Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Amir > Volume 3 Issue 1 of Al-Amir

خلع فسخ نکاح ہے یا طلاق فقہائے کرام کی آراء کا تجزیاتی مطالعہ Whether Khula is Dissolution of Marriage or Divorce Critical Analysis of the Views of Islamic Jurists |
Al-Amir
Al-Amir

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2022

ARI Id

1682060063651_3210

Pages

80-103

PDF URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/46/46

Chapter URL

https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/view/46

Subjects

Khul‘a Judicial Khul‘a Tansīkh e Nikaḥ Divorce ‘Īddat.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

@page { size: 8.27in 11.69in; margin-left: 1.2in; margin-right: 1.2in; margin-top: 0.5in; margin-bottom: 1in } p { margin-bottom: 0.1in; direction: rtl; color: #000000; line-height: 115%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.western { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 14pt } p.cjk { font-family: "MS Mincho"; font-size: 14pt } p.ctl { font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 15pt } p.sdfootnote-western { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", serif; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-cjk { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } p.sdfootnote-ctl { margin-left: 0.2in; text-indent: -0.2in; margin-bottom: 0in; direction: rtl; color: #000000; font-family: "Times New Roman"; font-size: 13pt; line-height: 100%; text-align: justify; orphans: 2; widows: 2; background: transparent } a:link { color: #0563c1; text-decoration: underline } a.sdfootnoteanc { font-size: 57% }

خلع فسخ نکاح ہے یا طلاق فقہائے کرام کی آراء کا تجزیاتی مطالعہ ) 90(

خلع فسخ نکاح ہے یا طلاق فقہائے کرام کی آراء کا تجزیاتی مطالعہ

Whether Khula is Dissolution of Marriage or Divorce Critical Analysis of the Views of Islamic Jurists

Hafiz Muhammad Mearaj Shah

Islam is an entire way of life. It illuminates every facet of daily existence. There is no problem for which Islam has not provided a remedy. Every aspect of beliefs and ethics, including human affairs, has also been examined. Islam is the only religion on earth that can be compared the height of Western culture and civilization. People have become its slavish disciples in the most literal sense. To stay up with the rest of the world, they are creating new interpretations of Islam for this reason. Accepted wisdom is a benefit, but only within the bounds of Sharia. Otherwise, it is Shaytan's legacy. ۔(شیطان)

One of the most significant and crucial stages in a person's life is the nikah. It is expressly covered in the Qur'an and Hadith. It is created necessary for sustaining human existence. It is referred to as the culmination of human life and one of the Prophet's (ﷺ) required Sunnas. However, one of the most despised actions is the dissolution of a marriage. Islam, however, differs from other faiths. It contains the entire procedure/laws for dissolving a marriage. The appropriate discussion of Talaq and Khula is illustrated by the jurists' use of Estihsan and Qayas.

Recent years have seen various crises and a collapse in Pakistani society. Smear and family system disturbance are the main issues among them. "Nikkah" is the fundamental element of a family system; in reality, a family system is based on Nikkah. If this Nikkah is intact, the entire family system is stable; nevertheless, if this Nikkah is broken, not only is the family system traumatised, but the entire society begins to suffer.

The summary of this thesis explains that the Islamic Ideological Council's recommendations have been reviewed in light of the non-Sharia practises of the judicial authorities in relation to Khula and judicial powers related to Khula, as well as an analytical study of the remarks and opinions of commentators and jurists, including future jurists, regarding Khula.

Key Words: Khul‘a, Judicial Khul‘a, Tansīkh e Nikaḥ, Divorce, ‘Īddat.

تعارف:

نکاح انبیاء کرام کی سنت ہے جس سے ایک خاندان کی بنیاد پڑتی ہے۔ دین اسلام میں نکاح و طلاق کے مسائل کو بہت اہمیت دی گئی ہے جو کہ عائلی زندگی میں کلیدی مقام رکھتےہیں۔ اسلام نے خاندان کی زندگی کو عدل وانصاف پر استوار کیا ہے، اچھے اخلاق وکردار اور احسان کے ذریعہ اس کو خوش گوار بنانے کی ترغییب دی ہے۔ لیکن انسانی مزاجوں میں پائے جانے والےفرق کی بنا پر بعض اوقات ایسی کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ خوش گواری برقرار نہیں رہتی،یہ کشیدگی کبھی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ معاملہ عدل وانصاف کی سرحدوں سے تجاوز کر کے ظلم وزیادتی کے دائروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں ایسے ناخوش گوار حالات سے نمبٹنے کے لئے اسلام نے پہلے ہی پیش بندی کی ہے۔ اسی طرح مختلف مرحلوں میں مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ طلاق کی گنجائش کو اسی قسم کی صورت حال کے لئے علاج کے طور پر رکھا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں طلاق کو ایک پیچیدہ اور ممنوع عمل سمجھا جاتا ہے ۔ باوجود اس کے زیادہ خواتین اپنی شادیوں کو ختم کرنے کا انتخاب کر رہی ہیں جو ایک منفی پہلو ہے ۔خلع کا استعمال آج کل تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ اسلامی قانون کسی عورت کو اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے علیحدگی کا اختیار دیتا ہے۔ بد قسمتی سے آج کل ہمارے معاشرے میں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح ویسےہی بہت بڑھ چکی ہےپھر اسی تناسب سے عدالتی فسخ نکاح کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جسے عرف عام میں خلع کہا جاتا ہے حالانکہ یہ شرعی خلع نہیں ہے۔ شرعی خلع یہ ہے:"اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ یہ زوجین اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت نے جو بدل ضلع دیا ہے (شوہر کے اسے لینے میں ) تم دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ (البقرہ :229)" اس ارشاد باری تعالیٰ کی رو سے خلع یہ ہوگا کہ زوجین جب اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ وہ شرعی میں حدود رہتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کو مزید آگے نہیں سکتے ۔ عورت اس معاملے انتہائی ذہنی اذیت کا شکار ہو رہی ہے اور شوہر بغیر کسی عوض طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہورہا تو پھر بیوی نے نکاح کے موقع پر جو حق مہر لیا ہے وہ شوہر کو واپس دے کر شوہر سے اُس کے بدلے میں طلاق حاصل کر لے۔ اس صورت میں یہ طلاق بائن ہوتی ہے۔ اس کے بعد شوہر کو عدت کے اندر بھی یک طرفہ رجوع کا حق نہیں رہتا، اگر عدت کے اندر بھی دونوں (میاں بیوی ) باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں بشر طیکہ ایک ہی طلاق دی ہو۔ دور حاضر میں عدالتی حکام کا خلع کے سلسلے میں غیر شرعی طریقہ کار اورخلع سے متعلق عدالتی اختیارات کا جائزہ اورمفسرین و فقہاء کرام بشمول فقہائے متقدمین کے خلع کے حوالے سے اقوال و آراء کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئےاسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔

اس بات کی وضاحت پہلے بھی کی گئی ہے کہ زوجین جب اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ وہ شرعی میں حدود رہتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کو مزید آگے نہیں سکتے ۔ عورت اس معاملے انتہائی ذہنی اذیت کا شکار ہو رہی ہے اور شوہر بغیر کسی عوض طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہورہا تو پھر بیوی نے نکاح کے موقع پر جو حق مہر لیا ہے وہ شوہر کو واپس دے کر شوہر سے اُس کے بدلے میں طلاق حاصل کر لے۔ اس صورت میں یہ طلاق بائن ہوتی ہے۔ اس کے بعد شوہر کو عدت کے اندر بھی یک طرفہ رجوع کا حق نہیں رہتا، اگر عدت کے اندر بھی دونوں (میاں بیوی ) باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں بشر طیکہ ایک ہی طلاق دی ہو۔خلع کے بارے میں نازل ہونے والی آیت جس پر مفسرین اور فقہاء کرام کے اقوال پیش کیے جائیں گےدرج ذیل ہے :

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِه تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ1

”طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یااچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم نے جو کچھ عورتوں کو دیاہو اس میں سے کچھ واپس لو مگر اس صورت میں کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو اگر تمہیں خوف ہو کہ میاں بیوی اللہ کی حدوں کو قائم نہ کرسکیں گے تو ان پر اُس (مالی معاوضے) میں کچھ گناہ نہیں جو عورت بدلے میں دے کر چھٹکارا حاصل کرلے، یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔“

فقہاء اور مفسرین کے اقوال:

یہاں پر متعدد فقہاء اور مفسرین کے اقوال پیش کئے ہیں کہ اس آیت کے الفاظ"فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ " (تو اگر تمہیں خوف ہو کہ میاں بیوی اللہ کی حدوں کو قائم نہ کرسکیں گے) میں جو خطاب کیا گیا ہے یہ حکام اور اولوالا مرکو ہے اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اگر عدالتی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ زوجین حدوداللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو وہ شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کے ذریعہ نکاح فسخ کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں لعن ’ ایلا عنین (نامرد) اور مفقودالخیر کے فسخ نکاح کو بطور نظیر پیش کر کے ااخر میں وہ علّامہ ابن ھمام رحمۃاللہ علیہ کی فتح القدیر ’علّامہ ابو بکر جصاص رحمتہ اللہ علیہ کی احکام القرآن اور صحیح بخاری کے حوالوں سے یہ فرماتے ہیں کہ :

”اگر عورت مرد سے نا قابلِ اصلاح نفرت کرتی ہو تو یہ خلع کے لئے کافی وجہ جواز ہے۔“2

لیکن اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ اس آیت میں"فَاِنْ خِفْتُمْ الخ"کا خطاب حکام کو ہے جیسا کہ بہت سے علماء نے کہا ہے تب بھی اس آیت سے استدلا ل کسی طرح صحیح نہیں ۔آیت میں تو صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اگر حکام کو اس بات کا احتمال ہو کہ زوجین حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو زوجین کے لئے خلع کر لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ اس سے یہ بات کہاں نکلتی ہے کہ زوجین میں سے کسی کو بھی خلع کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔اگر آیت کا مطلب یہ ہوتا کہ حکام زوجین میں سے کسی ایک کو خلع کرنے پر مجبور کریں گے یا اختیار رکھتے ہیں جیسا کہ جسٹس صاحب کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے ’تو صاف یہ کہا جاتا کہ "اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ دونوں حدوداللہ قائم نہ رکھ سکیں گے تو تم کو اختیا ر ہے کہ ان کا نکاح فسخ کر دو"لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ " ایسی صورت میں زوجین پر خلع کرنے میں کوئی گناہ نہیں ’’اس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر حکام کے پاس زوجین کی ناچاقی کا معاملہ آئے اور وہ یہ سمجھیں کہ اب یہ حدوداللہ قائم نہیں رکھ سکتے تو وہ زوجین کو خلع کا مشورہ تو سے سکتے ہیں لیکن خلع کا معاملہ زوجین اپنی مرضی سے ہی کریں گے۔

اب رہا سوال کہ جب " خلع"فریقین کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے تو پھر"فَاِنْ خِفْتُمْ الخ"میں خطاب "اولو ا لامر"کو کیوں کیا گیا؟ سو اس کا جواب اس معاشرتی پسِ منظر کو پیش نظر رکھ کر بہ آسانی دیا جا سکتا ہے جس میں یہ آیت نازل ہو رہی ہے ۔ اس زمانے میں"اولو ا لامر"کی حیثیت صرف ایک جج اور حاکم ہی کی تھی بلکہ ایک مصلح مفتی اور مشیرکی بھی تھی ’لوگ صرف ڈگری حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ بہت سے معاملات میں محض شریعت کا حکم معلوم کرنے یا مشورہ طلب کرنے کے لئے بھی ان سے رجوع کرتے تھے لہذا اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم سے اس جیسے معاملے میں رجوع کیا جائے تو تم انہیں خلع کا مشورہدے سکتے ہو ’نیز اپنی نگرانی میں خلع کا معاملہ کرا سکتے ہو۔

اولوالامر کو محض مخاطب کر لینے سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ انھیں خلع نے معاملے میں وہ مکمل اختیارات حاصل ہو گئے ہیں جو اوجین کو حاصل ہیں ’ اس کی وضا حت کے لئے دو مثالوں پر غور فرمائیے :

(1) فرض کیجیے کہ حکام کے پاس ایک ایسا مقدمہ آتا ہے جس میں زوجین میں سے کوئی خلع پر راضی نہیں (مرد اس لئے کہ وہ عورت کو جدا نہیں کرنا چاہتا ’ اور عورت اس لئے کہ وہ بلا معاوضہ طلاق چاہتی ہے) اور کوئی ایسی صورت بھی نہیں پائی جاتی (مثلاً شوہر کا جنون وغیرہ)جس کی موجودگی میں عدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیا ر ہوتا ہے ’البتہ حکام یہ خوف رکھتے ہیں کہ نکاح کے قائم رہنے کی صورت میں یہ دونوں "حدوداللہ" کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ۔عورت سے خلع کرنے کا پوچھا جاتا ہے لیکن وہ خلع پر راضی نہیں ہوتی تو کیا اس صورت میں محض اس وجہ سے کہ "فان خفتم الا یقیما حدود اللہ الخ" میں حکام کو مخاطب کیا گیا ہے حکام ان دونوں کے درمیان زبردستی خلع کے ذریعے نکاح فسخ کر سکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ نہیں !

(2) فرض کریں ایک مقدمے میں زیادتی چونکہ صرف عورت کی طرف سے ہے اس لئے شوہر مہر معاف کرائے بغیر طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔دوسری طرف عورت خلع پر راضی نہیں ’وہ یا تو طلاق ہی چاہتی یا طلاق کے معاوضے میں مہر معاف کرنے پر راضی نہیں تو کیا ایسی صورت میں حکام عورت کو خلع پر مجبور کر کے نکاح فسخ کرا سکتے ہیں ؟ظاہر ہے کہ نہیں ! اور کوئی بھی شخص محض "فان خفتم" کے خطاب سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ اس کے ذریعہ ان صورتوں میں حکام کو زبردستی خلع کے ذریعہ نکاح فسخ کرنے کا ختیار دیا گیا ہے۔

آیت کا سیاق و سباق:

یہاں پر اس آیت میں حکام کو خلع کرانے کا اختیار صرف اس صورت میں دیا گیا جبکہ شوہراور بیوی اس راضی ہوں’ آیت کے سیاق پر غور کرنے سے اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔خلع کے سلسلے میں آیت کے الفاظ یہ ہیں :

"وَلَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ ۔۔۔۔ افْتَدَتْ بِه"3

"اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم نے جو کچھ عورتوں کو دیاہو اس میں سے کچھ واپس لو مگر اس صورت میں کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو اگر تمہیں خوف ہو کہ میاں بیوی اللہ کی حدوں کو قائم نہ کرسکیں گے تو ان پر اُس (مالی معاوضے) میں کچھ گناہ نہیں جو عورت بدلے میں دے کر چھٹکارا حاصل کرلے، یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ "

اس میں پہلا جملہ واضح طور پر اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ قرآن کریم کا یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جبکہ میاں بیوی دونوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں اللہ کے ضابطون کو قائم نہ رکھ سکیں گے اور اس وجہ سے دونوں خلع کرنا چاہتے ہوں پھر آگے ‘‘فان خفتم ’’کے جملے کے شروع میں فاء تعقیب (جسکا اردو ترجمہ ہے پس)صاف دلالت کر رہی ہے کہ حکام کو یہ خطاب بھی اسی صورت سے متعلق ہے جسکا ذکر پہلے کیا گیا ہے کہ یعنی"اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ" (مگر یہ کہ میاں بیوی دونوں کو احتمال ہو کہ وہ اللہ تعالیٖ کے ضابطوں کو قائم نہ رکھ سکیں گے۔

پھر اس آیت میں آگے"فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا"(تو ان دونوں میان بیوی پر کوئی گناہ نہیں )کے الفاظ بھی خاص طور پر قابلِ غور ہیں معمولی غوروفکر سے یہ بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کہ یہ الفاظ اپنے ضمن میں شوہر اور بیوی دونوں کی رضا مندی ضروری ہے اس کی تشریح کے لئے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں :

اگر آپ زید سے یہ کہیں کہ "تمہارے لئے طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں"تو اس جملے سے ہر شخص یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو گا کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے ’یا کم از کم اس پر راضی تھا لیکن اسے یہ شک تھا کہ ایسا کرنا میرے لئے جائز ہے یا نہیں آپ نے یہ کہہ کر اس کا شک دور کر دیا کہ ’’تمہارے لیے طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں "۔

اس کے بر عکس آپ کے ان الفاظ سے کوئی بھی شخص جسے بات سمجھنے کا سلیقہ ہو یہ نتیجہ آسانی کے ساتھ نکال سکتا ہے کہ زید طلاق دینے پر راضی نہ تھا ’ اور آپ اس جملے کے ذریعے آپ اسے طلاق دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں اس لئے کہ اگر زید طلاق دینے پر سرے سے راضی ہی نہ ہوبلکہ اس سے انکا ر کر رہا ہے تو آپ اسے مجبور کرنے کے لیے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ "تمہیں طلاق دینی پڑے گی" یا" تمہیں بزورقانون علٖیحدگی اختیار پر مجبور کیا جائے گا" لیکن اس صورت میں یہ کہنا بالکل مہمل اور بے معنی بات ہو گی کہ" تمہارے لئے طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں "یہا ں بھی قرآن کریم صرف اس صورت کو بیان کر رہا ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں خلع پر راضی ہیں۔ورنہ"فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا"کے الفاظ بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں ۔

واقعہ یہ ہے کہ زوجین کے خلع پر راضی ہو جانے کے بعد ان میں سے ہر ایک کو شبہ ہو سکتا ہے کہ میرے لئے یہ معاملہ جائز ہے کہ نہیں عورت کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ پیسے دیکر چلاق حاصل کرنا شاید جائز نہ ہو۔اللہ تعالی نے "فلیس جناح علیھا"(دونوں پر کوئی گناہ نہیں) کے الفاظ کا شبہ دور فرما دیا ۔بلکہ ان الفاظ میں شوہر کی رضامندی کا مفہوم اور زیادہ واضح ہے ’ اس معاملہ میں خلع میں گناہ ہونے کا زیادہ شبہ مرد کو ہی ہو سکتا ہے’کیونکہ ہو پیسے وصول کرنے والا ہے بخلاف عورت کے وہ پیسے ادا کرتی ہے ۔

اس کے علاوہ اسی آیت میں آگے"فیما افتدت بہ"کے الفاظ بھی قابلِ غور ہیں ۔ اس میں بدلِ خلع کو"فدیہ"اور عورت کی ادائیگی کو ’’افتداء‘‘کہا گیا ہے ’ اور اس بقول علاّمہ ابنِ قیّم رحمتہ اللہ علیہ یہ خود اس بات کی وضح دلیل ہے کہ "خلع"ایک عقدِ معاوضہ ہے جس میں فریقین کی باہمی رضا مندی ضروری ہے ۔ اس لئے کہ"فدیہ"عربی زبان میں اس مال کو کہا جاتا ہے جو جنگی قیدیوں کو چھڑانے کے لئے پیش کیا جاتا ہے ۔اس مال کو پیش کرنا ’’افتداء‘‘ اور قبول کرنا "فداء"کہلاتا ہے۔4

یہ معاملہ بہ اتفاق عقد معاوضہ ہوتا ہے جس میں فریقین کی رضا مندی لازمی شرط ہے اور کوئی فریق دوسرے کو مجبور نہیں کر سکتا ۔علاّمہ ابنِ قیّم رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :

"وفی تسمیتہ صلی اللہ علیہ وسلم الخلع فدیۃ دلیل ۔۔۔الزوجین"5

"اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خلع کا نام فدیہ رکھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں معاوضہ کے معنی ئے جاتے ہیں اور اسی لئے اس میں زوجین کی رضا مندی کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔"

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آیت مہں تین جملے ایسے ہیں جو واضح طور پر شوہر اور بیوی کی رضا مندی کا مفیوم ہیں :

(1) "اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ"

(مگر یہ کہ ان دونوں میاں بیوی کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے)۔

(2) "فِیْمَا افْتَدَتْ بِه"

(اس مال میں عورت بطور فدیہ سے)۔

(3) "فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا"

(تو ان دونو ں پر کوئی گناہ نہیں)

ان تینوں جملوں کے بیچ میں فان خفتم (اگر تم کو خوف ہے ) کے الفاظ آئے ہیں اس سے اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ فان خفتم (اگر تم کو خوف ہے) کا خطاب حکا م ہی کو ہے تب بھی اس صورت میں ہے جبکہ شوہر اور بیوی دونوں خلع پر راضی ہوں ۔

لہذا اس سے اس بات پر استدلال درست نہیں ہے کہ میاں بیوی دونوں یا صرف بیوی کو رجا مندی کے بغیر حاکم بذریعہ خلع نکاح فسخ کر سکتا ہے سدی طرح سد بست پر بھی استدلال کرنا کسی صورت درست نہیں کہ حاکم کو شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کے ذریعے نکا ح فسخ کربے کا اختیا ر حاصل ہے۔یہ ساری گفتگو یہ بات تسلیم کرنے کے بعد کی گئی کہ فان خفتم میں خطاب حکام کو ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ علماء کی ایک بڑی جماعت کا قول یہی ہے لیکن ان حضرات مفسرین کا قول اختیا ر کیا جائے جو اس کا مخاطب شوہر اور بیوی کو قرار دیتے ہیں تو بالکل ہی صاف ہو جاتی ہے ۔

اس مسئلے میں جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب نے عنین اور مفقو د الخیر کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ بالکل غیر متعلق ہیں کیونکہ زیرِ بحث مسئلہ صرف اس صورت میں ہے جب فسخ نکاح کی معروف صورتوں میں سے کوئی صورت نہ پائی جاتی ہو۔بلکہ عور ت محض نا پسندیدگی اور نفرت کی بنا پر علیحدگی چاہتی ہو ۔ظاہر ہے کہ اگر اس کو عنین ( نامرد) مجنوں نان نفقہ نا دینے والا اور مفقودالخیر ( لا پتہ شخص ) کی بیوی پر قیا س کیا جائے تو اس کا تقا ضا تو یہ ہے کہ اس کا نکح بلا معا وضہ فسخ کر دیا جائے۔حالانکہ جسٹس صاحب خود بھی اس کو درست نہ سمجھتے ہیں ۔

اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کون سے حالا ت ہیں جن میں زوجین کے لئے خلع کرنا جائز ہو جاتا ہے ؟رہا سوال کہ حکام زجین میں سے کسی ایک کو خلع پر مجبور کر سکتے ہیں کہ نہیں ؟اس کے بارے میں انہی حضرات ’ فقہاء کی واضح تصریحات یہ ہیں کہ جب تک شوہر اور بیوی دونوں راضی نہ ہوں خلع کا معاملہ صحیح نہیں ہوتا۔فقہاء کی یہ تصریحات ہم آگے پیش کریں گے۔

خلع میں خاوندکی رضا مندی ضروری کیوں:

تحقیق کے مطابق امّتِ اسلامیہ کے تقریباً تما م فقہاء ومجتہدین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں، قرآن و سنت کے دلائل بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کہ خلع فریقین کی باہمی رضا مندی کا معاملہ ہے اوراس معاملے میں کوئی فریق دوسرے کو اس (خلع)پر مجبور نہیں کر سکتا۔اس مقالے میں ہم اسی بات پر مفصّل دلائل پیش کرنا چاہتے ہیں۔

جناب جسٹس تقی عثمانی صاحب کی ہمارے دل میں بڑی قدرو منزلت ہے ،وہ ایک قابلِ احترام دانشور ہیں اور انہوں نے اپنی تحریروں سے ملک و ملت کی قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں،لیکن چونکہ زیرِ بحث مسئلے میں ہمارے نزدیک ان کا موقف جمہور امّت کے خلاف اور شرعی اعتبار سے نا درست ہے،اس لئے ہم یہاں ان کے دلائل پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں۔

مساوات:

جناب جسٹس تقی عثمانی صاحب نے سب سے پہلے مندرجہ ذیل آیت قرآنی سے استدلال کیا ہے:

"وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪"6

" اور عورتوں کیلئے بھی مردوں پر شریعت کے مطابق ایسے ہی حق ہے جیسا ( ان کا)عورتوں پر ہے ۔"

جسٹس صاحب نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ جس طرح مرد کو عورت کی رضا مندی کے بغیر طلاق کا قانونی حق دیا گیا ہے ’ اسی طرح عورت کو بھی مرد کی رضا مندی کے بغیر خلع کا حق ملنا چاہیے۔7

لیکن یہ استدلال بوجوہ ِذیل درست نہیں ہے۔

"وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌحَكِیْمٌ۠"8

" اور عورتوں کیلئے بھی مردوں پر شریعت کے مطابق ایسے ہی حق ہے جیسا ( ان کا)عورتوں پر ہے اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے اور اللہ غالب، حکمت والا ہے۔"

(1) اس آیت میں"وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ"کے الفاظ واضح طور پر دلالت کر رہے ہیں کہ بعض معاملات میں جو اختیا رات مرد کو حاصل ہیں وہ عورت کو حاصل نہیں ہیں۔

(2) اگر اس آیت کا مطلب یہ لیا جائے کہ زوجین تمام حقوق و فرائض میں با لکل برابر ہیں تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ مرد کو بغیر مواوضہ دئیے طلاق دینے کا اختیار حاصل ہے اور عورت معاوضہ ادا کئے بغیر طلاق حاصل نہیں کر سکتی۔ حلا نکہ زوجین کی مساوات کا اگر یہ مفہوم لیا جائے کہ رشتہء نکاح کو قطع کرنے میں بھی دونوں برابر ہیں تو عورت کو بھی مرد کی طرح طلاق کا اختیار ملنا چاہیے۔حلانکہ یہ وہ بات ہے جسے جسٹس صاحب بھی تسلیم نہیں فرماتے۔

(3) تمام فقہاء اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آ یت میں زوجین کی جس مساوات کا ذکر کیا گیا ہے وہ معاشرتی مساوات ہے ’ورنہ جہاں تک طلاق اور رشتہء نکاح کو ختم کرنے کا سوال ہے ’ معمولی حالات میں اس کا مکمل اختیار صرف مرد کو ہے ’اور اسی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے :

"وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ

مساوات کے متعلق فقہاء و مفسرین کے اقوال:

اس معاملے میں فقہاء و مفسرین کے چند اقوال درج ہیں :

(الف) حضرت ابو مالک ؒ فرماتے ہیں کہ :

"وللرجال علیھن درجۃ قال یطلقھا و لیس لھا من الا مرشیئ"

آیت قرآنی"وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ"کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو طلاق دے سکتا ہے لیکن عورت کو اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔

(ب) امام فخرالدین رازی رحمتہ اللہ علیہ (شافعی)اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے پہلے لکھتے ہیں :

"ان المقصود من الزوجیۃ لا یتم الا اذا کان کل واحد منھما مرا عیا حق الآخر و رلک الحقوق المشترکۃ کثیرۃنشیرالی بعضھما"9

"زوجیت کے مقاصداس وقت تک پورے نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے حق کی رعایت نہ کرےاور یہ مشترک حقوق بہت سے ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔"

میاں بیوی کے میں بہت سے حقوق مشتر ک ان کی بنا پر حق زوجیت تب تک ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے تو کسی بھی طرح ممکن نہیں کہ ان کو پورا کیا جاسکے ۔

(ج) امام ابو عبداللہ ا لقرطبی رحمتہ اللہ علیہ (مالکی)اپنی تفسیر میں اس جملے کی شرح کرتے ہوئے علامہ ماوروی رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں :

’’لہ رفع العقد دونھا‘‘10

’’ عقدِ نکاح کو ختم کرنے کا اختیار صرف مرد کو ہے عورت کو نہیں ‘‘۔

ظاہر ہے کہ ان دلائل کی مو جو دگی میں"وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ"سے قطع نظر کر کے صرف"وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ"کے الفاظ سے اس بات پر استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ محض نا پسند ید گی کی بناء پر عورت کو بزورِ عدالت خلع پر مجبور کر سکتی ہے۔

خاوند کی مرضی کے بغیر خلع کی ڈگری غیراسلامی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل:

اسلامی نظریاتی کونسل نے خاوندکی مرضی کے بغیرخلع کی ڈگری کوغیراسلامی قراردے دیا ہے۔ چیئرمین کونسل مولانا محمد خان شیرانی کہتے ہیں کہ بچے کیلئے رحم کرائے پرلینا درست نہیں ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے دوروزہ اجلاس کے بعد مولانا محمد خان شیرانی نے میڈیا کوبتایا ہے کہ عدالتیں خلع اورفسخ نکاح میں فرقکریں۔کونسل نے مسلم عائلی قانون میں ترمیم اورکمپیوٹرائزڈ نکاح فارم تیارکرنے کی سفارش کی ہے۔چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا کہناتھا کہ خواجہ الگ طبقہ نہیں ہیں انھیں خاندان سے الگ نہ کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ متبادل ماں کے رحم سے بچے کی پیدائش شرعی طورناجائز ہے۔ اس عمل سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب صرف ماں سے ثابت ہوگا۔مولانا محمد خان شیرانی نے مزید کہا ہے کہ لاؤڈ سپیکرکے غلط استعمال کوروکنے کا قانون وقت کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی بات خلافشرع نہیں ہے۔11

خلع اور اسلامی نظریاتی کونسل، خلع فسخ ہے یا طلاق؟

جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ "خلع " فسخ ہے یا طلاق؟ اس معاملہ میں فقہاء کا اختلاف نقل کرنے کے بعد وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ’ امام احمد ؒ ’ امام شافعی ؒ اور داؤد ظاہرؒ کے مسلک کو ترجیح دیتے ہیں جس کی رو سے خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے اور اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں :

" اگر اس رائے کو قبول کر لیا جائے (خلع فسخ ہے طلاق نہیں ہے ) تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ خلع تنہا شوہر کی مرضی پر مو قو ف نہ ہے۔" 12

لیکن جسٹس صاحب کے اس ارشاد سے بھی اتفاق ممکن نہیں ۔ بحث کے تعارف میں ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ خلع کے طلاق یا فسخ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور عملی طور پر فقہاء کے اس اختلاف کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔؟ تفسیر ’ حدیث’فقہ کی جس کتاب میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے وہاں اس کا مطلب یہی بیان کیا گیا ہے کہ خلع کو اگر فسخ قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خلع کو طلاق شما ر نہیں کیا جا ئے گا اور اگر میاں بیوی باہمی رضا مندی سے نکاح کر لیں تو شوہر کو بدستور تین طلاق کا اختیا ر ملے گا ؟ لیکن اس سے یہ نتیجہ کسی نے نہیں نکالا کہ چونکہ یہ فسخ ہے اس لئے اس مین شوہر کی رضا مندی ضروری نہ ہے ۔

ہم یہاں اس بحث کو نظر انداز کرتے ہیں کہ فقہاء کے اس اختلاف میں قبلِ ترجیح مسلک کون سا ہے ؟ہم تھوڑی دیر کے لئے یہی فرض کر لیتے ہیں کہ اس مسئلے میں جسٹس صاحب کے ارشاد کے مطابق اما احمد ؒ اور امام شافعی ؒ کامسلک ہی قابلِ ترجیح ہے جس کی رو سے خلع طلاق نہیں فسخ ہے ۔لیکن اس سے یہ بات کیسے ثابت ہو گئی کہ یہ فسخ نکاح شوہر کی مرجی کے خلاف بھی عمل میں آسکتا ہے؟ خود جسٹس صاحب نے نقل فرمایا ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒ خلع کو فسخ قرار دیتے ہیں لیکن ان کے مذہب کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں تو وہ بھی جمہورِ امت کی طرح خلع کو فسخ قرار دینے کے باوجود فریقین کی مرضی کو اس کے لئے لازمی شرط سمجھتے ہیں چنانچہ علامہ ابن قدامہ ؒ جو امام احمد ؒ کے مذہب کے مستند ترین راوی ہیں تحریر فرماتے ہیں کہ :

"ولا یفتقر الخلع الیٖ حاکم نص علیہ فقال یجوز الخلع دون السلطان وروی البخاری ذلک عن عمرو عثمان ؓ وبہ قال شریح و الزھری و مالک والشافعی واسحاق واھل الرای و عن الحسن و ابن سیرین لا یجوز الا عندالسلطان ’ النا قول عمرؓ و عثمانؓ الا نہ معاوضۃ فلم یفتقرالی السلطان کالیع والنکاح ولا نہ عقد بالتراضی اشبہ الا قالۃ"13

" خلع کے لئے حاکم کی ضرورت نہیں امام احمد ؒ نے اس کی تصریح کی ہے چنانچہ کہا ہے کہ خلع بغیر سلطان کے جائز ہے اور امام بخا ری ؒ نے مذہب حضرت حضرت عمر علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا نقل کیا ہے اور شریح ؒ ، امام زہریؒ ، امام شافعی ؒ وامام اسحاق ؒ اور اہل رائے کا بھی یہی قول ہے ۔ اور حسن بصری ، اور ابن سیرین ؒ سے ایک رویت یہ ہے کہ خلع صرف حاکم کے پاس ہو سکتا ہے ۔اور ہماری دلیل حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا قول ہے ۔ نیز یہ کہ خلع ایک عقد معاوضہ ہے لہذا اس میں سلطان کی ضرورت نہ ہے جیسے بیع اور نکاح ۔ علاوہ ازیں خلع باہمی رضا مندی سے عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام ہے لہذا وہ اقلہ کے مشابہ ہے ۔"

علامہ ابن قدامہ ؒ نے مزکورہ بالا عبارات میں امام احمد ؒ کا صاف مذہب یہ نقل کیا ہے کہ خلع باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے اور اقالہ کی مثال دیکر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ جس طرح اقالہ (فسخ بیع) ہے لیکن اس میں باہمی رضا مندی ضروری ہے اور کوئی فریق دوسرے کو مجبور نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح خلع بھی فسخ نکاح ہے لیکن اس میں بھی باہمی رضا مندی ضروری ہے اور کوئی فریق دوسرے کو مجبور نہیں کر سکتا۔

اور جہاں تک فریقین کی رضا مندی کا سوال ہے اس کو وہ بھی دوسرے تمام فقہاء کی طرح خلع کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں چنانچہ وہ کتاب الان کے باب الخلع والنشور میں پوری صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں :

"وان قال لا افارقھا ولا اعدل لھا اجبر علی القسم لھا ولا یجیر علی فرقھا"14

’’ اور اگر شوہر کہے کہ نہ میں بیوی کو علیحدہ کروں گا اور نہ اس کے ساتھ انصاف کروں گا تو اسے انصاف پر مجبور کیا جائیگا’ لیکن علیحدگی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ‘‘

اور ایک دوسری مقام پر تحریر فرماتے ہیں:

"وانما جعلنا ھا تطلیقۃ لان اﷲ تعالی یقول الطلاق مرتان فعقلنا من اﷲ تعالی ام ذلک اانما یقع با یقاع الزوج و علمنا ان الخلع لم با یقاع الزوج"15

"اور معاملہ خلع کو طلاق اس لیے قرار دیا کہ اﷲ تعالی فرماتا ہے اطلاق مرتان تو ہم نے اﷲ کے کلام سے یہ بات سمجھی ہے کہ طلاق صرف شوہر کے واقع کرنے سے واقع ہوتی ہے ’ اور یہ بھی معلوم ہے کہ خلع شوہر کے واقع کئے بغیر واقع نہیں ہوتا۔"

اور اس کے دو صفحات کے بعد تو اس مسئلے کو بالکل ہی کھول کر بیان کر دیا جاتا ہے ’فرماتے ہیں :

"وکزلک سید العبد ان خلع عن عبدہ بغیر ا ذنہ لان الخلع طلاق فلا یکون لا حد ان یطلق المر عن نفسہ او یطلق علیہ السلطان بما لزمہ من نفسہ اذاامنع ھوا ن یطلق وکان ممن لہ طلاق ولیس الخلع من ہزا المعنی سبیل"16

"اسی طرح اگر غلام کا آقا اگر اپنے غلام کی طرف سے بغیر غلام کی اجازت کے خلع کر لے ( تو صحیح نہ ہو گا) اس لئے کہ خلع طلاق ہے۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کی طرف سے طلاق دے ،نہ باپ کو حق ہے ،نہ آقا کو،نہ ولی کو،نہ سلطان (حاکم)کو۔طلاق تو انسان اپنی طرف سے خود دیتا ہے یا جب وہ طلاق سے باوجود اہل طلاق ہونے کے باز رہے اور اسی کی طرف سے سلطان کو طلاق دینا لازم ہو جائے تو سلطان طلاق دے دیتا ہے لیکن خلع میں صورت بالکل نہیں پائی جاسکتی۔"

اس میں آخری جملوں نے تو بات بالکل واضح کر دی کہ خلع کے معاملہ میں شوہر کی طرف سے رضامندی طلاق سے بھی زیادہ ضروری ہے کیو نکہ طلاق تو کبھی کبھی خاص حالات میں حاکم بھی شوہر کی طرف سے دے سکتا ہے لیکن خلع میں یہ بات کبھی بھی نہیں پائی جا سکتی ۔

مندجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن حضرات فقہاء ؒ نے خلع کو طلاق کے بجائے فسخ نکاح کہا ہے وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ فسخ نکاح اقالہ کی طرح فریقین کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ خلع کو طلاق قرار دینا صرف " بعض قدماء حنفیہ "ہی کا خیال نہیں بلکہ یہ تمام حنفیہ کا متفقہ مسئلہ ہے اور صرف حنفیہ ہی نہیں فقہاء کی اکثریت خلع کو طلاق قرار دیتی ہے ’علامہ ابن رشد ؒ لکھتے ہیں کہ :

"واما نوع الکلع فالجمھور عکی انہ طلاق"17

" جہاں تک خلع کی نوعیت کا تعلق ہے جمہور ( اکثر فقہاء ) کے نزدیک وہ طلاق ہی ہے۔"

دوسری بات یہ ہے کہ جسٹس صاحب نے فرما دیا کہ حنفی فقہاء کے یہاں ایسی کوئی تصریح نہ ملتی ہے کہ عورت شوہر کے راضی نہ ہونے کی صورت میں "طلاق خلع " حاصل نہیں کر سکتی لیکن ہم یہاں حنفی فقہاء کی چند تصریحات پیش کرتے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خلع شوہر کی رضا مندی پر مو قو ف ہے علامہ ابو بکر جصاص ؒ قدماء حنفیہ کے مستند ترین فقہاء میں سے ہیں اور جسٹس صاحب نے ابھی ان کی کتاب "احکام القرآن " سے مختلف معاملات میں حوالے نقل کئے ہیں ۔ یہاں ہم پہلے انہی کی عبارات نقل کرتے ہیں ۔ وہ حضرت جمیلہ ؓ کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

"لو کان الخلع الی السکطان شاء الزوجان اوابیا اذا علم انھما لا یقیمان حدودواﷲ لم لیسلھما النبی ﷺعن زلک الا خطب الزوج بقولہ اکلعھا بل کان یخلعھا ویرد علیہ حدیقتہ و ان ایا اوواحد منھما"18

"اگرخلع کا یہ اختیار حاکم کو ہوتا کہ وہ جب دیکھے کہ زوجین حدوداﷲ کو قائم نہ کریں گے ( تو نکاح فسخ کردے) خواہ زوجین چاہیں یا نہ چاہیں تو آپ ﷺ جمیلہ ؓ اور ان کے شوہر سے اس معاملے میں کچھ نہ پوچھتے اور نہ شوہر سے کہتے کہ تم ان سے خلع کر لو ’بلکہ خود خلع کر کے شوہر کا باغ ان کو لوٹا دیتے ’چاہے وہ دونوں انکار کرتے یا انا میں سے کوئی ایک انکار کرتا۔"

اس عبارت میں علامہ ابو بکر جصاص نے تصریح فرما دی کہ اگر حاکم یہ دیکھے کہ زوجین حدوداﷲکو قائم نہ رکھ سکیں گے تب بھی وہ شوہر اور بیوی میں سے ان کی رضا مندی کے بغیر خلع نہیں کر سکتا اگر دونوں میں سے ایک بھی خلع سے انکار کر دے تب بھی حاکم کو اختیار نہیں۔فقہاء کا اصول یہ ہوتا ہے کہ جو با ت ان کے یہاں مختلف فیہ اور معروف و مشہور ہو اسے تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی بجائے کسی ایک جگہ اصولی طور پر بیان کر دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص فقہاء کی کتابوں سے کوئی مسئلہ تلاش کرنا چاہے کہ "طلاق کا اختیا ر صرف مرد کو ہے ’ عورت کو نہیں" تو ان الفاظ کے ساتھ اسے فقہاء کی تصریحات بہت کم ملیں گی اس لئے کہ بات اتنی طے شدہ ہے کہ اس کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی بلکہ یہی معاملہ خلع کے ساتھ بھی ہے یہ مسئلہ کہ خلع کے لئے زوجین میں سے ہر ایک کی رضامندی ضروری ہے "فقہاء کے یہاں اتنا معروف و مشہور اور متفق علیہ اور مسلم ہے کہ وہ اسے مستقل طور پر بہت کم ذکر کرتے ہیں البتہ خلع کی تعریف تعارف اور اس کے ارکان شرائط بیان کرتے ہوئے اسے اصولی طور پر ذکر کرتے ہیں یا کسی اور مسئلے کی دلیل میں بطور ایک مسلمہ حقیقت کے ۔ چنانچہ فتاوی عالمگیریہ میں جو حنفی فقہ کی مسلم کتاب ہے صراحت کے ساتھ لکھا ہے ۔

اور علامہ علاؤالدین حفصکی ؒ تحریر فرماتے ہیں :

"وشرطہ کالطلاق"19

"خلع کی شرائط طلاق جیسی ہیں"

اس کے علاوہ فقہاء دوسرے معاملات کی طرح خلع کا رکن بھی ایجاب اور قبول کو قرار دیتے ہیں ۔مثلاً ملک العلماء کاسانی ؒ لکھتے ہیں :

"واما رکتہ فھوالایجاب والقبول لا نہ عقد علی الطلاق بعوض فلا تفع الفرقۃ ولا سسحق العوض بدون القبول"20

"رہا خلع کا رکن تو ایجاب اور قبول ہے اس لئے کہ یہ معاوضہ کے ساتھ طلاق کا معاملہ ہے ’ لہذا بغیر قبول کے علیحدگی واقع نہیں ہو گی۔"

واضح رہے کہ فقہاء کے نزدیک کسی عمل کا رکن وہ چیز ہوتی ہے جس کے بغیر اس عمل کا شرعی وجود ہی نہیں ہوتا۔مثلاً سجدہ نماز کا رکن ہے اس لئے سجدہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔اسی طرح ایجاب و قبول بھی خلع کا رکن ہے اس کے بغیر خلع نہیں ہو سکتا۔

مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو فقہاء اسے طلاق قرار دیتے ہیں وہ بھی اور جو اسے فسخ کہتے ہیں وہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ خلع باہمی رضامندی کا معاملہ ہے ۔جس میں شوہر اور بیوی کی رضا مندی ضروری ہے ۔کوئی فریق دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کر سکتا۔لہذا خلع کے یا فسخ ہونے سے مسئلہ زیرِ بحث پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

اس سلسلے میں جسٹس صاحب نے علامہ شعرانی ؒ کی جو عبارت پیش کی ہے وہ یہ ہے :

"اتفق الا ئمۃ علی ان المراۃ اذا کرمت زوجھا لقبح منظر اوسو عشرہ جاز لھا ان تخالعہ علی عوض وان لم یکن من ذلک شیی وتراضیا علی الخلع من غیر سیب جاز ولم یکرہ خلا فاللزھری وعطا وداود فی قولھم ان لا یصح فی ھذہ الحلۃ لا نہ عبث والبعث غیر مشروع"21

" تمام آئمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو بد صورتی یا سوءِ معاشرت کی بناء پر نہ پسند کرتی ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اپنے شوہر سے معاوضہ پر خلع کا معاملہ کر لے اور اگر نا پسندیدگی کی وجہ نہ ہو تو میاں بیوی خلع پر راضی ہو جائیں تو بھی جائزہے اور مکروہ نہیں البتہ اس میں امام زھری ؒ ،اما م عطاء ؒ اور امام داؤد ؒ کا اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ اس حالت میں خلع صحیح نہیں اس لیے کہ وہ عبث ہے غیر مشروع ہے۔"

اس عبارت میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف شوہر کی رضا مندی کے مائلے میں نہیں ’بلکہ اس مسئلے میں ہے کہ فریقین کی رضا مندی کے بعد بھی خلع ہر حال میں جائز ہے یا صرف اس صورت میں جائز ہے جب بیوی اپنے شوہر کو پسند نا کرنے کی کوئی معقول وجہ رکھتی ہو۔اکثر فقہاء نے پہلی رائے کو اختیار دیا ہے اور امام زھری ؒ ،اما م عطاء ؒ اور امام داؤد ؒ ظاہری ؒ نے دوسری رائے کو’ لیکن جہاں تک خلع میں فریقین کی رضا مندی کا تعلق ہے اس کو دونوں فریق ضروری قرار دیتے ہیں جیسے کہ جاز لھا ان تخالعہ علی عوض اور وتراضیا علی الخلع کے الفاظ اس پر شاہد ہیں ۔خدا جانے اس عبارت کے کون سے لفظ سے جسٹس صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کسی فریق کے نزدیک شوہر کی رضا مندی کے بغیر بھی خلع ہو سکتا ہے؟یہ حکم زوجین کی درمیان تفریق اور علیحدگی کے لئے نہیں بلکہ دونوں میں موافقت پیدا کرنے کے لئے ہے ۔

امام شافعی ؒ نے اپنی کتاب الام میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ گفتگو فرمائی ہے وہ تحریر فرماتے ہیں :

"ولیس لہ ان یا مر ھما یفرقان ان رایا الا بامر الزواج ولایعطیامن مال المراۃ الا باذنھا (قال) فان اصطلح الزوجان والا کان علی الحاکم ان یحکم لکل واحد منھما علی صاحبہ بما یلزمہ من حق فی نفس ومال و ادب ( قال) وذلک ان اﷲ انما ذکر انھما" ان یرید اصلاحا یو فیق اﷲ بینھما" ولم یذکر تفریقاً (قال) واختار للامام ان سیال الزوجین ان یترا ضیا بالحکمین ویو کلا ھما معا فیو کلھما معا الزوج ان رایا ان یفرقا بینھما فرقا علی مارایا من اخذ شیی او غیرا خذہ۔"22

"جب میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو اور وہ حاکم کے پاس اپنا معاملہ لے جائیں تو اس پرواجب ہے کہ ایک حکم شوہر کی طرف سے بھیجے اور ایک حکم بیوی کی طرف سے بھیجے ’یہ حکم اہلِ قناعت اور اہل عقل میں سے ہوں تاکہ ان کے معاملے کی تحقیق کریں اور حتی المقدور مصالحت کرائیں لیکن حاکم کو یہ حق نہیں کہ وہ حکمین کو اپنی رائے سے شوہر کے حکم کے بغیر تفریق کا حکم دے اور نہ عورت کا کوئی مال اس کی اجازت کے بغیر شوہر کو سے سکتے ہیں ۔ پس اگر زوجین میں مصالحت ہو جائے تو بہتر ’ورنہ حاکم پر یہ واجب ہے کہ فریقین میں سے ہر ایک پر دوسرے کے جانی’ مالی’ ادبی (معاشرتی) حقوق واجبہ کی ادائیگی کا فیصلہ کرے۔اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے صرف یہ ذکر فرمایا ہے کہ "ان یرید اصلاحا یو فیق اﷲ بینھما" ( اگر دونوں اصلاح کا ارادہ کر لیں تو اﷲ تعالی دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا ) اور تفریق کا کوئی ارادہ یا ذکر نہیں فرمایا ۔ہاں البتہ حاکم کے لیے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ زوجین سے کہے کہ وہ حاکمین کے ہر فیصلے پر راضی ہو جائیں اور دونوں انہیں اپنا وکیل بنا لیں ۔شوہر حکمین کو اس بات کا وکیل بنائے کہ وہ اگر مناسب سمجھیں تو اپنی رائے کے مطابق کچھ لے کر یا بغیر کچھ لئے تفریق کر دیں۔"

آگے لکھتے ہیں کہ :

"ولا یجبر الزوجین علی تو کلیھما ان لم یو کلا"۔

" اور اگر زوجین حکمین کو وکیل نہ بنائیں تو انہیں مجبور نہ کیا جائیگا ۔"23

امام ابو جعفر طحاوی ؒ بھی انہی ادلائل کی روشنی میں تحریر فرماتے ہیں :

"ولیس للحکمین فی الشقاق ان یفرقا الا ان یجعل ذلک الیھما الزوج"24

"اور حکمین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شقاق کی صورت میں تفریق کر دیں مگر یہ کہ شوہر ان کو اختیا ر دے دے۔"

خلع اور فقہہ حضرت عمر ؓ:

جناب جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے فیصلے میں حضرت عمر رضی اﷲتعالی عنہ کے ایک ارشاد سے بھی استدلال فرمایا ہے ’ انن بیہقی میں رویت ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲتعالی عنہ نے فرمایا:

"اذا ارادات النساء الخلع فلا نکفرو ھن"

لیکن حضرت عمر ؓ کا قول اس بات دلیل ہے کہ حاکم فریقین یا ان میں سے کسی ایک کی مرضی کے خلاف خلع نہیں کر سکتا۔حضرت عمر ؓ نے اس ارشاد میں شوہروں کو خطاب فرمایا ہے ’ اس سے کہ حاکم اور قاضی تو خود تھے ’ اگر حاکم حاکم اور قاضی کو از خو د خلع کرنے کا اختیا ہوتا تو ان کو شوہروں سے کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب عورتیں خلع کرنا چاہیں تو تم انکار نہ کرو۔لہذا حضرت عمر رضی اﷲتعالی عنہ کے اس ارشاد سے اس بات پر کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ حاکم فریقین یا ان میں سے کسی ایک کی مرضی کے خلاف خود خلع کر سکتا ہے ۔ہاں ! یہ ارشاد شوہروں کے لئے ایک ہدایت نامہ ضرور ہے کہ جب عورتیں خلع کرنا چاہیں تو انہیں خواہ مخواہ باندھے رکھنے کے بجائے خلع کو قبول کر لینا چاہیے۔

خلع کی بنیاد پر طلاق:اسلامی نظریاتی کونسل :

لاہور(خبر نگار خصوصی)اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی نے مطالبہ کیا ہے خلع کے ذریعے خاوند سے طلاق لینے سے متعلق خواتین کا حق ختم کرنے کیلئے مسلم فیملی لاز کی شق 8میں ترمیم کی جائے۔انہوں نے کہا ہے کہ جب تک خاوند راضی نہ ہو عدالتیں طلاق کی ڈگری جاری نہ کریں ۔پاکستان کے فیملی لاز نہ صرف خاتون کو خلع کے ذریعے طلاق کا حق دیتے ہیں بلکہ ان قوانین کے تحت مروجہ نکاح نامے میں بھی یہ شق شامل ہے کہ شوہر خاتون کو طلاق کا حق تفویض کر سکتا ہے ۔اس سلسلے میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا۔ مولانا راغب نعیمی نے کہا کہ خلع کی بنیا د پر نکا ح ختم نہیں ہو سکتا جب تک شوہر اپنی مرضی سے طلاق نہیں دیتا اس وقت تک طلاق نہیں ہوتی۔عدالت یکطرفہ فیصلہ نہیں دے سکتی۔عدالت کو مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پولیس کو بھیج کر شوہر کو طلب کرے اور نہ ہی شوہر کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہشام الہٰی ظہیر کا کہنا ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین کا مطالبہ اسلام کے منافی ہے۔مولانا محمد خان شیرانی کو اپنے مطالبے پر غور کرنا چاہیے۔

جمعیت علماء اسلام (س)کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالرحمٰن فاروقی نے کہا کہ جب تک خاوند کا مؤقف سامنے نہ آئے یکطرفہ فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔عدالت کو حق حاصل نہیں کہ وہ طلاق جاری کرے اور اگر خاوند کے جان بوجھ کر عدالت نہ آنے سے ایک طلاق ہو سکتی ہے ۔جب کہ اسلام میں شوہر اور بیوی کی علیحدہ کیلئے تین طلاقیں ہیں ۔ سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل پروفیسر یاسین ظفر نے کہا کہ خلع عورت کا بنیادی حق ہے جس کیلئے وہ عدالت سے رجوع کر سکتی ہے اگر غلط نوٹس جاری ہوتا ہے جس سے خاوند لا علم ہے تو طلاق نہیں ہوتی اور اگر خاوند جان بوجھ کر نہیں آتا تو عدالت طلاق کا فیصلہ دے سکتی ہے اور اگر خلع ہو بھی جائے تو شوہر کو طلاق دینا پڑتی ہے۔25

حضرت جمیلہ رضی اﷲتعالیٰ عنھا کا واقعہ:

جسٹس صاحب نے مندرجہ ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا ہے :

"عن ابن عباس ؓ ان امراۃ ثابت بن قیس اتت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقالت یا رسول اﷲ ثابت بن قیس ما اعب علیہ فی خلق ولا دین ولکی اکرہ الکفر فی الاسلام،فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اتر دین علیہ حدیقتہ قالت نعم قال رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اقبل الحدیقۃ وطلقھا تطلیقتۃ"26

"حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس ؓ کی بیوی (جمیلہ رضی اﷲ تعلی عنھا)آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میں ثابت بن قیس ؓ کے اخلاق اور دینداری سے ناراض نہیں ہوں ’لیکن میں اسلام لانے کے بعد کفر کی باتوں سے ڈرتی ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اب پر ان کا باغ (جو انہں نے بطور مہر دیا تھا ) لوٹا دوگی؟جمیلہ رضی اﷲ تعالی عنھا نے عرض کیا ہاں ایسا کر دوں گی۔آپﷺ نے حضرت قیس ؓ کو بلایا کہ یہ قبول کر لو اور اس کو ایک طلاق دے دو۔"

لیکن اس حدیث سے استدلال اس لئے نہیں کہ مذکورہ واقعہ شوہر کی رضامندی سے ہوا تھااور انہوں نے خلع کے اس معملہ کو قبول کر لیا تھا۔چنانچہ سنن نسائی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :

"فا رسل الی ثابت فقال خذاالذی لھاعلیک وخل سیلھا قال نعم"27

" آپ ﷺ نے حضرت ثابت ؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ جو مال ان کا تم پر واجب تھا وہ لے لو اور ان کو چھوڑ دوحضرت ثابت ؓ نے کہا ہاں۔"

اور ظاہر ہے کہ اگر شوہر خلع کو قبول کر لے تو کوئی مسئلہ نہیں رہتا گفتگو تو اس صورت میں ہو رہی ہے اگر شوہر خلع پر راضی ہی نہ ہورہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے ان کو خلع کا حکم دیا تھا تو یہ حکم باتفاق علماء بطور مشورہ تھا قاضی کی حیثیت میں جبراً نہیں تھا حافظ ابن حجر اس کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں :

" یہ ہدایت اور اصطلاح کا حکم تھاایجابی حکم نہ تھا۔"28

علامہ بدرالدین عینی ؒ اور علامہ قسطلانی ؒ نے بھی اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے یہی لکھا ہے ۔اس کے علاوہ آپ ﷺ کا شوہر کو طلاق کا حکم دینا خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قاضی یا حاکم از خود تفریق نہیں کر سکتا بلکہ یہ کام صرف شوہر کر سکتا ہے چنانچہ امام ابوبکر جصاص ؒاس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"لو کان الخلع الی السلطان شاء الزاجان او ایا اذا علم انھما لا یقیمان حدوداﷲ لم الھما النبی صلی اﷲ علیہ وسلم عم ذلک ولا خاطب الزوج بقول اخلعما بل کان بخلعھا منہ و یرد علیہ حدیقۃ وان ایا اوواحد منھما لاکانت فرقہ الملا ونین الی الحاکم یقل للملاعن خل سیلھا بل فرق بینھما"29

"اور اگر یہ اختیار سلطان کو ہوتا کہ وہ جب دیکھے کہ زوجین حدوداﷲ کو قائم نہیں کریں گے تو خلع کر دے’خواہ یہ زوجین کی خواہش ہو یا نہ ہوتو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان دونوں سے اس کا سوال نہ فرماتے ’ اور نہ شوہر سے یہ کہتے کہ تم ان سے خلع کر لو’ بلکہ خود خلع کر کے عورت کو چھڑا دیتے’اور شوہر پر اس کا باغ لوٹا دیتے’ خواہ وہ دونوں انکار کرتے یا ان میں سے کوئی ایک انکا ر کرتا۔جیسے کہ لعان میں زوجین کی تفریق کا اختیا ر حاکم کو ہوتا ہے تو وہ ملا عن ( شوہر) سے یہ نہیں کہتا کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو بلکہ خود تفریق کر دیتا ہے۔"

امام ابو بکر جصاص ؒ کی یہ دلیل نہایت وزنی ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی فقہی نے اس اس حدیث سے استدلال کر کے یہ نہیں کیا کہ حاکم شوہر کو خلع پر مجبور کر سکتا ہے۔

خلع اور فقہاء متقدمین:

آخر میں ہم فقہاء اور مجتہدین کی وہ عبارتیں پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی اور ظاہری میں سے ہر ایک اس بات پرمتفق ہے کہ خلع صرف میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے ہو سکتا ہے اور ان میں سے کوئی فریق دوسرے کو مجبور نہیں کر سکتا۔

حنفی مسلک :

حنفی مسلک کی بہت سی کتابوں سے حوالے پیش کر چکے ہیں یہا ں صرف شمس الائمہ سرخسیؒ کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں جو تما م فقہاء حنفیہ رحمتہ اﷲ علیہ کے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔

"والخلع جائز عندالسلطان وغیرہ لا ئۃ عقد یعقد التراضی"30

" اور خلع سلطان (حاکم ) کے پاس بھی جائز ہے اور اس کے علاوہ بھی ۔اس لئے کہ یہ ایسا عقد ہے جس کی سار ی بنیاد باہمی رضا مندی پر ہے۔"

اس کے علاوہ امام ابو بکر جصاص ؒ صریح عبارت اس مفہوم پر پیچھے دوبارہ پیش کی جا چکی ہے نیز فتاوی عالمگیریہ اور ابن عابدین شامی ؒ کی عبارتیں بھی گزر چکی ہیں۔

شافعی مسلک :

حضرت امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"لا ن الخلع طلاق فلا یکون لا حد ان یطلق عن احداب الا سید ولا ولی الا سلطان"31

" اس لئے کہ خلع طلاق کے حکم میں ہے ’ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے طلاق لے نہ باپ کو یہ حق ہے ، نہ آقا کو اور نہ ہی کسی سرپرست کو ۔"

مالکی مسلک :

(1) علامہ ابو الولید باجی مالکی ؒ موطاء امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی شرح میں لکھتے ہیں :

"وبحر علی الرجوع الیہ ان لم یرد فواقھا یخلع اوغیرہ"32

"عورت کو شوہر کے پاس جانے پر مجبور کیا جائے گا اگر شوہر خلع وغیرہ کے ذریعے علیحدگی نہ چاہتا ہو۔"

(2) علامہ ابن رشدؒ تحریر فرماتے ہیں کہ :

"واما ما یرجع الی الحال الی بحور فیھا الخلع من الی لا یحور فان الجمہور علی ان الخلع جا ئز مع التراضی اذا لکن سب رضا ھما بما تعطیہ اصراء بھا"33

"رہی بات کہ خلع کون سی حالت میں جائز ہوتا ہے اور کون سی حالت میں نا جائز ’ تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ خلع باہمی رضامندی کے ساتھ جائز ہے ’بشرطیکہ عورت کے مال کی ادائیگی پر راضی ہونے کا سبب مرد کی طرف سے اسے تنگ کرنا نہ ہو۔"

حنبلی مسلک :

حنبلی فقہ کے مستند ترین شارح علامہ مو فق الدین بن قدامہ حنبلی ؒ تحریر فرماتے ہیں :

"ولا نہ معاقجہ فلم یفنقرالی سلطان کا نسع والنکاح الا نہ قطع عقد بالتراضی اسہ الا قالۃ"34

"اور اس لئے کہ یہ عقد معاوضہ ہے لہذا اس کے لئے حاکم کی ضرورت نہیں ’جیسا کہ بیع اور نکاح ۔نیز اس لئے کہ خلع باہمی رضا مندی سے عقد کو ختم کرنے کا نام ہے لہذا یہ اقالہ (فسخ بیع) کے مشابہ ہے۔"

اور علامہ ابن قیم جوزیہ رحمتہ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"و فی سمہ صلی اﷲ علیہ وسلم الخلع فدیہ ذیل علی ان فیہ معنی المعوضۃ ولھذا عنرفیہ رضا الزوجین"35

"اور آنحضرت ﷺ نے جو خلع کا نام فدیہ رکھا ’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں عقد معاوضہ کے معنی پائے جاتے ہیں ۔اسی لئے اس میں زوجین کی رضا مندی کی شرط ضروری ہے۔"

ظاہری مسلک :

علامہ ابن حزم رحمتہ ا ﷲ علیہ فرماتے ہیں :

"الخلع وھوا لا فداء اذا کرھت المراۃ زوجھا فخافت ان لا توفیہ حقہ او خافت ان ببعجھا فلا یو فیھا حقھا فلھا ان تقدی منہ و یطلقھا ان رضی ھوو الا لم یجبر ھوو لا احبرت ہی انما یجوز بتراضھما الا یحل الا فتداء الا باحدالووجھی المدکورین اوا جتما عھما فان واقع بغیر ھما فھوا باطل ویرد علیھا ما اخذ منھا وھی امراتہ کما کانت ایبطل طلاقہویمنع من ظلمھا فقط36

"خلع اور فدیہ دے کر وہ جان چحڑانے کا نام ہے جب عورت اپنے شوہر کو نا پسند کرے اور اسے ڈر ہو کہ وہ شوہر کا حق پورا ادا نہ کر سکے گی یا اس کے حقوق پورے ادا نہ کر سکے گی تو اسے یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کو کچھ فدیہ دے اور اگر شوہر راضی ہو تو اسے طلاق دے دے ’ اور اگر شوہر راضی نہ ہو تو نہ شوہر کو مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عورت کو’خلع تو صرف باہمی رضا مندی سے ہی جائز ہے ۔اور جب تک مذکورہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک یا دونوں نہ پائی جائیں خلع حلال نہیں ہوتا۔لہٰذا اگر ان کے سواء کسی طرح خلع کر لیا گیا ہو تو وہ باطل ہے اور شوہر نے جو کچھ ما ل دیا ہے وہ لوٹائے گا اور عورت بدستور اس کی بیوی رہ گی اور اس کی طلاق باطل ہو گی اور شوہر لو صرف عورت پر ظلم کرنے سے منع کیا جائے گا۔"

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :

"لیس فی الا یۃ ولا فی شیئ من السنن ان للحکمین ان یفرقا ولا ان ذلک للحکام"37

" کسی آیت یا حدیث سے یہ بات بالکل ثابت نہیں کہ حکمین میں بیوی کو علیحدگی کرنے کا اختیار رکھتے ہوں اور نہ ہی یہ اختیار کسی حاکم یا قاضی کے لئے ثابت ہوتا ہے ۔"

خلع کے سلسلے میں عدالتی اختیارات:

دور نبویﷺ میں حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ کا جو خلع کا واقعہ پیش آیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے شوہر کو اس بات کا مشورہ دیا کہ اس سے باغ واپس لے کر اس کو طلاق دے دیں چنانچہ امام ابوبکر جصاص اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ زوجین کے درمیان ان کی رضا مندی کے بغیر تفریق کرا دینا عدالت کا کام نہیں امام موصوف احکام القرآن میں لکھتے ہیں:

" اگر یہ اختیار حاکم کو ہوتا کہ جب وہ دیکھے کہ زوجین حدود اللہ کو قائم نہیں کریں گے تو ان کے درمیان خلع کا فیصلہ کر دے خواہ زوجین خلع کو چاہیں یا خلع سے انکار کریں تو آنحضرت ﷺ ان دونوں سے اس کا سوال ہی نہ فرماتے اور نہ شوہر سے یہ فرماتے کہ اس کو خلع دے دو بلکہ آنحضرت ﷺ خود خلع کا فیصلہ دے کر عورت کو مرد سے چھڑا دیتے اور شوہر کو اس کا باغ لوٹا دیتے۔ خواہ وہ دونوں اس سے انکار کرتے یا ان میں سے ایک فریق انکار کرتا۔ چنانچہ لعان میں زوجین کے درمیان تفریق کا اختیار چونکہ حاکم کو ہوتا ہے اس لیے وہ لعان کرنے والے شوہر سے نہیں کہتا کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو بلکہ از خود دونوں کے درمیان تفریق کر دیتا ہے۔"38

خلع کے معاملہ میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ یہ ہے کہ عورت کے مطالبہ خلع کو تسلیم کیا جائے چنانچہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر عورتیں خلع کا ارادہ کریں تو انکار نہ کرو۔ حضرت عمرؓ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو شوہر کی نافرمان تھی حضرت عمرؓ نے اس کے شوہر سے کہا کہ تم اس سے خلع کر لو۔ 39

حضور اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے پاس عورتوں کے خلع لینے کے مقدمات پیش ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جب خلع کے معاملات باہمی طور پر طے نہ ہو سکیں تو عدالت شرعی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور عدالت کی اولین ذمہ داری زوجین کے درمیان مصالحت کرانا۔ ممتازو معروف مفسر قرآن علامہ ابن کثیر نے حضرت عمرؓ کے متعلق واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی آپؓ نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کر دو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے اس نے کہا کہ آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں آپؓ نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کر لے اگرچہ کان کی بالی بدلے ہی ہو۔ 40

حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ عدالت شرعی تحقیق و تفتیش کے بعد اگر یہ محسوس کرے کہ میاں بیوی کے درمیان موافقت نہیں ہو سکتی تو عورت سے کہے کہ وہ اپنا مہر چھوڑ دے اور شوہر سے کہے کہ وہ مہر چھوڑنے کے بعد طلاق دے دے ۔ عدالت اگر صرف سماعت کا اختیار رکھتی ہو اور مرد کے راضی نہ ہونے کی صورت میں فیصلہ منوانے کا اختیار نہ رکھتی ہو تو ایسی عدالت کو مرجع قرار دینا ہی فضول ہو گا۔ پھر اسلام میں قضاء کی جو اہمیت ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ بنی نوع انسان کے حقوق کا تحفظ اور ظالموں ، غاصبوں اور جاب لوگوں کو حق و انصاف کی قوت و اقتدار کے سامنے جھکا کر عدل و انصاف کے قیام کو یقینی بنانا ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

"و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل"41

اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔"

خلع کے سلسلے میں دور حاضر عدالتی حکام کا غیر شرعی طریقہ کار:

ہمارے معاشرے میں جن افراد کو معمور کیا جاتا ہے خلع کے مقدمات کو دیونی مقدمات پر قیاس کر لیا گیا ہے حالانکہ خلع کا مقدمہ عورت کے ناموس کے حلال و حرام سے متعلق ہے اس میں ایسی تساہل پسندی کسی طرح بھی روا نہیں ہو سکتی کہ احکام شرعیہ کے ماہرین قاضیوں کی بجائے رائج الوقت قانون میں تجربہ کار افراد کو منصب قضاء پر متعین کیا جائے۔

خلع کے سلسلے میں جو سب سے اہم اور ضروری بات جس کی نشاندہی کرنا ہم سب کا دینی فریضہ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خلع کے مقدمات میں تحقیق و تفتیش کی ضرورت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ عورتوں کی طرف سے جو واقعات اور الزامات پیش کئے جاتے ہیں عدالت ان کو حرف آخر سمجھ کر فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔ شرعی طور پر خلع کے فیصلے کی صحیح صورت یہ ہے کہ عورت کے دعویٰ دائر نہ کرنے پر عدالت شوہر کو طلب کرے اور اس سے عورت کی شکایات و اعتراضات کے متعلق دریافت کرے کیونکہ عدالت کا منصب فریقین کے ساتھ انصاف کرنا ہے اور انصاف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عدالت فریقین کا نقطہ نظر دلائل و شواہد کے ساتھ پوری دل جمعی سے سن لے۔

"عن علی قال بعثنی رسول اللہ ﷺ الی الیمن قاضیافقلت یا رسول اللہﷺ ترسلنی وانا حدیث السن و لا علم لی با لقضاء فقال ان اللہ سیھدی قلبک و یثبت السائک اذا تقاضی الیک رجال فلا تقض للا حتی تسمع کلام الاخرفانہ اھران یتبین لک القضاء قال فما شککت فی قضاء بعد"

"حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ کو یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپﷺ مجھ کو قاضی بنا کر بھیج رہے ہیں میں نوجوان ہوں مجھ کو قضاء کی کیفیت کا کچھ علم نہیں آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تیرے دل کو ہدایت کرے گا اور تیری زبان کو ثابت رکھے گا جب دو آدمی تیرے پاس کوئی فیصلہ لائیں تو دوسرے کی بات سنے بغیر پہلے کے حق میں فیصلہ نہ دینا یہ زیادہ لائق ہے کہ فیصلہ تیرے لئے ظاہر ہو۔ حضرت علیؓ نے کہا اس کے بعد مجھے کبھی کسی فیصلہ کے متعلق شک نہ رہا ۔"

شرعی قواعد کے مطابق خلع کے فیصلہ کی صحیح صورت یہ ہے کہ عورت کے مطالبہ خلع پر عدالت شوہر کو طلب کرے اور اسے عورت کے الزامات پر صفائی کا پورا موقع دے۔ اگر شوہر عورت کے الزامات سے انکار کرے تو عورت سے گواہ طلب کیے جائیں یا اگر عورت گواہ پیش کرنے سے قاصر ہو تو شوہر سے حلف لیا جائے۔ اگر شوہر حلفیہ طور پر اس کے اعتراضات و الزامات کو غلط قرار دے تو عورت کا مطالبہ خلع روک دیا جائے۔ اگر عورت گواہ پیش کر دے تو عدالت شوہر کو بیوی کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کرے لیکن اگر عدالت معاملہ پوری چھان بین اور گواہوں کی شہادت کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ زوجین کا یکجا رہنا ممکن نہیں اور عورت واقعی مظلوم ہے اور شوہر اس کے حقوق ادا نہیں کر رہا تو شوہر کو طلاق دینے کا حکم دیا جائے اور اگر وہ طلاق دینے پر بھی آمادہ نہ ہو تو عدالت از خود فسخ نکاح کا فیصلہ کر سکتی ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن اگر عدالت نے معاملہ کی صحیح تفتیش اور گواہوں کی شہادت کے بغیر فیصلہ کیا یا شوہر کی غیر موجودگی میں محض عورت کے بیان پر یقین کر کے خلع کا فیصلہ دے دیا جیسا کہ ہمارے ہاں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ خلع کے مقدمات میں مرد ہمیشہ ظالم ہوتے ہیں اور عورتیں مظلوم ہوتی ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اکثر واقعات میں میاں بیوی دونوں ازدواجی زندگی بسر کرنے پر رضا مند ہیں لیکن لڑکی کے والدین خلع کا جھوٹا مقدمہ کر کے خلع کی یک طرفہ ڈگری حاصل کر لیتے ہیں اور عدالت میاں بیوی سے پوچھتی تک نہیں ایسے فیصلے جن میں شرعی قواعد کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا شرعی لحاظ سے وہ فیصلے کالعدم ہیں۔ تنسیخ نکاح کے فیصلے باوجود عورت کے لئے نکاح ثانی کرنا جائز نہیں ہو گا۔

خلع کے معاملہ کا ایک غیر شرعی پہلو ہمارے قانون کے ماہرین وکلا حضرات کا طرزِ عمل ہے۔ وکیل صاحبان چونکہ عدالت کی قانونی راہنمائی اور معاونت کرنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہوتے ہیں اور وہی فریقین کی طرف سے عدالت میں پیش ہوتے ہیں لیکن وہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود کہ ان کے مؤکل کا موقف غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے پھر بھی وہ اس جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق ثابت کرنے کیلئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ وکلاء حضرات پر یہ شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حق اور سچ کی پیروی و پاسداری کریں اور باطل اور ظلم و عدوان کو ختم کرنے کیلئے پھر پور اپنا کردار ادا کریں جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے:

"وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۪"42

" نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو ۔"

خلع کا اسلامی طریقہ:

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ خلع میاں بیوی دونوں کی اجازت اور مرضی کے بغیر نہیں ہوتا لہٰذا شرعاً خلع کیلئے میاں بیوی دونوں کا رضا مند ہونا ضروری ہے نہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر شوہر اس کو خلع لینے پر مجبور کر سکتا ہے اور نہ شوہر کی رضا مندی کے بغیر بیوی خلع حاصل کر سکتی ہے۔ اسی طرح عدالت بھی میاں بیوی دونوں کی رضا مندی کے ساتھ تو خلع کا حکم کر سکتی ہے لیکن اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو کوئی عدالت بھی خلع کا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں۔

قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کی آیت ۲۲۹ کا جو جواز ثابت کیا ہے جس کی وجہ سے اسے آیت خلع سے موسوم کیا جاتا ہے چنانچہ اس آیت میں شروع سے لے کر آخر تک میاں بیوی دونوں کو برابر کا شریک قرار دے کر مخاطب کیا گیا ہے۔ مثلاً:

"اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِه"43

" الا یہ کہ میاں بیوی دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں قائم نہیں کر سکیں گے الل تعالیٰ کی حدود۔ پس اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں خداوندی حدود کو قائم نہیں کر سکیں گے تب ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ اس مال کے لینے اور دینے میں جس کو دے کر عورت نکاح سے آزادی حاصل کرے۔"

قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے دو اہم اصول نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ خلع کے سلسلے میں مرد اور عورت دو برابر کے شریک ہیں۔ جس طرح معاہدہ نکاح میں دونوں کا ایجاب و قبول ضروری ہے اس طرح خلع کے معاملے میں بھی دونوں کا ایجاب و قبول لازمی ہے۔ فان خفتم یعنی خطا میں شامل تمام افراد یعنی میاں بیوی ان دونوں کے خاندان کے بزرگ و معزز افراد کو مخاطب فرما کر یہ اصول ذہن نشین کرایا گیا کہ خلع کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش کی جائے اور دونوں کے درمیان مصالحت کرانے کی اور گھر اجڑنے سے بچانے کی ہر ممکن تدبیر کی جائے جیسا کہ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

"وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِه وَحَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا"44

"اگر تم لوگوں کو کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا اللہ سب کچھ جانتا ہے اور با خبر ہے۔"

صاحب تفہیم القرآن اسی آیت مبارکہ کے تحت حاشیہ میں رقمطراز ہیں:

اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں موافقت ہو جائے وہاں نزاع سے انقطاع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر میں ہی اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کیلئے مقرر کیا جائے کہ دونوں مل کر اسباب اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں۔ یہ بینچ یا ثاؤلث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تا کہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کیلئے منتخب کر لیں ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے بینچ مقرر کریں اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ جائے تو عدالت خود کوئی کاروائی کرنے سے پہلے خاندانی بینچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں۔ فقہا میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کیلئے سفارش کر سکتے ہیں۔ ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے ہاں اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کیلئے بنایا ہوتا البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کیلئے واجب ہو گا۔ یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں بینچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے مگر علیحدگی ککا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے۔ یہ حسن بسری اور قتادہ اور بعض دوسرے فقہا کا قول ہے۔ ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ان بینچوں کو ملانااور جدا کر دینے کے پورے اختیارات ہیں۔ ابن عباس ، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی ، شعی ، محمد بن سیرین اور بعض دوسرے حضرات نے یہی رائے اختیار کی ہے۔

حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات بینچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے ان کو حکمانہ اختیارات دے دیتے تھے چنانچہ حضرت عقیل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمانؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس کو اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو بینچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کر دینا ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں۔ اسی طرح ایک مقدمہ حضرت علیؓ نے حکم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہیں ملا دیں اور چاہیں جدا کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بینچ بطور خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا۔ 45

فان خفتم کا خطاب میاں بیوی کے ساتھ ساتھ دونوں خاندانوں کے سنجیدہ افراد اور حکام و امراء سب کیلئے عام ہے۔ حکام و امرا کو اس خطاب میں اس لیے شامل کیا گیا کہ اگر خلع کا معاملہ حکام تک پہنچ جائے تو ان کے لئے لازم ہو گا کہ فریقین کو مناسب طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ کریں اور اگر فریقین خلع ہی پر مصر ہوں تو خلع کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے کرا دیں کیونکہ میاں بیوی کی علیحدگی اختیار کرنے میں ایک بلیغ نکتہ ملحوظ ہے جس کی صراحت حدیث نبویﷺ سے یوں ہے:

"عن جابرقال رسول اللہﷺ ان ابلیس بضع عرشتہ علی الماء ثم یبعث سرایاہ فادناھم نہ منزلۃ اعظمھم فتنۃ یجی احدھم فیقول فعلت کذاو کذا بیقول ما صعنت شیئا قال ثم یجی احدھم فیقول ماترکتہ حتی فرقت بینہ و بین امراتہ فیدنہ منہ و یقول نعم الت"46

"حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر وہ اپنے لشکروں کو (لوگوں کو بہکانے کیلئے) بھیجتا ہے ان شیطانی لشکروں میں ابلیس کا سب سے زیادہ مقرب اس کا وہ چیلا ہوتا ہے جو لوگوں میں سب سے بڑا فساد ڈالے۔ کوئی شیطان ان میں اسے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں گناہ کرائے یعنی (فلاں سے چوری کرائی فلا ں کو شراب پلائی) تو شیطان کہتا ہے تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر ایک اور کہتا ہے کہ میں میاں بیوی کے پیچھے پڑا رہا ، ایک دوسرے کے خلاف ان کو بھڑکاتا رہا اور میں نے آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ آج اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کرا کے آیا ہوں شیطان اس کے قریب ہو جاتا ہے اور کہتا ہے تو نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔"

خلع کے سلسلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جب عورت اپنے خاوند سے اس قدر متنفر ہو چکی ہو اس کے ساتھ کسی قیمت پر نباہ کرنا نا ممکن ہو تو اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ شوہر کو سمجھا بجھا کر طلاق دینے پر آمادہ کرے ایسی صورت میں شوہر کو بھی چاہیے کہ جب وہ نکاح کے رشتہ کو خوشگواری کے ساتھ نبھتا نہ دیکھے تو وہ شرافت کے ساتھ اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن اگر شوہر اس بات پر راضی نہ ہو تو عورت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مالی معاوضہ دے کر اس سے آزادی حاصل کر لے۔

تفریق بین الزوجین اور عدالتی کردار:

یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جمہور فقہاء کے نزدیک بعض مخصوص حالات میں قاضی شرعی کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ بلا مرضی شوہر بھی زوجین میں تفریق کردیجو بحکم ِطلاق ہے ۔اور یہ طلاق شوہر کی اجازت کے بغیر حاکم کی طرف سے ہوتی ہے جیسے مفقودالخیر شوہر ،مجنوں ،نامرد وغیرہ کے معاملات تمام کتب فقہ میں مفصل موجود ہیں ۔اس لئے تفریق قاجی کے مسئلے کی وضاحت کر دینا مناسب ہے۔

صورت ِ حال یہ ہے کہ عورت کے جو حقوق مرد پر واجب ہیں وہ دو قسم کے ہیں اک؂یک وہ جو قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور نکاح کے قانونی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً(نان و نفقہ ،وظائف ِ زوجیت وغیرہ)۔یہ وہ حقوق ہیں جن کو بزور عدالت شوہر سے وصول کیا جا سکتا ہے ۔اور اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہو تو اس پر قانوناً واجب ہو جاتا ہے کہ عورت کو طلاق سے ’ایسی صورت میں اگر طلاق دینے سے انکار کرے یا طلاق دینے کو قابل نہ ہو تو قاضی کو اس کا قائم مقام قرار دے کر تفریق کااختیار دیا جاتا ہے۔مجنوں،نامرد ،نان و نفقہ نہ دینے والا اور غائب غیر مفقود میں یہی صورت ہوتی ہے۔

اس کے بر خلاف نکاح کے بعض حقوق کی ادائیگی شوہر پر دیانۃً ضروری ہے لیکن وہ قانونی حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ان جکو بزور عدالت وصول کیا جا سکتا ہے مثلاً بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اور خوش اخلاقی کا معاملہ ظاہر ہے کہ یہ قانون نافذ نہیں کیے جا سکتے جب تک شوہر کے دل میں خدا کا خوف ہے اور آخرت کی فکر نہ دنیا کی کوئی عدالت ان کا انتظام نہیں کر سکتیاور جب اس قسم کے قانون کا تعلق عدالت سے نہیں تو اسے یہ اختیا ر بھی حاصل نہیں ہے کہ حق تلفی کی صورت میں وہ نکاح فسخ کر دے چنانچہ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ صرف پانچ عیوب کی بنا ء پر قاضی کو تفریق کا اختیا ملتا ہے۔

٭ پہلا اس وقت جب شوہر پاگل ہو گیا ہو۔

٭ دوسرا جب وہ نان و نفقہ ادا نہ کرتا ہو

٭ تیسرا جب وہ نا مرد ہو

٭ چوتھا جب وہ بالکل لا پتہ گیا ہو

٭ پانچواں جب وہ غیر مفقود کی صورت ہو۔

مندجہ بالا صورتوں میں قاضی کو یہ اختیا ر ہوتا ہے کہ تفریق کر سکتا ہے اور محض عورت کی طرف سے نا پسندیدگی کدی بھی فقہ میں فسخِ نکاح کی وجہ جواز نہیں بنتی۔

خلاصہ بحث:

(1) یکطرفہ ڈگری خلع کی صورت میں جائز نہیں کیونکہ خلع میں مرد کا راضی ہونا ضروری ہے جیسا کہ ہم نے پیچھے واضح کردیا ہے ۔

(2) فسخ نکاح اور خلع میں فرق ہے اور ہماری عدالتیں اس فرق کو نہیں سمجھتیں۔

(3) پانچ عیوب کی بناء پر قاضی کو فسخ نکاح کا اختیار ہے لیکن ان میں بہت تحقیق واحتیاط کی ضرورت ہے اور موجودہ عدالتوں میں یہ بات مفقود ہے فقہ مالکیہ کے موقف پر بھی یہ فیصلے ثابت نہیں ہوتے۔

(4) آج کی عدالت میں متعنت مرد کے لیے فوراً فسخ نکاح کا انتظام کیا جاتا ہے اور یہ کیس پاکستان میں بہت زیادہ آتا ہے اور اس مسئلہ میں ہماری عدالتیں کسی فقہ پر فیصلے دیتی نظر نہیں آتیں بلکہ ایسا فیصلہ صادر کرتی ہیں کہ سلف خلف میں سے ترجیح کے ساتھ یہ مسلک کسی سے مروی نہیں ہوتا۔

(5) ضرورت شدید کے وقت باقی فقہوں پر عمل کرنا جائز ہے اور فقہ مالکی پر تو بالخصوص جائز ہے کیونکہ امام مالکؒ، امام اعظم ابو حنیفہؒ کے من وجہ شاگرد ہیں اور فقہ مالکی فقہ حنفی کاغسالہ ہے ۔ لہذا مفقود کے بارے میں امام مالکؒ کے قول پر فتویٰ دینا امام اعظم ابو حنیفہؒ کے قول کے خلاف نہیں ہوسکتا۔

(6) ہماری عدالتوں خلع اور فسخ نکاح اور تفریق میں خصوصی فرق سمجھنے چاہیے حالانکہ ہر ایک کا حکم جدا جدا ہے جیسا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے لہذا مروجہ عدالتوں کا خلع کی بناء پر یا فسخ کی بناء پر یکطرفہ کی ڈگری جاری کرنا ٹھیک نہیں۔

(7) فسخ میں پانچ عیوب کے ماسوا عندا لاحناف فسخ جائز نہیں ۔

(8) تفریق میں قاضی کے اختیارات بہت ہیں لیکن فرجہ نادینی والی صورت حقوق زوجیت نہ اداء کرنے والی صورت مسئلہ فسخ سے تعلق رکھتی ہے تفریق سے نہیں لہذا ہماری عدالتوں کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ احکام کی اتباع کرے نہ کہ نفس کے فیل پر شاہسواری۔




Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur.

1Al-Baqarah, 2:229.

2 Justic Mūḥammad Taqī ʽusmānī, Islam main khulʽa kī ḥaqīqat (Karachi: Meman Islamic publishers, 1996A.D),17.

3Al-Baqarah, 2:229.

4 Ibn al-qayīm al-Jawzīah, Zād ul-Maʽād (Al-Mīnīa Publishers,1324), 238/2.

5 Mawlānā Ashraf Alī Thānvī, Bīyān al-Qurān (karāchī: Tāj Company), Al-Baqarah, 2:229.

6 Al-Baqarqh, 2:228.

7 Justic Mūḥammad Taqī ʽusmānī, Islam main khulʽa kī ḥaqīqat (Karachi: Meman Islamic publishers, 1996A.D),17.

8Al-Baqarqh, 2:228.

9Fakhur-ud-Dīn Rāzī, Tafsīr e-kabīr (Egypt: Al-Ḥasīna Publishers, 1420A.H), 246/2.

10Ībn-Taīmīyah, Al-Jāmiʽ al-Eḥkām al-Qūrān (Dār al-kūtab al-Miṣrīyah, 1936 AD), 125.3.

11 Daily Express, App (2015), 28 May, fridady.

12 Justic Mūḥammad Taqī ʽUsmānī, Islam Main khulʽa kī ḥaqīqat,26.

13Ibn e-Rūshd, Bidāyā tul-Mūjtahid wa al-nehāyātūl Mūqtaṣid (kūwait: Dār Al-Islāmī, 1168 AH), 275/1.

14Muḥammad bin Idrīs Al-Shāfī‘, Kitāb-al-Umm, chapter al- khulʽa wa-alnashūr (al-kūlyāt-ul-zhrīa publishers, 1381A.H), 189/5.

15 Muḥammad bin Idrīs Al-Shāfī‘, Kitāb-al-Umm, chapter al- khulʽa wa-alnashūr, 200/5.

16Justic Mūḥammad Taqī ʽUsmānī, Islam Main khulʽa kī ḥaqīqat, 31.

17 Ibn e-Rūshd, Bidāyā tul-Mūjtahid wa al-nehāyātūl Mūqtaṣid, 275/1.

18Abū bakar al-Jasās, Eḥkām al-Qūrān (Al-bīhīhiah Publishers: 1348A.H), 468/1.

19Muḥammad Amīn bin U‘mar Ibn e Ābdīn, Abū Bakar bin Mas‘ūd Al-Kāsān, Badā‘i al-anā‘i( Egypt: Matba‘ al-Jamāliyah, 1328AH), 145/3.

20 Muḥammad Āmīn bin U‘mar Ibn e Ābdīn, Abū Bakar bin Mas‘ūd Al-Kāsān, Badā‘i al-ṣanā‘i, 145/3.

21A‘bdul Wahāb al-Sha‘rānī, Al-Mīzān al-Kubrā( Egypt: Dār Eḥyā al-Kutub al-Miṣriyah, 1973 AD), 119/2.

22Muḥammad bin Adrīs al-shāfī,kitāb-ul-umm,chapter al- khulʽa wa-alnashūr,5/194.

23 Muḥammad bin Adrīs al-shāfī,kitāb-ul-umm,chapter al- khulʽa wa-alnashūr,5/195.

24Aḥmad bin Muḥammad Salāmah Azdī al-Ṭaḥāvī, Mukhtaṣr al-Ṭaḥāvī(Dakkan: Dār al-Kitāb al-A‘rbī, 1380 AH), 191/1.

25Daily express ,App(2015),28 May,fridady.

26 Muḥammad bin ismāʽīl būkhārī,al-ṣaḥī būkhārī(Karachi:āṣḥal-mṭābʽa),No:253,2/794

27A‘bdul Rḥmān al- Sayyuṭī, Al-Durr al-Manthūr fī Tafsīr al-Māthūr( Lāhore: Ziā al-Qurān, 1987 AD), 282/1.

28IIbn e Ḥajar A‘sqalānī, Fatḥ al Bārī Sharaḥ ṣaḥiḥ Bukhārī(Beirūt: Dār al-Ma‘rifah 1379AH), 329/9.

29Abū baker al-jasās,aḥkām al-Qūrān(al-bīhīhiah publishers:1348A.H)1/468.

30Abū Bakar Muḥammad bin Aḥmad al-Sarakhsī, Al-Mabsūṭ(Egypt: Matba‘ al-Sa‘adah, 1324AH),183/2.

31 Muḥammad bin Adrīs al-shāfī,kitāb-ul-umm,chapter al- khulʽa wa-alnashūr,5/194.

32Abū al-Walīd al-Bājī, Al-Muntaqā(Egypt:Matba‘ Al-Sa‘ādah), 61/7.

33Ibn rūshad,Bidāyātu-mūjtahid wa al-nehāyātū-mūqtaṣid(al-kūvait :dār al-islāmī,1379),2/68.

34Ibn Qūdāma,al-mūgnī,(labnon:dār al-mnār,publishers,1368A.H)7/52.

35Ibn al-qayīm al-jozīa,Zādūl mʽād(al-mīnīa publishers,1324)2/238.

36 Ibn ḥadam,al-mūḥallah(Egypt:almūnīr publishers,1326A.H)10/235.

37 Ibn ḥadam,al-mūḥallah(Egypt:almūnīr publishers,1326A.H)10/88.

38 Abū baker al-jasās,aḥkām al-Qūrān(Lāhore:sohaīl acadmi publishers)1/395.

39Dr.Muḥammad rwās qalah jī,Fiqah ḥazrat ʽumer (Lāhore:idārah maʽārf islamī),306.

40 Ibn kathīr,tafsī ibn kathīr,(karachī:noor mūḥammad publishers),1/99.

41Al-Nisa,4:58

42Al-Madia,5:2.

43Al-Baqrah, 2:229.

44 Al-Nisa,4:58

45Abū al-A‘lā Mawdūdī, Tafhīm al-Qurān(Lāhore: Maktabah Ta‘mīr-e-Insāniyat), 350-51/1.

46Muslim bin al-Ḥajjāj, Al-ṣaḥiḥ, Bāb Fitnah tu-Shaitān fī al-A‘rab min al-Teḥrīsh(Lāhore: Nāshirān Khālid Eḥsān), 379/6.



Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...