2
1
2021
1682060063651_3195
17-33
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/32/33
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/32
Sirah of the holy Prophetﷺ judicial aspects of Sirah justice Legislation Islamic law.
أ ﻷمِیر:جلد02؍ شمارہ 01 ..( جنوری –جون1 220ء) )23(
سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عدلیاتی پہلو: ایک تحقیقی جائزہ
A Research Review of the Prophetic Justiceﷺ
Hafiz Fareed-ud-Din
Islam is a religion of peace and it has provided a strong system of justice for the establishment of peace and order, the practical picture of which is available to the Muslim Ummah in the form of Sira-e-Taiba of the Holy Prophetﷺ. On which the seal of beauty has been recorded by Allah Himself. Therefore, the system of justice of Islam can be used only when the solution of all issues is sought from Sira-e-Taiba because Heﷺ has eliminated the distinction between rich and poor in the supremacy of law. The Holy Prophet ﷺ has set great and enlightening examples of justice for humanity, the pursuit of which leads to peace and tranquility of social life. In his Supreme Court, the Qur'an and Sunnah and consensus and analogy were of fundamental importance. In the Qur'an and Hadith, Sira-e-Taiba had the status of Shāri' and Legislator, while in consensus and speculation, Sira-e-Taiba has promoted thinking and counseling. The center and axis of Islamic law is your caste. He ﷺ has established justice, supremacy, and law in every field of worship, affairs, disputes, and crime. Therefore, in this article, the judicial aspect of His ﷺ Sira-e-Taiba has been explained in the light of the Qur'an and Hadith, the Sahabah and the followers, and the edicts of the Imams and jurists.
Key Words: Sirah of the holy Prophetﷺ, judicial aspects of Sirah justice, Legislation, Islamic law.
تعارف:
پیغمبر اسلامﷺ نے عدل و عدالت اور استحکامِ مملکت کےلئے وہ عظیم الشان اور رفیع المرتبت عدلیاتی اور عدالتی نظام سے عالم کو متعارف کرایا جس کی روشنی سے اب تک اپنے اور غیر مستفید ہورہے ہیں اس عالم رنگ و بو میں اگر کسی مظلوم کی داد رسی ہوجاتی ہے یا ملک کا بادشاہ اپنے حسن انتظام کی وجہ سے مدبر اعظم کہلانے کا مستحق ہوجاتا ہے یہ سب سیرت مصطفیٰ ﷺ کا ہی فیضان عام ہے جو اس عالم میں آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے انسانیت نوازی ، امن عالم ، شرف انسانیت اور عدل و عدلیاتی نظام کی وہ تمام مثبت کار فرمائیاں سیرت مصطفیٰ ﷺ کی ہی مرہون منت ہیں ۔آپ ﷺ نے عدل کے میزان کو راست کیا ، عدالت کو محفوظ پناہ گاہ بنادیا ، اور مملکت کو پھلنے پھولنے کےلئے باغ و بہار بنادیا ۔
سیرت مصطفیٰ ﷺ کی عدلیاتی اور عدالتی نظام ہی کی وجہ سے ظالم اگر اپنے کئے پر نادم اور شرمندہ ہوجاتا ہے تو مظلوم حیات بخشی میں حاتم ثانی کی مثال بن جاتا ہے ۔سیرت مصطفیﷺ کا ہی فیضان تھا کہ غلام سردار اور سردار غلام بننے میں شرف محسوس کرتا تھا استحکام مملکت میں شاہ و گدا کا فرق مٹ گیا اور انسانیت کو انسانیت کی معراج ہو گئی ۔عدلیاتی و عدالتی اور استحکام مملکت میں داد و انصاف اور حسن انتظام کی جو بھی مثال دی جائے۔چا ہیے خلافت راشدہ ہو یا اموی حکومت ، عباسی خلفاء ہوں یا ترکوں کی سطوت فارس و روم کا نظام ہو یا مغلیہ خاندان کی شان و شوکت اور جس نظام اور جس حکومت سے جو مثبت مثال قائم ہوئی یا ہوتی ہے یا ہوگی ان سب میں سیرت مصطفیٰ ﷺ کی جلوہ نمائی کا انکار کرنا آفتاب نیمروز کا انکار کرنا ہے ۔عدل ، عدالت ، ثقافت تہذیب اور انسانیت نوازی کی ہر مثال جو دی جاتی ہے یا دی جائے گی اس میں سیرت مصطفیٰ ﷺ کا ہی فیضان اور جلوہ نمائی ہے اور یہی شان سیرت مصطفا ئی ﷺ ہے۔
اسلام ایک دستور حیات ہے اور وہ اپنے ماننے والوں کی ہمہ جہتی تعلیم وتربیت کرتا ہے تاکہ اسلام کے ماننے والوں کی اصلاح میں کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہ جائے۔اسلام کی تعلیم و تربیت میں عدل وانصاف کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔عدل و انصاف کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ جس کا تعلق انفرادی اور اجتماعی تمام صورتوں میں وابستہ ہوتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے عدل و انصاف کی وہ عظیم الشان اور روشن مثالیں انسانیت کےلئے مشعل راہ چھوڑیں ہیں جن کی پیروی امن وامان اور معاشرتی زندگی کے سکو ن کا باعث ہے ۔
عدل کا لغوی معنی:
''عدل '' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ''ع ۔د۔ل''ہے جو مساوات ، برابری اور انصاف کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ۔لوئیس معلوف لکھتا ہے :
''العدل ،(مص) ضد الظلم والجور ۔۔۔الکیل الجزاء ( السویۃ) الام المتوسط الاستقامۃ ''1
مولوی فیروز الدین لکھتے ہیں :
عدل: برابری، مساوات، نظیر ، مانند ،انصاف ، داد ،ینائے ، عدل کی جمع اعدال آتی ہے ۔2
مولانا غیاث الدین لکھتے ہیں :
'' برابر کردن چیز ہر ایچیزے وبمعنیٰ داد وانصاف و داد گری بمہمن جہت عدل گو یند کہ ظالم را با مظلوم برابر کنند''3
عدل کو عین کی زبر سے پڑھا جائے تو یہ معنوی چیزوں کے لئے مستعمل ہے اور عدل کو عین کی زیر سے پڑھا جائے تو اس کا استعمال ان چیزوں کےلئے ہوتا ہے جن کا ادراک ظاہری حواس سے کیا جا سکتا ہے ۔امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
''والعدل والعدل یتقاربان ، لکن العدل یستعمل فیما یدرک با لبصیرۃ کا الاحکام ۔۔۔۔ والعدل والعدیل فیما یدرک با لحساسۃ کالموزونات ولمعدوات والمکیلات فالعدل ھو التقسیط علیٰ سواہ ''4
عدل عربی زبان کا لفظ ہے۔ جسکو عین کی زبر اور زیر دونوں کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا معنی جس چیز کو بصیرت کے ساتھ ادراک کیا جائے اور عین کی زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا معنیٰ وہ ادراک ہوتا ہے جس کا تعلق حواس سے ہو ۔عدل ظلم کا متضاد ہے جو برابری ، مساوات ، نظیر ، مثال اور داد و انصاف کے معنی میں مشترک ہے۔ عدل میں برابری کا معنی یوں پایا جا تا ہے کہ ظالم اور مظلوم کو قانون کی نگا ہ میں برابر رکھا جاتا ہے۔ عدل کے میزان کا پلڑا دونوں طرف راست پر ہو ایک کی طرف جھکاؤ دوسرے پر ظلم کے مترادف اور برابر ہے ۔عدل و انصاف مملکت کے لئے ماتھے کا جھومر ہے ۔
عدل کا اصطلاحی مفہوم:
افراط تفریط کے درمیان درمیانی (متوسط راہ) کام کو عدل کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کی تمام چیزوں میں رعایت ایک ضروری امر ہے ۔سید علی شریف جرجانی لکھتے ہیں :
''العدل عبارۃ عن الامر المتوسط بین طرفی الافراط والتفریط ''5
صاحب تفسیر کبیر امام فخر الدین رازی عدل کے بارے میں لکھتے ہیں :
''العدل فھو عبارۃ عن الامر المتوسط بین طرفی الافراط والتفریط ، وذالک امر واجب الرعایۃ فی جمیع الاشیاء '' 6
ابوالکلام آزاد لکھتےہیں :
'' عدل کا مطلب ہے کسی کے ساتھ بدون افراط و تفریط وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل وانصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے ۔معلوم ہوتا ہے عدل و قسط یعنی دوست و دشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملے میں جذبات محبت و عداوت سے قطعا مغلوب نہ ہونا یہ فضیلت حصول تقویٰ کے مؤثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے ''7
سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :
''عدل جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے ، ان میں ایک یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان توازن اور تناسب قائم ہو ۔دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقے سے دیا جائے ۔ اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ انصاف سے ادا کیا جاتا ہے ''۔
عدل بادشاہی کا زیور ، استحکام مملکت کی ضمانت ،نیک نامی کی یاد گار ، امن و امان اور سکون کا پیام عام ، مملکت کی خوشحالی ، معمار قوم و ملک ، نیک بختی جیسی برکات اور خصوصیات رکھتا ہے ۔
چو ایزد ترا این ہمہ کام داد چرا بر نیادی سر انجام داد
چو عدل است پیرایہ ء خسروی چرا عدل را دل نداری قوی
ترا مملکت پایداری کند اگر عدالت دستیاری کند
جہاں را بانصاف آباد دار دل اہل انصاف را شاد دار
جہاں را بہ ازعدل معمار نیست کہ بالا تر از عدالت کار نیست
تر ا ز ین بہ آخر حاصل بود کہ نامت شھنشاہ عادل بود8
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے '' عدل '' کی کتنی خوبصورت اور انوکھے انداز میں تشریح کی ہے :
"Justice is an in estimable Treasure, but we must guard it against The, Thief of mercy"9
1۔ سیرت طیبہ ﷺ کا عدالتی پہلو
سیرت طیبہ ﷺ کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کوجو ترقی اور منزلت حاصل ہوئی اس کی سب سے بڑی وجہ اسلام کا عدل و انصاف پر مبنی نظامِ حیات ہے ۔ عدل و انصاف پر مبنی اس نظام حیات کی عملی صورت اور شکل سیرت مصطفیٰ ﷺ ہے ۔جس کی وجہ سے ہر کس و ناکس کو رنگ و نسل اور مذہب و قوم کا لحاظ کئے بغیر سستا انصاف ،معاملات کا تحفظ بآسانی کرسکتا ہے ۔ اسلام کا نظام عدل بے مثال نظام ہے جو اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے بے نظیر و بےمثال ہے ۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ کا عدل و انصاف اور عدالتی پہلو سے مطالعہ کیا جائےتو ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیاتی دستور ، حقوق کی ضمانت ، شخصی حریت ، قانون کی حکومت ، انصاف دہلیز پر اور کلمہء حق جیسے پہلو ؤں میں سیرت طیبہ ﷺ سے راہنمائی نا گزیر ہے ۔ سیرت کے یہ عدالتی پہلو ،جامع انداز میں درج ذیل ہیں:
1.1۔عدلیاتی دستور:
اس عالم رنگ و بو میں وہ عدالت بے کار اور بے فائدہ ہے جو کسی دستور کی پابند نہیں ہے۔ سیرت طیبہ ﷺ کا مطالعہ جب عدالتی پہلو سے کیا جاتاہے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ کی عدالت ِعالیہ میں قرآن و سنت کو بنیادی اور اجماع و قیاس کو ثانوی اہمیت حاصل تھی ۔ قرآن میں سیرت طیبہ ﷺ کی حیثیت شارحیت اور حدیث میں شارحیت اور شارعیت کے حوالے سے تھی جبکہ اجماع و قیاس میں سیرت طیبہ ﷺ تفکر و تدبر اور شورائیت کو فروغ دینے کے حوالے سے اپنی حیثیت کو جلوہ گر کرتی تھی۔ سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں یہی اصولِ اربعہ عدالتی پہلو میں جزو لاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں ۔عدالتی اور عدلیا تی نظام کی بہتری کےلئے سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں مذاھبِ اربعہ نے ان اصولِ اربعہ کی وہ تشریح اور توضیح کی ہے جس سے عدالتی اور عدلیاتی نظام کی کاروائی میں کسی قسم کا تعطل پیدا ہونے کا اندیشہ نہ رہا ہے ۔اصحاب رسول ﷺ انہی اصولوں پر عمل پیرا ہوئے تو عدلیاتی اور عدالتی ایسی ان گنت مثالیں چھوڑگئے جن کی مثال اقوام عالم کے پاس نہ ہے ۔ اور ان کے دساتیر لوگوں کو نشان منزل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔حضرت معاذ بن جبل جب بحیثیت قاضی روانہ ہونے لگے تو آپ ﷺ کے استفسار پر کہ معاذ فیصلے کیسے کرو گے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان اصولو ں کو پیش نظر رکھ کر جواب دیا تو حضرت معاذ بن جبل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دعا کے مستحق ٹھہرے :
''الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ علی ما یحب و یرضاہ ''10
1.2۔حقوق کی ضمانت:
سیرتِ مصطفیٰ ﷺ نے جس اعلیٰ اور معیاری عدل اور قضا ء کے نظام کو قائم کرتے ہوئے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس نظام کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ سلطنت اور مملکت کے ہر فرد کسے باشد کے حقوق کے تحفظ کی مکمل ضمانت دی گئی ہے ۔اسی لئے قاضی ، عادل ، جج اور بادشاہ کے فرائض میں یہ بات ہے کہ وہ ملک کے ہر شخص کی عزت وآبرو جان و مال اور چادر و چار دیواری کے تحفظ اور عدل وانصاف کی بنیاد پر ہر شخص کے حقوق کی پاسداری کا انتظام و انصرام کریں ۔ بصورت دیگر غفلت شعاری کی وجہ سے گرفت اور سزاکے مستحق ہونگے ۔ عدل و انصاف کی صورت میں تقویٰ کی قربت حاصل ہوتی ہے ۔اللہ جل جلا لہ کا ارشاد ہے :
''ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ''۔11 بیشک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے :
''اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ ''12 "عدل کرو وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے"۔
1.3۔شخصی حریت:
سیرت مصطفیٰ ﷺ کی روشنی میں عدلیاتی اور عدالتی نظام کےلئے ضروری ہے کہ عدالت اور عدل و انصاف کا ماحول اتنا سازگار اور کشادہ ہو جس میں ہر سائل اور مظلوم خوف و ہراس محسوس نہ کرے اور اس کو براہ راست کلمہء حق کہنے کی اجازت ہو ۔ کلمہء حق کی ادائیگی میں وہ خوف و خطر کے بغیر منصف ،قاضی اور جج وغیرہ کو بھی بےبانگ دہل بیان دے سکے ۔ جس کی متعدد مثالیں دور رسالت مآبﷺ اور خلافت راشدہ کے دور میں مشہور اور عام ہیں۔ شخصی حریت کو بلند و بالا کرنے میں سیرت مصطفیٰ ﷺ نے بہت زیادہ راہنمائی فرمائی ہے ۔ میثاق مدینہ آزادیء رائے اور مذہب و مسلک کی بہترین مثال ہے ۔ خطبہ حجۃ الوداع تو پوری انسانیت کے حقوق کے تحفظ میں ایک قابل عمل دستور اور چارٹر ہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں دئیے گئے خطبات شخصی حریت کے فروغ میں اپنی مثال آپ ہیں ۔آپ رضی اللہ عنھمانے ہر شخص کو امور خلافت میں رائے کہ اظہار کا حق تفویض فرمایا تاکہ شخصی حریت پروان چڑھے۔ عدالتی اور عدلیاتی پہلو میں سیرت طیبہ ﷺسے یہ ھدایت اور روشنی بھی نصیب ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص منہ چڑھ کر اعلی سے اعلی شخصیت کو کوئی بات کہہ دیتا ہے یا توجہ دلادیتا ہے تو اس انداز پر سیخ پا ہونے کی ہر گزضرورت نہ ہے بلکہ بڑےتحمل ، برداشت اور رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس شخص کی بات کے وزن کو محسوس کیا جائے ۔ کروٹ اور شکن کا پڑنا انصاف کے تقاضوں کو نبھانے میں تعطل کا سبب بنے گا ۔یہی وجہ ہے کہ سیرت نبوی کی روشنی سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ غصہ کی حالت میں فیصلہ کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہے ۔
1.4۔ قانونی حکومت:
سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں عدلیاتی اور عدالتی پہلو میں مساوات کو بڑا عمل دخل ہے ۔ عدلیاتی اور عدالتی کاروائی میں امیر غریب ، شاہ و گدا ، غلام آزاد ،حاکم محکوم اور بندہ و مولیٰ کا فرق ہرگز ہرگز روانہ رکھا جائے ۔ سب بنی آدم پر قانون اور عدل و انصاف کی حکومت ہو جس میں اپنے اور پرائے کا فرق کرنا عدل و انصاف کے تقاضوں سے بہت دور ہے ۔ سیرت طیبہ ﷺ کے تناظر میں عدالت اور عد ل و انصاف کے کٹہرے میں شاہ وگدا کا فرق ہرگز نہ ہے ۔ عدالت اور کچہری میں کسی قسم کا پروٹوکول آؤ بھگت ، ہل چل ، اور شخصیت کی آمد پر چہل پہل مظلوم پہلو عدالتی ظلم کرنے کے برابر ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقدمہ کے وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچے تو آپ کو دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے درمیان میں فرش پر جگہ کشادہ کردی اور عرض کیا امیر المؤمنین یہاں تشریف رکھئیے یہ بات آپ کو نا گوار گزری جس پر آپ نے فرمایا :
''ھٰذا اول جور جریت فی حکمک ولکن اجلس مع خصمی ''13
"یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو تمہارے فیصلے میں ہوا ہے میں تو اپنے مد مقابل کے ساتھ ہی بیٹھوں گا "۔
1.5۔انصاف دہلیز پر
آپ ﷺ اور خلافت راشدہ جو فیضان نبوت سے معمور ہے ، کے عدالتی اورعدلیاتی نظام کو غورو فکر سے مطالعہ میں لایا جائے تو یہ بات بھی وا ضح ہوجاتی ہے کہ انصاف آپ کی دہلیز پر خود دستک دیتا ہوا نظر آئے ۔ انصاف کے حصول کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانا اور رشوت و سفارش کے ساتھ انصاف کو پانا ظاہر کرتا ہے کہ عدالتی اور عدلیاتی نظام کو یہ فکر کھا جا نی چا ہیے کہ سلطنت میں اگر ایک کتا بھی ظلم و ستم کا شکار ہوجائے تو اس کے بارے میں حاکم جواب دہ ہوگا ۔عصر حاضر میں جانوروں ،پرندوں اور مار دھار پر مبنی تفریحی پروگرام کی حوصلہ افزائی میں حکومت کا ہاتھ باعثِ تشویش ہے ۔ انصاف کو اتنا سستا اور عام ہونا چا ہیے جو کمزور ترین مظلوم کو بھی طاقتور ظالم کے سامنے شہ زور بنادے ، جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات ہو ۔حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یمن کی طرف بطور گورنر بھیجا تو نبی اکرم ﷺ نے دونوں کو نصیحت فرمائی:
'' یسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا وتطاوعا ''۔ آسانی پیدا کرنا ،دشواری پیدا نہ کرنا ، خوشخبری سنانا ، نفرت نہ پھیلانا اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ رہنا ۔انصاف کے حصول کو سستا اور قابلِ حصول اور بروقت بنانا سیرت طیبہ ﷺ کا خاصہ اور امتیاز ہے ۔انصاف کے حصول میں آسانی ہی استحکام مملکت کا باعث ہے ۔
1.6۔اعلائے کلمہء حق
سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں عدلیاتی اور عدالتی نظام میں اعلائے کلمہء حق کی کھلے بندوں اور عام اجازت ہو ۔جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنے کو ایک افضل جہاد قرار دیا گیا ۔کلمہء حق کہنے کی حوصلہ افزائی سے کافی حقائق کا ادراک ہوجاتا ہے اور ملکی سالمیت کےلئے پالیسی کو مرتب کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں عدلیاتی اور عدالتی پہلو جو مذکور ہوئے یہ پہلو استحکام مملکت ، امن و امان ، خوشحالی اور عدل و انصاف کو پروان چڑھانے میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ شرف انسانیت کی معراج اس وقت ہوگی جب سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں انصاف کا بول بالا ہو اور ظلم و ستم کا نام و نشان نہ ہو۔
2۔ سیرت طیبہ اور استحکام مملکت
اللہ جل جلا لہ کے رسول کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا لمحہ لمحہ اور ساعت ساعت دین اسلام اور کلمہء توحید کی بلندی اور رفعت میں گزرا ۔ آپ ﷺ نے بحیثیت شارح قرآن، بحیثیت شارع ،بحیثیت پیشوا و راہنما اور نمونہ ء تقلید، بحیثیت قاضی ، بحیثیت سیاسی منتظم ومدبر ، بحیثیت حاکم اور فرمانروا، نسلِ انسانی کے لئے پیدائش سے موت تک ہر کار گاہِ حیات کےلئے ایسے اَنمِٹ نقوش اور اصول و دساتیرچھوڑے ہیں جو ہر کسی کےلئے اور ہر سطح کےلئے کامیابی ،کامرانی اور استحکام کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے اور آسان لفظوں میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ استحکام مملکت کجا استحکام حیات و ممات کی یقینی ضمانت فراہم کرتی ہے جس سے دنیوی اور دینی سعادت مندی کا ثمرہ دیگر ہے ۔
ظہورِ اسلام کے ساتھ جس معاشرہ نے جنم لیا، اور ہجرت مدینہ کے بعد جس سیاسی قوت و طاقت نے تہذیب و تمدن اور علم و ثقافت اور جہاں بانی نے انسانی کائنات کو فلاح و بہبود اور ابدی سعادت کی ڈگر پر ڈالا ، اس کی بنیاد ان اہم نکات پر تھی جن سے ایک ریاست کو استحکام اور وہ بھی دوام کی صورت میں نصیب ہوتا ہے ۔ استحکام مملکت کے لئے سیرت طیبہ کی روشنی میں قانون الٰہی کی بالا دستی ، عدل وانصاف، درس مساوات ، فرائض حکومت ، شوریٰ ، نیکی کا حکم ، طلب اقتدار کی ممانعت ، مقاصد کا تعین ، دعوت و تبلیغ کا فریضہ ، حسن سلوک جیسے نکات ہی مملکت کے استحکام کا باعث بنتے ہیں ۔
2.1۔قانون الٰہی کی بالا دستی
سیرت مصطفیٰ ﷺ کی روشنی میں اس مملکت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور وہ سلطنت تن آور ہوتی ہے جس سلطنت میں اللہ جل جلا لہ ، کے قانون کی بالا دستی ہو ۔قانون الٰہی کی بالا دستی کے بغیر استحکام مملکت کا خواب ہرگز شرمندہء تعبیر نہیں ہوسکتا ہے ۔مستحکم سلطنت کےلئے ضروری ہے کہ اس میں حاکمیت اور اقتدارا علیٰ اللہ تعالیٰ کا ہو ۔انسانیت کے پاس حق نیابت خلافت کی صورت میں ہو اور مطلق العنانی کا دور دور تک گزر کا خیال بھی ممنوع ہو ۔ سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں ایسی سلطنت عروج کے زینے چڑھتی ہے جس میں قرآن و سنت اور اجماع و قیاس جیسے اصولوں کی بالا دستی ہو ۔قانون الٰہی فطری اور طبعی قوانین ہوتے ہیں جو پوری انسانیت کے مناسب اور موافق ہوتے ہیں ۔ قانون الٰہی کی بالا دستی ہی استحکام مملکت کے استحکام میں اولین شرط ہے ۔
آپ ﷺ نے سلطنت کو استحکام ، قانون الٰہی کے اجراء ،نفاذ ، تنفیذ عمل اور بالا دستی کے ذریعے بخشا تھا ۔
2.2۔عدل و انصاف
سیرت طیبہ ﷺ کہیں پہلؤں میں سے کسی ایک پہلو میں بھی رائی کے ان گنت ذرہ کے برابر انگشت نمائی اور حرف اعتراض نہیں کر سکتے ہیں ۔آپﷺ کی حیات طیبہ عدل و انصاف کی ایک پیکر مجسم ذات تھی جس نے رنگ و نسل ، قوم ، مذہب ،ملت اور جغرافیائی حدوں کا لحاظ کئیے بغیر عدل و انصاف سے معاشرہ کو ایسا معمور کیا کہ عدل و انصاف کی آغوش میں پلی بڑھی قصبہ والی سلطنت لاکھوں میل پھیل گئی اور دوسری سلطنتوں کی ہادی اور راہبر بن گئی ۔مستحکم سلطنت جو دوسری سلطنت کے استحکام کا باعث ہو اس کےلئے ضروری ہے کہ وہ شاہ وگدا کو عدل و انصاف کے ترازو میں تولنے میں اپنی مثال آپ ہو ۔
2.3۔درس مساوات
سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں وہ مستحکم سلطنت کےلئے ضروری ہے کہ اس میں مساوات اور برابری کا شعار عام ہو ۔جس میں کسی لحاظ کا فرق روا نہ رکھا جا تاہو ں فرق صرف تقویٰ اور پرہیز گاری کی صورت میں ا جا گر ہونا اچھا سمجھا جاتا ہو اور تقویٰ کو ہی معیار فضیلت گردانا جاتا ہو ، جس سلطنت میں حبشی غلام کو سیدنا کہہ کر پکارا جا نے لگے وہ سلطنت استحکام کی راہوں پر گامزن ہے مستحکم سلطنت کےلئے ضروری ہے کہ کسی فرد ،گروہ ، طبقے یا نسل اور قوم کو ریاست کے اندر امتیازی حقوق حاصل نہیں ہونے چاہییں اور نہ کسی کی حیثیت کو فروتر کیا جانے کا اندیشہ پایا جائے ۔سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں درس مساوات پر عامل سلطنت ہی استحکام پذیر ہو سکتی ہے ۔
2.4۔فرائض حکومت
سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں حکومت کے فرائض میں سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اختیارات ، اموال ، اور حقوق کو اپنے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھے ، عطا اور منع میں خدا ترسی اور خوف خدا کو اپنا وطیرہ بنائے ۔نفسانی خواہشات کےمطابق اپنے تصرف سے اجتناب کرے ۔سپردکی گئی امانت ، عدل و انصاف کی عدالت ، اقامت صلوٰۃ ،ادائے زکوٰۃ، انسداد شر ،بحالیء امن اور تحفظ ناموس میں اپنے فرائض سے ہرگز ہر گز غفلت کا شکار نہ ہو ۔ ان امور کی خلوص نیت سے بجا آوری ہی سلطنت کو مضبوط کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گی ۔
2.5۔شوریٰ
سیرت مصطفیٰ ﷺ سے درس ملتا ہے کہ وہ مملکت استحکام پذیر ہوتی ہے جس مملکت میں شورائی نظام کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہو ۔اللہ جل جلا لہ ، نے آپﷺ کو اپنے اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے سیرت مصطفیٰ ﷺ کے متعدد ابواب ایسے ہیں جن میں آپ ﷺ نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین سے مشورہ کیا جس سے شورائی نظام کی سنت کا اجراء ہوگیا ۔ آپﷺ نے دنیاوی یعنی سیاسی ا مور میں مشورہ لیتے ہوئے اپنے اصحاب کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے ۔ شورائی نظام کی افادیت یہ ہے کہ اس میں نظام کی وجہ سے مطلق العنانی کے جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور مختلف عقول کا ایک سستہ اور ستھرا معاملہ سامنے آجاتا ہے جو قابل عمل ہونے کے لحاظ سے اجتماعی فکر سوچ اور رویےکا عکاس ہوتا ہے اور اتحاد و اتفاق اور یگانگت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے ۔حضرت محمد مصطفیٰﷺ دنیاوی امور میں اکثر اصحاب کی را ئے پر عمل کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ سیرت کے ان درخشاں پہلوؤں سے صراحت ہوجاتی ہے کہ مملکت کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد میں شورائی نظام کی حکمت کار فرما ہوناچاہیے۔
2.6۔نیکی کا حکم
نبی مکرم ﷺ نے ہجرت مدینہ کے وقت ارشاد فرمایا :
''یایھاالناس اطعموا الطعام وافشواالسلام وصلواالارحام وصلوا باللیل والناس نیام تدخلوا الجنۃ''14
اے لوگو کھانا کھلاؤ، سلا م پھیلاؤ ، رشتے داروں سے محبت کرو،رات کو نماز پڑھو جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں ، سلامتی سے جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔اس ارشاد نبوی سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی سلطنت کی بنیا د ابھی نہیں رکھی مگر نیکی بنیادوں میں سلام ، صلہ رحمی ، کھانا کھلانا ، عبادت جیسے امور کو حکمت کے ساتھ رواج دیا جائے تاکہ سلطنت کی بنیاد تقویٰ پر ہی پروان چڑھے ۔ 7۔طلب اقتدار کی ممانعت
سیاح لامکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت طیبہ سے استحکام مملکت کےلئے جو زریں اصول فراہم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ سلطنت میں عہدہ ،منصب اور اقتدار کے خواہاں لوگوں کے اس جذبہ کی حوصلہ شکنی کی جائے ایسے لوگوں کو ہرگز سلطنت کے کاموں میں دخل دینے کی اجازت نہ دی جائے ۔سلطنت کے عہدہ جات ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اقتدار کے طالب صرف اپنے مف انیادات کے حصول کو آسان بنانے کے لئے سلطنت میں آتے ہیں اور جذبہء خدمت انسانیت سے بالکل خالی اور عاری ہوتے ہیں ۔ سلطنت میں خدا ترس اور خدا خوفی رکھنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور انہی کو بصد منت وسماجت ایسے عہدوں کے لئے راضی کرلینا چا ہیے تاکہ سلطنت کے استحکام میں ان کی برکت اورمشورہ جاری و ساری رہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے سلطنت میں وزارت خزانہ کے عہدہ کو خود طلب کیا تھا کیونکہ وہ معصو م تھے ۔
2.7۔مقاصد کا تعین
استحکام سلطنت کےلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تعیین کرتے ہوئے ان مقاصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنائے رکھے ۔آپ ﷺکی سیرت طیبہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اسلام کا غلبہ اور سارے کا سارا دین اللہ کے لئے ہو اسلامی سلطنت کے مقاصد میں سے ہے ہیں ۔ سیرت طیبہ واضح کرتی ہے کہ آپ اس وقت تک لڑنے کے خواہاں ہیں جب تک ہر کوئی لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد نہ کرنے لگ جائے ۔ غلبہ اسلام کےلئے ضروری ہے کہ اقا مت صلوٰۃ اورادائے زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اسلام کے دیگر ارکان کو نافذ العمل کیا جائے سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ مقاصد کی تنفیذ اور تقریر تدریجی مراحل سے گزر کر منزل مقصود کو پہنچے ۔
2.8۔دعوت و تبلیغ کا فریضہ
سیرت مصطفیٰ ﷺ کی ضیاء پاشیوں میں سے ایک روشن فریضہ جو استحکام مملکت کے لئے ضروری ہے وہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ ہے یہ فریضہ حتی الامکان اور ہر سطح پر حکمت کی پالیسی پر سر انجام دیا جانا بہت ضروری ہے جس کا آسان ذریعہ انفرادی تبلیغ سے شروع ہوتا ہے ۔ خداوندگان گلشن یعنی سلطنت کے ارکان کو ہر لحاظ سے علم و عمل کا نمونہ ہونا چا ہیے ان کی زندگی دوسروں کےلئے حیات بخش ثابت ہو
2.9۔حسن سلوک
سیرت مصطفیٰ کی رو سے دیکھا جائے تو آپ ﷺ کی سلطنت میں مختلف مذاہب اور اقوام کے لوگ رہتے تھے جنکے ساتھ آپ ﷺ کا حسن سلوک مثالی تھا ۔ بنا برایں مملکت کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اقلیتوں کے حقوق اور فرائض کا خاص خیال تکا جائے استحکام مملکت کےلئے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت ہی ضمانت فراہم کر سکتی ہے سیرت مصطفیٰ ﷺ پر جو سلطنت جتنا زیادہ عمل پیرا ہوگی اتنا ہی اس سلطنت کو استحکام نصیب ہوگا ۔ سیرت طیبہ ﷺ استحکام مملکت کے لئے جو اصول اور ضوابط دئیے ہیں ان کا عملی نمونہ بھی کسی پر اوجھل نہ ہے ۔استحکام سلطنت کے لئے سیرت مصطفیٰ ﷺ کے عطا کردہ دساتیر ہی انقلاب زمانہ اور انسانیت کے شرف کی بحالی کے ضامن ہیں ۔
3۔ آفتابِ نبوت ﷺ کی عدلیاتی و عدالتی کرنیں
اللہ جل جلا لہ، کے حبیب لبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ کی وحدانیت کا اعلان نہ فرمایا تھا تو آپ ﷺ صادق اور امین کے لقب سے قریش مکہ میں مشہور و معروف تھے ۔ اعلان نبوت سے پہلے متعدد واقعات ایسے ہیں جن میں آپ ﷺ کی عدلیاتی و عدالتی شان کی جلوہ نمائی ہوتی ہے ۔ حجر اسود کا واقعہ جس میں آپ ﷺ ہی کے فیصلہ پر سب لوگ را ضی گئے ۔ قبا ئل میں جب عداوت اور دشمنی کی آگ بھڑ کتی تھی جنگ وجدل میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے تھے آپ ﷺ کی عدلیاتی اور عدالتی امور میں گرفت کی وجہ سے دونوں فریقوں میں خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر فیصلہ کردیتے جس پر مخالفین بھی داد د یئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔
آپ ﷺ کی زندگی معاشرتی ، عائلی ، قومی ، ملی ، سیاسی ،اقتصادی اور عالمی معاملات میں عد ل و انصاف سے معمور تھی آپ ﷺ عدلیاتی و عدالتی امور میں اپنے اور پرائے کا فرق کئیے بغیر میرٹ اورحق کی بنیاد پر فیصلہ جات فرمایا کرتے تھے ۔ زندگی کے ہر حوالے سے عدل و انصاف کی بے شمار مثالوں سے آپ ﷺ کی سیرت معمور ہے ۔ دیگر ادیان اور مذاہب کے لوگوں کے درمیان آپﷺ حق اور میرٹ پر ان کے دین اور مذہب کے مطابق فیصلہ فرماتے تھے ۔
ایک مسلمان منافق اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہوگیا منافق مسلمان نے کہا کہ چلو کعب بن اشرف سے فیصلہ کراتے ہیں جو منافقین کا سردار تھا یہودی نے کہا نہیں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس چلتے ہیں ان سے فیصلہ کراتے ہیں ۔یہودی ہونے کے باوجود آپ ﷺ کی عدالت پر کامل یقین تھا جبکہ اپنے ہم مذہب سردار پر اس کو یقین نہ تھامنافق مسلمان مجبورا اور یہودی خوشی سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عدالت میں فیصلہ کے لئے آگئے ۔آپ ﷺ نے دونوں فریقوں کے مقدمات سنے اور یہودی کے حق میں آپ ﷺ نے فیصلہ سنادیا ۔
منافق مسلمان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کراتے ہیں دونوں بارگاہ فاروقی میں حاضر ہوئے اپنا مقدمہ سنایا حضرت عمر نے رضی اللہ عنہ نے منافق مسلمان سے پوچھا کہ کیا یہ یہودی سچ کہتا ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے حق میں فیصلہ فرماچکے ہیں اس منافق مسلمان نے کہا ہاں ٹھیک ہے ہاں ٹھیک کہتا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہاں ٹھہرو میں آکر فیصلہ کرتا ہوں گھر سے ننگی تلوار لے کر آئے اور اس منافق کا سر قلم کردیا اور تاریخی جملہ فرمایا جو اللہ اور اس کے سول ﷺ کےفیصلہ کو قبول نہیں کرتا ہے میں اس کا فیصلہ اس طرح کرتا ہوں ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ عمر نے حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا ہے رسول کریم ﷺ نے اسی واقعہ کی بنا پر آپ رضی اللہ عنہ کو '' فاروق '' کے لقب سے نوازا:
'' وقال جبریل علیہ السلام ان عمر فرق بین الحق و الباطل و سماہ النبی ﷺالفاروق رضی اللہ عنہ ''15
حضرت عبد اللہ بن زبیر اور ایک انصاری کے درمیان ایک نالے سے پانی پلانے کے بارے میں اختلاف ہوگیا ۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو انصاری کہتا تھا کہ اپنے کھیت کو پانی پلانے کے بعد پانی میرے کھیت کےلئے چھوڑ دیں ۔حضرت عبد اللہ بن زبیر ا س بات سے انکار کرتے تھے جب یہ مقدمہ عدالتِ نبوی میں آیا تو آپ ﷺ نے حضرت زبیر کو فرمایا کہ اپنے کھیت کو پانی پلانے کے بعد پانی اپنے ہمسائے کے کھیت کے لئے چھوڑ دو تاکہ وہ بھی اپنا کھیت سیراب کر ے ۔اس حق پر مبنی فیصلہ پر انصاری ناراض ہوا اور کہا کہ زبیر آپ ﷺ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں اس وجہ سے فیصلہ ان کے حق میں ہوپایا ہے ۔ رخِ انور ﷺ پر سرخی اور آپ ﷺ نے فرمایا اے زبیر اپنا باغ اتنا سیراب کرو کہ پانی کھیت کے کناروں تک چڑھ آئے ۔
آپ ﷺ نے پہلے انصاری کی خیر خواہی میں اخلاقی فیصلہ سنایا پھر آپﷺ نے قانونی فیصلہ فرمایا کیونکہ قانونا جس کا کھیت پہلے ہے وہ پہلے اپنا کھیت سیراب کرےگا پھر اپنے ہمسائے کے لئے پانی چھوڑے گا ۔حضرت عبد اللہ بن زبیر قسم کھا کرکہتے تھے :
'' فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا''16
کہ مندرجہ بالا آیت اس سلسلہ میں نا زل ہوئی ہے : '' فقال الزبیر:واللہ انی لاحسب ھٰذہ الایۃ نزلت فی ذالک ''
4۔ خلافت راشدہ
خلافت راشدہ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، اور حضرت علی رضی اللہ عنھم ، کا دور خلا فت ہے۔
حضور اکرم ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد خلافت راشدہ کا دور شروع ہوجاتا ہے ۔ سنت نبوی اور سنت صحابہ کی پیروی کے سلسلہ میں ارشادِ نبوی ہے :
'' جو شخص بدعات کو دیکھے تو اس پر لازم ہے کہ وہ میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرے اور اس سنت کو اپنی داڑھوں کے ساتھ پکڑ لے''17
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
'' وزیرای من اھل السماء فجبرائیل ومیکائیل واما وزیرای من اھل الارض فابوبکر و عمر ''18
کہ میرے دو وزیر آسمان میں ہیں اور میرے دو وزیر زمین میں ہیں آسمانی وزیر حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمینی وزیر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے اپنے ظاہری زندگی کے وقت کوبہترین قرار دیا ہے:
''خیر الناس قرنی ''19
زمانوں میں سے بہتر ین زمانہ آپ ﷺ کا زمانہ ہے '' قرنی '' کا مطلب ہے میرا زمانہ '' صدیق کا آخری حرف قاف ہے قرنی کا پہلو حرف قاف ہے قرنی کا دوسرا حرف ''راء '' ہے عمر کا آخری حر ف'' را''ہے۔قرنی کا تیسرا حرف ''نون '' ہے، عثمان کا آخری حرف '' نون '' ہے ،اور قرنی کا آخری حرف '' یاء '' ہے اور علی کا آخری حرف بھی ''یاء '' ہے ۔قرنی میرا زمانہ بہترین زمانہ ہے ۔ لفظ کے لفظ میں ترتیب خلافت کے بیان کے ساتھ ساتھ بہتر اور نبی کے زمانہ ہونے کی بشارت بھی موجود اور مذکور ہے خلافت راشدہ سے مراد خلفاء اربعہ کا وہ دور حکومت ہے جو نبوت کے منھاج اور روش پر تھا۔خلافت راشدہ کا دور سیرت مصطفیٰ ﷺ کی عملی اور جیتی جاگتی تصویر تھا ۔جس میں آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ اور مملکت کے استحکام کےلئے وضع کردہ آپﷺ کے قوانین اور ضوابط سے بال برابر بھی انحراف نہیں کیا گیا ہے نبوت کے طریق ، منھاج اور اصول پر خلافت راشدہ کے دور میں ہر میدان اور ہر سطح پر انسانیت کی تاریخ کی ایک ریکارڈز ترقی ہوئی جس کے تناظر میں موجودہ ترقی اور انسانیت اپنے پاؤں پر کھڑی ہے خلفاء راشدین جو ھدایت کے چمکتے اور دمکتے ستارے اور تارے تھے انہوں نے آپ ﷺ کی سیرت طیبہ ہی کو اپنے لئے راہ عمل اور نشان منزل بنایا اور شرق تا غرب اسلام کا جھنڈا لہرانے میں کامیاب اور کامران ہو گئے۔
خلا فت راشدہ کے دور حکومت کے استحکام میں سیرت مصطفیٰ ﷺ ہی کی راہنمائی جلوہ نما اور کار فرما تھی ۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ کے اصولوں ہی کی روشنی میں خلافت راشدہ کا دور انسانیت نوازی کی معراج ثابت ہوا ۔علمائے اسلام کی تصریحات کے مطابق اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت کو بھی خلافت راشدہ میں شمار کیا گیاہے کیونکہ اس دور نے بھی علی منھاج النبوت اور سیرت کی راہنمائی کو زندہ اور تابندہ کیا تھا ۔
4.1۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور روشن عدالتی مثالیں
عبد المالک مجاہد لکھتے ہیں :
''حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی جمیلہ تھیں ان کا نام پہلے عاصیہ تھا جس کے معنی نافرمان عورت کے ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا دستور مبارک تھا کہ ان کے پاس اگر کوئی ایسے نام والا آدمی یا عورت لائے جاتے جس کے معنی اچھے نہیں ہوتے تھے تو آپﷺ اس کو بدل دیا کرتے تھے ، چنانچہ آپ ﷺ نے عاصیہ کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عاصم انہی کے بطن سے تھے ۔ عا صم ابھی چھوٹے ہی تھے کہ کسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمیلہ کو طلاق دے دی ۔
یہ حضرت ابوبکر کا زمانہ تھا حضرت عمر پہلے قبا میں رہائش پذیر تھے بعد میں مدینہ آگئے تھے ۔ ایک دن اتفاق سے قبا کی جانب جا نکلے ۔ دیکھا ان کے بیٹے عاصم بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ بیٹے کو دیکھا تو پدری شفقت غالب آگئی۔بیٹے کو سینے سے لگاگیا اور پکڑ کر گھوڑے پر بیٹھایا اور ساتھ لے جانا چاہا ۔ادھر جمیلہ کو کسی نے بتادیا ۔ وہ بھاگتی ہوئی آئی اور گھوڑے کی لگام پکڑ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی :
عاصم میرا لخت جگر ہے میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گی ۔ آپ اسے نہیں لے جا سکتے ۔ مگر حضرت عمر چھوڑنے کےلئے تیار نہیں تھے ، عاصم کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے ۔ اختلافی باتیں شروع ہوگئیں ، جھگڑے نے طول پکڑا ۔ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مقدمہ پہنچا ۔ دونوں نے اپنے اپنے حق میں دلائل دئیے ۔ امیر المؤمنین نے مقدمے کی بغور سماعت کی اور فیصلہ صادر فرمایا کہ عاصم اپنی ماں جمیلہ کے پاس رہے گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خلاف فیصلہ سنا اور پھر خلیفۃ الرسول کے فیصلے کے سامنے اپنی گردن جھکا دی اور اس فیصلے پر کوئی انگشت نمائی نہیں کی اور عا صم کو اس کی ماں ہی کے پاس چھو ڑدیا ''20
4.2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور روشن مثالیں
ایک مصری حضرت فاروق اعظم کے پاس اپنے اوپر کئے گئے ظلم کے بارے یوں عرض گزار ہوا:
''انا عائذ بک من الظلم''
مصری:اے امیر المؤمنین ! ظلم سے میں آپ کی پناہ کا خواستگار ہوں یا امیر المؤمنین ۔
عمر فاروق:''عذت معاذا''پناہ دینے والے کی پناہ میں تو آچکا ہے۔
مصری : میں نے عمرو بن عاص کے بیٹے کے ساتھ دوڑمیں مقابلہ کیا اور آگے بڑھ گیا تو مجھے یہ کہہ کر مارنے لگا :''انا ا بن الاکرمین ''
میں شریف خاندان کا بیٹا ہوں ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مصر کے حاکم حضرت عمرو بن عاص کو اپنے بیٹے کے ساتھ بلا بھیجا ۔ باپ بیٹا عدالت فاروقی میں حاضر خدمت ہیں ۔
عمر فاروق : این المصری ، مصری کہاں ہے ۔؟'' خذ السوط فاضرب'' کوڑا پکڑو اور مارو۔
مصری جب کوڑے برسانے لگا تو امیر المؤمنین کہتے جارہے تھے '' اضرب ابن الاکرمین''شریف خاندان کے بیٹے کو مارو ۔ مصری نے اتنا مارا کہ حضرت انس کہتے ہیں کہ ہم بھی چاہتے تھے کہ اس کی پٹائی ہونی چاہیے حتی کہ ہماری یہ خواہش ہوئی کہ پٹائی بند ہو جائے ۔
عمر فاروق : ''ضع علیٰ صلعۃ عمرو''کوڑا عمر و بن عاص کے گنجے سر پر بھی مارو ۔مصری : بیٹے سے میں نے قصا ص لے لیا ہے ۔
عمر فاروق : عمرو بن عا ص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
''مذکم تعبدتم الناس ومن ولدتھم امھاتھم احرارا ''
"لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنا کے رکھا ہے ؟ حالانکہ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنم دیا ہے " ۔21
عمرو بن عاص :اے امیر المؤمنین اس واقعہ کی مجھے خبر نہ ہے اور نہ مصری شکایت میرے پاس لایا ہے۔
4.3۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور روشن مثالیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گمشدہ زرہ ایک یہودی کے پاس پائی گئی تو یہودی نے کہا کہ یہ زرہ میری ملکیت ہےآپ اور میرےدرمیان مسلمانوں کا قا ضی ہی فیصلہ کر سکتا ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اور یہودی قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے تو قا ضی شریح تعظیم کے لئے اٹھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے کا حکم دیا ۔ قاضی شریح نے مقدمہ سنا اور زرہ کو دیکھ کر کہا کہ اللہ کی قسم اے امیر المؤمنین آپ کا دعویٰ سچا ہے زرہ آپ کی ہے مگر آپ کو دو گواہ پیش کرنا ہوں گے ۔ آپ نے اپنے غلام قنبر کو اور جنتی سرداروں حسن و حسین علیھما السلام کو عدالت میں بطور گواہ پیش کیے ۔قاضی نے کہا غلام کی گواہی قبول ہے بیٹوں کی گواہی باپ کے حق میں قابل قبول نہیں ہے اس لئے ایک گواہ اور پیش کیجئے ۔دوسرے گواہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے قاضی شریح نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے زرہ یہودی کے حوالے کردی یہودی نے جب امیر المؤمنین کے خلاف مسلمانوں کے قاضی کی عدالت کی یہ انصاف پروری دیکھی تو اس سے رہا نہ گیا کہا اے امیر المؤمنین یہ زرہ آپ ہی کی گری ہوئی میں نے اٹھائی تھی ۔ یہ آپ کی ملکیت ہے آپ و صول کیجئے پھر کلمہء شھادت پڑ ھ لیا :
'' اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمد ارسول اللہ ''
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ اور گھوڑا بھی اس یہودی کو تحفۃ کے طور پر دے دیا ،فقال علی:
"اما اذا اسلمت فھی لک و حملہ علی فرس عتیق ''22
5۔ عدلیاتی و عدالتی روشن مثالیں
سلطان مراد کے حکم سے ایک نامی گرامی معمار نے ایک مسجد کو بڑی محنت سے بنایا ۔خدا کی تقدیر سے وہ مسجد سلطان مراد کو ڈیزائن کی وجہ سے پسند نہ آئی سلطان مراد نے غصے میں آگ بگولہ ہو کر ا س معمار کا ہاتھ کاٹ دیا ۔ غریب اور بیمار معمار قا ضی کی عدالت میں انصاف کی خاطر پیش ہوا ۔درخواست گزاری میں کہا کہ میں کسی کا غلام نہیں ہوں آپ کی عدالت میں قرآن مجید کی تعلیم کی روشنی میں اپنے مقدمہ کا فیصلہ چاہتا ہوں دیکھیے میرے بازو سے خون کی نہر جاری و ساری ہے مجھ کمزور اور ناتواں پر رحم کھاتے ہوئے رسول معظم ﷺ کے آئین اور قانون کے مطابق حق بات کا پیغام عام کرنے میں دیر نہ کیجیے ۔قاضی نے سلطانی جاہ و حشمت اور جلال کی پرواہ کیے بغیر بادشاہ کو اپنی عدالت میں طلب کیا ۔ قرآن کریم کی ہیبت اور رعب سے سلطان کا رنگ فق ہوگیا اور ماتھے سے شر مندگی کا پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔
قاضی نے کہا قرآن مجید میں قصاص ( جان کا بدلہ جان ) کا حکم اور قانون آیا ہے ۔ کیونکہ اس قانون کی وجہ سے زندگی میں استحکام آجاتا ہے ۔ قرآن مجید کا حکم سن کر سلطان مراد نے حیلہ بہانہ کیے بغیر قصاص (بدلہ) دینے کےلئے اپنا دست شاہی آگے بڑھا دیا ۔ لیجیے یہ شاہی ہاتھ بدلہ چکا دیجیے اور قصاص کے قانون سے زند گی کو مضبوط بنادیجیے ۔ یہ عدالتی اور شاہی انصاف دیکھتے ہوئے معمار اپنے جذبہ کو قابو نہ رکھ سکا اور اس نے کہا کہ سلطان مراد بادشاہ کو میں نے اللہ جل جلا لہ ، اور اس کے رسول معظم ﷺ کی خاطر معاف کردیا ۔
علامہ اقبال لکھتے ہیں :
''گفت قا ضی فی القصاص آمد حیٰوۃ زندگی گیرد بایں قانون ثبات عبد مسلم کمتر از احرار نیست ۔خون شہ رنگین ترازمعمارنیست ۔چو مراد این آیہء محکم شنید دست خویش ازآستین بیردہ کشید مدعی را تاب خاموشی نماندآیہء بالعدل و الاحسان خواندگفت از بہر خدا بخشید مش از برائے مصطفیٰ بخشید مش یافت مورے بر سلیمان ظفر۔ سطوت آئین پیغمبر نگر پیش قرآں بندہ و مولا یکے دست بوریا ومسند دیبا یکے است ''23
اللہ جل جلا لہ ، نے اپنے رسول معظم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی حیات مبارکہ کو انسانیت کی رشدو ہدایت کے لئے ایک عملی نمونہ قرار دیا ہے قرآن کریم میں واضح ارشادات موجود اور مذکور ہیں ۔ یہ اسوہ حسنہ اور نمونہ کمال جس کی روشنی میں انسانیت اپنی معراج کو پا سکتی ہے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات طیبہ کے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک ساعت کو ولادت سے لے کر وصال پر کما ل تک سیرت کا نام دیا جاتا ہے اللہ جل جلا لہ، کے رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات طیبہ ولادت تا وصال ہر ہر ادا شریعت اور سیرت کے نام سے موسوم کی جا سکتی ہے ۔مختلف زبانوں کی وقیع لغات کا مطالعہ کیا گیا تو یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ سیرت کا لغوی معنی ، عادت ، خود کردار ، شخصی احوال ، سوانح اور کریکٹر کے ہیں ۔لغوی حوالے سے دیکھا جائے تو سیرت محمود ہو سکتی ہے اور سیرت مذموم بھی ہو سکتی ہے ۔شخصی ، سوانح ،کردار اور کوائف کے بعد ہی سیرت محمودہ اور سیرت مذمومہ کا ادرا ک کیا جا سکتا ہے ۔ علم لغت کی وقیع کتب کا اس معاملہ میں اتفاق اور اتحاد ہے کہ سیرت کےمعانی میں کردار اور کریکٹر کے لغوی معانی کا اشتراک دیگر معانی کے ساتھ موجود ہے ۔
سیرت طیبہ ﷺ کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ آپﷺ کے قول ، فعل ، اور تقریر کو سیرت کا نام دیا جاتا ہے بنظر عمیق جائزہ لیا جائے قول ، فعل اور تقریر کے ساتھ حدیث کی تعریف کی جاتی ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث اور سیرت کے درمیان چند اصطلاحی مفہوم کے علاوہ چنداں اختلاف نہ ہے آپ ﷺ کے قول ، فعل ، تقریر ، عادات ، احوال ، شمائل ، خصائل ، فضائل ، ولادت ، بچپن ، لڑکپن ، شباب ، وصال ، معجزات حتی کہ آپﷺ کی زندگی کے ایک ایک گوشہ اور ایک ایک ساعت کا تذکرہ جمیل سیرت کے مفہوم میں شامل ہے ۔
بعض لائق وفائق سیرت نگاروں نے اصحاب اور آل کے ذکر خیر کو بھی سیرت میں شامل کرلیا ہے ۔سیرت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کا خلاصہ یہ ہوا کہ آپ ﷺ کے ولادت سے وصال باکمال تک من جملہ حالات و واقعات اور کوائف کا تذکرہ جمیل سیرت مصطفیٰ ﷺ کہلاتا ہے سیرت کا یہ لفظ آپ ﷺ کے حالات وواقعات کے ذکر کے ساتھ خصوصیت اختیار کرگیا ہے ۔
اللہ جل جلا لہ کے رسول معظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت کے دو پہلو ہیں جمالیاتی پہلو ، اور تعلیماتی پہلو ،جمالیاتی پہلو میں سیرت مصطفیٰ ﷺ کے کمالات اور خصائص کا تذکرہ جمیل ہوتا ہے اور تعلیماتی پہلو میں آپ ﷺ نے انسانیت کو جنت کا راہ دیکھانے کےلئے جو سامان کیا ہے یعنی آپ ﷺ کے اقوال و اعمال جن میں پیدائش سے لےکر قبر تک کی راہنمائی موجود اور مذکور ہے ۔ سیرت نگار سیرت طیبہ کے اسلوب میں بھی مختلف ہیں۔ متقدمین سیرت نگار آپ ﷺ کی سیر و مغازی پر خصوصی توجہ دیتے تھے اور اس کو سیرت کا نام دیتے تھے پھر اس اسلوب میں وسعت پیدا ہوئی تو آپ ﷺ کے معجزات او رولادت کے واقعات کو بھی شامل کرلیا گیا ہے عصر حاضر میں سیرت نگاری نئے اسلوب اور نئے رجحانات کے ساتھ جلوہ نما ہے آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے ایک ایک گوشہ اور ایک ایک قول و فعل اور تقریر پر ایک سیرت کی کتاب کو مرتب کرلیاجاتا ہے ۔
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت مبارکہ دین اسلام میں روح کی حیثیت رکھتی ہے قرآن مجید جو ابدی اور سرمدی تعلیمات کا ایک لاثانی خزانہ ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل آپ ﷺ کی سیرت کے بغیر نا ممکن اور محال ہے ۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ کے بغیر قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والا اپنے دعویٰ میں خام اور جنون کے مرض میں مبتلاء ہے آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی ضرورت و اہمیت ہر لمحہ اور ہر ساعت مسلم ہے۔ عصر حاضر میں آپﷺ کی سیرت مبارکہ کی ضرورت و اہمیت اور مطالعہ دینی اور علمی ضرورت کے لئے چاند اور چاندنی سا تعلق رکھتا ہے ۔ سیرت طیبہ کی دینی اور عملی حوالے سے ضرورت اور احتیاج ہے ۔ رشدو ھدایت ، انسانیت کا نمونہ ہونے میں خضر راہ ہے ۔ معرفت الٰہی کےلئے ایک کامیاب ذریعہ ہے ۔ سیرت طیبہ کی عصرحاضر میں سیاسی ، اخلاقی ، سماجی ، اور علمی و ثقافتی حوالے سے بھی ضرورت اور احتیاج اشد ہے۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ اور ضرورت کو خاطر میں لئیے بغیر ان امور میں کامیابی نا ممکن ہے ۔
سیرت طیبہ کا عدالتی پہلو اگر عصر حاضر میں کلی طور پر اپنا لیا جائے تو یہ پہلو عدل و انصاف کی وہ مثال قائم کرے گا کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردے گا ۔آپﷺ کے عدالتی فیصلوں نے غیروں کے دلوں کو بھی موہ لیا تھا ۔ سیرت طیبہ کا قانونی پہلو ،عدالتی فیصلے ،خلافت راشدہ کے زریں فیصلہ جات اور اسلامی خلفاء اور بادشاہوں کے عظیم عدل وانصاف کی روشنی میں سنہرے فیصلے استحکام مملکت کے لئے مشعل راہ ہیں ۔
سفارشات و نتائج
سیرت طیبہ کا تشریعی وعدلیاتی پہلو استحکام مملکت کی راہنمائی میں اپنی مثال آپ ہے اور استحکام کا ضامن ہے مستحکم مملکت کی بنیاد رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مندرجہ اقدامات ، سفارشات ، اور نتائج کے حصول میں اپنی مخلصانہ کوششوں کو فروغ دیا جائے ۔
1۔ عصر حاضر میں استحکام مملکت کے لئے ضروری ہے کہ سیرت مصطفیٰ ﷺکا عملی نفاذ کیا جائے اورسیرت کے مطالعہ کو فروغ دیاجائے ۔ مطالعاتی سیرت کا یہ فروغ ، نصاب ، وعظ و نصیحت ، سیمینارز ، سیرت نگاری ، کتب سیرت کی ہر کس و ناکس تک رسائی اور میڈیا کے فعال کردار سے پروان چڑھایا جا سکتا ہے ۔
2۔استحکام مملکت کے لئے ضروری ہے کہ مملکت کا آئین اور قانون من جملہ کلی طور پر شریعت مصطفیٰ ﷺ کے زیر سایہ تشکیل پائے تاکہ نورانی برکات سے فضا عدل و انصاف سے معمور ہو جائے ۔
3۔استحکام مملکت کےلئے ضروری ہے کہ تشریعی و عدلیاتی نظام کے خداوندگان گلشن کی تعلیم و تربیت ، اور تعیناتی اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہو ۔منصب اور عہدہ طلب کرنے والوں کی پر زور حوصلہ شکنی کی جائے اور خدا ترس ، دیندار ، علم و فکر کے حامل لوگوں کے انتخاب میں اپنی توانائی خرچ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیاجائے ۔
4۔ عصر حاضر میں استحکام مملکت کے لئے سیرت کی روشنی میں یہ بھی ضروری ہے ۔ اسلامی قوانین کے علاوہ دیگر قوانین کو خیر باد کہنے میں توقف سے کام نہ لیا جائے ۔فقیہہ علماء کی آراء کی روشنی میں عائلی اور تعزیرات کے قوانین کی تشکیل دی جائے ۔
5۔استحکام مملکت کے لئے ضروری ہے کہ آئین سازی خدا ترس علماء وفضلاء ، عابدین و زاہدین ،دانش ور اور اسلامی فکر کے حامل اسکالرز کا حق قرار دیا جائے ۔ جاہل اور جعلی تعلیم رکھنے والوں کو آئین سازی کا حق دینا عدل و انصاف کا گلا گھوٹنے اور مملکت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے برابر ہے ۔
6۔استحکام مملکت میں سیرت طیبہ کی روشنی میں یہ بھی ضروری ہے کہ فقہ الحدیث اور فقہ کو نصا ب کا باقاعدہ اور اہتمام کے ساتھ حصہ بنایاجائے اور قرآن و سنت کے عین مطابق اور عقل و نقل کی بنیاد پر فقہ کو اہمیت دی جائےاور اسے رائج کیا جائے تاکہ مملکت کا عدلیاتی نظام سنہرے فیصلہ جات کا ایک زریں دور کہلاسکے ۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Lo’īs Ma‘lūf, Al-Munjad, 491.
2 Mawlvī Firūz al-Dīn, Firūz al-Lughāt (Urdu), 943.
3 Ghiyāth al-Dīn bin Khalīl al-Dīn, Ghiyāth al-Lughāt (Persian), 460,461.
4 Abū al-Qāsim Husain bin Muḥammad Asfahānī, Al-Mufridāt Fī Gharīb al-Qur’ān,
5 Sharīf ‘Alī bin Muḥammad Jarjānī, Kitāb al-Ta‘rīfāt, 63.
6 Imām Fakhr al-Dīn Rāzī, Fatḥ al-Ghaib, 20:105.
7 Abū al-Kalām āzād, Rasūl e Raḥmat,
8 Muḥammad Nazīr Rāmpurī, Dar e Yaktā Sharaḥ Karīmā (Sheikhū pūrah, Maktabah Ashrafiyah, 1914 A.D), 33,34.
9 Prof. Muḥammad Hanīf Shāhid, ‘Adl wa insāf,25.
10 Muḥammad bin ‘īsā Tirmazī, Al-Sunan, Hadith No. 1327.
11 Al-Naḥl 16:19.
12 Al-Mā’idah 5:8.
13 Dr. ‘Abd al-Ra’ūf Zafar, ‘Uswa e Kāmil, 761.
14 Jalāl al-Dīn Suyūtī, Al-Khasā’is al-Kubrā (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah 4th Edition, 1433 A.H), 1:314.
15ālūsī Baghdādī, Rūḥ al-Ma‘ānī Fī Tafsīr al-Qur’ān al-‘Azīm Wa al-Saba‘ Mathānī (Beirūt: Dār aḥyā’ al-Rurāth al-‘Arabī, S.N), 5:67.
16 Al-Nisā’ 4:65.
17Ghulām Rasūl Sa‘īdī, Ni‘mat al-Bārī (Lahore: Farīd Book Stall 3rd Edition, 1431 A.H), 1:314.
18 Aḥmad bin ḥajar Makkī Heithmī, Al-Sawā‘iq al-Muḥriqah Fī al-Radd ‘Alā Ahl al-Bid ‘ah wa al-Zindqah (Multan: Kutub Khanah Majīdiyah, 3rd Edition, 1998 A.D), 4:533.
19Shams al-Dīn al-Sakhāvī, Al-Maqāsid al-ḥasanah Fī Bayān Kathīr Min al-Aḥādīth al-Mushtahirah ‘Alā al-Sunnah, Hadith No. 464.
20 ‘Abd al-Mālik Mujāhid, Sunehry Faisly (RiyāÃ: Dār al-Salām, 1427 A.H), 276, 277.
21‘Alī Muttaqī Bin ḥassām al-Dīn Hindī, Kanz al- ‘Ummāl Fī Sunan al-Aqwāl wa al-Af ‘āl (Beriūt: Beit al-Afkār, 2nd Edition, 2005 A.D), 859. Hadith No. 17789.
22‘Alī Muttaqī Bin ḥassām al-Dīn Hindī, Kanz al- ‘Ummāl, 869. Hadith No. 17789.
23 Dr. Muḥammad Iqbāl, Asrār wa Ramūz, Ramūz e Meikhudī (Lahore: Sheikh Gulām ‘Alī and Sons, 14th Edition, 1990 A.D), 108.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2021 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |