3
2
2022
1682060063651_3213
31-47
https://alamir.com.pk/index.php/ojs/article/download/41/41
أ ﻷمِیر:جلد3؍ شمارہ 2 ..( جولائی–دسمبر2 220ء) )37(
''قانون بین الاقوام کی بنیادیں عہد اسلامی میں''ایک تحقیقی جائزہ
'' Foundations of International Law in the Islamic era ''
(An Exploratory review)
Hafiz Muhammad Umair
Dr. Mahmood Sultan Khokhar
Human nature is collectivist. Therefore, men's survival is in living together and fulfilling the necessities of life through mutual cooperation. As a result, a system of mutual relation is formed; the state has relation with the other states just as the individual has relations with other individuals. If there is no balance and harmony in this relationship, then mutual conflict and tension is natural. In fact, international law has its beginnings from the Islamic era. The Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) conveyed the universal message of the Islamic State throughout the world through his foreign Strategy and diplomatic letters. Away from the concept of globalization, the importance of foreign relations has become more important in modern times. Therefore, just as it is necessary for the Islamic state to harmonize with the world conditions and events according to the requirements of the modern era, it is also necessary for the Islamic state to keep its ideological position in mind in all situations. So that the foreign strategy of the Islamic State is established on strong foundations and its principles are formulated in the light of International Law and Sharia.
Keywords: International Law, Foreign Policy, Foundations, Islamic era, Islamic International Law, International Relations.
تمہید:
انسان فطرتاً اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے اورباہم مل جل کر زندگی گزارنے ، باہمی تعاون سے ضرریات زندگی کی تکمیل میں ہی انسان کی بقاء ہے جس کے نتیجے میں باہمی تعلقات کا نظام تشکیل پاتا ہے۔ فرد کے فرد کے ساتھ تعلق کی ریاست کا دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اگر اس تعلق میں توازن و ہم آہنگی نہ ہو توباہمی کشمکش اور تعلقات میں تناؤفطری بات ہے۔ اس باہمی توازن و امن کی بقاء کیلئے ایک مثبت و مربوط قانون و حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے جسے خارجہ حکمت عملی کہتے ہیں۔ اور قانون بین ا لاقوام خارجہ حکمت عملی کا مفہوم توسیعی ہے۔
دین اسلام انسانی زندگی کی مشکلات و ضروریات(خواہ شخصی ہوں یا قومی ، ملکی ہوں یا بین الاقوامی تمام )کے حل کیلئے عالمگیر قانون پیش کرتا ہے اور درحقیقت انٹرنیشنل لاء کا آغاز بھی اسلامی عہد سے ہوا ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے اپنی خارجہ تعلقات کی حکمت عملیوں اور سفارتی خطوط کے ذریعے اطراف عالم میں حکمرانوں اور سلاطین وقت تک اسلامی ریاست کے آفاقی پیغام کوپہنچایا۔ دور جدید میں گلوبلائزیشن کے تصور سے شعبہ خارجہ تعلقات کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ایک اسلامی ریاست کیلئے جس طرح دور جدید کے تقاضوں کے پیش نظر حالات و واقعات سے ہم آہنگی ضروری ہے اسی طرح اسلامی ریاست کیلئے اپنے نظریاتی تشخص کو بھی تمام حالات میں ملحوظ رکھنا لازمی ہے تاکہ اسلامی ریاست کی خارجہ حکمت عملی دورجدید کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ قانون بین الاقوام سے بھی متصادم نہ ہو اور اپنی مضبوط بنیادوں پرقائم ہو ، اسلامی ریاست کے نظریاتی تشخص کی محافظ ہواور اسکے تمام اصول وقوانین شریعت کی روشنی میں وضع کیے جائیں۔ اورانہی حکمت عملیوں کو جب وسیع تناظر میں دیکھا جاتا ہے تواس میں ملک وریاست کے دوسری مملکتوں کے ساتھ تعلقات، معاہدات ، جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق قوانین اور عالمی سطح پر ملکی سالمیت و تشخص برقرار رکھنے سے متعلق اقدامات شامل ہوتے ہیں اور اسے شریعت اسلامی میں "السیَر" یعنی قانون بین الاقوام کہا جاتا ہے۔گویا خارجہ حکمت عملی قانون بین الاقوام کے تناظر میں ملکی سطح پر کیے جانے والے عملی اقدامات کے مجموعے کا نام ہے۔
۱۔ قانون بین الاقوام کی اصطلاح:
شریعت اسلامیہ میں خارجہ تعلقات خواہ بین الاقوام ہوں یا بین الممالک ہوں ، ان کیلئے ''السِیر'' کی اصطلاح مستعمل ہے۔جبکہ(International Law) قانون بین الاقوام میں لفظ'' بین الاقوامی '' عصر حاضر میں ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جس میں ایک سے زیادہ اقوام یا ممالک قومی حدود سے باہر بیرونی تعلقات و خارجہ معاملات میں ملوث ہوں ۔ اور ان ممالک کے تعلقات کے(خواہ وہ تعلقات امن کے ہوں یا جنگ کے ہوں ) باہمی اصول وقوائد کو قانون بین الاقوام کہتے ہیں ۔ اسی طرح ریاستوں اورقوموں کے درمیان تعلقات جن قوائد کی پابندی میں قائم ہوتے ہیں ۔ انہیں قانون بین الاقوام کے اصول یاخارجہ حکمت عملی کہا جاتاہے گویا خارجہ حکمت عملی یا قانون بین الاقوام ایک آزاد ملک کے ان اقدامات کے مجموعے کانام ہے جو ایک ملک اپنے قومی ڈھانچے و ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے اٹھاتاہے ۔ 1
اس سلسلے میں ڈاکٹر حمید اللہ کاکہنا یہ ہے کہ قانون بین الاقوام یا خارجہ حکمت عملی مقتدر ریاستوں کے باہمی تعلقات پر مبنی ہے اوریہ ضروری نہیں ہے کہ ان قواعد کاطریقہ کار بیک وقت تمام ریاستوں کے لیے یکساں ہی ہو بلکہ مختلف خطوں میں ان کے طریقے اورقوانین مختلف بھی ہوسکتے ہیں ۔ 2
لہٰذا عصر حاضر کا قانون بین الاقوام درحقیقت شریعت اسلامی کے باب " السیَر" کی ہی جدید شکل ہے ۔اور قومی و ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے ہر ملک اپنی خارجہ حکمت عملیوں سے اس قانون کو ملحوظ رکھتے ہوئے قوانین و ضوابط طے کرتا ہے ۔ تاکہ ملک و قوم کا عالمی تناظر میں تشخص برقرار رکھ سکےاور مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
۲۔ خارجہ حکمت عملی کامفہوم:
لغت کے اعتبار سے خارجہ حکمت عملی دو الفاظ ''خارجہ'' اور '' حکمت عملی '' سے مرکب ہے اورحکمت عملی کیلئے انگریزی میں پالیسی(Policy) کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ خارجہ عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ خَرَجَ یَخْرُجُ خُرُوْجاً و مَخْرَجاً سے نکلا ہے ۔ خرج فی العلم بمعنیٰ فائق ہونااور "خرج الرعیة علیٰ الملک "بمعنیٰ سرکشی و بغاوت کرنا، اسی سے فاعل کا صیغہ الخارج آتا ہے جس کے معنیٰ نکلنے والا ، ہر چیز کا ظاہر، باہر والی چیزہے اور یہ داخل کی ضد ہے یعنی ملکی سرحدات سے باہر نکلنا، اسکی جمع خارجات و خوارج آتی ہے جس سے مراد باغی اور جماعت سے نکلے ہوئے لوگ ہیں ، خارجہ اس منصب کو بھی کہتے ہیں جسکے تعلقات دوسری حکومتوں سے ہوں۔3
حکمت عملی یا پالیسی کی بنیاد وہی مادہ ہے جو لفظ Politic کا ہے بین الاقوامی معاملات میں Politic کا مقصدوہ راستہ ، طریقہ کار یا عقلی حکمت عملی ہے جو حکومتی مشینری چلانے کیلئے بروئے کار لائی جاتی ہے۔ڈاکٹر اکرام اعظام لکھتے ہیں:
"The term policy has the same root as politics in the international affairs it means the choices action / direction open to / eleted by any given state."4
''پالیسی کی اصطلاح کی بنیاد وہی ہے جو لفظ سیاست کی ہے، بین الاقوامی معاملات میں اسکا مقصدوہ اختیارات و محرکات اوراطراف و جوانب ہیں جوکسی بھی ریاست کے انتخاب کیلئے کھلی رہتی ہیں'' اصطلاحی معنیٰ کے اعتبارسے مختلف مفکرین نے متعددتعریفات سے خارجہ حکمت عملی کو واضح کیا ہے۔
پروفیسر Joseph Francel کے مطابق خارجہ حکمت عملی وہ علم ہے جسکے ذریعے بین الاقوامی تعلقات کی تشریح کی جاتی ہے ۔
"Foreign policy consists of decisions and actions which involve to some appreciable extent relation between one state and others."5
'' خارجہ حکمت عملی ان گروہوں کے قواعد وضوابط اور بروئے کار لانے کے اصولوں کو شامل ہے جو ایک ریاست کے رویے کودیگر ریاستوں کے ساتھ اپنی حجت بازی کے دوران متشکل کرتی ہے تاکہ اس کے مقاصد کو حاصل کیا جا سکے اور اسکی مضبوط خارجہ حکمت عملی کو محفوظ رکھا جا سکے۔''سعید عبداللہ حارب خارجہ حکمت عملی کی تعریف یوں کرتے ہیں
''ھو مجموعة القواعد اللتی تنظم العلاقات بین الدول'' 6
خارجہ حکمت عملی ان منظم قواعد کے مجموعے کا نام ہے جو ممالک کے درمیان تعلقات کو استوار کرتے ہیں۔
جس طرح افراد آپس میں روابط و تعلقات کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے ہیں اسی طرح کوئی بھی ریاست دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے بغیر نہیں رہ سکتی ہے یہی وجہ کہ ریاستیں آپس میں مختلف امور میں تعاون کرتی ہیں ان بین الاقوامی تعلقات کو خارجہ امور کہتے ہیں اور ان تعلقات کی نوعیت کا تعین جس حکمت عملی سے کیا جائے وہ خارجہ حکمت عملی کہلاتی ہے۔اسی طرح جن قواعد کی پابندی میں ریاستوں کے مابین تعلقات قائم ہوتے ہیں انہیں خارجہ حکمت عملی کے اصول یا قانون بین الاقوام کہتے ہیں۔ گویا خارجہ حکمت عملی ایک آزادریاست کے ان اقدامات کے مجموعے کا نام ہے جو ریاست اپنے قومی تشخص اور قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اُٹھاتی ہے۔
جبکہ بعض ماہرین فن خارجہ حکمت عملی کو ڈپلومیسی (Diplomacy)کے مفہوم کے ساتھ ملاتے ہیں کیونکہ ڈپلومیسی کے ذریعے بھی کوئی سفیر دوسری ریاست میں رہتے ہوئے اپنی ریاست کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
نپولین نے 150سال قبل خارجہ حکمت عملی کو جغرافیہ کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ خارجہ حکمت عملی اس ریاست کے جغرافیہ کے مطابق متعین کی جاتی ہے۔
''About 150 years ago Napoleon said that "the foreign policy of a country is determined by its geography"7
گویاگزرتے وقت اور بدلتے حالات کے نتیجے میں کسی بھی ملک میں ارباب اقتدار اس ملک کی سلامتی و دفاع ، عالمی تشخص و ثقافتی اقدار ، نظریاتی و جغرافیائی سرحدات کے تحفظ کیلئے وقتاً فوقتاً جو اقدامات بروئےکار لاتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے بین الممالک خوشگوار تعلقات استوار کیے جا سکیں ، اسے خارجہ حکمت عملی کہا جائے گا۔
۳۔ خارجہ حکمت عملی یاقانو بین الاقوام کی مختصر تاریخ:
ابتداء میں انسان فطرت کے زیادہ قریب تھاگزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تمدن و عمران کے مسائل جوں جوں بڑھتے گئے قدرت نے الہامی یا غیر الہامی طور پرانسان کو اسکا حل بھی بتایاچونکہ افراد و اقوام کے درمیان قویٰ و استعدادمیں تفاوت و اختلاف فطری چیز ہے تو درحقیقت یہی وہ چیز ہے جس نے اولاً افراد پھر اقوام اور قبائل کوباہمی تعلقات و روابط کی لڑی میں پرودیا۔اس فطری استعداد و قویٰ کے اختلاف کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:
'' وَرَفَعْنَا بَعْضَهُـمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُـمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ "8
ترجمہ:'' اور ہم نے ہی ان میں سے ایک کو دوسرے پردرجات میں فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسروں سے کام لے سکیں ''9
جیسے جیسے انسان تمدنی مسائل سے دوچار ہوتا گیاباہمی روابط وتعلقات کے مراحل کو بھی تدریجاً طے کرتا گیا اور اس ابتدائی دور کے علاوہ جس میں افراد قبائل کی صورت میں رہتے تھے اور اپنے طور پر الگ الگ خود مختار زندگی گزارتے تھے، انسانی تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں بین الافراد یا بین الاقوام تعلقات میں ارتقاء پیدا نہ ہوا ہو،گویا تعلقات بین الاقوام کی تاریخ اس اعتبار سے اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسانی تمدن کی تاریخ قدیم ہے۔جب کوئی فرد کسی بھی جگہ اس توازن کوبرقرار رکھنے میں ناکام رہتاہے توایک اجتماعی قوت حرکت میں آجاتی ہے اورزندگی کی گاڑی رواں دواں رکھنے میں اس فردکی مدد کرتی ہے ۔ یوں انسان نے پہلی مرتبہ افراد اورخاندان کے درمیان توازن ، توافق وتعاون کی ضرورت کومحسوس کیا۔ لہٰذا رفتہ رفتہ جب ریاست کے نام سے ایک '' اجتماعی ادارہ '' معرض وجو دمیں آیا تو یہ مسئلہ نہایت اہمیت کاحامل تھا کہ مختلف اقوام وقبائل میں تعاون وتناظر کی صحیح صورت کیاہونی چاہیے ؟ اورکس طرح ہر قوم اورہر قبیلہ اپنے بنیادی حقوق حاصل کرے ؟ اورکیوں کر زندہ رہے ؟ تواسی احسا س اوراہمیت ہی کی '' کوکھ'' سے خارجہ تعلقات اور خارجہ حکمت عملی نے جنم لیا پھر مختلف تاریخی ، علاقائی اورثقافتی مراحل طے کرتی ہوئی اپنی موجودہ ھیئت کوپہنچی ۔ لیکن تاحال اس حکمت عملی کو قطعی یاحتمی نہیں کہاجاسکتا ہے بلکہ حالات وواقعات کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے ۔
۴۔عصر حاضر میں قانون بین الاقوام کی اہمیت و ضرورت:
ہر قوم اپنے سیاسی ، اقتصادی ، سماجی و ثقافتی ڈھانچوں سے تشکیل پاتی ہے اور اسی سمت میں سعی کرتی ہے کہ تمام نظام مضبوط اور محفوظ ہوں۔ان نظاموں کی مضبوطی کا تعلق قوم کا اداروں کے متعلق رویوں پر ہوتا ہے جبکہ ان نظاموں کی حفاظت کا تعلق کسی بھی قوم کے ذمہ دار حکمت عملی بنانے والوںکی عقل و فعل پر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح تمام حالات میں مثبت اور منفی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کراپنی قوم و ملک کے بہترین مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے قومی مقاصد کے حصول کیلئے ذمہ دارانہ افعال سر انجام دیتے ہیں۔حکومتی ذمہ داران کے ان افعال کے مجموعے کا نام قومی حکمت عملی ہے اور اس قومی حکمت عملی کا وہ حصہ جس کا مقصدریاست کا عالمی برادری میں تشخص برقرار رکھنا اور ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ، وہ خارجہ حکمت عملی کہلاتا ہے گویا کسی بھی ملک کیلئے اسکی خارجہ حکمت عملی اس قدر اہم ہے کہ وہ اس ملک کے عالمی تشخص کی ضامن اور عالمی برادری میں ملکی حیثیت و مقام کو متعین کرتی ہے۔اور اگر خارجہ حکمت عملی سے اغماض برتا جائے یاخارجہ حکمت عملی ناقص بنیادوں پر قائم ہو، تو یہ ملک کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔
اسی بات کا ادراک کرکے قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل 1946 ء میں اس تصور پر زور دیا تھا ۔
''Naturally no nation stands by its self.''10
''فطری طور پر کوئی بھی قوم صرف اپنے آپ پر اکتفاء نہیں کر سکتی''
دور حاضر میں بھی کسی ملک کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار خارجہ حکمت عملی پر کیا جاتا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں اس کا محور صرف ذاتی یا قومی مفادات رہ گئے ہیں ۔ اور انہی حکمت عملیوں کی تنفیذ و تعمیل میں وقتی طور پر ان ممالک کے دوستی یا دشمنی کے معیارات تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں دوست ، حلیف یا دشمن بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔ جبکہ ایک نظریاتی ملک اگرچہ ترقی پذیر ہی کیوں نہ ہو اسکی خارجہ حکمت عملی اسکے بنیادی نظریات کے ساتھ ہمیشہ مشروط ہوتی ہے اور اس میں وقتی تبدیلیاں بھی ہوں تو نظریاتی مقاصد ہمیشہ ملحوظ ہوتا ہے۔سید صلاح الدین'' پالیسی آف پاکستان '' میں لکھتے ہیں :
''Foreign policy of a country changes under certain compulsion but foreign policy of an ideological state like Pakistan is always conditioned by its ideology.''11
'' خارجہ حکمت عملی خاص حالات کے تحت تبدیل ضرور ہوتی ہے لیکن نظریاتی ملک کی خارجہ حکمت عملی ہمیشہ ملک کے نظریات کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔''
عالمی حالات و واقعات کے پیش نظر اگر ملکی خارجہ حکمت عملی میں عارضی یا مستقل بنیادوں پر ترمیم و تبدیلی کرنا لازمی ہو بھی تو ایک نظریاتی ملک کی خارجہ حکمت عملی میں نظریہ کی اہمیت تمام حالات میں برقرار رہتی ہے، کیونکہ اس کے بغیراس ریاست کیلئے نظریاتی تشخص برقرار رکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔
۵۔ قانون بین الاقوام اور گلوبلائزیشن کا تصور:
گلوبلائزیشن کے تصور نے دنیا کے نقشے پر موجود تمام ممالک کو ایک دوسرے سے انتہائی قریب کردیا ہے۔بایں طور کہ ہر ملک آج خود کو بین الاقوامی حالات کے مطابق ڈھالتا ہے کیونکہ کوئی ملک بین الاقوامی حالات کی وجہ سے مثبت یا منفی اثرات سے نہ تو بچ سکتا ہے اور نہ ہی الگ رہ سکتا ہے ۔دوسری طرف حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ بقائے تشخص کیلئے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک سے تعلقات رکھنے پر مجبور ہیں یہی وجہ ہے کہ دور جدید میں کسی بھی ملک کی خارجہ حکمت عملی اور خارجہ تعلقات کیلئے بین الاقوامی قانون کی ترتیب نو یا تبدیل کرنے میں نظریاتی اور ثقافتی اقدار کے ساتھ ساتھ سائنسی دور کے جدید تقاضوں کو بھی اہمیت حاصل ہے تاکہ بین الاقوامی حالات کے پیش نظر عالمی سطح پر رائے عامہ کے حصول ممکن ہو اور ملک کا بین الاقوامی قانون مضبوط ہو جس کے تحت ملکی خارجہ حکمت عملی کو مؤ ثر بنایا جا سکے ۔ اس لحاظ سے دور جدید میں ملک کی نظریاتی حیثیت ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہے اور ہر اس پہلوکو قانون بین الاقوام کے عناصر ترکیبی وخارجہ حکمت عملی میں نمایاں جگہ ملتی ہے جو دو ملکوں کے مابین خارجہ تعلقات اور امن و جنگ کے باہمی رویوں میں لچک پیدا کر سکے۔
۶۔ قانون بین الاقوام اورجدید ذرائع ابلاغ:
چونکہ گلوبلائزیشن سے قبل ذرائع ابلاغ محدود تھے کسی بھی ملک کے دوست یا دشمن ممالک میں رونماہونے والے حالات و واقعات کا علم مہینوں بعد ہوتا تھا اور ان حالات و واقعات کے تاخیر سے علم ہونے کی وجہ سے انکے مثبت و منفی اثرات سے بچنا ناممکن ہوجاتا تھا جبکہ آج دور جدید میں سائنسی ترقی ، ذرائع ابلاغ کی جدت اور مواصلاتی سیاروں کے نظام نے بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے حالات و واقعات کے بروقت علم کا حصول ممکن و آسان بنادیا ہے گویا اب ہر ملک کی خارجہ حکمت عملی کا محور خلائی تحفظ پر مرکوز ہے جس میں قومی و ملکی سلامتی مضمر ہے لہٰذاہر ملک کی خارجہ حکمت عملی Simultaneously دو اہم مقاصد پر فوکس کرتی ہے۔
١۔ قومی دفاع ٢۔ معاشی ترقی12
الحاصل یہ کہ دور جدید کے ترقی یافتہ ممالک میں بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ حکمت عملی معاشی معاہدات و قومی دفاع سے تعبیر ہے اور موجودہ دور میں مؤثرو مضبوط خارجہ حکمت عملی کی ضرورت و اہمیت اس قدرہے کہ کوئی بھی ذی شعور اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے۔کیونکہ کسی ملک کے خارجہ تعلقات کا قانون بین ا لاقوام سے ہم آہنگ ہونا اس ملک کی کامیاب خارجہ حکمت عملی کےتحت ہی ممکن ہے۔
۷۔ اسلامی قانون سِیریا قانون بین الاقوام کی اسلامی عہد میں بنیادیں :
شریعت اسلامیہ نے جس طرح دیگر شعبۂ ہائے زندگی میں مکمل رہنمائی فراہم کی ہے ، اسی طرح خارجہ تعلقات اور جنگی قوانین سے متعلق قانون سِیربھی شریعت اسلامیہ کے خصائص میں سے ہے۔متقدمین ائمہ نے غیر مسلم (جس بھی قسم کے ہوں ) ،ان سے طے شدہ معاملات ، معاہدات ،تعلقات کو سِیر میں شامل کیا ہے جبکہ متأخرین ائمہ اور عصر حاضر کے علماء نے سِیر کو صرف جنگی قوانین تک محدود کیاہے۔بعثت نبوی ﷺ کے بعد مکہ ہی سے اسلامی ریاست وملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی شروعات دین ِ اسلام کے عالمگیر مقاصد کے تحت اس آفاقی دعوت کو پورے عالم میں پہنچانے کیلئے جو بنیادی ہدایات رسول اللہ ﷺکی طرف سے جاری کی گئی تھیں (مثلاًاصول ہجرت کا اجرائ، استحکام معاشرہ کیلئے بیعت ، قبائل و وفودکی آمدوغیرہ)، ان سے قانون بین الاقوام کی بنیادیں پڑ چکی تھیں۔ اور ہجرت مدینہ کے بعد تو آپ ﷺ نے باقاعدہ طور پر شعبہ خارجہ کی تنظیم کی تاکہ ان مسلمانوں کو دشمنوں سے مامون و محفوظ رکھا جائے۔عہد خلفائے راشدینؓ میں بھی انہی بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھا گیا اور اسلام کے آفاقی پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے اسلامی سلطنت کو وسعت دی گئی ۔ اسلامی عہد کے ابتدائی ادوار ہی سے رسول اللہ ﷺ کے غزوات سے متعلق معلومات اور اس سے استنباط کا آغاز ہوا ۔
مشہور تابعی امام شعبی رسول اللہ ﷺکے غزوات کا اتنا علم رکھتے تھے کہ صحابہ کرام ؓ بھی ان کے کمال کے معترف تھے۔پہلی صدی عیسوی کے اختتام تک اسلامی قانون سِیر یعنی '' سِیر و مغازی '' کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا ۔ اس کی ابتداء امام ابو حنیفہ ؒنے کی اور آپؒ کے شاگروں نے اس باب میں آپ کے علوم کو منضبط کیا اور" اسلامی قانون سِیر" الگ علم کی حیثیت سے مدون شکل میں سامنے آیا ۔اس فن میں قاضی ابو یوسف ؒ کی ''کتاب الخراج '' اور '' الرد علیٰ سیر الاوزاعی'' ، امام محمدؒ کی کتاب'' السیرالکبیر'' اور علامہ سرخسی ؒ کی شرح بنیادی مصادر کی حیثیت کی حامل ہیں ۔یہاں تک کہ سیر و مغازی یا اسلامی عہد کے خارجہ تعلقات کامطالعہ کرنے والا کوئی بھی انسان ان مصادر سے مستغنی نہیں ہوسکتاہے۔
۸۔ اسلامی ریاست کے خارجہ تعلقات کا آغاز:
اسلامی ریاست ایک نظریاتی ریاست ہوتی ہے جو رنگ و نسل ، زبان یا جغرافیہ کی عصبیتوں کی بجائے صرف اصول کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔اسلامی ریاست کاکام صرف سرحدات اور قومی مفادات کا تحفظ یا نظم و ضبط قائم رکھنا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی ریاست ہوتی ہے جو امن پسندی اور بین الاقوامی عدل پر قائم ہوتی ہے جس کی حدود میں چند ہم خیال ریاستیں یا ملک نہیں بلکہ پوری انسانیت سما جاتی ہے ۔ اور اسلامی ریاست رنگ و نسل ، علاقہ و زبان کے تمام امتیازات کے بغیر عالمی طور پر تمام انسانیت کو دعوت دیتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعثت نبوی ﷺ کو بھی عالمی تناظرمیں بیان فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَمَآ اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا كَآفَّـةً لِّلنَّاسِ بَشِيْـرًا وَّنَذِيْـرًا"13
'' ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کیلئے ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جوخوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے''14
دین اسلام نے جس طرح بنی نوع انسان کے عام باہمی تعلقات میں ایک طرزفکر اور اصول وقواعد کا مکمل نظام دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ ہجرت کرنے کے بعدباقاعدہ طور پر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جو جزیرہ ٔعرب تک محدود نہیں بلکہ پورے عالم میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے عظیم مقصد کے تحت قائم کی گئی ۔ ایک اسلامی ریاست کی خارجہ حکمت عملی کیلئے بھی دین اسلام کے ایسے اصول نمایاں طور پر کارفرما نظر آتے ہیں جس سے نہ صرف اسلامی ریاست کا نظریاتی اور عالمی ہونا واضح معلوم ہوتا ہے بلکہ اسلامی ریاست کیلئے امن عامہ اور معاشی ترقی کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے مثلاًایک طرف نجران کے وفد سے دوستانہ ماحول میں جزیہ کی ادائیگی پر معاہدہ کیا گیا تو دوسری طرف مدینہ کے چند یہودی قبائل (بنو نُظیر ، بنو قینقاع ، بنو قریظہ ) سے معاہدہ امن و تعاون کیا گیا جو'' میثاق مدینہ'' کے نام سے مشہور ہے اور تاریخ میں صحیفۂ امن کے طور پر جانا جاتا ہے۔
۹۔ مکی دور کے خارجہ تعلقات :
آپ ﷺ کی خارجہ سیاست اور حکمت عملی دور جدید کے جیو پولیٹکس کے تصور کی طرح محدود نہ تھی بلکہ عالمگیر نوعیت کی حامل تھی اور آپ ﷺ کا مشن تھا کہ اسلام کی دعوت ایک جزیرہ نما عرب سے نکل کر پورے عالم میں پھیل جائے ۔ اس عظیم اور عالمگیر مشن کی تکمیل کیلئے کئی جنگیں اور معرکے بھی ہوئے لیکن ان تمام حالات میں اسلامی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کو کبھی نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔اگرچہ مکی دور میں اسلامی ریاست کی حیثیت ریاست در ریاست کی تھی لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے بیک وقت عقائد و نظریات پر محنت کے ساتھ ساتھ دعوتی خطوط ، قبائل و فود سے ملاقاتیں و تجارتی تعلقات پر بھی باقاعدہ توجہ دی ہے۔
اسلامی ریاست کے مکی دور کے خارجہ تعلقات کے بارے میں ڈاکٹر حمیداللہ لکھتے ہیں :
'' مکہ معظمہ ہی میں آپ ﷺ نے ایک ریاست اندرونی طور پر قائم کی تھی جس کے نتیجے میں اسلامی ریاست کے اقوام عالم کے ساتھ تعلقات بھی قائم کیے۔ اور دین اسلام نے اقوام عالم کے ساتھ خارجہ تعلقات کو بھی روزاول سے ہی اہمیت دی ہے اگرچہ اس کا باقاعدہ آغازہجرت مدینہ کے بعد ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن در حقیقت اسلامی ریاست کی عالمگیریت اور اس کے عالمگیر مقاصد کیلئے خارجہ تعلقات کا آغاز نبی کریم ﷺ نے ہجرت مدینہ سے قبل مکی دور میں ہی کردیا تھا۔مثلاًمختلف قبائل و وفود کی آمد اور تجارتی اغراض سے تعلقات خصوصاً ایام حج میں ، مکہ سے وفود کا بیرونی ممالک بھیجنا، بیعت عقبہ کے موقع پر وفود کی آمد ، نبی کریم ﷺ کاشاہ حبشہ کو نامہ مبارک بھجوانا ، یہ سب اسلامی ریاست کا بین الاقوامی رابطہ تھا۔ اگرچہ مکہ میں مسلمانوں کی حیثیت ایک مملکت در مملکت کی تھی لیکن یہ تمام روابط ایک زیرتشکیل عالمگیر اسلامی ریاست کے تحت امت مسلمہ کی طرف سے کیے جا رہے تھے جو اپنے سفر کا آغاز اپنے وجود سے قبل کر چکی تھی۔ لہٰذا انہی عمومی ہدایات کو اسلام کے قانون بین الاقوام کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔15
گویاقبل از اسلام خارجہ تعلقات کا وجود صرف اور صرف دفاعی معاہدات یا کوئی اور اہم مشکلات کے حل کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا تھا ، جبکہ آپ ﷺ نے خارجہ تعلقات اور اسکی حکمت عملیوں کو ایک منظم شکل دی جس میں نظریہ کی اشاعت اور دعوت دین کے فریضہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ۔آپ ﷺ کے ان خارجہ تعلقات میں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ آپ ﷺ کا مقصد کسی قومی یا ذاتی مفاد کا حصول نہیں تھابلکہ عالمگیر تناظر میں ساری انسانیت کیلئے مساوی پیغام عدل و مساوات تھا جس کے آپ ﷺ شرعی طور پر پابند تھے۔
۱۰۔ مدنی دور کے خارجہ تعلقات :
ریاست مدینہ کے وجود میں آتے ہی نبی کریم ﷺ کے خارجہ تعلقات میں ایک اہم نکتہ اسلام کا غلبہ اور اسکی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا تھا ۔اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ پہلے دوسری قوموں کے سامنے اسلام پیش کرو ، اگر اسے قبول نہ کریں تو اس بات کی دعوت دو کہ وہ اسلام کی بالادستی و برتری تسلیم کریں اور اسکے فروغ و نفاذ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں اور اگر وہ اسلام بھی قبول نہ کریں اور اسکی اشاعت میں رکاوٹ بھی بنیں تو ان سے جہاد کرو ۔ گویا جہاد اور جنگ اسلام قبول نہ کرنے پر نہیں ہے ، بلکہ اسکی راہ میں مزاحم ہونے پر ہے۔اسی غرض سے ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلا اور اہم کام جو نبی کریم ﷺ کو بطور سربراہ ریاست کرنے کی ضرورت پیش آئی وہ شعبہ خارجہ کی تنظیم تھی کیونکہ آپ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف آوری کے بعد سب سے اہم کام یہی تھا کہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کودشمنوں کے سمندر میں کیسے محفوظ و مامون رکھا جائےاور اسلام کی بالادستی میں حائل رکاوٹوں کو کیسے ختم کیا جائے ، تو اس غرض سےریاست مدینہ کے ارد گرد کے قبائل سے تعلقات و معاہدات ناگزیر تھے۔
بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒکے مدینہ منورہ میں باقاعدہ نظم ونسق قائم کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے مختلف قبائل کے نقباء کی تقرری کے کام کو مکمل فرمایااور اس دستاویز کے بعد جب داخلی نظم و نسق سے ذرا فرصت ہوئی توآپﷺ نے پہلے مرحلے میں ریاست مدینہ کے ارد گرد کے قبائل پر پوری توجہ دی اور ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کیلئے رابطوں کا آغاز فرمایا، چنانچہ اس مقصد کیلئے بہت سی مہمات بھی بھیجی گئیں۔اس کے بعد دوسرے مرحلے میں نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے چاروں اطراف میں ایک حلقۂ اثر قائم کیا جس کا مقصد اطراف ِ مدینہ میں بسنے والے قبائل کی دشمنیوں کو ختم کرنا، ان کو اسلام کے حق میں مائل کرنااور مسلمانوں سے دوستی کیلئے آمادہ کرنا تھا۔ ان دوستانہ تعلقات و معاہات کے نتیجے میں مدینہ کے دفاع کو منظم کرنے اور مسلمانوں کو داخلی و خارجی طور پر امن و سکون فراہم کرنے میں مدد ملی۔ مثلاً قبیلہ جہینہ ، ضمرہ اور مزینہ کے ساتھ جو معاہدات کیے گئے وہ بھی اسلامی ریاست کے امور خارجہ کی اہم کڑی تھے۔16
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد فوراََ آپﷺ نے جس طریقے سے ملک کے خارجہ تعلقات کی طرف توجہ دی اور مختلف ملوک وسلاطین وامراء کی طرف اپنے سفیر اور دعوت نامے بھیجے اس سے ایک طرف اپنی دعوتی سرگرمیوں میں کامیابی حاصل کرلی تو دوسری طرف رسول اکرم ﷺ نے اسلام کی عالمی حیثیت کے قیام کے جس عظیم الشان کام کا آغاز کیا اس کے اثرات عالمی سیاسی حالات پر بھی گہرے پڑے،دور نبویﷺ کی خارجہ حکمت عملی اور خارجہ تعلقات ، تعاون باہمی، خیر سگالی، اور صلح وجنگ کے تھے۔
اسلامی ریاست کی پالیسیاں تمام تر بین الاقوامی زاویوں کا احاط کیے ہوئے تھیں۔ جہاں ضرورت پڑی تو دو طرفہ امداد وتعاون، اقتصادی و نفسیاتی دباؤکی پالیسیاں اختیار کی گئی وہ ان اساسی اصولوں پر مبنی اور حالات واقعات کے مطابق اسلامی ریاست کے مقصد وجودی اور کاز کو تقویت پہنچانے کا باعث بنیں17
آپ ﷺ کی خارجہ حکمت عملی کے نتیجہ میں اسلامی ریاست مدینہ اور اس کی رعایا ''من حیث القوم'' عالمی سطح پر ایک عالمی طاقت کے طور پر متعارف ہوئے اور خارجی امن کا تحقق اس حد تک ہو گیا کہ اگر ایک عورت مکہ سے صنعاء یمن تک اکیلی اور زیورات سے لدی ہوئی جاتی تب بھی وہ مامون اور محفوظ ہوتی۔ اسلامی ریاست مدینہ نے وفود اور سفارتی تعلقات کے نتیجے میں خارجہ تعلقات میں مذاکرات کی ایسی سنت جاری کی کہ جس کے آداب سے اس وقت کی عالمی طاقتیں واقف نہیں تھیں۔ریاست مدینہ میں آپ ﷺ کے خارجہ تعلقات اور طرزعمل سے ہمیں بنیادی طور پر تین باتیں معلوم ہوتی ہیں جو اس باب میں اہم ہیں ۔
وہ تمام دعوتی خطو ط جو آپ ﷺ نے دنیا کے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو ارسال فرمائے۔
وہ تمام معاہدات جو آپ ﷺ نے متعدد اقوام و ریاستوں کے ساتھ قیام امن و اسلام کی بالادستی کیلئے فرمائے۔
وہ گفتگو اور رویہ جو آپ ﷺ نے مختلف مواقع پرمدینہ میں آنے والے وفود و قبائل کے ساتھ باہمی معاملات میں فرمائی۔
۱۱۔ عہد خلفائے راشدین ؓکے خارجہ تعلقات:
آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفائے راشدینؓ نے خارجہ حکمت عملی کو انہی خطوط پر آگے بڑھایا جن سے سرموانحراف کیا گیا نہ ہی کسی مادی مصلحت کو اسلامی ریاست کے اہداف عالیہ میں گردانا:
''وقد عزمت الدولة الا سلامیة العہد النبویﷺ والخلافة الراشدة منہج الدعوة الاسلامیة باعتبارہ ہدفاً اساسیاً من علاقاتھا بالدول الاخریٰ'' 18
'' تحقیق اسلامی ریاست ، عہد نبوی ﷺ میں اور عہد خلفاء راشدین ؓ میں، تعلقات بین الممالک میں اسلام کی دعوت کو بنیادی مقصد کے طور پر رکھتی ہے۔''
عہد نبوی ﷺ کے بعد عہد خلفائے راشدینؓ میں بھی بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ حکمت عملیوں کو مکمل توجہ اور اہمیت دی گئی جو کسی بھی صورت میں داخلی استحکام اور اس کی طرف توجہ سے کم نہیں تھی۔سعید حارب عبداللہ لکھتے ہیں :
''وعلیٰ مبدأ الاہتمام بالسیاسة الخارجیة وتوطید دعائمہا لتحقیق الاغراض الاسلامیة سارت الدولة الاسلامیة النبویہ، ثم الراشدة ثم ما تبعہا من الدول الاسلامیة المتلاحقة اللتی کانت تعطی سیاستہا الخارجیة اہتماماً لایقل عن اہتمامہا بالسیاسة الداخلیة۔''19
''اور جہاں تک سیاست خارجہ اور اس کی گتھیاں سلجھانے کے اہتمام کا تعلق ہے جس سے اسلامی اغراض و مقاصد کا حصول ممکن بنایا جائے تو اسلامی ریاست نے عہد نبویﷺ میں ، اسکے بعدپھر دور خلفائے راشدینؓ میں اور اسی طرح اس کے بعد کے ادوار میں سیاست خارجہ کو وہ اہمیت دی جو سیاست داخلی سے کسی درجہ میں کم نہ تھی۔''
خلفائے راشدین ؓنے بھی عالمی سطح پر مختلف وفود بھیجے اور خارجہ تعلقات کے قیام میں پہل کی خصوصاً جزیرة العرب کے گرد ونواح میں بڑے ممالک کے ساتھ ، لیکن ان تمام ترروابط میں جو بین الاقوامی سطح پر تھے خواہ وہ وفود کی صورت میں ہوں یا معاہدات و خط و کتابت کی صورت میں ہوں، دعوة الی اللہ ہی ہدف رہا ۔
۱۲۔عہد فاروقی ؓ کے خارجہ تعلقات:
خلفائے راشدین ؓ کے ادوار میں خارجہ تعلقات کے قیام کو بڑی تیزی کے ساتھ اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا گیا۔اور اندرونی و بیرونی ریاستی مصلحتوں سے صرف نظر کیے بغیر مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام میں پیش رفت کی گئی۔مثلاً نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ ١٠ھ میں ہوا تھا یعنی عہد نبوی ﷺ میں اور عہد ابو بکر ؓمیں بھی اس سے تعرض نہیں کیا گیا۔ لیکن عہد فاروقیؓ میں جب ان لوگوں سے اسلامی ریاست کو خطرہ ہوا تو حضرت عمر فاروق ؓنے ان کو عراق کی طرف جلا وطن کر دیا۔
گویا آ پ ﷺ کی وفات کے بعد خلفائے راشدین ؓکے عہد میں بالخصوص عہد فاروقی ؓ میں بین الاقوامی تعلقات کے قیام اور کامیاب خارجہ حکمت عملیوں کے اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ مختلف حالات ، امن و صلح اور جنگ کے پیش آتے رہے لیکن ان حالات میں انتہائی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا گیا اور کامیاب حکمت عملیوں کے نتیجہ میں اس دور کو ایک مثالی دور بنا دیا۔ان تمام مثالوں سے یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ خارجہ تعلقات کے باب میں قانون بین الاقوام کے آغازوارتقاء کا سہرا اسلامی عہد کے سَر ہے۔
فوج کشی سے قبل دعوت اسلام :
حضرت عمرفاروق ؓ تو فوجی مشن اور کاروائی کے دوران کمانڈروں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ لوگوں کو دعوت دینے سے پہلے کسی قسم کی فوج کشی کی اجازت نہیں ہے۔ آپ ؓنے سعد بن ابی وقاص ؓ کو لکھا جب وہ عراق کے مشن پر تھے۔
''انی کنت قد کتبت الیک ان تدعواالناس الی الاسلام ثلاثة ایام فمن استجاب لک قبل القتال فہو رجل من المسلمین لہ ماللمسلمین ولہ سہم فی الاسلام'' 20
ترجمہ: "بے شک میں تمہیں لکھ چکا ہوں کہ لوگوں کو تین دن تک اسلام کی دعوت دینا اور جس نے قتال سے قبل اسلام کی دعوت قبول کی تو وہ مسلمانوں میں سے ہو گا اس کے حقوق اور حصہ اسلام میں وہی ہو گا جو باقی مسلمانوں کا ہے"۔
عہد فاروقی ؓ میں خارجہ حکمت عملی کا یہ اصول عہد نبوی ﷺ کے خارجہ تعلقات میں بھی تھا جس کو اسی نہج پر ملحوظ رکھا گیا کہ جب تک وہ اسلام کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ان سے جنگ و جدال نہ ہوگا۔
ریاستی مصلحت کی خاطرمعاہدات پر نظر ثانی:
عہد فاروقی ؓ میں ریاست کی اندرونی مصلحتوں اور مسلمانوں کی تمام تر مادی و معاشی ، اقتصادی ضروریات کو بھی اسی طرح ملحوظ رکھا گیا جس نہج پر عہد نبوی ﷺ میں ملحوظ تھا ۔چنانچہ اہل ِنجران کے ساتھ عہد نبوی ﷺ میں جو معاہدہ تھا ، وہ اسی نہج پر عہد صدیقیؓ میں بھی تھا لیکن عہد فاروقیؓ میں ر یاست کی مصلحت اسی میں تھی کہ ان کو جلاوطن کیا جائے تو حضرت عمر فاروق ؓنے ان کو جلا وطن کیا۔21
چونکہ عہد نبوی ﷺ میں ریاست کی مصلحت معاہدہ نجران کی صورت میں تھی تو ریاست کی مصلحت کو مد نظر رکھ کرمعاہدہ کیا گیا اور جب عہد فاروقیؓ میں جلاوطنی کا فیصلہ ہوا تو وہ بھی اسی مصلحت کے تحت تھا کہ ریاست کو ان سے خطرہ تھا تو جلاوطنی ہی میں مصلحت تھی۔
مصالح کی غرض سے جزیہ میں رعایت :
اسی طرح عہد فاروقی ؓ میں مسلمانوں کے مصالح کو بھی مد نظر رکھ کر خارجہ حکمت عملی کو اختیار کیا گیا۔ سوڈان کے کئی ممالک جو کہ عہد فاروقی ؓ میں فتح ہوئے لیکن اسلامی ریاست نے ان پر قبضہ نہیں کیا اور جب عبداللہ بن ابی سرح ؓ والی (گورنر) مقرر ہوئے تو بغیر جزیہ کے صلح کی۔ ''فی عہد عمر بن الخطاب فقد حاول المسلمون فتح بلاد النوبة عدة مرات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فسالوہ الصلح والموادعة فاجابہم الیٰ ذلک علٰی غیر جزیة لکن ہدیة ثلاثة ماة راس فی السنة''22
عہد فاروقیؓ میں مسلمانوں نے بلاد نوبہ (سوڈان) کو کئی مرتبہ فتح کیا لیکن انہوں نے وہاں کے اختیارات نہیں سنبھالے پس جب عبداللہ بن ابی سرح ؓ والی مقرر کر دئیے گئے تو انہوں نے (عبداللہ بن ابی سرح ؓنے) ان کے ساتھ قتال کیاجبکہ انہوں نے عبداللہ بن ابی سرح ؓسے صلح اور موادعة کرنا چاہا تو عبداللہ بن ابی سرح ؓ نے اس کو بغیر جزیہ کے مان لیا۔ البتہ یہ معاملہ سالانہ تین سو کے ہدایا پر طے پایا کہ وہ مسلمانوں کو سالانہ یہ ہدیہ ادا کریں گے جبکہ مسلمان انکو اس مقدار میں کھانے کی اشیاء ہدیةً دیں گے۔
بین الاقوامی امن میں ریاست کا کردار:
عہد نبویﷺ کی طرح عہد فاروقی ؓ میں بھی اقوام عالم کے ساتھ تعلقات میں عالمی امن کو مد نظر رکھا گیا ۔ یہاں تک کہ اہل حیرہ نے دعوت اسلام قبول نہیں کی لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کئے جو طویل عرصے تک چلتے رہے۔
مجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں کہ:
''وشرطت علیہم ان علیہم عہد اللہ و میثاقہ الذی اخذ علیٰ اہل التوراہ والا نجیل ان لا یخالفوا ولا یعینوا کافراً علیٰ مسلم من العرب ولا من العجم ولا یدالوہم علیٰ عورات المسلمین''23
اور یہ شرط طے کر دی گئی اور ان سے یہ عہد لیا گیا کہ اہل توراة اور اہل انجیل نہ تو اس کی مخالفت کریں گے اور نہ ہی کسی کافر کی مدد کریں گے۔ عجم یا عرب میں سے اور نہ ہی ان کو مسلمانوں کے خفیہ راز بتائیں گے۔
یہ با ت ذکر کی جا چکی ہے کہ آپ ﷺ کی سیاست خارجہ کا تصور دور جدید کے جیو پولیٹیکل تصور کی طرح نہ تھا بلکہ مقصود اسلام کے آفاقی منشور کو تمام دنیا میں پھیلانا مقصود تھا اور اس کیلئے بین الاقوامی امن و امان لازمی جزو تھا ، جس کو عہد نبویﷺ میں بھی ملحوظ رکھا گیا اور عہدفاروقی ؓ میں بھی اہمیت دی گئی ۔مگر یہ کہ جب ریاست کی مصلحت اس کے برعکس ہوئی تو پھران معاہدات کو اسی تناظر میں دیکھا گیا۔
بین الممالک دوستانہ تعلقات وسرحدات کا تحفظ:
اسی طرح عہد فاروقی ؓ میں ان پُر امن دوستانہ تعلقات میں اتنی وسعت آگئی تھی کہ کوفہ کے آس پاس وہ حکمران جن کا ابھی تک اسلامی ریاست سے تعلق قائم نہیں ہوا تھا وہ بھی کسی نہ کسی بنیاد پر اسلامی ریاست سے وابستہ ہو چکے تھے لیکن ان تعلقات میں دفاعی عنصر کو مد نظر رکھا گیا چنانچہ صلویا بن نسطونا(جوکہ دجلہ کے ساحل کے ایک علاقے کا حاکم تھا) کے ساتھ جب عہد فاروقیؓ میں تعلقات کا آغاز ہوا تو اس میں ریاستی سرحدات کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ '
"فلک الذمة والمنعة فان منعناکم فلنا الجزیة والا فلا حتیٰ نمنعکم''24
ترجمہ: "ہم پر تمہاری حفاظت اور دفاع لازم ہے اگر ہم نے یہ کر دکھایا تو تم ہمیں جزیہ ادا کرو گے ورنہ نہیں تاوقتیکہ ہم تمہاری حفاظت کو یقینی بنائیں "۔
عہد فاروقی ؓ میں کامیاب خارجہ تعلقات و حکمت عملیوں کی درجنوں مثالیں ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک طرف اسلامی ریاست کی سرحدات کو خارجہ تعلقات کے باب میں انتہائی وسیع کیا تو دوسری طرف (کامیاب حکمت عملیوں سے) اس کو اتنا مثالی بنا دیا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر خلفاء راشدین ؓکے دور میں سےیہ دور (عہد فاروقی ؓ) ایک مثالی دور بن گیا جس نے ہر لحاظ سے یعنی سیاسی ، انتظامی ، تعلیمی ، معاشرتی اور معاشی طور پر ایک مستحکم ریاست کی داغ بیل ڈالی۔ عہد فاروقی ؓ میں ا ندرونی و بیرونی طورریاست ومسلمانوں کےمصالح پر اتنا کام ہوا کہ جس سے انکار محال ہے۔
عہد فاروقی ؓ میں خارجہ تعلقات اور حکمت عملیوں کے باب میں آپ ﷺ کا مشن اتنا عام ہو اکہ تاریخ کے حوالوں کے مطابق ایک ہزار چھتیس (١٠٣٦) شہر اور ان کے مضافات اسلامی ریاست کے زیر اثر آگئے۔معاشی استحکام کا یہ عالم تھا کہ فتوحات ِ عراق کے بعد عمر بن عبدالعزیز ؒ کے تجزیہ کے مطابق عراق سے اسلا می ریاست کے بیت المال میں سالانہ دس کروڑ اٹھائیس لاکھ (102800000)آمدن آتی تھی اور حال یہ کہ عدل و انصاف عہد فاروقیؓ میں عروج پر تھا جبکہ بعد کے دور کے حاکم و بادشاہ (زیاد، حجاج بن یوسف، مامون وغیرہ) بھی باوجود اس کے کہ ظلم بھی کیا مگر معیشت کو اس سطح تک مستحکم و برقرار رنہ رکھ سکے بلکہ معیشت انحطاط کا شکار ہو گئی۔ 25
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تعلقات بین الممالک اور خارجہ حکمت عملیوں کے بغیر کوئی ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا خلفائے اسلام نے خصوصاً حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے عہد خلافت میں اپنی کامیاب و مؤثر خارجہ حکمت عملیوں کے ذریعے خارجہ تعلقات کے باب میں بہت ترقی کی اور ان تعلقات کو وسعت دی لیکن اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ان تعلقات کا اصل ہدف صرف اقتصادی اور معاشی مصالح کا حصول نہ تھا اگرچہ یہ مصالح بھی ضمناً بہتر طور پر ہو رہے تھے کیونکہ اہل ریاست کی بہترین زندگی اور ان کو مواقع فراہم کرنا بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ایک نظریاتی ریاست کی خارجہ حکمت عملیاں اور تعلقات کا مقصد اس سے بڑھ کر ہوتے ہیں جو ممالک کے ساتھ آزادی ، مساوات اور برابری کے اصول پر طے پاتے ہیں چاہے وہ سیاسی مسائل ہو یا فوجی معاہدات ہوں لہٰذا ملکی و قومی احتیاجات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی ریاست تعاون باہمی کے اصول پر چلتی ہے۔
۱۳۔ قانون بین الاقوام اور عصر حاضر :
مسلمانوں کے دور ِزوال میں اس فن کا بیش بہا خزانہ دیگر اسلامی علوم کی طرح مغرب کی طرف چلاگیا اور آج تک ان علوم پر اہل مغرب کی اجارہ داری قائم ہے۔ چنانچہ اہل مغرب نے ان اسلامی علوم سے استفادہ کرتے ہوئے خارجہ تعلقات اور حالت ِامن و جنگ میں عام آدمی کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد جنگی اخلاقیات پر مشتمل بین الاقوامی قانون انسانیت (International Humanitarian Law ) متعارف کروایا ۔ اس مجموعہ قوانین کو قانونِ جنگ (Law of War) یا مسلح تصادم کا قانون ( Law of Armed Conflict) بھی کہا جاتا ہے ۔ یہی قانون بعد میں نئی نئی اصطلاحات و تعریفات کے تغیر و تبدّل سے قانون بین الاقوام (International Law) کی شکل اختیار کرگیا جوکہ اہل مغرب کے مطابق مغربی مفکرین کی مرہون منت ہے۔
بعض مفکرین نے اس بناء پر خارجہ حکمت عملی کے قوانین یا قانون بین الاقوام کی تاریخ کویونانی شہری ریاستوں کے باہمی تعلقات ، سلطنت روم اور مسیحی دنیا کے باہمی اتحادو اتفاق سے جوڑا ہے کہ یہی قانون بین الاقوام کا نقطۂ آغاز ہے جبکہ انٹرنیشنل لاء کے آغازمیں اسکی قدیم ترین مثالیں یونان میں ملتی ہیں جہاں خود مختار شہری ریاستیں حالت امن و جنگ میں چند معینہ قواعد پر عمل کرتی تھیں لیکن درحقیقت وہ بھی صحیح معنوں میں انٹرنیشنل لاء نہ تھا۔لہٰذاوثوق سے یہ کہنا دشوارہے کہ ان تعلقات بین الاقوام اور خارجہ حکمت عملی کیلئے وضع ِ اصول اور تنظیم کا سہرا کس قوم کے سر ہے، لیکن مغربی مفکرین کا یہ کہنا کہ اسکی وضعِ اصول و تنظیم مغربی ماہرین کی مرہون منت ہے ،یہ انکی علمی بددیانتی ہے جس سے کلی طور پر اتفاق ناممکن ہے کیونکہ اس قانون کی تاریخ میں مغربی مفکرین نے یونانی ریاستوں کا ذکر کیا ہے پھر اسکے بعد فرنگی مصنفین نے اس قانون کی تاریخ میں رومی دور کو ذکر کیا ہے اور اسکے بعد یورپی مؤرخین ایک ہزار سال کی جست لگا کرانٹرنیشنل لاء کے آغاز کو چودھویں صدی کے اوائل سے بیان کرتے ہیں جبکہ اس دوران جو اسلامی دور گزرا ہے اسکا ذکر مغربی ، فرنگی اور یورپی مؤرخین کے بیان کردہ قانون بین الاقوام کی تاریخ میں نہیں ملتا ہے۔اسی وجہ سے ڈاکٹرحمیداللہ ؒ اس انٹرنیشنل لاء کو ''انٹرنیشنل لاء '' کہنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں وہ لکھتے ہیں:
''بہرحال جسے مغربی مصنفین ماڈرن انٹرنیشنل لاء کہتے ہیں میں اسکو بھی انٹرنیشنل لاء کہنے کیلئے تیار نہیں ہوںبلکہ فاضل مصنف تو لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کے قیام اور ممبر شپ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ بھی انٹرنیشنل لاء کہلانے کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ اس میں کسی ملک کو اسکی ذاتی حیثیت سے اس وقت تک رکن نہیں بنایا جاتا ہے جب تک کم از کم دو ایسی سلطنتیں جو پہلے سے اقوام متحدہ کی ممبر ہوں، یہ سفارش نہ کریں کہ یہ واقعی ایک متمدن ریاست ہے۔لہٰذا خارجہ حکمت عملی اور خارجہ تعلقات کے قانون کے آغاز و ارتقاء ، اسکی وضع و تنظیم کا سہرا اہل مغرب کے سر سجانا ایک تاریخی بددیانتی کے مترادف ہے ۔ان حالات میں اگر انٹرنیشنل لاء چند مخصوص قوموں اور ملکوں کیلئے نہیں ہے بلکہ اسکا اطلاق دنیا کے تمام ممالک پر یکساں ہوتا ہے تواس اعتبارسے اس قانون کا آغازمسلمانوں سے ہوا ہے۔26
غیر مسلم مفکرین و مؤرخین کا قانون بین الاقوام کے آغازو ارتقاء میں یہ تضاد نیز اقوام متحدہ میں جانبدارانہ اور مشروط ممبر شپ سے ہی ان کی نا واقفیت اور تعصب دینی کی عکاسی ظاہر ہے ۔اس طرح یہ انٹرنیشنل لاء بھی جانبدار و مخصوص ممالک کے اتحاد کا دوسرا نام کہلاتا ہے۔
۱۴۔ قانون بین الاقوام کا آغاز اور اہل مغرب کی ناواقفیت:
بعض مغربی مفکرین نے ناواقفیت اور دینی تعصب کی بناء پر یہ رائے قائم کی کہ اسلامی ریاست خارجہ تعلقات سے واقف نہیں تھی اور اس کا دامن خارجہ تعلقات اوربین الاقوامی تعلقات کے قانون سے خالی ہے لہٰذا قانون بین الممالک کے آغاز وارتقاء کا سہرا اہل مغرب کے سَر ہے جوکہ دو وجوہات سے درست نہیں ہے۔
(۱) ایک تو یہ کہ دعوت الی اللہ کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کا مقصد و منہج عالمگیر تھا اور اسلامی سلطنت میں مسلمانوں کو اس کا مکلف بنایا گیا کہ وہ اسلام کی آفاقی دعوت کو لیکرپورے عالم میں پہنچائیں اور اسلامی ریاست کے عالمی سطح پر تعلقات قائم کریں۔لہٰذا اسلامی ریاست کے بیزنطینی سلطنت اور فارس سے تعلقات و روابط اس کی واضح دلیل ہیں۔
(۲) دوسری وجہ یہ کہ علمی اعتبار سے اس باب میں جو ذخیرۂ کتب موجود ہے وہ بھی اہل مغرب کی اس تعصبانہ رائے کی تکذیب کر رہا ہے کیونکہ فقہ اسلامی نے اس کو دوسری اصطلاحات کے ضمن میں مختلف فقہی ابواب میں بیان کیا ہے۔ البتہ اصطلاحات کے تفاوت کی وجہ سے بعض مغربی مفکرین کو یہ اشکال ہوا کہ اسلامی ریاست کا دامن اس قانون سے خالی ہے حالانکہ اصطلاحات سے ناواقفیت کی بناء پر انہوں نے یہ رائے قائم کی جو کہ ان کی تعصب دینی پر مبنی ذہنیت کی عکاسی ہے۔لہٰذا یہ رائے درست نہیں ہے کہ قانون بین الاقوام کے آغاز کا سہرا اہل مغرب کے سَر ہے۔
اصطلاحات سے اس ناواقفیت کو ڈاکٹر جعفر عبدالسلام نے بھی بیان کیا ہے:
''لا شک فیہ ان مصطلح القانون الدولی من المصطلحات الحدیثیة اللتی یستخدمھا الفقہ الاسلامی و مع ذلک فلیس من نتائج عدم استخدام المصطلح ان ھٰذا الفقہ لم یعرف الاحکام القانونیةالدولیة ، فقد عرفھا ولٰکن فی اطار مصطلح آ خر ''27
ہانکپن یونیورسٹی کے علوم شرقی کے ماہر استاد (باوجود کہ وہ عقیدتاً مسیحی ہیں انہوں )نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ مسلمان فقہاء کے ہاں خارجہ تعلقات کے احکام مختلف ابواب خراج کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں، جب اس موضوع کو اہمیت حاصل ہوئی تو مسلمان فقہاء نے اس کیلئے '' السِّیَر'' کی اصطلاح مقرر کردی ۔
''ولٰکن فی وقت لاحقٍ اکتسب موضوع العلائق الخارجیة اھمیةً خاصَّةً واتخذ البحث فیھا اسماً عملیاً ھو السِّیَر''28
گویا جس طرح دین اسلام نے عالمگیر اسلامی ر یاست کے قیام کو روزاول سے نظرانداز نہیں کیا ہے بعینہ اسی طرح اسلامی ریاست نے خارجہ تعلقات کے باب میں بھی کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا ہے۔
بہرحال یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ قانون بین الاقوام کی بنیادیں اسلامی عہد سے ہی شروع ہوگئی تھیں جس کا آغاز عہد نبوی ﷺ کے مکی دور کے خارجہ تعلقات سے ہوا اور مدنی دور میں ریاست مدینہ کے قیام کے بعد اس کی باقاعدہ تنظیم کی گئی اور عہد خلفائے راشدینؓ کے دور خصوصاً عہد فاروقیؓ میں انہی خارجہ تعلقات کی بناء پر اسلامی ریاست کا دائرہ کار بائیس لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگیا ۔ رہی بات مغربی مفکرین کے اعتراض کی کہ شریعت اسلامی کا دامن اس باب سے خالی ہے تو یہ اعتراض بے جا اور ناواقفیت کی بناء پر ہے ۔کیونکہ اسلام کے آفاقی نظام کی عالمگیریت اور علمی ذخیرہ کی تکذیب اس کے تاریخی شواہد ہیں ۔زیادہ سے زیادہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ شریعت اسلامی میں یہ باب خاص اس عنوان کی بجائے '' السیَر'' کی ضمنی اصطلاحات میں موجود تھا لیکن مغربی مفکرین نے اصطلاحات کی اس ناواقفیت کی بناء پر یہ اعتراض کیا ہے۔
خلاصہ:
خارجہ حکمت عملی یا خارجہ تعلقات کا قانون سیاست کا شعبہ ہے اور سیاست سے متعلق عرف میں جو مشہور ہے '' سیاست شرفاء (دین داروں )کا کام نہیں ہے'' اور عوامی مقامات پر لکھا بھی ہوتا ہے کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں ۔ اس سے سیاست کوقابل نفرت بنادیا گیا ہے حالانکہ یہ جملہ مغربی طرزسیاست کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے لیکن مطلقاً یااسلامی سیاست کے بارے میں کہنا درست نہیںہے۔ یہ غلط العوام میں شامل ہے کیونکہ سیاست کا مفہوم سمجھنے سے یہ بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خارجہ تعلقات کے بنیادی اصول و قواعد تو زمانہ ٔ قدیم سے ہی ملتے ہیں اور اسلامی ریاست میں ان قواعد کی باقاعدہ بنیاد پڑچکی تھی ۔
اسلامی ریاست کی عالمگیریت اور اس کے عالمگیر مقاصد کیلئے خارجہ تعلقات کا آغاز نبی کریم ﷺ نے ہجرت مدینہ سے قبل مکی دور میں ہی کردیا تھا۔آپ ﷺ کی خارجہ حکمت عملی کے نتیجہ میں اسلامی ریاست مدینہ اور اس کی رعایا ''من حیث القوم'' عالمی سطح پر ایک عالمی طاقت کے طور پر متعارف ہوئے۔ اسلامی ریاست مدینہ نے وفود اور سفارتی تعلقات کے نتیجے میں خارجہ تعلقات میں مذاکرات کی ایسی سنت جاری کی کہ جس کے آداب سے اس وقت کی عالمی طاقتیں واقف نہیں تھیں۔عہد نبوی ﷺ کے بعد عہد خلفائے راشدین ؓمیں بھی بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ حکمت عملیوں کو مکمل توجہ اور اہمیت دی گئی ۔
شریعت اسلامیہ نے تمام شعبہ ٔ ہائے زندگی کی طرح ایک ریاست کے دیگر مسلم و غیر مسلم ریاستوں اور اقوام کے ساتھ تعلقات کیلئے بھی رہنمائی فرمائی ہے ۔ اسلامی عہد کے اوائل میں نہ صرف اس فن کی بنیادیں پڑ چکی تھیں بلکہ پہلی صدی کے اواخر میں ہی یہ خارجہ تعلقات کا باب باقاعدہ مدون علم کی شکل اختیار کر چکا تھا۔اہل مغرب نے آج دور جدید کے قانون بین الاقوام کی بنیادیں بھی عہد اسلامی سے ہی لی ہیں لیکن چند اصطلا حات کی تبدیلی و ترمیم کے ساتھ مرتب کرکے اپنے نام سے موسوم کیا ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر حمیداللہ ؒنے اپنے خطبات میں مغربی مفکرین کے بیان کردہ انٹرنیشنل لاء کے نقطۂ آغاز کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ اسے مغربی مفکرین کی علمی بددیانتی قراردیا ہے کیونکہ اصل انٹرنیشنل لاء کا آغاز اسلامی عہد سے ہوا ہے۔
دور جدید میں کسی بھی ملک کیلئے اسکی حکومت کے اجزائے ترکیبی میں یہ شعبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے بایں طور کہ ملکی سالمیت و ترقی میں یہی شعبہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے جو ملک کے سربراہ کی نگرانی میں عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتاہے جس کے نتیجے میں ہر ملک عالمی برادری میں اپنا مقام بناتا ہے۔
اسلامی عہد میں پہلی اسلامی ریاست یعنی ریاست مدینہ کے بعدپاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جو عقیدۂ توحید و نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا لیکن اس کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد خارجہ تعلقات کیلئے کوئی اسلامی نظام یا خارجہ قانون کا کوئی مسودہ تیار نہیں کیا گیاتھا بلکہ سابقہ برطانوی ہندوستان کے حکومتی ڈھانچے کوآگے چلایاگیا۔ البتہ آزادی کے بعد نظریۂ پاکستان کو سامنے رکھ کرخارجہ حکمت عملی کی تشکیل نو کی گئی جس میں قومی سلامتی کو بنیادی نصب العین قرار دیا گیا۔دور جدید میں ایک اسلامی ریاست کو اپنی خارجہ حکمت عملی اور تعلقات بین الممالک میں اقوام، متحدہ کے قانون بین الاقوام سے ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ اپنے نظریاتی تشخص کر برقرار رکھتے ہوئے ہمسایہ ممالک خصوصاً اسلامی ممالک سے مضبوط اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے چاہیئے۔
Ph.D Research Scholar, Dept. of Islamic Studies, The Islamia University of Bahawalpur۔ hafizmuhammadumair1990@gmail.com
Associate Professor, Dept. of Islamic Studies, Bahauddin Zakariya University Multan.
1 Sajād Hūsain, Pākistān aūr America ky Bāhmī Tʽaluqāt,(Bahā ūd-dīn zakrīā university, Mūltān, 1985),6.
2 Naies Aernest , Qānūn baīn Al-Mūmālik kā Agāz, Translation: Dr.Hamīdūllah (Hadar Abād: Jāmʽa ūsmānīa, 1994),
3 Mawlanā abdul Ḥāfῑẓ Bilyāvī, Miṣbāḥ al-Lughāt(Multān:Maktbah Imdādiyah),195-196.
4 Eʽẓām Ikrām, Pākistān jeo political and straitagic compulsion(Lāhore:Progressive,1990 AD),263.
5 Prof. Francel Joseph, The making of Foreign Policy (London: 1963, P-3
6 RṣSaīd ʽAbdullah Ḥārib Al-Mahīrī, Al-ʽAlālāqāt Al-kḥārjīā ledūlṭ Al-Islamīā,(Beīrūṭ: Mūasissaṭ Al-Risālat, 1995 AD), 324.
7 Norman D. Palmer and Howard C. Perkins, International Relations, Colkatta, 1970, P35.
8 Al-Qurān: 43:32.
9 Mufṭī Taqī ʽUsmānī,Asān Tarjmaṭ Al-Qurān(karāchī: Maktabah Mʽārif Al-Qurān), 1494/4.
10 Ahmad, Jamiluddin, ''Some recent speaches and writing of Mr. Jinnah'', Lahore, Ashraf Press, 1968, P -384.
11 Dr. Salahuddin, ''Foreign Policy of Pakistan (Karachi: Comprehensive Book,1996), 13.
12 Muḥammad Siddiquī Qureshī, Rasūl-e-Akram kī Siyāsat e Khārjah( Lāhore: Sheikh Ghulām and Sons),11.
13 Al-Sabā: 34/28.
14 Mufṭī Taqī ʽUsmānī, Asān Tarjmat Al-Qurān(karāchī, Maktabah Mʽārif Al-Qurān), 1325/5.
15 Dr.Muḥammad Hamīdūllah, khutbāṭ Bahāwalpurī, (Lāhore:Bacon house, 2005),132
16 Maḥmūd Aḥmed Ghazī,Mūḥāẓrāt e sīrat, (Lāhore:Al-fīsal nāshrān wa tājrān kūtab,2015),344
17 Abū Sulaiman Abdul Ḥamīd, Islām aur Bain al-Aqwāmī Taluqāt aur Pas Manzar (Dehlī: Classical Prints, 1989 Ad), 195.
18 Saīd ʽAbdullah Ḥārib Al-Mahīrī, Al-ʽAlālāqāt Al-kḥārjīā ledūlṭ Al-Islamīā,(Beīrūṭ: Mūasissaṭ Al-Risālaṭ, 1995 AD),11.
19 Saīd ʽAbdullah Ḥārib Al-Mahīrī, Al-ʽAlālāqāt Al-kḥārjīā ledūlṭ Al-Islāmīah, 23.
20 Īmām Ibn Haẓm,jawāme‘ Al-sīyar,(Egypt:Dār Al mʽārif,)25.
21 Saīd ʽAbdullah Ḥārib Al-Mahīrī, Al-ʽAlālāqāt Al-kḥārjīā ledūlṭ Al-Islamīā,(Beīrūṭ: Mūasissaṭ Al-Risālaṭ),8.
22 Abūl Al-ḥasanAlblāzrī, Fatōḥ Al-bildān, (Beīrūṭ:Dār Al-kūtab Al-ʽlmia, 2000 AD), 238.
23 Majībullah Nadvī, Islam kīy Baīnul āqwāmī āsūl wa taswūrāt,( (Lāhore:printing express)107.
24 Majībullah Nadvī, Islam kīy Baīnul āqwāmī āsūl wa taswūrāt, 109.
25 Maḥmūd ʽabdūl shakūr Fārūqī, sīrat kūlfāīy Rāshidīn,(karāchī :shakīl printing press, 1990),1.
26 Dr.Muḥammad Hamīdūllah, khutbāṭ Bahāwalpurī, (Lāhore: Hājī Hanīf Sons, 2005 AD), 130.
27 ʽAbdul Salām Jaʽffar, Qawāʽid Al-ʽElāqāt Al-Dawliyah Fī Al-Qānūn Al-Dawlī wa Al- Shariyah al-Islāmiyah(Beirūt: Dār Al-Saʽādat), 31.
28 Dr. Majeed Khadūrī, Al-Ḥarb wa Al-Silam Fī Sharʽtil Islām, Translation: Islām ka Qānūn e Jang wa ṣulḥa(Lāhore: Maktabah Al-Muʽīn, 1962 AD), 70.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |