Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Amir > Volume 3 Issue 1 of Al-Amir

عائلی زندگی اور اُس کے مسائل سے متعلق ابنِ تیمیہ کے فقہی تفردات کا تجزیاتی مطالعہ An analytical study of Ibn Taymiyyah's jurisprudential distinctions Regarding Family Life and its problems |
Al-Amir
Al-Amir

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2022

ARI Id

1682060063651_3209

Pages

59-79

PDF URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/35/37

Chapter URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/35

Subjects

Ibn e Taymiyyah Jurisprudential Distinctions Nikaḥ Kitāb un-Nikaḥ Haq-e-Mahr

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1.2in; margin-right: 1.2in; margin-top: 0.5in; margin-bottom: 0.5in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 115%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt } p.cjk { font-family: "MS Mincho"; font-size: 14pt } p.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 15pt } h1 { margin-top: 0.33in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #2e74b5; line-height: 100%; text-align: justify; page-break-inside: avoid; orphans: 2; widows: 2; background: transparent; page-break-after: avoid } h1.western { font-family: "Calibri Light", serif; font-size: 14pt; font-weight: bold } h1.cjk { font-family: ; font-size: 14pt; font-weight: bold } h1.ctl { font-family: "Times New Roman"; font-size: 14pt; font-weight: bold } h3 { margin-top: 0.03in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 100%; text-align: justify; page-break-inside: avoid; orphans: 0; widows: 0; background: transparent; page-break-after: avoid } h3.western { font-family: "Times New Roman Bold", serif; font-size: 15pt; font-weight: bold } h3.cjk { font-family: ; font-size: 15pt; font-weight: bold } h3.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 17pt; so-language: ur-PK; font-weight: bold } p.sdfootnote-western { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-cjk { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-ctl { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0563c1; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }

أﻷمِیر:جلد03؍ شمارہ 01 ..(جنوری–جون2 220ء) )67(

عائلی زندگی اور اُس کے مسائل سے متعلق ابنِ تیمیہ کے فقہی تفردات کا تجزیاتی مطالعہ

An analytical study of Ibn Taymiyyah's jurisprudential distinctions Regarding Family Life and its problems

Muhammad Fazal Haq Turābī

 Hafiz Muhammad Fakhru Din

Marriage has been given the status of half-faith, based on which a family is formed, and society is established. Marriage is associated with issues of lineage and inheritance and a section of the Quran describes this subject. The jurists have explained in detail the issues of marriage, dowry, breastfeeding, 'iddah, and alimony under the book of marriage. Ibn Taymiyyah, like other jurisprudential issues, has differed from several jurists on issues related to marriage. For example, it is fair for a man to marry his wife's foster mother and foster daughter. Marriage can take place in any of the terms or words from which the meaning of marriage is derived. Like the father, the grandfather also has the right to marry a minor girl without her permission, it is permissible to marry, the wife has the right to terminate the marriage in case of defect in Haq-e-Mahr, etc. All such jurisprudential dissent will be explained with arguments so that one can be aware of Ibn Taymiyyah's dissent and the arguments behind it.

KeyWords: Ibn e Taymiyyah, Jurisprudential Distinctions, Nikaḥ, Kitāb un-Nikaḥ Haq-e-Mahr.

تعارف:

نکاح کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اس کی بنیاد پر خاندان تشکیل پاتا ہے اور معاشرہ استوار ہوتا ہے۔نکاح سے نسب اور وراثت کے مسائل وابستہ ہوتے ہیں اس لیے دین اسلام نے نکاح کے معاملات پر بھرپور توجہ دی ہے اور قرآن کا ایک حصہ اس مضمون کو بیان کرتا ہے۔ فقہاء نے کتاب النکاح کے تحت نکاح، حق مہر، جہیز، رضاعت، عدت اور نفقات کے مسائل تفصیل سے بیان کیے ہیں جو عائلی زندگی کہلاتے ہیں۔ ابن تیمیہ نے دیگر فقہی مسائل میں اختلاف کی طرح عائلی زندگی سے متعلقہ مسائل میں بھی جمہور فقہاء سے اختلاف کیا ہے۔ مثلاً آدمی پر اس کی بیوی کی رضاعی ماں اور رضاعی بیٹی سے نکاح حرام نہیں ہے، نکاح کسی بھی ایسے صیغہ یا لفظ سے جس سےنکاح کا مطلب نکلتا ہو منعقد ہو سکتا ہے، والد کی طرح دادا کو بھی نا بالغ لڑکی کا بغیر اُس کی اجازت کے نکاح کرنے کا اختیار ہے، حق مہر میں عیب کی صورت میں بیوی کو نکاح ختم کرنے کا حق ہے وغیرہ ایسےتمام فقہی تفردات کو بمع دلائل بیان کیا جائے گاتاکہ ابن تیمیہ کے تفردات سے واقفیت اور اُن کے پیچھے کار فرما دلائل سے آگاہی ہو سکے لہذا عائلی زندگی سے متعلق ابن تیمیہ کے فقہی تفردات، جمہور علماء سےمذکورہ مسائل میں اختلاف رائے رکھنے کے دلائل اور اُن کا تجزیاتی مطالعہ زیر نظر مقالہ کا موضوع ہے۔لفظ نکاح ازروئے لغت مصدر ہے۔جوجماع کرنا ، شادی کرنا ، ایک دوسرے سے شادی کرنا ، ملانا اور ایک دوسرے میں داخل ہونے کے معانی میں مستعمل ہے۔

"(النکاح )بالکسر، فی الکلام العرب :"الوطء فی الاصل (و) قیل : (ھو العقد لہ )، وھو التزویج لانہ سبب للوطء المباح۔۔۔قال شیخنا : واستعمالہ فی الوطء والعقد"۔[1]

نکاح کے لفظ میں اشتراک لفظی پایا جاتا ہے۔جو جماع اور شادی کے درمیان واقع ہے ۔درحقیقت نکاح کا لفظ جماع کے لئے حقیقت اور شادی کیلئے مجاز کے طور پر مستعمل ہے ۔

"وھو مشترک بین الوطء والعقد اشتراکا لفظیا"[2]

ابتدائی تعارف اور نکاح کی لغوی تعریف کے بعد ذیل میں فرداً فرداً امام ابن تیمیہ کے تفردات بابت بہ کتاب النکاح کو تفصیلاً بیان کیا جائے گا۔

تفردِ اول: عورت کا مرد کومطلقاً دیکھنے کی کراہت

اسلام ایک ایسا دین مہذب ہے۔جس نے فتنوں کے تمام ابواب مقفل کرنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ نظر ہے ۔حرام کی طرف لے جانے والے تمام نظری احوال سے اسلام نے منع کیا ہے۔ اس بات پر اتفاق و اتحاد ہے۔ اس بابت اختلاف ہے کہ عورت کا مرد کو دیکھنا۔ اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ آدمی کے ستر عورت کی طرف عورت کا نظر کرنا حرام ہے۔ ستر عورت کے علاوہ بھی دیکھنا منع ہے جس پر اتفاق ہے۔ فتنے کا اندیشہ ہو، باوقت ضرورت و حاجت جیسے طبیبہ ، لیڈی ڈاکٹر کا مریض کو دیکھنا جب مرد ڈاکٹر نہ پایا جائے بلاضرورت و حاجت مرد کے ستر عورت کے علاوہ میں عورت کے نظر کرنے کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ یہ نظر ماذون و محظور کے کس قبیل سے ہے ۔ابن تیمیہ کا اختیار و تفرد یہ ہے کہ عورت کا مرد کو دیکھنا مکروہ ہے ۔شہوت اور بغیر شہوت سے قطع نظر عورت کے لئے بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ اجنبی کی طرف نظر کرے۔"وقد ذھب کثیر من العلماء الیٰ انہ لا یجوز للمراءۃ ان تنظر الی الاجانب من الرجال شھوۃ ولا بغیر شھوۃ اصلا۔۔"[3]

دلائلِ ابن تیمیہ:

شہوت کے ساتھ یا بغیر شہوت عورت کا مرد کو دیکھنا مطلقا مکروہ کے تفرد پر ابن تیمیہؒ نے دلائل قائم کیے ہیں۔دلیل اول اللہ جل جلا لہ کا قول ہے۔"وقل للمومنت یغضضن من ابصارھن"[4]وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ جل جلا لہ نے مطلقا نظر کے جھکائے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ مردوں کے لیے ان پرنظر کرنا حرام ہے۔ ویسے ہی مردوں پر ان عورتوں کا نظر کرنا بھی حرام ہے۔

دلیل دوم آپ ﷺ کے پاس ام سلمہ اور میمونہ تھیں ابن ام مکتوم آئے تو آپ نے پردہ ،حجاب کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا کہ وہ نابینا ہیں ہم کونہ دیکھ سکتے اور نہ ہی پہچان سکتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا۔

"افعمیاوان انتما الستما تبصرانہ"[5]وجہ استدلال واضح ہے کہ نابینا سے حجاب کا حکم دیا گیا تو اس بات پر دلالت ہے عورت کا مرد کو دیکھنا ممنوع ہے۔

دلیل سوم ادلہ کا جمع یوں ہے کہ مرد کے لیے مکروہ ہے کہ وہ عورت کی طرف دیکھے جو ستر عورت نہ ہو۔بغیر حاجت کے بھی مکروہ ہے۔ تاکہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے اور یہی معنی بدرجہ اتم عورت کے اندر بھی موجود ہے۔کیونکہ وہ بھی اجنبی کی طرف دیکھنے کی وجہ سے فتنہ میں پڑ جانے سے محفوظ ومامون ہرگز نہیں ہے۔تو مناسب یہی ہے کہ عورت کا مرد کو دیکھنا مکروہ ہے اور یہی معنی معتبر ہے۔

تفردِ دوم: لفظِ صیغہ اور عقد نکاح (لفظ الصیغۃ فی عقد النکاح)

نکاح ایک عقد ہے جو طرفین کی رضامندی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے ۔نکاح اور تزویج کے لفظ کے ساتھ صحت نکاح میں اتفاق ہے۔ ان دونوں لفظوں کے علا وہ الفاظ میں صحت نکاح کی بابت اختلاف ہے۔کیا ان کے علاوہ الفاظ سے نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے ۔جیسے ہبہ کا لفظ مثلا "وھبتک ابنتی" یا عطیہ کا لفظ مثلا "اعطیتک اختی"اور اس جیسے دوسرے الفاظ ۔ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار اس با بت یہ ہے کہ نکاح ہر اس لفظ سے منعقد ہوجاتا ہے۔ جس کو لوگ نکاح گردانتے ہوں ۔جو زبان ہو جو لفظ ہو اس کا معاملہ عقد کی طرح ہے۔"وینعقد النکاح بما عدہ الناس نکاحا بای لغۃ ولفظ و فعل کان ۔ومثلہ کل عقد"۔[6]

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہؒ کا اختیار اور تفرد یہ ہے کہ لوگ جس کو نکاح سمجھتے ہیں۔ اس سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے جو بھی لغت ہو اور جو بھی لفظ ہو اس نکاح کا معاملہ عقد کی طرح ہے۔دلیل اول سہل بن سعدرضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی کی یعنی نکاح پڑھایا تو آپ ﷺنے فرمایا۔"قد ملکتھا بما معک من القرآن"[7]

وجہ استدلال یہ کہ اس حدیث میں تمکیک کے لفظ سے عقد باندھا گیا۔انکاح اور تزویج کا التزام نہیں کیا گیا ہے۔

دلیل دوم اللہ تعالیٰ کا قول مبارک ہے۔"و امراۃً مومنۃً ان وھبت نفسھا وان اراد النبی ان یستنکحھاخالصۃً لک من دون المومنین "۔[8]

دلیل سوم اصل یہ ہے عقود وہ صحیح ہوتی ہیں جن پر جس لفظ سے بھی مقصود پر دلالت ہو جائے اور انہی عقود میں سے ایک نکاح ہے۔لفظ مخصوص کی شرط عائد کرنے والے پر دلیل لازم ہے۔اور یہ نکاح کوئی عبادت میں سے نہیں ہے۔ شارع نے اس کے لیے مخصوص الفاظ بطور عبادت کے دئیے ہوں۔جیسے اذان اور نماز کے ذکر اذکار ہیں۔اس اصول کی بنیاد پر انکاح ، تزویج اور ہر وہ لفظ جو ان پر دلالت کرتا ہے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

تفردِ سوم: بڑی کنواری (بالغہ) لڑکی کو نکاح کے لیےمجبور کرنا (اجبارا البکر الکبیرۃ)

جمہور کے نزدیک کبیرہ (بڑی ) سے مراد بالغہ ہے۔جو لڑکی حد بلوغت تک نہ پہنچی ہو اس کو صغیرہ کہا جاتا ہے۔حنابلہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ 9سال کی لڑکی کبیرہ ہے۔اور اس سے کم عمر لڑکی صغیرہ کے زمرہ میں آتی ہے ۔شروط نکاح کی متفقہ شرط زوجین کا باہم راضی مند ہونا ہے جیسا کہ تمام عقود میں یہ معاملہ کار فرما ہے ۔تراضی المتعاقدین ایک متفقہ شرط ہے۔ لیکن بعض معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں رضا اور اختیار کا عمل کار فرما ہوتا ہے۔ ان مختلف حالات وواقعات کے تناظر میں بکر کبیرہ کی حالت ہے۔ اس کی اجازت اور رضا کے بغیر اس کی شادی کرنا درست ہے یا نہیں ہے ۔بکر کبیرہ اور ثیب صغیرہ کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔

اس بابت ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار یہ ہے کہ بکر کبیرہ کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی رضا اور اجازت صحت نکا ح کی شرط ہے ۔اس نوع کے سوال کے جواب میں آپ لکھتے ہیں۔"فلا تجبر علی نکاحہ بلا ریب۔۔۔ لٰکن الاظھر فی الکتاب والسنۃ انھا لاتجبر"۔[9]

دلائلِ ابن تیمیہ:

بڑی کنواری لڑکی کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جاسکتاہے بلکہ اس کی رضا اور اجازت شرط ہے۔ ا س تفرد پر دلیل اول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

"لا تنکح البکر حتی تستاذن ولا الثیب حتی تستامر فقیل یا رسول کیف اذ نھا قال اذا سکتت"۔[10]

دلیل دوم ابن عباس کی روایت ایک جاریہ آئی کہ اس کے باپ نے شادی کردی جس کو وہ نا پسند کرتی ہے تو آپ ﷺ نےاس کو اختیار دیا۔[11]وجہ استدلال یہ ہے کہ باپ کے لیے اپنی کنواری بیٹی کے لیے ولایت اجبار کا حق نہیں ہے۔

دلیل سوم خنسا ء بنت خدام کا نکاح باپ نے کردیا اور وہ ثیبہ تھیں ،جس کو آپ نے نا پسند کیا تو آپ ﷺ کے پاس آئی تو آپ نے اس کے نکاح کو رد کردیا۔[12]وجہ استدلال یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے باپ کے لیے اپنی بیٹی پر ولایت اجبار کا حق نہیں بنایا ہے پس اس میں ہر بیٹی لڑکی داخل ہو جاتی ہے چھوٹی کنواری لڑکی نص وارد کی وجہ سے باالاتفاق خارج ہے۔

دلیل چہارم باپ کو مال میں ولایت کا حق بغیر اجازت نہیں ہے چہ جائیکہ وہ بضع میں ہو، جبکہ یہ مال سے اعظم ہے۔تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کی بضع کی بابت تصرف کرے جس کو وہ ناپسند کرتی ہے اور وہ اس کو اس طرف لگائے جس کو وہ نہ چاہتی ہو اور نہ ہی پسند کرتی ہو۔معلوم ہوتاہے جمیع مال کا چلے جانا اس لڑکی کے لیے اس مصیبت سے زیادہ آسان ہے۔پس یہ بات تو قواعد شریعت سے بھی کوسوں دور ہے۔

تفردِ چہارم: جد بھی ولایت اجبار کا استحقاق نہیں رکھتاہے (استحقاق الجد لو لا یۃ الاجبار)

متفقہ شرائط میں سے بکر صغیرہ کا اجبار ہے ۔باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ جب تک وہ بنسبت صغیرہ ہے ۔اس کی رضا کے بغیر نکاح کر سکتا ہے۔ کیونکہ اذن صغیرہ معتبر نہیں ہے ۔صورت مسئلہ یہ ہے کہ جد بھی اس ولایت میں اب کے ساتھ ملحق ہے یا نہیں ہے یا یہ حکم صرف اب کے لئے مختص ہے ۔اس پر غیر کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس حکم میں جد لا حق ہو تا ہے۔ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار یہ ہے کہ ولایت اجبار میں جد بھی اب کی طرح ہے ۔ "والجد کالاب فی الاجبار وھو روایۃ عن الا مام احمد"۔[13]

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہؒ کا تفرد ہے کہ جد بھی ولایت اجبار میں باپ کی طرح ہے اور یہ تفردبنت صغیرہ کی بابت ہے ۔دلیل اول یہ ہے کہ جد بھی باپ کی طرح ہوتاہے تو جد کی ولایت اجبار ہے۔ پس وہ باپ کی طرح ہے۔

دلیل دوم یہ ہے کہ جد بھی باپ کی طرح شفقت ورحمت ، حسن سلوک اور حسن نظر میں برابر ہوتاہے۔اور بعض خاص معانی میں باپ کے مشارک ہوتاہے۔

دلیل سوم یہ ہے کہ اجبار کبیرہ کا مسئلہ نہیں ہے۔عدم اب کی صورت میں صغیرہ باکرہ یا ثیبہ کی تزویج میں باپ کی طرح ہے۔

تفردِ پنجم: نکاح میں گواہی (الشھادۃ فی النکاح)

عقد نکاح کی صحت کی شروط میں سے جن پر اختلاف واقع ہوا ہے۔ ان میں شرط شہادت بھی ہے۔ کیا وہ اس کی صحت کے لئے شرط ہے کہ نکاح بغیر گواہوں کے صحیح نہیں ہے یا شرط نہیں ہے۔اس کے بغیر بھی نکاح صحیح ہے ؟صحت نکاح کے لئے اشہاد و اعلان کی بابت علماء کا اتفاق ہے ۔ان سے خالی باطل ہے ۔علماء کا اس بابت اختلاف ہے نکاح کا اعلان ہوا شہود سے خالی رہا یا مشہود تھا لیکن اعلان نہ ہوا اور چپکے چپکے باقی رہا کیا وہ نکاح باطل ہو گا یا باطل نہیں ہو گا ؟ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار یہ ہے کہ شرط اعلان کے ساتھ بغیر شہود نکاح کی صحت بحال ہے۔۔

"فالذی لا ریب فیہ ان النکاح مع الاعلان یصح،وان لم یشھد شاھدان،واما مع الکتمان والاشھاد فھٰذا مما ینظر فیہ"۔[14]

دلائلِ ابن تیمیہ:

اعلان ہو چکنے کے بعد بغیر گواہوں کے نکاح کی صحت کے تفرد پر ابن تیمیہ ؒ کے دلائل میں سے دلیل اول حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے۔"ان النبی ﷺ اعتق صفیۃ رضی اللہ عنھا وجعل عتقھا صداقھا"۔[15]اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے بغیر گواہوں کے تزویج کی تھی۔

دلیل دوم مسلمان عہد رسالت ﷺ میں نکاح کرتے رہے ہیں۔ آپ ﷺنے ان کو گواہی کا حکم نہ دیا اور نہ ہی نکاح میں شرط شہادت کی کوئی ثابت حدیث صحاح ، سنن اور مسانید میں پائی جاتی ہے۔

دلیل سوم یہ ہےکہ ممتنع ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایساعمل کرتے رہے جس کے لیے شروط تھیں جن کو نبی کریم ﷺ نے بیان نہ فرمایا۔اور یہ تو عموم بلوٰی میں سے ہے۔ جس کا ہر مسلمان محتاج تھا اگر یہ شرط تھی تو اس کا ذکر مہر کے ذکر سے اولیٰ تھا۔جس کا کتاب اللہ میں ذکر ہے۔نکاح میں اعلان ہے جو دائما گواہی سے بے نیاز کر دیتاہے۔عورت مرد کے پاس ہوتی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس کی عورت ہے پس یہ اظہار ہمیشہ گواہی سے بے نیاز ہے۔جیسا کہ نسب ،تحقیقی بات یہ ہے کہ نسب محتاج نہیں ہوتاہے کہ کوئی گواہی دے کہ اس کی بیوی نے بچہ جنا ہے۔

کتاب الصداق :

مہر وہ مال ہوتا ہے جو عقد نکاح یا جنسی ربط کی وجہ سے کسی عو رت کا مرد پر واجب ہو تا ہے۔ اس حق کو یعنی حق مہر کو صداق ، صدقہ ، نخلہ ، امر فریضہ ، حبا ،عقر ،علائق ، طول اور نکاح کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

"المھر ھو المال الذی تستحقہ الزوجۃ علی زوجھا بالعقدعلیھا او بالدخول بھا حقیقۃ "۔[16]

تفردِ اول: عدم مہر کی شرط باندھنا (اشتراط عدم ا لمھر)

شریعت اسلامیہ میں یہ بات طے ہے کہ عقد نکاح محض عقد کا معاوضۃ نہیں ہے۔مہر کی بذاتہ ایک پر مصلحت اور حکمت ہے۔ اور حالت وقیعہ ہے۔نبی کریم ﷺ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مہر کے بغیر شادی کرے۔ مہر کی نفی کئیے بغیر مہر کے عدم ذکر سے صحت نکاح میں فرق نہیں آتا ہے۔ مگر اس صورت میں مہر مثلی واجب ہو گا ۔ اس صورت میں ابن تیمیہ کا قول یہ ہے کہ کتاب و سنت اور اجماع کے ثبوت کے مطابق فرض المھر کے بغیر نکا ح منعقد ہو جاتا ہے۔فرض المھر سے مراد یہ ہے کہ "ای بدون التقدیر"یعنی اس کو مقرر کیے بغیر جب کہ فرض ا لمھر کی نفی کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہو تا ہے ۔جس پر اسلامی فقہاء کا اتفاق ہے کہ عدم مھر کی شرط پرنکاح فاسد ہو گا۔عدم مہر کی شرط پر صحت نکاح کے بارے میں اختلاف ہے ۔ابن تیمیہ نے فساد نکاح کو اختیار کیا ہے۔

" والذی یثبت باالکتاب و السنۃ والاجماع ان النکاح ینعقد بدون فرض المھر ای بدون تقدیرہ لا انہ ینعقد مع نفیہ"۔[17]"ان یشترط ان ینزوجھا بلا مھر او بمھر محرم فھٰذا نکاح باطل "

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہؒ کا تفرد یہ ہے کہ بدون فرض مہر یعنی بدون تقدیرہ نکاح منعقد ہو جاتاہے۔ ہاں مہر کی نفی کے ساتھ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔علاوہ ازیں ابن تیمیہؒ کا اختیار یہ ہے کہ عدم مہر کی شرط اگرچہ اتفاق کے ساتھ فاسد ہے۔تو یہ شرط نکاح کی صحت میں بھی فساد پیدا کرتی ہے ایسی شرط کے ساتھ نکاح فاسد ہے۔اس تفرد پر آپ کی دلیل اول ہے کہ نکاح بیع کی طرح عقد معاوضہ اور مہر ثمن کی طرح ہے۔جس بیع میں ثمن نہ ہووہ صحیح نہیں ہے پس نکاح بھی مہر کے نہ ہونے کی شرط پر صحیح نہیں ہے۔

دلیل دوم یہ ہے کہ عدم مہر کی شرط باندھنا نکاح شغار کی طرح ہے اور یہ ممنوع ہے۔اصحاب رسول ﷺ نےاس سے بطلان ہی سمجھاہے۔عدم مہر کی شرط ایک علت تحریمی ہے پس اس طرح ہے جیسا کہ مہر کی نفی کی جارہی ہو۔

دلیل سوم یہ ہے کہ جس نے نکاح بغیر مہر کے کیا تو اس نے اللہ جل جلا لہ کے حلال کو نہیں کیا ہے۔جیسا کہ اللہ جل جلا لہ کا ارشاد ہے۔"واحل لکم ماورآ ء ذلکم ان تبتغو باموالکم محصنین غیر مسافحین"۔[18]

تفردِ دوم: مہر حلال بنایا اور حرام ظاہر ہوا (اذا جعل صداق الزوجۃ حلالا فبان حراما)

صورت مسئلہ یہ ہے کہ بوقت نکاح مہر باندھا گیا اور وہ صداق حلال ہی باندھا گیا ۔اخذ صداق کے وقت وہ صداق حرام ظاہر ہو ا۔اس بارے میں ابن تیمیہ کے نزدیک ایسے مسائل میں اس کے ذمہ کوئی شے لازم نہیں آئیگی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ حق مہر غلا م کے متعلق باندھا گیا تھا ۔ جبکہ وہ حر آزاد نکلا تو ا یسی صورتوں میں کچھ لازم نہیں آئے گا ۔"وعند الشیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ : لایلزمہ فی ھٰذا المسائل شیء "[19]

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک یہ تفرد ہے کہ حلال مہر کا کہا گیا اور حرام ظاہر ہوا اس تفرد پر آپ کے نزدیک خاوند پر کچھ لازم نہیں آئے گا۔ابن تیمیہؒ کے ہاں اس قول کی بابت کوئی تصریحات ہاتھ نہیں آتی ہیں۔ جس سے واضح ہوجائے کہ اس مسئلہ میں آپ کے دلائل کا وزن کیا ہے۔کیونکہ یہ بات بعید ازوقیاس نظر آتی ہےکہ فساد مہر کے ظاہر ہونے کے بعد بھی شوہر پر کوئی شے لازم نہ آئے۔ایک احتمال کو بطور دلیل پیش کیا جاسکتاہے کہ شاید ابن تیمیہؒ کا مقصد اور مقصود یہ ہے کہ صداق میں وجود عیب کی وجہ سے نکاح فسخ ہوگیا ہے۔اور جب نکاح کا فسخ واضح ہو جاتا ہے تو پھر فسخ کی صورت میں خاوند پر کچھ لازم نہیں آئے گا۔ہاں دوسری مرتبہ نکاح ہوجائے تو عیب سے سالم نیا مہر شوہر کے ذمہ لازم ہوگا۔

تفردِ سوم: عیبی مہر کی وجہ نکاح کا فسخ (فسخ النکاح بالعیب فی المھر)

ایک مقررہ اور متعیہ حق مہر باندھا گیا ۔جب شوہر نے اپنی بیوی کیلئے حق مہر کو خرچ کیا تو اس میں کوئی عیب ظاہر ہو گیا۔ اس صورت میں بیوی اس عیب کی وجہ سے فسخ نکاح کی مالک و مختار ہے یا نہیں ہے؟ اس بابت ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار یہ ہے مہر میں عیب کی موجود گی کی وجہ سے فسخ نکاح کی مالک ہے ۔جب عقد فاسخ ہو جائے گا تو شوہر کے ذمے کوئی شی لازم نہ ہوگی ۔زرکشی حنبلی (772ھ) لکھتے ہیں۔

"ابو العباس رحمۃ اللہ علیہ فی بعض قواعد ہ ینازع فی ھٰذا الاصل ویختار ان للمراءۃ الفسخ کما للبائع والمؤجر الفسخ مع العیب"[20]

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہؒ کا تفرد ہے کہ عیبی مہر کی وجہ سے عورت فسخ نکاح کا اختیار رکھتی ہے۔ مہر باندھاگیا غلام کا اور وہ آزاد ثابت ہوا یا مہر مال معضوب ہے۔ اس مسئلہ میں ابن تیمیہؒ نے اپنے دلائل میں دلیل اول میں قیاس سے کام لیتے ہیں۔یہ مسئلہ بیع پر قیاس ہے جب مبیع میں عیب پایا جائے مشتری فسخ بیع کا مالک اسی طرح عورت کو بھی حق ہے کہ اپنے مہر میں عیب کے وجود پر نکاح فاسخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

دلیل دوم ابن تیمیہؒ مہر کے باپ میں متشدد ہیں اور اس کو بیع کے برابر برابر مقام دیتے ہیں۔تو بیع اور مبیع کے تناظر میں مشتری والا معاملہ کار فرما ہے اور فسخ کا اختیار دیا جاتاہے۔

تفردِ چہارم: زنا پر مجبور عورت کا مہر (مھر المکرھۃ علی الزنا)

اسلام کے فقہاء علیہم الرحمۃنے باب مہر میں بہت سارے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ جس کا مقصد وحید یہ ہے کہ عورت کے لئے وہ شی ضروری ہو جائے جس سے اس کے حفظ حقوق اور صیانت بضع کا ایک سامان وافر تیار ہو جائے ۔جس سے وہ اپنے آپ کو محفوظ اور محصور فضاء میں تصور کرے۔ انہیں مسائل میں سے اس عورت کے مہر کا مسئلہ بھی ہے۔ جس کو زنا پر مجبور کر دیا گیا ۔صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایسے زانی پر مزنیہ کیلئے مہر واجب ہے یا نہیں ہے ؟ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار یہ ہے کہ عدم وجوب مہر ہے۔

"ولا یجب المھر للمکرھۃ علی الزنا وھو روایۃ عن احمد ومذھب ابی حنیفۃ واختیار ابی البرکات"۔[21]

دلائلِ ابن تیمیہ:

جس عورت کو زنا کرانے پر مجبور کردیا گیا تو اس کے لیے عدم وجوب مہر کےقول پر ابن تیمیہؒ نے مطلق قول اور تفرد اختیار کیا ہے اور اس میں باکرہ اور ثیبہ کا کوئی فرق اور لحاظ نہ رکھا ہے۔دلیل اول ابی مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔"ان رسول اللہ ﷺ نھی عن ثمن الکلب ومھر البغی وحلوان الکاھن"[22]

دلیل دوم رسول ﷺ سے رافع بن خدیج روایت کرتے ہیں۔

"ثمن الکلب خبیت ، ومھر البغی خبیت وکسب الجام خبیت"[23]

ان احادیث سے استدلالی طور پر ثابت ہوا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے زانیہ کے مہر سے منع فرمایا ہے اور اس مہر کوخبیت کے نام سےموسوم کیا ہے۔تو اس بات کی صراحت کے ساتھ دلالت اور توضیح وتشریح ہے کہ زنا کا عوض نہیں ہوتاہے۔

کتاب الرضاع :

رضاع یا رضاعۃ مصدر ہے۔ جودودھ پینے کے معنیٰ میں مستعمل ہے۔ اور باب افعال کا معنی دودھ پلانا ہے ۔کبیر کو دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہو تی ۔"ان رضاع الکبیرلا یحرم"۔[24]اصطلاحی طور پر رضاعت سے مراد عورت کے پستان سے بچے کا مخصوص وقت میں چوس کر دودھ پینا ہے ۔رضاعت سے مسائل شرعیہ کی حلت و حرمت میں کافی عمل دخل ہے۔

تفردِ اول: رضاع اور تحریم مصاہرت کا ثبوت : (ثبوت تحریم المصاھرۃ بالرضاع)

اللہ جل جلا لہ نے بوجہ مصاہرت چار عورتوں کو حرام فرمایا ہے ۔"زوجۃ الاب۔زوجۃ الابن۔ ام الزوجۃ ۔ اور بنت الزوجۃ "جو مدخول بھا ہے ۔اب ابن ، ام الزوجۃ اور اسکی بنت نسب سے ہوں تو ان کے درمیان میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔لیکن ابوت ، بنوت اور امومت جہت نسب سے نہ ہو بلکہ جہت رضاعت سے ہو تو اہل علم میں اختلاف وقوع پذیر ہو ا ہے ۔ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار اس بابت بالکل واضح ہے کہ تحریم با لمصاہرت ر ضاعت سے ثابت نہیں ہوتی ہے ۔آدمی پر اس کی بیوی کی رضاعی ماں اور رضاعی بیٹی سے نکاح حرام نہیں ہے۔اور نہ ہی عورت پر اپنے خا وند کا رضاعی باپ اور بیٹا حرام ہے ۔اور یہ تفرد جمہور کے خلاف ہے ۔"وتحریم المصاھرۃ لایثبت بالرضاع "[25]

دلائلِ ابن تیمیہ:

رضاعت سے ثبوت تحریم مصاہرت کے عدم ثبوت کے تفرد پر دلیل اول میں اللہ جل جلا لہ کے قول "واحل لکم ماورآء ذالکم "[26]سے استدلال ہے کہ اس آیت میں زوجۃ الاب من الرضاعۃ ، یا زوجۃ الابن،یا ام الزوجۃ من الرضاعۃ یا اسکی بیٹی کی تحریم پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔

تفردِ دوم: وطیء محرم کا تحریم مصاہرت میں اثر (اثرا لوطء المحرم فی التحریم بالمصاھرۃ)

فقہاء کا اتفاق ہے کہ حلال وطی ء کے ساتھ تحریم مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کرلی تو اس کی ماں اس مرد پر حرام ہو جائیگی اور وہ عورت اپنے خاوند کے باپ اور بیٹے پر حرام ہو جا ئے گی۔"وکذالک تحرم علیہ بنتھا ان کان قد دخل بھا"۔یہ صورت حال وطیء حلال کی ہے ۔محل اختلاف یہ ہے کہ کیا محرم وطیء تحریم مصاہرت کے ثبوت میں موثر ہے یا نہیں ہے۔جیسے کسی نے ایک عورت سے زنا کیا (اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے اپنی پناہ میں رکھے )۔کیا اسکی ماں اور بیٹی اس پر حرام ہو جائےگی اور وہ عورت زانی کے باپ اور بیٹے پر حرام ہو جائے گی ؟ ابن تیمیہ کا تفرد اور اختیار یہ ہے کہ حرام و طیء تحریم مصاہرت میں مؤثر نہیں ہے ۔"ان الوطء الحرام لا ینشر تحریم المصاھرۃ "

دلائلِ ابن تیمیہ:

محرم وطی کا تحریم مصاہرت میں مؤثر نہ ہونے کے تفرد پر دلیل اول حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مرفوع روایت ہے کہ"لا یحرم الحرام الحلال[27]"وجہ استدلال واضح ہے کہ یہ مذکورہ قاعدہ حرام وطی کی عدم تاثیر کا فائدہ دیتا ہے

دلیل دوم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا ۔جس نے اپنی ساس اور اس کی بیٹی سے زنا کیا۔"جاوز حرمتین الیٰ حرمۃ وان لم تحرم علیہ امراءتہ"[28]وجہ استدلال یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے تحریم مصاہرت میں حرام وطی کے اثر کا اعتبار نہیں کیا ہے۔

دلیل سوم قیاس کا تقاضایہ ہے کہ حرام وطی سے موطؤۃ فراش (بیوی ) نہیں بنتی۔ اس لئے حرمت بھی نشر نہیں ہوتی ہے ۔

دلیل چہارم اجماع ہے کہ مزنیہ کا نکاح زانی پر حرام نہیں ۔جب وہ استبراء حاصل کرلیتی ہے تو اس بنا پر اس کی ماں اور بیٹی کا نکاح بطریق اولیٰ جائز ہو نا چاہیئے ۔

تفردِ سوم: رضاعت کے ساتھ جمع کرنا (الجمع من الرضاع)

اللہ جل جلا لہ نے بیک وقت دو بہنوں کو جمع کرنا حرام فرمایا ہے اوراسی طرح بیوی اور اس کی پھوپھو کو اور بیوی اور بیوی کی خالہ کو بیک وقت جمع کرنا حرام فرمایا ہے۔ ا ن سب کے درمیان نسبی صلہ اور رشتہ ناتا ہے۔اختین دو بہنیں نسب سے ہوتی ہیں۔بیوی اور بیوی کی پھو پھو بھی نسب سے ہوتی ہیں۔کیا یہ تحریم اس صلہ کو بھی شامل ہے ۔جنکے درمیان یہ صلہ اور رشتہ رضاعت کی وجہ سے ہو۔ نسب کی وجہ سے نہ ہو ۔جیسے دو رضاعی بہنیں اور رضاعی بیوی اور بیوی کی پھو پھو اس مذکورہ صورت حال میں ا بن تیمیہ کا تفرد اور اختیار یہ ہے ۔رضاعت کی وجہ سے دو عورتوں کے درمیان رشتہ ناتا ہو تو ان کو جمع کرنا جائز ہے ااور یہ جمہور کے خلاف ہے۔

"وتوقف فیہ شیخنا وقال :ان کان قد قال احد بعدم التحریم فھو اقویٰ"۔[29]

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہؒ کا اختیار اور تفرد یہ ہے کہ رضاعت کی وجہ سے دو عورتوں کے درمیان رشتہ ناتا ہو تو ان کو جمع کرنا جائز ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اصل میں اصل حلت ہے اور اس کے منع پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے۔ جب دلیل کی اقامت نہیں ہے تو اصل اپنی اصل یعنی حلت پر رہ جا ئے گی۔ اس پر نص ہے کہ جس کا ذکر نہیں کیا گیاہے۔ وہ درجہ اباحت پر ہے۔الجمع مع الرضاع کو بھی اللہ جل جلا لہ نے محر مات میں سے شمار نہیں کیا ہے ۔تو اس کا جواز واضح ہو گیا ہے ۔اللہ جل جلا لہ کا ارشاد ہے۔"واحل لکم ما ورآءذالکم"[30]

تفردِ چہارم: وقت رضاعت جس سے محرمیت ثابت ہوتی ہے (وقت الرضاع الذی تثبت بہ المحرمیۃ)

طفل صغیر کو دود ھ پلانے میں محرمیت کے ثبوت کے لئے وقت معتبر میں اختلاف ہے ۔کہ وہ بچے کی اول عمر کے دو سال ہیں یا وہ وقت فطام کی طرف معتبر ہے۔ برابر ہے کہ وہ دو سال بعد ہو یا وہ دو سال قبل ہو رضاع محرم کے وقت کے لئے کچھ قول ہیں۔ 1۔ دوسال میں ہو اور فطام کا اعتبار نہیں ہے۔ 2۔ تیس مہینے ہیں ۔ 3۔ دوسال ہیں اگر دو سال سے قبل فطام ہو گیا تو پھر فطا م کا وقت بھی معتبر ہو گا ۔ابن تیمیہ کا تفرد یہ ہے کہ رضاع محرم کے وقت قبل الفطام ہے۔حولین کا اعتبار نہیں ہے۔

"والارتضاع بعد الافطام لا ینشر الحرمۃ ، وان کان دون الحول "[31]

دلائلِ ابن تیمیہ:

رضاعت کی محرمیت کا وقت قبل فطام ہے۔ حولین کا اعتبار نہیں ہے ۔ابن تیمیہؒ نے اپنی دلیل میں آپ ﷺ کے قول سے استدلال فرمایاہے۔"ولا یحرم من الرضاعۃ الا ما فتق الامعاء فی الثدی وکان قبل الفطام"[32]

اس حدیث سے وجہ استدلال مطلقا واضح ہے کہ قبل الفطام کا تقاضا یہ ہے کہ رضاعت بحد الفطام معتبر ہے نہ کہ حولین کے ساتھ معتبر ہے۔

تفردِ پنجم: کبیر کو دودھ پلانے کا اثر (اثر رضاع الکبیر)

عورت بڑے شخص کو دودھ پلائے تو اس شخص کی ثبوت محرمیت میں اختلاف ہے اور یہ اس طرح ممکن اور مقصود ہے کہ برتن میں اس کے لئے دودھ لا یا گیا ہو اور اس نے وہ دودھ نوش کر لیا ۔ تو اس بابت مطلقا محرمیت کا قول ہے ۔احتیاج اور بلا احتیاج کی کوئی قید نہیں ہے۔ اور آئمہ اربعہ کا مذہب ہے ۔ ابن تیمیہ کے نزدیک بوقت ضرورت و حاجت محرم بنانے کے لئے جائز ہے بلا ضرورت و حاجت جائز نہیں ہے۔"فیجوز ان احتیج الیٰ جعلہ ذامحرم، او کبیر لحاجۃ نحو جعلہ محرما "۔[33]

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہؒ نے تفرد اوراختیار اختیار کیا ہے کہ اگر بڑے آدمی کو دودھ پلانے سے حاجت و ضرورت یہ ہے کہ اس کو محرم بنا لیا جائے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے ۔

دلیل اول سھلہ بنت سھیل کی حدیث ہے جس کو نبی کریم ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ سالم کو دودھ پلادے جو اس کے خاوند کا مولیٰ تھا ۔اور آ پ کے خاوند کا نام ابی حذیفہ ہے اور وہ سالم جو داڑھی والے بڑے آدمی تھے۔ اس کے بارے میں فرمایا۔"ارضعیہ تحرمی علیہ"[34]

وجہ استدلال یہ ہے کہ اس مذکورہ حدیث میں بوجہ حاجت و ضرورت دودھ پلانے کا حکم دیا تاکہ سالم کا کثرت سے ان کے پاس آنا جانا درست ہو جائے پردہ و حجاب کی مشقت رفع ہو جائے۔

کتاب النفقات :

اللہ جل جلا لہ نے مرد و زن کو نکاح کے بعد ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے ۔اور کار ہائے حیات کو رواں دواں ر کھنے کے لئے شوہر پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ اکل و شرب ، مکان و رہائش اور لباس کا سامان کرے ۔اور اس کے لئے نان و نفقہ کے ساتھ انتظام و انصرام کرے جو ان جیسی چیزوں کی احتیاج کی مصلحت پر ہو۔"یلزم الرجل نفقۃ زوجتہ قوتا و وکسوۃ وسکنیٰ بما یصلح لمثلھا"۔[35]

تفردِ اول: شوہر کا اپنی زوجہ کو نفقہ تملیک کرنے کا حکم (حکم تملیک الزوج للنفقۃ لزوجتہ)

شریعت اسلامیہ نے زوج پر مقرر اور ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے۔ اور وہ اس خرچ کرنے میں بخل سے کام ہرگز نہ لے ۔ اس انفاق (خرچ) کی کیفیت میں علماء کا اختلاف وقوع پذیر ہوا ہے ۔مذاہب اربعہ کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ خاوند پر نان و نفقہ کی تملیک واجب ، ضروری اور لازم ہے کہ یومیہ ، ماہانہ یا باہمی اتفاق سے وہ نان و نفقہ کو اس کے لئے ضروری قرار دے ۔ ابن تیمیہ تملیک کی طرف نہیں گئے ہیں بلکہ ان کے نزدیک دستور اور عادت کے مطابق خرچ کرنے کو اظہر قرار دیتے ہیں۔

"والا ظھر انہ لایجب ، ولایجب ان یفرض لھا شیئا بل یطعمھا ویکسوھا بالمعروف"۔

"ولا یلزم الزوج تملیک الزوجۃ النفقۃ بل ینفق و یکسو بحسب العادۃ "۔[36]

دلائلِ ابن تیمیہ:

نان ونفقہ کی تملیک کے فرض واجب اور ضروری قول کے بر عکس ابن تیمیہ کے نزدیک تملیک لازم و ضروری نہیں ہے۔ بلکہ شوہر کو عرف وعادت اور دستور زمانہ کے مطابق خرچ کرنا لازم وضروری ہے۔دلیل اول اللہ جل جلا لہ کا قول ہے۔"وعلی المولود لہ ، رزقھن و کسوتھن بالمعروف "[37]

دلیل دوم رسول کریم ﷺ کا زوجات کے بارے میں قول ہے۔"خذی ما یکغیک وو لدک بالمعروف"[38]

دلیل سوم"ولھن علیکم رزقھن وکسوتھن باالمعروف"[39]ان جیسی دیگر نصوص میں معروف اور عادت وعرف کے مطابق خرچ کا ذکر ہے اور ان میں تملیک کا امر نہیں ہے۔

دلیل چہارم عدم تملیک مسلمانوں کی عادت اور ان کا یہ عمل قرون اولیٰ سے اب تک جاری ہے۔ کوئی آدمی حیطہ معلومات میں نہیں آیا ہے جو اپنی بیوی کے لیے نان ونفقہ فرض اور تملیک کر دیتا ہے۔

تفردِ دوم: تسلیم نفقہ میں زوجین کا اختلاف (اختلاف الزوجین فی تسلیم النفقۃ)

تسلیم کے معاملہ میں میاں بیوی کا اختلاف ہوجاتا ہے۔ شوہر کہتا ہے کہ میں نے نان و نفقہ بیوی کو سپرد کر دیا ہے۔ جبکہ بیوی اس کی انکاری ہے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ زوجین میں سے کس کے قول کو قبول کیا جائے ۔جبکہ شہادت کا بھی دور دور تک نام و نشان بھی نہیں ہے ۔اہل علم کا قول ہے یمین کے ساتھ شوہر کی بات کو تسلیم کیا جا ئے گا جبکہ ابن تیمیہ کے نزدیک عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ عرف جس کی شہادت دے خاوند کی دے یا بیوی کی اجازت دے یمین کے ساتھ قبولیت میں لے لیا جائے گا ۔

"واختار الشیخ تقی الدین فی النفقۃ ان القول قول من یشھد لہ العرف " "والعادۃ "[40]

دلائلِ ابن تیمیہ:

سپردگی نفقہ میں بیوی منکرہ ہے تو ابن تیمیہؒ کے اختیار کے مطابق عرف کا اعتبار ہوگا۔عرف جس کی شہادت دے گا خواہ وہ خاوند ہو یا بیوی تو ا س کو یمین کے ساتھ قبول کر لیا جائے گا۔

دلیل اول یہ ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اور تابعین کے زمانہ سے زوجہ کے قول کی قبولیت شہرت اور نقل کی صورت منقول میں نہیں ہے۔

دلیل دوم یہ ہے کہ اگر مطلقا زوجہ کے قول کو قبول کیا جائے تو شوہر کے لیے نان ونفقہ کی سپردگی پر شہادت کی ضرورت ہو گی۔اور یہ بات معلوم ہے کہ سلف صالحین کے زمانہ سے مسلمانوں نے ایسا کوئی طریق اختیار ہی نہیں کیا ہے پھر یہ تعذر اور مشکل گھاٹی بھی ہے۔

دلیل سوم زوجہ کے قول کو مطلقا قبول کیا جائے تو اس زوج کا ضرر بھی ہے اس لیے کہ وہ مدت طویلہ کے دعویٰ کے ساتھ نفقہ کی عدم تسلیم کا قول بھی تو کرسکتی ہے۔

دلیل چہارم زوجہ اپنے زوج کی پاس ایک امانت ہوتی ہے اور اس کی تعلیم وتربیت اور ادب وآداب زوج کے ذمہ ہے اور اس کی ولایت کا حق بھی اسی کے پاس ہے۔تو اس بات کی دلالت ہے کہ انفاق کے معاملہ میں زوج کے قول قبول کیا جائے۔جیسا کہ یتیم کے انفاق میں ولی کے قول کو قبول کیا جاتا ہے اور مال شرکت میں شریک کے قول کو قبول کیا جاتا ہے۔

دلیل پنجم عادت جاری وساری ہے کہ خاوند اپنی زوجہ پر خرچ کرتا ہے۔تو جہت خرچ کا علم زوج کو ہوتا ہے تو اس صورت میں زوجہ کا قول کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

تفردِ سوم: غیر وارث ذوی الارحام پر نفقہ کا وجوب (النفقۃ علیٰ ذوی الارحام غیر الوارثین)

گردش ایام کی وجہ سے کبھی کبھی انسان کو نشیب و فراز کی وادیوں کو بھی طے کرنا پڑتا ہے۔اور وہ نان و نفقہ کا محتاج ہوجاتا ہے اور قریبی لوگ ہوں یا اصحاب فرائض اور عصبات کوئی بھی نہیں بھٹکتا ہے اور مونس جاں ہو کر غم خواری نہیں کرتا ہے۔ جبکہ ذوی الارحام میں سے ماموں اور بھانجا قریب پائے ہیں تو اس مقام پر علماء کا اختلاف ہے ۔مشہور مذہب حنابلہ یہ ہے کہ نفقہ ذوی الارحام پر مطلقا واجب نہیں ہے۔جبکہ ابن تیمیہ نے ان کے لئے مطلقا واجب قرار دیا ہے ۔اگر چہ وہ وارث نہیں ہیں۔"واختارالشیخ تقی الدین الوجوب ،لا نہ من صلۃ الرحم وھو عام"[41]

دلائلِ ابن تیمیہ:

گردش ایام کی وجہ سے جب نان ونفقہ کی عطا میں کوئی قریب نہیں بھٹکتا تو ابن تیمیہؒ کے تفرد میں غیر وارث ذوی الارحام پر نان ونفقہ کو مطلقا واجب قرار دیا گیاہے۔دلیل اول اللہ جل جلا لہ کا قول ہے۔

"واو لو الارھام بعضھم اولیٰ ببعض"[42]ذوی الارحام ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں جس سے نفقہ کے وجوب پر دلالت ہے۔

دلیل دوم اللہ جل جلا لہ کا قول ہے۔"واٰت ذالقربی حقہ"[43]ذوی القربی قرابت میں سے ہیں حق دینے کا حکم ہے۔ نفقہ دینا بھی ان کے حق میں سے ہے۔

دلیل سوم آپ ﷺ سے پو چھا گیا کی نیکی کا حقدار زیادہ کون ہے تو آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا۔" امک" (تیری ماں )۔"ثم من قال اباک ثم الاقرب فالا قرب"[44]اس حدیث میں اقارب سے نیکی کا حکم ہے تو نفقہ کی ذمہ داری بھی ان پر ہے۔اور یہ حدیث عام ہے تخصیص نہیں ہے تو ذوی الارحام بھی شامل ہیں۔

تفردِ چہارم: دودھ پلانے پر اجرت (حکم اخذ الام اجرۃ علی ارضاع ابنھا مع وجود متبرعۃ)

بیوی کی گود میں دودھ پیتا بچہ رونق کو دوبالا کیئے ہوئے ہے ۔اس بچے کو دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ کرتی ہے۔جو نفقہ سے زائد ہے۔باوجود یہ ہے کہ اس کے مقابل ایک ایسی عورت بھی موجود ہے جو بغیر اجرت کے ارضاع پر راضی ہے۔ اس صورت میں اہل علم کا نفقہ سے زائد اجرت کی احقیت پر اختلاف ہے ۔ماں نفقہ سے زائد اجرت کے اخذ کی مستحق ہے؟ اور وہ مفت دودھ پلانے والی سے زیادہ حقدار ہے ؟جبکہ ابن تیمیہ کے نزدیک وہ اجرت زائدہ کی مستحق نہیں ہے اور اپنے بیٹے کو دودھ پلانا اس کے لئے لازم ہے۔

"للمرضعات رزقھن وکسوتھن بالمعروف ، لازیادہ علی ذالک"[45]

دلائلِ ابن تیمیہ:

تبرعا ًدودھ پلانے والی عورت موجود ہے جبکہ بچہ کی ماں نفقہ سے زائد دودھ پلانے کی اجرت کا بھی مطالبہ کرتی ہے، تو ابن تیمیہؒ نے یہ تفرد اختیار کیا ہے کہ وہ زائد اجرت کی مستحق نہیں ہے۔اور اپنے بچے کو دودھ پلانا اس پر لازم و ضروری ہے۔دلیل اول اللہ جل جلا لہ کا قول ہے۔

"والو لدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ وعلی المولود لہ رزقھن و کسوتھن باالمعروف"[46]

اللہ تعالیٰ نے اپنی اولاد کو دودھ پلانے کا حکم دیا ہے۔ نفقہ معروفہ کے سوا کچھ واجب نہیں کیا ہے۔اجرت امر زائد ہے۔جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔

دلیل دوم اللہ جل جلا لہ کا قول ہے۔"لا تضار والدۃ بو لدھا"[47]

ماں کو سبب ضرر بننے سے منع کیا گیا ہے۔اپنی اولاد کے ذریعے سے اجرت زائدہ کا مطالبہ اور وہ بھی نفقہ کے اوپر زائدہ اسی ضرر سے ہے۔

دلیل سوم اللہ جل جلا لہ کا قول ہے۔

"وان تعاسرتم فستر ضع لہ اخری "[48]مسئلہ رضاع میں اختلاف کی صورت میں باپ اپنی اولاد کو کسی اور عورت سے دودھ پلانے کا حق رکھتا ہے۔دودھ پلانا بھی اجرت زائدہ بھی ایک نزاعی صورت ہے۔

دلیل پنجم اولاد کو دودھ پلانا مواسات کے حقوق سے ہے۔ تبرعا ًجو باپ سے ساقط ہو جاتے ہیں۔

کتاب الحضانۃ :

تفردِ ابن تیمیہ: خالہ اور عمہ کے درمیان ترتیب احقیقت (ترتیب احقیۃ الحضانۃ بین الخالۃ والعمۃ)

"حضانۃ "کا لفظ مصدر ہے ۔جو پرورش کرنا اور گود میں لینا کے معانی میں مستعمل ہے ۔الحض ، گود اور الحاضنۃ ،بچے کی پرورش کرنے والی دایہ کو کہتے ہیں۔جو اپنے معاملہ میں اپنی تربیت اور مہلک اور ضرر رساں اشیاء سے اپنے بچاؤ میں مستقل نہیں ہے ۔اس کی حفاظت کرنا حضانت کہلاتا ہے ۔"ھی القیام بحفظ من لایمیز ولا یستقل بامرہ و تربیتہ لما لصلحۃ وقامیتہ عما یؤذیہ"۔[49]

تنازع کی صورت میں حضانت طفل کی ترتیب احقیت میں اختلاف ہے کہ اخت الام (خالہ )اور اخت الاب ،(پھو پھو) میں سے زیادہ حقدار کون ہے۔ مذاہب اربعہ کے مطابق خالہ عمہ سے زیادہ حقدار ہے۔جبکہ ابن تیمیہ کے نزدیک عمہ جو ہے وہ خالہ پر تقدم اور زیادہ حق رکھتی ہے۔"والعمۃ مقدمۃ علی الخالۃ" ، "والعمۃ احق من الخالۃ"۔[50]

دلائلِ ابن تیمیہ:

ابن تیمیہؒ کے نزدیک حضانت اولاد کی بابت عمہ کو خالہ پر زیادہ حق ہے۔دلیل اول یہ ہے شرع کے اصول وقواعد کے مطابق باپ کے اقارب ماں کے اقارب پر حکم تقدم رکھتے ہیں۔جس کی نظیر میراث نکاح اور موت کی ولایت میں پائی جاتی ہے۔اس اصول کے مطابق عمہ کو خالہ پرحق تقدم حاصل ہے اور اس کا نافی اس اصول سے خارج ہو رہا ہے۔

دلیل دوم باپ کے رشتہ دار اولاد پر زیادہ شفیق ورحیم ہوتے ہیں۔جبکہ بچہ انہی کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ وہ اس پر خرچ کرتے ہیں۔اس کی طرف سےدیت بھی دیتے ہیں۔ عصبہ بھی بن جاتے ہیں۔بنا براین اصل عمہ کو خالہ پر حق تقدم حاصل ہے۔

دلیل سوم ماں کی باپ پر تقدیم مضانت کی بابت اس وجہ سے ہے کہ وہ عورت ہے۔کسی اور حجت سے تقدیم حاصل نہیں ہے۔اگر اور جہت راجح ہوتی تو عورتوں کو رجال پر راجحیت حاصل ہوتی ہے اور باپ کی طرف سے عورتیں ماں کی طرف سے عورتوں پر فضیلت پاتیں۔حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے اور یہ اس بات کی دلالت ہے کہ جہت اب اقوی ہے اور اسی طرح عمہ خالہ سے حضانت کی بابت زیادہ حقدار ہے۔

مسئلہ استلحاق

ایک آدمی کسی عورت سے ( معاذ اللہ ) زنا کرتا ہے تو اس زنا کے عمل سے عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے اور یہ زانی دعویٰ کرتا ہے کہ یہ میرا نطفہ ہے۔ کیا اس بچہ کو اس زانی کی طرف ملحق الحاق کردیا جا ئے گا اور یہ بچہ اس زانی کی طرف منسوب کیا جا ئے گا ؟زنا کی پیداوار کے استلحاق اور نسبت میں شریعت مطہرہ کے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ اس بات پر اتفاق و اتحاد ہے کہ زانیہ جب فراش اور بیوی ہو پھر اس کا بچہ زانی کے ساتھ الحاق نہیں کیا جا ئے گا ۔اگر چہ وہ استلحاق کا دعوی کیوں نہ کرے اور نہ ہی اس کی طرف منسوب کیا جا ئے گا بلکہ زانیہ کے خاوند کی طرف اس کی نسبت کو یقینی بنایا جا ئے گا ۔ اختلاف اس بابت ہے کہ زانیہ فراش اور زوجہ نہیں ہے۔ بچہ کی ماں ہے پھر زانی استلحاق کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس بابت جمہور فقہاء یعنی آئمہ ار بعہ کا مذہب اور مؤقف یہ ہے کہ ولد الزنا کو زانی کے ساتھ ملحق نہیں کیا جا ئے گا ۔جب وہ استلحاق کا دعوی کرے جبکہ اس رائے کے خلاف میں ابن تیمیہؒ کا تفرد اور اختیار یہ ہے کہ استلحاق کی وجہ سے ولد الزنا کو زانی کے ساتھ ملحق کردیا جائے گا ۔

ذیل میں جمہور فقہاء کے مذاہب ،دلائل اور جوابات و مناقشات ،ابن تیمیہ ؒ کے دلائل اور جوابات ومناقشات اور آخر میں ترجیحات زیب قرطاس ہیں۔حنابلہ ،شوافع ، مالکیہ اوراحناف کا اتفاق مذکور ہوا۔[1] الکاسانی حنفی رقمطراز ہیں۔

"اذازنیٰ رجل بامراءۃ فجاءت بولد و ادعاہ الزانی لم یثبت نسبہ منہ لانعدام الفراش"[2]

جمہور فقہاء نے اپنے دلائل میں حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ۔جس میں آپ ﷺ نے فرمایا۔

"الولد للفراش وللعاھر الحجر "۔[3]اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں منقول ہیں ۔

"الولد لصاحب الفراش" ۔

اس حدیث کا معنی ہے کہ بچہ صاحب فراش یعنی شوہر کا ہو تا ہے۔اصل میں فراش کا اطلاق بیوی پر کیا جاتا ہے۔ زانی کے لئے حجر پتھر اور کنکر ہیں۔ اس کا بچے میں کوئی حق نہیں ہے۔عرب کی عادات میں سے ہے جب کسی شخص کا حق نہ ہو اس کے لئے " لہ الحجر"کا محاورہ استعمال کرتے ہیں۔[4] اس حدیث میں صراحت کے ساتھ دلالت ہےکہ رسول اللہﷺنے بچہ صاحب فراش کا قرار دیا ہے ۔جو زوج ہے۔ اور اس میں زانی کے لئے نفی ہے۔کیونکہ وہ اس کا فراش نہیں ہے ۔معلوم ہوا جب وہ استلحاق کرے تو بچہ اس کے ساتھ ملحق نہیں کیا جا ئے گا ۔یہ نقض وارد کیا گیا ہے کہ یہ تو اس وقت محمول ہوگا جب زانیہ فراش کی زوجہ اور صاحبہ ہو اور یہ محل خلاف نہیں ہے ۔اختلاف تو اس صورت میں ہے زانیہ زوجہ نہ ہو ۔"ھل من مبارز"۔

عبد اللہ بن عمرو کی حدیث میں ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کو کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک لونڈی سے میں نے زنا کیا تھا ۔آپ ﷺ نے فرمایا ،" وایما رجل عاھر بامۃ او امرائۃ فالولد ولد الزناولایرث ولایورث "۔[5]

اس حدیث میں بھی رسول کریم ﷺ نے نفی کی ہے کہ بچہ اس کا حق ہے جب وہ اس کا دعویٰ دار ہو ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا۔

"ومن ادعی ولدا من غیر رشدۃ فلایرث ولا یورث"۔[6]رشدۃ ، نکاح صحیح کو کہتے ہیں۔نکاح صحیح سے مولود کو"ولد رشدۃ "کہتے ہیں اور اس کامخالف اور متضاد" ولد زنیۃ "ہے۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ شارع نے مساعات کو باطل قرار دیا ہے مساعات کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ شخص زنا کرے اور ولد الزنا کا دعوی اور استلحاق کرے ۔جاہلیت میں اس کے علاوہ سب معا ف فرمادیا گیا ہے اور اس کے ساتھ نسب کو الحاق کردیا گیا ہے۔[7]

اس دلیل کے جواب میں کہا گیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس کی سند میں راوی کی جہالت ہے جو قابل احتجاج نہیں ہے ۔ثبوت حدیث کی صورت میں یہ حدیث لونڈیوں کے ساتھ خاص ہے۔ آزاد عورتوں سے تعلق نہیں رکھتی ہے ۔مناقشہ کی صورت میں جوابا عرض ہے کہ ایک محدث نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔[8] اور آپ کے پاس وجہ خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ حدیث لونڈیوں کے ساتھ خاص ہے بلا د لیل دعوی مردود ہو تا ہے۔

عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت کرتے ہیں ۔ "من ادعی ولد من امۃ لا یملکھا اومن حرۃ عاھر بھافانہ لایلحق بہ ولا یرث وھو ولدالزنا لاھل امہ من کانوا"۔[9]اس کی سند میں محمد بن راشد المکحول ضعیف ہے ۔علاوہ ازیں یہ حدیث اس بات پر محمول ہے جب زانیہ فراش اور زوجہ ہو اور یہ محل خلاف نہ ہے ۔اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ المکحول پر جرح تسلیم نہیں ہے۔ بعض علماء نے اس کو ثقہ اور اس کی احادیث کو حسن قرار دیا ہے۔[10]حدیث عام ہے فراش ہو یا نہ ہو آپ کا خاص کر نا بلا دلیل ہے۔ استلحاق کا قول کرنا کہ جب کسی عورت کے ساتھ زانی زنا کا اقرار اور اعتراف کر لیتا ہے کہ بچہ کو اس کے ساتھ ملحق کر دیا جا ئے اگر چہ اس نے دعوی نہ کیا ہو ۔ایسی بات ہے جو کسی نے نہیں کی ہے ۔

جمہور نے اپنے فقہاء میں سماج اور معاشرت کےتناظر میں قرآنی استدلال کے ساتھ دلیل دی ہے کہ زانی کے لئے نسب کا ثبوت فراہم کرنا ایک طرح فاحشہ کے لئے نمود و نمائش کا اظہار ہے اور اس بات سے منع کیا گیا ہے۔

اللہ جل جلا لہ کا قول ہے ۔ " ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین آمنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والآخرۃ "۔[11]

اس دلیل میں امعان نظر کیا جائے تو معلوم اور ظاہر ہوتا ہے کہ اس تعلیل میں مبالغہ کا عنصر غالب ہے ۔ ولد الزنا کے استلحاق یا عدم استلحاق کی صورت میں کوئی ا یسی بات نہیں ہے جس میں فاحشہ کی اشاعت کا سبب پایا جائے اور نہ ہی اشاعت اور لوازمات کے دواعی پائے جاتے ہیں ۔

جمہور نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ زنا ایک فاحشہ منکرہ ہے اور بہت بڑا اور گھناؤنا گنا ہ اور جرم ہے اور یہ جرم اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اثبات نسب جیسی بڑی نعمت کے لئے صحیح اور درست ٹھرے۔ بنا بر ایں اس جرم کی پاداش میں مجرم کو یہ سزا دی جائے کہ اثبات نسب کی نعمت سے اس کو محروم رکھا جائے۔

ابن تیمیہؒ نے زانی کے ساتھ استلحاق کے مؤقف میں اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں تین بچوں نے پنگھوڑے میں کلام کیا ہے اور بچے سے پوچھا گیا ۔"یاغلام من ابوک قال فلان الراعی"۔[12]اس حدیث کے مطابق زانی باپ ہوتا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے جب وہ استلحاق کرے تو ملحق کردیا جائے گا اس استدلال پر یہ نقض وارد ہے کہ آپ کا استدلال اسلام کی قبل کی شریعت سے ہے ۔اور شرائع قبل الاسلام سے احتجاج میں اختلاف ہے تو استدلال مختلف فیہ ہو گیا ۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ زمانہ جاہلیت میں زنا کی وجہ سے پیدا ہونے والی اولاد کا اسلام میں دعوی کی بنا پر استلحاق کردیتے تھے۔[13]اس کا جوا ب دیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فعل "بغایا فی الجاھلیۃ "کے بارے میں ہے ۔"العھار فی الاسلام"کی بابت نہیں ہے اور اس کے علاوہ ۔"العھار فی الجاھلیۃ" کا حکم"العھار فی الاسلام"کےحکم کے مقابلہ مین خفیف تھا تو یہ شبہ بھی تو لاحق ہو جاتا ہے اور شبہ کی بنا پر ولد کو ملحق کرنا جائز ہے اور اسلام میں ولد الزنا کے استلحاق کو جو زمانہ جاہلیت میں مشہور و معروف تھا اس کو منسوخ کردیا اور ایک صحیح طریقہ جاری کردیا جیسا کہ گزر چکا ۔

ابن تیمیہ ؒنے اپنے تفرد اور مؤقف پر ایک قیاسیی دلیل دی ہے کہ قیاس صحیح ولد الزنا کے استلحاق کی صحت کا تقاضہ کرتا ہے۔ مستلحق ایک زانی ہے اور ام ولد الزنا بھی ایک زانی ہے۔ اگر ولدالزنا کو ماں سے ملحق اور منسوب کردیا جائے تو وہ ایک دوسرے کے وارث ہو نگے۔بچے اور اس کی ماں کے رشتہ داروں کے درمیان نسب ثابت ہو گا ۔ یہی معاملہ زانی کے ساتھ بھی ہو گا تو کیا قباحت ہے کہ زانیہ ماں کے ساتھ الحاق کے قیاس پر اس کو زانی باپ کے ساتھ ملحق کردیا جائے ۔

اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے ولادت کے ذریعے سے ماں کی طرف ولدالزنا کا نسب ثابت اور متحقق ہے۔ باپ کی طرف سے متحقق نہیں ہے کیونکہ اس کے لیئے زوجیت کا ثبوت درکار ہے اور جو موجود نہیں ہے۔ماں کے ساتھ لاحق کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ماں ہونے میں شک کا وجود نہیں ہے۔جب کہ مستلحق زانی کی ابوت میں احتمال ہے کہ اس کا باپ ہے اور وہ اس کے مادہ تولید سے پیدا ہوا ہے اور یہ احتمال بھی موجود ہے کہ وہ سرے سے اس کا باپ ہی نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس زانیہ نےبہت سارے شخصوں سے زنا کرایا ہوتو اعتباریت کا فقدان ہے۔

اس قیاسی دلیل کی طرح زانی کو ملا عن پر قیاس کیا گیا ہے۔جب ملا عن اپنی زوجہ سے استلحاق کا دعوی کرے اور اس نے اسی کو لعان بھی کر لیا تھا تو اس نے اعتراف کر لیا تھا پھر یہ معاملہ منتفی ہو جاتا ہے پھر اس کے ساتھ ملحق کر دیا جاتا ہے اور انتفاء کو قبول نہیں کیا جاتا ہے ،یہی حالت زانی کی ہے کہ وہ بھی زنا سے بچہ کے استلحاق کا دعوی کر رہاہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ حسب سابق آپ کا یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ ملاعن زوج اور صاحب فراش ہے۔ زانی تو نہ زوج ہے اور نہ صاحب فراش ہے، اس لیے آپ کا یہ قیاس فاسد ہے۔

ابن تیمیہؒ کی آخری دلیل میں قیاس مصلحت اور فلاح بہبود کے جذبہ کا عنصر غالب ہے کہ ا ستلحاق کی صورت میں ولدالزنا کے لئے اور معاشرہ اور سماج کے لئے ایک عظیم مصلحت کار فرما ہے۔ اس طرح باپ اس کی تعلیم و تربیت اور تولیت میں پیش پیش رہے گا کیونکہ بن باپ اولاد شر وفساد اور جرائم پیشہ بن جانے میں دیر نہیں کرتی ہے اور جو معاشرہ اور سماج کے لئے باعث ذلت و رسوائی اور تکلیف مالایطاق کا ایک سامان وافر ہو تا ہے۔ اس دلیل کی وجا ہت سے انکار کرنا قرین قیاس اور انصاف نہ ہوگا کہ ایسی صورت میں ضیاعت اور فساد اس ولد الزنا کے ساتھ لازم و ملزوم بن جائے گا اور اس کا مشاہدہ یتیم اور لاوارث بچوں کی صورت میں بآسانی کیا جا سکتا ہے۔

اس قیاس کا جواب یوں بھی دیا جاتا ہے کہ یہ مفاسد استلحاق کی صورت میں بھی عین ممکن ہیں ۔کیونکہ لوگوں کے اذہان و قلوب میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکے گی اور یہ بات ولد الزنا کے لئے بھی باعث عار ہو گی اور وہ ہر کس و ناکس کی حقارت و تحقیر کا نشان بن جا ئے گا کہ یہ کیسی اولاد ہے ۔ جس کے ماں اور باپ کے درمیان رشتہ زوجیت مکمل ہی نہیں ہوا اور شریعت مطہرہ کو لوگوں کی احساسیت کا بہت پاس ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ولد الزنا کو اما م بنانا مکروہ ہے تاکہ لوگوں کے دلوںمیں اپنے امام کے بارے میں نفرت و نفور کے جذبات پروان نہ چڑ ھ سکیں ۔ ہاں جب عالم اور متقی پرہیز گار اس کے مقابل نہ ہو تو بلا کراہت جا ئز ہے اور مقابل موجود ہو تو اس کی امامت بو جہ مذکور مکروہ ہے۔ الشرنبلالی (1069ھ)لکھتے ہیں۔"لوکان عالما تقیا لا تکرہ امامتہ"۔[14]

ترجیحات :

اس مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر اس میں ترجیحات ہشت پہلو اختیار کر گئی ہیں ۔دونوں اطراف سے دلائل قرآن و سنت اور صحیح قیاس کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ جن پر نقض اعتراض ،مناقشات اور جواب الجواب کا سلسلہ بھی خاصہ طویل اور اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جس میں ظاہر ہو جاتا ہے کہ عدم استلحاق کے دلائل استلحاق کے مقابل میں اپنی قوت میں قدر وافر ہیں اور اس کے علاوہ ان دلائل میں قرآن و سنت کے اکثر دلائل موجود ہیں۔جبکہ دوسری طرف قیاس صحیح کا عمل دخل کچھ زیادہ ہی ہے ۔عدم استلحاق کی تقویت میں یہ بات بھی ہے کہ اس میں احتمال خطا خفیف ہے جبکہ دوسری صورت میں خطا کا احتمال زیادہ ہے ۔ غیر باپ کی طرف انتساب میں وعید بھی مشعر ہے ۔اولاد کو ایسے آدمی کی طرف منسوب کردینا جس کو اس کی ماں نے جنا ہی نہیں ہے ۔یہ معاملہ بھی عجیب و غریب اور ہجو و مذمت کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔اس بابت عرف بھی نہیں ہے۔ اس قول کو یوں بھی تقویت ہو جاتی ہے کہ زانی کے ساتھ عدم لحوق کی صورت میں ضیاعت اور فساد لازم نہیں آئے گا ۔کیونکہ وہ اپنی ماں اور اس کے عزیز و اقارب میں منسوب ہو گا گویا کہ وہ یتیم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے ولد الزنا پر احسان و اصلاح کی ترغیب و تحریض دلائی ہے ۔

"ان عمر بن الخطاب کان یوصی باولادالزنا خیراً"[15

خلاصہ بحث:

ابن تیمیہؒ اپنی فقہ اور تفردات واختیارات کے منہج میں ایک مستقل حیثیت کے حامل عبقری شخصیت ہیں۔اگرچہ وہ مذہب ِحنابلہ سے کلی طور پر جدا نہیں ہوتے ہیں اور مکمل طور پر ان کے مذہب سے اعراض نہیں کرتے ہیں۔ تاہم اپنی اجتہادی بصیرت کی بنا پر وہ اپنے تفردات اور اختیارات میں چاروں مذاہب سے بھی الگ اور جدار راہ پر ہوتے ہیں۔قطعِ نظر اس بات سے کہ آپ کی اِتباع بعض مسائل میں حنابلہ سے اختلاف پر ہوتی ہے لیکن پھر بھی ان کو اس مذہب کا ایک ستون سمجھا جاتا ہے ابن تیمیہؒ کے تفردات اور اختیارات یہ بات روشن کر دیتے ہیں کہ آپ دوسرے تمام فقہی مذاہب کا بنظر ِعمیق مطالعہ کر کے نپی تلی اور سوچی سمجھی دلیل سے قول کرتے ہیں۔ مذکورہ فقہی مسائل میں ابن تیمیہ اگرچہ جمہور کے موقف سے الگ ہیں مگر آپ کی رائے دلیل سے خالی نہیں ہوتی۔ اس لیے آپ کے تفردات و اختیارات کو انانیت ، نفسانیت ، عصبیت اور خواہش نفس کی پیداوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ وہ مسائل علامہ ابن تیمیہ کی تحقیق وتدقیق ، فقاہت و اجتہاد اور مسلسل غور و فکر کا نتیجہ صالحہ ہیں۔ جنکی اساس اور بنیاد ، قرآن و سنت ، تعامل صحابہ اور قیاس جلی ہے۔آپکے ان اجتہادی مسائل میں قرآن و سنت سے مستنبط دلائل اور براہین کا ایک ذخیرہ موجود اور مذکور ہے ۔

تفردات و اختیارات کے بارے میں ایک محتاط رائے یہ بھی قائم کی جا سکتی ہے کہ آپ کے بعض تفردات اور اختیارات کی صحت میں نظر و کلام ہے۔یعنی ان کی صحت محل نظر ہے۔ جیسے مندرجہ بالا سطور میں مختلف تفردات بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً آدمی پر اس کی بیوی کی رضاعی ماں اور رضاعی بیٹی سے نکاح حرام نہیں ہے، نکاح کسی بھی ایسے صیغہ یا لفظ سے جس سےنکاح کا مطلب نکلتا ہو منعقد ہو سکتا ہے، والد کی طرح دادا کو بھی نا بالغ لڑکی کا بغیر اُس کی اجازت کے نکاح کرنے کا اختیار ہے، حق مہر میں عیب کی صورت میں بیوی کو نکاح ختم کرنے کا حق ہے وغیرہ ۔آپ کے فتاویٰ جات میں ایسا کلام بھی پایا جاتا ہے جو آپ کے ساتھ کوئی تعلق اور لگاؤ نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ آپ کے شاگردوں کا کلام ہے۔ابن تیمیہ ؒ کے تفردات و اختیارات میں منصوص کو منسوب اورمخرج علی اصولہ پر ترجیح اور تقدیم حاصل ہے۔کیونکہ اس میں ثقاہت زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کے تلامذہ آپ کے اقوال اور فتاویٰ جات کے زیادہ عالم تھے۔ اس لیے ان کی نقل کو رسائل سے نقل پر ترجیح دیا جانا بھی قرین قیاس ہے۔ اور ابن تیمیہ کے اختیارات کی اسی میں ثقا ہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔یہ بات بھی اہمیت کے لائق اور فائق ہے کہ آپ کے تلامیذ کی نقل کو آپ کے پوتے تلامیذکی نقل پر حقِ تقدیم حاصل ہے۔خلاف کی صورت میں آپ کے اصول وقواعد پر مبنی چیز کو ہی تقدیم حاصل ہوگی کیونکہ قول تلمیذاس وقت حجت ہوتاہے جب اس کا مخالف معلوم نہ ہو۔متعارض اختیارات کو حتی الامکان جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس کا طریقہ یہ ہے کہ مطلق مقیدپر ،عام خاص پراور مجمل معین پر محمول کیا جائے۔یا اختلاف احوال، اشخاص ،ازمان اور امکنہ وغیرہ کی وجہ سے تعارض کو دور کیا جانا عین ممکن ہے۔کثرت کو وحدت پر مکتوب کو مسموع پر اور صریح کو محتمل پر ترجیح حاصل ہوگی۔مخالف مذہب کو موافق مذہب پر ترجیح ہوگی جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ مخالف مذہب قول کا قائل اجتہاد کی راہ پر گامزن ہے۔ المختصر ترجیحات کے طریق اپنی کثرت کی وجہ محصور نہیں کئیے جاسکتے ہیں یہ ایسے رمز ورموز ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اجتہاد ات اپنی گردش میں رہتے ہیں۔جواسلامی علم کی شان ووقار ہیں۔

"اعلم ان طرق الترجیح لاتنحصر ، فانھا تلویحات تجول فیھا اجتھادات "16






Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.

 EST/AT, Govt. Elementary School Jageer Hoora, Lodhran, District Lodhran.

hafizmuhammadfakharuddin@gmail.com.pk ORCID ID (0000-0003-0202-560x)

1]Muhammad Murtẓā al-Zubaidī, Tāj Al-‘Urūs Min Jawāhir al-Qāmūs, Researcher: Dr. Maḥmūd Aḥmad Al-Ṭanāḥī (Beirūt: Al Turāth al-‘Arbī, 1413 A.H/1993 A.D), 7:195.

2]‘Alī Qārī, ‘Alī bin Sultān Maḥmūd, Mirqāt al-Mafātīḥ Sharaḥ Mishkāt al-Masābīḥ, Researcher: Jamāl ‘Eīshānī (Beirūt: Dār al-Kutub al-‘Ilmiyyah, 1422 A.H/2001 A.D), 6:237.

Muḥammad Siddīq ḥassan Khān Qanūjī, Al-Rawdhat al-Nadiyah Sharḥa Al-Durrar al-Bahiyah (Karāchī: Qadīmī Kutub Khana, S.N.), 2:7.

3]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah (Beirūt: Dār al-kutub al- ‘Ilmiyyah, 1403 A.H), 15:396..

4]Al-Nūr, 24:30.

5]Muḥammad bin ‘Isā Tirmaẓī, Al-Sunan, Researcher: Muḥammad Nāṣir al-Dīn al-Albānī (Riyāẓ: Maktabah Al-Ma‘ārif, S.N), 623. Hadith No. 2778.

6]‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 203.

7]Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ (Riyād: Dār al-salām, 1429 A.H), 436, Hadith No.5030.

8]Al-Eḥzāb, 33:50.

9]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 32:28.

10]Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ, 581, Hadith No.6968.

11]Abū Dā’ud, Al-Sunan, 1377, Ḥadith No: 2096.

12]Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ, 579, Hadith No.6945.

13]‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 204.

14]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 32:130.

15]Muhammad bin Ismā‘īl al-Bukhārī, Al-Jāmi‘ al-Saḥīḥ, 440, Hadith No.5086.

16]Wahbah Muṣtfā Al-Zuḥailī, Al-Fiqh al-Islāmī wa Adillat hū (Beirūt: Dār al-Fikr, 1405 A.H/1995 A.D), 7:251.

17]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 29: 342-344.

18]Al-Nisā’, 4:24.

19]‘Alā’ud Dīn ‘Alī bin Sulaimān, Al-Inṣāf Fī Ma’rifat al-Rājeḥ Min Khilāf, 2:1419.

20]Muḥammad bin ‘Abdullah bin Muḥammad Al-Zarkashī, Sharḥa Al-Zarkashī ‘Alā Mukhtaṣar al-Kharqī, Preface & Bibliography: ‘Abdul Mun‘im Khalīl Ibrāhīm (Beirūt: Dār al Kutub al-Ilmiyah, 1st Edition: 1423 A.H, 2002 A.D), 2:423-24.

21] ‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 240.

22]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ (Riyādh: Dār al-Islām, 1429 A.H), 950, Hadīth No. 1567.

23]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ, 950, Hadīth No. 1568.

24]Muḥammad bin Mukrim al-Afrīqī Ibn e Manzūr, Lisān ul-‘Arab (Beirūt: Dār Ṣādir, S.N), 8:126.

25]Mūhammad bin ‘Abu Bakr Ibn e Qayyim al-Jawzī, Zād al-Ma‘ād Fī Hadyī Khair al-Ibād, Researcher: ‘Alī bin Muḥammad ‘Imrān, Muḥammad ‘Azīz Shams ( Riyāḍ: Dār ‘Ālam al-Fa’wād, 1st Edition: 1439 A.H/2018 A.D), 1163.

26]Al-Nisā’ 4:24.

27]Muḥammad bin Yazīd al-Qazvīnī Ibn e Mājah, Al-Sunan (Riyādh: Dār al-Islām, 1429 A.H/ 2008 A.D), 2597, Hadīth No. 2015.

28]‘Abdullah bin Muḥammad Ibn e Abī Shebah, Al-Muṣannaf, Researcher: Ḥamd bin ‘Abdullah Al-Jum‘ah, Muḥammad bin Ibrāhīm (Riyaḍ: Maktabah Al-Rushd, 1st Edition: 1425 A.H/ 2004 A.D), 6:83, Ḥadith No: 16490.

29]Mūhammad bin ‘Abu Bakr Ibn e Qayyim al-Jawzī, Zād al-Ma‘ād Fī Hadyī Khair al-Ibād, Researcher: ‘Alī bin Muḥammad ‘Imrān, Muḥammad ‘Azīz Shams, 1163.

30]Al-Nisā’ 4:24.

31] ‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 283.

32]Muḥammad bin ‘Isā Tirmaẓī, Al-Sunan, Researcher: Muḥammad Nāṣir al-Dīn al-Albānī, 274, Hadith No. 1152.

33]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 37:60.

34]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ, 923, Hadīth No. 1453.

35]Majd al-Dīn Abū al-Barkāt, Al-Muḥarir Fī al- Fiqh ‘Alā Mazhab al-Imām Aḥmad bin Ḥanbal, ( Miṣar: Maṭba‘ al-Sunnah al-Muḥammdiyah), 2:1669.

36]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 34:79.

‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 284.

37]Al-Baqarah, 2:233.

38] Ibn e Ḥajar Al-‘Asqlānī, Fatḥ al-Bārī Ṣharḥa Ṣaḥiḥ Bukharī, 9:418, Ḥadith No: 5166.

39]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ (Riyādh: Dār al-Islām, 1429 A.H), 881, Hadīth No. 1218.

40]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 34:77.

41]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 15:350.

42]Al-Anfāl, 8:75.

43]Al-Asrā’, 17:26.

44]Muḥammad bin ‘Isā Tirmaẓī, Al-Sunan, Researcher: Muḥammad Nāṣir al-Dīn al-Albānī, 434, Hadith No. 1897.

45]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah, 15:350.

46]Al-Baqarah, 2:233.

47]Al-Baqarah, 2:233.

48]Al-Ṭalāq, 65:6.

49]Abū Zakariyyā Yaḥyā ibn Sharaf al-Nawawī, Rawḍatul Ṭālbīn wa ‘Umdatul Muttaqīn (Beirūt: Al-Maktab al-Islāmī, 1412 A.H/1991 A.D),9:98.

50]Taqī al-Dīn Ahmad bin ‘Abd al-Halīm Ibne Teimiyyah, Majmū‘ Fatāvā Sheikh al-Islām Ibne Teimiyyah,34:122.

1]‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 9:184.

2]‘Alā ud Dīn Abū Bakr bin Mas‘ūd Al-Ka’sānī, Badā’e‘ Al-Ṣanā’e‘ Fī Tartīb al-Sharā’e‘ (Beirūt: Dār al-Kutub al-Ilmiyah, 2nd Edition: 1406 A.H/1986 A.D), 6:242.

3]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ (Riyādh: Dār al-Islām, 1429 A.H), 924, Hadīth No. 1458.

4]‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 9:188.

5]Muḥammad bin ‘Isā Tirmaẓī, Al-Sunan, Researcher: Muḥammad Nāṣir al-Dīn al-Albānī, 477, Hadith No. 2113.

6]Aḥmad bin ‘Abdul Reḥmān al-Sā‘ātī, Al-Fatḥ al-Rabānī li-Tartīb Musnad al-Imām Aḥmad bin Ḥanbal al-Shebānī (Beirūt: Dār Eḥyā al-Turath al-‘Arbī, 2nd Edition: S.N), 15:203.

7]‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 9:190.

8]‘Abū ‘Abdullah Muḥammad bin ‘Abdullah al-Ḥākim al-Neshāpūrī, Al-Mustadrak ‘Alā al-Ṣaḥiḥain (Al-Qāhirah: Dār al-Ḥarmain, 1417 A.H, 1997 A.D), 4:490, Ḥadith No: 8073.

9]‘Abū ‘Abdullah Muḥammad bin ‘Abdullah al-Ḥākim al-Neshāpūrī, Al-Mustadrak ‘Alā al-Ṣaḥiḥain, 4:490, Ḥadith No: 8073.

10]‘Alī bin Muḥammad bin ‘Abās, Al-Ikhtiyarāt al-fiqhiyyah Min Fatāwā ibn e Temiyyah 9:191.

11]Al-Nūr, 24:19.

12]Muslim ibn Ḥajjāj al-Qusheirī, Al-Jāmi‘ Al-Saḥīḥ (Riyādh: Dār al-Islām, 1429 A.H), 1125, Hadīth No. 2550.

13] Imām Mālik bin Anas, Mawṭā, 3:378, Ḥadith No: 1426.

14]Ḥasan bin ‘Ammār Al-Sharunblālī, Marāqī al-Falāḥ ‘Alā Hāmish Nūr al-Eḍhaḥ ( Karāchī: Maktaba tul Mdīnah, 7th Edition: 1440 A.H/ 2019 A.D), 163.

15]‘Abdul Razzāq bin Hamām Al-Ṣan‘ānī, Al-Muṣannaf, Researcher: Ḥabīb ur Reḥmān Al-A‘ẓamī (Beirūt: Al-Maktab Al-Islāmī, 1st Edition: 1392 A.H/1972 A.D), 7:456-57, Ḥadith No: 13871.

16 ‘Alī bin ‘Abd al-Kāfī al-Subkī, Al-abhāj fi sharah al-Minhāj Sharah ‘Alā Minhāj al-wasūl Ilā ‘Ilm al-Usūl lil QāÃī BeiÃāvī (Dubaī: Dār al-bahūth al-Islāmiyyah, 2004 A.D), 7:2857.


Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index