آپﷺ کی اس تشریعیت کی اطاعت فرمانبرداری امت کے ہر فرد پر لازم اور ضروری ہے ۔ جس سے سر مو انحراف اور انکار خسران اور ضلالت ہے ۔ آپﷺ نے جو واجبات ، فرائض ، سنن ، مستحبات ، حرام ، مکروہ تحریمی ، مکروہ تنزیہی اور اسا ءت وغیرہ کے امور جو عبادات معاملات اور مناکحات ، کے متعلق بیان فرمائے ہیں جن کے ذکر سے قرآن مجید خاموش ہے یہ سب امور جو امت کے لئے نمونہ عمل کے طور پر مشعل راہ ہیں انکی حیثیت ہی آپﷺ کی تشریعیت عامہ کی حیثیت کو اجاگر کرتی ہے ۔عبادات ، معاملات ، اور مناکحات کے من جملہ امور اور لوازم وغیر لوازم کی تشریعیت آپﷺ کی تشریعیت عامہ ہے ۔ اللہ جل جلالہ ، نے نماز ، زکوٰۃ ، حج ، اور جہاد کا حکم قرآن مجید میں واضح طور پر ارشاد فرمایاہے ۔کیفیات نماز ، نصاب زکوٰۃ ، مناسک حج ، اور احکام جہاد کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ کیفیات ، نصاب ، مناسک ، اور جہاد کے احکام کی قانون سازی اور تشریعیت آپﷺ نے کی ہے جس کی اتباع اور اطاعت سعادت دنیوی اور اخروی کی ضمانت ہے جبکہ انحراف اور انکار قعر ضلالت میں جاگرنے کے برابر ہے ۔اللہ جل جلا لہ ، کا ارشاد مبارک ہے۔
'' اَلَّـذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِىَّ الْاُمِّىَّ الَّـذِىْ يَجِدُوْنَهٝ مَكْـتُوبًا عِنْدَهُـمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِۖ يَاْمُرُهُـمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْـهَاهُـمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَـهُـمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْـهِـمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْـهُـمْ اِصْرَهُـمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِىْ كَانَتْ عَلَيْـهِـمْ ۚ فَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّـذِىٓ اُنْزِلَ مَعَهٝ ۙ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ '' 52
''وہ جو غلا می کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع کرے گا اور ستھری چیزیں ان کےلئے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے پھندے جو ان پر تھے اتارے گا تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس کی نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی با مراد ہوئے ''۔
قرآن مجید کی یہ آیت حلت و حرمت ، امر ونہی اور بوجھ کے ہلکا کرنے ، جیسے امور میں آپﷺ کی تشریعیت عامہ کی توضیح اور وضاحت اور اللہ جل جلا لہ کی طرف سے حلت و حرمت کے اختیار کو واضح کرنے میں کافی اور شافی ہے ۔مسواک کے استعمال اور حج کی بابت آپﷺ کے فرامین وغیرہ کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو یہ امور فرض ہو جاتے ۔ قرآن مجید کے بعد من جملہ شریعت اور اسلام آپﷺ کی تشریعیت عامہ کی عملی تصویر ہے ۔
تشر ییعت خاصہ
تشریعیت عامہ کی تفویض کے ساتھ اللہ جل جلا لہ ، نے آپﷺ کو تشریعیت خاصہ کے بھی مقام ومرتبہ پر بھی فائز فرمایا ہے ۔ تشریعیت خاصہ کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ آپﷺ کی وہ تشریعیت ، شریعت اور قانون سازی جس کا تعلق امت کے ہر فرد کے ساتھ نہیں ہے کہ اس پر اس کی پیروی ، اطاعت یا اس نمونہ عمل کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے بلکہ اس پر عمل لازم نہ ہے اس تشریعیت اور شریعت کو دل و جان سے آپﷺ کے اختیار کو تسلیم کرنا ضروری اور مومن ہونے کا ثبوت فراہم کرنا ہے ۔تشریعیت خاصہ اپنی ذات اور غیر کے اعتبار سے مندرجہ ذیل د و اقسام میں تقسیم ہے۔1۔ تشریعیت خاصہ لذاتہ2۔تشریعیت خاصہ لغیرہ۔
1۔تشریعیت خاصہ لذاتہ
تشریعیت خاصہ لذاتہ سے مراد آپﷺ کے وہ خصائص ہیں جن میں امت کے کسی فرد کی شمولیت نا ممکن اور محال ہے ۔ تشریعیت خاصہ کے خصائص میں آپﷺ بے نظیر و بے مثال ہیں اور کسی شریک کی شرکت سے آپﷺ لا شریک ہیں ۔ تشریعیت خاصہ کے خصائص قرآن و سنت کے انوار سے آفتاب نیمروز کی طرح چمک رہے ہیں ۔قرآن مجید میں ایک مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے ۔
ارشاد باری تعالی ٰہے۔
'' فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ '' 53
آپﷺ نے چار سے زائد رشتہء ازدواج میں منسلک ہوئے اور آپﷺ کی ازواج مطہرات آپﷺ کے ظاہری وصال پر کمال کے بعد نکاح نہیں کرسکتی تھیں اور وہ امت مسلمہ کی امھات المؤمنین مائیں ٹھہریں ۔'' وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ '' 54
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مخدومہء کائنات حضرت فاطمۃ زہراء رضی اللہ عنھا کی موجود گی میں ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو آپﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اللہ جل جلا لہ ، کے دشمن کی بیٹی رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے ساتھ نہیں رہ سکتی ہے آپﷺ تشریعیت خاصہ ذاتیہ کا اظہار فرماتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئیے خاتون جنت رضی اللہ عنھا کی حیات مبارکہ میں دوسرا نکاح حرام فرمادیا ۔55
2۔تشریعیت خاصہ لغیرہ
تشریعیت خاصہ لغیریہ کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں اپنے اصحاب میں سے کسی ایک اصحابی کے لئیے خصوصی رعایت کے ساتھ تشریعیت اور قانون سازی کی ہو جو صرف اسی صحابی کے لئے مخصوص ہو جس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو اور نہ ہی کوئی دوسرا اس خصوصی رعایت کو اپنے لئیے نمونہء عمل بنانے کا مجاز ہو ۔
رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے اسلام قبول کرنے کی یہ شرط پیش کی کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھے گا ۔ تو آپﷺ نے تشریعیت خاصہ لغیرہ کا اظہار فرماتے ہوئے اس شخص کی دو نماز پڑھنے کی شرط کو قبول فر مالیا تو وہ شخص مسلمان ہوگیا ۔
''عن رجل منھم انہ اتی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ''56
2۔ آپﷺ نے حرم مکہ کی گھاس کو کاٹنے سے منع فرمایا پھر اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی عرض پر اس گھاس کو حکم سے نکال دیا ۔57
3۔ آپﷺ نے ابو بردہ کے لئیے چھ 6ماہ بکری کے بچہ کی قربانی جائز فرمادی ۔58
4۔رسول کریم ﷺ نے ام عطیہ کو ایک جگہ نوحہ کرنے کی اجازت عطا فرمائی ۔59
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نام وکنیت کے جمع فرمانے کی اجازت دینا ، حضرت عثمان غنی کو بغیر حاضری جہاد مال غنیمت کاحصہ عطا فرمانا ۔ معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے لئیے اپنی رعیت سے تحائف لینے کو حلال فرمانا ۔ ایک صاحب کے لئیے بیع میں خیار غبن مقرر فرمانا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کےلئیے عصر کے بعد دو رکعت نفل کا جائز فرمانا ۔
اللہ جل جلا لہ ،نے اپنے رسول معظم ﷺ کو تشریع لذاتہ اور تشریع لغیرہ کا منصب اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے ۔رسول معظم ﷺ کا نطق وحی بھی شریعت ہے اور آپﷺ کا مطلقا نطق بھی سنت اور شریعت ہے ۔من جملہ اقوال ، افعال ،اور احوال جو سنت کے مفہوم میں ہوں تو وہ شریعت ہیں اور سنت بمعنیٰ سیرت ہوتو بھی سیرت شریعت ہے ۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ تشریعیت اور تشریح احکام الٰہی کی ایک زندہ جاوید عملی تصویر ہے
تشریعیت بصورت تشریحیت
اللہ جل جلالہ ، کا نازل کردہ قرآن کریم اپنی فصاحت و بلاغت اور جوامع الکلم کے لحاظ سے ہزاروں علوم و فنون کی اساسی تفصیلات کو فراہم کرنے میں اپنی مثال آپ ہے قرآن مجید میں ہر شے کا ذکر ہے ۔حتیٰ کہ خشک و تر کا ذکر ہے ۔
اللہ جل جلا لہ کا ارشاد مبارک ہے ۔
''وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ''60
اس آیت میں رطب و یابس جو کا ذکر ہے ان الفاظ نے کائنات کے ذرہ ذرہ کو اپنے مفہوم میں سمیٹ لیا ہے قرآن مجید کی جامعیت کا انداز ہ لگائیے دو لفظوں میں کائنات کو اپنے اندر سمولیا ہے ۔قرآن مجید میں ہر شے کا بیان ہونے کے باوجود قرآن مجید ہر شے کی اساس اور اسا سیت کو ہی بیان کرتا ہے قرآن مجید جزئیات کے درپے نہیں ہوتا ہے ۔
قرآن مجید جب اساسی اصولوں کی ہی بنیاد فراہم کرتا ہے تو اس کی شرح ، وضاحت اور توضیح کی ضرورت ہے ۔ یہ بات آسان سی ہے قرآن مجید کی توضیح اور تفسیر وہی معتبر اور اعلیٰ ہوگی جو قرآن مجید کی صحیح منشاء اور مراد تک پہنچادے ۔قرآن مجید کی توضیح اور تفسیر سے وہ توضیح اور تفسیر اعلی ہے جو قرآن کی تفسیر قرآن سے ہوتی ہے ۔اس درجہ اعلیٰ کے بعد قرآن کریم کی تفسیر اور توضیح کا بلند وبالا منبع اور درجہ سیرت مصطفیٰ ﷺ ہے۔آپﷺ کی حیثیت اس لحاظ سے دو جہتیں اختیار کرجاتی ہے ۔قرآن مجید آپﷺ کے حکم کو نافذ العمل اور آپﷺ کو حاکم کہتا ہے۔
اس جہت سے آپﷺ شارع ہیں سیرت مصطفےٰ ﷺ قرآن مجید کی آیات طیبہ کی توضیح ، وضاحت اورتفسیر کرتی ہے اس لحاظ سے آپﷺ شارع ہیں ۔ قرآن مجید کے شارح ہونے کی حیثیت سے دراصل آپﷺ کی شارعیت ہی ہے ۔ تشریعیت بصورت تشریحیت کے مواد سے قرآن مجید کی آیات میں اول تا آخر غور وفکر کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے مثال کے طور پر اللہ جل جلا لہ نے قرآن مجید میں عبادت کا حکم دیا ہے صلوٰۃنما ز کا حکم قرآن میں متعدد مقامات پر بڑی تاکید کے ساتھ آیا ہے ۔ مگر مفہوم صلوٰۃ ، تعداد رکعات ، اوقات صلوٰۃ ، فرائض وواجبات ، مستحبات ،مکروہات ، وغیرہ کا ادراک اور معرفت سیرت مصطفیٰ ﷺ ہی کی محتاج ہے ۔زکوٰۃ ایک اہم رکن ہے ۔ تو زکوٰۃ کا مفہوم اور انفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم ، نصاب ، مصارف زکوٰۃ ، کی تفصیل اور معنیٰ و مفہوم ،سیرت مصطفیٰ ﷺ نے ہی واضح کیا ہے ۔روزہ کا ذکر اور فرضیت قرآن مجید میں ہے مگر اس کے احکام ، سحری ، اور افطاری کے اوقات کا واضح طور پر یقین سیرت مصطفیٰ ﷺ ہی میں ہے ۔حج اور مناسک حج اور اس کی تفصیلی جزئیات کو سیرت مصطفیٰ ﷺ ہی نے واضح فرمایا ہے ۔
جہاد کے احکام سیرت مصطفیٰﷺ کے ہی مرہون منت ہیں شہادتین عبادات ، معاملات ، مناکحات ، قرآن مجید کی شد ومد شرح اور وضاحت سیرت مصطفیٰ ﷺ کی روشنی میں ہوسکتی ہے ۔قرآن مجید کی منشا ء اور مراد آپ ﷺ کی شارحیت کے بغیر نا ممکن اور محا ل ہے ۔قرآن مجید میں آپﷺ شارحانہ حیثیت در حقیقت تشریعیت کی حیثیت کا ایک دوسرا نام ہے ۔
تشریحی حیثیت کی اقسام
رسول کریم ﷺ کی قرآن مجید سے تشریعی حیثیت اور اتھارٹی ثابت ہونے کے بعد آپﷺ کی قرآن مجید کے حوالے سے ایک حیثیت جو تشریعیت ہے وہ تشریعیت قرآن مجید کے تناظر میں تشریحیت کی صورت میں بھی ہے یعنی آپﷺ قرآن مجید کے شارح ہیں ۔قرآن مجید کی تشریح و توضیح اور تفسیر میں آپﷺ اتھارٹی ہیں قرآن مجید کی شرح وہ منظور و مقبول ہے جو آپﷺ کی حدیث اور سنت سے ثابت اور مذکور ہو۔
توضیح و تشریح اور تفسیر کے اعتبار اور حوالے سے سیرت مصطفیٰ ﷺ قرآن مجید کی شارح ہوتی ہے سیرت مصطفیٰﷺ سے قرآنی احکام کی صحیح منشا اور مراد واضح ہوتی ہے قرآنی احکام کی تفصیلات اور جزئیات متیقن کرنے میں سیرت مصطفیٰ ﷺ کو شارحیت کی حیثیت حاصل ہے ۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ کی شارحیت قرآن مجید کے مندرجہ ذیل امور میں ثابت ہوتی ہے ۔
1۔ تخصیص العام
اصول فقہ کے اعتبار سے عام وہ لفظ ہوتا ہے جو لفظی اور معنوی اعتبار سے افراد کی ایک جماعت کو شامل ہوتا ہے ۔
''والعام کل لفظ ینتظم جمعا من الافراد '' 61
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے ؛
'' اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۰۠ ''62
اس آیت میں حد زنا میں زانی ، اور زانیۃ کے مفہوم کی تخصیص اور ایک سال کے لئیے ملک بدری جیسے امور احادیث نے واضح کئے ہیں ۔ اسی طرح قرآن مجید میں وصیت کا حکم ہے تو ایک تہائی حصہ جائیداد کی تخصیص حدیث سے ثابت ہوتی ہے ۔
2۔تقیید المطلق
مطلق وہ ہوتا ہے جس میں صرف ذات کا اعتبار کیا جاتا ہے کسی صفت کا اعتبار نہیں کیاجاتا ہے ۔ جبکہ مقید میں ذات کے ساتھ صفت کا لحاظ کیا جاتا ہے ۔
قرآن مجید میں '' فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ ''63'' وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ''64
تعدیل ارکان حدیث سے ثابت ہیں ۔ایسی ہی بہت ساری آیات جو اپنے اطلاق پر جاری ہیں ان کی قیودات احادیث سے جو ثابت ہوتی ہیں وہ احادیث آیات کی شارح ہیں سیرت مصطفیٰ ﷺ پورے قرآن کی شارح کی حیثیت رکھتی ہے ۔
3۔ بیان المجمل
قرآن کریم میں بہت سارے احکامات کو اجمالی انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ احکام کی تفصیلات اور جزئیات کو مطلقا بیان نہیں کیا گیا ہے ۔قرآن مجید میں صلوٰۃ کا ذکر ہے مگر صلوٰۃ کا مفہوم ، تعداد رکعات ، تفصیل اوقات ،نماز کے فرائض ، وجوبات ، سنن ، مستحبات ، مکروہات ، وغیرہ کو مطلقا نہیں بیان کیا گیا ہے ۔یہ سب امور احادیث سے ثابت ہیں ۔
4۔ استثنیٰ
قرآن مجید میں احکامات بیان کئے گئے ہیں کہ مردار حرام ہیں لیکن حدیث نے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ قرار دیا ہے وہ حلال ہیں ۔ قرآن مجید میں حکم ہے کہ اپنے پاؤں کو دھوو حدیث نے مسح علی الخفین کا استثنیٰ قراردیاہے ۔ قرآن مجید کی حلت و حرمت کی طرح سیرت مصطفیٰ ﷺ بھی حلت و حرمت میں بحیثیت شارحیت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
5۔الزیادۃ
قرآن مجید میں زنا کی حد سو (100)کوڑے قراردی گئی ہے ۔حدیث پاک سے اس سزا میں ، تغریب عام ، (جلا وطنی) کا اضافہ فرمایا ہے ۔ مقصود یہ ہے کہ قرآن مجید کی بیان کردہ حد میں حدیث نے اضافہ کیا ہے اس بنا پر قرآن و حدیث کے درجات کے بیان میں تفاوت برتا گیا ہے ۔ قرآن مجید کی بیان کردہ سزا کو حد قراردیا جائے گا حدیث نے بحیثیت شارحیت جو تغریب عام (جلا وطنی ) کا اضافہ فرمایا ہے اس کو تعزیرا یا سیاستا جائز قراردیا جائیگا ۔ قرآن مجید میں جمع بین الاختین آیاہے اس حکم پر پھوپھی ، بھتیجی ، اور خالہ بھانجی کی ممانعت کا جو اضافہ ہے وہ حدیث نے اپنی اتھارٹی شارحیت کی حیثیت سے کیا ہے ۔
6۔توضیح المشکل
قرآن مجید فصاحت و بلاغت اور جوامع الکلم کا ایک سمندر بے کنار ہے ۔ جس کے تھوڑے الفاظ میں علم وحکمت ، معانی و مطالب اور مفہوم کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہاہوتا ہے ۔حدیث قرآن مجید کےمشکل مفہوم کی وضاحت کرنے میں اپنی حیثیت کو اجاگر کرتی ہے ۔ قرآن مجید میں مشکلات قرآن ہیں جن کے منشاء ومراد تک پہنچنے میں بڑے بڑے صاحب علم و فضل بھی مراد اور منشاء تک پہنچنے میں پس ماندہ راہ نظر آتے ہیں ۔سحری کے وقت کو بیاض النھار اور سواد اللیل سے بیان کیا گیا تو اصحاب علم وفضل اس کی مراد کو پانے میں مشکل میں پڑ گئے ۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ نے ا س مشکل کی توضیح اور تفسیر سے سب کو ساحل مراد تک پہنچادیا ۔اللہ جل جلا لہ نے آپﷺ کو قرآن مجید میں تشریعیت کی جو حیثیت اور اتھارٹی دی ہے ۔ وہ تشریعیت قرآن مجید کی تشریح میں تشریحیت کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ قرآن مجید کی تشریح اور توضیح میں تشریعیت کی حیثیت رکھتی ہے ۔سیرت مصطفیٰ ﷺ قرآن مجید کے معانی و مطالب اور اظہار مفہوم میں جو تشریحیت کے روپ میں جلوہ افروز ہے وہ تشریحیت دراصل آپ ﷺ کی تشریعیت ہی ہے۔
خلاصہ ابحاث
اللہ جل جلا لہ کے کلام پاک کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ جل جلا لہ ، نے اپنے رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے اوامر و نواہی ، اخبار وبیان ، اور دیگر اسلام کے دیگر معاملات میں اپنی نیابت تامہ سے سرفراز فرمایا ہے آپ ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کو اللہ جل جلا لہ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے موسوم کیا گیا ہے جس سے سیرت کی طیبہ کی تشریعی حیثیت کی وضاحت اور حیثیت سامنے آجاتی ہے ۔
تشریعیت کے مفہوم کے حوالے سے دیکھا جائے تو تشریعیت کا لفظ شرع سے ماخوذ ہے جو لغوی طور پر راہنمائی کرنا ، بلند کرنا ، پانی کے گھاٹ پر وارد ہونے کے علاوہ کئی مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ تشریعیت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کا معنیٰ ہے ، آئین اور قانون بنانا ،اصول و ضوابط اور نظم و ضبط کے قوانین کی وصفیت آسان اور سادہ الفاظ میں تشریعیت سے مراد قانون سازی اور وصفیت قانون ہے۔ تشریعیت قانون سازی اللہ جل جلا لہ ، کے قبضہ و اختیار میں ہے ۔ اس ذات کے علاوہ کسی کو حق نہ پہنچتا ہے کہ وہ قانون سازی کرسکے۔اس ذات کے علاوہ قانون سازی کرنے والا لازمی طور پر ادہر ادہر ہو سکتا ہے ۔ تشریعیت قانون سازی اللہ جل جلا لہ کے پاس ہے اس کی عطا اور مہربانی سے اس کے برگزیدہ بندے اس حیثیت کو اس کے نائب اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے بروئے کار لاتے ہیں ۔
اللہ جل جلا لہ ، کے کلام کے بعد سیرت طیبہ کو تشریعی حیثیت حاصل ہے ۔ اللہ جل جلا لہ، نے اپنے رسول معظم ﷺ کو تشریعی حیثیت کے منصب پر فائز فر مایا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت ہے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر سیرت طیبہ کی تشریعاتی حیثیت کا ذکر کیا گیا ہے ، حلت و حرمت ، پسند و نا پسند ، اوامر و نواہی ، اور اخبار و بیان میں سیرت طیبہ کی تشریعاتی حیثیت کو بڑے واضح طور پر اجاگر کیا گیا ہے اور اس کو بڑے اچھوتے انداز میں سیرت طیبہ کی اس حیثیت کو اسوہء کاملہ ، ذریعہ حب الٰہی ، اور کا میابی و کامرانی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔
رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے خود بھی سیرت طیبہ کی تشریعاتی حیثیت کو احادیث مبارکہ اور سنت مبارکہ کی روشنی میں بڑے واضح طور پر بیان فرمایا ہے ۔ احادیث نبویہ ﷺ اور سنت مبارکہ کے بیان سے یہ بات پایہء تکمیل تک پہنچ جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات کی روشنی میں تشریعاتی حیثیت کو بڑے احسن انداز میں بیان فرمایاہے ۔ اس کی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی زبان پر ترجمان کو وحی غیر متلو کا درجہ دے دیا گیا ہے ارشاد ربانی کے مطابق آپﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ہیں بلکہ آپ ﷺ کا فرمان وحی کی حقیقت کا ترجمان ہے آپ ﷺ کا فرمان بھی وحی الٰہی کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی ترجمانی کرتا ہے۔قرآن مجید نے صرف اصول عطا فرمائے ہیں ان کی عملی صورت اور شکل سیرت طیبہ کی روشنی ہی میں اپنی تصویر بناتی ہے ۔ سیرت طیبہ کے بغیر قرآنی احکامات پر عمل نا ممکن ہوجاتا ہے اور بندہ گمراہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے ۔
امت محمدیہ ﷺ کے خدا رسیدہ اور برگزیدہ علمائے امت کے ارشادات اور کتب کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات وا ضح ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک سیرت طیبہ ﷺ کی حیثیت مسلم ہے اور اللہ جل جلا لہ نے آپﷺ کو تشریعیت کے ایک خاص منصب پر فائز کیا ہے۔
آپ ﷺ کو تشریحاتی حیثیت بھی حاصل ہے کہ آپﷺ شارع ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید اور شریعت کے شارع بھی ہیں۔آپ ﷺ عبادات ، معاملات ، مناکحات ،اور جنایات دین کے ہر شعبہ میں شاریحیت اور شارعیت کی حیثیت سے قانون سازی کے مجا ز ہیں ۔آپﷺ قران مجید کے اجمال کی تفصیل ، مطلق کی تقیید ،اور متشابہ کی وضاحت میں بھی کلی اختیار رکھتے ہیں تشریعیت اور تشریحیت کی من جملہ اقسام میں اللہ جل جلا لہ ، کی طرف سے آپ ﷺ کو قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔ اللہ جل جلا لہ ، نے تشریعیت اسلامی کو گوناگوں اور لا محدود خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ہے ۔ تشریعیت اسلامی کی یہ خصوصیات اور امتیازات دیگر شرائع میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر دیگر اسلام کے علاوہ دیگر ادیان کا مطالعہ کیا جائے تو ان ادیان کے قوانین اور اصول و ضوابط میں تو معروضی کامیابی کی ضمانت کا بھی فقدان ہے۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 ‘Abd al-Hafīz Balyāvī, Misbāḥ al-Lughāt (Multan: Maktabah Imdādiyah, S.N), 427.
2 Lavīs Ma‘lūf, Al-Munjid Fi al-Lughat (Beirūt: Dār al-Mashriq, 1998 A.D), 382.
3 Abu al-Qāsim Husain bin Muḥammad bin MufaÃal Asfahānī, Taḥqīq: Muḥammad Sayyid Kīlānī, Al-Mufridād Fī Gharīb al-Qur’ān (Karachi: Nūr Muḥammad Kutb Khānah, S.N), 258.
4 Asfahānī, Al-Mufridād Fī Gharīb al-Qur’ān, 258.
5’Abd al-Hafīz Balyāvī, Misbāḥ al-Lughāt, 427.
6 Lavīs Ma‘lūf, Al-Munjid Fi al-Lughat, 382.
7Nūr al-ḥasan Nayar, Nūr al-Lughāt (Islamabad: National Book Foundation, 1985A.D), 2:264.
8 Sayyid RiyāÃ Husain Shāh, Mu‘ajjam Istalāḥāt (Rawalpindi: Idārah Ta‘līmāt e Islāmiyah, S.N), 54.
9 Al-Mā’idah 5:48.
10 Al-Jāthiyah 45:18.
11 Al-Shūrā 42:13.
12 Al-A‘rāf 7:163.
13 Lavīs Ma‘lūf, Al-Munjid Fi al-Lughat, 382
14 Sharīf ‘Alī bin Muḥammad Jarjānī, Kitāb al-Ta‘rīfāt (Beirūt: Dār al-Surūr, S.N), 55.
15 Al-Baqarah 2:208.
16 Jarjānī, Kitāb al-Ta‘rīfāt, 55
17 Sheikh ‘Abd al-Haq bin Saif al-Dīn, Akhbār al-Akhyār Ma‘ Maktūbāt (Sakhar: Maktabah Nūriyah RiÃviyah, S.N), 4.
18Muḥammad Manzūr Aḥmad FaiÃī, Maqām e Rasūl (Lahore: Diyā’ al-Qur’ān Publications, 2013 A.D), 255,256.
19 Al-Khasā’is al-Kubrā (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, S.N), 2:459.
20 āl e Imrān 3:19.
21 Al-ḥashr 59:7.
22 Al-Nisā’ 4:65.
23 āl e Imrān 3:31.
24 Al-Tawbah 9:62.
25 Al-Najm 53:3, 4.
26 Al-Aḥzāb 33:57.
27 Al-Anfāl 8:13.
28 Al-Mujādilah 58:20.
29 Dr. Tāhir al-Qādrī, Muqadmah Sīrat al-Rasūl, 1:123.
30 Imām Mālik bin Anas, Al-Mu’attā (Karachi: Nūr Muḥammad Kutub Khānah, S.N), 702.
31Yūsuf bin Ismā’īl Nabhānī, Al-Sharf al-Mu’abd Li āl e Muḥammad (Egypt: Mustafā al-Bābī Al-ḥalbī, S.N), 362.
32 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf Zafar, Atrāf e Sīrat, 83.
33 Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Tārīkh al-Khafā’ (Beirūt: Dār al-Minhāj, 1434 A.H), 153.
34 Suyūtī, Tārīkh al-Khafā’, 85
35 Suyūtī, Tārīkh al-Khafā’, 86.
36 Muslim bin ḥajjāj Al-Qusheirī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ (Saudi ‘Arab: Maktabah Dār al-Salām, 1429 A.H), 976. Hadīth No. 4397.
37 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf Zafar, Atrāf e Sīrat, 88.
38 Nisā’ī, Al-Sunan, Hadīth No. 2734.
39 Muḥammad bin ‘Isā TirmaÃī, Al-Sunan (RiyāÃ: Maktabah Al-Ma‘ārif, S.N), 345. Hadith No. 1458.
40 Muḥammad Siddīq ḥassan Khān Qanūjī, Al-ḥitah Fī Zikr al-Siḥāḥ al-Sittah, 76.
41 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf Zafar, Atrāf e Sīrat, 91.
42 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf Zafar, Atrāf e Sīrat, 93.
43 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf Zafar, Atrāf e Sīrat, 94.
44 ‘Abd al-Wahāb bin Aḥmad bin ‘Ali Sha‘rānī, Kashf al-Ghummah ‘An Jamī‘ al-Ummah (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 1419 A.H), 2:62,63.
45 Aḥmad bin ‘Abd al-ḥalīm bin ‘Abd al-Salām Ibn e Taimiyah, Al-Sārim al-Mas’ūl ‘Alā Shātam al-Rasūl (Multan: Nashr al-Sunnah, S.N), 41.
46 Muḥammad Manzūr Aḥmad FaiÃī, Maqām e Rasūl, 377.
47Nūr al-Dīn bin Sultān Muḥammad harvī Mullā ‘Alī Qārī, Mirqāt al-Mafātīḥ Sharaḥ Mishkāt al-Masābīḥ (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 1422 A.H), 2:567.
48 Mullā ‘Alī Qārī, Mirqāt al-Mafātīḥ, 2:567.
49 Imām Muḥammd Mahdī, Matāli‘ al-Musar’āt (Lailpur: Maktabah RiÃviyah, S.N), 123.
50Muḥammad Ashraf ‘Alī Thānvī, Al-AfāÃāt al-Yawmiyah Min al-Afādāt al-Qawmiyah (Multan: Idārah Tālīfāt Ashrafiyah, 1429 A.H), 10:75, 2:129,130.
51 Muḥammad Siddīq ḥassan Khān Qanūjī, Al-ḥitah Fī Zikr al-Siḥāḥ al-Sittah, 146.
52157/7 al-araaf
Al-A‘rāf 7:157.
53 Al-Nisā’ 4:22.
54 Al-Aḥzāb 33:56.
55 Muḥammad Manzūr Aḥmad FaiÃī, Maqām e Rasūl, 367.
56Aḥmab bin Muḥammad bin ḥanbal, Al-Musnad (Egypt: Dār al-ḥadīth, 1416. A.H), 15:168. Hadīth No. 20165.
57 Muḥammad Manzūr Aḥmad FaiÃī, Maqām e Rasūl, 359.
58 Muḥammad bin Ismā‘īl Bukhārī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ (Karachi: Nūr Muḥammd Kutub Khanah, 1961 A.D), 2:834.
59 ‘Abd al-Wahāb bin Aḥmad bin ‘Ali Sha‘rānī, Kashf al-Ghummah ‘An Jamī‘ al-Ummah, 2:62.
60 Al-An‘ām 6:59.
61 Usūl al-Shāshī,
62 Al-Nūr 24:2.
63 Al-Mā’idah 5:6.
64 Al-Baqarah 2:43.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |