3
1
2022
1682060063651_3207
26-37
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/38/40
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/38
Ḥadith e Lawlāk Objections Authenticity Narrators Chain of Narration.
ح
دیث لولاک کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ )30(
حدیثِ لولاک کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ
A Research Review of the Hadith e Lawlāk
Hafiza Sania Mushtaq
The importance and authenticity of the hadiths of the Prophet (PBUH) in the Muhammadan Ummah is an undisputed fact. A large number of Muḥaddithīn and imams spent their lives in collecting and editing the hadiths of the Prophet (PBUH) and compiled a collection of hadiths. These hadiths were classified according to their health and weakness. Due to the efforts of the imams, there are hadiths narrated from the Messenger of Allah on all sciences and knowledge and issues and rulings. Among them are Hadith Qudsī, Ma‘rūf, Mawkūf, Maktū‘, Saḥiḥ, Ḥasan Za‘īf and all other types of Hadith. The same Hadith e Qudsīyyah also includes a Hadith Lawlāk "لولاک" refers to those hadiths in which the Prophet ﷺ has been described as the cause of the creation of the universe and the origin of the universe. That is the hadith in which Allah Almighty has related the Prophet (PBUH) as the reason for creating the universe and its beings. However, the words of "Hadith e Lawlāk" The authenticity of the hadith has been made a subject of discussion. Some imams have declared this hadith to be weak and some have also said that it is valid. However, a large number of scholars have agreed on the authenticity of this hadith and the hadith has been declared correct in terms of meaning and has been recorded in the books of hadith, biographies and interpretations and other subject books. In the article under review, the sayings of Imams on the health and weakness of Hadith Lawlāk have been presented and research analysis of the said Hadith has been done through simulation and rational arguments.
Key Words: Ḥadith e Lawlāk, Objections, Authenticity, Narrators, Chain of Narration.
تعارف:
امت محمدیہﷺ میں احادیث نبویہﷺ کی اہمیت و حجت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ احادیث رسولﷺکی جمع و تدوین اور چھان پھٹک میں محدثین ائمہ کرام کی ایک کثیر تعداد نے زندگیاں صرف کیں اور ذخیرہ حدیث ترتیب دیا۔ ان احادیث کی صحت و ضعف کے اعتبار سےدرجہ بندی کی۔ ائمہ کرام کی ان کاوشوں کی بنا پررسول اللہ ﷺ سے تمام علوم و معارف اور مسائل واحکام پر مروی احادیث موجود ہیں۔ جن میں حدیث قدسی٫مرفوع٫موقوف٫مقطوع٫صحیح٫حسن ضعیف اور دیگرتمام اقسام حدیث شامل ہیں۔ انہی احادیث قدسیہ میں ایک "حدیث لولاک" بھی شامل ہے۔ " لولاک"سے مراد وہ احادیث جن میں آپﷺ کو وجہ تخلیق کائنات اور اصل کائنات قرار دیا گیا ہے. یعنی وہ حدیث جس میں اللہ تعالی نے رسولﷺ کو کائنات اور اسکی موجودات تخلیق کرنے کی وجہ قرار دیا ہے۔اگرچہ" حدیث لولاک" کے الفاظ کی وجہ سے حدیث کی صحت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ بعض ائمہ کرام نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا اور بعض نے موضوع بھی کہا تاہم معناَ اس حدیث کے صحیح ہونے پر علماء کی ایک کثیر تعداد نے اتفاق کیا ہے اور حدیث کو معنی کے لحاظ سے صحیح قرار دے کر کتب حدیث ٫ سیرت و تفاسیر فضائل و واعظ اور دیگر موضوع کی کتب میں درج کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں حدیث لولاک کی صحت و ضعف پر ائمہ کرام کے اقوال پیش کیے گئے ہیں اور نقلی و عقلی دلائل سے حدیث مذکورہ کا تحقیقی تجزیہ کیا گیا ہے۔ حدیث لولاک کا معنیٰ و مفہوم درج ذیل ہے:
معنی و مفہوم حدیث لولاک:
حدیث لولاک سے مراد وہ احادیث قدسیہ ہیں جن میں آپﷺ کو کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ بالفاظ دیگرکہ اگر آپ ﷺکی ذات نہ ہوتی تو اس کائنات یعنی عالمِ رنگ و بوکا ظہورہرگز نہ ہوتا۔ تحت الثریٰ سے عرش العُلیٰ، جنت دوزخ،حور و غلماں اورشورِ این و آں آپﷺکے ظہورکی وجہ سے ظاہر و باہر ہے۔ آپ اصل کائنات، مبداءآثاراور وجہ تخلیق کائنات ہیں بقول احمد رضا خان:
زمین و زماں تمھارے لیے، مکین و مکاں تمھارے لیے
چنین و چناں تمھارے لیے، بنے دو جہاں تمھارے لیے
حدیث لولاک مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے جس میں آپ ﷺ کو وجہ تخلیق افلاک، وجہ تخلیق کائنات، وجہ تخلیق جنت، وجہ تخلیق دنیا، وجہ اظہارِ ربوبیت قرار دیا گیا ہے جس کی تفصیل آگے پیش کی جائے گی ذیل میں حدیث لولاک کے الفاظ نقل کیے جا رہے ہیں:
لو لاک لما خلقت الافلاک1
لولاک لما اظھرت الربویۃ2
یہ حدیث متعددالفاظ سے مروی ہے ۔مثلاً
لولاک ما خلقت الجنۃ
لولاک ما خلقت نار
لولاک ما خلقت الدنیا3
حدیث لولاک کے قائلین کے دلائل:
حدیث لولاک میں وارد الفاظ کی وجہ سے ائمہ کرام کے دو طبقات شمار کیے جاتے ہیں جن میں ایک طبقہ حدیث لولاک کو صحیح قرار دیتا ہے جبکہ دوسرے طبقہ کے بعض ائمہ معنی کے لحاظ سے اس کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ بعض اس کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں۔
حدیث لولاک کے قائلین میں امام حاکم٫ امام بیہقی٫ امام تاج الدین سبکی٫ قاضی عیاض٫ ابن عساکر٫ امام محمود آلوسی٫ امام طبرانی٫ امام ہیثمی٫ ابو نعیم اور دیگر ائمہ حدیث و تفسیر شامل ہیں۔ ان ائمہ کرام نے حدیث لولاک کو اپنی کتب میں درج کیا اور اس کومعنی کے لحاظ سے صحیح قرار دیا ہے۔
حدیثِ لولاک ذخیرہ احادیث میں اپنے مختلف الفاظ اور معنی و مفہوم سے وارد ہوئی ہے مثلا حضرت آدم علیہ السلام کے حضرت محمد ﷺ کے وسیلہ سے اللہ تعالی کے حضور دعا کرنا٫ حضرت عیسی علیہ السلام کو رسول ﷺ پر ایمان لانے اور امت کو ایمان لانے کی تاکید اور حدیث نور محمدی ﷺ کی سب سے پہلے تخلیق وغیرہ شامل ہیں۔
حدیث وسیلہ:
یعنی وہ حدیث جس میں حضرت آدم علیہ السلام آپﷺ کی ذات بابرکات کے ذریعےبارگاہِ الٰہی میں معافی کے خواستگارہوئے۔ جس وقت حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہادی خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں جناب رسالت مآبﷺ کا وسیلہ پیش کیا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔
"اگر نام محمد را نیاوردے شفیع آدم
نہ آدم یافتے توبہ، نہ نوح از غرق نجینا"
اس واقعہ کو الفاظ حدیث میں ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے:
"قال آدم رب انی اسئلک بحب محمد لما غفرت لی ۔ فقال اللہ تعالی : کیف عرفت محمد. قال آدم: لانک لما خلقتنی بیدک ونفخت فیھا من روحک رفعت راسی فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ فعلمت انک لم تصنف الی اسمک الا احب الخلق الیک۔ فقال اللہ تعالی: صدقت یاآدم ولو لا محمد ما خلقتک4
آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے فرمایا یا رب تومحمدﷺ کے وسیلہ سے مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالی نے فرمایا:تو نے محمدﷺ کو کیسے جانا؟ آدم علیہ السلام نے فرمایا اے میرے رب جب تو نے مجھے پیدا فرمایا اپنے دست قدرت سے اور مجھ میں خاص اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنے سر کو اوپر اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" لکھا دیکھا تو میں نے جان لیا کہ تو اپنے نام کے ساتھ اسی کے نام کو ملائے گا جو تجھےمخلوق میں سب سے پیارا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: تونے سچ کہا اے آدم،اور اگرمحمد (ﷺ)کو پیدا کرنا نہ ہوتاتومیں تم کو پیدا نہ کرتا"۔
اسی روایت کو امام حاکم نےاپنی مشہور کتاب المستدرک علی الصحیحین میں درج کیا اور صحیح قرار دیا۔ محدث و فقیہہ امام ابن امیر الحاج نے حلبہ میں اور امام تاج الدین سبکی نے شفاءالسقام میں اس روایت کو صحیح قرار دیا۔اس حدیث کو بیہقیؒ(ت 458ھ)5 طبرانیؒ (ت 360ھ)6 اور امام ابن جوزیؒ (597ھ) نے حضرت عمرؓ سےروایت کیا ہے اور حضرت امام ابن جوزیؒ نے حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مذکورہ مضمون سے متعلق حدیث روایت کی ہے ۔7حاکم نیشا پوریؒ (م405ھ) نے بھی نقل کیا ہے۔8حاکم نے زیر نظر حدیث کے مقارب روایت کیاجس میں ذکر ہے کہ اگر محمدﷺ نہ ہوتےتو میں جنت کوپیدا فرمات اور نہ جہنم(نار) کو پیدا فرماتا۔"
"امام سیوطیؒ (11ھ) نے امام حاکمؒ، بیہقیؒ،طبرانی٫ابونعیم اورابن عساکرکے واسطے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے ۔"9
"ملا علی قاری (1014ھ) نے کئی روایات کو نقل کیا جس میں ہے کہ اگر رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتےتو میں جنت کو پیدا کرتا نہ نار کو پیدا کرتا۔"10
امام بہیقی اور امام طبرانی کی دوسری روایت میں درج ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں طرح عرض کی کہ یا رب میں نے جنت میں ہر جگہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ لکھا دیکھا تو میں نے جان لیا کہ کائنات میں تیرے نزدیک سب سے زیادہ مکرم و محترم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔اس روایت کوامام حاکم نے مستدرک میں درج کیا اور صحیح قرار دیا۔ اسی طرح تاج الدین سبکی اور امام سراج الدین بلقینی نے بھی مذکرہ روایت کو صحیح قرار دیا۔ امام ابن حجر ہیثمی نے افضل القری میں اسے صحیح قرار دیا۔ علامہ آلوسی (١٢٧٠ھ) نے تفسیر روح المعانی میں حقیقت محمدیہ ﷺ کے بیان میں اس حدیث کو درج کیا۔ پھر اسی روایت کو سورۃ الفتح کی پہلی آیت میں (انا فتحنا لک فتحا مبینا) میں لفظ لککی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ان لام(لَکَ) للتعلیل و حاصلہ اظھرنا العالم لاجلک وھوفی معنی ما یرونہ من قولہ سبحانک(لولاک ما خلقت الافلاک)11
بے شک لک میں لام تعلیل (علت) کے لیے وارد ہوا ہےجس کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے تمام عالم کو آپ کی وجہ سے یا آپ کے لیےظاہر کیا ہےاور یہ معنیٰ خود اللہ کے ارشاد گرامی میں بیان ہوا ہے کہ (اے محبوبﷺ اگر آپ نہ ہوتے تو میں اس کائنات کو پیدا نہ فرماتا) "
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین کرام اور دیگر ائمہ نے اس روایت پر اعتماد کیا۔ الفاظ روایات میں فرق ہو سکتا ہے مگر معناَ یہ روایت بالکل درست ہے۔
اعتراض اور اس کا رد:
حدیث لولاک پر ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ حدیث قرآن کے معارض ہے کیوں کہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نےاللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ چند کلمات سے اپنی غلطی پر توبہ کی اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ کو قبول فرما لیا۔ ارشاد باری تعالی ہے
"فَتَلَقَّىٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ اِنَّهٝ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ12
پھر سیکھ لیں آدم نے اپنے رب سے چند باتیں پھر متوجہ ہوگیا اللہ اس پر بیشک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان"
حدیث مبارکہ کے متعلق یہ اعتراض کہ یہ قرآن مجید کے خلاف ہے٫بالکل بے دلیل ہے۔ فہم قرآن مجید کے لیے رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ ﷺ کےفرامین قرآن مجید کے خلاف نہیں ہو سکتے بلکہ قرآن مجید کی تشریح و توضیح کرتے ہیں۔ آیت مذکورہ کے مطابق یہ درست ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چند کلمات عطا کیے جن کے ذریعے حضرت آدم علی السلام نے اللہ تعالی کے حضورتوبہ کی اور ان کی توبہ حق تعالی کی بارگاہ میں قبول ہوئی۔حضرت آدم علیہ السلام کو کلمات کا عطا ہونا اللہ تعالی کی نعمت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کوان کے کسی عمل کے بدلے میں عطا ہوئی۔ اس عمل کی صراحت تفصیلا قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئی البتہ حدیث یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے گریہ زاری اورتوبہ واستغفار کے ساتھ رسولﷺ کا وسیلہ دیا تو اللہ تعالی نے ان کو چند کلمات عطا کیے جن کے ذریے حضرت آدم علیہ السلام نے دعا کی اور اللہ نے ان کی توبہ کو قبول فرما لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث قرآن حکیم کے خلاف نہیں۔13
حضرت عیسی علیہ السلام کو رسول ﷺپر ایمان لانے کی تاکید:
حدیث لولاک کی مثل حدیث امام حاکم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے المستدرک علی الصحیحین میں درج کی جس کے مفہوم سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام انبیاء اور انسانوں پر فضیلت دے کر حضرت عیسی علیہ السلام کو آپ ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی امت میں سے جو رسول ﷺ کو پائے اس کو رسول اللہﷺ پرایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
"قال اوحی اللہ الی عیسی : یا عیسی! آمن بمحمد وامرمن ادرکتہ من امتک ان یومنوابہ۔ فلو لا محمد ما خلقت آدم ولو لا محمد ما خلقت الجنۃ ولا النار۔14
اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی کی: یا عیسی محمد ﷺ پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو حکم دو کہ آپ کی امت میں سے جو محمدﷺ کو پائے ان پر ایمان لے آئے۔ اگر محمد ﷺ کو پیدا نہ کرناہوتا تو میں آدم علیہ السلام کی تخلیق نہ فرماتا اور محمد ﷺ کو پیدا نا کرنا ہوتا تو میں جنت اور آگ کو پیدا نہ فرماتا۔"
امام حاکم ابو عبداللہ اس حدیث کو درج کرتےہیں اور لکھتے ہیں "ھذا الحدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ" امام ذھبی اس کے راوی سعید پر اس کو موضوع قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں "اظنہ موضوعا علی سعید" لیکن وہ اپنے اس دعوی پر کوئی خیال پیش نہیں کرتے اور صرف ظن کی بنا پر موضوع قرار دیتے ہیں۔
حافظ تقی الدین سبکی نے اپنی کتاب "شفاء السقام" میں امام حاکم کی تائید کی اور شیخ سراج الدین بلقینی اپنے فتاوی میں امام حاکم ابو عبداللہ کی تائید میں اس کی تصحیح فرماتے ہیں کہ "ومثلہ لایقال رایاَ فحکمہ الرفع" اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی کے اس میثاق کا ذکر ہے جو انبیاء علیہ السلام سے لیا گیا کہ تمہارے پاس نبی آئے اور تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرے تو اس پر ایمان لے آؤ اور اسکی مدد و حمایت کرو۔ اس آیت کی تفسیر میں اقوال صحابہ کے مطابق یہ عہد رسول ﷺ کے لیے لیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
"وَاِذْ اَخَذَ اللّـٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتَابٍ وَّحِكْمَةٍ ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٝ ۚ قَالَ ءَاَقْرَرْتُـمْ وَاَخَذْتُـمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِىْ ۖ قَالُوْا اَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشَّاهِدِيْنَ15
اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم سےپھر آئے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتادے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اور اس کی مدد کرو گے فرمایا کہ کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا بولے ہم نے اقرار کیا فرمایا تو اب گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔"
قرآن مجید میں اللہ تعالی کی طرف سے کیے گئے تین عہد ذکر کیے گئے ہیں جس میں سے ایک عہد الست جو تمام انسانوں سے اللہ تعالی کی ربوبیت عامہ اور ہستی پر اعتقاد رکھنے کا لیا گیا۔دوسرا عہد اہل کتاب سے لیا گیا جس میں انہیں حق کو نہ چھپانے کی تلقین کی گئی جبکہ تیسرا عہد وہ ہے جو انبیاء کرام علیھم السلام سے لیا گیا۔
"خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد ﷺشمع محفل بود شب جائے کہ من بودم"
میثاق کے معنی و مفہوم کی وضاحت تو قرآن نے بیان کر دی ہے مگر اس سے کون سا عہد یا کس چیز سے متعلق عہد لیا گیا ہے اس بابت مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں اس کی بحث موجود ہے جس کے مطابق مختلف اصحابِ رسولﷺ مختلف الآراء ہیں جو کہ درج ذیل ہے:
"حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد رسول ﷺ ہیں٫یعنی اللہ تعالی نے یہ عہد تمام انبیاء سے حضرت محمد ﷺ کے بارے میں لیا تھا کہ اگر انبیاء خود محمد ﷺ کا زمانہ پائیں تو ان کی رسالت پر ایمان لے آئیں اور ان کی تصدیق و تائید کرنے کے ساتھ دین کے لیے نصرت کریں اوراپنی اپنی امتوں کو بھی یہی ہدایت کر جائیں۔
حضرت طاؤس٫حسن بصری اور قتادہ رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ میثاق انبیاء سے آپس میں ایک دوسرے کی تائیدو نصرت کرنے کے لیے لیا گیا تھا۔
درحقیقت مذکورہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لئے دونوں ہی مراد لی جاسکتی ہیں۔"16
یہاں یہ شبہ موجود ہےکہ باوجود اللہ کے علیم و خبیر ہونے کے جسے یہ معلوم ہے کہ حضورﷺ کسی نبی یا پیغمبر کے عہد یا موجودگی میں تشریف نہیں لائیں گے پھر انبیاء کا ایمان لانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ ظاہر ہے کہ جو انبیاء حضورﷺ کی ذات گرامی پر ایمان لانے کا پختہ ارادہ کریں گے تو اُسی وقت سے ثواب پائیں گے۔
جیسے امت محمدیﷺ کے لیے ایک رعایت یہ بھی ہے کہ نیک عمل کی صرف نیت سے ہی ثواب مل جاتا ہے نیۃ المومن خیر من عملہ۔ اسی طرح اگر انبیاء نےنبی آخر الزماں ﷺ کی موجودگی میں نہیں آنا لیکن پختہ یقین اور ارادہ اطاعتِ حکم خداوندی کے زمرہ میں آتا ہے۔
سند کی تحقیق:
ائمہ کرام نے حدیث کی سند کی تحقیق کی اور اس پر طعن کرنے پر دلائل سے بحث کی۔ راوی کے ضعف کو کمزور قرار دے کر حدیث کو قابل اعتبار قرار دیا۔تقی الدین سبکی شافعی نے حدیث وسیلہ حاکم کی سند یوں پیش کی ہے :
"قال ثنا ابو سعید محمد بن اسحاق بن ابراہیم الحنظلی ثناابو الحارث عبد اللہ بن مسلم الفھری ثنا اسماعیل بن مسلمۃانا عبد الرحمٰن بن زید ابن اسلم عن ابیہ عن جدہ عن عمربن الخطاب قال قال رسول اللہ ﷺ"17
تقی الدین سبکی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا قول ہےکہ یہ حدیث بے اصل ہے ۔اور صحیح سندکے ساتھ منقول نہیں ہے ۔ ان کا دعویٰ اپنا خیال اور وہم ہے ۔عبد اللہ بن زید بن اسلم کے بارے میں طعن کیا جائے کہ وہ ضعیف ہے تو اس کا ضعف اس درجہ کا نہیں ہے کہ حدیث ساقط الاعتبار ہو جائے اور اسے موضوع قرار دیا جائے۔18
امام طبرانی نے اس حدیث کی سند مندرجہ ذیل بیان کی ہے ۔:
"حدیثنامحمد بن داؤدبن اسلم الصمد فی المصری، حدیثنا احمد بن'سعیدالمدنی الفھری، حدثناعبد اللہ بن اسماعیل المدنی عن عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم عن ابیہ عن جدہ عن عمر بن الخطاب قال قال رسول اللہﷺ۔"
حاشیہ میں ہے کہ
" تعقبہ الذھبی نجوۃمن طریق ابی الحارث عبد اللہ بن مسلم الفھری ثنا اسماعیل بن مسلمۃابنا عبد الرحمٰن بن زیدعن ابیہ عن جدہ"19
لو لاک لما خلقت الافلاک20
لولاک لما اظھرت الربویۃ21
قلت و یوید الاخر الحدیث المشہور لولاک لما خلقت الافلاک22
ذھبی نے اس کا تعاقب کیا ۔۔۔۔۔ ابی الحارث عبداللہ بن مسلم الفھری نے بیان کیا اسماعیل بن مسلم ابن عبدالرحمن بن زید سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نےاپنے دادا سے
"اگر آپﷺ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ فرماتا"
اگر آپﷺنہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت کا اظہار نہ فرماتا
میں کہتا ہوں ولولاک لما خلقت الافلاک کی تائید اور مشہور حدیث کرتی ہے۔
یہ حدیث متعددالفاظ سے مروی ہے ۔مثلاً
لولاک ما خلقت الجنۃ
لولاک ما خلقت نار
لولاک ما خلقت الدنیا23
اس امر مذکور کے بارے میں ملا علی قاری کی تصریح ہے کہ " لولاک لما خلقتالافلاک" یہ حدیث حسناً ثابت ہے لیکن لفظ افلاک کے لفظ ساتھ پیش نہیں ہے ۔
حدیث کے موضوع ہونے کی تردید:
مولانا اشرف علی تھانوی نے امداد الفتاوی میں اور علامہ شوکانی اپنی الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ لیکن ملا علی قاری نے موضوعات کبیر میں اس حدیث کی تحقیق کی اور اس کی صحت کو ثابت کیا۔ ملا علی قاری نے فرمایا کہ اگرچہ اس حدیث پر الفاظ حدیث اور سند کی وجہ سے طعن کیا گیا تاہم معنی کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں:
"لولاک لماخلقت الافلاک قال الصفانی انہ موضوع کذافی الخلاصۃ لکن معناہ صحیح فقد روی الدیلمی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ موقوفاً"24
"فقال یا محمدلولاک ما خلقت الجنۃولولاک ما خلقت النار و فی روایۃابن عساکرلولاک ماخلقت الدنیا"25
"لولاک لماخلقتالافلاک" الصفانی نے کہا کہ یہ موضوع حدیث ہےجیسا کہ خلاصہ میں ہے لیکن اس کے معنی صحیح ہیں پس اسے دیلمی نے زیر موضوع ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے موقوف روایت کیا ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ اے محمدﷺ اگر آپ نہ ہوتے تو میں جنت کو تخلیق نہ کرتا اور اگر آپ نہ ہوتے تو میں آگ کو نہ تخلیق کرتا اور ابن عساکر کی ایک روایت میں ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو ظاہر نہ فرماتا۔
حدیث لولاک کا قرآن میں مذکور نہ ہونا:
ائمہ کرام نے حدیث لولاک پر اعتماد نہ کرنے کی وجہ یہ قرار دی کہ اللہ تعالی تخلیق جن و انس کا مقصد عبادت الہی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مقصد ذکر نہیں کیا گیا۔ محمدﷺ کے وجہ تخلیق کائنات ہونے کا قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
اور میں نے جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو"
آیت مذکورہ میں تخلیق انسان و جن کا مقصد بیان کیا گیا کہ جنوں اور انسانوں کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ آیت مذکورہ میں کائنات کی تخلیق کا مقصد نہیں بیان کیا گیا جبکہ حدیث لولاک میں کائنات کے رسولﷺ کے لیے تخلیق کیے جانے کو بیان کیا گیا ہے لہذا آیت اور حدیث دونوں منفرد موضوعات کی وضاحت کرتی ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں انسان کے مقام و مرتبہ کے متعلق بیان ہوا کہ بنی آدم کو اللہ تعالی نے عزت بخشی اور انسان کے لیے زمین کی ہر شے کو مسخر کر دیا۔ارشاد باری تعالی ہے:
"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ اٰدَمَ وَحَـمَلْنَاهُـمْ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُـمْ مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُـمْ عَلٰى كَثِيْـرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا26
اور ہم نے عزت دی اولاد آدم کواوران کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور بڑھا دیا ان کو بہتوں سے جن کو پیدا کیا ہم نے بڑائی دے کر۔"
آیت مذکورہ میں اولاد آدم کی دیگر مخلوقات پر فضیلت کو بیان کیا گیا اور انسانوں میں سب سے افضلانبیاء ہیں اور تمام انبیاء کرام میں سے رسول کو افضل قرار دیا گیا۔ آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ اللہ تعالی نے بنی آدم علیہ السلام کی عزت و تکریم فرمائی اور زمین وآسمان کی چیزوں کو مسخر کردیا۔اسی طرح انسان پراللہ تعالی کی اس عام نعمت کا ذکر اللہ تعالی نےاس طرح فرمایا:
"هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ"27
یعنی اللہ تعالی نے انسان کے لیے تمام چیزوں کو مسخر کر دیا۔ رسول ﷺ جو انسانوں اور نبیوں میں سب سے بہتر ہیں ان کے لیے کائنات کی تخلیق ہونا ماورائے عقل بات نہیں ہے۔ رسول ﷺ وہ ہستی ہیں جن کی مجلس کے آداب قرآن مجید میں بیان کیے گئے اور جن کی آواز سے بلند آواز کرنے پر اعمال لا شعوری طور پر ضائع ہونے کا بیان ہوا اور رسول ﷺ کی اطاعت کو اللہ تعالی نے اپنی اطاعت قرار دیا۔ اس محبوب ہستی کے لیے کائنات تخلیق کیا جاناایک عقلی دلیل ہے.
ماخلق اللہ نوری"حدیث کی مانند مشہور حدیث:
حدیث "اول ما خلق اللہ نوری" وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نےسب سے پہلے میرے نور کو تخلیق فرمایا۔ عبد الحی لکھنوی حدیث لولاک" کو حدیث "اول ما خلق اللہ نوری" کی مثل قرار دیتے ہیں کہ جس طرح وہ حدیث عوام و خواص میں معنی کے لحاظ سے مشہور ہوگئی ہے اسی طرح یہ حدیث بھی لفظاَ ثابت نہ ہو کر بھی معناَ واعظین اور دیگر میں مشہورہو گئی ہے۔عبد الحئ لکھنوی لکھتے ہیں :
" قلت نظیر اول ما خلق اللہ نوری فی عدم ثبوتہ لفظاًو ورودہ معنی اشتھر علی لسان القصاص، والعوام و الخصوص من حدیث لولاک مالا خلقت الافلاک"28
میں کہتا ہوں اول ما خلق اللہ نوری جو لفظاَ عدم ثبوت کے ساتھ جس طرح معناًثابت ہے اور لفظاً ثابت نہیں اس طرح وہ حدیث ہے جو واعظین اور عوام و خواص کی زبان پر مشہور ہے۔ یعنی "لولاک ما خلقت ا لافلاک"29
رسول ﷺ کی تخلیق کے باب میں ائمہ عقائد کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ ﷺ کی نور کی (تخلیق کے اعتبار سے پوری کائنات پر) حقیقی اولیت ہر قسم کے شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر ہے۔
لولاک لما خلقت الافلاک کو اپنے مکتوبات میں جگہ دینے والے مجدد الف ثانی(ت 1034ھ) بھی ہیں جن کی علمی اور روحانی شخصیت مسلم ہے ۔30
شیخ الہند محمود الحسن کے والد گرامی ذوالفقار علی دیوبندی لکھتے ہیں:
"پورے ذخیرہ حدیث میں سند یا بے سند موجودہ مذکور ہی نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ موضاعات اور احادیث مشہورکی تحقیق میں لکھی ہوئی کتابوں میں موضوع اور مشہور کی حیثیت سے بھی حدیث کی کتابوں میں اس کا نام و نشان نہیں ہے ۔ تاہم اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں حضرت مجدد الف ثانی اور ذوالفقار علی دیو بندی منفرد نظر آتے ہیں ۔"31
شیخ الہند کا نظریہ کہ یہ حدیث کتب حدیث میں درج نہیں٫ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم امام طبرانی٫ علامہ آلوسی٫ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی٫ ملا علی قاری وغیرہ نے کتب میں درج کیا ہے۔اس پر تحقیق و تبصرہ کیا اور معنیَ کے لحاظ سےاس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
خلاصہ بحث
قرآن و حدیث کی تشریحات و توضیحات کا تمام ذخیرہ چھانننے سےاول تا آخر ایک ہی معزز ہستی٫ایک ہی محبوب ذات اور ایک ہی شخصیت ایسی دکھائی دیتی ہے جو اس پوری بزم کون و مکان میں محبوبیت عظمی کے مقام پر فائز ہے۔ اور وہ آقائے دو جہاں ٫رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ تمام خلق میں کوئی آپ ﷺ سے بڑھ کر کیسے ہو سکتا ہے جب خالق ارض و سماء نے اس عالم کا نظام ہی آپﷺ کے لیے بنایا۔ حدیث لولاک کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ "افلاک "کا لفظ سندا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے با الفاظ ِ دیگر ذخیرہ احادیث میں حدیثِ لولاک افلاک کے لفظ کے ساتھ وارد نہیں ہوئی ہے مگر سیرت ، وظائف وعظ کی کتب میں "سماء " کی صراحت بیان کی گئی ہے ۔ جس سے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی جاتی ہےکہ "افلاک " فلک کی جمع ہے ۔جس کا معنی آسمان ہے اور سماء کا لفظ موجود ہے ۔ تو یہ حدیث" لولاک ما خلقت الافلاک" روایت با معنی ہے تو سماء کے معنی "افلاک" کی روایت قطعاًجائز قرار پاتی ہے۔
ائمہ کاملین اور محدث و مفسرین نے تخلیق محمد ﷺ کے حوالے سے مروی احادیث کو قبول کر کے اپنی گراں قدر تصانیف میں جگہ دی اوران کی تشریح و توضیح کر کے یہ ثابت کیا کہ آپ ﷺ نہ صرف تمام کائنات میں افضل و برتر ہیں بلکہ آپ ﷺ وجہ تخلیق کائنات بھی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حدیث ِ لولاک اپنی روایت کےالفاظ اور بعض راویوں کی وجہ سے ضعیف کے زمرہ میں بھی گردانی گئی ہے۔ جیسے حدیث وسیلہ ، حدیثِ لولاک جس میں"افلاک" کا لفظ آیا ہے وہ محدثین کے ہاں معنوی اعتبار سے درست ہے۔ مگر لفظی اعتبار سے ذخیرہ حدیث تہی دامن ہے ۔ حدیثِ لولاک جس میں " اظہھرت الربویہ" کے الفاظ میں کسی محدث کی تحقیق داخل نہیں ہے اورصرف تصوف اور ادب کی کتابوں میں بغیر سند ذکر ملتا ہے۔ البتہ معنوی اعتبار سے ائمہ کی کثیر تعداد نےاُسےصحیح قرار دیا ہے واللہ اعلم باالصواب۔
Lecturer, Government Graduate College for Woman, Dubai Mahal Road, Bahawalpur.
1 Zulfiqār Deobandī, ‘Atr al-worūd Sharaḥ Qasīdah Burdah (S.M.N), 22, 85.
2 Zakriyā Kāndhlvī, FaḌā’il a‘māl (S.M.N), 132.
3Ghulām Rasūl Sa‘īdī, Maqālāt Sa‘īdī (Lahore: Farīd Book Stall, 2005 A.D), 113.
4 Imām Hākim, abū ‘Abdullah, Al-Mustadrak ‘Alā al- Ṣaḥiḥain (Beirūt: dār al-fikr), Kitāb Al-Tārikh al-Mutaqadimīn Min al-Anbiyā’ wa al-Mursalīn, Ḥadīth No: 4194.
5 Abū Bakr Aḥmad Bin ḥasan Beihaqī, Dalā’il al-Nabuwwat (Beirūt: Dār al-kutub al-‘ilmiyah, S.N), 5:459.
6 Abū al-Qāsim Suleimān bin Aḥmad Tabrānī, Al-Mu‘ajam al-Saghīr (Beirūt: Dār al-kutub al-‘ilmiyah, S.N), 680.
7 ‘Abd al-Raḥmān Ibn al-Jawzī, Alwafā bi Aḥwāl al-Mustafā (Faisalabad: Maktabah Nūriyah RiḌwiyah, S.N), 33.
8 Abū ‘Abdullah Muḥammad bin ‘Abdullah al-ḥākim Nishā purī, Al-Mustadrak (Beirūt: Dār al-kutub al-‘arbī, 1402 A.H), 2:615.
9 Jalāl al-Dīn Sayūtī, Khasā’is al-Kubrā, 1:6.
10 ‘Alī bin Sultān bin Muḥammad Mullā ‘Ali Qārī, MawḌū‘āt al-Kabīr (Karāchī: Qadīmī Kutub Khānah, S.N), 59.
11 Shahab al-Dīn Meḥmūd Ālūsī Rūḥ al-Ma‘ānī Fi al-Tafsīr al-Qur’ān al, A‘ẓīm wa sab‘a al- Mathānī (Beirūt: Dār al-Kutub al- ‘Arabiyah, S.N), Tafsīr Surah al-Fatḥ, Āyat No: 1ṣ.
12 Al-Baqarah, 2:37.
13 Shaḥ ‘Abdul ‘Azīz Muḥadith Dehlvī, Fatḥ ul ‘Azīz (Bombay: Matba‘ Haidrī, 1294 A.H), 1: 183.
14 Abū ‘Abdullah Muḥammad bin ‘Abdullah al Ḥakim al-Neshāpūrī, Al Mustadraḳ ‘Ālā al-Ṣaḥīḥain (Beirūt: Maktbah Nazār Muṣṭafa al-Bāz), 6:1583, Ḥ adith No: 6227.ṣ
15 Āl e Imrān, 3:81.
16 Abu al Fidā Ismā‘īl bin kathīr, Tafsīr al-Qur’ān al- ‘AẓĪm, Researcher:Ḥāfiẓ Zubar ‘Alī ( Lahore: Maktabah Islāmiyah), Vol: 1, Tafsīr Āl e Imrān 81.
17 Taqī al-Dīn Subkī, Shifā’ al-Saqām (Lahore: Nūriyah RiḌviyah, 2013 A.D), 161.
18 Taqī al-Dīn Subkī, Shifā’ al-Saqām, 162,163.
19 Abū al-Qāsim Suleimān bin Aḥmad Tabrānī, Al-Mu‘ajam al-Saghīr, 680.
20 Zulfiqār Deobandī, ‘Atr al-worūd Sharaḥ Qasīdah Burdah (S.M.N), 22,85.
21 Zakriyā Kāndhlvī, FaḌā’il a‘māl (S.M.N), 132.
22 Abū al-Faḍl Shahāb al-Dīn ālūsī, Rūḥ al-Ma‘ānī (Beirūt: Aḥyā’ al-Turāth al-‘arabī, S.N), 1:51.
23Ghulām Rasūl Sa‘īdī, Maqālāt Sa‘īdī (Lahore: Farīd Book Stall, 2005 A.D), 113.
24 Nūr ud-din ‘Alī bin Sulṭān al Ma‘rūf mulla ‘Alī Qārī, Al-Asrār al marfū‘a fī al Akhbār al mawzū‘ah al Ma‘rūf Mawḍū‘āt al-Kabīr, Researcher: Abū Hājir Muḥammad al- Saīd, 59.
25 Nūr ud-din ‘Alī bin Sulṭān al Ma‘rūf mulla ‘Alī Qārī, Al-Asrār al marfū‘a fī al Akhbār al mawzū‘ah al Ma‘rūf Mawḍū‘āt al-Kabīr, Researcher: Abū Hājir Muḥammad al- Saīd, 454.
26 Al-Asrā’, 17:70.
27Al-Baqarah, 2:29.
28 ‘Abd al-ḥae bin ‘Abd al-ḥalīm, Al-āthār al-ma‘rifah (Karachi: Rasā’il Saba‘ S.N), 23.
29 Ghulām Rasūl Sa‘īdī, Maqālāt Sa‘īdī, 114.
30 Sheikh Aḥmad Sarhindī, Maktūbāt, Daftar 3, Maktūb No. 122.
31 Sheikh Aḥmad Sarhindī, Maktūbāt, Daftar 3, Maktūb No. 122.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |