2
2
2021
1682060063651_3201
16-29
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/25/30
آ یت کریمہيَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا سےحجیت سدالذرائع پر ابن حزم کے معارضہ کا تجزیاتی مطالعہ )22(
آیتِ کریمہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا سےحجیتِ سدُالذرائع پر ابنِ حزم کےمعارضہ کا تجزیاتی مطالعہ
An Analytical Study of the Ibn-e-Hazam’s Objections to Authenticity of the Sadd-o-Zaree'ah
Hafiz Muhammad Fakhru Din
As well as per Shariah, it is admissible and some of the time even mandatory to save the devotees from the activities that might lead them towards the prohibited exercises. Consequently, the decision of denial from these kinds of exercises is called Sadd-e-Zaree'a. This is the guideline derived from the Quran and Sunnah. As Almighty Allah prohibited the devotees to say 'Raina' because this word was utilized by Jews purposely in an off-base way with underhanded aims, while, Muslims introduced their solicitations by this equivalent word in the most elevated court of The Holy Prophet (harmony and gifts arrive) for looking for effortlessness and unwinding in their concerned issues. As in Quran: O People who Believe, don't tell (the Prophet Mohammed-harmony and gifts arrive), "Raina (Be accommodating towards us)" however say, "Unzurna (Look leniently upon us)", and listen mindfully in any case. [Baqarah 2:104]. (To disregard the Holy Prophet - harmony and endowments arrive - is impiety.) Ibn Hazm in his famous book Al-Aḥkām Fī ūṣūl Al-Aḥkām has objected to the mentioned verse from which jurists have taken the argument of Sadd-e-Zaree'a. Because the Zahiri school of thought is based on the appearance of the text (Quran o Hadees). This is why Ibn Hazm Zahiri denies it (the source of Shariah), and proves that accepting the source of Shariah is an increase in religion which is in itself illegitimate as well as the opposition of the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him). There is also the addition of items by their thoughts in Shariah. In the above article, an analytical study of the objections of Allama Ibn Hazm will be presented, explaining the sources and the arguments as to whether or not their source is Shariah.
Keywords: Source of Shariah, Sadd-o-Zaree'ah, Al-Ahkam Fi Usul Al-Ahkam, Ibn Ḥazm Zahiri, Zahiri School of thought.
تعارف:
علمائے اسلام کے نزدیک اصول دین یا مصادرشریعت دو ہیں یعنی قرآن اور حدیث، اور حدیث بھی اس حیثیت سے مستقل مصدر شریعت ہےکہ بدوں اس کےفہم قرآن ناصرف مشکل بلکہ ناممکن ہے جبکہ جمہور فقہائے اسلام کے نزدیک مصادر شریعت چارہیں کتاب اللہ، سنت رسول ،اجماع اور اصول قیاس ۔سدالذرائع ذیلی یا ثانوی ماخذِ شریعت تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس کے ذریعے فقہاء نے بے شمار مسائل کی جزئیات کو حل کیا ہے ۔ جس کے ماخذِ شریعت ہونے پر دلائلِ شریعہ بھی ترتیب دیے ہیں ۔اجتہاد بالذرائع میں سے سدالذرائع کے فقہی مصدر ہونےپر آیات قرآنیہ میں سے اکثر فقہاء اور اصولیوں نے آیت يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا1سےاستدلال کیاہے،اس استدلال میں ذکر کی جانے والی تفسیر پر ابن حزم نے اپنی مشہور تصنیف الاِحکام فی اصول الاَحکام میں" الاحتیاط وقطع الذرائع والمشتبہ "کےعنوان کے تحت معارضہ پیش کیا ہے اورسدالذرائع کےاصول شریعت ہونےکاانکارکیاہے،جس طرح کہ وہ باقی دلائلِ ظنیہ ازقسم قیاس،استحسان،مصالح مرسلہ وغیرہ کاانکارکرتےہیں اسی طرح سدالذرائع کےماخذشریعت ہونےکابھی انکارکرتےہیں۔
علامہ ابن حزم مذکورہ بالااصول کےثبوت کےدلائل میں سےبعض کواپنی تنقیدی نوک قلم پرلاتےہوئےمعارضہ بالقلب پیش کرتےہیں اورثابت کرتےہیں کہ برتسلیم سدالذرائع دین میں اضافہ وزیادتی ثابت ہوتی ہےجوکہ فی نفسہ منہی عنہ(لاتقولوا راعنا)ہونےکےساتھ ساتھ مخالفت رسولﷺ اورشریعت مطہرہ میں اپنی عقل سےبعض اشیاءکارب العالمین پراستدراک ہے۔2ان کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ کے زمانہ اقدس میں مدینہ طیبہ میں جو صحابہ حاضر تھے وہ اپنی اشیاء ضرورت خرید نے کے لیے بازار میں جاتے اور بغیر کسی حرج کے خرید کر لاتے،بغیر اس بات کی تفتیش کے کہ کونسا مال مشکوک ہے، کون سا بعینہ حرام ہے اور کس پر حرام کا غلبہ ہے،حالانکہ یہ بات بالبداہت معلوم ہے کہ بازار میں بعینہ حلال مال کے علاوہ مغصوب ،مسروق ،ناجائز طور پر لیا ہوا مال اور مشتبہ مال میں سے ہر قسم کا مال بھی موجود ہوتا ہے ،لیکن ہم اسکی طرف التفات ہی نہیں کرتے،ایسی صورت حال میں مشتری سے مال کے حصول کی تفصیل طلب کیے بغیر مبایعت کے صحیح ہونے پر اجماع بالکا فہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ بعض اعرابی ،حالت کفر میں ہمارے پاس اپنے ہاتھ کی مذبو حہ چیز لا تے ہیں ، ہمیں نہیں معلوم کہ انھوں نے اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے یا نہیں،اس صورت حال میں ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرما یا : سموا اللہ وکلوا ۔3یہ حکم اشکال کو اس باب میں رفع کرنے کے لیے کافی ہے ۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کی جس کسی کو اس کا مسلمان بھائی کوئی شے کھلائے پلائے تو وہ بغیر سوال جواب کیے کھا پی لے ۔
سد الذرائع کے ماخذ شریعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے جانبین کے دلائل کا آئندہ سطور میں تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے گا ۔قبل از تجزیہ سدالذرائع کا مختصر ساتعارف ضروری ہے تاکہ عام قاری کے لیے فہم تجزیہ میں ممدو معاون ہو ۔
سد الذرائع کالغوی مفہوم
سد الذرائع لفظ مرکب اضافی ہے ،کتب لغت کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ لغت کے لحاظ سےسد کے متعدد معانی ہیں۔ ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں " السد إغلاق الخلل " سد کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوسکتاہےجس میں ممانعت ورکاوٹ کا مفہوم پایا جاتا ہو۔ قرآن مجید میں سداورسدید کالفظ متعدد مقامات پر ذکر ہوا ،مثلا : حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ 4 میں پہاڑ کے لیے بولا گیا اور اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ سَدًّا5میں دیوار کے لیے بولاگیا ہے۔ سدید سیدھی اور درست چیز کو بھی کہتے ہیں ، جس طرح کہ فرمانِ باری تعالی ہےقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ۔6سچی بات کہو،اس میں بھی رکاوٹ کا مفہوم پایا جاتاہے کیونکہ یہ سچ بولنے والے کی آبرو ریزی کےسامنے رکاوٹ بن جاتاہے ۔
ذریعہ کالغوی مفہوم :
ذریعہ،فعیلۃ کے وزن پر مصدر ہےجسکی اصل ذَرَ عَ ہے،جو امتداد اور آگے کی طرف حرکت کرنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ ہروہ لفظ جواس اصل سے متفرع ہو اس میں امتداد اور حرکت الی الاَمام کا معنی پا یا جاتا ہے۔7لغت میں اس کا استعمال سبب،وسیلہ،شفیع ،ناقہ اور حلقہ وغیرہ کے معنی میں بھی ہوتاہے۔سبب لغت میں رسی،راستہ اورہر اس چیزکے لیےاستعمال ہو تاہےجس کے ذریعےکسی چیز تک پہنچا جا سکے۔
سد الذرائع کا اصطلاحی مفہوم:
جہاں تک سد الذرائع کی اصطلاحی تعریف کا تعلق ہے تو فقہاء کرام نے لفظ ذریعہ کے عام اور خاص معنی کے لحاظ سےاسکی تعریفات ذکر کی ہیں ۔ اکثر علماء اورمباحثین لفظ ذریعہ کے اطلاق کے وقت" مایتوسل بہ الی المحظور "مراد لیتے ہیں ،حالانکہ یہ قاعدۃ الذرائع کی ایک قسم ہے کیونکہ ذرائع میں سے ایک وہ ہے جو ممنوع کام تک پہنچانے والا ہو تا ہے اور ایک وہ ہے جو جائز اور مشروع کام کی طرف پہنچانے والا ہو تاہے ۔یہ وہ قسم ہے جسے بعض علماء جس طرح کہ امام قرافی وغیرہ نے فتح الذرائع سے تعبیر کیا ہے ،لہذا اس وقت ذرائع پر کبھی قاعدۃ سد الذرائع اور کبھی قاعدۃ فتح الذرائع کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔شیخ مصطفی زرقا نےسدالذرائع کی تعریف یوں کی ہے:
"سد الذرائع ھو منع الطرق التی تودی الی اھمال اوامرالشریعۃاو الاحتیال علیھا او تودی الی الوقوع فی محاذیر الشریعۃ ولوعن غیر قصد"۔8
"یعنی ان وسائل وذرائع کو منع کرنے کانام سدالذرائع ہے جوشرعی احکات کو نظر انداز کرنے ، ان کے خلاف حیلہ سازی کرنے یا پھران باتوں میں واقع ہونے تک پہنچائیں جو شریعت میں منع ہیں ، اگر چہ یہ پہنچنا غیر ارادی طور پر ہی کیوں نا ہو۔"
اس کی عام فہم مثال یہ ہے بچوں کو ایسی چھت پر جاکرکھیلنےنے سے منع کرنا جس کے کنارے کوئی رکاوٹ ،سپورٹ یا پردہ نہیں ،اب چھت پر جانا فی نفسہ منع یا برا نہیں، اسی طرح کھیلنا بھی فی نفسہ برا نہیں ۔ چونکہ بچوں کا ایسی چھت پر جانا یقیناَ خطرے سے خالی نہیں اسی لیے انہیں چھت پر جانے سے روکنا ضروری ہوگا ۔
سدالذرائع کی اقسام /صورتیں
بعض علماء نے سد الذرائع کی اقسام کو با التفصیل ذکر کیا ہے۔ انوار البروق فی انواع الفروق میں ان اقسام کو کافی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،محققین نے اس کی متعدد اقسام ذکر کی ہیں جن کا مختصر ذکر حسب ذیل ہے :
قسم اول:
سد الذرائع کی اس قسم میں وہ ذرائع شامل ہیں جن کا فساد تک پہنچانا قطعی ویقینی ہو اس قسم کو ابن قیم نے ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے :
لا یجوز الاتیان بفعل یکون وسیلۃ الی حرام وان کا ن جائزا۔9
”ایسا فعل جو حرام تک پہنچنے کا وسیلہ بنے اس کا کرنا جائز نہیں اگر چہ وہ فعل جائز ہی کیوں نا ہو “۔
اس قسم کا حکم یہ ہے کہ یہ باجماع امت ممنو ع ہے ۔مثلامشرکین کے معبودان باطلہ کو سب وشتم کرنے سے ممانعت ،یہ فعل اگرچہ اللہ تعالی کی حمیت اور ان کے معبودان باطلہ کی توہین کی وجہ سے فی نفسہ جائز ہے لیکن چونکہ یہ توہین الہی کا ذریعہ وسیلہ بنتا ہے اس لیے مصلحت اسی میں ہے کہ ان کے معبودوں کو سب وشتم نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے اس پر صراحۃ منع وارد ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعا لی ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ۔10
”جنکی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں ان کو گا لی نہ دو کیوں کہ وہ دشمنی میں بے خبرہوکر اللہ تعالی کو سب وشتم کریں گے“۔
قسم دوم
سد الذرائع کی یہ قسم ان ذرائع ووسائل کو شامل ہے جو شاذونادر ہی کسی فساد تک پہنچائیں ۔اس قسم کا حکم یہ ہے کہ اس کی عدم ممانعت پر اجماع امت ہے۔ یعنی ا س قسم کو وسیلہ وذریعہ بنانے سے روکا نہیں جائے گا ۔ اس قسم کی مثالوں میں شراب نوشی کے خوف کے پیش نظر انگور کی کاشت سے منع کرنا شامل ہے۔
قسم سوم
اس قسم میں ایسے وسائل وذرائع داخل ہیں جن کا فساد تک پہنچانا متشکک ومتردد ہوتاہے ۔ سد الذرائع کی اس قسم کو مختلف فیہ بھی کہا جا تا ہے۔ کیونکہ ان ذرائع کی ممانعت وعدم ممانعت میں فقہا کا اختلاف ہے۔ کا لنظر الی الاجنبیۃ،اوالتحدث معھا من حیث کونھما ذریعتین للزنی11۔ یعنی اجنبیہ کو دیکھنا اور اس سے محو گفتگو ہونا فحش کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔
قسم چہارم
اس قسم میں وہ ذرائع شامل ہیں جو اپنی اصل کے لحاظ تو مشروع ہیں لیکن انجام کے اعتبار سے فتنہ و بدعت کی طرف لے جاتے ہوں اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم دیا جس کے نیچے آپ ﷺ نے بیعت لی ، کیو نکہ لوگ وہاں جاکر نماز ادا کرتے آپ نے ان پر فتنہ کا خوف کیا ، یہ امور اگرچہ جائز ومندوب ہیں لیکن علماء نے ایسا کرنے کو بدعت کے خوف سے ناپسند کیا،کیو نکہ ان کا اسے بطور سنت لینا سمجھ لیا جاتا۔ یعنی لوگ جب اس پر مواظبت کرتے تو ان کا مواظبت کرنا سنت کو ظاہر کرتا ، لہذا جب وہ اس کو سنت کے قائم مقام ٹھہرالیتے تو یہ بدعت بن جاتا12۔
ارکان سد الذرائع
سدالذرائع کے تین رکن ہیں ۔
۱۔ وسیلہ یا ذریعہ۔
۲۔ افضا ء یعنی مطلوبہ چیز تک پہنچانا۔
۳۔متوسل الیہ یعنی جس تک پہنچاجائے۔
اس مختصر تعارف کے بعد معارضہ کے تجزیہ دو ابحاث میں بیان کیا جاتا ہے۔
مبحث اول
ابن حزم نے آیت مذکورہ کی اس تفسیر کے ابطال سےجسے صحیح بخاری میں نقل کیا گیاہے اس آیت سے سدالذرائع پر استدلال کو باطل کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ امام قرطبی الجامع لاحکام القرآن میں واحدی اسباب نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"قال ابن عباس : كان المسلمون يقولون للنبي صلى الله عليه وسلم : راعنا. على جهة الطلب والرغبة - من المراعاة - أي التفت إلينا ، وكان هذا بلسان اليهود سبا ، أي اسمع لا سمعت ، فاغتنموها وقالوا : كنا نسبه سرا فالآن نسبه جهرا ، فكانوا يخاطبون بها النبي صلى الله عليه وسلم ويضحكون فيما بينهم ، فسمعها سعد بن معاذ وكان يعرف لغتهم ، فقال لليهود : عليكم لعنة الله! لئن سمعتها من رجل منكم يقولها للنبي صلى الله عليه وسلم لأضربن عنقه ، فقالوا : أولستم تقولونها ؟ فنزلت الآية ، ونهوا عنها لئلا تقتدي بها اليهود في اللفظ وتقصد المعنى الفاسد فيه" ۔13
"حضرت ابن عباس فرمایا:مسلمان آپﷺ کی توجہ اور رغبت حاصل کرنے کی بنا پر کہتے: راعنا ،جو مراعات سے ہے، یعنی ہماری طرف التفات فرمائیے،اور یہ لفظ لغت یہود میں گالی شمار ہوتاتھا ،انھوں نے اسے غنیمت جانا اور آپس میں کہنے لگے اب تک ہم محمد ﷺ کوچوری چھپے سب وشتم کرتے تھے اب ہم انھیں اعلانیہ سب وشتم کریں گے (العیاذ باللہ)تو وہ جب اس(راعنا) سے آپ ﷺ کو مخاطب کرتے تو آپس مین ہنستے ،حضرت سعد بن معاذ نے ان کی اس بات کو سن لیا اور وہ یہود کی لغت سے اچھی طرح آشنا تھے ،آپ نے یہودیوں سے کہا: اللہ کی تم پر پھٹکارہو،اگر میں نے تم میں سے کسی آدمی سے یہ کلمہ نبی ﷺکے لیےکہتے ہوئےسن لیا تو اس کی گردن ماردوں گا ،تو انھوں نے کہا : کیا یہ کلمہ تم خود نہیں کہتے ؟ تو آیت نازل ہوئی، اور مسلمانوں کو آپﷺ کے حق میں یہ کلمہ کہنے سے روک دیا گیا تاکہ یہودی لفظوں میں مسلمانوں کی اقتدا ء کی آڑ میں غلط معنی مراد نہ لیں"۔
مذکورہ بالا تفسیری قول میں منہی عنہ (لاتقولوا راعنا)کی علت لئلا تقتدي بها اليهود في اللفظ وتقصد المعنى الفاسد فيه سے صراحۃ ذکر کی گئی ہے ۔کیو نکہ اوامر ونواہی میں محکوم بہ اور منہی عنہ کی علت کو بعض اوقات اسی نص میں صراحۃ یا کسی اور نص میں اس حکم کی علت کو صراحۃ یا اشارۃ بیان کر دیا جاتاہے ۔ لہذا شارع کی جانب سے بیان کردہ علت کو کسی دوسرے کی بیان کردہ علت حکم پر ترجیح ہو گی۔ابن حزم نےمذکورہ بالا تفسیر پران الفاظ میں معارضہ پیش کیا کہ :
"ان ھذہ التفسیر لیس مسندا الی النبی ﷺ ولم یرد بنص الکتاب فلم یقل اللہ سبحانہ وتعالی ولارسولہ ﷺ:انکم انما نہیتم عن قول راعنا لتذرعکم بذالک الی قول راعنا لکنہ قول صاحب ولاحجۃ فی قول احد دونہما، ولو کان صحابیا ،ھذہ الایۃ حجت علیھم لالھم لانھم اذا نہو عن قول راعنا وامروا بان یقولوا(انظرنا ) ومعنی لفظتین واحد،ان اللہ سبحانہ خاطب بہذا النداء المؤمنین الفضلاء اصحاب رسول اللہ الذین بلگوا فی تعظیم الغایۃ ولایتسور ان یعنوا بقول راعنا قط، اما المنافقون الزین یقصدون بہ الرعونۃ فما کانوا یلتفتون الی امراللہ تعالی ولا یؤمنون بہ فظھر فساد قول المحتجین بہذہ الآیۃ"۔14
"یعنی اس تفسیر کی سند آپ ﷺ تک ثابت نہیں ،اور ناہی کتاب اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے یہ نص وارد ہے کہ تمہیں راعنا کہنے سے صرف اس لیے روکا گیا ہے کہ تمھارا راعنا کہنا کہیں راعنا کا غلط معنی مراد لینے کا ذریعہ نہ بن جائے ،لیکن یہ صحابی کا قول ہے ،اور اللہ اور اس کے رسول کے سامنے کسی کے قول کا اعتبار نہیں اگرچہ صحابی کیوں نا ہو ،یہ آیت تو قائلین (سدالزرائع ) کے خلاف ہے نا کہ ان کے حق میں کیو نکہ انھیں راعنا کہنے سے روکا گیا ہے اور انظرنا کہنے کا حکم دیا گیا ہے ،اوراللہ سبحانہ وتعالی اس میں مومن فضلاء اصحاب رسول سے مخاطب ہیں جو آپ ﷺ کی تعظیم میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے ،ان یہ تصور بھی ہرگزنہیں کیا جاسکتا کہ وہ لفظ راعنا سے رعونۃ مراد لیں۔ باقی رہی بات منافقوں کی جو اس سے رعونت مراد لیتے تھے تو اللہ تعالی کا حکم ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہے،لہذا اس آیت سے دلیل پکڑنے والوں کے قول کا فاسد ہو نا ظاہر ہے "۔
ابن حزم کی مذکورہ بالا عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ حکم کی علت کی تعلیل اس وقت معتبر ہو تی ہے جب وہ مسند ہو یا مسند کے حکم میں ہو۔ چونکہ یہ تعلیل مسند نہیں اس لیے معتبر نہیں کیو نکہ مذکورہ تعلیل صحابی کا قول ہے جو انہوں نے اپنی رائے سےکی ہے احکامات شرعیہ میں اپنی رائے کو مخل کرنا گو یا احکامات شرعیہ پر استدراک ہے اور خودکو شارع سمجھنے کے مترادف ہے ۔ابن حزم کے اس قول کا تجزیہ مبحث دوم کے عنوان کے تحت درج ذیل ہے :
مبحث دوم
ابن حزم کا یہ معارضہ بادی النظر میں درج ذیل مقدمات پر مشتمل ہے :
1۔استدلال میں پیش کی جانے والی تعلیل کا مسند نہ ہونا۔
2۔صحابی کی رائے کاقابل حجت نہ ہونا ۔
3۔راعنا اور انظرنا کا مترادف المعنی الفاظ کے قبیلہ سے ہونا ۔
4۔آیت مذکورہ کے مخاطبین اہل ایمان ہیں ناکہ منافقین ۔
مقدمہ اول کا تجزیہ
اگر ا س بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ واقعی یہ روایت مسند یا مسند کے حکم میں نہیں ہے،حالانکہ حق بات اس کے خلاف ہے ، تو پھر کسی بھی حکم کی علت یا استدلال میں تعلیل کو اس شرط کے ساتھ مشروط کرنا کہ بعینہ اسی تعلیل کو کتاب اللہ اور سنت رسول میں صراحۃ بیان کیا گیا ہو ایسی شرط ہے جس پر اہل ظواہر کے مکتب فکر کی بنیاد ہے تاکہ تعلیل اور عمل بالقیاس کو باطل قراردیا جاسکے۔ 15چونکہ انھوں نے اس کے ساتھ صحابہ تابعین ائمہ اربعہ مجتہدین میں سے جماہیر علما ءکی مخالفت کی ہے اس لیے یہ شاذ ہے اور شاذ اکثر کے مقابلہ میں کالعدم ہوتا ہے ۔
حق بات یہ ہے کہ استدلال میں پیش کی جانے والی آیت کی تفسیر مسند ہے ائمہ اصول تفسیر وحدیث نے اس کی صراحت کردی ہے جیسا کہ امام سیوطی الاتقان میں لکھتے ہیں :
"قال الحاکم فی علوم الحدیث اذا اخبر الصحابی الذی شہد الوحی ،والتنزیل علی آیۃ من القرآن انہا نزلت فی کذا فانہ حدیث مسند ومشی علی ھذا ابن الصلاح وغیرہ ومثلوہ بما اخرجہ مسلم عن جابر قال :کانت الیہود تقول : من اتی امرءۃ من دبرہا فی قبلہا جآالولد احول فانزل اللہ تعالی (نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ)"16
"یعنی امام حاکم نے علوم الحدیث میں کہا ہے کہ جب ایسا صحابی جو وحی اور تنزیل کے وقت حاضر تھا قرآن پاک کی کسی آیت پر شہادت دے کہ یہ آیت اس چیز کے حق میں نازل ہوئی تو وہ حدیث مسند ہو گی ،ابن صلاح وغیرہ بھی اسی بات کی طرف گئے ہیں اور وہ حدیث اس کی مثال میں پیش کرتے ہیں جسے امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ،انھوں نے فرمایا : یہودی کہتے تھے : جو شخص عورت سے پچھلی جانب سے اس کے اگلے مقام میں وطی کرتا ہے تو اولاد بھینگی پیدا ہوتی ہے ، اس پر اللہ تعالی نے نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ 17نازل فرمائی"۔
مقدمہ ثانی کا تجزیہ
ابن حزم کے معارضہ کا دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا استدلال میں تعلیل صحابی کی اپنی رائے ہے اور صحابی کی رائے حجت نہیں ہے ، اس بارے علمائے اصول وفقہ کی دو قول ہیں ، ایک یہ ہے کہ قول صحابی حجت ہے اور دوسرا یہ ہے کہ قول صحابی حجت نہیں ہے ، دونوں اقوال کے قائلین کے دلائل اختصار کے ساتھ ذکر کر کے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں ۔
اقوالِ صحابہ کے حجیت کے دلائل
اس بات پر تو امت کا اجماع ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں ،ان کے کردار وعدالت پر تنقید کسی صورت جائز نہیں۔ 18دین میں ان کے مقام ومرتبہ کی وجہ سے ان کی ذات جرح وتعدیل کی زد سے باہر ہے ،جرح وتعدیل میں پڑے بغیرتمام صحابہ کی روایات مقبول ہیں ۔کسی صحابی کے قول کی تشریعی حیثیت کیا ہے ؟ یہ اقوال صحابہ کی اقسام پر منحصر ہے ،صحابہ کرام کے اقوال میں ان کی آرا ء،اجتہادات ،فتاوی اور فیصلہ جات شامل ہیں ،علماء اصول حدیث اور فقہا ء نے ان کو درج ذیل قسموں میں تقسیم کیا ہے :
1۔حیات نبوی میں قول ۔
2۔رحلت نبوی کے بعد قول جوسنت کے مطابق ہو ۔
3۔وہ قول جس کی اضافت عہد نبوی کی طرف ہو ۔
4۔ان مسائل کے متعلق قول جن میں عقل کی گنجائش نہیں ۔
5۔ وہ قول جس پر تمام صحابہ کا اتفاق ہو ۔
6۔ تفسیر اور اسباب نزول کے متعلق قول ۔
7۔ذاتی رائے جس میں صحابی اکیلا ہو ۔
چونکہ استدلال میں پیش کیے جانے والا قول مندرجہ بالا اقسام میں سے آخری دو قسموں میں سے ہو سکتا ہے اس لیے مؤخر الذکردوقسموں کا ذکر کیا جاتاہے ۔
تفسیر اور اسباب نزول کے متعلق قول
اقوال صحابہ کی ایک قسم وہ ہے جو قرآنی آیات کی تفسیر اور اسباب نزول سے متعلق ہے ،سبب نزول کا مطلب یہ ہے کہ وہ حالت وکیفیت یا واقعہ جس میں وہ آیت نازل ہوئی یا اس کے سبب سے وہ آیت نازل ہوئی۔ صحابی کے علاوہ کسی نے عہد رسالت کا مشاہدہ نہیں کیا اس لیے صحابی کے علاوہ کوئی اور شخص اس آیت کے شان نزول سے واقف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی شان نزول میں صحابی کی ذاتی رائے کو عمل دخل ہو سکتا ہے بلکہ انھوں نے ان مخصوص حالات و اقعات کو بیان کردیا جو آیت کے نزول کے وقت تھے ۔
مثلا قرآن مجید کی آیت وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا19کے سبب نزول کے بارے حضرت جابر کا قول ہے :
"ایک بار ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو ملک شام سے اونٹوں کا ایک قافلہ غلہ لادے ہوئے آیا۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ،یہاں تک کہ آپ ﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تو مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔"20
ایسے تمام اقوال جن مین کسی آیت کا شان نزول بیان کیا گیاہو حجت ہیں اور حدیث مسند کہلائیں گے جیسا ماسبق میں بیان کیا گیا ہے ،لہذا ابن حزم کا یہ اعتراض کہ یہ قول مسند نہیں ہے، ختم ہو جاتا ہے ۔
ذاتی رائے جس میں صحابی اکیلا ہو
اقوال صحابہ میں سے ایک قسم وہ ہے جو کسی صحابی کی ذاتی رائے اور اجتہاد پر مبنی ہو اور وہ اپنے قول میں منفرد ہو اور اس قول پر اجماع صحابہ ثابت نہ ہو ،ایسے قول کے حجت شرعی ہو نے یا ناہونے میں علماء کے مابین اختلاف ہے ۔
حجیت پر دلائل
جن علماء کےہاں ایسا قول دلیل شرعی ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ان میں سے چند ایک مشہور فقہا ء میں امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام احمد بن حنبل کی دو راؤں میں سے ایک رائے،امام محمد بن الحسن ، علامہ اسحاق بن راہویہ ،،فخرالدین رازی ، علامہ کرخی ،امام شاطبی، علامہ ابن قیم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ علماء اپنے موقف کو ثابت کرتے ہیں، ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں :
قرآن مجید
1۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ21
تم وہ بہترین جماعت ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیاہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو ۔
اس آیت میں صحابہ کو تمامتوں پر فضیلت دی گئی ہے ان کے بارے بتا یا گیا ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور معروف ونیکی میں حکم ماننا واجب ہے ۔
2۔ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
" اور اسی طرح ہم نے تمیں امت وسط بنایاہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہواور رسول ﷺ تم پر گواہ ہوں "۔
اس آیت میں صحابہ کا عادل ہونا ثابت ہے ۔22
چونکہ تمام صحابہ کرام عدالت مطلقہ کے درجہ پر فائزہیں اس لیے ان کی اطاعت واجب ہے ۔
3۔ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ23
"اور جس نے اللہ کادامن مظبوطی سے تھام لیا تو وہ سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دے دیا گیا "۔
صحابہ کرام نے بلا شبہ اللہ تعالی کا دامن مظبوطی سے تھا ما ہوا تھا اور وہ راہ راست کی طرف ہدایت یافتہ تھے اس لیے ان کا اتباع واجب ہے۔24
سنت
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرما یا :
4۔ "اصحابی کا النجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم" 25
"میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے یقینا ہدایت حاصل کرو گے"۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ کی پیروی موجب ہدایت ہے۔حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
5۔ سترون من بعدی اختلافا شدیدا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفآء الراشدین المھدیین عضواعلیھا بالنواجذ26
"میرے بعد جلد ہی تم شدیداختلاف دیکھو گے لہذا تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور ہداہت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت دانتوں کے ساتھ زور سے پکڑ لو "۔
عقلی دلائل
کسی مسئلہ پر مندرجہ ذیل وجوہ میں سے ایک وجہ ضرور پائی جائے گی ۔27
1۔ صحابی نے وہ قول نبی کریم ﷺ سے سناہوگا ۔
2۔ صحابی نے وہ قول اس شخص سے سنا ہو گا جس نے وہ قول بذات خود نبی ﷺ سے سنا ہو گا ۔
3۔ صحابی نے وہ بات قرآن کی کسی آیت سے سمجھی ہو گی جس کا مفہوم ہم پر پوشیدہ رہ گیا ہو۔
4۔ وہ قول ایسا ہو گا جس پر علماء کی ایک بڑی تعداد کا اتفاق ہو گا مگر ہمارے پاس صرف انہی ایک صحابی کا قول پہنچاہو ۔
5۔ صحابی کو لغت اور الفاظ کے مفہوم کا ہم سے زیادہ علم ہو ،یا شرعی احکام کا ایسے حالات وقرائن سے تعلق ہو جنہیں صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی طویل صحبت میں رہ کر حاصل کیا ہو جو ہم نہ حاصل کرسکے ،نہ سیکھ اور سمجھ سکے ۔
6۔ صحابی کے اجتہاد میں صحت کا امکان زیادہ اور غلطی کا امکان کم ہے ۔
7۔ صحابی کی رائے غیر صحابی کی رائے سے قوی ہے ،اگر صحابی کی رائے میں غلطی کا احتمال ہے تو اتنا ہی صحت کا احتمال ہے ،لہذا جس طرح غلطی کے احتمال کے باوجود قیاس حجت ہے اسی طرح غلطی کے احتمال کے باوجود قول صحابی حجت ہے۔ 28
عدم حجیت پر دلائل
علماء کا دوسرا گروہ اس خیال کا حامی ہے کہ ذاتی رائے اور اجتہاد پر مبنی قول صحابی شرعی حجت نہیں ہے ،لہذا ان پر عمل کرنا واجب نہیں اس موقف کے حاملین علماء اور فقہاء میں امام شافعی ،امام ابن حزم، امام غزالی ، علامہ آمدی ،علامہ شوکانی،اور بعض متاخرین حنفیہ مثلا علامہ کرخی وغیرہ شامل ہیں ۔ان کے چند اہم دلائل مندرجہ ذیل ہیں :
قرآن مجید
اللہ تعالی نے فرمایا :
۱۔ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ29
"پھر اگر کسی معاملہ میں تمھارا تنازعہ ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو" ۔
مذکورہ بالا آیت ظاہر کرتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے باہمی تنازعات میں قرآن وسنت کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف رجوع کرنا لازم نہیں ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :
۲۔ فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ30
"اے بصیرت رکھنے والو ہوش مندی سے کام لو "۔
یہ آیت اجتہاد کی ترغیب دیتی ہے ،دلیل کے ساتھ کسی مسئلہ کے استنباط کا نام اجتہادہے،مذکورہ بالا آیت قول صحابی کے قیاس پر مقدم ہونے کی نفی کرتی ہے۔31
اجماع
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ایک صحابی کا دوسرے صحابی سے اختلاف کرنا جائز ہے۔ 32صحابہ کرام نے متعدد مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور انہوں نے اپنے اختلاف کا بر ملا اظہاربھی کیا۔ علامہ آمدی نے لکھا ہے صحابہ کرام کا اس مسئلہ پر اجماع منعقد ہوگیا تھا کہ ایک مجتہد صحابی کا دوسرے مجتہد صحابی سے اختلاف رائے جائز ہے۔33
تعامل تابعین
تعامل تابعین سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ وہ اقوال صحابہ کو حجت نہیں سمجھتے تھے ۔انہوں نے اقوال صحابہ کے خلاف بھی موقف اختیار کیا۔
عقلی دلائل
۱۔ قول صحابی ذاتی رائے اور اجتہاد پر مبنی ہو تا ہے۔ اجتہاد صوا ب بھی ہوسکتا ہے اور غیر صواب بھی ، لہذا ایک ایسی چیز جس میں غلطی کا امکان موجود ہو اسے قطعی دلیل کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ۔
۲۔ اگر اقوال صحابہ کو مظلق حجت تسلیم کرلیا جائے تو اس سے تناقض پیدا ہوتا ہے،بعض مسائل پر دو ہم مرتبہ صحابہ کے اختلافی اقوال نظر آتے ہیں ان صورتوں میں اقوال صحابہ کو حجت تسلیم کرنے سے تناقض لازم آتا ہے ۔
۳۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی غرض و منشا کے مطابق آپ ﷺ کا قول نہ سمجھا ہو ۔
دلائل کا محاکمہ
اقوال صحابہ کی حجیت کے منکرین نے قائلین کے دلائل کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ جس کی تفصیل کتب فقہ میں مذکورہے، خلاصہ درج ذیل ہے :
۱۔ اقوال صحابہ کی حجیت پر جو آیات پیش کی گئی ہیں ان سے صحابہ کی فضیلت کاتو علم ہوتاہے لیکن ان کے اقوال کی حجیت کا ثبوت نہیں ملتا،ان آیات میں کوئی ایسا صیغہ مستعمل نہیں جس سے شارع کا یہ مقصد واضح ہوتا ہو کہ صحابی کےقول پر عمل واجب ہے ۔
۲۔ خلفاء راشدین کے متعلق احادیث سے اگر کوئی استدلال کیا جاسکتاہےتو صرف یہ کہ وہ لائق اقتدا ء وپیروی ہیں اس سے یہ معنی اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے اقوال دین میں لازمی حجت ہیں ،ہمیں ان کے ذاتی اقوال اور اجتہادی آراء کو قرآن وسنت کی طرح شرعی حجت ماننے کا کہیں پابند نہیں بنا یا گیا۔ 34
۳۔ ایسی احادیث صرف خلفاء راشدین کے بارے میں ہی نہیں ہیں بلکہ دیگر صحابہ کرام کے بارے میں بھی آئی ہیں جن انکی رفعت شان ظاہر ہوتی ہے۔مثلا حضرت ابی ابن کعب کو سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا ،حضرت معاذ کو حلال وحرام کے بارے سب سے زیادہ عالم اور حضرت ابو عبیدہ کو امین امت کہا گیا۔ 35حضرت عائشہ کے بارے فرمایا کہ ان کی فضیلت وبزرگی تمام عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔ 36
۴۔ اقوال صحابہ کی یہ قسم جس میں صحابی اپنے قول میں اکیلا ہو اس کی حجیت کا انکار کرنے والوں کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہےکہ اقوال صحابہ کی اہمیت کو نظر انداز یا مسترد کردیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر عمل کرنا قرآن وسنت پر عمل کرنے کی طرح لازم نہیں ۔
۵۔ مستدلین کابھی یہ دعوی نہیں کہ استدلال میں پیش کی جانے والی آیت سے جو فقہی اصول مستنبط ہورہاہے اس کا درجہ کتاب وسنت کی طرح ہے بلکہ اس کا معاملہ باقی دلائل ظنیہ یعنی قیاس ،استحسان ،مصالحہ مرسلہ اور سابقہ شرائع وغیرہ جیسا ہے ،جس طرح باقی دلائل ظنیہ اپنی اپنی شرائط کے ساتھ مشروط ہیں اسی طرح یہ دلیل بھی اپنی شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۔
مقدمہ ثالثہ کا تجزیہ
راعنا اور انظرنا مترادف الفاظ نہیں کیو نکہ دونوں میں فرق واضح ہے ۔ایک تولفظ راعنا لغت یہود میں رعونۃ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے ، دوسرا رعایت سے امر کا صیغہ بھی ہو سکتا لہذا راعنا کہ کر دونوں میں سے کوئی مراد لیا جاسکتا ہے،یہودی اسی آڑ میں راعنا کہ کر اسم فاعل کے صیغہ والا معنی مراد لیتےتھے ،جبکہ انظرنا میں ایسا احتمال نہیں ہے ۔لغت یہود میں اس سے خبیث معنی مراد نہیں لیا جاسکتا ۔ اگردونوںمترادف ہوتے تو راعنا کی بجائے انظرنا کہنے کا کوئی مقصد نہیں بنتا ۔
مقدمہ رابعہ کا تجزیہ
اس بارے کوئی شک نہیں کہ آیت مذکورہ میں خطاب ان مومنوں کو ہے جو تعظیم رسول کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ممنوع ومحظور چیز کا ان سے تعلق ہی نہ ہو ،اور کس کی مجال جو یہ کہے کہ وہ صادق الایمان مسلمان لفظ راعنا کو کسی مذموم مقصد کے لیے ذریعہ بناتے ۔غایت امر یہ ہے کہ انہیں انظرنا کا حکم اس لیے دیا گیا کہ یہ لفظ ادب واحترام کے اس معنی کو بھی شامل ہے جو مومن لفظ راعنا، بمعنی رعایت کیجئے ،سے ادا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور فائدہ بھی ہو گا کہ کافر اور منافق جس طرح سے لفظ راعنا کواپنےاغراض خبیثہ کے لیے ذریعہ بنا سکتے ہیں اسی طرح لفظ انظرنا کو ذریعہ نہیں بنا سکتے ۔
باقی رہا منافقین وکافرین کا اللہ تعالی کے اوامر ونواہی کی طرف توجہ نہ کرنا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انکے لیے ہر طرح کا میدان خالی چھور دیا جائے کہ وہ شعائراسلام کی ہرزہ سرائی کے ذرائع تلاش کرتے پھریں بلکہ ہر میدان میں کفر واہل کفر کے ساتھ محاربہ اوران پر اس طرح کا ہر راستہ تنگ کرنا ضروری ہے تاکہ اعلاء کلمۃ اللہ ہو ۔
خلاصہ بحث
ابن حزمؒ نے اپنے دعوی پر دلیل کے جو مقدمات قائم کیے وہ خود خلاف حقیقت ہیں جیسا کہ انھوں نے کہا کہ علت حکم کی تعلیل کا مسند ہو نا ضروری ہے چونکہ ا ستدلال میں پیش کی جانے والی آیت کی تفسیر مسند نہیں اس لیے قابل حجت نہیں ۔ جبکہ اس تفسیری قول کا مسند ہو نا عند المحققین ثابت ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ۔ لہذا ان کے دعوی کی دلیل بوجہ مقدمہ اول کے خلاف حقیقت ہونے کے خود قابل اعتبار نہ رہی۔ مزید برآں انھوں نےمطلقا قول صحابی کی عدم حجیت کا قول کیا ہے جو کہ اصولِ حدیث کے محققین کی تحقیق کے خلاف ہے۔مقدمہ ثالث میں انھوں نے لفظ راعنا اور انظرنا کو مترادف الفاظ کہ کر گویا ان کے درمیان تساوی کی نسبت کے ثبوت کا دعوی کیا ۔ یہ بھی خلاف حقیقت ہے کیو نکہ تساوی کی نسبت میں ایک لفظ کا مفہوم دوسرے لفظ کےمفہوم کےسب افراد پر صادق آتاہے اور دوسرا پہلے کے سب افراد پر جبکہ راعنا اور انظرنا کا مفہوم ایک دوسرے کے تمام افراد پر صادق نہیں آتا ۔ لہذا دلیل کا یہ مقدمہ بھی خلاف قاعدہ ثابت ہوا بنا بریں دعوی کی کمزوری عیاں ہے ۔
نتیجہ
1۔تعلیل کے لیے مطلق روایت کےمسند ہونےکی شرط ابن حزم کے تفردات میں سے ہے ۔
2۔ مطلق قول صحابی حجت شرعیہ نہیں ہے۔
3۔سدالذرائع قیاس کی طرح اجتہاد کا ایک طریقہ ہے جو باقاعدہ شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ جس طرح کہ قیاس شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۔
EST/AT, Govt. Elementary School Jageer Hoora, Lodhran, District Lodhran.
hafizmuhammadfakharuddin@gmail.com.pk ORCID ID (0000-0003-0202-560x)
1 Al-Baqarah 1:104.
2Abū Muḥammad ‘Alī bin Aḥmad bin Hazam, Al-Aḥkām Fī Usūl al-Aḥkām (Damishq: Dār al-Fikr, S.N), 6:7.
3Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Yazīd ibn e Mājjah, Sunan Ibn e Mājjah (Beirūt: Dār al-Fikr, 1999 A.D), Hadith No.378.
4Al-Kahf 18:93.
5Al-Kahf 18:93.
6Al-Aḥzāb 33:70.
7Abū Al-Faḍal Jamāl al-Dīn Muḥammad bin Mukarram, Lisān al-‘Arab (Iran: Dār Nashar Adab al-Jawzah, S.N), 8:198.
8Sheikh Aḥmad Mustafā al-Zarqā’, Al-Istilāḥ wa al-Musāliḥ mursalah Fī al-Fiqh al-Islāmī (Beirūt: Dār al-Fikr, S.N), 1:35.
9Shams al-Dīn Muḥammad bin Abī Bakr Ibn e Qayyim, A‘lām al-Mu ‘awwiqīn (Misr: Maktabah Al-Kulliyyāt al-Azhariyyah, S.N), 3:118.
10Al-An‘ām 6:124.
11Ibn e Qayyim, A‘lām al-Mu ‘awwiqīn, 6:124.
12Hassām Buhānī, Sadd al-Zara’i‘ Fī al-Sharī‘at al-Islāmiyyah (Qāhirah: Dār al-Fikr, 2005 A.D), 567.
13Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Abī Bakr Al-Qurtabi, Al-Jāmi‘ Li Aḥkām al-Qur’ān (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 1999 A.D), 2:57.
14Ibn e Hazam Al-Andulusi, Al-Aḥkām Fī Usūl al-Aḥkām (Pakistan: Faisalabad, Idārah Ãhiyā’ al-Sunnah, 1404 A.H), 8:1110.
15Ibn e Hazam, Al-Aḥkām Fī Usūl al-Aḥkām, 8:1110.
16 ‘Abd al-Raḥmān bin abī bakr Jalāl al-Dīn Al-Suyūtī, Al-Itiqān Fī ‘Ulūm al-Qur’ān (Misr: Dār al-Kutub al-Ilmiyyah, 1992 A.D), 1:31.
17Al-Baqarah 2:223.
18Muḥammad bin ‘Alī al-Shawkānī, Irshād al-Faḥūl Ilā Taḥqīq al-ḥaq min Ilm al-Usūl (Misr: Dār al-Kutub al-Ilmiyyah, 1992 A.D), 69,70.
19Al-Jumu‘ah 62:11.
20Muḥammad bin Ismā‘īl Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ (Pakistan: Maktabah Ta‘mīr Insāniyyat Lahore, 1979 A.D), 1:725.
21Aal e Imrān 3:110.
22Ibrāhīm bin Mūsā bin Muḥammad al-Shātbī, Al-Muwāfiqāt Fī Usūl al-Shari‘ah (Beirūt: Dār al-Ma‘rifah, S.N), 4:74.
23Aal e Imrān 3:101.
24Ibn e Qayyim, A‘lām al-Mu ‘awwiqīn, 4:74.
25 Ibn-e-‘Abdul Barr, Jāmi‘ Bayān al-‘ilm Wa Faḍhluhū, 925.
26Abū ‘Abdullah Muḥammad bin Yazīd ibn e Mājjah, Sunan Ibn e Mājjah (Pakistan: Ahl e ḥadith Academy Kashmīrī bāzār Lahore, S.N), 1:38.
27Ibn e Qayyim, A‘lām al-Mu ‘awwiqīn, 4:174.
28Shihāb al-Dīn Muḥammad bin Aḥmad Zanjānī, Takhrīj al-Furū‘ ‘Alā al-Usūl (Beirūt: Mu’assisat al-risālah, 1982 A.D), 179.
29Al-Nisā’ 4:59.
30Al-ḥashr 59:2.
31Saif al-Dīn ‘Alī bin Muḥammad āmdī, Al-Aḥkām Fī Usūl al-Aḥkām (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 1980 A.D), 4:132.
32Al- Āmdī, Al-Aḥkām Fī Usūl al-Aḥkām, 4:131.
33Al- Āmdī, Al-Aḥkām Fī Usūl al-Aḥkām, 4:131.
34Al-Shawkānī, Irshād al-Faḥūl, 83.
35Imam Hakim, Ma‘rifat e ‘Ulūm al-Hadīth, 114.
36Al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ, 2:421.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |