1
2
2020
1682060063651_3192
77-92
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/18/20
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/18
Key words: Ibn e Tamiya Islamic Jurisprudence Jurisprudential principles Distinctions Ijtihad Mutazilites.
أ ﻷمِیر:جلد 01؍ شمارہ 02 ..( جولائی –دسمبر0 220ء) )59(
شیخ ابن تیمیہ کےاصولی تفردات کا تجزیاتی مطالعہAn Analytical Study of the Ibn-e-Teymiyah’s Usooli Distinctions
Muhammad Fazal Haq Turābī
The very existence of theology was a prelude to the competition of philosophy and the support of religion. Other religions, for the sake of legitimacy of their religion, have been raising objections to Islam in all respects. The mixture of nations, non-Arab influences, the negligent rhetoric of scholars and shaykhs, and the erroneous beliefs and practices of the people were tarnishing the clean face of Islam. In the time of Ibn Taymiyyah, there was an emphasis on theology. Theologians specialize in their knowledge and art of rationalism and logic. Their method consisted of reasoning and inference, rational and logical proofs. In contrast to them, the Hanbalis were holding the line of reasoning from the apparent meaning of verses and hadiths and texts. In the case of debates and debates, the weight of the theologians would be heavy and the opponent would be considered ignorant. Ibn Taymiyyah paid homage to the authenticity and supremacy of the Qur'an and Sunnah in such a way that he made critical commentary and analysis on philosophy and Greek logic and reasoned weaknesses and errors. One-half or two-thirds of his total writing services on the subject of speech and logic. This shows that Ibn Taymiyyah was feeling the need of defending Islam in this regard because in his time these sciences and arts had become very popular and common practice. The far-reaching effects of his thoughts and opinions in this regard have been felt in every age. The issues in which he has differed are the result of his research, jurisprudence and ijtihad, and constant reflection. The basis and foundation of which is the Quran and Sunnah, the interaction of companions and speculation. In these Ijtihad issues of hiss, there is a collection of arguments and proofs related to the Quran and Sunnah. In this article, an introductory and analytical study of Ibn Taymiyyah's fundamental differences will be presented.
Key words: Ibn e Tamiya, Islamic Jurisprudence, Jurisprudential principles, Distinctions, Ijtihad, Mutazilites.
تعارف:
ابن تیمیہؒ اتوار 10ربیع الاول 661ھ میں اس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے ۔ احمد تقی الدین آپ کا نام نامی اسم گرامی رکھا گیا۔ ابوالعباس کی کنیت آپ نے از خود اختیار کی ہے ۔علمی دنیا میں آپ کا خاندانی نام اور لقب ابن تیمیہ غالب اور مشہور ومعروف رہا ہے ۔
ابن تیمیہؒ نے اس زمانے کے من جملہ علوم و فنون کی تحصیل اور تکمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی علم لغت و نحو میں کامل دسترس حاصل کی۔ امام نحو سیبویہ کی کتاب "الکتاب" کا آپ نے بڑے ناقدانہ انداز میں مطالعہ کیا تو اس کے ضعیف مقامات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ آپ نے سیبویہ کی اغلاط پر ایک تحقیقی انداز میں گرفت کی ،جو آپ کے غور و فکر سے مطالعہ کا نتیجہ ہے۔
نظم و نثر میں ایک قابل ذکر اور قابل اعتبار حصے کو آپ نے اپنے قلب و ذہن میں محفوظ و مامون کیا۔جاہلی عرب اور اس سے پہلے عرب کے لوگوں کے حالات وواقعات کا بنظر عمیق مطالعہ کیا ۔تاریخ اسلام اور اسلامی سلطنتوں کے مطالعہ نے آپ کے لئیے نئی جہتوں کا تعین کیا ۔فن کتابت خوشنویسی ، حساب و ریاضی کو اپنے وقت کے جید اساتذہ سے حاصل کیا۔
فقہ و اصول فقہ ، فرائض ا ور حدیث و تفسیر کی طرف کامل توجہ سے حظ وافر لیا ۔فقہ حنبلی تو انکے گھر کا ذاتی خزانہ تھا ۔ امام حمیدی کی کتاب کو آپ نے دستور کے مطابق حفظ و سماع اور کتابت کیا ، مسند امام احمد اور صحاح ستہ کی سماعت بارہا کی تھی ۔شیوخ حدیث میں ابن عبد الدائم المقدسی جیسے لوگ شامل ہیں ، بایں ہمہ ابن تیمیہ ؒ نے جن محدثین سے حدیث کا تلمذ حاصل کیا ہے انکی تعداد دوسو(200)سے زیادہ تھی ۔
تفسیر، ابن تیمیہ کے لئے محبوب ، مرغوب اورمطلوب موضوع تھا ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے تفسیر قرآن کے لئے ایک سو سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ بڑے غور و خوض کے ساتھ کیا تھا۔1تلاوت ، تدبر وتعمیق اور کثرت مطالعہ کی وجہ سے علوم قرآنی کا اللہ جل جلالہ کی طرف سے آپ پر ایک خاص فیضان تھا ۔کثرت مطالعہ کے ساتھ ساتھ صاحب قرآن کے ساتھ رجوع کرکے فہم معانی و مطالب کے لئے شرح صدر کی دولت کے متقاضی ہوجاتے تھے۔ غیر آباد مساجد اور مقامات پر جا کر نہایت گریہ و زاری سے تفہیم قرآن کی دعاؤں سے اشک بار رہتے ۔بعض اوقات تو آپ نے ایک آیت کے معانی و مقصود تک رسائی کیلئے سو تفاسیر کا مطالعہ کیا ۔ پھر دعا کرتے تھے کہ اس آیت کی تفسیر کا فہم عنایت ہو۔ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں۔
"ربما طالعت علی الآیۃ الواحدۃ نحو مائۃ تفسیرثم اسئال اللہ الفھم۔۔۔وکنت اذھب الی المساجد المہجورۃ"2
ابن تیمیہ کے زمانے میں علم کلام کا زور اور دور تھا ، متکلمین فلسفہ ، عقلیات اور منطقیات سے اپنے علم و فن میں مہارت رکھتے تھے ۔ان کا طریق استدلال اور استنباط عقلی اور منطقی براہین پر مشتمل تھا ۔ جبکہ ان کے مد مقابل میں حنابلہ آیات واحادیث اور نصوص کے ظاہری مفہوم سے طرز استدلال کا دامن تھامے ہوئے تھے۔ بحث و مناظرہ کی صورت میں متکلمین کا پلڑا بھاری نظر آتا اور مد مقابل کو عقلیا ت سے بےخبر گردانا جاتا تھا۔ ابن تیمیہ نے کتاب و سنت کی ترجمانی ، صداقت اور تفوق کا حق یوں ادا کیا کہ فلسفہ اور یونانی منطق پر ناقدانہ تبصرہ اور تجزیہ اور ضعف و اغلاط کا مدلل بیان کیا۔جس کے جواب کا کسی کو کوئی چارا اور یارا نہ ہوا۔
الغرض ابن تیمیہؒ من جملہ علوم وفنون میں کامل مہارت کے صاحب اور مالک تھے۔ ہر علم میں خداداد صلاحیت اور قابلیت کی بناپر امامت کے درجہ پر فائز نظر آتے ہیں ۔بسا اوقات آدمی ہر فن مولا نہیں ہوتا ہے ۔ مگر اللہ جل جلا لہ نے ابن تیمیہ کو تقریبا ہر علم میں وہ قابلیت اور صلاحیت سے نوازا تھا ،جس سےآپکے معاصرین تہی دامن نظر آتے ہیں۔ ابن تیمیہ کےلئے علوم و فنون ایسے نرم و نازک کردئیے گئے تھے ۔جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کےلئے لوہا نرم کر دیا گیا تھا۔آپکی علمی جامعیت اور ہمہ دانی کا ثبوت و اعتراف آپکے حریف لبیب سے ملتا ہے ۔کمال الدین الزملکانی معترف حقیقت ہیں۔
"قد الان اللہ لہ العلوم کما الان لداؤد الحدید کان اذانسئل عن فن من العلم ، ظن الراٰ ی والسامع انہ لا یعرف غیر ذالک الفن وحکم ان احدا لا یعرفہ مثلہ"3
علم و عمل اور ہمت و استقلال کا یہ کوہ گراں 22ذوالقعدۃ 728ھ کی شب کو 67سال کی عمر میں اس دار فانی سےدار باقی کی طرف کوچ کر گیا۔
عقائد اور کلام و منطق :
علم کلام کا وجود مسعود ہی فلسفہ کے مقابلے اور مذہب کی تائید و حمایت کا پیش خیمہ بنا تھا ۔اندریں حالات ساتویں صدی کا زمانہ تو ایسا پر آشوب زمانہ تھا جس میں اندرونی اور بیرونی حملوں کا تانتا سابقہ ادوار کی بنسبت پورے عروج پر تھا۔ دوسرے مذاہب اپنے مذہب کی حقانیت کےلئے اسلام پر ہر حوالے سے اعتراضات کی بو چھاڑ کر رہے تھے اور شکوک وشبہات کی ایک ایسی فضا کو جنم دے رہے تھے جسکی باد سموم سادہ ذہن کےلئے مہلک ثابت ہو سکتی تھی۔ اختلاط اقوام عالم ، عجمی اثرات ، علماء اور مشائخ کی غفلت شعاریاں اور عوام کے فاسد عقائد واعمال اسلام کے صاف ستھرے چہرے کو غبار آلود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رہے تھے یہی وجہ ہے کہ بندہ مومن اپنی ایمانی خصوصیات اور امتیازات سے یکسر تہی دامن ہوتا جارہاتھا۔
کلام اور منطق کے موضوعات پر آپکی تحریر ی خدمت آپکی من جملہ تحریری خدمات کا نصف یا دو ثلث ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ کو اس حوالے سے دفاع اسلام کی حاجت و ضرورت زیادہ محسوس ہو رہی تھی کیونکہ آپ کے دور میں ان علوم و فنون کا بہت ہی زیادہ شہرہ اور عام چال چلن ہو گیا تھا ۔عقلیت نے سب کو اپنے سحر میں جکڑا ہو اتھا ۔بطور نمونہ مندرجہ ذیل رسائل و کتب ذہانت و فطانت کا مظہر ہیں ۔
1۔ عقیدۃ الحمویۃ الکبریٰ۔ 2۔جواب الاعتراضات الحصریۃ علی الفتیا الحمویۃ۔ 3۔الحمویۃ الصغریٰ۔4۔ موافقہ صحیح المنقول لصریح المعقول او تعارض العقل والنقل۔ 5۔الجواب عما اوردہ کمال الدین الشریشی علی کتاب درء تعارض العقل والنقل۔ 6۔الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ 7۔ کتاب فی محنتہ بمصر۔ 8۔مذھب السلف القویم فی تحقیق مسئلۃ کلا م اللہ الکریم۔ 9۔الکیلانیۃ۔ 10۔ البغدادیۃ۔11۔القادریۃ۔12۔ المصریۃ۔13۔ الازھریۃ۔14۔ البعلبکیۃ۔15۔ جواب مسئلۃ القرآن ہل ہو حرف وصوت ام لا۔عقائد و کلام سے متعلقہ کتب و رسائل کی تعداد 126 ہے ۔1۔ کتاب فی الرد علی المنطق۔2۔ الرد علی الفلاسفۃ ۔3۔قاعدۃ فی الکلیات ۔4۔ نقض المنطق۔5۔ کتاب فی توحید الفلاسفۃ علی نظم ابی سینا ۔ فلسفہ و منطق کے متعلق جرح و نقد میں کتب و رسائل کی تعداد 17 ہے۔
اصولی تفردات:
امام ابن تیمیہؒ کے تفردات کو بنیادی طور پر دوقسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔(1)اصولی تفردات۔(2) فروعی تفردات۔امام ابن تیمیہؒ کے تفردات کی بنیادی تقسیم کے بعد ابن تیمیہ اپنے تفردات میں دوحوالوں سے منفرد ہوجاتے ہیں۔۔(1)تفردات اور اجماع امت، آئمہ اربعہ یاجمہور۔ (2)تفردات اور مذہب حنابلہ۔
امام ابن تیمیہؒ کے تفردات ان کے لئے باعث وحشت اور نکارت نہ ہیں۔جن کی نظر فقہ و اصول فقہ اور آئمہ مجتہدین کے اقوال اور مسائل پر گہری ہے۔ ان کے لئے تو یہ تفردات فکری زاویوں کے نئے دریچے کھول دیتے ہیں۔ اور ان کےلئے تحقیق مزید کے لئے باعث طمانیت اور موانست ہیں۔امام ابن تیمیہ ؒ درس و تدریس اور علمی معاملا ت میں ہمہ تن جوش و خروش سے مصروف عمل تھے کہ شام کے باشندوں نے استوی العرش اور اللہ جل جلالہ کی صفات کے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے کئی صفحات پر مشتمل قرآن و سنت کی روشنی میں جواب سپرد قلم کیا اور لکھا کہ استویٰ معلوم ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے کیفیت مجہول ہے اور اس کے بارے سوال بدعت ہے اور صفات کے بارے میں فرمایا کہ اللہ جل جلالہ کی ذات کی صفات پر ایمان لانا ازحد ضروری اور واجب ہے اور ان صفات کی حقیقت وہی ہے جو اللہ جل جلا لہ کی شان کے لائق اور فائق ہے۔ جس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا ہے کہ اس سے تشبیہیت ، تجسیمیت ، نفیت اور تعطلیت لازم آتی ہے۔اللہ جل جلا لہ کی ذات اپنی صفات کاملہ کے ساتھ ساتھ تشبیہ ، تجسیم ،نفی اور تعطیل سے منزہ ومبراء اور پاک ہے۔ اس معاملہ میں امام ابن تیمیہؒ صفا ت کا صفات مخلوق سے قیاس ہے نہ غلو و افراط کی صورت میں انکار ہے نہ ہی وہ حقیقت سے دور تاویل کرکے مجاز اور کنایہ ثابت کر نے کے درپے ہیں ۔ اس معاملہ میں شیخ ابن تیمیہؒ دور دراز اور دور از کار تاویلات کے درپے نہیں ہوتے ہیں اور ظاہرپر ہی رہتے ہیں ۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ صفات میں تاویل کے قائل نہیں ہیں ۔مگر جنت کی نعمتوں یعنی نعمت و نعیم کے بارے میں تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ کے اصولی تفردات میں سے یہ مسئلہ مذکورہ پہلی مخالفت کا سبب بنا ہے اور اسی طرح تشبیہ ،نفی ، تجسیم اور تعطیل کے عقائد آپ کی طرف منسوب کر دئیے گئے اور یہ مشہور ومعروف کردیاگیا کہ آپ صفات باری تعالیٰ کو مخلوق کی صفات کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے حدیث نزول بیان کی اور حدیث نزول کی افہام و تفہیم کےلئیے آپ اپنے منبر کے درجہ سے اترے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا نزول بھی میرے نزول کی طرح ہے جس سے بہت شورش ہوئی ۔ حالانکہ تاریخی حوالے سے اس بات کا تجزیہ کیا جائے تو ابن بطوطہ کا اشتباہ ہے ۔کیونکہ ابن بطوطہ 726ھ میں دمشق آیا ۔جس وقت امام ابن تیمیہ شعبان 726 ھ میں قید وبند کی صعوبت میں تھے ۔اور یہ بات مسلم ہے سیاسی تغیرات اور معاصرت کی چشمک نے بہت ساری غلط فہمیوں اور مغالطات کو جنم دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہے ۔ابن تیمیہ کے اصولی تفردات ہر موضوع پر کثیر پائے جاتے ہیں ۔ان اصولی تفردات کے بارے میں امام ابن تیمیہ کے اپنے تحفظات اور تائیدات بھی ہیں مگر ایک خاص طبقہ کی جانب سے ان تفردات کی مخالفت بھی پورے زور و شور سے کی گئی ہے ۔ابن تیمیہ کے اصولی تفردات میں سے مندرجہ ذیل مسائل گردانے گئے ہیں ۔
1۔حسن و قبح کا مسئلہ اس مسئلہ میں وہ بظاہر اعتزال پسند نظر آتے ہیں۔2۔ذات وصفات میں آپ کا کلام تاویل سے بہت دور ہے ۔3۔اللہ تعالیٰ محل حوادث ہے ۔4۔مرکب ذات ہے ۔5۔قرآن فی ذاتہ حادث ہے۔6۔عالم قدیم بالنوع ہے ۔7۔جسمیت جہت اور انتقال مکانی کا قائل ہونا ۔8۔عدم معصومیت۔9۔سفر زیارت قبررسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔10۔توسل۔
ذات و صفات :
1۔ محل الحوادث
حدث اس چیز کا نام ہے ،جس کا وجود پہلے نہ ہو اور ایجاد کے بعد وہ اپنے وجود میں آجائے۔ اسی طرح جو شے متغیر ہو یعنی زمان و مکان کے اعتبار سے تغیر و تبدل قبول کرتی ہو وہ حادث ہوتی ہے۔ جیسے مناطقہ کہتے ہیں ۔"العالم متغیر"۔(عالم تغیر پذیر ہے )"کل متغیرحادث" (ہرمتغیر حادث ہے ) "فالعالم حادث"تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ( عالم حادث ہے) محل الحوادث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات حادث ہیں اور اس طرح ان سے عدم سے وجود اور تغیرات کا محل بتایا گیا ہے ۔
2۔مرکب تفتقر افتقار الکل للجز
اس کا معنیٰ ومفہوم یہ ہے کہ وہ ذات اجزاء سے مرکب ہے۔ اور یہ بدیہی بات ہے کہ کل جو ہوتا ہے وہ اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ذات اپنی ترکیب میں دوسرے اجزاء کی محتاج ہے اور خود یہ ترکیب ہی اپنے وجود کیلئے ایک امر آخر کی احتیاج میں سمجھی جائے گی۔ یعنی اس ذات کو ہاتھ ، آنکھ ، چہرہ اور پنڈلی وغیرہ کی احتیاج ہے جیسے کل کو جزء کی طرف احتیا ج ہو تی ہے۔
3۔" ان العالم قدیم بالنوع ولم یزل مع اللہ مخلوقا دائما فجعلہ موجبا بالذات لا فاعلا باالاختیار "4
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اپنی نوعیت کے اعتبار سے قدیم ہے اور اس عالم کا یہ قدم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس قدیم ذات کے ساتھ قدم کی حالت میں رہا ہے۔ عالم ذات کے لئے موجب ہے نہ کہ اس معاملہ میں ذات فاعل اختیار ہے۔ ذات کے ساتھ ساتھ عالم کو قدیم کہنے کا قول کیا گیا ہے ۔بالفاظ دیگر مخلوق ہو کر خدا کے ساتھ اس کا تعلق دائمی ہے اور اس کو موجب بالذات جانا ہے فاعل باالاختیار نہیں۔5
4۔ "ھو قابل بالجسمیۃ والجھۃ والانتقال وانہ بقدر العرش لااصغرولا اکبر "۔6
ابن تیمیہ کی طرف یہ تفرد بھی منسوب ہے کہ آپ ذات باری تعالیٰ کے لئے جسمیت ، جہت اور انتقال کے قائل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کی وسعت اور مقدار کے برابر ہے۔ و ہ ذات زیادہ نہ بڑی اور نہ زیادہ چھوٹی ہے۔ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ آپ کو عرش پر محیط جانا گیا ہے۔ جس سے جسمیت ، محاذات اور استقرار لازم آتا ہے ،جس سے وہ ذات پاک منزہ و مبراہے۔
5۔" ان علم اللہ لایتعلق بما لایتناھی کنعیم اھل الجنۃ وانہ لایحیط بغیر المتناھی"۔
اللہ جل جلا لہ کا علم غیر متناہی امور سے تعلق نہیں رکھتا ہے ۔جیسے اہل جنت مختلف النوع نعمتوں سے نوازاےجائیں گے،تو اللہ کا علم ان نعمتوں کی انتہاء اور غایت تک محیط نہیں ہے ۔جس کا مطلب واضح ہے کہ اللہ جل جلا لہ کا علم غیر متناہی کو محیط نہیں ہے ۔ عام لوگوں کا عقیدہ اور مذہب ہے کہ اللہ جل جلا لہ کا علم غیر متناہی کو بھی محیط ہے جس کی انتہاء اور غایت نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں ابن الجوینی کے قدم بھی ان کی اپنی کتا ب برہان میں ڈگمگا گئے ہیں۔7
کلا م اللہ :
1۔ "ان القرآن محدث فی ذات اللہ" ۔
اللہ جل جلا لہ کی ذات کے ساتھ صفات بھی قدیم یعنی ازلی ابدی ہیں ۔اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ جل جلا لہ نےیہ قرآن پاک جو حضرت محؐمد ﷺ پر نازل فرمایا ہے اور اللہ جل جلا لہ کی صفت ہے یہ کلا می صفت اللہ تعالیٰ کی ذات میں محد ث ہے۔ یعنی صفت کلا م اللہ اللہ جل جلا لہ کی ذات کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے متصف نہیں رہی ہے بلکہ اللہ کی ذات سے جدا ہے اور بعد میں وجود بخشا گیا ہے ۔
2۔" ان التوراۃ والانجیل لم تبدل الفاظھما وانما بدلت معانیھا "8
اللہ جل جلا لہ نے انسانیت کی رشدو ہدایت کیلئے چار آسمانی کتابیں تورات ، انجیل ، زبور اور قرآن پاک نازل فرمائی ہیں۔ تورات اور انجیل کے بارے میں عام مؤقف یہی ہے کہ ان کے الفاظ میں تغیر و تبدل کردیا گیا ہے اور الفاظ کو ہرگز جوں کا توں نہیں رہنے دیا گیا ۔جیسا کہ وہ منزل من اللہ تھیں۔ الفاظ کے تغیر و تبدل کے ساتھ معانی کا کچھ کا کچھ ہو جانا تو ایک اور ناگزیر امرہو جاتا ہے، تا ہم ابن تیمیہ کی طرف یہ اصولی تفرد بھی منسوب ہے کہ آپ کے نزدیک تورات اور انجیل کے الفاظ میں ان کے پیروکاروں نے کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا ہے۔ بلکہ اہل کتاب نے تورات و انجیل کے معانی میں اپنی ابلیسی کاوشوں سے تغیر و تبدل کردیا ہے۔ ان کے الفاظ وہی منز ل من اللہ ہیں۔جن میں کسی قسم کوئی تبدیلی روا نہیں رکھی گئی ہے۔ تورات و انجیل کے الفاظ میں تبدیلی اور تحریف نہیں ہے یہ تو اسی صورت میں موجود ہیں۔ تحریف ان کتابوں کی تاویل میں ہوئی ہے۔
انبیاء علیہم السلام :
1۔ "ان الانبیاء غیر معصومین"
حضرت آدم علیھم السلام سے حضرت محمد ﷺ تک کیلئے یہ اصولی تفرد منسوب ہےکہ انبیاء علیھم السلام کی زوات قدسیہ عصمت کی شان سے عاری ہیں اور یہ ذوات قدسیہ معصوم نہیں ہیں ۔جس سے یہ ثابت ہو گا کہ ان کی طرف (معاذ اللہ ) گناہ اور خطاء کے ارتکاب کی نسبت ممکن ہے اور وہ ذوات قدسیہ خطاء کی مرتکب ہوئی ہیں۔
2۔" ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا جاہ لہ ولا یتوسل بہ "
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو اللہ جل جلا لہ کے ہاں کوئی جاہ و مرتبہ کا مقام خاص حاصل نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے توسل بھی نہیں کیا جانا چاہیے ۔
3۔" ان انشاء السفر الیہ بسبب الزیارۃ معصیۃ" ۔9
ابن تیمیہ کی طرف یہ تفرد بھی منسوب ہے کہ ان کے نزدیک رسول کریم ﷺ کی قبر مبارک کی نیت سے سفر کرنا معصیت کا کام ہے۔ یعنی یہ سفر سفرِ معصیت ہے ۔ اس لئے اس سفر میں نماز قصر نہیں ادا کی جائیگی بلکہ پوری نماز پڑھی جائے گی۔ سفر معصیت میں قصر نماز کا جواز نہیں ہے۔
جنت و دوزخ :
1۔ "ان النار تفنی "10
ابن تیمیہ کے متعلق آپ کے اصولی تفردات میں سے یہ تفرد بھی منسوب کیا گیا ہے کہ آپ کے نزدیک جہنم کو فنا ہے ۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب جہنم فنا ہوجا ئے گی اور باقی نہیں رہے گی ۔ جبکہ آپ جنت کے باقی ہونے کے قائل ثابت ہوتے ہیں۔
2۔ "وان عذاب اھل النار ینقطع ولا یتابد"11
ابن تیمیہ کی طرف منسوب اس تفرد کا مفہوم یہ ہے کہ دوزخیوں کیلئے عذاب منقطع ہوجائے گا ۔یعنی وہ دوزخی لوگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوزخ کے عذاب میں مبتلانہیں رہیں گے۔ جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ایسا وقت بھی آئیگا کہ جب وہ شاد کام ہو جائیں گے یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا کردیئے جائیں گے ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ دوزخ فنا و برباد ہو جائے گی۔
مسئلۃ الحسن والقبح التی یقول بھا المعتزلۃ :
اشاعرہ کے عقائد اگرچہ عقلی دلائل کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہیں۔ لیکن اس بات کے اعتراف میں کوئی مفر ، مقر نہیں ہے کہ اکابر سلف صالحین کے یہی عقائد تھے، جو اشاعرہ کے تھے۔ ابن تیمیہؒ نے اس غلطی کا اظہار کیا ہے کہ قرون اولیٰ میں لوگ حسن و قبح عقلی کے قائل نہیں تھے۔ شرعی مسائل اور احکام کی مصالح کو عقل پر مبنی ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔سب سے پہلے اس کا انکار ابو الحسن اشعری نے کیا ہے۔ وہی اس خیال کے موجد ہیں ۔ حسن و قبح عقلی کا انکار بدعتوں میں سے ایک بدعت ہے۔ جو ابو الحسن اشعری کے دور میں پیدا ہوئی۔ جبکہ انہوں نے معتزلہ سے قدر کے بارے میں مناظرہ کیا تھا ۔
ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں۔
" بل ھٰؤلاء ذکروا ان نفی ذالک ھو من البدع التی حدثت فی الاسلام فی زمن ابی الحسن الاشعری لما ناظر المعتزلۃ فی القدر "۔12
ابن تیمیہ حسن و قبح کے مسئلہ میں معتزلہ کے ساتھ متفق ہیں۔ اس حمایت میں آپ نے تحریر کی اور اس مسئلہ کو اللہ کا دین قرار دیا اور ہر اس بات کو لازم قرار دیا ہے جو اس پر مبنی ہے۔ جیسا کہ اعمال میں موازنہ کرنا ہوتا ہے۔ ابن تیمیہ نے اس مسئلہ میں عقل کو حکم جانا ہے۔
محمد زاھد کوثری لکھتے ہیں۔
" فقال بھا ونصرہا وصنف فیھا وجعلھا دین اللہ بل الزم کل ما یبنی کالموازنۃ فی الاعمال۔۔۔ ولم یحکم عقل نفسہ"۔13
اصولی تفردات کا تجزیاتی مطالعہ :ابن تیمیہؒ کا ذات و صفات کے متعلق جو مذہب ہے۔ اس بارے میں ان کی واضح تصریحات موجود ہیں کہ قرآن وحدیث میں آنے والی تمام صفات کو ثابت کرتے ہیں اور ان پر ایمان اس طریق سے رکھتے ہیں جس طرح قرآن وحدیث میں ان کا ذکر آیاہے۔یہی سلف صالحین کا مسلک اورمذہب ہے۔ جس پر ابن تیمیہؒ چلتے ہوئے سر مو انحراف کرنے کو زیغ سےتعبیر کرنے میں ہرگز نہیں چوکتے ہیں اور یہ بات حق ہے کہ سلف صالحین اپنے مذہب میں انہی خطوط پر گامزن تھے۔ جس پر قرآن وسنت کی واضح تصریحات موجود تھیں۔
حق بات یہ ہے کہ اس عقیدہ اور نظریہ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تنزیہ کے مخالف ہو یا توحید کی مخالف یا ایسی ہو کہ خالق اور مخلوق کی درمیان مشا بہت پیدا کرتی ہو۔یہ بات سابق گزر چکی ہے کہ اتحاد اسم مشابہت کو قطعا متلزم نہیں ہے۔ ابن تیمیہؒ کے نزدیک حی کی صفت خالق اور مخلوق کے درمیان مشترک ہے۔ لیکن یہ اشتراک اسمی اور لفظی ہے۔جس میں تخصیصیت پائی جاتی ہے۔ان میں سے تخصیصیت کو نکال دیا جائے اور مطلقا ً استعمال کیا جائے تو ضرور دونوں ایک ہیں۔لیکن مطلق کا وجود خارج میں نہیں ہوتاہے۔جبکہ عقل کا یہ حال ہے کہ وہ لفظ مطلق سے ہر دو وجود کے قدر مشترک کو سمجھ لیتی ہے اور معین و خاص استعمال کی صورت میں اس کو ایسی قید سے مقید کر لیتی ہے۔جس کی وجہ خالقیت اور مخلوقیت میں خود بخود امتیاز اور فرق واضح ہو جاتاہے اور یہی حال دوسری صفات کا ہے۔[1]
اللہ جل جلا لہ نے خود اور رسول کریم ﷺ نے جن اوصاف سے موصوف ہونے کا ذکر کیا ہے۔ابن تیمیہؒ ان سب کو ان کے موصوف مانتے ہیں۔تشابہ اور مشابہت صرف ظاہر میں ہے ورنہ ان کے درمیان بے حد مغا یرت پائی جاتی ہے۔ابن تیمیہؒ دوسرے متکلمین کے برعکس تمام صفات کے قیام کے قائل ہیں۔ یعنی کلام اور ارادہ جیسے اللہ جل جلا لہ کے ساتھ قائم ہیں ویسے ہی محبت ،رضا ء، استواء اور ید وغیرہ بھی اس کے ساتھ قائم ہیں۔جس کی کیفیت نا معلوم ہے اور ان پر ایمان ضروری ہے۔جو متکلمین اجزاء وابعاص کے قبیلہ سے صفات کے قیام اور اثبات کے منکر تھے۔ ان کے جواب میں آپ فرماتے ہیں۔آپ کے اعراض کا قیام بھی مخلوق کی ذوات اور اجسام ہی کے ساتھ ہوتاہے۔تجسیم پھر بھی لازم آتی ہے یہی بات ترکیب میں ہے۔ترکیب حسی کے ساتھ تمہارے انداز میں ترکیب عقلی لازم آئے گی۔جسمیت وترکیب کے بغیر جو تمہارا اثبات اور اندا زاستدلال ہو گا بالکل اسی انداز سے ید جیسی صفات کا بھی خود بخود اثبات ہوجائے گا۔جس ترکیب وتجسیم کا وہم نہ پڑے گا۔
اس صورتحال میں یہ نقض وارد کیا جا سکتاہے کہ جب صفات کا اثبات مان لیا جائے ،کیا یہ مسلک اس مسلک کے موافق اور مطابق نہیں ہوجائے گا جو تشبیہ اور تجسیم کی نفی نہیں کرتے ہیں۔بلکہ ان کا اثبات کرتےہیں۔جنکو تاریخ نے حشویہ ، مشبہہ اور مجسمہ کے نام سےاپنےصفحات میں محفوظ رکھاہے۔اس بابت یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کی طرف سے واضح ہے کہ آپ نے اپنے مسلک کو متوسط مسلک قرار دیا ہے۔جو صفات کی نفی کرنے والوں اور تجسیم کا عقیدہ رکھنے والوں کے درمیان ہے۔آپ کہتے ہیں کہ سلف صالحین کا مذہب تعطیل اور تمثیل کے درمیان ہے۔
ابن تیمیہؒ اگرچہ سلف صالحین کے مذہب کو پسند کرتے ہیں اور اسی مذہب کے مبلغ و متبع ہیں اور تجسیم کے الزام کی نفی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے لیے فوقیت ثابت کرتے ہیں اور آپ کے نزدیک ثابت ہے کہ اللہ جل جلا لہ اوپر ہے جس کی دلیل وہ ظاہر نص سے دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں سات مرتبہ آیاہے
"ثم استویٰ علی العرش "۔2
علاوہ ازیں صحیح اور حسن احادیث میں بکثرت آیاہے۔جن میں اوپر جانے اور آنے کابکثرت ذکر موجود ہے۔اس عقیدہ کی بابت بڑے بڑے نقاد تنگی داماں کا شکوہ کر بیٹھے کہ ہماری عقل عرش پر مستوی ماننے ، جسمیت سے تننریہ مطلق اور حوادث سے عدم مشابہت کے درمیان تطبیق دینے سے قاصر اور خاسر ہے۔محمد ابو زھرہ لکھتے ہیں۔
"ولا نتسع عقولنا لادراک الجمع"3
ابن تیمیہؒ اس بات کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس بات کے فاسد ہونے کے لیے کیا یہ کم ہے کہ اب تک کوئی معیاری عقل دستیاب نہیں ہوسکی ہے۔جس کی بنیاد پر کسی امر کو محال عقلی قرار دیا جا سکے۔عقل کا ہی کمال ہے کہ ایک شے جواز کے درجہ سے واجب اور وجوب کے درجہ سے عقلا محال قرار پائی ہے۔
ان تمام ابحاث کے با وجود جو بات واضح ہو جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ ید ،نزول قدم ، وجہ ، اور استواء کو ظاہری معانی پر محمول مانتے ہیں۔لیکن اس ظاہر میں وہ بھی ذرا تاویل کے قائل ہوتے نظرآرہے ہیں کہ ظاہری معنیٰ سے مراد وہی ظاہری معنیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی شایان شان ہو۔اور اس شان وشوکت کی پابندی عقلی طور پر ضرور متفاوت ہوگی۔کیونکہ ان الفاظ کی تعبیر اور معانی میں جو مراد ہوگی وہ مجاز سے مجاز ہی کی طرف نکلے گی۔
سلف صالحین سے جب احادیث نزول ، رویت اور وضع قدم کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ان احادیث پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ لیکن ان کی کیفیت اور معنیٰ ہم نہیں جانتے ہیں۔اسی طرح استواء کے بارے میں موجود ہے کہ عرش پر خدا کا استواء اس طرح ہے جیسے اس نے چاہا اور جس طرح چاہا اس کی کوئی حد اور صفت نہیں بیان کی جاسکتی ہے۔اسی کو صاف تننریہ اور تفویض ہے۔ اسی میں ظاہر اور غیر ظاہری معانی سے تعرض کیے جانے کا کوئی شائبہ حاصل نہیں ہوتاہے۔علاوہ ازیں کافی سارا مواد فرضی واقعات ،من گھڑت قصوں اور افسانوں کی صورت میں بھی موجود ہے۔ جس میں یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ جن سے صاف یہ ظاہر ہوتاہے کہ آپ تجسیم کے قائل ہیں اور آپ کا فرقہ مجسمہ میں سے ہوناثابت ہوجاتاہے۔مثلا ابن تیمیہؒ جامع اموی دمشق میں خطبہ دے رہے تھے۔ اسی دوران آپ نے منبر کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا اور کہا کہ جس طرح میں نے نزول کیا ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نزول فرماتاہے۔
اور اس انداز میں دوسرے واقعات بیان کیے جاتے ہیں ابن بطوطہ لکھتاہے۔
" قال ان اللہ ینزل الیٰ سماء الدنیاکنزولی ھٰذا ونزل درجۃ من درج المنبر"4
اس مذکورہ روایت کا درایت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو دل لگتی بات یہ ہے کہ روایت مخدوش ہوجاتی ہے۔اس روایت کا چشم دید گواہ اور راوی ابن بطوطہ خود دمشق میں 726ھ میں آیا ہے۔اور یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ ابن تیمیہؒ اس سن میں زنداں کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔اس کے علاوہ ابن تیمیہؒ کبھی جامع اموی کی خطابت پر فائز نہیں رہے تھے۔بلکہ اس زمانہ میں خطابت کے فرائض جلال الدین قزوینی سر انجام دے رہے تھے۔5
ابن تیمیہؒ ذات وصفات کے ان ذی قدر مسائل میں تاویل کے ہرگز قائل نہیں تھے۔تاویلات کا دروازہ سلف صالحین کے کافی عرصہ بعد کھلا ہے۔ جس کی وجہ صرف یہ تھی جب فلسفہ یونان اور مناطقہ کی طرف سے اعتراضات کی بو چھاڑ ہونے لگی تو اسلامی متکلمین نے بجائے قرآن وسنت کے مسلمہ عقائد کو قرآن وسنت سے سمجھنے کی بجائےجوابات تاویلات اور ان خود ساختہ اصول وضوابط کے ذریعے سے دینے لگ گئے جو خود فلاسفہ اور مناطقہ کے ایجاد بندہ تھے۔
مسئلہ خلق قرآن
خلق قرآن کا مسئلہ ، صفات الٰہیہ اور وحدانیت کے ساتھ بہت گہرا اور قریبی تعلق رکھتاہے۔ سب سے پہلے یہ مسئلہ امویوں کے دور میں پیدا ہوا جس نے اسلامی فضا کو غبار آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔اس نظریہ اور عقیدہ کو معتزلہ نے اپنایا اور خلیفہ مامون الرشید نے تقلید کی اور ایک وقت آیا اس کی طرف دعوت عام دینے لگ گیا۔قرآن مخلوق ہے اس قول کی بنیاد پر صفت کلام اور من جملہ صفات ومعانی کی نفی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ ؒ صفات کی نفی کرنے والوں تمام لوگوں کو جہمیہ کہتے ہیں ،کیونکہ ان کے نزدیک جو بھی صفات کی نفی کرتا ہے وہ جہم بن صفوان کی تقلید کرتاہے۔
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ استقامت کی راہ پر چلے وہ امام احمد بن حنبل ہیں اورجورو ستم اورآزمائش کا نشانہ بنے۔کیونکہ آپ نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔ آپ کا یہ قول سلف صالحین کی مطابقت پر مبنی تھا۔کیونکہ من جملہ سلف صالحین اسی بات کے قائل اور عامل تھے کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔اللہ تعالیٰ کی صفات کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کی بابت اہل حدیث کا مسلک یہ ہے کہ وہ مخلوق نہیں ہیں ،یعنی غیر فانی ہیں جبکہ معتزلہ اور جہمیہ کے نزدیک وہ مخلوق اور فانی ہیں۔ابن تیمیہ ،امام احمد بن حنبل کے متبع اور ان کی حمایت میں کمر بستہ ہیں۔ان کا بھی یہ مسلک ہے کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔اس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو زبان پر ہے اور بذریعہ وحی نازل ہواہے۔مگر تلاوت قرآن کے وقت اورقراءت کے وقت قاری کی جو آواز سنی جاتی ہے۔ یہ غیر قرآن ہے اور نطق بندہ ہے۔لیکن قرآن وہ اللہ کا کلام ہے۔قراءت تلاوت روشنائی سے مشابہت رکھتےہیں۔ جس سے قرآن لکھا جاتاہے ظاہر ہے یہ تو کلام اللہ نہیں ہے۔یہ فرق اللہ جل جلا لہ کے اس ارشاد سے واضح ہے۔
"قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفدالبحر قبل ان تنفذ کلمات ربی"6
ابن تیمیہؒ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن غیر مخلوق ہے مگر قدیم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معتزلہ کا اعتراض تھا اگریہ قدیم ہے تو تعدد قد ماء لازم آئے گا۔تو آپ نے ان کے اس اعتراض کو رفع دفع کر دیا اور کہا امام احمد بن حنبل بھی قرآن کو غیرمخلوق کہنے سے آگے نہیں بڑھے اور قدیم اور غیر مخلوق ہونے میں کسی قسم کا تلازم نہیں ہے۔ابو محمد زھرہ لکھتےہیں۔ابن تیمیہ اور احمد کی رائے اس معاملہ میں ایک ہے یعنی قرآن غیر مخلوق ہے قدیم نہیں ہے۔
"ومن الحق علینا ان نعرف رای الامام احمد فی ھذہ القضیۃ لانہ رای ابن تیمیہ"7
عصمت انبیاء :
ابن تیمیہ ؒکے نزدیک انبیاء علیھم السلام توبہ میں تاخیر نہ کرتے تھے ، بلکہ توبہ کی طرف مسارعت و مسابقت فرماتےاور نہ ہی گناہ پر اصرار کرتے تھے۔بلکہ وہ لوگ اس سے معصوم ہیں۔اور جس نے اس میں تھوڑی تاخیر کی تو اللہ نے تدبیر وتقدیر کے ذریعے اس کا امتحان لیااور اس کو ابتلا میں لایا۔
"ومن اخر ذلک زمنا قلیلا کفراللہ ذلک بما یبتلیہ بہ کما فعل بذی النون۔"8
نبی کریم ﷺ اس قدر قیام لیل فرماتے تھے کہ آپ ﷺ کے دونوں قدمین شریفین سوج جاتے تھے۔آپ سے جب کہا جاتا کہ آپ ﷺ اتنی مشقت کیوں فرماتے ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دئیے گئےہیں تو آپ ﷺ فرماتے کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟اسی طرح ابن تیمیہؒ کے نزدیک اللہ جل جلا لہ کے فرمان میں "من ذنبک "میں یہ تاویل کرناکہ گذشتہ گناہ سے آدم کا گناہ اور بعد کے گناہ سے آپ ﷺ کی امت کےگناہ مراد ہیں ۔وہ اس تاویل کو باطل جانتے ہیں۔"المتقدم ذنب آدم و المتاخر ذنب امتہ"9
اسی طرح آپ کے ہاں یہ پایا جاتا ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک توبہ سب سے زیادہ محبوب نہ ہوتو اکرم الخلق کا گناہ کے ذریعے امتحان نہ فرماتے ۔اگر چہ یہ بات واضح ہے کہ ابن تیمیہؒ انبیاء علیھم السلام کی عصمت کے عقیدہ کے قائل ہیں۔ مگر وہ بسا اوقات ظاہر آیات اور ظاہر احادیث پر حکم لگانے میں مسارعت کرتے ہیں اور اس کے مالہ اور ماعلیہ کا بالکل خیال اور پرواہ نہیں کرتے ہیں۔اس کی واضح مثال یہ ہے اگلے گناہ سے آدم اور پچھلے گناہ سے آپ ﷺ کی امت کا گناہ مراد ہے۔ ایسی تاویلات کو آپ نے یک جنبش رد کردیا ہے۔ حالانکہ یہ معنیٰ امام شافعی اور مشہور مفسر تابعی حضرت عطا نے ذکر فرما کر کوئی اعتراض وارد نہیں کیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے مفسرین نے بھی یہ معنیٰ کیا اور اعتراض وارد نہیں کیا ہے۔"وللمفسرین الذین ذکروا ھٰذا القول ولم یعترضوا علیہ"۔10
وحدانیت اور عبادت اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنے آپ کو صرف اللہ جل جلا لہ کے سپرد کردیا جائے جو شخص عبادت میں کسی شخص یا چیز کو خدا کے ساتھ شریک کرتا ہے ۔وہ خدا کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتا ہے اور کائنات کا سب سے بڑا جرم اپنے اوپرڈھاتا ہے۔ دعا بھی عبادت کی ایک صورت ہے جو شخص کسی مخلوق سے دعا کرتا ہے۔وہ بدعت اور شرک کی نجاست سے آلودہ ہوجاتا ہے اور وہ ایسی بدعت ہے جس پر اللہ جل جلا لہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔
وحدانیت، الوہیت اور عبادت کے ماتحت توسل اور وسیلہ کے سلسلہ میں ابن تیمیہؒ نے صالحین اور اولیاء کے ذریعے خدا کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے اور فوت شدہ بزرگوں سے استغاثہ اور توسل کرنے سے بڑے زور وشور سے منع کیا ہے۔ جس کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ اللہ جل جلا لہ سے براہ راست دعااور اس کی بارگاہ میں انابت ہی تقرب الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔دوسروں سے دعاکی بجائے براہ راست اللہ جل جلا لہ سے دعا کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس معاملہ میں نہایت شدت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ صحابہ کرام خیار امت کی زندگی میں ان کی دعا سے شفاعت حاصل کیا کرتے تھے۔ لیکن آپ ﷺ کی وفات مبارکہ کے بعد یہ عمل ثابت نہیں ہے۔آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ کے قائل ہیں مگر اس معنیٰ میں وسیلہ کے قائل ہیں کہ آپ ﷺ اوامر و نواہی کی تبلیغ میں اللہ جل جلا لہ اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک واسطہ ہیں ۔
"والرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واسطۃ بین اللہ و خلقہ فی تبلیغ امرہ و نھیہ"۔11
ابن تیمیہؒ زیارت قبور صالحین کے مسئلہ میں مطلقا زیارت قبور کے منکر نہیں ہیں۔ بلکہ قبور کے لئے اہتمام سفر کی بابت اختلاف کرتے ہیں۔انبیاء علیہم السلام کی قبور کو مساجد بنانے اور ان کے پاس جاکر غیر شرعی احوال کی بنا پر آپ منع فرماتے ہیں۔اور تقرب کیلئے سفر کی بابت ابن تیمیہ نے آپ ﷺ کی قبر مبارک کا استثنیٰ نہیں کیا ہے۔جس کی دلیل ابن تیمیہ ؒنے شدرحال والی حدیث کو بنا یا ہے۔اس بابت تو آپ نےتشدد میں بھی تشدد کیا ہے کہ جس نے یہ سفر کیا تو اس نے شرک کیا ۔
حسن و قبح کا مسئلہ :
اللہ جل جلا لہ خالق کائنات ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کچھ اللہ جل جلا لہ کے ارادہ کے سبب ہے۔ وہ ایک اور یکتا ہے ۔جسکی آسمان و زمین پر حکمرانی اور فرمانروائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے افعال مصلحت اور حکمت سے معمور ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ہر کام بالکل درست اور ٹھیک ہو تا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہر کمال سے متصف ہے اور کامل سے صالح کا م کے سوا کچھ صادر نہیں ہو سکتا ہے۔اشیاء میں حسن و قبح پایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ ذاتی ہے یا ذاتی نہیں ہے ۔اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ؒنے تمام اقوال کی پرکھ کے بعد تقدیرات ثلاثہ قائم کی ہیں ۔
1۔ تقدیر اول :اللہ جل جلا لہ نے مخلوقات کو پیدا کیا ۔مامورات کا حکم دیا لیکن اس میں کوئی علت ، محرک اور سبب کے ماتحت نہیں بلکہ صرف اپنی حیثیت اور ارادہ کے مطابق ہوا ۔اگر اشیاء کا وجود علت کے تابع ہوتا تو ارادہ کی پابندی اللہ جل جلا لہ کو لازم ہو گی۔پھر علت اور معلول کی قدامت کا قول کرنا پڑے گا۔
2۔ تقدیر دوم :اللہ جل جلا لہ کی تخلیق اور امر و نہی میں علت اور غایت کار فرما ہے ۔علت اور غایت کو قدیم فرض کرلینا بھی درست سمجھا جائے گا ۔
3۔ تقدیر سوم : اللہ تعالیٰ نے خلق کو پیدا کیا ۔مامورات کا حکم دیا اور منہیات سے روکا اور اللہ جل جلا لہ نے یہ سب کچھ حکمت محمودہ کے تحت کیا ہے۔ابن تیمیہ ؒ اس تیسرے قول کے قائل ہیں ۔حکمت محمودہ کے معنیٰ و مفہوم میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔معتزلہ کے نزدیک اوامر و نواہی میں بذات خود حکمت محمودہ کار فرما ہے۔ دوسروں کے نزدیک تقدیر الٰہی ، ارادہ اور فعل سے عبارت کا نام حکمت محمودہ ہے۔جو کچھ وہ کرتا ہے وہ خیر ہے حکمت ہے اور خوب ہے۔ جس بات کا حکم دیتا ہے وہ خوب ہے اور جس بات سے روکتا اور منع کرتا ہے وہ قبیح ہے ۔عقلی حسن و قبح یعنی خوب اور نا خوب عقلی طور پر معتزلہ اور شیعہ کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اشیاء ذاتی طو پر خوب ہیں ۔ان کی خوبی کا تقاضا ہے کہ ان کے کرنے کا حکم دیا جائے۔اور بعض چیزیں ذاتی طور پر قبیح ہیں ان کا تقاضا ہے کہ ان سے روکا جائے اور اللہ تعالیٰ قبیح کا حکم نہیں دیتا ہے اور نہ حسن و خوب سے روک سکتا ہے۔گویا سارے معارف عقل پر مبنی ہیں۔ بعض تو کہتے ہیں کہ شکر منعم شریعت کے آنے سے پہلے بھی ضروری تھا اور حسن و قبح دو ذاتی صفتیں ہیں۔
ابن تیمیہؒ نے ایسے لوگوں کے قیاسات کو ہرگز قبول نہیں کیا۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو بندوں پر قیاس کرلیا ہے۔اللہ تعالیٰ پر وہ واجب جو بندوں پر واجب اللہ تعالی پر وہ حرام جو بندوں پر حرام اور طرفہ تماشا دیکھ اس کا نام عدل اور حکمت رکھا ۔حالانکہ ان کی ناقص عقلیں عرفان حقیقت سے قاصر اور خاسر ہیں۔ ان کی رائے دوسری رائے ہے ۔اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کسی حکمت کے باعث ہیں ۔اس حوالے سے آپ کے نزدیک اس کا سبب خود اللہ جل جلا لہ ہی کو معلوم ہے۔ بندہ یہ بات نہین کہہ سکتا ہے کہ فلاں وجہ سے خدا پر فلاں بات واجب ہو گئی ہے۔لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئیے کہ ابن تیمیہ اوامر و نواہی میں حکمت کی مطلقا نفی کے درپے نہیں ہیں۔اس سے یہ لاز م نہیں آتا ہے کہ تمام حکمتوں کا علم بندوں کو معلوم ہو جائے۔ اس بات پر ایمان واجب ہے کہ تمام امور عامہ جو اللہ جل جلا لہ سے سر زد ہوتے ہیں وہ حکمت عامہ اور رحمت عامہ کی وجہ سے اس عالم میں وجود میں آتے ہیں۔ جیسے انبیاء ،بعثت اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی بعثت اس اصول کے تحت ہوتی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔"وما ارسلنٰک الا رحمۃ اللعالمین"۔12
ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ اگر سوال ہو کہ ان نفوس قدسیہ کی آمد کی وجہ سے بھی تو ضرر اور نقصان مشرکین اور کفار کو ہوتا ہے۔تو آپ جواب دیتے ہیں کہ نقصان سے زیادہ نفع ہے۔ جیسے بارش کا نفع عام ہے ،جو خیر پر مبنی ہے مگر اسی وجہ سے بعض لوگوں کو نقصان بھی ہو تا ہے۔ ابن تیمیہؒ مندرجہ ذیل تین امور کے قائل ہیں۔
1۔ اللہ جل جلا لہ نے اسی مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ مگر ایسی حکمت کے ماتحت جس کا علم خود اسی کو ذات کو ہے اور یہ حکمت انشاء کی علت نہیں ہے۔ جو ارادہ و مشیت کو پابند کرتی ہو ۔احکام نواہی اور اوامر کی حکمت کا قطعی اور یقینی علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔
2۔ اشیاء میں جوحسن و قبح پایا جاتا ہے وہ ذاتی نہیں ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کے لئےصالح اور اصلح امور کا وجوب ہوتا ہو، جس سے یہ واجب آتا ہو کہ خوب کا حکم دے اور ناخوب سے منع کرے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے ۔اس کے جملہ اوامر و نواہی ، بعثت و شرائع لوگوں کی نفع رسانی اور دفع ضرر پر مبنی ہیں اور جس میں غالب نفع ہوتا ہے ۔
فناوابدیت:
ابن تیمیہ ؒ اپنے عقائد ونظریات اور افکار وآراء میں اکثر سلف صالحین کے مسلک اور مذہب کے پابند نظر آتےہیں۔ بعض اوقات آپ ظاہریت سے کام لیتے ہیں۔علمائےاسلام کے اقوال اس بابت بہت مختلف ہیں کہ اس وقت جنت اور جہنم کا وجود ہے یا نہیں ہے۔ابدیت نار اور اس کا عدم فنا بھی علماء کے درمیان محل اختلاف رہا ہے۔اہل سنت وجماعت کا مذہب حق یہ ہے کہ جہنم بھی جنت کی طرح مخلوق ہے اور اب بھی موجود ہے۔اس بابت معتزلہ نے اختلاف کیا ہے کہ فی الحال اس کا وجود نہیں ہے۔ان کے نزدیک یوم معاد اس کو وجود بخشاجائے گا۔اب اس کی تخلیق عبث او ر بے فائدہ ہے۔معتزلہ نے اس جنت کےبارے میں بہت ساری تاویلات کا سہارا لیا ہے۔جو حضرت آدم علیہ السلام کے قصہ میں جس کا ذکر موجود ہے۔اور اس جنت کا محل سات آسمانوں کے اوپر ہے اور اس جنت کی چھت عرش بن جاتاہے۔ جہنم ساتوں زمین کے نیچے ہے۔ اس کے علاوہ بھی علماء کے اقوال ہیں۔جنت کے بارے میں یہ عقیدہ شستہ اور صاف ہے کہ وہ نہ ہی فنا ہوگی اور نہ ہی بوسیدگی کا شکار ہوگی۔ابدیت نار کے بارے میں دوقول ہیں اور ان اقوال میں عدم فنا کا قول صحت کے درجہ میں ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ قول صحیح یہی ہے کہ جنت اور نار باقی ہے۔ ابن تیمیہؒ کی طرف اس تفرد کی نسبت میں نقل صحیح کا وضوح نہ ہونے کا بھی اشارہ کیا گیاہے۔اگر بالفرض محال صحت کا قول مل بھی جائے تو اس اختلاف میں سلف وخلف دونوں شامل ہیں۔ اختلاف کی صورت میں تشدد کیاجانا از قرین قیاس ہرگز نہیں ہے۔اگر بالفرض محال اس قول کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے اور اس کا رجوع بھی پایہء ثبوت کو نہ پہنچے تو پھر بھی علماء مجتہدین میں سے ایک ہیں اور مجتہد تو ماجورہوتاہے۔
" ان صح النقل ، عدم رجوعہ عنہ وھولا بعد عند المنصفین الا من العلماء المجتھدین"
خلاصہ کلام:
امام ابن تیمیہ ؒ کے تفردات کو اختیارات ، شذوذ، تفرقات اور نوادرات سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کو تحقیقات اور ترجیحات جیسے مناسب اور موزوں نام سے بھی پکارا جانا قرین قیاس ہے۔ اگر چہ آپکی یہ تحقیقات اور ترجیحات باعث وحشت اور نکارت نہیں ہونی چاہیئں اور نہ ہی آپ کے فضل و کمال کے انکار کا سبب ہونا چاہئیں کیونکہ قرون اولیٰ سے تادم تحریر آئمہ مجتہدین اور محققین کی ترجیحاتی تحقیقات کا ایک سمندر بے کنار داخل دفتر کیا جا سکتا ہے ۔جس کےانکارکی مجال ہر گز نہ ہے۔ ترجیحاتی نگارشات میں مشہور آئمہ کے علاوہ مشہور و مقبول اولیاء کرام کا بھی ایک حظ وافر موجود ہے جن پر اطلاع صاحب مطالعہ اور سالک پر مخفی نہیں ہے ۔نظریاتی اور ترجیحاتی تحقیق حسن اعتقاد ، عظمت و ولایت ، علمی و جاہت اور فکری شان و شوکت کے لئیے قطعا منافی نہ ہے۔
جن لوگوں کی نظر خلافیات پر اتنی وسیع نہیں یا جو متقدمین کے لئیے تفرد اور شذوذکی اجازت دے سکتے ہیں لیکن ان کے لئے یہ تفردات بھی موجب مخالفت اور فساد عقیدہ ، ضلالت اور خرق اجماع کی دلیل بن گئےجن مسائل میں وہ اپنے اجتہاد سے صحیح نقطہ پر پہنچ گئے ہیں (اور تعداد میں وہی مسائل زیادہ ہیں) ان میں تو ان سے استفادہ کیا جائے اور ان کی وجہ سے ان کے حق میں دعائے خیر کی جائے اور جن میں ان سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے ان میں ان کی تقلید نہ کی جائے بلکہ ان کو معذور سمجھا جائے۔
امام ابن تیمیہؒ کے تفردات قرآن و سنت کے دلائل اور براہین کی روشنی میں تحقیق کے نئے زاویے متعین کرتے ہیں جن سے اب بھی اختلاف کا حق محفوظ و مامون ہے ۔ان تفردات فقہیہ میں وہ ماجور ہیں اختلاف رائے اور تحقیق کی وجہ سے انکی کلی خدمات سے روگردانی کرنا شیوہ حق و صداقت ہرگز نہ ہے۔اختلاف مسائل کی صورت میں ان کو معذور رکھا جائے اور افراط و تفریط کی راہ اپنانے سے گریز کیا جانا از حد ضروری ہے ۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Sayed Abu al-Hasan Nadvī, Tārīkh Da‘wat wa ‘azīmat (Karāchi: Majlis Nashriyāt-e-Islām, S.N), 1:39.
2 Abu ‘Abdullah Muhammad bin Ahmad bin ‘Abd al-Hādī Ṣālḥī, Al-‘Aqūd al-Durriyah min Manāqib Sheikh ul-Islām Ibn e Teimiyyah, Research: Abu Mus‘ab Tal‘at bin Fawād ḥalwānī (Al-Qāhirah, Misr: Al-Fārūq al-ḥadīthiyyah, Edition 1st 1422 A.H, 7.
3 Mar‘ī bin Yūsuf ḥanblī Karmī, Al-Kawākib al-Durriyyah fi manāqib al-mujtahid Ibn e Teimiyyah, Tahqīq: ‘Abd al-Rahmān Khalf (Beirūt, Labnān: , Dār al-gharb al-Islāmī, Edition 1st 1406 A.H, 60.
4Mawlānā ‘Abd al-Halīm Chishtī, Fawā’id-e-Jāmi‘ah bar ‘ujālah-e-Nāfi‘ah (Karachi: Mīr Muhammad Kutub Khānah, S.N), 250.
5Mawlānā ‘Abd al-Halīm Chishtī, Fawā’id-e-Jāmi‘ah bar ‘ujālah-e-Nāfi‘ah,250.
6Ahmad Shahāb al-dīn bin Hajar Al-Makkī, Al-Fatāvā al-Hadīsiyah (Beirūt: Dār al-m‘arafah, S.N), 116.
7Abi al-hasan Taqī al-Dīn ‘Abd al-kāfī, Al-Seif al-Seiqal Fi Radd ‘Alā ibn e Zafīl wa ma‘ahu Takmilat al-radd ‘Alā Nūniyat ibn al-Qayyim (Eygept: Al-Jāmi‘ah al-azhar, S.N), 115.
8Ahmad Shahāb al-dīn bin Hajar Al-Makkī, Al-Fatāvā al-Hadīsiyah, 116.
9Ahmad Shahāb al-dīn bin Hajar Al-Makkī, Al-Fatāvā al-Hadīsiyah, 116.
10Ahmad Shahāb al-dīn bin Hajar Al-Makkī, Al-Fatāvā al-Hadīsiyah, 116.
11Abi al-hasan Taqī al-Dīn ‘Abd al-kāfī, Al-Seif al-Seiqal, 115.
12Mawlānā Shiblī Nu‘mānī, ‘Ilm al-kalām awr Al-kalām, (Karachi: Nafīs Academi, S.N), 86.
13Abi al-hasan Taqī al-Dīn ‘Abd al-kāfī, Al-Seif al-Seiqal, 115.
1Abu Al-Tayyib Muhammad ‘Atā’ullah Bhūjiyanī, Hayāt Sheikh al-islām Ibn e Teimiyyah(Lahore: Maktabah Salfiyah, 1971 A.D), 406.
2Al-A‘rāf 7:54.
3Abu Zuhrah Muhammad bin Ahmad, Ibn-e-Teimiyyah; Hayātuho wa ‘Asruho ‘ārā’ho wa fiqhuho (Al-Qāhirah: Dār al-fik al-‘arbi, 1991 A.D), 228.
4Ibn e Batūtah, Rihlat ibn e Batūtah Tuhfat al-nazā’r Fi Gharā’b al-absār wa ‘ajāub al-asfār (Beirūt: Dār Ahyā’l ‘ulūm, 1987A.D),1:111.
5Al-Sayed Abi al-Hasan ‘Alī al-Hasnī al-Nadvī (Damishq: Dār al-Qalam, 2002 A.D), 2:146.
6Al-A‘rāf 7:109.
7Abu Zuhrah Muhammad bin Ahmad, Ibn-e-Teimiyyah; Hayātuho wa ‘Asruho ‘ārā’ho wa fiqhuho (Al-Qahirah: Dār al-Fikr al-Arbī, Latest Eddition: 19991), 249.
8Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah (Jama‘ wa Tartīb: ‘Abd al-Rahmān) (Al-Sa‘udiyah: 1425 A.H), 10:309.
9Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, Jam‘a wa Tartīb: ‘Abd al-Rehmān bin Muhammad Qāsim (Al-Madīnah al-Munawarah:Government of Saudiyah, 1425 A.H, 2004 A.D), 10:314.
10Sayyed Mahmūd Sayyed Sabīh, Akhtā’ Ibn e Teimiyyah Fi Haqq Rasūlillāh wa ahlu Beitihī (Beirūt: Dār Zain Al- ‘Âbidīn, 2010 A.D), 426.
11Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 1:365.
12Al-A‘rāf 7:107.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |