3
1
2022
1682060063651_3206
1-25
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/37/39
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/37
Qur’ān Makki Surahs Madni Surahs Chronological order of the Surah I‘jaz al-Qur’ān.
أﻷمِیر:جلد03؍ شمارہ 01 ..(جنوری–جون2 220ء) )11(
مکی سورتوں میں مدنی اور مدنی سورتوں میں مکی آیات کا ورود؛ ایک تحقیقی جائزہ
(پارہ1 تا15 تک)
The arrival of Macan Verses in Madani Surahs and Madani verses in Macan Surahs: A research review
Maria Majeed
Muhammad Noman Majeed
The Holy Quran has been compiled in the order of detention; that is, the Holy Prophet himself gave instructions to the Companions about which verse to place and where he completed the Quran in the same order. He included Madani verses in some Macan Surahs, which may be due to the completion of subjects or the merging of similar verses and the continuation of the Quranic verse on which the commentators have different views. Some verses were revealed in Makkah after the Hijrah, but they are present in the Madani Surah according to the present order of detention. Similarly, the verses revealed during the journey, which were revealed in areas far from Madinah, the place of Mina and Arafat, and the journey to Meraj, are the verses of Mecca, even though they were revealed after the migration. The verses that were revealed during the migration were also included in the Macan Surahs and after the migration, you traveled hundreds of miles away from Madinah and the verses that were revealed at these places were Madani or Macan. If they were Madani, then why were they kept in Macan Surahs.
Why was this done and what are the reasons for it?
Is it not such an arrangement to invalidate the inspired Word?
Was it a different order than the inspired one?
Is it not possible to take these verses from the surahs in which these verses were revealed or to place them in other surahs, to spoil the connection of the previous surahs, or to leave their subjects incomplete? The article under discussion will discuss the topics, discussions, introduction of the verses, details, and reasons for placing the verses in their place in the Macan Surahs and the order and contextual context of these verses. An analytical study of the reasons for separation will be presented.
Key Words: Qur’ān, Makki Surahs, Madni Surahs, Chronological order of the Surah, I‘jaz al-Qur’ān.
تعارف:
مفسرین کے مطابق کچھ آیات ایسی بھی ہیں جو ہجرت کے بعد مکہ میں نازل ہوئیں لیکن وہ موجودہ ترتیب توقیفی کے مطابق مدنی سورت میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی نازل ہونے والی آیات میں دورانِ سفر نازل ہونے والے آیات جو مدینہ سے دور کے علاقوں میں نازل ہوئیں اس کے علاوہ مقامِ منیٰ و عرفات اور سفر معراج میں نازل ہونے والی آیات جن کو مکی تصور کیا جاتا ہے حالانکہ وہ بعد از ہجرت نازل ہوئیں یہاں تک کہ دور انِ ہجرت بھی جو آیات نازل ہوئیں ان کو بھی مکی سورتوں میں رکھا گیا۔ اور بعد از ہجرت رسول اکرم ﷺ کو بہت سے سفر پیش آئے جن میں آپﷺ مدینہ سے سینکڑوں میل دور بھی تشریف لے گئے۔ تو ان مقامات پر نازل شدہ آیات مدنی تھیں یا مکی اور اگر مدنی تھیں تو ان کو مکی سورتوں میں کیوں رکھا گیا۔
رسول اکرم ﷺ کا ان مکی آیات کو مدنی آیات والی سورتوں میں ترتیب دلوانے کا کیا مقصد تھا؟
کیا ایسا کرنا اس سورت کے مضامین کی تکمیل کے لئے تھا؟ کیا ایسا کرنے سے سورتوں کے مضامین نامکمل تو نہیں رہ گئے؟
کیا اس طرح کی ترتیب کروانا الہامی کلام کو غیر مؤثر کرنا معنی تو نہیں مراد؟
کیا یہ ترتیب الہامی ربط سے ہٹ کر الگ ترتیب تھی؟
کیا جن سورتوں میں یا جن اوقات و حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں ان سورتوں میں سے ان آیاتوں کو اٹھا کر دوسری سورتوں میں رکھنا سابقہ سورتوں کے ربط کو خراب یا ان کے مضامین کو ادھورا تو نہیں چھوڑ دے گا؟
قرآن کریم ایک ایسی نثر پر مشتمل ہے جس میں شعر کے قواعد و ضوابط ملحوظ نہ ہونےکے باوجود نثر میں آہنگ پایا جاتا ہے جو شعر سے کہیں زیادہ حلاوت اور لطافت کا حامل ہے ۔ انسان کا جمالیاتی ذوق نظم اور شعر میں ایک ایسی لذت اور حلاوت محسوس کرتاہے جو نثر میں محسوس نہیں ہوتی ۔ قرآن کریم کا دقق اعجاز اس کی آیات کے باہمی ربط و تعلق اور نظم و ترتیب میں ہے ۔ قرآن کریم کی تلاوت سے پتا چلتاہے کہ ہر آیت جدا مضمون کی حامل اور دقیق ربط رکھتی ہے۔قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے ۔جو شروع سے آخر تک باہم مربوط ہے ۔
مکی اور مدنی سورتوں کی وضاحت :
قرآن کریم کی سورتوں کے عنوان میں کسی سورت کے ساتھ مکی اور کسی کے ساتھ مدنی لکھا ہوتا ہے مفسرین کی اصطلاح کے مطابق مکی اور مدنی آیات کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے ۔ مثلاً امام جلال الدین سیوطی " الاتقان فی علوم القرآن " میں لکھتے ہیں کہ:
"أنَا المکیّٰ ما نَزل قبل الھجرۃ و المدنی ما نزل بَعدَھَا، سواءً نَزل بالمدینۃ أم بطکم عام الفتح اور عام الحجۃالوداع أم بسفر من الاسفار۔"1
مکی سورتیں وہ ہیں جو ہجرتِ مدینہ سے قبل نازل ہوئیں اور مدنی وہ جو بعد میں نازل ہوئیں بعد از ہجرت نازل ہونے والے حصہ میں ان تمام سورتوں کی حالت یکساں مانی جاتی ہے ۔ جو عام الفتح اور حجۃ الوداع میں بمقام مکہ یا کسی اور مقام میں نازل ہوئیں۔"
"أخرج عثمان بن سعید الدرمی لسبندہ الی یحی بن سلام قا ل : ما نزل بمکۃ و َ مَا نزل فی طریق المدینہ قبل ان یبلغ النبی ﷺالمدینہ فھو من المکی و ما نزل علی النبی ﷺفی اسفارہ بعد ما قدم المدینۃ فھو من المدنی "2
''عثمان بن سعید رازی نے یحٰیی بن سلام کی سند سے اس حدیث کی تخریج کی ہے کہ خاص مکہ میں اور سفرِ ہجرت کے اثناء میں رسول اللہ ﷺ کے مدینہ پہنچنے سے قبل جس قدر حصہ کلام اللہ کا اترا وہ تو مکی ہے اور رسالتِ مآب ﷺ کے مدینہ آجانے کے بعد آپﷺ کے سفروں کی حالت میں جس حصہ کا نزول ہوا وہ مدنی کے ساتھ شامل ہے۔"
درج بالا تعریفات اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قبل از ہجرت نازل ہونے والاقرآن اور آیات مکی کہلاتی ہیں۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ پہنچنے کے بعد جس قدر حصہ کلام اترا وہ مدنی آیات یا مدنی سورتیں کہلاتی ہیں۔
مختلف فیہ سورتوں کی وضاحت :
قرآن حکیم کی آیات جو ہجرت مدینہ سے قبل یا بعد از ہجرت نازل ہوئیں ان کی موجودہ ترتیب میں مکی سورتوں میں مدنی آیات کا ہونا اور اسی طرح مدنی سورتوں میں مکی آیات کا موجودہونا اور ان آیات کی تفصیل ذیل میں پیش کی جا رہی ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی ؒ اپنی کتاب "ا لاتقان فی علوم القرآن'' میں ان آیات کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں۔اس کا دلیل سے رد کر کے اپنی رائے کا بھی اظہار فرماتے ہیں ۔
سورت الفاتحہ :
الاتقان فی علوم القرآن میں فصل مختلف فیہ سورتوں کے بیان میں سورۃ الفاتحہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
"سورۃ فاتحہ کے سب سے اول نازل ہونے پر خداوند کریم کے قول " وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ " سے استدلال کیا گیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے "سبع مثانی" کی تفسیر فاتحہ الکتاب کے ساتھ فرمائی اور یہ بات صحیح حدیث میں وارد ہے اور سورۃالحجر با تفاق سب لوگوں کے نزدیک مکیہ ہے ۔"3سورۃ الفاتحہ کے مکی و مدنی ہونے کی تفصیل بیان کرنے کا مقصدعلامہ جلال الدین کا سورتوں کے بارے میں مکی و مدنی ہونے کی بحث کو واضح کرنا ہے ۔
سورۃالبقرہ :
البقرہ مدنی سورت ہے جو چالیس رکوع پر مشتمل ہے۔سورۃ ہذا میں ایمان والوں کے اوصاف اور دوسرے رکوع میں کافروں اور منافقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ تیسرے رکوع میں دو موت اور دو زندگیوں کی حقیقت قصہ آدمؑ اور بنی اسرائیل سے خطاب کیا گیا ہے اور ان کے واقعات ،حالات معاملات ،ان پر نازل کئے گئے انعامات ،اور سر کشی ،نافرمانی کی وجہ سے ان پر عذابوں کا متصل ذکر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ملت ابراہیم تحویل قبلہ کا بیان ہے۔امت مسلمہ کی معاشرتی، انفرادی، ازدواجی زندگی کے بارے میں احکامات کا ذکر کیا گیا ہے۔
مقام نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ سورۃ البقرہ پہلی سورۃ ہے جو مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔4مگر اس سورت میں کچھ آیات مکی شامل ہیں علامہ جلال الدین السیوطی کے مطابق اس میں دو آیات مکی ہیں :
وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِـمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُـمُ الْحَقُّ ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّـٰى يَاْتِىَ اللّـٰهُ بِاَمْرِهٖ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْر5
اور دوسری آیت: لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُـمْ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ ۗ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْـرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّـٰهِ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْـرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تُظْلَمُوْن6
سبب ورود غیر محل: سورۃ مبارکہ میں ان دوآیات کا مکی ہونا اور ان کا مدنی سورت میں ہونے کاکیا سبب بنا یہ ان آیات کی تفسیر اور ان کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے۔
آیت نمبر ۱۰۹: وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتَابِ……الخ
بہت کتابیوں نے چاہا کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں اپنے دلوں کی جلن سے بعد اس کے کہ حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے تو تم چھوڑو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
جنگ ِاحد کے بعد یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر کو معاذاللہ مرتد ہونے کی دعوت دی۔ ان بزرگوں نے سختی سے رد کردیا اور پھر حضوراقدس ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر اس واقعہ کی خبر دی۔حضور پر نورﷺنے فرمایا: تم نے بہتر کیا اور فلاح پائی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
مذکورہ آیت کے اسبابِ ورود سورۃ البقرۃ (غیر محل ) درج ذیل ہیں: آیت نمبر ۱۰۹کا شان نزول اور سابقہ آیات پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس آیت کو جو کہ مکی ہے مدنی سورۃ میں رکھنےکے درج ذیل عوامل ہو سکتے ہیں۔
سابقہ آیت میں دین کے بدل دینے اور کفر کو ایمان کے بدلے تسلیم کرنے کو گمراہی اور سیدھے راستے سے دوری کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور اس سورت میں موجود مکی ا ٓیت کو اسی ہی سبب یعنی دین کے بدلنے کی مناسبت سے یہاں رکھا گیا ہے۔
تکمیلِ مضمون: آیت ۱۰۸ میں دین سے پھرنے کا ذکر اور اس کو صریح گمراہی کہا گیا ہے اور آگے مثال کے ساتھ ان منافقین کا بھی ذکر کردیا گیا جو مومنین کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے جو اس مضمون کو مکمل کررہی ہے۔
مضمون سے مطابقت: مذکورہ آیت میں ایمان والوں کو کفر کی طرف پھیرنے کی کوششوں کا ذکر ہے جبکہ آیت نمبر ۱۰۸ میں دین کی تبدیلی کو یا ارتداد کو گمراہی کہا گیا ہے اور یہی اس سورۃ مبارکہ کے مضمون میں بھی ایمان کی تکمیل اور ایمان کے راستوں کی وضاحت کر دی گئی ہے۔لہذا ٓیت ۱۰۹ کو اسی مضمون سے مطابقت کی بنا پر یہاں مدنی سورت میں رکھا گیا ۔
خاص سبب:چونکہ سابقہ آیات میں منافقین کی کارستانیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے اور وہاں اہل ایمان کو کفر کی سازشوں سے آگاہ کرنا مطلوب تھا اور بعد کی ا ٓیات میں ارکان اسلام کی ادئیگی پر زور دے کر نیکی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ لہذا اس آیت کو موجودہ جگہ پر رکھنے کا خاص سبب منافقین کی سازشوں سے آگاہ کرنا تھا۔
دوسری آیت: اس آیت نمبر۲۷۲کی تفسیر میں عبد السلام بھٹوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اس آیت سے پہلے اور بعد میں صدقے کے مسائل و فضائل بیان ہو ئے ہیں ۔اس آیت کےدرمیان میں یہ کہنا کہ ” تیرے ذمے ان کی ہدایت نہیں “ کیا مناسبت رکھتا ہے ؟ اکثر مفسرین نے تو لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُـمْ سے مراد کفار کی ہدایت لی ہے اور اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ رشتے دار یا ضرورت مند اگر کافر ہے تو اس پر بھی صدقہ کرو، کافر ہونے کی وجہ سے صدقے سے ہاتھ نہ روکو، کیونکہ ان (کفار) کی ہدایت تمہارے ذمے نہیں۔7
سبب ورود غیر محل:آیت مبارکہ کی بعد میں آنے والی آیات میں بھی صدقات کا ذکر کیا جا رہا ہے مثلا آیت نمبر ۲۷۱ إِن تُبْدُواْ ٱلصَّدَقَٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا ٱلْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّـَٔاتِكُمْ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ میں صدقات کو ظاہر اور پوشیدہ طور پر ادا کرنے اور ان کی برکت سے برائیوں کے ختم ہوجانے کا ثواب بتایا گیا ہےاور موجودہ مکی آیت کو یہاں رکھنا در اصل ان اسباب کی وجہ سے تھا:
تکمیل مضمون: سورۃ ہذا میں مکی آیت کا اسی مقام پر ہونا دراصل سابقہ مدنی ا ٓیات کے مضمون کو جاری رکھنے اور صدقات کی اہمیت اور ان کے اجر و ثواب اور صدقات کی نوعیت یعنی پوشیدہ اور ظاہر ادا کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ صدقات کو باعث اجر و ثواب اور ہدایت کو اللہ کی عطا قرار دینا ہی دراصل اس مضمون یعنی صدقات کی اہمیت کو مکمل کر رہا ہے۔
مضمون سے مطابقت:سورۃ البقرہ میں ایمان والوں کے اوصاف اور معاشرتی احکامات کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی ان مکی آیات کا ان کے ساتھ آنا دراصل زکوٰۃ و صدقات کے مضامین کو مکمل کر رہا ہے اور بالکل صحیح مقام پر اس آیت کو صدقات کی اہمیت کے ضمن میں رکھا گیا۔
سورۃ الانعام: سورۃ الانعام مکی سورت ہے جس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو مثالوں سے ثابت کیا گیا ہے۔وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے شُبہات کے رد پر عقلی و حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت کیا گیا اور زمین میں گھوم پھر کر عذابوں اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ذبیحہ گوشت کو کھانے کے احکامات اور حلال و حرام جانوروں ، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے قتل کرنے سے منع کیا گیااور ساتھ ہی انبیاء کرام اور ان کی قوم کا ذکر کیا گیا ہے ۔ سورت کےآخر میں دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مقامِ نزول: اس سورت کے شان نزول کے بارے میں:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔8
اور دوسری روایت میں عبد اللہ بن عباس ہی اس سورت میں موجود ۶ آیات کو مدنی قرار دیتے ہیں روایت ہے کہ :
سورۃٔ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔
سورت انعام کی آیات کے مدنی ہونے کے دلائل: علامہ جلال الدین سیوطی الاتقان میں سورت انعام کی کچھ ٓیات کو مدنی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ان آیات کے بارے میں ابن الحصار کہتے ہیں:اس سورۃ میں۱۹آیتیں مستثنیٰ کی گئی ہیں۔ مگر اس قول کی تائید نہیں ہوئی ۔ قُلْ تَعَالَوْا سے آگے تین آیات کو علامہ جلال الدین نے الاتقان میں مدنی قرار دیا ہے۔ اور انہی ہی آیات کے بارے میں فریابی نے سفیان سے اور لیث بن بشر سے روایت میں کہا کہ اس کی تین آیتیں مدنی ہیں جن کی تائید علامہ سیوطی نے بھی کی ہے۔9
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا ۖ وَّبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُـمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْـهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِىْ حَرَّمَ اللّـٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ) وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 10
سورۃ الانعام میں موجود دوسری آیت جو مدنی قرار دی گئی وہ آیت نمبر ۲۰ اور ۲۱ ہیں روایت کے مطابق یہ آیات مسیلمہ کذاب کے بارے نازل ہوئیں11 ۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَۘومَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِه-اِنَّه لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ12
سورۃ الانعام کی تیسری آیت جس کو مدنی قرار دیاگیا وہ کلبی کی روایت کے مطابق یہ آیت مدینہ میں ایک یہودی کے بارے نازل ہوئی اور وہ ایسا شخص تھاجس نے کہا: مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ مکمل آیت یہ ہے۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ ۖ13
اسبابِ ورود آیات(غیر محل):مذکورہ آیت کے اسبابِ ورود سورۃ الانعام(غیر محل ) درج ذیل ہیں:آیت نمبر۱۵۱کا شان نزول اور سابقہ آیات پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس آیت کو جو کہ مکی ہے مدنی سورۃ میں رکھنےکے کیا عوامل ہو سکتے ہیں۔
سابقہ آیات:سورت مبارکہ کے مضامین میں چانکہ حلال و حرام کا ذکر کیا گیا ہے بالکل اسی مقام پر ان مدنی آیات کا وارددینا اس سورت کے مضمون کو مکمل کرتا ہے مثلاً سابقہ آیات میں حلال وحرام کا ذکر کیا جارہا ہے۔
قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَٰذَا ۖ فَإِن شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَۚ
مدنی آیات :علامہ جلال الدین ان آیات کو مدنی قرار دیتے ہیں یہان ان آیات کا سابقہ آیات اور سورت کےمضامین کے ساتھ ربط پیش کیا جاتا ہے۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا ۖ وَّبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُـمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْـهَا وَمَا بَطَنَ ۖ۔۔۔۔۔ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ) وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اس آیت میں حلال و حرام کے اصول اور اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزیں بیان کی گئ ہیں اور اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت ہے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون مجھ سے تین پر بیعت کرتا ہے؟“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی : آپ کہہ دیجئے کہ آؤ میں تم پر وہ چیزیں پڑھتا ہوں جو تمہارےرب نے تم پر حرام کی ہیں۔یہاں تک کہ وہ آیات کو ختم کرلے، پس جو پورا کرے گا اس کا اجر خدا کے پاس ہے اور جو ان میں سے کچھ کوتاہی کرے گا اور خدا اسے دنیا میں اس سے آگاہ کردے گا۔ اس کی سزا ہوگی، اورفرمایا''مجھ سے اس وقت تک بیعت کرو جب تک کہ تم خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو "۔14
حلال و حرام میں اولادکے قتل جس کا ارتکاب دور جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرکے کیا جاتا اوریتیم کے مال کو کھانے کی ممانعت کی گئی ان کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی سیدھے راستے کی مثال کے ساتھ نشاندہی کر دی گئی۔ ابن کثیر کی روایت کے مطابق :
''رسول اللہ ﷺ نے زمین پر خط کھینچ کر سیدھے راستے اور پھر دائیں بائیں خطوط کھینچ کر شیطان کے راستوں کی وضاحت کی اور یہ آیت تلاوت کیوَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ''15
تکمیل مضمون:قرآن حکیم کے اسلوب اور ترتیب کو ذہن میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آیات کے مضمون کا تکملہ ہر سورت اور ہر آیت میں نظر آتا ہے اور یہی اسی کا اعجاز ہے مثلاً آیت نمبر ۱۵۰ میں حلال و حرام کے مناظرہ اور ان مشرکین سے کوئی ایک گواہ لانے کا کہا جا رہا ہے اور بالکل اسی جگہ اس مدنی آیت کو مضمون کی تکمیل کے لئے رکھ دیا گیا جہاں حدیث عبد اللہ بن مسعود کے مطابق جناب محمدﷺ کی تین چیزوں پر بیعت کا ذکر کیا گیا اور دور جاہلیت میں اولاد کے قتل یتیم کے مال کو کھانے کی ممانعت کا ذکر کیا جا ریا ہے اور بعد کی آیات میں سابقہ شریعتوں میں حلال و حرام کے کامل احکامات جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئےسےحلال و حرام کی دین اسلام میں اہمیت میں اضافہ ہوگیا۔
مضمون سے مطابقت: سورت کے مضمون کے مطابق شرک،والدین کے ساتھ حسن سلوک، یتیم کے مال کے احکام، حلال و حرام کی اہمیت اورسب سے بڑھ کر ان جانوروں کا ذکر چونکہ اس سورت میں کئی مقامات پر کیا گیا جو حلال ہیں ان کے ساتھ ہی اللہ عزوجل کی حلال کردہ سب چیزوں کا ذکر کر کے یہ واضح ہوا کہ ان مدنی آیات کو بالکل صحیح موقع پر مضمون کی مطابقت سے رکھا گیا۔
خاص سبب: ان آیات کو یہاں رکھنے کا خاص سبب مشرکین کے ان عقائد کا رد ہے جو دور جاہلیت میں ان کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔اسلام ان عقائد باطلہ کا رد کرکے اس کا خوبصوت حل پیش کرتا ہے کہ توحید، والدین کے ساتھ حسن سلوک یتیم کے مال کی اہمیت اور اس کی کفالت اولاد کی تربیت جیسے اوصاف کو اپنایا جائے۔
آیت نمبر۲: الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَۘومَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِه-اِنَّه لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَۘآیت مبارکہ کے شان نزول کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے:'' یہ آیت منافقین کے بارے میں اتری۔علامہ ابن کثیر اس آیت کی تشریح اس طرح سے کرتے ہیں:
اہل کتاب کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ قرآن اور نبیﷺ کو اس طرح جانتے ہیں کہ جیسے وہ اپنی اولاد کو جانتے ہیں کیونکہ ان کی کتابوں میں مرسلین اور متقدمین کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔وہ رسول اللہﷺ کے وطن،ہجرت ،امت کے اوصاف کو اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور آپﷺ پر ایمان نہ لا کر اپنی ذات کو نقصان پہنچا رہے ہیں16۔
آیت کے مدنی ہونے کے بارے میں ابن عباس کے اس قول سے تائید ملتی ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی کیونکہ یہ آیت منافقین کے بارےمیں ہے اور منافقین تو مدینہ میں تھے ۔اس آیت کا مکی سورت میں آنے کا مقصد آیات سابقہ کے ساتھ ان کے تعلق کو جوڑ کر بیان کیا جا رہا ہے۔
سابقہ آیات اور سورت کے مضامین پر غور کیا جائے تو سورت الانعام میں کئی مقامات پر مشرکین کے ساتھ مجادلہ اور ان کی کارستانیوں کا ذکر اور توحید اور رسالت کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔بالکل اسی طرح رسالت محمدی کی تائید کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور قرآن مجید کے آخری کتاب ہونے اورمشرکوں کا رد کرتے ہوئے یہ آیت
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَۚ
رکھی گئی ہے۔توحید کی مثال اور کافروں سے اس بابت سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا تمھارے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور اس کائنات کا خالق اور تمھارا خالق ہو سکتا ہے ؟ ساتھ ہی اس مدنی آیت کو رکھ کر اس بات کا جواب دیا گیا کہ وہ لوگ تو رسول اللہ اور کتاب کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں۔
تکمیل مضمون: آیت نمبر ۱۹میں غیر اللہ کی گواہی خود مشرکوں سے لینے کے بعد یا ان سے سوال کرنے کہ بعد کہ کیا تمھارے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہو سکتا ہے ؟اس آیت کا آنا قرآن مجید کے خوبصورت اسلوب کی گواہی ہے کہ پورے قرآن کو یہ طریقہ رہا کہ جہاں سوال کئے گئے وہاں جواب اور حل پیش کر دیا گیا جیسا کہ آیت مذکورہ میں منافقین کے بارے میں بتا دیا گیا کہ یہ ثبوتوں کے ساتھ ہر چیز سے واقف ہیں کہ یہ کتاب محمد الرسول اللہ ﷺ پر حق تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوئی۔بعد میں آنے والی آیات اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ روز قیامت ان سے یہ معبود گم ہوجائیں گے اور وہ تن تنہا اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔
مضمون سے مطابقت:وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے شُبہات کے رد پر عقلی و حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں اور ان سے گواہی طلب کی گئی کہ وہ کس طرح اس کتا ب کا انکار کرتے ہیں جب کہ وہ اس کو بخوبی جانتے بھی ہیں۔
خاص سبب: مدنی آیتوں کے یہاں وارد ہونے کا خاص سبب در اصل منافقین جس میں یہود بھی شامل تھے اور مشرکین جو کئی نشانیوں کی وجہ سے رسولﷺ کو جانتے تھے مگر ضد کی وجہ سے ایمان لانے سے قاصر رہے ان کا اصل چہرہ سامنے لانا اور ان کے دل کی بات کو کھول کر بیان کرنا تھا۔
آیت نمبر 3: سورۃ الانعام کی تیسری آیت جس کو مدنی قرار دیاگیا وہ کلبی کی روایت کے مطابق یہ آیت مدینہ میں ایک یہودی کے بارے نازل ہوئی اور وہ ایسا شخص تھاجس نے کہا: مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ مکمل آیت یہ ہے۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ ۖ17
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت یہودی شخص فخاض یا مالک بن صیف کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ نے تو کبھی کوئی کتاب نہیں اتاری۔18
اللہ پاک فرماتا ہے کہ ان بے قدروں نے جیسی اللہ کی قدر کرنی تھی ویسی نہیں کی اور کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کبھی کچھ نازل نہیں کیا جبکہ انہی کی کتاب جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اور ان کا ہر ایک جانتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی کتاب سے لوگ روشنی پاتے تھے اور شبھات کی تاریکیوں میں سیدھی راہ پا لیتے تھے۔جبکہ انہوں نے اس کتاب میں تحریف کرکے اور حقیقی آیات کو چھپا دیتے تھے19۔
اس سورت سے سابقہ آیات أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ میں سابقہ انبیاء کی شریعتوں اور ان کی قوموں کا ذکر کرکے بعد میں ان یہود کا ذکر کیا تا کہ یہ حجت قائم ہوجائے کہ اللہ نے آسمان سے کتاب نازل پہلی مرتبہ نہیں کی بلکہ پہلے کئی انبیاء گزر چکے ہیں۔
تکمیل مضمون:سورت کے مکمل مضمون میں انبیاء کے تعارف اور ان کی شریعتوں کا ذکر کیا جارہا تھا مکی سورت میں اس مدنی آیت کو جو کہ عبد اللہ بن عباس کے قول کے مطابق ایک یہودی کے بارے میں نازل ہوئی کا اس مقام پر نازل ہونا اس سورت کی ترتیب کو مکمل کررہا ہے کہ انبیاء کے ذکر اور ان کی شریعتوں کی تصدیق کے بعد ان یہود کی ناشکری اور بے قدری کا ذکر کرکے موسیٰ علیہ السلام اور ان پر نازل کردہ تورات کو باعث ہدایت و نور بتا کر موضوع کی تکمیل کردی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن حکیم میں حکمتوں کا دریا موجزن ہے مگر اس کو سمجھنے کے لئے عقل و دانش اور شعور ضروری ہے۔آیت نمبر ۹۲ میں اس قرآن حکیم کے بابرکت ہونے اورسابقہ کتب کی تشریح کرنے کا ذکر یہ واضح اشارہ ہے کہ قرآن مجید میں کوئی پہلو یا موضوع بغیر ربط کے موجود نہیں ہے۔
موضوع سے مطابقت: علامہ جلال الدین کے مطابق اس مدنی آیت میں یہود کی ناقدری اور اس کا موسوی شریعت کا باعث ہدایت و برکت ہونا دراصل موضوع ہے اور یہ اس سورت کے مضامین یعنی انبیاء کی قدر اور ان کا اللہ کے پیغام کو احسن طریقے سے پہنچانے سے مطابقت رکھتا ہے۔
خاص سبب:آیت کا مدنی سورت میں وروداس خاص مقصد کی طرف اشارہ ہے جو انبیاء کے ساتھ جو سلوک قوم بنی اسرائیل نے کیا اور ان انبیاء ان کی شریعت کو جھٹلایا جس کی وجہ سے گمراہی ان کا مقدر بن گئی۔
سورت الاعراف:
سورہ اعراف مکی سورہ ہے جو کہ ۲۰۶ آیات اور ۲۴ رکوع پر مشتمل ہے۔جس کے مضامین میں نزول قرآن کامقصد ،توحید و رسالت ،آخرت، اولیاء کی پیروی ترک کرنے اور پچھلی قوموں کے احوال ،قصہ ابلیس و آدم اور ابلیس سے بچنے کے طریقے اور اس کے ہتھکنڈے اور حلال و حرام کی وضاحت کرکے اسراف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔اصحاب الاعراف کا ذکر اور ان کی دعا کے بعدتوحید کے دلائل اور رب عظیم کو پکارنے کے طریقے بتا دئے گئے اور انتہائی خوبصورت مثال کے ساتھ دعوت شکر اور قرآن کے ذکر اور تلاوت سے دل کو زرخیز کرنے پر زور دیا گیا۔آخر میں اقوام حضرت نوح ،ھود ،صالح،لوط،شعیب علیھم السلام کے انجام سے عبرت حاصل کرنےاور انکار کے بعد ان پر آنے والے عذاب سے ڈرنے کا ذکرکیا گیا ہے۔قوم موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانیوں ،فرعون کی ہلاکت اور قصہ موسیٰ سے عبرت حاصل کرنے اور محمدﷺ کے چھ نکاتی مشن جس میں امر بالمعروف،تحلیل، تحریم عقائد و اوہام اور ظلم و استحصال سے قوم کو بچانا اور مشن کی تکمیل ہر امتی کے لئے لازمی قرار دی گئی۔روز قیامت کے لئے عہد الست اور اس کی حجت کےساتھ توحید کی دلیل اور شرک کا بہترین طریقے سے ابطال کیا گیا ہے۔
مدنی آیات: ابن حبان قتاہ روایت کرتے ہیں سورۃ الاعراف مکیہ ہے مگر اس کی ایک آیت مدنی ہے۔
وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَۚ20
دوسرے قول میں ہے: وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِسے وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِیْۤ اٰدَمَ تک آیات مدنی ہیں۔21
آیت نمبر ۱:وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَۚ22
آیت میں اصحاب السبت کی حیلہ سازی کا ذکر کیا جا رہا ہے جس میں وہ حکم ربانی کے خلاف حد سے تجاوز کرتے تھے۔اور ان کےتین گروہ بن گئےاور فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت کسی نے تو ان پر عمل کیا اور کوئی اس گناہ میں مبتلا ہوگیا جس کی وجہ سے عذاب الہٰی کا شکار ہوئے اور ان کو بندر بنا دیا گیا۔
اسی طرح علامہ جلال الدین کی دوسری روایت کو لیا جائے اور آیت ۱۶۳ تا۱۷۲ کے مضامین پر غور کرنے اور ان کی تفسیر سے درج ذیل احکامات اخذ ہوتے ہیں جو سورت ہذا کے مضامین سے بھی مناسبت رکھتے ہیں اور مدنی آیت ہوتے ہوئے مکی آیت میں ان کا ہونا کس طرح ان کے مضامین کی تکمیل کررہا ہے وہ ذیل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
تکمیل مضامین:سورت ہذا کے مضامین میں قوم موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانیوں ،فرعون کی ہلاکت اور قصہ موسیٰ سے عبرت حاصل کرنے اور محمدﷺ کے چھ نکاتی مشن جس میں امر بالمعروف کے ذریعے امت محمدیہ کو عبرت حاصل کرنے اور سیادھی راہ پر چلنے کی تلقین کی گئی جبکہ سابقہ آیات میں قوم موسیٰ کی نافرمانیوں کا ٹذکرہ کرکے اس آیت میں ان سے سوال کیا گیا کہ ان کے حالات معلوم کر کے بتاؤ کہ انہوں نے کس طرح نافرمانیاں کیں۔
مضمون سے مطابقت:قوم موسیٰ سے سولات کے جواب مانگے جارہے تھے اور اسی میں ان مدنی آیات کا ورود اس کو مکمل کر رہا ہے جس میں بعد میں آنے والی آیات میں ان گناہوں کے بدلے عذاب کی وعید سنائی گئی۔
خاص سبب: اس آیت میں یہود سے سوال کرکے ان کی نافرمانیوں کا اقرار کروانا خاص سبب ورود ہے۔
سورۃ الانفال:
سورت انفال مدنی ہے یہ قرآن مجید کی آٹھویں سورت جس میں ۷۵ آیات اور ۱۰ رکوع ہیں۔عظیم الشان معرکہ جس پر قرآن کی اس سورت میں ذکر کیاگیا ہے۔ مگر اس معرکےکا انداز تمام اُن تفسیروں یا واقعات سے مختلف ہے جو دنیوی بادشاہ اپنی فوج کی فتح یابی کے بعدکرتے ہیں ۔ اس میں مختلف مواقع پر مسلمانوں کی ان خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اخلاقی حیثیت سے ابھی مسلمانوں میں باقی تھیں تاکہ آئندہ اپنی مزید تکمیل کے لیے سعی کریں۔ پھر ان کو بتایا گیا کہ اس فتح میں اللہ کی مدد کا کا کتنا بڑا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی جرات و بہادری پر نہ تکبر کریں بلکہ وحدہ لا شریک پر توکل اور رسول ﷺکی اطاعت کا سبق لیں اور اس اخلاقی مقصد پر زور دیا گیاجس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکۂ حق و باطل برپا کرنا ہےساتھ ہی ان اخلاقی صفات کی وضاحت کی گئی ہے جن سے اس معرکے میں انہیں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ پھر مشرکین اور منافقین اور یہود قیدیوں اور ان اموال جو جنگ میں ہاتھ آئے تھے ان اموال کے بارے ہدایت کی گئی کہ وہ اللہ اور ان بندوں کا ہے جو غریب ہیں۔ پھر قانون جنگ و صلح اور اسلامی ریاست کی عسکری اور خارجی پالیسی کے اصول کے متعلق وہ اخلاقی ہدایات دی گئی ہیں اور دعوت اسلامی کا طریقہ اور صلح و جنگ میں کونسا طریق اختیا ر کیا جائے۔الغرض سورت کیے چیدہ چیدہ احکامات میں مقصد و فرضیت جہاد،فلسفہ جہاد، جہاد کے آداب، ترغیب جہاد اور صلح و جنگ کے احکامات شامل ہیں ۔
شان نزول:یہ سورت مدینہ میں غزوہ بدر کے موقع پر ۲ہجری میں نازل کی گئی۔
مکی آیات :علامہ جلال الدین اس آیت کو مکی قرا ردیتے ہوئے مقاتل کا حوالہ دیتے ہیں کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی۔جب کہ علامہ جلال الدین اس کے اسباب نزول میں اس کو مدنی قرار دیتے ہیں کہ یہ آیت بعینہ مدینہ میں بھی نازل ہوئی۔
وَ
إِذْ یَمْکُرُ
بِکَ الَّذینَ
کَفَرُوا
لِیُثْبِتُوکَ
أَوْ یَقْتُلُوکَ
أَوْ یُخْرِجُوکَ
وَ یَمْکُرُونَ
وَ یَمْکُرُ
اللّهُ وَ اللّهُ
خَیْرُ الْماکِرینَ23
آیت
نمبر 2:
يَا
أَيُّهَا النَّبِيُّ
حَسْبُكَ اللَّهُ
وَمَنِ اتَّبَعَكَ
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
24
ابن الغرس اور ابن العربی اس آیت کو مکی مانتے ہیں اور اس کی دلیل میں ابن عباس کی یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت عمر اسلام لائے۔
وَ إِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ أَوْ یَقْتُلُوکَ أَوْ یُخْرِجُوکَ وَ یَمْکُرُونَ وَ یَمْکُرُ اللّهُ وَ اللّهُ خَیْرُ الْماکِرینَ25
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
مکہ میں جب رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا کہ یا تو آپ کو قید کردیا جائے ، یا قتل کردیا جائے یا جلا وطن کردیاجائے اور یہ آیت اس وقت اتری جب ابو طالب سے رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ یہ لوگ یعنی کفار مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا آپﷺ کو کس نے اس کی خبر دی؟ فرمایا ''میرے رب نے''۔انہوں نے کہا آپﷺ کا رب کتنا اچھا ہے اس کی بھلائی کے طلب گار رہو۔آپﷺ نے فرمایا میں اس کی بھلائی کاخواہاں بنوں؟ بلکہ وہ میری بھلائی چاہتا ہے۔26
سابقہ آیات میں دوستی اور تقوٰی کی بنیاد پر مؤدت کا ذکر ہوا ہے مثلاً یہ آیتيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ27کے مضمون سے معلوم ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اہمیت اور ان کے لئے مؤمنین کی محبت مکہ میں مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا تھا اور رسول اللہ ﷺاور اللہ کی اطاعت کا حکم اور خیانت سے بچنے کا حکم دے کر تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا گیااور ماضی میں کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف سازشیں کی تھیں ان کا ذکر آرہا ہے اور بعد میں آنے والی آیات سے بھی ان کا تعلق بن رہا ہے مثلاً کفار قرآنی آیات کو پہلے لوگوں کی کہانیاں کہتے رہے اور عذاب الہٰی مانگنے کی ضد کرتے رہے۔
تکمیل مضمون:اس تفسیر سے ثابت ہورہا ہے کہ یہ مکی آیت ہے اور مکہ میں جو حالات تھے ان کے بارے میں نازل ہوئی اس سورت کے مضامین کے مطابق دعوت دین کے جو طریقے بتائے گئے ہیں اور کفا ر کی رسول اللہ ﷺ کے بارے میں سازشیں کرنا اور اللہ کا رسولﷺ کو ان کارناموں سے آگاہ کرکے ہجرت کا حکم دینا اور انہی کفار کا قرآنی آیات اور رسول اللہ ﷺ کا انکار کرنا اور اس طرح کے حالات میں جہاد کا فرض ہونا ناگزیر تھا۔ ان سب کا تعلق اس آیت کے نفس مضمون سے بنتا ہے جو اس سورت کے مضمون کو کامل بناتا ہے۔
موضوع سےمطابقت:سابقہ آیت میں تقوٰٰ ی کو اختیار کرنے کا حکم ہے اور تقوٰی کے ثمرات میں ایک فائدہ دلی محبت بتایا گیا اور اللہ کا فضل ہی دراصل ایمان والوں کی طاقت اور رحمت کا سبب ہے اور ان احسانات کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی کفار کی تدابیر کا ذکر کیا گیا کہ اللہ سے بہتر تدبیر کسی کی نہیں ہوسکتی اور بعد میں انہی لوگوں کے کارنامے اور انکار آیات اور عذاب الہٰی جلدی مانگنے جیسی حرکتوں کا ذکر کیا گیا۔
خاص سبب:اس آیت کا یہاں ورود خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کو تسلی دینے کے لئے تھا۔
سورۃ التوبہ:
یہ قرآن مجید کی نویں سورت جس میں بسم اللہ نہیں۔ مدنی سورت ہے اور اس کی ۱۲۹ ایات اور۱۶ رکوع ہیں ۔ یہ سورت دو ناموں سے مشہور ہے۔ ایک التوبہ دوسرے براءَۃ۔ جہاں تک اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتدا صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے۔سورت میں مشرکین منافقین اور اہل کتاب سے عملاً جہاد کا حکم دیا گیا ترک جہادپر استبدال قیادت اور عذاب الیم کی دھمکی دی گئی اور اعراب کا تفصیلی ذکر کیا گیا اور جہاد کے لئے خام مسلمانوں کی تربیت ضروری قرار دی گئی ہے۔
مکی آیات:اس آیت کے بارے میں مقاتل کا کہنا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی جب کہ علامہ جلال الدین یہ کہہ کر اس قول کی تردید کرتےہیں کہ جب یہ ثابت ہوچکا کہ یہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے تو یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ اس کی آیتیں مکی ہوں؟
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ28
سورت توبہ چونکہ مدنی ہے اور اس آیت کو مکی اس لئے کہا گیا کہ یہ سب سے آخر میں نازل ہوئی مگر علامہ سیوطی اس کے اسباب نزول میں اس آیت کا مکی ہونا قبول نہیں کرتے بلکہ اس کو مدنی ہی قرار دیتے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :
رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہیں اور جو انہی ہی کی زبان میں بھیجے گئے اور مختلف بادشاہوں کے درباروں میں جعفر بن ابی طالب اور مغیرہ بن شعبہ بیان کرچکے ہیں اور انہی کی ہی بابت حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا کر چکے ہیں۔جاہلیت کی برائیوں میں سے کوئی برائی رسول اللہ ﷺ میں نہ تھی اتنے نرم دل کہ امت کی تکلیفوں پر رو پڑتے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس حال میں چھوڑا کہ جو پرندہ اڑ کر نکلتا، اس کا علم بھی آپ ہمیں کردیتے۔29
اور علامہ ابن کثیر رسول اللہ ﷺ کی مسلمانوں کے لیے جہنم سے بچانے اور جنت میں لوگوں کو لے کہ جانے کی حرص کے بارے میں لکھتے ہیں:
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ میں ، جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی تمام چیزیں میں تم سے بیان کر چکا ہوں اور جو کچھ تم پر حرام کیا گیا ہے عنقریب اس کی باز پرس ہونے والی ہےجس طرح پتنگے اور پروانے آگ پر گرتے ہیں اس طرح تم بھی گر رہے ہو اور میں تمہاری کولیاں بھر بھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں۔30
سابقہ پورے رکوع میں منافقین اور کا ذکرکیاجا رہا ہے مثلاً۔
وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا ۚ صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ 31
اگر آیت۱۲۸ کو مکی مان لیا جائے اور اس کا سورت ہذا میں ورود اور اس کے سیاق سباق کا جائزہ تفسیر کی روشنی میں کیاجائے تو ورود کے درج ذیل اسباب معلوم ہوتے ہیں۔
تکمیل مضمون: سورت توبہ کے مضامین مشرکین منافقین اور اہل کتاب سے عملاً جہاد کا حکم دیا گیا ترک جہادپر استبدال قیادت اور عذاب الیم کی وعید سابقہ آیات میں منافقین کی چالبازیوں اور ان کے راز فاش کرنے کا تذکرہ کیا جارہا ہے اور سورت کے آخر میں مؤمنین پر اللہ عزوجل کے احسان عظیم کا ذکر کیا گیا کہ ایسے نبی کو ایمان والوں کی طرف مبعوث کیا گیا جو اپنی جان سے زیادہ ان کے مومن ہونے، جہنم سے بچا لینے کے حریص ہیں۔
موضوع سے مناسبت: سابقہ آیات میں منافقین کا تذکرہ کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کی تمام امت کے لیے اس چاہت کا ذکر جس میں حدیث رسول کے مطابق لوگ پتنگے اور پروانوں کی طرح آگ پر گرتے ہیں میں تمہاری کولیاں بھر بھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں او رمومنوں کے لئے شفیق اور محبت کرنے والا بنا کر اور رحمت للعالمین بناکر بھیجا گیا۔
خاص سبب:اس آیت کا یہاں ہونا دراصل رسول اللہ ﷺ کی حیثیت کو مومنوں اور تمام امت کے لیے واضح کرنا تھا۔
بعض علماء کےنزدیک سورۃ براءۃ میں آیت ۱۱۳مکی ہے اور اس کو مکی اس کے شان نزول کی وجہ سے قرار دیا جاتا ہے۔قول النبی ﷺ ہے اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں"جب تک میں منع نہ کیا جاؤں اس وقت تک تمہارے لئے طلبِ مغفرت کرتا رہوں گا۔32
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ 33
اس آیت کی تفسیر اور اسباب نزول میں کئی واقعات درج ہیں ان میں سے ایک سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی ۔اس ضمن میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
مسند احمد بن حنبل میں ہے ابو طالب کی موت کے وقت رسول اکرم ﷺ تشریف لائے ان وقت ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا چچا لا الہ الااللہ کہہ لے تاکہ میں اللہ کے ہاں سفارش کرسکوں۔اس پر دونوں سرداروں نے کہا اے ابو طالب !کیا تو عبد المطلب کے دین سے پھر جائے گا ۔ ابو طالب نے کہا میں تو عبد المطلب کے دین پرہوں۔آپﷺ نے فرمایا میں جب تک منع نہ کیا جاؤں آپ کےلئےبخشش مانگتا رہوں گا۔ 34
اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کی مضبوط سند اور مسند احمد میں ہونے سے پتا لگاکہ یہ مکہ میں نازل ہوئی۔
سابقہ آیات میں مومنوں کے اوصاف جس میں جہاد کی اہمیت اور مومنین کے ساتھ اللہ کے بہترین سودے جو جان اورمال کے جہاد کے بدلے جنت کی صورت میں ملے گی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اوصاف جس میں توبہ ،رکوع وسجدے میں مصروف رہنا، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حدود اللہ کی حفاظت کرناشامل ہیں ۔ انہی آیات کے ساتھ ہی مشرکین کے لئے دعا کرنے سے منع کرکے اور بعد میں آنے والے آیت جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دے کر اس واقعہ کے مضمون کو مکی واقعہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا جس سے حکم مکمل ہورہا اور کلام کا مقصد بھی سمجھ آرہا ہے۔
تکمیل مضمون:قرآن مجید کی یہی خوبصورتی ہےکہ باتوں کا ربط اور تعلق باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ نظم اور ترتیب جو کلام کو خوبصورتی عطا کرتی ہے وہ قائم رہتی ہے بالکل اسی طر ح اس آیت کو بعدمیں آنے والی آیت جس میں سابقہ انبیاء کے واقعات کا حوالہ دے کر اکثر مقامات پر رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی گئی بالکل اسی طرح حضرت ابراہیم کی اپنے باپ کے لئے بخشش سے ممانعت کا ذکر اس مضمون کو جو مشرک والدین کے بارے میں دعا کرنے کے حوالے سے ہے مکمل ہورہا ہے۔
موضوع سے مطابقت: مومنوں کے اوصاف اور حدود اللہ کا ذکر کرکے مشرکین کے لئے دعا کرنے سے رسول اللہ ﷺ کو منع کردیا گیا اور بعد میں آنے والی آیت جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دے کر اس واقعہ کے مضمون کو مکی واقعہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا جو اس سورت کے موضوع کی تکمیل کاسبب بن گیا۔
خاص سبب:رسول اللہ ﷺ کا اپنے مشرک چچا کے لئے دعا کرنا اس آیت کے نزول کا سبب بنا اور اسی خاص سبب کو ماضی کے واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملا کر کلام کی ترتیب مکمل ہوگئی۔
سورۃ یونس:
سورۃ یونس اصل میں مکی ہے ۔ اس میں ۱۰۹ آیات ہیں ۔ سورت یونس رسول ﷺ کے قیام مکہ کے چوتھے اور آخری دور ۱۱ تا ۱۳ نبوی کے وسط میں سورت ھود کے ساتھ نازل ہوئی۔اس کے مضا میں میں قرآن ھکیم کے محکم دلائل کے ساتھ منکرین آخرت ، رسالت ، توحید اور مشرکین مکہ پر حجت قائم کرنا اور ان کے مطالبات و اعتراضات کے مدلل جوابات شامل ہیں۔
مدنی آیات: صاحب الاتقان لکھتے ہیں کہ سورۃ یونس میں سے "فان کنت فی دو آیتوں تک مستثنیٰ کی گئی ہیں مطلب یہ مدنی ہیں۔35
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ36
دوسرے قول کے مطابق جو ابن الغرس اورسخاوی فرماتے ہیں۔ من اولھا الی راساربعین مکی والباقی مدنی37ابن الغرس اور سخاوی مطابق یہ سورت ابتدا سے لے کرچالیس آیتوں تک مکی اور باقی مدنی ہے ۔
علامہ جلال الدین کے مطابق ایک دوسری آیت : وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ
یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
آیت نمبر ۱: فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ38
تفسیر: علامہ ابن کثیر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ٹھوس دلائل کے باوجود انکار حق قابل مذمت ہے۔حکم رسول ﷺ کے مطابق جب یہ آیت اتری توحضور پرنورﷺ نے فرمایا نہ تو مجھے کچھ شک ہے اور نہ پوچھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ امت کوان الہامی کتب کے بارے میں اپنا ایمان مضبوط کرنا ہوگا جوگزر چکی ہیں اور ان میں نبی آخرالزماںﷺ کا ذکر موجود ہے۔39
انکار کرنے والوں کا انجام خسارہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔سابقہ مکی آیات میں بنی اسرائیل کی تاریخ اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات ،ان کی تحریفات اور بدعتوں اور ان پر آنے والے اللہ کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔
تکمیل مضمون: چونکہ سورت کے مضامیں میں بنی اسرائیل کا تذکرہ اور ان پر انعامات ربانی شامل ہے اور اس مدنی آیت کا اس مکی سورت میں موجود ہونا کسی بھی صورت موقع اور محل کے عین منافی نہیں بلکہ کہیں نا کہیں اس کا تعلق ضرور مضمون کے ساتھ ہوتا ہے مثلاً کفر کے شکوک و شبہات کا ذکر اس مدنی آیت میں کیا جارہا ہے اس سے سابقہ آیت میں دراصل اسی ہی قوم سے خطاب ہے کیونکہ مدینہ میں زیادہ تر یہود آباد تھے اور وہ کئی قسم کے اعتراضات اور شکوک کا اظہار کرتے تھے، انہی کو جواب دے کر بتایا گیا کہ ان لوگوں سے اس نبی کا ذکر پوچھ لیں جو سابقہ کتب کا علم رکھتےہیں کہ آپ کے پاس یہ کتاب بالکل حق کے ساتھ اور اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے جو ایما ن نہیں لائے گا اور جن کے بارے یہ فیصلہ ہو چکا کہ وہ آگ میں جانے والے ہیں وہ کبھی ایمان نہ لائیں گے۔
موضوع سے مطابقت:آیت کی سابقہ اور بعد کی آ یت میں موضوع بحث دراصل دین حق کو قبول کرنے میں کفر کی طرف سے شکوک و شبہات کا ہونا اور ان کے رد کے لئے سابقہ آسمانی کتب کی طرف رجوع کا حکم دیا جارہا ہے۔
خاص سبب: شک کے ازالہ کے لئے اور حق کو ثابت کرنے کے لئے پچھلی امتو ں کا حوالہ دیا گیا تاکہ دین حق کو قبول کرنے میں کوئی شک نہ رہے۔
سورۃ ہود:
سورت ھود قیام مکہ میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی یہ وہی دور تھا جب آپ ﷺ پر افتراء کے الزامات عائد کئے جاتے تھے اپ ﷺ کی دعوت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اس سورت کے مضامین میں توحید و عبادت کا مطالبہ، شرک اور دیگر گناہوں سے توبہ کی دعوت، اور سابقہ انبیاء حضرت نوح، حضرت ھود ، حضرت صالح ، حضرت موسیٰ، حضرت شعیب کی قوموں کی مثالیں اور ان میں سے افراد کے اللہ کے حضور معافی مانگنے اور توحید کو دعوت کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
مدنی آیات:سورۃ الھود مکی سورت ہے مگر جلال الدین سیوطی کے مطابق اس میں یہ آیت مدنی ہے۔۔
آیت نمبر۱: فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَا یُوحَى إِلَیْکَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُکَ أَن یَقُولُواْ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْهِ کَنْزٌ أَوْ جَآءَ مَعَهُ مَلَکٌ إِنَّمَآ أَنتَ نَذِیرٌ وَاللَّهُ عَلَى کُلِّ شَىْءٍ وَکِیلٌ40
آیت نمبر ۱۱۴ کو مدنی قرار دینے والے فضائل بن سلیمان البلخی اپنی کتاب جمال القراءمیں لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ ابی السیر کے بارے میں نازل ہوئی ۔
آیت نمبر ۱:فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَا یُوحَى إِلَیْکَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُکَ أَن یَقُولُواْ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْهِ کَنْزٌ أَوْ جَآءَ مَعَهُ مَلَکٌ إِنَّمَآ أَنتَ نَذِیرٌ وَاللَّهُ عَلَى کُلِّ شَىْءٍ وَکِیلٌ41
اس آیت کی تفسیر میں کافر لوگ جن کی زبان پر جو بھی چرھتا وہ طعن رسول اللہ ﷺ پر توڑتے اللہ نے اپنے سچے پیغمبر کو دلاسا اور تسلی دی کہ آپ اس کام میں سستی نہ کریں بلکہ صبر اور ہمت سے کام لیں۔
تکمیل مضمون:سابقہ آیات میں صبر اور ہمت کی تلقین اور صابرین کے لئے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ کیا جارہا ہے۔ اور ساتھ رسول اللہ ﷺ کو طعن و تشنیع کے جواب میں دل کو تنگ کرنے سے روک کر تسلی دی گئی کہ آپ کا کام صرف دین کی دعوت دینا ہے جیسا کہ اس سورت کے مضامین میں تمام انبیاء کی دعوت مشکلات اور ان کی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے۔
موضوع سے مناسبت:مدنی آیت کا اس مکی سورت میں آنا رسالت میں آنے والی مشکلات پر انبیاء کو صبر کی تلقین اور قوم کی نافرمانی پر دل دکھانے سے منع کرکے ان کو یہ بتانا کہ ہدایت اللہ کی ہی ہے اور انبیاء اس کو دل میں ڈالنے کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔
خاص سبب: رسالت کے تقاضوں میں اہم ترین تقاضا انبیاء کرام کا قوم کے طعن و تشنیع پر پریشان ہونا اور اللہ کا ان کو سابقہ انبیاء کے واقعات بتا کر تسلی دینا خاص سبب ہے۔
سورۃ الرعد :
مدنی سورت ہے اس کی ۴۳ آیات ہیں اور یہ رسول اللہ ﷺ کے مکہ میں قیام کے آخری دور میں سورت یوسف کے بعد نازل ہوئی جب رسول اللہﷺ کے خلاف چالیں چلی جارہی تھیں اور مشرکین مکہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد پر انکار رسالت اور انکار آخرت کے عقیدے پر سختی سے عامل تھے۔اس کے علاوہ اس سورت کے مضامین میں قرآن کی دعوت توحید و آخرت حق ہے محمد الرسول اللہ ﷺاور قرآن کی دعوت توحید و آخرت کو تسلیم کرنے والے عقل مند ہیں۔ منکرین توحید وآ خرت سازشی بھی ہیں اور بے وقوف ہیں۔ یہ حق و باطل کی کشمکش ہے دونوں کا کردار اور انجام بھی مختلف ہے۔
مکی آیات: قتادہ کے قول کے مطابق:
آیت نمبر ۱:سورۃ الرعد مدینۃ الا آیۃ قول: وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ 42
آیت نمبر۲:
جاء عبد اللہ بن سلام حتیٰ اخذ بعضاد تی باب المسجد قال: انشدکم باللہ ای قوم اتعلمون انی الذی انزلت فیہ }ومن عندہ علم الکتاب 43{قالو ؛الھم نعم۔
"عبد اللہ بن سلام آیااور دروازہ مسجد کے دونوں بازو تھام کر کہنے لگا لوگو میں تم کو خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ آیا تم اس بات کو جانتے ہو کہ جس شخص کے بارےمیں آیت ومن عندہ علم الکتاب نازل ہوئی وہ کہاں ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں بے شک!44
علامہ جلال الدین السیوطی اس روایت جندب کے حاشیہ میں بحیثیت حوالہ لکھتے ہیں کہ :
"انکرہ بن عباس،کما حکاہ عند صاحب الکامل لان اسورۃ مکیۃ والسلام ابن السلام کان بالمدینۃ"45
صاحب الکمال کی روایت کے مطابق چونکہ یہ سورۃ مکی ہے اور عبد اللہ بن سلام مدینہ میں تھا۔علامہ جلال الدین اس آیت کو سب سے اخیر نازل ہونے والی آیت قرار دے کر اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں۔
آیت نمبر ۳: اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ ۗعَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ ۗسَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ ۗلَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍۗ هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَۗوَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ46
آیت نمبر ۱:وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ 47
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتےہیں کہ:
ہم نے تمھارے آس پاس کی بستیوں کو ان کی بد کرداریوں کی وجہ سے غارت و برباد کر دیا ہے اور اس طرح سے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں کہ لوگ برائیوں سے باز رہیں۔ابن عباس کی روایت ہے کہ لفظ قارعہ سے مراد ہے کہ چھوٹا سا لشکر جو خود ان کے شہر کے قریب اتر پڑے ( یعنی محمدﷺ) اس سے مراد فتح مکہ ہے۔48
اور فتح مکہ ہونے کی ہی نسبت سے اس کو مدنی آیت کہا گیا کہ یہ اس فتح کے بارے میں پیشین گوئی ہے۔ اس کی تائید مجاہد ، قتادہ اور عکرمہ نے بھی کی ہے۔ان مدنی آیت کا مکی سورت میں ورود اور ربط اس سے قبل اور بعد میں آنے والی آیات اور سورت کے مضا مین سے پتا لگتا ہے۔
تکمیل مضمون:سورت کے مضامیں میں مشرکین مکہ کا اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد پر قائم ہونا انکار رسالت اور انکار آخرت کے عقیدے پر سختی سے عمل پیرا ہونا قرآن کی دعوت توحید و آخرت حق ہے،انہی سے تعلق بناتے ہوئے کفار کا نشانیاں مانگنا اور ان گناہوں کی صورت میں ان پر عذاب یعنی مسلمانوں کا غلبہ ہاجانا اور ساتھ ہی سابقہ انبیاء کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات کا ہونا یہ سب ان آیتوں کے مضامین کو مکمل کرتا ہے۔
موضوع سے مطابقت: سابقہ انبیاء کی طرح حضرت محمدﷺ سے معجزہ مانگنا اور دعوت حق قبول نہ کرنے والوں پر مسلمانوںکا غلبہ فتح مکہ کی صورت میں ہوگیا کہ حق والے ہمیشہ غالب رہتےہیں۔
خاص سبب: انکارکرنے والی قوم پر یا باطل کے عقائد کو فروغ دینے والوں پر غلبہ ہمیشہ حق اور سچ کا ہی ہے۔مسلمانوں کی ؑظیم الشان فتح مکہ اس سورت میں مدنی آیت آنے کا خاص سبب ہے۔
آیت نمبر۲:وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ49
اس آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی۔کافر جو رسول اللہﷺ کو جھٹلا رہے ہیں ان کو کہہ دیں کہ اللہ کی گواہی کافی ہے وہ میری تبلیغ اور تمہاری تکذیب کو شاہد ہے اور اسی کے پاس علم کتاب ہے وہ عبد اللہ بن سلام ہیں۔کیونکہ ان کتابوں میں آپﷺ کی صفت موجود تھی۔ایک غریب حدیث میں اس سے متعلق روایت ہے کہ عبد اللہ بن سلام نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل کی مسجد میں جا کر عید مناؤں مکے پہنچے آپﷺ بھی وہیں تھے آپﷺ ے پوچھا کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے؟ انہوں نے فرمایاآپ اللہ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے تو آپ ﷺنے سورت اخلاص پڑھی ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا اور اسلام قبول کر لیا اور مدینہ واپس آگئے50۔
تکمیل مضامین :اس سورت کے مضامین کے ساتھ اس مدنی سورت کا موازنہ کیا جائے تو مشرکین مکہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد پر انکار رسالت اور انکار آخرت کے عقیدے پر سختی سے عامل تھے اور اہل کتاب دلائل مانگا کرتے تھے لہذا اس آیت سے قبل کفار کی مسلمانوں کے خلاف تدبیروں کا ذکر ہو رہا ہے اور ہیں سابقہ کتب میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرکے گواہ کا ہونا صرف اللہ کو ہی کافی قرار دیا نہ کہ ان اہل کتاب کا جو اپنی ہی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔
خاص سبب: اللہ کا اپنے رسول کی تصدیق کرنا اور تصدیق کرنا ہی اس سورت میں مدنی آیت کا خاص سبب ہے۔
آیت نمبر ۳: اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ ۗ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۗوَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ51
اس آیت کے شان نزول میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ رحم میں پرورش پانے والے بچے کی حقیقت سے صرف اللہ آگاہ ہے اور ہر چیز کو اندازہ اسی ذات کے پاس ہے اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہے۔سرگوشی اور بلند آوازوں کو جاننے والا اور ہر ایک کے ساتھ نگہبان مقرر کر رکھے ہیں جو اللہ کے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے ۔بجلی کی کڑک اور چمک کے بارےعامر بن طفیل اور اربد بن ربیعہ کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں حضورﷺ کے پاس آئے کہا کہ ہم آپ کو مان لیں گے اگر آپ آدھوں آدھ کا ہم کو شریک کرلیں ۔ آپﷺ نے ان کو مایوس کیا ۔ اس نے کہا کہ میں سارے عرب کو میدان جنگ سے بھر دوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا '' اللہ تجھے یہ وقت کبھی نہیں دے گا''۔انہیوں نے رسول اللہ ﷺ کو نعوذ باللہ قتل کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تمام ہوگیا اور عامر طاعون کی گلٹی سے مر گیا۔ان جیسوں کے بارےمیں یہ آیت نازل ہوئی کہ جس پر چا ہتا ہے اللہ بجلی گرا دیتا ہے وہی سب کو گھیرے ہوئےہے۔52
تکمیل مضامین: ان آیات کا مکی سورت میں وردو اس سورت کے مضامین کی وجہ سے ہے کہ اس میں اللہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر کیا گیا اور مثالوں کے ساتھ ان کو بیان کرکے کفر کا انکار کیا گیا سابقہ آیات جو مکی ہیں ان میں ان مشرکین کے عقائد جس میں مر کر دوبارہ اٹھنے کو یہ لوگ مذاق سمجھتے ہیں اور عجیب سمجھتے ہیں اور برائی کی طلب کرتے ہیں جب کہ اللہ تو وہ عظیم و برتر ذات ہے جو دلوں کے حالات اور رحم میں موجود بچے سے واقف اور اسی کے حکم سے دنیا کا نظام زمین و آسمان کے تمام معاملات ان میں سے ایک بارش کا برسنا اور بجلی کا بطور عذاب کسی پر ان کے اعمال اور زیادتیوں کی وجہ سے مسلط ہو جانا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے اور وہی ان لشکروں کو تھامے ہوئے ہے۔
مضمون سے مطابقت:سورت کے مضامین میں اللہ کی عظیم نشانیوں کا ذکر کیا گیا جو توحید کی دلالت کرتی ہیں مدینہ میں نازل کردہ ان آیات کے ساتھ جڑے واقعے کا مقصد در اصل اللہ کی عظمت یا دلانا تھا تاکہ لوگ اور متکبر عبرت حاصل کریں۔
خاص سبب:ان آیات کو یہاں ہونا اللہ کی عظمت و کبریائی بیان کرنا ہے جس کا مشرکین اور اہل کتاب انکار کرتے ہیں۔
سورۃابراہیم:
یہ سورت مکی ہے اس کی ۵۲ آیات ہیں اور یہ مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کے دوران یعنی ۱۱ تا ۱۳ نبوی میں نازل ہوئی جو سازشوں کا زمانہ تھا اور جب رسول اللہ ﷺ کے مکہ سے اخراج کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ اس سورت کے مضامین میں ایام اللہ سے عبرت حاصل کرنا ، کفر ناشکری اور کفران نعمت کا رویہ ترک کر کے توحید کا رویہ اختیار کرنا شامل ہیں۔
مدنی آیات:قتادہ راوی ہیں فرماتے ہیں :
سورۃ ابراہیم مکیۃ غیر آیتین مدنیتین أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ53
علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال لکھتے ہیں جس میں سب سے مضبوط ترین قول ہے کہ:
''عبد اللہ بن الکواء نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ۔ آپ نے فرمایا:'' یہ مشرکین قریش ہیں''۔ان کے پاس اللہ کی نعمت ایمان کی صورت میں آئی مگر مگر انہوں نے اس کو کفر سے بدل دیا۔ جو بنو امیہ اور بنو مغیرہ ہیں جنہوں نے خود بھی شرک کیا اور قوم کو بھی شرک کی طرف بلایا۔ جب انہوں نے اپنی قوم کو بدر میں لا کر سب کو جہنم میں جا اتارا اور نسل ہی ختم ہوگئی'' ۔54
سابقہ آیات میں کفر کا انکاررسالت اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف سازشیں کرکے ان کو راہ حق پر آنے سے منع کرنے کا ذکر ہورہا ہے۔
تکمیل مضمون :اس مکی سورت میں اس آیت کا ہونا اس کے سیاق و سباق اور سورت کے نفس مضمون جس میں کفر کا انکرا رسالت پر اڑ جانا اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف سازشیں کرکے ان کو راہ حق پر آنے سے منع کرنا شامل ہیں ان کو ہدایت سے روکنا اسی موضوع سے مطابقت رکھتا ہے کہ دین اسلام سے روکنے والوں کا انجام تباہی اور دنیا و آخرت کی رسوائی ہے اگر یہ لوگ توحید کو قبول کرلیتے تو اس رسوائی سے بچ جاتے جو دنیامیں شکست اور قوم کے تباہ و برباد ہونےکی صورت میں ملی اور آخر ت میں رسوائی اور آگ ان کا مقدر بنی۔
موضوع سے مطابقت: سورت کے موضوع توحید کے رویے کو قبول کرنے اور شرک کی ممانعت سے اس آیت کا گہرا تعلق ہے کہ نعمت اسلام کی بجائے کفر کو فوقیت دینا تباہی کے علاوہ کچھ نہیں اور بعد میں آنے والی آیات ہی ان بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ اللہ کے سوا معبود بنانا لوگوں اور قوم کو گمراہی سے بچانے کے لئے محض دنیا تک کے لیے ہے آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
خاص سبب: شرک کی نفی اور توحید کی برکت اس آیت کے یہاں ورود کا سبب ہے۔
سورۃ الحجر:
سورۃ الحجر مکی ہے اور اس کی ۹۹ آیات ہیں جو ۱۱ یا ۱۲ نبوی میں نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ پر مجنوں اور مسحور ہونے کے الزام کا چرچا تھا۔اس کے مضامین میں استہزاء اور تمسخر سے کام لینے والے قریش کے لیڈروں کو قوم لوط، اصحاب الایکہ اور اصحاب الحجر کی ہلاکت سے ڈرایا گیا رسول اللہ کے لئے تسلی ، آفاقی انفسی، اور تاریخی دلائل سے قانون سزا وجزا اور آخرت کا اثبات، مشرکین کو ہلاکت کی دھمکی ، کافروں کے دباؤ اور دنیا پرستی سے بچ کر دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھنے کی ہدایت گی گئی ہے۔
مدنی آیات:اس میں کچھ آیات کو جن کی تعداد دو بتائی گئی ان کو مدنی قرار دیا گیا ہے وہ آیتیں یہ ہیں:
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ 55
علامہ ابن کثیر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
سبع مثانی سے مراد سورت فاتحہ سے جس کی سات آیتیں ہیں انکے ساتھ اللہ تعالی نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں اور ہر رکعت میں دہارئی جاتی ہیں خواہ فرض نماز ہو یا نفل نماز ہو۔56
تکمیل مضامین:آیت ۸۷ سے سابقہ آیت میں ان اقوام کا ذکر کیا جا رہا ہے جو انبیاء کی منکر تھیں اور ساتھ ہی خالق دو جہاں کے زمین و آسمان پیدا کرنے اور قیامت کے وقوع سے پہلے پہلے اپنے اعمال سدھار لینے کا حکم ہے اور اللہ کی رسول اللہ ﷺ پر عظیم نعمت سبع مثانی کا تذکرہ ملتا ہے۔اس کے بعد والی آیات میں رسول اللہ ﷺ کو دنیاوی متاع کی بے ثباتی اور آخرت کے گھر کو حاصل کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے کہ دنیا سے حصول سے کہیں بہتر یہ کلام ہے جو آپﷺ کو قرآن مجید کی صورت میں اور فاتحہ کی صورت میں دیا گیا۔
موضوع سے مناسبت:سورت کے مضامین کے مطابق اس سورت میں رسول اللہ ﷺ کے لئے تسلی و تشفی کا اظہار کیا گیا اور اس سورت میں اس مدنی آیت کے نزول کےبارےمیں اور بھی اقوال ہیں کہ یہ مدینہ میں بھی نازل ہوئی اگر اس کے نزول کو مدنی مان لیا جائے اور اس مکی سور ت میں اس کا ورود اور اس کے مضا مین سے اس کا خوبصورت تعلق بنتا ہے کہ رسول اللہ کو جب مشرکین تکالیف دیتے تو اللہ نے یہ سورت الفاتحہ نازل کرکے فرما دیا کہ آپ ﷺ سے قبل یہ کسی اور پر نازل نہیں کی گئی بلکہ یہ سورت اور اس کی فضیلت امت محمدیہ کے ساتھ خاص ہے۔
خاص سبب: سورت فاتحہ کو مکہ اور مدینہ دونوں میں نازل کر کے اس سورت کی امت محمدیہ کے لئے اہمیت بتانا ہے۔
سورۃ النحل :
سورۃ نحل مکی سورۃ ہے اس مکی ۱۲۸ آیات ہیں یہ قیام مکہ کے دوران ۱۲ نبوی میں قحط کے اختتا م پر ہجرت مدینہ سے پہلے ناز ل ہوئی اس لیے اس میں مظلوم صابر اور متوکل مسلمانوں کےلئے ہجرت کی ترغیب ہے ۔ اس کی بعض آیات دور تشدد میں نازل ہوئیں مثلاً حضرت عمار بن یاسر کے بارے میں آیت ۱۰۶ نازل ہوئی ۔اس کے مضامین میں نزول قرآن کا مقصد، منکرین توحید و رسالت و آکرت سے مجادلہ، اور خالق ارض و سماء کو الٰہ تسلیم کرنے کا مطالبہ ، اللہ اور بندوں کے حقوق ، حلال و حرام کے احکام اور صبر ثابت قدمی، تقوٰی کےساتھ دعوت دین کی اجازت شامل ہیں ۔
مدنی آیات:سورت کی مدنی آیات کے بارے میں مختلف اقوال وارد ہوئے ہیں البتہ اگر ان آیات کی بات کی جائے تو عبد اللہ بن عباس اس سورۃ مبارک کا آخری حصہ مدنی قرار دیتے ہیں۔اس کی دلیل (سورۃ نحل کے آخری حصہ کے مدنی ہونے کی )اس روایت سے لی جا سکتی ہے کہ امام بیہقی اپنی کتاب الدلائل میں رقم طراز ہیں:
انھا نزلت باُحد، والنبی ﷺ واقف علی حمزۃحین استشھد57
امام بیہقی کے مطابق یہ آخری حصہ سورت تب نازل ہواجب احد میں رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کی شہادت کے وقت ان کی لاش پر موجود تھے امام بیہقی نے ان آیات کا ذکر نہیں کیا کہ وہ آیات کہاں سے شروع ہو رہی ہیں۔اور کہاں ان آیات کا اختتام ہو رہا ہے ۔اس روایت کی مزید وضاحت تفسیر ابن کثیر سے کی جاسکتی ہے کیا واقعی یہ سورت مکی ہے اور اس کا آخری حصہ مدنی ہے۔حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں:
''سورت نحل پوری مکہ مکرمہ میں اتری مگر اس کی یہ تین آخری آیتیں مدینہ منورہ میں اتریں جب کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ شہید کردیئے گئے اور آپ کے اعضائے بدن بھی کاٹ لئے گئے جن پر رسول اللہ ﷺ کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ '' اب جب مجھے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں پر غلبہ دے گا تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اس طرح کاٹوں گا''۔ یہ سن کر مسلمانوں ے نے بھی یہ کہا کہ ہم ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے کرٰیں گے کہ عرب میں کسی نے ایسا نہ دیکھا ہوگا''۔ 58
یہ روایت حکم کے لحاظ سے مرسل ہے اور متصل بھی ہے غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺسے حضرت حمزہ کی شہادت دیکھ کر دکھ اور غم کی حالت میں جب یہ الفاظ ادا ہوئے تو اس پر یہ آیتیں اتریں۔ایک روایت میں ہے کہ :''آپﷺ نے اپنی اس قسم کا کفارہ ادا کیا۔
لہذا ان آیات کی روشنی میں یہ حکم ہوا کہ جو صبر کرے اور معاف کردے کہ یہ صبر ہر ایک کے بس کی بات نہیں یہ ان سے ہی ہو سکتا ہے جنہیں اس رب کی جانب سے توفیق نصیب ہو اور مخالفین کا غم نہ کرنے کی تلقین کی گئی کہ آپﷺ کو اللہ ہی کارساز کافی ہے۔59
سابقہ آیات اور سورت کے مضامین میں مشکلات پر صبر کرنے اور دعوت وحکم تکو اپنانےکی تلقین کی جارہی ہے۔
تکمیل مضمون:ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں مسلمانوں پر جو تشدد کے واقعات ہوتے رہے اور ہجرت کے دوران جو مشکلات آئیں ان کے لئے صبر تقوی حکمت اور احسان کے ساتھ دعوت دین کی تلقین کی گئی سورت کے آخر میں واقعہ احد کو بیان کر نا جو کہ مدینہ میں ہوا اصل میں اس سورت میں موجود مضامین سے مطابقت رکھتا ہے کہ اس کام میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
موضوع سے مطابقت:منکرین خرت و رسالت کو ایک اللہ کی دعوت کے نتیجے میں آنے والی مشکلات پر صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹ جانا اور اسی موضوع سے حضرت حمزہ کی شہادت پر صبر کی تلقین کرنا ۔
خاص سبب: ہجرت اور مصائب پر صبر کی تلقین اور دین کی دعوت میں صب، تقویٰ ،حکمت جدال حسن کو اپنا شعار بنانا۔
اسی طرح ابو شیخ شعبی سے روایت کرتے ہوئے سورۃ النحل میں موجودمدنی آیات کے بارےمیں لکھتے ہیں :
نزلت النحل کلھا بمکۃالاھولا ءالآیات: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ60
ابو شیخ کے مطابق سورہ النحل پوری مکی ہے سوائے ان آیات کے کیونکہ مدنی ہیں کے قول کے مطابق سورہ النحلوالذین ھاجرو کے بعدتک مدنی ہے اور اس سے پہلے شروع کی سورت مکی ہے ۔ 61
دوسری روایت:دوسری روایت کے مطابق ترمذی اور حاکم نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے اور وہ فرماتے ہیں :
''اس کا نزول (سورۃ النحل کے آخری حصہ کا) فتح مکہ کےموقع پر ہوا۔62
تیسری روایت :ایک اور قول جو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :
سورۃ النحل قولِ باری تعالیٰوَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ سے آخر تک مدنی ہے۔ اور اس کا پہلا حصہ مکی ہے۔63
علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر ہیں ہجرت کی فضیلت بیان کرتے ہیں :
''جو لوگ راہ الٰہی میں تر ک وطن کر کے دوست احباب رشتے کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین اللہ کی پاسبانی کے لئے ہجرت کرتے ہیں جو اللہ کے ہاں معززو مکرم کہلائے گئے''۔64
اس آیت کے مدنی ہونے کے دلائل علامہ سیوطینے دئے اور ابن کثیر نے اس کی تائید نہیں کی اور نہ ان آیات کو مدنی کہا ہے۔مگر اس آیت کو مدنی ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئی اس آیت کے مکی سورت میں ورود کے اسباب اور ان کی حکمت ذیل میں ہے۔
تکمیل مضامین: سورت کے مضامین میں ہجرت کرنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی اور اس عمل کو بہت فضیلت والا عمل قرار دیا گیا ہے آیات ہجرت سے قبل آیات میں رسول اللہ ﷺ کا لوگوں کی ہدایت کے لئے حریص ہونا اور اسلام کی خاطر مشکلات برداشت کرنے صبر کرنے اور ہجرت کرنے کو فضیلت والا عمل کہا ہے بعد والی آیت میں سابقہ انبیاء کی شریعت اور ان پر آنےوالی مشکلات کا تذکرہ کرکے رسول اللہ کو تسلی دی گئی ۔
موضوع سےمطابقت: سورت کے مضامین میں مظلوم صابر اور متوکل مسلمانوں اور ان پر تشدد کئے جانے کی صورت میں ان کو صبر کی تلقین کی گئی اور اسی موضوع سے مناسبت کرتے ہوئے اس کوہجرت کی فضیلت و اہمیت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔
خاص سبب: دوران اسلام پیش آنے والی مشکلات خاص طور پرہجرت کی فضیلت بیان کرنا۔
خلاصہ:
قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے زندہ معجزہ ہے ۔ اس کی تاثیر اس کی زبان اس کی بلاغت، اسالیب، تصریف ، کلیدی الفاظ اورخاص اصطلاحات میں پوشیدہ ہے۔ اس مربوط ،پر اثر اور جامع کلام میں بات کو ایسے مناسب طریقے سے پیش کیا گیا کہ جس سے فہم قرآن اس کے سیاق و سباق کو سمجھنے میں قاری کو آسانی میسر آتی ہے۔مکی سورتوں کی جامعیت ،پختگی ،احکام میں ربط اور مدنی سورتوں میں موجود احکام کا منہج جو کلام الہٰی میں تدبر و تفکر کی راہیں کھولتا اور عجائب و اسرار کو کھولتا ہے جس سے تفکر و تدبر اور تعقل کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
مقالہ ہذامیں انہی اسرار و رموز کوکھوجنے کی ادنیٰ کوشش کی گئی ہے جو اس حکمت سے بھرپور کتاب میں مکی سورتوں میں موجود مکی آیات اور مدنی سورتوںمیں موجود مکی آیات میں پائی جاتی ہیں ۔ ان آیتوں کے مضامین کا دوسری آیات سے ربط اور ان کا مکی سورتوں میں ہونے کا سبب کہ کس مصلحت یا واقعہ کے پیش نظر ان کا مختلف مقامات پر ورود ہوا سب کیا گیا ہے۔ان آیا ت کو مختلف تفاسیر کی مدد سے ربط تلاش کرنے اور اس سورت کے مضامین کے ساتھ اس ربط کوجوڑا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ہر ہر آیت کا ورود بلاوجہ نہ تھا بلکہ وہ کسی خاص سبب اور اس سورت کے مضامین سے بالکل ہم آہنگ تھی اور مضمون کی تکمیل کررہی تھی۔
M.Phil Scholar, The Govt. Sadiq College Women University Bahawalpur.
M.S Scholar, Dept. of Translation & Interpretation, Islamic International University, Islamabad.
1 Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān (Lahore: Maktabah Ulūm e Islamiyah, S.N), 1: 45-49.
2Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:45-49.
3 Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:45-49.
4‘Alā ud dīn ‘Alī bin Muḥammad Al-Khāzin, Al-Tafsīr Al-Khāzin (Beirūt: Dār al-Kutub Al-Ilmiyyah, 1995 A.D) 1:133.
5Al-Baqarah, 2:109.
6 Al-Baqarah, 2:272.
7 ‘Abdul Salām bin Muḥammad Bhatvī, Tafsīr ul Qur’ān (Lahore: Dār al-Undlas, S.N), 2:223.
8‘Alā ud dīn ‘Alī bin Muḥammad Al-Khāzin, Al-Tafsīr Al-Khāzin, 2:353.
9Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:1
10 Al-An‘ām, 6:151
11Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:62.
12 Al-An‘ām, 6:21.
13 Al-An‘ām, 6:91
14Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr (Lahore: Maktabah Islamiyah Printers, 2009 A.H), 2:312.
15Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 2:317.
16Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 2:214.
17 Al-An‘ām, 6:91
18Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 259.
19 Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 260.
20Al-A‘rāf, 7:163.
21Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:62.
22 Al-A‘rāf, 7:163.
23 Al-Anfāl, 8:30.
24Al-Anfāl, 9:64.
25Al-Anfāl, 8:30.
26 Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 2:486.
27Al-Anfāl, 8:29.
28 Al-Taubah, 9:128.
29Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 2:537.
30 Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 2:537.
31 Al-Taubah, 9:127.
32Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:62.
33 Al-Taubah, 9:113.
34 Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 2:523.
35Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:63.
36Yūnus, 10:94
37 Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:89.
38Yūnus, 10:94
39 Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 2:578.
40 Hūd, 11:12.
41Hūd, 11:12
42 Al-Ra‘ad, 13:31.
43Al-Ra‘ad, 13:43.
44Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:63.
45Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:90.
46Al-Ra‘ad, 13:13.
47 Al-Ra‘ad, 13:31.
48Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 3:60.
49Al-Ra‘ad, 13:43.
50Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 3:70.
51 Al-Ra‘ad, 13:13.
52Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 3:45-46.
53Ibrāhīm, 14:29.
54Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 3:95.
55 Al-ḥajar, 15:87.
56 Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr,1:30.
57 Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:127.
58Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 3:185.
59Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 3:186.
60 Al-Naḥl, 16:127.
61Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:92.
62Jalāl al-Dīn bin Abī bakr Suyūtī, Al-Itqān Fī Ulūm ul Qurān, 1:73.
63 Al-Naḥl, 16:41.
64Abu al-Fiḍā ‘Imād Ad-Din Ismā‘īl ibn ‘Umar ibn Kathīr, Al-Tafsīr, 3:147.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |