1
2
2020
1682060063651_3193
64-76
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/17/19
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/17
Key Words: Sīrah of the Holy Prophet ﷺ Biographers Al-Shifā Ba Ta‘rīf-e-Ḥuqūq-e-Muṣṭafā Qazi Ayaz Mālkī Respect & Love for the Holy Prophetﷺ.
''الشفاء بتعریف حقوقِ مصطفیٰ ﷺ'' کا تعارفی و تجزیاتی مطالعہ )48(
''الشفاء بتعریف حقوقِ مصطفیٰ ﷺ '' کا تعارفی و تجزیاتی مطالعہ
An Analytical Study of the “Al-Shifā Ba Ta‘rīf-e-Ḥuqūq-e-Muṣṭafā”
Muhammad Nawaz
Muhammad Fazal Haq Turābī
The most prominent and living name among the African biographers is Qazi Ayaz Mālkī. His book “Al-Shifā Ba Ta‘rīf-e-Ḥuqūq-e-Muṣṭafā” has an important place in the books of Sīrah and also has the status of the most popular book among all kinds of people. This book is also called Kitab-e-Shifā (meaning the one who revives hearts and heals from heart diseases). The reason for writing this book was that the people were becoming oblivious to the obligatory status and virtues of the Holy Prophet ﷺ and were becoming completely incapable of paying their dues. In these circumstances, the demand for preparation and compilation of a collection of rights and manāqibs related to it became intense and he compiled this magnificent book. On the one hand, it teaches love and respect for the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) and on the other hand, it mentions his rights and rewards for fulfilling them. The writing style of the book is simple and smooth as well as eloquent. The book is not so long that it would be too long for the reader to comprehend, nor is it so short that it would not be possible to get access to the concepts and demands due to its brevity. The people have made this book their favorite and have been studying it and the biographers have adopted Al-Shifā as an authoritative and reliable source. Because of its importance and usefulness, an introductory and analytical study of this book will be presented in this article.
Key Words: Sīrah of the Holy Prophet ﷺ, Biographers, Al-Shifā Ba Ta‘rīf-e-Ḥuqūq-e-Muṣṭafā, Qazi Ayaz Mālkī, Respect & Love for the Holy Prophetﷺ.
تمہید:
افریقی سیرت نگاروں میں سب سے نمایاں اور زندہ جاوید نام حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کا ہے ۔آپ کی کتاب الشفاء بتعریف حقوقِ مصطفیٰ ﷺ کُتبِ سیرت میں اہم مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام و خواص میں مقبول ترین کتاب کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ اس کتاب کو کتاب شفا (یعنی دلوں کو زندہ کرنے والی اور دلوں کی بیماریوں سے شفا دینے والی ) بھی کہا جاتا ہے۔اس کتاب کے لکھنے کا باعث یہ بنا کہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے واجب التعظیم مرتبت اور فضائل و منا قب کے متعلق غافل اور حقوق کی ادائیگی میں بالکل قاصر ہوتے جا رہے تھے ۔ان حالات میں آپ سے اس کے متعلق مجموعہ حقوق و مناقب کی تیاری اور تالیف کا مطالبہ شدت پکڑ گیا اور آپ نے یہ رفیع الشان کتاب تالیف فرمائی ۔ جس میں ایک طرف تو محبت و تعظیم رسولﷺ کا درس ملتا ہے تو دوسری طرف آپ ﷺ کے حقوق اور اُن کی ادائیگی پر انعامات کا ذکر ملتا ہے۔کتاب کا اسلوب تحریر سادہ اور سلیس ہونے کے ساتھ فصیح و بلیغ بھی ہے ۔ کتاب نہ تو اتنی طویل ہے کہ قاری کے لئیے طوالت کبید گی خاطر کا باعث بنے اور نہ ہی اتنی مختصر ہے کہ اختصار کی وجہ سے مفاہیم و مطالب تک رسائی نہ ممکن نظر آئے ۔ عوام نے اس کتاب کو حرز جان بنایا اور زیر مطالعہ رکھاہے اور سیرت نگاروں نے '' الشفاء '' کو ایک مستند اورقابل اعتماد ماخذ کے طور پر اپنایا ہے ۔اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کتاب کا تعارفی اور تجزیاتی مطالعہ اس آرٹیکل میں پیش کیا جائے گا۔
تعارفِ مصنفِ "الشفاء":
آپکی کنیت ابوالفضل ہے اور شجرہ نسب یوں ہے ۔عیاض بن موسیٰ بن عیاض بن عمرو بن موسیٰ بن عیاض بن محمد بن موسیٰ بن عیاض۔آپ کا سلسلہ نسب یحصب بن مالک کی طرف منسوب ہے جو حمیر کا قبیلہ ہے۔ آپ علیہ الرحمۃ کے بزرگ اندلس میں رہنے والے تھے ۔ آپ کے داد نقل مکانی سے فارس آگئے ۔در اصل یمن کے باشندے ہیں ۔ مغرب کے شہروں میں سے مشہور شہر مکبئہ میں پیدا ہوئے اور نشو ونما پائی ۔ بایں وجہ یحصبی مشہور ہیں ۔آپکی تاریخ پیدائش سنہ496ھ ۔یا 476ھ 1بمطابق 1083ء ہے 2۔
اپنے شہر کے علماء اور مشائخ سے فیضیاب ہوئے۔ پھر اندلس میں ابن رشد ، ابن حمدین ، ابن عتاب اور ابن الحاج سے علم وحکمت کے جواہر سے مالامال ہوئے3۔ بیس سال کی عمر میں حافظ الحدیث ابو علی غسانی صدفی سے روایتِ حدیث کی اجازت لی۔ قرطبہ میں ایک بڑی جماعت سے علم حاصل کرتے ہوئے بڑاذخیرہ حدیث جمع کیا 4۔آپ علیہ الرحمۃ علوم ِحدیث ، نحو ، فقہ ، کلامِ عرب اور معرفتِ ایام و انساب میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔آپکے اشعار آب دار تھے۔5
وحیا زمانا بینھم قد الفتہ طلیق المحیاء مستلان الجوانب
اور اللہ تعالیٰ ایسے زمانے کو جس کو میں نے الفت سے بسر کیا باقی رکھے جو کشادہ پیشانی اور ہر طرح سے موافق تھا ۔
اخواننا با للہ فیھا تذکروا معاھدا جار او مؤدان صاحب
اے میرے بھائیو: خدا کےلئے اس میں یاد کرو کسی ہمسایہ کے عہدوں کو اور کسی صاحب کی محبتوں کو ۔
غدوت بھم من برھم واحتفائھم کانی فی اھل وبین اقادب
ان کی نیکیوں اور ہمدردیوں کے باعث مجھ کو یہ محسوس ہونے لگا گویا میں اپنے کنبہ اور رشتہ داروں میں رہتا ہوں ۔6
عہدہ قضا:
آپ کافی عرصہ سبتہ میں پھر غرناطہ میں قضا کا کام کیا ۔ جلد پھر قرطبہ میں 531ھ۔بمطابق 1132ء میں قضا کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔
تحسین و ثنا:
آپ کے بارے میں مقتدر شخصیات نے خراج و تحسین جس انداز میں پیش کیا ہے وہ آپکی شخصیت اور علم و فضل کے تفوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔چنانچہ چند اقوال درج ذیل ہیں:حضرت محمد بن حماد سبتی فرماتے ہیں: "
حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کے زمانہ میں ان سبتہ میں ان سے زیادہ کو ئی کثیر التصانیف نہ تھا ۔ آپ نے اپنے شہر میں وہ بلندی اور برتری حاصل کی کہ جہاں تک ان کے شہر والوں میں سے کوئی بھی نہ پہنچا مگر علم و فضیلت میں تواضع اور خوف الٰہی عزوجل زیادہ نمایاں تھا"۔7
حضرت ملاحی فرماتے ہیں کہ : "کان القاضی رحمہ اللہ بحر علم '' آپ علم کے سمندر تھے ۔ 8
ابن خاتمہ فرماتے ہیں کہ :" آپ علیہ الرحمۃ سنتِ نبویہ کے معظم ، عالمِ با عمل ، صاحب ِخشوع وخضوع فرمانبردار ، آواز ِحق کو بلند کرنے والے اور اللہ عزوجل کے بارے میں کسی ملامت سے خوف نہ رکھنے والے اور حدیث کے حافظ و ضابط تھے "۔
وصالِ پُر ملال:
بحر علوم و فنون ،صاحب تقویٰ وورع ، جامع شریعت و طریقت آ سمانِ علم وفضل کا آفتاب و ماہتاب ،9جمادی الثانی 544ھ بمطابق 1145ءشب جمعہ کو غروب ہوگیا ۔آپ کا عرصہ حیات 63سال تھا ۔ مراکش میں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔
تالیفاتِ انیقہ:
آپ علیہ الرحمۃ کی مندرجہ ذیل تالیفات یاد گارِ زمانہ ہیں جن میں سے بعض کتب کو ابدی شہرت اور قبولیتِ عامہ حاصل ہے۔ نابغہء زماں شخصیات نے سر آنکھوں پر جگہ دی ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریبا 22 کے قریب ہے اور وہ تمام کی تمام علوم کا بیش بہا خزانہ ہیں اور تمام علماء ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے رہےہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔9
1۔اکمال المعلم فی شرح صحیح مسلم
جسکی مدح میں مالک بن مرجل نے کہا ہے : "من قرء الاکمال کان کاملا فی علمہ و زین المحافلا"۔ جس نے اکمال کو پڑھا وہ علم میں کامل ہوگیا اور محفلوں کی زینت بنا ۔
2۔ المستنبط فی شرح کلمات مشکلہ و الفاظ مغلقہ مما اشتملت علیہ الکتب المدونۃ والمختلط۔
یہ کتاب '' تنبیہات '' کے نام سے مشہور ہے اور اب یہی نام اس پر غالب ہوگیا ۔ اس فن میں اس سے بہتر کتاب تصنیف نہیں ہوئی ۔ اسکی شان میں ابو عبد الہ نور زری نے جو کتاب سقراطبہ کے شارح ہیں ۔ کہا ہے :
؎ کانی قدمانی کتاب عیاض اتنزہ طرفی فی مریع ریاض
گویا جب سے میرے پاس کتا ب عیاض آئی ہے میں اپنی نگاہ کو ترو تازہ باغات میں سیر کراتا ہوں ۔
3۔ترتیب المدارک وتقریب المسالک لمعرفۃ اعلام مذہب مالک
4۔کتاب الاعلام بحدود قواعد الاسلام
(کشف الظنون میں اس کا نام ''الاعلام فی حدود الاحکام ''درج ہے )
5۔کتاب الالماع فی ضبط الروایۃ وتقیید السماع ،
6۔ بغیۃ الرائد لما تضمنہ حدیث ام زرع من الفوائد
7۔کتاب الغنیۃ
جس میں انہوں نے اپنےمشائخ کا ذکر کیا ہے ۔
8۔معجم شیوخ ابی علی الصدفی (المتوفیٰ 514ھ)
9۔نظم البرھان علی صحۃ جزم الاذان
10۔مقاصد الحسان فیما یلزم الانسان
یہ نا تمام ہے۔
11۔جامع التاریخ
جو بہت محیط اور جامع واقع ہوئی ہے ۔
12۔غنیۃ الکاتب وبغیۃ الطالب ،
13۔مشارق الانوار علی صحاح الآثار
اس کتاب کا پورا نام ۔'' مشارق الانوار فی اقتفاء صحیح الآثار '' ہے ۔اس کتاب میں موصوف نے مؤطا امام مالک ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مغلق اور مشکل الفاظ کی تشریح کی ہے ، ان کے معنی بتائے ہیں ، راویوں کے نام کو ضبط کیا ہے ۔ ان کے اوہام اور تصحیفات کی نشاندہی کی ہے 10۔کہتے ہیں کہ یہ کتاب اس درجہ کی ہے کہ اگر اسے آب زر سے لکھا جائے اور جواہر کے برابر اس کا زون کیا جائے تو بھی اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔11 امام علامہ محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ '' شرح مسلم '' میں جگہ جگہ ان کا حوالہ دیتے ہیں ۔ امام بدرالدین رحمۃ اللہ علیہ '' عمدۃ القاری '' میں اور حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ '' فتح الباری '' میں جابجا ان سے فوائد و نکاتِ احادیث میں خوشہ چینی کرتےنظر آتے ہیں ۔شارحین حدیث میں جہاں قال القاضی کہتے ہیں وہاں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ہی مراد ہوتے ہیں۔12
آپکی تصانیف میں زیادہ مقبولیت '' شفاء '' کےحصہ میں آئی جو آپکے نام کی بقاء ضا من ہے۔
14۔الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ
بارگا ہ رسالت مآب ﷺ میں مقبولیت یوں ہے کہ حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کے بھتیجے نے خواب میں رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ سونے کے تخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے بھتیجے کی وحشت اور توہم کو تاڑ کر کہا : "اے میرے بھتیجے ! میری کتاب شفاء کو مضبوط پکڑے رہو اور اسے اپنے لئیے حجت بناؤ "۔ گویا اس کلام سے آپ نے اشارہ فرمایا کہ مجھ کو یہ مرتبہ اسی کتاب کی بدولت ملا ہے ۔
''اے برادر زادہء من کتاب شفاء را محکم گیر و بآں تمسک کن گویا اشارہ کرد بآن کہ این مرتبہ از کرامت این کتاب حاصل شدہ''13۔
غرض اس باب میں جس قدر کتابیں تصنیف ہوئیں ہیں ان سب میں یہ کتاب عجیب اور بہت مقبول واقع ہوئی ہے۔
شان شفاء باشعار بزرگان باصفا:
بزرگانِ دین نے کتاب '' الشفاء '' کی مدح میں اشعار قلمبند کئیے ہیں ۔بارگاہ رسالت پناہ ﷺ میں شرف یابی کے بعد یہ کتاب بزرگوں میں خصوصی مقام کی حامل ہوگئی ۔
لسان الدین الخطیب فرماتے ہیں کہ '' شفاء عیاض للصدور شفاء '' قاضی عیاض کی شفاء (در اصل) قلوب کے لئے شفاء ہے ۔
ولیس للفضل قد حواہ خفاء '' اور جس فضیلت کو اس نے جمع کیا ہے وہ کوئی پوشیدہ شے نہیں-
ابوالحسن زیدی فرماتے ہیں کہ '' کتاب الشفاء شفاء القلوب قد ائتلفت شمس برھانہ14کتاب الشفاء دلوں کی شفاء ہے ۔اور بیشک اس کی دلیل کا آفتاب چمک اٹھا ہے ۔
عوضت جنات عدن یا عیاض ،عن الشفاء الذی الفتہ عوض
جمعت فیہ احادیثا مصححہ،فھو الشفاء لمن فی قلبہ مرض
اے قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ آپکی شفا کی تالیف کے عوض جنٰت عدن دی جائیں ۔آپ نے اس میں صحیح حدیثیں جمع کی ہیں ۔ اس لئیے یہ کتاب ہر اس شخص کے لئے شفاء ہے جس کے دل میں مرض ہے۔15
خیر و برکت اور فضیلت:
حضرت علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ''شفا شریف '' کا اسم اس کے مسمیٰ کے موافق ہے ۔ کیونکہ سلف صالحین رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا پڑھنا بیماریوں کے لئے شفاء اور مشکلات کے حل کے لئے بہترین اور مجرب عمل ہے ۔اور نبی کریم ﷺ کی برکت سے اس کتاب کے پڑھنے سے ڈوبنے ، جلنے اور طاعون کی بیماریوں سے نجات رہتی ہے ۔غالبا اسی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ جس گھر میں یہ کتاب ہو وہاں جادو اثر نہ کرےگا۔16
عربی نسخہ ۔تعارف:
پیش نظر عربی نسخہ ایک جلد میں دو اجزاء پر مشتمل ''شیخ احمد سعد علی '' کی تصحیح کے ساتھ ۔1369ھ۔1950م۔میں قاھرہ سے شرکۃ مکتبہ و مطبعہ مصطفیٰ البابی الحلبی واولادہ بمصر17کے چھاپہ کو عبد التواب اکیڈمی ۔ بیرون بوھڑ گیٹ ملتان نے شائع کیا ۔ پوری کتاب حرکات و سکنات کے ساتھ مزین ہے ۔ کاغذ معیاری اور جلد مضبوط ہے ۔ سن اشاعت ندا رد ۔ دونوں اجزاء کی تفصیلی فہرست سمیت کتاب 274صفحات پر مشتمل ہے ۔ اور یہ نسخہ مصنف کے حالات ندارد ۔
کتاب کا آغاز یوں ہوتا ہے :
اللٰھم صل علی محمد ۔۔۔الحمد للہ المنفرد با سمہ الالسمیٰ ۔ ۔۔18 اور اختتام والحمد للہ رب العٰلمین19پر ہوتا ہے ۔علاوہ ازیں یہ کتاب مصر ، ترکی ، اور ہندوستان اور بیروت سے متعدد بار چھپ چکی ہے ۔ اس کتاب کی شروحات بھی بے شمار ہیں ۔ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون کے پانچ صفحات پر مشتمل تفصیل فراہم کی ہے ۔ بقول ابن فرحون یہ کتاب اپنی انفرادیت کے سبب مشرق و مغرب میں مقبول عام ٹھہری ۔
شروحات:
الشفاء شریف کی تقریبا 26شروحات وتلخیصات 20کا ہوجانا اس کتاب کے مقام و مرتبہ اور علماء کے قدر ومنزلت کی روشن دلیل ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں اختصا ر کے ساتھ شروحات کا تذکرہ ہے ۔
1۔نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض
احمد شہاب الدین خفاجی نے مفصل و مطول شرح کا حق ادا کیا ہے ۔
2۔المدد الفیاض
شیخ حسن عدوی حمزاوی نے مختصر شرح کی ہے ۔
3۔ مزیل الخفا عن الفاظ الشفاء
تقی الدین احمد بن محمد بن حسن شمنی تمیمی داری حنفی کی تصنیف لطیف ہے 21۔
4۔ المقتفی فی حل الفاظ الشفاء
برھان الدین ابراھیم بن محمد بن خلیل حلبی سبط ابن العجمی کی تالیف لطیف ہے ۔
5۔ مناھل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء
قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب مستطاب کو آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ﷺ سے مزین فر مایا حضرت سیوطی علیہ الرحمۃ نے اس کتاب میں احادیث کی تخریج و تحقیق کی ہے ۔
6۔ شرح الشفاء
حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمۃ نے متوسط انداز میں شرح کی ہے ۔ دو جلدوں میں (1428ھ۔2007ء) میں دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان سے بڑی آب وتاب سے شائع ہوئی ہے ۔1336صفحات پر مشتمل ہے ۔پیش نظر نسخہ طبعہ ثانیہ ہے ۔ شرح کا آغاز یوں ہوتا ہے ''الحمد للہ الذی انزل القرآن شفا ءلما فی الصدور ''22۔
تلفظِ عیاض:
عیاض کا تلفظ '' عین کی زبر ہے یا زیر ہے۔الشفاء بتعریف المصطفیٰ ﷺ میں پوری کتاب حرکات و سکنات کے ساتھ ہے اس میں '' عیاض '' کی عین پر زیر ہے 23۔ملا علی قاری کی کتاب '' شرح شفاء '' میں درج متن میں '' عیاض '' کی عین پر زبر ہے ۔ مگر آپ علیہ الرحمۃ نے شرح '' بکسر العین '' کے ساتھ کی ہے ۔ یعنی عین پرکسرہ (زیر) کی حرکت آتی ہے 24۔
7۔ شرح شفاء للقاضی عیاض
شارح محمد دبحی (860ھ-974ھ) محمد بن محمد بن محمد بن احمد دبحی عثمانی شافعی شمس الدین ۔ آپ محدث ، مؤرخ عروضی ہیں ۔
8۔شارح ابن مرزوق تلمسانی : 710ھ۔781ء
9۔ شرح شفاء
محمد بن احمد بن محمد بن مرزوق عجیسی آپ پر جلال فقیہہ ،خطیب تلمسان ، اور ابن خلدون نے آپکی تعریف کی ہے ۔
آپکی '' شرح شفاء '' مگر پایہء تکمیل تک نہ پہنچی 25۔
تراجم کتاب الشفاء:
کتاب الشفاء کے اردو میں بہت سارے تراجم دستیاب ہیں جو سیرت نگاری کے شرف سے مالا مال ہیں ۔ چند تراجم کا تعارف اختصار و ایجاز کے ساتھ حاضر ہے۔
1۔ نعیم العطاء فی حدیث المجتبیٰ ﷺ
کتاب الشفاء کا یہ ترجمہ ،غلام معین الدین بن صابر اللہ(1342ھ،1923ء)نے بڑے فاضلانہ انداز اور ادبی رنگ میں کیا ہے ۔ کتاب الشفاء میں وارد احادیث کی تخریج بھی کی گئی ہے ۔ انداز سادہ مگر فاضلانہ اور ادبی ہے ۔دو حصے ایک جلد میں مکتبہ اعلیٰ حضرت دربار مارکیٹ لاہور نے زرق برق انداز میں شائع کیا ہے ۔ جلد اول کے صفحات 336اور جلد دوم کے صفحات 320ہیں ۔ یہ ایڈیشن نہایت خوبصورت ہے ۔ رنگین تصاویر متعلقہ کتاب نے چار چاند لگا دئیے ہیں ۔کتاب کا ٹائیٹل پیج اور بیک پیج نہایت دیدہ زیب ہیں۔ ٹائیٹل پیج پر گنبدِ خضراء کتاب کے موضوع کی طرف بڑی شان و شوکت کے ساتھ غماز ہے ۔ کتاب ھٰذا کے بیک ٹائیٹل پیج پر '' شفاء شریف '' سے متعلقہ بزرگوں کے اشعار با حوالہ درج ہیں ۔کتاب کی تخریج امام جلال الدین سیوطی کی کتاب '' مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء '' سے کی گئی ہے ۔جل جلا لہ ، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، رضی اللہ عنہ اور رحمۃ اللہ علیہ ، مکمل جملہ لکھا گیا ہے ۔مخفف پر اکتفا نہیں کیا گیا ۔ سنِ اشاعت 1424ھ۔2004ءہے ۔مصنف و مترجم کے حالات موجود ہیں ۔
2۔دربار مصطفیٰ ﷺ کے حقوق و آداب
شفاء شریف کا ایک کامیاب ترجمہ ہے۔ مترجم حافظ سید احمد علی شاہ بٹالوی نے سلیس زبان میں ترجمانی کی ہے ۔ فرید بک سٹال اردو بازار لاہور نے 1422سنہ ھ ۔ بمطابق 2001ء میں اول اشاعت کی ۔ صفحات کی تعداد 736ہے۔ٹائیٹل دیدہ زیب ،کاغذ متوسط اور مصنف اور مترجم کے حالات کتاب کے شروع میں دئیے گئے ہیں ۔تقدیم حکیم موسیٰ امرتسری نے لکھی ہے ۔
'' کتاب الشفاء فی حقوق المصطفیٰ ﷺ '' کشف الظنون میں ہے کہ کتاب کا نام '' الشفاء فی تعریف حقوق مصطفیٰ '' ہے تذکرۃ الحفاظ میں نام '' کتاب الشفاء فی شرف المصطفیٰ ' 'ہے 26۔کتاب کے متن میں '' الشفاء فی تعریف حقوق المصطفیٰ '' نام ہے 27۔ملا علی قاری کی کتاب میں '' الشفاء فی تعریف حقوق المصطفیٰ '' ہی نام ہے 28۔یہ ترجمہ 1914 میں احمد علی شاہ نے لاہور میں کیا ہے ۔
3۔شمیم الریاض
الشفاء شریف کا ترجمہ شمیم الریاض کے نام محمد اسماعیل کاندھلوی نے کیا تھا ۔نذیر احمد جعفری نے بھی الشفاء شریف کا ترجمہ کیا ہے۔
داعیہء تالیف الشفاء:
حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کے دور حیات میں لوگوں میں قصور دیکھا گیا کہ وہ سرور کون ومکان ﷺ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں اور آپ ﷺ کے واجب التعظیم مرتبت اور فضائل و منا قب کی معرفت سے غافل اور حقوق کی ادائیگی میں بالکل قاصر ہیں ۔ اندریں حالات آپ سے اس بابت مجموعہ حقوق و مناقب کی تیاری اور تالیف کا مطالبہ شدت پکڑ گیا اور آپ نے یہ رفیع الشان کتاب تالیف فرمائی ۔
''فانک کررت علی السؤال فی مجموع یتضمن التعریف بقدر المصطفیٰ ﷺومایجب لہ من توقیر واکرام وما حکم من لم یوف واجب عظیم ذالک القدر او قصر فی حق مہ الجلیل قلامۃ ظفر''۔
اسنادی حیثیت:
آپ ؒ نے اس کتاب کی اسنادی حیثیت میں بزرگوں اور اماموں کے اقوال جمع کرکے اس کی اسنادی حیثیت کو چار چاند لگادئیے ہیں۔
''وان اجمع لک ما لاسلافنا وائمتنا فی ذالک من مقال ''29
مشمولات ِشفاء:
شفاء شریف 4 اقسام پر مشتمل ہے :
قسم اول
یہ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ان ارشاداتِ ربانیہ کے بیان میں ہے جس میں خود اللہ جل جلا لہ نےخود اپنے قول و فعل میں اپنے نبی ﷺ کی تعظیم توقیر کی ہے ۔باب اول میں بیان ہے کہ اللہ جل جلا لہ نے آپ ﷺ کی تعریف و توصیف کی ہے ۔اور اس بارگاہ میں آپﷺ کی قدرو منزلت کا اظہار ہے ۔باب اول دس فصلوں پر مشتمل ہے ۔باب دوم میں بیان ہے کہ اللہ جل جلالہ ، نے آپﷺ کی پیدائش اور اخلاق کریمہ کے بارے میں مناقب بیان کئے ہیں اور آپﷺ میں تمام دینی و دنیاوی فضائل و مناقب جمع کردئیے گئے ہیں ۔ یہ باب 26فصول پر مشتمل ہے ۔باب سوم میں وہ صحیح اور مشہور حدیثیں ہیں جن سے اللہ جل جلا لہ ، کی بارگاہ میں آپﷺکی قدرو منزلت کا ذکر ہے ۔ آپﷺکو دارین کے فضائل میں عطا کردہ خصوصیات کا ذکر جمیل ہے ۔باب سو م 15 فصول پر مشتمل ہے ۔باب چہارم میں اللہ جل جلا لہ ، نے آپ ﷺ کے ہاتھ سے جو معجزات اور نشانیاں ظاہر فر مائیں اور جو خصوصی آپﷺ کو بزرگیاں عطاء فرمائیں ، کا بیان ہے ۔باب چہارم 29فصول پر مشتمل ہے ۔
قسم دوم:
یہ چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقوق کا بیان ہے جنکی بجا آوری ہرکس و ناکس پر واجب ہے ۔باب اول میں بیان ہے کہ آپﷺ پر ایمان لانا فرض ہے اور آپﷺ کی اطاعت اور آپﷺ کی سنت کا اتباع لازم ہے ۔باب اول 4فصول پر مشتمل ہے ۔باب دوم میں بیان ہے کہ آپﷺ کے حکم کی عظمت کی جائے اور آپﷺ کی تعظیم و توقیر لازم ہے ۔باب دوم 6فصول پر مشتمل ہے ۔باب سوم میں بیان ہے کہ آپﷺ کی محبت لازم اور عقیدت ضروری ہے ۔باب سوم 5 فصول پر مشتمل ہے ۔ باب چہارم میں آپﷺ پر صلوٰۃ سلام اور درود شریف پڑھنے کا کیا حکم ہے ، کا بیان ہے ۔با ب چہارم 9فصول پر مشتمل ہے۔
قسم سوم :
اس میں بیان ہے کہ جو حضور ﷺ کے حق میں محال ،جائز ، اور ممنوع امور ہیں ۔اور وہ امورِ بشریہ جنکی نسبت آپﷺ کی طرف کرنا صحیح ہے اور یہ '' قسم سوم'' اللہ جل جلا لہ ، تمہیں عزت دے اس کتاب کا راز اور ان تمام ابواب کے پھلوں کا مغز ہے اور اس سے پہلے کی دونوں قسمیں در اصل ان (امور) کے لئے تمہید و دلائل کے مرتبہ میں ہے جو ہم اس قسم میں واضح و روشن نکات بیان کریں گے اور یہی قسم مابعد کیلئے بھی حاکم ہوگی اور اس کتاب کی تالیف و تصنیف کا اصل سبب ووعدہ بھی یہی قسم ہے جب ہم اس وعدہ کو پورا کریں گے تو ملعون دشمنوں کے سینے تنگ ہونگے اورمؤمن مخلص کا دل یقین وعرفان سے روشن ہوگا اور فضائے صدر اس سے گنجینہ ء انوار بنے گا اور ہوشمند دانا حضور سید عالم ﷺ کی قدرو منزلت کما حقہ بجا لائے گا '' اس میں دو باب ہیں :
باب اول میں بیان ہے جو امور دینیہ میں مخصوص ہیں اور عصمت رسول ﷺ کو خوب ثابت کیا گیا ہے ۔باب اول 16فصول پر مشتمل ہے ۔باب دوم میں حضور ﷺ کی دنیوی حالات کابیان ہے ۔یعنی بشریت کی کیفیت کی بناء پر جو امور واقع ہوتے رہے ہیں ۔باب دوم 8 فصول پر مشتمل ہے ۔
قسم چہارم :
اس میں اُن احکام کی وجوہات کا بیان ہے جو (معاذاللہ) سب و تنقیص کرکے شان اعلیٰ مرتبت کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔قسم چہارم 3 ابواب پر مشتمل ہے ۔باب اول میں وہ امور ہیں جنکی نسبت سب و نقص ہیں خواہ وہ اشارتا ہوں یا صراحتا (نعوذ باللہ) باب اول 9 فصول پر مشتمل ہے۔باب دوم میں آپﷺ کے شاتم ، موذی ، اور تنقیص کرنے والے کی سزا کا حکم ہے،اور اسکی توبہ قبول کرنے ، نماز جنازہ پڑھنے ، اور اسکی وراثت کا بیان ہے ۔باب دوم 9 فصول پر مشتمل ہے ۔باب سوم پر کتاب ختم ہے۔ پہلے دو بابوں میں ذکر کردہ مسئلہ کا ضمیمہ اور تکملہ ہے ۔ اس شخص پر حکم لگا یا گیا ہے ۔جو اللہ جل جلا لہ ، رسل ، ملائکہ ، کتب الٰہیہ اور سید عالم ﷺ کی آل و اصحاب کو سب و شتم کرتا ہے ۔ یہ امور اختصار کے ساتھ 9فصول پر مشتمل ہیں ۔اس پر کتاب کے ابواب و اقسام کا خاتمہ ہے ۔باب سوم 9 فصول پر مشتمل ہے ۔
اہل ایمان کی پیشانی ایمان سے پر انوار ہوگی ۔ مشکوک و شبہات کا ازالہ ہوگا ظن و تخمین کافور ہونگے۔ مومنین کے سینے کو شفاء ہوگی اور حق ظاہر ہوگا ۔بے وقوف ہٹ دہرم لائق تخاطب نہ ہے ۔ اللہ جل جلا لہ سے مدد ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔
خلاصہ کتاب بصورت خاکہ :
کتاب 4 اقسام پر مشتمل ہے جو 12ابواب میں منقسم ہے اور 12ابواب ذیلی 155فصول میں منقسم ہیں ۔
خصوصیات کتاب:
عشق میں ڈوبی تحریر:
افریقی سیرت نگاروں میں قاضی عیاض کا نام '' کتاب الشفاء '' کی بدولت سیرت کی بلندیوں تک جا پہنچا ۔ قاضی صاحب نے رسولِ اکرم ﷺ کے اخلاق ، معجزات ،اور کرامات کو ایسے طریقے سے بیان کیا کہ انکی والہانہ عقیدت و محبت نکھر کر سامنے آ گئی ہے ۔ ایسی وارفتگی پہلے کسی کتاب میں نہ دیکھی گئی ۔کتاب کا ایک ایک لفظ عشق ِرسالت مآب ﷺ کے بحرِ بے کنار میں غوطہ زن ہے ۔ عشق میں ڈوبی یہ تحریر اپنی مثال آپ ہے ۔
اسلوب نگا رش:
الشفاء کا اسلوب تحریر سادہ ، سلیس اور رواں دواں ہے ۔عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا سمندر مو جزن ہونے کے ساتھ ساتھ معانی و حکمت کا ایک خاموش دریا بھی رواں دواں ہے ۔ جسکی خاموش روانی کیفیت ، محبت و الفت اور وجدان کو تعظیم و توقیر کے جذبات میں سموئے ہوئے جاری و ساری ہے اور باعث دلکشی ہے ۔
موجز و دلپذیر:
کتاب کی ایک نمایاں خوبی اس کتاب کا ایجاز و اختصار اور دلپذیری ہے ۔ کتاب نہ تو اتنی معضل و مطول ہے کہ قاری کے لئیے طوالت باعث کبید گی خاطر بنے اور نہ ہی کتاب اتنی مختصر ہے کہ اختصار کی وجہ سے مفاہیم و مطالب تک رسائی نہ ممکن نظر آئے ۔ کتاب کا ایجاز و اختصار اور دلپذیری '' جوامع الکلم '' کے چشمہء صافی سے فیض یاب ہے اور جوامع الکلم کی کرنیں اس کتاب کو اپنے انوار میں ضم کر چکی ہیں بسا اوقات معانی کا ایک سمندر موجزن ہوجاتا ہے
جامعیت و معنویت:
قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کی کتاب مستطاب کی ایک خوبی اور خصوصیت اسکی جامعیت و معنویت ہے ۔کتاب کا قاری متعلقہ موضوع پر کسی قسم کی کوئی تشنگی محسوس نہیں کرتا ہے ۔کتاب نے سیرت و صورت کے تمام عنوانات کو سمو کر ایک گلشن بنادیا ہے ۔ جس کا ہر عنوان ایک گلدستہ کی صورت میں شافی اور باقی اور معنویت کی خوشبوئے دلآویز سے معمور ہے ۔
تحریک عمل:
حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کتاب الشفاء میں محبت رسول ﷺ کی علامات مختلفہ کا ذکر جمیل بھی کیا ہے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ محبوب کی ہر محبوب شے سے محبت کی جائے اور ہر مبغوض شے سے بغض رکھا جائے یہی بات کامل ایمان اور سچے محب صادق کی ہے ۔ اس انداز سے آپ کی یہ کتاب مستطاب قاری میں تحریک عمل کو پروان چڑھاتے ہوئے اتباع اور اطاعت رسول ﷺ کا درس دیتی ہے ۔
ماخذ و مرجع:
کتاب الشفاء کو حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کے خلوص کے نتیجے میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیرت نگاروں ، محدثین اور مفسرین و محققین نے اس کتاب کو اپنے سر اور آنکھوں پر بٹھایاہے ۔سیرت کی کوئی کتاب ایسی نہ ملے گی جس میں '' الشفاء '' کے حوالہ جات کوڈ نہ کیے گئے ہوں ۔ میرے نزدیک صرف الشفاء کا مطالعہ خیر و برکت اور دارین کی سعادتوں کے حصول کا واحد ذریعہ ہے ۔
مقصد تالیف:
قاضی عیاض علیہ الرحمۃ کے نزدیک '' الشفاء '' کی تالیف کا مقصد ہے کہ سرور کون و مکاں ﷺ کی اللہ جل جلا لہ کے ہاں جو قدرو منزلت ہے اسکو قلوب و اذہان میں بدرجہ اتم اجاگر کی جائے تاکہ تعظیم و توقیر میں کسی قسم کی کوتاہی دارین کی سعادتوں سے محرومی کا سبب نہ بنے ۔ محبت رسول ﷺ کے چھلکتے ہوئے جام سے مست ہو کر غلبہء اسلام کے لئیے دیوانہ وار میدان عمل میں اتر کر ساری دنیا پر چھاجائیں اور اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنادیں ۔
معانی و حکمت کا بحر بے کنار:
الشفاء شریف '' جہاں نابغہء روز گار شخصیات کے لئیے داد تحقیق کی تحسین حاصل کرتی ہے تو ساتھ ساتھ یہ کتاب معانی و حکمت کا ایک بے کنارا سمندر ہے ۔آپ علیہ الرحمۃ معانی وحکمت کا استنباط اس انداز سے کرتے ہیں کہ اندھیرا ، ظن وتخمین اور پیچیدگیاں اجالا ، جزم و یقین اور آسانیوں کی شاہراہ پر گامزن ہونا پڑتا ہے ۔کتاب رشد وہدایت کا ایک منارہ نور ہے ۔
مستند اور ما خذ:
عربی زبان میں یہ کتاب نہایت مستند اور ماخذ کے درجہ میں ہے ۔ کتاب کے منصہء شہود پر آنے سے اب تک اھل سیر ، محدثین اور مؤرخین کے لئیے یہ کتاب منظور نظر اور قبول صورت رہی ہے کیونکہ کتاب کے دلائل و براھین آفتاب نیمروز کی طرح روشن ہیں اور رطب و یابس کی خار دار جھاڑیوں سے پا ک ہیں ۔ جن میں مستند ، مستحکم ، اور صحیح اقوال و افعال اور تقریرات کا ایک گلشن بسا ہوا ہے۔ جسکی مہک نے ایمان و یقین ، تعظیم و توقیر ، اور معرفت حقوق کے غنچے کھلادئیے ہیں ۔ علم و عرفان کے سمندر اور علم وفضل کے پہاڑ اس کتاب کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں ۔
مصادر و مراجع:
حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے اس رفیع المرتبت کتاب مستطاب کو قرآن و حدیث ، اقوال اصحاب و تابعین ، کتب شمائل و خصائل ، سیر ومغازی ، دلائل نبوت ، تاریخ و انساب ، اور تفسیر و تاریخ وغیرہ جیسے اہم مصادر و مراجع سے داد تحقیق دی ہے ۔ مصادر و مراجع اتنے مستند اور مستحکم ہیں کہ مدت مدید گزرنے کے باوجود کوئی بھی اس کتاب پر انگشت نمائی کی جسارت نہ کرسکا ۔امت کے قبول کرنے کی وجہ سے اس کتاب کی اسنادی حیثیت میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ ہے ۔
محل نظر روایت:
سیرت نگاروں نے '' الشفاء '' کو ایک مستند اورقابل اعتماد ماخذ کے طور پر اپنایا ہے ۔ تاہم کمال الدین دمیری کے نزدیک ، اس قابل اعتماد ما خذ میں مندرجہ ذیل روایت محل نظر ہے ۔
'' قا ضی عیاض کی کتاب '' الشفاء '' لکھا ہے 30۔کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں مبتلا ہونے کا سبب یہ تھا کہ ایک دن باپ اور بیٹا ایک دستر خوان پر بیٹھے ہوئے حلوان (حمل) کا بھنا ہوا گوشت کھا رہے تھے اور آپ کے مکان سے ملا ہوا ایک یتیم بچہ کا مکان تھا۔ جب اسکو بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو پہنچی تو اس کا دل بھی اس بھنے ہوئے گوشت کے لئیے چاہنے لگا مگر ناداری اور غربت کی وجہ سے وہ رونے لگا اور ساتھ ہی اس کی بڑھیا دادی بھی رونے لگی ۔ لیکن حضرت یعقوب علیہ السلام اس واقعہ سے بالکل لاعلم رہے۔ لہٰذ ا حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فر زند حضرت یو سف علیہ السلام کے فراق میں مبتلا ء کردئیے گئے اور آپ علیہ السلام ان کے فراق میں اس قدر روئے کہ روتے روتے آپکی آنکھیں سفید ہوگئیں ، پھر جب حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے یہ قاعدہ مقرر کرلیا کہ کھانا کھانے سے پہلے چھت پر چڑھ کر یہ آواز لگوایا کرتے تھے کہ جوکوئی بھوکا ہو یعقوب کے گھر آکر کھانا کھا لے اور جو روزہ سے ہو وہ روزہ افطار کرلے ۔
اس روایت کے بارے میں علامہ دمیری فرماتے ہیں کہ میں اس روایت کو درست نہیں سمجھتا اور میں حیرت زدہ ہوں کہ قاضی عیاض جیسے شخص نے اس واقعہ کو اپنی کتاب میں کیسے جگہ دی ۔حالانکہ یہ وہ معاملہ رزیلہ ہے جس سے حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کی براءت ضروری ہے ۔ اور اس نے اس واقعہ کو اپنی کتاب میں صرف اس لئیے نقل کیا ہے تاکہ میں آگاہ کردوں کہ اس واقعہ کو میں درست نہیں مانتا ۔اگرچہ طبرانی نے اپنی کتاب معجم الاوسط والصغیرمیں حضرت انس کی طویل روایت بیان کی ہے ۔ جس میں یہ بھی شامل ہے کہ اس واقعہ کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام جب کھانا کھانے کا قصدفرماتے تو آواز لگاتے کہ جو شخص کھانا کھانا چاھے وہ میرے ساتھ کھا لے اور جب آپ روزہ رکھتے تو افطار کے وقت اعلان فرماتے کہ جو شخص روزہ دار ہو میرے ساتھ آکر افطار کرے ۔اس روایت کو طبرانی نے اپنے شیخ محمد بن 31احمد الباہلی البصری سے نقل کیا ہے جو کہ نہایت ضعیف راوی ہے ۔ بیہقی نے بھی شعب الایمان میں اسی طرح اس روایت کو بائیسویں باب میں نقل کیا ہے ''32
'' قلت : وھٰذ الکلام لا اعتقد لہ صحۃ وقد عجبت من القاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کیف ذکرہ فی کتابہ والذی یجب تنزیھا عن ھٰذہ الرذیلۃ ، وانما ذکرتہ لابنہ علی انہ لا یعتقد صحتہ''33
حضرت کمال الدین دمیری نے مذکورہ روایت کی صحت کا انکار فرمایا ہے ۔اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کی نزھت اور تنزیہہ کو اس روایت سے ضروری گردانتے ہیں ۔وجہ تنزیہہ نہ بتائی روایت کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔
خلاصہ ء ابحاث:
حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ اندلسی اور افریقی سیرت نگاروں میں ایک انفرادی اور امتیازی حیثیت کے حامل ہیں ۔ کتاب مستطاب '' الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ '' کتب سیرت میں ماخذ اور مرجع کا مقام و مرتبہ رکھتی ہے ۔مابعدسیرت نگار کتاب ھٰذا سے کسی صورت میں بھی نہ بے نیاز رہے ہیں اور نہ رہ سکتے ہیں ۔ کتاب مستطاب کیف و سرور سے معمور ہے ۔اور قاری میں جذبہء حب واطاعت رسول ﷺ پروان چڑھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے ۔ عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ اس کتاب کو فروغ دینے سے محبت رسول ﷺ کے ضمن میں محبت و اخوت ، صلح وآشتی ،اور امن و سکون کے جذبات اجاگر ہونگے اور ہر جگہ امن و امان کا دَور دَورہ ہوگا ۔ کیونکہ کتاب شفاء بمعنیٰ صحت اور دوا ءہے ۔انسداد دہشت گردی اور فروغ امن کے لئے شفا '' شفا ''34ثابت ہو گی ۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, Allama Iqbal Open University.
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Shāh ‘Abd al-‘Azīz, Bustān al-Muḥaddithīn, Taraslater: ‘Abd al-Samī‘ (Karachi: H.M Sa‘īd Company S.N), 346.
2 Sayyid Ghulām Mu‘īn al-Dīn Na‘īmī, Na‘īm al-‘Atā Fī Aḥādīth al-Mujtabā (Lahore: Maktabah A‘lā ḥadhrat, 1424 A.H),10.
3 Shāh ‘Abd al-‘Azīz, Bustān al-Muḥaddithīn, 346.
4 Sayyid Ghulām Mu‘īn al-Dīn Na‘īmī, Na‘īm al-‘Atā Fī Aḥādīth al-Mujtabā, 10.
5 Shāh ‘Abd al-‘Azīz, Bustān al-Muḥaddithīn, 346.
6 Shāh ‘Abd al-‘Azīz, Bustān al-Muḥaddithīn, 347.
7 Sayyid Ghulām Mu‘īn al-Dīn Na‘īmī, Na‘īm al-‘Atā Fī Aḥādīth al-Mujtabā, 11.
8 Nūr al-Dīn bin Sultān Muḥammad Harvī Mullā ‘Alī Qārī, Sharaḥ Al-Shifā’ (Beirūt: Dār al-kutub al-‘ilmiyyah, 2007 A.D), 1:6.
9 Sayyid Ghulām Mu‘īn al-Dīn Na‘īmī, Na‘īm al-‘Atā Fī Aḥādīth al-Mujtabā, 12.
10 Mawlānā ‘Abd al-ḥakīm Chishtī, Fawā’id Jāmi‘ah bar ‘Ujālah Nāfi‘ah, (Karachi: Mīr Muḥammad Kutub Khānah, S.N), 66,67.
11 Shāh ‘Abd al-‘Azīz, Bustān al-Muḥaddithīn, 344,345,346.
12 Sayyid Ghulām Mu‘īn al-Dīn Na‘īmī, Na‘īm al-‘Atā Fī Aḥādīth al-Mujtabā, 12.
13 Shāh ‘Abd al-‘Azīz, Bustān al-Muḥaddithīn, 344.
14 Shāh ‘Abd al-‘Azīz, Bustān al-Muḥaddithīn, 344,345.
15 Hājī Khalīfah Kātib Chilpī, Kashf al-Ẓunūn ‘An Asāmī al-kutub wa al-Funūn (London: printed for the oriental,translation fund of great britain and ireland), 2:1055.
16 Sayyid Ghulām Mu‘īn al-Dīn Na‘īmī, Na‘īm al-‘Atā Fī Aḥādīth al-Mujtabā, 13.
17 Abu al-Faẓhal Qāẓhī ‘Ayyāẓh bin Mūsā bin ‘Ayyāẓh bin ‘Amr, Al-Shifā’ bi Ta‘rīf e ḥuqūq al-Mustafā (Mutan: ‘Abd al-Tawwāb Academy, S.N), 2:272.
18 Qāẓhī ‘Ayyāẓh, Al-Shifā’ ,1:2.
19 Qāẓhī ‘Ayyāẓh, Al-Shifā’ ,2:271.
20 Sayyid Ghulām Mu‘īn al-Dīn Na‘īmī, Na‘īm al-‘Atā Fī Aḥādīth al-Mujtabā, 13.
21 Mullā ‘Alī Qārī, Sharaḥ Al-Shifā’, 1:3.
22 Mullā ‘Alī Qārī, Sharaḥ Al-Shifā’, 1:4,9.
23 Qāḍhī ‘Ayyāḍh, Al-Shifā’ Muqadamah, 1:1.
24 Mullā ‘Alī Qārī, Sharaḥ Al-Shifā’, 1:9.
25 Mullā ‘Alī Qārī, Sharaḥ Al-Shifā’1:4.
26 Sayyid Aḥmad ‘Alī Shāh Batālvī, Darbār e Mustafā ky Haqūq wa ādāb (Lahore: Farīd Book Stall, 2001 A.D), 3.
27 Qāḍhī ‘Ayyāḍh, Al-Shifā’ 4:01.
28 Mullā ‘Alī Qārī, Sharaḥ Al-Shifā’, 1:3.
29 Qāḍhī ‘Ayyāḍh, Al-Shifā’ ,1:03.
30 Qāḍhī ‘Ayyāḍh, Al-Shifā’ ,2:182.
31 Abu al-Qāsim Sulemān bin Aḥmad Tabrānī, Al-Mu‘ajam al-Saghī (Beirūt: Dār al-kutub al-‘Ilmiyyah, 1434A.H), 601. Hadith No.857.
32 Damīrī, Hayāt al-ḥaiwān, Mutarjam: ‘Abd al-Rashīd Shujā‘ ābādī (Lahore: Maktabah Khalīl, 2011 A.D),
33 Abu al-Baqā’ Muḥammad bin Mūsā bin ‘Alī Kamāl Shāfi‘ī Damīrī, Hayāt al-ḥaiwān (Misr: Intishārāt Amīr Khusrū, S.N), 1:378.
34 ‘Abd al-Awwal bin Karāmat ‘Alī bin Imām Bakhsh Jawnpurī, Al-Mantūq Li ma‘rifat al-Furūq (Lakhnaw: Matba‘ āsī, 1316 A.H), 32.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |