Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Amir > Volume 2 Issue 2 of Al-Amir

مشکوٰۃ المصابیح پر شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے کام کا جائزہ |
Al-Amir
Al-Amir

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2021

ARI Id

1682060063651_3200

Pages

1-15

PDF URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/24/31

Chapter URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/24

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1.2in; margin-right: 1.2in; margin-top: 0.5in; margin-bottom: 1in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 115%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt } p.cjk { font-family: "MS Mincho"; font-size: 14pt } p.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 15pt } p.sdfootnote-western { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 13pt; so-language: x-none; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-cjk { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; so-language: x-none; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-ctl { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0563c1; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }

أ ﻷمِیر:جلد2؍ شمارہ 2 ..( جولائی–دسمبر1 220ء) )5(

"مشکوٰۃ المصابیح "پر شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے کام کا جائزہ

Review of the work of Sheikh Abdul Haq Moḥaddith Dehlavī on "Mishkāt al-Maṣābīḥ"

Hafiz Muhammad Faisal Qureshi

Muhammad Fazal Haq Turābī

"Mishkāt al-Maṣābīḥ" has a sound rank among the Hadith collections. Its importance can be gauged from the fact that it has been described and summarized by several scholars. The works of Sheikh Abdul Haq Muḥaddith Dehlavi over that is a great contribution and have a special place in the context of his Hadith services. He is one of the prominent muhaddithin of the Subcontinent. He was pioneer in teaching and disseminating Hadith knowledge in the subcontinent. Firstly, he described the Mishkāt al-Maṣābīḥ in the Persian language of that time, which gained immense popularity among the people and increased the taste for understanding Hadith. Secondly, He accumulated a treasure trove of mysteries and secrets in Arabic for the use of Researchers. The name of the Persian commentary is Ash‘atul Lam‘āt while the Arabic commentary is called Lam‘āt al-Tanqīh. They are more than one in usefulness, which has created a taste for reading and understanding Hadith among the people and Researchers. In the said article, an introduction and methodological study of the work done by Sheikh Abdul Haq on Mishkāt al-Maṣābīḥ will be presented.

Key Words: Ḥadith, Al-Maṣābīḥ al-Sunnah, Mishkāt al-Maṣābīḥ, Ash‘atul Lam‘āt, Lam‘āt al-Tanqīh, Sheikh Abdul Haq Muhadith Dehlvi

تمہید:

بر صغیر میں علمِ حدیث کی درس و تدریس اور نشر و اشاعت کے حوالے سے شیخ عبد الحق محدث دہلوی کو اولیت حاصل ہے۔علمِ حدیث کی نشر و اشاعت کے ضمن میں آپ کی مشکوٰۃ المصابیح کی دو شروحات اشعۃ اللمعات اور لمعات التنقیح ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔مشکوٰۃ المصابیح کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی شرح و تلخیص بیسیوں علماء نے کی ہے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر دور میں علماء و محدثین نے اس کتاب کو بہت اہمیت دی ہے اور زیر مطالعہ رکھا ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نےعوام و خواص کے یکساں استفادے کی خاطرپہلے پہل اس کی شرح اُس وقت کی عرفی زبان فارسی میں کی جس نے عوام میں بے حد مقبولیت حاصل کی اور فہمِ حدیث کا ذوق و شوق بڑھایا۔ خواص کے استفادے کے لیے عربی زبان میں شرح کرتے ہوئے اسرار و رموز کا ایک خزانہ جمع کر دیا۔ فارسی زبان کی شرح کا نام اشعۃ اللمعات جبکہ عربی شرح کا نام لمعات التنقیح رکھا۔جو افادیت کے اعتبار سے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ اِن شروحات پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ مختصراً "مشکوٰۃ المصابیح "اور اصل کتاب" المصابیح" اور ان ک کے مصنفین کاتعارف کروا دیا جائےتاکہ اس کی اہمیت واضح ہو جائے:

تعارف کتاب المصابیح از امام بغویؒ(ت516ھ):

صاحبِ ''کتاب المصابیح '' کی کنیت ابو محمد اور نام و نسب حسین بن مسعود بن محمد بن فراء بغوی ہے 1۔ تفسیر، حدیث اور فقہ میں کمال مہارت اور یدِ طولیٰ رکھتے تھے 2 ۔ رکن الدین اور محی السنۃ کے لقب سے مشہور و معروف ہیں ۔مؤخر الذکر لقب بارگاہ رسالت مآب ﷺسے عطا ء فرمودہ ہے 3۔بغ '' مرو '' اور ''ہرات''کے درمیان خراسان کا ایک شہر ہے اور پیدائشی نسبت کی وجہ سے بغوی کہا جاتا ہے۔ آپ ؒ نے حدیث میں عبد الرحمٰن بن محمد ابو الحسنی داودی (ت467ھ)یعقوب بن احمد صیرفی (466ھ)اور علی بن یوسف جوینی (ت463ھ)سے استفادہ کیا جبکہ فقہ میں قاضی حسین بن محمد (ت462ھ)کے تلمیذِ رشید ہیں 4۔ امام بغوی زہد وورع کے ساتھ ساتھ قناعت پسند طبیعت اور اعتدالی مزاج کے مالک تھے ۔خوردو نوش میں اکیلی روٹی پر گزارہ اور لباس میں سادہ سے کپڑے اور سر پر چھوٹا سا عمامہ سجاتے تھے اور درسِ حدیث کے فیضان کو عام کرتے تھے5۔ آپ درس حدیث تو طہارت کی حالت میں دیتے تھے 6 ۔ امام بغوی (ت516ھ)درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی نابغہءِ روزگار تھے۔

علم حدیث میں آپؒ کی کتاب جو ''المصابیح ''7 "کتاب المصابیح ''8 اور" مصابیح السنۃ ''9 کے مختلف ناموں کے ساتھ معروف ہے۔ جس میں صاحب کشف الظنون کے مطابق 4719احادیث ہیں ۔جن میں سے 525، احادیث صحیح بخاری اور 875صحیح مسلم کی ہیں۔ 1051متفق علیہ اور دیگر کتب ِاحادیث کی ہیں 10جبکہ صاحب "بستان المحدثین " کے مطابق احادیث کی تعداد 4484ہے ۔بخاری ومسلم سے 2434 احادیث اور سنن ابی داؤد اور ترمذی وغیرہ سے 2050 احادیث لی گئی ہیں 11۔

اس کتاب کا نام مؤلف علیہ الرحمۃ کا خود تجویز کردہ نہ ہے ۔ تغلیبا یہ نام کتاب کا عَلم بن گیا ہے ۔ صاحب کتاب خود ذکر کرتے ہیں۔ "اما بعد ان احادیث ھٰذا الکتاب مصابیح ''یعنی زبان نبوت ﷺ سے نکلی ہوئی یہ احادیث چراغ رشدو ہدایت ہیں ۔مؤلف کتاب غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو صدرِ نبوت ﷺ سے صادر ہوئے ہیں جن کو آئمہ کرام نے اپنی کتابوں میں وارد کیا ہے ۔میں نے ان دُرِ عَدن کو ا ُن لوگوں کیلئے پرویا ہے جواپنےآپ کو عبادت ِالٰہی کے لئے وقف کر چکے ہیں ۔تاکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعد ان کو سننِ رسول ﷺ سے حظ وافر نصیب ہو ۔ "لتکون لھم بعد کتاب اللہ تعالیٰ حظا من السنن" 12 ۔ '' مصابیح '' کے مؤلف نے آئمہ کی تصحیح نقل پر اعتماد کرتے ہوئے احادیث کی اسناد کو مطلقًا ترک کردیا ۔ اپنی وضع کردہ اصطلاح کے مطابق احادیث کو صحاح اور حسان میں تقسیم کردیا ۔صحاح سے مراد شیخان کی احادیث ہیں اور حسان سے مراد وہ احادیث ہیں جن کو شیخان کے علاوہ محدثین نے وارد کیا ہے ۔حالانکہ ان میں ہر قسم کی احادیث صحیح ،حسن ، ضعیف اور منکرپائی جاتی ہیں۔ یہ مصنف کی خود ساختہ اصطلاح ہے جو محلِ اعتراض نہ ہے13۔ ضعیف اور غریب احادیثکی طرف اشارہ کردیا ، منکر یا موضوع احادیث کے ذکر سے اعراض کاذکر خطبہ میں کردیا ہے۔ اس کے باوجود مناقب قریش کے آخر میں ایک منکر حدیث ذکر کی ہے جو شاید بعض محدثین کا لاحقہ ہے۔14 بہت زیادہ حزم و احتیاط کے باوجود روایات مرسلہ ، ضعیفہ حتی کہ 18احادیث کو وضع کے ساتھ الزام دیا گیا ہے ۔جس کا جواب امام ابن حجر عسقلانی (ت852ھ) اپنے ایک مستقل رسالہ میں دیا ہے15۔

تعارف کتاب " مشکوٰۃ المصابیح" از خطیب تبریزیؒ:

محمد بن عبد اللہ خطیب تبریزی عمری '' المصابیح" کی تکمیل اور باب بندی 737ھ میں مکمل کی 16اور اس کا نام'' مشکوٰۃ المصابیح '' رکھا ۔ آپ نے اپنی اس کتاب میں جن امور کا التزام کیا ہے وہ یہ ہیں کہ احادیث کی تخریج کردی گئی ہے ۔حدیث کے راوی کا نام ذکر کیا گیا ہے۔حدیث کی صحت ، ضعف اور حسن کی اطلاع دی گئی ہے۔ مخرج حدیث کی کتاب کے نام کے ساتھ تیرہ اصحابِ حدیث (بخاری، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ، ابی داؤد،ترمذی، مالک ، شافعی ، احمدبن حنبل ، دارمی ، دارقطنی ، بیہقی ، اور ابو الحسن رزین بن معاویہ) کا تذکرہ ہے ۔ روایات کا اختلاف مقابلہ کرکے نقل کیا ہے ۔ صاحبِ مصابیح نے جس جگہ حدیث کو غریب یا ضعیف یا منکر قراردیاہے تو صاحب مشکوٰۃ نے غرابت ، ضعف ، اور نکارت کا سبب ظاہر و باہر کردیا ہے ۔ مصابیح میں ہر باب کے تحت دو فصلیں قائم تھیں ۔ فصل اول میں صحاح اور فصل ثانی میں حسان احادیث کا ذکر تھا ۔ آپ نے ہر باب کے تحت فصل ثالث کا اضافہ کیا ہے ۔ جس میں صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث کی احادیث وارد کرتے ہیں ۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال بھی باب کی مناسبت سے مشکوٰۃ المصابیح میں درج ہیں ۔ صاحب مشکوٰۃ نے 1511احادیث کا اضافہ کیا ہے۔ 17

مشکوٰۃ المصابیح 29 کتابوں ، 307ابواب اور 1038فصلوں پر مشتمل ہے۔مصابیح کی احادیث کی تعداد میں اختلاف کی بنا پر مشکوٰۃ المصابیح کی کل احادیث 5995 یا 5945ہیں ۔ناصر الدین البانی کی ترقیم (نبرنگ)کے مطابق مشکوٰۃ المصابیح کی احادیث کی تعداد 6294ہے18۔ بیسیوں علماء نے اس کی شروحات فرمائی ہیں۔

شارح ِمشکوٰۃ المصابیح شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ:

"مشکوٰۃالمصابیح"کے شارح یعنی"لمعات"اور"اشعۃ اللمعات"کےمصنف شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958ھ۔1052ھ) ہندوستان کے ایک علمی اور روحانی خاندان میں شیخ سیف الدین علیہ الرحمۃ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔پندرہ سولہ سال کی عمر میں اپنے والد صاحب سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل سے فراغت پا چکے تھے ۔ادب ، فلسفہ، اور علم الکلام کی اعلیٰ تعلیم کےلئے آپ نے ماوراء النھر کے اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے شب و روز اپنے والد محترم کی آغوش محبت و رحمت اور انکی مہربانی اور عنایت کے قرب میں تربیت پائی ہے 19۔آپؒ نے تعلیم و تربیت کے بعد درس وتدریس اور خلق خدا کی خدمت میں ایک عرصہ تک مصروف عمل رہے ۔حج و زیارت کی سعادت حاصل کرنے کیلئے آپ نے حرمین شریفین کی زیارت کا قصد کیا ۔

سر زمینِ حجاز میں شیخ کا قیام کم و بیش تین برس رہا، تین سال کے قیام کے دوران شیخ علیہ الرحمۃ نے مکہ و مدینہ کے کبار محدثین سے درس ِحدیث اور اجازتِ حدیث حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔حرمین شریفین کے جلیل القدر محدثین نے اس ہندی طالب علم کی طلب اور محنت کو بہت سراہا ۔قاری علی بن جار اللہ نے فرمایا کہ شیخ پورے ہندوستان میں علمی لحاظ سے دُر یکتا ہیں20۔ حجاز مقدس میں اس تین سالہ اقامت کے دوران آپ کا زیادہ تر وقت شیخ عبد الوھاب متقی کی خدمت عالیہ میں بسر ہوا 21۔ شیخ عبد الوھاب متقی علیہ الرحمۃ کی خدمت اور صحبت کے ان دو سالوں میں آپ علم ِ حدیث ، اور روحانی علم کی ایک لازوال دولت سے مالا مال ہوئے جس نے آپ کی آنے والی علمی اور عملی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کردئیے جو رہتی دنیا تک ان کے لئے چراغ راہ ثابت ہوئے۔موصوف نے شیخ عبد الوھاب متقی علیہ الرحمہ سے مشکوٰۃ المصابیح کا درس لیا ، ذکر کے آداب وطریقے سیکھے ،کم خوری اور آدابِ خلوت کی تعلیم پائی ۔شیخ متقی بھی آپ سے محبت کرتے تھے اور خرقہ ءِ خلافت سے بھی سرفراز فرمایا ۔ فیصلہ کرنے کا اہل قرار دیا اور افتاء اور قضاء کی اجازت بخشی 22۔

صاحب "مشکوٰۃ المصابیح "خطیب تبریزی (ت 741ھ)،شافعی المذہب تھے ۔ انہوں نے اپنے شافعی مذھب کے موافق ومطابق تائیدی احادیث کا ایک خوبصورت گلدستہ ترتیب دیا ہے ۔جس سے پہلی نظر یہ تاثر ملتا ہے کہ شافعی مذہب حدیث کے بالکل قریب ہے۔ اس وہم کی وجہ حدیث شریف کی وہ کتابیں ہیں جن کی تصنیف و تالیف اور ترتیب میں شوافع حضرات کا بہت بڑا حصہ ہے۔ شوافع حضرات علیھم الرحمۃ نے احادیثِ نبویہ کی ترتیب وتالیف میں اپنے مذہب کے مطابق احادیث کو درج فرمایا ہے جس کی وجہ سے عام قاری کی نظر سے دوسرے آئمہ کے مذاہب والی احادیث اور دلائل اوجھل ہو گئے۔ حضرت شیخ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ 23 شوافع کی مرتب کردہ احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ بھی اس وہم کا شکار ہوگئے ۔ جب آپ نے "مشکوٰۃ المصابیح "کا درس لیا تو آپ نے بھی شافعی مذہب اختیار کرنے کا خیال کر لیا اور اس کا اظہار شیخ عبد الوھاب متقی (ت1001ھ)سے کیا تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ شاید اس کا خیال مشکوٰۃ شریف پڑھنے کی وجہ سے ہوا ہے تو آپ نے فضائل و مناقب اور دلائل کے ساتھ اس خیال کو زائل کیا ۔پھر آپ نے شیخ عبد الحق علیہ الرحمۃ کو وطن واپسی کا حکم دیا تو شیخ نے عرض کی کہ مجھے اپنی خدمت میں رہنے کا موقع دیجیے تاکہ میں مذاہبِ اربعہ اور خصوصاً شافعی اور حنفی مذہب میں تحقیق کروں اور حق میرے لئے واضح ہوجائے کیونکہ ان مذاہب میں زیادہ بنیادی اختلاف ہے۔ آپ نے فرمایا ان شا ء اللہ آپ کو وہاں وطن میں اس کا موقع ملے گا جوکہ مشکوٰۃ المصابیح کی شرح کے دوران حاصل ہوا ۔24

999ھ میں حجاز مقدس سے شیخ اپنے وطن مالوف دہلی واپس آگئے اور درس و تدریس اور خدمت انسانیت میں ہمہ تن مصروف و مشغول ہوگئے25 ۔19سال آپ نے درس حدیث شریف اس آب و تاب اور ایسی محنت شاقہ سے دیا جس کا شہرہ چار دانگ عالم میں پھیل گیا مشتاقان ِحدیث ِ نبوی ﷺ ہر سو اِس چشمہ ءِ صافی سے سیراب ہونے کیلئے کشاں کشاں چلے آئے 26۔اس مدتِ مدید میں آپ نے بارہا "مشکوٰۃ المصابیح "کا درس دیا اور اس کے معانی ومطالب اور فریقین کے دلائل و براھین کا بنظر عمیق سے مطالعہ کیا جبکہ فہم حدیث کا اعتراف تو حجاز مقدس کے علماء پہلے ہی کرچکے تھے۔ مذہب تبدیلی والا خیال نے بھی تو اس کی وجہ سے انگڑائی لی تھی تو اب وہ وقت آن پہنچا تھا کہ آ پ "مشکوٰۃ المصابیح "کی شرح لکھ کر اپنے استاذ حدیث شیخ عبد الوھاب متقی علیہ الرحمۃ کی پیشین گوئی کو عملی جامہ پہنائیں اور شکوک وشبہات کے اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ آپ کو یقین کامل تھا کہ اللہ جل جلا لہ وقتِ مقررہ پر اس کار ِ خیر کو ان کے ہاتھوں پایہءِ تکمیل تک ضرور باالضرور پہنچائے گا27۔

شرح مشکوٰۃ المصابیح از شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ:

شیخ عبد الحق علیہ الر حمۃ نے" مشکوٰۃ المصابیح "پر اپنے تحقیقی اور محاکمانہ عمل کے آغاز کی وجہ اور "مشکوٰۃ المصابیح "کی شرح کی تالیف کا سبب خودہی بیان کرتے ہیں ۔شیخ علیہ الرحمۃ نے "مشکوٰۃ المصابیح "کی طرف ہی نظرِ التفات کیوں مرکوز کی ،اس کے متعدد ناگزیر اسباب ہیں ۔یہ وہ واحد کتاب ہے جو صحاح ستہ کے درس سے پہلے داخلِ نصاب ہے۔ اپنی افادیت کے اعتبار سے یہ کتاب عام و خاص میں ہمیشہ متداول رہی ہے ،کیونکہ یہ جامع الاحادیث ہے جو اُمھات الکتب تقریبا من جملہ احادیث کا احاطہ کرلیتی ہے اور اس طرح اس کتاب کے قاری کی نظر تقریباً تمام ذخیرہ احادیث کی کتب پر طائرانہ ہو جاتی ہے،یہی وجہ ہےکہ لوگ حافظ مشکوٰۃ ہوگزرے ہیں۔28

بنا برایں عام وخاص میں قرآن و سنت پر عمل کے جذبے کو پروان چڑھانے میں یہ کتاب اپنی افادیت میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔علاوہ ازیں یہ کتاب اپنی حسنِ ترتیب کے اعتبار اور لحاظ سے ایک جامع کتاب ہےجو اپنے آپ میں ہر موضوع اور باب کو سموئے ہوئے ہے۔جس سے معاشرتی ،سیاسی ، اقتصادی، عمرانی اورروحانی امور میں رُشد وھدایت کا سامانِ زیست کامل طور پر مل سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں لمبی چوڑی اسناد کے سلسلہ کو حذف کردیاگیا ہے جو سادہ ذہن اور عام قاری کیلئے چنداں مفید نہ تھا ۔ مشکوۃ المصابیح "پر شیخ عبد الحق علیہ الرحمۃ کے تحقیقی کام کی غرض و غایت یہ تھی کہ یہ کتاب آپ کے زمانہ میں بہت ہی مشہور و معروف اور متداول کتاب تھی ۔توفیق ایزدی نے علم ِحدیث شریف کی خدمت کے لئے تائید کی کہ آپ اس کتاب کی شرح کرکے اہل علم کی کتابوں کے فوائد اور مشائخ کرام کے فرموادات عالیہ کو مشتاقان حدیث تک افادہ ءعام کی خاطر پہنچادیں ،علاوہ ازیں اس کتاب کی شرح میں مذکورہ شیخ کے علاوہ ارباب صفا اور اصحاب محبت ووفا جیسے شاہ ابوالمعالی لاہوری (ت 1024ھ )29 کا حکم بھی شامل تھا کہ اس کتاب کی شرح فارسی زبان میں کردی جائے تاکہ اس کتاب کی افادیت کا دائرہ وسیع اور عام ہوجائے ،ایک عالم مستفیدہوگا۔ شیخ علیہ الرحمۃ خود بھی یہی فرماتے ہیں۔30

شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے 60 سال کی عمر میں "مشکوٰہ المصابیح "پر اپنے تحقیقی کام کا آغاز فارسی زبان میں کیا ۔اس کتاب کی شرح کے دوران حدیثی علوم کی وضاحت اور توضیح کے ساتھ ساتھ میزابِ رحمت سے آپ یوں سرشار ہوئے کہ اسرار و رموز کے ظہور کا سلسلہ ء نور بھی اُمڈتا چلا آیا ۔اثنائے مطالعہ ایسی باتوں کا ظہور ہوا جن کو زبانِ فارسی میں ادا کرنا مقتضائے حال کے مناسب اور مطابق نہ تھا ۔اور ایسی پر اسرار باتوں کو قلم انداز کرنا گویا کہ علمی خیانت تھی۔ شیخ ؒ نے فارسی شرح کے ساتھ ساتھ عربی شرح کا بھی آغاز فرمایا ۔ اس طرح مشکوٰۃالمصابیح کی عربی اور فارسی شروحات ایک ساتھ لکھی جانے لگیں ۔ کچھ عرصہ بعد ایسا وقت آیا کہ عربی شرح کی تکمیل ہو گئی مگر فارسی شرح مکمل نہ ہوسکی۔ 31

فارسی وعربی شروحات کا آغاز 1019ھ میں ہوا اور تکمیل 1025ھ میں ہوئی یہ آغاز ااور تکمیل کی تاریخ ہے دونوں شروحات کی تکمیل کی مجموعی مدت نہیں ہے۔ اس طویل مدت میں شیخ علیہ الرحمۃ دوسری کتب اور رسائل کی تصنیف و تالیف میں بھی مشغول رہے ۔ فارسی شرح کی تکمیل میں ڈیڑھ دو برس سے زیادہ نہیں لگے32 جبکہ اس فارسی شرح سے پہلے عربی شرح کی تکمیل بھی ہو چکی تھی یہ دونوں شروحات خانقاہِ قادریہ واقع دہلی ایک ہی مجلس میں پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ 33 شیخ ؒ کا مشکوٰۃ المصابیح پر تحقیقی کام مندرجہ ذیل دو شروحات کی صورت ہمارے سامنے آتاہے:

(1) "لمعات التنقیح فی شرح المشکوٰۃ المصابیح "(عربی)

(2) "اشعۃ اللمعات فی شرح المشکوٰۃ "(فارسی )

1۔لمعات التنقیح فی شرح المشکوٰۃ المصابیح

شیخ علیہ الرحمۃ نے اس کتاب کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ سپرد ِقلم کیا ہے۔ جس میں آپ نے مندرجہ ذیل امور کا التزام محققانہ اندازمیں کیا ہے:

  • الفاظِ حدیث کی توضیح و تشریح اور معانی و مطالب میں عمیق تحقیق کا رنگ غالب ہے ۔

  • علم لغت ،نحو، فقہ ،اور علم کلام کی دقیق مباحث کو آسان پیرائے انداز میں پیش کیا ہے ۔

  • ظاہری طور پر معارض اور متعارض احادیث کی توجیہ اور تطبیق میں اپنی بساط کا حق ادا کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا ہے۔

  • فقہ حنفی کے پیروکار ہونے کی وجہ سے احادیث میں توافق اور تطابق کرکے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔

  • حدیث کے اسرار ورموز بھی صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ مذکور ہیں ۔

  • مسائل کی تحقیق و تفتیش میں آپ انصاف کا دامن تھامے رکھتے ہیں اور دائرہ اعتدال سے باہر قدم نہیں رکھتے۔

  • افراط و تفریط کا لحاظ کئیے بغیر آپ نے اختلاف امت کا عملی مظاہرہ کیا ہے جس سے سوء ادب کی بو تک نہیں آتی ہے ۔

  • طُرقِ روایت کو بیان کر کے درایت کی وجوہ کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔

  • احوال کے ذکر کے بغیر اسماء الرجال کی تصحیح کااہتمام تام ہے۔

  • ایجاز واختصار سے مرقع ومرصع عبارت ہے۔

  • آپ نے صرف ان رواۃ کے احوال کا ذکر کیا ہےجن کو مؤلف نے ضعیف ٹھرایا ہے۔

  • آغاز کتاب میں اصطلاحات حدیث کا ایک جاندار مقدمہ ہے،جو مبتدی طالب حدیث کے لئیےمفید ہے۔

شیخ موصوف کے نزدیک بھی یہ شرح نہایت قدرو منزلت اور رفیع مرتبت تھی۔ آپ خود لکھتے ہیں:

"وھو اجل واعظم واطول واکبر ھٰذہ التصنیفات وقدجاءبتوفیق اللہ و تائیدہ کتابا حافلا شاملا مفیدا ونافعا فی شرح الاحادیث النبویۃ علی مصدرھا الصلوۃ والتحیۃ مشتملۃ علی تحقیقات مفیدۃ و تدقیقات بدیعۃ وفوائد شریفۃ ونکات لطیفۃ"۔34 "لمعات التنقیح فی شرح المشکوٰۃ المصابیح ان تصانیف میں جلیل القدر ، نہایت مبسوط اور سب سے بڑی کتاب ہے اور محض توفیق الہی اور تائید ایزدی سے یہ نہایت جامع ،مبسوط ، مفید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرح میں نفع بخش بن گئی ہے۔اور معلومات آفریں ،تحقیقات نادر، مباحث نفیس ،فوائد اور لطیف نکات پر مشتمل ہے" ۔

پاک و ہند میں "مشکوٰۃ المصابیح ، جامع ترمذی ، اور بخاری شریف "پر جو حاشیۃ متداول ہے مدارس میں زیرِ درس ہے۔ اس کے محشی احمد علی سہارنپوری (ت1293ھ) ہیں۔ آپ احادیث کی مذکورہ کتابوں میں جابجا "لمعات" سے پور ا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اسی طرح شیخ خلیل احمد سہارنپوری ( ت1342ھ) نے "بذل المجحود" میں ،صاحب عون المعبوداور صاحب تحفۃ الاحوذی نے اپنی کتب شروحات میں لمعات سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ذیل میں مشاہیر علماء اور ارباب نظر محدثین کے "لمعات "کی بابت تبصرے حاضر خدمت ہیں اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔شیخ عبد الحلیم چشتی لکھتے ہیں:

"یہ شرح موصوف کی علوم میں جامیعت ، اتقان ، اصابت فکر ، دقت نظر ،اور فن حدیث میں مہارت کی بین دلیل ہے ۔یہ شرح حجم میں ملا علی قاری کی "مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح "سے کم سہی لیکن افادیت اور حسن انتخاب میں ملاعلی قاری کی شرح مذکور سے زیادہ بہتر ہے۔ بلا شبہ ملا علی قاری کے پاس کتابوں کا ذخیرہ زیادہ ہے لیکن ان کا انتخاب اچھا نہیں ہوتا۔ شیخ موصوٖف کے پاس کتابوں کا ذخیرہ گو زیادہ نہیں لیکن جن کتابوں سے جو بات نقل کی ہے وہ ان کے سلیقہ انتخاب اور حسن انتخاب کی بہترین مثال ہے۔ کہنے کو یہ مشکوۃ کی شرح ہے لیکن اس شرح نے صحاح ستہ کی شروح سے فی الجملہ مستغنی کردیا ہے ۔ شیخ ؒ نے اگر کوئی اور کتاب نہ لکھی ہوتی تو یہی کتاب ان کی شہرت اور قبولیت کےلئے کافی تھی۔ موصوف کا یہ عظیم الشان کارنامہ اس قابل ہے کہ ہندوستان اس پر جتنا بھی فخر کرے بجا ہے"۔35

شیخ موفق بن عبد اللہ بن عبد القادر لکھتے ہیں:

"وکتابہ (لمعات التنقیح فی شرح المشکوۃ المصابیح )،ھو واحد من الشروح التی اثنی علیھا عدد من اھل العلم۔۔۔ ،شرح عذب لباغی الحدیث وطالب السنۃ تشرق منہ الفوائد وتغیب فیہ الغوامض وترتشف من ثنایا ہ الدرر فیکرع طلاب العلم من زلالۃ العذب فتخصب العقول۔۔۔ان ھٰذ الشرح کنز من کنوز الدھر ثقیلۃ مؤنتہ خفیفۃ حمولتہ، وسط بین الشروح ،و"البرکۃ تنزل وسط الطعام فکلوا من حافتیہ "36

شیخ محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ میں مشکوٰۃ المصابیح کی تدریس کے دوران لمعات سے نفع اٹھاتا ہوں37۔شیخ موصوف خود لکھتے ہیں کہ :

"شر ح میں میرا اردہ اختصار اور اقتصار کا تھا کہ صرف وہی لکھوں کہ جسکی مطالعہ حدیث میں بہت زیادہ ضروری اور مجبوری ہو۔لیکن جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فضل و احسان کےغنائم کے ساتھ احسان فرمایا اور اپنے جود وامتنان کے خزانوں کو میرے لئیےکھول دیا تو پھر ان خزانوں کو طالبین پر خرچ کرنے میں روک نہ سکا" 38۔

یہی وجہ ہے کہ کتاب کے بعض مقامات پر اطناب و تفصیل و تطویل ہے جو قاری کےلئے باعث غفلت ہو سکتی ہے۔ اور دشواری کا سبب بن سکتی ہے مگر طالب حدیث ذکر کردہ فوائد سے حظ لئے بغیر رہ نہ سکے گا ۔آپ نے ہر حدیث کی شرح فرمائی اور اس کے متعلق کلام کیا ہے۔ تراجم ابواب کی شرح میں معانی اور احکام کا التزام کیا ہے ۔ لمعات کے مندرجہ ذیل مصادر و مراجع سامنے آتے ہیں :

(1) شرح حسین بن عبد اللہ بن محمد طیبی (ت 743ھ)

(2) فتح الباری شیخ ابن حجر کبیر (ت852ھ)

(3) منھاج المشکوٰۃ ،ابھری (ت928ھ)

(4) شروح احمد بن حجر ھیتمی مکی ،(ت975ھ)

(5) مجمع البحار، محمد ابن طاھر پٹنی (ت986ھ) (6)میرک شاہ بن سید جمال الدین ،

"ولقد ذکرت فوائد شریفۃ فوائد نفیسۃ ھی کالقلادۃ فی نحر البیان وکالجواھر فی قلائد التبیان"۔39

"فوائد شریفہ اور فوائد نفیسہ جو بیان گلو میں باروں کی طرح ہیں تبیان قلائد میں موتیوں کی طرح ہیں "۔

ان فوائد کو مندرجہ ذیل کتب سے ذکر کیا ہے:

(7) مشارق الانوار ، قاضی عیاض مالکی یحصبی ۔

(8) شرح کتاب الخرقی ،مختصر الخرقی فی فروع الحنبلیۃ ،عمر بن حسین (ت334ھ)

(9) الحاوی،الحاوی الصغیر فی الفروع،عبد الغفار بن عبد الکریم (ت665ھ)

(01) رسالہ ابن ابی زید، عبد اللہ بن ابی زید (ت389ھ)

(11) فتح القدیر فی شرح الھدایۃ ،کمال الدین محمد بن عبد الواحد معروف ابن ھمام(ت861ھ)

مذکورہ مصادر و مراجع کے علاوہ کتاب کے مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ موصوف ہر فن کی تقریبا ہر کتاب پر نظر رکھتے ہیں ،جو ان کے وسعت مطالعہ کی دلیل ہے۔مذکورہ مصادر و مراجع تو وہ اہم کتب ہیں جن کا ذکر شیخ علیہ الرحمۃ نے بنفسِ نفیس کردیا ہے ۔اگرپوری کتاب سے مصادر ومراجع کو تلاش کیا جائے تو ایک طویل فہرست بن جائے گی ۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے شیخ موصوف کی ذات اور آپکے علوم سے خلق خداکو بہت زیادہ نفع پہنچایا ہے40۔ آپکی یہ کتاب جس روش اور انداز میں تالیف ہوئی ہے، اس سے شیخ موصوف کی علوم الحدیث اور فقہ الحدیث میں محققانہ شان کاا ندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے ۔

2۔اشعۃ اللمعات فی شرح المشکوٰۃ

شیخ عبد الحق علیہ ا لرحمۃ کی من جملہ تصانیف وتالیف علماء میں مقبول ہیں اور وہ آپ کی کتابوں کے ایسے دلدادہ ہیں کہ ان کتب کی تحصیل میں جذبہءِ مسابقت رکھتے ہیں، یہ کتب بھی ایسی ہی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ عبارت میں زور ہے فصاحت اور سلاست ایسی ہے کہ کانوں کو عشق ہوجاتا ہے اور دل و دماغ حظ اٹھاتے ہیں41۔ اہل زمانہ آپکی کتابوں کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے دستور العمل بنالیتے ہیں۔42 شیخ موصوف کی شہرت اور قبولیت تامہ رکھنے والی کتابوں میں سے سب سے زیادہ مشہور ومقبول مشکوۃ المصابیح کی یہ شرح فارسی ہے ۔ ہندوستان میں فارسی زبان ایک مدت تک مادری زبان رہ چکی ہے۔ اس لیے اس فارسی شرح کو زیادہ قبولیت اور شہرت ہوئی۔

نواب صدیق حسن خان قنوجی رقمطراز ہیں:

"حق این است کہ شیخ عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ در ترجمہ عربی بفارسی یکے از افراد این امت ست مثل او دراین کاروبار خصوصا درین روزگار احدے معلوم نیست "واللہ یختص برحمتہ من یشاء"43۔

شیخ موصوف نے اپنے زمانے کی عوامی زبان فارسی میں "مشکوٰۃ المصابیح "کی شرح کی۔ جس کا مقصدعوام کو حدیث رسول ﷺ کا نفع پہنچانا ہے ۔شیخ موصوف کی اس شرح میں مندرجہ ذیل امور کا اہتمام ہے:

1۔ ترتیب و تہذیب میں فائق ہے ۔

2۔اختصار و جامعیت اور افادیت میں بے نظیر ہے ۔

3۔ متن حدیث کی شرح بہت عام و فہم ہے ۔

4۔آپ کا اسلوب نگارش بہت دلنشین ہے ۔

5۔عام فہم اور عام استفادہ میں مفید ہے ۔

6۔اس کتاب کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ کتاب اساتذہ و طلبہ اور عوام و خواص سب کے لئے یکساں مفید ہے ۔

7۔شیخ موصوف "فقیر می گوید "یا " کاتب حروف می گوید "سے احادیث نبویہ ﷺ کی جو توجیہات پیش فرماتے ہیں وہ پر کیف ہیں ۔

8۔ حاصل و اخذ کی سہولت ، حدیث کے غریب الفاظ کی شرح اور مشکل مقامات کے ضبط میں یہ کتاب بے نظیر ہے ۔

9۔ یہ کتاب شیخ موصوف کے اشعار سے بھی مزین ہے۔ جس سے آپ کے ذوق سلیم کا پتا چلتا ہے ۔

مذکورہ خصوصیات اور التزامات کی وجہ سے یہ کتاب شروع ہی سے اہل علم میں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہی ہے ۔شیخ ؒ کو بھی یہ کتاب بہت پسند تھی۔ شیخ موصوف لکھتے :

" اشعۃ اللمعات تنقیح و ترتیب اور ضبط و ربط میں فائق اور قابل ترجیح ہے حجم و ضخامت میں بھی زیادہ ہے تائید الٰہی اور نصرت باری تعالیٰ سے نفیس ،عمدہ مرتب ،پسندیدہ اور مقبول کتاب ہے" ۔44

مفتی غلام سرور لاہوری کے نزدیک یہ کتاب مقبول و مشہور ہے ۔ اکثر وبیشتر مشکل اور دشوار مقامات پر آپ نے حدیث کا جو ترجمہ فرمایا ہے وہ آسان اور زیادہ سہل ہے ۔45

نواب صد یق حسن خان قنوجی یوں خراج تحسین عقیدت پیش کرتے ہیں نظر آتے ہیں:

"اشعۃ اللمعات شرح فارسی مشکوۃ ۔در سہولت تناول و شرح غریب و ضبط مشکل و ذکر مسائل فقہ حنفی بے نظیر است و مزید شہرت و قبول وےمستغنی از بیان ست "46

" اشعۃ اللمعات شرح فارسی مشکوٰۃ سہولت اخذ ، شرح غریب ، ضبط مشکل ، اور مسائل فقہ حنفی کے بیان میں بے نظیر کتاب ہے ۔اس کی مزید شہرت و قبولیت بیان سے مستغنی ہے" ۔

عبد الحیی لکھنوی لکھتے ہیں :

"وھو سھل التناول فی ضبط الغریب وضبط المشکلات مقبول متداول "47

"حقیقت یہ ہے کہ شیخ عبد الحق نے "مشکوٰۃ المصابیح "کی شرح فارسی میں لکھ کر فہم حدیث کا ڈھنگ سکھایا اور حدیث کا ذوق پیدا کیا۔ بلاشبہ ہندوستان میں شیخ موصوف سے پہلے بھی بعض علماء نے مشکوٰۃ کی فارسی میں شرحیں لکھیں ہیں لیکن اشعۃ اللمعات کو جو قبول عام حاصل ہوا وہ کسی اور شرح کو کبھی حاصل نہیں ہوا "۔48

شیخ محمد رابع حسنی ندوی رئیس ندوۃ العلماء کے نزدیک یہ کتاب مدرسین اور محققین کیلئے مرجع وماویٰ کی حیثیت رکھتی ہے ۔"وصار مرجعا للمدرسین والباحثین فی شبہ القارۃ الھندیۃ "۔49

اللہ جل جلالہ نے اس کتاب کو شہرت دوام بخشی ہے اور علم حدیث نبوی ﷺ سے وارفتہ عشق ومحبت رکھنے والوں نے اس کتاب کو اپنے سروں کا تاج بنایا اور اپنی آنکھوں کو اس سے ٹھنڈک بخشی ۔شیخ محمد قلی دھلوی (ت 1073ھ) نے اس کتاب کے فوائد اور نوادرات کے لب لباب کو اپنی کتاب "سراج المشکاۃ " میں بطور امانت رکھ چھوڑا ۔شیخ امین الدین بن غیاث الدین محمود عمری حنفی جونپوری نے اپنی کتاب ،"المقتنیات "میں اس کا خلاصہ پیش کیا۔50

اس طرح یہ کتاب اپنے مابعد آنے والے شارحین اور محققین کےلئے ماخذو مرجع کی حیٰثیت اختیار کرگئی ۔ طالب حدیث اور محقق اس کتاب کے مطالعے سے اپنے آپ کو مستغنی نہیں کرسکتا ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جس کی تکمیل میں حضرت شاہ ابو المعالی کی دعااور مشوروں کا بھی بہت عمل دخل ہے آپ نے پیش گوئی فرمائی تھی :

"شرح مشکوٰۃ را تمام کنید ان شاء اللہ کتابے شود کہ اھل عالم ہمہ ازاں مستفید شوند ۔"

مشکوٰۃ شریف کی شرح کو پایہ تکمیل تک پہنچائیے ان شاء اللہ یہ ایسی عظیم الشان کتاب ثابت ہوگی کہ تمام جہاں والے اس سے فائدہ اٹھائیں گے ۔آپ نے شیخ محدث کو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ اپنی کتاب کو موقع اور محل کی مناسبت سے اشعار سے بھی مزین کریں جیساکہ ملا حسین نے اپنی تفسیر میں اہتمام کیا ہے۔ تو شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے عرض کیا مجھے دوسروں کے اشعار یاد نہیں ہیں ،تو آپ نے فرمایا کہ دوسرے لوگوں کے اشعار کی آپ کو ضرورت نہیں ہے ،جو کچھ تم کو ضرورت ہوگی تم ہی سے پیدا ہو جائے گی ۔"آنچہ شمارا باید از شمارا زاید"۔اور پُر یقین تسلی دیتے ہوئےفرمایا۔ "در ہیچ چیزبہ ہیچ کس احتیاج نخواہد ہمہ چیز حاصل است "۔51ان شاء اللہ تعالیٰ کسی معاملہ میں آ پ کو کسی کی ضرورت محسوس نہ ہو گی تمام چیزوں کا حصول ہوچکا ہے ۔

مشکوٰۃ المصابیح کے شارح یعنی" لمعات "اور "اشعۃ "کے مصنف اپنی دونوں کتابوں میں ایک محقق کی حیثیت سے جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اصولی اور فروعی اختلافات میں آپ کی محققانہ شان آپ کی بالغ نظری اور محاکمانہ حیثیت کو دوچند کردیتی ہے۔ اندرین حالات آپ آپ کسی خوش عقیدہ تنگ نظر اور متعصب کے تابع اور مقلد نظر نہیں آتے ہیں ۔بلکہ آپ داد تحقیق دیتے ہوئے تحقیق اور تفتیش کا حق ادا کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے روایت اور درایت کے اصولوں کو مطمع نظر بناتے ہوئے مدار حجیت حدیث کی کتابوں کو قرار نہیں دیا بلکہ آپ نے مسلمہ اصول و ضوابط کی روشنی میں آپ نے صحت حدیث کو رجال سند اور اصول نقد کی کسوٹی پر پرکھا ہے ۔صحت حدیث کا مدار کتابوں کو بنانا ایک مقلدانہ روش ہے۔ آپ کی شروحات اس باب میں شاہد عادل ہیں کہ آپ محققانہ روش پر گامزن ہیں۔شیخ موصوف کے نزدیک صحت احادیث کےلئے بخاری و مسلم کی تقدیم میں جو ترتیب ملحوظ رکھی جاتی ہے تو یہ ایک تحکم ہے اور زبر دستی ایک بات کو منوانا ہے اور لائق اتباع نہیں ہے۔صحیح اور صحیح تر کیلئے تو ان شروط کا وجود ہے، جن پر رواۃ حدیث پورا اترتے ہیں ،جن کا شیخین نے بھی اعتبار کیا ہے ۔جب وہ شروط بخاری ومسلم کی کتابوں کے علاوہ دوسری حدیث کی کتابوں کے رواۃ میں پائی جاتی ہیں تو وہ احادیث بھی صحیح ہونے کا حق رکھتی ہیں ،صرٖف انہیں دو کتابوں کو صحیح تر کہنا نا قابل قبول بات کو منوانے کے مترادف نہیں تو اور کیا ھے ؟ علاوہ ازیں صحیح احادیث بخاری اور مسلم میں منحصر نہیں ہیں52 ۔

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ موصوف علیہ الرحمۃ نقد حدیث ، علل حدیث ، شروط حدیث ،اور رواۃ حدیث پر گہری نظر کے مالک ہیں ۔حدیث کے بارے میں محققانہ شان سے ہشت پہلو نظر رکھتے ہیں اور صالح شرائط کے حاملین رواۃ کی احادیث پر آپ کی دور رس نظر تمام احادیث کے احاطہ پر آپ کی وسعت نظری کا ثبوت پہنچاتی ہے ۔

شارح "لمعات "و "اشعۃ "بالغ نظر محقق ہونے کے باوصف جمہور امت علماء کے مسلک سے بال برابر بھی انحراف روا نہیں رکھتے ہیں۔ اس بات سے یہ گمان نہ پالا جائے کہ آپ شاید جمہور امت کے مسلک کے بارے میں عصبیت یا بے جا طرفداری کا شکار ہو گئے ہیں ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم کو دائرہ اعتباریت میں رکھ کر آپکی تحقیق کو ان کے موافق اور مطابق بنا دیا ہے۔شیخ موصوف کو یہ بھی امتیاز اور فضل و کمال حاصل ہے کہ آپکی تصنیفی و تالیفی خدمات خداوندگان نقد و جرح کے برق بار قلم سے تقریبا محفوظ و مامون ہیں۔ ایک مقام پر آپ نے داڑھی کے قبضۃ کو بغیر دلیل کے واجب قرار دیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کے تفردات کا حوالہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں :

"ایک متاخر عالم شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے محض اپنی رائے سے یہ لکھا کہ قبضہ واجب ہے۔ شیخ ؒ اپنی تمام تر علمی خدمات اوعظمتوں کے بادجود بشر اور انسان تھے ، نبی اور رسول نہ تھے ، ان کی رائے میں خطا ہو سکتی ہے ، نیز انکو ایک محدث کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے ،ان کو فقیہہ نہیں مانا گیا "۔53

شیخ موصوف اپنی شروحات میں دائرۃ اعتدال اور سلامتی والی روش سے قدم باہر نہیں رکھتے ہیں ۔افراط و تفریط سے کوسوں دور رہتے ہیں ۔ ابہام اور شک میں ڈالنے والے کلام سے پرہیز کرتے ہیں معارض اور متعارض امور میں حتی الامکان کوشش کرکے توافق اور تطابق کی راہ کو ہی اپنا لیتے ہیں ۔تطبیق و تاویل نہ ہو سکنے کی صورت میں آپ سکوت کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔

شیخ موصوف اپنی شروحات میں نہ لسان تصوف میں بات کی ہے اور نہ ہی اصطلاحات تصوف سے اپنی کتابوں کو وقیع اور بارعب بنانے کی کوشش کی ہے۔ شیخ نےسادہ انداز میں راہ شریعت پر چلتے ہوئے حدیث کے مفاہیم اور مطالب کو عام قاری تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ زبان تصوف عام اور سطحی ذہنیت رکھنے والوں لوگوں کیلئے نقصان کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ صاحبِ کمال ہونے کے باوجود آپ نے زبانِ تصوف اور اصطلاحاتِ تصوف کو جگہ نہیں دی اس لئے کہ صاحب کمال کو صاحب کمال نے تصوف کی زبان میں بات کرنے سے منع کردیا تھا ۔تاہم قلبی واردات اور ایرادات کی چاشنی بسا مقامات پر ذوقِ دہن کا سامان میسر کرتی نظر آتی ہے۔ اور اس کلام کو اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے جو شریعت اور طریقت کا جامع ہے اور جس پر ارباب شریعت و طریقت کا اتفاق اور آداب شریعت کا لحاظ ہوتا ہے ۔

شیخ موصوف اصولی اور فروعی مسائل میں تعصب کا شکار نہیں ہوتے ہیں ۔فروعی مسائل میں بڑے ادب و احترام کے ساتھ اور دوسروں پر طعن و تشنیع کئیے بغیر اختلاف کے جب در پے ہوتے ہیں، تو زیر بحث مسئلہ میں ہر پہلو سے تحقیق کے بعد حنفی مذہب کے پیروکار ہونے کی وجہ سے حنفی مذہب کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کی یہ ترجیح تحکم اور مکابرہ کی صورت میں سامنے نہیں آتی ہے ،بلکہ عقلی اور نقلی دلائل کا باہم مقابلہ اور موازنہ کرنے کے بعد ہی کوئی نتیجہ تعصب کی آمیزش کے بغیر سامنے آتا ہے۔ تعمق و تدبر کرنے کے بعد زیر بحث مسئلہ آپکی بحث طرفین کو ہی حق قرار دے دےدیتی ہے ۔مسئلہ رفع و عدم رفع میں آپ رفع و عدم رفع کو سنت قرار دیتے ہیں ہوئے نظر آتے ہیں ۔

سید محمد نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں :

" شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ در شرح سفر السعادت بعد بیان دلائل طرفین نوشتہ اند کہ "چارہ نیست از قول بہ سنیت ہر دو فعل "۔54

یہی بات غالباًشیخ کےزیر اثرصدیق بن حسن قنوجی لکھتے ہیں :

"ولکل واحد اصل اصیل والحق عندی فی مثل ذالک ان الکل سنۃ "۔55

فروعی مسائل میں شیخ موصوف دلائل کی روشنی میں تحمل ، رواداری ،عدم شدت ،اور مسلمانوں کے آپس میں اتحاد واتفاق کے داعی اور مبلغ نظر آتے ہیں ،تاکہ مسلمانوں میں فروعی اختلافات کی وجہ سے فتنہ وفساد کی کوئی سبیل نہ رہے اور اور ملت امن و آشتی کا ایک شجر سایہ دار ثابت ہو ۔تحقیقی روش پر آپ حنفی مذہب کے مئوید ہیں اس لئے آپ حنفی مذہب کو عقلی اور نقلی دلائل سے خوب روشن کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ حنفی مذہب کا عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ نقلی دلائل کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور ان کی عقل و نقل چولی دامن کا ساتھ رکھتی ہے۔ وہم کا ازالہ کرتے ہوئے کہ امام شافعی علیہ الرحمۃ کا مذہب حدیث کے مطابق ہے اور ان کے مذہب میں سنت کی اقتداء و اتباع بہت زیادہ ہے اور امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کا مذہب عقل و قیاس اور رائے واجتہاد پر مبنی ہے اور خلاف حدیث ہے، تو آپ دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور واضح جہالت ہے ۔"ایں سخن غلط محض و جہل صریح است "۔56تحقیق کے بعد تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ امام شافعی علیہ الرحمۃ اصحاب رائے میں ہیں اور امام ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ اصحاب ظواہر میں سے ہیں ۔"ان الشافعی من اصحاب الرای وابا حنیفۃ من اصحاب الظواھر" ۔ شیخ موصوف کے نزدیک اجمالی دلیل یہ بھی ہے کہ امام احمد بن حنبل کے مذہب کی اساس احادیث صحیحہ اور آثار صریحہ ہیں ،جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہرگزنہ ہے۔ امام ابو حنیفہ کا مذہب امام احمد بن حنبل کے مذہب کے تقریبا موافق تو یہ بات بھی دلیل ہوتی ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مذہب حدیث اور اثر کے عین مطابق اور موافق ہے ۔ مذہب امام ابوحنیفہ کو آپ اختلافی مقامات پر ترجیح دیتے ہیں مگر آپ کی یہ ترجیح تعصب اور اعتساف کی کھائی میں جانے سے بہت دور رہتی ہے ۔57

شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کا" مشکوٰۃ المصابیح "پر "لمعات" اور" اشعۃ " کی صورت میں تحقیقی نوعیت کا ایک اہم اور متنوع کارنامہ ہے ،جو محققین کیلئے تحقیق کے نئے خطوط متعین کرنے میں بہت ہی معاون ہے۔ عشاقِ حدیث اور طلابِ حدیث کے لئے فہم حدیث کی دشوار گزار راہوں کو آسان کرتے ہوئے مراد اور منشاء کی منزل کا پتہ دینے کا گرانقدر خزانہ رکھتا ہے۔ عوام آداب شریعت سے آگاہ ہوکر اور عمل پیرا ہوکر سعادت ابدی سے حظ وافر پا سکتے ہیں، جبکہ خواص شریعت کے سر بستہ رازوں سے واقف اسرار ہوکر معرفت کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ درس و تدریس ، تصنیف و تالیف اور وعظ و ارشاد کی صورت میں آپ علیہ الرحمۃ کی حدیثی خدمات نے فہم حدیث کا ایک روح پرور انداز اور سلیقہ سکھایا ،اور ساتھ ہی ذوق حدیث کا وہ ولولہ پیدا کیا جسکی تمازت رہتی دنیا تک محسوس کی جاتی رہےگی۔بر صغیر پاک و ہند پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر سجدہ شکر میں اپنی جبین نیاز کو سر بسجود کردے ۔


Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.

 Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.

1 ‘Umar Raḍā Kaḥāla, M‘ujam al-M’wlifĪn Tarājim MuṣanifĪ al-Kutab al-‘Arabiyah (Beirūt: Dār Iḥyā al-Turath al-‘Arabiyah, S.n), 4;61.

2 Abu Naṣr ‘Abdul Wahāb Tāj al-DĪn SubkĪ, Ṭabqāt al-Shaf‘Īyah al-Kubrā ((Beirūt: Dār Iḥyā al-Kutub al-‘Arabiyah, S.n), 7:76.

3 Muḥammad ḤanĪf GangohĪ, Ẓafar al-MuḥaṣilĪm Ba-Iḥwāl al-MuṣanifĪn (KarāchĪ: Dār al-Ishā’t, 2000AD),138.

4 Shāh ‘Abdul‘AzĪz Dehlvi, Bustān al-MuḥadithĪn, Mutrajim; ‘Abdul SamĪ’ DeobandĪ (Lahore: Maktabah Raḥmāniyah, S.n), 149-50.

5 Abu ‘Abdullah Shams al-DĪn Muḥammad bin Aḥmad DhahbĪ, Siyyar I ‘lām al-Nubalā (Beirūt: Maktabah tul Risāla, 2004), 1:1514.

6 Ismā‘Īl Bin ‘Umar Bin KathĪr, Ṭabqāt al-Shaf‘Īyah, Researcher: ‘Abdul ḤafĪẓ Manṣūr (Beirūt: Dār Iḥyā al-Kutub al-‘Arabiyah, 2004), 522.

7 Al-SubkĪ, Ṭabqāt al-Shaf‘Īyah al-Kubrā, 7:75.

8 Abu Muḥammad ‘Abdullah Bin As‘ad Bin ‘AlĪ Bin Sulaymān Yāf‘Ī, Mirāt al-Jinān (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah,1997AD), 3:162.

9 ‘Ali Bin Sultān Muḥammad Al-M‘arūf Mulla ‘Ali QārĪ, Mirqāt al-MafātĪḥ (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 2001 AD), 1:6.

10 Ḥājī Khalīfah Muṣtafā bin Abdullah Chalbī, Kashaf Al-Zunūn ‘An Asāmī Al-Kutub Wa Al-fanūn(Beirūt: Dār aḥyā Al-Turāth Al-‘Arabī, S.N), 2:1698.

11 ‘Abdul‘AzĪz, Bustān al-MuḥadithĪn, 348.

12 Ḥājī Khalīfah, Kashaf Al-Zunūn, 2:1698.

13 Muḥammad Ḥusayn Bin Mas’ūd Farā BghwĪ, MaṣābĪḥ al-Sunnah (Beirūt: Dār al- M‘arifah, 1987 AD), 1:61.

14 Ḥājī Khalīfah, Kashaf Al-Zunūn, 2:1698

15 ‘Mulla ‘Ali QārĪ, Mirqāt al-MafātĪḥ, 1:7.

16 Kaḥāla, M‘ujam al-M’wlifĪn, 10;211.

17 GangohĪ, Ẓafar al-MuḥaṣilĪm Ba-Iḥwāl al-MuṣanifĪn, 139-40.

18 Muḥammad ‘Abdullah KhaṭĪb TabreizĪ, Mishkāt al-MaṣābĪḥ, Muḥaqiq: Muḥammad Nāṣir al-DĪn AlbānĪ (Beirūt: Al-Maktab al-IslāmĪ, 1985AD), 3:1771.

19 Sheikh ;Abdul Ḥaq DeḥlvĪ, Akhbār al-Akhyār M’a Maktūbāt (Sakhar: Maktaba Nūriya Razawiyah, S.n), 310.

20 ḤasnĪ, Al-I’lām biman FĪ TārĪkh al-Hind Minal I’lam,5:554.

21 DeḥlvĪ, Akhbār al-Akhyār M’a Maktūbāt, 271.

22 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 14.

23 Muhammad Murtẓā al-Zubaidī, Tāj Al-‘Urūs Min Jawāhir al-Qāmūs (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1438 AH),28: 514.

24 Sheikh ;Abdul Ḥaq DeḥlvĪ, Fatḥ ur Reḥmān FĪ Ithbāt Madhhab un Nu’mān(Multān: ‘AtĪq Academy, Beirūn Bohaṛ Gate, S.n),1:26-27

25 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 14.

26 khalĪq Aḥmed NiẓāmĪ, Ḥayāt, Sheikh ‘Abdul Ḥaq Muḥadith Dehlvī (Lāhore: Maḳtabah ReḥmānĪyah, Urdu Bāzār, Ist Editin, S.n), 43.

27 DeḥlvĪ, Fatḥ ur Reḥmān, 1:27.

28 باباداؤد(ت1097ھ)آپ کومشکوتی کہاجاتاتھا۔

MolvĪ Reḥmān ‘AlĪ,Tadhḳirah ‘Ulmā Hind (Laḳhnau: Maṭba’ NāmĪ MunshĪ Nōl Ḳishōr, 2nd Edition, 1914 A.D),60

29 DeḥlvĪ, Ṭalab ul Ghaur FĪ Qiṣah Lāhōre Bar Akhbār al-Akhyār M’a Maktūbāt, 384.

30 Sheikh ‘Abdul Ḥaq Muḥadith DehlvĪ, Ash’atul Lam’āt (MumbaĪ: MuḥammadĪ Ḳārkhānah, 1277 A.D),1:1.

31 DehlvĪ, Ash’atul Lam’āt, 1:1.

32 DehlvĪ, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 43.

33 DehlvĪ, Ash’atul Lam’āt 4:757.

34 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 50.

35 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 42.

36 Sheikh ‘Abdul Ḥaq Muḥadith DehlvĪ, Lam’āt al-TanqĪḥ FĪ Sharḥ Mishḳātul MaṣābĪḥ, Researcher: Dr. TaqĪ al-DĪn NadvĪ (Beirūt: Dār al-Nawādir, 1st Edition: 2014 A.D 1435: A.H), 17-18.

37 DehlvĪ, Lam’āt al-TanqĪḥ, 1:21.

38 DehlvĪ, Lam’āt al-TanqĪḥ, 1:94.

39 DehlvĪ, Lam’āt al-TanqĪḥ, 1:91.

40 Syed ‘Abdul Ḥaiyy Bin Fakhar al-DĪn ḤasnĪ, Athaqāfa til IslāmĪyah FĪl Hind, Ma’ārif al-‘Awārif FĪl Anwā’ al-‘Ulōm wa al-Ma’ārif (Damishq: 1993 A.D), 137.

/ṢiddĪq Ḥassan QnōjĪ, Al-Ḥiṭah FĪ Dhiḳr al-Ṣiḥaḥ Sittah (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1985 A.H), 146.

41 ḤasnĪ, Al-I’lām, 5:557.

42 Ghulām ‘AlĪ Āzād ḤusaynĪ, Sabḥatil Marjān FĪ Āthār Hindustān, Resercher: Muḥammad Sa’id ṬarḥĪ (Beirūt:Dār al-RāfdĪn, 1st Edition: 2015 A.D)116.

43 Nawāb Siddīq Ḥassan Qanūjī, Taqsār Juyūd al-aḥrār min Tazkār Junūd al-abrār, (Bhupāl: 1298 A.H, 112.

44 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 34.

45 Ghulām Sarwar LāhōrĪ, KhazĪnatul Aṣfiyah, Translator: Iqbāl Aḥmad QādrĪ, Meḥmōd A’alam HashmĪ (Lāhōre: Maḳtabah Nabawiyah, Ganj Bakhsh Road, 1410 A.D), 1:247.

46 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 44.

47 ḤasnĪ, Al-Thaqāfa til IslāmĪyah FĪl Hind155.

48 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 45.

49 DehlvĪ, Lam’āt al-TanqĪḥ, 1:13.

50 DehlvĪ, Lam’āt al-TanqĪḥ, 1:10.

51 DehlvĪ, Ṭalab ul Ghaur FĪ Qiṣah Lāhōre Bar Akhbār al-Akhyār M’a Maktūbāt, 384.

52 DehlvĪ, Sharḥa Safar al-Sa‘ādat, 15.

53 Ghulām Rasūl Sa‘īdī, Sharaḥ Saḥīḥ Muslim (Lahore: Farīd book Satāl, Edition 19th 1434 A.H), 6:446.

54 DehlvĪ, Sharḥa Safar al-Sa‘ādat, 67.

55Nawāb Siddīq Ḥassan Qanūjī, Al-RauÃat al-nadiyyah Sharaḥ Al-durar al-Bahiyyah (Karachi: Qadīmī Kutub Khanah S.N),1:94.

56 DehlvĪ, Sharḥa Safar al-Sa‘ādat, 23

57 DehlvĪ, Lam’āt al-TanqĪḥ, 1:92-93.

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index