2
2
2021
1682060063651_3202
30-40
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/26/29
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/26
Ibn-e-Taymiyya Distinctions Tomb of the Holy Prophetﷺ traveling to visit the tomb Consensus Ijtihad.
ز یارت قبر رسولﷺ، جمہور اور شیخ ابن تیمیہ )32(
زیارت قبر رسولﷺ،جمہور اور شیخ ابن تیمیہSheikh Ibn-e-Taymiyyah’s Distinction on the issue of the traveling to visit the tomb of the Holy Prophet ﷺ
Muhammad Fazal Haq Turābī
Shaykh-ul-Islam Ahmad bin Abdul Haleem alias Ibn Taymiyya (661-728 AH) is one of the great personalities whose far-reaching effects of his thoughts and opinions have been felt in every age. The issues, on which Allama Ibn Taymiyya has a different opinion, are the result of his such research as well as liquidation, wisdom, Ijtihad and continuous consideration as well as deliberation which have been based on Quran and Sunnah, the interaction of companions and speculation. In his Ijtihadi issues, there is a collection of evidence and proofs related to the Quran and Sunnah. Most of Ibn Tamiya’s dissent is of a jurisprudential and principled nature. Some of these dissents are against the consensus of the Ummah. Some are against the religion of the four Imams, some differences are contrary to Hanbali School of thought itself and some differences are against the majority of scholars. Allama Ibn Taymiyya also has such differences in which he looks unique and distinguished from the whole Ummah. One of them is related to the pilgrimage to the tomb of the Holy Prophetﷺ. According to Islamic scholars, traveling to visit the tomb of the Holy Prophet Muhammad ﷺ is permissible and rewarding. The majority of scholars agree on this. Ibn Tamiya’s position and the difference is that if he did not intend to offer prayers in the Holy Prophet's Mosque during this pilgrimage, then it is not permissible according to most of the scholars and imams, nor has it been commanded. According to the command of the Holy Prophet ﷺ, the reason behind this is that only three mosques should be packed, namely Masjid al-Haram, Masjid al-Nabawi, and Masjid al-Aqsa. After the Prophet of Islam, there is room for disagreement with the words and deeds of everyone in Islamic thought. Almost all the great scholars have disagreed with this position and have refuted it with arguments. But their other religious and national services cannot be ignored based on this distinction. In the article under discussion, Ibn Tamiya’s position and his arguments will be critically examined in light of the views of other scholars of the ummah.
Key Words: Ibn-e-Taymiyya, Distinctions, Holy Prophetﷺ, Tomb of the Holy Prophetﷺ, traveling to visit the tomb.
تعارف:
شیخ ابن تیمیہؒ بیشتر اصولی و فقہی مسائل میں مختلف فیہ ہوئے ہیں جنہیں تفرداتِ شیخ ابن تیمیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔آپ کےتفردات میں سے بعض اجماع ِامت کی مشہور و معروف اصطلاح کے خلاف ہیں ، بعض کی اجتہادی فکر آئمہ اربعہ کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتی ، بعض تفردات خود فقہ حنبلی کے بر عکس ہیں اور بعض تفردات جمہور علماء کے خلاف ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ کے ہاں ایسے تفردات بھی پائے جاتے ہیں جن میں آپ پوری امت سے منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں ۔اُن تمام تفردات میں سے ایک تفردزیارتِ قبرِ رسول ﷺ سے متعلق ہے۔وہ یہ کہ " اگر اس سفر زیارت میں مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھنے کی نیت نہ کی ہو تو یہ اکثر علماء اور آئمہ کے نزدیک ناجائز ہے اور نہ ہی اس کا حکم کیا گیا ہے"۔
پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد ہر کسی کے قول و فعل اور تقریر سے اختلاف کی گنجائش فکر اسلامی میں موجود ہے۔ موصوف کے اس موقف سے تقریبا تمام اکابرین علماء نے اختلاف کیا ہے اور دلائل سے تردید کی ہے ۔ زیر بحث مقالہ میں ابن تیمیہ کے موقف اور اُن کے دلائل کا دیگر علمائے امت کی آراء کی روشنی میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔
۱۔ شیخ ابن تیمیہ :
شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم المعروف ابن تیمیہ (661۔728ھ)ان عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جن کے افکار وآراء کے دور رَس اثرات ہر دور میں محسوس کئے جاتے رہے ہیں ۔ آپ کا اصل نام احمد ،کنیت ابوالعباس اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ ۶۲۱ ھ میں پیدا ہوئے۔ مذہبِ حنبلی کے شارح اور پروان چڑھانے والوں میں سے ہیں۔ آپ کا وصال قلعہ دمشق میں قید و بند کی حالت میں ہوا۔
شیخ الاسلام خداد اد غیر معمولی ذہانت و فطانت اورعقل و ودانش کے ساتھ ساتھ تبحر علمی سے مالا مال تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ لہوو لعب کے زمانے میں آپ من جملہ علوم و فنون کی دستار فضیلت اپنے سر کا تاج بنا چکے تھے ۔ اور عنفوان شباب میں فتویٰ کی مسند پر بر اجمان ہوکر خلق خدا کےمرجع بن چکےتھے۔آپ نے امت محمدیہ ﷺ کی نشاۃ ثانیہ تن تنہا دینی ، سیاسی ،علمی ، عملی ،قلمی ، سیاسی اور معاشرتی جہاد کا علم بلند کردیا۔درس و تدریس ،وعظ ونصیحت ،اور تصنیف و تالیف میں اپنے معاصرین سے سبقت لے چکے تھے۔ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
"جو شخص ریفار مر(مجدد) کا اصلی مصداق ہوسکتا ہے وہ علامہ ابن تیمیہ ہیں مجددیت کی اصلی خصوصیتیں جس قدر علامہ کی ذات میں پائی جاتی ہیں اس کی نظیر بہت کم مل سکتی ہے۔"1
علامہ ابن تیمیہ نےشدت ِفساد کا مقابلہ شدت اصلاح سے کیا۔کیونکہ جس مریض کا علاج عمل جراحی ہو اور اس کو نرم نازک مرہم کیا جائے تو وہ شفایاب نہ ہوگا بلکہ مرض بڑھتا ہی جائے گا۔ اس لئیے شدت کا مقابلہ شدت سے کرنا امر ضروری اور مجبوری تھا ۔چونکہ طبیعت میں آزادی اور اعتدال سے زیادہ سختی تھی۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر 2
علامہ ابن تیمیہ جن مسائل میں مختلف فیہ ہوئے ہیں ۔وہ مسائل انانیت ، نفسانیت ، عصبیت اور خواہش نفس کی پیدا وار نہ ہیں ۔ بلکہ وہ مسائل علامہ ابن تیمیہ کی تحقیق وتدقیق ، فقاہت و اجتہاد اور مسلسل غور و فکر کا نتیجہ صالحہ ہیں۔ جن کی اساس قرآن و سنت ، تعامل صحابہ اور قیاس جلی ہے۔آپکے ان اجتہادی مسائل میں قرآن و سنت سے مستنبط دلائل اور براہین کا ایک ذخیرہ موجود اور مذکور ہے ۔ اکثر مسائل تو وہ ہیں جن پر آپکے دور تک اکابرین امت نے کبھی انگشت نمائی نہ کی تھی،حالانکہ وہ مسائل تصحیح طلب تھے۔ آپ فرد واحد ہیں کہ ان مسائل پر بڑی جرات وبہادری کے ساتھ ان کو حل کیا اور ان میں اصلاح طلب امور کی اصلا ح فرمائی۔ جیسا کہ" اشاعرہ "کے مسائل ۔ علامہ ابن تیمیہ کے وہ مسائل جو اجتہاد اور فقاہت کا نتیجہ ہیں ان کی وجہ سے آپ منفرد ہوئے ہیں ۔
۲۔ تفرداتِ شیخ ابن تیمیہ:
علامہ ابن تیمیہ کے تفردات و اختیارات کی نوعیت اصولی بھی ہے اور فروعی بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیری اور تاریخی بھی ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ کے ا ن تفردات اور اختیارات میں سے بعض ایسے ہیں جو اجماع امت کی مشہور و معروف اصطلاح سے مطابقت اور موافقت نہیں رکھتے ہیں ، بعض تفردات و اختیارات کی اجتہادی فکر آئمہ اربعہ کے مذہب سے تطابق کی راہ ہموار نہ کر پائی ہے، بعض تفردات خود فقہ حنبلی سے مختلف ہیں، بعض تفردات جمہور کے خلاف راہ پاتے ہیں۔ آپؒ کے ہاں ایسے تفردات بھی پائے جاتے ہیں جن میں آپ پوری امت سے منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں۔آپکے تفردات و اختیارات ، شجر ممنوعہ مسائل پر پہلی مرتبہ آپکی گرفت اور اصلاح جیسے امور آپکی بلند ہمتی غور و فکر کی گہرائی ، جرات و بہادری ، لومۃ لائم سے بے خوفی ، اظہار حق میں بے باکی اور تبحر علمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے ان تفردات کی وجہ سے مادحین و مدافعین اور مخالفین و ناقدین کے درمیان بحث و مناظرہ اور مجادلہ و مکابرہ کا ایک نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔مادحین و مدافعین بھی اپنے وقت میں آسمان علم کے درخشاں آفتاب و ماہتاب تھے ۔ جبکہ مسائل میں نقد و مخالفت کرنے والے بھی علم و تحقیق اور فضل و کمال کے وہ آفتاب وماہتاب تھے جنکے علمی پرتو میں اب بھی خرد وعقل اور علم و فن کی گتھیاں سلجھائی جا رہی ہیں ۔ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
"بلا شبہ علمائے سلف جوش اختلاف میں تشدد و غلو بھی کرجاتے تھے کہ معصوم نہ تھے مگر ان کا تشدد بھی صرف میدان اختلاف میں محدود رہتا۔ ا س سے باہر تعصب و انکار نہیں ہوتا تھا۔قاضی سبکی پر کیا موقوف ہے ، حافظ ذہبی ، ابن الزملکانی ، ابن البلقینی ، ابن حجر عسقلانی ، ابن ناصر الدین ، صاحب القول الجلی ،حاٖفظ ابن کثیر وغیرہم سب نے کتنے ہی مسائل میں ابن تیمیہ کے اختیارات سے اختلاف کیا "۔3
علامہ ابن تیمیہ کے تفردات و اختیارات اور شذوذ جنکی نوعیت اصولی اور فروعی ہے۔ جنکی وجہ سے علامہ کے مادحین و مدافعین ا ورمخالفین و ناقدین دونوں طرف سے آپ کے بارے میں غلو اور تشدد کا شکار ہو گئے۔علامہ کے طرفین کے با رے میں سوء ظن بھی محال ہے کیونکہ طرفین علم و عمل اور فضل و کمال کے بلند و بالا ستون تھے۔ اگر چہ طرفین کی قلمی ابحاث سے تحقیق اور جستجو حتی کہ تفسیق ، تضلیل اور تکفیر تک جا نبین میں باتیں ہونے لگیں ،جانبین کی عصبیت کی وجہ سے آپکی مصلحانہ اور مجددانہ محنت شاقہ سے عام لوگ تو عام لوگ رہے۔ خواص کے لئے بھی آپ پردہء اخفاء میں چلے گئے۔ حالانکہ آپ کے تجدید شریعیت ،تنظیم سیاست ،اصلاح احوال اور اعمال کے وہ کارنامے جو آپ نے خلوص و نیت سے اصلاح امت کی خاطر سر انجام دئیے وہ ہر کس و ناکس کیلئے طاق نسیاں ہو گئے ہیں ۔پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد ہر کسی کے قول و فعل اور تقریر سے اختلاف کی گنجائش فکر اسلامی میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن اس سے ہر گز لازم نہیں آتا ہے کہ مخالف سے اختلاف رائے کی بناء پر اس کے دوسرے کارہائے نمایاں اور فضل و کمال کا قطعی طور پر انکار کر دیا جائے۔
علامہ ابن تیمیہ کی حیات ، افکار وآراء اور تفردات و شذوذ کا دقت نگاہی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ آپ کی تجدید ی خدمات نے دور رس نتائج چھوڑے ہیں۔ جنکے اثرات ہر دور میں اور اب تک محسو س کیے جاسکتے ہیں اور ان کے تناظر میں اصلاح امت کےلئے ایک سامان نو مہیا کیا جاسکتا ہے جو عصر حاضر کی عین ضرورت ہے۔ ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
"آج کل مسلمانوں میں جس فتنہ عقائد نے سر اٹھایا ہے اور بحکم "بل قالوا مثل ما قال الاولون" وہ تمام فتنے اکٹھے ہو کر پلٹ آئے ہیں جو عقائد اسلامیہ کے مختلف دوروں میں فردا ًفردا ً ظاہر ہوئے تھے ۔ اس کے لحاظ سے تو آج معارف ابن تیمیہ سے بڑھ کوئی اور چیز مطلوب اور مقصود وقت نہیں" ۔4
"ان الانسان مرکب من الخطاء والنسیان"کے مصداق خطاء رسل و ملائکہ کے علاوہ ہر کسی سے ممکن ہے۔ پس خطاء و شذوذ سے قطع نظر دوسرے علمی کمالات اور فضل و کمال کا اعتراف نہ کرنا ظلم و زیادتی ہے۔ آپ نے فکر اسلامی کی تقریبا پہلی مرتبہ ایسی تعبیر و تشریح کی ہے جو سابقہ تفسیری ، کلامی اور فقہی تعبیرات و تشریحات سے ذرا ہٹ کر تھی ۔ بنا بر ایں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی حیات ، افکار و آراء ، تجدیدی اور اصلاحی کار ناموں کا ایک تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ نا گزیر ہے ۔
۳۔ مسئلہ زیارتِ قبر رسولﷺ:
من جملہ تفرداتِ شیخ الاسلام ایک تفردزیارتِ قبرِ رسول ﷺ ہے۔اللہ جل جلالہ کے رسول معظم حضرت محمد ﷺ کی قبر کی زیارت کی خاطر سفر اسلام کے فقہاء کے نزدیک مندوب ،مستحب اورمطلوب و مرغوب ہے۔ جس میں جمہور فقہاء کا اس بابت کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ابن تیمیہؒ کامؤقف اور تفرد و اختیار جمہور کے مؤقف کےمقابلہ میں شدت کے ساتھ یہ ہے کہ اگر اس سفر زیارت میں مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھنے کی نیت نہ کی ہو تو یہ اکثر علماء اور آئمہ کے نزدیک ناجائز ہے اور نہ ہی اس کا حکم کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺکے فرمان کے مطابق صرف تین مساجد کی طرف سامان سفر باندھا جا ئے یعنی مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی۔ چنانچہ ابن تیمیہؒ (728ھ) لکھتے ہیں:
"اذا کان قصدہ با لسفر زیارۃ قبر النبی ﷺ دون الصلوٰۃ فی مسجدہ فھٰذہ المسالۃ فیھا خلاف فالذی علیہ الآئمۃ واکثر العلمآء ان ھٰذا غیر مشروع ولا مامور بہ لقولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "۔5
۴۔ جمہور علماء کا موقف:
اس معرکۃ الآراء مسئلہ میں جمہور فقہاء کے مذاہب مندرجہ ذیل ہیں۔ حنابلہ میں سے ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :
"سید عالم ﷺ کے فرمان "من حج فزار قبری بعد وفاتی وکانما زارنی فی حیاتی"۔6 کے مطابق حاجی کے لئے نبی پاک ﷺ اور آپ ﷺ کے دو ساتھی حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے روضہء پاک کی زیارت کرنا مستحب ہے "۔7
شوافع میں ابو اسحاق شیرازی (476ھ) لکھتے ہیں :
"رسول للہ ﷺ کے روضئہ مبارک کی زیارت مستحب ہے" ۔8
شوافع میں سے زکریا انصاری (823۔ 926ھ) لکھتے ہیں :
"وان یستقبل القبلۃ عند شربہ (وزیارۃ قبر النبی ﷺ ولو بغیر حاج"۔9
"قبلہ رو ہو کر آب زم زم خوب پئیے اور نبی کریم ﷺ کے رو ضہء اقدس کی زیارت کرے اگر چہ یہ شخص حج کر نے والا نہ ہو"۔
مالکیہ میں سے قاضی عیاض یحصبی( 544ھ ) لکھتے ہیں :
"زیارۃ قبرہ ﷺ سنۃ من سنن المسلمین مجمع علیھا وفضیلۃ مرغب فیھا"۔10
"رسول اللہ ﷺ کی قبر کی زیارت تمام مسلمانوں کی ایسی سنت ہے۔ جس پر ان سب کا اجماع ہے اور یہ ایسی فضیلت ہے جس کی ترغیب فرمائی گئی ہے"۔
مالکیہ میں سے قرطبی لکھتے ہیں:
"واٰ تیناہ فی الدنیا حسنۃ "11کی تفسیر میں ایک قول آپ ﷺ کے روضہ اطہر کی زیارت کا باقی رہنا مراد ہے۔12
احناف میں سے علی قاری لکھتے ہیں :
" کون الزیارۃ قربۃ معلوم من الدین بالضرورۃ "13
"زیارۃ قبر رسول ﷺدین کی قربت معلومہ بدیہہ ہے "۔
احناف میں سے طحطاوی لکھتے ہیں:
"والمبالغۃ بذکر الوعید علی الترک والوعد علی الفعل"14
"قصد زیارت میں مبالغہ کرے اور وہ اس طرح کہ یاد رکھے کہ ترک زیارت پر وعید اور زیارت کرنے پر وعدہ اجر ہے" ۔
۵۔ فریقین کے دلائل کا تجزیاتی مطالعہ:
ابن تیمیہ نے اپنے تفرد اور اختیار میں مندرجہ ذیل احادیث کو محل استدلال بنایا ہے ۔ ان احادیث سے اپنے تفرد پر استدلال ان کے مضبوط دلائل میں سے سمجھا جاتا ہے ۔اگر چہ دلائل اور فقہی عبارت کا ورود بکثرت ہے تا ہم کثرت ورود کے اعتبار سے قطع نظر دلائل کی قوت کو مطمع نظر بنانا چاہیئے ۔
" قال لا تشدالرحال الا الیٰ ثلاثۃ مساجد مسجدی ھٰذا،والمسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ"۔ 15
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا کہ تین مسجدوں کے علاوہ اور کسی مسجد کی طرف کجاوے نہ کسے جائیں ۔ میری یہ مسجد ، مسجد حرام اور مسجد اقصی"ٰ۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف سفر کرنا درست نہیں ہے۔ابن تیمیہ ؒنے اس حدیث کے ظاہر سے استدلال کیا ہے اور اس حدیث کے مالہ اور ماعلیہ سے صرف نظر کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اگر یہی معنیٰ و مفہوم مراد ہو تا جو لیا جاتا ہے تو دوسرے امور کی طرف جانے میں اختلا ف واقع نہ ہو تا جبکہ دوسرے مقامات کی طرف کجاوے باندھنے کے متعلق بھی فقہاء اور شارحین حدیث کے درمیان کثیر اختلاف پایا جاتا ہے ۔مثلا زندہ لوگوں کی عیادت اور زیارت کے لئے بھی سفر کیا جاتا ہے ۔کار ہائے حیات کی تکمیل کے لئے بھی ر خت سفر باندھا جاتا ہے اور وعظ وتبلیغ کے لئے بھی ایک کو نہ سے دوسرے کونہ تک سفر کیا جاتا ہے ۔اس لئے اس حدیث سے صرف قبر رسول ﷺ کی تخصیص کی بابت اختلاف محل نظر ہے۔ شارحین حدیث نے یہ معنی لیا ہے کہ اگر چہ مکمل فضیلت ان مساجد کے لئے شد رحال میں ہے ۔غیر کے لئے شد رحال ہر چند کے جا ئز ہے، لیکن اس میں کامل فضیلت نہیں ہے ۔اس کا یہ جواب بھی دیا گیا ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کے لئے نذر نہ مانے ورنہ پورا کرنا واجب نہیں ہے۔اس حدیث میں ان تین مساجد کے علاوہ شد رحال نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ تمام مساجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں ۔شہر بن حوشب اس حدیث کے راوی ہیں اگرچہ ضعیف بھی ہےلیکن ان کی یہ حدیث حسن ہے۔ ابن حجر عسقلانی (852ھ) لکھتے ہیں:
"وشھر حسن الحدیث وان کان فیہ بعض الضعف"16
آئمہ ثلاثہ کے نزدیک ان مساجد کے علاوہ اگر کو ئی جانے کی منت مانے تو اس کو پورا کرنا واجب نہیں ہے ۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک تو مطلقا واجب نہیں ہے ۔ہاں عصر حاضر کے مطابق مساجد کی سیر و تفریح کے لئے رخت سفر باندھنا اور نماز وغیرہ کا مطلقا خیا ل نہ رکھنا جیسا کہ فی زمانہ دستور ہو چکا ہے کہ لوگ اسلام آباد فیصل مسجد کی سیر و تفریح کے سلسلے میں آتے ہیں اور احکام اسلامی کی مطلقا پروا نہیں کرتے ہیں۔ ایسے انداز میں سفر کی اجازت کجا ہے؟ جبکہ مقصد ہی سیر و تفریح ہے ۔اس کے علاوہ اسلامی اشاعت، کا ر حیات کے امور ، سماج ،معاشرہ اور معاشرت کو ایک ڈگر پر چلانے کے لئے وعظ و نصیحت کے لئے سفر، کاروبار اور ملازمت کے لئے سفر ،دوستوں کی عیادت اور زیارت اور صالحین کی صحبت کے لئے سفر اس حدیث کی نہی میں مراد نہیں ہیں ۔
بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
" اما قصد غیر المساجد من الرحلۃ فیطلب العلم فی التجارۃ والتنزہ وزیارۃ الصالحین والمشاھد وزیارۃ الاخوان ونحوذالک فلیس داخلافی النھی"۔17
جمہور فقہاء نے زیارت قبر رسول ﷺ کی بابت قرآن و سنت اور امت کے علماء کے اقوال و افعال سے استدلال کیا ہے ۔اس بابت اللہ جل جلا لہ کے اس قول سے استدلال کیا جاتا ہے ۔
"ولوانھم اذ ظلموا انفسھم جآءک فاستغرواللہ واستغفرلھم الرسول لوجدواللہ توابارحیما"18
اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ یہ آیت آپ ﷺ کی زیارت کے حکم میں عمومیت رکھتی ہے۔ابن تیمیہ ؒ کے سوا کوئی بھی مسلمان نہیں گزرا ہے جس نے یہ تصریح کی ہو کہ بارگاہ رسالت ﷺ کی یہ حاضری آپ ﷺ کی ظاہری حیات طیبہ ہی کے ساتھ خاص اور مقید ہے۔19
اس کے علاوہ جمہور فقہاء نے ان احادیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ جن میں خود رسول اللہ ﷺ بقیع ، شہدائے احد اور اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لئے گئے تھے۔20علاوہ ازیں جمہور فقہاء نے قبر رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لئے ان تمام احادیث سے استدلال کیا ہے جس میں زیارت کا لفظ صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ان درجنوں احادیث میں سے ایک حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ:
"من حج فزار قبری بعد وفاتی کانما زار فی حیاتی"۔ 21
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی"۔
اس انداز میں بہت ساری احادیث ہیں جن میں لفظ زیارت کی صراحت ہے تو جمہور کا قول ہے کہ ان احادیث میں لفظ زیارت کی صراحت کم از کم اس عمل کے مندوب ، مستحب اور مرغوب لازم پردلالت کرتی ہے ۔
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز ادا فرما رہے تھے"۔22
اس حدیث سے یوں استدلال کیا گیا ہے کہ انبیاء علیھم السلام اپنی قبروں میں ذکر ، نماز اور عبادت و غیرہ میں مصروف رہتے ہیں ۔ اس حدیث میں صراحت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زیارت فرمائی ۔اگر زیارت کرنا مقصود نہ ہو تا تو موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرنے کا کیا معنیٰ ہو گا۔اس لئے اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کی قبر کی زیارت درست اور صحیح ہے۔
امام شوکانی لکھتے ہیں:
"زیارۃ قبرہ ﷺ من السنن الواجبۃ"،"ولم ینقل ان احدا انکر ذالک علیھم فکان اجماعا"23
"آپ ﷺ کی قبر اطہر کی زیارت سنن واجبہ سے ہےاس کے جواز اور استحباب پر تمام حضرات کا اجماع ہے"۔
ابن تیمیہ ؒ نے اپنے تفرد کے استدلال میں ایک دوسری حدیث سے بھی استدلال کیا ہے ۔خیر الدین بن محمود بن آلوسی لکھتے ہیں:
"انہ لم یمنع الزیارۃ مطلقا بل منع السفر للزیارۃ بحدیث لا تشد الرحال وبحدیث لاتتخذوا قبری عیدا"۔24
"ابن تیمیہ نے مطلقا ً زیارت سے منع نہیں کیا ہے بلکہ شد رحال اور میری قبر کو عید نہ بنانا حدیث کے پیش نظر زیارت کے لئے سفر کرنے سے منع ہے"۔
اس حدیث سے ابن تیمیہؒ کا استدلال یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ میری قبر کو عید نہ بناؤ تو پھر اگر تمام اطراف و اکناف سے لوگ اپنے کجاوے کس لیں تو آپ ﷺ کی قبر پر ایک عید اور ایک میلہ کا سامان بن جائے گا ،اور اس سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے کلام کا مفہوم اور معنیٰ یہ ہے کہ عید سے مراد وہ عید ہے کھیل کود ، اور خوردو ونوش کے وہ تمام سامان مراد ہیں جو بسا اوقات لہو و لعب تک کشید کر جاتے ہیں۔اور ظاہر و باہر ہے کہ یہ ساری چیزیں اس ذات کی بارگاہ میں مطلقا ًدرست اور صحیح نہیں ہیں جو رفیق اعلیٰ کے قرب میں ہیں۔یہ تمام امور تو مؤمن کی قبر پر بھی درست اور صحیح نہیں ہیں ۔چہ جائیکہ امام الانبیاء ﷺ کے شایان شان ہوں۔
جمہور فقہاء نے اپنے استدلال اور دلائل میں بکثرت ان احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں زیارت کا لفظ صراحت سے موجود ہے جس سے سفر زیارت پر استدلال صراحت سے ہو جاتا ہے۔ان تمام احادیث جن میں لفظ زیارت موجود ہے۔اس کے متعلق ابن تیمیہؒ کی رائے بالکل واضح ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی ایسی شئے نہیں ہے جو استدلال کےجواز کے لائق ہو۔ بلکہ وہ تمام مستدل ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں۔اصحاب میں سے کوئی معلوم نہیں ہوا ہے جس نے زیارت قبر کا حکم کیا ہو اور یہ لفظ تو ان کے ہاں معروف و مشہور بھی نہیں تھا۔ابن تیمیہ (728ھ) لکھتےہیں :
"لیس فی ھٰذا الباب مایجوزاستدلال بہ بل کلھا ضعیفۃ بل موضوعۃ۔۔۔ بل ولا عرف عن احد من الصحابۃ انہ تکلم بلفظ زیارۃ قبرہ البتۃ فلم یکن ھٰذا اللفظ معروفاً عندھم۔25
من جملہ احادیث کے ضعف اور موضوعیت کے اس حکم پر جمہور کی طرف سے یہ نقض وارد کیا گیا ہے کہ ابن تیمیہؒ کا تمام احادیث کو یک جنبش ضعیف اور موضوع کہنا ان کا تحکم ہے۔ ان احادیث کے بارے میں جرح مبہم ہے اور مفصل نہیں ہے۔اس کے علاوہ حدیث کے درجات کے تما م احکام کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ جبکہ اس معاملہ میں ضعیف حدیث درجہ حسان میں آجاتی ہے اور اس کے علاوہ فضا ئل میں ضعیف احادیث کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔
"قال العلماء من المحدثین والفقھاء وغیرھم یجوز ویستحب العمل فی الفضائل والترغیب والترھیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعاً"26
خلاصہ بحث:
زیارت قبر رسول ﷺ کے مسئلہ میں فریقین کے دلائل و براہین سے بات واضح ہو چکی ہے کہ اس مسئلہ میں جمہور کا مؤقف اپنے دلائل کی قوت کی وجہ سے راجح ہے ۔اس کے مقابلہ میں فریق آخر کے دلائل کا مناقشات اور کثرت نقول کی وجہ سے کمزور ہونا خود ہی ظاہر ہو جاتا ہے۔علاوہ ازیں اس مسئلہ میں امت کا اجماع ہے کہ قبر زیارت رسول ﷺ کی خاطر سفر مستحب ، مندوب اور مرغوب ہے۔اس اجماع کے مقابل فرد واحد کے مؤقف کو ترجیح دینا بھی بہت سارے مسائل کے لئے دروازہ کھولنا ہے اور افتراق و انتشار کی کھائی میں جا گرنے کے برابر ہے ۔
قرین قیاس اور پرانصاف بات یہ ہے کہ دونوں فریق دلائل میں کسی طرح سے بھی ایک دوسرے سے پیچھے نہیں ہیں ۔ابن تیمیہؒ کے دلائل میں ایک ضعف یہ رہ جاتا ہے کہ آپ مالہ اور ما علیہ کی مطلق پروا کئیے بغیر ظاہر ی معنی پر ہی اپنا مؤقف اختیار کرلیتے ہیں ۔جبکہ دوسرے لوازمات اور مباحات جو ان احادیث سے ثابت شدہ اور مشروع ہوتے ہیں ،ان سے قطعی طور پر صرف نظر کرلیتے ہیں۔عامہ مسلمین کی قبروں کی زیارت آپ کے ہاں مسلم ہے ۔جبکہ شد رحال کے ظاہری معنی کی بنا پر آپ قبر رسول ﷺ کے بارے میں ایسا مؤقف اختیار کرلیتے ہیں جو آپ کے تفردات میں سے سب سے زیادہ مشہور تفرد اور اختیار ہے۔ جس کی بنا پر آپ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا ہے اور تفسیق و تکفیر اور تضلیل کے الزامات آپ پر وارد کئے گئے۔27آپ کی علمی و جاہت ووقار کے اعتراف کے باوجود اس مسئلہ کو آپ سے منقول مسائل میں سے زیادہ ناپسندیدہ مسئلہ کہا گیا ۔28اور اس کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ میں آپ کو خاطی کہا گیا ۔29
ابن تیمیہؒ میں انانیت ، نفسانیت اور تعصب کے عدم اعتراف کے باوجود یہ عین حقیقت ہے کہ ابن تیمیہؒ اس مسئلہ میں شدت کی راہ پرچل نکلے ہیں ۔حالانکہ یہ مسئلہ نہایت جذباتی ہے اور ہمارے خیال میں قائلین کے دلائل میں جذباتیت کا عنصر بھی کہیں نہ کہیں موجود اور مذکور ہے۔آپ کی شدت اور تشدد نے اس خالص دینی مسئلے کو دین سے نکال کر جذبات کے دائرے میں لاکھڑا کیا ہے اور ایک سادہ لوح مسلمان کے جذبات کو ٹھیس ضرور پہنچتی ہے کہ ابن تیمیہ کی طرف سے قول ہو کہ اس سفر زیارت کا کسی کو بھی فائدہ نہیں ہے ۔ اور اس جذباتی مسئلہ میں جذبات کا ایک سمندر امنڈتا چلا آیا ہے اور شدت کے اسی جذبہ میں اس سفر کو شرک کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دئیے جانے کے فتویٰ کو مشہور داعی توحیدمحمد بن عبد الوھاب نجدی کے پوتے عبد الرحمٰن بن حسن اعظم (1193۔1285ھ) بیان کرتے ہیں:
"و فی الحدیث دلیل علیٰ منع شد الرحال الیٰ قبرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والیٰ غیرہ من القبوروالمشاھد لان ذالک من اتخاذھا اعیادا بل من اعظم اسباب الاشراک باصحابھا وھٰذہ ھی المسالۃ التی افتیٰ فیھا شیخ الاسلام افتیٰ من سافر بمجرد زیارۃ قبور الانبیاء، والصالحین "۔30
بایں ہمہ ابن تیمیہ ؒ کے علمی وقار اور وجاہت کے پیش نظر ابن تیمیہ جن مسائل میں مصیب ہیں۔ان میں ان کے لئے دو اجر ہیں اور جن مسائل میں غیر مصیب ہیں ان میں بھی ماجور ہیں ۔اس بابت علامہ ابن حجر (852ھ) کی یہ حق بات قول فیصل کا درجہ رکھتی ہے:
"فالذی اصاب فیہ وھوالاکثر یستفاد منہ و یترحم علیہ والذی اخطا فیہ لا یقلد فیہ بل ھو معذور"۔31
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1Abu Al-Tayyib Muhammad ‘Atā’ullah Bh ūjiyanī, Hayāt Sheikh al-islām Ibn e Teimiyyah (Lahore: Maktabah Salfiyah1971 A.D), 5.
2 ‘Allāmah Muhammad Iqbāl, Bāl-e-Jibrīl, Kuliyyāt e Iqbāl (Lahore: ‘Ilm o ‘Irfān Publishers), 426.
3Abu al-kalām āzad, Tazkirah, Murattab: Mālik Rām (Lahore: Maktabah Jamāl, 2014 A.D), 250.
4 Āzad, Tazkirah, 179-180.
5 Ibne Teimiyyah, Majmū‘, 27:26,27.
6 Muwaffiq al-Din Ibn-e-Qudāmah, Al-Mughnī ‘Alā Mukhtasar li abī al-Qāsim bin Hussain bin ‘Abdullah Al-Kharqī (Eygept: Maktabah Al-Qāhirah, 1389 A.H), 3:477.
7 Muwaffiq al-Din Ibn-e-Qudāmah, ‘Umdat ul-Fiqh fi al-madhab al-hanblī, Tahqīq: Ahmad Muhammad ‘Azūz (Beirūt: Maktabah al-‘Asriyyah, 1423 A.H), 51.
8Abī Ishāq Ibrāhīm bin ‘Ali bin Yūsuf, Al-Muhazzab fi Fiqh al-Imām al-Shāfi‘ī wa bi zeilhī Sahā’ifhī al-nazm al-musta‘zab fi sharh Gharīb al-Muhazzab, Tehqīq: Muhammad bin ahmad bin Bitāl (Beir ūt: Dār al-M‘rifah, S.N), 1:240.
9Abī Yahyā Zakriyyā al-ansārī, Fath al-wahhāb bi sharh e Manhaj al-Tullāb (S.M.N), 1:149.
10Abi al-Fadl Qāzī Ayyāz, Al-Shifā’ bit‘rīf Haqūq al-Mustafā, Tahqīq: ‘Abd al-salām Muhammad Amīn (Beirūt: Dār al-kutub al- ‘lmiyyah, 2002 A.D), 2:53.
Abi al-Fadl Qāz ī Ayyāz, Al-Shifā’ bi ta‘rīf Haqūq al-Mustafā (Multan: ‘Abd al-Tawwāb Academy, S.N), 2:68.
11Al-Nahl 16: 122.
12 Abu ‘Abdullah Muhammad bin Ahmad bin abī bakr Al-Qurtabī,, Al-jām‘ li ahkām al-Qur’ān, Tahqiq: ‘Abdullah bin ‘Abd al-Muhsin (Beir ūt: Mu’assisat al-risālah, 2006 A.D), 12:458.
Sayyed Mahmūd Sayyed Sabīh, Akhtā’ Ibn e Teimiyyah Fi Haqq Rasūlillāh wa ahl-e-Beitihī (Beirūt: Dār Zain Al- ‘Âbidīn, 2010 A.D),205.
13 ‘Ali bin sultān Mahmūd ‘Ali al-Qārī, Al-shifa’ , Researcher: ‘Abdullah Muhammad al-khalīlī (Beirūt: Dār al-kutub al- ‘lmiyyah, 2007 A.D), 2:152.
14Ahmad bin Muhammad Al-Tahāvī, Hāshiyah al-tahāvī ‘Alā Mirāqī sharah Nur al-īdhah (Beirūt: Dār al-kutub al- ‘lmiyyah, 1997 A.D), 745.
15 Al-Bukhari, Al-Jam‘I Al-Ṣaḥīḥ, 158.
16 Ahmad bin ‘Alī bin Hajar Al-‘Asqalānī, Fath al-bārī Sharah Sahīh Bukhārī, Tahqīq: ‘Abd al-Qādir (Riyādh: Maktabah al-malik al-fahad, 1421 A.H), 3:79.
17Abu Muhammad Mahmūd Badar al-Din Al-‘Aeinī, Sharah Sahīh Bukhārī, Tahqīq: ‘Abdullah Mahmūd (Beirūt: Dār al-kutub al- ‘lmiyyah, 1421 AH), 7:370.
18Al-Nisā’ 4:64.
19Sayyed Mahmūd Sayyed Sabīh, Akhtā’ Ibn e Teimiyyah Fi Haqq Rasūlillāh wa ahl-e-Beitihī, 148.
20 ‘Alī bin Umar Dār al-Qutnī, Al-Sunan, Tahqīq: ‘Ādil Ahmad ‘Abd al-mawjūd (Beirūt: Dār al-M‘rifah, 1422 A.H), 2:233.
21 Ibn e Qudāmah, Al-Mughnī, 477/3.
22Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Saḥīḥ, (Riyādh: Dār al-Islām, 1429 A.H), Hadīth No. 2375.
23Muhammad bin ‘Ali bin Muhammad al-shawkānī, Nīl al-awtār min Asrār muntaqī al-akhbār, Takhrīj: Muhammad Subhī bin Hasan Hallāq (Sa‘udiyah: Dār ibn al-Jawzī, 1427A.H), 9:418.
24Kheir al-Din Nu‘mān bin Mahmūd ālūsī, Jalā’al-‘aein bi muhākimat al-ahmadein ibn e Teimiyyah, Tahqiq: Al-Dānī bin Munīr (Beirūt: Al-Maktabah al-‘asriyah, 2006 A.D), 494.
25Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Hal īm Ibne Teimiyyah, Al-akhnā’iyyah aw al-radd ‘alā al-akhnā’ī, Tahqīq: Ahmad bin Mūnas al-‘anzī (Jaddah: Dār al-khizr, 1420 A.H), 253.
26Al-Nawvī, Al-Azkār al-muntakhabat min kalām sayyed al-abrār, Takhrīj: Ahmad Ibrāhīm Zahvah (Beirūt: Dār al-kutub al-‘arbī, 2006 A.D), 10.
27 Al-Qārī, Sharah Al-shifa’, 2:152.
Ahmad Shahāb al-dīn bin Hajar Al-Makkī, Al-Fatāvā al-Hadīthiyah (Beirūt: Dār al-m‘arafah, S.N), 1114.
28Al-‘Asqalānī, Fath al-bārī, 3:79.
29Al-Sayyed Abi al-fadl Safī al-Dīn Muhammad bin Ahmad Hanfī, Al-Qawl al-Jalī fi tarjamah al-sheikh Taqi al-Din ibn e Teimiyyah (Madīnah: Dār Līnah Adhwā’ al-minār,S.N), 35.
30 ‘Abd al-Rahmān bin Hasan bin Muhammad bin ‘Abd al-Wahhāb, Fath al-Majīd Sharah Kitāb al-Tawhīd, Researcher: Al-walī bin ‘Abd al-Rahmān bin Muhammad āl faryān (Al-Riyadh: Dār al-mu’ayyad, 1423 A.H), 294.
31Al-Sayed Abi al-Hasan ‘Alī al-Hasnī al-Nadvī, Rijāl al-fikr wa al-da‘wah (Damishq: Dār al-Qalam, 2002 A.D), 2:145.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |