Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Amir > Volume 2 Issue 1 of Al-Amir

مذاہب التفسیر الاسلامی کی روشنی میں مستشرق گولڈ زیہرکےاعتراضات کا علمی جائزہ A Critical analysis of Goldzehr's objections in the light Maẓahib al-Tafsīr al-Islāmī. |
Al-Amir
Al-Amir

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2021

ARI Id

1682060063651_3198

Pages

65-80

PDF URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/23/22

Chapter URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/23

Subjects

Qur’ānic Text Qir‘at Goldziher Maẓahib al-Tafsīr al-Islāmī Orientalism.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1.2in; margin-right: 1.2in; margin-top: 0.5in; margin-bottom: 1in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 115%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt } p.cjk { font-family: "MS Mincho"; font-size: 14pt } p.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 15pt } p.sdfootnote-western { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-cjk { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-ctl { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0563c1; text-decoration: underline } a:visited { color: #800080; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }

أ ﻷمِیر:جلد 02؍ شمارہ 01 ..( جنوری –جون 1 220ء) )71(

مذاہب التفسیر الاسلامی کی روشنی میں مستشرق گولڈ زیہرکےاعتراضات کا علمی جائزہ

A Critical analysis of Goldzehr's objections in the light Maẓahib al-Tafsīr al-Islāmī

Abdul Hameed

 Muhammad Siddique

Goldziher 1850-1921 is a Jewish Orientalist. His interest in the study of Islam took him to the famous Syrian scholar Sheikh Tahir Al-Jazāirī and after spending a long time in his company he moved to Palestine and then to Egypt. Where he benefited from the scholars of Aẓhar University. Among the Orientalists who have formally and fundamentally debated the Qur'anic text and recitations is Gold Poison. He is known for his objections to Hadith and Qur'anic recitations. Dr. Abdul Haleem Al-Najjar, a lecturer at Cairo University, has translated the famous book Muslim Studies of Goldziher into Arabic concerning the different methods and methods of recitation, tafsir, and tafsir of the Holy Quran. This translation was first published by Maktab al-Khanji in Cairo, Egypt in 1955 and reached the hands of the masters of science and literature and became popular. This book is a unique and brand new work of its kind in presenting various topics of the Quran and important aspects of Islamic culture and history in an excellent manner and style. Goldziher proved his meticulous study of the religions of Tafsir al-Islami and his in-depth study of Islam. But there is a difference between a Muslim and a non-Muslim studying Islam, this difference is visible in this book. Goldziher did not describe all the methods of commentary in this book. In addition, the author, like other Orientalists, has erred in interpreting some religious sentiments. Some Muslim scholars call such objections to Goldziher scientific errors. And some see it as part of a deliberate Zionist Orientalist conspiracy. However, the aspects of Tafseer which Goldziher has written about are very important, and much more needs to be written about them. Goldziher's investigation into the Qur'anic text has opened up new avenues for other Orientalists.

The said article will present an analytical study of the Qur'anic text, Goldziher's objections to various recitations, and the contents of the book.

Key Words: Qur’ānic Text, Qir‘at, Goldziher, Maẓahib al-Tafsīr al-Islāmī, Orientalism.


تعارف:

گولڈزیہر1850- 1921 ء ایک یہودی مستشرق ہے ۔ مطالعہ اسلام کا شوق اس کو شام کے مشہور عالم شیخ طاہر الجزائری کے پاس لے گیااور ان کی صحبت میں کافی عرصہ گزرا اس کے بعد فلسطین اور پھر مصر منتقل ہوا۔ جہاں جامعہ ازہر کے علماء سے استفادہ کیا ۔قرآنی متن اور قراتوں کے حوالے سے مستشرقین میں سے رسمی اور بنیادی طور پر جس نے بحث و تمحیص شروع کی وہ گولڈ زیہر ہے ۔ موصوف حدیث اور قرآنی قرات پر اعتراضات کے حوالے سے مشہور ہے ۔قرآن مجید کی قراءت ، تفسیراور تفسیرکے مختلف مناہج و اسالیب کے حوالہ سے گولڈ زیہر کی مشہورکتاب Muslim Studies کا عربی ترجمہ " مذاہب التفسیر الاسلامی"کے نام سے قاہرہ یونیورسٹی کے استاذڈاکٹر عبدالحلیم النجار نے کیا ہے ۔ یہ ترجمہ پہلی بار1955ء میں مکتبہ الخانجی قاہرہ مصر سے شائع ہو کر ارباب ِ علم و ادب کے ہاتھوں میں پہنچا اور مقبول ہوا۔

" یہ کتاب قرآن مجید کے مختلف موضوعات اور اسلامی ثقافت اور تاریخ کے اہم پہلوؤں کو عمدہ منہج اور اسلوب سے پیش کرنےمیں اپنی نوعیت کا منفرداور بالکل نئے طرزکا کارنامہ ہے ۔گولڈزیہرنے مذاہب التفسیر الاسلامی میں بہت دقت نظر اوراسلام کے گہرے مطالعہ کاثبوت دیا ۔ مگر کیونکہ ایک مسلمان اور غیر مسلم کے اسلام کا مطالعہ کرنے میں فرق رہتاہے تو یہ فرق اس کتاب میں ضرور نظر آتا ہے ۔ گولڈزیہر نے اس کتاب میں تمام مناہجِ تفسیرکو بیان نہیں کیا۔ علاوہ ازیں بعض دینی جذبات کی تشریح میں دوسرےمستشرقین کی طرح مصنف سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ بعض مسلم علماء گولڈزیہر کے اس طرح کے اعتراضات کو علمی غلطیاں قرار دیتے ہیں ۔ اور بعض اس کی سوچی سمجھی صہیونی استشراقی سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔بہر حال تفسیر کے جن پہلوؤں پر گولڈزیہر نے قلم اٹھایاہے ۔وہ بہت اہم ہیں اور ان پر مزید بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے ۔ قرآنی متن کے حوالے سے گولڈ زیہر کی تحقیقات نے دیگرمستشرقین کے لئے نئی راہ کھول دی ہے۔ مذکورہ مقالہ میں قرآنی متن ، مختلف قراتوں پر گولڈزیہر کے اعتراضات اور کتاب کے مندرجات کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے سے پہلے مختصراً استشراق کا لغوی و اصطلاحی معنیٰ اور گولڈزیہر کا تعارف پیش خدمت ہے۔

استشراق(Orientalism) اور مستشرق (Orientalist)کا لغوی معنیٰ:

عربی زبان کے اعتبار سے استشراق کا سہ حرفی مادہ ' ش –ر-ق' ہے ۔ جس کا معنیٰ 'روشنی اور ' چمک' ہے ۔یہ لفظ مجازی معنوں میں سورج کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سےشرق اور مشرق اس جگہ کو کہا جائےگاجہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے ۔1

شرف الدین اصطلاحی “Orientalist” کے لغوی مفہوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ:

" یہ لفظ انگریزوں کا وضع کر دہ ہے جس کے لئے عربی زبان میں استشراق کا لفظ وضع کیا گیا ہے ۔ لفظ “Orient” بمعنی مشرق اور “ Orientalism”کا معنی شرق شناسی یا مشرقی علوم و فنون اور ادب میں مہارت حاصل کرنےکے ہیں۔ مستشرق ( استشراق کے فعل سے اسم فاعل ) سے مراد ایک ایساشخص ہےجوبہ تکلف مشرقی بنتاہے ۔"2

(Han’s Wahr) نے Dictionary of Modern Written Arabic میں بتایا ہے کہ:

"استشراق کے معنی مشرتی علوم کے ہیں جبکہ مستشرق کے معنی مشرقی آداب سےآگاہ یامشرقی علوم کےماہر شخص کے ہیں ۔"3

لفظ استشراق عربی گرائمر کی رو سے باب استفعال کا مصدر ہے جس کا خاصہ طلبِ فعل ہوتاہے ۔ تو اس طلبِ شرق میں لغوی اعتبار سےمستشرقین کے تمام تر اہداف شامل ہو جاتے ہیں جن کی خاطر وہ مشرقی علوم و فنون کوسیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی نشر و اشاعت کا بھی بھر پورتوجہ سے اہتمام فرماتے ہیں ۔

استشراق(Orientalism) اور مستشرق (Orientalist)کا اصطلاحی مفہوم:

"مستشرق وہ شخص ہے جو خودمشرقی نہ ہو بلکہ بہ تکلف مشرقی بنتا ہو۔ مشرقی علوم میں مہارت تامہ حاصل کرنے کی کوشش کرے "۔4

ایڈورڈ سید(Edward Said) تحریک استشراق اور مستشرق کے الفاظ کو وست دیتےہوئے لکھتے ہیں :

“Anyone who teaches, writes about, or researches the Orient and this applies whether the person is an anthropologist, sociologist, historian or philologist either in its specific or its general aspects, is an orientalists. And what he or she does is Orientalism.”5

"جو کوئی بھی مشرق کے بارے میں پڑھتا، لکھتا یا اس پر تحقیق کرتاہے تو یہ تحقیقی معیارتمام تر پڑھنے لکھنے اور تحقیق کےنے والےماہر ِ بشریات،ماہر ِ عمرانیات، مورخین اور ماہرِ لسانیات پر منطبق ہوتا ہے خواہ یہ لوگ اپنے اپنے دائرہ شخصی میں خاص موضوع یا اپنے کسی عمومی مضمون پر کام کر رہےہوں ، مشرق شناس( مستشرق ) کہلاتے ہیں۔ اور ان کا کیاجانے والا کام شرق شناسی ہوگا۔"

لیکن دورِ حاضر میں مستشرقین نے اپنے لئے مختلف نام تجویز کئےہیں جن کو مولاناابو الحسن علی ندوی نے یوں واضح کیا ہے کہ :

"اب مستشرقین مستشرق کہلوانا پسند نہیں کرتے دوسری عالمگیر جنگ کے بعد وہ 'ایڈوائزر' ایریا اسٹڈی اسپیشلسٹ' یا ایکسپرٹ ' کہلوانا پسند کرتے ہیں۔"6

مندرجہ بالا تعریفات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستشرقین کا مقصد زندگی، مشرقی تہذیب، مشرقی ادب، مشرقی علوم اور فنون بشمول مذاہب، تاریخ، ادب، لسانیات، بشریات، معاشیات، سیاست وغیرہ ہیں۔ اور مشرقی قومیں ان کی طرف حیرت سے دیکھتی ہیں۔ ان مستشرقین نے اس سب کو کھنگالا ، زندہ اور گم شدہ اقوام کی تاریخ کو پڑھا، ان کی نادرتصنیفات کا مطالعہ کیاان کی ایجادات و انکشافات سے واقفیت حاصل کی، ان کی تاریخی عظمت کو تسلیم کیا، ان کے علوم و فنون کو ترقی دی ان کےتہذیب و تمدن کی تاریخ مدون کی ان کے لٹریچر کی ترقی و توسیع میں کوشش کی ان کی نایاب تصانیف کو مرتب کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر د یا اور عام لوگوں کی رسائی کو ان نایاب کتابوں تک ممکن بنایا۔

تعارف :اجناس گولڈزیہر(م 1921ء):

پیدائش ہنگری کے ایک شہر زیکیس فیر فار(Szekesfehervar) میں 22 جون 1850 ء میں ہوئی ۔ پڑھنے لکھنے اور مطالعے کا شوق بچپن سے تھا اس لئے صرف پانچ برس کی عمر میں عہد نامہ عتیق کا مطالعہ شروع کر دیا۔ آٹھ برس کی عمر میں پوری تلمود پڑھ لی ۔ سولہ سال کی عمر میں یہودیوں کی عبرانی مناجات کی اصل اور اقسام پر ایک مقالہ لکھااور وہ شائع ہوا۔گولڈزیہر نے فلسفہ اور قدیم زبانوں مثلاً فارسی اور ترکی کی کلاسیں بوڈاپسٹ (Budapest) یونیورسٹی میں لینا شروع کیں اس کام کی تکمیل پر ہنگیرین حکومت کی وزارتِ تعلیم کی طرف سے انہیں ایک وظیفہ ملاتو وہ جرمنی چلےگئے یہاں یونیورسٹی آف برلن (Berlin)اور یونیورسٹی آف لپزگ (Leipzig)میں اعلیٰ تعلیم کے مراحل مکمل کیےاور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔7

جرمنی سے وہ ہالینڈ چلے گئے اور لیڈن(Leiden) کی یونیورسٹی میں چھ ماہ تک اسلامیات کے درس و مطالعہ میں مگن رہے ۔اس سے پہلے ان کی تعلیم کا محور قدیم زبانیں اور لٹریچر رہا تھا۔مگر یہاں اسلام سے متعلق درس و تدریس کے چھ مہینوں نے اسلام پر تحقیق و جستجو کو ان کی زندگی کا مشن بنا دیا ۔ اس کے بعد حصولِ علم کا شوق گولڈ زیہر کو کشاں کشاں شیخ طاہر الجزائری کے دروازے تک لے گیا جن کی صحبت سے موصوف نے کافی عرصہ استفادہ کیا اور پھر شام سے رختِ سفر باندھا تو فلسطین پہنچا اور وہاں سے مصر جامعہ الازہر کے اسکالرز سے استفادہ کیا ۔8 یہ بات بھی واضح رہے کہ جامعہ ازہر میں کسی غیر مسلم کا داخلہ قانوناًمنع تھالیکن گولڈزیہر کے شوقِ علم اور تحریروں کو دیکھ کر خصوصی داخلہ کی اجازت دی گئی۔ اور گولڈ زیہر نے بحیثیت طالبِ علم وہاں پڑھنا شروع کیا ۔9

گولڈزیہر نے قاہرہ میں تعلیم کے ایام کو اپنی زندگی کا خوشگوار ترین اور مفید ترین مدت بیان کیا ہے ۔ اپنے والد کی علالت کے باعث جو موت کا سبب بنی وہ قاہرہ میں زیادہ عرصہ قیام نہ کر سے اور وطن واپس لوٹنا پڑا۔ 1874ء میں ایمپیرئیل اکیڈمی کی روئداد میں گولڈزیہر کے علمی کارنامہ کی اشاعت ہوئی تو علومِ شرقیہ خصوصاً اسلام اور اس کے متعلقات کے حوالے سے ایک جدید طرزکے محقق کےطور پر آپ کی شہرت ہوئی۔اسی شہرت کی بدولت امریکہ میں آپ کو مختلف یونیورسٹیز میں آٹھ لیکچرز کی سیریز ڈیلیور کرنے کی اجازت دی گئی جس کا اعزازیہ 2500 امریکن ڈالر تحریر ہواآپ نے اس دعوت کو قبول کیا اور ایک سال محنت کر کے لیکچرز بھی تیار کئے مگر علالت کے باعث امریکہ نہ جاسکے اور ان لیکچرز کو “Muslim Studies” کے نام سے شائع کرادیا۔10

علامہ زرکلی نے الاعلام میں گولڈزیہر کا اس طرح تعارف کرا یا ہے کہ قرآنی متن اور قراتوں کے حوالے سے مستشرقین میں سے رسمی اور بنیادی طور پر جس نے بحث و تمحیص شروع کی وہ گولڈ زیہر ہے ۔ مستشرق گولڈزیہر مذہباً یہودی ہے ۔ جو حدیث اور قرآنی قرات پر اعتراضات کے حوالے سے مشہور ہے ۔اس کی پیدائش 1850ء اور وفات 1921 ء میں ہوئی۔11

گولڈ زیہر نے انگریزی ، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں کتابیں لکھی ہیں ۔جن کا موضوع زیادہ تر قرآن کریم کے علوم ، ادب عربی، فقہ اسلامی اور اسلامی فقوں کی تاریخ ہے ۔ 12 موصوف نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علومِ اسلامیہ پر تحقیق و تفتیش کرنے میں صرف کیا ہے جس کے نتیجہ میں اُس نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں اور اکثر اسلامی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ۔گولڈزیہر کے شوق علم کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ مختصر عرصہ میں موصوف نے اسلامی علوم پر بے شمار تالیفات و تعلیقات اور ابحاث و مقالات لکھ ڈالے ۔13

ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی کےمطابق گولڈزیہر اپنی بدیانتی ، عداوت اور خطرات کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں ، قرآن مجید اور علمِ حدیث کے موضوع پر خصوصیت سے اس کا قلم پھیلا ہے ۔ اور متعدد شبہات قائم کئےہیں جو بالکلیہ استشراقی فکر کی پیداوار ہیں ۔ قرآن پاک کو محمد ﷺ کا کلام قرار دیتاہے اور اسلام کی مفتریات کا مجموعہ کہتاہے ۔14

مذکورہ اقوال کی روشنی میں یہ کہا جا سکتاہے کہ اجناس گولڈزیہر( م 1921ء) مستشرقین کے اس طبقے سے تعلق رکھتاہے جس نے اسلامی شریعت اور اس کے بنیادی مصادرکو اپنی تنقیدکا خصوصی نشانہ بنایا ہے ۔مگر کچھ مسلم سکالر اس علمی کام کو الگ نگاہ سے دیکھتےہیں اور اسے دیگر مستشرقین سے ممتاز اور منفرد قرار دیتے ہیں جیسے مولانا سعید احمد اکبر آبادینے علی گڑھ میں پڑھے گئے اپنے مقالہ میں فرمایا ہے :

"پروفیسر گولڈزیہرجو فطرۃمذاق استشراق لے کر پیدا ہوئے تھے اس استشراق کی فضاسے متاثرہوئے بغیر کس طرح رہ سکتے تھےمگر گولڈ زیہر کے مقالات و تصنیفات اس امرکی روشن دلیل ہے کہ گولڈزیہر کو اسلامیات کےساتھ فطری اور حقیقی لگاؤ تھا۔ان کا مقصد ِ زندگی صرف علم کی خدمت تھا ان کو غرض نہ سیاست سے تھی اور نہ مشنریزکی طرح اسلام یا مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈاکرنے سے تھی اور یہ اس لیے بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ مشنریز صلیبی لائیوں کے زخم خوردہ تھے اس لئے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رسوائے زمانہ کتابیں لکھ کر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اپنے دل کا بخار نکالنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کے برعکس ولڈزیہر یہودی تھے ۔ اور آپ نے اسلامیات پر جو کچھ لکھا اس میں عبقریت کی شان نظر آتی ہے ۔ اس کے متعلق بدنیتی کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ اور اس حوالے سے گولڈزیہر کی غلطیاں علمی یا تعبیری بیان کی غلطیاں قرار دی جا سکتی ہیں یا پھراس وجہ سے غلطیاں ہیں کہ ایک مستشرق اور مسلمان کے مطالعہ اسلام میں بہر حال فرق ہوتاہے "۔15

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ گولڈزیہرکے نظریات میں اکثراوقات اسلامی مصادراور اُس کی تعلیمات کے حوالہ سے پوشیدہ رویوں کا اظہار بھی ہوتا ہے جس کو نہ صرف مسلم علماء بلکہ خود مستشرقین نے بھی اعتراض کرتےہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ کسی مذہب کی تعلیمات کے ضمن میں اُس کے وہ رویے جو پوشیدہ ہوں اُن کا اظہار دراصل اُس مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کے مترادف ہے اور مستشرقین بالخصوص گولڈزیہر نے اس بات کا کوئی خیال نہی رکھا جو بذاتِ خود ایک غیر اخلاقی فعل ہے۔ چنانچہ برنارڈ لیوس نے گولڈزیہر کی کتاب کے انگریزی ترجمہ مطبوعہ1979ءکے مقدمہ میں لکھا ہے :

"گولڈزیہر کو خیال ہی نہیں تھا کہ اس کی کتابوں کے قاری مسلمان بھی ہونگے اس لئے کہ یہ لوگ اپنا مخاطب مغرب کے قارئین کو ہی بناتے تھے۔چنانچہ اس عہد کے دوسرے مصنفین کی طرح گولڈزیہربھی قرآن کو پیغمبراسلام کی تصنیف کی حیثیت سے پیش کرتاہے ۔ مسلمانوں کےنزدیک ایسا کہنا اسلام کی سخت تنقیص ہے۔علاوہ ازیں اسلام پر لکھنے والےتمام مغربی مصنفین کی طرح گولڈزیہر بھی قرآن و حدیث میں عہد جاہلیت کے بعض اجنبی اثرات پر بحث کرتاہے ۔ یہ موضوع بھی حساس مسلمانوں کے لئے سخت تکلیف دہ ہے "۔16

مذاہب التفسیرالاسلامی کا تعارف:

قرآن مجید کی قراءت ، تفسیراور تفسیرکے مختلف مناہج و اسالیب کے حوالہ سے گولڈ زیہر کی مشہورکتاب کا عربی ترجمہ ہوا " مذاہب التفسیر الاسلامی"کے نام سے قاہرہ یونیورسٹی کے استاذڈاکٹر عبدالحلیم النجار نے کیا ہے ۔ یہ ترجمہ پہلی بار1955ء میں مکتبہ الخانجی قاہرہ مصر سے شائع ہو کر ارباب ِ علم و ادب میں بہت مقبول ہوا۔

کتاب کا تعارف خود مترجم کتاب ڈاکٹر عبد الحلیم النجار کے بقول اس طرح ہے :

" یہ کتاب قرآن مجید کے مختلف موضوعات اور اسلامی ثقافت اور تاریخ کے اہم پہلوؤں کو عمدہ منہج اور اسلوب بحث سے پیش کرنےمیں اپنی نوعیت کا منفرداور بالکل نئے طرزکا کارنامہ ہے ۔گولڈزیہر نے اس کتاب مین تمام مناہجِ تفسیرکا استیعاب و استقصا نہیں کیا۔ علاوہ ازیں بعض دینی عواطف وجذبات کی تشریح میں دوسرےمستشرقین کی طرح مصنف سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔اور پھر کتاب عربی زبان فنی اغلاط سے بھی خالی نہیں ہے ۔جن پر ہم نے اپنے حواشی میں تنبیہ کر دی ہے ۔لیکن گولڈزیہرکو بحیثیت ایک عالم اور محقق کے جو اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے ان چیزوں سے اسےکوئی نقصان نہیں پہنچتا"۔17

گولڈزیہر کی کتاب کے عربی ترجمہ" العقیدہ والشریعۃ فی الاسلام" کےمقدمہ میں ہے :

"مذاہب التفسیرالاسلامی' کتاب گولڈزیہر کے ترکہ میں بہت زیادہ اہمیت اور شہرت کی حامل ہے اور شک و شبہ سے بالا تر ہو کر یہ کتاب مستشرقین کے لئےعلمی سرمایہ ہے اس کتاب میں اسلام کے مبادیات اور قرآنی علوم پر جس طرزِ اسلوب سے بحث کی گئی ہے وہ مستشرقین کے نزدیک نہایت اعلیٰ اور بلند مرتبہ کام ہے" ۔18

مذاہب التفسیرالاسلامی' کتاب 1955 ء میں مصر میں شائع ہوئی اس میں 418 صفحات ہیں۔شروع میں مختصر سا مقدمہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر علی حسن عبد القدیر نے شروع کیاتھا مگر کچھ مصروفیات کی وجہ سےوہ اس کام سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تومترجم نے یہ ترجمہ نئےسرے سے شروع کیا تاکہ اسلوب اور انداز ایک سا رہے پھرکتاب کی تعریف اور اس کتاب میں غلطیوں کی حواشی میں نشاندہی کا ذکر کیا گیا ہے اور تقدیم کو اللہ تعالیٰ سے طلب توفیق و ہدایت کی دعا پر ختم فرمایاہے ۔ پھر سات صفحات پر مشتمل موضوعات کی ایک تفصیلی فہرست ہے اس کے بعد کتاب کا نام جلی انداز میں لکھا گیا ہے ۔جسے فہرست میں صفحہ نمبر ایک شمار کیا گیا ہے اس کے بعد کا صفحہ خالی ہے اور صفحہ نمبر تین سے کتاب کا پہلا باب شروع ہوتا ہے ۔کتاب میں کل چھ ابواب ہیں۔ جن کی کچھ وضاح د رج ذیل ہے۔

المرحلۃ الاولیٰ للتفسیر صفحہ 3 تا 72

کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی روشنی میں قرآن کے تفسیری اسالیب و مناہج کا جائزہ لیا جائے اور اس پہلے حصے میں اصل بحث سے پہلے نص قرآن یعنی متنِ قرآن کے ثبات پر تحقیق پیش کی گئی ہے ۔ نصِ قرآنی میں تمام تشریعی کتابوں کی بنسبت سب سے زیادہ اضطراب پائے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے "بطور دلیل قرآن کے سبعہ احرف پرنزول والی حدیث کے مستند ہونے پر بحث کے ساتھ ساتھ قراءات مشہورہ پر طویل بحث ہے نیز قرآن کے نقاط اور حرکات کے نزول قرآن کے بہت بعد میں انتظام کوبھی اضطراب کی دلیل کے طور پر لیا گیا ہے "۔19

ایسی احادیث کے حوالے بھی موجود ہیں جن سے صحابہ کے پاس موجود مصاحف کے متون میں فرق ثابت ہوتاہے ۔قرآن کی سبعہ احرف پر تلاوت کی آزادی کے حوالے سےقاری ابن شنبوذ اور ابو بکر العطار المقری کے واقعات ذکر ہیں کہ مصحفِ عثمان سے متعلق قرات کی رائے رکھتے تھے جس کی بناء پر انہیں دیگرعلماء نے پسند نہیں کیا۔ اس باب کو مشہور لغت کے عالم مبرد، مشہورمفسر کشاف اور ادیب ابو العلاء العمری کے حوالوں پر ختم کیا ہے۔ جن سے ان حضرات کی اس رائے کا اندازہ ہوتا ہے کہ نحوی اور لغوی اعتبار سے کئی آیات کے اعراب میں اصلاح کی جا سکتی ہے جو کہ متن قرآن میں اضطراب کا ثبوت ہے ۔20

التفسیر بالماثور صفحہ 73 تا 120

دوسرے باب تفسیر بالماثور کے حوالے سے بحث کی گئی ہے جس کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے ۔ کہ متقدمین صلحااور اتقیاءہمیشہ اس کام سے احتیاط کو ترجیح دیتے رہے اور قرآن کی تفسیرسے ان شخصیات پر انذارو تحذیرکے اثرات غالب رہے ۔ جیسے محمد بن قاسم بن ابی بکر اور سلیم بن عبداللہ بن عمر کے تفسیر ِ قرآن سے منع کرنے کی روایات طبقات اب سعد میں موجود ہیں ۔ اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ابنِ سبیغ نامی شخص مدینہ آیااور متشابہ القرآن کے بارے میں سوال کرنے لگا ، جب خلیفہ کو علم ہوا تو انہوں نے صاحب الدرہ کو بھیجاجس نے اس کو پشت پر کھجور کی چھڑی سے مارا۔ ابو وائل شفیق بن سلمہ، عبیدہ بن قیس کوفی، سعید بن جبیر، امام اصمعی متشابہات، اسباب النزول وغیرہ امورسے متعلق سوال پرتفسیرسے منع کرتےاور صرف الفاظ سے سمجھ آنے والے مفہوم پر ایمان کی تلقین کرتے۔اس کے بعد ایسا دور شروع ہوا جس میں اسرائیلیات، نزولِ قرآن کے بعد کئی حوادث و واقعات بھی تفسیری مواد کاحصہ بننے لگے۔ حضرت ابنِ عباس کےتلامذہ میں سےمجاہد، عکرمہ اور علی بن ابی طلحہ کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے ابن عباس سے بے شمار تفسیری اقوال روایت کئے ہیں ۔ اور بعض منقولہ تفسیری روایات میں اختلاف بھی موجود ہےآخر میں امام طبری کی تفسیر طبری کا ذکر کیاہے اور اسے تفسیر بالماثور کا دوسرا مرحلہ قرار دیا ہے اور اس تفسیر طبری کو علم التفسیر میں بے پناہ اضافہ ہونے کی وجہ بتایا ہے ۔21

التفسیر فی الضوء العقیدہ:مذہب اھل الرائے صفحہ 120 تا 200

اس باب میں معتزلہ کی خلقِ قرآن کے مسئلہ میں جمہورسے مخالف اور حنابلہ پر عتاب اور مشہور مفسرمجاہد کا تاویل القرآن کی طرف میلان کا اثبات ، معتزلہ کی کتب میں سے مرتضیٰ معزلی کی امالی ، زمخشری کی کشاف تفسیر بالرائے میں اہمیت، فخر الدین الرازی کی مفاتیح الغیب کا تفسیر بالرائےمیں کردار، معتزلہ کے نزدیک دینی حقائق میں وعقل کے معیارہونے کا اثبات، متکلمین کی عقائد مثلاً افعال العبادلطفِ الٰہی آخرۃ میں نافرمان مومنین کی جزا، شفاعتہ وغیرہ میں مشرقی مسیحی فرقوں سےاثر پذیری کا ذکر کرنے کے بعد اس باب کو عقائد میں وقوف کے قائل گروہ کے اقوال پر ختم فرمایا ہے۔22

التفسیر فی الضوءالتصوف الاسلامی صفحہ 201 تا 285

اسلامی تصوف کی روشنی میں تفسیر کی منہج کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ اہلِ تصوف کے پاس اسلام کے مستند مصادر یعنی قرآن وحدیث میں سے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ وہ بعض آیات و احادیث کے ظاہری اور سیاق و سباق سے سمجھ آنے والے مفہوم سے ہٹ کر باطنی مفاہیم سے اپنے صوفیانہ عقائد و اعمال کے لئے دلیل لاتے ہیں ۔ اس حوالے سے عقیدہ وحدت الوجود سےمتعلق ابن عربی ، ابن رشد، جماعت اخوان الصفا اور امام غزالی کی آراء کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کی صوفیانہ تفسیرکی امثلہ پیش کی ہیں ۔ نیز ان آیات و احادیث کا تذکرہ کیا ہے ۔جن سے اشاری طور پر صوفی حضرات استدلال کرتےہوئے ہر چیز کے ظاہر کے پیچھے مخفی صورت کو اصل حقیقت، علم ،حق اور یقین کے مراتب کا اثبات ، مختلف اذکار کا اثبات ، صوفیاء کے مقامات اور سب سے اعلیٰ مرتبہ مقام فناکا اثبات کرتے ہیں ۔23

التفسیر فی الضوءالفرقۃ الدینیہ صفحہ 286تا 336

دینی فرقوں کی روشنی میں تفسیر کے باب میں اہلِ سنت، خوارج ، قدریہ ، شیعہ اور شیعہ فرقوں اسماعیلی ، غالی اور بابیہ کے مناہج و اسالیبِ تفسیر پر بات کی گئی ہے ۔ زیادہ تربات شیعہ فرقہ سے متعلق کی گئی ہے ۔شیعہ کے عقائد ، حضرت علی اور معاویہ کے بارے میں ان کے نظریات، قرآن کے عثمانی متن پر شیعہ کی جرح قدح کامل مصحف کا امام منتظرکے پاس محفوظ ہونا ، قدح کے باوجود نص عثمانی کا شیعہ کے ہاں حضرت علی کا مقام اور شیعوں کے اصولِ تفسیرکی روشنی میں متعدد آیات کے تفسیری نمونےاور ان کی خاص تاویلات کے بعد اسماعیلی ، غالی اور بابیہ فرقہ کے درمیان فرق کے بیان پر اس باب کا اختتام فرمایاہے ۔24

التفسیر فی الضوءالتمدن الاسلامی صفحہ 337تا 396

اسلامی تہذیب وتمدن کی روشنی میں تفسیرکے باب میں اسلام اور جدیدتہذیب کے تقاضوں سے بات کی ابتداء ہوتی ہے ان تقاضوں کی روشنی میں تفسیر کرنے والے چار علماء اور ان کے پیروکاروں کا خاص طور پر اس باب میں ذکر ہے ۔ ا ن چار شخصیات میں سے ایک ہندوستان کے سید امیر علی ہیں دوسرے سر سید احمد خان بہادر ہیں تیسرے محمد عبدہ اور چوتھے عبد الوہاب نجدی ہیں ان میں سب سے زیادہ تذکرہ سید امیر علی اور محمد عبدہ اور ان کے اسالیب تفسیر پر محیط ہے ۔سید امیر علی قرآن کی تفسیر کے لئے عقل اور غور و فکر کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور حدیث کو محض واقعات اور قصص کی حیثیت دیتے ہیں اور اجماع کی حجیت کا بھی انکار کرتے ہیں نیز معاملات سے متعلق احکامات مستقل نہیں بلک زمان و مکاں کی رعایت کے مطابق تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ اوریہ تمام تر تبصرہ سید امیر علی کی کتاب “The Spirit of Islam” اور سر سید احمد خان کی کتاب "تفسیر القرآن " کی روشنی میں کیا گیا ہے ۔ اس کے بالمقابل مصری عالم محمد عبدہ جدید تہذیب کے مطابق تفسیر میں نہ تو حدیث کی اہمیت کو عقل سے ادنیٰ گردانا گیا ہے اور نہ ہی اجماع کا انکار ہے ۔ تقلیدکو رد کرتے ہوئےقرآن وسنت اور تاریخ اسلامی میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے اور پھر دونوں قسم کی مناہج کے درمیان تفصیلی تقابل پر بحث کو مکمل کیا گیا ہے ۔25

کتاب کے آخر میں تقریباً دو صفحات پر مشتمل جدول الخطا الصواب ہے اور 17 صفحات پر مشتمل فہرس باہم الاعلام الواردۃ فی الکتاب ہے۔ جدول الخطا الصواب میں عربی ترجمہ اور حاشیہ و تعلیق میں موجود تلفظ اور نقاط وغیرہ کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ جدول اور فہرس الاعلام ناشر کی طرف سے شامل کی گئی ہیں ۔

گولڈ زیہر کے اعتراضات 'مذاہب التفسیر الاسلامی ' کی روشنی میں:

گولڈزیہر نے اپنی کتاب کو Peter Werenfels (1627-1703) کے ایک قول کے ساتھ شروع کیا۔جو اس نے بائبل کے بارے میں کہا تھا۔ مگر گولڈزیہر کے نزدیک یہ قول قرآن پر حد درجہ صادق آتا ہے ۔:

"کل امری یطلب عقائدہ فی ھذا الکتابالمقدس و کل امری یجد فیہ علی الخصوص ما یطلبہ"26

“Everybody seeks his dogma with in this holy book- Everybody will find what he was seeking within.”27

پھر اس بات کا اظہار کیاہے کہ یہ پہلا باب اصل بحث شروع کرنے سے پہلے بطور تمہید ہے اور اس تمہید کی ابتداگولڈزیہر نےیوں کی ہے:

" ایک کتاب جس سے ایک بڑی دینی جماعت نے والہانہ عقیدت کا اعتراف کیاہو وہ عقیدہ رکھتی ہو کہ کتاب وحی کے ذریعے ہونے والا خدا کاکلام ہے اور اس کتاب کا متن بھی زمان قدیم سے چلا آ رہا ہو اور پھر اس متن میںاتنا اضطراباور عدم ثبات ہوجتنا قرآن میں ہے دنیا میں قرآن کے سوا ایسی کوئی تشریعی کتاب نہیں "۔28

متن میں اضطراب اور عدم ثبات سے مرا د یہ ہے کہ متن کے الفاظ اور ان کے ربط و ترتیب اتنے مختلف اور متنوع ہو ں کہ ان میں سے صحیح کا تعین یقینی طو رپر ممکن نہ ہو گولڈ زیہر کا سب سے پہلا اعتراض یہ ہے دنیا میں پائی جانے والی تشریعی کتابوں میں سے متن کے حوالے سے سب سے زیادہ اضطراب قرآن کے متن میں ہے اور اس بات کی تقویت کے لئے قراءات کے اختلاف کا سہارالیتے ہوئےحسبِ ذیل اندازاختیار کرتے ہیں۔

"قراءات کا اختلاف رسم مصحف کے نقطوں اور اعراب کے خالی ہونےکے سبب وجود میں آیااور یہ تمام قراءات انسانی اختراع ہیں "۔ 29

اور اس بات کے اثبات کے لئے حسبِ ذیل امثلہ پیش کی ہیں :

پہلی مثال:

سورۃ الاعراف کی آیت 48 میں ہے" وَنَادَى أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ" بعض قاریوں نے "تستکبرون" کی باموحدہ کو" تستکثرون" ثا مثلثہ کے ساتھ پڑھا ہے30

دوسری مثال:

اسی سورۃ الاعراف کی آیت 57میں ہے :"وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ" یہاں بشرا کو نشرا پڑھا گیا ہے ۔

تیسری مثال :

سورۃ التوبہ کی آیت114 میں ہے :"وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ" یہاں کی قراءات میں وعدھا اباہ ہے باموحدہ کے ساتھ31

گولڈزیہر نے بعض مستند احادیث کو بھی اپنے اعتراض کی تقویت میں بطوردلیل پیش کیا ہے :

صحابہ کے مصاحف میں کمی پیشیاں ہوئی ہیں مثلاً حضرت عبد اللہ بن مسعودکے مصحف میں فاتحہ اور معوذ تین نہ تھیں جبکہ ابی بن کعب کے مصحف میں سورۃ الخلع اور سورۃ الحفدبطور اضافہ شامل تھیں۔32

پہلی مثال:

"حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ابی بن کعب ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں۔ لیکن جہاں حضرت ابی بن کعب غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے تو قرآن مجید کو رسول اللہﷺکے دہن مبارک سے سنا ہے اس لیے میں تو کسی کے کہنے پر اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : ہم جوبھی آیت منسوخ کر دیتےہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں"۔33

دوسری مثال:

محمد ﷺ نے خود بیان کیا کہ " اللہ الواجد الصمد" قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے 34

جبکہ" اللہ الواجد الصمد" قرآن کی کوئی صورت ہے ہی نہیں۔

تیسری مثال:

موجودہ قرآنی ترتیب کے مطابق سورہ النساء اس طرح درج ہے "لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" مگر کچھ راویوں کے نزدیک یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی" لَا يَسْتَوِي الْقَعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ یعنی غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ" کے الفاظ کچھ ثقہ رواۃکے نزدیک آیت کے درمیان میں نہیں بلکہ آخر میں تھے۔35

مختصر یہ کہ گولڈزیہر کے مطابق قرآن مجید محمد ﷺ کی دی گئی تعلیمات کا ملغوبہ ہے جس کے ماخذ دو عناصر تھے

1- خارجی 2- داخلی

اس کی تصنیف العقیدہ الشریعہ میں ہے :

"پیغمبر کا پیغام ان منتخب معارف و مسائل کا ملغوبہ تھا جوآپ کو یہودی اور عیسائی حلقوں کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے ملے تھے۔ آپ ان نظریات سے بہت متاثر تھے۔اور ان کا خیال تھا کہان کے ذریعے اہلِ وطن کے دل میں سچا مذہبی شوق بیدار کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام تر تعلیمات و ہدایات آپ نے بیرونی عناصر سے لی تھیں۔آپ ﷺ کے خیال میں رضائے الٰہی کے حصول میں زندگی کی کشتی کو ایک نیا رخ دینے کے لیے نہایت ضروری تھا۔ان افکار سے آپ اس قدر متاثر ہوئے کہ یہ افکار آپ کے دل کی گہرائیوںمیں پیوست ہو گئے۔ اور مضبوط بیرونی اثرات کی وجہ سے آپ ان نظریات کی حقیقت کا اس قدرادراک کرایا کہ یہی نظریات عقیدہ بن کرآپ کے دماغ میں جا گزیں ہوئےاور انہی تعلیمات کو آپ وحی الٰہی سمجھنے لگے"۔36

گولڈ زہر کا ایک اور بڑا اعتراض وہ یہ کہ اسلامی تصوف بہت کمزور دلائل پر مبنی ہے۔ اس علم اور اس کی مصلحات کے اثبات میں دورکے اشاروں اور کنایوں سے کام لیاجاتا ہے اہلِ تصوف اپنی بات کے ا ثبات میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اصل اسلام پر بھی زد پڑ رہی ہوتی ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے اس کی ابتداء زہد بسیط سے کی جاتی ہے ۔دنیا جہاں سے کنارہ کشی اور بے رغبتی پرتی جاتی ہے۔ فیض الٰہی کے حصول کا دھیان جمانا ہوتاہے جس سے احساس شوق الی اللہ میں بدل جاتا ہے ۔ اور پھر استغراق کی کیفیات شروع ہو جاتی ہیں اور آخر میں انسان کا شخصی وجوداللہ کی حقیقت میں گم ہو جاتا ہے ۔ اور یہ سب قرآن و حدیث سے اشاری طور پر ثابت کیا جاتا ہے مثلاً سورۃ البقرہ کی آیت 156 إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سےمقامِ فنا کا اثبات کیا جاتا ہے ۔ جو کہ سیاق و سباق سے سمجھ آنے والے مفہوم کے بالکل بر خلاف ہے اسی طرح سورۃ التکاثر میں " علم الیقین"اور "عین الیقین" فکری استغراق کو ثابت کی جاتاہے ۔37

کتاب کے مترجم نے اس اعتراض کا جواب نہایت عمدہ انداز میں دیا ہے کہ اسلامی تصوف کی جو مثالیں اور باتیں گولڈزیہرنے ذکر کی ہیں وہ اسلامی نہیں بلکہ اسلامی تصوف تو وہ ہے جو اسلام کی نہ توکسی اصل کا انکار کرےاور فرع کا منکر ہو ۔ اسلامی تصوف میں کسی طور پر بھی شریعت کو لغو ٹھہرانا درست نہیں اسلام کے صوفیاء نے اپنے مذاہب کی بنیاد شریعت پر ہی رکھی ہے ۔ جس کا منہ بولتا ثبوت رسالہ قشریہ اور دیگر متصوفین اسلامی کی کتب اور طرز عمل ہے ۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو شریعت کو عین حقیقت اور حقیقت کو عین شریعت قرار دیتے ہیں ۔جو لوگ تصوف کوشرعی احکام کے انکار کا زینہ بناتے ہیں تو ایسے لوگ ملحد ہیں اور امت کے علماء نے کبھی انہیں قبول نہیں کیا۔38

متن قرآن پر گولڈزیہر کے اعتراضات کا علمی جائزہ:

ابتداً جب گولڈزیہر نے اسلامی موضوعات پر حقیق کا آغاز کیا تو اُس کا موضوع قراتِ قرآنی نہیں تھا تاہم مذاہب التفسیر الاسلامی میں خاص طور پر پہلے باب کے آغاز میں تقریباً 70 صفحات ، قرآنی متن میں اضطراب اور نقص ثابت کرنے کے لئے حدیث سبعہ احرف کی استنادی حیثیت اور قراءات شاذہ کو دلیل بنا کر موجودہ قرآن کی حجیت و قطیعت پر اعتراضات و شبہات کوشامل کیا ہے۔

اگر نصِ قرآن کی قطیعت میں شک و شبہات پیدا کرنے سے متعلق مستشرقین کے کارناموں کا جائزہ لیا جائے تو گولڈزیہر کے تحریر کردہ یہ صفحات بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جوبعد میں آنے والے مستشرقین کے لئے بنیادی فکر فراہم کرنے میں مصدر کا کردار فراہم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حدیث سبعہ احرف اور قراءات شاذہ کو دلیل بنا کر متن قرآن کو چیلنج کرنے والے مستشرقین میں سے الفونس منگانا(Alphonse Mingana) آرتھر جیفری(Arthur Jeffery) اعر ڈاکٹر جی –آر –پیوئنن ( Dr. G.R.Piun)نے بھی اپنے پیشرو گولڈزیہرکی ہی پیروی کی ہے۔محمد عبد الفتاح مستشرقین کے اس طرح کے مزاج پر یوں تنصرہ کرتے ہیں۔

مستشرقین نے منفرد نوعیت کے کارنامی انجام دئے لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ یہودی مستشرقین کا ایک خاص مزاج ہے کہ وہ بڑی مہارت سے فریب اور برائی کے راستے صاف کرنے کا فن رکھتا ہے اور قاری کی فطرت کو اپنے خیالات سے آشنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ تعریف اور اندیشے سے شروع کرتے ہوئے، وہ خفیہ طریقوں سے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔۔39 تمام مستشرقین اس صہیونی مزاج پر مخفی شکوک و شبہات اور ابہام کے ساتھ متفق ہیں۔

ان اعتراضات کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ اس کے بقول نص قرآنی میں تمام کتب سماویہ سے زیادہ تحریفات واقع ہوئی ہیں حالانکہ اس نے دیگر کتب سماویہ کو ان کی اصل نصوص میں کبھی نہیں دیکھا کیونکہ ان کی اصل نصوص کو ناپید ہوئے عرصہ گزر گیا ۔ اس کے باوجود قرآن کو ان کتب کے مقابلہ میں زیادہ پُر نقص قرار دینے پر ڈٹا ہوا ہے ۔40

گولڈ زیہر نے قراءات کے اختلاف کا سبب رسم کے نقطوں اور حرکات نہ ہونےکو گردانا ہے ۔ اور اس کی چند مثالیں بھی دی ہیں لیکن ان بیسیوں مثالوں کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جو احتمالِ رسم کی وجہ سے دیگر صورتوں سے پڑھے جانے کی گنجائش رکھتی تھیں۔ لیکن ان کو ایک ہی صورت میں پڑھا گیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قراءات کا اختلاف رسم کی وجہ سے نہیں بلکہ اتباع روایات سے وجود میں آیا ہے ۔41

تمام امت کا اس امر پر انفاق ہے کہ فقط وہ صورتیں جن میں مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں وہی معتبر ہوں گی بقیہ اس استنادی حیثیت سے خالی ہوں گی اور وہ شرائط درج ذیل ہیں:

  • وہ صورتیں آنحضرت ﷺ سے صحیح سندکے ساتھ ثابت ہو۔

  • لغتِ عرب یا عربی زبان کے طے شدہ گرائمر کے اصولوں کے مطابق ہوں۔

  • حضرت عثمان کے مصاحف کے رسم الخط میں مذکورہ قراءات کی گنجائش باقی ہو۔

    مذکورہ بالا شرائط پر جو صورتیں پوری نہیں اترتیں وہ شاذ کہلاتی ہیں اور امت ِ مسلمہ میں سے کسی طبقہ نے اُسے معتبر نہیں مانا۔گولڈزیہر یا دیگر مستشرقین نےجن قراءات کو دلیل بنا کر اعتراضات پیش کئے ہیں وہ سب اسی قبیل سے ہیں۔ نیز جن جن قراتوں کو شاذ قرار دیا گیا ہے اگر اُن سب پر غور کریں تو کوئی قرات ایسی نہیں ملے گی جس میں مندرجہ ذیل باتوں میں سے کوئی ایک نہ پائی جاتی ہو۔ یعنی شاذ قراتوں میں کوئی نہ کوئی ایک کمی ضرور ہوگی جو اُسے شاذ بناتی ہے۔

  • بعض اوقات ایک قرات اپنی سند کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہے مگر اُس میں مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک مفقود ہوتی ہے اور وہ قرآن کی قرات نہیں ہوتی ۔ہوتا یوں ہے کہ کوئی صحابی یا تابعی قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے کسی لفظ کی تشریح میں چند الفاظ لکھ دیتے ہیں جس سے کسی کو یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی الگ سے قرات ہے۔ مگر قرآن جو مکمل متواتر ہے اور ہر دور میں ہزاروں حفاظ بھی موجود رہے ہیں اور جس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ نے اٹھایا ہے اُس کے لیے اضافہ و ترمیم کا شائبہ بھی ممکن نہیں ۔اسی لیے اُس دور میں صحابہ و تابعین نے قرآنی آیات کی تشریحات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا گیا۔ اس کی کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں:

    مثال اول:

    حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ "وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ورحطک منھم المخلصین" 42

    یہاں" وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ "آیت کا حصہ نہیں بلکہ تفسیری اشارہ ہے جو انہوں نے اپنے تلامذہ کو سمجھانے کے لئے بیان کیااس کے مطلب سے بھی ظاہر ہے اور امام بخاری نے بھی اس روایت کو کتاب التفسیر میں پیش کر کے اس طرف اشارہ فرمایا ہے ۔

    مثال دوم:

    مشہور تابعی سعید بن جبیر نے کہا حضرت ابن ِ عباس اس طرح آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے "وَكَانَ امامهم مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا" اور اس آیت کی بھی یوں تلاوت کیا کرتے تھے"وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ الكافر وكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ"43

    اب اس روایت میں امامهم اصل آیت میں موجود لفظ وَرَاءَهُمْ کا معنی بیان کرنےکےلئے ہے ۔ اور"سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ" میں صَالِحَةٍ مخذوف صفت کے لئے تفسیری اشارہ ہے ۔نیز دوسری آیت میں فَكَانَ الكافر آیت کی وضاحت کے لئے بطور تفسیری اشارہ لکھا گیا ہے ۔اسی مناسبت سے صاحبِ بخاری نے اس روایت کو بھی کتاب التفسیر میں بیان فرمایاہے ۔

    مثال سوم:

    حضرت عبد اللہ بن عباس نے نے ایک آیت سے متعلق یہ گواہی دی ہے کہ یوں نازل ہوئی تھی"لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ فی موسم الْحَجَّ"44

    چونکہ مذکورہ آیت میں اس امر کی اجازت ہے کہ ایامِ حج میں تجارت کے ساتھ مالی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس لیے جب صحابی نے تفسیر کی تو اپنے مصحف میں اس آیت کےتحت فی مواسم الحج لکھ دیا اور اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری نے اسے التجارہ یا الموسم کے باب کے تحت کتاب الحج میں بیان کیا ہے۔ ابن الجزری کا قول نقل کرتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

    بعض مرتبہ تفسیر و تشریح کے لیے جو کلمات استعمال ہوتے ہیں اُنہیں بھی قرات میں شامل کر لیا جاتا اس لیے کہ صحابہ کرام کو اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ تفسیری کلمات قرآن کے ساتھ خلط ملط ہو جائیں گے کیونکہ اُنہوں نے قرآن خود حضورﷺ سے سنا تھا اور دوسرا یہ کہ تفسیری کلمات ذاتی نسخوں میں لکھتے تھےجو صرف اُن کی حد تک محدود رہتے ۔45 حضرت عائشہؓ نے بھی ایسا کیا تھا جس کا بیان اگلی مثال میں ہے ۔

    مثال چہارم

    ابو یونس جنہیں حضرت عائشہ نے آزاد کیا تھا روایت کرتے ہیں کہ

    " حجرت عائشہ نے مجھے حکم دیا کہ اُن کے قرآن لکھوں اور جب مذکورہ آیت پر پہنچوں تو انہیں بتاوں اور وہ آیت یہ تھی حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى" چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچاتو انہیں بتایا تو انہوں نے مجھے لکھوایا"حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَالصَّلَاةِ العصر" حضرت عائشہ ؓنے فرمایامیں نے اسے رسول اللہﷺ سے یوں ہی سنا" ۔46

    اب اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وَالصَّلَاةِ العصر حضرت عائشہ ؓ نے اپنے مصحف میں بطور یادہانی لکھوائے تھے کہ حضور ﷺ نے" وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى" کامعنیٰ وَالصَّلَاةِ العصربتایا تھا۔

  • اس حوالے سے کچھ مثالیں ایسی بھی ہیں کہ قرآن کریم کی بعض قراتیں منسوخ ہو گئیں جن کا علم اکثر صحابہ کو نہ ہوا ۔اس لئے وہ قدیم قراءات کے ساتھ پڑھتے رہے ۔47 مگر دیگر صحابہ جانتے تھےکہ یہ قراءات منسوخ ہو چکی ہے اس لئے وہ اسے نہ پڑھتے تھےاور نہ قرآن کریم کی صحیح قراتوں میں شمار کرتے تھے۔

    مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعود کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد نے جو کہ تابعی تھے حضرت ابو دردہ کے سامنے سورۃ واللیل کی تلاوت یوں کی "وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (1) وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى (2) الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى" اور گواہی دی کہ عبد اللہ بن مسعود اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔ابو درداء نے اس پر فرمایا "میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نےبھی نبی کریمﷺ کو اس طرح پڑھتے سنا ہے "۔لیکن یہ شام کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں "وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى" پڑھوں ۔ اللہ کی قسم میں کسی صورت میں ان کی پیروی نہ کروں گا۔48

    مذکورہ حدیث کی تشریح حافظ ابن حجر اس طرح کرتے ہیں:

    "ولعل ھذا مماتسخت تاویلۃ ولم یبلغ النسخ آیا الدرداء ومن ذکر معہ والعجب من نقل الحفاظ من الکوفیین ھذہ القراءۃ عن علقمۃ و عن بن مسعود و الیھا القراءۃ بالکوفۃ ثم لم یقریھا احد منھم وکذا اھل الشام حملوا القراءۃ عن ابی الدرداء ولم یقر احدمنھم بھذا فھذ مما یقوی ان التلاوۃبھا نسخت"49

    شاید کہ اس آیت کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی ۔ جس کا علم حضرت ابو درداءرضی اللہ عنہا کو نہیں ہوا تھااس کی دلیل یہ ہے کہ کوفہ کے وہ قراء جن کا سلسلہ قراءت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ان میں سے کسی کی بھی یہ قراءت نہیں اور اسی طرح اہلِ شام نے قرات قرآن حضرت ابو درداء سےسیکھی اور ان میں سے کوئی بھی اسے نہیں پڑھتا تو اس سے یہ بات قوی ہوتی ہے کہ اس الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے ۔

  • بعض اوقات وہ قراءت بالکل موضوع ہوتی ہے جیسے کہ ابو الفضل محمد بن جعفیر خزاعی کی قراتیں ان کو انہوں نے امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کیا ، امام دار قطنی ، تمام علما نے تحقیق کر کے بتایا ہے ۔کہ یہ تمام قراتیں منسوخ ہیں ۔50

  • بعض اوقات سنداً ضعیف ہوتی ہیں کسی ضعیف راوی سے منقول ہوتی ہے ۔ جیسے ابن السمیفع اور ابو السال کی قراتیں۔51 جو کہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں یا بہت سی وہ قراتیں جو ابن ابی داؤد نے کتاب المصاحف میں مختلف صحابہ و تابعین سے منسوب کی ہیں اس کتاب کو آرتھر جیفری نے ایڈٹ کر کے شائع کرایا ہے۔ مگر ان کی اسناد ضعیف ہیں۔

  • بعض شاذ قراتوں کو دیکھ کر یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ کسی تابعی سے سہواً قرآن کی قرات میں غلطی ہو گئی جو کہ ممکن ہے اور بڑے سے بڑے حافظ قرآن سے بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے تو اس وقت سننے والوں میں سے کسی نے ویسے ہی روایت کر دیا ہو۔ 52

    قرآن کی وہ تمام قراتیں جو شاذ ہیں وہ زیادہ تر انہی پانچ صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک یا زیادہ صورتوں کے تحت پائی جاتی ہیں ۔لہذا اس صورت میں مذکورہ قراتوں کو معتبر کسی صورت قرار نہیں دیا جا سکتا تھا اس لیے چودہ سو سالوں میں یہ تمام قراتیں نہ تو معتبر مانی گئیں نہ ہی ان کو تلاوت کیا جاتا رہا۔ نہ متواتر ہوئیں نہ ہی مشہور ہو سکیں ۔

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ گولڈزیہرنے مذاہب التفسیر الاسلامی میں بہت دقت نظر اوراسلام کے گہرے مطالعہ کاثبوت دیا ۔ مگر کیونکہ ایک مسلمان اور غیر مسلم کے اسلام کا مطالعہ کرنے میں فرق رہتاہے تو یہ فرق اس کتاب میں ضرور نظر آتا ہے ۔ مختلف آراء و اقوال کی روشنی میں یہ بات بیان کی جا چکی ہے۔ کہ بعض مسلم علماء گولڈزیہر کے اس طرح کے اعتراضات کو علمی غلطیاں قرار دیتے ہیں ۔ اور بعض اس کی سوچی سمجھی صہیونی استشراقی سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔بہر حال تفسیر کے جن پہلوؤں پر گولڈزیہر نے قلم اٹھایاہے ۔وہ بہت اہم ہیں اور ان پر مزید بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے ۔ قرآنی متن کے حوالے سے گولڈ زیہر کی تحقیقات نے دیگرمستشرقین کے لئے نئی راہ کھول دی ہے مگر حقیقت امر یہ ہے کہ دینِ اسلام حبل اللہ المتین ہے اور قرآن کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ لہٰذا اس میں کہیں سے رخنہ اور محل اعتراض موجود نہیں ہے۔


    Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.

     Lecturer, Dept. of Hadith, The Islamia University of Bahawalpur.

    1 Ibn e Manzūr Muhammad bin Mukarram Al-Afrīqī, Lisān al-‘Arab (Beirūt: Dār Sādir, S.N), 10 : 174.

    2 Sharf al-dīn Islāḥī, Mustashriqīn,Istishrāq awr Islām (A‘zam Garh (India): Ma‘ārif Dār al-musannifīn, 1986 A.D), 48.

    3 Wehr, Hans and J.Milton Cowan, ADictionary of Modrn Written Arabic (London: Harrap, 1976A.D).

    4 ‘Umar Farrukh, Al-Istashrāq, Māluhu wamā ‘Alaih Al-Istishrāq Wa al-Mustashriqūn (Mujallah Al-Minhal, April 1989), 15.

    5 Said, Edward W, Orientalism (London: Routedge & Kegan Paul, 1978 A.D), 21.

    6 Abu al-hassan ‘Alī Nadvī, Al-Islāmiyāt baina Kitābiyāt Al-Mustashriqīn (Beirūt: Mu’assisat al-risālah, 1986 A.D), 15,16.

    7 Ignaz Goldziher, Introduction to Islamic Theology and Law (USA: Princeton University Press, 1981 A.D), i-xiii.

    8 Kheir al-Dīn Zarkalī, Al-A‘lām (Beirūt: Dār al-‘ilm lil malābain, 1984 A.D), 1:84.

    9 Najīb al-‘Aqīqī, Al-Mustashriqūn (Egypt: Dār al-Ma‘ārif, 1965 A.D), 3:906.

    10 Ignaz Goldziher, Tagebuch, Edited by Alexander Scheiber (Leiden: 1978 A.D), 251.

    11 Kheir al-Dīn Zarkalī, Al-A‘lām, 1:84.

    12 Kheir al-Dīn Zarkalī, Al-A‘lām, 1:84.

    13 Goldziher, Al-‘aqīdah wa al-Sharī‘ah fi al-Islām, (Arabic Translated by: Muhammad Yūsuf Mūsā (Qāhirah: Dār al-Kutub al-ḥadīthah, 1959 A.D), 4.

    14 ‘Alyān Muhammad ‘Abd al-Fattāḥ, Aẓhwā’u ‘Ala al-Istishrāq (Kuweit: Dār al-baḥūth al-‘ilmiyyah, 1400 A.H), 9-52.

    15 Sabāḥ al-Dīn ‘Abd al-Raḥmān, Islām awr Mustashriqīn (India: Dār al-Musannifīn Shiblī Academy, 2004 A.D), 2:42,43.

    16 Ignaz Goldziher, Introduction to Islamic Theology and Law, 10.

    17 Goldziher, Taqdīm Maẓhahib al-tafsīr al-Islāmī (ArabicTranslation by: Dr. ‘Abd al-ḥalīm ( Qāhirah: Matb‘ah al-Sunnah al-Muhammadiyyah, 1955 A.D), 4.

    18 Goldziher, Al-‘aqīdah wa al-Sharī‘ah fi al-Islām, 5.

    19 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī,3-72.

    20 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī,3-72.

    21 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī,73-120.

    22 ldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī,120-200.

    23 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 201-285.

    24 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 286-336.

    25 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 337-396.

    26 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī,3-72.

    27 Mathias Rohe, Islamic Law in Past and Present (English Translation by: G Goldbloom (Leiden: Konninklijke Brill, 2015 A.d), 192.

    28 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 4.

    29 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 8,9.

    30 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 9.

    31 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 9.

    32 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 16-21.

    33 Abu ‘Abdullah Muhammad Bin Ismā‘īl Bukhārī, Al-Saḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb: Faẓā’l al-Qur’ān, Hadith No. 5005.

    34 Bukhārī, Al-Saḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb: Faẓā’l al-Qur’ān, Hadith No. 5015.

    35 Bukhārī, Al-Saḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb al-Tafsīr, Hadith No. 4594.

    36 Goldziher, Al-‘aqīdah wa al-Sharī‘ah fi al-Islām, 12.

    37 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 201-220.

    38 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 202.

    39 ‘Alyān Muhammad ‘Abd al-Fattāḥ, AẒhwā’u ‘Ala al-Istishrāq, 9-52.

    40 Goldziher, Maẓhahib al-tafsīr al-Isāmī, 53.

    41 ‘Abd al-Fattāḥ Shalbī, Rasm al-Musḥaf wa al-Iḥtijāj bihī fi al-Qirā’āt (Qāhirah: Maktabah al-misriyyah, 1960), 35.

    42 Bukhārī, Al-Saḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb al-Tafsīr, Hadith No. 4971.

    43 Bukhārī, Al-Saḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb al-Tafsīr, Hadith No. 4725.

    44 Bukhārī, Al-Saḥīḥ al-Bukhārī, Bāb: Al-Tijārah abām al-mosam, Hadith No. 1770.

    45 Jalāl al-Dīn al-Sayūtī, Al-’itiqān fi ‘Ulūm al-Qur’ān, 1:134.

    46 Muslim bin Hajjāj al-Qusheirī, Al-Saḥīḥ al-Muslim, Kitāb al-Masājid wa mawāẒhi‘ al-Salāt, Hadith No. 1427.

    47 Abu Ja‘fir Muhammad al-Taḥāvī, Mushkil al-Athār sharah Ma‘ānī al-Athār, 4:196.

    48 Bukhārī, Al-Saḥīḥ al-Bukhārī, Kitāb al-Tafsīr, Hadith No. 4943,4944.

    49 Aḥmad bin ‘Alī bin ḥajar ‘Asqalānī, Fatah al-bārī Sharah Saḥīḥ al-Bukhārī (Beirūt: Dār al-Ma‘rifah, 1379 A.H), 8:707.

    50 Jalāl al-Dīn al-Sayūtī, Al-’itiqān fi ‘Ulūm al-Qur’ān, 1:78,79.

    51Ibn al-Jawzī, Al-Nashr fi al-Qurān al-‘ashr, 1:16.

    52 Al-Mabālī fi Nazm al-Mālī, Muqadamatān fi ‘Ulūm al-Qurān (Eygept: Maktabah al-Khanjī, 1954 A.D), 170.

  • Loading...
    Issue Details
    Article TitleAuthorsVol InfoYear
    Article TitleAuthorsVol InfoYear
    Similar Articles
    Loading...
    Similar Article Headings
    Loading...
    Similar Books
    Loading...
    Similar Chapters
    Loading...
    Similar Thesis
    Loading...

    Similar News

    Loading...
    About Us

    Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

    Whatsapp group

    asianindexing@gmail.com

    Follow us

    Copyright @2023 | Asian Research Index