2
1
2021
1682060063651_3194
1-16
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/20/25
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/20
أ ﻷمِیر:جلد02؍ شمارہ 01 ..( جنوری –جون1 220ء) )9(
سبعۃ اَحرف و قراءاتِ قرآنیہ ؛ایک تحقیقی جائزہ
A Research Review of Sab‘a Aḥraf and Recitation of the holy Qur’an in different ways
Hafiz Abdul Rauf
“This Quran has been revealed in seven different ways; so, recite it in the way that is easier for you.” This hadith is Recurrent in meaning. The narrator Imam Abu Ubaid Qasim Bin Salam (R.A) has elucidated its recurrence. Imam Abn-e- Jouzi (R.A) has collected all its ways in a Journal. What is meant by “Seven Words” in this Hadith? It has been a controversial point among the ulemas and scholars. And no doubt, it has been regarded as the most difficult debate of Uloom-ul- Quran. There have been severe controversies in this regard, so far as Allama Ibn-e - Arabi has mentioned thirty-five sayings. Some of them are as following:
Some think these are the ways of recitations of seven famous Qaries.
Some think that it means all the ways of recitations. But “Seven” does not means the number 07, because in Arabic language, it is used to describe the plenty of something. Qazi Ayyaz from Earleir Ulemas had the same opinion, while in the later period; Shah Wali-Ullah also had the same views.
Some think that it means seven dialects of Arab Tribes. Imam Abu Hatim Sajestani (R.A) determined the name of these languages. They are Quraish, Hazial, Teem, Al-Rubab, Azd, Rabbia, Hawazan, and Saad bin Abi-Bakar. Hafiz Abn-e- Jareer Tibri (R.A) agreed to this school of thought. The fourth famous saying is that of Imam Tehavi (R.A.) he says that although he Holy Quran has been revealed in the dialect of Quraish. But it was difficult for the people of other tribes, which came of different areas of Arab. That is why, in the beginning, they were permitted to recite the Holy Quran in their local languages, and the words or ways were determined by the holy prophet (P.B.U.H) himself. Later, it was prohibited. There remained only the one way of recitation in which the holy Quran was revealed. HAzrat Sufian bin Aiena (R.A), Abn-e-Wahab (R.A) and Hafiz Ibn-e- Abdul Bar (R.A) agreed to this opinion.
Famous interpreter Allama Nizamul Din Nishapori (R.A) says that it means the following differences in the recitation.
Differences between Singular and Plurals
Differences between Muscular and Feminine
Differences of the causes of Araabs
Differences of Morphology (Formation of Words)
Differences of syntax (Sentence Structure)
Differences of the ways which changes words
Differences of dialects
Allama Abn-e- Qutaiba, (R.A), Imam Razi Qazi (R.A) and Abu Bakar(R.A) and Abn-e Aljuzri (R.A) also adopted this saying of Allama Nisahpuri.(R.A).
Key words: Qurān, Qira’at, Pronunciation, Qaries.
تعارف:
حدیث مبارکہ ہےکہ" تحقیق یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے پس پڑھو اس میں سے اس طریقے پر جو تمہارے لئے آسان ہو"۔ 1 اس حوالے سے مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں۔بعض سبعۃ احرف سے عرب قبائل کا لہجہ و اداء ،بعض اس سے سات لغات ،بعض سات قراءات اور بعض نے سات قراء کی قراءات مراد لی ہیں۔ کچھ ائمہ کرام کے نزدیک سبعہ احرف سے سبعہ وجوہ مراد ہیں لیکن ان کے تعین میں اختلاف ہے۔سبعہ احرف پر قرآن کا نزول حکمت و فوائد سے خالی نہیں ہے ۔اس میں امت کے لیے تخفیف و سہولت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔لہذا اُن تمام وجوہ و اسباب،حکمتوں اور مختلف مفسرین کے اقوال و اختلاف کا تحقیقی جائزہ مقالہ ہذا میں لیا جائے گا۔ابتدائی طور پر سبعہ احرف کا مفہوم پیش خدمت ہے:
مفہوم ِسبعہ احرف:
احرف جمع ہے حرف کی ۔ اس کا مادہ "ح ر ف" سے مشتق ہے۔ اس کے معنی وجہ اور کنارہ کے لیے بھی مستعمل ہوتے ہیں۔ جیسے:
"وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ"2
"فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَة"3
"جو تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے ، اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے"۔
اس سے کثرت اور تعدد مراد ہے ۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُم4
"(اے نبی ﷺ) اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا"۔
قراءات
'قراءات' "قراءۃ" کی جمع ہے او رلغۃ لفظ قراءۃ مادہ 'ق را' سے مشتق، اور 'فعالہ' کے وزن پر ہے۔
علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"یعتبر القراءات ذات مدلول واسع، فهى تشمل الحدیث عن الفاظ القرآن المتفق عليهاوالمختلف فيها"۔5
"قراءات کا مدلول بہت وسیع ہے، جس میں متفق علیہ او رمختلف فیہ الفاظ قرآنی شامل ہیں"۔
ان مفهوم القراءات مقصور علی الفاظ القرآن المختلف فیها۔
"قراءات کا مفہوم قرآن کریم کے الفاظ مختلفہ تک منحصر ہے"۔
نزولِ قرآن کی سبعہ احرف میں فوائد و حکمتیں
1۔امت کیلئے تلفظ میں سہولت و تخفیف
قرآن کا سات قراءتوں پر نازل ہونا حکمت و فوائد پر مبنی ہے جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں ۔پہلی تو یہ کہ قرآن کا سات قراءتوں پر نزول امت کی آسانی کے لیے ہے جس کی خواہش خود حضورﷺ نے کئی مواقع پر کی اور دعا بھی فرمائی۔ عرب کے بول چال اور تلفظ و لہجوں میں کافی فرق تھا جس میں ایک حد تک لسانی تعصب بھی پایا جاتا تھا۔اس صورت حال میں اگر انہیں ایک ہی لہجے کا مکلف بنا دیا جاتا تو اُن کے لیے یہ مشقت کا کام ہوتا۔ سبعہ احرف پر قرات قرآن کرنے کی اجازت ملنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جیسے مرضی قرآن کی تلاوت کی جائے بلکہ فقط اس حد تک اجازت تھی کہ جتنی حضور ﷺ نے اُس کی تحدید فرمائی اگر اجازت عامہ سمجھیں تو بخاری کی یہ روایت خُذُوا القُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَبَدَأَ بِهِ ، وَسَالِمٍ، مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ6
"یعنی چار صحابہ ابن مسعود ، سالم مولی ابی حذیفہ ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب سے قرآن پڑھو ان کا کوئی مفہوم نہیں"۔
2۔حکم کا بیان
قرآن مجید میں آتا ہے کہ : وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ7 ۔ یہی آیت حضرت سعد بن ابی وقاص کی قرآت میں سے ہے (وله اخ او اخت من ام)۔ اس قرآت میں حرف' ام' زائد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکم میں ماں شریک بہن بھائی مرادہیں۔
3۔دو مختلف حکموں کو یکجا کرنا
دو حکموں کو یکجا کرنے کی مثال یہ ہے کہ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ8 يَطْهُرْنَ ایک قرآت میں طاء کی حرکت سکون کی ہے۔ دوسری قراءت میں' طاء' کی حرکت تشدید ہے ۔مشدد کا صیغہ حیض سے طہارت میں مبالغہ کے معنی میں ہے ۔ جس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ حائضہ عورت جب پاک ہو جائے اور غسل کر لے تب اُس سے قربت کی جائے۔
4۔ وہم کا دور کرنا جو مراد نہ ہو
یعنی ایسے وہم کا دور کرنا جو آیے سے مراد ہی نہ ہو مثلاً آیت ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ9 اور ایک آیت میں آتا ہے فامضوا الی ذکرالله اس سے یہ وہم ہو سکتا تھا کہ اس میں تیز ی سے چلنے کا حکم ہے جوکہ مراد نہیں ہے۔ یہ وہم فامضوا سےدور ہو گیا۔ کیونکہ اس کے معنی میں تیزی شامل نہیں ہے۔
5۔مبہم الفاظ کا بیان
وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ10اور ایک قراءت "کالصوف المنفوش" ہے اور دوسری قراءت میں "عهن "سے صوف(اون) مراد ہے۔
6۔ایک دوسرے کے بدل دو شرعی کا بیان
ایک کی جگہ دوسری قراءات استعمال کرنے سے دو علیحدہ علیحدہ شرعی مسئلے واضح ہوتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں ۔ جیسے وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ11اور وَأَرْجُلِكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
حجیتِ قراءت قرآن کی روشنی میں
قرآن کے مخاطب صرف قریش یا عرب قبائل نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی ساری نسل انسانیت ہے اس لئے قرآن کریم نے اسلامی تعلیمات کو آسان و سہل بنایاہے اور یہی حکم آپ اور علماء امت کو ہے ، ارشاد ربانی ہے :
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ12
"اللہ آسانی چاہتا ہے ، تنگی و مشکل نہیں"۔
ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی پیدا کی ہے متعد دمقاما ت پر فرمایا ہم نے قرآن کو آسان بنایاہے ظاہر ہے مختلف لہجوں میں تلاوت قرآن کی اجازت آسانی پیدا کرنا ہے، اپنے نبی کو مخاطب کر کے فرمایا:فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ13۔
حجیتِ قراءات حدیث کی روشنی میں
قرآن ایک کلام الہٰی ہے ، جس کا اجراء عام انسانی زبانوں پرغالباً مشکل ہوتاہے لہذا لسان نبوی ﷺ پر اجراء کرکے اس کی تعلیم کو سہل بنایاگیا ہے۔اشارۃ النص سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم مختلف لہجوں میں تلاوت منشاء قرآنی کے مطابق ہے۔
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: يَا جِبْرِيلُ إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمِّيِّينَ: مِنْهُمُ العَجُوزُ، وَالشَّيْخُ الكَبِيرُ، وَالغُلاَمُ، وَالجَارِيَةُ، وَالرَّجُلُ الَّذِي لَمْ يَقْرَأْ كِتَابًا قَطُّ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ14
حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جبریل سے ملاقات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے جبریل میں ایسی امت کی جانب بھیجا گیا ہوں جو امی ہے، اور اس میں بوڑھے ، عمر رسیدہ ، غلام افراد بھی ہیں ، جو قرآن کریم کی تلاوت (ایک لہجہ) میں نہیں کر سکتے تو جبریل نے فرمایا : اے محمدﷺ قرآن کریم کو سات لہجوں میں تلاوت کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ متعدد احادیث موجود ہیں جن میں قرآن کریم کو سات قراءت میں پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے :
"سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، يَقْرَأُ سُورَةَ الفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، وَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ لِي: «أَرْسِلْهُ»، ثُمَّ قَالَ لَهُ: «اقْرَأْ»، فَقَرَأَ، قَالَ: «هَكَذَا أُنْزِلَتْ»، ثُمَّ قَالَ لِي: «اقْرَأْ»، فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: «هَكَذَا أُنْزِلَتْ إِنَّ القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ" 15
"میں نے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہشام بن حکیم کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا ۔ میں نے ان کی قراءت میں غور کیا کہ وہ بہت سے حرفوں پر پڑھ رہے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے ۔ میں نے چاہا کہ میں انہیں نماز ہی میں دبوچ لوں پھر میں نے صبر کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیر دیا ۔ میں نے چادر کے ساتھ انہیں دبوچ لیا اور کہا : میں نے تمہیں جو پڑھتے سنا ہے تمہیں یہ سورت کس نے پڑھائی ہے؟ کہا : رسول اللہﷺ نے، میں نے کہ : تم جھوٹ بولتے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا ۔ پھر میں انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا اور عرض کی۔ یہ سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے ہیں جو آپ ﷺنے مجھے نہیں پڑھائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس چھوڑ دو اے ہشام پڑھو!جس طرح میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سنا تھا اسی طرح پڑھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی یقیناً قرآن مجید سات احرف پر نازل ہوا ان میں سے جو آسان لگے اس کے مطابق پڑھ لو"۔
سبعہ احرف کی وضاحت آنجنابﷺ کی زبان اقدس سے نہ ہونے کی وجہ
آنجنابﷺ نے بے شمار مواقع پر حروف سبعہ کے الفاظ کومختلف الفاظ سے ذکر فرمائےہیں مگر اس کی وضاحت کہیں سے بھی ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی کا اس کے متعلق سوال کرنا ثابت ہے۔
اس کی ایک تو وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ لوگوں میں جو بات معروف ہوتی ہے یا عام ہوتی ہے اُس کو ذکر کرنے کی یا باقاعدہ وضاحت کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی سبعہ احرف چونکہ صحابہ میں معروف تھی اس لیے حضورﷺ نے اس کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی ہو گی۔
کیونکہ قراءاتِ سبعہ کے الفاظ میں تلفظ و ادا ء کا اختلاف تھااس لیے آپ نے وضاحت نہ فرمائی اور نہ ہی صحابہ کرام نے اس کی وضاحت چاہی کیونکہ معاملہ بالکل واضح تھا ۔ بصورت دیگر نبوت کے منصب بلغ ما انزل الیک پر الزام عائد ہوتا ۔ آپ ﷺ نے ہر معاملہ کی وضاحت فرمائی سوائے بعض ان مسائل کے جو عندالناس معروف و مشہور تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے لفظ "ظلم" کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے وضاحت طلب کی۔ اگر سبعۃ احرت کی بابت کوئی سوال نہ کیا کیونکہ وہ اس کے مفہوم سے واقف تھے۔ حضور ﷺ کے درج ذیل ارشاد میں سبعۃ احرف کی وضاحت موجود ہے:
"إِنَّ هَذَا القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ "16
"تحقیق یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے پس پڑھو اس میں سے اس طریقے پر جو تمہارے لئے آسان ہو"۔
مفسرین علماء کے درمیان مسئلہ زیر بحث میں اختلاف رہا ہے نیز یہ علومِ قرآنیہ میں مشکل ترین مسئلہ شمار ہوتا ہے ۔
حروفِ سبعہ پر تلاوتِ قرآن کی اجازت
قرآن مجید کو حروف سبعہ پر پڑھنے کی اجازت دینادرحقیقت امت محمدیہ کیلئے آسانی پیدا کرنا ہے ۔ اس میں بتانا یہ مقصود ہے کہ جو شخص ان میں سے جس طریقے پر قرآن مجید کو پڑھےلے وہ درست ہے ۔ چنانچہ اس کی وضاحت امام مسلم کی درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے :
"عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَ أَضَاةِ بَنِي غِفَارٍ، قَالَ: فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَقَالَ: «أَسْأَلُ اللهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ»، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: «إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفَيْنِ»، فَقَالَ: «أَسْأَلُ اللهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ»، ثُمَّ جَاءَهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَحْرُفٍ، فَقَالَ: «أَسْأَلُ اللهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ»، ثُمَّ جَاءَهُ الرَّابِعَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُكَ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَأَيُّمَا حَرْفٍ قَرَءُوا عَلَيْهِ فَقَدْ أَصَابُوا"۔17
"حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بنو غفار کے تالاب کے پاس تھے ۔ آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا کہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی امت قرآن کو ایک حرف پر پڑھے آپ ﷺ نے فرمایامیں اللہ تعالیٰ سے معافی او ربخشش مانگتا ہوں میری امت یہ طاقت نہیں رکھتی پھر جبریل علیہ السلام دوبارہ حاضر ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ کی امت قرآن کو دو حرفوں پرپڑھے۔ آپ ﷺ نے فرمایامیں اللہ تعالیٰ سے معافی اور بخشش مانگتا ہوں میری امت میں اس قدر طاقت نہیں ہے پھر وہ تیسری مرتبہ آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نےآپ کی امت کو تین حرفوں پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے آپ ﷺ نے معافی اور مغفرت طلب کی کہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی حتیٰ کہ پھر وہ چوتھی بار آئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی امت قرآن حکیم کو سات حرفوں پر پڑھے پس وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے ان کی قراء ت درست ہوگی"۔
حدیثأُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ کی تشریح میں سلف و خلف نے درج ذیل چار اقوال کوترجیحا اختیار کیا ہے:
سبعه احرف بمعنی وجوہ
سبعه احرف بمعنی اوجه مقروءۃ لا تزید عن السبع
سبعه احرف بمعنی سبع لغات مختلفة الالفاظ متفقة المعانی ای المترادفات
سبعه احرف بمعنی سبع لغات مفرقة فی القرآن
ان سب کی تفصیل ترتیب سے درج ذیل ہے
قول اول : سبعہ احرف بمعنی وجوہ
قول کے قائلین میں امام مالک ، ابن قتیبہ الدینوری ، امام ابن الجزری ، امام عبدالعظیم اور محمد علی الصابونی کے نام شامل ہیں جن کا اس پر اتفاق ہے کہ سبعہ احرف سے سبعہ وجوہ مراد ہیں لیکن ان کے تعین میں اختلاف ہے ۔
سات اقسام کی تشریح
اسماءکا اختلاف
جس میں مفرد ، تثنیہ ، جمع اور مذکر و مؤنث کا اختلاف ہے۔ جیسا کہ وَتَمَّتْ کَلِمَتُ18جس کی ایک قراءت وَتَمَّتْ کَلِمٰتُبھی ہے ۔
اختلافِ افعال:
یعنی کسی قراءت میں صیغہ ماضی ہو اور کسی میں مضارع او رکسی میں امر۔مثلاً ایک قراءت میںرَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا19 ہے اور دوسری میں(رَبُّنَا بَاعَدَ بَيْنَ أَسْفَارِنَا) ہے ۔
جس میں اعراب یعنی زبر زیر پیش کا فرق ہو۔ مثلاً (لَا يُضَارَّ كَاتِبٌ) 20 کی جگہ(لَا يُضَارُّ كَاتِبٌ) اور (ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ) 21 کی جگہ (ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدِ)
الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف
کہ ایک قراءت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو۔
مثلاً ایک قراءت میں (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى) 22ہے اور دوسری میں (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى) ہے اور وَمَا خَلَقَ نہیں ہے۔
تقدیم و تاخیر کا اختلاف
کہ ایک قراءت میں لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہے مثلاً (يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ23) اور (يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلُونَ وَيَقْتُلُونَ)
اختلافِ بدلیت
یعنی قراءتِ اول میں اور قراءتِ ثانیہ میں ایک مقام پر دو مختلف الفاظ کا اختلاف ہونا ۔ جیسا کہ نُنْشِزُهَا24کی جگہ نُنْشِرُهَا ا ور فَتَبَيَّنُوا25 کی جگہفَتَثبَتُوا کے الفاظ سے تبدیلی کا پایا جانا۔
اختلافِ لہجہ
یعنی اظہار وادغام ، تفخیم وترقیق ، امالہ وقصر ، مد اور ہمزہ و غیرہا کے اختلافات۔ جیسا کہ لفظ موسیٰ کی ایک قراءت امالہ کے ساتھ ہے اور دوسری قراءت بغیر امالہ کے ہے ۔
حضرت امام ابوالفضل رازی کے استقراء میں درج بالا تمام اختلاف و ضاحت کے ساتھ جمع ہیں اس لیے مسئلہ سبعۃ احرت ان کے استقراء کے عین مطابق ہے ۔ ابن الجزری نے بھی بعد از تحقیق سبعۃ احرف کو وجوہ سبعہ پر محمول کرتے ہوئے امام ابو الفضل رازی کا قول نقل کیا ۔ 26
ابن قتیبہ فرماتے ہیں:
"وقد تدبّرت وجوه الخلاف في القراءات فوجدتها سبعة أوجه"27
"میں نے قراءات کےاختلاف میں غور کیا تو میں نے سات وجوہ پائیں"۔
اختلاف ِ اعراب
اول
حرکات کی ایسی تبدیلی جس سے لفظ کی صورت نہ بدلے ۔ جیسے وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُور28کی بجائےوَهَلْ یُجَازِي ٰإِلَّا الْكَفُور۔
الثانی
حرکات کی ایسی تبدیلی جس سے لفظ کی صورت تو نہ بدلے مگر معنی بدل جائے۔ جیسے رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا29 کی بجائے رَبُّنَا بَاعَدَ بَيْنَ أَسْفَارِنَا۔
الثالث
ایسا اختلافِ کلمہ جس سے کلمہ کی صورت تو بدل جائے مگر معنی میں تبدیلی نہ ہو ۔ جیسے (كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ30(كَالصَوفِ الْمَنْفُوشِ)
الرابع
ایسا اختلافِ کلمہ جس سے کلمہ کے معنی او ر صورت دونوں میں تبدیلی واقع ہو جائے۔ جیسے (وَطَلْعٍ مَنْضُودٍ31)، (وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ)
الاخامس
اختلافِ تقدیم و تاخیر ۔ جیسے (وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقّ32)، (وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْحَقّ باِالْمَوْتِ)
السادس
اختلاف نقص وزیادت ۔ جیسے(وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ33)، (وَمَا عَمِلَتْ أَيْدِيهِمْ)
قول ثانی
"سبعه احرف بمعنی اوجه مقروءة لا تزید عن السبع"۔
اس مؤقف میں 'اوجہ' سے مراد سبعۃ احرف کا مصداق کسی چیز کوبھی قرا رنہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اس سے سبعہ لغات مراد ہیں۔ یہ حضرات سبعہ وجوہ کے قائلین نہیں ہیں۔ جزری وغیرہ نے ایسا ہی کہا ہے۔ اس لیے مذکورہ قول ناقص اور نامکمل کہا جا سکتا ہے ۔ سو اس قول کی تردید سے پہلےاس کی وہ وضاحت از حد ضروری ہے جو قائلین نے نہیں کی ہے۔34
قول ثالث
"سبعه احرف بمعنی سبع لغات مختلفة الالفاظ متفقة المعانی ای المترادفات"
اس قول کے مطابق سبعہ احرف سے سبعہ لغات مراد ہیں جبکہ الفاظ تو مختلف ہوں مگر متحد معانی رکھتے ہوں۔ الفاظ: اقبل،تعال،ھلم،عجل، اسر،وانظر، آخراور امھل وغیرہ اس کی مثالیں ہیں یا جیسا کہ لفظ 'اف ' میں بعض لغات ہیں۔ بڑے علماء کرام جن میں ابن جریر طبری ؒ ، امام طحاویؒ ، سفیان بن عینیہ ؒ ، ابن عبد البرؒ ، ابن کثیرؒ ، ابن تیمیہ ؒ ، عبداللہ بن وہب ؒ ، امام قرطبیؒ اور منا ع القطان ؒ اس قول کے قائلین میں شامل ہیں۔
امام ابن جریر الطبریؒ احرف سبعہ کے متعلق اقوال کی مختلف توضیحات اور انکی تردید کرنے کے بعد درج ذیل قول ِراجح ذکر کرتے ہیں:
"بل الأحرف السبعة التي أنزل الله بها القرآن، هنّ لغات سبع، في حرف واحد، وكلمة واحدة، باختلاف الألفاظ واتفاق المعاني، كقول القائل: هلم، وأقبل، وتعال، وإليّ، وقصدي، ونحوي، وقربي، ونحو ذلك، مما تختلف فيه الألفاظ بضروب من المنطق وتتفق فيه المعاني"۔35
"احرف سبعہ جن پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایاہے وہ ایک ہی کلمہ میں سات لغات ہیں جن کے الفاظ مختلف ہیں لیکن معنی متفق ہیں جیسے کوئی کہےھلم ، تعال، اقبل ، الی، قصدی، نحوی، اور قربی وغیرہ کہ جو اختلاف الفاظ کے باوجود متفق المعانی ہیں"۔
امام قرطبیؒ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
"وَهُوَ الَّذِي عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ كَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ وَالطَّبَرَيِّ وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ الْمُرَادَ سَبْعَةُ أَوْجُهٍ مِنَ الْمَعَانِي الْمُتَقَارِبَةِ بِأَلْفَاظٍ مُخْتَلِفَةٍ، نَحْوَ أَقْبِلْ وَتَعَالَ وَهَلُمَّ"۔36
"وہ رائے کہ جس پر اکثر اہل علم سفیان بن عینیہ ؒ ، عبداللہ بن وہب ؒ ، طبری ؒ اور طحاویؒ وغیرہم ہیں ،وہ یہ ہے کہ احرف سبعہ سے قریب المعنی اور مختلف الالفاظ وجوہ سبعہ مرادہیں"۔
ابن جریرؒ کے ساتھ ساتھ دیگر علماء کا یہ مؤقف ہے کہ حروف سبعہ سے مرادایک کلمہ میں مختلف لغاتِ عرب کا اختلاف ہے۔ اس کو وہ مترادفات سے تعبیر کرتے ہیں۔ مختلف الفاظ کو کلمہ واحد میں استعمال کی اجازت تھی۔ جیساکہ: ھلم، تعال اوراقبل وغیرہ۔مزید یہ کہ سبعہ احرف میں سے حروف ِ ستہ کے نسخ ، توقف اورحذف کے قائل ہیں ۔
حروفِ سبعہ بمعنی لغاتِ سبعہ مفرقۃ فی القرآن
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ابو عبید قاسم بن سلام، ابن عطیہ ، امام بیہقی، ا بو حاتم السجستانی ، ثعلب ، احمد الازہری اور امام دانی ؒ وغیر ہم اس قول کے قائلین میں شامل ہیں۔ حضرت عمر نزل القرآن بلغة مضر37
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔
"وعين بعضهم فيما حكاه بن عبد البر السبع من مضر أنهم هذيل وكنانة وقيس وضبة وتيم الرباب وأسد بن خزيمة وقريش فهذه قبائل مضر تستوعب سبع لغات"38
"بعض لوگوں نے لغات مضر کی تعیین بھی کی ہے جیسا کہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ مضر کی سات لغات سے ھذیل، کنانہ ضبۃ، قیس ، تیم الرباب، اسدبن خزیمہ اور قریش مرادہیں"۔
حضرت ابن عباس
"عن بن عباس قال نزل القرآن على سبع لغات منها خمس بلغة العجز من هوازن قال والعجز سعد بن بكر وجثم بن بكر ونصر بن معاوية وثقيف وهؤلاء كلهم من هوازن ويقال لهم عليا هوازن "39
"قرآن کریم سبع لغات پر نازل کیا گیا ہے جن میں پانچ عجر ھوازن سے ہیں جن میں سعد بن بکر ، جیشم بن بکر ، نصر ابن معاویہ اور ثقیف کی لغات شامل ہیں ، انہیں علیا ھوازن بھی کہا جاتاہے"۔
"وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ السِّجِسْتَانِيُّ: نَزَلَ بِلُغَةِ قُرَيْشٍ وَهُذَيْلٍ وَتَمِيمٍ وَالْأَزْدِ وَرَبِيعَةَ وَهَوَازِنَ وَسَعْدِ بْنِ بَكْرٍ"40
"قرآن کریم لغت قریش ،ھذیل تمیم، ازد، ربیعہ ، ھوازن اور سعد بن بکر پرنازل ہواہے"۔
ابن عطیہ
"إنه الصحيح أي أن الْمُرَادُ اللُّغَاتُ السَّبْع"41
"صحیح ترین مذہب یہی ہے کہ احرف سے مراد لغات سات ہیں"۔
علاوہ ازیں احمد بن الثعلب النحوی اورصاحب قاموس فیروز آبادی کا بھی مذہب یہی ہے کہ حروف سبعہ کی صحیح توضیح لغات سبعہ ہیں۔
سبعہ احرف کا اختلاف تنوع اور تغایر کا ہے نہ کہ تضاد و تناقض کا
رسول اللہ ﷺ سے روایت کردہ قراءات میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ ہمیں جو اختلاف نظر آتا ہے یہ تنوع کا ہے ۔ کلا م اللہ میں تضاد کا پایا جانا محال ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا42
"کیا یہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ، اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلاف پاتے"۔
ابن جزری فرماتے ہیں ہم نے قراءات کے اختلاف میں غور کیا تو اس کی تین صورتیں نظر آئیں۔
1۔لفظ کا اختلاف ایسا ہے معنی میں کوئی اختلاف نہیں۔
2۔دونوں کا اختلاف ایسا ہے جسے ایک ہی چیز میں جمع کیا جا سکتا ہے۔
3۔ دونوں کے اختلاف کو ایک چیز میں جمع کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ دوسرے پہلو سے دونوں متفق ہو جاتی ہیں جن میں تضاد باقی نہیں رہتا۔
پہلی صورت: اس میں اختلاف کی مثالیں: الصِّرَاط، عَلَیهم، اَلقُدُس وغیرہ۔
ان تمام کو السِّرَاط عَلَیهم ، اَلقُدس بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ اختلاف لغات کا ہے۔
دوسری صورت کی مثال: سورہ فاتحہ میں ماَلِکِ او مَلِکِ پڑھا جاتا ہے جس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے او ران کا بادشاہ ہے۔ دوسری مثال یَکذِبُونَ اور یُکَذِّبُونَ ہے اس سے مراد منافق ہیں ۔ کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کا انکار کرتے اور آپ کی باتوں کو جھٹلایا کرتے تھے۔ اسی طرح نُنشِرُھا (راء کے ساتھ) اور نُنشِزُھَا ( زاء کے ساتھ) دونوں کا مطلب ہڈیاں ہیں ۔ انشرها یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اور انشزهاانہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھا۔ یہاں کہ تک وہ اکٹھی ہو کر جڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں معانی دونوں قراءتوں میں جمع کر دیئے۔
تیسری صور ت کی مثال:وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا43تشدید اور تخفیف کے ساتھ ۔
نزولِ لغات کے ساتھ دیگراختلافی تلفظ اور نزول ِمترادفات
نبی ﷺنے امت کے لیے آسانی کی دعا بوجہ اختلاف ِلغات کے فرمائی ۔ آسانی لغاتِ مختلفہ کے ساتھ ساتھ دیگر کئی چیزیں کا نزول بھی ہو گیا۔ جیسے بعض جگہ مترادفات کو استعمال میں لا یا گیا ۔ توجیہات یہ ہیں:
1۔ اختلاف ِنزول کا مقصد کلام الہٰی کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ متصف کرناہے۔
2۔ مسائل و احکام کی تفسیر وضاحت کیلئے اختلافات کا استعمال ۔ جیسےلِأَهَبَ،لِيَهَبَ
جیسے کہ قرآنی آیت(لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا44)(لِیَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا)
لِأَهَبَ والی قراءت میں مریم ؑ کے فرشتہ نے انی طرف نسبت کر کے کہا کہ "میں تجھے پاکباز لڑکا عطا کروں گا"
جبکہ دوسری قراءت میں واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے ، اس سے مفہوم یہ ہو گا کہ "وہ اللہ تجھے پاکباز لڑکا عطا کرے گا"۔ پہلی قراءت میں فرشتے کا اپنی طرف نسبت کرنا مجاز کے طور پر ہے۔ دوسری قراءت اس لیے ہے کہ کوئی اس سے غلط مفہوم اخذ نہ کر لے ۔
بعض غیر فصیح احرفِ سبعہ ولغات کو دورِ عثمانی میں موقوف کرنا
مصاحفِ عثمانیہ میں 'سبعہ کلمات مترادفات' جن میں الفاظ تو کئی تھے لیکن سب کے ایک ہی معنی تھے۔ عثمانی مصاحف صرف ایک ایک کلمہ مترادفہ کو باقی رکھ کر لکھے گئے ، جس کے مطابق ابتداءً قرآن مجید کا نزول ہوا تھا، اور باقی چھ لغات ِمترادفہ کو ان مصاحف میں بالکل ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ جیسے : قُل تَعَالَوا، قُل هَلُمَّ میں اَقبِلُوا، اَسرِعُوا، اِعجَلُواور تَعالیٰ ،اَقبِل، اَسرع، اِعجَل کالحاظ نہیں رکھا گیا ۔ اسی طرح مَشَوا فِیهِ میں مُرُّوا فِیهِ سَعَوا فِیهِ کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا ۔ ایسے ہی لِلَّذِینَ اٰمَنُوا اُنظُروُناَ میں اُرْقُبُونَاکا اور وَاَقوَمُ قِیلاً میں اَصوَبُ قِیلاً کا لحاظ بھی بالکل نہیں رکھا گیا ۔
" اِن مترادفات کے ،'سبعہ لغاتِ عرب' اور 'سبعہ انواعِ اختلافِ قراءت'کا عثمانی مصاحف میں لغت قریش کے مطابق لحاظ رکھتے ہوئے ان کو ثابت و بدستور رکھا گیا تھا ۔ قریشی حرف و لغت ووجہ اختلافی کو تو دورِ عثمانی میں مکمل طور پر باقی رکھا گیا تھا۔ کسی فرد کو بھی موقوف نہیں کیا گیا ۔ لیکن باقی چھ احرف و لغات و انواع اختلاف قراءت جو غیر قریشی تھے ، جزوِ غالب کے طور پر اُن میں سے صرف اُن احرف ولغات و اختلافِ قراءات کو باقی رکھا گیا جو دورِ نبوی کے اخیر اور اس عرضہ اخیر میں مقروء ہوئے تھے ۔ لغتِ قریش کے تابع ہو کر وہ لغات و اختلافات عند قریش بھی معتبر مقبول اور مستعمل ہونے لگے تھے اور انہیں کی لغت شامل ہوگئے"۔ 45
باتباعِ لغتِ قریش لکھنے کا مفہوم
حضرت زید بن ثابت کی قیادت میں صحابہ کرام کی ایک جماعت کو مصحف قرآنی مرتب کرنے کے لیے حضرت عثمان غنی نے فرمایاتھا:
"إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ، فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا ذَلِكَ"46
"جب تمہارے اور حضرت زید کے درمیان قرآن کے کسی حصہ میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان پر لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کی زبان پر نازل ہوا ہے "۔
حضرت عثمان کے اسی قول سے حافظ ابن جریر اور دیگر علماء نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت عثمان نے ان چھ حروف کو ختم کر دیا اور صرف حرف قریش کو مصحف میں باقی رکھا۔ حالانکہ حضرت عثمانکے قول سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حرف ِقریش کے علاوہ باقی چھ حروف کو ختم نہیں فرمادیا تھا۔ مجموعی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کا فرمایا یہ تھا کہ دوران ِکتابتِ قرآن مجید اگر رسم الخط میں کوئی اختلاف سامنے آئے توحرف ِ قریش کو ترجیح دی جائے ۔ اس مفہوم کا اثبات یوں ہوتا ہے کہ جماعتِ صحابہ کو کتابت قرآن کے دوران صرف ایک اختلاف پیش آیا، جس کو امام زہری نے درج کیا ہے:
"فاختلفوا يومئذ في التابوت والتابوه فقال النفر القرشيون التابوت وقال زيد بن ثابت التابوه فرفع اختلافهم إلى عثمان فقال: اكتبوه التابوت فإنه بلسان قريش نزل"۔ 47
"چنانچہ اس موقع پر ان کے درمیان 'تابوت'اور 'تابوۃ'میں اختلاف ہوا ، قریشی صحابہ کہتے ہیں کہ تابوت (بڑی تا سے لکھا جائے) اور حضرت زید بن ثابت فرماتے تھے کہ تابوۃ (گول تاء سے لکھا جائے) پس اختلاف کا معاملہ حضرت عثمان کے سامنے پیش ہوا، جس پر انہوں نے فرمایا کہ اسے التابوت لکھو، کیونکہ قریش کی زبان پر نازل ہواہے"۔
اس روایت سے واضح ہوتاہے کہ حضرت عثمان نے جس اختلاف کا ذکر صحابہ کرام کو فرمایا اس سے رسم الخط کا اختلاف مراد تھا نہ کہ لغات کے اختلاف کا ۔
مصحف ِحضرت عبداللہ بن مسعود
حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عثمان غنی کے مصحف سے معترض تھے اور انہوں نے اپنے مصحف کو بھی نذر آتش نہیں ہونے دیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عثمان غنی نےحروفِ ستہ کو ختم نہیں کیا تھا توحضرت عبداللہ بن مسعود کیے اعتراض کی وجہ کیا تھی؟ جواب یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو حضرت عثمان کے کام پر درحقیقت دو اعتراضات تھے:
ایک یہ کہ کتابتِ قران میں انہیں شریک کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کا جواب تو یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی نے جب کتابت قرآنی کےکام کی ابتداء مدینہ منورہ میں کی تو اور اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود کوفہ میں تھے تو حضرت عثمان ان کے انتظار سے اس کام میں تاخیر نہیں چاہتے تھے۔ دیگر یہ کہ جس طرح حضرت ابو بکر نے حضرت زید بن ثابت کو کتاب قرآنی کے لیے مقرر فرمایا تھا اسی طرح آپ بھی یہی چاہتے تھے کہ قرآن مجید کی جمع و ترتیب کا کام بھی انہیں کی قیادت میں ہو ۔
دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت عثمان نے اِس مصحف کی جمع و ترتیب کے بعد دیگر صحائف کو جلانے کا حکم کیوں دیا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اپنا مصحف نذر آتش کرنے پر راضی نہیں تھے ۔ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت حذیفہ بن یمان نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو سمجھانے کی کوشش کی تو انہوں نے فرمایا:
"وَحُذَيْفَةُ يَقُولُ لِابْنِ مَسْعُودٍ: ادْفَعْ إِلَيْهِمْ هَذَا الْمُصْحَفَ. قَالَ: «وَاللَّهِ لَا أَدْفَعُهُ إِلَيْهِمْ، أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَسَبْعِينَ سُورَةً، ثُمَّ أَدْفَعُهُ إِلَيْهِمْ، وَاللَّهِ لَا أَدْفَعُهُ إِلَيْهِمْ"۔48
"خدا کی قسم میں یہ مصحف ان کے حوالے نہیں کروں گا، مجھے رسول اللہﷺ نے ستر سے زیادہ سورتیں سکھائیں ہیں ، پھر میں یہ مصحف انہیں دے دوں؟ خد اکی قسم میں انہیں نہیں دوں گا"۔
کوفہ میں جن حضرات نے حضرت عبداللہ ابن مسعود کے مصحف کے مطابق اپنے اپنے مصحف لکھے ہوئے تھے اُن کو آ پ نے ترغیب دی کہ وہ بھی اپنے مصاحف کسی کے حوالے نہ کریں۔ حضرت خمیر بن مالک لکھتے ہیں کہ :
"قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَغُلَّ مُصْحَفَهُ فَلْيَغُلَّهُ، فَإِنَّ مَنْ غَلَّ شَيْئًا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " قَرَأْتُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ سُورَةً "، أَفَأَتْرُكُ مَا أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"49
"مصاحف میں تبدیلی کا حکم دیا گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعو دنے (لوگوں سے )فرمایا کہ تم میں سے جو شخص اپنے مصحف کو چھپا سکے وہ ضرور چھپا لے پھر فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ستر سورتیں پڑھی ہیں تو کیا میں وہ چیز چھوڑ دوں جو میں نے براہ راست آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے حاصل کی ہے"۔
حضرت خمیر بن مالک کی اس روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ مسعود کامصحف دیگر مصاحف سے کچھ مختلف تھا اور آپ اسے نذرآتش بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا مصحف ، مصحفِ عثمانی سے کس حوالے سے مختلف تھا؟ اس سوال کی وضاحت روایاتِ صحیحہ سے نہیں ملتی۔ شاید ان کے مصحف میں ترتیبِ سور کا اختلاف تھا کیونکہ صحائفِ صدیقی میں میں سورتوں کے درمیان ترتیب نہیں تھی اور یہ کہ وہ الگ الگ لکھی ہوئی تھیں۔ جبکہ حضرت عثمان نے جو مصاحف تیار کروائے اُن میں سورتوں کی ایک خاص ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جمع کیا گیا تھا۔
امام حاکم فرماتے ہیں :
"أَنَّ جَمْعَ الْقُرْآنِ لَمْ يَكُنْ مَرَّةً وَاحِدَةً، فَقَدْ جُمِعَ بَعْضُهُ بِحَضْرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جُمِعَ بَعْضُهُ بِحَضْرَةِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَالْجَمْعُ الثَّالِثُ هُوَ فِي تَرْتِيبِ السُّورَةِ كَانَ فِي خِلَافَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ"۔50
"جمع القرآن کا کام ایک ہی مرتبہ مکمل نہیں ہوا ، بلکہ قرآن کا کچھ حصہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں جمع ہو گیا تھا، پھر کچھ حصہ ابوبکر صدیق کے زمانے میں ہوا اور جمع قرآن کا تیسر امرحلہ وہ تھا جن میں سورتوں کو مرتب کیا گیا، یہ کام امیر المؤمنین حضرت عثمان کے عہد میں ہوا"۔
حضرت عثمان کے مصحف سے حضر عبداللہ ابن مسعود کا مصحف ترتیب کے لحاظ سے مختلف تھا۔ ان کے مصحف میں سورۃ آل عمران سے پہلے سورۃ النساء تھی۔ 51
حضرت ابن مسعود نے شاید اسی ترتیب کے ساتھ آنحضرت ﷺ سے سیکھا ہو گا اور انکی خواہش بھی یہی تھی کہ ان کا مصحف اسی ترتیب پر رہے۔ بخاری کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ سے عراق کے باشندے نے آ کر کہا:
" يَا أُمَّ المُؤْمِنِينَ، أَرِينِي مُصْحَفَكِ؟ قَالَتْ: لِمَ؟ قَالَ: لَعَلِّي أُوَلِّفُ القُرْآنَ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ يُقْرَأُ غَيْرَ مُؤَلَّفٍ، قَالَتْ: وَمَا يَضُرُّكَ أَيَّهُ قَرَأْتَ قَبْلُ"52
"اس نے کہا ام المؤمنین ! مجھے اپنا مصحف دکھائیے، حضرت عائشہ نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا تاکہ میں اپنے قرآنی مصحف کو اس کے مطابق ترتیب دے لوں ، اس لیے کہ کہ وہ (ہمارے علاقہ میں )غیر مرتب طریقہ سے پڑھاجاتا ہے ۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ بھی تم پہلے پڑھ لو تمہارے لئے مضر نہیں "۔
مذکورہ روایت سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کے مصحف میں ترتیبِ سور کااصل فرق کا تھا،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رسم الخط کا بھی فرق ہو ، یا کہ کہ رسم الخط ایسا اختیار کیا گیا ہو جس میں تمام قراءتوں کی گنجائش نہ ہو۔ ورنہ یہ کہا جائے گا کہ ابن جریر کی روایت کے مطابق حضرت عثمان نے چونکہ حروف ِ ستہ کو ترک کر کے ایک ہی حرف پر قرآن کی کتابت کروائی تھی اور عبداللہ بن مسعود کا مصحف بھی انہی متروک میں سے تھا ۔
خلاصہ بحث
مذکورہ احادیث و اقوال بمتعلق سبعہ احرف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اختلاف صرف نظریاتی طور پر ہے ، عملی اعتبار حقانیت، حفاظت و صداقتِ قرآن مجید پر اس اختلاف کا ادنیٰ طور پر بھی کو ئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ جب تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق و ایمان ہے کہ قرآن مجید کی جتنی قراءتیں ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہیں ، وہ سب کی سب صحیح ہیں اور تلاوتِ قرآن ہر ایک قراءت کے مطابق کی جاسکتی ہے تو ان اختلافات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ متواتر قراءتوں کے علاوہ اُمت کا اجماع اس بات پر بھی ہے کہ شاذ قراءتوں کو قرآن مجید کا جزو قرار نہیں دیا جا سکتا نیز یہ کہ "عرضہ اخیرہ "یا اس سے پہلے کی منسوخ قراءتیں خود آنحضرت ﷺ کے احکامات کے مطابق قرآن کا جزو نہیں رہیں۔ قرآن مجید کے سبعۃ ا حرف میں اختلاف صرف لفظی تھا، باعتبارِمفہوم کے تمام حروف متحد تھے۔مصحفِ صدیقی و عثمانی سینکٹروں صحابہ کرام جو مزاج شناس ِ رسولﷺ تھے ، کی گواہی کے ساتھ تیار ہوئے تھے اور اس کو اسی طرح جمع کردیا گیا تھا جس طرح کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Ismā’ĪlBukharĪ, Al-ṣaḥĪḥ,ḲitābFaḍā’il al-Qurān, Bāb: Anzala al-Qurān ‘AlāSab‘ahAḥraf, Ḥadith No.4992.
2Al-Ḥajj, 22:11.
3Al-Baqarah, 2:195.
4Al-Tawbah, 9:80.
5Abū al-khayr Muḥammad bin Muḥammad bin Yūsuf al-JazrĪ, Manẓūmah al-MuqadmahFĪmāYajibu ‘Alā al-QārĪ ’an Y‘alimah, BābM‘arifah al-WaqfWa al-Ibtidā )Dār al-MughnĪ lil Nashr wa Al-TawḍĪḥ, 2001 A.D.
6 Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Ismā’ĪlBukharĪ, Al-ṣaḥĪḥ, TeḥqĪq: MuḥammadZuhayr bin Nāṣir al-Naṣir (Beirūt: DārṬawq al-Nujāt, 1st Edition: 1422 A.H), Ḥadith No.3808.
7Al-Nisā’,4:12.
8Al-Baqarah, 2:222.
9Al-Jum‘ah, 62:9.
10 Al-Qāri‘ah, 101:5.
11Al-Mā’idah, 5:6.
12Al-Baqarah, 2:185.
13 Maryam, 19:97.
14Muḥammad bin ‘Īsā Al-TirmdhĪ, Al-Sunan, (Beirūt: Dār al-Aghrab al-ĪslāmĪ, 1998), Ḥadith No.2944.
15Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Ismā’ĪlBukharĪ, Al-ṣaḥĪḥ,Ḳitāb al-Khaṣumāt, Bāb: Ḳalām al-KhaṣūmB‘aḍahum FĪ Ba'ḍ, Ḥadith No.2419.
16Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Ismā’ĪlBukharĪ, Al-ṣaḥĪḥ,ḲitābFaḍā’il al-Qurān, Bāb: Anzala al-Qurān ‘AlāSab‘ahAḥraf, Ḥadith No.4992.
17Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Saḥīḥ, Ḳitāb: ṣalāt al- MusāfirĪn wa Qaṣruhā (Beiūt: Dār Īḥyā’ al-Turāth al-Arabī), Hadīth No. 821.
18Al-An‘ām, 6:115.
19Sabā, 34:19.
20Al-Baqarah, 2:282.
21Al-Burūj, 15:85.
22Al-Layl, 92:3.
23Al-Tawbah, 9:111.
24Al-Baqarah, 2:259.
25Al-Nisā’,4:94.
26 Abū al-khayr Muḥammad bin Muḥammad bin Yūsuf al-JazrĪ, Al-nashr fi al-Qirā’t al-‘Ashr, Kitāb al-sab‘ah (Al-matba‘a Al-tijāriyah al-kubrā), 2:81.
27۔ Ibn e Quteibah abu Muhammad ‘Abdullah bin Muslim, Tāwīl Mushkil Al-Qur’ān Bil radd ‘Alaihim fi wujuh Al-Qirā’t (Beirūt: Dār Al-Kutub al-‘ilmiyah), 1:31
28Al-Sabā, 34:17.
29Al-Sabā, 34:19.
30Al-Qāri‘ah, 101:5.
31Al-Wāqi‘a, 56:29.
32Qāf, 50:19.
33YāsĪn, 36:35.
34۔Rushd, Qirā’āt Number3, Kuliyat al-Qur’ān wa al- ‘Ulūm al-Islamiyah, Lahore, 242.
35Al-Tabrī, Muhammad bin Jarīr, Jāmi‘ Al-bayān fi Tawīl āya al-Qur’ān, Alqawl fi Lughat allatī Nazal bihā al-Qur’ān min Lughāt al-‘Arab (Mu’ssisat al-risālah,2000 A.D)
36۔Al-Qurtabī, Abu ‘Abdullah Muhammad bin Ahmad bin abī bakr, Al-jām‘ al-ahkām al-Qur’ān, Muqadmah al-tab‘ Sāniyah (Al-Qāhirah: Dār al-kutub al-misriyah, 1964 A.D)
37Al-‘Asqalānī, Ahmad bin ‘Alī bin Hajar, Fath al-bārī Sharah Sahīh Bukhārī, Bāb Anzal al-Qur’ān ‘Alā sab‘at ahruf (Beirūt: Dār al-m‘rifah, 1379 A.H), Jild 2.
38Al-‘Asqalānī, Ahmad bin ‘Alī bin Hajar, Fath al-bārī Sharah Sahīh Bukhārī, Bāb Anzal al-Qur’ān ‘Alā sab‘at ahruf, Jild 2.
39Al-‘Asqalānī, Ahmad bin ‘Alī bin Hajar, Fath al-bārī Sharah Sahīh Bukhārī, Bāb Anzal al-Qur’ān ‘Alā sab‘at ahruf, Jild 9.
40Al-Suyītī, ‘Abd al-rahmān bin abī bakr Jalāl al-dīn, Al-Itiqān fi ‘Ulūm al-Qur’ān, al-nqw‘ al-sādis (Al-haī’t al-misriyah al-‘āmat lil kutub,1974 A.D), Jild 1.
41Al-Zarkashī, abu ‘Abdullah Badar al-dīn Muhammad bin ‘Abdullah, Al-Burhān fi ‘Ulūm al-Qur’ān, Alnaw‘ al-hādi ‘ashara (Beirūt: Dār al-kutub al-‘arabiyyah), Jild 1.
42Al-Nisā’a,4:82.
43Yūsuf, 12: 110.
44Mariyyam, 19:19.
45 Rushd, Qirā’āt Number 2, Kuliyat al-Qur’ān wa al- ‘Ulūm al-Islamiyah, Lahore, 251.
46۔Bukhārī, Aljām‘ al-Sahīh, Kitāb al-manāqib Bāb: Nazal al-Qur’ān bilisāni Qureish, Hadith No. 3506.
47۔‘Alā’uddīn ‘Alī bin Hassām al-dīn, Kanz al-‘Ummāl, Bāb: Fi Lawāhiq al-tafsīr Jam‘ul Qur’ān (Mu’ssisat al-risālah, 1981 A.D), Hadith No.4775.
48Abu ‘Abdullah Al-Hākim Muhammad bin ‘Abdullah, Al-Mustadrak ‘Alā al-Sahīhein Kitāb al-tafsīr (Beirūt: Dār al-kutub al-‘ilmiyyah, 1990 A.D) Hadith No.2869.
49Al-Sheibānī Abu ‘Abdullah Ahmad bin Muhammad bin Hanbal, Musnad, Al-qism Al-Sālis min al-kutb fi ma yakhtassu min al-Qur’ān al-karīm (Mu’assisat al-risālah, 2001 A.D), Hadith No. 3929.
50۔Al-Hākim, Al-Mustadrak, Hadith No. 2901.
51۔ Al-Suyūtī, Al-Itiqān, 1:66.
52۔Bukhārī, Aljām‘ al-Sahīh, Bāb: Tāl if al-Qur’ān, Hadith No. 4993.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |