3
1
2022
1682060063651_3208
38-58
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/47/47
قرآن کریم میں مذکور اسماءالنبیﷺکی تفہیم اور مطالعہ سیرت میں ان کی اہمیت )50(
قرآن کریم میں مذکور اسماءالنبیﷺکی تفہیم اور مطالعہ سیرت میں ان کی اہمیت
Understanding the Names of the Prophet ﷺ mentioned in the Holy Quran and their importance in the study of biography
Muhammad Muzamil Hussain
Shams ul Arfin Waraich
In the Qur'an, Allah mentioned His Beloved ﷺ in addition to his personal names, but also with different attribute names which, apart from his greatness and dignity, highlight different aspects of the life of the Prophet ﷺ. Along with increasing the love of the Prophetﷺ, these names cover various aspects of the Prophet's life, from which many jurisprudential issues can be derived in addition to his dawah life, private and political affairs. Therefore, your names are scattered in the Holy Quran like pearls, which the people of love wrap around their necks and live in the love of the Prophet ﷺ. In the article under review titled "Understanding the Names of the Holy Prophet ﷺ in the Quran and their Importance in Studying the Prophet’s Sirah" the personal and attribute names of the Holy Prophet ﷺ will be explained in the light of different interpretations and hadiths which will not only make it possible to understand the blessed name but will also shed light on various aspects of Seerat e Tayyaba ﷺ.
Key words: Names of the Prophet ﷺ, Prophet's biography, personal names, attribute names, study of the Qur'an.
تعارف:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نبی آخر الزماںﷺ کو ذاتی ناموں کے علاوہ مختلف صفاتی اسماء سے بھی یاد فرمایا جو آپ کی عظمت و رفعت کے علاوہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں یہ اسماء محبت رسول میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں جس سے آپ کی دعوتی زندگی،خانگی و سیاسی امور کے علاوہ کئی فقہی مسائل بھی اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ قرآن مجید میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کےذاتی اسماء کے علاوہ مختلف مقامات پر صفاتی اسماء بھی ذکرکئے گئے ہیں۔ اور ہر مقام پر اس کا انداز مختلف ہے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر اللہ سبحانہ اپنے پیارے حبیب کو محبت بھرے القابات وصفات سے یاد فرما رہےہیں۔جب اللہ تعالی نے دیکھا کے اس کا محبوب چادر اوڑھے ہوئے ہیں تو فرمایا :" یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ"0"یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ"0اے چادر اوڑھے ہوئے،جب اپنے پیارے حبیب کے وصف رسالت کو بیان کرنا چاہا تو"اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا" 0فرمایا کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں،جب اس بات کو بیان کرنا چاہا کہ اس کے رسول کی بصارت کیسی ہے تو فرمایا:" مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى"0ان کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ،اپنے بندوں کو اپنے پیارے حبیب کریم کے آداب سکھانے چاہے تو فرمایا :" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ"0اے ایمان والو تم اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کیا کرو،آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف عبدیت اور شکور کو ذکر کرنا چاہا تو فرمایا: "بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ"0 بلکہ اللہ کی بندگی کرو اور شکر گزاروں میں سے ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کو ذکر کرنا مقصود ہوا تو فرمایا : " وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ" 0
بے شک آپ عظیم الشان خلق والے ہیں اور اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری عمر کو قسم اٹھا کر ان الفاظ کے ساتھ بیان کر دیا: " اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ"0 (اے حبیب) آپ کی عمر مبارک کی قسم یہ لوگ اپنی بد قسمتی میں سرگرداں ہیں۔
الغرض آپ کے وصفی اسماء قرآن مجید میں موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں جنہیں اہل محبت سمیٹ کر اپنے گلے کی مالا بنا کر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زندگی گزارتے ہیں۔۔ زیرنظرمقالہ بعنوان "قرآن کریم میں وارد اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفہیم اور مطالعہ سیرت میں ان کی اہمیت" میں آنحضور, کے اسمائے ذاتی و صفاتی کی مختلف تفاسیر و احادیث کی روشنی میں وضاحت کی جائے گی جس سے نہ صرف تفہیمِ اسمائے مبارکہ کا حصول ممکن ہو گا بلکہ سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں پر بھی روشنی پڑے گی۔
اسم وہ کلمہ ہے جو مستقل معنی پر دلالت کرے یعنی اپنا معنی بتانے میں کسی اور کلمہ کا محتاج نہ ہو، یہ کسی جگہ، شخص، حیوان یا کسی چیز کی پہچان کے لئے وضع کیا جاتا ہے۔اسم کا لغوی معنی بیان کرتے ہوئے مولانا وحید الزمان قاسمی القاموس الجدیدمیں یوں رقمطراز ہیں:
"اسم : ج اسماء (نام ) شہرت ، عنوان ، ٹائٹل"0
اسم کی تعریف میں مولا نا عبدالحفیط صاحب فرماتے ہیں:
"الا سم والا سم" وہ لفظ جو کسی جو ہر یا عرض کی تعین کیلئے وضع کیاگیا ہو جمع اسماء مادہ س۔م ۔و" 0
صاحب فیروز اللغات اسم کا معنی یوں بیان کرتے ہیں :
"نام ،وہ کلمہ جس سے کسی شخص ، جانور ،جگہ یاچیز کو پہچانا جائے جمع اسماء ۔" 0
المنجد میں اسم کی تشریح یوں کی گئی ہے :
"اسم: نام ،وہ لفظ جو کسی جو ہر یا عرض کی تعین کیلئے بنایا گیا ہو۔" 0
"الاسم مایعرف بہ الشئ ویستدل بہ علیہ الاسم" 0
"اسم اسے کہتے ہیں جس سے کسی چیز کی معرفت حاصل ہو اور اس کے سبب اس چیز پر دلالت ہو ۔"
شرح ملاجامی میں اسم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
"الاسم (عندالنحاۃ)مادل علیٰ معنی فی نفسہ غیر مقترن باحد الازمنہ الثلاثہ" 0
"نحویوں کے ہاں اسم یہ ہے جو اپنے مستقل معنیٰ پر دلالت کر ے اور تین زمانوں میں کوئی زمانہ اسکے ساتھ ملا ہوا نہ ہو۔"
قرآن مجید میں وارداسماء النبی ﷺ
قرآن مجید میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے القاب و اسماء کی تعداد میں کوئی متفقہ قول ذکر نہیں کیا گیاچنانچہ بعض علماء کرام نے اللہ تعالیٰ کے ناموں کی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بھی ننانوے نام ذکر کئے ہیں اور اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان تمام ناموں کو شمار کیا جائے جو قرآن و حدیث اور اگلی کتابوں میں مذکور ہیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناموں کی گنتی تین سو تک پہنچتی ہے اور بعض صوفیاء کرام کا کہنا ہےکہ اﷲ تعالیٰ کے بھی ایک ہزار نام ہیں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناموں کی تعداد بھی ایک ہزار ہےیہ اللہ تعالی کی اپنے پیارے رسول حضرت محمد ﷺ کے ساتھ محبت کی واضح دلیل ہے ۔آپ ﷺ کے ذاتی اور مشہور اسماء محمد ﷺ احمد ﷺ ذکر کر نے کے بعد آپ ﷺ کے دیگر اسماء جن کا ورودقرآن کریم میں ہوا ہے باعتبار حروف تہجی ذکر کئے جائیں گئے ۔
تعارف قرآنی اسماء النبیﷺ:
1 ۔ الحبیب محمد ﷺ (تعریف کیا ہوا)
"وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ"0 "اور نبی محمد ﷺنہیں ہیں مگر اللہ کے رسول ۔ "
"مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ۔" 0
"محمدتمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ "
"وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ"0 "اور ایمان لائے اس پر جو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ۔"
"مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ"0 "محمد ﷺ تو اللہ کے رسول ہیں ۔"
2 ۔ الحبیب احمد ﷺ(زیادہ حمد کر نے والا )
"وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُه اَحْمَدُ"0
"اور میں خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا ۔"
3 ۔ الحبیب امی ﷺ( مخلوق سے نہ پڑھے ہو ئے )
" اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ"0 "وہ جو پیروی کر یں گئے اس بے پڑھے رسول کی ۔"
4۔ الحبیب امام ﷺ ( پیشوا)
" وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا"0 "ہمیں متقین کا امام ( پیشوا ) بنا ۔ "
5 ۔ ا لحبیب امر ﷺ ( حکم دینے والا )
" وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ" 0 "اور جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو ۔ "
6۔ الحبیب اولیٰﷺ ( زیادہ نزدیک /لائق)
"اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ" 0 "یہ نبی مؤمنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔"
7 ۔ الحبیب بشیر ا ﷺ ( خوش خبری سنانے والا )
"اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا" 0 "بے شک ہم نےآپکو حق کیسا تھ خوشخبری اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔ "
8 ۔ الحبیب برھان ﷺ ( واضح دلیل )
" یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ" 0 "اے لو گو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی ۔ "
9 ۔ الحبیب حکیم ﷺ( حکمت ودانائی والا )
"وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ" 0 "اور آپ لو گوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتےہیں ۔"
10۔ الحبیب حفیظ ﷺ (محافط/نگران )
" وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا" 0 "اور جو (اطاعت) سے منہ پھیر ے تو آپکو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ۔"
11 ۔ الحبیب حجۃﷺ(کامل دلیل)
" قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ" 0 "اے نبی فرمادیئجے اللہ ہی کیلئے ہے پکی دلیل ۔"
12۔ الحبیب حریص باالمؤمنین ﷺ ( مومنین کے بہت زیادہ چاہنے والے)
" حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ" 0 "مؤمنین کے نہایت چا ہنے والے بہت مہربان ۔ "
13۔الحبیب خاتم ﷺ ( سلسلہ نبوت کو ختم کر نے والا )
" مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ" 0
"محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے آخری رسول ہیں ۔ "
14 ۔ الحبیب داعی الی اللہ ﷺ ( توحید کی طرف بلانے والے)
" ودَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِه وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا"0 "اللہ کی طر ف بلا نے والے اس کے حکم سےاور چکمتا ہوا چراغ ۔ "
15 ۔ الحبیب رسول اللہ ﷺ ( اللہ کے رسول )
"قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا"0 "آپ فر دیجئے اے لو گو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہو ں ۔"
16۔ الحبیب رحمۃ للعلمین ﷺ (عالمین کیلئے رحمت )
" وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ" 0 "اے نبی! ہم نے آپکو تم جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ۔ "
17۔ الحبیب رءوف رحیم ﷺ( مہربان /رحم فرمانے والا )
" حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ"0 "مؤمنین کے نہایت چا ہنے والے بہت مہربان ۔"
18 ۔ الحبیب سیدﷺ(سردار)
" وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ" 0 "اور سرداراور ہمشہ کیلئے عورتوں سے بچنے والا اور ہمارے نبی خاصوں میں سے ۔"
19۔ الحبیب سابق ﷺ (سبقت لے جانے والا )
"ومِنْهُمْ سَابِقٌ الْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ" 0 "اور ان میں سے بعض اللہ کے حکم سے نیکوں میں سبقت کر نے والے ۔"
20۔ الحبیب سراجﷺ (آفتاب )
"وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِه وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا "0 "اللہ کی طر ف بلا نے والے اس کے حکم سےاور چکمتا ہوا چراغ ۔"
21 ۔ الحبیب شاھد ﷺ ( گواہی دینا والا)
" یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا"0 "اےنبی!بیشک ہم نے آپ کوگواہ بناکربھیجا۔"
22۔ الحبیب شکو ر ﷺ ( شکرکر نے والا)
" بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ" 0"بلکہ اللہ ہی کی تم عبادت کرو اور ہو جاؤ شکر کرنے والوں میں سے۔"
23 ۔ الحبیب صاحب ﷺ ( دوست/ مددگار)
" مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى"0 "تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔"
24۔ الحبیب طاہر ﷺ( پاک کر نے والا)
" وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا"0 "اور تمیں اچھی طر ح پا ک کر کے خوب پاکیزہ کر دے ۔ "
26۔ الحبیب عادل ﷺ ( انصاف کر نے والا)
" وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ"0 "اور یہ کہ جب تم لو گوں میں فیصلہ کر و تو انصاف کیساتھ فیصلہ کر و ۔"
27 ۔ الحبیب عالم ﷺ ( جاننے والا)
" وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ"0
"اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے ۔ "
28۔ الحبیب عزیز ﷺ(دشوار ، ناگوار)
" لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ"0
"بیشک تمہارے پاس تشریف لائے ہیں وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے ۔"
29۔ الحبیب غنی ﷺ ( غنی/سخاوت کرنے والے )
" وَ وَجَدَكَ عَآىٕلًا فَاَغْنٰى"0 "اور تمہیں حاجت مند پایاپھر غنی کر دیا ۔"
30۔ الحبیب فاتح ﷺ (فتح کر نے والا )
" اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا" 0 "بیشک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح دی ۔"
31۔ الحبیب عبداللہ ﷺ ( اللہ کا بندہ)
"وَّ اَنَّه لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ یَدْعُوْهُ" 0 "اور یہ کہ جب اللہ کا بند ہ اسکی بندگی کر نے کھڑا ہو ا۔"
32 ۔ الحبیب کلیم ﷺ ( کلام کر نے والا )
" مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ" 0
"ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی و ہ جسے سب درجوں میں بلند کیا۔"
33۔ الحبیب مصدق ﷺ ( تصدیق کرنے والا)
" وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ"0
"اور جب انکے پاس تشریف لایا اللہ کے یہاں سے ایک رسول ان کی کتابوں کی تصدیق فرماتا ۔ "
34 ۔ الحبیب مبلغ ﷺ(اللہ کا پیغام بندوں تک پہچانے والا )
" یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ" 0
"اے رسول جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے آپ سب پہنچا دیں ۔ "
35۔ الحبیب مطیع ﷺ( اطاعت گزار)
" مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ"0 "جس نے رسول کی اطاعت کی بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔ "
36۔ الحبیب مؤمن ﷺ ( ایمان والا )
"وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ" 0 "اور مجھے یہ حکم ہوا کہ ایمان والوں میں رہوں ۔"
37۔ الحبیب مبین ﷺ ( ظاہر کرنے والا )
" حَتّٰى جَآءَهُمُ الْحَقُّ وَ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ" 0 "یہاں تک ان کے پاس آگیا حق اور ظاہر کر نے والا رسول ۔"
38۔ الحبیب منیر ا ﷺ ( روشن چمکنے والا )
"وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِه وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا"0 "اللہ کی طر ف بلا نے والے اس کے حکم سےاور چکمتا ہوا چراغ۔"
39۔ الحبیب مزمل ﷺ ( چادر اوڑھنےوالا )
" یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ"0 "اے چادر لپٹینے والے ۔"
40۔ الحبیب مدثرﷺ(چادر اوڑھنے والا )
" یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ" 0 "اے کپڑے میں لپیٹنے والے ۔ "
41۔ الحبیب مذکر ﷺ ( نصیت کر نے والا )
" فَذَكِّرْاِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّرٌ “ 0 تو تم نصیحت سناؤ تم کو نصیحت سنانے والے ہو ۔
قرآن کریم میں اسم محمد ﷺچار جگہ پر ذکر کیا گیا ہے:
" وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّارَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ0 "اورنہیں محمد مگر اللہ کے رسول ان سے پہلے اور رسول ہو چکے۔"
" مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ"0 "محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں۔"
" وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ"0 "اور ایمان لے آئے جو نازل کیا گیا محمد پر۔"
” مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ “0 "محمد اللہ کے رسول ہیں۔"
اسم احمدﷺکا قرآن میں ذکر:
اسم احمدﷺ پورے قرآن کریم میں ایک بار ذکر کیا گیا ہے۔
" وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِن بَعْدِی اسْمُه اَحْمَدُ"0 "اور میں خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہوگا۔ "
علامہ ادریس کاندھلوی التعلیق الصبیح میں اسم محمد کی لغوی وضاحت یوں کرتے ہیں:
"فالمحمد في اللغة وهو الذي يحمد حمدا بعد حمد"0
محمد کا لغت میں معنی ہے وہ ذات جن کی بار بار متواتر تعریف کی جائے اور بار بار تعریف ہوتی رہے۔
اور علامہ ملا علی قاری اسم "محمد"رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہیں:
"محمد اسم مفعول من التحميد مبالغة من الوصفية إلى الاسمية ۔۔۔ بهذا الاسم"0
"محمد"تحمید سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اس کو وصفیت سے اسمیت کی طرف مبالغة نقل کیا گیا ہے بکثرت خصائل محمودہ کی بنا پر آپ کا نام محمد رکھا گیا ہے، یا اس لیے کہ آپ کی بار بار حمد کی جاتی ہے، یا اس لیےکہ اللہ تعالیٰ آپ کی بہت حمد کرے گا،اسی طرح ملائکہ انبیاء اور اولیاء آپ کی حمد کریں گے،یا اس لیے کہ اولین وآخرین آپ کے حمد کریں گے اور قیامت کے دن تمام اولین و آخرین آپ کی حمد کے جھنڈے تلے جمع ہونگے اس لئے اللہ تعالی نے آپ کے گھر والوں کے دل میں یہ الہام کیا کہ آپ کا نام محمد رکھیں۔
مذکورہ عبارات میں اسم محمد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال مطلق ہونے کی دلیل ہے حمد کسی حسن اور کمال پر کی جاتی ہے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام علی الاطلاق محمد ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ علی الاطلاق حسن کمال ہیں اگر آپ میں کسی وجہ یا کسی اعتبار سے کوئی عیب یا نقص ہوتا تو آپ علی الاطلاق محمد نہ ہوتے کیونکہ نقص اور عیب کی مذمت ہوتی ہے حمد نہیں ہوتی۔
یہ بھی کہا گیا ہےکہ محمد،حمد سے ماخوذ ہے اور مفعل کے وزن پر اسم مفعول کا صیغہ ہے۔اس کا معنیٰ ہے بہت زیادہ حمد کیا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اسم کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کی ایسی حمد کی جو کسی اور کی نہیں کی اور آپ کو وہ محامد عطاء کئے ہیں جو کسی اور کو عطاء نہیں کیے،اور قیامت کے دن آپ کو وہ چیزیں الہام کرے گا جو کسی اور کو الہام نہیں کرے گا جس شخص میں خصال محمودہ کامل ہوں اس کو 'محمد' کہا جاتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ باب تکثیر کے لئے ہے یعنی جسکی بہت زیادہ حمد کی جائے وہ محمد ہے۔
احمد اسم تفضیل کا صیغہ ہے جس کا معنیٰ ہے تمام حمد کرنے والوں سے زیادہ اپنے رب کی حمد کرنے والا۔ قیامت کے دن حمد کا جھنڈا آپ ہی کے ہاتھ میں ہوگا ،میدان حشر میں آپ ہی کی حمد مشہور ہوگی اور مقام محمود پر آپ ہی فائز ہوں گے۔ امام محمد مہدی فاسی علیہ الرحمہ احمد کا معنی بیان کرتے ہوئے "مطالع المسرات"میں یوں رقمطراز ہیں۔
"فهو احمد المحمودين واحمد الحامدين معه لواء الحمد يوم القيامه۔۔۔ بصفة الحمد"0
وہ تمام تعریف کیے ہوؤں سے زیادہ تعریف کرنے والے ہیں اور تمام تعریف کرنے والوں سے زیادہ تعریف کرنے والے ہیں ، ان کے ساتھ قیامت کے دن لواء حمد ہوگا تاکہ 'حمد' اپنی کمال کو پہنچ جائے اور آپ اس مقام پر صفت حمد کیساتھ مشہور ہوں گے۔
اسم "احمد" کی اہمیت میں ابو نعیم نے (دلائل النبوہ) میں ایک حدیث نقل کی ہے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک جب موسی علیہ السلام پر تورات اتاری گئی انہوں نے اس کو پڑھا تو تورات میں اس امت کا ذکر پایا تو عرض کیا اے میرے رب! بے شک میں نے الواح (تورات) میں ایک امت کا ذکر پایا ہے وہ پیچھے آنے والی آگے نکلنے والی ہے تو اس امت کو میری امت بنا دے۔اللہ تعالی نے فرمایا وہ احمد کی امت ہے۔"
'احمد' ایسا نام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے کسی شخص کا نام احمد نہیں ہوا اور نہ ہی آپ کی ظاہری زندگی میں کسی کا نام احمد رکھا گیا۔ اور اس بات کا ذکر علامہ جلال الدین سیوطی کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں۔
"تقدم انه لم يسمى احد باحمد قبل النبي صلى الله عليه وسلم منذ ۔۔۔ في حياته" 0
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے جب سے اللہ تعالی نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے کسی نے بھی احمد نام نہیں رکھا اورنہ ہی آپ کی ظاہری زندگی میں کسی کا نام احمد رکھا گیا۔"
رسول اکرمﷺکے بعض اسماء ایسے ہیں جن کا ورود احادیث مبارکہ میں ہواہے جن کا ذکر خود نبی اکرمﷺ نے فرمایا،یہ اسماء آپ کی عظمت و شان اور سیرت طیبہ کےمختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں ان اسماء میں سے بعض درج ذیل ہیں:
ا حادیث میں منقول اسماء النبی ﷺ
سیدنا محمدﷺ (تعریف کیا ہوا) 2 سیدنا احمدﷺ (تعریف کرنے والا)
سیدنا الحاشر ﷺ (جمع کرنے والا) 4 سیدنا الماحیﷺ (مٹانے والا)
5 سیدناالعاقب ﷺ (آخر میں آنے والا)
"عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول الله ﷺ: لی خمست أسماء:انا محمد، وأحمد،۔۔۔ الخ" 0
"حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پانچ نام ہیں میں محمد اور احمد ہوں میں ماحی (یعنی مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالی میرے ذریعے سے کفر کو مٹا دے گا ،میں حاشر ہوں سب لوگ میرے پیروی میں ہی (روز حشر ) جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب (یعنی سب آخر میں آنے والا نبی) ہو۔"
حضورنبی کریم ﷺ کے اسماء میں سے محمد ﷺاور احمد آپ کے ذاتی ناموں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ جس طر ح ایک حدیث میں منقول ہے کہ آسمانوں پر میرا نام احمد اور زمین پر محمد ہے ۔ ماحی اور حاشر کی وضاحت آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے حدیث میں خود فرمادی کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ کی تبلیغ کا عر صہ دیگر انبیاعلیم اسلام کی نسبت بہت قلیل ہے لیکن اس قلیل عر صہ میں عرب سے کفر کو جڑ سے اُکھیڑ دیا خطبہ حجۃ الوادع کے مو قع پر ایک بڑی جماعت تیاری ہو چکی تھی جو نہ صرف خودتوحید پر ست تھے بلکہ علم توحید بلند کیئے ہوئے کفر کے ایوانوں میں لرزہ برپاکر نے کو تیار تھے ۔ یہی وجہ ہے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں کفر کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور سلطنت اسلامیہ کا لشکر عرب سے نکل کر عجم میں داخل ہو چکا تھا ۔حاشر کی وضاحت بھی اس حدیث میں خودہی فرمادی کہ اللہ تعالیٰ بروز قیامت تمام اُمم کو میرے قدموں میں جمع کر دے گااور میری جمیعت میں تمام لو گ اٹھائیں جائیں گئے اور یہ بات آقاعلیہ الصلوۃ والسلام کی عزت وتکریم میں روز قیامت اضافہ کا باعث ہو گی ۔عاقب کا معنی ہے آخر میں آنے والا یعنی آپ ﷺ تما م نبیوں سے آخر میں آنے والے ہیں آپ کے بعد دوسرا کو ئی اور نبی نہیں آسکتا جس طرح نصوص ودیگراحادیث سے ثابت ہے کہ
آپ علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ۔
6 سیدنا المقفی ﷺ (بعد میں آنے والا) 7 سیدنا النبی التوبۃ ﷺ (توبہ کرنے والے)
8 سیدنا النبی الرحمۃ ﷺ (رحمت والے نبی )
"عن ابی موسی الأشعری قال: کان رسول اللہﷺ یسمی لنا نفسه الله أسماء ۔۔۔الخ"0
"حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لیے اپنے کئی اسماءگرامی بیان فرمائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں محمد ہوں،احمد ہوں ، مقفی (یعنی بعد میں آنے والا) ، حاشر (جس کی پیروی میں روز حشر سب لوگ جمع کیے جائیں گے) نبی التوبہ (اللہ تعالی کی طرف ہمہ وقت رجوع کرنے والا) اور نبی الرحمہ (رحمتیں بانٹنے والا نبی) ہوں۔"
مقفی کامعنی ہے بعد میں آنے والا آپ ﷺ دیگر انبیا ء کی بنسبت بعد میں آئے ہیں اس لیے آپ مقفی ہیں اور نبی التوبہ کا معنی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہمشہ رجوع کر نے والے باوجود اسکے کہ جملہ انبیا ءعلیہ السلام معصوم عن الخطا ء ہوتے ہیں پھر بھی ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ استغفارکر تے رہتے ہیں ۔ اور ہمارے نبی ﷺ نبی التو بۃ ہیں کو ئی بھی لمحہ خالی نہیں گیا کہ آپ ﷺ نے اپنے رب کی طرف رجو ع نہ کیا ہو ۔ کسی بھی غم پر یشانی اور اپنی امت کیلئے ہروقت اپنے رب کی طرف رجوع کیا ،نبی الرحمۃ،کامعنی رحمت والے ،آپ علیہ الصلوۃ واسلام سر اپارحمت بنا کر بھیجے گئے (وماارسلنک الارحمۃ للعلمین( ہم نے آپکوتما م جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ۔
9 سیدنا الرؤوف الرحیم ﷺ(مہربانی ورحم کرنے والا)
"عن جبیر بن مطعم عنھما عن ا بیہ ان رسول اللہ ﷺ قال: ان لی اسماہ:انا محمد، ۔۔۔۔الخ"0
"حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میرے کئی اسماہ ہیں: میں محمد ہوں، احمد ہوں، ماحی ہوں کیوں کہ میری وجہ سے اللہ تعالی کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں، لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہو گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب اسے کہتے ہیں کہ جسکے بعد کوئی نبی نہ ہو، اور اللہ تعالی نے آپ ﷺ کا اسم گرامی روف ورحیم رکھا ہے۔"
رؤوف رحیم یعنی انتہائی شفقت و مہربانی فرمانے والے اور یہ الفاظ آپ کے لیے قرآن مجید میں بھی استعمال ہو ئے ہیں کہ آپ مؤمنین کے ساتھ بڑی محبت فرمانے والے اور کمال لطف وکرم فرمانے والے ہیں (حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ) یعنی آپ مومنین کے ساتھ اس بات پر حریص ہیں کو ئی بغیر ایمان کے اس دنیا سے نہ جائے اور کوئی دوزخ میں نہ جائے اور ایمان
والوں کے ساتھ بڑی مہربانی اور رحم والا معاملہ فرمانے والے ہیں ۔
10 سیدنا القاسم ﷺ (تقسیم کرنے والا)
"عن معاویتہ قال: سمعت النبیﷺ یقول: من یرد الله بہ خیر ا یفقھہ فی الدین۔۔۔الخ"0
"حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ آپ ﷺ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، بے شک میں قاسم (یعنی تقسیم کرنے والا) ہوں جبکہ (مجھے) اللہ تعالی عطا فرماتا ہے۔"
قاسم کا مطلب ہے تقسیم کرنے والا اس میں کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں کہ یہ عطاء کر تے ہیں اور یہ عطاء نہیں کر تے ۔ بلکہ اللہ جو کچھ بھی مخلوق کو دیتا ہے اپنے پیارے حبیبﷺ کے ذریعے دیتا ہے اس لئے کہ اللہ عطاء کر نے والا اورآپ ﷺتقسیم کر نے والے ہیں۔
11 سیدنا المبلغﷺ (تبلیغ کرنے والا)
"عن معاویہ بن ابی سفیان أن رسول اللہﷺ قال:انا مبلغ، واللہ یھدی، وانما ۔۔۔الخ "0
"حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بے شک میں ہی مبلغ (اللہ تعالی کے احکام بندوں تک پہنچانے والا ہوں) اور اللہ تعالی ہدایت عطاء فرماتا ہے اور بے شک میں قاسم یعنی تقسیم کرنے والا ہوں اور (مجھے) اللہ تعالی عطا کرتاہے۔"
مبلغ کامعنی ہو تا ہے پہنچانے والا ۔ بایں معنی اللہ کے رسول ﷺ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو مخلوق خدا تک پہنچانے والے ہیں۔ اس فریضہ کو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے بخوبی سر انجام دیا حتیٰ کہ اس پیغام کو پہنچاتے ہوئے آپ کو طرح طرح کی تکلیف اُٹھانی پڑی۔ کبھی تو طائف کی وادیوں میں پتھر کھاتے نظرآئے تو کبھی اپنا آبائی وطن مکہ چھوڑ نے پر مجبور کیے گئے ۔ اسی مقصد کیلئے کبھی تو آپ کا سوشل بائیکا ٹ کیا گیا مگر ہر حال میں آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہر ایک تک پہنچایا اور آپ مبلغ کہلائے ۔
12 سیدنا صادق مصدوق ﷺ (سچا، سچے قرار دیئے ہوئے)
"عن ابی ھریرہ قال: سمعت الصادق المصدوق"0
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے کہ میں نے (اپنےمحبوب) صادق ومصدوْقﷺ(سچے اور سچا قرار دیئے جانے والے) سے سنا۔"
صادق کامطلب ہے ہمشہ سچ بولنے والا اور انبیاء علیہم السلام کی یہ خصوصیات میں سے ہے ہمشہ حق اور سچ بات کہتے ہیں اور آپ ﷺ کے متعلق قرآن مجید میں ہے ۔(وما ینطق عن الھوی)اور وہ اپنی مرضی سے کچھ بولتے ہی نہیں ۔ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہو وہی بیان کر تے ہیں اور سچ بات کہنے میں دریغ نہیں کرتے چاہے اس میں مخالفین کی طر ف سے نقصان کا کتنا ہی خدشہ کیوں نہ ہو اس بنیا د پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ۔ الصدق ینجی والکذب یہلک یعنی سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلا ک کر دیتا ہے ۔
13 سیدنا الخاتم النبیینﷺ (خاتم النبین)
"عن ابی ھریرہ ان رسول اللہﷺ قال: ان مثلی مثل الانبیاء ۔۔۔وأنا خاتم النبییین"0
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا لیکن ایک گوشہ میں اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ کر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میں باب نبوت ہمیشہ کے لیے بند کر دینے والا ہوں)۔ "
خاتم النبیین کا مطلب ہے آخری نبی اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور اس بات کو اس حدیث میں بہت ہی خوبصورت مثال کے ذریعے سمجھا یا گیا ہے کہ جسطر ح ایک مکان مکمل تیا ر ہو چکا اب اس میں کسی بھی طر ح کی کوئی گنجائش نہیں سو ائے ایک اینٹ کے تو قصر نبوت کا درواز بند ہو گیا اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔
14 سیدنا الامین ﷺ (امانت والا)
"عن ابی سعیدالخدری فی روایت طویلت: قال النبیﷺ:ألا تامنوننی وأنا أمین ۔۔۔الخ"0
"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس آسمان کی خبریں تو صبح وشام میرے پاس آتی رہتی ہیں۔"
امین کامعنی ٰ ہے امانت دار اور آپ ﷺ سے بڑ ھ کر کون امین ہو سکتا ہے ۔ اس حدیث میں آپ خود ہی فرمارہے ہیں میرے پا س صبح وشام آسمانوں کی خبریں آتیں اور میں اس پر امین ہوں ایک حدیث کے مفہوم میں ہے جس نے امانت میں خیانت کی وہ ہم میں سے نہیں آپ ﷺ اعلان نبوت سے پہلے ہی صادق و امین کے لقب سے یاد کئے جاتےتھے ۔تعلیم امت کے لئے اپنے امتیوں کو بھی امانت کی ترغیب دلائی۔
15 سیدنا الشکورﷺ(شکر کرنے والا)
"عن المغیرۃ یقول: قام النبیﷺحتی تورمت قدماہ فقیل لہ:غفر اللہ ۔۔۔عبدالشکور"0
"حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ راتوں کو اس درجہ کا قیام فرماتے کہ آپﷺ کے پاؤں مبارک متورم ہوجاتے۔ پس آپ ﷺ سے کہا گیا کہ اللہ تعالی نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے۔(تواب ا تنا قیام کیوں فرمایا جاتا ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں اپنے رب کا عبدالشکور (شکرگزار بندہ) نہ بنوں۔"
شکور کامطلب ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر نے والا ۔ آپ ﷺ ہمشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر تے رہتے جس طر ح اسی حدیث میں واضح ہے کہ کثرت عبادت و قیام سے آپ کے پاؤں مبارک متورم ہو جاتے لیکن آپ علیہ الصلوۃ والسلام فر ماتے کہ کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔
16 سیدنا المتوکل ﷺ (توکل کرنے والا)
"عن عطاء بن یسار قال: لقیت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ قلت: أخبرنی عن صفۃ رسول اللہ فی التوراۃ؟ قال: أجل، واللہ، انہ لموصوف فی التوراۃببعض ۔۔۔۔بالسیٔۃ السیٔۃ"0
"حضرت عطا بن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہم سے ملا اور عرض گزار ہوا کہ مجھے نبی اکرمﷺ کی وہ تعریف بیان فرمائیں جو تو رات میں بھی ہو۔ انہوں نے فرمایا: خداکی قسم، تو رات میں بھی آپ ﷺ کی بعض وہ صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں بھی ہیں، یعنی اے نبی (مکرم) بے شک ہم نے آپ کو مشاہدہ کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور آپ ان پڑھوں کی جائے پناہ ، اورمیرے (محبوب) بندے اور رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے کیونکہ آپ ترش رو، سنگ دل اور بازاروں میں شور مچانے والے نہیں ہیں اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف اور در گزر فرماتے ہیں۔ اور اللہ تعالی انہیں اپنے پاس نہیں بلائے گا یہاں تک کہ ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھی کر دے اور وہ یہ کہنے لگیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ تعالی اس (ہستی) کے ذریعے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور قفل لگے ہوئے دلوں کو کھول دے گا۔"
متوکل کامطلب ہے تو کل یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کر نے والے ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام اپنے جملہ امور میں اپنے
رب پر یقین کر نے والے ہیں ۔ کسی بھی موقع پر آ پ ﷺ نے اپنے رب پر یقین کونہیں چھوڑ خصوصا اس وقت جب آپ
کفار مکہ اور مشر کین عرب کی طرف سے اذیت کا شکا ر ہوئے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میں اپنے تمام امور میں اس
کی طرف رجوع کر تا ہوں ۔ اسکے علاوہ اپنے تمام غزاوات میں ہمشہ اپنے خالق پر ہی بھروسہ کیا۔
اس حدیث میں شاہد و مبشر اور نذیر آپ کی ایسی صفات ہیں جو تو رات میں بھی ذکر کی گئی ہیں کہ آپﷺ روزقیامت لو گوں
پر گواہ ہوں گے، لو گوں کو جنت کی خوشخبری سنانے والے اور دوزخ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ۔
17 سیدنا ابر(زیادہ نیک) 18 سیدنا ا تقی (زیادہ ڈرنے والا)
"عن جابر وابن عباسؓ قالا: قدم النبیﷺ صبح رابعۃ من ذی الحبۃ۔۔۔ وأتقی للہ منھم"0
"حضرت جابر اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرمﷺ چار ذی الحج کی صبح کو (مکہ مکرمہ میں) تشریف آور ہوئے۔۔۔ پھر آگے طویل حدیث بیان کی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ بعض لوگ اس اس طرح کہتے ہیں۔ حالانکہ خدا کی قسم میں ابر (یعنی سب سے زیادہ نیک )اور اتقی اللہ (یعنی سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہوں) ۔"
ابراور اتقیٰ اسم تفضیل کے صیغےہیں انکا مطلب ہے زیادہ نیکیاں کر نے والا زیادہ پر ہیز کر نے والا آپ ﷺ سے بڑھ کر اس کا ئنات میں کوئی متقی وپر ہیز گار اور نیک نہیں ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمابرداری میں گزرا اسلیئے آپ ﷺ ابراور اتقیٰ ہیں ۔
19 سیدنا الرحیم ﷺ (رحم دل) 20 سیدنا االرقیقﷺ (نرم دل)
"عن مالک بن الحویرث قال: کان رسول اللہﷺ رحیما رفیقا"0
"حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ رحیم (یعنی نہایت رحمدل ) اور رقیق (یعنی نہایت نرم دل) تھے۔"
رحیم ا ور قیق رحمدل اور نرم دل آپ ﷺ طبعاان صفات سے متصف ہیں معاملہ انسانوں کاہو یا جانوروں، حیوانات ،یا جمادات کا کسی بھی طر ح آپ سے کسی کی تکلیف برداشت نہیں ہو تی ۔احادیث مبارکہ میں ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں آپ کے پاس انسان تو کیا جانور بھی حاجت روائی کیلئے آئے ۔ جس طر ح ایک مر تبہ سفر میں صحابہ اکرام نے ایک پر ندے کے بچے کو اسکے گھونسلے سے اٹھالیا تو اسکی ماں شور مچانے لگی آپ ﷺ اس کی بات سمجھ گئے اور فرمایا کس نے اسکے بچے کو اٹھایاواپس اسکے گھونسلے میں رکھے اس طر ح سینکڑوں واقعات آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی رحمدلی اور رقت قلب کے بھر ے پڑ ے ہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف پرندوں کے ساتھ حیوانوں کے ساتھ جانوروں کے ساتھ محبت فرمانے والے ہیں ۔
21سیدنا الرحمۃﷺ (رحمت والا)
"عن ابی ھریرۃ قال: قیل: یارسول اللہﷺ،ادع علی المشرکین قال: انی لم أبعث ۔۔۔ رحمۃ"0
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا: یا رسول اللہ مشرکین کے خلاف دعا کیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ "
22 سیدنا الشفیعﷺ (شفاعت کرنے والا)
"عن ابی بن کعبؓ عن النبیﷺقال: اذ کان یوم القیامۃ کنت ۔۔۔شفاعتھم غیر فخر"(14)
"حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں ہی اما م النبیین خطیب اور شفیع (یعنی شفاعت کا آغاز کرنے والا) ہوں گا اور اس پر مجھے فخر نہیں۔"
صاحب شفاعت آپ ﷺ کا یہ ایسا اسم ہے جس کا ظہور روز قیامت ہو گا جب لو گ اللہ تعالیٰ کے خوف سے کا نپ رہے ہوں گئے اور کسی کو اسکے سامنے سر اٹھا نے کی جرات نہ ہو گی تب آپ مومنین کی شفاعت فرمائیں گے اور جملہ انبیا ء کی آپ ﷺ نے معجزہ معراج کےوقت امامت بھی فرمائی اس لیے آپ امام الا نبیاءبھی کہلائے ۔
23 سیدنا الحبیب اللہ (اللہ تعالی کا حبیب)
"عن ابن عباس قال: قال رسول اللہﷺ: ألا وأنا حبیب اللہ ولا فخر۔۔۔الخ"0
"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے فرمایا :سن لو! میں ہی حبیب اللہ ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ میں حامل لو اءالحمد ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ قیامت کے دن اول شافع بھی میں ہوں اور اول مشفع میں ہی ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالی میرے لیے ہی اسے کھولے گااور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقرا ءاور غرباء مومن ہوں گے اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ میں ہی اکرم الاولین والاخرین (یعنی اولین و آخرین میں سب سے زیادہ عزت والا) ہوں لیکن میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔"
حبیب اللہ، اللہ تعالیٰ کے محبوب آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ایسا صفاتی نام ہے جو دیگر انبیاء کی طر ح آپ کیلئے خاص اور منفر د ہے ۔ جس طرح ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ، موسی علیہ السلام کلیم اللہ اور آپ ﷺ حبیب اللہ ہیں ۔
24 سیدنا رسول العالمین ﷺ (تمام جہانوں کا رسول)
"عن أبی موسی الاشعری قال: خرج أبوطالب الی الشام، وخرج معہ النبی ۔۔۔الخ"0
"حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرمﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچ کر وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنی سورایوں کے کجاوے کھول دئیے۔ تو راہب ان کی طرف آ نکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ نہ ان کے پاس آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلتا گےیہاں تک کہ حضور نبی اکرمﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا دست اقدس پکڑ کر کہا: یہ سید العالمین اور رسول رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالی انہیں رحمت للعالمین (یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت) بنا کر مبعوث فرمائے گا۔"
سید العالمین رسول رب العالمین ، آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کا سردار اور رسول بنا کر بھیجا ہے ۔(وماارسلنک الا رحمت اللعلمین) ۔ ائے نبی ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ اسلیے آپ جملہ مخلو قات کے رسول بھی ہیں اور سردار بھی ہیں۔
25 سیدنا المبشرﷺ (خوشخبری دینے والا)
"عن أنس قال: قال رسول اللہﷺ: أنا أولھم خروجا، وأنا قائدھم اذ وفدوا۔۔۔الخ"0
"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے اول میں (اپنی قبر انور سے) نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں جب وہ روک دیے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اولاد آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں گا میرے اردگرد اس روز ہزاروں خادم پھریں گے گویا وہ گرد غبار سے محفوظ سفید انڈے ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔"
26 سیدنا خاتم النبیین ﷺ (آخری نبی)
"عن ثوبان قال: قال رسول اللہﷺ: أنا خاتم النبیین لا نبی بعدی"0
"حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔"
خاتم النبیین کے معنی ہیں آخری نبی آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے آپکے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا کسی صورت میں
نہ ظلی نہ بروزی نہ کسی اور صورت میں۔
27 سیدنا الفاتحﷺ (فتح کرنے والا)
"عن عمربن الخطاب قال: قال النبیﷺ:انما بعثت فاتحا، ۔۔۔ جوامع الکلم وفواتح"0
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا مجھے فاتح اور خاتم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے اور مجھے جوامع الکلم اور فواتح الکلم عطا کی گئی ہے۔"
فاتح اسم فاعل کا صیغہ ہے اسکا معنیٰ ہےفتح کر نے والا اسکے مختلف معنیٰ مراد ہو سکتے ہیں کہ آپ دلوں کو فتح کر نے والے ہیں ۔جو مقصد نبوت کا فریضہ آپکو ملا اسے فتح کر نے والے یا کافروں پر فتح پا نے والے ۔بہرحال جو معنیٰ بھی مراد لیا جائے وہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام پر صادق آتاہے ۔
28 سیدنا قائدالمرسلینﷺ (تمام رسولوں کے قائد)
"عن جابر أن النبی ﷺقال: أنا قائد المرسلین ولا فخر، وأنا خاتم ۔۔۔ ومشفع ولا فخر"0
"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں ہی قائدالمرسلین ہوں اور یہ فخر نہیں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر ) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں ہی سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا ہوں جسکی شفاعت قبول کی جائے گی اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔"
29 سیدناالشاھدﷺ( گواہی دینے والا)
"عن أنس فی روایۃ اُحد قال: قال رسول اللہﷺأنا شاھد علیکم الیوم"0
"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اُحد کی روایت میں مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں آ ج کے دن (بھی) تمہارے اوپر شاھد (گواہ) ہوں۔"
30 سیدنا طہ ﷺ(طہ) 31 سیدنا یسینﷺ (یسین)
"عن أبی الطفیل قال: قال رسول اللہﷺ: ان لی عند ربی عشرۃ أسماء: ۔۔۔ وطہ، ویس"0
"حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کے ہاں میرے دس نام ہیں: میں محمد، احمد، ابوالقاسم، فاتح، خاتم، عاقب (یعنی تمام انبیاہ کے بعد آنے والا، حاشر (یعنی جمع کرنے والا)، ماحی (یعنی گناہوں کو مٹانے والا)اور طہ اور یٰس ہوں۔"
32 سیدنا امام المرسلینﷺ (تمام رسولوں کا امام)
"عن جابر بن عبداللہ قال: قال: رسول اللہﷺ:أنا أحمد، وأنا محمد، ۔۔۔شفاعتھم"0
"حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں احمد ہوں، میں محمد ہوں اور میں حاشر ہوں کہ سب لوگوں کو میری پیروی میں ہی (روز حشر) جمع کیا جائے گا، اور میں ماحی (یعنی مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالی میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا، اور قیامت کے دن لواءالحمد (یعنی حمد کا جھنڈا) میرے پاس ہی ہو گا، اور میں امام المرسلین (یعنی جملہ رسولوں کا امام) اور صاحب شفاعت (تمام انبیا اور ان کی جملہ امتوں کی) کی شفاعت کرنے والا ہوں گا۔"
33 سیدنا حیی ﷺ (حیا کرنے والا) 34 سیدنا الکریم ﷺ (عزت والا)
"عن ام سلمتہ قالت: کان رسول اللہ ﷺحییا کریما یستحی"0
"حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرمﷺ حیی (صاحب حیاء) اور کریم (اور بہت زیادہ معزز تھے) ۔"
ہمارے آقاﷺبہت زیادہ حیا ء فرمانے والے تھے ۔ حتی کہ ایک کنواری عورت جو خیمہ میں ہو اس سے بھی زیادہ حیاء فرمانے والے تھے۔ کسی کو کوئی بات کہنے میں حیا ء محسوس کر تے جس طر ح بعض لو گ آپ ﷺ کے گھر کھانا کھانے کے بعد باتوں میں مصروف ہو جاتے ۔لیکن آپ ﷺ حیا ء کیوجہ سے انہوں منع نہ کرتے لیکن اس جگہ پر قرآن نازل ہو تا ہے مفہوم قرآن ہے ۔ اے ایمان والو!جب تم کھانا کھا چکا تو اپنے گھر وں میں چلے جایا کرو ادھر باتوں میں مصروف نہ ہوا کرو اس سے میرے نبی کو تکلیف ہو تی ہے اور وہ تمہیں منع بھی نہیں کر تے ۔
من جملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسماء ایسے ہیں جو قرآن مجید میں بھی موجود ہیں اور احادیث میں خود اپنے لیے فرمائے ہیں ان میں سے محمد،احمد،خاتم النبیین،رؤف الرحیم،رحمت اللعالمین،طہ،یسین ہیں۔اور بعض اسماء وہ ہیں جو قرآن مجید میں ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر کتب سماویہ میں بھی ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے شاہد،مبشر،نذیر،احمد،احید قابل ذکر ہیں اور بعض صفات ایسی ہیں جن کو صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود پایا تو ان کو ذکر کر دیا جیسےحی اور کریم کچھ ایسی صفات ہیں جو خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے متعلق ذکر کیں مثلاً جوامع الكلم،فواتح،حاشر اور بعض اسماء وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں لیکن ان کا ظہور روز قیامت ہوگا ان میں سے صاحبِ شفاعت،صاحب لواء الحمد،قائدالمرسلین اور امام النبیین ہیں۔ الغرض اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نبی کو مختلف القاب و صفات کے ساتھ متصف کرکے آپ کی شان رفعت کو بڑھایا ہے،یہ رفعت تا قیام قیامت بڑھتی ہی جائے گی اور روز قیامت سب پر عیاں ہوجائے گی۔
حاصل کلام یہ ہوا کہ محمدواحمد آپ کے ذاتی مشہوراسماء میں شمار کیے جاتے ہیں اسم محمد کا تذکرہ قرآن مجید میں چار اور احمد کا ایک مرتبہ ہوا ہے۔اسماء گرامی محمدواحمد ذاتی بھی ہیں اور صفاتی بھی اس لیے کے وصفیت اور علمیت کے منافی کوئی چیز نہیں پائی گئی ان میں سے ہر دو کا (ذات و صفات)کا قصد کیا جا سکتا ہے۔احادیث مبارکہ میں محمد کو احمد پر مقدم رکھا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد احمد سے زیادہ مشہور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازلا ابدا محمد ہیں تعریف کیے ہوئے ہیں اور تعریف ہمیشہ حسن اورکمال کی جاتی ہے اس لیے آپ ہمیشہ سے حسن کمال ہیں بلکہ تمام محاسن و کمالات کی اصل ہیں۔احمد کے معانی میں سے یہ ہے کہ آپ اپنے رب کی بہت زیادہ حمدکرنے والے ہیں ایسی حمد جوآپ سے پہلے نہ کسی نے کی نہ کر سکے گا یہاں تک کہ آپ صاحب لواءالحمد ہوجائیں گے اس طرح آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم 'احمد' حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی ذکر کیا گیااور اس کو اللہ تعالی نے قرآن کریم کا حصہ بنا دیا ہے۔
آپﷺکے یہ تمام اسماءقرآن مجید مین ذکرکئے گئے ہیں یہ نام اپنے مسمی پرصادق آتے ہیں اس سے نہ صرف اللہ تعالی کی اپنے حبیب مکرمﷺقربت کا اظہارہورہوہےبلکہ ان اسماء کے ذریعے سیرت رسول اکرمﷺکے مختلف پہلوبھی ظاہرہورہے ہیں۔ کثرت اسماء والے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے جزئیات و کلیات،حرکات و سکنات،خلوت و جلوت کے واقعات،کلماتِ طیبات اور عادات مبارکات کا ذخیرہ اس وثوق واستناد،اس تسلسل ودوام اور اس تفصیل وتدقیق کےساتھ محفوظ رکھا اور رکھوایا گیا کہ جس کی نظیر تاریخ انسانی میں انبیاء اکرام علیہم الصلاۃ والسلام سے لے کر مشاہیر عالم، عظماء انسانیت،فاتحین ممالک،مؤسسين سلطنت ومملکت،مصلحین اقوام وامم،مدونین فنون اور ناشرین علم کے کسی طبقہ میں نہیں ملتی۔دنیائے انسانیت میں کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں کہ اسماء مبارکہ کے مطالعہ سے ہی زندگی کے حالات روز روشن کی طرح عیاں ہوں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاایک ایک جزئیہ تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آپ سے متعلق افراد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔اسی وجہ سے تعارف کے طور پر صرف ان اسماء کوموضوع سخن بنایا گیا جن ورود قرآن کریم میں ہوا ہے۔
خلاصۃ البحث
کائنات میں بہت سارے لو گ آئے ان کی رُشدو ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء اکرم علیھم السلام کو مبعوث فرمایا ان انبیاء الرسل میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے تلک الرسل فضلنا کے تحت بعض کو بعض پر فضیلت عطاء کی اسی فضیلت میں سے جو عزت وعظمت کا تاج اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں ﷺ کے سر پر سجا یا ہے اس اظہار کاقرآنی آیات سے ظاہر ہے ۔ اسکے علاوہ کسی کا باربار تذکرہ کیا جانا اور اسکا صفات کیساتھ متصف ہو نا عظمت بزرگی کی دلیل ہے۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذاتی ناموں کے علاوہ بہت سارے صفاتی ناموں کے ساتھ یاد کیا ہے اور صفاتی نام سے مراد یہ ہے کہ وہ وصف، خصوصیت جس میں موجود ہو اس کا اظہار اس کے اسم سےکیا جائے،اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسم بامسمیٰ ہیں اس لئے کہ جو اسم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے وہ آپ کے اسی و صف کو ظاہر کر رہا جو آپ میں موجود ہے۔
آپﷺکے قرآن مجید میں اسماء والقاب کی کثرت نام والے ( محبوب) کی فضیلت وبزرگی کی دلیل ہے اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی سیر ت طیبہ کی آئینہ دار ہے جن میں غوروفکر کر نے اور انکے معانی ومفاہیم کو سمجھنے سے آپ ﷺ کے اخلاق وعادات کا پتہ چلتا ہے۔ان اسماء میں سے بعض کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی کے ساتھ ہے جیسے مبلغ الرسالہ،داعی الی اللہ اور افصح وفصیح ان اسماء سے صاف ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے والے،لوگوں کو توحید کی طرف بلانے والے اور شیریں کلام،فصیح زبان والے ہیں۔ بعض اسماء سے ایمانی پہلو اجاگر ہوتے ہیں جیسے آپ کے اسم "خاتم النبیین"سے ہی ظاہر ہے کہ آپ اللہ تعالی کے آخری رسول ہیں اور اس پر ایمان لانا فرض عین ہے۔ کچھ اسماء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے آئینہ دار ہیں جیسے رؤف الرحیم،صادق و امین سے ظاہر ہےکہ آپ محبت کرنے والے شفقت فرمانے والے ہمیشہ سچ بولنے والے امانت دار ہیں۔اسی طرح ہر نام اپنے اندر معنی و مفہوم کا ایک خزانہ چھپائے ہوئے ہے۔
تجاویزوآراء
اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق صحیح اور غیر صحیح احادیث میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
قرآن کریم میں وارد اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتب سیرت میں علیحدہ ذکر کرنا چاہیے ۔
اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق مزید سیرت طیبہ کی روشنی میں توضیح و تشریح کی ضرورت ہے۔
ابتدائی جماعتوں سے ہی سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات و اہمیت کو بھی حسب ضرورت نصاب کی زینت بنا نا چاہئے۔
اسماءالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے معاشرے میں اسمائے ذاتی "محمد " و "احمد" کے علاوہ وصفی اسماء پر بچوں کے نام رکھنے کی فضیلت و اہمیت پرترغیب دلائی جائے تاکہ آنے والی نسلوں میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ پیدا ہو ۔
اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامختلف حالات و واقعات کے ساتھ مطالعہ کیا جانا چاہیے اور اس حوالہ سے سمیناربھی منعقد ہوں ۔
اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے سیرت طیبہ سے رہنمائی لیتے ہوئے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر عوام میں آگہی کی ضرورت ہے ۔
علماء اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے عظیم موضوع کو اپنے خطبات کا حصہ بنائیں ۔
اسمائےذاتی کے علاوہ صفاتی اسما ء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نام رکھنے کی طرف ترغیب دلائی جائے ۔
قرآن مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف القابات و اوصاف پر مبنی اسماء گرامی کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔
M.Phil Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, Riphah International University Faisalabad
Dr.Shams ul Arfeen Assistant Professor (Islamic Studies) Alkaram International Institute, Bhera dr.shams-ul-arifeen@aki.edu.pk.
0Al-Muzzamil, 73:1.
0Al-Muddathir, 74:1.
0Al-A‘rāf, 7:158
0Al-Najam, 53:17.
0Al-Ḥujarāt, 49:2
0Al-Zummur, 39:66.
0Al-Qalam, 68:4.
0Al-Ḥajar, 72:15.
0 Waḥīd al-Zamān Qāsmī, Al-Qāmūs (Lāhore: Maktabah Reḥmāniyah, 2nd Edithion 2004 AD), 19.
0 ‘Abdul Ḥafīz Bilīlāvī, Miṣbaḥ ul Lughāt (Karāchī: Mehr Muḥammad Kutub Khāna, S.N), 381.
0 Mawlvī Feroz ud dīn, Feroz ul Lughāt Urdū (Karāchī: Feroz Sons, S.N), 94.
0 Luis Ma‘lūf, Al-Munjid Arabic to Urdū, Translation: ‘Abdul Ḥafīz Bilīlāvī (Lāhore: Khazīna Ilm o Adab, S.N), 396.
0 ‘Abdul Waḥīd ‘Attarī, ‘Inaya tu Naḥw (Karāchī: Al-Madinah tu al ‘Ilmiyah, 2012 AD), 13.
0 ‘Abdul Reḥmān Jāmī, Sharah Mulla Jāmī (Lāhore: Maktabah ‘Ulūm e Islāmiyah, S.N), 18.
0 Aāl e ‘Imrā, 3:144.
0 Al-Aḥzāb, 33:40
0 Muḥammad, 47:2.
0 Fatḥa, 48:29.
0 Al-ṣaff, 61:6.
0 Al-A‘rāf, 7:157
0 AlFurqān, 25:74.
0 Al-Ḥashr, 59:7
0 Al-Aḥzāb, 33:40
0 Al-Baqarah, 2:119.
0 Al-Nisā’, 4:174.
0 Aāl e ‘Imrā, 3:164.
0 Al-Nisā’, 4:174.
0 Al-An‘ām, 6:149.
0 Al-Tawbah, 9: 128.
0 Al-Aḥzāb, 33:40.
0 Al-Aḥzāb, 33:46.
0 Al-A‘rāf, 7:158
0 Al-Anmbiyā’, 21:107.
0 Al-Tawbah, 9:128.
0 Aāl e ‘Imrā, 3:39.
0 Fāṭir, 35:32.
0 Al-Aḥzāb, 33:46.
0 Al-Aḥzāb, 33:45.
0 Al-Zumur, 39:66.
0 Al-Najm, 53:2.
0 Al-Aḥzāb, 3333.
0 Al-Nisā’, 4:58.
0 Al-Nisā’, 4:113.
0 Al-Tawbah, 9:128.
0 Al-Ḍuḥā, 93:8.
0 Al-Fatḥa, 48:1.
0 Al-Jinn, 72:19.
0 Al-Baqarah, 2:253.
0 Al-Baqarah, 2:101.
0 Al-Mā’idah, 5:67.
0 Al-Nisā’, 4:80.
0 Yūnus, 10:104.
0 Al-Zakhraf, 43:29.
0 Al-Aḥzāb, 33:46.
0 Al-Muzzamīl, 73:1.
0 Al-Muddathir, 74:1.
0 Al-Ghāshiyah, 88:21.
0 Aāl-e-‘Imrān, 3:144.
0Al-Aḥzāb, 33:40.
0 Muḥammad, 47:2.
0 Fatḥ, 48:29.
0Al-ṣaff, 62:6.
0Idrees Kāndhlvī, Al-T‘līq al-ṣabīḥ (Lāhore: Maktabah ‘Uthmāniyah, 2003AD), 54/1.
0 Mulla ‘Alī Qārī, Jam‘ ul-Wasāīl Fī Sharḥ al-Shūmāil (Egypt: Matba‘ al-Sharfiyah, 1318 AH), 125/1.
0 Imām Muḥammad Mehdī Fāsī, Muṭāli‘ al-Misrāt (Beirūt: Dār al-Fikr, 2005 AD), 74.
0Abū Na‘īm Aṣfhānī, Dalāil un Nabuwat (Haydrabad: Majlis Dāirah Ma‘ārif ‘Uthmāniyah, 1995 AD), 165/2.
0 Muḥammad bin ‘Ismā‘īl Bukhārī, Al-Jami‘ al-ṣaḥiḥ (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 1997 AD), Ḥadith No: 3339, 117/3.
0 Muslim bin al-Ḥajjāj al-Qusherī, Al-Jāmi‘ al-ṣaḥiḥ ( Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, 2005 AD), Ḥadith No: 2355, 225/4.
0 Aḥmad bin Ḥussain al-baheiqī, Sho‘ab al Īmān (Karāchī: Maktabah al-Bashrī, 2005 AD), Ḥadith No: 1398, 187/2.
0Muḥammad bin ‘Ismā‘īl Bukhārī, Al-Jami‘ al-ṣaḥiḥ, Ḥadith No: 17, 456/1.
0Muḥammad bin ‘Ismā‘īl Bukhārī, Al-Tārikh al-Kabīr (Karāchī: Qadīmī Kutub Khāna, 2001 AD), Ḥadith No: 44, 521/7.
0 Muḥammad bin ‘Ismā‘īl Bukhārī, Al-Jami‘ al-ṣaḥiḥ (Labnān: Dār al-Fikr, 2001 AD), Ḥadith No: 6649, 521/6.
0Aḥmad bin Sho‘aib al-Nisāī, Al-Sunan (Lāhore: Al-Mīzān Nāshir, 2004 AD), Ḥadith No: 5644, 424/6.
0 Aḥmad bin Ḥanbal, Al-Musnad (Karāchī: Maktabah al-Bashrī, 1999 AD), Ḥadith No: 251, 560/4.
0Muḥammad bin Yazīd al-Qazvīnī Ibn e Mājjah, Al-Sunan (Beirūt: Al-Maktabah al-‘Ilmiyah, 1999 AD), Ḥadith No: 456, 351/1.
0Muḥammad bin Jarīr Ṭabrī, Jami‘ al-Biyān ‘An Ta’vīl Ayyie al-Qurān (Labnān: Dār al-Fikr, 1995 AD), 635.
0 Aḥmad bin Ḥussain al-baheiqī, Al-Sunan al-Kubrā (Beirūt: Dār Eḥyā al-Turāth al-‘Arbī, 2007 AD), Ḥadith No: 11202, 285/6.
0 Muslim bin al-Ḥajjāj al-Qusherī, Al-Jāmi‘ al-ṣaḥiḥ ( Riyaḍ: Dār al-Salām al-Nashr,1999 AD), Ḥadith No: 674, 625/1.
0 Muslim bin al-Ḥajjāj al-Qusherī, Al-Jāmi‘ al-ṣaḥiḥ, Ḥadith No: 2599, 725/4.
0 Muḥammad bin ‘Īsā Tirmizī, Al-Sunan, Ḥadith No: 3616, 466/5.
0 ‘Abdullah bin Muḥammad Abī Shebah, Al-Muṣannaf (Egypt: ‘Alam al- Kutub, 2008 AD), Ḥadith No: 31733, 715/6.
0Muḥammad bin ‘Īsā Tirmizī, Al-Sunan, Ḥadith No: 2219, 544/4.
0 Aḥmad bin Ḥussain al-baheiqī, Sho‘ab al Īmān, Ḥadith No: 5202, 782/4.
0 Sulaimān bin Ash‘ath, Al-Sunan, hadith No: 2949, 637/3.
0 Aḥmad bin Ḥussain al-baheiqī, Sho‘ab al, Ḥadith No: 5202, 782/4.
0‘Abdur Reḥmān al-Dārmī, Al-Sunan (Lāhore: Islāmī Kutub Khāna, S.N), Ḥadith No: 49, 543/1.
0 Muḥammad bin ‘Abdullah Neshāpūrī, Al-Mustadrak (Lāhore: Maṭba‘ Ilmī, 1998 AD), hadith No: 1351, 236/1.
0Abū Na‘īm Aṣfhānī, Dalāil un Nabuwat (Karāchī: Maktabah al-Bashrī, 2001 AD), Ḥadith No: 20, 728/1.
0Shams ud Dīn Al-Zahbī, Mīzān ul I‘tedāl (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyah, S.N), Hadith No: 2052, 447/3.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2022 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |