2
2
2021
1682060063651_3205
80-96
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/29/26
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/29
Naam Japna Sikh Gurus Influence of Islam cycle of reincarnation.
س کھ مت کا فلسفہ عبادت اور اُن پر تعلیماتِ اسلامیہ کے اثرات )86(
سِکھ مَت کا فلسفہ عبادت اور اُن پر تعلیماتِ اسلامیہ کے اثرات
(گُرو گَرنتھ صاحب کی روشنی میں)
The philosophy of worship in Sikhism and the effects of Islamic teachings on them (In the light of Gurū Granth Ṣāḥib)
Sheraz Ahmad
In Sikhism, the concept of worship revolves around remembrance of God and prayers to God Almighty. Various terms are used for worship in Sikhism among them are Naam Japna, Path Karna and Naam Simran. The best form of worship is to always meditate on the name of God and to sing the words of the Sikh Gurus in a humorous manner. This concept of worship in Sikhism has a limited meaning, while the comprehensive system of worship offered by Islam does not exist in Sikhism. However, inspired by Islamic teachings, prayers, remembrance of God, selection of words for worship from the Holy Book and the construction of places of worship in the Islamic style are arguments to accept the influence of Islam. Sikhism teaches to seek God’s pleasure through worship and to be freed from the cycle of reincarnation through good deeds and to worship the only true God.In this article a detailed study is presented regarding the philosophy of worship in Sikhism and impacts of Islamic teachings on them.
Keywords: Naam Japna, Sikh Gurus, Influence of Islam, cycle of reincarnation.
تعارف:
عبادت سے مراد ایسی اِطاعت ہے؛ جس میں انتہاء درجہ کا خُضوع پایا جائے۔لفظ عبادت انتہائی عاجزی، انکساری اور اظہارِ فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ عبادت کا مفہوم صرف نماز ،روزہ اور دیگر فرائض کی انجام دہی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ صحیح تصورِ عبادت یہ ہے کہ بُلوغت سے تادمِ آخر، زندگی کو اس طرح بسر کیا جائے کہ کوئی عمل خلاف ِحُکمِ شرع نہ ہو۔دین و دنیا کے تمام معاملات میں رب کی رضا کو ملحوظ ِخاطر رکھا جائے۔ عبادت کا حقیقی تصور ، زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ ان شعبوں کاتعلق خواہ مذہب سے ہو، معاشرت سے ہو معیشت و سیاست سے ہو،تمام معاملات میں اِطاعتِ الٰہی کی بجا آوری عبادت میں شامل ہے۔
قرآن مجیدنے عبادت کے جامع تصور کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
”لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ“1
جسمانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سر بسجود ہونے سے قبل لباس کی پاکیزگی کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے اور جس مقام پر اللہ کی عبادت کا قصد ہے، اس مقام کا پاک ہونا بھی اشد ضروری ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے:
“عن أبي مالك الأشعري قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم الطهور شطر الإيمان”2
عبادت کے اس مفہوم کو اسلام نے بہت جامع انداز میں چودہ صدیاں پہلےواضح کر دیا تھا جس کے اثرات اُس وقت کے رائج اور بعد میں پیدا ہونے والےدیگر مذاہب پر بھی پڑے ؛جن میں سر فہرست سکھ مت ہے جس کی تعلیمات میں بیشترعبادات و اخلاقیات اسلامی تعلیمات سے ماخوذ یا متاثر ہیں۔مثلاً ’پاتھ کرنا‘،’نام جپنا ‘اور’ نام سمرن‘ وغیرہ یہ سب ذکر الٰہی اور یاد الٰہی سے ماخوذ ہیں ۔شرک بت پرستی سے انکار ،خدائے واحد کی عبادت، پاکیزگی و طہارت ،زکوٰۃ و صدقات، نماز،روزہ اور حج کا تصور بھی سکھ مت میں ملتا ہے۔بنیادی طور پربابا گُرو نانک کی تعلیمات میں اسلامی رنگ دکھائی دیتا ہے ۔ سکھ مت کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بیان کردہ تعلیمات کا جائزہ لیتے ہوئے سکھ مت میں پائے جانے والے تصورِ عبادت کا تجزیاتی مطالعہ اس مقالہ کا بنیادی مقصد ہے ۔
سِکھ مذہب میں تصور عبادت:
تمام مذاہب میں عقائد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت عبادت کو دی گئی ہے۔ درحقیقت عقا ئداور عبادات لازم و ملزوم ہیں، انہیں ایک دوسرے سے جد انہیں کیا جا سکتا۔البتہ رتبے کے اعتبار سے ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے۔سِکھ مت میں عبادت کے تصور کا نچوڑ یادِ الہٰی ہے۔ سِکھ مذہب میں عبادت کے لیے متعدد اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں؛ جیسا کہ’پاتھ کرنا‘،’نام جپنا ‘اور’ نام سمرن‘ وغیرہ۔ سِکھ وں کا واحد انداز ِعبادت اپنے گروؤں کے بنائے ہوئے بھَجن پڑھنا اور انہیں سُریلے انداز میں گانا ہے۔سِکھ وں کا عقیدہ ہے کہ گرو کی روح ہمیشہ اُن کے ساتھ رہتی ہے۔خدا کے نام کا مسلسل وِرد کرنا خدا کو پانے کا بہترین طریقہ ہے۔اس لئے ریاضت انسان کی اعلیٰ ترین بصیرت ہے۔
پاتھ کرنا:
’پاتھ کرنا ‘ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ مقدس کلام میں سے منتخب بھجن کی تلاوت کی جائے۔ یہ عبادت کسی بھی جگہ خاموشی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ گھریلو کام کاج کرتے وقت بھی کوئی شخص یہ عبادت سرانجام دے سکتا ہے۔ عام طور پر سِکھ خواتین صبح کا ناشتہ بناتے وقت 'پاتھ کرنا ' میں مشغول ہو جاتی ہیں۔بیشتر سِکھ انفرادی عبادت کے لیے ’جَپ جی‘ کے پہلے پانچ اشعار کو زبانی یاد کر لیتے ہیں اور بہت سے سِکھ سادہ الفاظ ’واہے گروہ ‘ کااعادہ کرتے ہیں۔ اکثر سِکھ اپنے گھروں میں ’گٹکا‘ رکھتے ہیں ۔گٹکے سے مراد ایک چھوٹا کتابچہ ہے ، جس میں عام طور پر روزانہ کی جانے والی مناجات کے بھجن تحریر ہوتے ہیں۔اسے کسی صاف کپڑے میں لپیٹ کر محفوظ جگہ پر رکھا جاتا ہے۔بہت سے عقیدت مند خاندان اپنے گھروں میں ’گرو گرنتھ صاحب ‘کا بھی ایک نسخہ رکھتے ہیں۔ اس نسخے کو ایک خاص کمرے میں احترام کے ساتھ اونچی جگہ پر رکھا جاتا ہے۔احترام کے طور پر خاندان کے لوگ اس کمرے کو ’بابا جی دا کمرہ‘کہتے ہیں۔ یہ کمرہ خاندان کا ایک گردوارہ ہوتا ہے، جسے عام لوگوں کے لیے نہیں کھولا جاتا۔
وائس چانسلر ورلڈ سِکھ یونیورسٹی، لندن ڈاکٹر سِکھ بیر سنگھ کپور اپنی تصنیف میں’ پاتھ‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
To a Sikh, the word path means worship. It involves the reading of certain set hymns every day. It also means reading of Guru Granth Sahib. The smaller version of Guru Granth Sahib, which contains the hymns to be read daily are known as Gudkas.3
”ایک سِکھ کے نزدیک’ پاتھ‘ کامطلب عبادت ہے۔ اس میں مخصوص کلام پڑھنا شامل ہوتا ہے۔اس سے مراد ’گرو گرنتھ صاحب‘ کو پڑھنا بھی ہے۔’ گرو گرنتھ صاحب‘ کا وہ چھوٹا نسخہ جس میں روزانہ پڑھے جانے والے بھجن شامل ہوتے ہیں، ’گٹکا ‘کہلاتا ہے۔“
سِکھ مذہب کے مطابق ہر انسان کو اپنے رب کے حضور مناجات کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیونکہ انسان کو جن کی تلاش ہوتی ہے دعا کے ذریعے ایک روحانی طاقت اس کی رہنمائی کرتی ہے۔جب کوئی انسان اپنے خدا سے التجا کرتا ہے تو وہ یہ بات بخوبی محسوس کرتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ خدا اس کی رہنمائی کر رہا ہے۔ وہ ہمارا ناصح، رہنما، خالق اور کونسلر ہے۔وہ ہمیشہ ہمارے راستے کو روشن کرنے کے لئے ہمارے ساتھ ہے۔دعا، رب کے ساتھ ہماری خاموش ذاتی گفتگو ہے۔یہ اندرونی نجی مراقبہ ہے۔ ہم مناجات کے ذریعے خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ زندگی کے راز اور کائنات کی وسعت کے جوابات بھی دعا کے ذریعے تلاش کئے جا سکتے ہیں۔گرو صاحبان عبادت کی اہمیت پر خصوصی زور دیتے ہیں۔عبادت اور خود سَپردگی کے ذریعے ہی خدا کی رحمت حاصل کی جا سکتی ہے۔
نام جپنا :
خدا کے نام کا مراقبہ کرنا سِکھ مت کی طرز ِزندگی کا بنیادی اُصول ہے۔ ایک سِکھ کوروحانی ضمیر کا مالک ہونا چاہیےجو ہر دم اپنے خدا کو یاد رکھے اور اَخلاقی طور پر فرد کے اقدامات صرف اپنی فلاح و بہبود تک محدود نہیں ہونے چاہییں بلکہ معاشرے کی مجموعی فلاح و بہبود کو بھی یقینی بنائے۔خدا کا نام جپنے سے انسان شک اور فریب جیسی آفتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔خدا کے نام کا مراقبہ انسان کے دُکھوں کا مداوا ہے۔انسان کو تمام دُکھوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ خدا کی یاد اَبدی خوشی کی ضامن ہے۔ گرو ارجن’ دیو گرنتھ صاحب‘ میں اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:,
دوکھ درد نہ بھئو بیایے
نام سمرت سد سِکھ ی4
”خدا کا نام جپنے سے غم ، درد اور خوف مٹتے ہیں اور اس سے دائمی خوشی حاصل ہوتی ہے۔“
سِکھ مت میں ذکرِ الہٰی کی فضیلت:
’گرو گرنتھ صاحب‘ کی تعلیمات کے مطابق صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو زندگی میں اپنے رب کا ذکر کرتے ہیں اور ہمہ وقت موت کو یاد رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں بلکہ اپنے کُنبے کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ جن لوگوں کا خدا سے تعلق قائم ہو گیا وہ مرنے کے بعد بھی زندہ تصور کیے جاتے ہیں ۔ خدا وند اُنہیں اَبدی زندگی کی چادر پہنا دیتا ہے اور جو لوگ اپنی زندگی میں رب سے دُور ہو جاتے ہیں وہ دائمی موت مر جاتے ہیں۔ گرو نانک لکھتے ہیں:
آکھا جیوا وسرے مر جاؤ آکھن اوکھا ساچا ناؤ
ساچے نام کی لاگے بھوکھ تت بھوکھے کھائے چلئے دوکھ5
”ذکرِ الٰہی سے انسان ابدی زندگی کا وارث بن جاتا ہےاور خدا سے دوری کے نتیجے میں انسان پر ابدی موت وارد ہو جاتی ہے۔لیکن کسی انسان کا سراپا ذکر ِالٰہی بن جانا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔اگر انسان کے دل میں خدا کی محبت و عظمت قائم ہو جائے تو اُس سے تمام دُکھ دُرد دُور ہوجاتے ہیں۔“
انسان کی عظمت اور بڑائی کا اِنحصار خدا کے ساتھ تعلق پر ہے نہ کہ خاندانی وجاہت اور دانائی پرہے۔ گروگرنتھ صاحب کی تعلیمات کے مطابق اگر دنیا میں کوئی بے حد خوبصورت ہو اور اعلیٰ خاندان میں پیدا ہو ، وہ خود بہت دانا اور گیانی بھی ہو، مال و دولت کی بھی اسے کمی نہ ہو۔ اِن سب چیزوں کی موجودگی میں اگر اُس کا تعلق خدا سے قائم نہیں ہوا تو وہ مُردہ ہے۔ اسے زندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سِکھ مت میں دعا اور تقدیر:
سِکھ مت میں خدا کے حُضور دعا کرنے کی بڑی ٖفضیلت اور اَہمیت ہے۔جب بندہ خدا کے حُضور دُعا کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اِنتہائی ناتواں خیال کرتا ہے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے اپنے رب سے معافی طلب کرتا ہے۔گرو نانک رب تعالیٰ سے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جیتا سمندر ساگر نیر بھریا تتے اوگن ہمارے
دیا کرو کچھ مہرا پاؤ ہو ڈوبدے پتھر تارے6
” جس طرح سمندروں اور ساگروں میں بیشمار پانی موجود ہے ، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اے مولا ! ویسے ہی ہمارے گناہ بھی بہت زیادہ ہیں۔ تو ڈوبتے پتھروں کو تار دیتا ہے، ہم پر اپنا کرم کر اور ہمارے گناہوں کو بخش دے۔“
دعا کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ خدا کے نام کا مراقبہ کر رہے ہوں تو اپنے خیالات کو الفاظ میں بیان کریں۔ گرو گرنتھ صاحب‘ میں بہت سی دعاؤں کا تذکرہ موجود ہے۔ سِکھ دھرم میں سب سے بڑی دعا یہ ہے کہ سب انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی طلب کی جائے۔جو لوگ اِخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے دُعا مانگتے ہیں ، وہ دعا کی افادیت اور قدر کوجانتے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دعا انسان کو صرف تسلی اور سکون دے سکتی ہے ،لیکن مادی واقعات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔یہ کائنات ایک ضابطے اور قانون کے تحت چل رہی ہے۔اگر آگ اَشیاء کو جلانے کی آج صلاحیت رکھتی ہے تو یہ کل بھی چیزوں کو جلانے کے قابل ہو گی۔ سِکھ تعلیمات کے مطابق اگرچہ سَنتوں اور صوفیوں کو بڑی طاقت حاصل ہے ۔ مگر اسے معجزہ نہیں کہا جا سکتا۔ جسے ہم معجزہ سمجھتے ہیں وہ یقیناًدعا کی طاقت یا روحانی قانون کا کام ہو سکتا ہے۔مخلص دعا وہ ہے جو ذاتی مقصد کے بغیر خدا سے طلب کی جائے۔ خدا انسان کی تمام خواہشات اور اخلاص سے واقف ہے۔یہ اس کی منشاء ہے کہ اس سے کِیا گیا مطالبہ قبول کرے یا اُسے مسترد کر دے۔
دعا نفسیاتی طریقوں میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔وہ افراد جو خوف اورتناؤکی وجہ سے بیمار ہو گئے ہوں ۔ ان پر اثرات تو جسمانی ہیں لیکن اس کی وجہ ذہنی ہو سکتی ہے۔ان معاملات میں دعا اسی طرح شفاء بخش ہو سکتی ہے جس طرح کہ دَوا ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ذہنی وجوہات کو دور کرنا ہو گا۔اپنے جملہ اُمور کو بخیر و خوبی پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دعا ایک بہترین تدبیر ہے۔ ہر وہ کام جو دعا کے ساتھ شروع کیا جائے؛ یقیناً باعث برکت ہو گا۔ گرو رام داس گرنتھ صاحب میں لکھتے ہیں:
کیتا لوڑبیئے کنم سو ہر پہ آکھیئے
کارج دے سوار ستگور سچ ساکھیئے7
”اگر تمھاری تمنا ہے کہ تمھارا کام احسن طریقے سے سرانجام پائے تو اس کے لیے بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ کام شروع کرنے سے قبل اپنے رب کے حضور دعا کر لیا کرو۔ دعا کے بعد کیا جانے والا کام یقیناً بابرکت ہو گا اور میرا گرو اس پر گواہ ہے۔“
سِکھ دھرم میں عبادت کی اہمیت:
سِکھ تعلیمات کے مطابق انسان کا دل صاف و شفاف ہوتا ہے۔اچھے یا بُرے اعمال کے ذریعے ہم جو کچھ اس پر تحریر کرنا چاہیں ، کر سکتے ہیں۔خدا کی عبادت کر کے اس پر اچھے مضامین تحریر کئے جا سکتے ہیں۔ یہ دن اور رات تو جال ہیں اور اس کی تمام ساعتیں پھندے ہیں۔ انسان اس جال کے نیچے بِچھے ہوئے دانے چُننے میں مصروف ہے اور اس جال میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے۔ انسان کو خداکی عبادت کر کے اس کی رضا حاصل کرنی چاہیئے،نہ جانے کن نیک اعمال کی وجہ سے انسان کو رہائی نصیب ہو جائے۔ گرونانک ’گرو گرنتھ صاحب ‘میں لکھتے ہیں:
کرنی کا گد من مسوانی بُرا بھلا روہی لیکھ پیئے
جیو جیو کرت چلائے تیو چلئے تو گن ناہی انت ھرے8
”ہمارا من کاغذ اور اعمال روشنائی ہیں۔اس پر بھلے اور بُرے مضامین لکھے جاتے ہیں۔ ہم جو اعمال کرتے ہیں ان سے پیدا ہونے والے رجحانات ہمیں جدھر دھکیلتے ہیں ہم اُدھر ہی چل پڑتے ہیں۔اے نرنکار ! تیرے اوصاف کی کوئی انتہا نہیں ہے۔“
’گرو گرنتھ صاحب‘ میں بیان کردہ تعلیمات کے مطابق جو شخص نیک اعمال کی طرف رجوع کرے گا ، وہ خدا کے نام کی پرستش کے لئے خدا کے نام کی ہی بھیک مانگے گا۔اس کا تمام ادراک و شعور اور طور و اطوار اس کی صداقت مزید فروزاں کرنے میں مصروف ِعمل ہوں گے۔جو ہر وقت خدا کی عبادت میں مصروف رہتا ہو اس کی قدروقیمت کون جان سکتا ہے۔ ’گرو گرنتھ صاحب‘ میں روحانی اعمال کی اہمیت کا کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ سکھ مت کی تعلیمات کے مطابق نا پختہ ریاضت کرنے والے کو نجات کا بھید نہیں مل سکتا ہے۔ سچ تو اسے اس وقت ملے گا جب وہ روحانی اعمال کرے گا۔وہ جوگی جو پانچ عُیوب کا خاتمہ کرنے کے بعد اپنے دل میں صداقت بسائے گا ، وہی ’جوگ‘ کے طریقے سمجھ پائے گا۔
شرک اور بت پرستی کی ممانعت:
خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ بُتوں کو بھی شریک ِعبادت کرنا اور انھیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرنا شرک کہلاتا ہے۔بعض اقوام شرک کو اپنے مذہب کا خاص حصہ قرار دیتی ہیں۔وہ کسی بزرگ یا دیوتا کی مورتی سامنے رکھ کر عبادت کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ان کے نزدیک اس کے بغیر عبادت کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔’گرو گرنتھ صاحب‘ میں جابجا شرک کی مذمت کی گئی ہے اور عبادت کے لائق صرف اور صرف خدائے واحد کو گردانا گیا ہے۔’گرو گرنتھ صاحب‘ میں ایسے شبد(الفاظ) موجود ہیں جو بت پرستی اور مورتی پوجا کی مذمت کرتے ہیں۔
جو پاتھر کو کہتے دیوتاکی برتھاہووے سیو
جو پاتھر کی پائیں پائے تس کی گھال اجائیں جائے
ٹھاکر ہمرا سد بولنتا سرب جیا کو پربھ دان دیتا 9
”جو لوگ پتھروں اور مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں اور انھیں خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔جو لوگ پتھروں کی پوجا کرتے ہیں ؛ ان کی محنت برباد ہو جاتی ہے۔ہمارا خدا تو ہمیشہ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور لوگوں کو بخشنے والا ہے۔“
سِکھ تعلیمات کے مطابق دیوی اور دیوتاؤں کی پرستش لاحاصل ہے۔ یہ پتھر کی مورتیاں نہ تو کسی کو فائدہ دے سکتی ہیں اور نہ ہی کسی کا نقصان کر سکتی ہیں۔ ان پتھر کی مورتیوں کو پانی میں ڈالنے سے ان کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ جو چیز خود ڈوب جاتی ہو، وہ دوسروں کو کیسے کنارے لگا سکتی ہے۔ گرو نانک نے پتھروں کے پجاریوں کو بے وقوف، اندھے اور گونگے کہا ہے کہ وہ لوگ ظلمت کا شکار ہیں اور بہت بیوقوف ہیں۔وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جن پتھروں کی وہ پرستش کرتے ہیں ؛ وہ خود ڈوب جاتے ہیں ۔ وہ دوسروں کو کیونکر کنارے لگا سکتے ہیں۔
’گروگرنتھ صاحب‘ میں دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے مذمت بیان کی گئی ہے۔ لوگ بے جان اشیاء کی پرستش کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تو درکنار وہ خود بھی کسی سے کچھ نہیں مانگ سکتے۔۔ایسے لوگ خدا کی معرفت سے دور ہیں اور اپنے آپ کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ گرو نانک بُتوں کی پوجا کو بنجر زمین سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس زمین میں بیج بونے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ اگر کامیابی چاہتے ہو تو خدائے واحد کی عبادت کرنا ہو گی۔ تب ہی اس کی رحمتوں کا نزول ہو گا۔خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے تزکیہ نفس ضروری ہے۔ لہٰذا بتوں کی پوجا چھوڑ کر ایک خدا کی بندگی اختیار کرو۔ ’گرنتھ صاحب‘ میں آپ فرماتے ہیں:
سالگرام بت پوجے مناؤ سکرت تلسی مالا
رام نام جپ بیڑا باندھو دیا کرو دیالا
کاہے کلرا سنچو جنم گواؤ
کاچی ڈھگ دیوال کاہے گچ لاؤ 10
”اے لوگو تم بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو۔ صرف ایک خدا کی پوجا سے ہی بیڑا پار ہو گا۔وہ رحمان اسی وقت رحمت کی بارش برسائے گا جب تم کمندوں کو توڑ کر اس کے ہو جاؤ گے۔بتوں کی پوجا کر کے تم بنجر زمین میں بیج بو رہے ہو۔یہ تمہاری ریت کی دیوار دریا کے کنارے پر ہے۔ پہلے اپنا تزکیہ نفس کرو پھر خدا سے ملاپ ہو گا۔“
خدا ہی عبادت کے لائق ہے:
چونکہ ہر چیز کا خالق و مالک خدا ہے۔اس لیے ہمہ قسم عبادات کا وہی مستحق اور لائقِ عبادت ہے۔خدا کے سواکسی اور ہستی کی عبادت کرنا سراسر ناجائز ہے۔جو لوگ سچے پروردگار کو چھوڑ کر دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور اس کی عبادت میں غیروں کو شریک ٹھہراتے ہیں وہ نقصان کا سودا کرتے ہیں۔ ہمیشہ صرف اُس خدا کی عبادت کی جائے جو ہر جگہ موجود ہے۔ کسی ایسی ہستی کی عبادت نہ کی جائے جو پیدا ہوتی ہےا ور مرجاتی ہے۔ انسان کو خلوص ِنیت سے خدائے واحد کا ذکر و حمد کرنا چاہیے۔اسی مضمون کو ’گرنتھ صاحب‘ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
ایکو جپ ایکو سالاح ایک سمرا ایکو من آہ
ایکس کے گن گاؤ اننت من تن جاپ ایک بھگونت11
”خدائے واحد کی پرستش ، حمد اور ذکر کرتے رہنا چاہیے اور اپنا دل بھی خدا سے ہی لگانا چاہیے۔ کیونکہ حقیقی تعریف اور عبادت کے لائق خدائے واحد ہی ہے۔اور ہر انسان کو تن من سے اس کی عبادت کرنی چاہیے۔“
’گروگرنتھ صاحب ‘کے متعدد مقامات پر رب ِتعالیٰ کے اُن انعامات کا تذکرہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر محض اپنے فضل سے کیے ہیں۔ان احسانات کا تذکرہ کر کے ’گروگرنتھ صاحب‘ میں خدا کی عبادت کی تلقین کی گئی ہے۔جس کے مطابق عقل مند وہی شخص ہے جو خداتعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اس کی عبادت میں مشغول رہتا ہے اور عبادت و ریاضت کے ذریعے خدا کے اطاعت شعار بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہی انسان عقلمند، عالم فاضل ،بہادر اور دانا ہے جو نیک لوگوں سے مل کر خدا کی عبادت کرتا ہے۔ وہی خدا کا مقبول بندہ ہے۔
وضو اور اذان:
گروگرنتھ صاحب کے بعض شبد ایسے ہیں جن میں وضو اور اذان کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ جب انسان بُرے اعمال کو چھوڑ کر خدائے واحد کی پہچان حاصل کر لیتا ہے تو اسے چاہیے کہ وضو کر کے اذان دے تا کہ اسے برگزیدگی کا رتبہ حاصل ہو۔ گرو ارجن دیو ’گرنتھ صاحب‘ میں بیان کرتے ہیں:
بدعمل چھوڈ کر ہتھ کوزہ
خدائے ایک بوجھ دیئو بانگاں
برگو برخوردار کھرا 12
”تمام بُرے عمل ترک کر کے وضو کرنے کے لیے ہاتھ میں لوٹا لو اور خدائے واحد کو شناخت کر کے اذانیں دو۔ پھر تم برگزیدہ اور برخوردار قرار پاؤ گے۔“
وضو اور اذان کی اصطلاحات اسلامی ادب میں پائی جاتی ہیں۔ یہ کسی دوسرے مذہب کا خاصہ نہیں ہیں۔ جبکہ سِکھ مذہب کے پانچویں گرو ارجن دیو خدا تعالیٰ کی معرفت کے لیے وضو اور اذان کا ذکر کرتے ہیں اور ایسے اعمال سرانجام دینے والے کو ایک عظیم انسان قرار دیتے ہیں۔ یہ تعلیمات گرو صاحبان نے یقیناًاسلام سے مستعار لی ہوئی ہیں۔ یہ اسلامی تعلیمات کا ہی ایک اثر ہے کہ گرو صاحبان اسے اپنی مقدس کتاب میں بطور خاص ذکر کر رہے ہیں۔
سِکھ مت میں نماز کا تصور:
اگرچہ سِکھ مت میں اسلامی عبادات کی طرح اہتمام نہیں کیا جاتا لیکن گرو نانک کی زندگی میں ان اعمال کا تصور ملتا ہے جو اسلام میں عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ گرو نانک صاحب کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے نماز پڑھی ، روزہ رکھا اور مکہ مکرمہ حج کے لئے بھی تشریف لے گئے۔
سِکھ دھرم میں صبح کے وقت بعد از فراغتِ غسل اپنے رب کے نام کا مراقبہ کرنا ایک عظیم روحانی خوبی ہے۔ صبح کی مناجات سے پہلے پاکیزگی حاصل کرنا سِکھ ضابطہ اخلاق’ رہت مریادہ ‘کا حصہ ہے۔تعلیماتِ سِکھ مت اپنے پیروکاروں سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنی ہر سانس کے ساتھ سچے دل سے خدا کو یاد رکھیں گے۔سِکھو ں کی نماز انہیں خودی کی پہچان ،علم اور روحانیت کی تلقین کرتی ہے۔ سِکھ مذہب اپنے ماننے والوں کو ’گرو گرنتھ صاحب‘ کی تلاوت ، خدا کے نام کا مراقبہ، گرو کی پانچ ترکیبوں پرعمل ، غوروفکر اور اپنی روزمرہ زندگی کو گرو کے کلام کے مطابق گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دل کو منافقت سے پاک کر کے صرف خدا کی یاد سے مزین کرنے کی تاکید کرتا ہے۔’گرو گرنتھ صاحب ‘میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
کیا اُضو پاک کیا مُہ دھویا کیا مسیت سر لائیا
جو دل مہِ کپٹ نماز گزارہ کیا حج کابے جائیا 13
” اور تمہاری پاکیزگی کی کیا خوبی ہے؟تم اپنا چہرہ کیوں دھوتے ہو؟ تم مسجد میں اپنا سر جھکانے کی زحمت کیوں کرتے ہو؟ اگر تمہارا دل منافقت سے بھرا ہو اہے تو تمہاری نماز یا حجِ مکہ کا کیا فائدہ ہے؟“
گرونانک کے نزدیک قاضی وہ ہے جو اپنی انانیت کو ختم کر کے غیر فانی خدا کی پناہ حاصل کر لیتا ہے اور پانچ وقت کی نماز خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے۔ کیونکہ ایسا شخص وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ ہر دم اپنی قبر کو یاد رکھتا ہے۔ جو اپنی خود روی اور خود پسندی کو مٹا دیتا ہے اور خدا کو ہی اپنا سہارا بناتا ہے۔وہ خدا موجود ہے ، غیر فانی ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گا۔ وہ حق ہے اور ہر چیز کا خالق ہے۔وہ (قاضی) دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے۔گرونانک جی کہتے ہیں کہ اے لوگو قبر تمہیں بلا رہی ہےیہ کھانا پینا یہیں رہ جائے گا۔ اسی طرح بابا فرید الدین بے نمازی کو بڑے سخت الفاظ میں تنبیہہ کرتے ہیں۔ جو شخص پنجگانہ نماز مسجد میں ادا نہیں کرتا اور اس کا سر خدا کی بندگی کے لیے نہیں جھکتا تو ایسے شخص کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ صبح کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنےکی تلقین کرتے ہوئے’ گرنتھ صاحب‘میں فرماتےہیں:
فریدا بے نمازا کتیا ایہہ نہ بھلی ریت کبھی چل نہ آیا پنجے وقت مسیت
اٹھ فریدا وضو ساج صبح نماز گذار جو سر سائیں نہ نیویں سو سر کپ اتار14
”بابا فرید بیان کرتے ہیں کہ اے بے نماز کتے تیرا یہ طریق پسندیدہ نہیں ہےکہ تو کبھی بھی پانچ وقت چل کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتا۔اے فرید صبح اٹھ کر وضو کرو اور نماز پڑھو۔ جو سر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں جھکتااسے دھڑ سے علیٰحدہ کرنا ہی بہتر ہے۔“
’گرو گرنتھ صاحب‘ میں بعض مقامات پر ایسے شبد بھی درج کیے گئے ہیں جن میں روحانی نمازوں کا تذکرہ موجود ہے اور ہر نماز کا ایک علیٰحدہ مقصد بیان کیا گیا ہے۔ پہلی روحانی نماز حمد ہے۔ دوسری صبر ہے۔ تیسری عجز و انکساری ہے۔ چوتھی خیرات ہے۔ پانچویں حواسِ خمسہ کو قابو میں رکھنا ہے۔ یہ سب سے اچھے پانچ وقت ہیں یعنی پانچ روحانی نمازیں ہیں۔
سِکھ مت میں روزہ کا تصور:
’ گروگرنتھ صاحب ‘میں روزے جیسے اعمال کا تذکرہ بھی پایا جاتا ہے۔لیکن سِکھ مذہب میں مسلمانوں کی طرح روزے کا تصور تونہیں ملتا البتہ روزہ رکھنے کی ترغیب، اس کی اہمیت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔ اگر روزہ اس کے تقاضوں کے مطابق رکھا جائے تو انسان کا قلب و ذہن سچائی سے مامور ہو جاتا ہے۔روزہ اور بندگی اسی صورت میں قبول ہو گی کہ انسان منہ، کان ، آنکھ اور جسم ہر حصے کا دھیان رکھ کر ہر وقت فکر مند رہےکہ ان سے کوئی برا کام نہ ہو۔اپنے نفس کو مار کر اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھواور مرشد کامل کی تلاش میں دوڑ بھاگ کرو ۔ تیس دن کے خوشی سے روزے رکھو اور تنگی محسوس مت کرو ، ایسا مرد پاک اصیل کہلانے کا حقدار ہے۔ جوناک، کان، منہ اور زبان کا بھی روزہ رکھتا ہے اور اسی میں مست رہتا ہے، گویا کہ وہ اپنے دل کی نگرانی کرتا ہےکہ وسوسے پیدا نہ ہوں۔ اپنی زبان کے سارے چسکے چھوڑ دینےسے دل کے تمام اندیشے اور وسوسے دور ہوجاتے ہیں ۔گرو نانک کے مطابق روزہ رکھنے سے انسان کا دل سچائی سے بھر جاتا ہے۔
مروجہ سِکھ دھرم میں روزے کی افادیت اور اہمیت کو تو تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ انسانی صحت کے لئے سود مند ہے لیکن روزہ بطور عبادت تسلیم نہیں کیا جاتاہے۔ ان کے نزدیک خدا نے جسم کو روح کی آماجگاہ بنایا ہےلہٰذا جسم کی تزئین و آرائش اور ہر لحاظ سے اس کی ضرورت کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔
غذا کے استعمال میں اعتدال کو “ Introduction of Sikhism” میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
“ The golden rule about fasting is: Fast only when you must, in the interest of your health.” 15
”روزہ رکھنے کےبارے میں سنہری اصول یہ ہے کہ روزہ صرف اس وقت رکھیں جب وہ آپ کی صحت کے مفاد میں ہو۔“
’گرنتھ صاحب‘ میں اگر گرو نانک کے کلام کا مطالعہ کریں تو وہ متعدد مقامات پر روزہ اور نماز کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔اسے سیدھا راستہ قرار دیتے ہوئے شیطان سے بچنے کا درس دیتے ہیں،چنانچہ لکھتے ہیں:
تیہہ کر رکھے پنج کر ساتھی ناؤ شیطان مت کٹ جائی
نانک آکھے راہ پے چلنا مال دھن کت کو سنجیاہی 16
”تیس روزے اور پانچ نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتے رہواور شیطان سے ہمیشہ ہوشیار رہو؛ کہیں وہ تمھارے اعمال ضائع نہ کر دے۔نانک یہ نصیحت کرتا ہے کہ سیدھے راستے پر چلتے رہو، مال و دولت اکٹھا کرنے کا کیا فائدہ ہے۔“
خوراک کے معاملے میں مروجہ سِکھ مذہب میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ نہ تو بہت زیادہ کھایا جائے اور نہ ہی فاقہ کشی اختیار کی جائے بلکہ متوازن غذا کا استعمال کر کے اپنے آپ کو عبادت خدا وندی میں مشغول رکھا جائے۔ لیکن روزے کا جو اسلامی تصور ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
سِکھ مت کی تعلیمات کے مطابق حقیقی گر مکھ انسان وہ ہوتا ہے جو سچے دل سے اپنے رب کی تعریف کرتا ہے اور ظاہری رسومات سے قطع نظر روزہ و دیگر عبادات سرانجام دیتا ہے۔جو گرمکھ بن جاتا ہے ، وہ خداوند کو یاد رکھتاہے۔ وہ سچائی کے ساتھ خود پر پابندی کا عمل کرتا ہے۔ حقیقی تفہیم کے بغیر تمام روزے، مذہبی رسومات اور روزانہ کی جانے والی عبادت صرف دوہری محبت کا باعث بنتی ہیں۔ سِکھ مذہب غذائی معاملات میں صبر اور اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ نہ تو بالکل فاقہ کشی اختیار کی جائے اور نہ ہی انسان اتنا کھائے کہ سانس لینا بھی محال ہو۔ جس شخص نے اپنے آپ کو مراقبے میں مشغول کر رکھا ہو، اسے چاہیے کہ صرف سادہ اور صحت مند خوراک قلیل مقدار میں استعمال کرے۔
سِکھ مت میں زکوٰۃ وصدقات کا تصور :
سِکھ دھرم میں دیگر عبادات کی طرح زکوٰۃ و صدقات کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔سِکھ مذہبی لٹریچر کے مطابق زکوٰۃ کی ادائیگی ایمان کی شرائط میں سے ہے۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی ملامت کی گئی ہے۔ اپنے مال کا دسواں حصہ راہ ِخدا میں خرچ کرنے کی ہدایات موجود ہیں۔ اپنی محنت اور حلال طریقے سے کی گئی کمائی کو مخلوق ِخدا پر خرچ کرنے والے کو سیدھے رستے پر چلنے والا قرار دیا گیا ہے۔ سخت تگ و دو کے بعد اپنی کمائی کو بندگان ِخدا میں تقسیم کرنا خدا کی محبت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ جو لوگ اپنی محنت کی کمائی سے غریبوں کا حصہ نکالتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔ نانک کے مطابق وہی لوگ خدا کے راستے کو پہچان سکتے ہیں۔
اپنے مال میں سے خدا کی راہ میں دسواں حصہ خرچ کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔’تاریخ گرو خالصہ‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ گرو نانک نے اپنے شاگرد رکن الدین کو پانچ نصیحتیں کیں:
سنو قاضی رکن الدین پنج نصیحتاں ایہہ اللہ دی کر بندگی سچ بولیں نس ڈیہہ
کھاؤ کھواؤ کھٹ کے کرو مشقت کار مکھ سِکھ پوے پینڑا ایہو کھانا سار
دسواں حصہ اوس تھیں راہ رب دے دیہہ ان پچھے پاوے بہشت سو سچ حقیقت ایہہ 17
” اے قاضی رکن الدین یہ پانچ نصیحتیں غور سے سن لو۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت سے کبھی غافل مت ہونا۔ شب و روز ہمیشہ سچ بولنا۔ جھوٹ کے قریب بھی مت جانا۔ اپنی محنت کی کمائی سے خود بھی کھانا اور دوسروں کو بھی کھلانا۔جس رزق کو حاصل کرنے کے لئے انسان کا سر سے پاؤں تک پسینہ بہنے لگے ، وہی رزق حلال اور بہتر ہے۔ایسی محنت کی کمائی سے دسواں حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والا انسان بغیر کسی روک ٹوک کے جنت کا وارث ہوتا ہے۔“
سِکھ مت میں حج (یاترا) کا تصور:
کم وبیش تمام مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے مذہب کے مطابق اپنے مقدس مقامات کی زیارت کا قصد کرتے ہیں۔ عربی زبان میں اسے حج اور ہندی میں اسے یاترا کا نام دیا جاتا ہے۔ہر مذہب میں حج (یاترا) کا طریقہ کار مختلف ہے اور یاترا کے لئے مختص مقامات بھی جدا جدا ہیں۔
سِکھ مت میں بھی حج (یاترا) کا تصور موجود ہے۔سِکھ مذہب کے تیسرے گُرو امر داس نے سِکھ برادری کے لئے امرتسر میں ایک مرکز قائم کیا اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ وہ سال میں کم ازکم تین تہواروں پر اپنے گرو سے ملاقات کے لئے اس مرکز میں حاضر ہوں۔رفتہ رفتہ سِکھوں میں یاترا کے لئے کئے جانے والے سفر کا شعور بیدار ہوا اور انھوں نے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔بعد ازاں امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھی گئی جو سِکھ وں کے عقیدے کا مرکز بن گیا۔
گرو گوبند سنگھ حج (یاترا) کے لئے کی جانے والی فضول خرچی کے بارے میں بہت متشدد تھے۔ان کے نزدیک اس طرح کے دوروں کی ذرا اہمیت نہیں ہے۔حقیقی حج گرو کا کوئی بھی دورہ ہے جو روشن خیالی دیتا ہے۔مقدس مقام پر جا کر غسل کرنے سے گناہوں کا کفارہ نہیں ہوتا۔’ گرو گرنتھ صاحب ‘میں گرو ارجن دیو بیان کرتے ہیں:
بھگوتی مدرا من موہیا مائیا پاپ کرے پنچاں کے بس رے
تیرتھ نائے کہے سبھ اترے بہُر کماوہ ہوئے نسنک 18
” مقدس دھاگے اور ہاتھوں کے رسمی اشارے تو بنائے جاتے ہیں لیکن ذہن مایا (دولت) کے لالچ میں رہتا ہے۔وہ پانچ چوروں کے زیر سایہ گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ مقدس مقامات پر نہاتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ سب کچھ ختم کر دیا گیا ہے۔“
سِکھ دھرم کے مطابق لوگ حج (یاترا) کے لئے مختلف وجوہات کی بناء پر اپنے مراکز کا سفر کرتے ہیں۔کچھ لوگ اپنے مذہبی رواج کی بناء پر مقدس مقامات پر جاتے ہیں۔کچھ لوگ اپنی تعطیلات کو پرلطف بنانے کے لئے مذہبی مقامات کی طرف سفر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ مقدس مزارات کی زیارت کے لئے سامانِ سفر باندھتے ہیں تا کہ ان کے گناہ بخش دیئے جائیں ،لیکن وہاں جا کر غسل کرنے اور دیگر رسومات کی ادائیگی سے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ اصل ناپاکی تو انسان کے ذہن سے متعلق ہےجو کہ باطن میں چھپی ہوئی ہے۔باطن کی صفائی کے لئے نیک لوگوں کی صحبت ضروری ہے، صرف تاریخی مقامات کے دورے کافی نہیں ہیں۔ البتہ مقدس مقامات کی طرف یہ سفرنیک ہستیوں سے ملاقات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ہندؤں کے تیرتھ یاترا سے بیزاری:
ہندو قوم میں جہاں پر اوہام پرستی کی کثرت پائی جاتی ہے ؛ وہاں پر تیرتھ یاترا کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ہندؤں کا عقیدہ ہے کہ تیرتھ یاترا سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔ہندؤں کے کل (68 )تیرتھ یعنی مقدس مقامات ہیں۔گرو نانک ہندؤں کے تیرتھ یاترا کےتصور سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ عبادت الٰہی ، صدقہ وخیرات اور غرباء کی کفالت کو اصل تیرتھ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ’گرو گرنتھ صاحب‘میں بابا نانک بیان کرتے ہیں:
تیرتھ تپ دیا دت دان جے کو پاوے تل کا مان
سنیا منیا من کیتا بھاؤ انتر گت تیرتھ مل ناؤ19
”حقیقی تیرتھ تو عبادتِ الٰہی اور ہر ایک سے محبت کے ساتھ پیش آنا ہے۔خیرات اور یتیموں و مسکینوں کی خبر گیری کرنا ہی افضل تیرتھ ہے۔مبارک ہے وہ جسم جو ایسے تیرتھ کی یاترا کرتا ہے۔ایشور کی حمد سنو اور اس پر یقین کرو اور اس قدوس کے نام کے ورد کے ساتھ مل کر نہاؤ ، حتیٰ کہ روم روم کی میل دور ہو جائے۔“
سِکھ مذہب میں گردوارہ کا تصور:
سِکھ روایات کے مطابق ہندوستان اور بیرونِ ملک وسیع و عریض سفر کے بعد گرو نانک کرتاپور میں آباد ہوئے۔جہاں انھوں نے گردوارے کے ادارے کی بنیاد رکھی۔ابتداء میں اسے ایک دھرم شالا (عبادت خانہ) کہا جاتا تھا۔ یہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو سمجھنے اور بانٹنے کی توجہ کا مرکز بن گیا۔تمام ذات پات کے مردوں اور خواتین کی ایک جماعت اجتماعی عبادت (سنگت) اور شبد کیرتن میں شامل ہونے لگی۔ عبادت کے اختتام پر جماعت کے ممبران کولنگر تقسیم کیا جاتاتھا۔ سنگت، شبد کیرتن اور لنگر سِکھ روایات کی امتیازی خصوصیات کے طور پر اجاگر ہوئے۔
وہ جگہ جہاں پر سِکھ دھرم کے لوگ اپنی اجتماعی عبادات اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں گردوارہ کہلاتی ہے۔ سِکھ روایات میں گردوارہ ایک مرکزی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ اجتماعی عبادت کا مرکز ہے۔اس کے علاوہ یہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی آبیاری کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی اور خدمت کا بھی مرکز ہے۔گر دوارہ کی اصطلاح دو الفاظ پر مشتمل ہے۔گرو اور دوارہ۔ گرو کے لفظی معنی ہیں ایک استاد، ایک روحانی رہنما اور گرو خدا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔جبکہ دوارہ گھر یا دروازے کی نشاندہی کرتا ہے۔گرو دوارے کی اصطلاح کی ابتداء چھٹے گرو گوبند سنگھ سے منسوب ہے۔ گردوارے کی ایک امتیازی خصوصیت نشان صاحب (سِکھ پرچم) ہے۔جو عمومی طور پر گرو دوارے کی عمارت کے قریب لہرایا جاتا ہے۔
گرو دوارے کی اقسام:
گرو دوارے کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں۔ تاریخی اور معاشرتی۔
تاریخی گردوارہ:
تاریخی گردوارے ان مقامات پر تعمیر کئے گئے ہیں جو سِکھ مت تحریک میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔مثلاً ’شیش گنج‘ گردوارہ اس جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں نویں گرو تیغ بہادر کا مغل حکام نے سر عام سر قلم کیا تھا۔آنند پور میں گر دوارہ ’کیش گڑھ‘ جہاں گرو گوبند سنگھ نے خالصہ کو قائم کیا تھا۔ تاریخی گردواروں کے مسائل کے مستقل حل کے لئے حکومت پنجاب اور سِکھ نمائندگان کے درمیان ایک عرصے تک گفت و شنید جاری رہی۔آخر کار تاریخی گردواروں کا نطم ونسق ’شرومنی‘ گردوراہ پربندھک کمیٹی (گردواروں کی سپریم مینجمنٹ کمیٹی) کو دے دیا گیا۔جسے پنجاب گردواراہ ایکٹ ۱۹۲۵ء کے تحت تشکیل دیا گیا۔اس سے سِکھوں اور حکومت کے مابین طویل تنازعہ کا خاتمہ ہو گیا۔اس سے متعلق پروفیسر گنڈا سنگھ لکھتے ہیں:
“With the strenuous efforts of Bhai Jodh Singh and his colleagues in the Punjab Legislative Council, the Gurdwara Act 1925 was passedon July 7, and it came into operation on November 1, 1925. It placed the control of all historic Gurdwaras in the hands of an elected Board which was named the Shiromani Gurdwara Parbandhak Committee.”20
”بھائی جودھ سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے پنجاب قانون ساز کونسل نے ۷جولائی کو گردوارہ ایکٹ ۱۹۲۵ منظور کر لیااور اسے یکم نومبر ۱۹۲۵ کو لاگو کیا گیا۔اس طرح تاریخی گردواروں کا کنٹرول ایک منتخب بورڈ جس کا نام شرومنی پربندھک کمیٹی رکھا گیا ، نے سنبھال لیا۔“
سِکھ مت کے گر دواروں میں پجاری کی روایت نہیں ہے۔’گرنتھی‘ گردوارہ انتظامیہ کا ملازم ہوتا ہے۔وہ مقدس صحیفہ پڑھنے اور دیگر خدمات انجام دینے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔اگرچہ گرنتھیوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان میں سے بیشتر تجربہ کار راگیوں (موسیقاروں ) سے شبد کیرتن سیکھتے ہیں۔’شرومنی ‘گردوارہ پربندھک کمیٹی نے ان گرنتھیوں کی تربیت کے لئے ایک کالج قائم کیا ہوا ہے، جو تاریخی گردواروں میں خدمات کے لئے تعینات کئے جاتے ہیں۔عمومی طور پر گرنتھی کو اعلیٰ درجے کی ملازمت نہیں سمجھا جاتا۔
کمیونٹی گردوارہ:
سِکھ برادری میں گردوارے بنانے کی روایت نہایت قدیم ہے۔جسے سیو ا( رضاکارانہ خدمت ) سمجھا جاتا ہے۔جب کسی قصبے میں سِکھ باشندوں کی مناسب تعداد موجود ہو تو وہ ایک مقامی گردوارہ قائم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جو مذہبی تہواروں اور دیگر سماجی کاموں کو سرانجام دینے کا مرکزی مقام بن جاتا ہے۔ایک کمیونٹی گردوارے کی نمایاں خصوصیت اس کے نظم ونسق کی نوعیت ہے۔ان اداروں کا نظم ونسق مقامی طور پر منتخب شدہ انتظامی کمیٹیوں کے ذریعے کیاجاتا ہے، جو صرف اپنی سنگت کو جوابدہ ہوتی ہیں اور یہ مکمل طور پر خودمختار ادارے ہیں۔ سِکھ مت کے اندر ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر گردوارے بننا شروع ہو گئے۔ اگرچہ سِکھ گروؤ ں نے سِکھ تحریک میں ذات پات کے تصور کو سختی سے مسترد کیا ہے، لیکن یہ سِکھوں کی روزمرہ زندگی کا ایک اہم عنصر ہے۔
گولڈن ٹیمپل:
گولڈن ٹیمپل سِکھ مت کی ایک اہم اور مقدس عبادت گاہ ہے۔ یہ بھارت کے صوبہ پنجاب میں امرتسر کے شہر میں واقع ہے۔مقامی لوگ اسے ’دربار صاحب‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ اس کا اصل نام ’ہری مندر صاحب‘ ہے۔ گولڈن ٹیمپل کی بنیاد چوتھے گرو رام داس نےمسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر سے رکھوائی۔اس کے بعد پانچویں گرو ارجن دیو جی کے دور میں اس طلائی مندر کی تعمیر مکمل ہوئی۔ہری مندر کی تعمیر میں حکام اور امراء نے دل کھول کر عطیات دیئے اور اسے اپنا مذہبی فریضہ گردان کر پایا تکمیل تک پہنچایا۔ہری مندر صاحب کو گولڈن ٹیمپل کے نام سے یاد کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہری مندر صاحب کو سونے میں بنوانے کے لئے چارسو کلو گرام سونا بطور تحفہ بھجوایا تھا۔ اس بلند پایہ عمارت کی دیواریں خوبصورت سنگ مرمر سے جڑی گئی ہیں ، چاروں اطراف میں چار دروازے رکھے گئے ہیں اور گنبد نما چھت ہے۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کے یہاں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہری مندر کے دروازے پر گر مکھی زبان میں ’گرو گرنتھ صاحب‘ کے مخصوص پیغامات تحریر کئے گئے ہیں۔
گولڈن ٹیمپل کے جنوبی دروازے کے عین سامنے سِکھ مت کا ایک مقدس مقام ہےجسے 'ہر کی پوڑی' کہا جاتا ہے۔سِکھ عقیدت مند جب دربار صاحب حاضری کے بعد طواف کرتے ہیں تو اسی جنوبی دروازے سے باہر نکل کر 'ہر کی پوڑی'کے مقام پر پہنچتے ہیں۔ یہاں آ کر متبرک پانی نوش کرتے ہیں اور تبرکاً ہمراہ بھی لے جاتے ہیں۔اس مقام کی نسبت سے متعلق سِکھ مؤرخین کی دو آراء ہیں ۔ایک یہ کہ ہری مندر کی تعمیر کے وقت خود ’اکال پورکھ‘ ایک مجسم صورت میں جلوہ افروز ہوئے تھےاور دوسری رائے یہ ہے کہ جب بندہ بیراگی نے اپنے آپ کو گیارھویں گرو کے طور پر پیش کیا تو ان کا فیصلہ بھی اسی مقام پر ہوا تھا۔اس لئے یہ مقام مقدس سمجھا جاتا ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں عبادت کا تصور زندگی کے جملہ شعبہ جات پر محیط ہے ۔ انسان کے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع ہوں اور کوئی عمل خلاف شرع نہ ہو۔ جبکہ سِکھ دھرم میں عبادت کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن میں نام جپنا، پاتھ کرنااور نام سمرن قابل ذکر ہیں ۔ ہمہ وقت خدا کے نام کا مراقبہ اور سِکھ گرو صاحبان کے تصنیف کردہ کلام کو سریلے انداز میں گانا ہی بہترین عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ سِکھ دھرم میں عبادت کا تصور یاد الٰہی اور خدا تعالیٰ کے حضور مناجات کے گرد گھومتا ہے اور اس کے علاوہ خدمت انسانی بھی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ سِکھ مت کا یہ تصور عبادت محدود معنوں پر مشتمل ہے جبکہ عبادات کا جو جامع نظام اسلام پیش کرتا ہے وہ سِکھ دھرم میں موجود نہیں ہے۔ البتہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر مناجات، ذکر الٰہی ، مقدس کتاب سے عبادت کے لیے کلام کا انتخاب اور اسلامی طرز پر عبادت گاہوں کی تعمیر اسلام سے اثر قبول کرنے کے دلائل ہیں۔ سِکھ مذہب عبادت کے ذریعے خدا کی رضا حاصل کرنے اور نیک اعمال کے ذریعے جونی چکر سے رہائی حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہےاور حقیقی معبود صرف خدائے واحد کو گردانتا ہے۔
Lecturer, Department of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.
1 Al-Qurān, 2:177.
2 Muslim Bin Ḥajāj al-QushayrĪ, Al-Jāmi’ Al-ṣaḥĪḥ, Bāb Faḍal al-Wuḍū (Beirūt: Dār aḥyā Al-Turāth Al-‘Arabī,s.N), 1,203.
3 Dr. Sukhbir Singh Kapoor, The Sikh Religion and the Sikh People (Delhi: Hemkunt Publishers, 2011), 172.
4 Gurū Granth Ṣāḥib,Chant Āsā Maḥallah, 5:456
5 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Āsā Maḥallah, 1:349.
6 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg GoṛĪ Maḥallah, 1:156.
7 Gurū Granth Ṣāḥib, wār SirĪ Rāg Maḥallah, 4:91.
8 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Mārū, Maḥallah, 1:990.
9 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Bhēruṇ, Maḥallah, 5:1160.
10 Gurū Granth Ṣāḥib, Basant, Maḥallah, 1:1171.
11 Gurū Granth Ṣāḥib, GoṛĪ SukhmanĪ, Maḥallah, 1:289.
12 Gurū Granth Ṣāḥib, Rāg Māru, Maḥallah, 5:1084.
13 Gurū Granth Ṣāḥib, Babhās ParbhātĪ, BānĪ Bhagat ḲabĪr, 1350.
14 Gurū Granth Ṣāḥib, Shaluḳ FarĪd, 1381.
15 Gobind Singh Mansukhani, Introduction to Sikhism (New Delhi : HemkuntPrss, 2011),60.
16 Gurū Granth Ṣāḥib, SirĪ Rāg Maḥallah, 1:24.
17 Giani Gian Sigh, Twarikh Guru Khalsa (USA: Baljinder Singh, Lassen street, CA 91343, 2006), 410.
18 Gurū Granth Ṣāḥib, Babhās ParbhātĪ, Maḥallah, 5:1348.
19 Gurū Granth Ṣāḥib, Jap jĪ, 4.
20 Ganda Singh Prof.,The Sikhs and their Religion (USA: The Sikh Foundation, 1974), 66.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2021 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |