2
2
2021
1682060063651_3204
60-79
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/28/27
''فتح الرحمان فی اثبات مذھب النعمان'' کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ )68(
''فتح الرحمٰن فی اثبات مذہب النعمان''کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ
An Analytical study of the "Fath-ur-Rehman Fi Ithbāt-e-Madhab al-Naumān"
Muhammad Nawaz
Muhammad Fareed ud din
In "Fath-ur-Rehman Fi Ithbāt-e-Madhab al-Naumān", Shaykh Abdul Haq Muhaddith Dehalvi collected Ahadith supporting the religion and sect of Imam Abu Hanifa (R.A) and described the differences of the jurists and gave preference to Hanafi School of thought. He has proved through this book that Imam’s sect is in accordance with the Sahih Ahadith and while removing the accusations leveled against Imam Abu Hanifa, he declared that these are the issues on which the contrariness of the hadith was accused but irony of the situation is that Abu Hanifa (R.A) is following the hadith while other jurists explicitly base their intellect and conjecture and the style of the book shows that Abu Hanifa (R.A) is the absolute doer of hadith and Imam Shafi (R.A) uses conjecture and opinion. Moreover, Author speaks on the authenticity of the hadiths which not only support him but also give comfort and consolation to the opposing party. This great book of Hazrat Shaykh Muhaddith (R.A) is unique and unique in its importance, infrequency, style of reasoning, research issues, preference of religion, and hadiths supporting Hazrat Imam Azam Abu Hanifa (R.A) which opens new chapters of coming research. In the said article, an analytical study of his book "Fath-ur-Rehman fi Asbat-e-Madhhab-e-Noman" will be presented which will expose the reality of Imam Abu Hanifa's accusation of being against the hadith and this great effort of Sheikh Abdul Haq will also be brought to light.
Key Words: Hadith, Imam Abu Hanifa, Hanfi School of Thought, Shaykh Abdul Haq, Fath-ur-Rehman.
تمہید:
امام اعظم ابوحنیفہ پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے بہت زیادہ قیاس سے کام لیا ہے اور احادیث سے صرفِ نظر کیا ہے یا آپ تک احادیث نہیں پہنچی تھیں۔ مزید یہ کہ آپ کے مذہب کے اکثر مسائل احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہیں۔ ان تمام اعتراضات کو مد نظر رکھتے ہوئے، عوام الناس اور خواص کو مخاطب بناتے ہوئے برصغیر کےعظیم محدث شٰخ عبد الحق نے ''فتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان '' تصنیف فرمائی جس میں آپ نے امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کی تائیدکرنے والی احادیث کو جمع کیا ۔آپ نے اس کتاب کے ذریعے ثابت فرمایاکہ آپ کا مذہب عین حدیث کے مطابق ہے اور جا بجا امام ابو حنیفہ ؒ پر لگائے گئے الزامات کو بھی رد کیا۔آپ کا الزامات کو رد کرنے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب مسائل بیان کرتے ہیں تو ساتھ یہ بتاتے چلے جاتے ہیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جن پر امام ابو حنیفہ پر مخالفتِ حدیث کا الزام تھا مگر آپ ملاحظہ کریں کہ اس مسئلہ میں تو امام اعظم حدیث پر عمل کر رہے ہیں جبکہ دوسرے فقہاء صراحتا عقل و قیاس کو بنیاد بنا رہے اور کتاب کے انداز بیا ن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ حدیث کے عامل مطلق ہیں اور حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ قیاس اور رائے سے کام لیتے ہیں ۔ مزید یہ کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کی تائید کرنے والی احادیث کی استنادی حیثیت پر سیر حاصل کلام فرماتے ہیں جس سے فریق مخالف کی تشفی اورتسلی ہوجاتی ہے ۔
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی یہ عظیم الشان کتاب اپنی وقعت ، ندرت ، طرز استدلال،تحقیق مسائل ،ترجیح مذہب اور حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ کی تائید کرنے والی احادیث کے باب میں بے نظیر اور بے مثال ہے جوتحقیق کے نئےابواب کھولتی ہوئی نظر آتی ہے ۔مذکورہ مقالہ میں موصوف کی کتاب''فتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان '' کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔جس سے امام ابوحنیفہ کے مخالفِ حدیث ہونے کے الزام کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور شیخ عبدالحق کی اس کاوش ِ عظیم کو بھی منظر عام پر لایا جا سکے گا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا تعارف:
شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958ھ۔1052ھ) ہندوستان کے ایک علمی اور روحانی خاندان میں شیخ سیف الدین علیہ الرحمۃ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔پندرہ سولہ سال کی عمر میں اپنے والد صاحب سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل سے فراغت پا چکے تھے ۔ادب ، فلسفہ، اور علم الکلام کی اعلیٰ تعلیم کےلئے آپ نے ماوراء النھر کے اساتذہ سے اکتساب علم کیا ۔آپ کے والد گرامی نے آپ کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔آپ خود فرماتے ہیں کہ میں نے شب و روز اپنے والد محترم کی آغوش محبت و رحمت اور انکی مہربانی اور عنایت کے قرب میں تربیت پائی ہے 1۔شیخ عبد الحق علیہ الرحمۃ نے تعلیم و تربیت کے بعد درس وتدریس اور خلق خدا کی خدمت میں ایک عرصہ تک مصروف عمل رہے ۔حج و زیارت کی سعادت حاصل کرنے کیلئے آپ نے حرمین شریفین کی زیارت کا قصد کیا ۔اسی سفرِ سعادت کیلئے آپ نے 995ھ میں رختِ سفر باندھا ۔996ھ میں فریضہءِ حج ادا کیا ۔ 997ھ میں مدینہ منورہ میں پہنچے ۔صاحبِ نزھۃ الخواطر کے بقول 998ھ تک آپ مدینہ منورہ کی پُر نور ساعتوں میں رہے 2۔پھر دوسری مرتربہ سفرِ حج کیا ۔ شعبان 999ھ کے آخری ایام میں طائف گئے ۔ پھر مکہ معظمہ میں تھوڑا عرصہ رہ کر اسی سال اپنے وطن ہندوستان تشریف لائے 3۔
سر زمینِ حجاز میں شیخ کا قیام کم و بیش تین برس رہا، تین سال کے قیام کے دوران شیخ علیہ الرحمۃ نے مکہ و مدینہ کے کبار محدثین سے درس ِحدیث اور اجازتِ حدیث حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔حرمین شریفین کے جلیل القدر محدثین نے اس ہندی طالب علم کی طلب اور محنت کو بہت سراہا اور فراخ دلی سے خراجِ تحسین پیش کیا ۔قاری علی بن جار اللہ نے فرمایا کہ شیخ پورے ہندوستان میں علمی لحاظ سے دُر یکتا ہیں ۔ "انہ المفرد العلم فی القطر الھندی4"۔حجاز مقدس میں اس تین سالہ اقامت کے دوران آپ کا زیادہ تر وقت شیخ عبد الوھاب متقی کی خدمت عالیہ میں بسر ہوا ۔اس خدمت اور صحبت کا دورانیہ بقول شیخ دوسال ہے۔ "انا فی خدمتہ منذ سنتین5"۔شیخ عبد الوھاب متقی علیہ الرحمۃ کی خدمت اور صحبت کے ان دو سالوں میں آپ علم ِ حدیث ، اور روحانی علم کی ایک لازوال دولت سے مالا مال ہوئے جس نے آپ کی آنے والی علمی اور عملی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کردئیے جو رہتی دنیا تک ان کے لئے چراغ راہ ثابت ہوئے۔موصوف نے شیخ عبد الوھاب متقی علیہ الرحمہ سے مشکوٰۃ المصابیح کا درس لیا ، ذکر کے آداب وطریقے سیکھے کم خوری اور آدابِ خلوت کی تعلیم پائی اور ان سے بہت کچھ استفادہ کیا ۔شیخ متقی بھی آپ سے محبت کرتے تھے اور آپ کی تعریف کرتے تھے انہوں نے آپ کو بڑی خوشخبریاں دیں اور خرقہ ءِ خلافت سے بھی سرفراز فرمایا ۔ فیصلہ کرنے کا اہل قرار دیا اور افتاء اور قضاء کی اجازت بخشی 6۔" وحکمہ وکتب لہ اجاذۃ مطلقۃ فی احکام التحکیم7" ۔
999ھ 8 میں حجاز مقدس سے شیخ اپنے وطن مالوف دہلی واپس آگئے۔ اور درس و تدریس اور خدمت انسانیت میں ہمہ تن مصروف و مشغول ہوگئے ۔19سال آپ نے درس ِحدیث شریف اس آب و تاب اور ایسی محنت شاقہ سے دیا جس کا شہرہ چار دانگ عالم میں پھیل گیا مشتاقان ِحدیث ِ نبوی ﷺ ہر سو اِس چشمہ ءِ صافی سے سیراب ہونے کیلئے کشاں کشاں چلے آئے 9۔
''فتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان '' کا تعارف :
یخ عبد الحق محدث دہلوی کی معرکۃ الآ راء کتاب ہے ۔10اس کتاب کے نام کے بارے میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے ۔شیخ محدث ؒ کی اس کتاب کے متن میں یہ نام درج ہے۔
1۔ ''فتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان ''۔11اس کتاب کے محقق نظام الدین اعظمی کے کلمہ شکر وتقدیم میں ''اثبات'' کی جگہ ''تائید '' کا لفظ ہے۔
2۔''فتح الرحمٰن فی تائید مذہب النعمان ''اور کتاب کےآخر میں اثبات اورتائید کالفظ غائب ہے ۔''فتح الرحمٰن فی مذھب ابی حنیفۃ النعمان ''12کتاب کے محقق نظام الدین اعظمی کو اس کتاب کے دو نسخے دستیاب ہوئے ۔1۔ نسخہ الطاھر المعروفی الاعظمی ۔ 2۔ نسخہ مدرسہ رحمانیہ ۔1947ء میں یہ نسخہ جامعہ ملیہ دہلی منتقل ہوگیا ، نسخہ طاہر معروفی میں کتاب کا نام ہے ۔
''فتح المنان فی تائید مذھب النعمان ''13
فتح الرحمٰن کی جلد اول کا آغاز یوں ہوتا ہے ۔
'' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ''
''الجزء الاول من کتاب انوار السنۃ لرواد الجنۃ المسمی بفتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان ''14
مطبوعہ کتاب سرورق ٹائٹل پیج پر بھی ہے ،فتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان المعروف ب
3۔ ''انوار السنۃ لرواد الجنۃ ''اس کتاب کے دونوں ناموں میں لفظی اختلاف ہے یعنی فتح الرحمٰن یا فتح المنان اور فی تائید یا اثبات کے الفاظ ہیں ۔معنوی اعتبار سے کوئی خاص فرق نہ ہے ، الرحمٰن یا منان ، اللہ جل جلا لہ کے صفاتی نام ہیں تائید اور اثبات معنیٰ میں مترادف ہیں ۔
نام کا معنٰی:
اس عظیم الشان کتاب کے پہلے دو ناموں کی ترجمانی یوں کی جاسکتی ہے ۔
''حضرت نعمان علیہ الرحمۃ کے مذھب کے اثبات یا تائید میں رحمانی فتح یا منانی فتح ''
کتاب کا تیسرا نام جو ہے اس میں لفظ رواد ہے ، راد ، یرود ، رودا، ریادا ،۔الشیء سے مشتق ہے ۔
جس کا لغوی معنیٰ ، طلب کرنا ہے ۔
رواد۔ رادۃ ۔ اور رائدون ۔ رائد کی جمع ہیں ، بمعنیٰ ، جاسوسی ۔ وہ شخص جس کو قوم چارہ پانی تلاش کرنے کے لئے بھیج دیتی ہے ، چکی کا دستہ ۔15
''انوارالسنۃ لروادالجنۃ '' کا مطلب ہے ، مشتاقان جنت کے لئے سنت کے انوار ۔
نام میں مذکور لفظ نعمان حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ کا نام ہے اور آپکے والد گرامی کا نام ہے ثابت ، یعنی نعمان بن ثابت ۔
نعمان کے لفظ میں ایک نفیس راز ہے ۔
1۔ نعمان کی اصل ایسا خون ہے جسکی وجہ سے بدن قائم اور مستحکم ہوتا ہے ۔
2۔ نعمان کا معنیٰ روح ہے ۔امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ ہی کی وجہ سے فقہ کا قوام یعنی استحکام ہے ۔ آپ بیان دلائل اور فقہ کی مشکلات کے حل کی اصل اور روح ہیں ۔
3۔ نعمان کامعنٰی سرخ خوشبودار گھاس ہے ۔ گل لالہ ، یا ارغوان کے رنگ کو بھی نعمان کہتے ہیں اس معنیٰ کے مطابق آپ کے عادات وخصائل اچھے ہوئے اور کمال کو پہنچے ۔
4۔ نعمان فعلان کے وزن پر نعمت سے مشتق ہے ، تو حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ مخلوق خداپر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں ۔16
تعجب بالائے تعجب ہے کہ '' سیرۃ النعمان '' کے مؤلف اپنی کتاب کے نام کے تقاضہ کے مطابق نعمان کی لفظی تشریح سے صاف دامن بچا گئے ۔
''بہر حال ، نام والدین نے نعمان رکھا لیکن زمانے نے آگے چل کر امام اعظم کے لقب سے پکارا ''17
اشاعت کتاب:
شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی علم و حکمت سے معمور کتب کی اشاعت غفلت کا شکار رہی ہیں ۔جس کا شکوہ بھی کیا گیا '' بلا شبہ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد دکن نے حدیث کی بعض اہم کتابیں شائع کرکے علمی دنیا پر بڑا ا حسان کیا ہے لیکن حیرت ہے کہ ان کی مستقبل میں شائع ہونے والی کتابوں میں اس (لمعات التنقیح فی شرح مشکوٰۃ المصابیح ۱۲ ترابی ) کا نام تک نہیں ہے اس کی اشاعت بھی علم کی بڑی خدمت ہے ''18فتح الرحمٰن ‘''یہ شیخ عبد الحق علیہ الرحمۃ کا اہم کارنامہ ہے ، اسکی اشاعت بھی ضروری ہے''۔19
اس کتاب کی اشاعت اور تحقیق کی سعادت دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے دارالافتاء کے مفتی شیخ نظام الدین اعظمی کے حصے میں آئی انکی معلومات کے مطابق ہندوستان میں اس کے دو نسخے موجود تھے ، حالانکہ اس کا ایک تیسرا '' مولانا محمد ہاشم جان صاحب مجددی کے کتب خانہ ، ٹنڈو سائیں دادو میں موجود ہے'' ۔20
کتاب کا چوتھا قلمی نسخہ کتب خانہ آصفیہ میں ہے جو عنوانات کی فہرست اور سن کتابت ندارد ۔21
محقق کتاب شیخ نظام الدین اعظمی نے ابو المآثر محمد حبیب الرحمٰن اعظمی کے حکم اور اشارے پر دونوں نسخوں کا تقابل کیا ،اور کتابت سے 1380ھ ،میں اور تقابل سے1387ھ، میں فراغت پائی ۔
نسخہ ثانیہ جامعہ ملیہ میں شیخ محدث کے خاندان کے چشم و چراغ محمد انوارالحق دہلوی کی عبارت بقلمہ موجود ہے کہ وہ اس کتاب کے مقابلہ سے 1299ھ میں فارغ ہوئے۔22
محقق کتاب نظام الدین اعظمی نے اس کتاب پر ہلکا پھلکا حاشیہ بھی چڑھایا ہے ۔جس میں نسخوں کا اختلاف بیان کرتے ہیں ، نسخوں کا اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے صرف حرف یا کلمہ کا تغیر ہے ۔ محقق حاشیہ میں مسلکی تعصب کا شکار بھی ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔23
محقق کے کلمہ شکر وتقدیم کے بعد مناسبت کتاب کی بنا پر '' اقسام الحدیث فی اصول التحدیث '' تقریبا دس صفحات پر مشتمل اصول حدیث کی طرز کا رسالہ ہے ، جس کے بعد چار صفحات پر مؤلف کا ترجمہ اور ایک صفحہ پر مؤلف کتاب کی چند تصنیفات کا ذکر ہے ۔
مطبوعہ نسخہ:
''فتح الرحمٰن '' غالبا ہندوستان میں شائع ہوئی ۔ پاکستان میں اس کے عکس کو '' عتیق اکیڈمی '' بیرون بوہڑگیٹ ، ملتان نے عرض نا شر اور سن اشاعت کے بغیر دوجلدوں میں شائع کیا ہے ، ٹائیٹل پیج رنگین ، جلد بندی تسلی بخش اور کتابت کی اغلاط بہت زیادہ ہیں ، دو اجزاء پر مشتمل جلد اول کے جزء اول 249اور جزو دوم 295جبکہ جلد دوم جزو سوم 389صفحات پر مشتمل ہے ، یعنی تین اجزاء کے دو جلد 933صفحات پر محیط ہیں ۔
فن کتاب:
فتح الرحمٰن '' شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی کتاب کس فن شریف میں ہے ، خلیق احمد نظامی نے شیخ محدث کی تصنیفات کی موضوع بندی کرتے ہوئے اس کتاب کو فقہ کے موضوع پر کتابوں میں درج کیا ہے ۔
'' فتح المنان فی تائید النعمان '' (عربی) فقہ حنفی کی تائید میں ہے'' ۔24
سید عبد الحئی حسنی نے فقہ حنفی کی کتب میں اس کا تذکرہ کیا ہے25جبکہ آپ دوسرے مقام پر کتاب کے بارے میں رقمطراز ہیں ۔
''کتاب ضخم لہ فی الفقہ والحدیث '' 26
یعنی شیخ محدث کی فتح المنان فی تائید مذہب النعمان ضخیم کتاب فقہ اور حدیث میں ہے ،نعمان کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ آپ کا تو فقہی مذہب ہے تو یقینا یہ کتاب فقہ حنفی کی فقہی کتاب ہے ۔ہمارے خیال میں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر یہ حدیث کی کتاب ہے ۔
1۔ کتاب فن حدیث شریف میں ہے مگر اس کی ترتیب فقہی ابواب پر ہے ۔
صاحب فوائد جامعہ رقمطراز ہیں۔
''نہایت معرکۃ الآراءتالیف ہے جس میں مشکوٰۃ کے طرز پر فقہی ابواب کے ماتحت احادیث کوجمع کیا گیا ہے ، اس کتاب سے شیخ موصوف کی فقہی بصیرت اور احادیث پر وسعت نظر کا پتہ چلتا ہے ''27 یعنی شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے احادیث کو مختلف عنوانات کے ماتحت جمع کیا ہے ''28
2۔بقول حسنی صاحب کہ کتاب فقہ اور حدیث میں ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کو '' فقہ الحدیث '' کی کتب میں جگہ دی جائے ۔
3۔ فقہی ابواب پر ترتیب ، مذاہب فقہ کابیان اور امام اعظم علیہ الرحمۃ کے مذہب کو ترجیح دینے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ کتاب فن حدیث شریف سے فقہ کے فن میں داخل ہوجائے ، پھر تو سنن تر مذی شریف کو بھی فقہ کی کتاب گردانا جائے جس میں فقہی ابواب کے ساتھ ساتھ فقہاء کے مذاہب کا التزام کیا گیا ہے ۔
4۔ شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے خود یہ التزام کیا ہے کہ مذہب نعمان پر مخالفت حدیث کا جو الزام ہے وہ رفع کیا جائے تو آپ نے مذہب نعمان کی تائید میں احادیث ہی کو جمع کیا ہے ، مذاہب فقہ کا بیان تو ضمنا ہے ،یہی وجہ ہے کہ فتح الرحمٰن،کے جزو اول کی مترجم کتا ب کے ٹائیٹل پیج پر ہے ، '' تائید مذہب حنفی احادیث مبارکہ کی روشنی میں ''یعنی مذہب نعمان سنت کے انوار سے روشن ہے ۔
احادیث مبارکہ کی تعداد:
''فتح الرحمٰن '' دو جلدو ں پر مشتمل ہے ۔پہلی جلد میں دو اجزاء ہیں اور دوسری جلد تیسرے جزء پر مشتمل ہے ، محقق کتاب نظام الدین اعظمی نے احادیث پر جو نمبرنگ کی ہے اس کے مطابق احادیث کی تعداد کا جدول یوں ترتیب پاتا ہے ۔
نمبر شمار جلد/ الجزء احادیث کی تعداد
1۔ 1۔ الاول 628
2۔ 1۔
الثانی 996
3۔ 2۔ الثالث 962
پہلی جلد میں دو اجزاء (الجزء الاول،الجزء الثانی)کو جلد اول اور جلد ووم سے موسوم کیا گیا ہے ،دوسری جلد میں ایک ہی جزء (الجزء الثالث )کو جلد سوم سے موسوم کیا گیا ہے ،الجزء الاول سے الجزء الثالث تک حدیث پر نمبر مسلسل ہے اس مسلسل نمبر کے مطابق فتح الرحمٰن ''کی کل احادیث کی تعداد 2586ہے۔
حصول برکت:
محقق کتاب شیخ نظام الدین اعظمی کے بقول نسخہ کی تحریر سے فراغت محمد طاہر (کاتب) کے ہاتھ سے1261ھ میں ہوئی ۔
''اللٰھم صل علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آل سیدنا محمد اغفر ذنوبہ ولوالدیہ ببرکۃ ھٰذہ النسخۃ وتقبل منہ اجر ھٰذ ہ الکتابۃ ''29
اے اللہ اس نسخہ کی برکت کے طفیل اس (کاتب) اور ا س کے والدین کے گناہوں سے درگزر فرما اس (نسخہ کی) کتابت کا اجر اس کی طرف سے قبول فرما ۔
اہمیت کتاب:
دور اندیش اور زمانے کا نبض شناس مصنف قوم وملت اور زمانے کے حالات کے مطابق اور ضرورت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی قلم کو حرکت دیتا ہے ، تاکہ اس کی تحریری خدمت بر وقت بیماری کا درماں اور آ ئندہ حالات کی منصوبہ بندی میں پیش خیمہ ثابت ہو ۔ ضرورت اور افادیت کو نظر انداز کرتے ہوئے حکمت کے جواہرات کو رولنا ضیافت طبع کا ساماں کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے اپنے دور کے تقاضوں اور ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی علمی نگارشات سے شاہ وگدا کی خیر خواہی کی، ایک دور ایسا آیا جب مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ ووآلہ وسلم ،کے تحفظ کا مسئلہ آیا تو روح ایمان اور اس دور کےعظیم الشان اہمیت کے حامل مسئلہ کے تحفظ کے لئے شیخ محدث علیہ الرحمۃ کا قلم حرکت میں آیا اور آپ نے مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کے تحفظ کی خاطر مدارج النبوت جیسی عظیم الشان کتاب کو تحریر کرتے ہوئے نذرانہء عقیدت پیش کیا دور کے تقاضوں کے مطابق آپ نے سیاسی ، روحانی ، معاشی ، اخلاقی اور مذہبی حوالے سے اپنی علمی اور تحقیقی تحریر سے قوم وملت اور شاہان وقت کی راہنمائی کی اہمیت کو پیش نظر رکھا ہے ۔
''اگر سولہویں اور سترہویں صدی کی مختلف مذہبی تحریکوں کا بغور تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجائیگی کہ اس زمانہ کا سب سے اہم مسئلہ پیغمبر اسلام کا صحیح مقام اورحیثیت متعین کرنا اور برقرار رکھنا تھا ۔ تصور امام ، عقیدہء مہدویت ، نظریہء الفی ، دین الٰہی ، یہ سب تحریکیں پیغمبر اسلام کے مخصوص مقام اور مرتبہ پر کسی نہ کسی طرح ضرب لگاتی تھیں۔شیخ عبد الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ وارفع مقام کی پوری طرح وضاحت کردی اور اس سلسلہ کی ہر گمراہی پر شدت سے تنقید کی ''30
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمہ کی کتب وقت کی ضرورت اور اہمیت کے عین مطابق ہیں ۔ یہی وجہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کتب کو مقبولیت عامہ بخشی ہر خاص و عام نے اپنے سراور آنکھوں پر رکھا ۔فتح الرحمٰن ،آپکی آخری تالیف ہے ۔''وھٰذا من اٰ خر تالیفہ ''31
فتح الرحمٰن کی تالیف میں بھی آپ نے اس وقت کے تقاضے اور اہمیت کے مطابق تالیف کیا ہے ، فقاہت سے عاری اور تعصب میں غالی لوگوں نے حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ پر یہ الزام عائد کیا کہ آپ کا مذہب احادیث کے خلاف ہے ۔اور آپ کے مذہب کی بنیا د ذاتی رائے یعنی قیاس ہے ، جبکہ دیگر آئمہ بالخصوص حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کا مذہب حدیث کے بالکل قریب ہے ، اس وہم کی وجہ حدیث شریف کی وہ کتابیں جن کی تصنیف وتالیف میں شوافع حضرات کا بہت بڑا حصہ ہے ،شوافع حضرات علیہم الرحمہ نے احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترتیب وتالیف میں اپنے مذہب کے مطابق احادیث کو درج فرمایا ہے جنکی وجہ سے عام قاری کی نظر سے دوسرے آئمہ کے مذاہب والی احادیث اور دلائل اوجھل ہوگئے ۔
حالانکہ محدثین عظام علیھم الرحمہ لاکھوں احادیث کے حافظ تھے ۔امام بخاری علیہ الرحمۃ کو ہی سردست لے لیجئے جن سے حضرت امام مسلم علیہ الرحمۃ نے قدم بوسی کی اجازت طلب فرمائی تھی ۔
''دعنی اقبل رجلیک یا استاذ الاستاذین ، وسید المحدثین وطبیب الحدیث فی عللہ''32
صرف آپ کو ایک لاکھ صحیح اور دولاکھ غیر صحیح احادیث یاد تھیں ۔33اور آپ نے چھ لاکھ احادیث سے بخاری شریف کا انتخاب کیا ۔34
عصر حاضر میں موجودہ احادیث کی تعداد بمشکل ایک لاکھ پہنچے تو لاکھوں احادیث کا ذخیرہ جن پر دوسرے آئمہ کے مذہب کی بنیاد تھی عام وخاص سے اوجھل اور اوجھل ہی ہوتا چلا گیا ،آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل معاملہ پیش آیا تو کہا جانے لگا کہ آئمہ اسلام کا مذہب حدیث کے خلاف ہے حالانکہ آئمہ اسلام یعنی مجتہدین شریعت کے سمند رکے شناور تھے جو ڈوب کر انسانیت کودستورحیات کے لئے زندگی کا سراغ دے گئے ۔
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ بھی اس پراپیگنڈہ کا شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور شوافع کی مرتب کردہ احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ بھی اس وہم کا شکار ہو گئے ۔ شیخ عبد الحق بن سیف الدین وطنا دہلوی ، اصلا بخاری ، نسبا ترکی ، مذہبا حنفی ، مشربا صوفی اور طریقتا قادری ، جب حرمین شریفین میں تھے اور آپ نے جب وہاں مشکوٰۃ شریف کا درس لیا تو شافعی مذہب اختیار کرنے کا خیال پیدا ہوا ۔ جب آپ نے اس کا اظہار شیخ عالم باعمل ،منارہ ھدایت ، نور پرہیزگاری ، استقامت بلند از کرامت ، ابوالمواھب صفی الدین عبد الوہاب المتقی القادری الشاذلی سے کیا تو پوچھا اس کا خیال کیسے آیا ؟شاید مشکوٰۃ شریف پڑھنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے میرے بھائی آپ کو کیا ہوگیا ہے ۔انہوں نے صرف اپنے مذہب کے موافق احادیث تلاش کرکے نقل کی ہیں اور انہی روایات کو اپنی کتاب میں باربار نقل کرتے ہیں حالانکہ احادیث اور بھی ہیں جو امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کو چودہویں کے چاند کی طرح روشن اور ثابت کردیتی ہیں پھر امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی شان بہت بلند ہے دوسرے آئمہ کے مقابلےمیں آپکو تقدم زمانی کا شرف بھی حاصل ہے۔آپ کے اصحاب میں تابعین اور تبع تابعین کے پرہیزگار محققین اور ماہرین فنون ، فقہاء اور علماء دیگر مجتہدین کے مقابلے میں زیادہ ہیں ، آپ نے پر مغز طریقے سے بیان کیا کہ میرے دل سے (مذہب تبدیلی کا) خیال جاتا رہا ۔
جب آپ نے مجھےوطن واپسی کا حکم دیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے اپنی خدمت میں رہنے کا اور موقع دیجئے ،تاکہ میں مذاہب اربعہ اور خصوصا شافعی اور حنفی مذہب میں تحقیق کروں،اور حق میرے لئے واضح ہوجائے ، کیونکہ ان مذاہب میں زیادہ بنیادی اختلاف ہے ، آپ نے فرمایا ان شاء اللہ آپکو وہاں وطن میں اس کا موقع ملے گا ۔آپ کی ذات کی برکت سے مشکوٰۃ شریف کی شرح کے دوران مجھے یہ موقع مل گیا ۔
''فحصل ببرکۃ نفسہ الشریف'' 35
ان کے بیان کے مطابق ہی واقعہ وقوع پذیر ہوا ، لیکن ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، میں اس مقصد کے حصول کا شدت سے منتظر تھا آخر کار سعادت کا سویرا طلوع ہوا اور مجھے اپنے مقصد اور ارادے میں کامیابی نصیب ہوئی ۔اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو تعصب اور تنگ نظری کی بجائے نظر انصاف سے اس کا مطالعہ کرے۔ 36
امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کےمذہب کی بنیاد میں اتفاق ہے کہ وہ حدیث پر ہے ، امام احمد علیہ الرحمۃ کے اکثر مسائل حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے موافق ہیں تو یہ بات بھی حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ کے مذہب کی حدیث کے مطابق ہونے کی دلیل ہے ۔
''ومذ ھب الامام احمد موافق لہ مذھب الامام ابی حنیفۃ فی الغالب وھٰذا احد الدلائل علی متابعۃ الامام ابی حنیفۃ الاحادیث عند الطالب لا ن مذھب احمد مبنی علی الحدیث باالاتفاق ''37
کتاب کے مصادر ومراجع:
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب '' فتح المنان '' کو نہایت معتبر احادیث کی کتب کے حوالہ جات سے سجایا ہے ۔آپ نے مندرجہ ذیل کتب سے احادیث نقل کی ہیں ۔
1۔ جامع الاصول
امام مجد الدین ابن الاثیر ، یہ صحاح ستہ کی جامع ،بہت جلیل القدر اور عظیم المرتبت کتاب ہے ۔
2۔الجامع الکبیر
امام علی المتقی ، یہ حدیث کی کتاب امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کی کتاب '' جمع الجوامع'' کی طرز پر ہے جامع الاصول سے زیادہ بڑی اور معلومات افزا کتاب ہے جامع الاصول میں صرف صحاح ستہ کی روایات ہیں جبکہ اس کتاب میں تمام احادیث کو جمع کیا گیا ہے ،شیخ محدث علیہ الرحمۃ جب فتح المنان میں تخریج کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد جامع الاصول ہوتی ہے ،اور جب ''روایت '' کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد '' جامع الکبیر '' ہوتی ہے۔
3۔مؤطا امام محمد
امام محمد بن حسن شیبانی امام محمد نے اس کتاب کو امام مالک علیہ الرحمہ سے سنا پھر تلخیص کی اور بعض روایات کا اضافہ کیا۔
4۔ سنن دارمی
امام ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمٰن الدارمی حامیان دین اور حفاظ اسلام میں سے ہیں ۔امام احمد ، بخاری اور مسلم علیہم الرحمۃ کے ہم زمان محدث ہیں ۔
5۔الفصل الرابع للمشکوٰۃ
اس کو بعض معتبر اہل علم نے مشکوٰۃ میں شامل کیا ہے ۔
شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے مذاہب اربعہ کی فقہ کی کتابوں میں سے مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا ہے ۔
1۔ الحاوی مع الشرح ، امام شافعی علیہ الرحمۃ کے مذہب کی کتاب ہے ۔
2۔ رسالہ ابن زید
یہ امام مالک علیہ الرحمۃ کے مذہب کی نمائندہ کتاب ہے ۔
4۔کتاب الخرقی
یہ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کے مذہب پر نفیس اور عمدہ کتاب ہے ،اور اس کے ساتھ ساتھ ترکسی کی شرح بھی نہایت مفید ہے ۔
مذکورہ مصادر ومراجع شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے ازخود '' فتح المنان '' میں بیان فرمائے ہیں ۔اس کے علاوہ شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے اکابر اسلام اور عظیم محدثین کی روایات ، آثا ر ، اقوال اور کتب کا حوالہ دیا ہے ۔
ذیل میں اکابر محدثین ، اکابر علماء اور کتب کے اسماء درج کئیے جاتے ہیں جن سے شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب میں استفادہ کیا ہے ۔
1۔ مشکوٰۃ 2۔امام ابوداود ،3۔امام نسائی ، 4۔امام بخاری5۔امام مسلم ،6۔ ترمذی ،7۔ مؤطا، 8۔ احمد ۔9۔ مسند احمد ،10۔حلیۃ الاولیاء از ابونعیم ،11۔ابن ماجہ ،12۔ صحاح ستہ ،13۔المعجم الکبیر ،14۔طبرانی ،15۔ بیہقی ، 16۔ تاریخ ابن عساکر ،17۔ شعب الایمان بیہقی ،18۔ دیلمی ،19۔ ابن حبان ، 20۔نوادرالاصول حکیم ترمذی ، 21۔ مسند ابویعلیٰ ،22۔عبد بن حمید 23۔ ابو یعلیٰ ، 24۔ ابوالشیخ ، 25۔ ابن عساکر ،26۔ تاریخ بخاری، 27۔ خطیب ،28۔ ابن نجار ،29۔ ابن مردویہ ،30۔ العجم الاوسط از طبرانی ،31۔ مسند فردوس از دیلمی ،32۔ابن شاہین ،33۔ حکیم، 34۔ ابن ابی الدنیا ، 35۔ التوبیخ ،36۔سنن سعید بن منصور ، 37۔ امام شافعی ،38۔ ابن سنی ، 39۔ الکامل لابن عدی ، 40۔ کتاب الضعفاء از عقیلی ، 41۔ اوزاعی ، 42۔باوردی43۔ابن قانع ،44۔جامع عبد الرزاق، 45۔قضاعی،46۔المعجم الصغیر ، 47۔ ابن عدی ، 48۔ دارقطنی ،49۔الماوردی ،50۔تاریخ رافعی ،51۔دارمی ،52۔الموتلف از خطیب ،53۔ الابانہ از سخری ابن نصر ، 54۔سمویہ ، 55۔عدنی ،56۔رافعی ،57۔ابن فیل ،58۔ابن سعد ، 59۔ابن جریر ، 60۔ ابن ابی حاتم ،61۔ابن منذر ،62۔نصر المقدسی ،63۔ابو عبید،64۔ الالکائی ،65۔ ابن عبد البر ،66۔ابن بشران ،67۔ مسدد،68 ۔ابوعوانہ ، 69۔طحاوی ،70۔ رزین ، 71۔ ابوعبد الرحمٰن سلمی ،72۔البزاز ۔ 73۔ العقیلی ،74۔مصنف عبد الرزاق ،75۔ ابن ابی شیبہ ،76۔آدم بن ابی ایاس ،77۔ العسکری ، 78۔ابوداود طیالسی ، 79۔ ابو شیخ ،80۔ ابن مبارک ، 81۔ ہناد ،82۔حارث ،83۔سیوطی ،84۔ امالی ابو القاسم الزجاجی ،85۔ ابن الانباری ،86۔ تاریخ ابن ابی خیثمہ ،87۔ابوالصعالیک الطرطوسی فی حزبہ،88۔ابن رنجویہ ، 89۔ البغوی ،90۔ عبد الرزاق ،91۔مسند عثمان ، 92۔ شرح السنۃ ،93۔اربعین سلمی ،94۔ روضۃ العقلاء از ابن حبان ، 95۔البدایہ ،96۔محمد بن نصر ،97۔ الجامع از خطیب ،98۔ ابن حبان ،99۔ دعوات مستغفری ،100۔غمام ،101۔البزار،102۔حاکم ،103۔خمسہ ،104۔فتح القدیر از شیخ ابن ہمام ،105۔جمع النجار ،106۔ حسن بن سفیان ،107۔ الضیاء المقدسی ، 108۔ مسیب، 109۔ ابن خزیمہ ،110۔فتح ،111۔مستدرک ،112۔سفرالسعادۃ ،113۔زوائد مسند احمد ،114۔ ابن منزہ ،115۔ الافراد از دارقطنی ، 116۔الکنٰی از حاکم، 117۔المستدرک ،118۔الطیالسی ،119۔احمد بن یحییٰ ،120۔النھایہ،121۔المعرفۃ از ابونعیم ،122۔ابن زنجویہ، 123۔معجم الصغیر از طبرانی ،124۔المختار ،125۔ معانی الآثار ازطحطاوی ،126۔نووی ،127۔شرح الآثار از طحاوی ،128۔مؤطا از امام محمد بن حسن ،129۔المحیط،130۔تورپشی ،131۔فوائد از حافظ ابو القاسم تمام بن محمد مراری ،132۔ المتفق والمفترق از خطیب ،133۔تاریخ از حاکم ،134۔شرح سفر السعادۃ از شیخ محدث ،135۔شرح المشکوٰۃ از ابن حجر، 136۔تورپشتی ،137۔رسالہ ابن ابی زید ، 138۔الفرح از ابن ابی الدنیا ،139۔تاریخ سمرقند از ابو سعید ادریسی ،140۔زرکشی ،141۔عمل الیوم واللیلۃ از جلال الدین سیوطی ،142۔المواھب اللدنیۃ ،143۔ حافی ،144۔سرفی ،145۔حلیمی ،146۔الثواب از ابوالشیخ ،147۔قاضی ابوبکر بن عربی مالکی ، 148۔امالی الاذکار ،149۔فتح الباری ،150۔تعلیق از قاضی ،151۔خلیلی ،152۔معجم از ابوسخن ،153۔معجم از ابن النجار ،154۔ امالی از ابوالحسن صیقلی ،155۔ابن السنی ،156۔الجامع الصغیر ،157۔کرمانی ،158۔نہایہ ،159۔ابن دقیق ،160۔شرح الھدایۃ ،161۔ مبسوط مبسوط از شیخ الاسلام ، 162۔ شرح المصابیح از طیبی ،163۔سفرالسعادۃ از مجد الدین ،164۔جرجانی ،165۔تورپشتی ۔
انداز تالیف وترتیب:
محدث تبریزی علیہ الرحمہ نے حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ کے فقہی دلائل کی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ''مشکوٰۃ المصابیح '' میں بڑے خوبصورت انداز میں جمع فرمایا ، جن سے شیخ محدث علیہ الرحمۃ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے ،اس خوبصورت انداز کی طرز پر حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے آئمہ احناف کے دلائل پر مشتمل احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑے حسین وجمیل انداز میں اپنی کتاب ''' فتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان ''میں جمع فرماکر عام لوگوں کی دلجوئی فرماتے ہوئے احسان فرمایا ، شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی اس انوکھی کتاب کی تالیف میں دو طریقے اختیار کئے گئے ہیں :ایک طرز صاحب مشکوٰۃ دوسرا طرز کتب فقہ۔
1۔طرز صاحب مشکوٰۃ:
'' فتح الرحمٰن ''کے ابواب اور فصول میں صاحب مشکوٰۃ کے نقوش کو نشان اول کے طور پر اپنایا گیا ہے ،جس طرح صاحب مشکوٰۃ نے ابواب قائم کئیے ہیں اور فصول کو ترتیب دیا ہے اس کتاب میں بھی یہی طریقہ اپنایا گیا ہے ، تاکہ قاری کا ذہن مشکوٰۃ جیسا ہی اثر قبول کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے ،مشکوٰۃ کے سوا دیگر احادیث کی کتابوں سے بھی استفادہ نے کتاب کی عظمت کو بڑھادیا ہے ، کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ جو صاحب مشکوٰۃ کے طرز سے اس کتاب کو ممتاز کرتی ہے کہ آپ فصل کے آخر میں ''تنبیہ '' کے عنوان سے فقہاء کے اختلاف کو بھی بیان کرتے ہیں اگر چہ یہ طرز ' تنبیہ ' کتاب الصلوٰۃ کے آخر سے باب الجنائز تک قائم رہ سکی ہے ،وہاں سے کتاب البیوع تک مذاہب اربعہ کی فقہی کتب سے استفادہ کرکے ان کے مباحث اور دلائل کو نقل کر دیتے ہیں ، جن سے خود ہی واضح ہو جاتا ہے کہ احناف کے مذہب کی بنیاد حدیث ہے طرز اول احادیث کی طرز پر مکمل ہوجاتی ہے ۔
2۔ طرز کتب فقہ:
''فتح الرحمٰن ''کی تالیف کی طرز دوم کتب فقہ جیسی ہے جس میں فقہی ابواب پر احادیث کو جمع کیا گیا ہے ،شیخ محدث علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس کتاب کی تالیف کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے اور وہ حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کی تائید اور اثبات ہے اور دونوں طرزوں سے یہ مقصد حاصل ہواہے ۔
شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے یہ دو مختلف طرز اس لئے اپنائیں کہ مشکوٰۃ کی طرز میں نقل کی روایت سے استدلال کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہیں ، تو دیگر احادیث کی کتب سے استفادہ کرکے آپ نے من جملہ پہلوؤں کو واضح کردیا ہے ،اگر پہلی قسم میں کوئی بات ذکر سے رہ جاتی ہے تو وہ دوسری قسم میں بیان کردی جاتی ہے شیخ محدث علیہ الرحمۃ نے مشکوٰۃ المصابیح کی ترتیب میں دوسری طرزکا اضافہ کرکے دونوں میں ایک حسین امتزاج پیدا کردیا ہے اور مشکوٰۃ المصابیح ،میں مانگ بھردی ہے ۔
تنبیھات:
شیخ محدث علیہ الرحمۃ جہاں تنبیہ کا عنوان دیتے ہیں وہاں آپ آئمہ علیھم الرحمۃ کے درمیان فقہی اختلافات کو بیان کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں فقہا ءآئمہ علیھم الرحمۃ کے فقہی آراء کی نوعیت کیا ہے ،اس عنوان میں آپ آئمہ کی فقہی آراء کے بیان کے ساتھ ان کے دلائل کو بھی ذکر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کو ٹھوس دلائل اور شواہد کے ساتھ ترجیح دیتے ہیں ۔خود فرماتے ہیں کہ اس فصل میں ہم مختلف مسائل میں آئمہ کا اختلاف نقل کریں گے ۔''التنبیھات اعلم ان فی ھٰذا الفصل کلاما من اوجہ فی بیان الاختلافات الواقعۃ للائمۃ ''38
آئمہ اربعہ کا مستدل:
شیخ محدث علیہ الرحمۃ آئمہ اربعہ یعنی حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ ، امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل علیھم الرحمۃ میں سے ہر ایک کے مستدل کو بیان کرتے ہیں ،اور ہر امام کے ماخذ اور منشاء پر بہت ہی بصیرت افروز اور نپی تلی علمی دائرہ میں تنقید کرتے ہیں ، حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ کے ماخذ اور منشاء کی وجوبات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ترجیح دیتے ہیں ، حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کی وجوبات کی ترجیح کے جب درپے ہوتے ہیں تو ایک ظاہر ہوجاتا ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کا مذہب حدیث کے عین مطابق ہے اور ساتھ ہی حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وسعت نظر کا پتہ چلتا ہے۔
وجوہ استدلال:
شیخ محدث علیہ الرحمۃ کے استدلال کی وجوہات بھی حسن ترتیب کا مرقع ہیں ، وجوہ استدلال میں آپ قرآن وسنت ، آثار صحابہ وتابعین ، تبع تابعین اور اسلاف امت کے خوشہ چین نظر آتے ہیں ، نقلی دلائل سے استفادہ کے بعد آپ عقلی دلائل سے بھی مسئلہ کی وضاحت بڑے احسن انداز میں فرماتے چلے جاتےہیں بسااوقات حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ فریق آخر کے دلائل ہی سے اپنی دلیل کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرماتے ہیں جس سے مسئلہ نکھر اور سنور کر سامنے آجاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے بارے میں خوب کہا ہے ۔''یہ شیخ عبد الحق کا اہم کارنامہ ہے اس کی اشاعت کی بھی ضرورت ہے ''39
پاس ادب :
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ آئمہ کی فقہی آراء بیان کرنے کے بعد جب حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کی ترجیحات بیان کرتے ہیں تو تعصب اورتعلی کا شکار نہ ہوتے ہیں ، بلکہ دوسرے آئمہ علیھم الرحمۃ کے ساتھ نہایت عقیدت اور پاس ادب کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں ،شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی اول سے آخر تک آپ یہ ساری کتاب پڑھ جائیں تو آپ شیخ کے قلم سے لفظ ''رد '' ۔ نہ دیکھ پائیں گے کہ یہ فلاں پر رد ہے جیسا کہ دوسرے لوگوں کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنی دلیل کا وزن بڑھانے کے لئے '' رد '' کا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ اس دلیل سے فلاں پر رد ہے آپ اپنی ترجیحات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اپنی دلیل بھی بیان کرجاتے ہیں فریق آخر کے دلائل کے مقابلے میں بے ادبی کا شائبہ تک نہیں ہونے دیتے ہیں ،آئمہ اعلام کے ساتھ آپ کاادب واحترام بھی درجہ کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہوانظر آتا ہے ۔
انداز ِتحقیق:
قرآن وسنت اور آثار کے بیان کرنے کے بعد اگر ان روایات میں وجوہ ترجیحات ہوں تو شیخ محدث علیہ الرحمۃ ان وجوہات کو بیان کرتے ہوئے عقل و نقل دونوں کو اپنا معاون اور مدد گار بناتے ہیں ،حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ کے نزدیک کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کی کیفیت یہ ہے کہ تین چلوؤں کے ساتھ کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے پہلے چلو سے کلی بھی کرے اور ناک میں پانی بھی ڈالے اور اسطرح دوسرے اور تیسرے چلو کے ساتھ ایک ہی وقت کلی بھی کرے اور ناک میں پانی بھی ڈالے یعنی کلی اور ناک کے لئے علیحدہ علیحدہ الگ سے پانی نہ لے،جبکہ احناف کے مذہب میں یہ ہے کہ تین چلوؤں کے ساتھ کلی کرے پھر تین چلوؤں کے ساتھ ناک میں پانی ڈالے یعنی کلی اور ناک کے لئے تین تین مرتبہ الگ الگ چلوؤں کا استعمال ہوگا ۔
اس اختلافی مسئلہ شیخ محدث علیہ الرحمۃ عقلا یوں حل فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ترجیح دیں گے جس میں الگ الگ پانی کے استعمال کیئے جانے کا ذکر ہے، کیونکہ ناک اور منہ الگ الگ اعضاء ہیں اور ایک ہی مرتبہ پانی لے کر دو اعضاء کو نہیں دھویا جائے گا جیسے بقیہ اعضاء میں ہوتا ہے نقلا شیخ محدث علیہ الرحمۃ اصول فقہ کا قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ جو حدیث قیاس کے مطابق ہو اس کو اس حدیث پر مقدم کیا جائےگا جو قیاس کے مخالف ہو ۔
''ولٰکن رجحنا الروایۃ الاولیٰ لان الفم والانف عضوان فلایجمع بینھما بماء کسائر الاعضاء وقد ثبت فی اصول الفقہ ان الحدیث الذی یوافق القیاس یقدم علی مایخالف ''40
صحت حدیث کا اہتمام:
حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کی تائید کرنے والی احادیث کو جب پیش کیا جاتا ہے تو اکثر ان احادیث کے رواۃ کی صحت کے بارے میں کلام کیا جاتاہے،حالانکہ حدیث کے اصول کے مطابق ضعیف احادیث کےمتعددطرق 41کامجموعہ اور مجموعہ سے مراد صرف دو احادیث بھی ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہوئے حدیث حسن کے درجہ تک پہنچا دیتی ہیں۔42
قطع نظر اس اصول کے شیخ محدث علیہ الرحمۃ امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کو تقویت دینے والی احادیث پر اس کلام کا جواب یوں دیتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ کی احادیث کے کم از کم درجہ والے راوی تابعی ہیں اس لئے آپ علیہ الرحمۃ کی احادیث اعلیٰ درجہ کی صحت کے مقام پر فائز ہیں جب احادیث کے رواۃ پر ضعف کا شائبہ ہے تو وہ ضعف امام اعظم علیہ الرحمۃ کے زمانے سے کافی بعد روایت در روایت اور در روایت کرنے والے راویوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔
امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے جس وقت اور جن شیوخ سے وہ حدیث روایت کی تھیں اسوقت وہ حدیث ضعف سے کوسوں دور تھی ۔ ضعف بعد والے رواۃ میں ہے آپ علیہ الرحمۃ کے رواۃ تو چمکتے دمکتے ہیرے جواہرات اور عدن کے موتی تھے ۔
محاکمہ:
حضرت شیخ علیہ الرحمۃ آئمہ کے دلائل بیان کرنے کے بعد بسا اوقات ان دلائل کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔''نبیذ تمر ''سے وضوکی بابت فقہاء کے درمیان اختلاف ہے شیخ محدث حدیث اور اصول حدیث کی روشنی میں روایتا اور درایتا ایک طویل بحث اس بارے میں نقل فرماتے ہیں اور جب ساری بحث مصفیٰ اور منقیٰ ہوجاتی ہے تو آخر میں اپنی رائے دیتے ہیں کہ تمام تر تقریر اور بحث سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حق حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے ساتھ ہے ۔
''وبھٰذا ظھر ان الحق مع ابی حنیفۃ رحمہ اللہ واللہ اعلم بالصواب ''43
اسلوب نگارش:
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا اس کتاب میں اسلوب تحریر نہایت سادہ آسان اور قاری کے دل کو موہ لینے والا انداز ہے۔ فصیح وبلیغ عربی زبان میں قاری کے دل و دماغ تک معانی پہنچانے کا آپ کے پاس خاص ملکہ ہے ، آپ ادائے معنیٰ میں منطقی ابحاث سے کوسوں دور رہتے ہیں اور کلام میں پیچیدگی اور تعقید کا عنصر تو آٹے میں نمک کے برا بر ہے ، دلنشیں پیرائے میں آپ معانی اور مقصود کو سپرد قلم کرتے ہوئے قاری کے قلب و روح میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔گاہے بگاہے اندھیرے سے اجالا کرتے ہوئے روشن کرتے چلے جاتے ہیں کہ حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ کا مذہب بالکل حدیث کے عین مطابق ہے ، الزام جہالت اور تعصب کی پیداوار ہے، سادہ انداز کی ایک مثال اور انداز سے اپنے دل ودماغ کو تازہ کیجئے ۔
امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ کا مذہب مبارک ہے کہ نماز میں قہقہہ (زور سے کھل کھلا کر ہنسنا) سے وضو ٹوٹ جاتا ہے امام شافعی کے نزدیک قہقہہ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے کیونکہ یہ جسم سے خارج ہونے والی نجاست نہیں ہے ،یہی وجہ کہ نماز جنازہ ، سجدہ تلاوت ،یانماز کے علاوہ قہقہہ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ، شیخ محدث علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جس میں حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ نے قیاس کی مخالفت کرتے ہوئے حدیث شریف پر ہی عمل کیا ہے ، حالانکہ حدیث ضعیف ہے ۔ ا س سے حضرت امام علیہ الرحمۃ کی سنت کے اتباع پر قوت اور مجاھدہ کی عکاسی ہوتی ہے ، مخالفین کے اس گمان کی نفی ہوجاتی ہے کہ آپ تو قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے ہوئے قیاس پر عمل کرتے ہیں ۔
'' وھٰذا احد المواضع التی عمل الامام ابوحنیفۃ بالحدیث المخالف للقیاس وان کان ضعیفا ۔۔۔۔وعدذالک من مجاھدتہ وقوۃ اتباعہ للسنۃ علی خلاف ماوقع فی اذھان بعض الناس انہ یعمل بالقیاس ویقدمہ علی الحدیث ''44
مذکورہ بالامسئلہ کو بنظر غور دیکھا جائے تو حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ خالصتا قیاس سے کام لے رہے ہیں جبکہ حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ
قیا س کی بات تک نہیں کرتے ہیں بلکہ حدیث شریف پر عمل کرتے ہیں ، حدیث ضعیف ہے مگر ہے تو حدیث ۔حیرت ہے ان لوگوں کی عقل ودانش پر جو عاشق حدیث پر مخالفت حدیث کا الزام دیتےہیں۔امام اعظم علیہ الرحمۃ کی درس گاہ تو پہلا سبق ہی یہی ہے ۔
عقل قربان کن بہ پیش قول مصطفیٰ
شیخ محدث علیہ الرحمۃ نہایت سادگی اور ترغیبی انداز میں اپنا معنیٰ ومراد قاری کے ذہن میں پہنچا دیتے ہیں جس کو وہ قبول کرنے میں ذرا برابر بھی دقت اور قلق محسوس نہیں کرتا ہے ،آپکی تحریر کااعجاز ہے کہ آپ کی علمی اور دقیق مباحث قاری کے لئے ایک مر غوب ضیافت سے کم نہیں ہے ۔
نقد وتبصرہ:
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ '' تنبیہ '' کے عنوان کے تحت نقد وتبصرہ میں بھی اپنے علمی کمالات اور جواہر کاا ظہار بڑے ادب واحترام سے کرتے ہیں، حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کی تائید کرنے والی احادیث پر جس نوعیت اور جس علم سے کوئی اعتراض وارد ہو تو آپ ان کا اسی نوعیت اور علم سے تسلی بخش جواب دینے میں اپنی مہارت کا خوب بھرپور اظہار فرماتے ہیں حدیث پر روایتا اور درایتا آپ کا نقدو تبصرہ علم حدیث کے تمام علوم کے حوالے سے ہوتا ہے ،روایتا اور درایتا آپ علمی تبصرہ عقل و نقل کو معانقہ کرادیتے ہیں ۔علمی نقد وتبصرہ کے کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر فن میں مہارت تامہ بخشی ہے تفسیر ، حدیث ، لغت ، تاریخ ،اور اسماء الرجال ،کا تو آپ بڑی کامل مہارت سے مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیت اور قابلیت کا چار دانگ عالم میں لوہا منوایا ہے ، بسا اوقات آپ کا نقد وتبصرہ علم و تحقیق کی دوسری منازل کا پتا دینے میں بھی مشعل راہ ثابت ہوتا ہے ۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
شیخ محدث علیہ الرحمۃ عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وافر حصہ رکھتے ہیں ، آپکی سیرت پر کتاب مدارج النبوت شاھد عادل ہے ،جب ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ جمیل کی تارہل جاتی ہے تو آپ پر وارفتگی اور محویت کا ایک عالم طاری ہوجاتا ہے ،عشق رسالت مآب ﷺ کی مست خرام موجوں کے ساتھ باادب بہے چلے جاتے ہیں ۔شیخ محدث علیہ الرحمۃ فتح الرحمٰن کتاب میں وضو کے پانی کی دو اقسام بیان کرتے ہیں:
1۔وضو کا وہ پانی جس سے وضو کیا ہو اور وہ بچ گیا ہو تویہ پانی شک وشبہ کے بغیر پاک ہے جامع الاصول کے مصنف نے اس پانی کو فاضل طہارت سے تعبیر کیا ہے ۔اس قسم کے پاک ہونے کے متعلق استدلال میں جو احادیث لاتے ہیں ان سے شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی محبت و تعظیم و تکریم کا پتہ چلتا ہے ۔
1۔حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت گرمی میں دوپہر کے وقت وضو کے لئے تشریف لائے ،اس وقت آپ ﷺ ایک ندی کے قریب تھے،پس لوگوں نے آپ ﷺ کا چھوڑا ہوا باقی پانی حاصل کیا اور اس کو جسم پر ملنا شروع کردیا ۔
2۔ایک اور روایت کے مطابق میں نے لوگوں کو اس پانی کی طرف لپکتے ہوئے دیکھا پس جو اس تک پہنچ گیا تو اس نے اسے ملنا شروع کردیا ،اور جو نہیں پہنچ سکا اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ کے قطروں (تری) کو ہی غنیمت سمجھا ۔
3۔لوگ اٹھے آپ کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر انہیں اپنے چہروں پر پھیرنا(ملنا) شروع کردیا، راوی کہتے ہیں کہ میں نے بھی آپ کا ایک ہاتھ تھام کر اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا ۔
4۔امام نسائی کی روایت کے مطابق میں ایک ندی کے کنارے خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپکے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر نکلے تو لوگ اس کی طرف لپکے ۔ اس پانی کاکچھ حصہ مجھے بھی ملا ۔
2۔ وضو کے پانی کی دوسری وہ قسم ہے کہ وہ پانی جو اعضاء دھوتے وقت گرتا ہے ،وضوکے پانی کی اس قسم کے بارے میں اختلاف ہےجوشخص یہ کہے کہ یہ پانی ناپاک ہے خواہ وہ نجاست غلیظہ ہویا خفیفہ تو اس کے خلاف مندرجہ ذیل حدیث حجت ہے ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو نبی اکرم ﷺاور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور انہوں نے مجھے مدہوشی کے عالم میں پایا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو کا پانی مجھ پر بہا دیا جواب یہ ہو کہ آپ ﷺ نے جو اپنا بچا ہوا پانی حضرت جابر پر بہایا تو اس کا مقصد مریض کو دوا دینا تھا جیسے شراب بطور دوا دی جا سکتی ہے یا پھر یہ کہ آپ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ آپ ﷺ کے جسم اقدس سے مس ہوکر گرنے والا پانی ناپاک نہیں ہوتا ۔شیخ ابن حجر مکی فرماتے ہیں ہمارے بہت سے مشائخ آپ ﷺ کے فضلات مبارکہ (بول براز ) کی طہارت کے قائل ہیں چہ جائیکہ آپ ﷺ کے وضو میں استعما ل شدہ پانی ۔
''قال الشیخ ابن حجر المکی ،ومن ثم اختار کثیرون من اصحابنا طھارۃ فضلاتہ فضلا عن ماء استعملہ ''45
علمی اظہار:
اسلاف کا یہ طریقہ ءکا ررہا ہے کہ اگر ان سےکوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ علم کے بغیر اس کا جواب نہیں دیتے تھے ، حتیٰ کہ بزرگ چالیس چالیس دن مسئلہ کے حل کے لئے وقت مانگ لیا کر تے تھے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ بغیر علم کے فتویٰ دیئے جانے کی صورت میں اس کا وبال بھی فتویٰ دینے والے پر تاقیامت رہتاہے بنظر غور دیکھا جائے تو لاعلمی کا اظہار بھی ایک طرح پختہ علم کا اظہار ہی ہے جس نے اس شخص کو اتنا راسخ کردیا ہے کہ وہ علم کے بغیر کوئی بات نہ کرے اور معلوم نہ ہونے کی صورت میں اپنے علم کا ہی اظہار کرتے ہوئے لاعلمی کا اظہار صاف لفظوں میں کردے در حقیقت یہ علمی اظہار سنت نبوی ﷺ ہے جب آپ ﷺ کے دین اسلام کی بابت یا اس کے علاوہ پوچھا جاتا تو آپ ﷺ وحی کا انتظار فرماتے اور وحی کے نزول کے بعد سوال کا شافی کافی اور وافی جواب عطاء فرماتے ، آپﷺ کا سکوت فرمانا ہی طلب علم کا ایک عظیم الشان مظاہرہ ہے۔
اس علمی منازل کا حصول اس وقت قریب تر ہوجاتا ہے جب علمی کمال ا س طور پر پہنچ جائے آدمی یہ جان لے کہ ابھی وہ کچھ نہیں جانتا ہے ۔حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ بھی اسی روش پر گامزن ہیں آپ اپنی معلومات کے دائرہ کار میں کلام فرماتے ہیں اور جو آپ کے علمی دائرہ معلومات سے باہر ہے تو آپ صاف صاف اعتراف فرماتے ہیں کہ مجھے اس بارے معلومات نہ ہیں اس بابت وہ تحکم ، اور ظن و تخمین سے کام لینے سے گریزکرتے ہیں ۔
حضرت علی ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھم کے نزدیک مستحاضہ عورت کے لئے ہر نماز کے وقت غسل لازم ہے۔ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے نزدیک ایک ہی غسل سے دو مرتبہ نماز اداکرنا (جمع بین الصلاتین) جائز ہے ۔
مذکورہ مسئلہ کی بابت حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کی رائے پردہ میں تھی تو شیخ محدث علیہ الرحمہ علمی اعتراف یوں فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس بارے میں حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کی رائے کیا ہے ،کیا ہرنماز کے لئے الگ وضو کیا جائیگا جیسے حضرت عبد اللہ بن مسعود کی رائے ہے ، یا ایک مرتبہ غسل کرکے دونمازیں ایک ساتھ پڑھ لی جائیں گی اور جمع بین الصلاتین پر اکتفاء کیا جائیگا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب ہے اور یہ زیادہ آسان نرم اور بہترین بات ہے ، اور پھر نبی کریم ﷺ سے منقول بھی ہے ۔اس بارے میں ہمیں ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ اور دیگر آئمہ کے اختلاف کی بابت کچھ معلوم نہیں م ورنہ اس بارے میں ہم ضرور کلام کرتے ۔46
''ولایدری ان مذھب ابی حنیفۃ ماھو ۔۔۔۔ولانعلم الخلاف بینہ وبین الائمۃ فی ذٰلک حتیٰ نتکلم فیہ''47
اسرار احکام:
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ مقام کی مناسبت سے احکام کے اسرار ورموز اور باطنی نکات پر بھی اپنی صوفیانہ منش کے پیش نظر روشنی ڈالتے ہیں ''تسویۃ الصف '' (صف سیدھی کرنے ) کے عنوان کے آخر میں فرماتے ہیں کہ اے عزیزجاں ۔ جان لو کہ یہاں ایک نکتہ کی وضاحت مقام کی مناسبت کی وجہ سے یہ ہے ۔''واعلم ان فی الباب نکتۃ یناسب ذکرھا ''48
تسویۃ الصف سے مراد یہ ہےکہ نماز میں مل کر کھڑے ہوں اپنے درمیان بالکل فاصلہ نہ چھوڑیں اور آگے پیچھے نہ کھڑے ہوں ، بلکہ سیدھے اور برابر کھڑے ہوں اور اگر صفیں زیادہ ہوں تو ایک سمت کھڑے ہوں ، دونوں صفوں کا درمیانی فاصلہ خطوط متوازیہ کی طرح ہر جگہ سے برابر ہو ،پھر ترتیب (صفوف )ملحوظ خاطر رکھیں ، یہ صف کے ظاہری آداب ہیں جنہیں نظر انداز کرنا باطن کے حالات میں خلل کا موجب ہے ۔بزرگ فرماتے ہیں ۔الظاھر عنوان الباطن ، ظاہر باطن کا عنوان ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپس میں مل کر اور برابر کھڑے ہواور آپس میں اختلاف نہ کرو تاکہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا نہ ہو ۔49
اے لوگو آپس میں اختلاف نہ کرنا تاکہ تمہارے (دل) مختلف نہ ہوجائیں اور یہ ا س سبب کی بنا پر ہوگا کہ اختلاف کرنے ، کسی کے آگے ہونے اور ایک دوسرے کے برابر نہ ہونے سے ، دلوں میں ایک دوسرے کے لئے نفرت ، کینہ ، وحشت،اور ایک دوسرے کے خلاف عداوت کی تخم ریزی ہوتی ہے اس سے یہ خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دین میں اختلاف واقع ہونا شروع ہوجا ئے اور شوکت و عزت اسلام میں کمزوری پیدا ہونے لگے ۔ یا خدا کی اطاعت نہ کرنے اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے دلوں پر تاریکی اور میل کچیل چڑھنی شروع ہوجائے جو تمہارے ظاہر اجسام میں سرایت کرنا شروع کردے ۔50
''وھی ان المراد بتسویۃ الصف ان یقیموا صفوفا مستویۃ مثلا صفوف ، لایکون بینھم فرج ولاتقدم معتدلین فی القیام علی سمت واحد کالخطوط المتوازیۃویراعوا الترتیب المذکور وھٰذا من الآداب الظاھرۃ التی ترکھا موجب لاخلال الاحوال الباطنۃ کما قیل الظاھر عنوان الباطن کما ورد فی الحدیث،استوواوالاتختلف قلوبکم ،وذٰلک لما فی الاختلاف وتقدم بعض علی بعض وتفوقہ علیہ من التنافر وحدوث الصعوبۃ والوحشۃ واثارۃ العداوۃ اولما فی ترک اطاعۃ امر اللہ ورسولہ من طریان الظلمۃولکدورۃ فی القلب فیسریٰ الی الظواھر،ومع ذٰلک فیہ اثر خاص فی حدوث الاختلافات کما یظھر من سیاق الحدیث وکان ما قد وقع بینھم من الاختلاف والمشاجرات من آثار ھذٰ ا الاختلاف ،مع ما وقع من المبالغات فی فعلھا ورعایتھا فقد جاء ان انسا لما قدم المدینۃ قیل لہ ما انکرت ما عھدت علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قال ماانکرت شیئا الاانکما لاتقیمون الصفوف ، اخرجہ البخاری ''51
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ اپنے تحقیقی منہج میں حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ کے مذہب کی تائید میں آنے والی احادیث سے اپنے ذوق طبع کے مطابق اسراروموز اور نکات سے پردہ اٹھانے کا موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں جیسا کہ آپ نے صف بندی کے عنوان سے ایک خاص نکتہ کی مضمون بند ی کی ہے ۔
کثیر النقل:
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی اس کتاب میں احادیث کی شرح ، معانی ومطالب ، مذاہب فقہاء اور ترجیحات مذہب احناف کو ابن ھمام علیہ الرحمۃ کی کتاب فتح القدیر سے زیادہ نقل فرماتے ہیں حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ ابن ھمام کی تحقیقات کی تعریف اور احناف پر ان کے احسان اور آپ کی کتاب کی اعلیٰ تحقیقات کے سب سے زیادہ معترف ہیں ۔
''وجزی اللہ عنا الشیخ الاجل الاکرم الاعظم کما ل الدین بن الھمام رحمۃ اللہ العلیم العلام حیث حقق ھٰذا الامر واثبت المذھب باالاحادیث الصحیحۃ والحسنۃ الصالحۃ للاحتجاج واثبت احادیث المتن ایضا واجاب عن دلائل الشافعیۃ عند الاحتجاج''۔52
شیخ اجل اکرم اعظم کما ل الدین بن ھمام علیہ الرحمۃ نے مذہب حنفی کواحادیث صحیح ،حسن صالح اور قابل حجت کے ساتھ ثابت کردکھایا اور تحقیق کا حق ادا کردیا ۔احادیث کے متن کوثابت کیا اور شوافع کے دلائل کا احسن جواب دیا۔اللہ جل جلا لہ ہماری طرف سے آپکو جزائے خیر دے ۔
خلاصہ بحث:
شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی آخری تصنیف اورتالیف ''فتح الرحمٰن فی اثبات مذھب النعمان '' ہے اس عظیم الشان کتاب میں آپ نے حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کی تائیدکرنے والی احادیث کو جمع کیا ہے ساتھ ساتھ فقہاء کے اختلاف کوبیان کرتے ہوئے مذہب حنفی کو ترجیح اور فوقیت دی ہے۔ اس کتاب میں شیخ محدث ؒ جا بجا امام ابو حنیفہ ؒ پر لگائے گئے الزامات کو بھی دور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جن پر مخالفت حدیث کا الزام تھا ،آپ ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے چلے جاتے ہیں کہ آپ ملاحظہ کریں کہ اس مسئلہ میں تو امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ حدیث پر عمل کر رہے ہیں جبکہ دوسرے فقہاء صراحتا عقل و قیاس کو بنیاد بنا رہے ہیں ، شیخ محدث علیہ الرحمۃ اپنی اس کتاب میں راہ انصاف پر چلتے ہوئے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کی تائید کرنے والی احادیث کی ثقاہت پر سیر حاصل کلام فرماتے ہیں جس سے فریق آخر کی تشفی اورتسلی ہوجاتی ہے ۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی اس کتاب میں تصنیفی تالیفی اور تحقیقی حوالے سے ایک اعلیٰ اسلوب اور اعلی تحقیقی معیار پر گامزن ہوتے ہیں۔ شیخ محدث علیہ الرحمۃ اس کتاب میں تعصب جانبداری اور انانیت کا شکار ہونے سے کوسوں دور رہے ہیں ۔ کتاب میں تعصب اور اعتساف مذہبی سے اجتناب کرتے ہوئے آپ مسلک انصاف اور راہ اعتدال سے دلائل و براہین کو پیش کیا ہے ۔ شیخ محدث علیہ الرحمۃ اپنی اس وقیع کتاب میں امام اعظم علیہ الرحمۃ کے مسئلہ کی وضاحت کے لئے یہ طریقہء کار استعمال فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن و سنت کو بنیادی ماخذ اور اجماع اور قیاس کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں مسئلہ کے حل کی وضاحت قرآن وسنت میں موجود نہ ہونے کی صورت میں آثار صحابہ،اجماع ، اور آخر میں جب نقل کا معاملہ کلیتا ختم ہوجائے تو پھر قیاس اور عقل سے کام بھی قرآن و سنت کی روشنی میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی کتاب کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ ہر باب کے آخر میں تنبیہ کی فصل قائم کرتے ہیں جس میں اس مسئلہ کے بارے میں فقہاء کرام کے اختلاف ، ماخذ اور منشاء کو بیان کرتے ہیں اور بعد میں حضرت امام اعظم ابو حنیفۃ علیہ الرحمۃ کے مذہب کو فوقیت اور ترجیح نقلا اور درایتا ثابت کرتے ہیں۔ شیخ محدث علیہ الرحمۃ اپنی اس کتاب میں ابواب اور فصول میں سادہ زبان اور سادہ طرز تحریر یوں استعمال کرتے ہیں کہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معانی ومطالب تک رسائی عام قاری کے لئے بھی آسان ہوجاتی ہے ، اختلاف فقہاء اور ترجیح مذہب امام اعظم میں آپ دوسرے فقہاء کے ساتھ عقیدت کیشی کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری کتاب میں آپ نے ''رد '' کا لفظ نہ ہونے کے برابر استعمال کیاہے ، یہ فریق مخالف کے ساتھ حسن عقیدت ، ادب اور اعتراف حقیقت ، رواداری اور دوسرے کے دلائل کو احترام سے سننے اور جواب دینے کی ایک عظیم مثال ہے ۔
حضرت شیخ محدث علیہ الرحمۃ کی یہ عظیم الشان کتاب اپنی وقعت ، ندرت ، طرز استدلال،تحقیق مسائل ،ترجیح مذہب اور حضرت امام اعظم ابوحنیفۃ علیہ الرحمۃ کی تائید کرنے والی احادیث کے باب میں بے نظیر اور بے مثال ہے ۔ اسلوب نگارش سادہ دلکش اور دلآویز ہے ۔اس کتاب کے قلمی نسخہ جات مختلف لائبریریوں کی زینت رہے۔ پہلی مرتبہ غالبا ہندوستان سے زیور طبع ہوکر آنکھوں کی ٹھنڈک بنی ۔ پاکستان میں ملتان سے عکس شائع ہوا جو ہمارے پیش نظر رہا ہے ۔
'' فتح الرحمٰن فی اثبات مذہب النعمان '' نہایت اہمیت کی حامل کتاب ہے اس کتاب میں آپ نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ پر اس الزام کے بادل کو صفا کرتے ہوے مطلع صاف کردیا ہے کہ آ پ کا مذہب حدیث کا مخالف ہے۔ آپ نے اس کتاب کے ذریعے ثابت فرمایاہے کہ آپ کا مذہب عین حدیث کے مطابق ہے اور کتاب کے انداز بیا ن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ حدیث کے عامل مطلق ہیں اور حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ قیاس اور رائے سے کام لیتے ہیں شیخ محدث علیہ الرحمۃ حدیث سے استدلال ، وجوہ استدلال اور نقد وتبصرہ میں انصاف کے دامن کو بڑی مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں اور کہیں بھی تعصب کا شکار نہیں ہوتے ہیں یہ عظیم الشان کتاب فقہ الحدیث اور حضرت امام اعظم کے مذہب کو حدیث کے مطابق بیان کرنے میں اپنی مثال آپ ہے حدیث ، وجوہ استدلال ، نقل مذہب ، نقدو تبصرہ اور مذہب امام کی ترجیحات میں شیخ محدث کا یہ عظیم الشان کارنامہ تحقیق کے نئےابواب وا کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, Allama Iqbal Open University.
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Sheikh ‘Abdul Ḥaq Muḥadith DehlvĪ, Akhbār al-Akhyār M’a Maktūbāt (Sakhar: Maktaba Nūriya Razawiyah, S.n), 310.
2 Syed ‘Abdul Ḥaiyy Bin Fakhar al-DĪn ḤasnĪ, Al-I’lām biman FĪ TārĪkh al-Hind Minal I’lam, (Beirūt: Dār Ibn Ḥazam, 1420 A.H),5:554.
3 Shāh ‘Abdul ‘AzĪz Muḥadith DehlvĪ, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, Translator: ‘Abdul ḤalĪm ChishtĪ (Karāchi: MĪr Muḥammad Kutub Khāna ārām Bāgh, S.n), 14.
4 ḤasnĪ, Al-I’lām, 5:554.
5 DehlvĪ, Akhbār al-Akhyār M’a Maktūbāt, 271.
6 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 14.
7 ḤasnĪ, Nuzhatul Khwāṭir, 5:554
8 ‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 14.
9 khalĪq Aḥmed NiẓāmĪ, Ḥayāt, Sheikh ‘Abdul Ḥaq Muḥadith Dehlvī (Lāhore: Maḳtabah ReḥmānĪyah, Urdu Bāzār, Ist Editin, S.n), 43.
10‘Abdul ‘AzĪz, Fawāid Jami’a Bar ‘ujālah Nāfi’a, 48.
11 Sheikh ‘Abdul Ḥaq Muḥadith DehlvĪ, Fath al-Raḥmān fi Ithbāt Mazhab al-Nu‘mān (Multan: ‘Atīq Academy, S.N), 1:29.
12DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 3:387.
13 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:21.
14DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:21.
15 Muhammad Shafi‘, Al-Munjad, (Karachi: Dār al-Ishā‘at, 1974 A.D), 417.
16 Shahāb al-Dīn Aḥmad bin ḥajar Makkī, Al-Kheirāt al-ḥisān, Translator: Zafar al-dīn bahārī (Turkey: Maktabah al-ḥaqīqah, 1422 A.H), 48,49.
17 Shiblī Nu‘mānī, Sīrat al-Nabī (āgarah Hindustān: Matba‘ Mufīd-e-‘ām,1893 A.D), 20.
18 ‘Abd al-‘azīz, Fawā’id Jāmi‘ah bar ‘Ujālah Nāfi‘ah, 42,43.
19 ‘Abd al-‘azīz, Fawā’id Jāmi‘ah bar ‘Ujālah Nāfi‘ah,48.
20 ‘Abd al-‘azīz, Fawā’id Jāmi‘ah bar ‘Ujālah Nāfi‘ah,48.
21 Khalīq Aḥmad Nizāmī, Hayāt Sheikh ‘Abd al-ḥaq Muhaddith Dehlvī (Lahore: Makabah Raḥmāniyah, S.N), 176.
22 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 3:389.
23 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 2:186.
24 Nizāmī, Hayāt Sheikh ‘Abd al-ḥaq Muhaddith Dehlvī, 174.
25 Syed ‘Abdul Ḥaiyy Bin Fakhar al-DĪn ḤasnĪ, Al-Thaqāfa til IslāmĪyah FĪl Hind, Ma’ārif al-‘Awārif FĪl Anwā’ al-‘Ulōm wa al-Ma’ārif (Damishq: Majma‘ al-lughat al-‘arabiyyah, 1993 A.D), 112.
26 Syed ‘Abdul Ḥaiyy Bin Fakhar al-DĪn ḤasnĪ, Al-I’lām biman FĪ TārĪkh al-Hind Minal I’lam Musammā behī Nuzhatul Khwāṭir Wa Bahaja tul Masām‘I wal Nawāẓir, (Beirūt: Dār Ibn Ḥazam, 1420 A.H), 5:557.
27 ‘Abd al-‘azīz, Fawā’id Jāmi‘ah bar ‘Ujālah Nāfi‘ah, 48.
28 Nizāmī, Hayāt Sheikh ‘Abd al-ḥaq Muhaddith Dehlvī, 174.
29 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 3:287.
30 Nizāmī, Hayāt Sheikh ‘Abd al-ḥaq Muhaddith Dehlvī, 262.
31 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 3:387.
32 Nawāb Siddīq ḥassan khān Qanūjī, Al-ḥittah Fī Zikr al-Siḥāḥ Sittah (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 1905 A.D), 239.
33 Qanūjī, Al-ḥittah, 120,239.
34 Qanūjī, Al-ḥittah, 239.
35 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:27.
36 Muhammad Muḥy al-Dīn, Tā’īd Maḍhab e ḥanfī, Urdu Translation of Fath al-Raḥmān (Lahore: Farīd Book Stāl, 2000 A.D), 15,16.
37 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:29.
38 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:117.
39 ‘Abd al-‘azīz, Fawā’id Jāmi‘ah bar ‘Ujālah Nāfi‘ah, 48.
40 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:120.
41 Muḥy al-Dīn, Tā’īd Maḍhab e ḥanfī, 323.
42 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:248.
43 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:196.
44 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:168.
45 Muḥy al-Dīn, Tā’īd MaÃhab e ḥanfī, 239.
46 Muḥy al-Dīn, Tā’īd MaÃhab e ḥanfī, 325.
47 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:249.
48 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 2:267.
49 Muhammad Sa‘īd, Muhammad ‘Abd al-ḥakīm, Muhammad Khan Qādrī, Sharaḥ Mishkāt Tarjumah Ash‘at al-lam‘āt, (Lahore: Farīd book stāl, 2001 A.D), 2:395,396.
50 Muhammad Sa‘īd, Muhammad ‘Abd al-ḥakīm, Muhammad Khan Qādrī, Sharaḥ Mishkāt Tarjumah Ash‘at al-lam‘āt, 2:397.
51 Sheikh ‘Abd al-ḥaq Muhaddith Dehlvī, Ash‘at al-lam‘āt (Bombay: Kārkhānah Muḥammadī, 1277 A.H), 1:233.
52 DehlvĪ, Fath al-Raḥmān, 1:26.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |