2
2
2021
1682060063651_3203
41-59
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/27/28
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/27
أ ﻷمِیر:جلد2؍ شمارہ 2 .. ( جولائی –دسمبر1 220ء) )45(
احادیث ِنزو لِ مسیح ابن مریم علیہما السلام میں قادیانیوں کی تاویلات کا تنقیدی جائزہ
A Critical Review of Interpretations of Qādiyānies in Aḥadīth of Nuzūl Al-Masīḥ Ibn e Maryam (علیہما السلام)
Dr. Hafiz Fareed-ud-din
The negation of the crucifixion and murder of Maseeh علیہ السلام and the ascension to heaven are mentioned in the Holy Qur'an and the revelation to the earth is mentioned in the authentic Ahadith. The Holy Qur'an and Hadith do not contradict each other on the ascension and revelation of Maseeh علیہ السلام. Mirza Ghulam Ahmed Qadiyani interpret those thirty verses of the Holy Qur'an are about the death of Maseeh علیہ السلام which have nothing to do with his death. The Hadiths of the revelation of Maseehعلیہ السلام benefit from the Holy Qur'an, not derived from any Ijtihad or Israelism. The word death is not mentioned for Essa علیہ السلام in the Holy Qur'an. It is not possible for the Hadith to describe the return of Essa علیہ السلام to earth before the Day of Judgment and let his death be mentioned in the Holy Qur'an. Otherwise, instead of stating the meaning of Holy Qur'an, the Hadith will contradict the Qur'an. The Qur'an mentions the ascension of Essa علیہ السلام to heaven and the Hadith describes the revelation to the earth. There is not a single Hadith that indicates that Essa علیہ السلام refers to Mirza Ghulam Ahmed of Qadian and his descent means that is born from the mothes’s womb, or it is a descent as buroz (بروزی).
Key Words: Masīh, Nuzūl, Hadīth, Ascension, Descent, Burūz, Interpretations.
تعارف
احادیثِ نزولِ مسیح میں حضرت عیسٰی ابن ِ مریم ؑ کے آسمان سے اُسی جسد عنصری کے ساتھ نازل ہونے کی خبر ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہود کے زعمِ قتل وصلیب سے بچاکر ز ندہ آسمان پر اُٹھا لیا۔مرزا غلام احمد قادیانی کا نظریہ ہے کہ "عیسٰی ؑ کو صلیب پر چڑھا یا گیا پھرزندہ اُتار کر بعد ازاں طبعی موت دی گئی، آسمان پرجسم مع الروح کے ساتھ نہیں اُٹھائے گئے بلکہ صرف اُن کی روح کو آسمان پر اُٹھا کر رفع درجات کیا گیا۔ احادیث ِنزول میں عیسٰی کے مثیل یا بروزی طور پر نزول کا ذکر ہے اور وہ میں ہوں، لہٰذا میں مسیح موعود ہوں"۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت نے احادیثِ نزولِ مسیح میں تاویلاتِ فاسدہ سے کام لیا ہے۔ ذیل میں چند تاویلات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جس سے واضح ہو جائے گا کہ حضرت عیسٰی ابن ِ مریم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے جسد عنصری کے ساتھ زندہ طور پر آسمان پر مرفوع فرما یا اور وہی عیسٰی ابنِ مریم ؑ آسمان سے قرب قیامت نزول فرمائیں گے جن کا ذکر احادیث مبارکہ میں نشانیوں کے ساتھ فرمایا گیا ہے۔
رفع و نزولِ مسیح ابن مریم ؑ بجسدہ العنصری
حضرت عیسٰی ابن مریم ؑ کی نفی مصلوبیت و قتل اور رفع الی السماء کا ذکرقرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیات 157 اور 158میں اور نزول الی الارض کا ذکر احادیث ِ صحیحہ و متواترہ میں ہے۔ قرآن و حدیث رفع و نزولِ عیسیٰؑ پر باہم متعارض نہیں ہیں۔ قادیانی ، صریح احادیثِ نزولِ مسیحؑ میں تاویل کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کریم شہادت دیتا ہے کہ عیسٰی ابن مریمؑ طبعی موت مر چکے ہیں اور جو مر جاتے ہیں دوبارہ دنیا میں لوٹ کر نہیں آتے۔لہٰذا اس تعارض کے دفع کے لیے تاویل کر نا ضروری ٹھہرتا ہے ۔حالانکہ اصول ثلاثہ یعنی قرآن ، حدیث او راِجماع میں حقیقی تعارض و اختلاف ہر گز ممکن نہیں۔ جب احادیثِ متواترہ اور اِجماع اسی عیسٰی ابن مریمؑ کے رُجوع پر صراحۃ ً ناطق ہیں تو ضرورآیاتِ قرآنیہ کامعنی بھی وہی صحیح ہو گا جو سنت اور اِجماع کے مخالف نہ ہو۔ نیز یہ کہ اول یعنی تاویل کرنے والا اگر حدیث کو صحیح الثبوت و مسلم المرادجان کر تاویل کرتا ہے تو وہ تحریف کے الزام سے کسی طرح بَری نہیں ہوسکتا۔ قادیانی لوگ آنحضرت ﷺ کے معنیٰ مراد کو عمداً چھوڑ کر تاویل کرتے ہیں مرزاقادیانی نے اِلہام و کشف کو بھی لوگوں کے لیے دھوکہ و فریب بنایا تاکہ سادہ لوح اُردوخواں اس کے دام میں پھنس سکیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں قرآن مجید کی اُن تیس آیات کوحضرت عیسیٰ ؑ کی موت کے بارے میں قرار د یا ہے جو اُن کی موت سے بالکل ہی تعلق نہیں رکھتیں ۔ احادیثِ نزولِ مسیح ؑ قرآن سے مستفاد ہیں ، کسی اجتہاد یا اسرائیلیات سے ماخوذ نہیں ۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑ کے لیے موت کا لفظ ذکرہی نہیں ہوا ۔ قرآن و حدیث کے درمیان شرح ومتن کی نسبت ضروری ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ احادیث میں عیسٰیؑ کے رجوع و نزول الی الارض کی تصریح ہو اور قرآن مجید میں اُن کی موت کا ذکر ہو ، ورنہ حدیث مرادِ قرآن کو بیان کرنے کی بجائے قرآن کے مناقض ہو جا ئے گی ۔قرآن وحدیث کے درمیان اُسلوب ِلفظی میں منافرت کا پایا جانا بھی بہت بڑا نقص ہے ۔ اس لیے قرآن کے اُسلوب کی اِتباع حدیث کو لازم ہے ۔ رفع و نزولِ عیسیٰ ؑ میں قرآن و حدیث کے درمیان صنعت ِطباق ہے کہ قرآن نے عیسٰیؑ کے رفع الی السماء کا ذکر کیا اور حدیث نے اس کے بالمقابل نزول الی الارض کو بیان کیا ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ نزول سے وہ معنی مراد ہیں جو مصداق رفع کا مقابل ہوں۔یعنی عیسٰی ابن مریم ؑ کا جسدِ عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھایا جانا اور اُسی جسدِ عنصری کے ساتھ زمین پر اُترنا۔کسی ایک حدیث میں یہ اشارہ تک بھی نہیں ملتا کہ حضرت عیسیٰؑ سے مراد قادیان کا مرزا غلام احمد ہے اور اُن کے نزول سے مراد اس کا شکم مادر سے پیدا ہونا ہے یا بُروزی نزول ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے قیامت تک کی تمام نشانیاں امت کو بتا دی ہوں اور نزول ِعیسٰیؑ کے متعلق اُمت کو دھوکہ میں رکھا ہو ؟مرزا قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا کہ:
" اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریحیت میں ، میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشو نما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصے چہارم میں ہے کہ مریم کی طرح عیسی ٰ کی روح مجھ میں پھونکی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخری مہینہ کے بعد جو دس مہینہ سے زیادہ نہیں بذریعہ الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 پر درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پھر اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔ [1]نیز یہ لکھا کہ میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ اور اسی نے مسیح موعود کے نام سے پکار ا ہے اور اس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں۔ جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں"۔[2]
مرزا قادیانی نے آیات: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ [3] اور مَّا ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ[4] میں خَلَتْ کے معنی ماتت اور ٱلرُّسُلُ کا لام استغراقی مراد لیتے ہوئے اپنی اس تفسیر دانی پر نازاں ہوکر وفاتِ مسیح کو منصوصی اور مَجمع علیہ ٹھہرایا ۔ جس کی علت غائی یہ تھی کہ احادیث ِ نزولِ مسیح میں میری (قادیانی) بشارت ہے ۔ اگر ٱلرُّسُلُ میں لام استغراقی مراد لیا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ مسیحؑ سے پہلے سارے رسول مر چکے ہیں حالانکہ آنحضرت ﷺ اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے۔لہٰذا آیات مذکورہ میں ٱلرُّسُلُ کا لام استغراقی نہ ہوا تاکہ مسیح کی وفات پر دلالت کر سکے۔بلکہ ٱلرُّسُلُ میں لام کا جنسی ہونا متعین ہے اور خَلَتْ بمعنی مضت لغت اور شہادت نظائرسے ثابت ہے؛ جیسا کہ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ[5]اوراَلْاَيَّامِ الْخَالِيَۃِ[6]میں ہے ۔
مرزاقادیانی کا نظریہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ صلیب سے زندہ اُتار لیے گئے اور بعد ازاں تبلیغ کے سلسلہ میں کشمیر کی طرف آئے اور طبعی طور پر فوت ہو کر سری نگر کشمیر میں مدفون ہوئے، جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر نہیں اُٹھائے گئے بلکہ روحانی طور پر رفع الدرجات ہوئے۔ نیز یہ کہ اگر آسمان پر اُٹھا بھی لیے گئے ہوں تو بوجہ پیر فرتوت ہو جانے کے اُن کا نزول عبث ہے ۔ دلیل کے طور پر آیت:وَمِنکُم مَّن یُتَوَفَّی وَمِنکُم مَّن یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئا(الحج 22 : 5)سے مراد لیا کہ :
" بعض تم میں سے عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں اوربعض عمر طبعی کو پہنچتے ہیں۔ یہاں تک کہ ارذل عمر کی طرف ردّ کئے جاتے ہیں اور اس حد تک نوبت پہنچتی ہے کہ بعد علم کے نادان محض ہوجاتے ہیں۔یہ آیت بھی مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اگر زیادہ عمر پاوے تو دن بدن ارذل عمر کی طرف حرکت کرتا ہے یہاں تک کہ بچے کی طرح نادان محض ہوجاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے"۔[7]
حالانکہ قرآن مجید مصلوبیت و قتل ِعیسٰی ؑ کی نفی کرتا ہے۔ مرزا قادیانی کا یہ ترجمہ و تشریح بالکل غلط اور تحریف قرآنی ہے ۔ اس آیت سے عیسٰی ؑ کی وفات پر استدلال بالکل لغو اور باطل ہے۔ علماءِ اسلام نے قادیانی کے اِن باطل نظریات کی دلائل ِقاطعہ و براہینِ ساطعہ سے تردید فرمائی ہے ۔ احادیث ِ نزول مسیح ؑ سے مرزا قادیانی اور مولوی احسن امروہی نے جو تاویلات فاسدہ کی ہیں اُن کا تنقیدی جائزہ مختصر طور پر پیش ہے:
علاماتِ نزولِ مسیح ابن مریم ؑ
مرزا قادیانی نے اپنے دعویٰ مسیحِ موعود ہونے پر حدیث بروایت نواس بن سمعان کے حصہ "فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق"[8] میں دمشق سے قادیان مراد لیا ہے اور مجازی طور پر خود کو عیسٰی ؑ کا مصداق ٹھہرایا ہے۔ [9]نیز وہ حدیث جس میں خسوف اور کسوف کارمضان مبارک کے مہینہ میں جمع ہونا نزول ِمسیح کی علامت فرمائی گئی ہے،سے استدلال کیا ہے کہ:
" میرے دعویٰ کے ثبوت میں یہ دونوں باتیں جمع ہوگئیں"۔ [10]
مولوی احسن امروہی نے لکھا ہے کہ :
" احادیث میں اجتماعِ سورج گرہن و چاند گرہن کا ماہ مبارک رمضان میں جو نشان صدق مہدی اسلام کا مندرج تھا جب کہ 1311ھجری میں واقع ہو ا تو تمام دنیا میں پیشتر وقوع ہی سے اُس کا شہر ہو گیا تھا۔ ہیئت دانوں اور منجموں نے پیشتر وقوع سے ہی اس کو شائع کر دیا تھا اور بعد از وقوع تو کوئی بستی بھی نہ رہی ہو گی جس میں اُس کا چرچا واقع نہ ہوا ہو۔ اب کس کی مجال ہے کہ اس کو مخفی کر سکے یا مثلاً حلیہ مسیح موعود جو احادیث میں آیا تھا، بذریعہ ہزار ہا رسائل و اشتہارات کے ایک عالم میں شائع ہو چکا ۔نیز لکھا کہ' قادیان کا جانب شرقی دمشق ہونا جو علم جغرافیہ سے ہم نے ثابت کر دیاہے۔ وہ تمام نقشہ جات میں لکھا ہواہے۔ کیا اب اس کو کوئی رد کر سکتا ہے "۔ [11]
یعنی امروہی نےبھی شرقی دمشق سے قادیان مراد لیا ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب ہے کہ دمشق کے مضافات جو شرق کی جانب واقع ہو۔ نہ یہ کہ ہزار ہا کوس کے فاصلہ پر جو کہ شرق میں واقع ہو وہ مراد لی جائے ۔پیر مہر علی شاہ ؒ نے امروہی کے اس دعوی کی تردید اپنی کتاب سیف ِچشتیائی میں کی ہے کہ:
"اگر دمشق سے خطِ مستقیم سیدھا جانب شرقی کو کھنچا جائے تو لاہور بلکہ جموں وغیرہ بھی راستہ میں نہیں پڑتا۔ نقشہ ایشیاء کے مطابق دمشق سے مشرق کی جانب اگر ایک خط مستقیم کھینچا جائے تو حسب ذیل مشہور مقامات تبریز، بحرہ خرزیاجیل، شمالی حصہ ترکستان سلسلہ کوہ الطائی ، صحرائے منگولیا، صوبہ منچوریا سے عبور کرے گا۔ جبکہ قادیان تو دمشق کے شمال میں واقع پڑتا ہے ۔ اب آپ اگر چشمِ حق بین کو کھول کر بنظرِ انصاف ملاحظہ کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ خط مذکور قادیان سے بجانب شمال ہزارمیل سے بھی زیادہ فاصلہ پر گزرتا ہے۔ پس مرزا قادیانی کو تو اس کی ہوا کا پہنچنا بھی ناممکن ہے ۔خط سیدھا عرفی طور پر چھوڑ دو اور کرویتہً ارض کا لحاظ کرو تو بھی دمشق اور قادیان ایک محاذات میں واقع نہیں ہوتے بلکہ قادیان سے بجانب شمال عبور کرے گا"۔ [12]
مہدی موعود کے ظہور کے لیے دو ایسی علامتیں بیان کی گئی ہیں جو ابتداء پیدائش آسمان و زمین سے کبھی واقعہ نہیں ہوئیں اور وہ یہ ہیں کہ رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا اور نصف رمضان میں کسوف آفتاب ہوگا ۔ اس حدیث میں الفاظلَأَوَّلِلَيْلَةٍمِنْ رَمَضَانَکاترجمہ ہے کہ رمضان کی پہلی رات میں خسوف (چاند گرہن) اور رمضان کے پندرھویں دن کو کسوف (سورج گرہن) ہو گا۔ یہ نزولِ مسیحؑ کی علامت نہیں بلکہ یہ ظہورِ مہدی ؑ کی علامت ہے ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
"إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ , يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ , وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ , وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ"[13]
احادیثِ نزول میں چونکہ مسیح ابن مریمؑ کا متعین المراد ہونا بشہادت سیاق و سباق و خصوصیات زمانِ مسیحؑ اظہر من الشمس ہے ۔ اسی لیے قُرونِ اول سے آج تک کے مسلمان احادیثِ نزول سے مسیح ابن مریمؑ ہی سمجھتے چلے آئے ہیں تو اس سے غلام احمد قادیانی مجاز اً ہر گز مراد نہیں لیا جا سکتا۔قادیانی دعویٰ "مسیح ِموعود " بالکل مردود ہے کیونکہ احادیث میں مسیحِ موعود اور مہدی موعود کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ قربِ قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے [14]نزول کے وقت آپ دو زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے [15]آپؑ کے سر پر ایک لمبی ٹوپی ہوگی [16]آپ ایک زرہ پہنیں گے [17]آپ چالیس سال دنیا میں قیام فرمائیں گے [18] ۔ اسی طرح امام مہدی کی نشانیاں بھی بیان فرما دیں کہ اُن کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا[19]آپ اہلِ بیت میں سے ہوں گے [20]اُن کی آنحضرتﷺ سے اخلاق میں مشابہت ہو گی ۔مال تقسیم کریں گے[21]نزولِ عیسیٰ کے وقت امام مہدی نماز کی امامت کرا رہے ہوں گے [22]امام مہدی وفات پائیں گے اور مسلمان ان کا نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ [23] یہ سب نشانیاں ابھی تک ظاہر ہی نہیں ہوئی ہیں۔
لَامَهْدِيَّ إِلَّاعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ کی تصریح
مرزا قادیانی کا اپنے مسیح ِموعود ہونے کے لیے دلیل قائم کرنا کہ مسیحِ موعود اور مہدی موعود ایک ہی شخص ہے، بالکل غلط ہے کیونکہ احادیثِ صحیحہ میں واضح طور پر درج ہے کہ مسیحِ موعود وہی ابنِ مریمؑ ہے جو خدا کا نبی ہے، اُن کے اور آں حضرت ﷺ کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوااور مہدی اہل بیت نبویؐ سے ہوگا۔ مرزا قادیانی بمعہ اتباع ، حدیث کے الفاظ "وَلَامَهْدِيَّ إِلَّاعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ , عَلَيْهِالسلام"[24]کے ساتھ متمسک ہے۔ مگر ان کا یہ استدلال بالکل ضعیف ہے کیونکہ خود ابن ماجہ ابی امامہ کی حدیث میں تصریح فرما رہے ہیں کہ"عیسیٰ کے نزول کے وقت بیت المقدس میں ایک رجل صالح نماز کی جماعت کرا رہا ہوگا کہ اتنے میں عیسیٰ کا نزول ہوگااور وہ امام پیچھے پاؤں پرہٹنا چاہے گا تاکہ عیسیٰؑ آگے بڑھے" [25] نیز یہ کہ یہ حدیث طویل کا ایک فقرہ ہے ، جو انقلاب و تغیر زمانہ کے بارہ میں فرمائی گئی اور ماقبل اس کے "وَلَاتَقُومُ السَّاعَةُإِلَّاعَلَى شِرَارِالنَّاسِ " (ہرگز قیامت قائم نہ ہوگی مگر شریر لوگوں پر ) موجود ہے۔ لہٰذا سیاق و سباق کے لحاظ سے معنی یہ ہوا کہ عیسیٰ ؑ کے علاوہ کوئی اور شخص ہدایت یافتہ نہ ہوگا ۔ یعنی قیامت کے نزدیک عیسیٰ بن مریم ؑ اور ان کے متبعین کے علاوہ سب شریر ہوں گے۔ لفظ "شرار" جمع ہے شریر کی،جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مہدی سے وصفی معنی یعنی ہدایت یافتہ مراد ہےنہ کہ بطور نام ۔
مسیح ابن مریم ؑ کا آسمان سے زمین پر اُترنا
مرزا قادیانی نے اپنے مکتوب میں دعویٰ کیا ہے کہ:
"اکثر اکابر امت اور آئمہ مسیح کے مرجانے کے قائل ہیں اور اس کی حیات پر اجماع نہیں بلکہ اس کی موت پر اجماع ہے اور صحابہ اور تابعین اور آئمہ اور تبع تابعین اس کی موت کے قائل ہیں۔ اور یہی مذہب مالک اور ابن حزم اور امام بخاری وغیرہ اکابر محدثین کا ہے ۔اور اسی پر اتفاق اکابر معتزلہ اور بعض اولیاء کرام کا ہے اور رجوع کا لفظ کسی حدیث نبوی میں نہیں ہے۔ اور آسمان سے نزول کا لفظ بھی نہ کسی حدیث میں آیا اور نہ متقدمین کے ملفوظات اور کلمات میں "۔[26]
درج ذیل روایا ت سے مرزا کے ان الزامات کی تردید ہو جاتی ہے اور اس بات کا اثبات ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان سے نزول فرمائیں گے اور مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے۔فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ :
"روی اسحاق بن بشیر وابن عساکر عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعند ذالک ینزل اخی عیسیٰ ابن مریم من السمآء" ۔[27]
"اسحٰق بن بشیر وابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرابھائی عیسیٰ بن مریم ؑ آسمان سے اُترے گا"۔
امام ابوحنیفہ کے قول میں نزولِ عیسٰیؑ من السماء کے الفاظ ہیں:
"وَخُرُوج الدَّجَّال ويأجوج ومآجوج وطلوع الشَّمْس من مغْرِبهَا ونزول عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام من السَّمَاء وَسَائِر عَلَامَات يَوْم الْقِيَامَة على مَا وَردت بِهِ الْأَخْبَار الصَّحِيحَة حق كَائِن "۔[28]
امام بخاری اور طبرانی نے عبد اللہ بن سلام سے روایت کیا کہ :
"عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: يُدْفَنُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَاحِبَيْهِ فَيَكُونُ قَبْرُهُ الرَّابِعُ"
" حضرت عیسیٰ ؑ حضرت محمد ﷺ کے قریب دفن ہوں گے اور یہ چوتھی قبر ہو گی روضۃ اطہر میں "۔[29]
لفظ " رجوع" کی درج ذیل حدیث سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ قبل قیامت رجوع الی الارض فرمائیں گے:
"قَالَ الْحسن: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم للْيَهُود: إِن عِيسَى لم يمت وَإنَّهُ رَاجع إِلَيْكُم قبل يَوْم الْقِيَامَة"۔[30]
لفظ " ہبوط" کا ثبوت درج ذیل روایات سے مل جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ قبل قیامت ہبوط الی الارض فرمائیں گے:
"عن أبيه عن أبي هريرة قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ليهبطن الله عز وجل عيسى بن مريم حكما عدلا وإماما مقسطا فليسلكن فج الروحاء حاجا أو معتمرا وليقفن على قبري فليسلمن علي ولأردن عليه "[31]
"عیسیٰ ابن مریم تم میں عادل حاکم بن کر زمین پر اُترے گا…… حج اور عمرہ کرے گا۔ میری قبر پر آکر ٹھہرے گا۔ مجھے سلام کرے گا میں اسکو جواب دوں گا"۔
امام حاکم نےاپنی مستدرک میں حدیث معاہدہ (جس کو امام احمد نے اخراج کیا ہے) کے آخر میں کہا ہےکہ:
"فَذَكَرَ مِنْ خُرُوجِ الدَّجَّالِ، فَأَهْبِطُ فَاقْتُلُهُ "[32]
زریب بن برتملا وصی عیسیٰ والی حدیث طویل جس کو ابن عباس نے روایت کیا ہے ، اس میں "إِلَى حِينِ نُزُولِهِ مِنَ السَّمَاءِ"کے الفاظ موجود ہیں۔زریب بن برتملا وصی عیسیٰ نے (جو اب تک کوہ حلوان میں زندہ ہے )نضلہ بن معاویہ کو عیسیٰؑ کے آسمان سے نازل ہونے کی خبر دی۔[33] اور ازالۃ الخفاء [34]باب مکاشفا ت امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ میں بھی موجود ہے۔
امام بخاری نے کتاب الانبیاء میں ایک باب بعنوان" باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام " مرتب کیا جس میں دو ا حادیث بروایت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نقل کی ہیں:
" عَن أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ المَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ، وَيَوْمَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا" [35]
"ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا خدا کی قسم عنقریب ابن مریم (علیہ السلام) تم میں اتریں گے حاکم عادل ہو کر پھر وہ (عیسائیوں کے معبود) صلیب کو توڑ دیں گے۔ اور خنزیر کو قتل کرا دیں گے اور (بوجہ غلبہ اسلام) جہاد موقوف کر دیں گے۔ اور مال اتنا فراواں ہو جائے گا کہ کوئی شخص قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ ساری دنیا کی نعمتوں سے بہتر ہو گا۔ پھر ابو ہریرہؓ نے کہا۔ تم اس کی تصدیق چاہتے ہو تو پڑھ لو یہ آیت کہ ہر ایک اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنےسے پہلے ان پر ایمان لائے گا اور دن قیامت کے ان پر گواہ ہو گا"۔
" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ، وَإِمَامُكُمْ مِنْكُم" [36]
"حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم کیسے (اچھے حال میں) ہو گے جب تم میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام (سلطانِ وقت) تمہیں میں سے ایک ہو گا"۔
درج بالاتفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث میں نزولِ عیسیٰؑ کے لیے من السماء ، رجوع اور ہبوط کے الفاظ موجود ہیں ۔ ان احادیث میں آسمان سے نازل ہونے کی تصریح خود آنحضرتﷺ کے الفاظ طیبہ میں موجود ہے۔ یعنی آپ ؑ ابھی تک زندہ ہیں ۔ مرزا قادیانی کی طرف سے صحابہ وتابعین ، اکابر امت اور ائمہ محدثین وغیرہ پر وفات مسیح کے عقیدہ کا الزام بالکل لغو اور باطل ہے۔
نزولِ مسیح ابن مریم ؑ بعینہٖ لا بمثیلہٖ
احادیث نزول عیسٰیؑ سے نزول بعینہ ٖ مراد ہے۔ کسی بھی حدیث میں عیسیٰ ؑ کے بروزی نزول کی خبر نہیں ہے۔ امت کا اجماع عقیدہ نزولِ عیسیٰؑ بعینہٖ پر ہے۔ چنانچہ حدیث:
"قَالَ الْحسن: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم للْيَهُود: إِن عِيسَى لم يمت وَإنَّهُ رَاجع إِلَيْكُم قبل يَوْم الْقِيَامَة" [37]
"یعنی آنحضرت ﷺ نے یہود کو مخاطب کر کے فرمایا کہ بے شک عیسیٰؑ نہیں مرا اور یہ بھی محقق ہے کہ وہ لوٹنے والا ہے تمہاری طرف قیامت کے دن سے پہلے"۔
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کی نزول عیسٰی پر پیشن گوئی صریح طور پر ہے لیکن قادیانیوں کی طرف سےیہ شبہ پیدا کیا جاتا ہے کہ:
"ممکن ہے کہ لفظ رَاجعسے مراد عیسیٰ کا رجوع بروزی طور پر بصورت قادیانی ہو ۔ امر وہی نے تاویل کی کہ لم يمتکا مطلب ہے کہ حضرت عیسیٰ سولی پر نہیں مرے"۔[38]
حالانکہ لم يمتکے بعد کا فقرہ وَإنَّهُ رَاجع إِلَيْكُماُسی عیسیٰ کو جس کا ذکر آنحضرت ﷺ نے یہود سے کیا تھا، دوبارہ دنیا میں لاتا ہے۔ اس سے مرزا غلام احمد قادیانی کیونکر مراد لیا جا سکتا ہے؟ نیز یہ کہ مرزا قادیانی تو بُروزِ عیسویؑ اور بُروزِ محمدی ؐ دونوں کا مدعی ہے ۔عجیب بات ہے کہ آپ ﷺ نے عیسوی رجوع بصورت قادیانی کا ذکر تو احادیث میں فرمایا ہو اور اپنے رجوع ِبروزی بصورت قادیانی کے لیے ایک حدیث میں بھی اعلام نہ فرمایا ہو ؟لہذا واضح ہوا کہ عیسٰیؑ کا رجوع بروزی نہیں بلکہ رجوع بعینہٖمراد ہے۔ حدیث کے الفاظ وَإنَّهُ رَاجع إِلَيْكُم سے اگر بروزی رجوع مراد لیا جائے تواس سے پہلے حدیث کے الفاظ إِن عِيسَى لم يمتبے ربط ہو جائیں گے۔ کیونکہ وہ تو موت کے واقع ہونے پر ہی ہو سکتا ہے ۔نیز رَاجع إِلَيْكُم سے بروزفی القادیانی تب مراد لیا جا سکتا ہے جب مرزاقادیانی یہود میں سے ہو ۔ کیونکہ آپ ﷺ یہود سے مخاطب ہو کر وَإنَّهُ رَاجع إِلَيْكُمفرما یا ۔لہٰذا رَاجع سے یہی ثابت ہوا کہ عیسی ابن مریمؑ خود ہی دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
مولوی احسن امروہی نے آیات و احادیث میں تاویلات ِفاسدہ کی کہ احادیث میں نزول سے مراد بروز ی نزول ہے اور مرزا قادیانی حضرت مسیح ؑ کا بروزہے، دلیل یہ دی کہ:
"قرآن مجید میں ہر ایک مومن کو مثیل مریم فرمایا گیا ہے قال اللہ تعالیٰ: وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًاالی قولہ تعالیٰ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا[التحریم 66 :11-12] جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک مومن مثیل مریم ہے تو مومن کی اولاد ابن مریم ہوئی اور نیز حدیث: عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَبھی موجود ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو آں حضرت ﷺ نے ایک ادنیٰ سی وجہ شبہ سے مثیلِ عیسی قرار دیا ہے تو اس مجدد عظیم الشان (قادیانی) باوجود مشابہت تامہ کے مثیلِ مسیح کیوں نہ قرار دیا جاوے"؟ [39]
اصطلاحی طور پر بروز کا مطلب ہے کہ" ایک شخص کامل کی روح دوسرے شخص مبروز فیہ میں بصفات خود ظہور کرے"۔ اگر احادیث نزولِ عیسٰی ؑ سے نزولِ بروزی غلام احمد قادیانی میں مراد ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حضرت عیسٰیؑ بصورت غلام احمد قادیانی متولد ہوئے یا قادیانی میں ظاہر ہوئے ۔ پہلی صورت میں عیسٰیؑ اور قادیانی کا شخص واحد ہونا لازم آتاہے اور دوسری صورت میں ایک بدن میں دوروح کا ہونا لازم آتا ہے جو مناقض ہے قواعد ِحشر و نشر کے اوربالکل باطل ہے ۔سورۃ التحریم کی آیت کو مسئلہ بروز سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس سے تو صرف اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر مومن مثیل فرعون کی عورت اور مریم کا ہے۔ اور یہ مماثلت بھی قادیانی کے مدعا کو مفید نہیں۔ کیونکہ محل بحث یعنی حدیثِ نزول میں امروہی نے ابن ِمریمؑ سے غلام احمد قادیانی اس خیال پر مراد لیا ہےکہ آں حضرت ﷺ نے ابن مریمؑ سے اُن کا مثیل مرادلیا ہے۔حالانکہ جب تک تعذر حقیقت ثابت نہ ہو ،مجاز کے مجاز نہیں ہو سکتے۔ ممکن ہی نہیں کہ قرآن یا حدیث میں ایک جگہ بھی مریم یا امراۃ فرعون کے لفظ سے مراد خود مریم اور فرعون کی عورت کی بجائے کوئی دوسرا مراد لیا جائے۔
پھر یہ کہ ابن مریم سے مراد مرزاقادیانی کا ہونا جیسا کہ امر وہی نے لکھا ہے کہ "ہر ایک مومن مثیل مریم ہے تو مومن کی اولاد ابن مریم ہوئی" جبھی ہو سکتا ہے کہ پہلے مرزاقادیانی کے والد غلام مرتضی ٰ صاحب کو مریم کے لفظ سے پکارا گیا ہو تو پھر مرزا قادیانی ابن مریم یعنی مریم کے مثیل کا بیٹا بن سکتا ہے ورنہ نہیں ۔ملا علی قاری نے باب مناقب علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ میں حدیث :
"خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَعَلِيًّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللَّهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ قَالَ: أَمَا تَرْضَى بِأَنْ تَكُونَ مِنِّي مَنْزِلَةَ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيقَالَ رَسُولُ اللَّهِصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي" مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
"قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ فِي قَوْلِهِ: «إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِذَا نَزَلَ حَكَمًا مِنْ حُكَّامِ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَدْعُو بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَنْزِلُ نَبِيًّا أَقُولُ: وَلَا مُنَافَاةَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا وَيَكُونَ مُتَابِعًا لِنَبِيِّنَاصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَفِي بَيَانِ أَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ، وَإِتْقَانِ طَرِيقَتِهِ، وَلَوْ بِالْوَحْيِ إِلَيْهِ كَمَا يُشِيرُ إِلَيْهِ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعِي» أَيْ مَعَ وَصْفِ النُّبُوَّةِ وَالرِّسَالَةِ، وَإِلَّا فَمَعَ سَلْبِهِمَا لَا يُفِيدُ زِيَادَةَ الْمَزِيَّةِ، فَالْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ لِأَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ السَّابِقِينَ، وَفِيهِ إِيمَاءٌ إِلَى أَنَّهُ لَوْ كَانَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ لَكَانَ عَلِيًّا، وَهُوَ لَا يُنَافِي مَا وَرَدَ فِي حَقِّ عُمَرَ صَرِيحًا ; لِأَنَّ الْحُكْمَ فَرْضِيٌّ وَتَقْدِيرِيٌّ، فَكَأَنَّهُ قَالَ: لَوْ تُصُوِّرَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِي أَنْبِيَاءَ، وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا» وَأَمَّا حَدِيثُ: «عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ» فَقَدْ صَرَّحَ الْحُفَّاظُ كَالزَّرْكَشِيِّ وَالْعَسْقَلَانِيِّ وَالدَّمِيرِيِّ وَالسُّيُوطِيِّ أَنَّهُ لَا أَصْلَ لَهُ"[40]
امام مناوي میں فرماتے ہیں کہ:
"سئل الحافظ العراقي عما اشتهر على الألسنة من حديث: علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل. فقال: لا أصل له، ولا إسناد بهذا اللفظ، ويغني عنه: العلماء ورثة الأنبياء. وهو حديث صحيح"۔[41]
إسماعيل بن محمد العلجوني الجراحی اپنی کتاب " كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس"کی جلد 2 صفحہ 83 میں، امام سيوطي اپنی کتاب "الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرةکی جلد 1صفحہ 148 میں ، ابن حجر ، امام زرکشی اور امام سخاوی اس حدیث کے متعلق"لا أصل له" فرماتے ہیں۔
پیر مہر علی شاہ ؒ لکھتے ہیں کہ :
"برتقدیر صحت حدیث: عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَجب تک موسیٰ و عیسیٰ و ہارون یوسف وغیرہ بنی اسرائیل کا کسی عالم محمدی ؐ میں استعمال کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو یہ استدلال بھی مفید نہیں ۔ نہ مسئلہ بروز میں اور نہ ہی مجاز مستعار میں"۔[42]
مرزا قادیانی نے آیت: فَسْــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (الانبیاء 21 : 7) سے استدلال کرتے ہوئے دعویٰ مماثلتِ مسیح کیا ہے ۔ عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ :
"اللہ تعالیٰ ہم کو اہل کتاب کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم کرتا ہے۔ پس اس آیت کے حکم سے ہم نے بائیبل پر نظر کی تو اس میں حضرت ایلیا کا آسمان سے اترنا پایا مگر اس کی صورت حضرت مسیحؑ نے یہ بیان فرمائی کہ ایلیا کا آنا حضرت یحییٰ علیہ السلام کے آنے سے پورا ہو گیا۔ پس اسی طرح احادیث میں جو حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان سے اترنا آیا ہے اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ کوئی شخص مثیل مسیحؑ آئے گا۔ چنانچہ وہ میں آ گیا ہوں اور حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہوئے ہیں"۔[43]
مرزا قادیانی کا استدلال میر ابراہیم سیالکوٹی کے درج ذیل دلائل کی روشنی میں بالکل غلط ہے:
یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے کا حکم اس شرط سے کیا ہے کہ اگراپنی شریعت میں جب کوئی بات معلوم نہ ہو۔جب آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہﷺ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ حقیقی اور رفعِ آسمانی اور نزولِ عینی ثابت ہے اور اس میں کوئی ترددنہیں تو اہل کتاب کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا بے معنی ہے ۔
یہ کہ جب الیاس علیہ السلام کا رفع آسمانی اور نزول کا مسئلہ قرآن و حدیث سے حقیقی یا مثالی طور پر ثابت نہیں تو مرزا قادیانی اس پر اپنی مماثلت کی بنا کیونکر رکھ سکتا ہے۔ حضرت الیاس علیہ السلام کے دوبارہ آنےکی بابت کبھی کوئی پیشگوئی نہیں کی گئی۔ یہ یہودیوں کا من گھڑت عذر تھا اور نیز یہ بھی کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے مثیل نہ تھے اور نہ الیاس علیہ السلام کا نزول خدا کی طرف سے بتلایا گیا تھا اور نہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ان کا مثیل ہونا درست ہے۔
یہ کہ انجیل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ ؑ نے نہ تو مثیل الیاس ؑ ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ وہ تھے۔ بلکہ یہودیوں کے پوچھنے پر اس سے صاف انکار کیا۔ جیسا کہ انجیل یوحنا باب اول میں آیت 19سے 21 تک لکھا ہے :
"اور یوحنا کی گواہی یہ تھی جب کہ یہودیوں نے یروشلم سے کاہنوں اور لاویوں کو بھیجا ہے کہ اس سے پوچھیں کہ تو کون ہے ۔ اور اس نے اقرار کیا اور انکا ر نہ کیا ۔بلکہ اقرار کیا کہ مسیح ؑ نہیں ہوں ۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا تو اور کون ہے ؟ کیا تو الیاس ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ پس آیا تو وہ نبی ہے ۔ اس نے جواب دیا نہیں"۔
اس عبارت اور مابعد کی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ ؑ جن کا انجیلی نام یوحنا تھا۔ کاہنوں کے سوال پر مثیل الیاس ہونے سے صاف انکار کرتے ہیں ۔ پس مرزا قادیانی کا دعویٰ مماثلت بالکل بے بنیاد اور اسرائیلی روایت کے استدلال کرنے سے بھی جھوٹا اور من گھڑت ہے ۔چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کا امت میں سے نہ ہونا حدیث صحیح مسلم سے بصراحت ثابت ہے کہ:
" أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ " [44]
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ حق پر رہے گا اور اپنے مخالفوں کے مقابلے میں غالب رہے گا۔ پس عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔ تو جو شخص اس وقت مسلمانوں کا امیر ہو گا (یعنی امام مہدی علیہ السلام) وہ کہے گا کہ آئیے حضرت ہمیں نماز پڑھائیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جماعت کرانے سے انکار کریں گے اور کہیں گے کہ تمہارا امام تم ہی سے ہے یہ فضیلت اللہ تعالیٰ نے اسی امت کو بخشی ہے"۔
یعنی عیسٰیؑ اس امت کے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے اور اس حدیث سے مرزا قادیانی کا دعویٰ مماثلتِ مسیح بالکل غلط ہے کیونکہ مسیحِ موعود اس امت کے لوگوں میں سے نہیں ہو نگےجبکہ مرزا قادیانی اس امت کے لوگوں میں سے ہے۔ [45]
مسیح ابن ِ مریم ؑ کا میقات "فج روحا" سے احرام باندھنا
حدیث:
"حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُهِلَّنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ، حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا، أَوْ لَيَثْنِيَنَّهُمَا"۔ [46]
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح ابن مریم ؑ کا میقات "فج روحا " سے احرام باندھنا اور حج و عمرہ کرنے کو بیان فرمایا ہے لیکن احسن امروہی (قادیانی) نے استدلال کیا ہے کہ :
" چوں کہ روحا کسی ملک کا میقات نہیں جس سے احرام باندھا جاوے۔ لہٰذا یہ حدیث اپنے ظاہری معنوں پر محمول نہیں ہو سکتی ۔ تاویلی معنی بہت صاف ہیں "اہلال اور تلبیہ مسیح کی" سے مراد تبلیغ دعوت اسلام ہے۔ اور پنجاب بہ لحاظ کثرت انہار و دریاؤں اور نیز بوجہ دوآبوں کے بالضرور " فج روحا"ہے۔ گویا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ اس کے گاؤں قادیان کا پتہ اور کلام الہٰی میں اس کا مسجد اور اقصٰی کا ذکر ہوا۔ اسی طرح پر اس کے ملک کا پتہ و نشان یہ دیا کہ وہ ایک" فج روحا" ہے جو ملک پنجاب ہے۔ الغرض روحا جو عرب میں مدینہ طیبہ سے تیس چالیس کوس کے فاصلہ پر ہےکما فی القاموس۔ اس حدیث میں وہ مراد نہیں بلکہ پنجاب سے" فج روحا" کے ساتھ کنایۃً تعبیر کی گئی "۔[47]
یعنی امروہی کے مطابق اگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی مروی حدیث ِنزول سےاس کے خیال کے مطابق غلام احمد قادیانی مراد لیں توپھر تو درست ہو گا ورنہ نہیں ۔ امروہی کایہ استدلال تحریفِ حدیث پر مبنی ہے ۔ اس حدیث میں امروہی کی تاویل کارد پیر مہر علی شاہ ؒ نے اپنی کتاب سیفِ چشتیائی میں یوں کیا ہے کہ :
" امروہی کا یہ کہنا کہ ’روحا کسی ملک کا میقات نہیں لہٰذا اس سے اہلال یعنی احرام حج متصور نہیں ہو سکتاہے‘ بالکل جہالت ہے۔ کیونکہ ذوالحلیفہ یا ذات العرق یا حجفہیاقرن یا یلملم جو کتب اسلامیہ میں مو ا قیت الحج ہیں۔ ان کے میقات حج ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان مقامات پر احرام باندھتے ہیں اور بغیر احرام باندھنے کے گذر نا حرام ہے۔ یہ مراد نہیں کہ ان کے پہلے احرام کا باندھنا حرام ہو ۔ لہٰذا مسیحؑ کا ' فج روحا' سے احرام باندھنا شرعِ محمدی ﷺ کے مخالف نہ ہوا۔لہذا اس میں تاویل ہر گز نہیں کی جا سکتی" ۔[48]
نزولِ مسیح ابن ِ مریم ؑ دو رنگ دار چادروں میں
حدیث:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ، وَأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ: رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَدْعُو النَّاسَ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، ثُمَّ تَقَعُ الْأَمَنَةُ عَلَى الْأَرْضِ حَتَّى تَرْتَعَ الْأُسُودُ مَعَ الْإِبِلِ، وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ، وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ، وَيَلْعَبَ الصِّبْيَانُ بِالْحَيَّاتِ، لَا تَضُرُّهُمْ، فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يُتَوَفَّى، وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ"۔[49]
"حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں اور تحقیق وہی اترنے والے ہیں۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو (یوں) پہچان لینا کہ ان کا چہرہ سرخی سفیدی لئے ہو گا درمیان دو رنگ دار چادروں کے، ان کا سر (چمک سے) قطرے گراتا معلوم ہو گا اگرچہ اسے تری نہ پہنچی ہو۔ پھر وہ (یہ کام کریں گے کہ) اسلام کی حمایت میں (دیگر) لوگوں سے قتال کریں گے ۔ پس صلیب کو پاش پاش کر دیں گے، اور خنزیروں کو قتل کروا دیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں اسلام کے سوا سب مذاہب (باطلہ) کو تباہ کر دے گا اور آپ (کانے) دجال کو قتل کریں گے۔ پھر چالیس سال تک زمین پر (باحکومت) رہیں گے۔ پھر فوت ہوں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے"۔
اس حدیث کے الفاظ عَلَيْهِ ثَوْبَان مُمَصَّرَانِ( یعنی نزول کے وقت مسیح ابن مریم ؑ پر دو رنگ دار چاردریں ہونگی) کی تاویل کرتے ہوئے امروہی نے باطل استدلال کیا ہے کہ:
"یہ دونوں کپڑے حضرت مسیح اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ السلام پہنے ہوئے ہیں۔ دنیا کی حیات طیبہ جو ان کو حاصل ہے وہ شاید کسی بادشاہ بلکہ شہنشاہ کو بھی نصیب نہ ہوگی اور فرائض منصبی تجدید دین کے جو اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں سے کرارہا ہے، دنیا بھی میں کوئی نظیران کا اس باب میں معلوم نہیں ہوتا"۔[50]
حالانکہ آں حضرت ﷺ مسیح موعود کا حلیہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ معتدل اندام اور رنگ اس کا سرخی اور سپیدی کی طرف میلان کرے گا اور نزول کے وقت اس پر دو کپڑے سرخ رنگ کے ہوں گے ۔ اس میں تاویل کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ اور وصف ممتاز ہونا کبھی بحسب مجموع اجزاء کلام کے ہوتا ہے اور کبھی بحسب بعض دون بعض۔ وصف غیر ممتاز کا بیان صرف واقعی طور پر ہوتا ہے نہ کہ علی سبیل الاحتراز۔کیا عیسویؑ اور محمدی ؐ بروز و تشبہ والوں کی دنیاوی معاش ایسی ہونی چاہیئے جس کو امروہی نے بیان کیا ہے ؟ یہ بیان تو محمدیؐ اور عیسویؑ بروز تشبہ کا انکار ہے۔ یعنی قادیانی بھی اگر جداگانہ مشابہت آں حضرت ﷺ اور عیسی ابن مریم ؑ سے رکھتا تو ان کی طرح دنیا میں رہتا اور بجائے فرائض منصبی تجدید دین کے فرائض منصبی تحریف دین کے ادا نہ کرتا ۔
مسیح ابن ِ مریم کاوضع جزیہ، جہادِ سنانی اور قتل مسیح الضللۃ
مذکورہ حدیث کا جملہ ویضع الجزیہ اورصحیح مسلم کی حدیث نمبر 2897 کا جملہ ویضع الحرب سے امرہی نے تاویل کی ہے کہ :
"ویضع الجزیۃ مراد یہ ہے کہ اس کے وقت میں جہاد ہی نہ ہو گا بلکہ اس کی شان کاص سے ہے کہ جہاد کو موقوف کر دیوے گاجیسا کہ یضع الحرب وارد ہے۔ تو پھر جزیہ کیوں کر قائم ہو سکتا ہے؟ جزیہ تو متفرع ہے جہاد پر۔ جب جہاد ہی نہ ہوا تو جزیہ بھی نہیں ہو سکتا"۔[51]
حالانکہ لفظ یضع فعل متعدی ہےجس کا معنی یہ ہوگا’ وہ مسیح جزیہ کو موقوف کر دے گا‘۔ کیا مرزاقادیانی جو باقی رعایا کی طر ح گورنمنٹ کے زیر سایہ بحفظ و امان زندگی بسر کرتا ہو، یہ استحقاق رکھتا ہے کہ جہاد کرنا یا نہ کرنا یعنے اسے موقوف کر دینا اس کا منصب ہو؟ یہ تو ظاہر ہے کہ بوجہ من جملہ رعایا ہونے کے جہاد کرنے کا منصب نہیں رکھتا۔جہاد کا موقوف کر دینا بحسب ِمحاورہ یہ جملہ بھی اسی پر صادق آسکتا ہے جو جہاد کرنے کی حیثیت رکھتا ہو اور پھر جہاد نہ کرے۔ گورنمنٹ کو بذریعہ تحریرات یہ خدمت گذاری جتلانا گویا دھوکا دیناہے۔
ثابت ہوا کہ جہاد بہ تیغ وسناں چونکہ باخذ جزیہ موقوف ہو سکتا ہے اور بوضع جزیہ واجب، جب تک سب اسلام میں داخل نہ ہوں۔ لہٰذا مسیحِ موعود کے زمانہ میں وضع جزیہ دلیل ہے تعیین جہاد سنانی پر ، بخلاف جہاد بالحجۃ والبرہان کے، کیونکہ یہ اخذ جزیہ سے موقوف نہیں ہوسکتا اور نہ وضع جزیہ سے واجب۔ اور یضع الحرب کا فقرہ محمول ہے اختلاف اوقات پر۔ جیسا کہ قلت و کثرت باران و وجود البرکت و عدم البرکت مواشی اور رزق میں وغیرہ وغیرہ۔
امر وہی نے اس حدیث میں کس قدر دجل سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ ’اور وضع جزیہ کے لیے حجت و برہان سے ابطال دین نصرانیت نہایت مناسب ہے کیونکہ کوئی مجدد اور مؤید اسلام باخذ جزیہ حجت و برہان کو موقوف نہیں کر سکتا بخلاف تیغ و سنان کے کہ باخذ جزیہ ان کا وضع ہو سکتا ہے ‘۔حالانکہ اس عبارت میں جملہ تعلیلیہ قابل توجہ ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حدیث میں ابطال بہ تیغ و سناں مراد ہے ۔
حدیث:
"عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنِّي قَدْ حَدَّثْتُكُمْ عَنِ الدَّجَّالِ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ لَا تَعْقِلُوا، إِنَّ مَسِيحَ الدَّجَّالِ رَجُلٌ قَصِيرٌ، أَفْحَجُ جَعْدٌ، أَعْوَرُ مَطْمُوسُ الْعَيْنِ، لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ، وَلَا حَجْرَاءَ، فَإِنْ أُلْبِسَ عَلَيْكُمْ، فَاعْلَمُوا أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ" [52]
"عبادہ بن صامت ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں نے دجال کے متعلق کچھ تفصیلات تم لوگوں سے بیان کیں لیکن مجھ کو خطرہ ہے کہ کہیں تم پورے طور پر اس کو نہ سمجھے ہو۔دیکھو مسیح دجال کا قد تھنکنا ہوگا۔اس کے دونوں پیر ٹیڑھے ،سر کے بال شدید خمیدہ،یک چشم مگر ایک آنکھ بالکل چٹ صاف،نہ اوپر کو ابھری ہوئی نہ اندر کو دھنسی ہوئی۔اگر اب بھی تم کو شبہ رہے تو یہ بات یاد رکھنا کہ تمھارا رب یقیناًکانا نہیں ہے"۔
حدیث:
" عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، جُفَالُ الشَّعَرِ، مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ "۔[53]
"حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،دجال بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اس کے جسم پر بہت گھنے بال ہوں گے اور اس کے ساتھ اس کی جنت اور دوزخ بھی ہوگی لیکن جو اس کی جنت نظر آئے گی دراصل وہ دوزخ ہوگی اور جو دوزخ نظر آئے گی وہ اصل میں جنت ہوگی"۔
آپ ﷺ نے مذکورہ احادیث سے دجال کے متعلق تمام تر نشانیوں سے امت کو آگاہ فرمادیا اور اس کے خروج اور اس کو قتل کیے جانے کے متعلق بھی خبر دے دی لیکن مرزا قادیانی دجل فریبی کرتا ہے کہ:
" دجال ایک معین شخص نہیں بلکہ دجال تو وہ مردود شیطان ہے جو بدیوں کا سرچشمہ ہے اسے آخری زمانہ میں جہالتوں کے دور کرنے اور بدیوں کو مٹانے کے ذریعہ قتل کیا جائے گااوریہ دجال صرف آسمانی حربہ سے ہی ہلاک کیا جائے گایعنی بشری طاقت سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی قتل ہوگا۔پس نہ کوئی لڑائی ہوگی نہ مارپیٹ"۔[54]
حالانکہ احادیث مبارکہ سے بالکل واضح ہے کہ دجال ایک معین شخص ہے ۔ لیکن مرزاقادیانی سورۂ تکویر کی آیت "وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ" کی تحریف کرتے ہوئے اس کو " ریل گاڑی " سے تشبیہ تشبیہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
"اس میں ریل کے نکلنے کی طرف اشارہ ہے جو کہ میرے زمانے میں ہوا ہے"۔ [55]
اسی طرح امروہی نے ابنِ کثیر کی عبارت:
"وَإِنَّهُ سَيَنْزِلُ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، كَمَا دَلَّتْ عَلَيْهِ الْأَحَادِيثُ الْمُتَوَاتِرَةُ الَّتِي سَنُورِدُهَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا، فَيَقْتُلُ مَسِيحَ الضَّلَالَةِ، وَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ يَعْنِي لَا يَقْبَلُهَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أهل الأديان، بل لَا يَقْبَلُ إِلَّا الْإِسْلَامَ أَوِ السَّيْفَ، الخ"۔ [56]
کے جملہ" فَيَقْتُلُ مَسِيحَ الضَّلَالَةِ" کی تاویل یہ کی ہے کہ :
" مسیح موعود محمدی اور مسیح الضللۃ کی جو لڑائی ہوگی وہ سنانی لڑائی نہیں ہوگی بلکہ لسانی جنگ ہو جو مباحثات و مناظرات کے ساتھ ہو گی۔ جس میں مسیح الضللۃ کو شکست فاش ہوگی اور وہی اس کا قتل ہونا ہے ۔ پس دجال کا مسیح الضللۃ ہونا اور مسیح موعود کے وقت میں نصاریٰ کا زمانہ ہونا ثابت ہوا کیونکہ مفسرین نے اتفاق کیا ہے اس پر کہ مراد مغضوب علیہم سے فرقہ یہود ہے اور ضالین سے نصاریٰ ۔ پس مسیح الضللۃ نصاریٰ پادریوں کا امام ہوا جس کو مسیح موعود شکست فاش دیوے گا"۔[57]
حالانکہ آں حضرت ﷺ بھی مع صحابہ کرام ابن صیاد کے دجال ہونے کے بارہ میں کچھ عرصہ مترددرہے۔ جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم مبارک میں دجال معین شخص ہی تھا۔ ابن کثیر کی عبارت تو یہ ہے (فیقتل مسیح الضللۃ) یعنی مسیح ابن مریم بعد النزول، گمراہوں کے مسیح کو جو عبارت ہےدجال سے، قتل کرے گا۔ اس عبارت سے تو کثیر ہونا اس مسیح الضللہ کا یعنی دجال کا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے تابعین کا جو گمراہ ہونگے ان کا کثیر ہونا ثابت ہوتا ہے یعنی اس دجال کے تابعین بہت لوگ ہوں گے۔ الغرض دجال واحد شخص ہی رہا۔ اور تابعین اس کے بہت ہوئے۔ نیزمفسرین نے ضالین سے مراد نصاریٰ لی مگر اس سے یہ تو نہیں لازم آتا کہ (ضال یا ضللہ یا گمراہ بول چال میں) بغیر نصاریٰ کے دوسروں کو نہ کہاجائے ۔
نزولِ مسیح ابن ِ مریمؑ کی حکمت و ضرورت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی حکمت اور ضرورت سورۃ نساء کی آیت 158 کے جملہ : وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا سے واضح ہے۔جس کا ترجمہ مرزا قادیانی نے " عزت والا یعنی آبرو والا " کیا ہے۔
مولانا ابراہیم سیالکوٹیؒ کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی عزت والا ہےمگر اس کی صفت "عزیز" سے مراد غلبہ و قدرت ہے ۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی دوسری صفت حَكِـيْمًافرمائی ہے ۔ ا س کو کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں اور وہ ہر شئے کو اس کے مناسب مقام پر رکھتا ہے۔ اور ہر شخص سے اس کے مادہ فطری کے موافق اور استعدادِ نفس ِناطقہ کے مطابق سلوک کرتا ہے۔ لہٰذا مقتضائے حکمت الہیہ یہی ہو ا کہ چونکہ حضرت روح اللہ کی پیدائش پر اسباب ارضیہ منعقد نہیں ہوئے بلکہ آپؑ کی پیدائش نفخ روح القدس سے عالم الامر میں سے ہے یعنی کلمہ کن سے ہوئی ہے ۔پس آپؑ کو کمال تشبہ بالملائکہ ایک خاص طور پر حاصل ہے ۔ لہٰذا آپؑ کو مرفوع الی السماء کر کے آسمان کو آپؑ کا مقر بنا دینا بمقابلہ آپؑ کے مادہ فطری کے مقام تعجب و خلاف ِ حکمت نہیں ہے۔ اسی تاثیر جبرائیلی سے معجزہ تکلم فی المہد ظاہر ہوا اور یہی تاثیر روح القدسی احیائے موتیٰ اور دیگر معجزات کا باعث ہوئی ۔ اس لیے قرآن شریف میں خبر سعادت اثر وایدناہ بروح القدس آپؑ ہی سے مخصوص ہے ۔ اور یہی تائید جبرائیلی صعود الی السماء کے وقت آپؑ کے ہمرکاب تھی ۔[58]
پس اس طریق حکیمانہ سے ختم نبوت بھی قائم رہی ۔ کیونکہ حضرت مسیح ؑ آ پ ﷺ سے پہلے رسول بن چکے ہوئے ہیں اور اسی نبوت سے پھر نزول فرمائیں گے اور نیز رسول اللہ ﷺ کے اوصاف اربعہ بھی پورے ہو گئے ۔ چنانچہ حدیث میں بھی یہی ہے کہ :
"وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ يَلْبَثُ فِي الْأَرْضِ مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يَجِيءُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَشْرِقِ مُصَدِّقًا بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى مِلَّتِهِ"۔[59]
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ:
" ينزل عِيسَى بن مَرْيَمَ مُصَدِّقًا بِمُحَمَّدِ عَلَى مِلَّتِهِ "۔[60]
" حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ محمد ﷺ کی تصدیق کے لیے نازل ہوں گے اور آپ کی ملت پر ہوں گے"۔
حضرت عائشہ کے قول کی تصریح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا قول:
" خاتم النبیین کہو ، یہ نہ کہو ان کے بعد کوئی نبی نہیں " "قُولُوا: خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَلَا تَقُولُوا: لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ" [61]
کے ضمن میں علامہ انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں کہ:
"یہ قول اسی حقیقت پر مبنی ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ کوئی ملحد حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کی نفی پر استدلال نہ کرے۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا نزول آسمانی ، آنحضرت ﷺ کی خاتمیت کے منافی نہیں بلکہ ان کی آمد ختم نبوت کی مستقل دلیل ہے کیونکہ یہ اس امر کی علامت ہے کہ انبیاء کرام کا سلسلہ حضرت محمدﷺ پر ختم ہو چکا ہے، اس لیے دجال، جس مسیح کا منصب اختیار کر رکھا تھا ، اس کو قتل کرنے کے لیے مسیح ہدایت کو لایا گیا، جن کی آمد ایک شئے کا بعینہٖ اعادہو تکرار ہے، نہ کہ از سر نو کسی شئے کا وجود پزیر ہونا"۔ [62]
نزول عیسٰی ؑ کے عقیدہ سے ایمانیات میں اضافہ نہ ہوتا جبکہ مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ایمان میں ایک نئی نبوت کا اضافہ ہوتا ہے اور اس کے نزدیک اس کی اسی نئی نبوت کو نہ ماننے والا کافرہے ۔ حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کی حیات ، رفع و نزول کے قطعی مسئلہ میں شبہات اُٹھانا مثلاً مسیح ابن مریم کے اور اس دین کے درمیان بیگانگی اور اجنبیت پیدا کرنا، مسیح ناصری اور مسیح محمدی میں تفریق کرنا اور یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طویل حیات اور ان کا رفعِ جسمانی آنحضرت ﷺ پر انکی فضیلت کو موجب ہےلہٰذا اس کو ہماری غیرت برداشت نہیں کرتی وغیرہ، یہ تمام شبہات شیطان کی طرف سے قادیانیوں کو تعلیم ہیں جو ان کو القا کرتا ہے ۔ جس کی بنیاد پر یہ لوگ اس قسم کے شبہات کے ذریعہ کم فہم و کم عقل لوگوں کے عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں ۔
ابن حجر عسقلانی نزول عیسٰیؑ کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ:
"حدیث مبارکہ کےالفاظ لانبی بعدی کی نفی کو اس معنی پر محمول کرنا واجب ہے کہ آئندہ کسی شخص کے حق میں نبوت جدیدہ کا انشاء نہیں ہو گا۔ اس سے کسی ایسے نبی کے موجود ہونے کی نفی نہیں ہوتی جو آپ ﷺ سے قبل منصبِ نبوت سے سرفراز کیا جا چکا ہو"۔ [63]
خلاصہ بحث
مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں نے احادیث نزول مسیح ؑ سے تاویلات فاسدہ سے کام لے کر اس سے نزولِ بروزی فی القادیانی مراد لیا ہے جبکہ احادیث متواترہ کی بنیاد پر صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ ، کل محدثین و مفسرین اور تمام اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسٰی ابن مریم ؑ قبل از قیامت آسمان سے اپنے جسد ِعنصری کے ساتھ نزول فرمائیں گے۔
Ph.D Research Scholar, Deptt. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1]Mirzā Ghulām Ahmed, Kashti-e-Nūh (Nāshir: Hakim Fazal al-Din Bhervī, 1902), 68.
2]Mirzā Ghulām Ahmed, Haqīqat Al-Wahī, Ruhāni Khazā’in (Amratsar: Maktabah Riāz Hind, 1308AH) 22 : 503.
3]Aal e Imran 3: 144.
4]Al-Mā’idah 5 : 75.
5]Aal e Imran 3: 137.
6]Al-Hāqqah 69 : 24.
7]Mirzā Ghulām Ahmed, Izālā Auhām, Ruhāni Khazā’in, 3:139.
8]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Saḥīḥ (Ḥalab: Maḳtab al-Maṭbō’āt al-IslamĪyah, 1406 A.H), Hadīth No: 2937.
9]Mirzā Ghulām Ahmed, Izālā Auhām, Ruhāni Khazā’in,3:429.
10]Mirzā Ghulām Ahmed, Maktūb ‘Arbi, Ruhāni Khazā’in,11:177.
11]Molvi Ahsan Amrūhī, Shams-e-Bāzighah (Qadiyān: Anwār Ahmadiyyah Press Dār Al-Amān, 1900AD), 3,4.
12]Pīr Mehr ‘Ali Shāh, Seif-i-Chishtiyā’ī (Lāhore: Matba‘a Al-Mustafā’ī, 1902 AD), 105.
13]Muhammad Bin ‘Ali Dār Al-Qutnī, Al-Sunan (Beirūt: Mu’assast al-Risālah, 2004 AD), Hadīth No. 1795.
14]’Ala Al-Dīn, Kanz Al-’Aummāl (Beirūt: Mu’assast al-Risālah, 2004 AD), Hadīth No: 38671.
15]Ahmad Bin Hanbal, Al-Musnad (Beirūt: Mu’assast al-Risālah, 1999 AD), 6 : 437.
16]’Ala Al-Dīn, Kanz Al-’Aummāl, Hadīth No. 39726.
17]Jalāl Al-Dīn Al-Sayūtī, Al-Durr Al-Mansūr Fi Tafsīr Al-Māsūr (Beirūt: Dār Al-Fikr,1984 AD), 7:484.
18]Ibn e Mājjah, Al-Sunan, Bāb Khurūj al-Mahdī (Karāchi: Qadīmī Kutub Khānah, 1375 AH), 1: 300.
19]Abu Da’ūd Sulemān bin Ash’as Al-sajistānī, Al-Sunan ( Riāz: Dar Al-salām Lil nashr wa al-tauzī’a, 1420 A.H), 2 : 131.
20]Ibn e Mājjah, Al-Sunan, Kitāb al-Mahdī, 1: 300.
21]Abu Da’ūd, Al-Sunan, Kitāb al-Mahdī, 2: 131.
22]Abd al-razāq bin humām, Al-Musannaf ( Majlis al-’almī, al-hind, 1403A.H), 10 : 335.
23]Abu Da’ūd, Al-Sunan, Kitāb al-Mahdī, 2: 131.
24](i) Ibn e Mājjah, Al-Sunan, Hadith No : 4039. (ii) Al-hakim Muhammad bin ’abdullah Nišāpurī, Al-Mustadrak ’ala al-Sahīhaīn,Hadith No: 8363.
25]Ibn e Mājjah, Al-Sunan, Kitāb al-Mahdī, Hadith No: 4077.
26]Mirzā Ghulām Ahmed, Maktūb ‘Arbi, 151.
27]’Alī bin al-Hasan Ibn e ’asākir, Tarīkh e Demašq (Beirūt: Dār Al-Fikr,1995 AD), 47:505.
28]Nu’amān bin al-sābit Abu Hanīfā, Fiqh Akbar( Dehli, Matba‘a Mujbā’ī, S.N), 136,137.
29]Sulemān bin Ahmad Al-Tabrānī, Al-Mu’ajam al-kabīr(Al-Qāhirah: Maktabah ibn e Temiyyah, 1944 A.D), Hadiht No. 384.
30]Jalāl Al-Dīn Al-Sayūtī, Al-Durr Al-Mansūr Fi Tafsīr Al-Māsūr, 2 :225.
31]Ibn e ’asākir, Tarīkh e Demašq, 47:493.
32]Al-hakim Muhammad bin ’abdullah Nišāpurī, Al-Mustadrak ’ala al-Sahīhaīn,Hadith No. 3448.
33] (i) Ahmad bin ’Abdullah bin Ahmad bin Ishāq Al-Asbahānī, Dalāil Al-Nabuwwat li abi Nu’aīm (Beirūt: Dār Al-Nafā’ais,1986 AD), 1:102.
(ii) Jalāl Al-Dīn Al-Sayūtī, Jāmi’a Al-Ahādith (Beirūt: Dār Al-Fikr, 1984 AD), Hadith no: 30961.
(iii) ’Ala Al-Dīn, Kanz Al-’Aummāl, (Multān: Idārah Tālifāt Ashrafiyah, 1981),12:359.
34]Shah Walī Ullah, Izālat al-khafā, (Karāchi: Qadīmī Kutub Khānah,1375 AH), 4: 91.
35]Muhammad bin ‘Ismail Abu Abdullah Al-Bākharī, Sahīh Al-Bukhāri(Ḥalab: Maḳtab al-Maṭbō’āt al-IslamĪyah, 1406 A.H) Hadith No: 3448.
36]Al-Bākharī, Sahīh Al-Bukhāri, Hadith No: 3449.
37]Jalāl Al-Dīn Al-Sayūtī, Al-Durr Al-Mansūr Fi Tafsīr Al-Māsūr, 2:225.
38]Molvi Ahsan Amrūhī, Shams-e-Bāzighah, 70.
39]Molvi Ahsan Amrūhī, Shams-e-Bāzighah,72.
40]Mullā‘Ali al-qāri, Al-Mirqāt Al-Mafātīh (Beirūt: Dār Al-Fikr,2002 AD),9:3932.
41]Zein al-Dīn Muhammad Al-Manāvī (Egypt: Al-Maktabh Al-tijariyah, 1356 A.H), 4: 384.
42]Pīr Mehr ‘Ali Shāh, Seif-i-Chishtiyā’ī, 236.
43]Mirzā Ghulām Ahmed, Izālā Auhām, Ruhāni Khazā’in,3:433.
44]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Saḥīḥ , Hadīth no. 156.
45]Muhammad ‘Ibrāhīm Siyālkōtī, Shahādat Al-Qurān ( Lahore: Khālid ‘Ihsān Publisherz, 2001), 403,408.
46]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Saḥīḥ , Hadīth No: 216.
47]Molvi Ahsan Amrūhī, Shams-e-Bāzighah,83.
48]Pīr Mehr ‘Ali Shāh, Seif-i-Chishtiyā’ī, 229.
49]Ahmad Bin Hanbal, Al-Musnad, Hadith no. 9270.
50]Molvi Ahsan Amrūhī, Shams-e-Bāzighah,93,94.
51]Molvi Ahsan Amrūhī, Shams-e-Bāzighah,95.
52]Abu Da’ūd, Al-Sunan, Bāb Khurūj al-Dajjāl, Hadith No: 4320.
53]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Saḥīḥ , Hadīth No: 2934.
54]Mirzā Ghulām Ahmed, Al- Tafsīr, 1 : 27.
55]Mirzā Ghulām Ahmed, Al- Tafsīr, 4 : 54.
56]Abu Al-Fida ‘Ismail bin ’Umar, Al-DamishqĪ, Al-TafsĪr Al-Qurān Al-‘AzĪm (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1419 AH), 2:402.
57]Molvi Ahsan Amrūhī, Shams-e-Bāzighah,79.
58]Muhammad ‘Ibrāhīm Siyālkōtī, Shahādat Al-Qurān, 239,240.
59]Sulemān bin Ahmad Al-Tabrānī, Al-Mu’ajam al-kabīr, Hadith No: 7082.
60]Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, Fatah Al-BārĪ (Beirūt: Dār al-m‘arfah: 1415 A.H), 6:491.
61]Ibn e Abī Sheibah, Al-Muṣannaf ( Riāz: Maktabah Al-Rushd, 1409 A.H), Hadith No.26653.
62]Syed Anwar Shāh KashmĪrĪ, Khatam al-NabiyyĪn, Translator: Muhammad Yūsuf LudhyānvĪ ( Multān: ‘AlmĪ Majlis Tahafuz e Khatam e Nabuwwat, 2001 A.D), 283.
63]Abū al-Faḍl Aḥmed bin ‘AlĪ bin Muḥammad bin Aḥmed bin Ḥajar ‘AsqlānĪ, Al-Aṣābah FĪ TamĪz al-Ṣaḥabah, TeḥqĪq: ‘Adil Aḥmed ‘Abd al-Mawjōd wa ‘Ali Muḥammad Mu‘awiz (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1st Edition: 1415 A.H), 1:425.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |