2
1
2021
1682060063651_3197
44-64
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/22/23
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/22
Ibn Taymiyyah jurisprudential differences inference rules consensus of the ummah ijtihad.
ابنِ تیمیہ کا فقہی مقام اور استنباطِ احکام کے اصول؛ ایک تجزیاتی مطالعہ )50(
ابنِ تیمیہ کا فقہی مقام اور استنباطِ احکام کے اصول؛ایک تجزیاتی مطالعہ
An analytical study of Ibn-e-Taymiyyah's jurisprudential position and principles of elicitation rules
Muhammad Fazal Haq Turābī
In Islamic jurisprudence, there are different degrees of inference and reasoning. He is also a mujtahid who, while respecting the principle of a particular religion, differs from his religion only in its branches and does not go against the principles of that particular religion. There is also a mujtahid who has jurisdiction over both the principles and the rules. Such a mujtahid is not a follower of any of the jurisprudential religions. Taqi-ud-Din Ahmad ibn Taymiyyah remarkable, recognized, and medieval Sunni Theologian, jurisconsult, logician, and great reformer today, he is known by the title of Sheikh-ul-Islam. In some sciences and arts, he had Ijtihadi abilities and practitioners. He did not spare a single minute in expressing his critical ability and competence according to his instincts in principles and disciplines. Ibn Taymiyyah's critical ability and competence were manifested in the form of differences in the scientific world of the Islamic world. Due to this, Ibn Taymiyyah faced severe criticism from the academic circles all his life. In this article, it will be reviewed that Ibn Taymiyyah's jurisprudential and doctrinal differences came to light based on ijtihad, principles and his jurisprudential position and status and method of derivation and reasoning of the issues.
Keywords: Ibn Taymiyyah, jurisprudential differences, inference rules, consensus of the ummah, ijtihad.
تعارف:
اسلامی فقہ میں استنباط اور استدلال کرنے والے اصحاب علم و فضل کے متفاوت درجات ہیں ۔وہ بھی مجتہد ہےجو معین مذہب کے اُصول کا احترام کرتے ہوئے صرف فروعات میں اپنے مذہب سے اختلاف کرتا ہے اور اس معین مذہب کے اصولوں کے خلاف نہیں کر تا ہے۔ایک ایسا مجتہد بھی ہوتا ہے جو اُصول و فروع دونوں میں اپنے اختیار کا دا ئرہ کار رکھتا ہے۔ ایسا مجتہد فقہی مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کا پیروکار نہیں ہوتا ۔آسان لفظوں میں اس کا ایک اپنا ہی مذہب پروان چڑھ رہا ہوتا ہے۔ایسے مجتہد کو مجتہدِ مطلق کہتے ہیں جو مجتہد اصول اور فروع میں سے کسی میں اپنی فکر کا زاویہ داخل نہیں کرتا بلکہ علت ِحکم کے استخراج سے فروع پر تخریج کرتا ہےجو مذہب معین کے قواعد و ضوابط پر مبنی ہوتی ہیں اور اُنہیں قواعد کی بنا پر فتویٰ دیتا اورمسائل کی تخریج کرتا ہے۔ایسی صلاحیت کا حامل شخص مجتہد فی المذہب کہلاتا ہے۔یہ مجتہد ایک خاص فقہی مذہب کےدائرہ میں رہتے ہوئے علت ِمستخرجہ کی بناء پر اور دیگر فروعی مسائل کی تخریج کی بناء پر فتویٰ دیتا ہے۔مقالہ ہٰذا میں امام ابن تیمیہؒ کے اصول فقہ کی روشنی میں ان کے فقہی مقام کا ایک تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔
مجتہدین کی اقسام
مجتہدین کی مندرجہ ذیل پانچ اقسام ہیں:
1۔ مجتہد مستقل یا مطلق :
یہ وہ مجتہد ہوتا ہے جو کسی خاص مذہب کا پابند نہیں ہو تا ہے ۔استباط اور استدلال کے اُصولوں میں دوسرے آئمہ مذاہب سے مختلف ہو تا ہے۔یعنی وہ اپنے مذہب کا بانی اور مبانی ہوتاہے۔
2۔ مجتہد منتسب :
وہ مجتہد جو اُصول اور فروعات میں امتیاز کرتا ہو اور اپنے دلائل و براہین کی روشنی میں حکم بھی لگاتا ہو ۔لیکن آئمہ فقہ میں سے کسی امام کے منہج ،طریقہ استدلال اور طریقِ استباط کی پیروی کرتا ہو۔اُصول و ضوابط کی پیروی میں زیرِ سایہ شفقت کا نتیجہ ہو یا ذاتی مطالعہ اور تحقیق کی وجہ سے اُصولوں کی پابندی پر مجبور ہو ۔در حقیقت اس کی دعوت اپنے امام ہی کی طرح ہے۔ کیونکہ اپنی تحقیقی کاوشوں میں اُس نے اپنے امام کو صواب کے زیا دہ قریب اور اَولیٰ پایا ہے ۔مالکیہ میں ابنِ وہب ، ابن ِقاسم اور ابنِ عبد الحکم ،شوافع میں مز نی اور احناف میں زُفر بن ہذیل ، ابو یوسف ، اور حُمید اِس صلاحیت و قابلیت کے حامل تھے۔ اپنے امام سے آراء میں فروعی اختلاف کرتے ہیں مگر مذہب سے خارج نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ ایسی فکری کاوش اس مذہب کی نشو ونما اوراُفق عالم پر وسعت کی دلیل بن جاتی ہے۔ایسی فکری آراء کو مذہب میں " وُجوہ " کا نام دیا جاتا ہے۔
3۔ مجتہد مقید :
یہ وہ مجتہد ہوتا ہے جو کسی خاص مذہب کو ثابت کرتا ہے۔ اُصول و فروع میں اس خاص مذہب کا پابند ہوتا ہے۔احکام و حوادث سے سابقہ پڑ جانے کی صورت میں امام کی رائے نہ ہو تو تلاش ، جستجو ، استدلال اور استنباط میں اپنے آپ کو کھپا دیتا ہے۔اسکی اُصولی پیروی تقلیدی ہوتی ہے۔ کتاب و سنت ،اجماع اور اجتہاد کے طریقہ کار سے واقف ہونے کے باوجود علمِ حدیث کی کمی اور معارضہء استدلال سے تہی دامنی ہونے کی بنا ء پر ملکہ ء اجتہاد میں خام ہوتا ہے۔ صرف اُن مسائل میں اجتہاد کو حرکت دیتا ہے جن کے بارے میں اس کے امام کی آراء اور فتویٰ موجود نہ ہو۔ مجتہد منتسب اُصول میں اختیار کرتا ہے ۔ مصادر شریعت کے کامل علم کے ساتھ آزادانہ فتویٰ کا مجاز ہوتا ہے ۔ جب نص نہ پائی جا ئے تومجتہد مقید اُصول میں مُقلد ،مصادرِ شریعت میں خام اور بوقت ضرورت فتویٰ کا مجاز ہے ۔
4۔مجتہد فقہیہ :
یہ مجتہد اَدِلہء مذہب سے پورا واقف ، مذہب ِامام سے آشنائی میں تام ، تائید و نصرت میں دلائل کے قیام اور قلم بندی میں طاق ہوتا ہے۔ البتہ فقہ کے اُصول و مصادر سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتا ہے۔ یہ شخص اِبتلاء ، عدم ِنص اور اعلیٰ شخصیت کے نہ ہونے کے وقت فتویٰ کا مجاز ہوتا ہے ۔
5۔مفتیء مذہب:
مفتیء مذہب کا کم ازکم معیار یہ ہے کہ اپنے مذہب کا حافظ اور مشکلات ِمسائل حل کر سکتا ہو مگر مذہب کی بنیادوں اور دلائل کو بیان کرنے سے قاصر رہ جائے ۔نصوص نہ مل سکنے کی صورت میں مناسب ِحال چیز مل جائے تو وہ فکر و اجتہاد سے کام لیے بغیر فتویٰ دے دیتا ہو ۔ایسا فقہیہ النفس ہو کہ اپنے مذہب کی فقہیات میں ملکہ راسخہ کا حامل ہو ۔مراتب ِ اجتہاد میں مذہبِ حنبلی کے مطابق یہی لوگ فتویٰ دینے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتے ہیں۔ابن صلاح لکھتے ہیں:
"لاتجوز الفتویٰ بغیر ھٰوءلاء الاصناف الخمسۃ "۔1
مجتہدین کے مراتب کی یہ مذکورہ تقسیم ابنِ تیمیہؒ کے بیان کے مطابق ہے۔ اب تِشنہ طلب سوا ل یہ ہے کہ مراتبِ عالیہ میں سے ابنِ تیمیہ مجتہدین کے کسی مرتبے اور مقام پر فائز ہیں۔ یہ ثابت ہے کہ اُصول و ضوابط ، حدیث میں دَرک ، مصادرِ شریعت کی مہارت ِتامہ اور اجتہاد کی منجملہ شرائط آپ کے اندر بدرجہ اَتم موجود ہیں ،جن کا اعتراف حلیف و حریف بھی کرتے ہیں۔
"آئمۃ عصرہ شھدوا بان ادوات الاجتھاد اجتمعت فیہ"،واجتمعت فیہ شروط الاجتھاد علی وجھھا"2
اس بات میں کو ئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ابن تیمیہ مجتہدین کے آخری تین مراتب یعنی مجتہد مقید ، مجتہد فقہیہ اور مفتیء مذہب سے بہت زیادہ اعلیٰ اور فائق ہیں ۔جس پر فقہی افکار و اختیارات ،مسالک سے استدلال کی واقفیت تامہ ، قرآن و سنت کاعلم ،علوم سلف اور جامعیت علوم و فنون شاہد عادل ہیں۔یہ سب خصائص آپ کو آخری مراتب سے اٹھا کر پہلے دو مرتبوں میں جگہ دینے کیلئے کافی ہیں۔ اور یہ جگہ اُصولی علماء اور فُضلاء کی ہے ۔ابن تیمیہ اپنی فقہی آراء اور اُصول و ضوابط کے مطابق مجتہدین کےپہلے دو درجوں میں جگہ پانے کے قابل ہیں کہ آپ کو مجتہد مطلق یا مجتہد منتسب میں سے کوئی ایک مقام حاصل ہونا چا ہیے ۔اس قابلیت اور صلا حیت نے آ پ کو اپنے اختیارات میں متفرد بنا دیا ہے ۔
ابنِ تیمیہؒ کی ذات عجب رنگوں والی شخصیت ہے۔ پوری زندگی آپ مبالغہ اور غلو سے انحراف و احتیاط کی تعلیم و تربیت کرتے رہے مگر آپ کے بعد آپ کی شخصیت سے متاثر لوگوں نے آپ کے بارے میں بھی غلو اور مبالغہ کی راہ اختیار کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور یوں ان مبالغہ اور غلو کرنے والوں نے آپ کی شخصیت کی تعلیم و تربیت کو پس پشت ڈال دیا ۔
یہی فقہی قابلیت اور صلاحیت جس نے آ پ کو درجہِ اجتہاد پر فائز کیا اور اجتہادیت اور فقاہت کا درجہ حاصل ہو نے کی وجہ سے آپ کا متفرد ہونا قرین ِقیاس اور ایک ضروری امر تھا کہ آپ اپنی تحقیقات ، تد قیقات اور فقاہت و اجتہادیت کی روشنی میں دوسرے مجتہدین سےاختلاف کی راہ اختیار کرسکتے تھے۔ آپ کی اس فقاہت اور اجتہادیت کے بارے میں غلو کرتے ہوئے آپ کو مجتہد مطلق قرار دے دیا گیا ۔جس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی مذہب سے کوئی انتساب نہیں رکھتے تھے۔اُصول و ضوابط اور فروعات میں اپنے ایک مستقل مسلک کے حامل تھے۔یہ بلا دلیل دعویٰ افراط سے معمور ہونے کے ساتھ ساتھ آپکی ثقاہت کیلئے ضرر رساں بن سکتا ہے اور دوسرے مذہب کیلئے سوء ادبی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے ۔نواب محمد صدیق حسن خان قنوجی آپکے تعارف میں رقمطراز ہیں:
"شیخ الاسلام امام الائمہ المجتھدالمطلق"3
ایک دوسرے مقام پر آپ لکھتے ہیں:
"امامین ہمامین شیخ الاسلام حضرت احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ حرانی و حافظ محمد بن ابی بکر ابن القیم باوجود بلوغ رتبہ اجتہاد مطلق نزد عامہ منتسب بسوئے امام احمد اند "۔4
ابن تیمیہ ؒ کے بارے میں مجتہد مطلق کا دعویٰ خام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اکثر آراء و افکار میں مذہب حنبلی سے وابستہ نظر آتے ہیں اور کھلےلفظوں میں اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ یہ مذہب تمام مذاہب میں بہتر اور اَقرب الیٰ السنۃ ہے۔اختلاف ِاقوال میں امام احمد کا مذہب راجح ہے۔ منفرد ہونے کی صورت میں ایسا قول بھی مل جائے گا جس میں دوسرے آئمہ موافق ہونگے۔ ابن تیمیہ احمد بن عبد الحلیمؒ (728ھ)لکھتے ہیں:
"وان کان لہ بصر بالادلۃ الشرعیۃ عرف الراجح فی الشرع"5
ابن تیمیہ ؒنے اپنے مذہب کی بنیاد امام احمد کے اُصولوں پر رکھی ہے۔جس کی وہ مخالفت کے در پے بھی نہیں ہوتے ہیں ۔اس وجہ سے مجتہد مطلق یا مستقل مجتہد کا دعویٰ خام ہے۔ آپ کو مذہبِ حنبلی کا فقہیہ بھی نہیں گردانا جا سکتا ہے۔ کیونکہ حفظِ احادیث، تقابلی مطالعہ ، اصول فقہ کے دقائق کا علم ، استقلالی شان ، مجتہدانہ بصیرت اور شرائط اجتہاد کا اجتماع اس بات کی نفی کرتا ہے۔افراط و تفریط سے بچ کر رائے قائم کی جائے اور غلو سے کام نہ لیا جائے تو اس صورت حال میں آپ کے لئے مجتہد منتسب کا دعویٰ بلا تامل کیا جا سکتا ہے ۔ محمد ابو زہرہ لکھتے ہیں:
"القول المعتدل الذی لامغالاۃ فیہ ولاشطط ولابخس ولارکس انہ مجتھد منتسب"6
آپ میں مطلق یا منتسب کی خصوصیات پائی جاتی ہیں مگر آپ کادور تو اجتہاد کے دور کے بعد کا ہے اور اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا تھا ۔ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخصیت کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ۔ا س کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی تو ایسا دعویٰ کیا گیا ہے جیسے ابن الھمام جو علوم عقلیہ اور نقلیہ کے ماہر تھے۔7 اور جس کو رد بھی کیا گیا ہے کہ وہ فقیہ النفس بھی نہ تھے ۔8
آپ کے فتاویٰ اور اختیارات اس دلیل کیلئے کافی ہیں کہ آپ مجتہد منتسب تھے۔ حنبلی مذہب سے موافقت بر بِنائے تقلید نہیں ہے بر بِنائے تحقیق ہے ۔ موافقت بر بنائے تحقیق اور اختیارات میں متفرد ہونا بربنائے فقاہت اور اجتہاد ہے۔ابن تیمیہ تو صاحبِ صلاحیت کیلئے شدت سےتقلید کی مخالفت کے در پے تھے ۔ابن تیمیہ کی آراء اور افکار کو حنبلی مذہب کی ذیلی فروع میں اس لئے شمارنہیں کیا گیا ہے کیونکہ مذہب حنبلی کو مدون ہوئے پانچ صدیاں بیت چکی تھیں دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ آپ کو تفرد کا الزام دیتے تھے لیکن آپ برابر ثابت کرتے رہے کہ یہ مسائل آئمہ اربعہ کے اصولِ استدلال پر مبنی ہیں اور اُنہیں کی نوع سے ہیں مگر شدید مخالفت کی وجہ سےحنابلہ کیلئے یہ جسارت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔دوسری طرف قید وبند کی صعوبت کی وجہ سے آزادانہ اور خود مختارانہ آپ اشاعت نہ کر سکے ۔
ابن تیمیہؒ کا فقہی منہج:جب ابن تیمیہ کے فقہی تفردات کا بنظر ِعمیق مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ اپنے تفردات اور اختیارات میں کوئی الگ راہ اور ڈگر پر ہرگز نہیں چلے ہیں ۔بلکہ آپ نے اپنے تفردات اور اختیارا ت میں متفقہ اصول وقواعد سے کما حقہ استفادہ کرکے اپنی انفرادی رائے میں ممتاز ہو ئے ہیں۔بالفاظ دیگر آپ کے یہ تفردات قواعد واصول کے مجموعہ کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں۔جن پر آپ اعتماد کرتے ہوئے اپنی آراء اور اختیار ات کے نتائج کو سامنے لائے ہیں ۔بادی النظر یہی شے تحقیق و تدقیق کی ایک نرالی اور انوکھی شان ہے۔اور علمی عظمت ووقار کی علامت ہے۔ابن تیمیہ کے تفردات و اختیارات میں جب تدبر و تعمق سے کام لیا جاتاہے تو یہ بات حد و ضوح تک واضح اورآشکار ہو جاتی ہے کہ آپکی فقہ اور تفردات کی دیواریں انہی اصول کی بنیادوں پر استوار اور مستحکم ہیں۔اصول و قواعد کی دو نوع ہمارے پیش نظر ہیں:
ایک نوع کی طرز تو ایسی ہے ، جس میں باقی علمائے اہل سنت وجماعت شارک اور مشترک ہیں ۔اور اصول و استدلال میں جن پر سبھی کا اتفاق و اتحاد ہے۔
دوسری نوع قواعد و ضوابط ہیں ۔جنکی وجہ سے ابن تیمیہ فقہ اور تفردات میں اپنا رنگ جمانے میں کمال و جمال دکھا گئے ہیں۔یہی وجہ ہے جس شخص کو پہلے اطلاع نہیں ہوتی ہے وہ شخص ابن تیمیہ کی فقہ کا معترف اور دلدادہ ہو جاتا ہے اور یہ ایسے امور ہیں جن کا مرجع قدرت موہبت ہے۔اور دلائل و قواعد کو بروئے کار لانے کی صلاحیت و قابلیت ہے ۔جنکی وجہ سے آپ کی فقہ اور تفردات ممتاز اور امتیاز پاجاتے ہیں۔
اُصولِ استدلال اور ابن تیمیہ :
یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ ابن تیمیہ نے استدلالی اصول و ضوابط میں کسی قسم کی بدعت وجدت کا ارتکاب نہیں کیا ہےاور نہ ہی آپ نے ان اصول و ضوابط کی روشنی میں حدود کو پھلانگتے ہوئے سبقت کی ہے۔ جس پر خواہ مخواہ کا شور و غوغاکیا جائے۔بلکہ آپ نے اہلِ سلف اور اہلِ سنت وجماعت کے مصدری اور استدلالی اصول و ضوابط کی پابندی کرنے میں سلف صالحین کی روش پر چلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔جس کانتیجہ اور ثمرہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ کے تفرداتِ فقہی میں ایسا قول جو شاذ ہو ،ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ جس میں آپ نے مسلمانوں کےاجماعی مسئلہ سے خلاف کیا ہو ۔حالانکہ سبھی میں مشہور و معروف ہے کہ آپ نے تقلید اور التزام مذہب سے تجرد کیئے ہوئے تھا ۔ یہ ایک ایسا امر ہے جس سے شذوذ اور اغراب کا ظن و تخمین کیا جا سکتا ہے۔یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی در جہء اجتہادیت پر فائز المرام نہ ہو۔
تعظیم و تقدیمِ نُصوص :
ابن تیمیہ ؒکےتفردات کی امتیازی شان و شوکت یہ ہےکہ آپ کتاب و سنت کی نصوص کو ہر قسم کی رائے اور فکرِ ثاقب پر ترجیح اور تقدیم دیتے ہیں اور یوں آپ کتاب و سنت کی نصوص کی تعظیم و تکریم میں ایک گونہ سبقت لیجاتے ہیں۔ابن تیمیہ کی فقہ اور اختیارات کے متبعین کی نظر کبھی دھوکہ نہ کھا ئے کہ آپ اپنے تفردات کی وجہ سے شاید آراء وقیاسات اور مذاہب کو کتاب وسنت پر مقدم کرتے ہو نگے ، حاشا للہ ہرگز نہیں بلکہ آپ ان کی تقدیم و تعظیم کو اپنے استدلال کیلئے اصل اصول اور اصل اول بالاول قرار دینے اور بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے ہیں۔آپ کے نزدیک جس نے اپنے کلام و تحقیق کی بنیاد اصول و فروع میں کتاب وسنت پر استوار کی ہے اور سابقین کے آثار ماثورہ کواپنایا ہے ۔وہی شخص طریق ِنبوتِ محمدی ﷺ پر چلتے ہوئے مراد و مرام تک پہنچا ہے۔
" فمن بنی الکلام فی العلم الاصول والفروع علی الکتاب والسنۃ والآثار المآثورہ عن السابقین فقد اصاب طریق النبوۃ"1
ابن تیمیہ اس اصول میں اس قدر محتاط اور متشدد ہیں کہ آپ حذر و تحذیر کی صورت میں ان مقلدین جامد کی بدعی روش پر معترض ہیں۔جو لوگ محض اپنے قیاسات اور آراء کے ذریعے سے نصوص پر اعتراضات کے درپے ہوتے ہیں۔ بحث کا میدان وہ میدان ہے جس میں سنت وارد نہیں ہے اور کسی فقیہہ کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنی رائے اور قیاس کے ذریعے سے کتاب و سنت کی نصوص کی تردید کا ارادہ کرے ۔ابن تیمیہ (728ھ)کہتے ہیں :
"ولایجوز ان یعمد الیٰ شیء مضت بہ السنۃ فیردہ بالرائ والقیاس"۔2
قرآن و سنت کی نصوص کی تعظیم وتقدیم میں آپ حد درجہ تک حریص ہیں۔یہاں تک کہ اصحابِ رسول ﷺ کے اقوال جو وحی جلی اور خفی سے محکم ہوں وہ بھی کتاب و سنت کے تابع ہیں ۔حالانکہ اصحابِ رسول ﷺ امت میں سے بہترین امت اور علم و فضل اور دین کے لحاظ اور مرتبہ سے فقہاء اعلی اور افضل جماعت ہیں ۔کسی شخص کے لئے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے کلام کی طرف کھلے عام دعوت دے اور اعتقاد رکھے کہ اس کا کلا م قول صحابی ہےبلکہ جلالت و عظمت اس راستے کو ہے جس کا اللہ جل جلا لہ اور اس کے رسول معظم حضرت محمد ﷺ نے حکم فرمایا ہے۔ دعوت و عزیمت کے داعی اور مبلغ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت میں اس راستے کو مقدم رکھے جس کو اس نے قرآن سے استدلال اور استنباط کیا ہے۔ پھر اس کے بعد اپنی دعوت کے لئے رسول ﷺ کواپنا امام اور پیشوا بنا ئے جو اماموں کے بھی سب سے بڑے امام اور پیشواؤں کے بھی سب سے بڑے پیشوا ہیں۔اسی سیاقِ کلام میں ابن تیمیہ کا کلام ہے :
" و ینبغی للداعی ان یقدم فیما استدلوا بہ القرآن۔۔۔ ثم یجعل امام الآئمۃ رسول ﷺ۔3
ابن تیمیہؒ کا یہ اصول اور ضابطہ قرآنی تعلیمات کے بالکل عین مطابق ہے کہ تمام معاملات اور حالات وواقعات میں اللہ جل جلا لہ اور اس کے رسول معظم حضرت محمد ﷺ کے فرامین کو تقدم کا حق اور درجہ حاصل ہے۔ انحراف میں شک و شبہ ،خسران او رتباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہے ۔ اور اس اصول کی بالا دستی تسلیم اور قبول کرنے میں فوز مبین اور دنیا و آخرت کی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہونا ہے ۔
ابن تیمیہ ؒ اس اصل اصیل اور رکن رکین کی جابجا پُر زور الفاظ میں تاکید اور تلقین کرتے ہوئے گزرتے چلے جاتے ہیں کہ کسی کے لئے جائز و درست نہیں ہے کہ وہ نزاعی اور اختلافی مسائل میں کسی کے قول کے ساتھ حجت قائم کرے۔ فروعی اور نزاعی مسائل میں صرف دو چیزیں نص اور اجماع حجت و دلیل کی حیثیت کاملہ اور عاملہ رکھتی ہیں۔اور ایسی دلیل جو نص و اجماع سے مستنبط ہو وہ حجت ہے جبکہ اس کے مبادی مقدمات شرعی دلائل سے مضبوط اور مستحکم ہونے میں اپنی مثال آپ ہوں ۔شرعی دلائل اور ادلہ کے ساتھ جو مقدمات مستحکم ہیں ان کے لئے علماء کے اقوال بطور حوالہ پیش کیئے جا سکتے ہیں ۔ اَدِلہ شرعیہ پر علماء کے اقوال سے ا حتجاج اور حجت جائز اور درست نہ ہو گا۔اگر کوئی شخص مذہبِ معین پر پلا بڑھا اور اسی مذہب کا عادی ہو گیا اور اس کا اعتقاد رکھتا ہے ۔اَدِلہ شرعیہ کی تحقیق نہیں کرتا ہے تو اس کو چا ہیے کہ وہ سنت رسول ﷺ اور اجماعی مسائل جن پر ایمان واجب ہے، کے درمیان اور بعض علماء کے اقوال کے درمیان تفریق نہ کرے۔جب اس پراقامت حجت متعذر اور متعسر ہو جائے۔ اور جو شخص اس شخص اور اس شخص کے درمیان فرق نہیں کر سکتا ہے اس کے لئے مستحسن نہیں ہے کہ وہ علماء کے کلام کے ساتھ علمی معاملات میں اپنے ناقص کلام کے ساتھ دخل اندازی کے درپے ہو جائے کیونکہ وہ دیگر علماء کے اقوال کا محض ناقل ہے۔ درحقیقت یہ لوگ فقاہت فی الدین کی دولت سرمدی سے مالا مال ہی نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ تو بعض علماء کے کلام اور مذاہب کے ناقل ہیں۔ فقاھت ،ادلہ شرعیہ کے فہم کامل کا نام ہے اور یہ ادلہ شرعیہ کتاب و سنت اور اجماع سے ازروئے نص اور استنباط ثبوتی مسموع ہوتی ہیں۔
" وھٰؤلاء لیسوا فی الحقیقۃ فقھاء فی الدین۔۔ والفقہ لا یکون الا بفھم الادلۃ الشرعیۃ بادلتھا السمعیۃ الثبوتیہ من الکتاب والسنۃ والاجماع نصاواستنباطا"4
ابن تیمیہ ؒ رقم طراز ہیں :
"ومن کان لا یفرق بین ھٰذا وھٰذا لم یحسن ان یتکلم فی العلم بکلام العلماء"5
ابن تیمیہ ؒ کی تصنیفات و تالیفات اور رسائل و مسائل کا ایک طائرانہ جائزہ بھی لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ آپ نےمنجملہ مطالب اور مقاصد دینی میں کتاب و سنت کی نصوص کے اشتمال کے بیان میں پوری سبقت پر ہیں ۔دینی مطالب کا کوئی ایسا گوشہ اور کونہ آپ نہ پائیں گے جو نصوص کے اشتمال سے تشنہ طلبی کا شکار ہو گیا ہو ۔البتہ دوسرے متفقہ علماء کے کلام اور بیان میں یہ کمی واضح طو ر پر نظر آجائے گی کہ ان علماء نے وحی جلی اور خفی کے اشتمالات سے کما حقہ نہ فائدہ اٹھایا اور نہ ہی تامل کے اسپ تازی کو دوڑایا ہے۔جس کا آپ کو گلہ اور شکوہ ہے کہ انسان نے اپنی طاقت اور بساط کے مطابق نصوص کے اتباع میں انصاف سے کام نہیں لیا ہے۔اور اس کی ساری اجتہادی کوشش اور محنت اشباہ اور نظائر کی تلاش اور جستجو میں کھو کر رہ گئی ہے۔ جس کا مقصدِ وحید صرف یہی تھا کہ اپنی خود ساختہ رائے کی معرفت اس کے لئے آسان اور ممکن ہو جائے ۔
"فمتیٰ قدر الانسان علی اتباع النصوص لم یعدل عنھا والا اجتھد رآیہ لمعرفۃ الاشباہ والنظائر"6
مذکورہ مفہوم اور مطلوب کی عقدہ کشائی کے لئیے قاری کے لئے ضروری ہے کہ وہ ابن تیمیہ ؒ کی فقہ اور آپ کے جلیل القدر اور عظیم المرتبت فتاویٰ جات کا مطا لعہ حرزِ جاں بنائے۔ جن میں آپ اکثر دراکثر کتاب وسنت سے استشہاد پیش کرنے میں اپنی مثال آپ ثابت ہوتے ہیں۔ کتاب وسنت کی یہ نصوص اپنی دلالت میں ایسی صراحت رکھتی ہیں کہ انسانی عقل و فہم ابن تیمیہ ؒ کی فقہ پر انگشت بدنداں رہ جاتی ہے ۔ان فتاویٰ جات اور تصنیفا ت و تالیفات کا مطالعہ آپ پر یہ بھی ظاہر و باہر کردے گا کہ آپ صرف ایک موضوع اور ایک عنوان کے ماہر نہیں ہیں ۔بلکہ آپ جس مسئلہ کی تحقیق اور توضیح کے درپے ہوتے ہیں، اس میں آپ ایک سمندر بے کراں ثابت ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔
آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ ﷺ کو خوبصورت استنباط کے ساتھ وارد کرتے ہیں اور دلالت کی وجوہات پر تنبیہ اور خبر دیتے جاتے ہیں۔ استدلال کے ماخذ پر بخوبی حوالہ دیتے ہیں۔ جس کی فقہاء کے ہاں قلت ہے۔استدلال کے وقت آیات ِقرانیہ کے استحضار میں جو آپ کو تفوق اور فضیلت حاصل تھی اس کی گواہی ذہبی جیسا نقاد دیتاہے کہ مسئلہ اقامت دلیل کے وقت قرآن سے استحضار آیات میں ابن تیمیہؒ کو ایک عظیم قوت حاصل تھی جس کو عجائب و غرائب میں سے گردانا جانا بعیداز قیاس نہیں ہے۔
"ولہ فی استحضار ا لآیات من القرآن وقت اقامتہ الدلیل بھا علی المسئلۃ قوۃً عجیبتہً"7
سنت نبوی ﷺ کی معرفت میں بھی آپ مہارت تامہ اور کاملہ کی وصف سے متصف تھے۔ حتیٰ کہ اس بات کو صداقت پر مبنی سمجھا جاتا تھا کہ اگر کہا جائے کہ جس حدیث کی معرفت ابن تیمیہ کو نہیں ہے وہ حدیث ہی نہیں ہے۔
"کل حدیث لا یعرفہ ابن تیمیہ فلیس بحدیث"8
ابن تیمیہؒ قرآ ن و حدیث سے استشہاد اور شواہد اپنے دلائل میں کثرت وارد کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔مجالس مذاکرہ ومناظرہ سے یہ بات ثبوت کے درجہ تک جاپہنچتی ہے کہ آپ مدمقابل اور مخالف فریق کے دلائل کو قرآنی استشہادات اور شواہدات کے ذریعے سے تارِعنکبوت کی طرح بے جان مردہ اور کمزور ثابت کرنے میں طاق تھے۔بسااوقات ایسا ہوتاکہ وفود دلائل وبراہین کی وجہ سے آپ مبحث کے کئی دوسرے پہلوؤں میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کا ایسے انداز میں مظاہرہ کرتے جیسا کہ یہی مبحث یہی لائق بحث و تمحیص ہے۔جس کی وجہ صرف یہی ہوتی تھی کہ کتاب وسنت کی نصوص موجود و مذکورہونے کے باوجود اپنی آراء اور افکار کو مقام بحث میں پیش کرنا "کار خرد منداں نیست"۔
اجماعِ ثابت پر عمل:
ابن تیمیہؒ کی فقہ شاہد عادل ہے کہ آپ اجماع کو عزت و عظمت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کو اصلِ ثانی کے طور پر عمل میں لانے میں کوئی پس وپیش کرتے نہیں دکھائی دیتے ہیں۔اس اجماع کے اقتضا کے مطابق عمل آپ کے ہاں اس وقت پایہ ثبوت تک پہنچتاہے جب وہ اجماع آپ کے ہاں ثابت وثبوت ہوجائے۔آپ اس اجماع کے قائل اور معترف ہیں کہ اجماع حق ہے اور امت محمدیہ ﷺ کا ضلالت پر جمع ہوجانا ناممکن اور محال ہے۔
"ان الاجماع حق ، فانھا۔ ای الامۃ۔ لا تجتمع علی ضلالتہ"9
ابن تیمیہؒ اس بارے میں مؤکد ہیں کہ اجماع کے دعویٰ سے باا لضرورت وجود اجماع مراد نہیں ہوتاہے۔وہ اجماع کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:
1۔ اجماعِ قطعی: وہ اجماع جو نص پر منعقد اور ثابت ہوتاہے اور یہ نا ممکن اور محال ہوتاہے کہ وہ اجماع ِقطعی کسی وقت بھی نص کا مخالف آئے۔یعنی وہ ہمیشہ نص کی موافقت ہی کرتاہے۔
2۔ اجماع ظنی: وہ اجماع جس کا وہم اور خیال گزراں گزرتاہے اور وہ اس طرح ہوتا نہیں ہے۔مخالف کے ساتھ عدم ِعلم کے باب سے ہونے کی وجہ سے غلبہ پا لیتا ہے۔عدم علم عدم کے ذریعے سے کوئی علم نہیں ہے۔قصہ کوتاہ یہ ہےکہ اجماع ِظنی سے نصوص کو رد کرنا صلاحیت وحجت نہیں رکھتاہے۔
ابن تیمیہؒ اجماعِ قطعی کی حاکمیت اور حکمیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب اجماعِ امت احکام میں سے کسی حکم کے بارے میں ثابت ہو جائے تو کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اجماعِ امت سے نکل کر اپنی نئی راہ اختیار کرے۔اُمت گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتی ہے۔لیکن بہت سارے مسائل کے بارے میں لوگوں کا گمان ہے کہ یہ مسائل اجماعِ امت سے ثابت ہیں۔حالانکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔یعنی اجماعِ قطعی تو حجت ہے مگر اجماعِ ظنی سے حجت قائم کرنا درست نہیں۔
"ولکن کثیرامن المسائل یظن بعض الناس فیھا اجماعا ولا یکون الامر کذلک "10
ابن تیمیہؒ اجماعِ ظنی کی وضاحت میں اس طرف اشارہ کرکے بھی آپ حقیقت حال کو واضح کردیتے ہیں کہ جس چیز میں غالب خلاف پایا جائے تو یہ چیز اجماع کے حجت ہونے کو راجح اور راجع نہیں کرتی ہے۔آپ اصحابِ رسول ﷺ کے بعد اجماع کی امکانیت کے اثبات کی طرف گئے ہیں۔ جس سے مراد یہ ہے کہ ان نفوس قدسیہ کے بعد بھی اجماعِ امت کا امکان باقی ہے اور ثابت ہے۔ کیونکہ آپ کے نزدیک احکامِ شرعیہ کے طُرق میں سے ایک چوتھا طریق اجماع ہے۔جو عامہ مسلمین کے درمیان متفق علیہ ہے۔لیکن اس میں معلوم وہی اجماع ہے۔ جس پر اصحاب ِرسول ﷺ گئے ہیں۔ان نفوس قدسیہ کے بعد کا اجماع اس بارے میں غالبا علم متعذر ہو جاتاہے۔
"لکن المعلوم منہ ھو کان علیہ الصحابۃ ، واما ما بعد ذلک فتعذر العلم بہ غالبا "11
اس بحث سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ ابن تیمیہ اپنے تفردات میں احکامِ شرعیہ کے اُصول وضوابط پر عمل کرنے میں کسی قسم کی کوئی کمی اور کو تاہی نہیں چھوڑتے ہیں۔حتیٰ کہ احکام کے استدلال و استنباط ، تفردات و اختیارات کے طریق اور منہج میں دوسرے فقہاء کی طرح اجماع کو ایک قابلِ قدر عظمت واہمیت دینے کے در پے ہوتے ہیں۔اور اجماع کی حجت پر زور دلائل قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیرابھی ہیں۔ہاں جس اجماع کی قطیت پرظن و تخمین کے گہرے بادل چھا گئے ہیں۔ اس کی حجیت میں توقف اختیار کرنے میں آپ حق بجانب ہو جاتے ہیں۔کیونکہ ہر اجماع کو قطعی مانا جائے تو صحابہ کے بعد کے اجماعات میں اہل علم کا اختلاف نہ ہوتا اور اجماعِ سکوتی بھی اسی اجماع کی ایک خاموش شکل ہے۔اس بحث سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ابن تیمیہؒ احکامِ شرعیہ کے دلائل کی عظمت اعتراف اور عمل میں پوری دیانت کا ثبوت دیتے ہیں۔
قیاسِ صحیح پر عمل:
ابن تیمیہؒ کے تفردات کے حوالے سے بالخصوص اور آپ کی فقہ کے بارے میں بالعموم یہ تصور پھیلا دیا گیا ہے ،کہ آپ نصوص کے ظاہر پر جاتے ہیں اور قیاس صحیح یا مطلقا قیاس سے آپ کا دور کا بھی واسطہ اور رابطہ نہیں ہے۔اس لیے بعض لوگ آپ کو اہل ظواہر میں سے مراد ظاہری اور ابن حزم کی راہ پر چلنے والا مسافر قرار دیتے ہیں۔اپنے قول کی تقویت میں ابو زہرہ مصری کے بیانات کو حوالہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو بیانات سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیے جانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔یہ کہ ابن تیمیہؒ نے اسی دعوت کا آغاز کیا جسے ابن حزم اپنے دور میں شروع کر چکا تھا اور ابو زہرہ مصری کا اپنا بیان ہے کہ ابن تیمیہ نے ابن حزم کی تصانیف وتالیفات کا مطالعہ کیا ہے۔بنا براین وہ تصانیف کے مطالعہ کے واسطہ سے اس کے شاگرد ٹھہرے۔"ابن تیمیہ عن استاذہ ابن حزم الذی تلقیٰ دروسہ عن طریق کتبہ"12
اس جملہ معترضہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ابن تیمیہ کی دعوت میں زور اس جیساتھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھا اور طریق و منہج میں بھی قدرے یکسانیت کا پایاجانا بعیداز قیاس نہیں ہے۔باوجود یہ کہ ابن تیمیہ ؒ پر ظاہر یت ہر گز غالب نہ تھی۔اور نہ ہی اپ اہل ظواہر میں سے گردانے جانے کے مستحق ہیں، اس کی دلیل اور حجت یہ ہے کہ آپ قیاس صحیح کو استدلالی اصولوں میں سے ایک اصول گردانتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔جن پر آپ کے تفردات اور فقہ کا ذخیرہ شہادت کے لیے کافی ہے۔
ابن تیمیہؒ کے نزدیک قیاس سے احکام میں اس وقت استفادہ کیا جاتاہےجب نص موجود نہ ہو۔جس کا مفہوم مخالف بالکل واضح ہے کہ وجود نص کی صورت میں قیاس کی احتیاج کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔عدل وانصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جب اصل ثابت اس قیاس صحیح پر شریعت کی دلیل قائم ہو جائے گی تو اس پر عمل کرنا درست قرار پائے گا۔
ابن تیمیہؒ قیاس صحیح کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں کہ یہ وہ قیاس ہوتاہے جس کے ساتھ شریعت وارد ہوتی ہے۔یعنی قیاس اور شریعت میں موافقت اور مطابقت کا پہلو موجود اور مذکور ہوتاہے۔اور وہ قیاس دو متماثل اشیاء میں جمع ہو جاتا ہے اور دو مختلف چیزوں میں ایک واضح فرق کا سبب بن جاتاہے۔اس قیاسِ صحیح جس پر شریعت وارد ہوتی ہے وہ عدل کے ساتھ ہی ہوتاہے اور عدل وہی ہے جس کو اللہ جل جلا لہ نے اپنے رسول معظم حضرت محمد ﷺکے ساتھ بھیجا ہے۔آپ اس قیاس صحیح کے مؤکد ہیں۔ قیاسِ صحیح مثلاً ایک علت کا نام ہے۔جس کے ساتھ ایک حکم معلق ہوتاہے۔جو اصل میں فرع کے اندر بھی موجود ہوتاہے۔ فرع کے اندر غیر معارض ہو کر حکم سے منع نہیں کرتا۔ایسے قیاس کا شریعت میں کبھی بھی خلاف نہیں ہوتاہے۔اس طرح ایک قیاس با لغا ء الفارق ہوتاہے اور وہ ایسا ہوتاہے کہ شریعت میں دو صورتوں کےدرمیان میں کوئی فرق نہیں ہوتاہے۔اس قیاس میں شریعت اس کے خلاف میں نہیں ہوتی ہے۔
ابن تیمیہؒ کو قیاسِ صحیح کی حجیت اور اس کے ساتھ استدلال تسلیم ہے۔ آپ اس کے استعمال میں طریق اوسط پر گامزن ہوتے ہیں اور مبالغین کے طریق سے آپ نے تفرد اختیار کرنے میں توقف نہیں کیا ہے۔ہاں نصوص کے مقابلہ میں آپ نے کبھی کبھی طریق اوسط کو استعمال کیا ہے۔اہل رائے وعقدہ اور قیاسِ صحیح کی حجیت کے منکرین جیسے اہل ظاہر کے درمیان آپ نے حد اوسط کو ہی ترجیح دی ہے۔جس سے آپ کی انفرادی اور فقہی عظمت میں نکھار آگیا اور آپکی فقاہت بن سنور کر کھل کر واضح ہو گئی ہےکہ جو اہل کلام وحدیث اور اہل قیاس بالکل اس کا انکار کرتے ہیں۔ حق یہ بات ہے اعتدالیت ہی حق ہے۔
" ومن اھل الکلام واھل الحدیث و اھل القیاس من ینکرہ راساً وھی مسئلۃ کبیرۃ والحق فیھا متوسط بین الاسراف والنقص "13
فقہ صحابہ کرام اور اخذِ رُشد وہدایت :
ابن تیمیہ ؒنے اصل رابع یعنی فقہ اصحابِ رسول ﷺ کو بھی اپنے تفردات اور اختیارات میں ایک اعلیٰ درجہ اور مقام ومرتبہ دیاہے۔آپ نے اصحاب رسول ﷺ کے اقوال اور ان کی فقہی وجوہات و وجوہ پر پوری پوری توجہ مرکوز رکھی ہے۔آپ اپنے فقہی تفردات میں اصحابہ کرام سے منقول اقوال سے تائید لاتے ہیں اور اپنی تحقیق کی موانست میں ان سے اِستشہاد پکڑتے ہیں بشرطیکہ وہ اقوال ماثورہ ہوں، اور اگرچہ جمہور آئمہ متبوعین کے قول کے خلاف ہی کیو ں نہ ہوں۔جس کی وجہ صرف اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اصحابِ علم اور دین کے لحاظ سے اس امت کے افضل ترین نفوسِ قدسیہ ہیں۔جن کے شب وروز اس وقت گزرے جب قرآنی آیات کا نزول جاری تھا۔نبی معصوم ﷺکی صحبت سے ان لوگوں نے حظِ وافر پایا ہے۔اللہ جل جلا لہ کے کلام کے عموم میں غوروفکر کرنا چاہیے اور رسولِ معظم حضرت محمد ﷺ کے کلام کا لفظی اور معنوی اعتبار سے حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے اور آثار صحابہ سے استدلال میں حسن پیدا کرنا چاہیے کیونکہ یہی لوگ آپ ﷺ کے مقاصد کے زیادہ عالم اور عارف ہیں۔
"آثار الصحابتہ الذین ھم اعلم لمقاصدہ"، "المعانی الصحیحۃ الثابتۃ کان الصحابۃ اعرف الناس بھا "14
ابن تیمیہؒ کے نزدیک شرعی حجت کے طور پر آثارِ صحابہ معتبر ہیں۔جب کوئی نص اور کسی دوسرے صحابی کاقول مخالف نہ آجائے۔اقوال وآثار جو اکناف عالم میں پھیل اور شائع ہو گئے ہیں۔ان کے زمانے میں کوئی ان کا منکر نہیں رہا ہے بلکہ وہ جمہور علماء کے نزدیک حجت تسلیم کیے جاتے ہیں۔اللہ جل جلا لہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد قول ِصحابی حجت ہے۔ جب تک اس کے مخالف کسی دوسرے صحابی کا قول نہ آجائے۔اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ان اقوال سے حجت قائم کی جاسکتی ہے۔
"واما اقوال الصحابۃ فان انتشرت ولم تنکر فی زمانھم فھی حجۃ عند جما ھیر العلماء"15
ابن تیمیہؒ اس بارے میں پر زور الفاظ میں تاکید کرتے ہیں کہ اقوالِ صحابہ کے بارے میں یہ موقف اور نظر یہ کثرتِ خبر ،معلومات اور ان کی اجتہادی کوششوں کے تتبع پر مبنی ہے۔جس سے ان کے علم وفضل اور ان کی فقاہت کا فضل ومرتبہ اس شخص کے علم اور فقاہت پر ظاہر ہوجاتاہے جو ان کے بعد آیاہے۔آپ کے نزدیک مشکلات اور معضلات میں صواب اصحاب رسول ﷺکےساتھ ہے۔ اگر چہ آئمہ اربعہ کے اقوال خلاف میں ہوں۔جن مسائل میں آئمہ کی موافقت پائی جاتی ہے اس بارے میں بھی بطریق اولیٰ یہ موقف اور نظریہ اختیار کرنا چاہیے کہ صواب انہی کے ساتھ تھا۔اس بابت آپ نے نہایت تدبر وتعمق کیا اور آپ پر یہی بات روشن اور ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ امت میں سے سب سے زیادہ فقاہت کی دولت سے مالا مال اور امت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ایمان ،نذر اور عتق وطلاق کے مسائل اور تفردات میں اس چیز کے اعتبار کا بخوبی مظاہر ہ کیا گیا ہے۔شرائط کے ساتھ معلق طلاق کے مسائل میں آپ نے ظاہر وباہر کر دیاہے کہ ان میں صحابہ سے منقول جوہے وہی قضا اور قیاس کی اعتباریت کے پیش نظر اقوال میں زیادہ صحت کا حامل ہے۔اور اسی پر کتاب وسنت کی دلالت ہے اور اس پر جلی قیاس کی صراحت کے ساتھ دلالت ظاہر ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ہر قول کی حالت یہ ہے کہ وہ قیاس میں تناقض کا شکار ہے اور نصوص کا مخالف ہے۔جس کی مثالیں بکثرت مسائل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔اللہ جل جلا لہ کی مشیت دیکھیے کہ ابن تیمیہ ؒ کے بقول مسائل میں آپ اجود اقوال وہی اقوال پاتےہیں جو اصحاب رسول ﷺ سے منقول ہیں۔ ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک اصحاب کے ہر متفقہ قول میں قیاس کا تعلق چولی دامن کا تعلق رکھتاہے۔ یعنی قیاس اس قول کے ساتھ موافقت رکھتاہے۔ابن تیمیہ (728ھ)لکھتے ہیں:
"والیٰ ساعتی ھذہ ما علمت قولا قالہ الصحابۃ ولم یختلغوا فیہ الا وکان القیاس معہ "16
قواعد در استدلال وترجیح :
اس نوع ثانی میں یہ ظاہر ہے کہ ابن تیمیہؒ نے اصول اور ادلہ میں نہ کوئی اضافہ فرمایا ہے اور نہ ہی متعینہ اور مقررہ اُصول و اَدِلہ میں سبقت کرتے ہوئے کسی جدت وبدعت کا ارتکاب کیا ہے۔آپ اصول و ادلہ کے متبع اور معترف وعامل ہیں۔جن پر جمہور علماء امت کا اتفاق و اتحاد ہے۔ابن تیمیہ ؒ کی فقہ وتفردات میں تامل اور غوروفکر کرنے والا اس راز کو بآ سانی پالیتا ہے کہ آپ کے من جملہ مسائل انہی قواعد کی طرف راجع ہیں اور اُنہیں دلائل کےساتھ ہیں جن پر امت کا اتفاق واتحاد ہے۔
وہ قواعد جو اکثر علماء کے نزدیک مسلمات میں سے گردانے جا سکتے ہیں اور جن کے درمیان ان علما ء کو ہر گز تنازع نہیں ہے،ان کی شان و عظمت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب نظر وترجیح کے وقت ان قواعد اور ان کے استحضار کو تطابق اور موافقت کی صورت میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔یہی امتیاز اور طرہ امتیاز ابن تیمیہؒ کی فقہ اور ان کے تفردات واختیارات کو دوسروں کی فقاہت سے ممتاز کر دیتا اوراس کو ایک نمایاں مقام عطا کر دیتا ہے۔آپ کی فقہی شان اور امتیازی فقاہت کا اشارہ مجموعہ قواعد سے کیا جاسکتاہے۔آپ من جملہ مسائل خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو یا ان کا تعلق معاملات اور مناکحات سے ہو آپ تمام مسائل میں مجموعہ قواعد کے استحضار سے نظر وترجیح میں بطریقِ احسن ایک اعلیٰ مہارت سے در پے ہوتے ہیں۔اور یہی امتیازی شان اور حالت مسائل کے من جملہ گوشوں اور پہلوؤں کو محیط رہتی ہے۔اور تمام اصول وادلہ کے مطابق صواب کی راہ پا جاتی ہے۔
ادلہ شرعیہ کا جمع کرنا:
ابن تیمیہ ؒ کی فقہی خصوصیت یہ ہے جو بطور قاعدہ اولیٰ معتبر ہے کہ آپ ادلہ شرعیہ کے جمع کرنے میں ایک امتیازی شان کے مالک ہیں۔اس نظریہ سے کوئی مفر اور مقر نہیں ہے کہ ادلہ کے درمیان ترجیح تو ہوتی ہی اس وقت ہے جب ادلہ کا جمع کرنا متعذر اور مشکل ہو جاتاہے۔ مگر ادلہ شرعیہ میں ظاہری تعارض کا وجود پایا جاتاہےتو فقہا ء سرعت سے کام لیتے ہوئے ان اقوال کو اختیار کرلیتے ہیں جو بعض دوسرے اقوال کے موافق اور مطابق ہوتے ہیں اور دوسرے متقاضی دلائل کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔اب اس فقیہ کا دور آگیا ہےجو ان دلائل کو جمع کرنے میں اور ان سب پر عمل کرنے میں ایک مقام پر متمکن اور فائز ہے۔ابن تیمیہؒ ادلہ شرعیہ پر پوری پوری توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ترجیح کے وقت دوسرے گوشوں اور پہلوؤں سے مطلقا کنی نہیں کترتے ۔کتاب وسنت ،شرعی دلائل اور اپنے حفظ عجیب سے اس کی ترجیح میں پوری معاونت کے در پے رہتے ہیں۔اور ان قواعد کا استحضار جیسا کہ آپ کے پاس ہوتا ہے،دوسروں کے پاس اس کا اقلِ قلیل ہوتاہے۔مثلا آ پ نے سنن کے تنوع پر ادلہ کو جمع کیا ہے جو متعدد وجوہات پر وارد ہوئی ہیں۔جن میں سب پر عمل کرنا افضل ہےاور اس بابت آپ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام "رسالۃ فی العبادات التی جاءت علی وجوہ متعدد"ہے۔
دلائل کو جمع کرنے کی ایک دوسری مثال یہ ہے کہ بعض کو آپ نے مشروعیت پر محمول کیا ہے اور بعض کو آپ نے استحباب پر محمول کیا ہے۔جس کا احیا نا ًترک ہو سکتا ہے۔جیسے صلوٰۃ ضحیٰ اور قنوت وتر کا مسئلہ۔یعنی آپ دلائل میں ایسی موافقت اور مطابقت پیداکرتے ہیں کہ ہر ایک دلیل کو اس کے محمل پر محمول کر دیتے ہیں اور تعارض رفع دفع ہوجاتا ہے اور ترجیحات کے پہلو اپنی اہمیت کی اعتباریت کے ساتھ واضح اور روشن ہو جاتے ہیں۔دلائل کے جمع میں آپ ہر ایک دلیل کو ایک وجہ یا حال پر حمل کرتے ہیں جس کی وجہ سےدوسری دلیل کے ہوتے ہوئے بھی تعارض نہیں آتا ہے۔جیسا کہ جمعہ بعدیہ کی سنت کا مسئلہ ہے۔دو رکعت والی احادیث کواس شخص پر محمول کیا ہے،جس نے ان کو گھر پر ادا کیا ہے، اور چار رکعت والی احادیث کا محمل وہ شخص ہے جس نے ان کو مسجد میں اداکیا ہے۔
اعمال العرف :
ابن تیمیہؒ کے منہج میں قاعدہ ثانیہ " اعمالِ عُرف" ہے۔جس کی وجہ سے ابن تیمیہؒ کے فقہی تفردات امتیازی حیثیت حاصل کرجاتےہیں۔آپ عُرف اور عُرف کے تحدیدی اعمال میں بکثرت رجوع کرتے ہیں۔جب اس کی تحدید میں نصوص وارد نہ ہوئی ہوں۔یہ وہ مقام ہے جہاں آپ امتیازی حیثیت سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔ ان علماء سے جنہوں نے اپنے اجتہا د میں بعض احکام شرعیہ کے لیے ایسی قیود اور اوصاف کا اضافہ کیا جن کا شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعتبارنہیں کیا ہے۔جس کی وجہ سے حکم شرعی میں ان اوصاف اور قیودات کے اعتبار میں ان کے درمیان اختلاف رو نما ہو گیا۔آپ کے نزدیک مرجع لوگو ں کا عرف ہوتاہے۔ جس چیز کو لوگ بیع ، اجارہ یا ہبہ کا نام دیں وہی بیع ، اجارہ اور ہبہ ہے۔ان اسماء کے لیے شریعتِ مطہرہ میں کوئی مقرر اور متعین تعریف و حد بندی نہیں۔ہر وہ نام جس کی لغت اور شرع میں حد (تعریف )نہیں ہے، وہ اپنی حد و تعریف میں عرف کی طرف لوٹے گا۔
"وکل اسم لیس لہ ، حد فی اللغۃ والشرع فانہ یرجع فی حدہ الیٰ العرف"17
ابن تیمیہ ؒعرف کو اپنے عمل میں بکثرت لاتے ہیں۔ جن کی اکثر اِمثلہ آپ کے فتاویٰ جات کی زینت ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ کہ اسلامی فقہاء کرام نے سفر کی تحدید میں اپنے مختلف اقوال بیان کیے ہیں۔جن پر اسلامی احکام کا دارومدار بھی ہے۔مگر آپ نےسفر کی تحدید میں عرف کے اعمال کو دخل دیا ہے۔آپ کے نزدیک سفر وہی سفر ہے جو لوگوں کے درمیان متعارف ہو اور جس کا وہ اعتبار کرتے ہوں مسافت کا تو آپ بالکل اعتبار نہیں کرتے ہیں۔
مقاصدِ شریعت کی رعایت :
ابن تیمیہؒ کے تفردات ،اختیارات اور ترجیحات کی امتیازیت میں قاعدہ ثانیہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ جلب ِمصا لح اور رفعِ مفاسد میں مقاصد ِشریعت کی تحقیق ، تائید میں نہایت ، رعایت اور لحاظ کا اعتبار کرتے ہیں۔آپ مفاسد ِ یسیرہ کو مفاسدِ کثیرہ پر ترجیح دیتے ہوئے مصالح کے حصول کے درپے رہتے ہیں ۔اسی انداز میں آپ تھوڑی سی مصلحت کے فوت ہونے کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے ہیں۔ جب ایک مصلحت ِ کثیر کے در کے وا ہونے کی ایک سبیل موجود ہو۔آپ کے نزدیک مقاصد شریعت ہی یہی ہیں کہ مصالح ِعامہ کی تحصیل و تکمیل ہوجائے اور مفاسدِ عامہ کی تعطیل اور تقلیل ہوجائے۔جبکہ اس با رے میں ہمیں حکم یہ ہے کہ دو بھلائیوں میں سے جو زیادہ بھلائی ہو اس کا انتخاب کیا جائے اور دوبرائیوں میں جس برائی کا شر نہایت کم ہو اس کو اختیار کیا جائے۔
"ومعلوم ان الشریعۃ جاءت بتحصیل المصالح و تکمیلھا و تعطیل المفاسد و تقلیلھا "۔18
صاحبِ نظر اور صاحب ِبصیرت وہ فقیہ اور عالم ہےجو اپنے زمانہ کے حالات وواقعات اور لوگوں کے احوال کا سب سے زیادہ جاننے والا ہوتا ہے۔وہی شخص ایسے قواعد کی تنزیل اور نفاذ پر پوری قدرت اور مہارتِ تامہ رکھ سکتا ہے۔تاکہ کوئی فقیہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ نہ ہو سکے۔ خاص طور پر ان مسائل میں جو اس پر پیش کیئے جاتے ہیں۔مقاصدِ شریعت کی رعایت سے وہی فقیہ عہدہ برآ ہو سکتا ہے جو خیر الخیرین اور شر الشرین اور اس کے فلسفہء وجوہات سے واقف ہو۔ جس پر اس کے علاوہ کوئی قادر نہ ہو۔ اس کی مثال اتباع ِجنازہ کے متعلق آپ کا یہ قول ہے ۔
"قولہ بجواز اتباع الجنازۃ التی یصحبھا منکر لایستطیع المکلف تغییرہ "19
سد ذرائع اور اعمال :
ابن تیمیہ ؒ کی فقہ اورتفردات میں قاعدہ رابعہ "سد ذرائع کا اعمال" ہے۔ابن تیمیہ تصرفات اور افعال کے حالات کو ایک فقیہ کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ صورت فعل اور اصل اباحت کی صورت اطلاق اباحت کے قول پر آپ کیلئے دافع نہیں ہوتی ہے ۔بلکہ آپ کی نظر حال کے ساتھ ساتھ مآل پر مرکوز رہتی ہے۔ابن تیمیہ کے ہاں سد ذرائع کے بارے میں کلام کی وسعت اتنی وسیع ہے کہ اس کو انضباط میں لانا قریب ہی نہیں ہے۔اس لئے آپ اس اصل میں صرف متفق علیہ ، منصوص علیہ یا صدر اول سے ماثورہ کے ذکر پر ہی انحصار کرتے ہیں۔اس اصل کے استعمال کی مثالوں میں سے آپ کا یہ قول ہے کہ قبور کے پاس خواہ یہ قبور اولیاء اللہ کی ہوں یا یہ قبور عام مسلمانوں کی ہوں؛ ان قبروں کے پاس ذبح کرنا جس کا مقصد وحید اللہ جل جلا لہ کا قرب حاصل کرنا ہی کیو ں نہ ہو ،تو آپ اس کی تحریم کی طرف گئے ہیں۔ اس کی وجہ اور علت صرف یہی ہے کہ آپ نے اس مسئلہ میں سد ذرائع کی اصل کو بروئے کار لاتے ہیں کہ جب لوگ قبور کے پاس جانور ذبح کریں گے تو اس سے مختلف قسم کے مفاسد اور منکرات کا ایک نہ بند ہونے والا دروازہ کھل جائے گا ۔ جس کے مفاسد دوسرے مفاسد کے لئے ایک سبیل کا کام کریں گے۔ اس لیے آپ نے سد ذرائع کے اعمال سے ذبح جو ایک ذریعہ ہے اس کو مسدود کردیا ہےتاکہ مفاسد جنم لینے میں مسدود اور محدود ہوکر رہ جائیں اور امت محمدیہ ﷺ منکرات اور مفاسد کا شکار ہونے سے محفوظ اور مامون ہوجائے۔
اخذ الایسر جو گناہ نہ ہو :
"اخذ الایسر" سے مراد ہے تھوڑی سی چیز کا لے لینا جو گناہ نہ ہو۔ یہ ابن تیمیہ کے تفردات اور اختیارات کے منہج میں قاعدہ خامسہ ہے۔ابن تیمیہ اپنے طر یق فقاہت اور تفردات میں دلیل کے ذریعے اخذ کرنے میں نہایت حریص واقع ہوئے ہیں ۔شریعت مطہرہ کی نصوص کے پاس آپ کا وقوف بھی حد درجہ کا قابل تحسین اور حرص سے خالی نہیں ہے۔ یعنی آپ نصوص اور اخذ دلیل کے دلدادہ اور عاشق وارفتہ ثابت ہوئے ہیں۔اس کے باوجود آپ ان معاملات اور واقعات و حالات میں تشد دو تشدید اور سخت گیری کا شکار نہیں ہوئے ہیں ،جن میں شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے شدت و تشدید کا وجود نہیں پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں شریعت کے تناظر میں آپ شدت اور نرمی کے قائل ہیں۔ آپ کے منہج میں یہ بات شامل اور قابل ذکر حد تک قابل ذکر ہے کہ آپ تیسیر و یسر یعنی آسانی اور نرمی کے درپے رہتے ہیں جب تک کوئی شرعی مانع آموجود نہیں ہوتا ہے ۔
ابن تیمیہؒ امت محمدیہ ﷺکے لئے سہولت اور آسانی کی راہیں تلاش کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سہل انگاری اور سہولت پسندی کا درس نفس پسندی اور من پسندی کے اصول پر دیتے ہیں ۔بلکہ آپ اپنی فقاہت سے اس نظریہ کے قائل ہیں کہ ہر وہ پہلو تلاش کیا جائے ادلہء شرعیہ کی روشنی میں جس کے اندر امت محمدیہ ﷺ کیلئے آسانی اور سہولت موجود ہو اور شریعت کے عین مطابق بھی ہو جائے۔ یعنی ایسی آسانی تلاش کرنا جس میں گناہ کا شائبہ تک نہ ہو جو اس قول کے موافق اور مطابق ہو۔
"الاخذ با الایسر ما لم یکن اثما "20 اس قاعدہ کلیہ کو جب امت محمدیہﷺ کے لئیے استعمال میں لایا جاتا ہے،تو وہ صرف شرعی اصولوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئیے ہی عمل میں لایا جاتاہےحالانکہ آب بخوبی باخبر ہیں۔
"انما العلم عندنا الرخصۃ من ثقۃ و اما الشدید فیحسنہ کل امر"21
ابن تیمیہ ؒ کی فقہ اور آپ کے تفردات میں غور و فکر اور ملاحظہ کرنے والے پر یہ بات بھی روشن اور واضح ہو جاتی ہے کہ جب تیسیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس وقت آپ اس شریعت کی رو ح اور جان کی پیروی کررہے ہوتےہیں۔جس کی بنیاد اور عمارت تیسیر اور تسہیل پر استوار اور مضبوط ہے۔جس کا مقصد انسانیت کو تشدید، تکلیف ، تنگی اور حرج میں مبتلاکرنا ہرگز نہیں ہے۔یہی قرآنی مفہوم ہے جو اللہ جل جلا لہ نے انسانیت کی کدورت کو پاک و صاف کرنے کے لئے نازل فرمایا ہے۔ جس میں ہے کہ دین کے معاملہ میں تمہارے او پر کوئی حرج اور تنگی کو روا نہیں رکھا گیا ہے ۔اللہ جل جلا لہ کا ارشاد گرامی ہے۔"وما جعل علیکم فی الدین من حرج"22
نورِ ہدایتِ قرآن کریم کی ہی روشنی میں سرورِ کائنا ت حضرت محمد ﷺ کی وصیت میں بدرجہ اتم موجود اور مذکور ہے ۔جب آپ ﷺ نےمعاذ اور ابی موسیٰ کو داعی الیٰ اللہ اور شریعت کے مبلغین بنا کر بھیجا کہ تم آسانیاں پیدا کرنا اور تنگیاں پیدا نہ کرنا خوشخبریاں دینا ، نفرت پیدا نہ کرنا ،۔"یسروا ولا تعسروا بشرواولا تنفروا "۔23
علاوہ ازیں سیرت ِمصطفیٰ ﷺسے یہ پہلو بھی سامنے آجاتا ہے اور سامان ہدایت کا ایک ذخیرہ ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺ دوچیزوں میں سے زیادہ آسان شے کو اختیار فرماتے تھے جس میں گناہ نہ ہوتا ۔
" وما خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین امرین الا اختار ا یسرا ھما ما لم یکن اثما "24
ابن تیمیہؒ کے خیال میں لوگوں میں کثیر حرج بعض فقہاء کی تشدید کی وجہ سے واقع ہوا ہے ۔جن کے ہاں تغلیظ مفاسد کی جانب غالب تھی اور انہوں نے اس بابت موجب اذن اور تیسیر کی حاجت کی طرف نظر التفات تک نہ کی ۔آپ کے نزدیک معدوم کی بیع سے منع کرنا اور عقود و شروط کے لئے مخصوص الفاظ کی قیودات ایسی قیودات ہیں جوشارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وارد نہیں ہوئی ہیں ۔یہ تو فقہاء کے ظن و تخمین ہیں کہ شارع کی یہی مراد ہیں۔ آپ کے نزدیک حظر کے مسائل ہیں ۔غلط مفسدہ کی طرف نظر التفات دوڑانے کی بجائے موجب اذن ،استحباب اور ایجاب کی ضرورت اور تسہیل پر بھی توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ جل جلا لہ کے احکام میں اتباع کے حوالے سے جو تجاہل وقوع پذیر ہوا ہے وہ یہی ہے کہ باب تیسیر کو مطلقا بند کر دیا گیا ہے اور تشدید کی راہ شدت سے راہ پا گئی ہے۔
ابن تیمیہؒ سے التزام شریعت میں جو تشدید واقع ہو تی ہے۔ اس کے حوالے سے واضح اشارات ملتے ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ منجملہ علماء اور سلف صالحین کا یہ طریق کار رہاہے کہ وہ تیسیر کے درپے رہتے ہیں تاکہ امت محمدیہ ﷺ پر شریعت پر عمل کر نا آسان ہو جائے ۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مجبور اور مقہور انسان کے لئے بوقت ضرورت ناجائز جائز میں بدل جاتا ہے۔ جو اس چیز کی غماز ی ہے کہ شریعت ہلاکت اور تنگی میں ہرگز ڈالنے کے درپے نہ ہے۔ اس بابت غلو کی حد یہ ہے کہ بعض چیزیں ہمارے لئے شریعت میں حرام ہیں مگر ان کو حیلہ جات کے ذریعے سے اپنے حق میں حلال کیئے جانے کے حیلے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں۔اس سے بہتر یہ ہے کہ شریعت میں آسانی پیدا کرکے عمل کی سہولت کو آسان بنایا جائے ۔
"فمن المحال ان یحرم الشارع علینا امرا نحن نحتاجون الیہ ثم لا یبیحہ الا بحیلۃ لا فائدۃ فیھا وانما ھی من جنس اللعب "۔25
مسائل فقہیہ میں طریق و اسلوب :
ابن تیمیہ ؒ اپنی فقہ اور تفردات واختیارات میں ایک واضح منہج اوراسلوب پر گامزن رہتے ہیں۔جس میں تعقید ِلفظی اور معنوی کا دور دور تک نام ونشان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتاہے۔وہ اپنے طریق واسلوب میں اختصار وایجاز کی صفت سے بھی ہمہ وقت متصف رہتے ہیں۔علاوہ ازیں مندرجہ ذیل آپ کے اسلوب نگارش کی امتیازی خصوصیات ہیں:
1۔ تفردات و اختیارات میں اپنے واضح اسلوب اور منہج کی بنیاد پر وہ اس مسئلہ کی پہلے پہل ایک واضح تصویر سپرد قلم کر دیتے ہیں۔جس میں آپ کلام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پھر دورانِ تحقیق وہ محل ِنزاع کو بھی کبھی کبھی بیان کرتے ہوئے واضح طور پر نظر آتے ہیں۔26
2۔ اپنی تحقیق اور مبحث میں آپ سلف صالحین کے مذاہب کے بیان میں کمال مہارت کا ثبوت دیتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہوتاہےکہ آپ سلف صالحین کے من جملہ ذخیرہ اور اقوال کے قاری ہیں۔جس سے آپکی وسعتِ نظری اور وسعتِ علمی کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتاہے۔خاص بات یہ ہے کہ اقوال کی نسبت ان کے قائلین کی طرف بھی کرتے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں آئمہ اربعہ سے شے منصوص ہے اس کا ذکر بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔اگر ایک مسئلہ میں ان آئمہ کے بہت سارے اقوال ہیں تو تمام اقوال کو ایک قرینہ سے ایک لڑی میں پرو دیتے ہیں۔ اکثر اوقات تو آپ ان منقولہ اقوال کے وجوہ اور دلائل بھی ساتھ ذکر کیئے دیتے ہیں۔27
3۔ دلائل و براہین کے ذکر میں اپنی پوری وسعت و طاقت کھپا دینے میں آپ کمال رکھتے ہیں اور ہر قول کی وجہ استدلال بیان کرنے میں بھی آپ اپنی نظیر آپ ہیں ۔ اس بابت عقلی اور نقلی دلائل کا ایک سمندر موجزن کردیتے ہیں۔ جس پر آپ کے فتاویٰ جات شاہد عادل کی حیثیت اختیار کئیے ہوئے ہیں جو آپ کےتبحر علمی کا ایک منہ بولتا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔28
4۔ ابن تیمیہ جس مسئلہ میں بحث کرتے ہیں اگر فریق مخالف کی طرف سے اس کے دلائل بیان کیے گئے ہوں تو آپ ان دلائل کا بنظر ِ انصاف جائزہ لیتے ہیں اور ان دلائل کے وزن کو تولتے ہیں اگر وہ دلائل ضعیف ثابت ہوتے ہیں تو آپ ان ضعیف دلائل اور اقوال پر مناقشہ وارد کرتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان دلائل کے ضعف کو دلائل کے ساتھ ہی بیان کرکے ان کے ضعف کو تارِعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ثابت کرنے کی مہارت تامہ رکھتے ہیں۔
5۔ ابن تیمیہ اگر چہ کسی خاص مذہب کی تقلید سے کوسوں دور رہتے ہیں مگر متعارضہ اقوال میں جس کو صواب اور اقرب الی الصواب پاتے ہیں تو اس قول کی تر جیح ضرور بیان کرتے ہیں۔ اقل مقامات پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ معارض اقوال بیان کرکے ترجیح کے درپے نہیں ہوتے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ آپ اس ترجیح کی بابت کسی دوسرے مقام پر بحث بیان کرچکے ہوتے ہیں اس لئے تطویل لا طائل سے بچتے ہوئے وقف کرتے ہیں یا اس مسئلہ میں توقف ہوتا ہے یا کسی وجہ سے ترجیہاتی پہلو واضح نہیں ہو تا ہے ۔
بعض اوقات ذکر کردہ اقوال میں سے کسی قول کو اختیار اور قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان اقوال کے درمیان تطابق اور توافق کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں تو آپ کا قول متعارضہ اقوال کا ایک قول ملفوف اورمالفف قول ہوتا ہے۔جو تمام اقوال کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے ۔29
عورت کے بچے ہوئے پانی سے آدمی کے وضو کی کراہت بیان کی گئی ہے اگر ضرورت و احتیاج ہے تو کراہت کے ساتھ وضو درست ہے۔ آپ نے درمیانی راہ اختیار کرتے ہوئے مطلقا جواز کی طرف گئے ہیں۔ یعنی کراہت اور مطلقا عدم جواز کی درمیانی صورت مطلقا جواز کا قول مختلف اقوال کو اپنے قول میں جمع کرنے کی ایک مثال ہے۔30
ترجیحاتی الفاظ :
ابن تیمیہ ؒ مختلف اقوال میں اپنی فقاہت اور اجتہادیت کی بنا پر ترجیح کے درپے ہوتے ہیں تو ترجیح دینے کے لئے آپ مختلف قسم کے الفاظ استعمال میں لاتے ہیں۔ جن سے مقصد و مراد ترجیح ہوتی ہے اور وہ ترجیح پر ہی دلالت کرتے ہیں ۔ابن تیمیہ کی فقہ میں غور و فکر کرنے والے کے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ آپ "الاظھر ، الصواب ، الراجح ، ارجح القولین ، الاقویٰ ، اقوی الوجھین، الصحیح ، اصح الوجھین ، اصح القولین ، اعدل الاقوال ، الاوجہ اور السنۃ دلت علیٰ کذا"جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
6۔ بسا اوقات ابن تیمیہ مختلف اقوال کے درمیان تطبیق اور توافق کی راہ ہموار کرنے کے بعد ترجیحاتی قول کا ذکر کرتے ہیں اور آپ کی یہ روش بھی ہے کہ آپ سبب خلاف ، منشاء الخلاف اور اس کا ثمرہ بھی ذکر کر نے میں اپنی مثال آپ ثابت ہوتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ حکایات خلاف میں یہ زیادہ اچھا ہے ۔"فھٰذا احسن ما یکون فی حکایات الخلاف"اور کبھی فرماتے ہیں کہ اس مقام پر اقوال ذکر کیئے گئے ہیں تو پھر صحیح پر تنبیہ کر دیتے ہیں۔ باطل کو باطل ٹھہراتے ہیں ۔خلاف کے فائدہ اور ثمرہ کو بھی بیان کرنے سے نہیں چونکتے ہیں ۔تاکہ نزاع اور خلاف طوالت کا شکار نہ ہو ۔ قابل قدر اور اہمیت کے قابل شےمیں آپ کا اشتغال اور انہماک دیدنی ہوتا ہے ۔آپ کے نزدیک جو خلاف کی حکایت کرے اور تمام اقوال کا احاطہ نہ کرے وہ ناقص ہے۔جبکہ صواب اس کے ترک میں موجود و مذکور ہو۔
7۔ ابن تیمیہؒ کے اسلوب اور طریق کی ایک نمایا ں خصوصیت اور خوبی یہ ہے کہ آپ فقہی مسائل ،معاملات اور مناکحات جیسے عظیم الشان مباحث میں ضرب الامثال کے بیان میں بھی اپنی پوری مہارت ظاہر کرتے ہوئے دوسرے فقہاء سے ایک گونہ سبقت لے جاتے ہیں۔ضرب الامثال کا بیان کرنا دوسرے فقہاء کے ہاں ابن تیمیہ کے مقابلہ میں عشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔ ابن تیمیہ ضرورت وحاجت اور احتیاج کے وقت ایسے خوبصورت انداز اور وقار کے ساتھ ضرب الامثال کو بیان فرماتے ہیں۔ جسکی وجہ سےمفاہیم اور مطالب کے حصول میں ایک گونہ آسانی ہوجاتی ہے اور خشک طبیعت بھی ترو تازگی اور شگفتگی سے ہمکنار ہوجاتی ہے۔ضرب الامثال کو بیان کرنے کا مقصد عبارت کو حسن ادب سے مالامال کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصدِ وحید یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے فُروعات کو اُصول کے ساتھ ایک مضبوط اور مستحکم ربط بخشا جائے اور فقہی ضوابط کی وضع بھی آسان ہو جائے۔
مصادر و مراجع :
ابن تیمیہ اپنے طریق فقاہت اور اجتہاد میں سلف صالحین کی راہ پر گامزن ہیں۔ بایں ہمہ آپ نے اپنے طریق میں عظیم الشان اور عظیم المرتبت مصادر ومراجع کی طرف رجوع کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔کتاب و سنت اصل اصیل کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بعد آپ نےمنجملہ مذاہب کی اصول و فروع کی منجملہ کتب کو اپنے پیش نظر رکھا ہے اور اصل مصادر و مراجع سے اخذ میں آپ تلبیس کے شکار کبھی نہیں ہوتے ہیں۔ تقریبا ًآپ کی نقل بھی بمطابق اصل ثابت ہوتی ہے ۔اسلامی علوم و فنون اور عقلی و نقلی دلائل کے تمام مصادر ومراجع آپ کے پیش نظر رہے ہیں ۔
قلتِ تعارض و تناقض اور اس کے اسباب:
ابن تیمیہؒ کے تفردات واختیارات اور آپکی فقہ کو بغور مطالعہ کرنے والے پر یہ بات واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ آپ اپنی فقاہت میں کامل عبور رکھنے والے فقیہ ہیں۔ بسا اوقات ایک فقیہ کی اپنی فقاہت کے بل بوتے پر رائے اور فکری زاویہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ ایک محقق کو ایسے حالات وواقعات سے اکثر واسطہ اور تعلق پڑا رہتا ہے ۔ فکری زاویوں کی تبدیلی تحقیق کا نتیجہ اور ثمرہ ہوتی ہے۔ اس لئے مسائل سےبڑے بڑے علماء اور فقہاء کا رجوع ثابت اور شائع و ذائع ہے۔فقاہت کے سمندر میں غوطہ زنی کرنے والے کو بھی معلوم ہے کہ ایک ہی مسئلہ میں آئمہ کے ایک سے زیادہ اقوال بھی صفحہء قرطاس کی زینت بنے چلے آتے ہیں ۔اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ جب تحقیق کے میزان کا پلڑا معین دلائل کی طرف بھاری ہوا اس قول کو اختیار کرلیا گیا ، بعد میں تحقیق کا پلڑا دلائل ہی کی بنا پر دوسری طرف بھاری ہوا تو دوسرا قول بھی محقق کا تحقیق و تدقیق کی روشنی میں منظر عام پر آجاتا ہے ۔جس کی وجہ سے اقوال میں تعارض اور تناقض کا پیدا ہو جانا ایک فطری اور بدیہی عمل معلوم ہونے لگتا ہے۔اس تناظر میں جب ابن تیمیہؒ کے منہج تفردات کا بنظر عمیق مطالعہ کیا جاتا ہے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کے ہاں تفردات میں قلت ِ تعارض ہے۔اقوال میں قلتِ تناقض ہے۔ تعارض اور تناقض کی قلت کے بہت سارے اسباب ہیں جن کا سب سے بڑا سبب تو توفیق الٰہی ہے کہ اللہ جل جلا لہ کے قبضہ و قدرت اور اختیار میں ہے کہ جس کی تحقیق کو چاہے سلامت روی کی راہ پر گامزن کردے ۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ابن تیمیہ ؒ خطا سے پاک ہیں، مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر آپ سلامتی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔
1۔ ابن تیمیہ کے تفردات اور اختیارات کے فقہی منہج میں اقوال کے درمیان قلتِ تناقض اور قلتِ تعارض کا ایک سبب یہ ہے کہ آپ نے اپنے طریق میں ایسے اصول و قواعد کے انضباط میں کمال مہارت دکھائی ہے۔ جن میں پہلے ہی سے تناقض نے راہ نہیں پائی تھی ۔بفرض محال اگر ان میں تناقض کی راہ پہلے سے موجود بھی تھی تو آپ نے ان اصول وقواعد کو اس انداز میں منضبط کیا ہے، جس سے عدم تناقض اور تعارض کا عمل وجود میں آگیا ہے۔
2۔ آپ کے منہج اور اسلوب میں تناقض اور تعارض کے نہ پائے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی حیات کے ابتدائی سالوں میں تصنیف و تالیف میں کم شغل رکھا ہے۔ جب آپ کو طریق اجتہاد سے مقارنت اور موانست پیدا ہو گئی اور طبیعت میں اس کا ملکہ راسخ ہو گیا تو پھر آپ اس راہ کے مسافر بنے۔ اس سے پہلے آپ سیا سی ملکی ردوداور احتساب جیسے معاملات اور اہم امور میں شاغل رہے ہیں ۔یعنی بھٹی میں کند ن بن جانے کے بعد آپ نے اپنی فقہی بصیرت کا اظہار فرمایا ہے ۔
3۔ اس قلت کا ایک سبب اور اہم سبب یہ ہے کہ آپ نے مذہب احمد بن حنبل کے اصولوں کو اپنے لئے مشعل راہ بنا یا ہے۔ اس کی وجہ سے اکثر مخالف مسائل میں آپ کا حنابلہ کے مذہب کے ساتھ توافق اور تطابق مشہور و معروف ہے ۔قطع نظر اس بات کے جب آپ اپنی ابتدائی علمی زندگی میں اس مذہب کے ایک مقلد تھے۔بعد میں جب آپ راہ اجتہاد پر گامزن ہوئے تو ترجیح و اختیار ازروئےامانت و دیانت آپ کے لئے ایک جزو لاینفک امر بن گیا ۔
1۔ ابن تیمیہؒ سے بعض مسائل ایسے بھی منقول ہیں جن میں اختلاف اور تعارض ہے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں صحت نقل درست نہیں ہے یا ایسی کتب میں قول پایا جاتا ہے جو آپ سے منسوب ہیں۔درحقیقت ان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے یا قاری کے فہم کی غلطی معلوم ہو تی ہے۔
2۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ابن تیمیہؒ نے اول حیات میں ایک قول اختیار کیا اور آپ کی وہ ابتدائی رائے تھی پھر تحقیق کے نئے زاویے اور گوشے سامنے آئے تو آپ نے پہلے قول سے رجوع کرلیا ۔
3۔ ابن تیمیہ ؒ کا قول ظاہری نظر میں تعارض کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس قول کو متعدد احوال پر حمل کیا جائے تو پھر اس میں تطابق کی راہ سامنے آجاتی ہے۔ اس کی ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ جدید اور متاخر قول کو قدیم اور متقدم پر ترجیح حاصل ہے۔ کیونکہ قدیم جدید کے ذریعے سے حالت نسخ میں چلا جاتا ہے ۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قول ثانی اس بات کا غماز اور مشعر ہے کہ قولِ اول سے رجوع کرلیا گیا ہے۔ یہ تغیر و تبدل اور منسوخیتِ اجتہاد کے تغیر و تبدل کی وجہ سے بھی ہو سکتاہے ۔علاوہ ازیں ان اقوال میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان متعارض اقوال میں سے ایک قول تقلید کی حالت کے بالکل عین مطابق ہے۔ جب کہ دوسرا قول اجتہاد کے عین مطابق اور موافق ہے ۔اس انداز میں اجتہاد تقلید کے لئے ناسخ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔
اس امر کی ابن تیمیہؒ نے خود تصریح اور وضاحت فرمائی ہے کہ میں نے منسک میں ایک کتاب لکھی اور اس کتاب میں آپ سابقہ علماء کی روش پر تقلید کی راہ پر چلے تھے ۔"قد کنت کتبت منسکا قلدت فیہ من سبقنی من العلماء"31
یہی وجہ ہے کہ آپ نے شرح العمدہ اور المسودہ جیسی پر معلومات کتب تصنیف کیں، مگر اول حیات میں ہونے کی وجہ سے آپ راہ ِتقلید کے ہی مسافر ٹھہرے ہوئے تھے اور ایک خاص مذہب کے مقلد اور متبع تھے ۔اس کے بعد اجتہاد کی طرف متوجہ ہوئے تو پھر آپ اجتہاد کے رتبہ پر فائز ہوتے ہوئے کسی خاص مذہب کے مقلد نہ ہوئے اور کتاب و سنت کی روشنی میں اپنی اجتہادی کو ششوں سے ایک عالم کو منور و معطر کیا تو جس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہو ا کہ آپ کے تفردات اور اختیارات بھی منظر عام پر آگئے جو ان تمام اقوال کے خلاف چلے گئے جو آپ کے ایک خاص مذہب کی روشنی میں مقلد کی حیثیت سے دئیے گئے تھے ۔جس پر آپ کی بعض کتابوں کے سنین و شہور شہادت کے لئے کافی ہیں۔تفردات و اختیارات کے بارے میں ایک محتاط رائے یہ بھی قائم کی جا سکتی ہے کہ آپ کے بعض تفردات اور اختیارات کی صحت میں نظر و کلام ہے۔یعنی ان کی صحت محل نظر ہے۔ جیسے "مسئلۃ الوضوءبالمعتصرمن الشجر"۔آپ کے فتاویٰ جات میں ایسا کلام بھی پایا جاتا ہے جو آپ کے ساتھ کوئی تعلق اور لگاؤ نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ آپ کے شاگردوں کا کلام ہے۔ابن تیمیہ ؒ کے تفردات و اختیارات میں منصوص کو منسوب اورمخرج علی اصولہ پر ترجیح اور تقدیم حاصل ہے۔کیونکہ اس میں ثقاہت زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کے تلامذہ آپ کے اقوال اور فتاویٰ جات کے زیادہ عالم تھے۔ اس لیے ان کی نقل کو رسائل سے نقل پر ترجیح دیا جانا بھی قرین قیاس ہے۔ اور ابن تیمیہ کے اختیارات کی اسی میں ثقا ہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔یہ بات بھی اہمیت کے لائق اور فائق ہے کہ آپ کے تلامیذ کی نقل کو آپ کے پوتے تلامیذکی نقل پر حقِ تقدیم حاصل ہے۔خلاف کی صورت میں آپ کے اصول وقواعد پر مبنی چیز کو ہی تقدیم حاصل ہوگی کیونکہ قول تلمیذاس وقت حجت ہوتاہے جب اس کا مخالف معلوم نہ ہو۔متعارض اختیارات کو حتی الامکان جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس کا طریقہ یہ ہے کہ مطلق مقیدپر ،عام خاص پراور مجمل معین پر محمول کیا جائے۔یا اختلاف احوال، اشخاص ،ازمان اور امکنہ وغیرہ کی وجہ سے تعارض کو دور کیا جانا عین ممکن ہے۔کثرت کو وحدت پر مکتوب کو مسموع پر اور صریح کو محتمل پر ترجیح حاصل ہوگی۔مخالف مذہب کو موافق مذہب پر ترجیح ہوگی جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ مخالف مذہب قول کا قائل اجتہاد کی راہ پر گامزن ہے۔ المختصر ترجیحات کے طریق اپنی کثرت کی وجہ محصور نہیں کئیے جاسکتے ہیں یہ ایسے رمز ورموز ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اجتہاد ات اپنی گردش میں رہتے ہیں۔جواسلامی علم کی شان ووقار ہیں۔
"اعلم ان طرق الترجیح لاتنحصر ، فانھا تلویحات تجول فیھا اجتھادات "32
ابن تیمیہؒ اپنی فقہ اور تفردات واختیارات کے منہج میں ایک مستقل حیثیت کے حامل عبقری شخصیت ہیں۔اگرچہ وہ مذہب ِحنابلہ سے کلی طور پر جدا نہیں ہوتے ہیں اور مکمل طور پر ان کے مذہب سے اعراض نہیں کرتے ہیں۔ تاہم اپنی اجتہادی بصیرت کی بنا پر وہ اپنے تفردات اور اختیارات میں چاروں مذاہب سے بھی الگ اور جدار راہ پر ہوتے ہیں۔قطعِ نظر اس بات سے کہ آپ کی اِتباع بعض مسائل میں حنابلہ سے اختلاف پر ہوتی ہے لیکن پھر بھی ان کو اس مذہب کا ایک ستون سمجھا جاتا ہے ابن تیمیہؒ کے تفردات اور اختیارات یہ بات روشن کر دیتے ہیں کہ آپ دوسرے تمام فقہی مذاہب کا بنظر ِعمیق مطالعہ کر کے نپی تلی اور سوچی سمجھی دلیل سے قول کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کی فقہی بصیرت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ نے شیعوں کی فقہ کا بھی بڑا گہرامطالعہ فرمایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے تفردات اور اختیارات میں ان کا حوالہ بھی پایا جاتاہے۔ابن تیمیہؒ اپنی تمام تر فقہی بصیرت اور اوصاف کے باوجود زیادہ لگاؤ اور موانست حنابلہ سے رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس مذہب کو تمام سے افضل واعلیٰ مانتے ہیں۔اگر چہ کسی حد تک آپ اس مذہب کے پیرو کار بھی تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو دوسرے مذاہب کی نسبت اس مذہب میں شادابی زیادہ نظر آتی ہے ،کیونکہ اس میں عرف عوام کا خصوصیت سے اعتبار اور لحاظ رکھا جاتا ہے۔ابن تیمیہؒ اپنے تفردات اور اختیارات کے منہج میں ایک واضح طریق پر ہیں اور یہ طریق دیگر اسلامی مذاہب سے لگاؤ کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت پر واضح طور پر پابند اور کار بند ہے۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1Al-Musawwidah fi Usūl al-fiqh, Ibn e Teimiyyah, Tahqīq: Muhy al-Dīn ‘Abd al-Hamīd (Qāhirah: Matba‘ Al-Madnī, S.N), 549.
2Sayyed Safi al-Dīn Al-Hanfī, Al-Qawl al-Jalī fi Tarjamh Taqī al-Dīn Ibn e Teimiyyah (Damanhūrat: Dār Līnah, S.N), 9.
3Nawāb Muhammad Siddīq Hassan Al-Qanūjī, Al-Tāj al-mukallil min Jawāhir ma’āthir al-tarāz al-ākhir (Qatar: Wazārat al-awqāf, Edition 1st, 2007 A.D), 413.
4 Abu Al-Tayyib Muhammad ‘Atā’ullah Bhūjiyanī, Hayāt Sheikh al-islām Ibn e Teimiyyah (Lahore: Maktabah Salfiyah1971 A.D), 663.
5Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah (Beirūt: Dār al-kutub al- ‘Ilmiyyah, 1403 A.H), 2:199.
6 Abu Zuhrah Muhammad bin Ahmad, Hayātuho wa ‘Asruho ‘ārā’ho wa fiqhuho (Al-Qāhirah: Dār al-fik al-‘arbī, 1991 A.D), 375.
7 Muhammad ‘Abd al-Hayy bin ‘Abd al-Halīm Sihālvī Hindī, Tarb al-amāsil ‘Alā Hāmish al-fawā’id al-bahiyyah( Karachi: Qadīmī Kutub Khānah, S.N), 180.
8 Abu Al-Tayyib Muhammad ‘Atā’ullah Bhūjiyanī, Hayāt Sheikh al-islām Ibn e Teimiyyah ,665.
1 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah,10:363.
2 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Al-Qawā‘id al-nūrāniyah al-fiqhiyyah (Lahore: Idārah Tarjumān al-sunnah Edition 2nd , 1984 A.D), 93.
3 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah,9:20.
4 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Al-Istiqāmah (Sa‘ūdiyyah: Idārah al-thaqāfah wa al-nashr, S.N), 1:61.
5 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah,26:202.
6 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Al-Istiqāmah (Sa‘ūdiyyah: Idārah al-thaqāfah wa al-nashr, S.N), 2:217.
7 Ibn e ‘Abd al-Hādī Muhammad bin Ahmad, Al-‘Aqūd al-durriyyah fi zikr ba‘dh Manāqib Sheikh al-Islām ibn e Teimiyyah (Jaddah: Majm‘ al-fiqh al-islāmī, S.N), 36.
8 Ibn e ‘Abd al-Hādī Muhammad bin Ahmad, Al-‘Aqūd al-durriyyah fi zikr ba‘dh Manāqib Sheikh al-Islām ibn e Teimiyyah, 35.
9 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah,19:192.
10 Suleimān bin Turkī, Ikhtiyārāt Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah (RiyāÃ: Dāe kanuz al-shabīliyā, 2009 A.D), 1:23.
11 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 11:341.
12 Abu Zuhrah Muhammad bin Ahmad, Hayātuho wa ‘Asruho ‘ārā’ho wa fiqhuho,209.
13 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 11:341.
14 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Dar’ Ta‘āruà al‘aql wa al-naql (RiyāÃ: Dāe kanuz al-shabīliyā, 1991 A.D), 8:53.
15 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 20:14.
16 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 20:14.
17 Suleimān bin Turkī, Ikhtiyārāt Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 1:27.
18 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Minhāj al-Sunnah al-Nabwiyyah, Ta¡qīq: Muhammad Rishād Sālam (RiyāÃ: Jāmi‘at al-Imām Muhammad bin Sa‘ūd al-Islāmiyyah, 1986 A.D) 4:536,572.
19 Suleimān bin Turkī, Ikhtiyārāt Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 1:28.
20 Suleimān bin Turkī, Ikhtiyārāt Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 1:29.
21 Abī Umar Yūsuf ibn e ‘Abd al-Barr, Jām’ Bayān al-‘Ilm wa faÃluho (RiyāÃ: Dār Ibn al-Jawzī, 1994 A.D), 784, Hadith No.1467.
22 Al-Hajj 22:78.
23 Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Sa¡ī¡ Hadith No.3038.
24 Muslim bin Hajjāj al-Qusheirī, Sa¡ī¡ Muslim, Hadith No. 2327.
25 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 29:45.
26 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Al-Sāram al-mas’ūl ‘Alā Shātam al-Rasūl (Multa: Nashr al-Sunnah, S.N), 8,10.
27 Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Al-Qawā‘id al-Nurāniyyat al-Fafiqhiyyah (Lahore: Idārah Tarjumān al-Sunnah, 1984 A.D), 219.
28 Ibn e ‘Abd al-Hādī Muhammad bin Ahmad, Al-‘Aqūd al-durriyyah fi zikr ba‘dh Manāqib Sheikh al-Islām ibn e Teimiyyah, 116.
29 Ibne Teimiyyah, Al-Qawā‘id al-Nurāniyyat al-Fafiqhiyyah, 219.
30 Suleimān bin Turkī, Ikhtiyārāt Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 1:32.
31 Suleimān bin Turkī, Ikhtiyārāt Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 1:36.
32 ‘Alī bin ‘Abd al-Kāfī al-Subkī, Al-abhāj fi sharah al-Minhāj Sharah ‘Alā Minhāj al-wasūl Ilā ‘Ilm al-Usūl lil QāÃī BeiÃāvī (Dubaī: Dār al-bahūth al-Islāmiyyah, 2004 A.D), 7:2857.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |